Jump to content

غلامی سعودی عرب اور اسلام


Madni.Sms

تجویز کردہ جواب

سعودیوں کی اسلام بیزار حرکتیں اب پردۂ خفا میں نہیں رہ گئیں بلکہ میڈیا کی کوریج پاکر دھیرے دھیرے منظر عام پر آرہی ہیں۔ پچھلے دنوں جب تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے ایک شادی شدہ جوان پیر یا سامی کی سعودی عرب میں ۲۰ سالہ غلامی اور قیدوبند کی صعوبتیں خبر بن کر الیکٹرانک میڈیا میں آئیں تو ہر مسلمان کا کلیجہ کانپ اٹھا اور سر شرم سے نیچے جھک گیا۔ پیریا سامی کی عمر ۲۸ سال کی تھی۔ جب اس نے اپنی باعزت زندگی اور نئی نویلی دلہن کو الوداع کہہ کر ایک بہتر نوکری پانے کے وعدے پر سعودی عرب کے لئے رخت سفر باندھا تھا۔ مگر یہ وعدہ اس کے لئے ایک انتہائی مہنگا سودا ثابت ہوا، جس کے نتیجے میں اس کے اور اس کی بیوی کے اگلے ۲۰ سال ذہنی، جسمانی، نفسیاتی، معاشی اور سماجی طور پر انتہائی المناک دور سے گزرے۔ یہ دردناک کہانی ایسے بہت سے ہندوستانی غریبوں کی حالت زار کو بیان کرتی ہے، جنہیں اچھی تنخواہوں کے بہانے خلیجی ممالک میں ہائر کرکے ان سے اونٹ اور بکریاں چرانے کو کہاجاتا ہے۔ پیریا سامی کی داستان یہی ہے۔ تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ باآسانی اس چنگل میں پھنس گیا اور پھر اس کے ساتھ ۲۰ سالوں تک مسلسل غلام سے بھی بدتر سلوک روا رکھا گیا۔ اس کا پاسپورٹ ضبط کرلیاگیا۔ رات دن جانور کی طرح کام لینے کے باوجود صرف ایک ہی وقت کا کھانا دیا جاتا اور محنتانہ تنخواہ سے بھی محروم رکھا جاتا۔ اسے اتنی سخت ذہنی و جسمانی اذیتیں پہنچائی گئی تھیں کہ جب ہندوستانی قونصل کے دباؤ پر سعودی حکومت نے اسے واپس بھیجنے کا انتظام کیا تو وہ دماغی توازن کھو جانے کی وجہ سے اپنے گاؤں کا پتہ بھی نہ بتاسکا۔ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ اس کی بیوی ایک لمبی مدت تک انتظار کرنے کے بعد اس سے مایوس ہوکر دوسری شادی کرچکی ہے تو گھر لوٹنے کی خوشی میں چہرے پر جو تھوڑی رمق پیدا ہوئی تھی، وہ بھی غائب ہوگئی۔ (انڈین ایکسپریس ڈاٹ کام)
غلامی اور سعودی عرب سعودی عرب میں اگرچہ ۱۹۶۲ء میں غلامی پر قانونی پابندی عائد کردی گئی تھی۔ مگر عملی طور پر یہ غیر انسانی رسم ابھی تک برقرار ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ اعلیٰ سطح کے سعودی علماء اور مذہبی شیوخ اپنے فتوئوں سے اس کی تائید کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر ۲۰۰۳ء میں ایک معروف سعودی مفتی شیخ صالح الفوازن نے یہ فتویٰ صادر کیا کہ
’’غلامی اسلام کا حصہ ہے اور جو کوئی بھی اس کے خاتمے کی بات کرتا ہے، وہ کافر ہے‘‘
(ورلڈ نیٹ ڈیلی، ۱۰ نومبر ۲۰۰۳)
پیغمبر اسلام کی جائے پیدائش اور مہبط وحی ہونے کی حیثیت سے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سعودی عرب سے غلامی کے خاتمے کے لئے عالم گیر مہم چلائی جاتی، کیونکہ یہی رسول اﷲﷺ کی دیرینہ خواہش تھی۔ مگر اس کے بالکل برعکس آج سعودی عرب کی شبیہ ایسے ملک کی ہوگئی ہے، جہاں آئے دن مرد و خواتین دونوں ہی بڑی تعداد میں غلام بنائے جارہے ہیں۔ ان سے جبری طور پر گھریلو خدمات لی جارہی ہیں، یہاں تک کہ ان کا جنسی استحصال بھی کیا جارہا ہے۔ بالخصوص ہندوستان، بنگلہ دیش، پاکستان، سری لنکا، نیپال، فلپائن، انڈونیشیا، سوڈان اور ایتھوپیا سے سعودی عرب میں ایک بڑی تعداد میں جوان مرد و خواتین ہائر کئے جاتے ہیں اور انہیں موٹی موٹی تنخواہوں کا فریب دے کر ان سے گھر کے نہایت حقیر کام کروائے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے ساتھ انتہائی ظالمانہ اور دلسوز برتائو رکھا جاتا ہے۔ ان کے پاسپورٹ ضبط کرلئے جاتے ہیں۔ روگردانی کرنے پر انہیں سخت دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ جنسی و جسمانی اذیتوں میں مبتلا کیا جاتا ہے اور ان کی تنخواہیں بھی ہڑپ لی جاتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ایشیاء افریقہ کے مختلف ممالک سے ہر سال سعودی عرب میں بڑی تعداد میں خواتین کی اسمگلنگ ہوتی ہے، اور تجارتی انداز میں ان کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً یہ عورتیں مجبور ہوکر قحبہ گری کے پیشے سے جڑ جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں سعودی عرب میں نائیجیریا، یمن، پاکستان، افغانستان اور سوڈان سے بے شمار بچے امپورٹ کئے جاتے ہیں اور ان سے جبراً گھریلو کام لینے کے ساتھ ساتھ انہیں بھیک مانگنے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔ کچھ سعودی باشندے ایسے بھی ہیں جو مصر، یمن، افغانستان، پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کا سفر کرتے ہیں اور وہاں جاکر تجارتی انداز میں جنسی استحصال کے کاروبار میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ سعودی حضرات غیر ممالک میں ایک متعینہ مدت تک کے لئے شادیاں رچالیتے ہیں (مثلا نکاح متعہ و نکاح مسیار وغیرہ) اور اس مدت تک محض جنسی خواہشات پوری کرنے کے بعد منکوحہ کو طلاق دے کر واپس اپنے ملک لوٹ آتے ہیں۔ ایسے بھی متعدد رسوا کن واقعات سرخیوں میں آچکے ہیں کہ نہایت کم سن لڑکیوں کے ساتھ شادی کرکے انہیں عیش و عشرت اور شاہانہ زندگی کا سبز باغ دکھا کر سعودی عرب لے جایا گیا، لیکن وہاں پہنچ کر انہیں اچانک یہ پتہ چلا کہ ان کی حیثیت اپنے شوہر کے لئے سامان لذت سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ اس طرح بالآخر وہ لڑکیاں یا تو گھر کی نوکرانی بن کر رہ گئیں یا پھر باہر جاکر قحبہ گری کے دلدل میں پھنس گئیں۔ غلامی اور سعودی حکومت یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی تحقیقات کے مطابق
’’سعودی حکومت اپنے ملک سے انسانی اسمگلنگ کو ختم کرنے کے لئے سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے اور نہ ہی اب تک اس نے اس کے لئے کوئی مخلصانہ کوشش کی ہے۔ اس بارے میں کوئی پختہ ثبوت فراہم نہیں ہوسکا کہ حکومت نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث لوگوںکو قرار واقعی سزا دی ہے۔ مزید براں، تجارتی انداز میں لڑکیوں اور بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے اسمگلرز کے خلاف بھی حکومت نے عملی طور پر کوئی سخت قانون نافذ نہیں کیا ہے اور نہ ہی جنسی استحصال کے متاثرین کے تحفظ کو یقینی بنانے کی سمت کوئی پائیدار قدم اٹھایا۔ سعودی حکومت کی اتھارٹی آج تک ان متاثرین کی شناخت کا کوئی رسمی طریقہ کار وضع نہیں کرسکی ہے جس کے نتیجے میں عام طور پر خود متاثرین ہی کو مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح جبری گھریلو خدمت (Servitude Involuntary) کو ختم کرنے کے لئے بھی مملکت سعودی نے کوئی سنجیدہ قانونی کوشش نہیں کی ہے۔ اگرچہ وہاں کا امیگریشن قانون اور ویزا انٹری کے لوازمات سخت سے سخت تر کردیئے گئے ہیں۔ مگر پھر بھی بچوں اور خواتین کی اسمگلنگ اور جنسی استحصال کی روک تھام کے لئے کوئی موثر اقدام نہیں کیا گیا ہے۔ غلامی اور سلفی علماء سعودی حکومت کی شرمناک بے حسی کا منظر نامہ دیکھنے کے بعد اب آیئے موجودہ غلامی کے تعلق سے سعودی سلفی علماء و شیوخ کا موقف ملاحظہ کیجئے: سعودی عرب کے متشدد سلفی علماء نے غلامی کے شرعی جواز کے حق میں بے بنیاد فتاویٰ صادر کرکے وہاں اس کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے، جبکہ دنیا بھر کے جمہور علماء کا واضح موقف یہ ہے کہ موجودہ غلامی سراسر غیر اسلامی ہے اور یہ قرآن کریم کے اصول و ہدایات سے بالکل متصادم ہے۔ سعودی علماء کا یہ موقف میڈیا میں اس وقت سامنے آیا جب ۲۰۰۳ء میں اعلیٰ سطح کے سعودی مفتی شیخ صالح الفوزان نے یہ فتویٰ جاری کیا کہ غلامی مذہب اسلام کا حصہ ہے۔ یہ جہاد کا بھی جزو ہے اور جہاد اس وقت تک باقی رہے گا ب تک کہ اسلام زندہ ہے۔ جو علماء غلامی کو اسلام سے خارج کررہے ہیں، وہ علماء نہیں بلکہ جہلا ہیں اور ہر وہ شخص جو اس طرح کی بات کرتا ہے ’’کافر‘‘ ہے۔‘‘
یہ فتویٰ شیخ الفوزان نے اس وقت صادر کیا جب وہ سعودی حکومت کے سینئر علماء کونسل کے رکن، پرنس متعب مسجد ریاض کے خطیب و امام اور سعودی علماء کے سب سے بڑے مرکز امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر تھے (ورلڈ نیٹ ڈیلی، ۱۰ نومبر ۲۰۰۳ء)
غلامی اور اسلام یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اسلام نے ہمیشہ انسانی غلامی کی بیخ کنی کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ عہد اسلام کے عرب میں بھی غلامی کی رسم کا وجود ملتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسلام نے اس کی تائید کی ہے بلکہ اس نے غلام بنائے گئے، انسانوں کو پہلی بار سب سے بڑی تعداد میں آزاد کرکے غلامی کے خاتمے کے لئے پیش قدمی کی ہے۔ اس لئے سعودی علماء کا یہ قول کہ عہد اسلامی میں غلامی کا وجود اس کے جواز پر دلیل ہے، محض سیاسی مفادات کی مثال ہے۔ دراصل عرب کے اس معاشرے میں جہاں غلامی صدیوں سے چلی آرہی تھی۔ اچانک یکبارگی اس کا خاتمہ ایک مشکل امر تھا۔ اس کے باوجود اسلام نے سب سے پہلے وہاں غلامی کے خلاف آواز بلند کی اور اپنے معتدل مزاج کے مطابق بتدریج اس کا صفایا کرنے کی کوشش کی۔

