Jump to content

لیڈر بورڈ

مشہور مواد

Showing content with the highest reputation on 17/05/2020 in all areas

  1. انجینئر محمد علی مرزا کے مضمون" [ اندھا دھند پیروی کا انجام] "کا علمی وتحقیقی جائزہ قارئین کرام! کچھ عرصہ قبل موبائل کے ذریعے میسج ملا کہ جہلم میں ایک انجینئر محمد علی مرزا صاحب نے چند مضامین "ریسرچ پیپر" کے نام سے لکھے ہیں ۔ اور ساتھ یہ بھی دعویٰ کیا کہ مرزا صاحب کے مضمون کا جواب آج تک کوئی بڑے سے بڑا مناظر اور عالم بھی نہیں دے سکا، ۔مجھے چند دوست احباب، جن کا تعلق جہلم سے ہے، انہوں نے اس طرف توجہ مبذول کروائی کہ اہل سنت کے عوام الناس کو مرزا صاحب یہ کہہ کر بھکاتے ہیں کہ ان کا تعلق کسی مسلک سے نہیں، بلکہ ان کا اختلاف بریلوی،دیوبندی اور غیر مقلدین حضرات سےبھی ہے۔یہ بات سن کر تھوڑی حیرانی ہوئی مگر جب میں نے مرزا صاحب کےتمام مضامین کو پڑھا تو یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ مرزا صاحب کی باتیں وہی ہیں جو غیر مقلدین حضرات کی ہیں۔اور انہوں نے وہی دلائل پیش کیے جو کہ غیر مقلدین حضرات پیش کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے مرزا صاحب نے اپنے مضامین میں کسی غیرمقلد عالم کے بارے میں قلم اٹھانے کی جرات نہیں کی۔ایک صاحب نے کچھ دن قبل پھر ایک میسج بھیجا کہ مرزا صاحب کا چیلنج ہے کہ کوئی ان کے مضامین کا جواب لکھ کر بتائے۔میں نے ان صاحب سےپوچھا کہ کون سے مضمون پر وہ سب سے زیادہ فخر کرتے ہیں؟ تو انہوں نےمرزا صاحب سے پوچھ کر بتایا کہ انھیں اپنے ریسرچ پیپر نمبر:2-B پر بڑا فخر ہے۔میں نے جب اس مضمون کو پڑھا تو مجھے بہت افسوس ہوا کہ مرزا صاحب نے دجل وفریب اور یک طرفہ دلائل کا سہارا لیا اور اہل سنت و جماعت کے دلائل کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ اس مضمون میں آپ مرزا صاحب کے ایک ایک اعتراض کا جواب قرآن ،احادیث صحیحہ و حسنہ متناً ملاحظہ کریں گئے۔کیونکہ میر ا تعلق مسلک اہل سنت و جماعت( جن کو لوگ بریلوی کہتے یا سمجھتے ہیں) سے ہے، لہذا میںصرف اپنےمسلک پر کیے گئے اعتراضات کے جوابا ت دینے کا پابند ہوں۔اس مضمون میں انہوں نے ۱۹ اعتراضات پیش کیے ،جن میں ۸ مسلک اہل سنت و جماعت کے بارے میں تھے۔لہذا ان اعتراضات کے جوابات قارئین کرام کے پیش خدمت حاضر ہیں، گزارش ہے کہ تعصب سےبالا تر ہوکر ملاحظہ فرمائیے اور فیصلہ کیجئے۔ مرزا صاحب پہلے علماء کی تحریر پیش کرتےہیں اور پھر اس کے خلاف آیت یا حدیث پیش کرتےہیں۔زير نظر مضمون کا انداز کچھ یوں ہوگا کہ پہلے مرزا صاحب كا مکمل اعتراض نقل کیا جائے گا، پھر اس پر "الجواب بعون الوہاب" کےعنوان سے دیا جائے گا۔ مرزا صاحب کے اعتراضات پر کلام سے قبل چند معروضات عوام الناس کی خدمت حاضر ہیں،اور خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جو یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن كريم كا صرف اردو ترجمہ پڑھ کر ہر شخص نہ صرف اسے سمجھ سکتا ہے بلکہ دین اور شریعت کے احکام پر ملکہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ ۱۔امام نووی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: بغیر علم کے قرآن مجید کی تفسیر بیان کرنا اور اس کے معنیٰ میں کلام کرنا، ہر اس شخص پر حرام ہے جو اس کا اہل نہ ہو،اس بارےمیں بکثرت احادیث وارد ہیں اور اس پر اجماع قائم ہے۔(التبیان فی آداب حملۃ القرآن ص ۱۶۵) ۲۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ فِتَنًا يَكْثُرُ فِيهَا الْمَالُ وَيُفْتَحُ فِيهَا الْقُرْآنُ حَتَّى يَأْخُذَهُ الْمُؤْمِنُ وَالْمُنَافِقُ وَالرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ وَالصَّغِيرُ وَالْكَبِيرُ وَالْعَبْدُ وَالْحُرُّ فَيُوشِكُ قَائِلٌ أَنْ يَقُولَ مَا لِلنَّاسِ لاَ يَتَّبِعُونِى وَقَدْ قَرَأْتُ الْقُرْآنَ۔[سنن ابی داؤد،رقم الحدیث:۴۶۱۱[ ترجمہ:تمہارے بعد فتنے ہونگے،ان فتنوں میں مال کی کثرت ہوگی اور قرآن کھولا جائےگا حتی کہ اسے مومن اور منافق،مرد اور عورت،چھوٹا اور بڑا،غلام اور آزاد سبھی پڑہیں گے۔پس عن قریب کہنے والا کہےگا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ میری پیروی نہیں کرتے حالانکہ میں قرآن پڑھتا ہوں۔ اس حدیث کو پڑھ کر نتیجہ اخذ کرنا قارئین کے لئے آسان ہوگا۔اور کچھ یہ ہی حال جناب مرزا صاحب کا ہےلوگوں کو قرآن کے نام لے کر بہکا رہے ہیں۔ ابن العربی المالکی لکھتے ہیں: اور کبھی بعض لوگ بلا علم خود کو عالم گرداننے لگتے ہیں(جیسا کہ مرزا صاحب) اور یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر ایسا غیر عالم شخص تاویلاتِ فاسدہ کے ذریعے اپنی خطا (غلطی) کو لوگوں پر مسلط کرتا ہے۔[عارضۃ الاحوذی ج۶ ص ۶۸[ یہی حال کچھ مرزا صاحب ہے کہ وہ تراجم قرآن پڑھ کر، اپنی سمجھ کے مطابق آیات قرآنی کے معنی اور مطلب متعین کرتے ہیں اور انہیں تقریر اور تحریر کے ذریعے پھیلا رہےہیں،جس کے نتیجے میں ایک نئے فتنے اور فساد کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ۳۔مرزا صاحب کا دعوی تو یہ ہے کہ ان کی تحریک مسلکی تعصب اور فرقہ واریت سے پاک ہے،مگر ان کا طرز عمل قدیم خوارج اور آج کل کے غیر مقلدین جیسا ہے، جو دھوکہ دینے کے لیے بظاہر تو لوگوں کو قرآن كريم کی دعوت دیتےہیں،ليكن خوارج کی طرح ان الحکم الا للہ یعنی حکم صرف اللہ کا، کا نعرہ لگا کر، اپنی دعوت قبول کرنے والوں کے سوا باقی لوگوں کو مشرک،گمراہ یا قرآن کے مخالف کا خطاب دیتے ہیں۔مرز ا صاحب نے اہل سنت کے رد میں وہ آیات بھی نقل کیں، جو کفار اور مشرکین کی مذمت میں نازل ہوئیں، اللہ تعالیٰ ایسوں کے شر سے محفوظ فرمائے،ایسےلوگوں کے بارے میں صحابی رسولﷺ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاقول ملاحظہ فرمائیں: قَالَ أَبُو جَعْفَر الطَّبَرِيّ فِي كتاب تَهْذِيب الْآثَار لَهُ ثَنَا يُونُس ثَنَا ابْن وهب أَخْبرنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ بكيرا حَدثهُ أَنه سَأَلَ نَافِعًا كَيفَ كَانَ رَأْي ابْن عمر فِي الحرورية قَالَ يراهم شرار خلق الله انْطَلقُوا إِلَى آيَات فِي الْكفَّار فجعلوها فِي الْمُؤمنِينَ وَهَكَذَا ذكر ابْن عبد الْبر فِي الاستذكار أَن ابْن وهب رَوَاهُ فِي جَامعه وَبَين أَن بكيرا هُوَ ابْن عبد الله بن الْأَشَج وَإِسْنَاده صَحِيح۔ ]تغليق التعليق على صحيح البخاری جلد ۵ ص ۲۵۹[ ترجمہ: یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خوارج کو تمام مخلوق میں سب سے بدتر سمجھتے تھے کیونکہ وہ ان آیات کو جو کفار کے حق میں نازل ہوئیں، مومنین پر منطبق کرتے تھے[اور یوں ان پر کافر و مشرک کا فتوی لگاتے]۔ اس روایت کی سند کو حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تغلیق التعلیق ص 259 جلد 5 پر صحیح کہا ہے۔ ہم نے مرزا صاحب کے اعتراضات کے جواب میں متعدد محدثین و مجتہدین، اسلاف اُمت کے حوالے پیش کیے ہیں، کیونکہ مرزا صاحب فرماتے ہیں: "(اجماع امت) کو حجت ماننا دراَصل قرآن وحدیث کا حکم ماننے میں ہی داخل ہے"۔ آئیے! اب انجینئر مرزا علی صاحب کے ان اعتراضات کی طرف چلتے ہیں جو انہوں نے اہل سنت پر کیے اور جنہیں اپنی دانست میں وہ نا قابل رد سمجھتے ہیں۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:اللہ نے یہودیوں اور عیسائیوں کی گمراہی و بربادی کی سب سے بڑی وجہ کا ذکر یوں فرمایا ہے: اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ۔التوبة: 31 ترجمہ آیت مبارکہ: ان(یہودی اور عیسائی) لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے درویش لوگوں اور علماء کو اپنا رب بنا لیا ہے۔[وحی چھوڑ کر اپنے بزرگوں کی مانتے ہیں۔](اندھا دھند پیروی کا انجام ص: 1 ،عنوان: یہود و نصاریٰ کی گمراہی کی بڑی وجہ) الجواب بعون الوہاب:: جناب مرزا علی صاحب نے اس مقام پر نامكمل آیت نقل کر کے، خود یہودیوںوالا طریقہ اختیار کیا ہے۔مكمل آیت کچھ یوں ہے: وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ترجمہ مکمل آیت: ان(یہودی اور عیسائی) لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے درویش لوگوں اور علماء اور مسيح ابن مريم کو اپنا رب بنا لیا ہے ،حالانکہ ان کو حکم یہی ہوا تھا کہ ایک خدا کی بندگی کریں، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ پاک ہے اس سے، جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔ جناب مرزا صاحب نے اولاً تو آدھی بات بیان کی اور آدھی کھا گئے، پھر یہ کہ اس پر اپنی طرف سے جو بات بریکٹ میں لکھ کر دھوکہ دینے کی کوشش کی کہ [ وحی چھوڑ کر اپنے بزرگوں کی مانتے ہیں ]، وه ان کے دعوی کے لیے ناکافی ہے،کیونکہ اس آیت سے مرزا صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ درویش لوگوں اور علماء کے اقوال کو بالمقابل وحی کے ماننا کفر ہے۔ لیکن مرزا صاحب! ذرا یہ بھی بتائے کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بات ماننا کفر وشرک ہے اور کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کفر وشرک کا حکم کر سکتے ہیں؟!! العیاذ باللہ ۔ شاید اسی وجہ سے مرزا صاحب نے صراط یہود ہو اختیار کرتے ہوئے آدھی آیت کو چھپا دیا۔ ثانیاً: اس آیت مبارکہ سے مرزا صاحب کا مدعی کسی صورت پورا نہیں ہوسکتا کیونکہ اس آیت کے باقیہ حصہ، جسے مرزا صاحب نے چھپا لیا تھا، میں یہود ونصاری کی گمراہی کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرا لیے تھے اور درویشوں، علماء اور حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کو خدا بنالیا تھا۔ یہی ان کی گم راہی کا سبب تھاورنہ رسول خدا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بات ماننا تو عین اسلام تھا۔غور فرمائیے! کہ مرزا صاحب کی ریسرچ کی زد سےرسول خدا بھی محفوظ نہیں، اور مرزا صاحب کی اس باطل تاویل کی وجہ سے پیغمبر خدا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بات ماننا بھی گمراہی ٹھہرتی ہے۔اللہ تعالیٰ ایسی ریسرچ اور تاویلات فاسدہ سے محفوظ فرمائے۔ ''شمالی ہوا ''پر تحقیقی جائزہ انجینئر محمد علی مرزا صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں: علماء کا نظریہ:جب مجمع ہوا کفار کا مدینہ پر کہ اسلام کا قلع قمع کردیں، یہ ’غزوہ احزاب کا واقعہ ہے، رب عزوجل نے مدد فرمانی چاہی اپنے حبیب کی، شمالی ہوا کو حکم ہوا جا اور کافروں کو نیست ونابود کر دے ۔ اس نے کہا ’بیبیاں رات کو باہر نہیں نکلتیں تو اللہ تعالی نے اس کو بانجھ کر دیا ،اسی وجہ سے شمالی ہوا سے کبھی پانی نہیں برستا، پھر صبا سے فرمایا تو اس نے عرض کیا ہم نے سنا اور اطاعت کی، وہ گئی اور کفار کو برباد کرنا شروع کیا۔[بریلوی:مولانا احمد رضاخان صاحب ملفوظات حصہ چہارم ص۳۷۷ بک کارنر جہلم[ وحی کا نظریہ:إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ۔سورة يس: آية 82 ترجمہ: اس اللہ کا حکم تو ایسا نافذ ہے کہ جب کبھی کسی چیز کا اراداہ کرتا ہے تو اسے اتنا فرمادینا کافی ہے کہ ہو جا،تو وہ اسی وقت ہو جاتی ہے۔ )اندھا دھند پیروی کا انجام ص: 1رقم:2( اس مسئلہ پر غیر مقلد کے ایک دوسرے نام نہاد محقق زبیر علیزئی نے بھی اعتراض کیا ہے۔ اپنے رسالہ میں لکھتا ہے :’’احمد رضا خان بریلوی کا یہ دعوی ہے کہ شمالی ہوا نے اللہ تعالی کا حکم نہیں مانا ‘‘۔ (الحدیث شمارہ نمبر ۸۶ صفحہ ۳۰ ، الحدیث ، شمارہ نمبر ۸۶ صفحہ ۳۲) الجواب بعون الوھاب: مرزا صاحب کا یہ اعتراض بغض اہل سنت میں اپنے غیر مقلدین اکابرین کی تقلید کا ثبوت ہے ۔کیونکہ یہ بات تو متعدد روایات اور مروایات سے ثابت ہے جس کو محدثین کرام نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔ شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ابن مردویہ اپنی تفسیر میں حضرت ابن عباس سے ایک عجیب نکتہ بیان کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ احزاب والی رات میں بادصباء نے بادِ شمال سے کہا آؤ ہم دونوں رسول خدا کی مدد کریں، بادِ شمال نے جواب میں بادِصبا سے کہا: ان الحرۃ لاتسیر باللیل، حرہ یعنی اصیل و آزاد عورت رات کو نہیں چلا کرتی ۔ باد صباء نے کہا حق تعالیٰ تجھ پر غضب کرے ۔ اور اسے عقیم یعنی بانجھ بنا دیا ۔ تو جس ہوا نے اس رات رسول اللہ کی مدد کی وہ بادِ صبا تھی ۔ اسی لئے حضور نے فرمایا: میری مدد بادِ صبا سے کی گئی اورقوم عاد دبور یعنی باد شمال سے ہلاک کی گئی ۔ ) مدارج النبوۃ 301/2) امام زرقانی المالکی فرماتے ہیں : روى ابن مردويه والبزار وغيرهما برجال الصحيح، عن ابن عباس قال: لما كانت ليلة الأحزاب قال الصبا للشمال: اذهبي بنا ننصر رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: إن الحرائر لا تهب بالليل، فغضب الله عليها، فجعلها عقيما، وأرسل الصبا، فأطفأت نيرانهم، وقطعت أطنابهم، فقال صلى الله عليه وسلم: "نصرت بالصبا وأهلكت عاد بالدبور". (شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية 55/3) اس روایت کو مفسرین کرام نے اپنی اپنی تفاسیر میں ذکر کیا ہے۔ مفسر طبری نے اس روایت کو اپنی تفیسیر میں سندا نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: ثنا عَبْدُ الْأَعْلَى، قَالَ: ثنا دَاوُدُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: " قَالَتِ الْجَنُوبُ لِلشِّمَالِ لَيْلَةَ الْأَحْزَابِ: انْطَلِقِي نَنْصُرْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتٍ الشِّمَالُ: إِنَّ الْحُرَّةَ لَا تَسْرِي بِاللَّيْلِ، قَالَ: فَكَانَتِ الرِّيحُ الَّتِي أُرْسِلَتْ عَلَيْهِمُ الصَّبَا "۔ )تفسير الطبري( 25/19 · تفسیر خازن جلد 411/3 · اللباب في علوم الكتاب 510/15 · السراج المنير223/3 · تفسير القرآن العظيم344/5 · معالم التنزيل في تفسير القرآن 321/6 · الكشف والبيان عن تفسير القرآن 11/8 · تفسير القرطبي143/14 · الهداية إلى بلوغ النهاية في علم معاني القرآن وتفسيره 5791/9 محدثین کرام نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ · امام الدینوری لکھتے ہیں۔ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، نَا زَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، نَا أَبِي، عَنْ بِشْرِ بْنِ الْمُفَضَّلِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ عِكْرِمَةَ؛ قَالَ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الأَحْزَابِ قَالَتِ الْجَنُوبُ لِلشَّمَالِ: انْطَلِقِي بِنَا نمد رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَتِ الشَّمَالُ: إِنَّ الْحَرَّةَ لا تَسْرِي بِاللَّيْلِ. فَكَانَتِ الرِّيحُ الَّتِي أُرْسِلَتْ عَلَيْهِمُ الصَّبَا).المجالسة وجواهر العلم 525/3سندہ ضعیف( · علامہ ہیثمی لکھتے ہیں۔ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «أَتَتِ الصَّبَا الشَّمَالُ لَيْلَةَ الْأَحْزَابِ، فَقَالَ: مُرِّي حَتَّى نَنْصُرَ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَتِ الشَّمَالُ: إِنَّ الْحُرَّةَ لَا تَسْرِي بِاللَّيْلِ، فَكَانَتِ الرِّيحُ الَّتِي نُصِرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبَا».رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ. )مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 139/6( · علامہ ہیثمی اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، ثنا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَتَتِ الصَّبَا الشَّمَالَ لَيْلَةَ الأَحْزَابِ، فَقَالَتْ: مُرِّي حَتَّى نَنْصُرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتِ الشَّمَالُ: إِنَّ الْحُرَّةَ لا تَسْرِي بِاللَّيْلِ، وَكَانَتِ الرِّيحُ الَّتِي نُصِرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبَا. قَالَ الْبَزَّارُ: رَوَاهُ جَمَاعَةٌ عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلا، وَلا نَعْلَمُ أَحَدًا وَصَلَهُ إِلا حَفْصٌ وَرَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، وَكَانَ ثِقَةً، يُقَال لَهُ: خَلَفُ بْنُ عَمْرٍو. ) كشف الأستار عن زوائد البزار 336/2 ( · امام ابو الشیخ روایت کرتےہیں۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي حَاتِمٍ، وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَابْنُ الْجَارُودِ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: " أَتَتِ الصَّبَا الشَّمَالَ، فَقَالَتْ: مُرِي حَتَّى نَنصُرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتِ الشَّمَالُ: إِنَّ الْحُرَّةَ لَا تَسْرِي، فَكَانَتِ الرِّيحُ الَّتِي نُصِرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبَا " )العظمة 1346/4 ( · محدث بزار اپنی سند سے روایت نقل کرتے ہیں۔ حَدَّثنا عَبد الله بن سَعِيد، قَال: حَدَّثنا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَن دَاود، عَن عِكْرِمة، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَتَتِ الصَّبَا الشَّمَالَ فَقَالَتْ: مُرِّي حَتَّى نَنْصُرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم فَقَالَتْ الشَّمَالُ: إِنَّ الْحَرَّةَ لا تَسْرِي بِاللَّيْلِ فَكَانَتِ الرِّيحُ الَّتِي نُصِرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم الصَّبَا. )مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار 39/11 ( · حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں۔ حدثنا عبد الله بن سعيد، ثنا حفص بن غياث، عن داود، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: ((أتت الصبا الشمال ليلة الأحزب، فقالت: مر بى حتى ننصر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت الشمال: إن الحرة لا تسير بالليل، فكانت الريح التى نصر بها رسول الله صلى الله عليه وسلم: الصبا۔ قال: رواه جماعة عن داود، عن عكرمة مرسلاً، ولا نعلم أحداً وصله إلا حفص ورجل من أهل البصرة وكان ثقة يقال له خلف بن عمر۔و ھذا صحیح) مختصر زوائد مسند البزار37/2 ( ان مذکورہ بالا مفسرین و محدثین کرام نے یہ روایت اگر اپنی کتب میں درج کی اور روایتاً لکھی تو اعتراض اعلی حضرت عظیم البرکت پر اعتراض کیوں اور کیسا؟اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ مرزا صاحب اور انکی ہمنوا جماعت غیر مقلدین کا یہ اعتراض لغو اور باطل ہے۔ آقاﷺ کا عرش اور فرش سے افضل ہونے کے بارے میں تحقیق انجینئر محمد علی مرزا صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں: علماء کا نظریہ3:ذوالنون حضرت یونس علیہ السلام کا لقب ہے، کیونکہ آپ کچھ روز مچھلی کے پیٹ میں رہے۔۔۔علماء فرماتے ہیں کہ اس مچھلی کا پیٹ اللہ تعالیٰ کے عرش اعظم سے افضل ہے کہ ایک پیغمبر کا کچھ دن تجلی گاہ رہا۔ جب مچھلی کا پیٹ عرش اعظم سے افضل ہوگیا تو حضرت آمنہ خاتون کا شکم پاک جس میں سیدنا الانبیاء ﷺ نو ماہ تک جلوہ افروز رہے وہ تو عرش اعظم سے بھی افضل ہے۔ [بریلوی:مفتی احمد یار نعیمی صاحب شرح مشکوۃ جلد سوم ص 357[ وحی کا نظریہ3:إِنَّ رَبَّكُمُ الله الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْش [ِ۔سورۃ الاعراف،آیت نمبر54 [ ترجمہ: بے شک تمہار رب اللہ تعالیٰ ہے جس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں،پھر عرش اعظم پر جلوہ افروز ہوا(جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے) الجواب بعون الوہاب: مرزا صاحب نے اس آیت میں "استواء علی العرش" سے کیا مراد لیا ہے؟یہ انہوں نے بظاہر صاف الفاظ میں بیان نہیں کیا، لیکن سیاق کلام سے واضح ہوتا ہے کہ وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ معاذ اللہ، اللہ کریم، عرش عظیم پر بیٹھا ہوا ہے اور چونکہ عرش اس سے مَس شدہ ہے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مس شدہ اشیاء کی بجائے عرش اعظم کو سب سے افضل ماننا چاہیے۔مزید مرزا صاحب کے اس دعوی سے معلوم ہو کہ وہ اللہ تعالی کی پاک اور منزہ عن العیوب ذات کو "مجسم" مانتے ہیں۔العیاذباللہ۔ اولا: یہ آیت، آیات متشابہات میں سے ہے، لہذا اس آیت میں کلام کرنا ممنوع ہے، چہ جائیکہ ایسی آیات کا کوئی معنی متعین کرکے اسے اپنے فاسد عقیدہ کے حق میں دلیل کے طور پر بیان کیا جائے۔ جبکہ قرآن کریم تو ایسوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ ان لوگوں کے دلوںمیں مرض ہے، جو آیات متشابہات کے ذریعے فساد کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی عقل کے مطابق مطلب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ھو الذی انزل علیک الکتٰب منہ اٰیت محکمٰت ھن ام الکتٰب و اٰخرمتشٰبھٰت فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ oومایعلم تاویلہ الا اﷲ م و الراسخون فی العلم یقولون اٰمنّا بہ کل من عند ربنا وما یذکرالا اولوالالباب ۔ وہی ہے جس نے اتاری تجھ پر کتاب اس میں بعض آیتیں پکی ہیں سو جڑ ہیں کتاب کی، اور دوسری ہیں کئی طرف ملتی، سوجن کے دل ہیں پھرے ہوئے وہ لگتے ہیں ان کے ڈھب والیوں سے ، تلاش کرتے ہیں گمراہی اور تلاش کرتے ہیں اُن کی کل بیٹھانی ، اور ان کی کل کوئی نہیں جانتا سوائے اﷲ کے، اور جو مضبوط علم والے ہیں سوکہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے، اور سمجھائے وہی سمجھے ہیں جن کو عقل ہے۔ (القرآن الکریم۳/ ۷، موضح القرآنترجمہ و تفسیر شاہ عبدالقادر۱۲۱ تاج کمپنی لاہورص ۶۲) مرزا صاحب کے مقلدین کو توجہ کرنی چاہیے کہ یہ سمجھنا کہ ہر وہ شخص جو اپنی بات کے ثبوت کے لیے اپنی دانست کے مطابق قرآن وحدیث کا حوالہ پیش کر رہا ہے، اس کی وہ بات صحیح ہے، درست نہیں، کیونکہ اگر قرآن کریم کو سمجھنا اس قدر معمولی بات ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی کیا حاجت تھی؟یونہی کلام رسول کے معانی ومطالب کو سمجھنا اور ان کے نتیجہ ومآل تک پہنچنا اس قدر آسان ہوتا توخود صحابہ کرام اپنے دینی معاملات کے حل کے لیے، فقیہ صحابہ کی طرف کیوں رجوع فرمایا کرتے؟ اور بشمول صحیح بخاری اور صحیح مسلم، کتب احادیث کی ان شروح کی کیا حاجت تھی؟مزید یہ کہ یہاں کتنے ہی ایسے ہیں جو قرآنی آیت کا ترجمہ تک خود نہیں کر سکتے، بلکہ ترجمہ شدہ قرآن کریم کی مدد لیتے ہیں، کیا آپ گمان کرتے ہیں کہ وہ آیات واحادیث کے درست نتیجے تک صرف اپنی عقل کے بل بوتے پر پہنچ سکتے ہیں؟! ہرگز ہرگز نہیں، جبکہ ان کا نتیجہ اسلاف کی رائے کے خلاف ہو۔ اگرچہ اس بات کو مرزا صاحب نے اپنے اس ریسرچ پیپر کے آخر میں نوٹ کے طور پر لکھا تو صحیح لیکن شاید اس پر غور نہیں کیا، کیونکہ اگر وہ اس بات پر غور کرتے تو ہرگز "استواء علی العرش" کا وہ خبیث مطلب نہ کرتے جو اُوپر بیان ہوا۔ آئیے! ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ آیات متشابہات کے بارے میں اسلاف کیا فرماتے ہیں، اور پھر ہم "استواء علی العرش" کے بارے میں اسلاف کا مذہب بیان کريں گے: اہلسنت کے دو مسلک آیاتِ متشابہات میں ہیں: اول: اکثر نے فرمایا کہ جب یہ ظاہری معنی قطعاً مقصود نہیں، اور تاویلی مطلب متعین و محدود نہیں، تو ہم اپنی طرف سے کیا کہیں؟! یہی بہتر کہ اس کا علم اﷲ پر چھوڑیں ہمیں ہمارے رب نے آیاتِ متشابہات کے پیچھے پڑنے سے منع فرمایا اور ان کی تعیین مراد میں خوض کرنے کو گمراہی بتایا، تو ہم حد سے باہر کیوں قدم دھریں؟! اسی قرآن کے بتائے حصے پر قناعت کریں کہ آمنا بہ کل من عند ربنا ۔ (؎ القرآن الکریم ۳/ ۷)جو کچھ ہمارے مولی کی مراد ہے ہم اس پر ایمان لائے محکم متشابہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے۔ یہ مذہب جمہور آئمہ سلف کا ہے اور یہی اَسلم واَولی ہے، اسے مسلک تفویض و تسلیم کہتے ہیں۔ ان ائمہ نے فرمایا: استواء معلوم ہے کہ ضرور اللہ تعالی کی ایک صفت ہے، لیکن کیف مجہول ہے کہ اس کے معنی ہماری سمجھ سے وراء ہیں، اور ایمان اس پر واجب ہے کہ نص قطعی قرآن سے ثابت ہے ۔ دوم: بعض نے خیال کیا کہ جب اﷲ عزوجل نے محکم اور متشابہ دو قسمیں فرما کر محکمات کوھنّ ام الکتب( ؎ القرآن الکریم ۳/ ۷)فرمایا کہ وہ کتاب کی جڑ ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ہر فرع اپنی اصل کی طرف پلٹتی ہے، توآیہ کریمہ نے تاویل متشا بہات کی راہ خود بتادی اور ان کی ٹھیک معیار ہمیں سمجھا دی کہ ان میں وہ درست وپاکیز ہ احتمالات پیدا کرو جن سے یہ اپنی اصل یعنی محکمات کے مطابق آجائیں اور فتنہ و ضلال و باطل و محال راہ نہ پائیں۔ یہ ضرور ہے کہ اپنے نکالے ہوئے معنی پر یقین نہیں کرسکتے کہ اللہ عزوجل کی یہی مراد ہے مگر جب معنی صاف و پاکیزہ ہیں اور مخالفت محکمات سے بری و منزہ ہیں اور محاورات عرب کے لحاظ سے بن بھی سکتے ہیں تو احتمالی طور پر بیان کرنے میں کیا حرج ۔ اب آئیے متذکرہ بالا آیت کی تشریح کے بارے میں، دیکھئے اسلاف اس بارے میں کیا فرماتے ہیں: ۱۔معالم التنزیل میں ہے: اما اھل السنۃ یقولون الاستواء علی العرش صفۃ ﷲ تعالٰی بلا کیف یجب علی الرجل الایمان بہ ویکل العلم فیہ الی اﷲ عزوجل ۔(معالم التنزیل تحت الآیۃ ۷/ ۵۴ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲/ ۱۳۷) یعنی رہے اہلسنت ،وہ یہ فرماتےہیں کہ عرش پر استواء اﷲ عزوجل کی ایک صفت بے چونی و چگونگی ہے، مسلمان پر فرض ہے کہ اُس پر ایمان لائے اور اس کے معنی کا علم خدا کو سونپے ۔ ۲۔امام بیہقی کتاب الاسماء والصفات میں فرماتے ہیں: الاستواء فالمتقدمون من اصحابنا رضی اللہ تعالٰی عنہم کانو الا یفسرونہ ولا یتکلمون فیہ کنحومذھبہم فی امثال ذٰلک ۔ ( کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش استوٰی ۲/ ۱۵۰) ہمارے اصحاب متقدمین رضی اللہ تعالٰی عنہم استواء کے کچھ معنی نہ کہتے تھے نہ اس میں اصلاً زبان کھولتے جس طرح تمام صفات متشابہات میں اُن کا یہی مذہب ہے۔ ۳۔یحٰیی بن یحیٰی سے روایت کی: کنا عند مالک بن انس فجاء رجل فقال یا ابا عبدا ﷲ الرحمن علی العرش استوی فکیف استوٰی ؟ قال فاطرق مالک راسہ حتی علاہ الرحضاء ثم قال الاستواء غیر مجہول والکیف غیر معقول والایمان بہ واجب، والمسؤل عنہ بد عۃ ، وما اراک الامبتدعا فامربہ ان یخرج ۔ ( کتاب الاسماء والصفات باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش الخ ۲/ ۱۵۰ و ا۱۵) ہم امام مالک رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر تھے ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کی اے ابوعبداللہ! رحمن نے عرش پر استواء فرمایا یہ استواء کس طرح ہے؟ اس کے سنتے ہی امام نے سر مبارک جھکالیا یہاں تک کہ بدن مقدس پسینہ پسینہ ہوگیا، پھر فرمایا : استواء مجہول نہیں اور کیفیت معقول نہیں اور اس پر ایمان فرض اور اس سے استفسار بدعت اور میرے خیال میں تو ضرور بدمذہب ہے، پھر حکم دیا کہ اسے نکال دو۔ ۴۔ عبداللہ بن صالح بن مسلم سے روایت کی: سئل ربیعۃ الرأی عن قول اﷲ تبارک وتعالٰی الرحمن علی العرش استوٰی کیف استوٰی ؟قال الکیف غیر معقول والا ستواء غیر مجہول ویجب علیّ وعلیک الایمان بذلک کلہ ۔ (کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش استوٰی۲/ ۱۵۱) یعنی امام ربیعہ بن ابی عبدالرحمن استاذ امام مالک سے جنہیں بوجہ قوت عقل و کثرت قیاس ربیعۃ الرائے لکھا جاتا یہی سوال ہوا، فرمایا کیفیت غیر معقول ہے اور اﷲ تعالٰی کا استواء مجہول نہیں اور مجھ پر اور تجھ پر ان سب باتوں پر ایمان لانا واجب ہے۔ ۵۔ امام احمد بن ابی الحواری امام سفٰین بن عیینہ سے روایت کی کہ فرماتے: ماوصف اﷲ تعالٰی من نفسہ فی کتابہ فتفسیرہ تلاوتہ والسکوت علیہ ۔ (کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش ۲/ ۱۵۱ ) یعنی اس قسم کی جتنی صفات اﷲ عزوجل نے قرآن عظیم میں اپنے لیے بیان فرمائی ہیں ان کی تفسیر یہی ہے کہ تلاوت کیجئے اور خاموش رہیے۔ ۶۔ اسحق بن موسٰی انصاری نے کہا کہ: لیس لاحدان یفسرہ بالعربیۃ و لابالفارسیۃ ۔ ( کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی اثبات العین / ۴۲) کسی کو جائز نہیں کہ عربی میں خواہ فارسی کسی زبان میں اس کے معنی کہے۔ ۷۔ حاکم سے روایت کی انہوں نے امام ابوبکر احمد بن اسحق بن ایوب کا عقائد نامہ دکھایا جس میں مذہب اہلسنت مندرجہ تھا اس میں لکھا ہے: الرحمن علی العرش استوی بلاکیف (کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش استوٰ ۲/ ۱۵۲) رحمن کا استواء بیچون و بیچگون ہے۔ ۸۔ امام شافعی رحمة الله عليه، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه کے بارے میں لکھا ہے : والاثار عن السلف فی مثل ھذاکثیرۃ وعلٰی ھذہ الطریقۃ یدل مذہب الشافعی رضی اللہ تعالی عنہ والیہاذھب احمد بن حنبل والحسین بن الفضل البلخی ومن المتاخرین ابوسلیمن الخطابی ۔ ( کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش ۲/ ۱۵۲) یعنی اس باب میں سلف صالح سے روایات بکثرت ہیں اور اس طریقہ سکوت پر ایمان شافعی کا مذہب دلالت کرتا ہے اور یہی مسلک امام احمد بن حنبل و امام حسین بن فضل بلخی اور متاخرین سے امام ابوسلیمن خطابی کا ہے۔ الحمدﷲ امام اعظم سے روایت عنقریب آتی ہے ، ائمہ ثلٰثہ سے یہ موجود ہیں، ثابت ہوا کہ چاروں اماموں کا اجماع ہے کہ استواء کے معنی کچھ نہ کہے جائیں اس پر ایمان واجب ہے اور معنی کی تفتیش حرام یہی طریقہ جملہ سلف صالحین کا ہے۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب میں امام خطابی سے نقل کرتے ہیں ۔ ونحن احری بان لانتقدم فیما تأخر عنہ من ھو اکثر علما و اقدم زمانا وسنا، ولکن الزمان الذی نحن فیہ قد صاراھلہ حزبین منکرلما یروی من نوع ھٰذہ الاحادیث راسا ومکذب بہ اصلا، وفی ذلک تکذیب العلماء الذین ردوا ھٰذہ الاحادیث وھم ائمۃ الدین ونقلۃ السنن و الواسطۃ بیننا و بین رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، والطائفۃ الاخرٰی مسلمۃ للروایۃ فیہا ذاھبۃ فی تحقیق منہا مذھبا یکاد یفضی بھم الی القول بالتشبیہ و نحن نرغب عن الامرین معاً ، ولا نرضی بواحد منھما مذہبا، فیحق علینا ان نطلب لما یرد من ھٰذہ الاحادیث اذا صحت من طریق فالنقل والسند ، تاویلا یخرج علی معانی اصول الدین ومذاہب العلماء و لاتبطل الروایۃ فیہا اصلا، اذا کانت طرقہا مرضیۃ ونقلتہا عدولا۔ (کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماذکر فی القدم ۲/ ۸۶( یعنی جب اُن ائمہ کرام نے، جو ہم سے علم میں زائد اور زمانے میں مقدّم اور عمر میں بڑے تھے، متشا بہات میں سکوت فرمایا تو ہمیں بھی ساکت ہی رہنا چاہیے اور ہمارے زیادہ لائق یہی ہے کہ ہم ان کے معانی کے بارے میں کچھ نہ بولیں ۔مگر ہمارے زمانے میں دو گروہ پیدا ہوئے، ایک تو اس قسم کی حدیثوں کو سرے سے رَد کرتا اور جھوٹ بتاتا ہے، اس میں علمائے رواۃ احادیث کی تکذیب لازم آتی ہے، حالانکہ وہ دین کے امام ہیں اور سنتوں کے ناقل اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تک ہمارے وسائط و رسائل۔ اور دوسرا گر وہ ان روایتوں کو مان کر ان کے ظاہری معنی کی طرف ایسا جاتا ہے کہ اس کا کلام اﷲ عزوجل کو خلق سے مشابہ کردینے تک پہنچانا چاہتا ہے اور ہمیں یہ دونوں باتیں ناپسند ہیں، ہم ان میں سے کسی کو مذہب بنانے پر راضی نہیں، تو ہمیں ضرور ہوا کہ اس بات میں جو صحیح حدیثیں آئیں اُن کی وہ تاویل کردیں جس سے ان کے معنی اصول عقائد وآیات محکمات کے مطابق ہوجائیں اور صحیح روایتیں کہ علماء ثقات کی سند سے آئیں باطل نہ ہونے پائیں۔ یوں مرزا صاحب کے دعوی کی وہ دیوار جس کی بنیاد انہوں نے اپنی عقل کے مطابق ایک آیت سے غلط استدلال پر رکھی تھی، دھڑام سے زمین بوس جاتی ہے۔ لہذا مرزا صاحب کوچاہیے کہ آئندہ کچھ کہنے سے پہلے اسلاف رحمہ اللہ المبین کے کلام کا مطالعہ کر لیا کریں، کہ اہل سنت سے عناد کی بنا پر کچھ ایسا نہ لکھ دیں جس سے سابقہ امت اور ائمہ ومحدثین کو گم راہ ٹھہرنا لزم آئے۔ دوم: ہم اس مسئلہ کی مزید وضاحت اور مرزا صاحب کے دجل وفریب کے رد کے لیے اسلاف میں سے علماء ومحدثین کے اقوال نقل کرتے ہیں تاکہ قارئین کو اندازہ ہو سکے کہ جو بات سیدی امام احمد رضا خان اور حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہما نے فرمائی اور ان کی اپنی اختراع ہرگز نہیں، بلکہ سلف سے یہ عقیدہ امت میں متوارث ہے، لیکن مرزا صاحب کا صرف ان دو حضرات کو مورد الزام ٹھہرنا، یا تو مرزا صاحب کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے، یا ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔ آئیے ملاحظہ فرمائیے: · امام فخر الدين رازی علیہ رحمۃ اللہ الہادی ، تفسیر کبیر میں درج ذیل آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: وما ارسلنٰک الا رحمۃ للعٰلمین۔ اے محبوب ! ہم نے تجھے نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے ۔ (القرآن الکریم ۲۱ /۱۰۷) تفسیر: لماکان رحمۃ للعالمین لزم ان یکون افضل من کل العٰلمین ۔قلت وادعاء التخصیص خروج عن الظاھر بلادلیل وھو لایجوز عند عاقل فضلا عن فاضل واللہ الھادی۔جب حضور تمام عالم کے لیے رحمت ہیں واجب ہوا کہ تمام ماسوائے اللہ سے افضل ہوں ۔میں کہتاہوں تخصیص کا دعوٰی کرنا ظاہر سے بلادلیل خروج ہے اوروہ کسی عاقل کے نزدیک جائز نہیں چہ جائیکہ کسی فاضل کے نزدیک ۔ اوراللہ تعالی ہی ہدایت دینے والا ہے ۔ (مفاتیح الغیب [التفسیر الکبیر]تحت الآیۃ ۲ /۲۵۳ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶ /۱۶۵) · محدث ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: · وقع الاجماع علی تفضیل ما ضم الاعضاء الشریفۃ حتی علی الکعبہ۔ ترجمہ:اس بات پر اجماع ہے کہ جو حصہ جسم کے ساتھ ملا ہوا ہے، وہ ہر چیز سے افضل ہے حتیٰ کہ کعبہ معظمہ سے بھی افضل ہے۔ [سبل الھدی و الرشاد ج۲ ص ۳۱۵] · محدث خفاجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بل ھی افضل من السموات و العرش و الکعبۃ ۔ بلکہ یہ(زمین کا حصہ جو نبی کریمﷺ کے جسم کے ساتھ مس کیا ہوا ہے) آسمانوں، عرش اور کعبہ سے بھی افضل ہے۔ [نسیم الریاض شرح الشفاء ج۳ ص ۵۳۱] ماننے والوں کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے لیکن کیا کریں مرزا صاحب جیسے لوگ اس وقت تک نہیں مانتے جب تک ان کے اپنے کسی کا حوالہ نہ دیکھ لیں، ویسے مانتے تو پھر بھی نہیں البتہ وقتی طور پر خاموش ہو جاتے ہیں ، مرزا صاحب ! کے اطمنان نفس کے لیے ان کے اپنے گھر کا حوالہ ملاحظہ کیجئے، شايد یہ مان ہی جائیں، · ابن قیم، ابن عقیل کے حوالے سے نقل کرتے ہیں: إن أردت مجرد الحجرة فالكعبة أفضل وإن أردت وهو فيها فلا والله ولا العرش وحملته ولا جنة عدن ولا الأفلاك الدائرة لأن بالحجرة جسدا لو وزن بالكونين لرجح ۔ ترجمہ:اگر تمہاری مراد محض حجرہ نبویﷺ سے ہے تو کعبہ افضل ہے ،اور اگر تمہاری مراد بشمول جسد اطہر ہے، تو خدا کی قسم! نہ ہی عرش، نہ حاملین عرش اور نہ ہی گردش کرنے والے افلاک، کوئی بھی چیز اس سے افضل نہیں ہے؛ کیونکہ روضہ مبارکہ میں ایک ایسا جسد اطہر ہے کہ اگر دونوں جہانوں کے ساتھ بھی اسے تولا جائے(وزن کیا جائے) تو وہ بھاری رہے۔(بدائع الفوائد ج۳ ص ۱۰۶۵( · اس بات کو غیر مقلد عالم جناب داود غزنوی نے بھی بیان ہے، ملاحظہ کریں سوانح داود غزنوی ص ۳۴۶۔ جناب والا ! اب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ غیر مقلد عالم جناب داود غزنوی کے نام بھی گستاخوں میں شامل کرتےہیں یا پھر آپ کی دشمنی صرف اہل سنت کے ساتھ ہے۔ ''یا جنید یا جنید ''کاتحقیق جائزہ انجینئر محمد علی مرزا صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں۔ علماء کا نظریہ: ایک مرتبہ حضرت سید الطائفہ جنید بغدای رحمۃ اللہ علیہ دجلہ پر تشریف لائے اور یا اللہ کہتے ہوئے اس پر زمین کی مثل چلنے لگے ، بعد کو ایک شخص آیا ، اسے پار جانے کی ضرورت تھی ، کوئی کشتی اس وقت موجود نہ تھی ۔ جب اس نے حضرت کو جاتے دیکھا ۔ عرض کی: میں کس طرح آؤں فرمایا: یا جنید یا جنید کہتا چلا آ۔ اس نے یہی کہا اور دریا پر زمین کی طرح چلنے لگا ۔ جب بیچ دریا میں پہنچا ۔ شیطان لعین نے دل میں وسوسہ ڈالا ، کہ حضرت خود تو یا اللہ کہیں اور مجھ سے یا جنید کہلواتے ہیں ۔ میں بھی یا اللہ کیوں نہ کہوں ۔ اس نے یا اللہ کہا اور ساتھ ہی غوطہ کھایا ۔ پکارا: حضرت میں چلا ، فرمایا وہی کہہ یا جنید یا جنید جب کہا دریا سے پار ہوا ۔ عرض کی حضرت یہ کیا بات تھی ۔ آپ اللہ کہیں تو پار ہوں اورمیں کہوں تو غوطہ کھاؤں ۔ فرمایا: ارے نادان ابھی تو جنید تک تو پہنچا نہیں اللہ تک رسائی کی ہوس ہے ۔ [بریلوی:مولانا احمد رضا خان صاحب ملفوظات حصہ اول ص ۹۷ بک کارنر جہلم[ وحی کا فیصلہ:سیدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اے بیٹے تو اللہ کے احکام کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت فرمائے گا۔اللہ کے حقوق کا خیال رکھا تو اسے اپنے سامنے پائے گا۔ اذا سالت فا سال اللہ و اذا استعنت فاستعن باللہ۔( ترجمہ:جب تو سوال کرے تو صرف اللہ سے کرنااور جب تو مددطلب کرے تو اللہ ہی سے مدد طلب کرنا)اور جان لے کہ اگر پوری امت بھی جمع ہو کر تجھے کوئی فائدہ پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکے گی مگر جو اللہ چاہے۔اور اگر پوری امت بھی جمع ہو کر تجھے نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سے گی مگر جو اللہ چاہے (تقدیر لکھنے کے بعد) قلم اٹھ گئے اور صحیفے خشک ہوگئے۔[نوٹ امام ترمذی نے اس کی سند کو حسن صحیح کہا ہے].[جامع ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ حدیث نمبر:2516[ الجواب بعون الوھاب: عرض یہ ہے کہ مرزا صاحب نے جو ملفوظات پر اعتراض کیا ہے وہ تحقیق کے خلاف ہے۔کیونکہ فتاوٰ ی رضویہ کے مقابل میں ملفوظات کے عبارت قابل قبول نہیں ہے۔خود مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان نے ملفوظات میں اغلاط اور کاتب کے غلطیوں پر اظہار برہمی اور ناپسندیگی کا اظہار کیا ہے۔کیونکہ ناشرین ملفوظات چھاپ رہے ہیں مگر اس کی تصحیح کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔لہذا فتویٰ رضویہ جو کہ مدون ہے اس کے مقابلے میں ملفوظات کو وہ مقام حاصل نہیں جو کہ ایک مصنف کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب ہوتی ہے۔اور یہ یاد رہے کہ ملفوظات اعلیٰ حضرت ان کی اپنی تصنیف نہیں بلکہ ان سے سنے ہوئے مسائل کو علماء نے وقتاً فوقتاً لکھا جس میں تغیر اور تبدیلی کے امکانات ہمیشہ رہتے ہیں۔لہذا اگر کوئی مسئلہ فتاویٰ رضویہ کے خلاف ملفوظات میں آجائے تو وه مرجوع ہوگا۔لہذا ملفوظات پر اعتراض کرنا کوئی تحقیقی کام نہیں۔ · جبکہ اسی عبارت کے برعکس اعلیٰ حضرت اپنے ملفوظات میں اس سوال کا جواب کچھ یوں دیتے ہیں۔ مسئلہ ۲۴۵: [ازشفاخانہ فریدپورڈاکخانہ خاص اسٹیشن پتمبرپور مسئولہ عظیم اﷲ کمپونڈر ۷رمضان ۱۳۳۹ھ[ کیافرماتے ہیں علمائے دین کہ جنید ایک بزرگ کامل تھے انہوں نے سفرکیا، راستے میں ایک دریاپڑااس کوپارکرتے وقت ایک آدمی نے کہاکہ مجھ کوبھی دریاکے پارکردیجئے، تب ان بزرگ کامل نے کہاتم میرے پیچھے یاجنید یاجنیدکہتے چلو اور میں اﷲ اﷲ کہتاچلوں گا، درمیان میں وہ آدمی بھی اﷲ اﷲ کہنے لگا تب وہ ڈوبنے لگا، اس وقت ان بزرگ نے کہا کہ تو اﷲ اﷲ مت کہہ یاجنیدیاجنیدکہہ، تب اس آدمی نے یاجنیدیاجنیدکہاجب وہ نہیں ڈوبا۔ یہ درست ہے یانہیں؟ اوربزرگ کامل کے لئے کیاحکم ہے اورآدمی کے لئے کیاحکم ہے؟بیّنواتوجروا۔ الجواب : یہ غلط ہے کہ سفرمیں دریا ملابلکہ دجلہ ہی کے پارجاناتھا، اوریہ بھی زیادہ ہے کہ میں اﷲ اﷲ کہتاچلوں گا، اوریہ محض افتراہے کہ انہوں نے فرمایا تواﷲ اﷲ مت کہہ۔ یاجنیدکہنا خصوصاً حیات دنیاوی میں خصوصاً جبکہ پیش نظرموجودہیں اسے کون منع کرسکتاہے کہ آدمی کاحکم پوچھاجائے اورحضرت سیدالطائفہ جنیدبغدادی رضی اﷲ تعالی عنہ کے لئے حکم پوچھنا کمال بے ادبی وگستاخی ودریدہ دہنی ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔[فتاوی رضویہ جلد ۲۶ صفحہ۴۳۵۔۴۳۶] جب اعلیٰ حضرت کا اس بات کی تردید میں فتویٰ موجود ہے تو پھر ان پر الزام جہالت کے سواء اور کچھ بھی نہیں۔ مزید یہ کہ اگربالفرض یہ واقعہ ملفوظات میں مان بھی لیا جاءے تو کیا اس واقعہ کو نقل کرنے سے اعلیٰ حضرت قرآن و سنت کی مخالفت کرتے ہیں تو پھر جن بزرگ ہستی[حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ] کا یہ قول ہے ان کے بارے میں آپ کا کیا فتویٰ ہوگا۔