Jump to content

لیڈر بورڈ

مشہور مواد

Showing content with the highest reputation on 16/07/2021 in all areas

  1. Shaykh Asrar Rashid Sunni Hanfi Hain Alhamdulilah Aur Behtareen Debate Kartay hain ❤ Youtube Channel Link 👇🏻 https://youtube.com/c/AsrarRashidOfficial
    1 point
  2. سید زاہد حسین شاہ صاحب صفحہ کتاب غایۃ التبجیل مصنفہ شیخ سعید محمود ممدوح مترجم کے ابتداء ص۲۱ پر لکھتے ہیں: ’’امام اہلِ سنت، مجددِ دین و ملت، الشاہ امام احمد رضا خانؒ سید کی تعظیم و توقیرکے متعلق ارشاد فرماتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ سید تفضیلی ہو، تب بھی اس کی تکریم و احترام لازمی اور ضروری ہے۔‘‘ سید زاہد حسین شاہ صاحب صفحہ ۲۲ پر مزید اعلیٰ حضرتؒ کا فتویٰ نقل کرتے ہیں: ’’سید سنی المذہب کی تعظیم لازم ہے اگرچہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں، اُن اعمال کے سبب اُس سے تنفر نہ کیا جائے نفس اعمال سے تنفر ہو بلکہ اس کے مذہب میں بھی قلیل فرق ہو کہ حدِ کفر تک نہ پہنچے جیسے تفضیل تو اُس حالت میں بھی اُس کی تعظیم سیادت نہ جائے گی، ہاں اگر اس کی بدمذہبی حدِّ کفر تک پہنچے جیسے رافضی، وہابی، قادیانی، نیچری وغیرہ تو اب اس کی تعظیم حرام ہے کہ جو وجہ تعظیم تھی سیادت وہی نہ رہی۔‘‘ اعلی حضرت یہ مذکورہ پیش کردہ فتوی مشہور زمانہ تفضیلی قاری ظہور احمد فیضی صاحب نے اپنی کتاب مناقب الزھراءؓ ص ۲۲۴۔۲۲۵ پر بھی نقل کیا ہے۔ جواب:۔ عرض یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت بریلویؒ کے اس فتویٰ پر اپنی رائے دینے سے بہتر ہے کہ اعلیٰ حضرتؒ کی اپنی تصریح پیش کر دی جائے تاکہ معاملہ واضح ہو جائے اور پڑھنے والے بآسانی فیصلہ کر سکیں۔ اعلیٰ حضرتؒ کا ایک دوسرا بھی فتویٰ ملاحظہ کریں: ’’مسئلہ ۸۰۹: اہلِ سنت و جماعت کا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ سیدنا ابوبکر الصدیق ؓ بعد الانبیاء علیہ السلام افضل البشر ہیں۔ زید و خالد دونوں اہلِ سادات ہیں، زید کہتا ہے کہ جو شخص حضرت علیؓ کو حضرت ابوبکر صدیقؓ پر فضیلت دیتا ہے اُس کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے۔ خالد کہتا ہے کہ میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ پر حضرت علیؓ کو فضیلت ہے اور ہر سید تفضیلیہ ہے اور تفضیلیہ کے پیچھے نماز مکروہ نہیں ہوتی بلکہ جو تفضیلیہ کے پیچھے نماز مکروہ بتائے خود اس کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے۔ الجواب: تمام اہلِ سنت کا عقیدہ اجماعیہ ہے کہ صدیق اکبرؓ و فاروق اعظمؓ مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے افضل ہیں۔ ائمہ دین کی تصریح ہے کہ جو مولیٰ علیؓ کو اُن پر فضیلت دے مبتدع بدمذہب ہے۔ اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔ فتاویٰ خلاصہ، و فتح القدیر و بحرالرائق و فتویٰ عالمگیری وغیرہ یا کتب کثیرہ میں ہے۔ اگر کوئی حضرت علیؓ کو صدیق و فاروقؓ پر فضیلت دیتا ہے تو وہ بدعتی ہے۔ غنیہ و رد المختار میں ہے۔ بدمذہب کے پیچھے نماز ہرحال میں مکروہ ہے۔ ارکانِ اربعہ میں ہے۔ ان یعنی تفضیلی شیعہ کی اقتداء میں نماز شدید مکروہ ہے۔ تفضیلیوں کے پیچھے نماز سخت مکروہ یعنی مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ جلد۶ صفحہ۶۲۲) یہ نکتہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اس فتویٰ کی تاریخ ۱۴ محرم الحرام ۱۳۳۹ھ ہے۔جو کہ علامہ سیدزاہد حسین شاہ صاحب کے پیش کردہ فتویٰ سے متاخر ہے۔ قارئین کرام! آپ اعلیٰ حضرتؓ کے دونوں فتویٰ ملاحظہ کریں اور دونوں میں فرق ملاحظہ کریں اور نتیجہ پڑھنے والے پر ہے۔ مگر سید زاہد شاہ صاحب کو کم از کم اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ کے دونوں فتویٰ عوام الناس کے سامنے پیش کر دینے چاہئیں تھے تاکہ ساری بات واضح ہو سکے کہ حقیقت کیا ہے؟
    1 point
  3. تحقیق مسئلہ: اولیا ءکرام کا پانی پر چلنا مرزا محمد علی جہلمی صاحب کا اولیاء کرام کی کرامات پر ٹھٹھہ بازی تحریر:خادم اہل سنت و جماعت فیصل خان رضوی بسم اللہ الرحمن الرحیم اولیاء کرام کی عظمت و شان کی وجہ تقوی اورشریعت پر پابندی ہوتی ہے۔اہل سنت و جماعت اللہ کا ولیوں سے محبت ان کی کرامات کی وجہ سے نہیں بلکہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ شریعت پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ہے۔اولیاء سے محبت صرف اللہ او ر اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہوتی ہے ۔اور اسی کا شریعت مطاہرہ نے درس بھی دیا۔ Ø ایک دوست نے جناب مرزا محمد علی صاحب کی ایک ویڈیو بھیجی ،جس میں جناب کے دیگر عقلی دلائل کے ساتھ جب اولیاء کرام کے بارے میں نہایت عامیانہ لفظ "بابے "سنا تو بہت حیرانگی ہوئی اور جب وہ اپنی اس تقریر میں اپنے جذبات میں بہتے ہوئے ایک کرکٹ کے کھلاڑی کو 6 چھکے لگانے پر کرامات کا سرٹیفیکیٹ دیا تو سوچا کہ کیا جناب مرزا صاحب کے چاہنے والے ایسی باتوں پر یقین کرتے ہیں اور وہ پڑھے لکھے ہونے کی باوجود کسی کھلاڑی کی کرامت مان سکتے ہیں؟ بہرحال ایسی باتیں ہمیشہ اپنے متبعین یا چاہنے والوں کو اپنے ساتھ لگائے رکھنے کی لیے جناب مرزا محمد علی صاحب کرتے رہتے ہیں،بلکہ ان کی ایک تقریر میں جناب مرزا صاحب تو یہ بھی کہتے سنے گئے کہ" سائنسدانوں نے تو موبائل بنا دیا ہے اگر تہمارے بابے میں طاقت ہے تو اسے کہو کہ ایک موبائل ہی بنا کر دکھا دیں۔" جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب کو شاید یہ نہیں معلوم کہ ایک طرف جہاں ان کی دلیل میں نہ استدلالی وزن ہے اور نہ عقلی ۔ بالفرض جناب کی اس عقلی دلیل کو معتبر مان لیا جائے تو اسی طرح کے اعتراض تو دہریے خدا کی ذات پر کرتے ہیں۔آپ ان کی کتابیں خود پڑھ کر دیکھ لیں۔دہریے جب بھی خدا کی ذات پر اعتراض کرتے ہیں تو کچھ اسی قسم کا اعتراض کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔بہرحال جناب محمد علی مرزا صاحب کے اعتراضات میں ایک نکتہ کی طرف کچھ تحریر کرنے کی جسارت ضرور کرتے ہیں تاکہ عوام الناس کو ان دلائل کی حقیقت اور اصلیت واضح ہوسکے۔ Ø جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب اور ان کے چند شاگردوں کی تحریروں اور تقریروں سے یہ بات سامنے واضح ہوتی ہے کہ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ولی کی شان اس کی کرامت کے ساتھ ہوتی ہے،اوروہ یہ اعتراض ہم اہل سنت پر اولیاء پر اعتراضات کے ضمن میں کرتے ہیں۔