Jump to content

لیڈر بورڈ

مشہور مواد

Showing content with the highest reputation on 19/01/2021 in all areas

  1. رد الشمس والی روایت پر غیر مقلدین کے اعتراضات کا مدلل جواب ردالشمس والی مشہور روایت جس میں نبی پاک کے معجزے کا زکر ہے کہ انہوں نے حضرت علیؓ کی عصر کی نماز کی ادائیگی کے لیے سورج کو واپس پلٹایا اس روایت کی توثیق میں نے جمہور محدثین بشمول امام ابن حجرعسقلانی ، امام بدرالدین عینی، امام طحاوی ، امام قاضی عیاض ، امام جلال الدین سیوطی ، امام مغلطائی الحنفی ، امام ابن حجر مکی ، امام ابو بکر الہیثمی امام شامی ، امام شاہ ولی اللہ محدث ، امام زرقانی سمیت اور کئی محدثین کی توثیق دیکھائی تو ابن تیمیہ اینڈ کمپنی اور دیوبنہ کے پیٹ میں ایسے مروڑ پیدا ہوئے کہ ہر جگہ اسکو ضعیف ثابت کرنے کی کوشیش میں لگے ہیں جبکہ پہلے ابن تییمیہ کی اندھی تقلید میں موضوع سے کم اس پر حکم ہی نہ لگاتے تھے جبکہ یہ روایت بالکل صحیح اور پختہ دلیل ہے نبیؐ کے معجزے کی ۔ جمہور محدثین کی توثیق یہ ہے امام ابن حجرعسقلانی الشافعی شارح بخاری کا ابن تیمیہ اور ابن جوزی کا رد کرنا :۔ الحافظ شیخ الالسلام امام بن حجر عسقلانی الشافعی نے اس روایت کو حسن قرار دیا اور ایک دوسرے طرق کو دلیل قرار دیا کہ یہ روایت نبی کی نبوت کی دلیل ہے اور اس روایت ابن جوزی نے موضوع کہہ کر غلطی کی اور ایسے ابن تیمیہ نے بھی غلطی کی اس کو موضوع قرار دے کر۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری) امام بدرالدین عینی جو شارح بخاری ہیں اور اعظیم محدث کا رد الشمس کو صحیح قرار دینا:۔ امام بدرالدین کہتے ہیں کہ یہ روایت متصل ہے اور ثقات سے مروی ہے اور ابن جوزی کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں جس نے اس میں نقص نکالنے کی کوشیش کی ۔ (عمدتہ القاری شرح صحیح بخاری) امام الحافظ مغلطائی الحنفی:۔ امام مغلطائی فرماتے ہیں کہ ردالشمس والی روایت کو ثقات نے روایت کیا ہے (السرت المصطفیٰ) امام المحدث جلال الدین سیوطی الشافعی :۔ امام جلال الدین سیوطی ؒ فرماتے ہیں کہ اس روایت کو امام طبرانی ، امام ابن مندہ اور امام طحاوی نے روایت کیا ہے اور اسکے بعض طرق صحیح کی شرط پر ہیں (الخصائص الکبریٰ) امام ابو جعفرالطحاوی (امام طحاوی نے رد الشمس کا باب قائم کیا اور اس باب میں دو مختلف طرق سے روایت نقل کی اور توثیق فرمائی ) (شرح مشکل الاثار) امام قاضی عیاض المالکی :۔ز ل، امام قاضی عیاض اس روایت کو دو طرق سے لکھ کر فرماتے ہیں کہ یہ دونوں روایات صحیح ہیں اور ثقات سے مروی ہیں اور امام طحاوی سے مروی امام احمد بن صالح کا قول نقل کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص کے لائق نہیں جو علم حاصل کرنا چاہتا ہو اور وہ اسماء بنت عمیس والی روایت کو حفظ نہ کرے جبکہ اس میں نبوت کی نشانی ہے (الشفاء قاضی عیاض) امام ابو بکر الہیثمی امام ابو بکر الھیثمیؒ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس کے سارے رجال ثقہ ہیں سوائے ابراہیم بن الحسن کے اور وہ بھی ثقہ ہیں ابن حبان نے انکو ثقہ کہا ہے اور فاطمہ بنت علی بن ابی طالب کو میں نہیں جانتا (مجمع الزائد) امام ابن حجر مکی شافعیؒ امام ابن حجر مکی لکھتے ہیں کہ اس روایت کو امام ابو زرعہ نے حسن قرار دیا ہے اور دوسرے محدثین نے بھی انکی تائید کی ہے اور رد کیا ہے انکا جو اسکو موضوع کہتے ہیں (الصوائق المحرقہ) اس کے علاوہ امام زرقانی نے بھی اس روایت کو توثیق کی اور ابن تیمیہ کا رد کیا ۔ ماضی قریب کے اعظیم شیخ و محقق الکوثریؒ نے بھی اس روایت کی توثیق کی اور ابن تیمیہ کے مکڑی کے کمزور دلائل کا مدلل رد فرمایا ، علامہ ابن عابدین الشامی نے بھی اس روایت کی توثیق فرمائی علامہ شاہ عبدالعزیز نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب میں جمہور محدثین اہلسنت کی طرف سے توثیق بیان کی ہے (تحفہ اثنا عشریہ ص 436) اسکے علاوہ اہلسنت کے دو اعظیم محدثین امام جلال الدین سیوطی اور امام ابن یوسف الصالحی نے اس موضوع پر پوری کتاب لکھ کر ردالشمس والی روایت کو صحیح قرار دیا اور ابن تیمیہ کا رد کیا ان دو کتب کے نام یہ ہیں ۔