غلامی سے متعلق اسلام کا بنیادی نظریہ
اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بے شک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے۔(۴۱:۹۴)
مذکورہ قرآنی آیت کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ بنیادی طور پر اسلام میں غلامی کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن چونکہ ظہور اسلام کے وقت جنگوں میں گرفتار کئے گئے قیدیوں کو غلام بنانا عربوں میں ایک عام رواج تھا، جس کے نتیجے میں عرب میں غلاموں کی تعداد بہت زیادہ ہوچکی تھی۔ اس لئے اسلام نے غلامی کے خاتمے کی طرف توجہ نہ دے کر پہلے سے موجودہ غلاموں کے تحفظ اور ان کے سلب ہوتے ہوئے حقوق کی بازیابی کو اپنا اولین مطمع نظر بنایا۔ غلاموں کے ساتھ حسن سلوک اور نرم رویہ کی تلقین کرکے اسلام نے اولاً ان کی آزادی کے مسدود راستے وا کئے۔ خود پیغمبر اسلامﷺ نے ایک بڑی تعداد میں غلام مردوں اور عورتوں کو آزاد کرکے انسانی آزادی کے تحفظ کی شاندار مثال قائم فرمائی اور آپﷺ نے اپنے ان صحابہ کی خوب حوصلہ افزائی فرمائی جنہوں نے اس سلسلے میں آپ کی پیروی کی۔ وہ لوگ جو غلامی کو اسلامی طور پر جواز فراہم کررہے ہیں۔ انہیں اس حدیث سے سبق حاصل کرلینا چاہئے اور رسول اﷲﷺ کی اس سنت مبارکہ پر عمل کرنا چاہئے۔ آپﷺ نے غلاموں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کو سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:

’’وہ شخص جنت میں ہرگز نہیں جائے گا جو اپنے غلاموں کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے۔‘‘

صحابہ نے عرض کیا

’’یارسول اﷲﷺ کیا آپ نے ہمیں نہیں فرمایا تھا کہ آپﷺ کے عقیدت مندوں میں بہت سے غلام اور یتیم ہوں گے؟‘‘

آپ نے فرمایا

’’ہاں! تو تم لوگ ان کے ساتھ اپنے بچوں کی طرح مہربانی کرو اور انہیں کھانے میں وہ چیز دو جو تم خود کھاتے ہو‘‘

اسی طرح کی ایک دوسری حدیث میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، لہذا تم میں سے جس کسی کا بھائی اس پر منحصر ہو، اسے چاہئے کہ وہ اسے اسی طرح کھلائے پلائے اور اسے کپڑے پہنائے جس طرح کہ وہ اپنے آپ کو کھلاتا پلاتا اور کپڑے پہناتا ہے اور اس کے اوپر کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے، اگر تم ان سے کام لیتے ہو تو تم پر ضروری ہے کہ تم ان کی مدد کرو‘‘
(روایت: حضرت عبداﷲ ابن عمر، مسلم شریف)
رسول اﷲﷺ نے اپنی امت کو غلاموں کو آزاد کرنے کی خوب تلقین فرمائی۔ اگرچہ آزاد کرنے کے لئے کسی کو غلام خریدنا ہی کیوںنہ پڑے۔ یہ اﷲ کے یہاں بہت پسندیدہ عمل ہے۔ تاریخ اسلامی میں ایسے بہت سے مواقع آئے جب آپﷺ نے اور آپﷺ کے صحابہ نے آپ کی ترغیب پر غلاموں کی بڑی تعداد میں آزاد کیا۔ خود رسول اﷲﷺ نے ۶۳ غلاموں کو آزاد کیا اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے ۶۷ غلاموں کو آزاد کیا۔

