Jump to content

شان و عظمت مصطفیٰ


Attari26

تجویز کردہ جواب

 

شان وعظمتِ مصطفی

صلی اللہ علیہ والہ وسلم

امیر اہلسنت مولانا ممحمد الیاس عطار قادری

دامت برکاتہم العالیہ

حضرت سیدناکعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ حضور پر نور شافع یوم النشور ؐ کی بارگاہ ِبے کس پناہ میں حاضر ہوئے تو آپ ؐ کے چہرہ انورکو متغیر پایا ۔ یہ دیکھ کر اسی وقت وہ اپنے گھر پہنچے اور اپنی زوجہ سے کہا ، میں رسول اللہ عزوجل وؐ کا چہرہ زیبا بدلا ہوا دیکھا ہے ، میرا گمان ہے کہ بھوک کے سبب سے ایسا ہے۔ کیا تیرے پاس کچھ موجود ہے ؟ جواب دیا، وللہ عزوجل اس بکری اور تھوڑے سے بچے کھچے آٹے کے سوا کچھ نہیں۔اسی وقت بکری کو ذبخ کردیا اور فرمایا کہ جلدی جلدی گوشت اور روٹیاں تیار کرو۔ جب کھانا تیار ہوگیا تو ایک بڑے پیالے میں رکھ کر سرکار نامدار ؐ کے دربار گہر بار میں حاضر ہوگئے اور کھانا پیش کردیا۔ رحمت عالم نور مجسم شاہ بنی آدم شافع امم ، رسول محتشم ؐ نے ارشاد فرمایا ، اے جابر! اپنی قوم کو جمع کرلو۔ میںلوگوں کو لیکر حاضر خدمت ِ بابرکت ہوا، فرمایا ، ان کوجداجدا ٹولیا ں بناکر میرے پاس بھیجتے رہو۔ اس طرح وہ کھانے لگے۔ جب ایک ٹولی سیر ہوجاتی تو وہ نکل جاتی اور دوسری ٹولی آجاتی یہاں تک کہ سب کھا چکے اور برتن میں جتنا کھانا پہلے تھا اتنا ہی سب کے کھانے کے بعد بھی موجود تھا۔ سرکار مدینہ ؐ فرماتے تھے کھاؤ اور ہڈی نہ توڑو۔ پھر آپ ؐ نے برتن کے بیچ کوہڈیاں جمع کیا اور ان پر اپنا ہاتھ مبارک رکھااور کچھ کلام پڑھا جسے میں نے نہیں سنا ۔ ابھی جس کا گوشت کھایا تھا وہی بکری یکایک کان جھاڑتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی! آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ،اپنی بکری لے جاؤ! میں بکری اپنی زوجہ کے پاس لے آیا۔ وہ (حیرت سے ) بولیں ، یہ کیا ؟ میں نے کہا ، واللہ عزوجل یہ ہماری وہی بکری ہے جس کو ہم نے ذبخ کیا تھا۔ دعائے مصطفی ؐ سے اللہ عزوجل نے اسے زندہ کردیاہے! یہ سن کر ان کی زوجہ محترمہ رضی اللہ عنہا بے ساختہ پکاراٹھیں ، میں گواہی دیتی ہوں کہ بے شک وہ اللہ عزوجل کے رسول ؐ ہیں (الخصائصٰ الکبرٰی ج ٢ ص ١١٢)

