Jump to content

مشرکین بتوں میں اختیارات باذن و عطا الہی مانتے تھے؟


kashmeerkhan

تجویز کردہ جواب

ایک وہابی اہل حدیث کا اعتراض ہے کہ ’’تم لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ مشرکین مکہ اپنے جھوٹے خداؤں میں اختیارات باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے‘‘۔ مگر دیکھو کہ شاہ ولی اللہ نے فوز الکبیر میں ان مشرکوں کا ایسا عقیدہ بیان کیا ہے کہ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین باذن اللہ (یا اللہ کی عطا) کی قید لگا کر ہی اپنے الہوں کا اختیار مانتے تھے!! (ساتھ میں عربی و اردو دونوں متن لگا دیے ہیں)۔۔،۔

 

سیدی سعیدی صاحب نے واضح لکھا ہے اس لنک پر اور میں دوسری کئی کتابوں میں پڑھ چکا ہوں کہ مشرکین اپنے خود ساختہ معبودوں کا اختیار باذن اللہ نہیں مانتے تھے بلکہ من دون اللہ مانتے تھے:۔،۔

 

http://www.islamimehfil.com/topic/22597-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF%EF%B7%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%AF%D8%B9%D9%88%D8%AA-%D8%AA%D9%88%D8%AD%DB%8C%D8%AF-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B9%D8%B1%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D8%A7-%D8%B4%D8%B1%DA%A9/page-4#entry97745

 

برائے احسان جلد از جلد جواب دیجے کہ

1

شاہ ولی اللہ نے ایسا کیوں کہا ہے اور انکی مراد و

مطلب اگر یہ نہیں ہے جو وہابی نے الزام لگایا ہے تو بھی سچ بات بتائیں۔۔،۔،۔

2

 وہابی باذن اللہ کا لفظ نہیں دکھا سکا اس عبارت میں، کیا اس میں موجود اللہ کی عطا کا اور باذن اللہ کا ایک ہی معنی و مفہوم و حکم ہے۔

 

3

وہابی کا کہنا ہے کہ الفوز الکبیر میں لا یثبتون لاحد قدرۃ الممانعۃ اذ ابرم اللہ تعالی امرا مشرکین مکہ کسی کیلئے بھی ایسی قدرت کو ثابت نہیں کرتے تھے کہ اگر اللہ ایک فیصلہ کر لےتو وہ اللہ سے اختلاف اور جھگڑا کر سکتا ہےیوہابی کا کہنا ہے کہ مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے فیصلے کے بعد ان کے بتوں کو کوئی اختیار نہیں تو معلوم ہوا کہ فیصلے سے پہلے بھی وہ بتوں کا اختیار اللہ کی عطا سے ہی مانتے تھے، ورنہ اگر اللہ کی عطا سے نہیں مانتے تھے تو بعد از فیصلہ بھی بتوں کا اختیار مان جاتے۔

4

وہابی کہتا ہے کہ ’’ شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ جیسے بادشاہ اپنے نائب کو بااختیار بنا کر بھیجتا ہے‘‘ تو ثابت ہوا کہ مشرکین اپنے خداوں میں باذن اللہ اور بعطا اللہ کی قید سے ہی اختارات مانتے تھے۔

5

وہابی کا کہنا ہے کہ ’’شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ مشرک مانتے تھے کہا اللہ اپنے بعض بندوں کو خدائی صفات اور اختیارات عطا فرمائے ہے‘‘ تو ثابت ہوا کہ مشرکین اللہ کی عطا اور اللہ کے اذن سے ہی اپنے معبودوں کے خدائی اختیارات مانتے تھے۔

6

وہابی کا کہنا ہے کہ ’’شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ مشرکین کا ماننا تھا کہ تاکہ بادشاہ حقیقی کے دربار میں پذیرائی ہو‘‘ تو ثابت ہوا کہ مشرکین اپنے معبودوں کو حقیقی خدا بھی نہیں مانتے تھے اور اللہ کو ہی حقیقی خدا مانتے تھے۔

 

post-16911-0-96392100-1442600616_thumb.gif

 

 

post-16911-0-40908400-1442600626_thumb.gif

 

 

post-16911-0-75423300-1442600621_thumb.gif

Edited by kashmeerkhan
Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

7

کیا سیدی سعیدی مد ظلہ العالی کی اس پوسٹ کی ایک لائن میں میرے سوال کا جواب ہے؟؟

 

http://www.islamimehfil.com/topic/22597-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF%EF%B7%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%AF%D8%B9%D9%88%D8%AA-%D8%AA%D9%88%D8%AD%DB%8C%D8%AF-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B9%D8%B1%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D8%A7-%D8%B4%D8%B1%DA%A9/page-4#entry97775

 

وہ لائن یہ ہے:۔

جوچیزآپ نے پیش کی ہے۔وہ الوہیت اورالوہی اختیارات

کی عطاکاقول ہے۔اُن میں باذن اللہ کی قیدکہیں بھی نہیں ہے

جوآپ اُن پرجھوٹ کے طورپرتھوپ رہے ہیں۔

مسلمان جب نبی یاولی کے لئے خداداداختیارمانتاہے تووہ اُس کے ساتھ یہ بھی مانتاہے کہ

یہ اختیار اللہ کے اذن کے بغیر،اللہ کے امرکے بغیر،اللہ کے حکم بغیر استعمال نہیں ہوسکتا،اُس

کے امرکے بغیرپرندہ  بھی پرنہیں مارسکتا۔

8

میرے سید سعیدی صاحب نے اسی اوپری ٹوپک میں فرمایا ایک پوسٹ میں کہ:۔۔،۔

 

مشرکین کااپنے معبودوں کے لئے اُلوہیت اوراُلوہی اختیارماننا اسے استقلال مانناہی توہے۔

