Jump to content

Mojza Mai Ambiya Aleh Salam Ka Ikhtiyar


Toheedi Bhai

تجویز کردہ جواب

جزاک اللہ ۔

 

ویسے یہ وہابی لوگ بدبخت قوم ہے کہ معجزات و کرامات کو غیر اختیاری ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن شیاطین کے تصرفات نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ وہاں غیر اخیتاری کی بحث بھول جاتے ہیں۔

موسی علیہ اسلام اورفرعون کے جادو گر آمنے سامنے آیں ۔جادو گر اپنی شیطانی قوتوں پر اخیتار رکھتے ہوے رسیوں کو سانپ بنا کر اپنی قوت دیکھایں لیکن اللہ کی نایب حضرت موسیِ علیہ اسلام بے اختیار و عاجز رہیں کیونکہ معجزہ پر ان کو اختیار جو نہیں ۔معاذ اللہ ۔کیا وہابیہ کے اس اعتراض سے یہی ثابت نہیں ہو رہا ۔یا للعجب۔

لیکن یہ وہابیوں ہی کا عقیدہ ہو سکتا ہے کہ اللہ عزوجل نے انہیں کچھ قدرت و اختیار نہیں دیا ورنہ قرآن سورت نمل میں صاف موجود ہے کہ جب حضرت سیلمان علیہ اسلام نے اپنے دربار والوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ کون ہے جو بلقیس کا تخت اس کے یہاں پہنچنے سے قبل یہاں لے کر آے؟؟تو پہلے تو ایک جن نے کہا میں لا کر دیتا ہوں آپ کے دربار ختم ہونے سے پہلے ۔ لیکن پھر اللہ کے ایک ولی نے کہا کہ میں لا کر دیتا ہوں آپ کی آنکھ جھپکنے سے بھی پہلے ۔اور وہ فورا لے آیا ۔تو اگر کرامت پر اس ولی کو اختیار ہی نہ ہوتا تو حضرت یوسف علیہ اسلام اس چیز کا مطالبہ ہی نہ کرتے اور وہ ولی تخت بلقیس فورا پیش کرنے کا دعویِ ہی نہ کرتا۔۔پس قرآن سے ثابت ہوا کہ اللہ تبارک و تعالی نےمعجزارت و کرامات اختیار دیا ہے۔

 

مزید اس موضوع کی تفصیل کے لیے کتاب گلش توحید و رسالت جناب علامہ اشرف سیالوی صاحب کا مطالعہ کیحیے

Link to comment
Share on other sites

  • 7 months later...

بطور کسب معجزات و کرامات انبیاء اولیاء کا فعل ہی ہوا کرتی ہیں اور انھے اس امر پر بطور کسب کے بھرپور قدرت حاصل ہوتی ہے بالکل اسی طرح سے کہ جیسے عام مادی زندگی میں ہمیں اپنے تمام تر افعال پر بطور کسب کے تو قدرت حاصل ہے مگر ان کسائب پر مرتب ہونے والے اخروی اور حتمی نتائج اللہ پاک کے فعل خلق و ایجاد کے ہی رہین ہوتے ہیں فرق فقط اتنا ہے کہ ایک عام انسان کا اکتساب فقط امور عادیہ کے بطور ہی نتیجہ خیز ہوتا ہے جبکہ انبیاء و اولیاء کا کسب معجزہ و کرامت امور غیر عادیہ کے بطور نتیجہ خیز ہوا کرتا ہے لہذا ان دونوں امور میں بطور کسب و اختیار کے کوئی فرق نہیں سوائے اس کے انبیاء و اولیاء کے فعل کسب میں ایک خاص ملکی قوت اللہ پاک نے رکھ دی ہوتی ہے اور جب وہ اس قوت کو بطور کسب کے استعمال کرتے ہیں تو نتیجتا اللہ پاک ان کے ہاتھوں پر امور غیر عادیہ کی صورت میں افعال کو تخلیق کرتا ہے کہ جسے عموم میں خرق عادت یا معجزہ یا کرامت کہہ دیا جاتاہے ۔۔۔

لہذا ثابت یہ ہوا کہ جس طرح ہم اور ہمارے اعمال بحیثیت کسب ہمارے افعال کہلاتے ہیں مگر ہمارے ان افعال کے جو نتائج ہوتے ہیں وہ رہین ہوتے ہیں اللہ کے فعل خلق و ایجاد کے یعنی ہمارے کسائب سے جو نتائج مرتب ہوتے ہیں وہ مرہون منت ہیں اللہ کے فعل خلق و ایجاد کے بالکل اسی طرح معجزہ اور کرامت میں‌ بھی اولیاء اللہ کا خصوصی کسب ہی زیر قدرت انبیاء و الیاء کے ہوتا ہے نیز اس پر بھی نتائج بطور حتمی نتیجہ کے بارگاہ الہٰی سے ہی بطور خلق و ایجاد کے مرتب ہوتے ہیں

Link to comment
Share on other sites

معجزہ کی تعریف شرح العقيدة الطحاوية میں امام علي بن علي بن محمد بن أبي العز الدمشقي رقم طراز ہیں کہ ۔۔۔

 

المعجزة في اللغة تعم كل خارق للعادة

مفھوم :لغت میں ہر خرق عادت کو معجزہ کہتے ہیں۔

 

اسی طرح شرح عقائد نسفی میں ہے کہ :

 

المعجزہ ھی امر یظاھر بخلاف العادۃ علٰ ید مدعی النبوۃ عند تحدی المنکرین علٰی وجہ یعجز المنکرین عن الاتیان بمثلہ ۔

 

مفھوم : یعنی معجزہ وہ امر ہے جو خلاف معمول اور عادت جاریہ کے خلاف مدعی نبوت کے ہاتھ پر بطور چیلنج ایسے وقت میں ظاہر ہو کہ جب وہ منکرین کو اس کی مثل لانے کا چیلنج دے اور وہ نہ لاسکیں یعنی اس سے عاجز آجائیں ۔

 

امام قسطلانی علیہ رحمہ جو خاتم المحدثین امام ابن حجر عسقلانی علیہ رحمہ کے معروف شاگرد ہیں اور شارح بخاری بھی ہیں اپنی مشھور زمانہ تصنیف "المواھب اللدنیہ " کے باب معجزات میں پہلی فصل کے تحت معجزہ کی تعریف اور شرائط کے تحت رقمطراز ہیں :

 

معجزہ کی تعریف اور شرائط :- معجزہ ایک ایسا خلاف عادت کام ہوتا کہ جس کے ساتھ چیلنج متصل ہوتا ہے اور یہ انبیاء کرام علیہ الصلوۃ والتسلیم کی صداقت پر دلالت کرتا ہے ۔

 

معجزہ کی وجہ تسمیہ :- اسے معجزہ اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ انسان (وہ انسان کہ جس پر بطور معارض یا چیلنج کوئی نبی اپنا معجزہ بطور حجت پیش کرے از آبی ٹوکول ) اسکی مثل لانے سے قاصر ہوتا ہے ۔بس اس کے لیے چند شرائط ہیں ۔

 

معجزہ کی شرائط ۔ ۔ ۔

 

نمبر ایک : یہ کام عام عادت کے خلاف ہو جیسے چاند کا پھٹ جانا ،انگلیوں کہ درمیان سے پانی کا جاری ہوجانا عصا کا سانپ بن جانا ،چٹان سے اونٹنی کا نکلنا اور پہاڑ کا گر جانا ۔

 

نمبر دو :- معجزہ کے ساتھ تحدی یعنی چیلنج ملا ہوا ہو یعنی منکرین کو مقابلے کا چیلنج کیا جائے ۔

 

نمبر تین :-تیسری شرط یہ ہے کہ چیلنج کرنے والا جو کچھ لایا ہے کوئی دوسرا اسکے مقابلے میں اس معجزہ کی مثل نہ لاسکے اس بات کو بعض نے یوں تعبیر کیا ہے کہ رسالت کے دعوٰی میں معارضہ کا خوف نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ نیز فرماتے ہیں کہ تحدی یعنی چیلنج کے کی قید سے جو چیز نکل گئی جو نبوت کے چیلنج کے بغیر ہو اور وہ ولی کی کرامت ہے اسی طرح دعوٰی نبوت کے ساتھ ملے ہونے کی قید سے وہ امور جو چیلنج سے پہلے خلاف عادت ظاہر ہوئے وہ بھی نکل گئے جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بادلوں کا سایہ کرنا اور سینہ مبارک کا چاک ہونا جو کہ اعلان نبوت سے پہلے ظاہر ہوئے تھے ۔ ۔ ۔۔ ۔ یہ معجزات نہیں بلکہ کرامات ہیں اور انکا اولیاء کرام سے ظہور جائز ہے کیونکہ انبیاء علیھم السلام اعلان نبوت سے پہلے بھی اولیاء سے ہرگز کم درجہ میں نہیں ہوتے اس لیے ان سے بھی ان خرق عادات کا ظہور جائز ہے لیکن اس وقت ان امور کو انبیاء کرام سے جڑے ہونے کی وجہ سے بجائے کرامت کہ " ارہاص " یعنی نبوت کی بنیاد کہا جاتا ہے جس طرح علامہ سید جرجانی نے شرح مواقف میں اور دوسرے حضرات نے بھی ایسا ہی نقل کیا ۔جمہور ائمہ اصول کا یہی مذہب ہے ۔ ۔ ۔۔ ۔

