Jump to content

لیڈر بورڈ

مشہور مواد

Showing content with the highest reputation on 09/11/2019 in all areas

  1. یہی تو آپ سے سوال ہے کہ جب زئی نے تینوں روایات کو ضعیف قرار دیا ہے تو پھر قاتل کہنے میں کوئی سی صحیح روایت پیش کی ہے جب زئی کا حوالہ یہ ہے تینوں روایات کو ضعیف کہنے میں کیا ابو الغادیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوزخی ہیں؟ تھے؟ سوال : ایک روایت میں آیا ہے کہ قاتل عمار وسالبه فى النار عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا اور ان کا سامان چھیننے والا آگ میں ہے۔ شیخ البانی رحمہ الله نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھئے : [السلسلة الصحيحة 18/5۔ 20 ح 2008 ] یہ بھی ثابت ہے کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو جنگِ صفین میں ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ نے شہید کیا تھا۔ دیکھئے : [مسند احمد 76/4 ح 16698 و سنده حسن ] کیا یہ صحیح ہے کہ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ دوزخی ہیں ؟ (حافظ طارق مجاہد یزمانی) الجواب : الحمدلله رب العالمين و الصلوٰةوالسلام عليٰ رسوله الأمين، أما بعد : جس روایت میں آیا ہے کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا اور ان کا سامان چھیننے والا آگ میں ہے، اس کی تخریج و تحقیق درج ذیل ہے : ① ليث بن أبى سليم عن مجاهد عن عبدالله بن عمرو بن العاص رضي الله عنه… . إلخ [ ثلاثةمجالس من الامالي لابي محمد المخلدي 1/75۔ 2، السلسلة الصحيحة 18/5، الآحادو المثاني لابن ابي عاصم 102/2 ح 803 ] یہ سند ضعیف ہے۔ لیث بن ابی سلیم جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے، ◈ بوصیری نے کہا: ضعفه الجمهور ” جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [ زوائد ابن ماجه : 208، 230 ] ◈ابن الملقن نے کہا: وهو ضعيف عند الجمهور ” وہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔ “ [خلاصة البدر المنير : 78، البدر المنير : 104/2 ] ◈ امام نسائی رحمہ اللہ نے فرمایا : ضعيف كوفي [ كتاب الضعفاء : 511 ] ② المعتمر بن سليمان التيمي عن أبيه عن مجاهد عن عبدالله بن عمرو رضى الله عنه … إلخ [المستدرك للحاكم 387/3 ح 5661 وقال الذهبي فى التلخيص : عليٰ شرط البخاري و مسلم ] یہ سند سلیمان بن طرخان التیمی کے عن کی وجہ سے ضیف ہے۔ سلیمان التیمی مدلس تھے، دیکھئے جامع التحصیل [ ص106] کتاب المدلسین لا بی زرعۃ ابن العراقی [ 24] اسماء من عرف بالتدلیس للسیوطی [ 20] التبیین لأسماء المدلسین للحلبی [ ص29] قصیدۃ المقدسی و طبقات المدلسین للعسقلانی [ 2/52] ◈ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا : كان سليمان التيمي يدلس ” سلیمان التیمی یدلیس کرتے تھے۔“ [ تاريخ ابن معين، رواية الدوري : 3600 ] امام ابن معین کی اس تصریح کے بعد سلیمان التیمی کو طبقۂ ثانیہ یا اولیٰ میں ذکر کرنا غلط ہے بلکہ حق یہ ہے کہ طبقۂ ثالثہ کے مدلس ہیں لہٰذا اس روایت کو ”صحیح علیٰ شرط الشیخین“ نہیں کہا جا سکتا۔ ③ أبو حفص و كلثوم عن أبى غادية قال… . فقيل قتلت عمار بن ياسر و أخبر عمرو بن العاص فقال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : أن قاتله و سالبه فى النار“إلخ [طبقات ابن سعد 261/3 و اللفظ له، مسند احمد 198/4، الصحيحة 19/5 ] اس روایت کے بارے میں شیخ البانی نے کہا: وهٰذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال مسلم… . عر ض ہے کہ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ تک اس سند کے صحیح ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قاتله و سالبه فى النار والی روایت بھی صحیح ہے۔ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : فقيل… . إلخ پس کہا گیا کہ تو نے عمار بن یاسر کو قتل کیا اور عمرو بن العاص کو یہ خبر پہنچی ہے تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ”بے شک اس (عمار ) کا قاتل اور سامان لوٹنے والا آگ میں ہے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ اس روایت کا راوی فقيل کا فاعل ہے جو نامعلوم (مجہول) ہے۔ راوی اگر مجہول ہو تو روایت ضعیف ہوتی ہے لہٰذا یہ في النار والی روایت بلحاظِ سند ضعیف ہے۔ ”إسنادہ صحیح“ نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ سے روایت دو راوی بیان کر رہے ہیں : ➊ ابوحفص : مجہول۔ ➋ کلثوم بن جبر : ثقہ۔ امام حماد بن سلمہ رحمہ الله نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ انہوں نے کس راوی کے الفاظ بیان کئے ہیں ؟ ابوحفص (مجہول) کے یا کلثوم بن جبر (ثقہ ) کے اور اس بات کی بھی کوئی صراحت نہیں ہے کہ کیا دونوں راویوں کے الفاظ من و عن ایک ہیں یا ان میں اختلاف ہے۔ خلاصہ التحقیق : یہ روایت اپنی تینوں سندوں کے ساتھ ضعیف ہے لہٰذا اسے صحیح کہنا غلط ہے۔ (توضیح الاحکام ج 2 ص 477) اب زئی نے یہاں تینوں روایات کو ضعیف قرار دیا ہے تو حضرت ابوالغادیہ کے قاتل ہونے پر کون سی صحیح سند پیش کی ہے جب کہ ضعیف روایات خود زئی کے لئے حجت نہیں اوپر حوالہ دے چکا ہوں خود اسی کے اصول سے اس کے موقف کا رد کیا ہے۔
    1 point
  2. ہم نے یہاں بات کی تھی کہ زئی نے روایات کو ضعیف قرار دیا ہے جس کا حوالہ ہم دے چکے ہیں اب بھی دے دیتے ہیں جناب کو زئی کا اسناد پر موقف یہ ہے دیکھ لو: کیا ابو الغادیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوزخی ہیں؟ تھے؟ سوال : ایک روایت میں آیا ہے کہ قاتل عمار وسالبه فى النار عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا اور ان کا سامان چھیننے والا آگ میں ہے۔ شیخ البانی رحمہ الله نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھئے : [السلسلة الصحيحة 18/5۔ 20 ح 2008 ] یہ بھی ثابت ہے کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو جنگِ صفین میں ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ نے شہید کیا تھا۔ دیکھئے : [مسند احمد 76/4 ح 16698 و سنده حسن ] کیا یہ صحیح ہے کہ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ دوزخی ہیں ؟ (حافظ طارق مجاہد یزمانی) الجواب : الحمدلله رب العالمين و الصلوٰةوالسلام عليٰ رسوله الأمين، أما بعد : جس روایت میں آیا ہے کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا اور ان کا سامان چھیننے والا آگ میں ہے، اس کی تخریج و تحقیق درج ذیل ہے : ① ليث بن أبى سليم عن مجاهد عن عبدالله بن عمرو بن العاص رضي الله عنه… . إلخ [ ثلاثةمجالس من الامالي لابي محمد المخلدي 1/75۔ 2، السلسلة الصحيحة 18/5، الآحادو المثاني لابن ابي عاصم 102/2 ح 803 ] یہ سند ضعیف ہے۔ لیث بن ابی سلیم جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے، ◈ بوصیری نے کہا: ضعفه الجمهور ” جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [ زوائد ابن ماجه : 208، 230 ] ◈ابن الملقن نے کہا: وهو ضعيف عند الجمهور ” وہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔ “ [خلاصة البدر المنير : 78، البدر المنير : 104/2 ] ◈ امام نسائی رحمہ اللہ نے فرمایا : ضعيف كوفي [ كتاب الضعفاء : 511 ] ② المعتمر بن سليمان التيمي عن أبيه عن مجاهد عن عبدالله بن عمرو رضى الله عنه … إلخ [المستدرك للحاكم 387/3 ح 5661 وقال الذهبي فى التلخيص : عليٰ شرط البخاري و مسلم ] یہ سند سلیمان بن طرخان التیمی کے عن کی وجہ سے ضیف ہے۔ سلیمان التیمی مدلس تھے، دیکھئے جامع التحصیل [ ص106] کتاب المدلسین لا بی زرعۃ ابن العراقی [ 24] اسماء من عرف بالتدلیس للسیوطی [ 20] التبیین لأسماء المدلسین للحلبی [ ص29] قصیدۃ المقدسی و طبقات المدلسین للعسقلانی [ 2/52] ◈ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا : كان سليمان التيمي يدلس ” سلیمان التیمی یدلیس کرتے تھے۔“ [ تاريخ ابن معين، رواية الدوري : 3600 ] امام ابن معین کی اس تصریح کے بعد سلیمان التیمی کو طبقۂ ثانیہ یا اولیٰ میں ذکر کرنا غلط ہے بلکہ حق یہ ہے کہ طبقۂ ثالثہ کے مدلس ہیں لہٰذا اس روایت کو ”صحیح علیٰ شرط الشیخین“ نہیں کہا جا سکتا۔ ③ أبو حفص و كلثوم عن أبى غادية قال… . فقيل قتلت عمار بن ياسر و أخبر عمرو بن العاص فقال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : أن قاتله و سالبه فى النار“إلخ [طبقات ابن سعد 261/3 و اللفظ له، مسند احمد 198/4، الصحيحة 19/5 ] اس روایت کے بارے میں شیخ البانی نے کہا: وهٰذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال مسلم… . عر ض ہے کہ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ تک اس سند کے صحیح ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قاتله و سالبه فى النار والی روایت بھی صحیح ہے۔ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : فقيل… . إلخ پس کہا گیا کہ تو نے عمار بن یاسر کو قتل کیا اور عمرو بن العاص کو یہ خبر پہنچی ہے تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ”بے شک اس (عمار ) کا قاتل اور سامان لوٹنے والا آگ میں ہے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ اس روایت کا راوی فقيل کا فاعل ہے جو نامعلوم (مجہول) ہے۔ راوی اگر مجہول ہو تو روایت ضعیف ہوتی ہے لہٰذا یہ في النار والی روایت بلحاظِ سند ضعیف ہے۔ ”إسنادہ صحیح“ نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ سے روایت دو راوی بیان کر رہے ہیں : ➊ ابوحفص : مجہول۔ ➋ کلثوم بن جبر : ثقہ۔ امام حماد بن سلمہ رحمہ الله نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ انہوں نے کس راوی کے الفاظ بیان کئے ہیں ؟ ابوحفص (مجہول) کے یا کلثوم بن جبر (ثقہ ) کے اور اس بات کی بھی کوئی صراحت نہیں ہے کہ کیا دونوں راویوں کے الفاظ من و عن ایک ہیں یا ان میں اختلاف ہے۔ خلاصہ التحقیق : یہ روایت اپنی تینوں سندوں کے ساتھ ضعیف ہے لہٰذا اسے صحیح کہنا غلط ہے۔ (اوپر دیکھ لیں میاں کیا زئی نے تینوں روایات کی تضعیف نہیں کی ہوئی؟؟ کیا یہ ہم نے جھوٹ بولا ہے) (الحدیث شمارہ نمبر 31 ص 26) (توضیح الاحکام ج 2 ص 477) باقی زئی نے جو یہ لکھا ہے: تنبیہ : ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ کا سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو جنگِ صفین میں شہید کرنا ان کی اجتہادی خطا ہے جس کی طرف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی نے اشارہ کیا ہے۔ دیکھئے : [الاصابة 151/4 ت 881، ابوالغادية الجهني] وما علينا إلا البلاغ یہ بات خود اسی کے اصول سے باطل ہے کیونکہ ایک تو صحیح سند نہیں دی سب کو اس نے ضعیف قرار دیا ہے جب ضعیف قرار دیا ہے تو قاتل کیسے ثابت ہوتا ہے؟؟ جب کہ زئی صاحب خود ضعیف روایت کے حکم پر لکھتے ہیں: "علمائے کرام کا دوسرا گروہ ضعیف روایات پر عمل کا قائل نہیں چاہے عقائد و احکام ہوں یا فضائل مناقب اور اسی گروہ کی تحقیق راجح ہے۔" (مقالات ج 2 ص 270) آخر میں زئی صاحب لکھتے ہیں : "اگر کوئی شخص دلیل کے ساتھ ہماری غلطی ثابت کر دے تو اعلانیہ رجوع کرتے ہیں۔" (مقالات ج 2 ص 283) اب ہم نے یہاں زئی کی غلطی کی نشان دہی کر دی ہے ایک طرف سب روایات کو ضعیف قرار دیا ہے اور دوسری طرف بنا دلیل کے قاتل کہہ دیا ہے پھر کہتے ہیں ضعیف پر عمل نہیں کرنا چاہیے لہذا زئی تو اب زندہ نہیں اگر ہوتا اس کو یہ پتہ چلتا تو ضرور رجوع کرتا اس بات سے۔ واللہ اعلم
    1 point
  3. ایک بات سات کتابوں میں لکھی ہوئی ہے اسی بات کا ہم کئی بات تحقیقی رد کر چکے ہیں جن کا جناب نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ارے میاں ایک ضعیف روایت ساتھ تو کیا لاکھ کتب میں ہو وہ ضعیف رہتی ہے اور وہ ایک ہی حوالہ رہتا ہے باقی اس کو کتب میں نقل کرنے سے نئی روایت نہیں بن جاتی۔ الحمدللہ جناب نے کوئی بھی نئی بات نہیں کی وہی پرانی روایت پیش کی جن کا ہم پہلے جواب دے چکے ہیں لیکن اب کی بار کتب اور تھیں لیکن روایت وہی پرانی تھی۔ لگتا ہے یہی ضعیف روایت ہی جناب کی کل کائنات ہے۔ جناب کے تمام دلائل کا رد کیا جا چکا ہے کوئی نئی بات ہو تو کریں پرانی روایات کو کتب بدل بدل کر پیش نہ کریں کیونکہ ان کاجواب پہلے ہو چکا ہے۔ شکریہ
    1 point
  4. اس میں بھی وہی عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر مجہول راوی ہے جس کا پہلے جواب دیا چکا ہے جناب یہ بھی وہی پرانی روایت ہے جب کا تحقیقی جواب ہم اوپر دےآئے ہیں جس کا جناب نے ابھی تک جواب نہیں دیا لیکن اسے پھر پوسٹ کر دیا ہے یہ انتہائی غیر مناسب رویہ ہے جناب کا
    1 point
  5. ارے جناب یہ کوئی نیا حوالہ نہیں وہی پرانی روایت ہے لیکن اس میں ہم نے پہلے نشان دہی کر دی تھی کہ اس میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر مجہول راوی ہے لیکن جناب اس کا جواب نہیں دیا پھر اسے دوبارا پوسٹ کر دی ہے اور سمجھ رہے ہیں کہ یہ نیا حوالہ ہے ارے میاں پوسٹر بنانے سے پہلے پڑھ بھی لیا کرو غور سے۔ اب جناب آپ پر لازم ہے اس راوی کی توثیق پیش کریں جمہور ائمہ اہل سنت سے؟؟
    1 point
  6. پھر وہی پرانی روایت پوسٹ کر دی بس اب کی بار البانی آگیا ہے روایت وہی ہے جس کا ہم پہلے جواب دے چکے ہیں۔ چلیں البانی سے پوچھ کر دیں کہ اس روایت کو صحیح کہا ہے تو کیا کلثوم بن جبر کا سماع حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے کیا ثابت ہے؟؟؟ اگر ثابت ہے تو جناب البانی کے مقلد ہیں تو ثابت کریں سماع ورنہ امام ذہبی نے اس روایت کو منقطع قرار دیا ہے سیر اعلام النبلاء میں اس کا اوپر حوالہ دے چکا ہوں پہلے۔ اور فقیل کہنے والا راوی کون ہے جب کہ یہ مجہول کا صیغہ ہے تو پھر اس کی سند کیسے صحیح ہے؟؟ اب البانی کی طرف سے جناب پر جواب دینا لازم ہے ۔
    1 point
  7. تو ہم بھی اسی خلیفہ راشدکے بیٹے رضی اللہ عنہما کی صلح پر قائم ہیں اس لئے یہ باتیں اپنے پاس رکھے ہیں ہمیں نہ بتائیں۔ باقی ہم بنا کسی تحقیق کسی کو کیسے قاتل مان لیں ؟؟ کیا شریعت میں بنا دلیل کے کسی کو قاتل کہا جا سکتا ہے؟؟ ان سب حوالہ جات کے اوپر جواب دیئے جا چکے ہیں ان کو پھر پوسٹ کر دیا ہے حیرت ہے تھوڑی ہمت کریں جو ہم نے ان حوالہ جات کا تحقیقی طور پر جو رد کیا ہے ان کا جواب تحریر کر کے پوسٹ کریں ورنہ ان کو دوبارہ پوسٹ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
    1 point
×
×
  • Create New...