آپ اگر مشرکین  کی بے دام وکالت اورنمائندگی  کا شوق پورا کرنےکے لئے

رانا صاحب کی تحریرسے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ

مشرکین اپنے معبودوں کے لئے ایسااختیارمانتے تھے جو

اللہ کاعطاکردہ ہونے کے ساتھ باذن اللہ کی قیدسے مقید ہوتا۔توپیش کروورنہ اپنی غلط فہمی دور کرو۔

 

۔مجھے یہ جاننا ہے  کہ اگر کوئی بندہ کسی بت میں اختیارات کو اللہ کی عطا سے مانے مگر اللہ کے اذن سے نہ مانے تو کیا اب یہ شرک ہوگا؟؟؟

 

9

مشرکین اپنے جھوٹے خداوں میں اختیارات اللہ کی عطا سے مقید مانتے تھے یا نہیں؟

اگر کوئی شخص اپنے جھوٹے معبودوں میں اختیارات اللہ کے اذن سے ماننے کا یقین رکھے مگر اللہ کی عطا سے نہیں تو اب یہ شرک ہوگا؟؟

Edited by kashmeerkhan
Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

ان کا بھی بتا دیں اسی حوالےسے کو اوپر پوچھا گیا۔۔

10

اگر بت کے اختیار اذن الہی سے مانے کوئی شخص تو کافر ہوگا یا مشرک یا دونوں؟

11

اس کتاب کی ایک دو انڈر لائنڈ سطروں سے تو وہابی ہم پر اعتراض کر سکتا ہے کہ دیکھو مشرکین نے اپنے جھوٹے معبودوں کیلئے یہ مانا کہ ’’اللہ نے انکو الوہیت دے دی‘‘۔ اس عبارت کا کیا مفاد ہے (کہ الوہیت اللہ کی عطا سے مانتے تھے وہ لوگ یا اللہ کے اذن سے) اور لعینوں وہابیوں کو کیا جواب دیں اسکا؟؟

12

ہم جب کہتے ہیں کہ ’’مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں میں اختیارات کو اللہ کے اذن کی قید کے بغیر مانتے تھے‘‘ تو اسمیں اختیارات سے مراد کونسے اختیارات ہیں؟ ذاتی یا عطائی؟؟

13

اگر کوئی بندہ کسی بت میں ذاتی اختیارات کو اللہ کے اذن کی قید سے مقید مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟

14

اگر کوئی بندہ کسی بت میں ذاتی اختیارات کو اللہ کے اذن کی قید سے مقید نہ مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟

15

اگر کوئی بندہ کسی بت میں ذاتی اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟

16

اگر کوئی بندہ کسی بت میں ذاتی اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید نہ مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟

17

اگر کوئی بندہ کسی بت میں عطائی اختیارات کو اللہ کے اذن کی قید سے مقید مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟

18

اگر کوئی بندہ کسی بت میں عطائی اختیارات کو اللہ کے اذن کی قید سے مقید نہ مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟

19

اگر کوئی بندہ کسی بت میں عطائی اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟

20

اگر کوئی بندہ کسی بت میں عطائی اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید نہ مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟

 

 

 

 

کتاب کا نام: توحید و شرک     لعلامہ کاظمی شاہ صاحب علیہ الرحمہ

post-16911-0-48870800-1442603749_thumb.gif

post-16911-0-39630900-1442603756_thumb.gif

post-16911-0-31697700-1442603762_thumb.gif

Edited by kashmeerkhan
Link to comment
Share on other sites

 

محترم کشمیر خان صاحب

اس تمام تر مواد کے بعد اگر آپ اپنے سوالات علیحدہ سے نمبر وار لکھ دیں تو ان پر کلام کرنے میں آسانی ہو گی۔

 

جزاک اللہ خیرا۔

ویسے تو اس سے متعلقہ سوالات میں نے ایک اور ٹاپک میں بھی لکھ رکھے ہیں، اسکا لنک یہ ہے:

http://www.islamimehfil.com/topic/23693-%D8%B4%D8%B1%DA%A9-%DA%A9%DB%92-%D8%AD%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%92-%D8%B3%DB%92-%D8%A7%DB%81%D9%84%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%B9%D8%AA%D8%B1%D8%A7%D8%B6%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%D8%B1%DB%92-%D8%B3%D9%88/

 

باقی اس موجودہ ٹوپک میں میرے سوالوں میں سے یہ ہیں جو ذہن میں آ رہے ہیں: ان کو نمبر وار ہر پوسٹ میں بیان کر دیا ہے۔

اہل علم حضرات میری علمی و ذہنی کمزوری سے درگذر فرمائیں اور احسان فرما کر میری الجھن سلجائیں۔۔

Link to comment
Share on other sites

مختصراً کچھ گزارشات پیش خدمت ہیں۔

 

1

شاہ ولی اللہ نے ایسا کیوں کہا ہے اور انکی مراد و مطلب اگر یہ نہیں ہے جو وہابی نے الزام لگایا ہے تو بھی سچ بات بتائیں۔۔،۔،۔

 

مذکورہ الزام یا تو وہابی کا مکر ہے، یا محض جہالت۔ شاہ ولی اللہ کی نقل کردہ عبارت میں ایسا کچھ نہیں جس سے اہلسنت پر کوئی اعتراض وارد ہوتا ہو۔ اس عبارت میں موجود ان جملوں پر غور فرمائیں

 

ظاہر ہے کہ بادشاہ ہر جگہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر خود توجہ نہیں دے سکتا، اس لیے وہ اپنے ماتحتوں کو اختیار دے دیتا ہے کہ وہ جس طرح مناسب سمجھیں کام کریں۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو خدائی صفات اور اختیارات عطا فرماتے ہیں جن کی خوشنودی اور ناراضی کا اثر عام لوگوں پر پڑتا ہے۔