Link to comment
Share on other sites

مشہور عاشق رسول حضرت علامہ عبدالرحمن جامی رحمتہ اللہ علیہ روایت فرماتے ہیں ،حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے حقیقی مدنی منوں کی موجودگی میں بکری ذبخ کی تھی۔ جب فارغ ہوکر آپ رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے تو وہ دونوں مدنی منے چھری لیکر چھت پر جاپہنچے ، بڑے نے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا، آؤ میں بھی تمھارے ساتھ ایسا ہی کروں جیسا کہ ہمارے والد صاحب نے اس بکری کے ساتھ کیا ہے۔ چنانچہ بڑے نے چھوٹے کو باندھا اور حلق پر چھڑی چلادی اور سر جدا کرکے ہاتھوں میں اٹھا لیا ! جونہی ان کی امی جان رضی اللہ عنہانے یہ منظر دیکھا تو اس کے پیچھے دوڑیں وہ ڈر کر بھاگا اور چھت سے گر ااو رفوت ہوگیا۔ اس صابرہ خاتون نے چیخ وپکار اور کسی قسم کا واویلا نہیں کیا کہ کہیں عظیم الشان مہمان سلطان دو جہان، رحمت عالمیان ؐ پریشان نہ ہوجائیں، نہایت صبرو استقلال سے دونوں کی ننھی لاشوں کو اندر لاکر ا ن پر کپڑا اڑھا دیا اور کسی کو خبر نہ دی یہاں تک کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو بھی نہ بتایا۔ دل اگرچہ صدمہ سے خون کے آنسو رورہا تھا مگر چہرے کو تروتازہ و شگفتہ رکھااور کھانا وغیرہ پکایا۔ سرکار نامدار ؐتشریف لائے اور کھانا آپ ؐ کے آگے رکھا گیا۔ اسی وقت جبرئیل امین علیہ الصلوۃ والسلام نے حاضر ہوکرعرض کی ، یارسول اللہ ! عزوجل و ؐ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جابر سے فرماؤ، اپنے فرزندوں کو لائے تاکہ وہ آپ ؐ کے ساتھ کھانے کا شرف حاصل کرلیں۔ سرکار عالی وقار ؐ نے حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا ، اپنے فرزندوں کو لاؤ! وہ فوراًباہر آئے اور زوجہ سے پوچھا ، فرزند کہاں ہیں؟اس نے کہا کہ حضور ؐ سے عرض کیجئے کہ وہ موجود نہیں ہیںسرکار ؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کافرمان آیا ہے کہ ان کو جلدی لاؤ!غم کی ماری زوجہ رو پڑی اور بولی ، اے جابر! اب میں ان کو نہیں لاسکتی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آخر بات کیا ہے؟ روتی کیوں ہو؟زوجہ نے اندر جاکر سار ا ماجرا سنایا اور اکپڑا اٹھا کر مدنی منوں کو دکھایا، تووہ بھی رونے لگے کیونکہ وہ ان کے حال سے بے خبر تھے۔ پس حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے دنوں ننھی ننھی لاشوں کو لاکر حضور انور ؐ کے قدموں میں رکھ دیا۔ اُس وقت گھر سے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ اللہ تعالی نے جبرئیل امین علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور فرمایا، اے پیارے حبیب! تم دعا کر وہم ان کو زندہ کردیں گے۔حضور اکر م نور مجسم شاہ بنی آدم رسول محتشم ؐ نے دعا فرمائی اور اللہ عزوجل کے حکم سے دونوں مدنی منے اسی وقت زندہ ہوگئے۔ (شواہد النبوۃ ص ١٠٥، مدارج النبوت حصہ ١ ص ١٩٩)

Link to comment
Share on other sites

میرے پیارے پیارے آقا مدینے والے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بھی کیا خوب شان ہے کہ مختصر سا کھانا بہت سارے لوگوں نے کھالیا پھر بھی اس میںکسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی اور پھر بکری کے گوشت کی بچی ہوئی ہڈیوں پر کلا م پڑھا توگوشت پوست پہن کر بعینہ وہی بکری کان جھاڑتی ہوئی اٹھ کھڑ ی ہوئی۔ نیر حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے فوت شدہ دونوں مدنی منوں کو باذن اللہ عزوجل زندہ کردیا۔ ؎