سعودیوں کی اسلام بیزار حرکتیں اب پردۂ خفا میں نہیں رہ گئیں بلکہ میڈیا کی کوریج پاکر دھیرے دھیرے منظر عام پر آرہی ہیں۔ پچھلے دنوں جب تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے ایک شادی شدہ جوان پیر یا سامی کی سعودی عرب میں ۲۰ سالہ غلامی اور قیدوبند کی صعوبتیں خبر بن کر الیکٹرانک میڈیا میں آئیں تو ہر مسلمان کا کلیجہ کانپ اٹھا اور سر شرم سے نیچے جھک گیا۔ پیریا سامی کی عمر ۲۸ سال کی تھی۔ جب اس نے اپنی باعزت زندگی اور نئی نویلی دلہن کو الوداع کہہ کر ایک بہتر نوکری پانے کے وعدے پر سعودی عرب کے لئے رخت سفر باندھا تھا۔ مگر یہ وعدہ اس کے لئے ایک انتہائی مہنگا سودا ثابت ہوا، جس کے نتیجے میں اس کے اور اس کی بیوی کے اگلے ۲۰ سال ذہنی، جسمانی، نفسیاتی، معاشی اور سماجی طور پر انتہائی المناک دور سے گزرے۔ یہ دردناک کہانی ایسے بہت سے ہندوستانی غریبوں کی حالت زار کو بیان کرتی ہے، جنہیں اچھی تنخواہوں کے بہانے خلیجی ممالک میں ہائر کرکے ان سے اونٹ اور بکریاں چرانے کو کہاجاتا ہے۔ پیریا سامی کی داستان یہی ہے۔ تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ باآسانی اس چنگل میں پھنس گیا اور پھر اس کے ساتھ ۲۰ سالوں تک مسلسل غلام سے بھی بدتر سلوک روا رکھا گیا۔ اس کا پاسپورٹ ضبط کرلیاگیا۔ رات دن جانور کی طرح کام لینے کے باوجود صرف ایک ہی وقت کا کھانا دیا جاتا اور محنتانہ تنخواہ سے بھی محروم رکھا جاتا۔ اسے اتنی سخت ذہنی و جسمانی اذیتیں پہنچائی گئی تھیں کہ جب ہندوستانی قونصل کے دباؤ پر سعودی حکومت نے اسے واپس بھیجنے کا انتظام کیا تو وہ دماغی توازن کھو جانے کی وجہ سے اپنے گاؤں کا پتہ بھی نہ بتاسکا۔ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ اس کی بیوی ایک لمبی مدت تک انتظار کرنے کے بعد اس سے مایوس ہوکر دوسری شادی کرچکی ہے تو گھر لوٹنے کی خوشی میں چہرے پر جو تھوڑی رمق پیدا ہوئی تھی، وہ بھی غائب ہوگئی۔ (انڈین ایکسپریس ڈاٹ کام)
غلامی اور سعودی عرب سعودی عرب میں اگرچہ ۱۹۶۲ء میں غلامی پر قانونی پابندی عائد کردی گئی تھی۔ مگر عملی طور پر یہ غیر انسانی رسم ابھی تک برقرار ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ اعلیٰ سطح کے سعودی علماء اور مذہبی شیوخ اپنے فتوئوں سے اس کی تائید کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر ۲۰۰۳ء میں ایک معروف سعودی مفتی شیخ صالح الفوازن نے یہ فتویٰ صادر کیا کہ
’’غلامی اسلام کا حصہ ہے اور جو کوئی بھی اس کے خاتمے کی بات کرتا ہے، وہ کافر ہے‘‘
(ورلڈ نیٹ ڈیلی، ۱۰ نومبر ۲۰۰۳)
پیغمبر اسلام کی جائے پیدائش اور مہبط وحی ہونے کی حیثیت سے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سعودی عرب سے غلامی کے خاتمے کے لئے عالم گیر مہم چلائی جاتی، کیونکہ یہی رسول اﷲﷺ کی دیرینہ خواہش تھی۔ مگر اس کے بالکل برعکس آج سعودی عرب کی شبیہ ایسے ملک کی ہوگئی ہے، جہاں آئے دن مرد و خواتین دونوں ہی بڑی تعداد میں غلام بنائے جارہے ہیں۔ ان سے جبری طور پر گھریلو خدمات لی جارہی ہیں، یہاں تک کہ ان کا جنسی استحصال بھی کیا جارہا ہے۔ بالخصوص ہندوستان، بنگلہ دیش، پاکستان، سری لنکا، نیپال، فلپائن، انڈونیشیا، سوڈان اور ایتھوپیا سے سعودی عرب میں ایک بڑی تعداد میں جوان مرد و خواتین ہائر کئے جاتے ہیں اور انہیں موٹی موٹی تنخواہوں کا فریب دے کر ان سے گھر کے نہایت حقیر کام کروائے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے ساتھ انتہائی ظالمانہ اور دلسوز برتائو رکھا جاتا ہے۔ ان کے پاسپورٹ ضبط کرلئے جاتے ہیں۔ روگردانی کرنے پر انہیں سخت دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ جنسی و جسمانی اذیتوں میں مبتلا کیا جاتا ہے اور ان کی تنخواہیں بھی ہڑپ لی جاتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ایشیاء افریقہ کے مختلف ممالک سے ہر سال سعودی عرب میں بڑی تعداد میں خواتین کی اسمگلنگ ہوتی ہے، اور تجارتی انداز میں ان کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً یہ عورتیں مجبور ہوکر قحبہ گری کے پیشے سے جڑ جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں سعودی عرب میں نائیجیریا، یمن، پاکستان، افغانستان اور سوڈان سے بے شمار بچے امپورٹ کئے جاتے ہیں اور ان سے جبراً گھریلو کام لینے کے ساتھ ساتھ انہیں بھیک مانگنے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔ کچھ سعودی باشندے ایسے بھی ہیں جو مصر، یمن، افغانستان، پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کا سفر کرتے ہیں اور وہاں جاکر تجارتی انداز میں جنسی استحصال کے کاروبار میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ سعودی حضرات غیر ممالک میں ایک متعینہ مدت تک کے لئے شادیاں رچالیتے ہیں (مثلا نکاح متعہ و نکاح مسیار وغیرہ) اور اس مدت تک محض جنسی خواہشات پوری کرنے کے بعد منکوحہ کو طلاق دے کر واپس اپنے ملک لوٹ آتے ہیں۔ ایسے بھی متعدد رسوا کن واقعات سرخیوں میں آچکے ہیں کہ نہایت کم سن لڑکیوں کے ساتھ شادی کرکے انہیں عیش و عشرت اور شاہانہ زندگی کا سبز باغ دکھا کر سعودی عرب لے جایا گیا، لیکن وہاں پہنچ کر انہیں اچانک یہ پتہ چلا کہ ان کی حیثیت اپنے شوہر کے لئے سامان لذت سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ اس طرح بالآخر وہ لڑکیاں یا تو گھر کی نوکرانی بن کر رہ گئیں یا پھر باہر جاکر قحبہ گری کے دلدل میں پھنس گئیں۔ غلامی اور سعودی حکومت یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی تحقیقات کے مطابق
’’سعودی حکومت اپنے ملک سے انسانی اسمگلنگ کو ختم کرنے کے لئے سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے اور نہ ہی اب تک اس نے اس کے لئے کوئی مخلصانہ کوشش کی ہے۔ اس بارے میں کوئی پختہ ثبوت فراہم نہیں ہوسکا کہ حکومت نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث لوگوںکو قرار واقعی سزا دی ہے۔ مزید براں، تجارتی انداز میں لڑکیوں اور بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے اسمگلرز کے خلاف بھی حکومت نے عملی طور پر کوئی سخت قانون نافذ نہیں کیا ہے اور نہ ہی جنسی استحصال کے متاثرین کے تحفظ کو یقینی بنانے کی سمت کوئی پائیدار قدم اٹھایا۔ سعودی حکومت کی اتھارٹی آج تک ان متاثرین کی شناخت کا کوئی رسمی طریقہ کار وضع نہیں کرسکی ہے جس کے نتیجے میں عام طور پر خود متاثرین ہی کو مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح جبری گھریلو خدمت (Servitude Involuntary) کو ختم کرنے کے لئے بھی مملکت سعودی نے کوئی سنجیدہ قانونی کوشش نہیں کی ہے۔ اگرچہ وہاں کا امیگریشن قانون اور ویزا انٹری کے لوازمات سخت سے سخت تر کردیئے گئے ہیں۔ مگر پھر بھی بچوں اور خواتین کی اسمگلنگ اور جنسی استحصال کی روک تھام کے لئے کوئی موثر اقدام نہیں کیا گیا ہے۔ غلامی اور سلفی علماء سعودی حکومت کی شرمناک بے حسی کا منظر نامہ دیکھنے کے بعد اب آیئے موجودہ غلامی کے تعلق سے سعودی سلفی علماء و شیوخ کا موقف ملاحظہ کیجئے: سعودی عرب کے متشدد سلفی علماء نے غلامی کے شرعی جواز کے حق میں بے بنیاد فتاویٰ صادر کرکے وہاں اس کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے، جبکہ دنیا بھر کے جمہور علماء کا واضح موقف یہ ہے کہ موجودہ غلامی سراسر غیر اسلامی ہے اور یہ قرآن کریم کے اصول و ہدایات سے بالکل متصادم ہے۔ سعودی علماء کا یہ موقف میڈیا میں اس وقت سامنے آیا جب ۲۰۰۳ء میں اعلیٰ سطح کے سعودی مفتی شیخ صالح الفوزان نے یہ فتویٰ جاری کیا کہ غلامی مذہب اسلام کا حصہ ہے۔ یہ جہاد کا بھی جزو ہے اور جہاد اس وقت تک باقی رہے گا ب تک کہ اسلام زندہ ہے۔ جو علماء غلامی کو اسلام سے خارج کررہے ہیں، وہ علماء نہیں بلکہ جہلا ہیں اور ہر وہ شخص جو اس طرح کی بات کرتا ہے ’’کافر‘‘ ہے۔‘‘
یہ فتویٰ شیخ الفوزان نے اس وقت صادر کیا جب وہ سعودی حکومت کے سینئر علماء کونسل کے رکن، پرنس متعب مسجد ریاض کے خطیب و امام اور سعودی علماء کے سب سے بڑے مرکز امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر تھے (ورلڈ نیٹ ڈیلی، ۱۰ نومبر ۲۰۰۳ء)
غلامی اور اسلام یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اسلام نے ہمیشہ انسانی غلامی کی بیخ کنی کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ عہد اسلام کے عرب میں بھی غلامی کی رسم کا وجود ملتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسلام نے اس کی تائید کی ہے بلکہ اس نے غلام بنائے گئے، انسانوں کو پہلی بار سب سے بڑی تعداد میں آزاد کرکے غلامی کے خاتمے کے لئے پیش قدمی کی ہے۔ اس لئے سعودی علماء کا یہ قول کہ عہد اسلامی میں غلامی کا وجود اس کے جواز پر دلیل ہے، محض سیاسی مفادات کی مثال ہے۔ دراصل عرب کے اس معاشرے میں جہاں غلامی صدیوں سے چلی آرہی تھی۔ اچانک یکبارگی اس کا خاتمہ ایک مشکل امر تھا۔ اس کے باوجود اسلام نے سب سے پہلے وہاں غلامی کے خلاف آواز بلند کی اور اپنے معتدل مزاج کے مطابق بتدریج اس کا صفایا کرنے کی کوشش کی۔