ان کو خدائی اختیارات میں شریک مانتے تھے، انہوں نے خاص بندوں کی پوجا کے لیے پتھر، لکڑی، لوہے اور بعض دھاتوں کے بت بنا رکھے تھے۔

 

ملاحظہ فرمائیے، مشرکین خدا کو چھوٹے چھوٹے معاملات پر توجہ دینے سے عاجز جانتے تھے۔ جبکہ اہلسنت ذات و صفات باری تعالیٰ کو ہر قسم کے نقص و عیب اور عجز سے پاک و منزّیٰ مانتے ہیں۔ تو حق کو باطل پر قیاس کرتے ہوئے وہابی کے لگائے الزام کی کیا حیثیت؟

اسی طرح مشرکین بندوں کے لیے خدائی صفات اور اختیارات کی عطا کا عقیدہ رکھتے تھے، جبکہ اہلسنت کے نزدیک خدائی صفات عطائی ہو ہی نہیں سکتیں۔ وہابی صاحب بتائیں، انہیں خدائی صفات اور خداداد صفات کے مابین فرق معلوم ہے؟ اگر نہیں معلوم تو کس قابلیت کے زعم میں دوسروں پر الزام دھرتے ہیں؟

یونہی، مشرکین ناصرف غیر اللہ کو خدائی اختیارات میں شریک مانتے تھے، بلکہ ان کی عبادت بھی کرتے تھے۔ جبکہ اہلسنت کا قطعی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں شرکت سے مکمل طور پر پاک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ان دونوں باتوں میں وہابی کو کون سی یکسانیت نظر آئی کہ اہلسنت پر الزام دھر دیا؟ کیا بصیرت سے محروم وہابی کی بصارت بھی سلامت نہیں؟

 

2

 وہابی باذن اللہ کا لفظ نہیں دکھا سکا اس عبارت میں، کیا اس میں موجود اللہ کی عطا کا اور باذن اللہ کا ایک ہی معنی و مفہوم و حکم ہے۔

 

وہابی مجنون کو اتنی بھی تمیز نہیں کہ نقل کردہ عبارت میں مشرکین کا نظریہ بیان ہو رہا ہے نہ کہ اسلامی عقیدہ۔ فرض کیجئے، اگر اس میں باذن اللہ کا لفظ دکھا بھی دیتا تو کیا فرق پڑتا؟ زیادہ سے زیادہ اس کا مفاد یہ ہوتا کہ بقول مشرکین، اللہ تعالیٰ نے بتو ں وغیرہ کو خدائی صفات و اختیارات عطا کر دیے ہیں جن کا استعمال وہ باذن اللہ کرتے ہیں۔ حالانکہ اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ خدائی صفات کا عطا ہونا ممکن ہی نہیں، بلکہ ایسا محال قطعی ہے کہ اذن الٰہی اس سے متعلق ہو ہی نہیں سکتا۔ اور جو عطا ہو جائے، وہ صفت خاصہ خدا نہیں۔ تو مشرکین کا فساد عقیدہ یہیں سے عیاں ہو گیا، اور اس فاسد عقیدے پر قیاس کرتے ہوئے اہلسنت کے اعتقاد پر الزام دھرنے سے وہابیہ کی جہالت بھی واضح ہو گئی۔

 

3

وہابی کا کہنا ہے کہ الفوز الکبیر میں لا یثبتون لاحد قدرۃ الممانعۃ اذ ابرم اللہ تعالی امرا مشرکین مکہ کسی کیلئے بھی ایسی قدرت کو ثابت نہیں کرتے تھے کہ اگر اللہ ایک فیصلہ کر لےتو وہ اللہ سے اختلاف اور جھگڑا کر سکتا ہےیوہابی کا کہنا ہے کہ مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے فیصلے کے بعد ان کے بتوں کو کوئی اختیار نہیں تو معلوم ہوا کہ فیصلے سے پہلے بھی وہ بتوں کا اختیار اللہ کی عطا سے ہی مانتے تھے، ورنہ اگر اللہ کی عطا سے نہیں مانتے تھے تو بعد از فیصلہ بھی بتوں کا اختیار مان جاتے۔

 

کمال ہے۔ بقول شاہ صاحب، مشرکین تو خود اللہ تعالیٰ کو (معاذ اللہ) عاجز مانتے تھے، جو چھوٹے چھوٹے معاملات پر خود توجہ نہیں دے سکتا، جبکہ وہابی صاحب ان کی وکالت میں جتے ہیں۔ پھر ایک طرف کہتے ہیں کہ مشرکین کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے ان کے جھوٹے معبودوں کو خدائی صفات اور اختیارات دے دیے ہیں، تو دوسری طرف ان کی صفائی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے بقول اللہ کے فیصلے کے بعد ان بتوں کو کوئی اختیار نہیں۔ کیا وہابیہ کے نزدیک خدائی اختیار اسی کو کہتے ہیں جو کسی غیر کے فیصلے کے تحت یا اس کا محتاج ہو؟ اگر نہیں، تو پھر دوسروں پر الزام تراشی سے قبل مشرکین کے نظریات بارے خود تو کسی حتمی نتیجے پر پہنچ جائیں۔

 

4

وہابی کہتا ہے کہ ’’ شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ جیسے بادشاہ اپنے نائب کو بااختیار بنا کر بھیجتا ہے‘‘ تو ثابت ہوا کہ مشرکین اپنے خداوں میں باذن اللہ اور بعطا اللہ کی قید سے ہی اختارات مانتے تھے۔

 