پھر چوتھی شرط کہ تحت ارقام فرماتے ہیں کہ ۔۔

 

معجزہ کی چوتھی شرط :- یہ ہے کہ دعوٰی کرنے والے کہ دعوٰی کے مطابق واضح ہو یعنی اگر رسالت کا دعوٰی کرنے والا یہ کہے کہ میری نبوت کی نشانی یہ ہے کہ میرا یہ ہاتھ کلام کرے گا یا یہ جانور بولے گا پس اسکا ہاتھ یا جانور اس کو جھٹلانے کے ساتھ کلام کرے اور کہے کہ اس نے جھوٹ بولا اور یہ نبی نہیں ہے تو یہ کلام جو اللہ پاک نے اس مدعی کے ہاتھ پر جاری کیا وہ اس کے دعوٰی کے موافق نہ تھا جس طرح مروی ہے کہ مسیلمہ کذاب (اللہ اس پر لعنت کرے) نے کنویں میں تھوک کر کہا کہ اسکا پانی زیادہ ہوجائے گا تو اس کنوئیں کا پنی نیچے اتر گیا اور پانی چلا گیا ۔۔

لہذا ان شرائط میں سے جب کوئی شرط نہ پائی جائے گی تو تو وہ معجزہ نہ ہوگا ۔

 

پھر آگے چل کر امام صاحب نے لفظ معجزہ پر اس طریق سے بھی گفتگو کی ہے کہ قرآن پاک میں یہ لفظ نہیں آیا بلکہ قرآن پاک میں انبیاء کرام کے معجزہ کے لیے لفظ " آیت " " البینہ " اور " البرہان " آیا ہے یعنی نشانی ۔۔

لیکن ساتھ ہی کہا کہ بڑے بڑے ائمہ کبار نے ان سب چیزوں پر لفظ معجزہ کا اطلاق فرمایا ہے ۔ ۔ ۔

 

فائدہ :- معجزہ کی اس تعریف سے ثابت ہوا کہ لغت میں ہر خرق عادت کو معجزہ کہتے ہیں چاہے وہ نبوت کے ساتھ خاص کوئی خرق عادت امر ہو یا پھر ولی کی ولایت پر دال کوئی کرامت نیز معجزہ کی اس تعریف سے یہ بھی ثابت ہوا کہ معجزہ کی کئی اقسام ہیں ان میں سے بعض وہ ہیں کہ جنکے ساتھ نبی کی نبوت کا چیلنج یعنی تحدی شامل ہوتا ہے اور بعض وہ ہیں کہ جو بغیر تحدی یعنی بغیر نبی کے قصد و ارادہ و چیلنج کے ساتھ واقع ہوتے ہیں مزید یہ کہ اگر وہ اعلان نبوت سے پہلے ہوں تو انھے نبوت کی بنیاد یعنی ارہاص کہا جائے گا اور اگر اعلان نبوت کے بعد ہوں تو انھے معجزہ کہا جائے گا قطع نظر اس کہ کے اس میں تحدی شامل ہو یا نہ ہو نبی کا ارادہ و قصد شامل ہو یا نہ ہو چناچہ اسی ضمن میں علامہ غلام رسول سعیدی اپنی مشھور زمانہ تصنیف " مقام ولایت و نبوت " میں لکھتے ہیں کہ بعثت کے بعد نبی کے ہاتھ پر جو خلاف عادت فعل صادر ہو اسے معجزہ کہتے ہیں عام ازیں کہ تحدی ہو یا نہ ہو نیز خلاف عادت امور کی تین صورتیں ہیں اول یہ کے وہ خلاف عادت فعل فقط اللہ تعالٰی کا فعل ہو اور نبی کے کسب اور اختیار کا اس میں بالکل بھی دخل نہ ہو جیسے نزول قرآن یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا مگر اس میں آپ کے کسب اور قصد کا کوئی دخل نہیں (یعنی نہ تو آپ کوئی ایسا کسب فرماتے تھے کہ جس سے قرآن آپ پر نازل ہوجایا کرتا کہ جب بھی آپ وہ کسب فرمائیں اللہ پاک آپ پر قرآن کا نزول فرمائے اور نہ ہی آپ ایسا کوئی قصد فرماتے تھے کہ آپ پر قرآن نازل ہونا شروع ہوجائے از آبی ٹوکول) کہ آپ جب چاہتے تو قرآن کو اپنے اوپر نازل کرالیتے ۔۔۔

خلاف عادت افعال کی دوسری قسم یہ ہے کہ نبی اللہ پاک سے کسی خلاف عادت امر پر دعا مانگےاور اللہ پاک اس دعا کو شرف قبولیت عطا فرماتے ہوئے وہ امر غیر عادی (نبی کے ہاتھ پر ) ظاہر فرمادے پھر اس امر غیر عادی کا ظہور محض وقتی طور پر ہو تو اس میں بھی نبی کے کسب کا (براہ راست) کوئی عمل دخل نہیں ہوتا (سوائے اسکے کہ نبی بطور کسب دعا فرماتا ہے ) جیسے حضور کی دعا سے چاند کا شق ہونا وغیرہ پھر یہ اگر اللہ پاک وہ امر غیر عادی مستقل طور پر نبی کو عطا کردے تو اس میں پھر نبی کے کسب کا عمل دخل ہوتا ہے کہ جب چاہے کرئے اور جب چاہے نہ کرئے اس پر دلیل حضرت موسٰی علیہ السلام کی وہ دعا ہے کہ جو انھوں نے اپنی زبان کی لکنت دور کرنے کے لیے مانگی تھی تو اللہ پاک نے بطور امر غیر عادی انکی اس دعا کی برکت سے ان کی زبان سے وہ گرہ کھول دی اور پھر مستقل طور پر وہ امر حضرت موسٰی کو تفویض کردیا کہ جب چاہتے بغیر لکنت کہ کلام فرماتے ہر بار نئی دعا کی ضرورت پیش نہ آتی تھی ۔۔۔

اور تیسری صورت یہ ہے کہ نبی کے قصد و اختیار اور کسب سے کوئی امرخارق واقع ہو جیسا کہ اس پر حدیث بخاری شاہد ہے کہ حضرت عبداللہ بن عتیک کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو وہ اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ لے کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اور فریاد کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفا کے قصد و ارادہ کے ساتھ صحابی کی پنڈلی پر پر بطور کسب اپنا ہاتھ پھیرا تو نتیجتا اللہ پاک نے آپ کے ہاتھ پھیرنے کہ کسب کی برکت سے صحابی کی پنڈلی میں فعل شفا کو پیدا فرمادیا ۔

 

فائدہ :- اس حدیث سے یہ صاف ظاہر ہوا کہ صحابی رسول ہر قسم کی مشکل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں بطور مستغیث حاضر ہوا کرتے تھےچاہے وہ مشکل یا مصیبت امر عادی سے متعلق ہو یا امر غیر عادی سے متعلق نیز اس حدیث یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کے استغاثہ پر کوئی طعن نہیں کیا بلکہ اپنا پیارا پیارا لعاب دہن لگا کر اس امر غیر عادی میں بطور شفاء کے کسب کو انجام دیا اور پھر اللہ پاک نے بطور خلق و ایجاد اس کسب کی برکت سے آپ کے لعاب دہن میں شفاء کو پیدا فرمادیا اور یوں صحابی کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ پھر سے ٹھیک ہوگئی بلکہ میرا ایمان ہے کہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگئی معزز قارئین کرام اس طریق کی سینکڑوں احادیث ہیں جو کہ متواترہ طور پر امت میں رائج چلی آرہی ہیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک جبہ سے صحابہ کرام کا شفاء حاصل کرنا موئے مبارک سے فتح و شفاء حاصل کرنا اور آپکے مبارک ناخنوں اور چادر مبارکہ کو صحابہ کرام کا اپنے کفن میں رکھنے کی وصیت کرنا اور آپ کے جسم مبارک سے مس چادر کو بطور کفن کے پہننا حتٰی کہ ابی ابن سلول جیسا رئیس المنافقین اجل منافق بھی آپ کے کرتہ مبارکہ سے شفاعت کا قائل تھا لہزا اسکی وصیت پر اسکے بیٹے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتہ مبارک مانگا اور آپ نے عطا فرمایا نیز اسی طریق پر قرآن پاک سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے معجزات ثابت ہیں کہ آپ علیہ السلام اپنے قصد و ارادہ سے مٹی سے پرندے بناتے پھر ان میں خود ہی پھونک مارتے تو وہ اللہ کے فعل خلق وایجاد سے اصل پرندے بن جاتے اسی طرح آپ مادر زاد اندھوں اور برص کے مریضوں پر اپنا دست شفاء بطور کسب کے پھیرتے تو اللہ پاک آپ کے دست شفاء کی برکت سے اس میں فعل شفاء کو بطور خلق و ایجاد کے پیدا فرمادیتا اور یوں سینکڑوں مریض روزانہ آپکی مبارک بارگاہ سے فیض یاب ہوکر رو بہ صحت ہوجاتے ۔خیر بات بہت لمبی ہوگئی ہم عرض کررہے تھے معجزہ کی تعریف معجزہ اور کرامت میں فرق نیز معجزہ اور کرامت میں نبی یا ولی کا اختیار بطور کسب کے ہونا اب ہم آئندہ صفحات میں معجزہ یا کرامت میں نبی یا ولی کے کسب کہ عمل دخل کے ہونے یا نہ ہونے پر تفصیلی گفتگو نقل کریں گے لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ مسئلہ خلق و کسب کو اچھے طریق سے سمجھ لیا جائے ۔ ۔ ۔

لہذا ہمارا اس سے اگلا مراسلہ خلق و کسب کی بحث پر نیز معجزہ اور کرامت میں نبی یا ولی کے کسب کہ عمل دخل کی بحث پر مشتمل ہوگا قدرے تفصیل کے ساتھ تب تک کے لیے والسلام ۔ ۔۔

 

 

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔

Link to comment
Share on other sites

گذشتہ سے پیوستہ ۔ ۔۔

اسلام علیکم معزز قارئین کرام !