غلامی سے متعلق اسلام کا بنیادی نظریہ
اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بے شک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے۔(۴۱:۹۴)
مذکورہ قرآنی آیت کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ بنیادی طور پر اسلام میں غلامی کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن چونکہ ظہور اسلام کے وقت جنگوں میں گرفتار کئے گئے قیدیوں کو غلام بنانا عربوں میں ایک عام رواج تھا، جس کے نتیجے میں عرب میں غلاموں کی تعداد بہت زیادہ ہوچکی تھی۔ اس لئے اسلام نے غلامی کے خاتمے کی طرف توجہ نہ دے کر پہلے سے موجودہ غلاموں کے تحفظ اور ان کے سلب ہوتے ہوئے حقوق کی بازیابی کو اپنا اولین مطمع نظر بنایا۔ غلاموں کے ساتھ حسن سلوک اور نرم رویہ کی تلقین کرکے اسلام نے اولاً ان کی آزادی کے مسدود راستے وا کئے۔ خود پیغمبر اسلامﷺ نے ایک بڑی تعداد میں غلام مردوں اور عورتوں کو آزاد کرکے انسانی آزادی کے تحفظ کی شاندار مثال قائم فرمائی اور آپﷺ نے اپنے ان صحابہ کی خوب حوصلہ افزائی فرمائی جنہوں نے اس سلسلے میں آپ کی پیروی کی۔ وہ لوگ جو غلامی کو اسلامی طور پر جواز فراہم کررہے ہیں۔ انہیں اس حدیث سے سبق حاصل کرلینا چاہئے اور رسول اﷲﷺ کی اس سنت مبارکہ پر عمل کرنا چاہئے۔ آپﷺ نے غلاموں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کو سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:

’’وہ شخص جنت میں ہرگز نہیں جائے گا جو اپنے غلاموں کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے۔‘‘

صحابہ نے عرض کیا

’’یارسول اﷲﷺ کیا آپ نے ہمیں نہیں فرمایا تھا کہ آپﷺ کے عقیدت مندوں میں بہت سے غلام اور یتیم ہوں گے؟‘‘

آپ نے فرمایا

’’ہاں! تو تم لوگ ان کے ساتھ اپنے بچوں کی طرح مہربانی کرو اور انہیں کھانے میں وہ چیز دو جو تم خود کھاتے ہو‘‘

اسی طرح کی ایک دوسری حدیث میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، لہذا تم میں سے جس کسی کا بھائی اس پر منحصر ہو، اسے چاہئے کہ وہ اسے اسی طرح کھلائے پلائے اور اسے کپڑے پہنائے جس طرح کہ وہ اپنے آپ کو کھلاتا پلاتا اور کپڑے پہناتا ہے اور اس کے اوپر کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے، اگر تم ان سے کام لیتے ہو تو تم پر ضروری ہے کہ تم ان کی مدد کرو‘‘
(روایت: حضرت عبداﷲ ابن عمر، مسلم شریف)
رسول اﷲﷺ نے اپنی امت کو غلاموں کو آزاد کرنے کی خوب تلقین فرمائی۔ اگرچہ آزاد کرنے کے لئے کسی کو غلام خریدنا ہی کیوںنہ پڑے۔ یہ اﷲ کے یہاں بہت پسندیدہ عمل ہے۔ تاریخ اسلامی میں ایسے بہت سے مواقع آئے جب آپﷺ نے اور آپﷺ کے صحابہ نے آپ کی ترغیب پر غلاموں کی بڑی تعداد میں آزاد کیا۔ خود رسول اﷲﷺ نے ۶۳ غلاموں کو آزاد کیا اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے ۶۷ غلاموں کو آزاد کیا۔