شاہ صاحب نے لکھا کہ بادشاہ ہر جگہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر توجہ نہیں دے سکتا، اس بنا پر وہ اپنے ماتحتوں کو اختیار دے دیتا ہے کہ وہ جس طرح مناسب سمجھیں کام کریں۔ اس میں ایک طرف تو ذات باری تعالیٰ کے حق میں عجز کا اظہار ہے، مزید برآں جس طرح مناسب سمجھیں کے الفاظ میں اذن الٰہی کی پابندی کی بھی نفی ہو رہی ہے۔ مگر وہابی صاحب کی موٹی عقل میں اتنی واضح اور صریح بات نہیں سما سکی۔ اس عبارت کی روشنی میں وہابیہ کس طرح یہ استدلال کر سکتے ہیں کہ مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں کے اختیارات کے تحت اذن الٰہی ہونے کے قائل تھے۔ حیرت ہے۔

 

5

وہابی کا کہنا ہے کہ ’’شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ مشرک مانتے تھے کہا اللہ اپنے بعض بندوں کو خدائی صفات اور اختیارات عطا فرمائے ہے‘‘ تو ثابت ہوا کہ مشرکین اللہ کی عطا اور اللہ کے اذن سے ہی اپنے معبودوں کے خدائی اختیارات مانتے تھے۔

 

آفرین ہے وہابی کی لیاقت پر۔ شاہ صاحب نے لکھا کہ مشرک مانتے تھے کہ اللہ نے اپنے بعض بندوں کو خدائی صفات اور اختیارات عطا فرمائے ہیں۔ بس، وہابی کے نزدیک ثابت ہو گیا کہ مشرکین اللہ کی عطا اور اس کے اذن سے ہی اپنے معبودوں کے خدائی اختیارات مانتے تھے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس سے وہابی کو حاصل کیا ہوا؟ وہابیہ کے نزدیک اسلامی نظریات معتبر ہیں یا پھر مشرکین کے جھوٹے دعوے؟ ہم پھر پوچھتے ہیں، وہابیہ کے نزدیک خدائی اختیارات کیا عطائی ہو سکتے ہیں؟ کیا اہلسنت نے کبھی کہیں یہ دعوی کیا کہ وہ انبیاء و اولیاء کے لیے خدائی صفات کی عطا کا  نظریہ رکھتے ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر وہابیہ دن کو رات پر قیاس کرتے ہوئے کیا ثابت کرنے چلے ہیں؟

 

6

وہابی کا کہنا ہے کہ ’’شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ مشرکین کا ماننا تھا کہ تاکہ بادشاہ حقیقی کے دربار میں پذیرائی ہو‘‘ تو ثابت ہوا کہ مشرکین اپنے معبودوں کو حقیقی خدا بھی نہیں مانتے تھے اور اللہ کو ہی حقیقی خدا مانتے تھے۔

 

اگر اپنے معبودوں کو کے الفاظ وہابی کے ہیں، تو ایک مرتبہ پھر اس کی فہم و فراست پر چار حرف۔ ایک شخص مٹی کے کسی ڈھیلے کو حقیقی خدا نہ سمجھے مگر اس کی عبادت کو جائز مانے تو کیا یہ شرک نہیں؟ یہاں اصل وجہ شرک اس مٹی کے ڈھیلے کو مستحق عبادت سمجھنا ہے، حقیقی خدا نہ سمجھنا اس شرک سے بچا نہیں سکتا۔ مگر وہابی کی اوندھی عقل اسے غیر متعلق بات کی طرف ہی رہنمائی کرے گی۔


7

کیا سیدی سعیدی مد ظلہ العالی کی اس پوسٹ کی ایک لائن میں میرے سوال کا جواب ہے؟؟

 

http://www.islamimeh...ge-4#entry97775

 

وہ لائن یہ ہے:۔

جوچیزآپ نے پیش کی ہے۔وہ الوہیت اورالوہی اختیارات کی عطاکاقول ہے۔اُن میں باذن اللہ کی قیدکہیں بھی نہیں ہے جوآپ اُن پرجھوٹ کے طورپرتھوپ رہے ہیں۔

مسلمان جب نبی یاولی کے لئے خداداداختیارمانتاہے تووہ اُس کے ساتھ یہ بھی مانتاہے کہ یہ اختیار اللہ کے اذن کے بغیر،اللہ کے امرکے بغیر،اللہ کے حکم بغیر استعمال نہیں ہوسکتا،اُس کے امرکے بغیرپرندہ  بھی پرنہیں مارسکتا۔

 

حضرت قبلہ سعیدی صاحب کا کلام بالکل واضح ہے۔ اس میں اختیارات کی عطا اور اس کے استعمال دونوں میں اذن باری تعالیٰ کی قید ذکر کی گئی ہے، اور یہی حق اور اہلسنت کا عقیدہ ہے۔

 

8

میرے سید سعیدی صاحب نے اسی اوپری ٹوپک میں فرمایا ایک پوسٹ میں کہ:۔۔،۔

 

مشرکین کااپنے معبودوں کے لئے اُلوہیت اوراُلوہی اختیارماننا اسے استقلال مانناہی توہے۔ آپ اگر مشرکین  کی بے دام وکالت اورنمائندگی  کا شوق پورا کرنےکے لئے رانا صاحب کی تحریرسے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ مشرکین اپنے معبودوں کے لئے ایسااختیارمانتے تھے جو اللہ کاعطاکردہ ہونے کے ساتھ باذن اللہ کی قیدسے مقید ہوتا۔ تو پیش کرو ورنہ اپنی غلط فہمی دور کرو۔

 

۔مجھے یہ جاننا ہے  کہ اگر کوئی بندہ کسی بت میں اختیارات کو اللہ کی عطا سے مانے مگر اللہ کے اذن سے نہ مانے تو کیا اب یہ شرک ہوگا؟؟؟

 