ذرا ہوش سنبھال کر جواب دینا جناب۔ہو سکتا ہے کہ مرزا صاحب اپنی غصہ نکالنے کے لیے اس عزیم اور با برکت ہستی پرکوءی اعتراض نہ کر دے۔اس لیے محدثین سے ان کے بارے چند اقوال پیش خدمت ہیں۔ ۱۔محد ث ابی شھبہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ الاِمَام الْعلم فِي طَريقَة التصوف وَإِلَيْهِ الْمرجع فِي السلوك فِي زَمَانه وَبعده ۔ [طبقات الشافعیہ ج۱ ص ۷۶[ ۲۔ محدث سبکی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: سيد الطَّائِفَة ومقدم الْجَمَاعَة وَإِمَام أهل الْخِرْقَة وَشَيخ طَريقَة التصوف وَعلم الْأَوْلِيَاء فى زَمَانه وبهلوان العارفين [طبقات الکبریٰ الشافعیہ ج۲ ص ۲۶۰] ۳۔محدث ابن کثیر فرماتے ہیں: وهو الامام العالم في طريقة التصوف، وإليه المرجع في السلوك في زمانه وبعده، رحمه الله۔ [طبقات الشافعین ج۱ ص ۱۶۸] ۴۔محدث ابن المنادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ سَمِعَ الكَثِيْرَ، وَشَاهَدَ الصَّالِحِيْنَ وَأَهْلَ المَعْرِفَةِ، وَرُزِقَ الذَّكَاءَ وَصَوَابَ الجَوَابِ.لَمْ يُرَ فِي زَمَانِهِ مِثْلُهُ فِي عِفَّةٍ وَعُزُوفٍ عَنِ الدُّنْيَا. [تاریخ بغداد:۳۷۳۹] ۵۔محدث خطیب بغدادی فرماتے ہیں: وصار شيخ وقته، وفريد عصره فِي علم الأحوال والكلام عَلَى لسان الصوفية، وطريقة الوعظ، وله أخبار مشهورة وكرامات مأثورة.[تاریخ بغداد ج۷ ص ۲۴۹] ۶۔علامہ الدوودی المالکی فرماتے ہیں: وكان شيخ وقته، وفريد عصره، وكلا مه في الحقيقة مدون مشهور۔[تاریخ المفسرین ج۱ ص ۱۲۹] ۷۔محدث علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ كان شيخ العارفين وقُدْوة السّائرين، وعَلَم الأولياء في زمانه، رحمه الله عليه.[تاریخ الاسلام ج۶ ص۹۲۴] ۸۔علامہ خلدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لم نر في شيوخنا مَن اجتمع له علمٌ وحالٌ غير الْجُنَيْد، كانت له حالٌ خطيرة وعلمٌ غزير۔[تاریخ الاسلام ج۶ ص۹۲۶] ۹۔محدث سمعانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ وصار شيخ وقته، وفريد عصره، في علم الاحوال، والكلام على لسان الصوفية، وطريقة الوعظ۔[الانساب ج۴ ص۵۵۶] ۱۰۔علامہ ابن قنفذ(۸۰۹ھ) لکھتے ہیں۔ إمام الطائفة الصوفية أبو القاسم الجنيد البغدادي نفعنا الله تعالى ببركاته۔[الوفیات لابن قنفذ ج۱ ص ۱۹۶] ۱۱۔محدث سمعانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ وصار شيخ وقته، وفريد عصره، في علم الاحوال، والكلام على لسان الصوفية، وطريقة الوعظ۔[الانساب ج۴ ص۵۵۶] ۱۲۔ایک غیر مقلد عالم غلام رسول قلعوی صاحب لکھتے ہیں کہ میرے عقیدے کے رو سے وہ[غیر مقلد عالم عبداللہ غزنوی] جنید کے مثل اور حضرت بایزید کی مانند ہیں ۔ [تذکرہ مولانا غلام رسول قلعوی ص ۴۵۱۔۴۵۲] ان حوالہ جات کے بعد اگر کسی میں اعتراض کی جرات ہے تو کر کے دیکھ لے۔ان شاء اللہ اس کا بھی جواب دیا جائے گا۔اگر اس کے بعد بھی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ پر کوئی اعتراض کرے تو اس کو شرم و حیا سے کوئی واسطہ نہیں ۔کیونکہ محدثین نے تو حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی زبردست توثیق یا تعریف کی ہے اگر اعتراض کرنا ہے تو پھر ان محدثین کرام پر کیجئے۔ الزامی جواب: مزید عرض یہ ہے کہ مرزا صاحب کو صرف اکابر اہل سنت ہی ملے ہیں اعتراض کرنے کے لیے اور اس کے برعکس وہ یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ وہ تمام مکاتب فکر سے اختلاف رکھتے ہیں ۔مگر انھوں نے اپنے پورے پوسٹر میں ایک جگہ بھی غیر مقلدین کے خلاف نہیں لکھا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب غیر مقلدین حضرات کے بغل بچے ہیں۔اگر مرزا صاحب میں دم خم ہے تو پھر گمراہی کا فتویٰ ذرا غیر مقلدین کے جیدعالم جناب مولانا غلام رسول قلعہ میاں سنگھ پر بھی لاگو کر کے بتائیں۔ قارئین کرام! اب ذرا مولانا غلام رسول قلعہ میاں سنگھ صاحب غیر مقلد کی ایک کرامت ملاحظہ کریں۔ ایک دفعہ صدر الدین و سرفراز مالکان سدہ کمبوہ بمع حافظ غلام محمد صاحب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے زمیں کا بہت سا حصہ دریا نے لے لیا ہے اور قریب ہے کہ ہماری تمام زمین دریا برد ہو جائے۔دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس مصیبت سے نجات دے۔تینوں صاحب دو روز قلعہ میاں سنگھ میں رہے۔وقت رخصت مولوی صاحب نے فرمایا کہ دریا کے کنارے پر کھڑے ہوکر باواز بلند کہنا۔یا ملائکۃ اللہ السلام علیکم من غلام رسول قلعہ والا اور سورہ یسین تین روز پڑھنا،تینوں شخص کا بیان ہے کہ جب ہم نے دریا کے کنارے پر کھڑے ہو کر حسب فرمان مولانا صاحب کا سلام پہنچایا ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دریا ہٹنا شروع ہوگیا اور طغیانی بالکل جاتی رہی۔ہم حیرانی سے دیکھتے رہے دریا کا یک لخت ہٹنا شروع ہونا بڑا تعجب خیز امر تھا۔سورہ یسین پڑھنے سے دریا بالکل ہٹ گیا اور اپنی اصلی حالت پر آگیا۔[سوانح حیات غلام رسول ص ۱۱۵] میرے خیال میں اس واقعے کو لکھنے کے بعد مجھے کسی قسم کی تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔کیونکہ ان کے حالات لکھنے والے خود غیر مقلد جناب اسحا ق بھٹی صاحب ہیں۔ لفظ ''شب باشی ''کا تحقیق جائزہ انجینئر محمد علی مرزا صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں۔ علماء کا نظریہ: بلکہ سیدی محمد بن عبدالباقی زرقانی فرماتے ہیں : ’’کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی قبور مطہرہ میں ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں ۔ وہ ان کے ساتھ شب باشی فرماتے ہیں ‘‘۔[ اندھا دھند پیروی کا انجام ص4 رقم:16[ وحی کا فیصلہ : النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ۔[سورۃ الاحزاب آیت:۶[ الجواب بعون الوہاب: امام مجدّد اعلیٰ حضرت کے علمی جواہرات اور عقائد ونظریات کی حقانیت اس طرح روشن ہیں کہ مخالفین بھی آپ کے سامنے سر جھکاے اور ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوئے ہیں۔ اکابر دیوبند بھی آپ کے نظریات اور اور عقائد کے مقلد نظر آرہے ہیں۔ مگر کچھ ایسے دیوبندی حضرات بھی ہیں جو اپنے ا کابر کے باغی ہوکر ان نظریات اور عقائد کو جھٹلا کر اپنے ہی اکابر کو کٹہرے میں لاکر ان پر گمراہی کے فتوے دینے لگے ہیں۔ یعنی علماء دیوبند کے بعض فیض یافتہ حضرات اہلسنت حنفی مکتبہ فکر پر ایک الزام لگاتے آرہے ہیں کہ امام اعلیٰ حضرت مجدد احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ نے اپنے ملفوظات میں حضور ﷺ کیلئے روضہ اطہر میں ’’ شب باشی‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں جو صحیح نہیں ہیں۔ یہ اعتراض کئی حضرات اپنے تصانیف میں کرچکے ہیں۔ اور علماء اہلسنت نے کئی بار اس کا جواب دیا ہے ۔یہاں فقیر )فاروقی(مخالفین کے ہی مصدقہ تصانیف و تراجم سے شب باشی پر تحقیق پیش کرتاہے جو مخالفین کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔ اس وقت میرے سامنے جامعہ عربیہ احسن العلوم کراچی کے شیخ مفتی زرولی خان صاحب کا کتابچہ بنام ’’ تعارف بریلویت‘‘ موجود ہے ۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ وا لسلام کی قبور مطہرہ میں ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں وہ ان کے ساتھ شب باشی فرماتے ہیں )ملفوظات حصہ سوم سطر ۴۱،۵۱(۔ غور فرمایئے کہ اللہ تعالیٰ کے پاک پیغمبروں پر اور ان کی پاک بیبیوں پر کیسی ناروا تہمت باندھی گئی ، جب کہ نبی کریم ﷺ نے تو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ’’الانبیاء احیاء فی قبور ھم یصلون‘‘یعنی انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں۔ مگر بریلوی مذہب میں نماز کے بجائے جماع کرتے ہیں‘‘۔)تعارف بریلویت، ص ۴۱( اس اعتراض کے جواب سے پہلے آیئے امام مجدد اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے ملفوظ کو پڑھتے ہیں۔ امام مجدّد اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں۔ ’’ انبیاء کرام علیہ السلام کی حیات حقیقی حسی و دنیاوی ہے ۔ان پر تصدیق وعدہ الٰہیہ کیلئے محض ایک آن کی موت طاری ہوتی ہے ۔پھر فورا ان کو ویسے ہی حیات عطا فرما دی جاتی ہے ۔اس حیات پر وہی احکام دنیویہ ہیں ان کا ترکہ بانٹا نہ جائے گا۔ ان کی ازواج کو نکاح حرام نیز ازواج مطہرات پر عدت نہیں وہ اپنی قبور مین کھاتے ہیں نماز پڑھتے ہیں۔ بلکہ سیدی محمد بن عبدالباقی زرقانی فرماتے ہیں کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی قبور میں ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں وہ ان کے ساتھ شب باشی فرماتے ہیں۔ حضور اقدس ﷺ نے تو ان کو حج کرتے ہوئے لبیک پکارتے ہوئے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا‘‘۔)ملفوظات اعلیٰ حضرت حصہ سوم ، ص۷۰۳( امام مجدد اعلیٰ حضرت نے حیات انبیاء پر دلائل پیش کرکے انبیاء کرام کے خصائص کا تذکرہ کیا ہے ۔کہ نہ ترکہ بانٹا جائے گا۔ ازواج مطہرات نکاح میں ہیں ان پر عدت نہیں۔ او ر علامہ زرقانی کا قول پیش کر کے فرمایا کہ ’’ ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں وہ ان کے ساتھ شب باشی فرماتے ہیں ۔یعنی رات گزارتے ہیں۔اس میں کونسی بات معیوب اور تہمت والی ہے ۔ یہ تو خصائص انبیاء سے ہیں۔ مفتی زرولی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ بریلوی مذہب میں نماز کے بجائے جماع کرتے ہیں‘‘نماز کے بجائے لکھ کراپنی بد دیانتی اور خیانت کا ثبوت دیا ہے ۔حالانکہ عبارت میں صریح ذکرِ نماز موجود ہے ۔’’ اپنی قبور میں کھاتے پیتے ہیں اور نماز پرھتے ہیں‘‘ بلکہ دوسری بار بھی نماز کا ذکر موجود ہے ’’ حج کرتے ہوئے اور لبیک پکارتے ہوئے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا‘‘ اسکے بعد بھی مفتی زرولی خان صاحب کا یہ کہنا کہ ’’نماز کے بجائے ‘‘ قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اور اپنی خیانت اور تحریف کا اعتراف کرنا ہے ۔ زرولی خان صاحب کا حوالہ آپ ملاحظہ کرچکے ہیںکہ’’ شب باشی ‘‘ کے معنی جماع سے کر کے اس سے تہمت ثابت کررہے ہیں۔ پہلے تو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ ’’ شب باشی‘‘ کے معنی کیا ہیں۔ ’’ شب باشی ‘‘ کے معنی: · چنانچہ آیئے فرہنگ آصفیہ کو اٹھا کردیکھتے ہیں کہ شب باشی کاکیا معنی و مفہوم ہیں۔ ) ’’ شب باش: (ف) اسم مذکر (۔مقیم، رات کا قیام ، بسرام، شب گزاری، منزل گزینی ، فروکش‘‘(۔ )فرہنگ آصفیہ ، ج ۳، ص ۶۶۱ ،س تا ے ،مرتبہ ۔ مولوی سید احمد دہلوی۔ اردو سائنس بورڈ ۰۰۲ اپر مال لاہور۔ طبع چہارم ۳۰۰۲ء( · اب فیروزالغات میں شب باشی کا معنی دیکھ لیتے ہیں ۔ ’’ شب باش : رات رہنے والا۔ ۔‘‘ )فیروز الغات۴۱۰( شب باشی باہمی میلاپ کو مستلزم نہیں ہیں۔شب باشی کا مطلب و معنی جماع کے ہے ہی نہیں۔ شب باشی کا مطلب رات گزارنا ہے ۔ اگر علماء و اکابر دیوبند کے تصانیف پر نظر کی جائے تو ہمیں اس میں ’’شب باشی‘‘ کے متعلق کافی حوالے مل جائیں گے ۔ پھر وہاں کیا تاویل ہوگی؟ v آیئے چند حوالے ملاحظہ کرتے ہیں۔ ’’ مدینہ منورہ میں روضہ مبارک کے پاس مسجد نبوی میں آپ نے )انور شاہ صاحب( درس حدیث دیا ہے ۔اہل مدینہ خصوصا علماء بہت متوجہ ہوئے اکثر مسائل کا جواب آپ نے ان کو رسالوں کی شکل میں دیا ۔جو علماء دیوبند ان دنوں وہاں رہتے تھے ۔انہوں نے کوشش کیں کہ شب باشی آپ کی مسجد نبوی میں ہو‘‘ )ملفوظات کشمیری، ص ۵۷۲ ( v تھانوی صاحب لکھتے ہیں۔ ’’محمد الحضرمی مجذوب چلانے والے عجیب و غریب حالات و کرامات و مناقب والے تھے کبھی کبھی چلاتے ہوئے عجیب عجیب علوم و معارف پر کلام کر جاتے ۔ اور کبھی کبھی استغراق کی حالت میں زمین و آسمان کے اکابر کی شان پر ایسی گفتگو فرماتے کہ اس کے سننے کی تاب نہ ہوتی تھی۔آپ ابدال مین سے تھے آپ کی کرامتوں میں سے یہ ہے کہ آپ نے ایک دفعہ تیس (30) شہروں میں خطبہ اور نماز جمعہ بیک وقت پڑھا ہے اور کئی کئی شہروں میں ایک ہی شب میں شب باش ہوتے تھے ‘‘َ )جمال الاولیاء ، ص ۳۵۲( ایک وقت میں کئی کئی شہروں میں شب باشی کا کیا مطلب ہو گا جسے دیوبندی حکیم الامت بیان فرما رہے ہیں۔ v چلو اب دارالعلوم دیوبندکے بانی قاسم نانوتوی صاحب کی شب باشی بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ’’ )قاسم نانوتوی صاحب (صبح کو اڑ اتار کر باہر چلے جاتے تھے اور پھر کواڑ کو درست کر دیتے تھے ؛ اس مقفل مکان میں تنہا شب باشی، و شب گزاری کہ یہ عجیب و غریب صورت حال کب تک پیش آتی رہی ، صحیح طور پر تو اس کا بتانا دشوار ہے ، لیکن مصنف امام نے آگے جو یہ ارقام فرمایا ہے ’’ چند ماہ اس ہو کے مکان میں گزرگئے ‘‘۔ )سوانح قاسمی ، جلد اول ص۳۰۵ ( کیا مفتی زرولی خان صاحب اس مقفل مکان میں شب باشی کی اس عجیب و غریب صورتحال کی تشریح کر سکیں گے ؟یایہی فرمائیں گے کہ ’’ صحیح طور پر اس کا بتانا دشوار ہے ‘‘یا شب باشی سے شب گزاری مراد لیں گے ۔ یہاں ان چند حوالوں پر اکتفا کرتا ہوں ورنہ اگر علماء دیوبند کے تصانیف میںسے شب باشی کے واقعات نقل کی جائیں تو ایک الگ کتاب بن جائے گی۔لغت کے کتب اور علماء دیوبند کے تصانیف سے شب باشی کے معنی و مطلب کو آپ ملاحظہ کر چکے ۔ اس کے بعد بھی محض شب باشی کے الفاظ سے کوئی جماع تعبیر کرے تو وہ لغت کی کتابوں اور اپنے اسلاف کے تصانیف سے باالکل ناواقف ہے ۔