مگر اس بابت کچھ عرض یہ ہے کہ اہل سنت و جماعت کا اس معاملہ پر موقف واضح ہے کہ اولیاء کی عظمت و شان ان کا شریعت کی پابندی کی وجہ سے ہی ہوتی ہے نہ کہ ان کی کرامات کی وجہ سے ان کی شان کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔مگر اس سلسلہ میں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ایک ولی اللہ سے اگر شریعت کی پابندی کی وجہ سے کوئی کرامت ظاہر ہوں تو اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ عوام الناس کو یہ نکتہ سمجھنا چاہیے کہ اہل سنت وجماعت اولیاء کی عزت و قدر ان کی کرامات کی وجہ سے نہیں بلکہ دین و شریعت کی پابندی کی وجہ سے کرتے ہیں۔اس نکتہ کو شیخ الصوفیاء حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ بھی بیان کرتے ہیں۔ · محدث علامہ ذہبی اپنی کتاب میں حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ کا قول نقل کرتے ہیں : وَقَالَ: للهِ خَلْقٌ كَثِيْرٌ يَمْشُوْنَ عَلَى المَاءِ، لاَ قِيْمَةَ لَهُمْ عِنْدَ الله، وَلَوْ نَظَرْتُم إِلَى مَنْ أُعْطِيَ مِنَ الكَرَامَاتِ حَتَّى يَطِيْرَ، فَلاَ تَغْتَرُّوا بِهِ حَتَّى تَرَوا كَيْفَ هُوَ عِنْدَ الأَمْرِ وَالنَّهْي، وَحِفْظِ الحُدُوْدِ وَالشَّرْعِ۔ سير أعلام النبلاء13/88 ترجمہ : حضرت با یزید بسطامی علیہ الرحمہ کا فرمان ہے کہ: اللہ تعالیٰ کی بہت ساری مخلوق ایسی ہے جو پانی پر چلتی ہے ، اور اس کے باوجود اللہ کے نزدیک اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ، اور تم کسی ایسےشخص کو دیکھو جسےمتعدد کرامات حاصل ہیں ،حتی کہ وہ ہوا میں اڑتا ہے تو اس کی کرامات سے ہرگز دھوکا نہ کھانا ۔ اس وقت تک جب تک یہ نہ جان لو کہ وہ امر ونواہی اور شریعت کا پابند ہے "۔ حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ کے اس قول کو کچھ اضافہ کے ساتھ محدث ابونعیم نے اپن کتاب حلية الأولياء10/39 پر سنداً نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ قَالَ: سَمِعْتُ مَنْصُورَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا عِمْرَانَ مُوسَى يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ الْبِسْطَامِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: قَالَ أَبُو يَزِيدَ:۔۔۔ تو حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ کے اس قول سے واضح ہوا کسی ولی اللہ نے اگر شریعت کی پابندی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر ثابت ہو تو اس کی کرامات پر اعتماد ہوتا ہے ۔ اس حوالہ سے یہ نکتہ تو واضح ہوا کہ اہل سنت کے نزدیک شرف و منزلت کا دارومدار شریعت کی پابندی ہے ۔اس لیے جو لوگ صوفیاء کرام کی کرامت پر اعتراضات کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی کرامات پر اعتراضات کریں گے تو ان کی شرف ومنزلت یا ان کی بزرگی پر اعتراض ثابت ہوجائے گا ،ایسا بلکل غلط اور باطل ہے۔اس لیے کرامات سے انکار کرنے سے یہ لازم نہیں کہ اس ولی اللہ کی شان میں کوئی حرف آئے گا۔اس کے برعکس اہل سنت و جماعت اولیاء صالحین کی شریعت کی پابندی اور اللہ کے نیک بندے ہونے کی وجہ سے اگر کوئی کرامات ظاہر ہو تو اس کا انکار بھی نہیں کرتے۔اولیاء صالحین کی کرامات کے منکر معتزلہ ہیں اور صوفیاء کرام کی کرامات پر یقین رکھنااہل سنت و جماعت کے عقائد میں سے ہے۔ · جب ان لوگوں کے پاس دلائل نہیں ہوتے تو ایک بات الزامی طور پر کہتے ہیں ہیں کہ صوفیاء کرام کی کرامت نہ ماننے پر کون سے شریعت کے قانون کا انکار لازم آتا ہے؟ان لوگوں سے گذارش ہے کہ اگر وہ اپنا مطالعہ وسیع کر لیں تو ان کو یہ معلوم ہوگا کہ اولیاء کرام کی کرامات کا اقرار کرنا عقائد اہل سنت کے قبیل سے ہے ۔اس پر شرعی حکم اگر کسی مفتی صاحب ہی سے پوچھ لیں تو بہتر ہوگا۔ جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب سے جب اولیاء کرام کی شان کے خلاف کوئی دلیل نہ ملی تو اولیاء کرام پر اعتراض کرنے کے لیے عقلی دلیل پیش کی کہ اگر کوئی ولی پانی پر چل سکتا ہے تو آج کل کوئی ایسا شخص ہے جو پانی پر چل کر دکھا سکے۔ جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب کی اس بات کا مقصد یہ عوام الناس کے ذہن میں یہ نکتہ راسخ کر دیا جائے کہ کیونکہ آج کوئی ولی اگر پانی پر چل نہیں سکتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی تمام کرامات جو کتب میں موجود ہیں وہ جھوٹی ہیں۔اور اگر ان اولیاء کرام کی کرامات جھوٹی ثابت ہوئیں تو ان کی شان و منزلت پر یقین کرنا بھی صحیح نہیں۔ مرزا محمد علی صاحب کی خدمت میں گذارش ہے کہ آپ کی دلیل عقلی و نقلی طور پر غلط ہے ،وہ اس لیے کہ 1-موجودہ کسی نیک شخص اور متقدمین اولیاء کا تقابل میں قیاس مع الفارق ہے،کیونکہ اہل سنت و جماعت نے یہ موقف واضح کیا ہے کہ ولی اللہ کے لیے کرامت کا ظہور ضرور ی نہیں،اس پر بے شمار عقائد کی کتب میں تصریحات موجود ہیں۔ 2-ولی اللہ کے لیے یہ بھی شرط نہیں کہ جب کوئی اعتراض کرے تو وہ اس کرامات کو ظہور پذیر کرنے کا پابند بھی ہو۔ 3-امت کے ولیوں میں صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین کا بھی شمار ہوتا ہے،ان صحابہ کرام سے ظہور پذیر کرامات کا [جو کہ صحاح ستہ اور دیگر کتب احادیث میں مروی ہیں]اگر کوئی اس دلیل کے ساتھ رد کرے کہ ہم ان جیل القدر شخصیات کی کرامات کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ اگر ایسی کرامت ہوسکتی ہے تو پھر آج کا کوئی ولی ہمارے سامنے ایسی کرامات کا ظہور کر کے دکھائے۔ شاید مرزا محمد علی صاحب کو قران مجید کی ان آیات کا بغور مطالعہ کیا ہو جس میں بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام سے خدا کو ماننے کی شرائط رکھیں تھیں۔مرزا محمد علی جہلمی صاحب کے ان استدلال پر اتنی بات ہی بہت ہے کیونکہ قارئین کرام عقل بھی رکھتے ہیں اور شعور بھی۔ 4-جناب ایسے استدلال سے تو آپ کو صحیحین اور صحاح ستہ کی بے شمار احادیث کو غلط اور جھوٹ کہنا پڑجائے گا کیونکہ کثیر روایات میں صحابہ کرام اور تابعین و تبع تبعین کی کرامات ثابت ہیں۔ 5- اگر ان حادث صحیحہ کی کرامات کو آپ یہ کہہ کر تسلیم کرتے ہیں کہ ہم صرف اُن کرامات کو مناتے ہیں جو صحیح روایات میں منقول و ثابت ہے تو جوابا ًعرض ہے کہ پھر تو آپ کی وہ عقلی دلیل[کہ اگر پانی پر چلنا یا ہوا میں اڑنا کسی ولی سے ہو سکتا ہے تو کوئی ہمارے سامنے کر دکھائے]بھی ہبا منشور ہوجاتی ہے ،کیونکہ آپ نے کرامات کو جانچنے کا طریقہ یہ رکھا ہے کہ اگر کوئی آج کل ایسی ہی کرامت کر کے دکھا دے تو آپ اس کو مان لیں گے۔