جی بالکل یہ شرک ہو گا۔ ایک بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ جو صفت ذاتی ہو گی، وہی مستقل ہو گی کہ اس کا فنا ہونا اور کسی غیر کے اذن کے تحت ہونا محال۔ اور جو عطائی ہو گی، وہ ہمیشہ غیر مستقل ہو گی، ممکن الفنا اور محتاج اذن۔ کسی صفت کو اذن الٰہی کے تحت نہ ماننا اسے مستقل ماننا ہے، اللہ کی عطا کا قول محض دھوکہ و فریب یا پھر  خود فریبی ہے۔

 

9

مشرکین اپنے جھوٹے خداوں میں اختیارات اللہ کی عطا سے مقید مانتے تھے یا نہیں؟

اگر کوئی شخص اپنے جھوٹے معبودوں میں اختیارات اللہ کے اذن سے ماننے کا یقین رکھے مگر اللہ کی عطا سے نہیں تو اب یہ شرک ہوگا؟؟

 

اللہ کی عطا کے بغیر مانا جائے تو ایسا اختیار ذاتی ہو گا جو صریح شرک ہے، اذن کے تحت ماننے کا دعوی کچھ مفید نہیں۔ بلکہ ایسا دعوی سرے سے لغو ہے، کہ جس اختیار کے حصول میں غیر کی احتیاج نہیں اس کے استعمال میں اذن کی پابندی چہ معنی؟


ان کا بھی بتا دیں اسی حوالےسے کو اوپر پوچھا گیا۔۔

10

اگر بت کے اختیار اذن الہی سے مانے کوئی شخص تو کافر ہوگا یا مشرک یا دونوں؟

 

شرک ہمیشہ کفر بھی ہوتا ہے مگر ہر کفر کا شرک ہونا ضروری نہیں۔ کسی بت میں اختیار اگر اللہ کی عطا سے مانا اور اس کے استعمال کو بھی اذن الٰہی کے تحت مانا تو اگرچہ یہ شرک نہ ہو، نصوص قطعیہ کی روشنی میں کفر ضرور ہے۔ استحقاق جہنم ازراہ کفر ہو یا شرک، دونوں طرح قطعاً ثابت ہے۔

 

11

اس کتاب کی ایک دو انڈر لائنڈ سطروں سے تو وہابی ہم پر اعتراض کر سکتا ہے کہ دیکھو مشرکین نے اپنے جھوٹے معبودوں کیلئے یہ مانا کہ ’’اللہ نے انکو الوہیت دے دی‘‘۔ اس عبارت کا کیا مفاد ہے (کہ الوہیت اللہ کی عطا سے مانتے تھے وہ لوگ یا اللہ کے اذن سے) اور لعینوں وہابیوں کو کیا جواب دیں اسکا؟؟

 

وہابی کو اگر اپنی جہالت کی تشہیر کا شوق ہو تو ضرور اعتراض کرے۔ جواب میں اسے بتائیں کہ الوہیت کی عطا کا عقیدہ مشرکین کا تھا اور یہ دعوی باطل محض تھا۔ اہلسنت جب عطائے الوہیت ہی کو محال قطعی مانتے ہیں تو پھر ان پر اعتراض کس بنا پر؟ اور وہ بھی مشرکین کے باطل دعوے پر قیاس کرتے ہوئے، اہلسنت جس کے صریح مخالف ہیں؟

 

12

ہم جب کہتے ہیں کہ ’’مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں میں اختیارات کو اللہ کے اذن کی قید کے بغیر مانتے تھے‘‘ تو اسمیں اختیارات سے مراد کونسے اختیارات ہیں؟ ذاتی یا عطائی؟؟

 

جیسا کہ پہلے عرض کیا، جو اختیار محتاج اذن نہ ہو وہ درحقیقت ذاتی ہوتا ہے، اگرچہ کوئی اسے عطائی کے نام سے موسوم کرتا پھرے۔ تو جس نے کسی غیر اللہ کے لیے مستقل اختیار کا دعوی کیا، اس نے درحقیقت شرک کیا، پھر چاہے اس کا حصول اللہ کی عطا سے بتائے۔ سفید کو سیاہ کہہ دینے سے اس کی حقیقت نہیں بدل جاتی۔

 

13

اگر کوئی بندہ کسی بت میں ذاتی اختیارات کو اللہ کے اذن کی قید سے مقید مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟

 

جب ذاتی مانا، پھر اذن کی قید محض لغو ہے۔ یہ یقیناً شرک ہو گا۔

 

14

اگر کوئی بندہ کسی بت میں ذاتی اختیارات کو اللہ کے اذن کی قید سے مقید نہ مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟

 

اس کے شرک ہونے میں کسے شبہ ہو سکتا ہے؟

 

15

اگر کوئی بندہ کسی بت میں ذاتی اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟

 

یہ تو اجتماع نقیضین ہوا۔ اگر ذاتی مانا تو پھر عطا کی قید کہاں سے آ گئی، اور اگر عطائی مانا تو پھر ذاتی کیونکر کہہ سکتے ہیں؟

 

16

اگر کوئی بندہ کسی بت میں ذاتی اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید نہ مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟

 

ظاہر ہے کہ جب ذاتی مانا تو عطا کی قید سے مقید نہ ماننا ہی لازم آتا ہے، اور اس کا شرک ہونا ظاہر تر۔

 

17

اگر کوئی بندہ کسی بت میں عطائی اختیارات کو اللہ کے اذن کی قید سے مقید مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟

 

عطائی بھی کہے اور تحت اذن بھی، تو اسے شرک نہیں کہیں گے، مگر بت میں اختیار ماننا کفر سے کیونکر بچائے گا کہ نصوص قطعیہ سے اس کا کفر ہونا ثابت۔ اور یہ بھی تب ہے کہ صرف اختیار عطائی غیر مستقل مانے، بت کے لیے استحقاق عبادت وغیرہ کا قائل نہ ہو۔

 

18

اگر کوئی بندہ کسی بت میں عطائی اختیارات کو اللہ کے اذن کی قید سے مقید نہ مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟

 