خلق و کسب

بندہ جس فعل کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے چاہے وہ فعل امور عادیہ سے ہو یا امور غیر عادیہ سے ہو بندہ کے اس ارادہ کے تحت اس فعل کو انجام دینے کو کسب اور اس ارادہ کے بعد جو اللہ پاک اس ارادہ کے مطابق فعل پیدا کرتا ہے اسے خلق کہتے ہیں ۔

علامہ سعد الدین تفتازانی فرماتے ہیں کہ : دلیل سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ خالق صرف اللہ پاک ہے اور یہ بات بالکل واضح ہے بعض افعال میں بندہ کی قدرت اور اسکے ارادہ کا دخل ہوتا ہے اور بعض میں ایسی جیسے کسی چیز کو پکڑنے والے کی حرکت اور رعشہ والے کی حرکت لہذا اس اشکال سے چھٹکارے کے لیے ہمیں یہ کہنا پڑا کہ اللہ پاک خالق ہے اور بندہ کاسب اور تحقیق اس امر کی یہ ہے کہ فعل کی طرف بندے کا اپنی قدرت و ارادہ کو صرف کرنا کسب ہے اور اس کے قصد و ارادہ کے بعد اللہ پاک کا اس کہ ارادہ کے مطابق فعل کو پیدا کردینا خلق ہے اور فعل واحد دو قدرتوں کہ ساتھ متعلق ہوکر مقدور ہے ۔لیکن انکی جہتیں مختلف ہیں پس وہ فعل واحد اللہ پاک کا بلحاظ خلق و ایجاد مقدور ہے اور بندے کا بلحاظ کسب مقدور ہے ۔

 

علامہ محب اللہ بہاری فرماتے ہیں کہ: احناف کے نزدیک قدرت مخلوقہ کو فعل کے قصد مصمم کی طرح خرچ کرنا کسب ہے پس اس قدرت مذکورہ کی تاثیر اس قصد میں ہوتی ہے اور اللہ پاک کی عادت جاریہ یہ ہے کہ وہ اس قصد کے مطابق فعل کو پیدا فرما دیتا ہے ۔

 

خلق و کسب کی مزید وضاحت

یہ حقیقت تو واضح ہوچکی تمام تر مخلوقات ملائکہ اور جنات ،انسان اور حیوانات کہ ساتھ جو مختلف افعال و اعمال قائم ہیں ان سب کا خالق حقیقی اللہ تعالی ہے لیکن آیا یہ تمام افعال ان تمام مخلوقات سے بالاختیار صادر ہوتے ہیں یا نہیں اس میں مذاہب مختلف ہیں ۔ جبریہ اس کے قائل ہیں بندے اپنے افعال و اعمال میں مجبور محض ہیں جیسے قلم بدست کاتب اور مردہ بدست زندہ کے ہو جبکہ قدریہ بندوں کو افعال میں قادر مطلق اور خالق تسلیم کرتے ہیں جبکہ اہل سنت بندوں کو نہ تو مجبور محض مانتے ہیں اور نہ مختار مطلق لہذا اہل سنت کہ مذہب پر بے شمار قرآنی آیات دلیل ہیں مثال کے طور پر شاہ عبدالعزیز علیہ رحمہ تفسیر عزیزی میں ایاک نعبد وایاک نستعین کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایاک نعبد میں جبریہ کا رد ہے جو کہ کہتے ہیں کہ انسان اپنے افعال میں مجبور محض ہے جبکہ ایاک نستعین میں قدریہ کا رد ہے جو کہ کہتے ہیں انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے لہذا یہ دونوں گروہ مردود ہیں جبکہ حق کا راستہ وہی جو کہ اہل سنت کا ہے جو کہ کہتے ہیں اے اللہ بندگی ہم تیری کرتے ہیں مگر توفیق تو ہی دیتا ہے۔

 

اسی طرح شرح عقائد نسفی میں ہے کہ :

بندوں کے لیے افعال اختیاریہ ہیں جن پر انکو ثواب دیا جاتا ہے اگر اطاعت کے قبیل سے ہوں اور ان کو عذاب دیا جاتا ہے اگر وہ معصیت کے قبیل سے ہوں نہ کہ جیسے جبریہ نے خیال کیا کہ بندے کا سرے سے کوئی فعل ہی نہیں اور اسکی حرکات جمادات کی حرکات کی طرح ہیں (جیسے انھے کوئی انسان حرکت دے) اسے ان پر کوئی قدرت حاصل نہیں ہے اور نہ ہی قصد و ارادہ و اختیار لیکن جب دلیل سے ثابت ہوچکا کہ صرف اللہ تعالٰی ہی خالق ہے جیسے اللہ کا ارشاد ہے کہ وہ ہرچیز کا خالق ہے اور فعل عبد بھی شئے ہی ہے اور یہ امر بھی بدیہی اور واضح ہے کہ بندے کی قدرت و ارادہ کو بعض افعال میں دخل ہے جیسے حرکت بطش (یعنی کسی شئے کو پکڑنے کے لیے حرکت کرنا) اور بعض میں دخل نہیں جیسے رعشہ والے کی حرکت تو ہم اس مشکل سوال سے یوں خلاصی چاہتے ہیں کہ اللہ پاک خالق ہے اور بندہ کاسب ہے اور تحقیق اس کی یہ ہے بندے کا اپنی قدرت و ارادہ کو فعل کی طرف پھیرنا کسب ہے اور اللہ پاک کا اس کے بعد فعل کو ایجاد کرنا خلق ہے اور مقدور واحد دو قدرتوں کے تحت داخل ہے لیکن دو مختلف جہات کہ حوالہ سے لہذا اس میں کوئی استحالہ نہیں پس فعل عبد مقدور باری تعالٰی ہے از روئے ایجاد و خلق اور مقدور عبد ہے از روئے کسب ۔۔۔۔۔

 

فخر المتکلمین امام رازی اپنی تفسیر کبیر میں سورہ انفال کی ٰآت 17 کہ تحت رقمطراز ہیں کہ :

 

{ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ } أثبت كونه عليه السلام رامياً، ونفى عنه كونه رامياً، فوجب حمله على أنه رماه كسباً وما رماه خلقاً ۔ ۔ ۔۔

مفھوم : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کنکریوں کے پھینکنے کی نفی کی گئی اور پھر اثبات جبکہ نفی کا محمل بطور خلق ہے جبکہ اثبات بطور کسب ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

اب ہم ذیل میں امور غیر عادیہ یعنی معجزات و کرامات میں کسب کہ دخل پر بحث نقل کریں گے ۔ ۔ ۔

 

امور غیر عادیہ میں کسب کا دخل :

 

علامہ سعد الدین تفتا زانی شرح مقاصد میں فرماتے ہیں کہ : پھر کرامات کو جائز ماننے اور درست ماننے والوں میں سے بعض اس طرف گئے ہیں کہ کرامت کا ولی کہ قصد و ارادہ کے ساتھ صادر ہونا ممتنع (یعنی ناممکن ) ہے جبکہ امام الحرمین فرماتے ہیں کہ سب وجوہ جو کہ کرامت کے تقییدات و تخصیصات میں ذکر کیئے گئے وہ ناتمام و ضعیف ہیں جبکہ ہمارے نزدیک مختار یہ ہے کہ جملہ خوارق عادات کا بطور کرامات سرزد ہونا درست اور صحیح ہے (خواہ ارادہ و قصد سے ہوں خواہ دعوٰی کے مطابق ہوں اور خواہ معجزات کی قبیل سے ہوں )۔۔۔۔ بشک امر خارق پر قدرت دینا اور مزاحمت و مدافعت ترک کردینا اللہ پاک قادر و مختار کی طرف سے افادہ مطلوب یعنی معجزات کے تصدیق نبی کے لیے سرزد ہونے میں کافی ہے (خواہ بالفعل یعنی اللہ کے فعل کی تاثیر سے ہوں یا پھر نبی اور رسول کی تاثیر کسبی و سببی بھی شامل ہو) اور اسی لیے معتزلہ نے یہ مذہب اپنایا ہے کہ معجزہ اللہ کا فعل ہوتا ہے جو اس کے امر و حکم سے واقع ہوتا ہے یا پھر اس کے قدرت کے عطا کرنے سے ۔۔ ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معتزلہ اور اہل سنت میں فرق یہ ہے کہ وہ بندہ کی قدرت کو مستقل و مؤثر جانتے ہیں مگر اہل سنت کے نزدیک بندہ محض کاسب ہے اس میں خلق و ایجاد کی قدرت نہیں ہوتی بلکہ محض فعل کی بطور کسب استطاعت ہوتی جو کہ فعل مقدور میں بطور سبب کے مؤثر ہوتی ہے نہ کے بطور علت کے ۔ ۔ ۔