کشف البس فی حدیث رد الشمس ۔مزیل البس فی رد الشمس امام ابو زرعہ اور امام احمد بن صالح نے اس روایت کو صحیح قرار دیا بقول امام قاضی عیاض اسکے علاوہ اور کثیر محققین نے اس روایت کو حسن و صحیح قرار دیا اب بھی کوئی متعصب جو ابن تیمیہ ناصبی کی اندھی تقلید کرتے ہوئے اس ضیعف یا موضوع قرار دیتا ہے تو وہ اس روایت پر متکلمین کی توثیق کے مقابلے متکلمین ہی سے اس روایت پر جرح مفسر پیش کرے کیونکہ متاخرین میں ابن تیمیہ اینڈ کمپنی نے اس میں نقص نکالے جبکہ اس سے پہلے متکلمین اور بعد والے متاخرین نے اس روایت کی توثیق کی ہے اب آتے ہیں معجم الکیر والی سند پر غیر مقلدین کے اعتراضات کی طرف وہابیہ نجدیہ کی طرف سے اس روایت پر دو راوی جو بشمول جمہور محدثین اور وہابیہ کے نزدیک بھی ثقہ ہیں لیکن کیونکہ بغض اہل بیت اور نبی کے مجعزہ کو ماننے سے انکے پیٹ کے کیڑے ایکٹوو ہو جاتے ہیں تو ان راویوں کو جھوٹا اور معاذاللہ کذاب تک ثابت کرنے کی جھوٹی کوشیش کرنے لگ گئے امام طبرانی نے اپنی معجم الکبیر میں اپنی سند سے اسکو بیان کیا جو کہ یہ ہے حدثنا جعفر ن احمد بن سنان الواسطی ثنا علی بن المنذر ثنا ممد بن فضیل بن مرزوق عن ابراھیم بن الحسن عن فاطمہ بنت علی عن اسماء بنت عمیس بلخ۔۔۔۔۔ اس سند میں ایک راوی فضیل بن مرزوق ہے جو کہ تشیع تھا لیکن ثقہ ، ثبت اور صالح تھا جس کی توثیق ان مندرجہ زیل محدثین نے کی ہے ۱۔ متشدد امام ابن حبان نے اسکو ثقات میں زکر کیا اور کہا کہ غلطی بھی کر جاتا اور عطیہ سے موضوع روایت مروی ہیں ۲۔امام ذھبیؒ نے اسکو الکاشف میں ثقہ لکھا ہے ۳۔امام ذھبیؒ نے میزان الااعتدال میں فضیل بن مرزوق پر جمہور کی توثیق نقل کر کے آخر میں ابن حبانؒ کی جو ہلکی پھلکی جرح ہے اسکا تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابن حبان نے جو کہا کہ عطیہ سے موضوع روایت مروی ہے اس سے تو امام ذھبی کہتے ہیں قلت (میں کہتا ہوں )ٌ عطیہ تو خود ضعیف ہے اس سے یعنی عطیہ کی روایات کی وجہ سے فضیل بن مرزوق پر کوئی اعتراض نہیں آتا ۴۔امام عجلیؒ نے فضیل بن مرزوق کوالثقات میں درج کیا اور کہ یہ ثقہ جائز الحدیث اور سچا تھا اور تشیع تھا ۔ ۵۔امام ابن معین الحنفیؒ نے بھی فضیل بن مرزوق کی توثیق کرتے ہوئے اسکو ثقہ گردانہ ہے ۔ یاد رہے کہ وہابیہ ابن معین سے اسکو ضعیف ثابت کرتے ہیں جبکہ امام ابن معین سے اسکی توثیق بھی ثابت ہے لہذا جرح ساقط ہوئی ۶۔امام ابن شاھینؒ نے فضیل بن مرزوق کو تاریخ الثقات میں زکر کرتے ہوئے ثقہ کہا ہے ۷۔امام ابن حجر عسقلانی نے تو جمہور محدثین سے اسکو ثقہ ثابت کرتے ہئے مندرجہ زیل محدثین سے توثیق لکھی جن کے نام یہ ہیں امام شافعی ، امام ابن ابی حاتم امام ابن عینہ امام امام احمد بن حبنل امام ابن عدی امام ابن شاھین امام ابن حبان وغیرہ ہیں اور اس پر جرح کی ہے امام نسائی نے اور وہ متشدد ہیں اب آتے ہیں اس میں تشیع ہونے والے مسلے پر اصول جرح و تعدیل کے اہل علم لوگوں کو معلوم ہے کہ متقدمین میں تشیع سے مراد وہ لوگ ہوتے تھے جہ اہل بیت کا زکر زیادہ کرتے اور حضرت علی کو شیخین پر فضیلت دیتے اور ہر جنگ کے معاملے میں حضرت علی کو حق مانتے تھے اور بس تبھی امام ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں لکھا کہ متقدمین میں تشیع سے مراد ایسے لوگ جو محض شیخین کے ساتھ حضرت علی کو عثمان بن عفان پر ٖفضیلت دیتے اور بعض حضرت علی ؓ کو نبی پاک کے بعد سب پر فضیلت دیتے وہ بہت نیک ، صالح اور متقی پرہیزگزار تھے اور ایسا عقیدہ تو تابیعن اور تبع تابعین میں بہت سے لوگوں کا تھا تو فقط اسکی وجہ سے انکی روایت کو ترک نہیں کیا جا سکتا البتہ جب تک وہ اپنے عقائد کا داعی نہ ہو اور متکلمین سے تشیع سے مراد رافضی ہے جو کہ آج کے شعیہ ہیں انکی روایت کسی بھی حال میں منظور نہیں تو فضیل بن مرزوق خیر القرون کا راوی ہے اور اس کو تشیع متقدمین نے کہا ہے جیسا کہ ابن معین ، امام نسائی وغیر نے اور تبھی اسکو سچا جائز الحدیث اور ثقہ حجت قرار دیا وہابیہ کا دوسرا اعتراض کہ شیعہ کی روایت قبول نہیں ہوگی یہ والی کیونکہ اس میٰں حضرت علی کی شان بڑھ رہی ہے اور تشیع علی کی شان میں روایتیں گھڑہتے تھے الجواب : ان علمی یتیموں کو یہ بھی معلوم نے کہ ایک راوی جب تمام محدثین کے اتفاق سے ثقہ ہے تو تب اسکی روایت کیوں نہ قبول کی جائے گی ؟؟ جبکہ روایت گھڑہنے والا راوی کذاب ہوتا ہے اور اس روایت میں حضرت علی کی شان معاذاللہ نہ خلفائے راشدین سے افضل ثابت ہو رہی ہے نہ ہی نبی پاک سے ، بلکہ اس میں تو حضرت محمدؐ کا معجزہ ثابت ہو رہا ہے جو کہ انکی شان کو بڑھا رہا ہے اور نبوت کی نشانی ثابت کر رکا ہے تبھی امام ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں ابن تیمہ و جوزی کا رد کرتے ہوئے لکھا کہ اسکی اسناد حسن ہیں اور ابن تیمیہ نے غلطی کی خطائی کھائی اور ایسے ابن جوزی نے اسکو موضوع کہہ کر دوسرا راوی جس کو تشیع ثابت کر کے سادہ لوگوں کو یہ دھوکہ دیا جاتا ہے کہ رافضی کی روایت قبول نہیں جبکہ اوپر امام ذھبی اور امام ابن حجر سے متقکلمین اور متقدمین سے تشیع کی تشریح ثابت کر دی اور اگر اس پیمانے کو رکھ لیا جائے کہ ہر تشیع کی روایت قبول نہیں ہوگی تو پھر بخاری میں ۴۵ سے زیادہ راوی تشیع بیٹھے ہیں اور امام حاکم تشیع تھے اور امام عبدالرزاق امام بخاری کے دادا استاد بھی تشیع تھے لیکن اتنے برے کبیر محدث تھے وہابیہ کو چاہیے کہ انکی ساری کتب کو رد کر دیں خیر دوسرا راوی جس کا نام علی بن المنذر ہے اسکی توثیق ۔امام ابن حبان نے الثقات میں درج کیا ۲۔امام ابن حجر عسقلانی نے بھی اسکی توثیق کی اور مندرجہ زیل محدثین سے اسکی توثیق نقل کی ہے ا امام نسائی نے کہا ثقہ حجت ہے تشیع ہے امام دارقطنی نے کہا اس میں کوئی حرج نے ہے امام ابن ماجہ نے کہا کہ اکثر کے نزدیک حجت ہے امام ابن ابی حاتم نے کہا کہ ثقہ یعنی حجت ہے اس راوی پر تو کسی ایک امام نے بھی جرح نہیں کی بلکہ بالاتفاق یہ ثقہ حجت راوی ہے تو پھر اس وہابیہ نجدیہ کا اسکو تشیع سے حدیث گھڑنے والا راوی بنانا انکی جہالت اور بغض نبی ہی ہو سکتاہے (نوٹ ان تمام حوالاجات کے اسکین نیچے موجود ہیں ) دعا گو رانا اسد فرحان الطحاوی خادم حدیث ۱۴ جون ۲۰۱۸
    1 point
  2. ۔جناب آپ کو غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے کیا لگے وہ مناتے تھے یا نہیں مناتے تھے ،یا منانتے تھے تو کیسے مناتے تھے ۔ اگر وہ مناتے تھے تو کیا تمہارے نزدیک کسی پیر کا فعل حجت ہے ؟ اور اگر نہیں مناتے تھے تو کیا ممانعت کی دلیل ہے؟ شرعاََ کیا حرج ہے؟ ۔کیا آپ غوث اعظم کو ولی کامل اوراپنا رہنما مانتے ہیں؟ سب سے پہلے یہ تو بتاییے۔۔۔۔ باقی آپ جناب کو تکلیف کبھی ختم نہیں ہو گی خواہ مخواہ کی بحث کرتے ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب جواب پیش خدمت ہے اعلیحضرت رحمۃ اللہ علیہ امام سیوطی کےالحاوی للفتاوی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ میلاد شریف کی اصل لوگوں کا مجمع ہونا ،قرآن مجید کی تلات کیا جانااور ان آیات و احادیث و روایات کو بیان کرنا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں وارد ہوئی ہیں ۔ فتاوی رضویہ کتاب الحظرولاباحتہ جس طرح مساجد ،مدارس،کی تعمیرات کی زیب و زینت و تعمیرات کے انداز ہر دور میں مختلف رہے اسی طرح ذکر میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز بھی مختلف صورتوں میں موجود رہا۔ عبد الحی لکھنوی نے بھی کہا کہ یہ حقیقت (میلاد منانا)رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانے میں موجود تھی اگر چہ نام و عنوان نہیں تھا ۔فن حدیث کے ماہرین سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ صحابہ کرام اپنی مجالس وعظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اور آپکی ولادت کے حالات کا ذکر کیا کرتے تھے ۔ملخصا۔مجموعہ فتاوی ج ۱ ص ۳۴ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے شان و عظمتوں کا ذکر مختلف زمانوں میں مختلف عنوانات و طریقوں سے کیا گیا ۔۔مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی مذکورہ بالا نوعیت کی محافل کو میلاد النبی ،مولد النبی ،عید میلاد النبی ،جشن میلاد النبی جیسے نام دییے جاتے ہیں ۔ عنوان کچھ بھی ہو ہمارے کسی سنی عالم دین نے ان عنوانات و ناموں کو لازم یا ضروری نہیں کہا بلکہ مقصد ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے خواہ سیرت النبی ،سیرت کانفرنس ،سیرت پیروگرام ،عظمت و شان مصطفی جیسے ہی نام کیوں نہ ہوں ۔ اور پھر ان محافل کا کوئی مخصوص طریقہ لازم نہیں جس جایز طریقے سے کیا جائے کچھ حرج نہیں۔ حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کا ذکر میلادالنبی کا ایک طریقہ یہ بھی بیان ہوا جس کو وہ خود بیان فرماتے ہیںحضرت شاہ ولی اﷲ نے فرمایا کہ قدیم طریقہ کے موافق بارہ ربیع الاول (یوم میلاد مصطفیﷺ) کو میں نے قرآن مجید کی تلاوت کی اور آنحضرتﷺ کی نیاز کی چیز یں( کھاناوغیرہ) تقسیم کی اور آپﷺ کے بال مبارک کی زیارت کروائی۔ تلاوت کے دوران (مقرب فرشتے) ملاء اعلیٰ (محفل میلاد میں) آئے اور رسول اﷲﷺ کی روح مبارک نے اس فقیر (شاہ ولی اﷲ) اور میرے دوستوں پر نہایت التفات فرمائی۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ ملاء اعلیٰ (مقرب فرشتے) اور ان کے ساتھ مسلمانوں کی جماعت (التفات نبویﷺ کی برکت سے) ناز ونیائش کے ساتھ بلند ہورہی ہے اور (محفل میلاد میں) اس کیفیت کی برکات نازل ہورہی ہیں)(ص 74، القول الجلی) اور اسی قدیم طریقہ پر حضور غوث پاک ذکر رسول کی محفل منعقد کرتے تھے پیر حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ عنہ ہر اسلامی مہینے کی گیارہ تاریخ کو سرکار دوعالمﷺ کے حضور نذرونیاز پیش فرماتے تھے (قرۃ الناظر ص 11)۔ لہذا طریقہ کچھ بھی ہو مقصد ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
    1 point
  3. بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ذی الحجہ کا مہینہ تھا پانچ سو تراسی سن ہجری اور گیارہ سو ستاسی عسیوی تھی، مکۃ المکرمہ کی سر زمین پر میدان محشر کا سا سماں تھا، چہار دانگ عالم سے فرزندان توحید اپنے معبود حقیقی کے اس فرمان “واتموا الحج والعمرۃ للہ، کی تعمیل کیلئے سر نیاز خم کئے سیل رواں کی طرح جوق در جوق جمع ہو گئے تھے ایک ہی ترانہ جو ہر زبان پہ جاری تھا ایک ہی آواز جس سے مکۃ المکرمہ کی فضا گونج رہی تھی وہ مقدس ترانہ یہ تھا، “لبیک اللھم لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک“ خالق کائنات جل جلالہ کے یہ وفا شعار بندے دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہر کر مناسک حج کی ادائیگی میں مصروف تھے لیکن ایک خلش جو دلوں کو بے چین کر رہی تھی وہ تھی روضۃ الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی حاضری کیونکہ ہادی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے در اقدس ہی تو اصل مراد اور قبولیت کا پروانہ ہے جیسا کہ سیدی اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دئیے اصل مراد حاضری اس پاک در کی ہے بشارت :۔ آخر وہ لمحہ جانفزا آ ہی گیا جب حجاج فرائض حج سے فراغ ہو کر اپنا مال و متاع اونٹوں پر لاد کر دیوانہ وار عشق و مستی میں سرشار جانب طیبہ قافلہ در قافلہ کوچ کرنے لگے اور اپنے غمخوار آقا کی بارگاہ میں عقیدت و محبت کے نذرانے پیش کرنے لگے انہی میں ایک خوب رو، خوش قامت، عاشق رسول تھا جس کی عمر تاریخ میں اس وقت چھیالیس سال بتائی جا رہی ہے اور حالت یہ تھی برہنہ سر، آنکھیں نم اور کثرت سفر کی وجہ سے پاؤں میں چھالے ہیں لیکن صورت بتا رہی تھی یہ کوئی اللہ والے ہیں۔ اپنے محسن آقا کی بارگاہ میں ہر کوئی اپنا درد دل بیان کر رہا تھا لیکن محبوب رب العالمین کا یہ عاشق ان سب سے بے نیاز ہو کر اپنے معبود حقیقی کی عبادت و ریاضت میں مشغول تھا اچانک گنبد خضرٰی سے آواز آئی۔ اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے میں نے تجھے ہندوستان کی ولایت عطا کی وہاں کفر و ظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر جا تیرے وجود سے ظلمت کفر دور ہو گی اور اسلام رونق پذیر ہوگا۔