شرک ہو گا کہ یہ اختیار کا مستقل ماننا ہے، اور استقلال ہمیشہ ذاتی اختیار میں ہوتا ہے۔ اسے عطائی کہنا لغو ہے۔

 

19

اگر کوئی بندہ کسی بت میں عطائی اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟

 

عطائی مانا تو شرک نہیں، مگر کفر پھر بھی ہے کہ قطعی نصوص کی مخالفت ہے۔

 

20

اگر کوئی بندہ کسی بت میں عطائی اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید نہ مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟

 

یہ بھی عقلاً محال ہے۔ اگر عطائی ہے تو عطا کی قید سے مقید نہ ماننے کا کچھ مطلب نہیں بنتا۔ 

Edited by Ahmad Lahore
Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

جزاک اللہ خیرا و احسن الجزا


جناب احمد بھائی۔۔۔۔ اللہ عزوجل آپکو سلامت رکھے اور آپکی جائز تمنائیں پوری کرے۔


دل خوش کر دیا آپ کے مبارک جوابات نے۔۔۔ ماشاء اللہ


میں سمجھ سکتا ہوں کہ مصروفیت کے باعث آپکو کافی دقت ہوئی ہوگی اور میری پوری سوری عقل اور انداز نے ٹوپک کومزید پیچیدہ بنا دیا مگر میں مجبور ہوں کہ دیگر فی الحال کوئی ذریعہ نہیں ایسے سوالوں کے جواب کا۔ 


۔۔۔۔۔۔


میں حتی الامکان کوشش کر کے آپکے جوابات کو بار بار پڑھ کر کافی حد تک سمجھ گیا ہوں وہابی کا مکر اور مشرکین کا شرک۔۔


صرف یہ چند باتیں مجھے صحیح سمجھ نہیں آئیں اور ساتھ ایک دو اور، اس لیے دوبارہ آپکو زحمت دیتا ہوں۔


میں پر امید ہوں کہ ان کے جوابات کے بعد آپکو زحمت نہیں دوں گا۔۔۔۔ بہت زیادہ شکریہ اور ساتھ میں معذرت تکلیف کیلئے۔


21


 پانچویں سوال جواب سے متعلق:۔،۔


آپ کا کلام:۔،۔


وہابی کے نزدیک ثابت ہو گیا کہ مشرکین اللہ کی عطا اور اس کے اذن سے ہی اپنے معبودوں کے خدائی اختیارات مانتے تھے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس سے وہابی کو حاصل کیا ہوا؟


​میں کہتا ہوں:۔،۔


میں نے وہابیوں کے فورم پر دعوی کیا تھا کہ ’’مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں کے اختیارات کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے۔ تمام اہلحدیثو کو چیلنج کہ کوئی ایک آیت یا حدیث اسکے رد پر لائیں‘‘۔


اس پر وہ سیخ پا تو بہت ہوئے مگر کوئی دلیل اسکے رد پر پیش نہیں کر سکے سوائے ایک حدیث (جسمیں مشرکین تلبیہ پڑھتے ہوئے اپنے من گھڑت خداوں کو مملوک مانتے تھے) اور یہ شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کی عبارت۔ اس پر مجھے یہ کہنا ہے کہ:۔،۔


شاہ صاحب کی عبارت سے مشرکین کا اپنے بتوں کے اختیارات کا اللہ کی عطا سے ہونے کا عقیدہ مذکور ہے۔ اگر وہابی مشرکوں کے عقیدہ عطائے اختیارات کی عبارت سے یہ کہے کہ ’’اس عبارت سے مشرکین کا اپنے بتوں کیلئے اختیارات ماننا باذن اللہ کی قید سے مقید ہے کیونکہ وہ ان کے اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید مان رہے ہیں‘‘۔ تو اب وہابی کو کیا جواب دیں اسکا؟


22


 ساتویں سوال جواب کے تعلق سے:۔،۔


​آپ کا کلام:۔،۔


اس میں اختیارات کی عطا اور اس کے استعمال دونوں میں اذن باری تعالیٰ کی قید ذکر کی گئی ہے، اور یہی حق اور اہلسنت کا عقیدہ ہے۔


میں کہتا ہوں:۔،۔


اسکا معنی و مفہوم یہ بھی ہے یا نہیں کہ ’’شرک اس صورت میں بھی ہوگا جب اختیار کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہ مانا جائے چاہے اس اختیار کا استعمال باذن اللہ کے ساتھ مانا جائے۔ اس صورت میں بھی شرک ہوگا اگر اختیارات کی عطا کو تو باذن اللہ کی قید سے مقید مانا جائے مگر ان اختیارات کا استعمال باذن اللہ کی قید سے مقید نہ مانا جائے‘‘۔


23


یہ جو میں نے دعوی کیا تھا ان اہلحدیثوں کے فورم پر کہ ’’مشرکین اپنے بتوں کا اختیار باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے‘‘ اور ہے بھی ایسے ہی جیسے علامہ سیدی سعیدی صاحب نے متعلقہ ٹوپک میں کئی جگہ فرمایا ہے،


تو


اس حوالے سے یہ دو باتیں پوچھنی ہیں مجھے


ایک


اس دعوی میں کیا مراد ہے کہ کیا مشرکین ان اختیارات کی عطا کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے یا ان اختیارات کے استعمال کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے یا دونوں (عطا بھی اور استعمال بھی) کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے؟


دو


ہم جب کہتے ہیں کہ مشرکین کا ایک شرک یہ تھا کہ اپنے بتوں میں اختیارات کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے۔ تو ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جو اختیارات عطا کیے جانے کے قابل ہیں (یعنی غیر ذاتی یا غیر الوہی اختیارات)، انکو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے (کیونکہ اگر ذاتی اختیارات کو چاہے باذن اللہ کی قید سے مقید بھی مانتے تو بھی شرک ہی تھا۔ اور اگر عطائی اختیارات کو اپنے بتوں میں باذن اللہ کی قید سے مقید مانتے تو اس صورت میں کفر تو ہوتا مگر شرک نہیں)؟؟


