Jump to content

لیڈر بورڈ

مشہور مواد

Showing content with the highest reputation on 18/08/2017 in all areas

  1. محمد بن عمر بن واقدی الاسلمی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے۔ حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"ضعفہ الجمہور"جمہور نے اسے ضعیف قراردیا ہے۔(مجمع الزوائد ج3ص255) حافظ ابن الملقن نے فرمایا:" "وقد ضعفه الجمهور ونسبه الي الوضع:الرازي والنسائي" "اسے جمہور ضعیف کہا اور(ابو حاتم)الرازی رحمۃ اللہ علیہ اور نسائی نے وضاع (احادیث گھڑےوالا ) قراردیا۔(البدر المنیرج5ص324) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"متروک الحدیث"وہ حدیث میں متروک ہے۔(کتاب الضعفاء بتحقیقی :344) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مزید فرمایا:"کذبہ احمد"احمد(بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ )نےاسے جھوٹا قراردیا ہے۔(الکامل لا بن عدی ج6ص2245دوسرا نسخہ ج7 ص481وسندہ صحیح) امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "كان الواقدي يقلب الاحاديث يلقى حديث ابن اخى الزهري على معمر ونحو هذا" "واقدی احادیث کو الٹ پلٹ کر دیتا تھا وہ ابن اخی الزھری کی حدیث کو معمر کے ذمے ڈال دیتا تھا اور اسی طرح کی حرکتیں کرتا تھا۔ امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "كما وصف وأشد لأنه عندي ممن يضع الحديث" "جس طرح انھوں (احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ )نے فرمایا: وہی بات بات بلکہ اس سے سخت ہے کیونکہ وہ میرے نزدیک حدیث گھڑتا تھا۔(کتاب الجرح التعدیل ج8ص21وسندہ صحیح) امام محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "كتب الواقدي كذب" "واقدی کی کتابیں جهوٹ (کا پلندا) ہیں"(کتاب الجرح التعدیل ج8ص21وسندہ صحیح) امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "والكذابون المعروفون بوضع الحديث على رسول الله صلى الله عليه وسلم أربعة. بن أبي يحيى بالمدينة والواقدي ببغداد، ومقاتل بن سليمان بخراسان، ومحمد بن السعيد بالشام، يعرف بالمصلوب" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حدیثیں گھڑنے والے مشہور جھوٹے چار ہیں۔ (ابراہیم بن محمد)بن ابی یحییٰ مدینے میں واقدی (محمد بن عمر بن واقد الاسلمی) بغداد میں مقاتل بن سلیمان خراسان میں اور محمد بن سعید شام میں جسے مصلوب کہا جاتا ہے۔(آخر کتاب الضعفاء والمتروکین ص310دوسرا نسخہ ص265) اس شدید جرح اور جمہور کی تضعیف کے مقابلے میں واقدی کے لیے بعض علماء کی توثیق قبول نہیں۔
    1 point
  2. اپ کو یہ الزامی جواب پش کیا جاسکتا ہے اس پر بھی کچھ کلام کریں ”امام واقدی ہمارے علماء کے نزدیک ثقہ ہیں“ [فتاوي رضويه نسخه جديده ج 5 ص 526