مردوں کو جلاتے ہیں روتوں کوہنساتے ہیں

آلام مٹاتے ہیں بگڑی کو بناتے ہیں

سرکار کھلاتے ہیں سرکار پلاتے ہیں

سلطان و گدا سب کو سرکا رنبھاتے ہیں

حضرت سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، غزوہ تبوک میں ایک رات سرور کائنات ،شاہ موجودات، دافع آفات و بلیات ؐ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا ، اے بلال ! تمھارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کی، حضور ! آپ کے رب عزوجل کی قسم ہم تواپنے توشہ دان خالی کئے بیٹھے ہیں۔رحمت عالم نور مجسم شاہ بنی آدم ، رسول محتشم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ اچھی طرح دیکھو اور اپنے توشہ دان جھاڑو شاید کچھ نکل آئے ۔ (اس وقت ہم تین افراد تھے)سب نے اپنے اپنے توشہ دان جھاڑے تو کل سات کھجوریں برآمد ہوئیں ۔ آپ ؐ نے ان کو ایک صفحہ پر رکھ کر ان پر اپنا دست مبارک رکھ دیا، اور فرمایا ، بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ، ہم تینوں نے محبوب داورعزوجل و ؐ کے دست انورکے نیچے سے اٹھاکر خوب کھائیں، حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں گٹھلیاں الٹے ہاتھ میں رکھتا جاتا تھا، جب میں نے سیر ہوکران کو شمار کیا تو 54تھیں! اسی طرح ان دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بھی سیر ہوکر کھائیں۔ جب ہم نے کھانے سے ہاتھ روک لیا تو سرکار نامدار ؐ نے بھی اپنے دست پر انوار اٹھالیا۔ وہ ساتوں کھجوریںاسی طرح موجود تھیں! شہنشاہ خوش خصال ، سلطان شیریں مقال، پیکر حسن وجمال ، بے مثل و بے مثال ، اپنی ہر صفت میں باکمال ، محبوب رب ذوالجلال عزوجل و ؐ نے فرمایا، اے بلال! ان کو سنبھال کر رکھواور ان میںسے کوئی نہ کھائے، پھر کام آئیں گی۔ حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،ہم نے ان کو نہ کھایا ، جب دوسرا دن آیا اور کھانے کا وقت ہواتو سرکار مدینہ ؐ نے وہی سات کھجوریںلانے کا حکم دیا، آپ ؐ نے پھر اسی طرح ان پر اپنا دست مبارک رکھا اور فرمایا ، بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ! اب ہم دس آدمی تھے سب سیر ہوگئے۔حضور تاجدار رسالت ؐ نے اپنے دست رحمت اٹھایا تو سات کھجوریں بدستور موجود تھیں۔ آپ ؐ نے فرمایا، اے بلال! اگر مجھے حق تعالی سے حیا نہ آتی تو واپس مدینہ پہنچے تک ان ہی سات کھجوروں سے کھاتے۔ پھر سرکار ؐ نے وہ کھجوریں ایک لڑکے کو عطا فرمادیں۔ وہ انھیں کھا کرجاتارہا۔ ( الخصائص الکبریٰ ج ٢ ص ٤٥٥)

رب کائنات عزوجل نے شہنشاہ موجودات ؐ کو کس قدر وسیع اختیارات سے نوازا تھا۔ سات کھجوروں میں کس قدر برکت ہوئی کہ کئی صحابہ کرام علیہم الرضوان نے شکم سیر ہو کر تناول کیا۔