 

الکرامۃ ظھور امر خارق للعادۃ من قبلہ بلا دعوٰی النبوۃ وھی جائزۃ ولو بقصد الولی ومن جنس المعجزات لشمول قدرۃ اللہ تعاٰلی وواقعۃ کقصۃ مریم واٰصف واصحٰب کہف ۔۔۔۔

نیز علامہ تفتا زانی کرامت اور معجزہ کا فرق اور اس میں ولی کے کسب کہ دخل کو مزید واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : یعنی کرامت خلاف معمول امر کے بغیر دعوٰی نبوت کہ ولی سے سرزد ہونے کا نام ہے اور اسکا صدور ممکن ہے اگرچہ ولی کہ قصد و ارادہ سے ہی ہو اور معجزات انبیاء کی جنس سے ہی ہو کیونکہ اللہ پاک کی قدرت اس کو محیط و شامل ہے اور کرامت بالفعل واقع اور متحقق بھی ہے جیسے حضرت مریم علیہ السلام اور حضرت آصف بن برخیا اور اصحاب کہف کا قصہ اور اسی قسم کے واقعات صحابہ کرام ،تابعین اور بہت سے صالحین سے بتواتر ثابت ہیں ۔۔

 

چناچہ علامہ عبدالعزیز پرہاروی فرماتے ہیں کہ : بعض نے یہ شرط لگائی کہ معجزہ نبی و رسول کا مقدور نہیں ہونا چاہیے لہذا جب وہ پانی پر چلے اور ہوا میں اڑے تو اس کا معجزہ پانی پر چلنے اور ہوا میں اڑنے والا مقدور فعل نہیں ہے بلکہ ان افعال کی قدرت و طاقت اسکا معجزہ ہے اور یہ قدرت اس کے اختیار مشیّت سے نہیں جبکہ صحیح یہ ہے کہ چلنا اور اڑنا معجزہ ہے (اور اسکا مقدور ہونا ان بعض کے نزدیک بھی مسلّم ہے ) لہذا معجزہ کے نبی کے مقدور نہ ہونے کی شرط لغو اور باطل ہوگئی ۔

 

علامہ برخودار ملتانی بطور محشی علامہ عبدالعزیز پرہاوری کی عبارت کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ :

کیونکہ معجزہ خلاف عادۃ فعل ہوتا ہے اس لیے وہ خلاف عادہ فعل اللہ پاک کی مخلوق اور اللہ کے نبی کے مقدور ہونے کہ باوجود معجزہ ہے ۔۔۔۔

 

میر سید نے شرح مواقف میں فرمایا کہ : یعنی اگر معجزہ نبی کے قدرت و اختیار میں ہو تو اس کا صادر ہونا اللہ پاک کی طرف سے اس نبی کی تصدیق کے قائم مقام نہیں ہوگا لیکن یہ استدلال لغو ہے کیونکہ نبی کا قادر ہونا باوجود غیر نبی کے اس پر بطور عادت جاریہ اور معمول کے قادر نہ ہونے کے معجزہ ہے نیز یہ نبی کے لیے دعوٰی نبوت میں مؤید اور مصدّق ہے ۔

علامہ آمدی فرماتے ہیں کہ معجزہ کا نبی کی قدرت میں ہونا متصور ہوسکتا ہے یا نہیں اس میں ائمہ کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ پانی پر چلنے اور ہوا میں اڑنے والی مثال میں معجزہ اڑنے اور چلنے والی حرکت کا نام نہیں کیونکہ یہ تو نبی کی مقدور ہے اس میں اللہ تعالٰی کی طرف سے اس پر قدرت و استطاعت پیدا کرنے کی وجہ سے ۔ یہاں معجزہ صرف اور صرف اڑنے اور پانی پر چلنے کی استطاعت ہے اور یہ استطاعت و قدرت نبی کے مقدور نہیں ہے اور دوسرے ائمہ کا مذہب مختار یہ ہے کہ حرکت خلاف عادت جاریہ کے ہونے کی وجہ سے معجزہ ہے اور اللہ پاک کی مخلوق ہے اگرچہ خدا اور اسکے رسول کی قدرت و استطاعت میں بھی ہے اور یہی مذہب صحیح ترین ہے ۔

 

امام غزالی احیاء العلوم فی الدین میں رقم طراز ہیں کہ : نبی کی صفات میں سے جو دوسری صفت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ نبی کو فی نفسہ ایک ایسی صفت حاصل ہوتی ہے جس سے وہ خلاف عادت امور (یعنی امور غیر عادیہ یا مافوق الاسباب العادیہ) کام کرلیتا ہے جیسا کہ ہمیں ایک صفت حاصل ہے جس سے ہم اپنے ارادہ و اختیار سے حرکات کرتے ہیں اور اسی کو قدرت کہتے ہیں اگرچہ قدرت اور مقدور دونوں اللہ پاک کے افعال سے ہیں یعنی کسب بھی اللہ پاک کا عطا کردہ ہے اور کسب کہ بعد اس پر جو فعل واقع ہوتا ہے وہ بھی اللہ پاک کا پیدا کردہ ہے ۔

 

اسی موضوع پر علامہ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں رقمطراز ہیں کہ : نبی کے لیے ایک صفت ہوتی ہے کہ جس سے وہ افعال غیر عادیہ کرلیتا ہے جیسے غیر نبی کو صفت حاصل ہوتی یے کہ جس سے وہ افعال عادیہ انجام دیتا ہے ۔

فائدہ : قارئین کرام الحمدللہ اس عاجز نے جو بات محض اللہ کی عطا سے لکھی تھی آج اس کی تصدیق دنیائے اسلام کی دو مایا ناز ہستیوں یعنی امام غزالی اور امام ابن حجر عسقلانی سے ہوگئی جو کہ بیک وقت بالترتیب عظیم صوفی مفسر و محدث و متکلم و فلسفی اور فقیہ و اصولی ہیں اور ہم نے اس کو بطور تحدیث نعمت کہ فائدہ کہ ضمن میں بیان کیا بالکل یہی بات ہم نے مافوق الاسباب امور کے تحت انبیاء کے ان امور میں کسب کہ اثبات و دخل کہ ضمن میں لکھی تھی مثال دیتے ہوئے کہ جیسے امور عادیہ میں عوام الناس بطور کاسب کہ فاعل ہیں اسی طرح امور غیر عادیہ میں انبیاء بطور کاسب کہ فاعل ہوتے ہیں جبکہ فاعل حقیقی ہر دو امور میں اللہ پاک ہی ہے اور بعینہ یہی بات امام غزالی و عسقلانی علیھما الرحمہ بھی فرمارہے ہیں سبحان اللہ ۔ماشاء اللہ ۔ ۔

 

امام عبدالوہاب شعرانی فرماتے ہیں کہ : شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے فتوحات میں لکھا کہ افعال غیر عادیہ کا ظہور قوی نفسیہ سے ہوتا ہے کیونکہ عالم کہ تمام اجسام انکی ہمت نفسیہ کہ تابع ہوجاتے ہیں اور یہ تمام افعال غیر عادیہ اللہ پاک کے خلق سے مخلوق کی قدرت میں ہوتے ہیں لیکن افعال غیر عادیہ بطریق کرامت فقط ان لوگوں کہ لیے ہوتے ہیں جو کہ بطور خلاف عادت اپنی طبیعت کو شریعت کہ موافق ڈھال لیتے ہیں اور اپنی حرکت و سکون میں شریعت کی پیروی کرتے ہیں ۔

پھر اس سے بھی زیادہ صراحت امام شعرانی نے وضاحت کی کہ : ائمہ مسلمین نے معجزہ اور کرامت میں کئی اور وجہوں سے بھی فرق بیان کیا ہے جنہیں ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں بعض ائمہ نے کہا کہ معجزہ اور کرامت میں فرق یہ ہے کہ معجزہ نبی کے قصد (کسب) اور اس کے چیلنج سے واقع ہوتا ہے اور کرامت کبھی ولی کے قصد (کسب) کے بغیر بھی واقع ہوتی ہے اور بعض ائمہ نے یہ کہا کہ یہ جائز ہے کہ کرامت ولی کہ قصد (یعنی کسب) سے واقع ہو اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ معجزہ کے ساتھ نبی چیلنج بھی کرتا ہے جبکہ ولی نہیں کرتا جبکہ وقوع دونوں کا کسب و قصد سے جائز ہے ۔ ۔ ۔والسلام

 

(بحوالہ مقام ولایت و نبوت و گلشن توحید و رسالت از علامہ سعیدی و سیالوی )

 

 

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

 

گذشتہ سے پیوستہ

اسلام علیکم معزز قارئین کرام !