جناب مرزا صاحب،پھر تو صحابہ کرام کی ہر کرامت کو آپ کو اس وقت ماننا چاہیے جب ایسی کرامت آج کوئی آپ کے سامنے ظہور پذیر کرسکے۔ اب جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب خود فیصلہ کریں کہ کون سی دلیل معتبر ہے اور کون سی قابل رد۔کیونکہ آپ کے اصولوں کے مطابق اگر آپ کے سامنےظہور پذیر کرامات کو دلیل لیا جائے تو پھر کوئی بھی کرامت کیا ثابت ہو سکتی ہے؟اگر احادیث و مروایات صحیحہ کی کرامات آپ کو قبول ہیں تو دیگر اولیاء کرام کی کرامات پر انکار کیوں؟اس کا فیصلہ آپ کے چاہنے والے خود کریں تو بہتر ہوگا۔ موصوف محمد علی مرزا جہلمی صاحب کی ہر دلیل ا و رقیاس ان کے اپنے ہی خلاف جاتا ہے۔ اولیاء کرام کی کرامات تو اس تواتر سے ثابت ہیں کہ اس کا انکار کوئی ضدی یا ہٹ دھرم شخص ہی کرسکتا ہے کوئی عقل و شعور رکھنے والا ایسی بات نہیں کرسکتا۔ان کرامات کو تواتر کے ساتھ نہ صرف صوفیاء نے اپنی کتب میں بیان کیا ہے بلکہ محدثین کرام نے اولیاء کرام کی کرامات پر کتب لکھیں ہیں جن میں محدث ابن خلال اور محدث لالکائی علیہ الرحمہ کی کرامات اولیاء مشہور و معروف کتب ہیں۔ اس مقام پر مناسب ہے کہ اس امت کے اولیاء میں سے ایک ولی اللہ حضرت ابو مسلم الخولانی علیہ الرحمہ کی کرامت کا بیان کیا جائے کہ ان سے پانی پر چلنا معتبر کتب و اسانید سے محدثین کرام نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔ حضرت ابو مسلم الخولانی کا پانی پر چلنا 1. امام عبداللہ سے مروی امام احمد بن حنبل نے اپنی کتاب میں حضرت ابو مسلم الخولانی کا پانی پر چلنے کا واقعہ صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، أَوْ غَيْرِهِ أَنَّ أَبَا مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيَّ، مَرَّ بِدِجْلَةَ وَهِيَ تَرْمِي بِالْخَشَبِ مِنْ مَدِّهَا فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: «هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ مَتَاعِكُمْ شَيْئًا فَتَدْعُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ»۔(الزهد أحمد بن محمد بن حنبل 1/310،رقم:2253) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ 2. محدث ابو نعیم اسی روایت کو سند سے بیان کرتے ہیں۔ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ مَالِكٍ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، ثنا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، أَوْ غَيْرِهِ، أَنَّ أَبَا مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيَّ، مَرَّ بِدِجْلَةَ وَهِيَ تَرْمِي بِالْخَشَبِ مِنْ مَدِّهَا، فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ مَتَاعِكُمْ شَيْئًا فَنَدْعُو اللهَ؟۔( حلية الأولياء وطبقات الأصفياء5/120) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ 3. محدث لالکائی روایت نقل کرتے ہیں۔ أَخْبَرَنَا عَلِيٌّ، أنا الْحُسَيْنُ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: ثنا أَبُو مُوسَى هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: ثنا أَبُو النَّضْرِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ: انْتَهَى أَبُو مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ إِلَى دِجْلَةَ وَهِيَ تَرْمِي بِالْخَشَبِ مِنْ مَدِّهَا فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ شَيْئًا فَنَدْعُو اللَّهَ تَعَالَى؟ (كرامات الأولياء للالكائي: ص188،رقم149) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ 4. امام ابن الدنیا اس روایت کو اپنی سندسے بیان کرتے ہیں۔ حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ: " انْتَهَى أَبُو مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ إِلَى دِجْلَةَ وَهِيَ تَرْمِي بِالْخَشَبِ مِنْ مَدِّهَا، فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ شَيْئًا؟ فَتَدْعُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ "۔ (مجابو الدعوة1/68،رقم86) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ 5. امام بیھقی اپنی کتاب میں روایت نقل کرکے تحریر کرتے ہیں۔ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ، أَنْبَأَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّمُرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ السَّرَّاجُ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، أَنَّ أَبَا مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيَّ جَاءَ إِلَى الدِّجْلَةِ وَهِيَ تَرْمِي الْخَشَبَ مِنْ مَدِّهَا، فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ وَالْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، وَقَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ مَتَاعِكُمْ شَيْئًا فَنَدْعُوَ اللهَ. هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ۔ (دلائل النبوة6/54) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔امام بیھقی نے فرمایا کہ اس کی اسناد صحیح ہیں۔ صوفیاء پر سب سے زیادہ نقل کرنے والے محدث ابن الجوزی کو جب اپنی تحریر کے بارے میں احساس ہوا تو انہوں نے اپنے موقف سے رجوع کرتے ہوئے صوفیاء کرام کی کرامات کا اقرار بھی کیا اور اسے بیان بھی کیا اورصوفیاء کے حالات پر ایک تفصیلی کتاب صفوۃ الصفوۃ بھی لکھی۔ 6. محدث ابن الجوزی حضرت ابو مسلم الخولانی کے بارے میں لکھتے ہیں۔ سليمان بن المغيرة قال: جاء مسلم بن يسار إلى دجلة وهي تقذف بالزبد، فمشى على الماء ثم التفت إلى أصحابه فقال: هل تفقدون شيئاً؟. (صفة الصفوة 2/142) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ کیا تم اپنے سامان کے بارے میں فکر مند ہو۔ 7. امام نووی جنہوں نے مسلم شریف کی شرح لکھی جو شرح نووی کے نام سے مشہور و معروف ہے،انہوں نے اپنی کتاب میں بھی حضرت ابو مسلم الخولانی کی کرامت کو بیان کر کے اس کو تسلیم کیا ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں۔ ومن نفائس كراماته ما رواه الامام أحمد بن حنبل في كتاب الزهد له أن أبا مسلم الخولاني مر بدجلة وهي ترمي الخشب من برها فمشي على الماء ثم التفت إلى الصحابة فقال هل تفقدون من متاعكم شيئا فتدعوا الله عز وجل. (بستان العارفين1/71) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ مذکورہ بالا تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت ابو مسلم الخولانی سے یہ کرامت صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے اور محدثین کرام نے اس کرامت کو اپنی کتب میں بیان کر کے کرامت پر دلیل بھی پیش کی ہے۔ محدثین کرام کی نظر میں - اولیاء کا پانی پر چلنا صحابہ کرام و اولیاء امت سےاسانید صحیحہ سے ایسی کرامات ثابت ہی جس میں دریا کا پھٹنا،ان کا ہٹنا اور پانی پر چلنا۔دریا کا پھٹنا اور دریا کا راستہ دینا تو مرویات صحیحہ میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت العلاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔اس کے بارے میں تفصیل کے ساتھ کتب احادیث میں روایات موجود ہیں۔ محدث علامہ سبکی کی تحقیق: · محدث علامہ سبکی علیہ الرحمہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔ النَّوْع الثَّالِث انفلاق الْبَحْر وجفافه والمشى على المَاء وكل ذَلِك كثير وَقد اتّفق مثله لشيخ الْإِسْلَام وَسيد الْمُتَأَخِّرين تقى الدّين بن دَقِيق العَبْد۔ (طبقات الشافعية الكبرى2/339) ترجمہ: دریا کا پھٹ جانا،دریا کے پانی کا کم ہوجانا اور پانی پر چلنا ،ایسی کرامات بھی لاتعداد ہیں۔شیخ الاسلام سید المتاخرین حضرت تقی الدین دقیق العید سے بھی ایسی کرامات کا ظہور ہوا ہے۔ قارئین کرام کو یہ بخوبی علم ہوگا کہ علامہ سبکی ایک جلیل القدر شافعی محدث تھے،جنہوں نے ایسی کرامات کے ظہور کا نہ صرف اقرار کیا بلکہ محدث ابن دقیق العید جو کہ علامہ ذہبی کے شیخ تھےان سے بھی ایسی کرامات کے ظہور کا لکھا ہے۔ اب ہم جناب محمد علی مرزا جہلمی صاحب سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ جناب آپ تو اہل سنت و جماعت کے اکابرین کا تمسخر اڑاتے ہیں کہ" دیکھو جی ان کی کتب میں لکھا ہے کہ فلاں ولی پانی پر چلتے تھے"،ی"ہ دیکھو جی ان کے بابے"۔ان جیسے الفاظ سے جو آپ نے اولیاء امت کا ٹھٹہ اڑایا،اب آپ کا ان محدثین کرام کے بارے میں کیا رائے ہے؟پانی پر چلنے والی کرامت کا اقرار ایک عظم محدث علامہ سبکی نے کی اور اس کا ثبوت محدث ابن دقیق العید سے دیا۔ابن دونوں جیل القدر محدثین کرام کا تمسخر بھی اسی طرح اڑائیں گے یا پھر علمی روش کو اپناتے ہوئے اپنے موقف پر کوئی نظر ثانی بھی کریں گےیا نہیں؟ جناب محمد علی مرزا صاحب نے اولیا امت کی ایسی کرامات کو نقل کرنے پر نہ صرف علماء اہل سنت کو ہدف تنقید بنایا بلکہ ان ہستیوں کے ذکر کرنے پر بہت لعن طعن بھی کیا اور ان اکابرین کو اہل سنت کے "بابے" جیسے الفاظ بھی استعمال کیے۔لفظ بابے پر جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب یہ موقف پیش کرسکتے ہیں کہ" بابے "پنچابی کالفظ ہے اور اس کا مطلب بزرگ ہوتا ہے۔عرض یہ ہے کہ ہر لفظ کے استعمال کا جہاں موقع محل ہوتا ہے وہاں سیاق و سباق بھی لفظ کے معنی متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔مرزا صاحب کی یہ تاویل قابل سماع ہر گز نہیں کیونکہ تقریر وہ اردو میں کرتے ہیں اور درمیان میں مطعون کرنے کے لیے ایسے لفظ کا استعمال یہ واضح کرتے ہیں کہ اکابرین اہل سنت اور اولیاء امت پر طعن و تشنیع مقصد ہے۔بہرحال ہو جس انداز میں گفتگو کرنا چاہیں مگر اب یہ بھی غور کریں کہ اولیاء امت کی کرامات کو ذکر کر کے محدثین کرام کو جناب محمد علی مرزا صاحب کن الفاظ سےپکاریں گے؟ قارئین کرام کی خدمت میں پہلے تو روایت صحیحہ پیش کردی گئی ہے کہ پانی پر چلنا تابعین کرام سےبھی ثابت ہے۔اب جناب محمد علی مرزا جہلمی صاحب کی خدمت میں محدثین کرام کے بے شمار حوالہ جات میں سے چند حوالے پیش خدمت ہیں۔ محدث ابن رجب حنبلی کی تحقیق: · محدث ابن رجب حنبلی اپنی کتاب میں علامہ ذہبی کے حوالہ سے فقیہ ابو الموفق ابن قدامہ کا پانی پر چلنا کا اثبات کرتے ہیں۔ وقرأت بخط الحافظ الذهبي: سمعت رفيقنا أبا طاهر أَحْمَد الدريبي سمعت الشيخ إِبْرَاهِيم بْن أَحْمَد بْن حاتم - وزرت مَعَهُ قبر الشيخ الموفق - فَقَالَ: سمعت الفقيه مُحَمَّد اليونيني شيخنا يَقُول: رأيت الشيخ الموفق يمشي عَلَى الماء. ذيل طبقات الحنابلة 3/291 ترجمہ: اپنے شیخ الفقیہ محمد الیونینی سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ الموفق کو پانی پر چلتے دیکھا۔ محدث ابن ملقن شافعی کا حوالہ: · محدث ابن ملقن شافعی ،یہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی شیخ اور استاد ہیں ،اصول حدیث المقنع اور حدیث پر البدر المنیراور صحیح بخاری کی شرح مشہور و معروف ہیں،اپنی کتاب طبقات الاولیا میں امام ابراھیم بن سعد العلوی کے ترجمہ میں ان کا پانی پر نماز پڑھنے کا واقعہ نقل کیا ہے ۔ حكى عنه أبو الحارث، قال: " كنت معه فى البحر، فبسط كساءه على الماء وصلى عليه ". طبقات الأولياء 1/24 ترجمہ:حضرت ابو الحارث فرماتے ہیں کہ میں ایک بار سمندرمیں ان کے ساتھ تھا،آپ نے اپنا مصلی پانی پر بچھایا اور اس کے اوپر آپ نے نماز ادا کی۔ حضرت ابراھیم بن سعد العلوی کا سمندر میں پانی پرنماز پڑھنے کا واقعہ صرف محدث ابن ملقن نے ہی نہیں لکھا،بلکہ اس واقعہ کو سند کے ساتھ خطیب بغدای اور محدث ابن عساکر نے بھی روایت کیا ہے۔محدث خطیب بغدادی کا حوالہ: · محدث خطیب بغدادی لکھتے ہیں: عنه أَبُو الحارث.قَالَ: كنت معه فِي البحر فبسط كساءه عَلَى الماء وصلى عَلَيْهِ۔. تاريخ بغداد وذيوله 6/84 ترجمہ:حضرت ابو الحارث فرماتے ہیں کہ میں ایک بار سمندر میں ان کے ساتھ تھا،آپ نے اپنا مصلی پانی پر بچھایا اور اس کے اوپر آپ نے نماز ادا کی۔ محث حافظ بن عساکر کا حوالہ:· حافظ ابن عساکر لکھتے ہیں: عنه أبو الحارث قال كنت معه في البحر فبسط كساءه على الماء وصلى عليه۔( تاريخ دمشق6/401) ترجمہ:حضرت ابو الحارث فرماتے ہیں کہ میں ایک بار سمندرمیں ان کے ساتھ تھا،آپ نے اپنا مصلی پانی پر بچھایا اور اس کے اوپر آپ نے نماز ادا کی۔ مذکورہ بالا حوالہ جات محدثین کرام کی کتاب سے ہیں،کسی سنی بریلوی کی متاخر کتب سے کوئی حوالہ موجود نہیں،اب ان حوالہ جات کو پڑھ کر جناب محمد علی مرزا جہلمی صاحب کوئی نظر ثانی کا پروگرام رکھتے ہیں؟ یا پھر اہل سنت و جماعت سے ہی کوئی خاص دلی لگاو ہے۔ اس مضمون میں اگر کوئی خطاء یا غلطی ہو تو آگاہ کریں،اگر تحریر مسلک یا تعصب سے پاک لگے تو اس پر عمل کریں۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں حق بات کرنے اور اکابرین اہل سنت کا ادب و احترام کی توفیق عطا فرما۔