تین


اگر کوئی اپنے بتوں کو الوہیت کا عطا کیا جانا باذن اللہ کی قید سے مقید مانے (اگر چہ ایسا ماننا حقیقت میں ناممکن ہے مگر مشرکین کی جہالت سے یہ بھی بعید نہیں) تو ایسی صورت میں وہ شخص مشرک ہو جائے گا یا نہیں؟


چار


کیا اس دعوی کہ ’’مشرکین اپنے بتوں کے اختیارات کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے‘‘ کو اگر اس طرح بنا دیں کہ ’’مشرکین اپنے بتوں کے اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے‘‘ تو اسطرح کرنے سے کوئی فرق پڑے گا دعوی پر یا نہیں؟


Edited by kashmeerkhan
Link to comment
Share on other sites

میں نے وہابیوں کے فورم پر دعوی کیا تھا کہ ’’مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں کے اختیارات کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے۔ تمام اہلحدیثو کو چیلنج کہ کوئی ایک آیت یا حدیث اسکے رد پر لائیں‘‘۔


اس پر وہ سیخ پا تو بہت ہوئے مگر کوئی دلیل اسکے رد پر پیش نہیں کر سکے سوائے ایک حدیث (جسمیں مشرکین تلبیہ پڑھتے ہوئے اپنے من گھڑت خداوں کو مملوک مانتے تھے) اور یہ شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کی عبارت۔ اس پر مجھے یہ کہنا ہے کہ:۔،۔


شاہ صاحب کی عبارت سے مشرکین کا اپنے بتوں کے اختیارات کا اللہ کی عطا سے ہونے کا عقیدہ مذکور ہے۔ اگر وہابی مشرکوں کے عقیدہ عطائے اختیارات کی عبارت سے یہ کہے کہ ’’اس عبارت سے مشرکین کا اپنے بتوں کیلئے اختیارات ماننا باذن اللہ کی قید سے مقید ہے کیونکہ وہ ان کے اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید مان رہے ہیں‘‘۔ تو اب وہابی کو کیا جواب دیں اسکا؟


 


آپ کے مطالبے کے باوجود وہابیہ کا دلیل پیش نہ کرنا بذات خود اعتراف عجز ہے۔ رہا شاہ صاحب کی عبارت کا معاملہ، تو ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ وہابیہ مشرکین کے نظریات کی جو توضیحات پیش کر رہے ہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح ان نظریات پر قیاس کرتے ہوئے عقائد اہلسنت کا شرکیہ ہونا ثابت کیا جائے۔  مگر شاہ صاحب کی عبارت کی روشنی میں ان کی یہ مزموم کوشش کسی طرح بارآور نہیں ہو سکتی۔اس کی وجہ یہ کہ مشرکین کا اپنے بتوں کے لیے باذن اللہ کی قید سے مقید اختیارات ماننے کا دعوی عقلاً، نقلاً، شرعاً ہر طرح غلط اور جھوٹا ہے۔


سورہ الانعام آیت 108 میں فرمان ہے


اور ان کو گالی نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ اللہ کی شان میں بےادبی کریں گے زیادتی اور جہالت سے۔ یونہی ہم نے ہر امت کی نگاہ میں اس کے عمل بھلے کر دیے ہیں پھر انہیں اپنے رب کی طرف پھرنا ہے اور وہ انہیں بتا دے گا جو کرتے تھے۔


قرآن شہادت دے رہا ہے کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے خالق حقیقی ہونے کا دعوی تو ضرور کرتے تھے مگر وہ اپنے دعوے میں جھوٹے تھے، اگر سچے ہوتے تو اپنے جھوٹے معبودوں سے چڑ کر خالق حقیقی کی شان میں گستاخی کرتے؟


اسی سورہ کی آیت 136 بھی ملاحظہ ہو


اور اللہ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کئے ان میں اسے ایک حصہ دارٹھہرایا تو بولے یہ اللہ کا ہے ان کے خیال میں اور یہ ہمارے شریکوں کا، تو وہ جو ان کے شریکوں کا ہے وہ تو خدا کو نہیں پہنچتا اور جو خدا کا ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچتا ہے، کیا ہی برا حکم لگاتے ہیں۔


اس آیت کریمہ کی معتبر تفاسیر کی روشنی میں یہ بات مکمل طور پر عیاں ہو جائے گی کہ مشرکین کی نظر میں ان کے بتوں کی اہمیت خدائے بزرگ و برتر سے کہیں بڑھ کر تھی۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ مشرکین کا عطائے الٰہی یا اذن الٰہی کا دعوی محض دکھاوا تھا، جھوٹ تھا۔ مگر وہابیہ ہیں کہ قرآن کی گواہی کو نظر انداز کر کے مشرکین کی توحید کے حق میں دلائل ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں۔ مشرکین کی توحید کے حق میں دلائل؟؟ ان سے ایسی ہی مضحکہ خیزی کی توقع کی جا سکتی ہے۔


پھر مشرکین اختیارات کی فقط عطا کے نہیں، ان میں شرکت کے دعویدار تھے، جسے شاہ صاحب نے بھی بیان کیا ہے، اور شرکت اذن کی محتاج نہیں۔ شاہ صاحب کے الفاظ دوبارہ ملاحظہ فرمائیں کہ  


ظاہر ہے کہ بادشاہ ہر جگہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر خود توجہ نہیں دے سکتا، اس لیے وہ اپنے ماتحتوں کو اختیار دے دیتا ہے کہ وہ جس طرح مناسب سمجھیں کام کریں۔