یہ تو عام زندگی میں ’’شب باشی ‘‘کے الفاظ کا استعمال تھا اب اگر عالم برزخ کی بات ہو تو عالم برزخ میں ارواح کاآپس میں ملاقات کرنا علماء دیوبند کے کتب سے بھی ثابت ہے ۔ v جیسا کہ دیوبندکی علماء نور محمد تونسوی صاحب، مولوی محمد عیسیٰ صاحب الہ آبادی خلیفہ اجل تھانوی صاحب، اور انیس احمد مظاہری صاحب لکھتے ہیں۔ ’’ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا اپنے مردوں کو اچھے کپڑوں میں کفن دیا کرو بے شک اس پر وہ فخر کرتے ہیں اور اپنی قبروں میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں‘‘۔ )قبر کی زندگی، ۶۲۳، ۷۲۳۔ نورالصدور، ص۱۰۰۔ اصلاح مفاہیم مترجم، ص ۳۰۳( ’’اصلاح مفاہیم‘‘ پر محمد مالک کاندھلوی صاحب، حامد میاں ، محمد عبداللہ مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور، عبدالرحمٰن جامعہ اشرفیہ، محمد بن یوسف بنوری، عزیز الرّحمٰن ہزاروی صاحب، عبدالقادر آزاد، سیدنفیس الحسینی صاحب ، عبدالقادر رائے پوری، جیسے اکابر دیوبند کے تقاریظ موجود ہیں۔ · نور محمد تونسوی صاحب لکھتے ہیں۔ ’’ حضرت قیس ابن قبیضہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص بغیر وصیت کے مر گیا اس کو موتیٰ کے ساتھ کلام کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی۔آپ سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ کیا موتیٰ کلام کرتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ہاں ایک دوسرے کی زیارت بھی کرتے ہیں‘‘۔ )قبر کی زندگی، ص ۴۳۳(’’ محمد بن منکدر روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس گیا جب کہ ان کا آخری وقت تھا یعنی وہ دنیا سے کوچ فرمانے والے تھے ۔ میں نے کہا کہ میری طرف سے حضور اکرم ﷺ کو سلام دینا۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم برزخ و قبر میں مردے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اور ان کی دعا سلام بھی ہوتی ہے ‘‘۔ )قبر کی زندگی ، ص۳۰۸ ( · انورشاہ صاحب کشمیری کی تحقیقاتجمع کرتے ہوئے ان کے داماد لکھتے ہیں۔ ’’ منکرین توسل و طلب شفاعت جو مقبورین کو معطل و محبوس یا ان کی حیات کو بے حیثیت سمجھتے ہیں، ان کے لئے حضرت شاہ عبدالعزیز کا مندرجہ ذیل ارشاد لائق مطالعہ ہے ، آپ نے فرمایا کہ مقبور صالح کی قبر کو تنگ قید کی طرح نہ سمجھنا چاہئے ،کیونکہ اس کیلئے وہاں فرش و لباس اور رزق سب اسباب راحت میسر ہوتے ہیں، وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جا کر سیر بھی کرتا ہے اور اپنے پیشتر والے عزیزوں سے ملاقاتیں بھی کرتا ہے ۔اور وہ اس کو کبھی بطور ضیافت اور کبھی تفریح و مونست و تہنیت وغیرہ کیلئے اپنے مکانوں پر بھی لے جاتے ہیں۔اس طرح ہر روز وہاں اس کی دل بستگی کا سامان مہیا کرتے ہیں تاکہ اس دار فانی کی یاد اس کے دل سے بھلا دیں‘‘۔)انوار الباری ۱۸، ج ،ص۲۵۰( عالم برزخ میں شہداء کے پاس حوروں کی تشریف آوری کا ذکرتو احادیث کی کتابوں سے ثابت ہے ۔ آیئے علماء دیوبند کے کتابوں سے اس کے حوالے پڑھتے ہیں۔ v تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں۔ ’’ اسود راعی جہاد خیبر میں شریک ہوئے ، جنگ کے بعد جب شہداء آنحضرت ﷺ کے سامنے لائے گئے تو ان میں اسود راعی کی لاش بھی تھی ، آنحضرت ﷺ نے انہیں دیکھ کر تھوڑی دیر کیلئے منہ پھیر لیا ، صحابہ کرام نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ یہ اس وقت جنّت کی دو حوروں کے ساتھ ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کے چہرے کو حسین بنا دیا ہے ، اور جسم کو خوشبو سے مہکا دیا ہے ۔ ‘‘ )جہانِ دیدہ ص۱۷۵( v نور محمد تونسوی صاحب دیوبندی لکھتے ہیں۔ ’’ حضور اکرم ﷺ بچشم خود دیکھ رہے ہیں کہ شہید کے پاس جنت کی دو حوریں بیٹھی ہوئی ہیں اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ شہید کے اندر کسی قسم کی حیات نہیں ہے اور نہ ہی علم و شعور ہے اور نہ ہی کسی قسم کا ادراک و فہم ہے تو ایسے شخص کے پاس سپیشل دو حوریں بھیج دینے کا کیا فائدہ دلہا کو علم و خبر ہی نہیں اور دلہنیں اس کے پاس بیٹھی ہیں پس ثابت ہوا کہ شہید کے ساتھ جو حسن سلوک ہوتا ہے اور اس کی جو تعظیم و تکریم ہوتی ہے وہ اس سے باخبر ہوتا ہے ۔ان چیزوں کا اس کو پورا پورا ادراک و شعور ہوتا ہے ۔ ‘‘ )قبر کی زندگی ، ۳۰۰( نور محمد صاحب نے تو یہاں شہید کیلئے دولہا اور حوروں کیلئے دلہن کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ کیا زرولی خان صاحب دولہے اور دلہن کے رشتے اور تعلق کی تشریح کرسیکں گے ؟ v یہی نہیں بلکہ بجنوری صاحب نے شب باشی کے خاص مکان کا بھی ذکر ان الفاظ میں کیا ہے ۔ ’’ پھر اہل نجات کیلئے وہاں چار قسم کے مکانات ہوتے ہیں۔ ایک تو اپنے رہنے اور شب باشی کا خاص مکان دوسرا اپنے وابستگان و عقیدت مندوں سے ملاقات کا درباری دیوان ،تیسرے سیر و تماشا و تفریح کے مقامات جیسے آب زمزم مساجد متبرکہ اور دوسری دنیا و عالم برزخ کی نزہت گاہیں۔ چوتھے دوستوں اور ہمسایوں سے ملاقات کرنے کے دیوان خانے اور لان وغیرہ ۔اور جب تک کسی کیلئے اس کی بود و باش کا مکان مہیا نہیں کرادیا جاتا ، اس کو دنیا سے نہیں لے جاتے ، یعنی یہ سب مکانات اس کی آکری عمر میں تیار کرائے جاتے ہیں ،اس پوری تفصیل کے بعد یہ خیال صحیح نہ ہو گا کہ یہ سب مکانات اس تنگ قبر کے اندر ہیں ۔ بلکہ یہ تو ان مکانات کیلئے داخل ہونے کا دروازہ ہے ۔ جبکہ بعض ان مکانوں میں سے آسمان و زمین کی درمیانی فضا میں ہیں، بعض آسمان دوم و سوم میں ہیں، اور شہید وں کیلئے عرش کے ساتھ لٹکے ہوئے بڑے پر نور قندیلوں میں ہیں‘‘۔)انوار الباری ۱۸، ج ،ص۲۵۰( v بجنوری صاحب نے یہ بھی لکھاہے کہ وہاں قوم کے بزرگ یہاں سے گئے ہوئے کنواروں کے رشتے بھی کرواتے ہیں جیسا کہ لکھتے ہیں۔ ’’لوگ وہاں عالم برزخ میں ذکر وتلاوت ، نماز و زیارت مکانات متبرکہ میں مشغول رہتے ہیں، اور قوم کے بزرگ یہاں سے گئے ہوئے کنوارے بچوں کی نسبتیں اور رشتے طے کرتے ہیں تا کہ یوم آخرت میں ان کی شادیاں کی جائیںوہاں (عالم برزخ میں) بجز لذت جماعت کے سارے لذتیں موجود ہیں اور سوائے روزہ کے سب قسم کی عبادتیں ہیں،وہ لوگ اوقات متبرکہ کی مانند شب قدر شب جمعہ میں آکر اپنے دنیا ئے خاص عزیزوں کے ساتھ وقت بھی گزارتے ہیں۔اور ان کو زندہ عزیزوں کے احوال بھی فرشتوں کے ذریعہ معلوم ہوتے رہتے ہیں؛ وغیرہ ’’فتاویٰ عزیزی ص۱۱۰ ‘‘۔)انوار الباری ۱۸، ج ،ص۲۵۰( v اس کے بعد صاحب انوارالباری کا تبصرہ بھی سنئے ۔ ’’ غور کیا جائے کہ جب یہ سہولتیں اور راحتیںعالم برزخ میں عام مؤمنوں کیلئے ہیں،تو اولیاء و انبیاء کے واسطے پھر خاص طور پر سرور انبیاء اول الخلق و افضل الخلق ﷺ کیلئے کیا کچھ نہ ہوں گی ‘‘۔)انوار الباری ۱۸، ج ،ص۲۵۰( خواہ مخواہ اپنی رائے سے الفاظ کے معنی بدل کر بے ادبی والے الفاظ خود جوڑ کر اپنے تنگ نظرئے اور تنقیدانہ سوچ سے کسی پر الزام لگانا کسی مفتری کام تو ہو سکتا ہے مفتی کا ہر گز نہیں ۔ تنقید برائے اصلاح اچھی کاوش ہے مگر تنقید اگر بے علمی یا کم فہمی میں ہو تو یہ اپنے عقل اور نفس کی تابعداری ہے ۔ اور اپنے عقل اور نفس کی خواہش کی تکمیل کیلئے اپنے خیالات کو کسی کے اوپر لاگوکرنا اور حقیقت سے منہ چرانا یقینا تحریف ہے ۔ اور اسی بے بنیاد تنقید کی ذدّ میں اپنے اکابر کو ہی چوراہے میں کھڑا کرنا ہے ۔ جیسا کہ اوپر انوار الباری کے حوالے میں گزرچکا ہے ۔یعنی انور شاہ صاحب کشمیری کی تحقیق کہ ’’ پھر اہل نجات کیلئے وہاں چار قسم کے مکان ہوتے ہیں ،ایک تو اپنے رہنے اور شب باشی کا خاص مکان‘‘ اگر شب باشی کا مطلب و معنی جیسا کہ خالد محمود صاحب اور مفتی زرولی صاحب نے جماع مراد لیا ہے کے ہی کے معنی لی جائیں تو کیا قبر میں جماع کیلئے خاص مکان ہوتا ہے ؟ اس کا جواب ضروور دیں تاکہ وہ اشکال اور الجھن ہی ختم ہو جائے جسے مفتی صاحب تہمت سے تعبیر کرتے ہیں۔یقینا مفتی صاحب یہی جواب دیں گے کہ شاہ صاحب کی تحقیق بزبان بجنوری صاحب یہی ہے کہ وہاں عالم برزخ میں بجز جماع کے ساری لذتیں موجود ہوتے ہیں۔ تو شب باشی کا مطلب جماع نہیں ہے کیونکہ شاہ صاحب کے تحقیق کے مطابق تو یہ لذت وہا ں میسر ہی نہیں۔تو جب شب باشی کا مکان قابل اعتراض نہیں تو پھر ملفوظات میں علامہ زرقانی کے قول پر کیوں اعتراض؟ حالانکہ امام مجدّد اعلی حضرت قدس سرہ نے امام زرقانی کا قول پیش کیا ہے اور شب باشی کے الفاظ استعمال کرئے ہیں جس کا معنی و مفہوم لغت کی کتابوں سے واضح ہے کہ رات گزارنا۔ یعنی اعلیٰ حضرت کے نزدیک حضور ﷺ کی پاک بیبیاں اور ہماری مائیں حضور ﷺ سے ملاقات فرماتے ہیں اور ساتھ رات گزارتے ہیں۔ جیسا کہ اکابر دیوبند کے کتب سے ثابت ہوا کہ عام مؤمنین کو بھی یہ سہولت میّسر ہے کہ وہ آپس میں ملاقات کرتے ہیں۔ اور شہداء کے پاس حوروں کا آنا ثابت ہے ۔اب اگرزرولی خان صاحب اس کو جماع سے تعبیر کرے تو بھی زرولی خان صاحب کا پاک بیبیوں پر تہمت کا گمان غلط ہے ۔ حالانکہ امہات المؤمنین ہماری مائیں ہیں جو اب بھی انبیاء کرام کی ازواج مطہرات ہیں اورانبیاء کرام کی نکاح میں ہیں۔ قبر مبارک میں ساتھ ہونا ، جنت میں ساتھ ہونا، اسی طرح ہی ہیں جس طرح اس دنیا میں ساتھ تھے ۔ کیا اس دنیا میں ساتھ رہنا ان کے لئے معیوب اور تہمت والی بات تھی؟ فقیر فاروقی نے ساتھ رہنے والے الفاظ اس لئے استعمال کئے ہیں کہ ’’شب باشی‘‘ کے معنی رات گزارنے کے ہیں۔ جب اس دنیا میں ساتھ رہنا کوئی معیوب اور تہمت والی بات نہیں اور جنت میں بھی ساتھ رہنا کوئی معیوب اور تہمت والی بات نہیں تو مرقد انور مبارک میں ملاقات اور ساتھ رہنا کیسے معیوب اور تہمت والی بات ہو گئی؟۔کیا قبور انبیاء روضۃ من ریاض الجنۃ نہیں ہیں؟یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ شب باشی کے الفاظ سے ہٹ کر اگراکابرِ دیوبند کے تصانیف سے تحقیق کی جائے کہ آیا قبر میں انبیاء علیہم السلام کو لذّت جماع میّسر ہییا نہیں تو اس میں اختلاف ضرور ہے ۔بعض علماء جواز کے قائل ہیں اور بعض علماء نے اختلاف کیا ہے ۔جن علماء نے اختلاف کیا ہے وہ اختلاف اس وجہ سے نہیں کہ یہ تہمت کا باعث ہے ۔ بلکہ اسے دنیا کی حد تک لذّت مانا ہے ۔اور دونوں طرف کے علماء نے اپنے اپنے دلائل دیئے ہیں۔آئیے علماء دیوبند کے تصدیق شدہ تصنیف سے اس کے جواز اور اختلاف کو نقل کرتے ہیں۔ ’’انبیاء کے نکاح کے سلسلے میں جو اختلاف ہے وہ اس بنیاد پر ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفات کے بعد انبیاء نکاح ہم بستری نہیں کرتے ۔ یعنی اس ارشاد کی جو حکمت بیان کی گئی ہے اس سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ انبیاء اس لذت سے لطف اندوز نہیں ہوتے ۔ وہ ارشاد یہ ہے کہ آپ نے فرمایا۔’’ تمہاری دنیا میں سے مجھے جو چیزیں محبوب اور پسندیدہ ہیں وہ عورتیں اور خوشبو ہیں‘‘ اس ارشاد میں آپ نے نہ تو یہ فرمایا کہ اپنی دنیا میں سے اور نہ یہ فرمایا کہ اس دنیا میں سے ۔کیونکہ آپ نے اس لفظ تمہاری سے یہ ارشاد فرمایا کہ عورتیں اور خوشبو لوگوں کی دنیا میں سے ہیں کیونکہ وہ ان دونوں چیزوں کو اپنے لطف و عیش اور سر مستی کیلئے حاصل کرتے ہیں ۔جبکہ رسول اللہ ﷺ لطف و عیش کی تمنا سے پاک اور بری ہیں۔آپ عورتوں کو اس لئے پسند فرماتے تھے کہ وہ ہر وقت کی شرک حیات ہونے کی وجہ سے آپ کی خوبیوں آپ کے باطنی معجزات اور پوشیدہ احکام کو امت تک پہنچا سکیں۔ کیونکہ عام حالات میں ان صفات اور خوبیوں سے بیویوں کے علاوہ دوسرے لوگ واقف نہیں ہو سکتے تھے ۔ اسی طرح بیویوں کے ذریعے دوسرے دینی فائدے بھی لوگوں کو حاصل ہوتے تھے ۔اور خوشبو اس لئے پسند یدہ تھی کہ آپ فرشتوں سے ملاقات فرماتے تھے اور فرشتے خوشبو کو پسند کرتے ہیں اور بد بو سے نفرت کرتے ہیں‘‘۔ )سیرت حلبیہ اردو، جلد ۴ ،ص۴۰( یہی وہ وجہ اختلاف ہے جس کی وجہ سے بعض علماء نے اس لذّت کے میّسر ہونے پر اختلاف کیا ہے ۔ اس کا جواب جواز کے علماء نے یوں دیا ہے ۔ ’’ اب وہ علماء کہتے ہیں کہ حقیقی اکرام اور اعزاز کا تقاضا یہی ہے کہ آپ کو برزخ میں وہی لذتیں اور خوشیاں حاصل ہوں جو دنیا میں حاصل تھیں تاکہ برزخ میں بھی آپ کے حالات وہی رہیں جو دنیا میں تھیں‘‘۔ )سیرت حلبیہ اردو ،جلد ۴ ،ص۴۰( اختلاف رکھنے والوں کا ردّ کرتے ہوئے جواز کے علماء نے یہ جواب دیا ہے ۔ ’’ ادھر ایک اشکال یہ ہے کہ یہ حکمت آپ کے اس قول کے مطابق نہیں رہتی جس میں ہے کہ مجھے چار چیزوں میں لوگوں پر فوقیت حاصل ہے ۔ ان چار چیزوں میں آپ نے کثرت جماع کا بھی ذکر فرمایا ہے ‘‘۔)سیرت حلبیہ اردو، جلد ۴ ،ص۴۰( · امام شیخ رملی کا فتویٰ کہ اس میں اختلاف ہے کہ لذّت جماع میّسر ہے یا نہیں یعنی بعض جواز کے قائل ہیں اور بعض جواز کے قائل نہیں۔ آیئے علماء دیوبند کے مستند سیرت سے دیوبندی عالم کا ترجمہ ملاحظہ کرتے ہیں۔ ’’ پھر میں نے اس سلسلے میں شیخ شمس رملی کا فتویٰ دیکھا کہ انبیاء علیہم السلام اور شہدا ء اپنی قبروں میں کھاتے پیتے ہیں نمازیں پڑھتے ہیں ۔روزے رکھتے ہیں اور حج کرتے ہیں۔البتہ اس بارہ میں اختلاف ہے آیا یہ حضرات نکاح یعنی ہم بستری بھی کرتے ہیں یا نہیں ۔ اس بارے میں ایک قول یہ ہے کہ کرتے ہیں۔اور ایک قول یہ ہے کہ نہیں کرتے ۔ نیز یہ کہ ان حضرات کو ان کے نماز، روزے اور حج کا ثواب اور جزاء بھی ملتی ہے ۔اگر چہ وہ اب ان فرائض کے مکلف نہیں ہیں۔ یعنی ان پراس کی پابندی اور ضرورت نہیں ہے ۔