امور غیر عادیہ میں انبیاء اور اولیاء کے کسب کہ دخل کی تفصیل

علامہ ابن حجر ہیتمی کا فیصلہ : علامہ ابن حجر ہیتمی امام الحرمین کے حوالہ سے فرماتے ہیں کہ :

فمنھم من شرط ان لا یختارھا الولی وبھذا فرقوا بینھا وبین المعجزۃ وھذا غیر صحیح۔

 

مفھوم : کہ جنھوں نے یہ شرط لگائی کہ ولی کی کرامت میں اس کے قصد و ارادہ اور اختیار کا دخل نہیں ہوتا اور یہ فرق ہے معجزہ اور کرامت میں تو یہ قول صحیح نہیں ۔ (فتاوٰی حدیثیہ )

 

حکیم الامت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب ہمعات میں فرماتے ہیں کہ :جاننا چاہیے کہ مجھے آگاہ فرمایا گیا کہ خوارق عادات یعنی معجزات اور کرامات بذات خود عادت جاریہ اور معمول کے مطابق چلنے والے امور کے قبیل سے ہیں مگر بایں معنٰی کہ اللہ پاک کی سنت اس طرح سے جاری ہے کہ جب کوئی نفس ناطقہ کسب اور مجاہدہ و ریاضت کے زریعے یا جبلّی اور پیدائشی استعداد کی وجہ سے بلند مرتبہ پر فائز ہوتا ہے تو اس پر غیبی امور منکشف ہوتے ہیں یا اسکی دعا مقبول ہوتی ہے وعلٰی ھذا القیاس جیسے کہ اللہ پاک کا قانون قدرت ہے کہ جب کوئی شخص تریاق استعمال کرتا ہے تو اس سے سانپ کا زہر دور ہوجاتا ہے یا گوشت اور مکھن استعمال کرتا ہے تو توانا اور قوی تر ہوجاتا ہے وعلٰی ھذا القیاس۔ لیکن چونکہ یہ امر (معجزہ اور کرامت) مانوس طریقہ کار یا عادت جاریہ کہ خلاف ہوتا ہے تو ا سکو خارق عادت کہہ دیتے ہیں نیز مجھے مطلع کیا گیا کہ خوارق عادات کہ ہر انواع کے لیے مخصوص کسب اور فعل ہوتا ہے جو کہ اسکا ذریعہ اور وسیلہ بنتا ہے اور جب اس سے تمسک کیا جائے تو وہ خارق عادت یعنی معجزہ اور کرامت صادر ہوجاتا ہے ۔آگے مزید مثالیں نقل کرتے ہوئے وہ اولیاء اللہ کے تصرفات کو نقل کرتے ہیں کہ جن میں اولیاء اللہ کا دلوں کو مسخر کرنا ،عاصی کو توبہ کا فیضان پہنچانا یا کسی کام کا مدرکہ کسی کہ دماغ میں داخل کردینا اور امراض کو دور کردینا وغیر شامل ہے ۔ ۔ ۔

اولیاء کرام کہ اس قصد و ارادہ پر مقصود اور مراد کا ترتب کیسے ہوتا ہے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی اشعۃ للمعات میں رقمطراز ہیں کہ :

 

گفتی اند بسم اللہ الرحمٰن الرحیم از عارف ہمچوں کلمہ کن است ۔

 

یعنی عارف کی زبان سے بسم اللہ کا صادر ہونا اسی مؤثر و مفید ہے کہ جس طرح باری تعالٰی سے کلمہ کن ،کہ اس کے بعد فوری طور پر وہ شئے موجود ہوجاتی ہے ،اسی طرح عارف کے کسی کام کے ارادے پر بسم اللہ پڑھنے سے وہ کام فورا ہوجاتا ہے نیز فرماتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔

 

گو کرامت کہ قصد و ارادہ کے ساتھ اولیاء کرام سے صدور پر بعض لوگوں نے اختلاف کیا ہے لیکن صواب اور حق مذہب یہی ہے کہ انکا قصد و ارادہ کے ساتھ وقوع پذیر ہونا صحیح اور درست ہے اور بغیر قصد و ارادہ کے ساتھ سرزد ہونا بھی ۔ ۔ ۔ ۔

 

فائدہ:- معزز قارئین کرام یہ وہی شیخ عبدالحق محدث دہلوی ہیں کہ جنکے حوالہ سے معجزہ کے باب میں نبی کے کسب کے انکار کا قول فریق مخالف نے نقل کیا الحمدللہ انھی کی کتاب اشعۃ للمعات سے اس قول کی صحیح توجیہ واضح ہوگئی کہ مدارج النبوت میں شیخ کے قول کو معجزات کی قسم اول( کہ جس میں فقط فعل باری تعالٰی پایا جاتا ہے ) کی قبیل سے مانا جائے گا وگرنہ شیخ صاحب کی عبارات میں تعارض لازم آئے گا اور اسکی کوئی بھی دوسری تاویل یا تطبیق کرنا قریبا نامکمن ہوجائے گا ۔۔۔

( اشعۃ للمعات بحوالہ گلشن توحید و رسالت)

 

اب آخر میں فریق مخالف کہ گھر کی گواہی کے بعد اس تمام بحث کا خلاصہ پیش کیا جائے گا اور پھر آخر میں چند اعتراضات کہ جوابات اور چند سوالات کرکے اپنی بات کو ختم کریں گے ان شاء اللہ العزیز ۔ ۔ ۔

 

قرآن پاک کی سورہ ص آیۃ 39 میں ارشاد باری تعالٰی ہے :

 

قَالَ رَبِّ ٱغْفِرْ لِي وَهَب لِي مُلْكاً لاَّ يَنبَغِي لأَحَدٍ مِّن بَعْدِيۤ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْوَهَّابُ فَسَخَّرْنَا لَهُ ٱلرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَآءً حَيْثُ أَصَابَ وَٱلشَّيَاطِينَ كُلَّ بَنَّآءٍ وَغَوَّاصٍ وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي ٱلأَصْفَادِ هَـٰذَا عَطَآؤُنَا فَٱمْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ

 

ترجمہ حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب : (حضرت سلمان علیہ السلام نے) کہا اے میرے رب میرا قصور معاف کر اور مجھ کو ایسی سلطنت دے کہ میرے سوا کسی کو میسر نہ ہوآپ بڑے دینے والے ہیں سو ہم نے ہوا کو انکے تابع کردیا کہ وہ انکے حکم سے جہاں چاہتے نرمی سے چلتی اور جنات کو بھی ان کے تابع کردیا ۔یعنی تعمیر بنانے والوں کو بھی اور موتی وغیرہ کے لیے غوطہ خوروں کو بھی اور دوسرے جنات کو بھی جو کہ زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے سو خواہ دو یا نہ دو تم سے کوئی دار و گیر نہیں ہے ۔

 

آگے اسکی تفسیر بیان القرآن میں تھانوی صاحب رقمطراز ہیں کہ :

 

ہم نے یہ سامان دیکر اشارہ فرمایا کہ یہ ہمارا عطیہ ہے سو خواہ کسی کو دو یا نہ دو تم سے کچھ دار و گیر نہیں یعنی جتنا سامان ہم نے تم کو دیا ہے اس میں تم کو خازن و خارس نہیں بنایا جیسا دوسرے ملوک خزائن ملکیہ کے مالک نہیں ہوتے ناظم ہوتے ہیں بلکہ تم کو مالک ہی بنادیا ہے مالکانہ تصرفات کے مختار ہو تو اس سے حقوق واجبہ کے ترک سے تخییر لازم نہیں آتی ۔(بیان القرآن سورہ ص آیت 39)

 

فائدہ : فریق مخالف کے حکیم الامت نے واشگاف الفاظ میں اعلان کردیا کہ ہواؤں اور جنات پر تصرف کے لیے اللہ پاک نے سیدنا سلمان علیہ السلام کو مالکانہ اختیارات عطا فرمادیئے مگر تھانوی صاحب نے حضرت سلمان علیہ السلام کی ان امور غیر عادیہ میں بطور کاسب مالک و مختار ہونے کی تصریح بطور معجزہ کے نہیں کی آئیے ہم دیگر امہات التفاسیر سے یہ واضح کرتے چلیں کہ یہ تمام امور حضرت سلمان علیہ السلام کا معجزہ تھے ۔ ۔ ۔

 

علامہ زمحشری تفسیر کشاف میں لکھتے ہیں کہ :

 

۔۔۔۔۔فأراد أن يطلب من ربه معجزة، فطلب على حسب ألفه ملكاً زائداً على الممالك زيادة خارقة للعادة بالغة حدّ الإعجاز، ليكون ذلك دليلاً على نبوّته قاهراً للمبعوث إليهم، وأن يكون معجزة حتى يخرق العادات۔ ۔۔ ۔

 

مفھوم : سلمان علیہ السلام نے اپنے رب سے معجزہ طلب کرنے کا ارادہ کیا پس انھوں نے اپنی منشاء کے مطابق ایسا معجزہ طلب کیا کہ جسکی وجہ سے انکی ملکیت دوسروں کی ملکیت پر زائد رہے ساتھ ایسی زیادتی ک جو کہ ایسی خرق عادت ہو جو کہ حد اعجاز کو پہنچی ہوئی ہو اور جو ان کی نبوت کی دلیل قاہرہ بن سکے ایسا معجزہ جو کہ تمام خرق عادات کو شامل ہو ۔

 

فخر المتکلمین و مفسرین امام رازی اسی آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں کہ :