حضرت سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تاجدار مدینہ ؐ کےلئے تھوڑا سا کھانا پکایا اور دعوت عرض کرنے کے لئے حاضرہواتو آپ ؐ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ تشریف فرماتھے ۔ مارے شرم کے کچھ عرض نہ کرسکااور خاموش کھڑا رہا۔سرکار مدینہ ؐ نے میری طرف دیکھامیںنے اشارے سے کھانے کےلئے چلنے کی التجاء کی ، فرمایا ، اور یہ لوگ؟ میں نے عرض کی ، نہیں۔ سرکار ؐ خاموش ہوگئے اور میں اسی مقام پر کھڑارہا۔ حضورِ انور ؐ نے پھر میری طرف نظر کی۔ میں نے اسی طرح اشارۃ عرض کی۔ فرمایا، یہ لوگ؟ میں نے عرض کی ، نہیں۔ دوسر ی یا تیسری مرتبہ کے جواب میںمیں نے عرض کی، ''بہت اچھا'' یعنی ان کو بھی لے چلئے اور ساتھ یہ بھی عرض کی کہ صرف تھوڑا سا کھاناآپ ؐ کے لئے ہی پکایا ہے۔ شاہ خیر الانام ؐ ان تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ تشریف لائے ، میںنے اچھی طرح کھایا اور کھانا پھر بھی بچ رہا۔ (الخصائص الکبریٰ ج ٢ ص ٨٢)

سرور کائنات ، شہنشاہ موجودات ؐ کی ذات ستودہ صفات یقینا باعث نزول برکات ہے۔ اور آپ ؐ کے صدقے ہم پر ہر دم رحمت کی برسات ہے۔ کھانے کی قلت کے سبب فقط جان ِ رحمت ؐ کی دعوت تھی مگر مالک جنت ، قاسم نعمت ، سراپا جود وسخاوت ، محبوب رب العزت عزوجل و ؐ کی برکت سے قلیل طعام کثیر صحابہ کرام علیہم الرضوان کو نہ صر ف کافی ہوگیا بلکہ بچ رہا۔

الحمدللہ عزوجل سرکار مدینہ ؐ کی شان و عظمت نشان اور آپ سے ظاہر ہونے والے معجزات کی بات ہی کیا ہے ! آپ ؐ کے غلاموں سے بھی عظیم الشان کرامات کو ظہور ہوتا ہے چنانچہ

مراد آباد(الھند) میں ایک عاشق رسول ہر سال ربیع النور شریف میں دھوم دھام سے میٹھے میٹھے آقا مکی مدنی مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جشن ولادت مناتے اور زبردست محفل میلاد منعقد فرماتے، سرکا ر اعلیٰحضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمتہ الرحمن کے خلیفہ صاحب خزائن العرفان حضرت صدر الافاضل علامہ مولینا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمتہ الھادی اس میں خصوصی شرکت فرماتے تھے۔ ایک بار محفل میلاد میں معمول سے بہت زیادہ افراد آگئے ۔ اختتام پر حسب معمول پاؤپاؤ بھر (تقریباً250گرام ) کے لڈو کی تقسیم شروع ہوئی مگر وہ آدھوں آدھ کم پڑنے لگے۔ بانئی محفل نے گھبرا کر حضرت صدر الافاضل رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں ماجرا عرض کیا ، آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا رومال نکال کر دیا اور فرمایا، لڈو کے برتن پر ڈالدیجئے ، اور تاکید کی کہ تبرک رومال کے نیچے سے نکال نکال کر تقسیم کیاجائے مگر برتن کھول کر نہ دیکھا جائے۔ چنانچہ خوب لڈو تقسیم ہوئے اور ہر ہر فرد کو لڈو مل گیا۔ آخر میں جب برتن کھولا گیا تو رومال اڑھاتے وقت برتن میں جتنے لڈو تھے اتنے ہیں موجود تھے (ملخصاً، تاریخ اسلام کی عظیم شخصیت صدر الافاضل ص ٣٤٣)

حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ایک غزوہ میں لشکر ِ اسلام کے پاس کھانے کو کچھ نہ رہا۔ اللہ کے پیارے رسول ، رسول مقبول ، سیدہ آمنہ کے گلشن کے مہکتے پھول عزوجل وؐو رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا، تمھارے پاس کچھ ہے ؟میں نے عرض کی،توشہ دان میں تھوڑی سی کھجویریں ہیں۔ فرمایا، لے آؤ۔ میں نے حاضر کردیںجو کل 21تھیں۔ سرکار ؐ نے ان پر دست مبارک رکھ کر دعا مانگی پھر فرمایا، دس افراد کو بلاؤ! میں نے بلایا ، وہ آئے اور سیر ہو کر کھایا اور چلے گئے ۔ پھر دس افراد کو بلانے کا حکم دیا ، وہ بھی کھاکر چلے گئے ۔ اسی طرح دس دس آدمی آتے اور سیر ہو کر کھاتے اور تشریف لے جاتے ، یہاں تک کہ تمام لشکر نے کھائیں اور جو باقی رہ گئیں ان بارے میں فرمایا، اے ابوہریرہ! ان کو اپنے توشہ دان میں رکھ لو اور جب چاہو ہاتھ ڈال کر نکال لیا کرو لیکن توشہ دان نہ انڈیلنا! حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور سرور کائنات ، شاہ موجوداتؐ کی ظاہری حیات مبارکہ کے زمانے میں اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم اور حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت تک ان ہی کھجوروں سے کھاتا ۔ اورخرچ کرتا تخمیناً(یعنی اندازاً)پچاس وسق تو فی سبیل اللہ دیں اور دو سو وسق سے زیادہ میں نے کھائیں۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو وہ توشہ دان میرے گھر سے چوری ہوگیا۔ (الخصائص الکبریٰ ج ٢ ص ٨٥)