سعودیوں کی اسلام بیزار حرکتیں اب پردۂ خفا میں نہیں رہ گئیں بلکہ میڈیا کی کوریج پاکر دھیرے دھیرے منظر عام پر آرہی ہیں۔ پچھلے دنوں جب تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے ایک شادی شدہ جوان پیر یا سامی کی سعودی عرب میں ۲۰ سالہ غلامی اور قیدوبند کی صعوبتیں خبر بن کر الیکٹرانک میڈیا میں آئیں تو ہر مسلمان کا کلیجہ کانپ اٹھا اور سر شرم سے نیچے جھک گیا۔ پیریا سامی کی عمر ۲۸ سال کی تھی۔ جب اس نے اپنی باعزت زندگی اور نئی نویلی دلہن کو الوداع کہہ کر ایک بہتر نوکری پانے کے وعدے پر سعودی عرب کے لئے رخت سفر باندھا تھا۔ مگر یہ وعدہ اس کے لئے ایک انتہائی مہنگا سودا ثابت ہوا، جس کے نتیجے میں اس کے اور اس کی بیوی کے اگلے ۲۰ سال ذہنی، جسمانی، نفسیاتی، معاشی اور سماجی طور پر انتہائی المناک دور سے گزرے۔ یہ دردناک کہانی ایسے بہت سے ہندوستانی غریبوں کی حالت زار کو بیان کرتی ہے، جنہیں اچھی تنخواہوں کے بہانے خلیجی ممالک میں ہائر کرکے ان سے اونٹ اور بکریاں چرانے کو کہاجاتا ہے۔ پیریا سامی کی داستان یہی ہے۔ تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ باآسانی اس چنگل میں پھنس گیا اور پھر اس کے ساتھ ۲۰ سالوں تک مسلسل غلام سے بھی بدتر سلوک روا رکھا گیا۔ اس کا پاسپورٹ ضبط کرلیاگیا۔ رات دن جانور کی طرح کام لینے کے باوجود صرف ایک ہی وقت کا کھانا دیا جاتا اور محنتانہ تنخواہ سے بھی محروم رکھا جاتا۔ اسے اتنی سخت ذہنی و جسمانی اذیتیں پہنچائی گئی تھیں کہ جب ہندوستانی قونصل کے دباؤ پر سعودی حکومت نے اسے واپس بھیجنے کا انتظام کیا تو وہ دماغی توازن کھو جانے کی وجہ سے اپنے گاؤں کا پتہ بھی نہ بتاسکا۔ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ اس کی بیوی ایک لمبی مدت تک انتظار کرنے کے بعد اس سے مایوس ہوکر دوسری شادی کرچکی ہے تو گھر لوٹنے کی خوشی میں چہرے پر جو تھوڑی رمق پیدا ہوئی تھی، وہ بھی غائب ہوگئی۔ (انڈین ایکسپریس ڈاٹ کام)
غلامی اور سعودی عرب سعودی عرب میں اگرچہ ۱۹۶۲ء میں غلامی پر قانونی پابندی عائد کردی گئی تھی۔ مگر عملی طور پر یہ غیر انسانی رسم ابھی تک برقرار ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ اعلیٰ سطح کے سعودی علماء اور مذہبی شیوخ اپنے فتوئوں سے اس کی تائید کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر ۲۰۰۳ء میں ایک معروف سعودی مفتی شیخ صالح الفوازن نے یہ فتویٰ صادر کیا کہ
’’غلامی اسلام کا حصہ ہے اور جو کوئی بھی اس کے خاتمے کی بات کرتا ہے، وہ کافر ہے‘‘
(ورلڈ نیٹ ڈیلی، ۱۰ نومبر ۲۰۰۳)
پیغمبر اسلام کی جائے پیدائش اور مہبط وحی ہونے کی حیثیت سے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سعودی عرب سے غلامی کے خاتمے کے لئے عالم گیر مہم چلائی جاتی، کیونکہ یہی رسول اﷲﷺ کی دیرینہ خواہش تھی۔ مگر اس کے بالکل برعکس آج سعودی عرب کی شبیہ ایسے ملک کی ہوگئی ہے، جہاں آئے دن مرد و خواتین دونوں ہی بڑی تعداد میں غلام بنائے جارہے ہیں۔ ان سے جبری طور پر گھریلو خدمات لی جارہی ہیں، یہاں تک کہ ان کا جنسی استحصال بھی کیا جارہا ہے۔ بالخصوص ہندوستان، بنگلہ دیش، پاکستان، سری لنکا، نیپال، فلپائن، انڈونیشیا، سوڈان اور ایتھوپیا سے سعودی عرب میں ایک بڑی تعداد میں جوان مرد و خواتین ہائر کئے جاتے ہیں اور انہیں موٹی موٹی تنخواہوں کا فریب دے کر ان سے گھر کے نہایت حقیر کام کروائے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے ساتھ انتہائی ظالمانہ اور دلسوز برتائو رکھا جاتا ہے۔ ان کے پاسپورٹ ضبط کرلئے جاتے ہیں۔ روگردانی کرنے پر انہیں سخت دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ جنسی و جسمانی اذیتوں میں مبتلا کیا جاتا ہے اور ان کی تنخواہیں بھی ہڑپ لی جاتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ایشیاء افریقہ کے مختلف ممالک سے ہر سال سعودی عرب میں بڑی تعداد میں خواتین کی اسمگلنگ ہوتی ہے، اور تجارتی انداز میں ان کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً یہ عورتیں مجبور ہوکر قحبہ گری کے پیشے سے جڑ جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں سعودی عرب میں نائیجیریا، یمن، پاکستان، افغانستان اور سوڈان سے بے شمار بچے امپورٹ کئے جاتے ہیں اور ان سے جبراً گھریلو کام لینے کے ساتھ ساتھ انہیں بھیک مانگنے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔ کچھ سعودی باشندے ایسے بھی ہیں جو مصر، یمن، افغانستان، پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کا سفر کرتے ہیں اور وہاں جاکر تجارتی انداز میں جنسی استحصال کے کاروبار میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ سعودی حضرات غیر ممالک میں ایک متعینہ مدت تک کے لئے شادیاں رچالیتے ہیں (مثلا نکاح متعہ و نکاح مسیار وغیرہ) اور اس مدت تک محض جنسی خواہشات پوری کرنے کے بعد منکوحہ کو طلاق دے کر واپس اپنے ملک لوٹ آتے ہیں۔ ایسے بھی متعدد رسوا کن واقعات سرخیوں میں آچکے ہیں کہ نہایت کم سن لڑکیوں کے ساتھ شادی کرکے انہیں عیش و عشرت اور شاہانہ زندگی کا سبز باغ دکھا کر سعودی عرب لے جایا گیا، لیکن وہاں پہنچ کر انہیں اچانک یہ پتہ چلا کہ ان کی حیثیت اپنے شوہر کے لئے سامان لذت سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ اس طرح بالآخر وہ لڑکیاں یا تو گھر کی نوکرانی بن کر رہ گئیں یا پھر باہر جاکر قحبہ گری کے دلدل میں پھنس گئیں۔ غلامی اور سعودی حکومت یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی تحقیقات کے مطابق
’’سعودی حکومت اپنے ملک سے انسانی اسمگلنگ کو ختم کرنے کے لئے سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے اور نہ ہی اب تک اس نے اس کے لئے کوئی مخلصانہ کوشش کی ہے۔ اس بارے میں کوئی پختہ ثبوت فراہم نہیں ہوسکا کہ حکومت نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث لوگوںکو قرار واقعی سزا دی ہے۔ مزید براں، تجارتی انداز میں لڑکیوں اور بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے اسمگلرز کے خلاف بھی حکومت نے عملی طور پر کوئی سخت قانون نافذ نہیں کیا ہے اور نہ ہی جنسی استحصال کے متاثرین کے تحفظ کو یقینی بنانے کی سمت کوئی پائیدار قدم اٹھایا۔ سعودی حکومت کی اتھارٹی آج تک ان متاثرین کی شناخت کا کوئی رسمی طریقہ کار وضع نہیں کرسکی ہے جس کے نتیجے میں عام طور پر خود متاثرین ہی کو مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح جبری گھریلو خدمت (Servitude Involuntary) کو ختم کرنے کے لئے بھی مملکت سعودی نے کوئی سنجیدہ قانونی کوشش نہیں کی ہے۔ اگرچہ وہاں کا امیگریشن قانون اور ویزا انٹری کے لوازمات سخت سے سخت تر کردیئے گئے ہیں۔ مگر پھر بھی بچوں اور خواتین کی اسمگلنگ اور جنسی استحصال کی روک تھام کے لئے کوئی موثر اقدام نہیں کیا گیا ہے۔ غلامی اور سلفی علماء سعودی حکومت کی شرمناک بے حسی کا منظر نامہ دیکھنے کے بعد اب آیئے موجودہ غلامی کے تعلق سے سعودی سلفی علماء و شیوخ کا موقف ملاحظہ کیجئے: سعودی عرب کے متشدد سلفی علماء نے غلامی کے شرعی جواز کے حق میں بے بنیاد فتاویٰ صادر کرکے وہاں اس کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے، جبکہ دنیا بھر کے جمہور علماء کا واضح موقف یہ ہے کہ موجودہ غلامی سراسر غیر اسلامی ہے اور یہ قرآن کریم کے اصول و ہدایات سے بالکل متصادم ہے۔ سعودی علماء کا یہ موقف میڈیا میں اس وقت سامنے آیا جب ۲۰۰۳ء میں اعلیٰ سطح کے سعودی مفتی شیخ صالح الفوزان نے یہ فتویٰ جاری کیا کہ غلامی مذہب اسلام کا حصہ ہے۔ یہ جہاد کا بھی جزو ہے اور جہاد اس وقت تک باقی رہے گا ب تک کہ اسلام زندہ ہے۔ جو علماء غلامی کو اسلام سے خارج کررہے ہیں، وہ علماء نہیں بلکہ جہلا ہیں اور ہر وہ شخص جو اس طرح کی بات کرتا ہے ’’کافر‘‘ ہے۔‘‘
یہ فتویٰ شیخ الفوزان نے اس وقت صادر کیا جب وہ سعودی حکومت کے سینئر علماء کونسل کے رکن، پرنس متعب مسجد ریاض کے خطیب و امام اور سعودی علماء کے سب سے بڑے مرکز امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر تھے (ورلڈ نیٹ ڈیلی، ۱۰ نومبر ۲۰۰۳ء)
غلامی اور اسلام یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اسلام نے ہمیشہ انسانی غلامی کی بیخ کنی کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ عہد اسلام کے عرب میں بھی غلامی کی رسم کا وجود ملتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسلام نے اس کی تائید کی ہے بلکہ اس نے غلام بنائے گئے، انسانوں کو پہلی بار سب سے بڑی تعداد میں آزاد کرکے غلامی کے خاتمے کے لئے پیش قدمی کی ہے۔ اس لئے سعودی علماء کا یہ قول کہ عہد اسلامی میں غلامی کا وجود اس کے جواز پر دلیل ہے، محض سیاسی مفادات کی مثال ہے۔ دراصل عرب کے اس معاشرے میں جہاں غلامی صدیوں سے چلی آرہی تھی۔ اچانک یکبارگی اس کا خاتمہ ایک مشکل امر تھا۔ اس کے باوجود اسلام نے سب سے پہلے وہاں غلامی کے خلاف آواز بلند کی اور اپنے معتدل مزاج کے مطابق بتدریج اس کا صفایا کرنے کی کوشش کی۔