    1 point
  4. 20 رکعت تراویح پرحضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کا تحقیقی جائزہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی روایت أخبرنَا أَبُو عبد الله مَحْمُود بن أَحْمد بن عبد الرَّحْمَن الثَّقَفِيُّ بِأَصْبَهَانَ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي الرَّجَاءِ الصَّيْرَفِي أخْبرهُم قِرَاءَة عَلَيْهِ أَنا عبد الْوَاحِد بن أَحْمد الْبَقَّال أَنا عبيد الله بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ أَنا جَدِّي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جَمِيلٍ أَنا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ أَنا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى نَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ عُمَرَ أَمَرَ أُبَيًّا أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ فَقَالَ إِنَّ النَّاسَ يَصُومُونَ النَّهَار وَلَا يحسنون أَن (يقرؤا) فَلَوْ قَرَأْتَ الْقُرْآنَ عَلَيْهِمْ بِاللَّيْلِ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَذَا (شَيْءٌ) لَمْ يَكُنْ فَقَالَ قَدْ عَلِمْتُ وَلَكِنَّهُ أَحْسَنُ فَصَلَّى بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَة (إِسْنَاده حسن) ( الأحاديث المختارة للضياء المقدسي 3/367رقم الحدیث 1161) ترجمہ:حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میںمجھے رات کو تراویح پڑھانے کاحکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ دن میں روزہ رکھ لیتے ہیں مگر تراویح نہیں پڑھ سکتے، اس لئے لوگوں کو تراویح پڑھاؤ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یاامیرالمومنین! یہ ایسی چیز کا حکم ہے جس پر عمل نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں جانتا ہوں لیکن یہی بہتر ہے، پس حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیس20 رکعات تراویح پڑھائی۔ اعتراض: کفایت اللہ سنابلی صاحب غیر مقلد اپنی کتاب انوار التوضیح ص348 پر لکھتے ہیں۔ یہ رویات ضعیف ہے ، سند میں موجود ابو جعفرالرازی سی الحفظ ہے ۔ امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا: شيخ يهم كثيرا۔[الضعفاء لابي زرعه الرازي: 2/ 443]۔ امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا: كان ممن ينفرد بالمناكير عن المشاهير لا يعجبني الاحتجاج بخبره إلا فيما وافق الثقات۔ [المجروحين لابن حبان: 2/ 120]۔ یہ مشہور لوگوں سے منکر روایت کے بیان میں منفرد ہوتا تھا،اس کی حدیث سے حجت پکڑنا مجھے پسند نہیں الاکہ یہ ثقہ رواۃ سے اس کی تائید مل جائے۔ امام ابن حبان نے یہ بھی فرمایا: والناس يتقون حديثه ما كان من رواية أبى جعفر عنه لأن فيها اضطراب كثير لوگ الربیع بن انس سے ابوجعفر کی روایات سے بچتے ہیں،کیوں کہ ان بہت اضطراب ہوتا ہے۔( الثقات - ابن حبان ص4/228) اور زیر بحث حدیث اسی طریق سے ہے،لہذا ضعیف ہے۔یاد رہے کہ متعدد حنفی حضرات نے بھی اس راوی کو ضعیف تسلیم کیا ہے۔ جواب: گذارش ہے کہ کفایت اللہ سنابلی صاحب نے ابو جعفر الرزی پر چند محدثین کرام نے جرح نقل کی ہے مگر اکثر علماء نے اس کی توثیق کی ہوئی ہے۔ہم مسلکی حمایت سے ہٹ کر اس راوی پر محدثین کرام کے آراء کو پیش کرتے ہیں تاکہ حقیقت واضح ہوسکے۔ ابو جعفر الزای پر جرح کرنے والے محدثین کرام کے حوالہ جات ملاحظہ کریں۔ الفلاس : فيه ضعف ، وهو من أهل الصدق سيء الحفظ ۔ ( تاريخ بغداد 11/146.) العجلي : ضعيف الحديث ۔(ترتيب معرفة الثقات 2/391.) أبو زرعة : شيخ يهم كثيراً ۔( سؤالات البرذعي 1/443.) امام نسائی : ليس بالقوي. (سنن النَّسَائي: 3 / 258.) ابن حبان کا مکمل قول: کفایت اللہ سنابلی صاحب نے ابن حبان کی جرح مکمل نقل نہیں کی۔ كان ممن ينفرد بالمناكير عن المشاهير لا يعجبني الاحتجاج بخبره إلا فيما وافق الثقات۔۔۔۔ یہ مشہور لوگوں سے منکر روایت کے بیان میں منفرد ہوتا تھا،اس کی حدیث سے حجت پکڑنا مجھے پسند نہیں الاکہ یہ ثقہ رواۃ سے اس کی تائید مل جائے۔۔۔۔ اس جرح کے بعد ابن حبان نے متصل جو بات کہی وہ بھی ملاحظہ کریں، ابن حبان لکھتےہیں۔ ولايجوز الاعتبار بروايته إلا فيما لم يخالف الاثبات. اور نہ اس کی روایت پر اعتبار کیا جاسکتا ہےالا یہ کہ اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے مخالفت نہ ہو۔ یعنی کہ جس روایت میں اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی مخالفت نہ ہو تو اس پر اعتبار اور اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ اما م ابن حبان کے اس مکمل قول سے واضح ہوا کہ ابو جعفر الرازی کی منفرد روایت سے احتجاج کرنا محدث ابن حبان کو پسند نہ تھا مگر وہ روایت جس میں ابو جعفر الرازی اپنے سے ثقات راوی کی مخالفت نہ کرے اس پر اعتبار اور استدلال کیا جاسکتا ہے۔جبکہ پیش کردہ ضیاء المختارہ کی روایت میں کسی ثقہ راوی کی مخالفت ثابت نہیں بلکہ دیگر ثقہ راویوں نے20رکعت کے بیان میں ابو جعفر الرزای کی موافقت بھی کی ہے جس سے محدث ابن حبان کا ابو جعفر الرزی کا ربیع بن انس سے مرویات پر مضطرب کا اعتراض بھی رفع ہوجاتا ہے۔اس لیے یہ حدیث تو ابن حبان کے اصول کے مطابق بھی قابل حجت اور صحیح روایات ہے۔ ابو جعفر الرازی کی توثیق کرنے والے محدثین کرام کے حوالہ جات پیش خدمت ہیں۔ إمام ابن معين : ثقة ۔(تاريخ بغداد 11/146.) ، ایک دوسرے مقام پر کہا : ثقة ، وهو يغلط فيما يروي عن مغيرة ۔( الدوري4772 .) ایک دوسرے شاگرد نے رویات کیا کہ : ليس به بأس ۔ ( من كلام أبي زكريا في الرجال 82.) ایک دوسرے مقام پر کہا : صالح ۔( الجرح والتعديل 6/280.) ، ایک مقام پر کہا : يُكتب حديثه إلا أنه يخطئ۔(تاريخ بغداد 11/146.) ابن المديني: ثقة ۔(سؤالات ابن أبي شيبة 148) الساجي : صدوق ليس بمتقن ۔(تاريخ بغداد 11/146) امام ابن عمار : ثقة ۔(تاريخ بغداد 11/146) امام أبو حاتم : ثقة صدوق صالح الحديث ۔( الجرح والتعديل 6/280) . حافظ ابن حجر : صدوق سيء الحفظ خصوصاً عن مغيرة ۔(تقريب التهذيب 8019 ) حافظ ابن حجر ایک دوسرے مقام پر ابو جعفر کی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں۔ الإسناد حسن۔( مختصر البزار 2/ 265) علامہ ذہبی۔صالح الحديث۔ (میزان الاعتدال3/320رقم6595) ابْن سعد : وكان ثقة۔(طبقات ابن سعد 7 / 380) حاكم: ثقة. (تهذيب: 12 / 57) امام ضیاء المقدسی: وَثَّقَهُ عَليّ بن الْمَدِينِيّ وَيحيى بن معِين۔( الأحاديث المختارة6/97) ضیاء المختارہ میں 13 روایات اس سند سے ہیں۔ محدث ابْن شاهين۔ ثقاته۔(البدر المنیر3/623) علامہ حازمی ۔ ثِقَة.( البدر المنیر3/623) مذکورہ بالاپیش کردہ حوالہ جات سے رابو جعفر الرزای کے بارے میں نتیجہ اخذ کرنا قارئین کرام کے علمی استعداد پر ہے۔مذکورہ بالاتحقیق سے معلوم کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی 20 رکعت والی روایت حسن اور قابل احتجاج ہے۔اس پر کفایت اللہ سنابلی صاحب کے اعتراضات باطل و مردود ہیں۔