وسق ساٹھ صاع کا اور ایک صاع 270تولہ (یعنی تین سیر چھ چھٹانک ) کا ہوتا ہے اس حساب سے ان 21کھجوروں میں سے ہزار من سے زائد کھجوریں کھائی گئیں ۔ یہ سب اللہ عزوجل کی شان ِ کرم ہے کہ اس نے اپنے پیارے حبیب مکرم ؐ کو بے شمار اختیارت اور عظیم الشان معجزات سے نوازا ۔ یقینا سرکار دوجہاں ؐ کی شان عظمت نشان تو بہت بڑی ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس خداعزوجل کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں بھوک کی وجہ سے اپنا پیٹ زمین پر رکھتا اور بھوک کے سبب پیٹ پر پتھر باندھا کرتا تھا ایک دن میں اس راستے میں بیٹھ گیا جس سے لوگ باہر جاتے تھے۔ جان دو عالم ؐ میرے پاس سے گزرے مجھ دیکھ کر مسکرائے اور میرا چہرہ دیکھ کر میری حالت سمجھ گئے۔ فرمایا، اے ابوہریرہ ! میں نے عرض کی ، لبیک یا رسول اللہ (عزوجل و ؐ) فرمایا، میرے ساتھ آجاؤ۔ میں پیچھے پیچھے چل دیا، جب شہنشاہ بحرو بر ، مدینے کے تاجور، ساقی کوثر حبیب داورعزوجل و ؐ اپنے مبارک گھر پر جلوہ گر ہوئے تو اجازت لیکر میں بھی اندر داخل ہوگیا۔ سرور کائنات ، شاہ موجودات ؐ نے ایک پیالے میں دودھ دیکھاتو فرمایا، یہ دودھ کہاں سے آیا؟ اہل خانہ نے عرض کی ، فلاں صحابی یا صحابیہ نے آپ کے لئے ہدیۃً بھیجا ہے۔ فرمایا ، ابوہریرہ! میں عرض کی لبیک یا رسول اللہ (عزوجل وؐ) فرمایا، جاکر اہل صفہ کو بلالاؤ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اہل صفہ اسلام کے مہمان ہیں، نہ ان کو گھر بارسے رغبت ہے نہ ما ل ودولت سے اور نہ وہ کسی شخص کا سہارا لیتے ہیں۔ جب محبوب رب ذوالجلال و ؐ کے پاس صدقہ کا مال آتا تو آپ ؐ و ہ مال ان (اصحاب صفہ) کی طرف بھیج دیتے اورخود اس میں سے کچھ نہ لیتے تھے۔ اور جب آپ ؐ کے پاس کوئی ہدیہ آتاتو آپ ؐ ان کے پاس بھیجتے اور اس میں سے خود بھی استعمال کرتے اور ان کو بھی شریک کرتے ۔ مجھے یہ بات گراں سی گزری اور دل میں خیال آیا، اہل صفہ کا اس دودھ سے کیا بنے گا،میں اس کا زیادہ مستحق تھا کہ اس دودھ کے چند گھونٹ پیتا اور کچھ قوت حاصل کرتا۔ جب اصحاب صفہ آجائیں گے تو سرکار نامدار مجھے ہی ارشاد فرمائیں گے،کہ ان کو دود ھ پیش کرو۔ اس صورت میں بہت مشکل ہے کہ چند گھونٹ مجھے میسر ہوں ۔ لیکن اللہ عزوجل اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کے بغیر چارہ نہ تھا۔ میں اصحاب صفہ کے پاس گیا اور ان کو بلوایا ۔ وہ آئے ، انہوں نے شہنشاہ عرب، محبوب رب عزوجل و ؐ سے اجازت طلب کی۔ آپ ؐ نے اجازت عطافرمائی اور گھر میں حاضر ہوکر بیٹھ گئے۔ میٹھے میٹھے آقا مدینے والے مصطفی ؐ نے فرمایا، ''ابوہریرہ !''میں عرض کی لبیک یا رسول اللہ (عزوجل وؐ) فرمایا، پیالہ پکڑو اور ان کو دودھ پلاؤ۔ '' حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میںنے پیالہ پکڑا۔ میں وہ پیالہ ایک شخص کو دیتا وہ سیر ہوکر دودھ پیتا اومجھے لوٹا دیتا ۔ حتیٰ کہ میں پلاتا پلاتا آقائے نامدار ؐ تک پہنچا ۔ اور تمام لوگ سیر ہوچکے تھے۔ سرکار ؐ نے پیالہ لے کر اپنے دست اقدس پر رکھا ۔ پھر میری طرف دیکھ کر تبسم فرمایا، اور فرمایا،'' ابو ہریرہ ! میں نے عرض کی لبیک یا رسول اللہ (عزوجل وؐ) فرمایا، اب میں اور تم باقی رہ گئے ہیں۔ عرض کی، یارسول اللہ عزوجل و ؐ ! آپ نے سچ فرمایا۔ فرمایا،'' بیٹھو اور پیؤ۔''میں بیٹھ گیا اور دودھ پینے لگا۔ آپ ؐ نے فرمایا، ''پیؤ!'' میں نے پیا۔ آپ ؐ مسلسل فرماتے رہے،'' پیؤ!'' حتیٰ کہ میں نے عرض کی ، نہیں ، قسم ! اس ذات کی جس نے آپ ؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اب مزید گنجائش نہیں۔ فرمایا،'' مجھے دکھاؤ''۔ میں نے پیالہ پیش کردیا۔ آپ ؐ نے اللہ تعالی کی حمد بیان کی، بسم اللہ پڑھی اور باقی دودھ نوش فرمالیا۔ (صحیح بخاری ج٧ ص ٢٣٠ رقم الحدیث٦٤٥٢)

الحمدللہ یہ سرکار مدینہ ؐ کا عظیم معجزہ ہے کہ تمام ستر اہل صفہ مل کر بھی دودھ کا ایک پیالہ پورا نہ پی سکے۔

میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ اسی ایمان افروز واقعہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عرض گزار ہیں ؎

کیوں جناب بوہریرہ! تھا وہ کیسا جم شیر

جس سے ستر صاحبوں کاد ودھ سے منہ پِھر گیا

 

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...