غلامی سے متعلق اسلام کا بنیادی نظریہ
اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بے شک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے۔(۴۱:۹۴)
مذکورہ قرآنی آیت کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ بنیادی طور پر اسلام میں غلامی کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن چونکہ ظہور اسلام کے وقت جنگوں میں گرفتار کئے گئے قیدیوں کو غلام بنانا عربوں میں ایک عام رواج تھا، جس کے نتیجے میں عرب میں غلاموں کی تعداد بہت زیادہ ہوچکی تھی۔ اس لئے اسلام نے غلامی کے خاتمے کی طرف توجہ نہ دے کر پہلے سے موجودہ غلاموں کے تحفظ اور ان کے سلب ہوتے ہوئے حقوق کی بازیابی کو اپنا اولین مطمع نظر بنایا۔ غلاموں کے ساتھ حسن سلوک اور نرم رویہ کی تلقین کرکے اسلام نے اولاً ان کی آزادی کے مسدود راستے وا کئے۔ خود پیغمبر اسلامﷺ نے ایک بڑی تعداد میں غلام مردوں اور عورتوں کو آزاد کرکے انسانی آزادی کے تحفظ کی شاندار مثال قائم فرمائی اور آپﷺ نے اپنے ان صحابہ کی خوب حوصلہ افزائی فرمائی جنہوں نے اس سلسلے میں آپ کی پیروی کی۔ وہ لوگ جو غلامی کو اسلامی طور پر جواز فراہم کررہے ہیں۔ انہیں اس حدیث سے سبق حاصل کرلینا چاہئے اور رسول اﷲﷺ کی اس سنت مبارکہ پر عمل کرنا چاہئے۔ آپﷺ نے غلاموں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کو سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:

’’وہ شخص جنت میں ہرگز نہیں جائے گا جو اپنے غلاموں کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے۔‘‘

صحابہ نے عرض کیا

’’یارسول اﷲﷺ کیا آپ نے ہمیں نہیں فرمایا تھا کہ آپﷺ کے عقیدت مندوں میں بہت سے غلام اور یتیم ہوں گے؟‘‘

آپ نے فرمایا

’’ہاں! تو تم لوگ ان کے ساتھ اپنے بچوں کی طرح مہربانی کرو اور انہیں کھانے میں وہ چیز دو جو تم خود کھاتے ہو‘‘

اسی طرح کی ایک دوسری حدیث میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، لہذا تم میں سے جس کسی کا بھائی اس پر منحصر ہو، اسے چاہئے کہ وہ اسے اسی طرح کھلائے پلائے اور اسے کپڑے پہنائے جس طرح کہ وہ اپنے آپ کو کھلاتا پلاتا اور کپڑے پہناتا ہے اور اس کے اوپر کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے، اگر تم ان سے کام لیتے ہو تو تم پر ضروری ہے کہ تم ان کی مدد کرو‘‘
(روایت: حضرت عبداﷲ ابن عمر، مسلم شریف)
رسول اﷲﷺ نے اپنی امت کو غلاموں کو آزاد کرنے کی خوب تلقین فرمائی۔ اگرچہ آزاد کرنے کے لئے کسی کو غلام خریدنا ہی کیوںنہ پڑے۔ یہ اﷲ کے یہاں بہت پسندیدہ عمل ہے۔ تاریخ اسلامی میں ایسے بہت سے مواقع آئے جب آپﷺ نے اور آپﷺ کے صحابہ نے آپ کی ترغیب پر غلاموں کی بڑی تعداد میں آزاد کیا۔ خود رسول اﷲﷺ نے ۶۳ غلاموں کو آزاد کیا اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے ۶۷ غلاموں کو آزاد کیا۔
 

Edited by Madni.Sms
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...