“ ہر دل مخمور اور ہر چہرہ مسرور تھا اگر کسی چہرے پر پریشانی کی لکیر اور تکفرات کی سلوٹیں نمایاں تھیں تو وہ اسی عاشق رسول کا چہرہ تھا کیونکہ سلوک و معرفت کا یہ محبتوں بھرا تحفہ اسی کو عطا کیا گیا تھا۔ یہ مژدہ دلنواز اسی کو سنایا گیا تھا۔ آخر خوشخبری پہ خیران کیوں ؟ جب یہ سوال تاریخ کے ورق الٹنے والے مؤرخوں سے کیا گیا تو جواب ملا اس وجہ سے کہ وہ انجان تھا اس ملک سے۔ جس کا مژدہ سنایا گیا تھا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ شہر اجمیر کہاں ہے ؟ سمت سفر کیا ہو گی ؟ مدینہ سے مسافت کتنی ہے ؟ راستہ کے پیچ و خم کیا ہیں ؟ ابھی وہ انہی فکروں میں گم تھا کہ گنبد خضرٰی کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں نے اس پر غنودگی طاری کر دی خواب میں محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اپنے جمال جہاں آراء کے دیدار سے مشرف فرمایا اور ایک نظر میں مشرق سے مغرب تک سارے عالم کو دکھا دیا۔ تمام بلا و امصار نگاہوں کے سامنے تھے شہر اجمیر وہاں کا قلعہ اور پہاڑیاں نظر آنے لگیں۔ سرکار نے اپنے اس عاشق صادق کو ایک جنتی انار عطا فرما کر ارشاد فرمایا ہم تم کو خدا کے سپرد کرتے ہیں آنکھیں کھولیں تو ہندوستان کا پورا نقشہ پیش نظر تھا۔ چنانچہ تعمیل آقا کے لئے چالیس اولیاء کے ساتھ ہندوستان کا رُخ کیا۔ سفر ہند :۔ مدینہ منورہ سے وہ عاشق صادق بغداد پہنچا جہاں کچھ دنوں مشائخین وقت سے صحبتیں رہیں پھر 586ھ / 1190ء کو بقصد اجمیر بغداد سے عازم سفر ہوا۔ دوران سفر چشت، خرقان، جہنہ، کرمان، استرآباد، بخارا، تبریز، اصفہان، ہرات، سبزہ وار ہوتا ہوا بلخ پہنچا جہاں کچھ ایام شیخ احمد خضریرہ کے یہاں قیام کیا۔ پھر بلخ سے روانہ ہو کر سمر قند ہوتا ہوتا غزنین پہنچا یہاں شمس العارفین عبدالواحد ‌ سے ملاقات کی اور کچھ دنوں روحانی صحبت گرم رہی پھر اپنے روحانی قافلہ کے ساتھ لاہور پہنچا حضرت ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش علیہ الرحمہ کے مزار اقدس پر حاضری دی اور روحانی فیوض سے مالا مال ہوا جب روانہ ہونے لگا تو مزار مبارک پر یہ شعر پڑھا گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما دہلی میں آمد :۔ لاہور سے سمانا ہوتا ہوا ہندوستان کی راجدھانی دہلی پہنچ کر راجہ کھانڈے راؤ کے راج محل کے سامنے ایک بت کدہ کے پاس قیام کیا اور اپنے اعلٰی اخلاق و کردار، سادہ مؤثر نصیحتوں سے راج کھانڈے راؤ کے کاریگروں اور بہت سے راجپوتوں کو کلمہ اسلام پڑھنے پر مجبور کر دیا۔ لوگ جوق در جوق آنے لگے اور اسلام کا نور پھیلنے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے دہلی کی سر زمین پر مسلمانوں کا ایک وسیع حلقہ تیار ہو گیا چونکہ اس مرد مجاہد کی منزل مقصود اجمیر تھی اس لئے اپنے خلیفہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو دہلی میں خلق خدا کی ہدایت کے لئے چھوڑ کر عازم اجمیر ہو گیا۔ اجمیر میں آمد :۔ چند ثقہ مؤرخوں کے مطابق وہ مرد مجاہد 587ھ / 1191ء کو وارد اجمیر ہوا جہاں روز اول ہی سے باطن شکن کرامتوں کے ظہور نے ایک بوریہ نشیں درویش کی روحانی عظمت و قوت کا سکہ اہل اجمیر کے دلوں پر بٹھا دیا۔ اجمیر کے عوام و خواص کی کثیر تعداد شرک و بت پرستی کے قعر عمیق سے نکال کر فرمان باری تعالٰی ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا کی ڈور سے منسلک ہونے لگی اور ایک وقت وہ آیا کہ شہر اجمیر کی پوری فضا کلمہ توحید سے گونجنے لگی۔ قبل ازیں کہ اس مرد خدا کی کچھ کرامتیں سپرد قرطاس کی جائیں نام و نسب اور ولادت و بچپن کا بیان بھی ضروری ہے۔ نام و نسب اور والدین :۔ تاریخ میں اس عظیم مرد مجاہد کا نام معین الدین بتایا جاتا ہے۔ جنہیں والدین پیار سے حسن کہا کرتے تھے اور غریب پروری کی وجہ سے غریب نواز کے نام سے مشہور ہوئے۔ پدر بزرگوار کا نام خواجہ غیاث الدین حسن ہے جو زہد و ورع، تقوٰی و طہارت میں ممتاز اور علم ظاہر و باطن سے بھی آراستہ تھے۔ یہ آٹھویں پشت میں حضرت موسٰی کاظم کے پوتے ہوتے ہیں۔ اور مادر مہربان کا نام بی بی ام الورع ہے جو بی بی ماہ نور سے مشہور تھیں یہ بھی بلند کردار، پاکیزہ باطن خاتون تھیں، عبادت و ریاضت آپ کا محبوب مشغل تھا۔ چند واسطوں سے یہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پوتی تھیں۔ اس لئے حضرت خواجہ کی نجیب الطرفین سید کہا جاتا ہے۔ حضرت خواجہ حضرت غوث اعظم کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ اور ایک روایت کے مطابق آپ غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ایک رشتے سے ماموں زاد ہوتے ہیں۔ ولادت، بچپن اور تعلیم :۔ حضرت خواجہ کی ولادت با سعادت 537ھ 1142ء کو موضع سنجر علاقہ سبحستان (جسے سبستان بھی کہا جاتا ہے) میں ہوئی۔ آپ نے متقی و پارسا والدین کی آغوش تربیت میں پرورش پائی تھی اس لئے عام بچوں کی طرح آشنائے لہوو لعب نہ تھے۔ پیشانی مبارک پر لمعہ نور اور شائستہ اطوار اس امر کی غمازی کرتے تھے کہ آپ آگے چل کر غیر معمولی شخصیت اور فکر و عمل، صلاح و تقوٰی کا روشن مینار ہوں گے۔ ابتدائی تعلیم والد گرامی کے زیر سایہ ہوئی۔ نو برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا پھر ایک مدرسہ میں داخل ہو کر تفسیر و حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اور بہت قلیل مدت میں کثیر علم حاصل کر لیا۔ انقلاب اور تلاش حق :۔ جب عمر شریف پندرہ سال کی ہوئی تو والد کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا ترکہ پدری سے ایک باغ اور ایک پن چکی ملی تھی جس کو آپ نے ذریعہ معاش بنایا اور خوشگوار زندگی گزرنے لگی مگر قدرت نے آپ کو اپنی مخلوق کے دلوں کی باغبانی کے لئے پیدا فرمایا تھا۔ چنانچہ ایک دن ایک مجذوب حضرت ابراہیم قندوزی باغ میں تشریف لائے اور ایک کھلی کا ٹکڑا کھلا کر دل کی دنیا میں انقلاب پیدا کر دیا۔ فوراً حضرت خواجہ نے باغ اور پن چکی بیچ کر اس کی قیمت فقراء میں تقسیم کردی اور تلاش حق میں نکل پڑے۔ کئی مقامات سے گزرتے ہوئے قریہ ہارون پہنچے جہاں حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے آپ کو اپنے حلقہ اردات میں داخل فرما کر اپنی دو انگلیوں کے درمیان سے اوپر عرش اعظم اور نیچے تحت الثرٰی تک دکھا دیا۔ بیس سال تک اپنے مُرشد کی خدمت کرتے رہے یہاں تک کہ ایک دن پیرو مُرشد نے آپ کو ساتھ لیکر خانہ کعبہ کا سفر کیا۔ طواف و زیارت کے بعد ہاتھ پکڑ کر حق تعالٰی کے سپرد کردیا۔ جب زیر حطیم کعبہ مناجات کی تو ندا آئی “ہم نے معین الدین کو قبول کیا“ بعد ازاں بارگاہ آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر بحکم مُرشد حضرت خواجہ نے سلام عرض کیا تو روضہ انور سے اس طرح جواب ملا “وعلیکم السلام یاقطب المشائخ بروبحر“ یہ تو مُرشد برحق کے ساتھ کا واقعہ ہے لیکن جب دوسری مرتبہ اپنے مُرید خاص حضرت قطب الدین بختیار کاکی کو ساتھ لیکر حج و زیارت کے لئے تشریف لے گئے تو ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپ حرم کعبہ کے اندر یادِ الٰہی میں مشغول تھے کہ ہاتف کی آواز سنی “اے معین الدین ہم تجھ سے خوش ہیں، تجھے بخش دیا، جو کچھ چاہے مانگ تاکہ عطا کروں“ اور جب روضہ انور کی زیارت کیلئے پہنچے تو یہ خوشخبری سنی “اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے ہندوستان کی ولایت میں نے تجھے عطا کی“ یہی وہ بشارت عظمٰی ہے جس سے میں نے اپنے مقالہ کا آغاز کیا تھا، اب لگے ہاتھوں حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی چند بصیرت افروز کرامتیں بھی ملاحظہ فرمائیں۔ کرامات خواجہ ہندالولی :۔ دوران قیامِ بغداد ایک دن خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالٰی عنہ شیخ وحدالدین، شیخ شہاب الدین سہروردی اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رضی اللہ تعالٰی عنہم کی ایک مجلس میں تھے۔ انبیاء علیہم السلام کا ذکر خیر ہو رہا تھا کہ سامنے سے ایک بارہ سال کا لڑکا ہاتھ میں ایک پیالہ لئے جا رہا تھا (دوسری کتابوں میں تیرو کمان کا ذکر ہے) جب بزرگوں کی نگاہیں اس پہ پڑی تو حضرت خواجہ نے فرمایا، یہ لڑکا ایک دن دہلی کا بادشاہ بنے گا۔ چنانچہ یہی وہ لڑکا شمس الدین التمش کے نام سے دہلی کا بادشاہ گزرا ہے۔ زیارتِ کعبہ :۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ ہر سال زیارتِ کعبہ کے لئے بقوت روحانی اجمیر سے تشریف لے جاتے تھے جب کام پایہ تکمیل کو پہنچا تو آپ کا یہ معمول تھا کہ آپ ہر شب بعد نمازِ عشاء کعبۃ اللہ شریف تشریف لے جایا کرتے تھے اور نمازِ فجر اجمیر میں ادا فرماتے تھے۔ رھزنوں کا تائب ہونا:۔ ایک مرتبہ حضرت خواجہ اپنے مُریدوں کے ساتھ ایک گھنے جنگل سے گزر رہے تھے کہ وہاں بسنے والے ڈاکوؤں نے آپ کے مُریدوں پر حملہ کر دیا اور لوٹ مار شروع کر دی۔ یہ دیکھ کر حضرت خواجہ نے جب نگاہِ جمال ان ڈاکوؤں پر ڈالی تو وہ کانپنے لگے اور قدموں میں گر پڑے۔ چھینا ہوا سامان واپس کیا اور آپ کے دستِ حق پرست پر سب کے سب مشرف باسلام ہوئے۔ بعد ازاں آپ نے ان کو چند نصیحتیں فرمائیں۔ جو نہایت گارکر ثابت ہوئیں۔ سب نے رہزنی سے توبہ کی اور پوری عُمر دین حق پر کاربند رہے اور سچائی کا دامن کبھی بھی اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ مقتول زندہ ہو گیا :۔ حاکم وقت نے ایک بے قصور شخص کو پھانسی دی اس کی ماں روتی پیٹتی ہوئی خدمتِ خواجہ میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرا بیٹا بے قصور تھا حضور مجھ پر کرم فرمائیں۔ آپ عصا لیکر اس کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ مقتول کے پاس پہنچ کر عصا سے اس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا اگر تو بے نگاہ قتل کیا گیا ہے تو خدا کے حکم سے زندہ ہوجا اور دار سے نیچے اتر آ۔ مقتول یہ سنتے ہی زندہ ہو گیا اور سولی سے اتر کر آپ کے قدموں پر سر رکھا اور اپنی ماں کے ساتھ اپنے گھر کو روانہ ہو گیا۔ بُت پرستوں کا تائب ہونا :۔ کلمات الصادقین میں لکھا ہے کہ ایک دن حضرت خواجہ کا گزر کفار کے ایک بُت کدے کی طرف سے ہوا۔ اس وقت سات کافر بُت پرستی میں مشغول تھے آپ کا جمال جہاں آراء دیکھتے ہی بے بس ہو گئے اور قدموں میں آ کر گر گئے فوراً توبہ کی اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ آپ نے ان میں سے ایک کا نام حمیدالدین رکھ دیا۔ چنانچہ شیخ حمید الدین دہلوی ان سات حضرات میں سے ایک ہیں جنہوں نے شہرت پائی۔ آتش پرستوں کا قبولِ اسلام :۔ ایک روز حضرت خواجہ غریب نواز صحرا سے گزرے وہاں آتش پرستوں کا ایک گروہ آگ کی پرستش میں مشغول تھا یہ لوگ اس قدت ریاضت و مجاہدات کرتے تھے کہ چھ چھ مہینے تک دانہ پانی زبان پر نہیں رکھتے تھے سرکار خواجہ نے ان لوگوں سے آتش پرستی کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ آگ کو اس لئے پُوجتے ہیں کہ دوزخ میں یہ آگ ہمیں تکلیف نہ پہنچائے۔ آپ نے فرمایا دوزخ سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں بلکہ نارِ دوزخ سے بچنے کیلئے خالق نار کی پُوجا کرو پھر یہ آگ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔ تم لوگ اتنے دنوں سے آگ کی پوجا کرتے ہو ذرا اس میں اپنا ہاتھ ڈال کر دکھاؤ ؟ ان لوگوں نے جواب دیا۔ آگ کا کام جلانے کا ہے، ہمارا ہاتھ تو جل جائے گا لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حق پرستوں کو آگ نہ جلائے گی۔ حضرت خواجہ نے فرمایا، دیکھو ہم خدا کے پرستار ہیں۔ یہ آگ ہمارے جسم کو تو دور کی بات ہماری جوتی کو بھی نہیں جلا سکتی۔ یہ فرما کر آپ نے اپنی ایک جوتی آگ میں ڈال دی بہت دیر تک وہ آگ میں رہی مگر اس پر آگ کا ذرا سا بھی اثر نہ ہوا یہ دیکھ کر سب مسلمان ہو گئے۔ فریاد رسی :۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سلطان شمس الدین التمش کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے مصروف سیر و تفریح تھے بعض امراء و اعیان سلطنت بھی ہمراہ تھے کہ ایک بدکار عورت نے بادشاہ کے حضور میں عرض کیا کہ آپ میرا نکاح کر دیں ورنہ عتابِ الٰہی میں گرفتار ہو جاؤنگی بادشاہ نے کہا تو کس کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہے تو عورت نے حضرت قطب الدین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس مرد سے جو قطب الاقطان بنے پھرتے ہیں (نعوذاللہ) انہوں نے میرے ساتھ حرام کی ہے اور یہ حمل (پیٹ کی طرف اشارہ کرکے) انہیں کا ہے۔ حضرت قطب صاحب کو یہ بیہودہ بات سن کر شرم و ندامت سے پسینہ آ گیا۔ بادشاہ و امراء ششدر رہ گئے۔ فوراً قطب صاحب نے اجمیر کی طرف منہ کرکے کہا “یا پیرو مُرشد میری مدد فرمائیے“ فوراً سامنے حضرت خواجہ تشریف لاتے دکھائی دئیے حضرت قطب صاحب اور بادشاہ قدم بوس ہو گئے۔ سرکار خواجہ نے فرمایا کیا بات ہے ؟ تم نے مجھے کیوں یاد فرمایا ؟ حضرت قطب صاحب نے سارا ماجرا بیان کیا تو سرکار خواجہ نے اس عورت کے پیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اے بچے سچ سچ بتا تو کس کا بچہ ہے۔ بچہ فوراً اپنی ماں کے پیٹ سے بول اٹھا کہ میں ایک چرواہے کا بچہ ہوں۔ میری ماں نہایت بدکار عورت ہے۔ چنانچہ عورت نے بھی اعتراف کرکے معافی مانگی۔ پرتھوی راج اور حضرت خواجہ :۔ جب حضرت خواجہ اجمیر میں مقیم ہوئے اور وہاں آپ کی ذات بابرکت سے کرامتوں کا مسلسل ظہور ہونے لگا اور لوگ اسلام کی صداقت کے معترف ہونے لگے پرتھوی راج کی دفاعی کوششوں کے باوجود حضرت خواجہ کا اثر بڑھنے لگا تو پرتھوی راج دل سے حضرت خواجہ کا دشمن ہوگیا، جوگی جے پال کی ناکامی اور اس کے قبول اسلام کے بعد پرتھوی راج کی آتش عداوت تیز ہوگئی اور وہ حضرت خواجہ کو اجمیر سے نکالنے کا منصوبہ بنانے لگا جب وہ اپنے منصونے کو عملی شکل دینے کا ارداہ کرتا اندھا ہو جاتا اور جب باز آتا بینائی واپس آ جاتی اس کرامت کو بار بار دیکھنے کے باوجود بھی شرک و بُت پرستی کی ظلمت اس کے دل سے نہ نکل سکی بالآخر اپنے کیفر کردار کو پہنچا۔ مجلس کرامات :۔ حضرت خواجہ ایک مجلس کا تذکرہ فرماتے ہیں جس میں خواجہ عثمان ہارونی خواجہ اوحدالدین کرمانی اور حضرت خواجہ بھی موجود تھے۔ گفتگو اس بارے میں شروع ہوئی کہ جو شخص بھی اس مجلس میں ہے وہ اپنی کرامت دکھائے یہ سنتے ہی خواجہ عثمان ہارونی نے مصلے کے نیچے ہاتھ ڈالا اور مٹھی بھر اشرفیاں نکال کر ایک درویش کے حوالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ درویشوں کے لئے حلوہ لے آؤ۔ شیخ اوحدالدین نے قریب ہی پڑی ہوئی ایک لکڑی پر ہاتھ مارا تو فوراً وہ لکڑی سونا بن گئی۔ میں پیچھے رہ گیا جو پیر و مُرشد کی وجہ سے کوئی کرامت ظاہر نہیں کر سکتا تھا شیخ نے میری طرف رُخ کرکے فرمایا تم کوئی کرامت کیوں نہیں دکھاتے ؟ اس مجلس میں ایک بھوکا درویش تھا جو شرم کی وجہ سے سوال نہیں کرتا تھا میں نے اپنی گدڑی میں سے جوکی چار روٹیاں نکالیں اور اس درویش کے حوالہ کر دیں۔ رام دیو کا قبول اسلام :۔ جب حضرت خواجہ اجمیر میں اناساگر کے قریب مقیم ہوئے وہ انا ساگر جس کے گرد و نواح میں ہزاروں بُت خانے تھے جن پر سینکڑوں من تیل اور پھول صرف ہوتے صُبح و شام تک پرستاروں کا ہجوم رہا کرتا تھا۔ برہمنوں اور پرستارا صنام کو حضرت کا قیام ناگوار گزرا جب راجہ اور اہل شہر کی کثیر تعداد مندروں میں پُوجا کیلئے حاضر ہوئی پجاریوں کا سردار رام دیو (دوسری کتابوں میں شادی دیو آیا ہے) ایک جماعت کثیر کے ساتھ حضرت کی بارگاہ میں آیا تاکہ اس مرد درویش کو یہاں سے نکال دیا جائے لیکن حضرت خواجہ کے جمال باکمال پر نظر پڑتے ہی لوگوں کے جسموں پر لرزہ طاری ہو گیا۔ بید کی طرح کانپنے لگے۔ حضرت کی نگاہِ کرم کی تاثیر نے رام دیو کے دل کی کیفیت بدل دی بصد خلوص و عقیدت آگے بڑھا اور دستِ حق پرست پر اسلام قبول کرلیا۔ حضرت خواجہ نے اس کا نام شادی دیو رکھا۔ تلک عشرۃ کاملۃ یہ آپ کی دس کرامتیں مکمل ہوئیں ویسے تو آپ کی بے شمار کرامتیں ہیں اور الحمدللہ !! آج بھی آپ کی تربیت گہوارہء کرامت بنی ہوئی ہے۔ خدا کی رحمتیں ہوں اے امیر کارواں تم پر
    1 point
  4. Ab us roza-e-Anwar ko bhee dekh len jis ke saamuny Chaand tary b sharma jaaty hain. G ye rahy Khuwaja-e-Khuwajigaan, Hind-ul-Wali, Hadrat khuwaja Syed Mu'een-nud-din "Hassan" Chishri Sanjri Ajmeri ke roza-e-Mubarak ki kuchh tasaweer. Ye hay "Main enterance gate" jo ke " greatest Khilji Ruler Ala-ud-din Khilji
    1 point
×
×
  • Create New...