۔۔۔ أن الملك هو القدرة فكان المراد أقدرني على أشياء لا يقدر عليها غيري ألبتة، ليصير اقتداري عليها معجزة تدل على صحة نبوتي ورسالتي. والدليل على صحة هذا الكلام أنه تعالى قال: { فَسَخَّرْنَا لَهُ ٱلرّيحَ تَجْرِى بِأَمْرِهِ رُخَاء حَيْثُ أَصَابَ } فكون الريح جارياً بأمره قدرة عجيبة وملك عجيب، ولا شك أنه معجزة دالة على نبوته فكان قوله: { هَبْ لِى مُلْكاً لاَّ يَنبَغِى لأَحَدٍ مّن بَعْدِى } هو هذا المعنى لأن شرط المعجزة أن لا يقدر غيره على معارضتها، فقوله: { لاَّ يَنبَغِى لأَحَدٍ مّن بَعْدِى } يعني لا يقدر أحد على معارضته ۔۔۔۔

 

مفھوم : ملک کا معنی قدرت ہے پس سلمان علیہ السلام کی دعا سے مراد یہ تھی اے اللہ مجھے ان چیزوں پر قادر کردے جن پر میرا غیر کسی بھی وجہ سے قادر نہ ہوسکے تاکہ ان چیزوں پر قدرت میری نبوت و رسالت کی دلیل بطور صحت معجزہ ہوجائے اور اس کلام کی صحت پر دلیل یہ ہے کہ اللہ پاک نے اس دعا کے بعد فرمایا کہ ہم نے ہوا کو سلمان علیہ السلام کے تابع کردیا جو کہ ان کے حکم سے نرمی سے چلتی اور ہوا کے انکے حکم سے چلنے میں عجیب قدرت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انکا معجزہ ہے جو کہ انکی نبوت پر دال ہے اور انکا یہ قول کہ مجھے ایسا ملک عطا فرما جو کہ میرے بعد کسی کی ملک میں نہ ہو معجزہ کی شرائط پر دلالت کرتا ہے کیونکہ معجزہ کی شرط ہوتی ہے کہ اس کا معارض اس پر قادر نہیں ہوتا لہزا ان کے اس قول کے میرے علاوہ اس پر کوئی قادر نہ ہو میں اس بات پر دلالت ہے کہ کوئی بھی شخص اس معجزہ میں انکے مقابل بطور قادر کہ نہ آسکے ۔ ۔ ۔ ۔

 

اس کے علاوہ اس امر پر بے شمار تفسیر حوالہ جات پیش کیئے جاسکتے ہیں کہ معجزہ اور کرامت پر انبیاء اور اولیاء کا قصد بصورت کسب کے ثابت ہے لہذا ماننے والوں کہ لیے فقط انھی تسلی و تشفی کا وافر سامان موجود ہے جبکہ نہ ماننے والوں کے لیے دفتر کے دفتر بےکار ۔ ۔ ۔

خلاصہ بحث

الحمدللہ ان تمام عبارات کا خلاصہ نکات کی صورت میں درج زیل ہے ۔۔۔۔۔۔

لغت میں ہر حرق عادت کو معجزہ کہتے ہیں۔

نبی کے اعلان نبوت سے پہلے صادر ہونے والے حرق عادت کو ارہاص کہتے ہیں جو کہ بنیاد نبوت ہوتا ۔

اعلان نبوت کے بعد جو خرق عادات ہوں انھے علمائے امت نے معجزہ جبکہ قرآن نے دلیل، برہان اور آیہ کے نام سے یاد کیا۔

معجزہ کی تین اقسام معروف ہیں اول کہ جو فقط فعل الٰہی ہوں جیسے نزول قرآن اور نبی علیہ السلام پر بادلوں کا سایہ کرنا دوم ایسا خرق عادت کہ جس میں نبی دعا کرئے اور اللہ پاک اس پر اپنا فعل خلق فرمادے خواہ وہ فعل جز وقتی ہو یا پھر نبی کے کسب کہ تحت اسے کل وقتی عطا کردیا جائے اور تیسری اور آخری قسم ایسے خوارق عادات کی ہے جو کہ کثرت سے انبیاء و اولیاء سے ثابت ہیں کہ جن میں انبیاء و اولیاء کا کسب کسی بھی غیر عادی امر میں بطور سبب عادی کہ کار فرما ہوتا ہے جبکہ اس کے نتیجہ میں اللہ پاک اپنا فعل خلق و ایجاد انبیاء و اولیاء کے کسب کے ساتھ مربوط فرما کر نتیجتا اس خرق عادت امر کو فعلا واقع فرمادیتا ہے ۔نیز جب ایک قوم نے کہا کہ معجزہ نبی کی قدرت میں نہیں ہوتا لیکن اس بات کو میر سید شریف نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ جب نبی ایسا فعل پیش کرئے جو کہ عادۃ دوسروں کی طاقت اور قدرت میں نہ ہو تو وہ بحرحال معجزہ ہے اور معجزہ نبی کی قدرت و طاقت میں ہوتا ہے ۔اور انبیاء کی وہ طاقت و قدرت معجزہ کی اسی تسیری قسم کے ساتھ خاص ہے اور ایسے معجزات قرآن و سنت میں بے شمار ہیں جیسے حضرت سلمان علیہ السلام کا معجزہ کہ ہوائیں اور جنات ان کے تابع اور انکے حکم سے چلتے تھے جیسے حضرت عیسٰی علیہ السلام کا معجزہ کے مادر زاد اندھوں اور برص کے مریضوں اور مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے نیز مٹ سے پرندے بنا کر ان میں نفح صور فرماکر ان میں جان ڈال دیا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ ۔۔ ۔

والسلام جاری ہے ۔ ۔ ۔

Link to comment
Share on other sites

گذشتہ سے پیوستہ ۔

چند اعتراضات کا ازالہ

اعتراض:- جناب عابد صاحب ہمیں آپ کے پیش کئے مذکورہ عقیدے پر کچھ اشکالات ہیں ۔۔۔۔ امید ہے آپ افہام و تفیہم کے ساتھ مختصرا وضاحت فرمائیں گے

جیسا کہ آپ نے اپنے عقیدے میں واضح فرمایا ہے کہ"ماتحت الاسباب ہوں یا ما فوق الاسباب ہے امور عادیہ ہوں یا غیر عادیہ ان سب میں حقیقی مددگار فقط اللہ پاک ہی ہے"

ہمیں اس پر کوئی اختلاف نہیں

لیکن اختلاف اس بات پر ہے کہ آپ (مجازا)غیر اللہ سے مافوق الاسباب مدد اور امور غیر عادیہ مدد مانگنے کے قائل ہیں

الجواب:- جناب جب آپکو ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب ہر دو امور میں حقیقی مددگار اللہ پاک کے ہی ہونے کا اعتراف ہے اور نیز یہ تقسیم (حقیقی و مجازی) بھی بدیہی ہے تو پھر آپکو اس مسئلہ میں ہم سے کیا اختلاف ہے ؟ اور کیوں اختلاف ہے؟ کچھ آپ ہی وضاحت کریں تو بات بنے ؟؟؟

 

 

اعتراض :-کیا آپ اپنے دعوی (غیر اللہ سے مافوق الاسباب مدد مانگنا) پر قرآن پاک سے کوئی دلیل پیش فرماسکتے ہیں ؟؟؟

 

الجواب:- جی ہاں جناب جیسا کہ سورہ نمل میں حضرت سلمان علیہ السلام کا قوم موجود ہے کہ اپ نے فرمایا ۔۔

 

قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَo

38. (سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا: اے دربار والو! تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آجائیںo

 

فائدہ:- اب آپ ہی بتائیے ملکہ سبا کا وہ تحت جو قریبا 1000 میل کی مسافت پر تھا جو کہ حضرت سلمان علیہ السلام کے درباریوں سے یقینا عالم غائب میں تھا پھر ایسے میں حضرت سلمان علیہ السلام کا اپنے درباریوں سے ایک غائب اور نہایت بڑی اور قوی شئے کو فی الفور حاضر کرنے کا سوال کرنا چہ معنٰی دارد؟؟ سوائے اس کے حضرت سلمان علیہ السلام کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ بظاہر مافوق الاسباب امور میں بھی اللہ پاک نے اپنے خاص بندوں کو قوت دے رکھی ہے لہذا اسی وجہ سے انھوں نے مافوق الاسباب طریق سے اس تخت کو اپنے دربار میں حاضر کرنے کی خواہش ظاہر کی اگر حضرت سلیمان علیہ السلام غیراﷲ یعنی مخلوق کے لئے دُور کی شے کو جاننے اور لا سکنے کی طاقت اور قدرت کا اِعتقاد نہ رکھتے تو وہ ہرگز ایسا سوال نہ کرتے،۔۔۔۔

 

اعتراض :-عابد عنایت صاحب جیسا کہ آپ نے اپنے دعوی (غیر اللہ سے مافوق الاسباب مدد مانگنا) پر آصف برخیا کی مثال پیش فرمائی

اس چیز سے آپ بھی متفق ہوں گے کہ آصف برخیا کا ملکہ بلقیس کا تخت لانا کرامات میں سے ہے

 

الجواب :- جی بالکل جناب آصف بن برخیا کا اس تخت کو پلک جھپکنے میں حاضر کردینا بالکل انکی کرامت تھا مگر آپ بھول رہے ہیں کہ آپ کا مطالبہ کیا تھا آپ کا مطالبہ یہ تھا کہ مافوق الاسباب امور میں غیر اللہ سے مجازا مدد مانگنے پر کوئی دلیل دی جائے سو ہم نے عمل سلمان علیہ السلام سے استدلال کیا ہے