کیا اس سے اذن الٰہی کی قید کے دعوے کا بطلان ثابت نہیں ہوتا؟


مزید یہ کہ شاہ صاحب کی نقل کردہ تحریر میں صراحت کے ساتھ مشرکین کے اس دعوے کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے فرضی معبودوں کو خلعت الوہیت عطا کر دی ہے۔ حالانکہ یہ بات قطعی ہے کہ الوہیت عطائی ہو ہی نہیں سکتی۔ کیا وہابیہ ایسا ممکن سمجھتے ہیں؟ حاصل کلام یہ کہ مشرکین نے الوہیت کی عطا کا فاسد نظریہ اختیار کیا، اور وہابیہ بنائے فاسد علی الفاسد کے ذریعے اہلسنت کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں۔ یہ ان کا اندھا پن نہیں تو اور کیا ہے؟


 


اسکا معنی و مفہوم یہ بھی ہے یا نہیں کہ ’’شرک اس صورت میں بھی ہوگا جب اختیار کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہ مانا جائے چاہے اس اختیار کا استعمال باذن اللہ کے ساتھ مانا جائے۔ اس صورت میں بھی شرک ہوگا اگر اختیارات کی عطا کو تو باذن اللہ کی قید سے مقید مانا جائے مگر ان اختیارات کا استعمال باذن اللہ کی قید سے مقید نہ مانا جائے‘‘۔


 


غیر اللہ کے اختیارات میں اذن الٰہی کی نفی سے شرک کا اثبات ہوتا ہے۔


 


یہ جو میں نے دعوی کیا تھا ان اہلحدیثوں کے فورم پر کہ ’’مشرکین اپنے بتوں کا اختیار باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے‘‘ اور ہے بھی ایسے ہی جیسے علامہ سیدی سعیدی صاحب نے متعلقہ ٹوپک میں کئی جگہ فرمایا ہے،


تو


اس حوالے سے یہ دو باتیں پوچھنی ہیں مجھے


ایک


اس دعوی میں کیا مراد ہے کہ کیا مشرکین ان اختیارات کی عطا کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے یا ان اختیارات کے استعمال کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے یا دونوں (عطا بھی اور استعمال بھی) کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے؟


 


غیر اللہ میں اختیار بے عطائے الٰہی مانا جائے، اس اختیار کا استعمال بے اذن الٰہی مانا جائے یا حصول اختیار اور اس کا استعمال دونوں بے عطائے الٰہی مانے جائیں، ہر طرح شرک ہے۔ اور مشرکین تو اختیارات کے علاوہ بتوں کے لیے الوہیت اور استحقاق عبادت کے بھی معتقد تھے۔ غرض شرک کی وہ کون سی قسم ہے جس میں وہ مبتلا نہ تھے۔


 


دو


ہم جب کہتے ہیں کہ مشرکین کا ایک شرک یہ تھا کہ اپنے بتوں میں اختیارات کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے۔ تو ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جو اختیارات عطا کیے جانے کے قابل ہیں (یعنی غیر ذاتی یا غیر الوہی اختیارات)، انکو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے(کیونکہ اگر ذاتی اختیارات کو چاہے باذن اللہ کی قید سے مقید بھی مانتے تو بھی شرک ہی تھا۔ اور اگر عطائی اختیارات کو اپنے بتوں میں باذن اللہ کی قید سے مقید مانتے تو اس صورت میں کفر تو ہوتا مگر شرک نہیں)؟؟


 


مشرکین ہر طرح کے شرک میں مبتلا تھے۔ وہ اپنے بتوں کے لیے ناصرف ہر طرح کے اختیارات، بلکہ الوہیت اور استحقاق عبادت کے بھی معتقد تھے۔ اور جیسا کہ اوپر عرض کیا، وہ اپنے بتوں کو اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں شریک مانتے تھے، اور جب شرکت مان لی، شرک خود بخود ثابت ہو گیا، پھر عطا و اذن کی بحث کی اہمیت کیا رہی؟


 


تین


اگر کوئی اپنے بتوں کو الوہیت کا عطا کیا جانا باذن اللہ کی قید سے مقید مانے (اگر چہ ایسا ماننا حقیقت میں ناممکن ہے مگر مشرکین کی جہالت سے یہ بھی بعید نہیں) تو ایسی صورت میں وہ شخص مشرک ہو جائے گا یا نہیں؟


 


ایسا شخص بالکل مشرک ہو جائے گا کہ اس نے غیر اللہ میں الوہیت کو تسلیم کیا جو کہ باری تعالیٰ کی وحدانیت کے عقیدے کے صریحاً خلاف ہے۔ توحید کی نفی اگر شرک نہیں تو شرک بھلا اور کسے کہا جائے گا؟


 


چار


کیا اس دعوی کہ ’’مشرکین اپنے بتوں کے اختیارات کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے‘‘ کو اگر اس طرح بنا دیں کہ ’’مشرکین اپنے بتوں کے اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے‘‘ تو اسطرح کرنے سے کوئی فرق پڑے گا دعوی پر یا نہیں؟


 


بظاہر دونوں دعووں میں فرق اس طرح ہے کہ ایک میں اختیار کی عطا کا ذکر ہے تو دوسرے میں اختیار کے استعمال کا، مگر نتیجہ دونوں کا شرک کی صورت ہی برآمد ہوتا ہے، کہ اختیار بے عطائے الٰہی مانا جائے یا اس اختیار کا استعمال بے اذن الٰہی تسلیم کیا جائے، دونوں طرح شرک ہی ثابت ہوتا ہے۔


 


ہو سکتا ہے میں آپ کے کسی سوال کو درست طور پر سمجھ نہ پایا ہوں، اس پر معذرت چاہتا ہوں۔


Edited by Ahmad Lahore
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...