    1 point
  3. البحرالرائق شریف کا حوالہ کتاب الوقف سے دیا گیاہے۔ ظاہرہے کہ مال وقف کو ضرورت سے زائد پرخرچ کرنا منع شمار ہوگا۔ اسے میلاد شریف پر چسپاں کرنا خطاہے۔ حضرت مجاہدنے فرمایا:۔ لَوْ كَانَ أَبُو قُبَيْسٍ ذَهَبًا فَأَنْفَقَهُ رَجُلٌ فِي طَاعَةِ اللَّهِ تَعَالَى لَمْ يَكُنْ مُسْرِفًا وَلَوْ أَنْفَقَ دِرْهَمًا فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ كَانَ مُسْرِفًا اگرابوقبیس پہاڑسونے کاہواورکوئی اُسے طاعۃ اللہ میں خرچ کرے تو اسراف کنندہ نہیں ہوگا اور اگر کسی نے ایک درہم معصیۃ اللہ میں خرچ کیا تو وہ اسراف کرنے والا ہوگا(تفسیرکبیررازی)۔ چنانچہ کہاگیاہے کہ لا السرف فی الخیرکما لا خیرفی السرف مرقاۃ شرح مشکوٰۃ،کتاب العلم یعنی کارِخیرمیں خرچ کرنا اسراف کے زمرے میں نہیں آتا ۔ یونہی اسراف میں بھلائی نہیں ۔ امام غزالی نے احیاء العلوم میں ربع العادات کے آداب الاکل کے پہلے باب میں لکھا:۔ وحكى أبو علي الروذباري رحمه الله تعالى أنه اتخذ ضيافة فأوقد فيها ألف سراج فقال له رجل قد أسرفت فقال له ادخل فكل ما أوقدته لغير الله فأطفئه فدخل الرجل فلم يقدر على إطفاء واحد منها فانقطع یعنی حضرت ابوعلی روذباری کے متعلق حکایت ہے کہ آپ نے محفل ضیافت کی تواُس میں ہزارچراغ جلائے توکسی نے اعتراض کیا کہ تونے اسراف کیا۔آپ نے اُسے فرمایا کہ محفل میں داخل ہوکرہروہ چراغ بجھادے جومیں نے غیراللہ کے لئے روشن کیاہو۔ وہ شخص محفل میں داخل ہؤا اورایک چراغ بھی نہ بجھا سکا۔تو منقطع ہؤا۔
    1 point
  4. اب اس مسلے میں اعلاحضرت کا مبارک فتاویٰ بھی ملاحظہ کر لیں مسئلہ نمبر ۵۶۵: ایک شخص حافظ قرآن ہے مگر آدھا کلمہ لا الٰہ الااﷲ پڑھتاہے اور خود ولی بن کر عورتوں مردوں کو نصف کلمہ پڑھاتا ہے اورمحمد رسول اﷲبظاہراس کی زبان سے نہیں سُنا جاتا اور وُہ امامت بھی کرتا ہے ایسے شخص کے پیچھے نماز امّت محمدیہ حنفیہ علٰی صاحبہا الصلٰو ۃ والسلام کی درست ہے یا نہیں؟ الجواب: صوفیہ کرام نے تصفیہ قلب کے لئے ذکرشریف لا الٰہ الا اﷲ رکھا ہے کہ تصفیہ حرارت پہنچانے سے ہوتا ہے اور کلمہ طیّبہ کا یہ جز گرم وجلالی ہے اور دوسرا جز کریم سرد خنک جمالی ہے، اگر ایسے ہی موقع پرصرف لاالٰہ الا اﷲکی تلقین کرتا ہے تو کچھ حرج نہیں اوراگر خود کلمہ طیبہ پڑھنے میں صرف لاالٰہ الا اﷲکافی سمجھتا ہے اور محمد رسول اﷲ سے احتراز کرتا ہے تو اس کی امامت ناجائزہے کہ یہ ذکر پاک محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے معاذ اﷲ بے پرواہی پر دلیل ہے اور اگر واقعی اسے محمد رسول اﷲ کہنے سے انکار ہے یا یہ ذکر کریم اُسے مکروہ و ناگوار ہے توصریح کافرو مستوجب تخلید فی النار ،والعیاذ باﷲ تعالٰی،واﷲ تعالٰی اعلم۔ مسئلہ نمبر ۲: ازپٹنہ ڈاکخانہ گلزاری باغ محلہ ترپولیہ متصل ہسپتال زنانہ، مرسلہ باقر علی حکاک۔ ۹ رجب ۱۳۲۹ھ مع فتوائےعبدالحکیم پٹنوی کہ وقتِ مرگ صرفلا الٰہ الّااﷲکہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہے: مرنے والوں کولا الٰہ الّا اﷲکی تلقین کرومحمد رسول اﷲملانے کو نہیں فرمایا اور فرمایا۔جس کا پچھلا کلاملا الٰہ الّا اﷲہوتو وہ جنّت میں گیا، یہاں بھیمحمد رسول اﷲنہیں فرمایا، تو اگرلا الٰہ الّا اﷲکے بعدمحمد رسول اﷲکا لفظ بڑھایا جائے تورسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہونے کے سبب بُرا اور منع ہو۔المجیب عبدالحکیم صادق پوری۔ اس کے رَد میں مولٰنا عبدالواحد صاحب مجددی رام پوری کا رسالہ''وثیقہ بہشت '' اس ساتھ تھا، تحریر فقیر بر''وثیقہ بہشت''۔ الجواب بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم۵ اللھم لک الحمد۔ اﷲ عزّوجل خیر کے ساتھ شہادتین پر موت نصیب کرے۔ وقتِ مرگ بھی پورا کلمہ طیبہ پڑھنا چاہئے۔جو اسے منع کرتا ہے مسلمان اس کے اغواواضلال پر کان نہ رکھیں کہ وہ شیطان کی اعانت چاہتا ہے۔امام ابن الحاج مکی قدس سرہ الملکی مدخل میں فرماتے ہیں کہ دمِ نزع دو۲ شیطان آدمی کے دونوں پہلو پر آکر بیٹھتے ہیں ایک اُس کے باپ کی شکل بن کر دوسرا ماں کی۔ ایک کہتا ہے وہ شخص یہودی ہوکر مرا تو یہودی ہوجا کہ یہود وہاں بڑے چین سے ہیں۔ دوسرا کہتا ہے وہ شخص نصرانی گیا تو نصرانی ہوجا کہ نصارٰی وہاں بڑے آرام سے ہیں۱؎۔ (۱؎ المدخل لابن الحاج فتنہ المختصر مطبوعہ داارلکتب العربی بیروت ۳ /۲۴۱) علمائے کرام فرماتے ہیں شیطان کے اغوا کے بچانے کے لئے محتضر کو تلقینِ کلمہ کا حکم ہوا۔ ظاہر ہے کہ صرف لا الٰہ الا اﷲ اس کے اغوا کا جواب نہیں، لا الٰہ الا اﷲ تویہود و نصارٰی بھی مانتے ہیں، ہاں وہ کہ جس سے اس ملعون کے فتنے مٹتے ہیں محمد رسول اﷲ کا ذکر کریم ہے صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔ یہی اس کے ذریات کے بھی دل میں چُبھتا جگر میں زخم ڈالتا ہے، مسلمان ہرگزہرگز اسے نہ چھوڑیں اور جو منع کرے اُس سے اتنا کہہ دیں کہ ''گر بتوحرام است حرامت بادا'' (اگر یہ تجھ پر حرام ہے تو حرام رہے۔ت)مجمع بحارالانوار میں ہے : سبب التلقین انہ یحضرالشیطان لیفسد عقدہ، والمراد بلاالٰہ الا اﷲ الشھادتان۲؎ ۔ تلقین کا سبب یہ ہے کہ اُس وقت شیطان آدمی کا ایمان بگاڑنے آتا ہے،اور لا الٰہ الّا اللہ سے پورا کلمہ طیّبہ مراد ہے۔ (۲؎ مجمع بحارالانوار تحت لفظ''لقن'' مطبوعہ نولکشور لکھنؤ ۳ /۲۶۲) فتح القدیر میں ہے : المقصودمنہ التذکیر فی وقت تعرض الشیطان۳؎ ۔ تلقین سے مقصود تعرض شیطان کے وقت ایمان یاد دلانا ہے۔ (۳؎ فتح القدیر باب الجنائز مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲ /۶۸) اسی طرح تبیین الحقائق اورفتح اﷲ مبین وغیرہ میں ہے۔