نہ کے عمل آصف بن برخیا سے اور یہ تو بچہ بچہ بھی جانتا ہے کہ حضرت سلمان کا مافوق الاسباب امور میں اپنے درباریوں سے مدد طلب کرنا ہرگز انکا معجزہ یا کرامت نہ تھی سو پہلے فریق مخالف کہ نکتہ استدلال کو سمجھ لیا کیجئے پھر اعتراض وارد کیا کیجئے لہذا اس آیت میں عمل آصف بن برخیا نہیں بلکہ عمل سلمان علیہ السلام بطور استدلال کے ہے ۔۔۔۔

 

اعتراض :- اگر معجزہ پر نبی کی قدرت بطور کسب مانی جائے تو لازم آئے گا کہ قرآن پاک جو کے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے اس میں نبی کے کسب کے دخل کو مان کر یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ (قرآن ) خود ساختہ رسول تھا (معاذاللہ )

 

الجواب :- اس کے کئی جواب ہیں سب سے پہلا تو یہ کہ معجزہ کی جو عمومی (اصطلاحی) تعریف ہے اس سے یہ لازم آتا ہے کہ معجزات اللہ پاک کے فعل خلق و ایجاد سے وجود پاتے ہیں یعنی پیدا کیئے جاتے ہیں یوں تمام معجزات مخلوق باری تعالٰی ہوئے جبکہ قرآن پاک کا اللہ کا کلام ہے اور اس لحاظ سے وہ اللہ پاک کی صفت ہے اور غیر مخلوق ہے لہذا اس اعتبار سے قرآن معجزہ نہیں یعنی معجزہ کی تعریف کہ اعتبار سے معجزہ نہیں ۔۔

نمبر دو ہم عرض کرچکے قرآن پاک کا معجزہ ہونا معجزات کی قسم اول کے قبیل سے ہے کہ جس میں خالصتا اللہ پاک کا فعل قدرت شامل حال ہوتا ہے لہزا اس اعتبار سے نزول قرآن کو ( نہ کہ خود قرآن پاک کو) معجزہ کہا جاتا ہے (جبکہ قرآن کو معجزہ عرفا کہہ دیا جاتا ہے معجزہ کی تعریف کی وجہ سے نہیں کیونکہ تمام مخلوقات اس کی نظیر لانے سے عاجز ہیں ) اور یہ نزول قرآن اللہ کے حکم سے بذریعہ جبرائیل علیہ السلام بصورت فعل تنزیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا کرتا تھا لہذا اس سے ہمیں کوئی اعتراض نہیں یعنی معجزہ کی اس قسم میں ہمارا کوئی نزاع نہیں تیسرے یہ کے قرآن پاک کا معجزہ ہونا کئی اعتبارات سے ہے یعنی قرآن کہ وجوہ اعجاز بے شمار ہیں اول قرآن پاک اللہ پاک کا فعل بمعنی مخلوق کے معجزہ نہیں بلکہ اللہ کی صفت کلام ہونے کہ اعتبار سے معجزہ ہے کہ تمام مخلوقات اسکی نظیر و مثال لانے سے قاصر ہیں پھر اسکا نزول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر معجزہ ہے کہ قرآن خود کہتا ہے کہ اگر یہ پہاڑوں پر نازل ہوتا تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتے پھر اسکی فصاحت و بلاغت معجزہ ہے کہ لوگ اسکی نطیر و مثال لانے سے عاجز ہیں پھر لوگ اسکی ایک سورہ کی مثل لانے سے عاجز ہیں پھر اس سے بھی بڑھ کر اسکی ایک آیت کی نظیر و مثال لانے سے لوگ عاجز ہیں پھر قرآن کا ہر ہر حرف و لفظ ذو وجوہ المعنٰی ہے اور اس کے تمام تر معنٰی کے ساتھ قیامت تک کے لیے اسکی تفاسیر ہوتی رہیں گی سو اس لحاظ سے بھی یہ معجزہ ہوا غرض یہ کہ قرآن کی بے شماز وجوہ اعجاز ہیں کہ جن میں سے سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے اس وقت کہ عرب معاشرے کہ جن کو اپنے حسن کلام پر بڑا ناز تھا کو اسکی مثل صفت کلام لانے سے عاجز کردیا۔۔۔۔

 

اعتراض :- حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ ”معجزہ نبی کا فعل نہیں ہوتا بلکہ خدا تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے جس کو نبی کے ہاتھ پر وہ ظاہر کرتا ہے بخلاف دیگر افعال کے کہ ان میں کسب بندہ کی طرف سے ہوتا ہے مگر معجزہ میں کسب بھی بندہ کی طرف سے نہیں ہوتا ۔۔

 

الجواب :- اس کا پہلا جواب تو ہم اوپر نقل کرآئے کہ خود شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اشعۃ للمعات میں کرامات جو کہ خرق عادات ہوتی ہیں اور لغتا وہ بھی معجزہ کی تعریف میں شامل ہوتی ہیں میں اولیاء کے کسب کی تصریح فرمائی ہے اس کا دوسرا جواب یہ ہے حضرت شیخ کی اس عبارت کو معجزات کی قسم اول سے متعلق گردانا جائے گا وگرنہ خود شیخ کے کلام کی توجیہ و تاویل و تطبیق ناممکن ہوجائے گی سوم اگر شیخ کے اس قول کو آپ کے مدعا پر دلیل مان بھی لیا جائے تو تب بھی جو جمہور اور اکثر متکلمین کا مذہب ہے وہ ہم اوپر نقل کرآئے سو جمہور کہ مقابلے میں شیخ کہ اس قول کو شاذ سمجھ کر ترک کردیا جائے گا پھر اگر آپکی صحت فہم کے مطابق شیخ کہ اس قول کو برحق مان بھی لیا جائے تو عرض یہ ہے کہ ہم نے خرق عادات پر مخلوق کے کسب کہ دخول پر براہ راست قرآن و سنت کی واضح نصوص پیش کی ہیں لہذا قرآن و سنت کی ان واضح نصوص کا مقابلہ شیخ کہ اس قول سے ہرگز نہیں کیا جاسکتا ۔وغیرہ

 

اعتراض : اعلیٰ حضرت بھی فرماتے ہیں :

عرض : کسی کی کرامت کسبی بھی ہوتی ہے

ارشاد : کرامت سب کی وہبی ہوتی ہے اور وہ جو کسب سے حاصل ہو بھان متی کا تماشہ ہے لوگوں کو دھوکہ دینا ہے (بلفظ ملفوظات حصہ چہارم ص 13اولڈ ایڈیشن)

 

الجواب :- حقیقت یہ ہے کہ اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کی اس عبارت کو فریق مخالف نے اپنی کج فہمی سے اپنے حق میں سمجھ کر نقل فرمایا جبکہ اعلٰی حضرت کی یہاں مراد فعل کرامت میں دخول کسب کی ممانعت نہیں بلکہ حصول کرامت میں فعل کسب کی بطور سبب و علت تامہ کے نفی ہے یعنی ایک ہوتا ہے ولی کو کرامت کا عطا کیا جانا لہزا اس میں ولی کے کسی بھی کسب کو دخل نہیں ہوتا جبکہ ایک ہوتا ہے کہ جب کرامت بطور وہب کہ عطا ہوجائے تو اس کے صدور میں کسب کا عمل دخل تو اس میں ولی کے کسب کا عمل دخل ہونا اور نہ ہونا دونوں ثابت ہیں لہذا اعلٰی حضرت کی عبارت میں نفی اول مفھوم کی ہے نہ کہ ثانی کی جبکہ ہمارا آپکے ساتھ مفھوم ثانی میں نزاع ہے خوب سمجھ لیجیئے کہ لفظ کسب کا اطلاق دو معنٰی پر ہوتا ہے ایک وہب کے مقابلہ میں اور دوسرا خلق کے مقابلہ میں اعلٰی حضرت جس کسب کی نفی فرمارہے ہیں وہ ریاضت و مجاہدہ کے معنٰی میں بطور کسب کرامت کہ حصول کی نفی ہے لہزا وہب کے مقابلہ میں ہے جبکہ ہم اور آپ جس امر پر گفتگو فرما رہے ہیں وہ وہ کسب بمقابلہ خلق و ایجاد سے متعلق ہے لہذا اعلٰی حضرت کی عبارت ہرگز آپکو مفید نہیں اور نہ ہی ہمارے معارض ۔۔۔۔

 

اعتراض :- اور کیوں نہ ہو جبکہ لفظ "معجزہ" اپنی وضاحت آپ کرتا ہے کہ جس سے ساری مخلوق عاجز ہو اور مخلوق کی عاجزی اُسی صورت ہوسکتی جب وہ وہ فعل خالص خالق کائنات کا ہو ....