کیونکہ موت نے ان پر سے یہ پابندی ختم کردی ہے ۔لیکن ان کی ان عبادتوں کا ثواب ان کے اعزاز اوردرجات کی بلندی کیلئے ملتا ہے ۔یہاں تک شیخ رملی کا فتویٰ ہے ۔‘‘ )سیرت حلبیہ اردو، جلد ۴ ،ص۳۹( جو لذّت جماع کے قائل نہیں وہ ظاہری معنی میں تاویل کرتے ہیں اور ظاہری معنی کو چھوڑ کر ایک دوسرے اور دراز کارمعنی پیدا کر رہے ہیں اس کا اظہار علماء دیوبند کے مستند سیرت نگار ان الفاظ میں کر رہا ہے۔ · آئیے قاری طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبندکے زیرِ نگرانی ہونے والا ترجمہ پڑھتے ہیں۔ ’’ حق تعالیٰ نے شہیدوں کے متعلق بتلایا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور کھاتے پیتے ہیں۔ علماء نے اس بات کو حقیقت پر محمول کرتے ہوئے یعنی اسی زندگی کو حقیقی زندگی تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حقیقت میں کھاتے پیتے ہیں اور نکاح کرتے ہیں اور جو شخص اس کے خلاف معنی لیتاہے ۔ یعنی کہتا ہے کہ کھانے پینے اور نکاح سے حقیقت میں کھانا پینا اور ہم بستری کرنا مراد نہیں بلکہ اس وہ لذت مراد ہے جو کھانے پینے اور ہم بستری کرنے سے حاصل ہوتی ہے تو وہ شخص بلا وجہ آیت کے ظاہری معنی کو چھوڑ کر ایک دوسرے اور دور از کار معنی پیدا کر رہا ہے ۔ جبکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔)سیرت حلبیہ اردو، جلد ۴ ،ص۳۹( · اس عبارت میں لذّت جماع کی تصریح موجود ہے ۔چنانچہ سرفراز صفدر صاحب بھی تمام لذّتوں کے جواز کے قائل ہیں چنانچہ لکھتے ہیں۔ ’’ آپ ﷺ تمام لذتوں اور عبادتوں سے متمتع ہیں ‘‘ )تسکین الصدور ، ۸۴۲( ان تمام لذتوں سے کون کون سی لذتیں مراد ہیں ؟ صفدر صاحب اس کی تشریح کرسکیں گے ؟کیونکہ یہاں لفظ ’’تمام‘‘ کا استعمال ہوا ہے ۔ صفدر صاحب کے پاس کسی لذّت کی انکار کی گنجائش نہیں کیونکہ کسی ایک لذّت کے انکار سے اپنے ہی عبارت میں ترمیم کرنی پڑے گی اور لفظ ’’تمام ‘‘ کو ہٹانا پڑے گا۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ محض خیال و سوچ میں لذّت نہیں ہوگی بلکہ حقیقی لذت دنیا نصیب ہوگی ۔شہداء کو عالم برزخ میںلذّت جماع میّسر ہوتی ہے ۔ چنانچہ محمد اسلم قاسمی صاحب سیرت حلبیہ کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’ واضح رہے کہ شہداء کو رزق پہنچائے جانے یعنی انکے کھانے پینے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہم بستری بھی کرتے ہیں کیونکہ ہم بستری سے بھی لذت حاصل ہوتی ہے جیسے کھانے اور پینے سے لذت ملتی ہے ‘‘۔)سیرت حلبیہ اردو ،جلد ۴ ،ص ۹۳( یہ حوالے خالد محمود مانچسٹروی اور مفتی زرولی صاحب اور دوسرے ان حضرات کیلئے لمحہ فکریہ ہے جو اعلیٰ حضرت امام مجدد قدس سرہ کے ملفوظ پر تہمت کا الزام لگا رہے ہیں۔یہ حضرات یا تو سلف و صالحین اور اپنے اکابرکے کتب سے ناواقف ہیں یا عداوت میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ سلف و صالحین و علماء اہلسنت حتیٰ کہ اپنے اکابر کے بھی باغی ہو گئے ہیں۔سیرت حلبیہ کا ترجمہ بانی دارلعلوم دیوبند قاسم نانوتوی صاحب کے پوتے قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند کی زیر سرپرستی میں قاری طیب صاحب کے صاحبزادے محمد اسلم قاسمی فاضل دیوبند نے ہی کیا ہے ۔جس عبارت پر مفتی زرولی صاحب تہمت کا الزام لگا کر امام مجدد اعلیٰ حضرت قدس سرہ کو قصور وار ٹہرا رہے ہیں۔ ملفوظِ اعلیٰ حضرت کے عبارت میں تو صرف شب باشی کے الفاظ ہیں جن کا مطلب و معنی ہیںہم بستری کے ہے ہی نہیں ۔علماء دیوبند اور لغت کی کتابوں سے واضح کردیا گیاہے ۔ مگر قاری طیب صاحب کے صاحبزادے نے تو صریحاََہم بستری کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ اس پر زرولی خان صاحب کیوں خاموش ہیں اور قاری طیب صاحب کو کیوں کٹہرے میں نہیں لاتے جوان عبارات کی سرپرستی فرمارہے ہیں۔??? وہ لوگ جو اس شب باشی کو غلط رنگ دیکر لوگوں میں افتراق و انتشار پیدا کرنے کی مذموم سعی میں لگے رہتے ہیں ان کو پہلے اپنے گھروں کی خبر لینی چاہئے کہ ان کے اپنے علماء نے یہی لفظ کہاں کہاں استعمال کئے ہیں ۔ v سب سے پہلے غیر مقلدقاضی اسلم سیف فیروز پوری کی ایک تحریر جس میں اس نے ’’پاکستان میں عرب شیوخ کی تشریف آوری ‘‘ کو اپنا موضوع سخن بناتے ہوئے ان کی مختلف مقامات پر مختلف غیر مقلدین سے ملاقاتوں کا تذکرہ کیا ہے ،اس میں وہ لکھتا ہے کہ : ’’نماز عشاء کے بعد عرب شیوخ کا یہ وفد مولانا ثناء اللہ اور مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی کی قیادت میں منصورہ میں میاں طفیل محمد ،امیر جماعت اسلامی پاکستان کے پاس پہنچا اور میاں صاحب سے ان کے دفتر میں ایک لمبی نشت میں خوب تبادلۂ خیالات ہوا ،مختلف مسائل پر شرح و بسط سے میاں صاحب سے گفتگو ہوئی ترجمانی کے فرائض جناب فیض الرحمن صاحب سر انجام دے رہے تھے تقریبا ساڑھے گیارہ بجے وہاں سے فارغ ہو کر وفد ماڈل ٹاؤن پہنچا ۔عرب شیوخ کی شب باشی کا انتظام ۔۱۱۱۔ملتان روڈ پر کیا گیا تھا۔ ( ہفت روزہ الاسلام لاہور ،۲۳ربیع الاول ۱۴۰۴ھ ) اگر شب باشی کا ایک ہی معنی ہے جو وہ مصنفین و واعظین مراد لیکر واویلا کرتے ہیں تو انہیں پہلے اپنے بزرگوں سے سوال کرنا چاہئے تھا کہ ہم تو اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ پر اس کی وجہ سے اعتراض کر رہے ہیں ،آپ بتائیں کہ آپ نے ان نجدی عرب شیوخ کی شب باشی کے لئے کیا کچھ انتظام کیا تھا؟۔ اوریہ بھی سوال کریں کہ ان کے نظریئے کے مطابق جو شب باشی کا معنی وہ مراد لے رہے ہیں اس کا انتظام کرنے والے ہمارے علاقائی پیشے کے مطابق کیا بنتے ہیں ؟ v اسی طرح غیر مقلد فیض عالم صدیقی نے اپنی کتاب ’’صدیقۂ کائنات ‘‘ میں دو مقامات پر یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے لکھاہے کہ : ’’آپ (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) اس خیال سے قافلہ کی شب باشی کے مقام پر بیٹھ جاتی ہیں کہ مجھے کوئی تلاش کرنے کیلئے ضرور آئے گا ‘‘۔ (صدیقہ کائنات ،ص۱۱۷) دوسرے مقام پر لکھا ہے کہ : ’’ سب سے پہلے قابل ِتوجہ بات یہ ہے کہ ازواجِ مطہرا تl کے حجرات ساتھ ساتھ تھے اور پھر مسجد نبوی سے فارغ ہو کر نبی d کا اکثر یہ معمول تھا کہ چند لمحات کیلئے ہر زوجہ مطہرہl کے ہاں تشریف لے جاتے ۔اور جہاں آپ a کی شب باشی کی باری ہوتی وہاں کچھ وقت کیلئے سب جمع ہو جاتیں ۔ ( صدیقہ کائنات ،ص ۱۵۰) v اسماعیل سلفی نے خود اپنے ’’فتاوی ‘‘میں یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : ’’چنانچہ رات کے دھندلکے میں اسعد بن زرارہ تشریف لائے انہوں نے اپنا منہ لپیٹا ہوا تھا حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا:’’ تم رات کو آئے ہو حالانکہ اپنے ہمسایہ قبیلہ کیساتھ تمہارے تعلقات کافی ناخوشگوار ہیں‘‘ ۔اسعد نیعرض کیا کہ:’’حضرت جناب کی آمد کی خبر پا کر صورت حال کچھ بھی ہو مجھے خدمت گرامی میں پہنچنا تھا ۔چنانچہ حضرت اسعد بن زرارہh وہیں شب باش ہوئے اور صبح واپس چلے گئے ۔( فتاوی سلفیہ ص۹۴ ) از رشحات قلم ابوالھمام محمد اشتیاق فاروقی مجدّدی غوث بغیر زمین و آسمان کا تحقیق جائزہ انجینئر محمد علی مرزا صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں۔ علماء کا نظریہ:عرض:غوث ہر زمانہ میں ہوتا ہے ۔ ارشاد:بغیر غوث کے زمین وآسمان قائم نہیں رہ سکتے۔ ( بریلوی : مولانا احمد رضا خان صاحب ملفوظات صفحہ۱۰۶ بک کارنر جہلم( وحی کا فیصلہ:إنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولَا وَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا. ترجمہ آیت مبارکہ: بے شک اللہ ہی نے آسمانوں اور زمین کو تھام رکھا ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ٹل نہ جائیں۔ اور اگر وہ ٹل جائیں تو پھر اللہ کےسواء کوئی بھی ایسا نہیں کہ ان کو تھام سکے۔ بے وہ برداشت کرنے والا معاف کرنے والا ہے۔[سورۃالفاطر،آیت نمبر 41] الجواب بعون الوھاب: عرض یہ ہے کہ ہم اس آیت کو دل و جان سے قبول کرتے اور مانتے ہیں۔اور اس کے مضمون میں کسی کو ،رتی بھر شک نہیں۔مگر اختلاف یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اس دنیا اور آسمان کا نظم و ضبط کسی سبب کے تحت کیا ہے یا بغیر سبب کے؟اور کیا یہ آیت عام ہے یا اس میں کسی ذات اور شخصیت کی تخصیص بھی ہے کہ نہیں؟ اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا . یعنی قسم ان فرشتوں کی کہ تمام کاروباردنیا ان کی تدبیر سے ہے۔[سورۃ النزعات،آیت:۵] اس آیت کے تحت مفسر صاحب کتاب معالم التنزیل لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ یہ مدابرات الامر ملاءکہ ہیں کہ ان کاموںپر مقرر ہیں جن کی کاروائی انہیں اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے۔[معالم التنزیل ج۴ ص ۴۴۲] مزید یہ کہ اگر اس دنیا اور عالم میں ہر کابغیر سبب ہو رہا ہے تو قرآن اور سنت ایسے تمام عقائدکا رد کرتا ہے۔ خود آقاﷺ کی قدرت کاملہ کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری ؓ فرماتے ہیں۔ ان النبیﷺ امر الشمس فتاخرت ساعۃ النھار ۔یعنی سید عالمﷺ نے سورج کو حکم دیا کہ کچھ دیر نہ چلےتو سورج یکدم ٹھر گیا۔ [معجم الاوسط ج۴ ص ۴۰۲ ،علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد ۸ ص ۲۹۷ پر اس حدیث کی سند کو حسن کہا ہے۔] یہ یار رہے کہ یہ واقعہ حضرت علیؓ کے لیے سورج کے لوٹنے کے علاوہ اور جدا ہے۔ اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہکے ارشاد کا مطلب واضح ہے کہ قیامت تک غوث (اولیاء کاملین کا ایک منصب) رہیں گے ۔ انہیں کے وجود مسعود کی برکت سے زمین و آسمان قائم ہیں ۔ بوقت قیامت ان کا وصال ہو جائے گا ۔ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان تو عین حدیث سے ثابت ہے۔اگر اعتراض کرنا ہے تو پھر محدثین پر کریں جنھوں نے ایسی روایات نقل کیں۔حیرت کی بات ہے کہ احادیث محدثین نقل کریں اور اعتراض اعلیٰ حضرت پر کیا جائے؟ دراصل مرزا صاحب جیسے لوگ محدثین پر اعتراض کرنے کی ہمت تو نہیں رکھتے مگر اپنے جھوٹے مسلک کو ثابت کرنے کے لیے امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی پر اعتراض کے سواء ان کے پلے کچھ بھی نہیں۔مرزا صاحب اگر ہمت ہے تو درج ذیل احادیث ملاحظہ کریں اور پھر محدثین پر بھی اعتراض کرکے اپنے دعویٰ کو ثابت کریں۔ · حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، حَدَّثَنِي شُرَيْحٌ يَعْنِي ابْنَ عُبَيْدٍ، قَالَ: ذُكِرَ أَهْلُ الشَّامِ عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَهُوَ بِالْعِرَاقِ، فَقَالُوا: الْعَنْهُمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ. قَالَ: لَا، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الْأَبْدَالُ يَكُونُونَ بِالشَّامِ، وَهُمْ أَرْبَعُونَ رَجُلًا، كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللهُ مَكَانَهُ رَجُلًا، يُسْقَى بِهِمُ الْغَيْثُ، وَيُنْتَصَرُ بِهِمْ عَلَى الْأَعْدَاءِ، وَيُصْرَفُ عَنْ أَهْلِ الشَّامِ بِهِمِ الْعَذَابُ ۔ (مسند امام احمد ج۱ ص ۱۱۲ رقم:۸۹۶، مجمع الزوائد ج ۱۰ ص۶۲،الضیاء المختارہ ج۲ ص۱۱۰ رقم:۴۸۴) ترجمہ :نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ابدال شام میں ہیں اور وہ چالیس ہیں جب ایک مرتا ہے اللہ تعالٰی اس کے بدلے دوسرا قائم کرتاہے ۔انہی کے سبب مینہ دیا جاتاہے ، انہیں سے دشمنوں پر مدد ملتی ہے ، انہیں کے باعث شام والوں سے عذاب پھیرا جاتاہے ۔ اسکا ایک قوی متابع خود الضیاء المختارہ رقم: ۴۸۶ پر بھی موجود ہے۔ · أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْمُؤَيَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقْرِي الطُّوسِيُّ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَنَحْنُ نَسْمَعُ بنيسابور أَن أَبَا الْفتُوح عبد الْوَهَّاب بْنَ شَاهِ بْنِ أَحْمَدَ الشَّاذيَاخِيَّ أَخْبَرَهُمْ قِرَاءَةً عَلَيْهِ أَنَا الشَّيْخُ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُكْرَمٍ أَنَا السَّيِّدُ أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ دَاوُدَ أَنَا أَبُو حَامِدِ بْنُ الشَّرْقِيِّ ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الذُّهْلِيُّ ثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ عبد الله بْنِ صَفْوَانَ أَنَّ عَلِيًّا قَامَ بِصِفِّينَ وَأَهْلُ الْعِرَاقِ يَسُبُّونَ أَهْلَ الشَّامِ فَقَالَ يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ لَا تَسُبُّوا أَهْلَ الشَّامِ جَمًّا غَفِيرًا فَإِنَّ فِيهِمْ رِجَالا كَارِهِينَ لِمَا تَرَوْنَ وَإِنَّهُ بِالشَّام يكون الأبدال ۔(إِسْنَاده صَحِيح( · حدیث: فرماتے ہیں: صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :الابدال فی امتی ثلٰثون بھم تقوم الارض وبھم تمطرون وبہم تنصرون۔ ۔ ابدال میری امت میں تیس ہیں انہیں سے زمین قائم ہے انہیں کے سبب تم پر مینہ اترتا ہے ۔ انہیں کے باعث تمہیں مدد ملتی ہے ۔ [مجمع الزوائد ، باب ماجاء فی الابدال الخ دارالکتب بیروت ۱۰ /۶۳،الجامع الصغیر بحوالہ الطبرانی عن عبادۃ بن الصامت حدیث ۳۰۳۳دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۸۲, امام مناوی نے فیض القدیر"1/168" پر اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔] · حدیث :[حدثنا سليمان بن أحمد ، ثنا أحمد بن داود المكي ، ثنا ثابت بن عياش الأحدب ، ثنا أبو رجاء الكليبي ، ثنا الأعمش ، عن زيد بن وهب ، عن ابن مسعود ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « لا يزال أربعون رجلا من أمتي قلوبهم على قلب إبراهيم ، يدفع الله بهم عن أهل الأرض ، يقال لهم الأبدال۔ [معرفتہ ا لصحابہ لابی نعیم الاصبہانی ،رقم الحدیث:۱۷۳المعجم الكبير ج ۱۰ ص۱۸۱ رقم الحدیث:۱۰۳۹۰مكتبة ابن تيمية - القاهرة،حلیۃ الاولیاء ترجمہ زید بن وہب ۲۶۳دارالکتاب العربی بیروت ۴ /[ ،۴۰۱۳ ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:چالیس مرد قیامت تک ہوا کریں گے جن سے اللہ تعالی زمین کی حفاظت لے گا جب ان میں کا ایک انتقال کرے گا اللہ تعالٰی اسکے بدلے دوسرا قائم فرمائیگا ، اوروہ ساری زمین میں ہیں ۔ اس روایت کو بھی محدثین کرام نے حسن قرار دیا ہے۔ان روایات کے علاوہ بہت ساری اسانیدصحیح ہو حسنہ موجود ہیں جس سے ابدال یا اللہ کے ولی کے وجود مسعود کی وجہ سے اللہ تعالیٰ زمیں والوں پر بارش اور رزق کی فراوانی کرتے ہیں۔اگر مرزا صاحب میں دم خم ہے تو اس پر اعتراضات کریں ان شاء اللہ ان کو وہ جواب دیا جائے گا کہ ان کو آیندہ ایسی حرکت سے توبہ کرنی پڑے گی۔کیونکہ ان کا اسماء الرجال کے فن پر تمام تر انحصار غالی غیر مقلد زبیر علی زئی پر ہے۔اور ہمیں ان کے تمام اعتراضات معلوم ہیں۔کیونکہ اس تحریر کی گنجائش نہیں ہے وگرنہ ابدال کی احادیث پر مستقلاً ایک کتاب لکھنی پڑے گی۔لہذا مرزا صاحب راویوں پر اعتراض کرنے سے پہلے تمام اقوال کو دوبارہ سے پڑھ لیں۔مزید یہ کہ ابدال اور اللہ کے نیک لوگوں کے ذریعے رزق اور بارش کی روایات کا مفہوم تو متواتر احادیث سے منقول ہے۔ شاید مرزا صاحب علم حدیث سے نابلد ہیں کیونکہ ابدال کے علاوہ جمع کثیر ایسی روایات کی ہیں جن میں یہ صراحت موجود ہے کہ ضعیف لوگوں کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ کی مدد اور رزق ملتا ہے۔ · حدیث: حضرت سعد بن ابی وقاص نے فرمایاکہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ھل تنصرون و ترزقون الا بضعفاءکم یعنی کیا تمھیں مدد اور رزق اپنے ضعیفوں کے علاوہ کسی اور سے ملتا ہے؟(صحیح بخاری ج۲ ص ۴۰۵ کتاب الجھاد) جناب مرزا صاحب! جب اللہ کی ضعیف مخلوق کی بدولت اوروسیلہ سے اللہ کی مخلوق کو رزق اور مدد ملتی ہے تو پھر تو اللہ کے اولیاء کے توسل اور واسطہ سے کیا کچھ نہیں ملتا ہوگا۔مرزا صاحب جن ہستیوں کے توسل سے کھاتے ہیں انھی کا انکار بھی کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ایسی ناشکری سے بچائے۔ ٭ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ محدث محاملی بغدادی (م ۳۳۰ ھ) کے حالات میں لکھتے ہیں : ’’محمد بن الحسین نے جو اس عہد کے بزرگ شخص ہیں ۔ یہ بیان کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہتا ہے حق تعالیٰ اہل بغداد پر سے بطفیل و ببرکت محاملی رحمۃ اللہ علیہ بلا دفع کرتا ہے ‘‘۔ )بستان المحدثین (اردو)صفحہ نمبر۱۲۲ مطبوعہ کراچی ( ٭ حضرت انس ص کی مرفوع حدیث ہے: لاتقوم الساعۃ حتی لایقال فی الارض اﷲ اﷲ ‘‘۔ (صیح ابن حبان:۶۸۴۹، مستخرج ابی عوانہ:۲۹۴،مسند امام احمد بن حنبل:۱۲۰۴۳،صحیح مسلم:۱۴۸( رسول اکرم ا نے فرمایا کہ نہ قائم ہوگی قیامت حتیٰ کہ زمین میں اللہ اللہ نہ کہا جاوے گا۔ ٭ حضرت ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : ’’ان بقاء العالم ببرکۃ العلماء العاملین والعباد الصالحین وعموم المؤمنین ۔ الخ ‘‘۔ (مرقات شرح مشکوٰۃ صفحہ نمبر۲۳۷ جلد ۱۰ ( اس سے معلوم ہوا کہ عامل علماء و صالح بندوں اور عام مومنوں کی برکت سے جہاں باقی ہے ۔ عرض یہ ہے کہ یہ یاد رہے کہ حدیث میں زمین کے قائم رہنے کی شرط کو اللہ اللہ کہنے سے مشروط کیا ہے اور اللہ اللہ کا ورد ایک نیک شخص یا ولی اللہ ہی کرتا ہے ۔اور جب نیک بندے کے اللہ اللہ کہنے کی وجہ سے زمیں قائم ہے تو پھر ابدال اور اولیاء کے وجود کی وجہ سے زمین اور آسمان کے قائم رہنے کا قول کیسے غلط ہو سکتا ہے۔امید ہے کہ مرزا صاحب اپنی اس جہالت سے رجوع کرکے اللہ تعالیٰ کے دربار میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔ مزید یہ ہے کہ غوث اعظم محبوب سبحانی رحمۃ اللہ علیہ سے جو قول صادر ہے اگر ہمت ہے تو محدثین کرام اور علماء کرام سے اس پر فتویٰ ثابت کریں۔جو بات محدثین کرام کو غیر شرعی نظر نہ آئی آج کل کے ایک لونڈے کو یہ اعتراض نظر آتا ہے۔جناب والا! ابن تیمیہ اور ابن قیم جیسے وہابیوں کے اکابرین میں یہ ہمت نہ ہوسکی کہ غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں کچھ بے ادبی کر سکیں۔خود ابن تیمیہ غوث اعظم کی کتاب کی شرح کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے۔ابن تیمیہ جیسا ولیوں کا مخالف بھی غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہکے سلسلہ سے بیعت ہے۔ · کتاب مستطاب بہجۃ الاسرار شریف میں خود غوث اعظم ؓ روایت فرماتے ہیں: اخبرنا ابو محمد عبدالسلام بن ابی عبداللہ محمد بن عبدالسلام بن ابراہیم بن عبدالسلام البصری الاصل البغدادی المؤلد والداربالقاھرۃ سنۃ احدٰی وسبعین وستمائۃ قال اخبرنا الشیخ ابوالحسن علی بن سلیمان البغدادی الخباز ببغداد سنۃ ثلٰث وثلٰثین وستّمائۃ قال اخبرنا الشیخان الشیخ ابو حفص عمر الکمیماتی ببغداد وسنۃ احدٰی وتسعین وخمسمائۃ قالا کان شیخنا الشیخ عبدالقادر رضی اللہ تعالٰی عنہ یمشی فی الھواء علی رؤوس الاشھاد فی مجلسہ ویقول ماتطلع الشمس حتی تسلم علی وتجئی السنۃ الی وتسلم علی وتخبرنی ما یجری فیھا ویجیء الشھر ویسلم علی ویخبرنی بما یجری فیہ، ویجیئ الاسبوع ویسلم علی ویخبرنی بما یجری فیہ ویجیئ الیوم ویسلم علی ویخبرنی بما یجری فیہ وعزۃ ربی ان السعداء والاشقیاء لیعرضون علی عینی فی اللوح المحفوظ انا غائص فی بحار علم اللہ ومشاھد تہ انا حجۃ اللہ علیکم جمیعکم انا نائب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ووارثہ فی الارض۔ (بہجۃ الاسرار ذکر کلما اخبربہا عن نفسہ الخ دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۵۰) صدقت یا سید ی واللہ فانما انت کلمت عن یقین لاشک فیہ ولاوھم یعتریہ انما تنطق فتنطق وتعطی فتفرق وتؤمر فتفعل والحمدللہ رب العالمین۔ ترجمہ:۔ یعنی امام اجل حضرت ابوالقاسم عمر بن مسعود وبزاراورحضرت ابو حفص عمرکمیماتی رحمہم اللہ تعالٰی فرماتے ہیں ہمارے شیخ حضور سیدنا عبدالقادر رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی مجلس میں برملا زمین سےبلند کرہ ہوا پر مشی فرماتے اور ارشاد کرتے آفتاب طلوع نہیں کرتا یہاں تک کہ مجھ پر سلام کرلے نیا سال جب آتا ہے مجھ پرسلام کرتا اورمجھے خبر دیتاہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے نیا ہفتہ جب آتاہے مجھ پرسلام کرتا اورمجھے خبر دیتا ہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے ، نیا دن جوآتا ہے مجھ پر سلام کرتا ہے اورمجھے خبر دیتاہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے ، مجھے اپنے رب کی عزت کی قسم !کہ تمام سعید وشقی مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں میری آنکھ لوح محفوظ پرلگی ہے یعنی لوح محفوظ میرے پیش نظر ہے ، میں اللہ عزوجل کے علم ومشاہدہ کے دریاؤں میں غوطہ زن ہوں ،میں تم سب پرحجت الہٰی ہوں ، میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نائب اورزمین میں حضور( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )کا وارث ہوں ۔ سچ فرمایا ہے آپ نے اے میرے آقا ، بخدا آپ یقین پر مبنی کلام فرماتے ہیں جس میں کوئی شک اوروہم راہ نہیں پاتا۔ بے شک آپ سے کوئی با ت کہی جاتی ہے تو آپ کہتے ہیں اورآپ کو عطا ہوتاہے توآپ تقسیم فرماتے ہیں ۔ آپ کوامر کیا جاتاہے تو آ پ عمل کرتے ہیں ۔ اورسب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ۔(ت) شکاری جانوروں کی سی آواز کا تحقیق جائزہ انجینئر محمد علی مرزا صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں۔ علماء کا نظریہ: سورۃ الکھف آیت نمبر ۱۱۰ قل انما انا بشرمثلکم،اے محبوب فرمادو کہ میں تم جیسا بشر ہوں۔۔۔۔اس آیت میں کفار سے خطاب ہے چونکہ ہر چیز اپنی غیر جنس سے نفرت کرتی ہے لہذا فرمایا گیا کہ اےکفار تم مجھ سے گھبراو نہیں ،میں تمہاری جنس سے ہوں یعنی بشر ہو ں(جیسا کہ )شکاری جانوروں کی سی آواز نکال کرشکار کرتا ہے اس سے کفار کو اپنی طرف مائل کرنا مقصود ہے۔[بریلوی:مولانا مفتی احمدنعیمی صاحب جاء الحق صفحہ ۱۴۵[ وحی کا نظریہ:انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا۔[سورۃ بنی اسرائیل،آیت نمبر ۴۸،سورۃ الفرقان،آیت نمبر ۹[ ترجمہ:(اے محبوبﷺ)ذرا دیکھو تو یہ(گستاخ)لوگآپﷺ کے متعلق کیسی کیسی مثالیں بیان کرتے ہیں،سو وہ گمراہ ہوگئے پس ہو راستہ ہدایت نہیں پا سکتے۔ الجواب بعون الوہاب: عرض یہ ہے کہ مرزا صاحب نے مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب کی عبارت پر کچھ اعتراض نقل نہیں کیا اور جواب میں قرآن کی ایک آیت نقل کر دی۔اس آیت کو نقل کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کو آقاﷺ کے متعلق مثال بیان کرنے پراعتراض ہے۔ان کو شاید مفتی صاحب کی عبارت سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ مفتی صاحب نے نبی کریمﷺ کو شکاری سے تشبیہ دی۔اس بابت چند معروضات عرض ہیں۔ ۱۔مرزا صاحب نے دجل و فریب سے کام لیتے ہوئے مفتی صاحب کی عبارت میں [] بریکٹ میں جو الفاظ [جیسا کہ] خود اضافۃً لکھے ہیں۔حالانکہ جاء الحق میں [جیسا کہ] الفاظ موجود نہیں ہیں۔قارئین کرام خود جاء الحق کی مذکورہ عبارت دیکھ کر تسلی کر سکتے ہیں۔ ۲۔مرزا جی نے پھر دجل و فریب سے قارئین پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ مفتی صاحب نے نبی کریمﷺ کو شکاری سے تشبیہ دی ہے۔مگر مفتی صاحب کی عبارت میں ایسے تشبیہ کی تو کوئی صراحت تک نہیں ہے۔کیونکہ مفتی صاحب کی جو عبارت مرزا جی نے نقل کی ہے وہ ایک جملہ نہیں بلکہ اس میں متعدد جملے ہیں۔ · اول:س آیت میں کفار سے خطاب ہے چونکہ ہر چیز اپنی غیر جنس سے نفرت کرتی ہے لہذا فرمایا گیا کہ اےکفار تم مجھ سے گھبراو نہیں ،میں تمہاری جنس سے ہوں یعنی بشر ہو ں. · دوم:شکاری جانوروں کی سی آواز نکال کرشکار کرتا ہے۔ · سوم: اس سے کفار کو اپنی طرف مائل کرنا مقصود ہے۔ اب مرزا جی نے ان تین جملوں کے نقل کرتے ہوئے ایک جملہ بنادیا۔اور مفہوم عبارت کچھ کا کچھ کر دیا۔ان جملوں میں کسی مقام پر بھی نبی کریمﷺ کو شکاری سے تشبیہ نہیں دی گئ۔ بالفرض اگر یہ مان لیا جائے کہ مفتی صاحب نے اس عبارت میںشکاری سے تشبیہ دی بھی ہے تو پھر بھی گستاخی کا احتمال نہیں ہے۔کیونکہ اہل علم پر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ مثال میں صرف وجہ تمثیل کا لحاظ ہوتا ہے تمام چیزوں میں اشتراک ہونا لازم نہیں۔مثال کے طور پرجیسے ہم تمام مکاتب فکر کے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے لقب شیر خدا ہے۔اور اگر اب کوئی معترض یہ کہ دے دیکھو حضرت علیؓ کو ایک شیر سے تشبیہ دی اور شیر تو بڑا خون خوار ہوتا ہے ۔اور کمزور جانوروں پر ظلم کرتا ہے۔تو کیا نعوذ باللہ ایسا اعتراض درست ہو سکتا ہے ،ہر گز نہیں۔حالانکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو شیر سے تشبیہ صرف ایک وجہ سے دی جاتی ہے اور وہ ہے بہادری۔اسی طرح مفتی صاحب کی عبارت میں بھی [بالفرض اگر اس اعتراض کو تسلیم کیا جائے] شکاری کی مثال صرف اور صرف مانوس ہونے کی علت کو بیان کرنے کے لیے ہے۔ اور جناب عالی! ذرا آپ اس عبارت سے آگے چند سطروں کے بعد یہ بھی مفتی صاحب کی یہ عبارت پڑھ لیتے کہ وہ کیا فرماتے ہیں۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں: حیوان اور انسان میں صرف ایک درجہ کا فرق ہے مگر بشریت اور شان مصطفویﷺ میں ۲۷درجہ کا فرق ہے۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ہماری بشریت اور محبوبﷺ کی بشریت میں کوئی نسبت نہیں،مولانا [روم]مثنوی میں فرماتے ہیں۔۔۔۔حضورﷺ کی بشریت ہزار ہا جبریلی حیثیت سے اعلیٰ ہے۔[جاء الحق ص ۳۹۵] جناب عالی! مفتی صاحب تو نبی کریم ﷺ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے چہ جائیکہ کہ ان کو ایک شکاری کے برابر ٹھہرایں۔لہذا مرزا جی کا دجل و فریب نہ ان کے کام آسکا ۔اللہ تعالیٰ ایسے فراڈ سے محفوظ فرمائے۔ کشف المحجوب میں نبی کریمﷺ پر حالت سکر کا بیان کا تحقیقی جائزہ انجینئر محمد علی مرزا صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں۔ علماء کا نظریہ:حضرت داودؑ کی ایک نظرجب وہاں پڑی جہاں نہ پڑنی چائیے تھی یعنی اوریا کی بیوی پر، توآپﷺ کو حق تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ کا سامنا کرناپڑا۔۔۔۔ہمارے پیغمبرﷺ کی ایک اس طرح کی نگاہ حضرت زیدؓکی بیوی پر پڑی توحضرت زیدؓ پران کی بیوی حرام ہوگی(انھی کے بعد میں نبی کریمﷺ نے نکاح فرمایا یعنی اُم المومنین سیدہ زینب ؓ)اسلئے کہ حضرت داؤدؑ کی نظر حالت حالت صحو(یعنی حالت ہوش)میں تھی اور ہمارے پیغمبرﷺ کی نظر حالت سکر(یعنی مدہوشی کی حالت) میں تھی۔[کشف المعجوب باب ۱۴ سکر اور صحو کابیان:دیوبندی ترجمہ:مولانا عبدا لروف فاروقی صفحہ۲۹۱ بریلوی ترجمہ: مولان فضل الدین گوھر صفحہ۲۶۷[ وحی کا فیصلہ:وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى * مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى * وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى * إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى۔ ترجمہ آیت مبارکہ:قسم ہے ستارے کی جب وہ اترے۔تمہارے صاحب(محمدﷺ) نہ تو کبھی بہکے ہیں اور نہ ہی کبھی ٹیڑی راہ پر چلے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی خواہش نفس سے کوئی بات کہتے ہیں بلکہ وہ تو نہیں مگر وحی جو(اللہ تعالیٰ کی طرف سے)انھیں کی جاتی ہے۔[سورۃ النجم۔آیت نمبر ۱ تا ۴[ الجواب بعون الوہاب: عرض یہ ہے کہ انجینئر محمد علی مرزا صاحب نے جھوٹ بولنے کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔کیونکہ ان کی اپنے ذاتی کوئی تحقیق نہیں لحاظہ غیر مقلدین کے تمام اعتراضات نقل کر کے اپنے آپ کو محقق سمجھنے لگے ہیں۔ · اول:اس بارے میں عرض یہ ہے کہ مرزا جی نے جو اس عبارے میں حالت صحو کے معنی ہوش اور سکر کے معنیٰ مدہوشی کے کیے ہیں وہ سیاق و سباق سے ہٹ کر اور دجل و فریب سے کیا ہے۔کیونکہ جب حضور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس عبارت میں کسی بھی جگہ حالت صحو اور حالت سکر کے معنی نہیں کیے جبکہ بریکیٹ() میں اس کے دیے ہوئے معنی بالکل غلط ہیںاور مرزا جی کی تحریف اور اضافہ جات ہیں۔ · دوم:حضرت داؤد ؑ کی عبار ت نقل کرنے سے قبل خود حضور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ حالت صحو اور حالت سکر کی تعریف حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے کچھ یوں کرتے ہیں۔ اور جن لوگوں نے سکر کو صحو سے افضل سمجھا ہے ان میں سے حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے متبعین ہیں۔ وہ(حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ) کہتے ہیںکہ صحو،صفیت آدمیت پر تمکین و اعتدال کی صورت پیدا کرتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ سے حجاب اعظم ہے اور سکر،آفت کے زائل ہونے،صفات بشریت میں نقص آنے،بندے کے اختیار و تدبیر کے چلے جانے،معنوی بقا کے ساتھ حق تعالیٰ میں بندے کے تصرفات کے فناء ہونے اور اس کے قوت کے فنا ہونے سے جو بندے میں اس کی جنس کے خلاف ہے ،سے حاصل ہوتی ہےاور یہ حالت صحو سے زیادہ بلیغ،زیادہ تام اور زیادہ کامل ہوتی ہے۔ چناچہ حضرت داؤودﷺ حالت صحو میں تھے تو ان سے ایک فعل صادر ہوا جس حق تعالیٰ نے ان سے منسوب کر دیا اور فرمایا۔ و قتل داؤد جالوت(سورۃ البقرۃ آیت ۲۵۱)اور داؤد نے جالوت کو قتل کیا۔اور مصطفیﷺ حالت سکر میں تھے۔چناچہ ایک فعل آپﷺ سے صادر ہوا تو حق تعالیٰ نے وہ فعل اپنی طرف منسوب فرما لیا۔قولہ تعالیٰ و ما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمیٰ۔(سورہ الانفال ،آیت ۱۷)اور آپﷺ نے کنکریاں نہیں پھینکی جبآپﷺ نے پھینکی لیکن وہ تو اللہ تعالیٰ نے پھینکیں۔پس دیکھئے کہ بندے (نبی کریمﷺ)کا بندے (حضرت داؤدؑ)کے درمیان کتنا فرق ہے۔ایک بندہ (حضرت داؤدؑ)جو اپنے وجود میں قائم تھا اور اپنی صفات سے ثابت اس کے متعلق ارشاد ہوا کہ تم نے قتل کیا یہ اس کی کرامت کا اظہار تھا۔اور ایک وہ بندہ(نبی کریمﷺ)ہے جو حق تعالیٰ کے ساتھ قائم رہتا تھا اور اپنی صفات سے فانی ہوچکا تھا۔اس فعل کو(اللہ تعالیٰ نے )اپنا فعل فرمایا اور کہا کہ جو کچھ(آپﷺ نے)کیا ہم نے کیا۔پس بندے کے فعل کی نسبت خدا تعالیٰ کے ساتھ ہونا ،اُس نسبت سے بہتر ہے جو حق تعالیٰ کے فعل کی نسبت ہو ،اور بندے سے کی جائے۔جب حق کے فعل کی نسبت بندے کے ساتھ ہو تو بندہ اپنے وجود کے ساتھ قائم ہوتا ہےاور جب بندے کے فعل کی نسبت حق تعالیٰ سے ہو تو وہ حق تعالیٰ سے قائم ہوتا ہے۔جب بندہ اپنے وجود کے ساتھ قائم ہوتا ہے تو اس کی حالت وہی ہوتی ہے جو داؤد علیہ السلام کی تھی۔ان کی نظر اس جگہ پڑی۔۔۔۔۔۔۔ (کشف المحجوب صفحہ ۲۳۰۔۲۳۱ ،کرمانوالہ بک شاپ( قارئین کرام! اس عبارت میں کسی جگہ صحو کی تعریف میں حالت ہوش اور سکر کی تعریف میں مدہوشی نہیں لکھا ۔مگر جناب مرزا جی نے اس عبارت میں اپنا ترجمہ گھسیڑنے کے جو ہمت کی ہے اللہ سے وہ اس تحریف کی معافی مانگیں اور اس عبارت پر اعتراض کرنے سے رجوع کریں۔ · سوم:حضور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کشف المحجوب میں سکر و صحو کے باب کے بالکل شروع میں جو لکھا ہے اگر مرزا صاحب اس عبارت کو ہی پڑھ لیتے تو ایسا اعتراض کرنے کی جسارت نہ کرتے۔ حضور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جان لے اللہ تعالیٰ تجھے سعادت دے کہ سکر و غلبہ کو ارباب معانی نے اللہ تعالیٰ کے غلبہ محبت سے عبارت کیا ہے اور صحو حصول مرادسے عبارت ہے۔اہل معانی نے ان کے بارے میں خاصی سخن زنی کی ہے۔(کشف المحجوب ص ۲۳۰ کرمانوالہ بک شاپ( اس باب کے اختتام پر داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے پھر صحو اور سکر کی اقسام بھی بیان کیں ہیں۔اگر مرزا صاحب ان اقسام کی بحث ہی دیکھ لیتے تو حضور داتا صاحب کی عبارت میں صحو کا معانی حالت ہوش اور سکر کا معانی حالت مدہوشی کرنے کی ہمت نہ کرتے۔مزید یہ کہ اگر اس مسئلہ پر جناب رحمت اللہ کیرانوی صاحب کے عیسائیوں کے رد میں کتابیں پڑھ لیں تو ان کو مزید تسلی ملے گئی کہ یہ اعتراضات تو عیسائیوں کے ہیں نہ کسی صحیح العقیدہ شخص نے یہ اعتراض کیا ہے۔اور اگر کچھ لحاظ نہیں تو یہ ہی واقعہ ابن قیم نے اپنی کتاب الشافی میں لکھ کر استدلال کیا ہے،پہلے ابن قیم کی ذات پر کچھ لکھیں پھر اہل سنت پر اعتراض کرنے کی ہمت کریں۔اللہ تعالیٰ ہمیں پڑھے لکھے جہالوں سے محفوظ فرمائے۔ چشتی رسول اللہ کے کلمہ پر تحقیقی جائزہ انجینئر محمد علی مرزا صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں۔ علماء کا نظریہ: خواجہ قطب الدین بختیار کاکی صاحب(جو خلیفہ تھے خواجہ معین الدین چشتی صاحب کے)ایک دفعہ انکے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ میں مرید ہونے آیا ہوں۔خواجہ صاحب نے فرمایا:جو کچھ ہم کہیں گے کرے گا اگر یہ شرط منظور ہے تو مرید کروں گا۔اُس نے کہا جو کچھ آپ کہیں گے وہی کروں گا۔خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے فرمایا:تو کلمہ اسطرح پڑھتا ہے۔[لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ]تو اب ایک بار اس طرح پڑھ[لا الہ الا اللہ چشتی رسول اللہ]چونکہ راسخ العقیدہ تھا اس نے فوراً پڑھ دیا۔خواجہ صاحب نے اس سے بیعت لی اور بہت کچھ خلعت و نعمت عطا فرمایا اور کہا:میں نے فقط تیرا امتحان لیا تھا کہ تجھ کو مجھ سے کس قدر عقیدت ہے ورنہ میر امقصود نہ تھا کہ تجھ سے اس طرح کلمہ پڑھواں۔[بزرگ(بریلوی+ دیوبندی)خواجہ فرید الدین گنج شکر صاحب،ہشت بہشت(فوائد السالکین)صفحہ ۱۹ شبیر برادرز] وحی کا فیصلہ:ترجمہ صحیح حدیث:سیدنا عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:اسلام کی بنیاد ۵ چیزوں پر رکھی گئی ہے:۱ گواہی دینا(لا الہ الا اللہ) اور یہ کہ (محمد رسول اللہﷺ) اور ۲۔نماز قائم کرنا ،اور ۳ زکوٰۃ ادا کرنا،اور ۴ حج کرنا اور ۵ رمضان کے روزے رکھنا۔[صحیح بخاری کتاب الایمان حدیث نمبر ۸،صحیح مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر ۱۱۳] الجواب بعون الوہاب: عرض یہ ہے کہ جناب مرزا صاحب نے فوائد السالکین کا حوالہ دے کر کون سا اہم کام کردیا ہے۔اس حوالہ کی بابت چند معروضات پیش خدمت ہیں۔ · اول:یہ کہ کسی بھی اعتراض کے جواب کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک : تحقیقی، دوسرا: الزامی اور تیسرا:کسی بھی اعتراض کو فرضاً مان کر جواب · دوم:چشتی رسول اللہ کا کلمہ پڑھوانا کسی بھی سند صحیحہ کے ساتھ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت نہیں۔اگر اعتراض کرنا ہے تو یہ بات با سند صحیح ثابت کریں۔کیونکہ یہ فوائد السالکین نامی کتاب تو حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی نہیں ہے۔ · سوم: اگر کوئی یہ جواب دے کہ فوائد السالکین تو حضرت خواجہ قطب الدین کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات ہیں جو انکے مرید اور خلیفہ حضور فرید الدین گنج شکر علیہ الرحمہ نے جمع کیے ہیں ۔تو اس بارے میں جواباً عرض یہ ہے کہ فوائد السالکین نامی کتاب کا حضرت قطب الدین کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے طرف انتساب اورحضرت گنج شکر علیہ الرحمہ کا ان ملفوظات کو جمع کرنا بھی مشکوک ہے غیر معتبر ہے۔کیونکہ اس کتاب کے جتنے بھی نسخے ابھی تک دریافت ہوئے یا جن لوگوں نے فوائد السالکین کا انتساب ان لوگوں کی طرف کیا ہے وہ سنداً ثابت نہیں۔فوائد الساکین میں درج تمام مجلسیں ۵۸۴ھ کی ہیں۔اور کسی نسخہ کے سند نہ تو متصل ہے اور نہ ہی اس دور کا لکھا یا مدون ہونا ثابت ہوسکا۔لہذا جو کتاب سنداً بھی ثابت نہ ہو تو ایک جید عالم دین اور عالم باصفا صوفی کی طرف اس عبارت کا انتساب انتہائی جرات مندی ہوگئ۔ · چہارم:اگرچہ فوائد السالکین کا انتساب بحیثیت ملفوظاتِ حضرت خوابہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف چند شخصیات نے کیا ہے۔مگر اس بارے میں عرض یہ کہ اگر یہ احتمال درست مان بھی لیا جائے توموجود ہ فوائد السالکین میں موجود کلمہ چشتی رسول اللہ کا اس کتاب میں ہونا تحریف اور گڑھ بڑھ کے علاؤہ کچھ بھی نہیں۔کیونکہ موجود دستیاب فوائد السالکین میں بہت ساری باتیں نہ تاریخی طور پر ثابت ہیں اور نہ تحقیقاً۔اور بہت سارے واقعات تو گھڑے ہوئے لگتے ہیں۔فوائد السالکین نامی موجودہ کتاب میں ایسے واقعات لکھے ہیں جو اس کتاب کے مدون کے بہت عرصےبعد رونما ہوئے تو یہ کیسے ہوگیا کہ ۵۰ یا ۱۰۰ سال بعد کے واقعے اس کتاب میں بیان کر دیے جائیں۔جس سے موجود ہ فوائد السالکین نامی کتاب غیر معتبر اور نا قابل اعتبار ٹھہرتی ہے۔ لہذا تحقیقی طور پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس کتاب کا انتساب ان بزرگ ہستیوں کے طرف انتساب جعلی اور موضوع ہے۔فوائد السالکین نہ تو خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات ہیں اور نہ انکے جامع حضرت بابا گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ہو سکتےہیں۔بلکہ یہ ہی کتاب نہیں بلکہ صوفیاء کرام کے دیگر ملفوظات مثلاً فوائد الفوائد ،اسرار الاولیاء وغیرہ بھی کافی مشکوک اور سنداً غیر ثابت ہیں۔ قارئین کرام! یہ بات کوئی اچنبے کی بات نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے اہل سنت و جماعت اور صوفیاء کرام کی کتابوں میں تحریف اور تدسیس ہوتی رہی ہے۔ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوںکےساتھ بھی یہ ہوا۔جبکہ علامہ شعرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کا بر ملا اظہار کیا کہ ان کی حیات میں ان کی کتابوں میں تحریف ہوئی۔شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اورشاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں کے ساتھ ان کی حیات میں جو ہوا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔لہذا جب تک کوئی بات سندا ً ثابت نہ ہو اس پر کسی قسم کا کلام اور اعتراض اصول اور انصاف کے منافی اور جہالت ہے۔ · پنجم:اہل سنت و جماعت نے چشتی رسول اللہ کے کلمہ کا جو جواب دیا ہے [کہ یہ واقعہ شطیحات کے قبیل میں سے ہے لہذا س پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے ]ان جوابات سے یہ اخذ کرنا کہ یہ عالم اس بات کوصحیح ثابت سمجھتے ہیں۔تو ایسی بات کرنا بھی جہالت ہے کیونکہ ان علماء کرام نے ایسی عبارتوں کو ہرگز صحیح نہیں مانا بلکہ ان کو بالفرض محال صحیح مان کر اس کے جوابات دیے ہیں جو اپنی جگہ پر درست ہیں۔مگر یہ بات اپنی جگہ قائم ہے کہ ان بزرگوں سے ایسے اقوال ثابت کرنے کے لئے قطعی ثبوت کی ضرورت ہے۔جبکہ دوسری طرف ایسی کتابوں کا انتساب کرنا بھی غلط ہے۔دوسری طرف ناشرین حضرات ایسی مشکوک طبع کرواتےہیں ان کا الزام علماء کرام پر ڈالنا غلط اور لغو ہے۔علماء اور مشائخ ایسی کتابوں کے مندرجات سے بری الذمہ ہیں جن کا انتساب صحیح ثابت نہ ہوسکے۔اور ان کتابوں سے بری الذمہ ہونے کا اقرار خود اعلیٰ حضرت نے متعدد مقامات پر فتاویٰ رضویہ میں کیا ہے۔اور محدث کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی کتابوں کا انتساب ان بزرگان دین کی طرف کرنے پر بڑی شدد سے رد کیا ہے۔لہذا اہل سنت و جماعت کے علماء پر ایسے اعتراض کرنا جہالت ہے۔ v الزامی جواب: اہل سنت و جماعت پر اگر مخالفین اعتراض کرتے ہیں تو پھر غیر مقلد عالم قاضی سلیمان پوری پر اعتراض کر کے دکھائیں۔ · جنھوں نے خواجہ قطب الدین کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ایک شعر لکھا ہے۔ مرشد کامل است سال وفات سر تسلیم تاج رفعت یافت · اورحضرت بابا گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھا ہے۔ آل شیخ فرید دین و دنیا گنج شکرو خازنئی اصفیا · اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ الله عليه کے بارے میں لکھا ہے۔ معین الدین حسن آں سید پاک کہ از سنجر سوئے اجمیر آمد ز شرع پاک مفتاح بقا یافت زہیر باغ فانی اُو بقایافت مجھے اُمید ہے کہ قارئین کرام! اس تحقیق کو بغور مطالعہ کرکے حق اور سچائی کا ساتھ دیں گئے اور مسلک حقہ کے طرف اپنی توجہ ضرور مبذول کریں گئے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان فتوں سے محفوظ فرمائے۔(آمین) مولف:"خادم اہل سنت و جماعت" فیصل خان رضوی
    1 point
×
×
  • Create New...