مرقاۃ شرح ،شکوٰۃ میں علامہ میرک سے ہے: من کان اٰخر کلامہ لا الٰہ الّااﷲ المراد مع قرینتہ فانہ بمنزلۃ علم لکلمۃ الایمان۱؎ ۔ حدیث میں جو فرمایا کہ جس کا پچھلا کلام لا الٰہ الّااﷲہواُس سے مراد پورا کلمہ طیبہ ہے کہ لا الٰہ الّااﷲگویااس کلمہ ایمان کانام ہے۔ (۱؎ مرقات شرح مشکوٰۃ باب مایقال عند من حضرۃ الموت فصل ثانی مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ۴ /۱۵) دُرر غرر میں ہے : یلقن بذکر شہادتین عندہ لان الاولی لا تقبل بدون الثانیۃ ۲؎ ۔ کلمہ طیّبہ کے دونوں جُز میّت کو تلقین کئے جائیں اس لئے کہ لا الٰہ الّا اللہ بےمحمد رسول اﷲ کے مقبول نہیں۔ (۲؎ دررشرح غررملّاخسرو باب الجنائز مطبوعہ مطبعۃ احمد کامل الکائنہ فی دارالسعادت بیروت ا/۱۶۰) غنیـہ ذوی الاحکام میں اس پر تقریر فرمائی،تنویر الابصار میں ہے: یلقن بذکر الشہادتین۳؎ دونوں شہادتیں تلقین کی جائیں۔ ( ۳؎ تنویرالابصار متن الدرالمختار باب صلٰوۃ الجنائز مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۱۹) دُر مختار میں ہے : لان الاولی لاتقبل بدون الثانیۃ۴؎ کہ پہلی بے دوسری کے مقبول نہیں۔ (۴؎ درمختار شرح تنویر الابصار باب صلٰوۃ الجنائز مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۱۹) المختصر القدوری میں ہے: لقن الشھادتین ۵؂پوراکلمہ سکھایا جائے۔ (۵ ؂المختصر للقدوری باب الجنائز مطبوعہ مطبع مجیدی کانپور بھارت ص۴۴) جوہرہ نیرہ میں ہے: لقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لقنوا موتاکم شھادۃ ان لا الٰہ الااﷲ وھوصورۃ التلقین ان یقال عندہ فی حالۃ النزع جھراًوھویسمع اشھدان لاالٰہ الااﷲ واشھدان محمدارسول اﷲ۶؎ ۔ اس لئے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا اپنے اموات کو لا الٰہ الا اﷲکی شہادت یاددلاؤ اور اس یاد دلانے کی صورت یہ ہے کہ اس نزع میں اس کے پاس ایسی آوازسے کہ وہ سنے اشھدان لاالٰہ الاﷲ واشھدان محمدارسول اﷲ پڑھیں۔ (۶؎ جوہرہ نیرہ باب الجنائز مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ۱ /۱۲۳)
    1 point
  5. HAQ MIL GAYA MERAY SATH KYA MASLA HAI WO TO DEFINE KAR DO ?? KOI JALDI NAHI HAI APP PAPER SAY FARIG HO JAYEEN, PHIR APP SAY BAAT KARAIN GE, BEHAS BARAYE BEHAS KAR NAY APP LOOG YAHAN AAYE THAY, HUM MAIN NAY KISI NAY APP KO YAHAN INVITE KIA, NAHI NA TO PHIR JAWAB DENA HAI TO DAIN, KESAY SHIA HAIN KAH APP KAY PASS APNI KITABAIN NAHI, CHALAIN NAHI TO NAHI SAHI, APNAY KISI SAY LAY KAR DEKH KAR JAWAB DE DO. EBAARAT APP KAY SAMNAH HAI, REFERNCE KAY SATH, KOI JALDI NAHI HAI.
    1 point
×
×
  • Create New...