 

الجواب :- معترض کا مخلوق کو خالق کے مقابلہ میں فقط افعال معجزات میں عاجز جاننا معترض کی مقام الوہیت سے صریحا جہالت کی نشانی ہے اور وما قدرواللہ حق قدرہ کی واضح مصداق ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خالق کا ہر ہر فعل جاہے وہ انبیاء کرام کے ہاتھ پر بصورت تخلیق معجزہ ہو یا پھر عامۃ الناس کے عادی امور میں اکتساب پر بطور خلق و ایجاد ہو ہر دو صورتوں میں مخلوق خالق کہ افعال سے عاجز ہے کیونکہ خالق حقیقی کہ تمام افعال اس کی ذاتی قدرت کے مقدور ہوتے ہیں جبکہ مخلوق کو جن افعال میں قدرت حاصل بھی ہے چاہے وہ عادی ہوں یا غیر عادی ہر دونوں میں عطائی ہے اور فقط بطور کسب کے ہے جو کہ خالق کہ فعل خلق و ایجاد کی اولا محتاج ہے لہذا وہ خالق کہ فعل خلق کا سبب تو بن سکتی ہے مگر علت تامہ ہرگز نہیں ۔ لہذا معترض کو اپنی اس عبارت سے توبہ کرنی چاہیے ۔۔۔فاعتبروا یااولی الابصار

 

اعتراض :- اور اعلیٰ حضرت صاحب خود فرماتے ہیں کہ "عموم آیات قرآنیہ کی مخالفت میں اخبار احاد سے استناد محض ہرزہ بانی ہے ۔۔

 

الجواب :- فاضل بریلوی علیہ رحمہ نے بالکل برحق فرمایا ہے ہم نے اس بحث میں عمومی آیات ہی پیش کی ہیں کہ جس سے روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ غیر اللہ سے مافوق الاسباب امور میں استعانت کی جاسکتی ہے اور یہ بلاشبہ جائز ہے جبکہ آپ نے ابھی تک ایک بھی آیت جو کہ قطعی الدلالت ہوتی یعنی جو مافوق الاسباب امور میں غیر اللہ سے استعانت کو روکنے والی ہوتی یعنی مدلول پر اپنی دلالت میں واضح، صریح اور قطعی ہوتی یہ تو درکنار آپ نے تو اپنی دلیل کہ بطور کوئی خبر واحد بھی پیش نہیں کی بلکہ الٹا محض اپنے قیاس فاسدہ کو بطور دلیل کے بار بار پیش کیا ہے اگر ہے کوئی ایسی ایک بھی آیت جو کہ مافوق الاسباب امور میں غیر اللہ سے استعانت کی ممانعت میں قطعی الدلالہ ہے تو شوق سے پیش کیجیئے چشم ما روشن دل ما شاد ہم سراپا انتظار ہیں ۔۔۔

 

اعتراض :- اسی طرح حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : یعنی جن مسائل کا تعلق عمل سے ہے ان میں صحیح احادیث سے استدلال کرنا کافی ہے .کیوں کہ اعمال کے لئے ظنی دلائل ہی کافی ہیں لیکن جب عقائد کی باری آئے گی تو ان میں صرف وہی حدیثیں قابل قبول ہوں*گی جو صرف قطعی ہوں (فتح الباری ج 8 ص 431)

 

الجواب :- علامہ عبدالعزیز پرہاوری فرماتے ہیں کہ عقائد کی دو قسمیں ہیں ایک وہ ہے کہ جس کے لیے یقین کا حاصل کرنا ضروری ہے( یعنی جس کے لیے قطعی علم درکار ہے ) جیسے اللہ کا واجب الوجود ہونا اور واحد ہونا اور عقیدہ کی دوسری قسم ظنی ہے کہ جس کے لیے یقین(یعنی قطعی دلائل) کا حصول ممکن نہیں (لہذا ان میں دلائل کا تعین کے لیے فقط طنی دلائل ہی کافی ہونگے) جیسے رسولوں کی افضلیت فرشتوں پر لہذا ان موضوعات پر ظنی دلائل کہ اتباع میں کوئی حرج نہیں کیونکہ متکلمین کا اجماع ہے کہ وہ اس مسئلہ (یعنی رسولوں کا فرشتوں سے افضل ہونا ) کو کتب اصول میں رقم کرتے ہیں (حالانکہ یہ مسئلہ قطعی دلائل سے ہرگز ثابت نہیں ) لہذا بعض متکلمین نے جو ظنی دلائل کے سقوط کا قول کیا ہے وہ صحیح نہیں ۔

(نبراس بحوالہ مقام ولایت و نبوت از علامہ سعیدی)

 

 

اعتراض :- لہذا عابد عنایت صاحب نے جواخباراحاد سے "معجزات" پر اختیار و قدرت کا جو استدلال فرمایا ....یا اپنے فلسفیانہ قیاس پیش فرمائے یااپنی اگلی پوسٹ میں ایسے ہی دلائل پیش فرمائیں گے ۔۔۔۔۔ تو ہماری عابد صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اپنے امام کے قول کی روشنی میں اپنے فلسفیانہ قیاس کو تو ایک طرف رکھتے ہوئے ۔۔۔۔ اسی طرح اخبار احاد سے بھی استناد نہ فرمائیں ۔۔

 

الجواب :- اول یہ آپکی صریح جہالت کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے اخبار احاد سے معجزات پر قدرت و اختیار کا استدلال فرمایا کیونکہ میں نے اس پر جو سب سے پہلی دلیل پیش کی تھی وہ قرآن پاک کی آیات تھیں سورہ نمل کی اور قرآن سارے کا سارا قطعی الثبوت بالتواتر ہے جس شخص کو اتنی لیاقت نہ ہو کہ وہ فریق مخالف کہ پیش کردہ واضح دلائل کے اصل ماخذ کی تمیز کرسکے وہ اس قابل کب ہوسکتا ہے کہ فریق مخالف کہ نکتہ استدلال کو سمجھ سکے سو قارئین نے پہلے بھی آپ کی سفاہت کا مظاہرہ دیکھا اور اب بھی دیکھ رہے ہیں ہمیں بس قارئین کرام کہ ذوق لطیف کی گرانی کا ڈر ہے وگرنہ آپکی ایک ایک عبارت کا یوں آپریشن کریں کہ جہالت اپنی تمام تر حشرسامانیوں سمیت ہر طرف بکھر جائے ۔ ۔ ۔ باقی ایک بار پھر عرض ہے کہ ہم نے معجزات و کرامت پر کسبا انبیاء و اولیاء کی قدرت ہونے کہ باب میں قرآن پاک کی آیات سے استشھاد و استدلال کیا تھا جو کہ قطعی الثبوت تھیں جبکہ اخبار احاد یعنی احادیث صحیحہ ہم نے بطور ضمنی دلائل کہ بصورت شواہد پیش کی تھیں نیز ہمارا مرکزی نکتہ استدلال ان آیات کو پیش کرنے کا یہ تھا کہ ما فوق الاسباب امور میں بطور استعانت کے مجازا مخلوق کی طرف متوجہ ہونا بالکل جائز امر ہے جیسا کہ حضرت سلمان علیہ السلام نے کیا کیونکہ آپ کا اصل مطالبہ یہی تھا کہ مافوق الاسباب امور میں غیر اللہ سے مدد مانگنے کی کوئی دلیل آپکو پیش کی جائے لہذا آپ کے اس مطالبہ پر ہم نے اولا سورہ نمل کی آیات کو آپ کے سامنے بطور دلیل کہ پیش کیا اور ان آیات میں سلمان علیہ السلام کا عمل واضح اور صریح تھا کہ انھوں نے ایک مافوق الاسباب امر میں مخلوق سے مجازا مدد چاہی لہذا ہم نے قرآن کی صریح آیت سے استدلال پیش کرتے ہوئے عمل سلمان علیہ السلام جو کہ ہمارے مدعا پر اصلی دلیل تھا کو آپ کے سامنے پیش کیا مگر آپ نے اسے چھوا تک نہیں اور اسکا کوئی جواب نہیں دیا جبکہ اس کے برعکس آپ الٹا حضرت آصف بن برخیا کہ اس عمل کے پیچھے پڑ گئے جو کہ عمل سلمان علیہ السلام کہ جواب میں بطور تعمیل حکم کہ تھا یہ کہہ کر کر وہ کرامت تھی اور کرامت سے استدلال آپ کے نزدیک جائز نہیں ہے لہذا جب اپ نے بجائے ہماری دلیل کا جواب دینے کہ یوں خلط مبحث کا سہارا لیکر پینترا بدلا تو اب ہم نے پھر اسی آیت کہ دوسرے حصہ سے کرامت کہ کسبی ہونے کا استدلال کیا کہ جس پر آیات کہ الفاظ صریح ہیں لہذا یوں ہمارا اس ایک ہی آیت کو دو مختلف امور میں آپکے دونوں سوالوں کے جواب میں دو مختلف طریق سے بطور استدلال کے پیش کرنا آپ پر حجت ٹھرا اولا حضرت سلمان علیہ السلام کے عمل کی صورت میں بطور انکے مافوق الاسباب امور میں غیر اللہ سے مدد چاہنے کہ ثانیا کرامت کہ کسبی ہونے کہ باب میں عمل آصف بن برخیا کہ انا اتیک کہ الفاظ کہہ کر اس فعل کرامت کو بجا لانے کہ ضمن میں بطور کسب کہ عمل دخل ہونے کہ جبکہ آپکی حالت تو یہ ہے کہ آپ کو نہ ہمارے اول استدلال کی سمجھ آئی اور نہ ہی ثانی کی کہ آپ نے حضرت سلمان کہ محض حضرت آصف سے مدد چاہنے کو ہی کرامت سمجھ لیا لا حول ولا قوۃ الا بااللہ ۔ ۔

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...