    1 point
  5. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رمضان میں 8 رکعت والی روایت کا تحقیقی جائزہ کفایت اللہ سنابلی کی پیش کردہ پہلی حدیث کفایت اللہ سنابلی اپنی کتاب انوار التوضیح ص21 تا 106 پہلی حدیث پیش کر کے بحث کرتےہیں۔ امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: «مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا» ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کی بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔(صحیح البخاری( 3/ 45) :کتاب صلاة التراویح: باب فضل من قام رمضان ، رقم 2013)۔ اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ تراویح کی مسنون رکعات آٹھ ہیں۔ بعض لوگ اس حدیث پرعمل نہ کرنے کا یہ بہانا بناتے ہیں کہ اس حدیث میں تہجد کی رکعات کاذکر ہے نہ کہ تراویح کی رکعات کا۔ جواب: گذارش ہے تراویح کے موضوع پر صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایت پر بحث خلط مبحث ہے،تراویح کے موضوع پر وضاحت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں نماز تراویح پڑھی جانے والی روایات سے ہوتی ہے۔اس لیے مخالفین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ والی احادیث پیش کر کے تحقیق کو دوسری طرف لاجانے کی کوشش کرتے ہیں۔سنابلی صاحب نے لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے اپنی کتاب انوار التوضیح ص21 تا 106اس حدیث کے بارے میں طویل بحث کرنی کی ناکام کوشش کی ہے اور وہ بھی اس لیے کہ عوام الناس کا دھیان اصل موضوع اور بحث سے ہٹ کر اسی طرف لگا رہے۔غیر مقلدین حضرات ایک طرف تو 8اور 11 کو مسنون کہنے پر زور لگاتے ہیں مگر خود اس کے برعکس جب روایات پیش کی جاتی ہیں تو بوکھلاہٹ کو شکار ہو کر11 سے کم رکعت کو بھی مسننون کہنی کی نفی نہیں کرتے یعنی 11 سے کم تراویح 2،3،5،6،7،8 جتنی بھی پڑھ لیں اس پر پر موصوف کفایت اللہ سنابلی صاحب انکار نہیں کرتے اس کو مسنون ہی کہتے ہیں۔مگر 11 رکعت سے زیادہ تعداد پر ان کو مسلکی تعصب یاد آجاتا ہے۔11 سے زیادہ تعداد کسی روایت میں ثابت ہو تو اسے نوافل پر محمول کرتے ہیں ۔عجب تحقیق ہے کہ 11 سے کم مسنون اور 11سے زائد تراویح پر نفل کا اطلاق؟کفایت اللہ سنابلی صاحب کادعوی پیش خدمت ہے۔ کفایت اللہ سنابلی صاحب کا دعوی: کفایت اللہ سنابلی صاحب کے نزدیک تراویح کی حد11 رکعت ہے ،ان کے نزدیک 11 رکعت سے زیادہ پڑھی نہیں جاسکتی اور 11 سے کم پر ان کو کوئی اعتراض نہیں۔ کفایت اللہ سنابلی صاحب نے اپنی کتاب انوار التوضیح ص149 پر لکھتے ہیں۔ "ہمارا موقف یہی ہے کہ گیارہ سے زائد رکعات پڑھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے نہ رمضان میں نہ غیر رمضان میں ، البتہ گیارہ سے کم رکعات کی ہم نفی کرتے ہی نہیں ، لہٰذا اگرکسی روایت میں ملتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی روایت گیارہ سے کم تعداد میں رات کی نماز پڑھی تو یہ بات نہ تو حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف ہے اور نہ ہی حدیث جابر رضی اللہ عنہ کے خلاف ہے ۔" اس حوالہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ غیر مقلد کفایت اللہ سنابلی صاحب کے نزدیک تراویح 11 رکعت سے کم تو مسنون ہوسکتی ہے مگر11 رکعت سے زیادہ تراویح مسنون نہیں ۔جبکہ عوام الناس میں یہ دھوکا دیتے ہیں کہ تراویح پر کسی پر کوئی طعن نہیں ہے کیونکہ یہ نفلی نماز ہے اس میں کوئی عدد متعین نہیں ہے۔موصوف کا دھوکا ملاحظہ کریں کہ عوام الناس میں تراویح کو نفل نماز کہہ کر اس کی عدد پر اختلاف نہ کرنے کو کہتے ہیں جبکہ خود زیادہ سے زیادہ 11 رکعت تراویح پر بضد ہیں۔ وضاحت: مگر اس مقام پر مختصرا چند امور جاننے کی بہت اہمیت ہے۔ اول:غیر مقلدین حضرات اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے کسی بھی غیر علمی بات یا تاویل تک جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔قیام اللیل،نفل،تراویح،تہجد،اور وتر کو ویسے الگ الگ بیان کرتے ہیں مگر جس روایت میں 8 رکعت سے زیادہ تراویح ثابت ہو،اس کو تہجد،وتر ،نقل اور قیام اللیل کہہ کر رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔قارئین کرام یہ سمجھ لیں کہ محدثین کرام کے نزدیک اعمال کی بنیادی طو ر پر 2 اقسام پیش کرتے ہیں۔ 1-فرض 2-نفل جو اعمال فرائض میں سے نہ ہو ان کو نفل کانام دیا جاتا ہے،اور غیر فرائض میں واجب،سنت موکدہ،سنت غیر موکدہ اور مستحب شامل ہوتے ہیں۔ رات کی نماز کی متعدد رکعات احادیث کی روشنی میں: آقا کریمﷺ کا رات کی نماز میں مختلف رکعات ادا کرنا ثابت ہیں جس پر کچھ دلائل ملاحظہ کریں،یہ بھی نوٹ کریں کہ پیش کردہ روایات کے تراجم انہی غیر مقلدین کے علماء کے کیے ہوئے ہیں تاکہ مخالفین یہ بھی اعتراض نہ کرسکے کہ تراجم میں گڑھ بڑھ کی ہے۔ 13رکعات نفل ہر دو رکعت کے بعد سلام اور آخر میں وتر۔ حضرت عبداللہ بن عباسhفرماتےہیں کہ 764 حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة حدثنا غندر عن شعبة ح وحدثنا بن المثنى وبن بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن أبي جمرة قال سمعت بن عباس يقول * كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة۔ مفہوم :نبی کریم ﷺ نے رات کو 13 رکعات نماز پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم1803) حضرت عبداللہ بن عباس hنے ان 13 رکعات کی تفصیل بھی بتائی ہے۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ كُرَيْبٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ وَهِيَ خَالَتُهُ فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ وِسَادَةٍ وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا فَنَامَ حَتَّى انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَرِيبًا مِنْهُ فَاسْتَيْقَظَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ آلِ عِمْرَانَ ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ فَتَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي فَصَنَعْتُ مِثْلَهُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبهِ فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي وَأَخَذَ بِأُذُنِي يَفْتِلُهَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ أَوْتَرَ ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ۔ ) صحیح بخاری992صحیح مسلم1788) ترجمہ :حضرت عبداللہ بن عباسh فرماتے ہیں کہ پھر میں آپﷺ کی بائیں جناب کھڑا ہوگیا ،آپﷺ نے اپنا دائیاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرے کان سے پکڑتے ہوئے مجھے دائیں طرف کھڑا کرد یا،پھر آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں،پھر دو رکعتیں پڑھیں،پھر دو رکعتین پڑھیں،،پھر دو رکعتین پڑھیں،پھر دو رکعتین پڑھیں،پھر دو رکعتین پڑھیں، پھر اسے وتر کرکے نماز پڑھی،اس کے بعد آپ نے آرام فرمایا،یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاس موذن آگیا،پھرآپﷺ کھڑے ہوئے اور ہلکلی سی دو رکعتین ادا کیں پھر مسجد تشریف لے گئے اور نماز فجر پڑھائی۔ کفایت اللہ سنابلی صاحب ی موشگافیاں: اس حدیث میں کیونکہ 13 رکعت کا اثبات تھا اس لیے کفایت اللہ سنابلی صاحب نے ایک دوسری روایت کا کچھ متن لیا،پھر تیسری روایت کا متن لیا اور پھر قیاس کرتے ہوئے اپنی ہی ایک تطبیق پر مطمئن ہونے کی کوشش کی ۔نہ ہی وہ تطبیق بنتی ہے اور نہ اس پر زیادہ کلام کرنے کی ضرورت ہے۔ اول: صحیح بخاری رقم الحدیث 992 میں تیرہ رکعت رات کی نماز ثابت ہے۔اب اس تیرہ رکعت نماز کے بارے میں کفایت اللہ سنابلی نے انوار التوضیح ص63 پر صحیح بخاری رقم الحدیث 117 بیان کی کہ اس میں عشاء کی رکعت کا بھی ذکر ہے۔ حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثنا الحكم، قال: سمعت سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال:" بت في بيت خالتي ميمونة بنت الحارث زوج النبي صلى الله عليه وسلم، وكان النبي صلى الله عليه وسلم عندها في ليلتها، فصلى النبي صلى الله عليه وسلم العشاء، ثم جاء إلى منزله فصلى اربع ركعات، ثم نام، ثم قام، ثم قال: نام الغليم او كلمة تشبهها، ثم قام، فقمت عن يساره فجعلني عن يمينه، فصلى خمس ركعات، ثم صلى ركعتين، ثم نام حتى سمعت غطيطه او خطيطه، ثم خرج إلى الصلاة". )صحیح بخاری رقم الحدیث117) ترجمہ :ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی، ان کو حکم نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزاری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اس دن) ان کی رات میں ان ہی کے گھر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز مسجد میں پڑھی۔ پھر گھر تشریف لائے اور چار رکعت پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر اٹھے اور فرمایا کہ (ابھی تک یہ) لڑکا سو رہا ہے یا اسی جیسا لفظ فرمایا۔ پھر آپ (نماز پڑھنے) کھڑے ہو گئے اور میں (بھی وضو کر کے) آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دائیں جانب (کھڑا) کر لیا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعت پڑھیں۔ پھر دو پڑھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹے کی آواز سنی، پھر آپ کھڑے ہو کر نماز کے لیے (باہر) تشریف لے آئے۔ صحیح بخاری رقم الحدیث 117 میں نماز کی رکعات کا بیان 4 رکعت ،5رکعت اور 2 رکعت کا ہوا۔ ز4 رکعت عشاء کی سنت 8] رکعت کا ذکر نہیں۔بقول سنابلی صاحب راوی کا ختصار ہے۔] ز5 رکعت وتر ز2 رکعت نفل یہ نوٹ کریں کہ موصوف کفایت اللہ سنابلی صاحب5 عدد رکعات وتر تسلیم کیا ہے مگر 8 رکعت تراویح کا کہیں ثبوت نہیں۔سنابلی صاحب یہ سمجھانا چارہے ہیں کہ اس روایت میں 8 رکعت تراویح ذکر نہیں کیونکہ راوی نے اختصار سے کام لیا ہے۔ نوٹ: قارئین کرام آپ اس بحث میں 5رکعت وتر کو ذہن نشین کرلیں کیونکہ یہ نکتہ اس لیے اہم ہے کہ موصوف کفایت اللہ سنابلی صاحب اپنے کتاب انوار التوضیح ص16 پر مقدمہ میں یہ بات ترجیح دیوتے ہوئے تسلیم کرتے ہیں کہ تراویح 8 مع وتر 3،کل 11رکعات کو ہی مسنون کہتے ہیں۔اب وتر کو1 یا 5 کہنا کس طرح مسنون ہوگا؟ دوم: اب جناب کفایت اللہ سنابلی صاحب نے اس اعتراض کو رفع کرنے کے لیے الزام روایت کے راوی سعید بن جبیر یا ان کے شاگرد پر ڈال دیا کہ انہوں نے روایت میں اختصار کیا ہے اور 4 رکعت عشاء کی سند کے بعد 4 رکعت نفل بعد ذکر نہیں کیا۔ [اس مقام پر بھی قارئین کرام غور کریں کہ 5 رکعت وتر پر کوئی تبصرہ نہیں] اب موصوف نے اس 4 رکعت نفل کے ذخر نہ ہونے کو رفع کرنے کے لیے سنن نسائی الکبری رقم 1342 پیش کی{ FR 11026 } اور اس میں دو دو رکعات کی کل 8 رکعات اور 5 رکعات وتر پڑھنے کا اقرار کیا۔اس بارے میں کفایت اللہ سنابلی صاحب نے لکھا کہ حضرت عبداللہ بن عباس نےان آٹھ میں 4 ابتدائی عشاء کی رکعات کا شمار کیا۔ ز8رکعت نفل[2،2رکعت نماز] ز5 رکعت وتر کفایت اللہ سنابلی صاحب نے سنن نسائی الکبری رقم 1342 کی یہ حدیث اس لیے پیش کی کہ اس میں اگرچہ 4رکعت عشاء کی سنتوں کا ذکر نہیں ہے مگر 8 رکعت کا ذکر ہے اور یہ وہ 8 رکعت ہیں جس کو صحیح بخاری میں کسی راوی نے بیان نہیں کیا۔ اب کفایت اللہ سنابلی صاحب کے اس نکتہ سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ دن رات صرف صحیح بخاری وصحیح مسلم کی بات کرنے والوں کا اپنا موقف ثابت نہ ہوا تو سنن الکبری النسائی کا حوالہ پیش کیا۔بالفرض کفایت اللہ سنابلی صاحب کا یہ موقف مان بھی لیں تو ادھر بھی وہی نکتہ ابھی قائم ہے کہ موصوف تو 3 وترمسنون کے قائل ہیں اور ادھر 5 وتر کا اثبات ہے۔مزید یہ کہ سنن نسائی الکبری میں بھی یہ ثابت نہیں کہ وہ 8 رکعت کس نوعیت کی تھیں؟کیا ان8 میں 4 رکعت عشاء کی سنت کے نہیں ہوسکتے؟اور یہ یاد رہے کہ خود کفایت اللہ سنابلی سونے کے بعد عشاء کی رکعات کے پڑھنے کو اپنی کتاب میں تسلیم کرتا ہے۔اب احتمالات اور ممکنات پر موصوف اپنا موقف ثابت کرتے ہیں۔جناب اہل سنت کو قیاس کرنے پر مطعون کر کے خود قیاس تو کیا احتمال کی بنیاد پر اپنا دعوی ثابت کررہے ہیں؟مگر اس قیاس باطل کے باوجود بھی آپ کا موقف ثابت نہیں ہوتا کیونکہ سنن نسائی الکبری 1342 کے متن سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ 8 رکعات بطور نفل تھے؟یا بطور عشاء کی سنت ؟ اس لیے ایسے دلائل سے اپنے حوارین کو خوش کرسکتے ہیں مگر ان کا تحقیق میدان میں کوئی حیثیت نہیں۔ حضرت زید بن خالد الجھنی رضی اللہ عنہ کی روایت: حضرت زید بن خالد الجھنیh نے بھی اسی طرح 13 رکعت بغیربغیر عشاء کی نماز اور علاوہ فجر کی سنت کی حدیث بیان کی ہے۔ وحدثنا قتيبة بن سعيد عن مالك بن أنس عن عبد الله بن أبي بكر عن أبيه أن عبد الله بن قيس بن مخرمة أخبره عن زيد بن خالد الجهني أنه قال * لأرمقن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم الليلة فصلى ركعتين خفيفتين ثم صلى ركعتين طويلتين طويلتين طويلتين ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم أوتر فذلك ثلاث عشرة ركعة۔ ترجمہ:‏ سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز دیکھوں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت ہلکی پڑھیں پھر دو رکعت پڑھیں اور لمبی سے لمبی اور لمبی سے لمبی پھر دو رکعت اور کہ وہ ان سے کم تھیں پھر دو اور کہ وہ ان سے بھی کم تھیں پھر دو اور کہ وہ ان سے بھی کم تھیں پھر دو اور کہ وہ ان سے بھی کم تھیں پھر وتر پڑھا یہ سب تیرہ رکعات ہوئیں۔ )صحیح مسلم1804) کفایت اللہ سنابلی صاحب کی موشگافیاں کفایت اللہ سنابلی صاحب سے اس حدیث کو کوئی جواب نہیں ہوا،اس لیے ا اپنی کتاب انوار التوضیح ص69پر لکھتے ہیں۔ اس حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ یہ تیرہ رکعات،سنت عشاء کے علاوہ تھیں۔ جواب: گذار ش ہے کہ علمی وتحقیق میدان میں دلائل سے بات کی جاتی ہے،ایسی باتوں دعوی کا ثبوت اور مخالفین کی دلیل کا رد نہیں ہوسکتا ہے۔ویسے بھی آپ نے پوری کتاب لکھی ہی اپنی فہم سے ممکنات اور قیاس کی وجہ سے۔پوری کتاب میں آپ نے کوئی صریح دلیل پیش نہیں کی اور اب اس روایت کو صرف اپنے قیاس کی وجہ سے رد کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔جناب پیش کردہ روایت کا جواب ہے تو عوام الناس کے سامنے پیش کریں۔ایسا ہے یا ویسا ہے، سے دعوی ہرگز ثابت نہیں ہوگا۔ سنابلی صاحب کا تطبیق دینا: کفایت اللہ سنابلی صاحب انوار التوضیح ص76 پر لکھتے ہیں۔ ہمارےنزدیک راجح اور اقرب علی الصواب بات یہی ہے کہ گیار ہ اور تیرہ رکعات سے متعلق جملہ روایات میں تطبیق کی صورت یہی ہے کہ تیرہ والی روایت میں یا تو سنت عشاء یا سنت فجر کی دو رکعات بھی شمار کی گئی ہیں۔ جواب: گذارش ہے کہ آپ نے دراصل 11 کا عدد کا ثبوت دینا ہے اس لیے 13 رکعت میں اضافی دو رکعت کے بارے میں یہ تطبیق یا وضاحت دینا چاہتے ہیں کہ یہ دو رکعت یا تو فرض عشاء کے بعد کی 2 سنتیں ہیں یا پھر فرض فجر سے پہلے 2 رکعت سنت۔مگر شاید موصوف بھول گئے کہ اگر 13 رکعت میں سے 11 کو تراویح یا قیام اللیل کو مان لیا جائے توموصوف نے خود جو روایات پیش کیں ہیں اس میں وتر کی تعداد 5 ہے۔اس طرح تو تراویح کی رکعات 6 بنتی ہیں۔جبکہ آپ مسنون 8 تراویح اور 3 وتر کے قائل ہیں۔ایک ہی دعوی کے ایک حصہ کو آپ اپنی ہی پیش کردہ روایات سے غلط ثابت کررہے ہیں۔اور اگر دعوی کے دوسرے حصہ یعنی 5 رکعت وتر کو مان لیا جائے تو پھر تراویح کی 6 رکعات مسنون تسلیم کریں گے؟حالانکہ آپ کا دعوی8رکعت تراویح اور 3 رکعت وتر مسنون کا ہے۔اس لیے ایسی دلیل اپنے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ضرور پیش کریں مگر یاد رہے کہ ایسی دلیل کی علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں۔ جب کفایت اللہ سنابلی صاحب کی پیش کردوہ روایت سے ان کی دعوی ہی ثابت نہیں ہوتا تو اس پر مزید بحث کہ مذکورہ روایت کا تعلق تہجد سے ہے یا تراویح سے؟ یا تراویح اور تہجد الگ الگ ہیں یا ایک نماز؟کوئی ضروری نہیں۔البتہ رات کی نماز کے بارے میں چند مزید روایات پیش خدمت ہیں ،جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رات کی نماز میںاعمال اور وتر کی تعداد غیر مقلدین حضرات کے دعوی کے برعکس ہے۔ 13 رکعات،ہر دو رکعات کے بعد سلام، آخری پانچ رکعتیں ایک ہی تشہد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ ہر دو رکعات کے بعد سلام،اور آخری پانچ رکعتین ایک ہی تشہد کے ساتھ۔ وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، قالا: حدثنا عبد الله بن نمير . ح، وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، " يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة، يوتر من ذلك بخمس، لا يجلس في شيء إلا في آخرها ". ترجمہ:‏‏ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعت پڑھتے پانچ ان میں سے وتر ہوتیں کہ بیٹھتے مگر ان کے آخر میں۔ )صحیح مسلم1720) اس روایت سے وتر کی تعداد5 ثابت ہوتی ہے جبکہ کفایت اللہ سنابلی صاحب نے مسنون تراویح 8 رکعت اور5 رکعت وتر کا موقف لکھا ہے۔ مزید یہ کہ موصوف پیش کردہ روایت 8رکعت،5 وتر رکعات میں کس کے بارے میں یہ کہیں گے کہ اس میں عشاء کے دوسنتیں یا فجر سے قبل کی 2 سنتیں ہیں؟اور یہ یاد رہے کہ 5 رکعت وتر میں تو کوئی تخصیص اس لیے بھی نہیں ہوسکتی کہ اس میں 5 رکعات کو ایک تشہد کے ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے۔اس لیے یہ دلیل بھی کفایت اللہ سنابلی صاحب کے خلاف ثابت ہوئی۔ 9 رکعات،تشہد صرف آخری رکعت میں پھر ایک سے وتر بنایا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں روایت ہے کہ ۔۔قال قلت يا أم المؤمنين أنبئيني عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت كنا نعد له سواكه وطهوره فيبعثه الله ما شاء أن يبعثه من الليل فيتسوك ويتوضأ ويصلي تسع ركعات لا يجلس فيها إلا في الثامنة فيذكر الله ويحمده ويدعوه ثم ينهض ولا يسلم ثم يقوم فيصلي التاسعة ثم يقعد فيذكر الله ويحمده ويدعوه ثم يسلم تسليما يسمعنا ثم يصلي ركعتين بعد ما يسلم وهو قاعد فتلك إحدى عشرة ركعة يا بني فلما سن نبي الله صلى الله عليه وسلم وأخذه اللحم أوتر بسبع وصنع في الركعتين مثل صنيعه الأول۔ ترجمہ:۔۔۔ اے ام المؤمنین! خبر دیجئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کی۔ تب انہوں نے فرمایا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چاہتا اٹھا دیتا تھا رات کو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے تھے اور وضو، پھر نو رکعت پڑھتے تھے نہ بیٹھتے اس میں مگر آٹھویں رکعت کے بعد اور یاد کرتے اللہ تعالیٰ کو اور اس کی حمد کرتے اور دعا کرتے (یعنی تشہد پڑھتے) پھر کھڑے ہو جاتے اور سلام نہ پھیرتے اور نویں رکعت پڑھتے پھر بیٹھتے اور اللہ کو یاد کرتے اور اس کی تعریف کرتے اور اس سے دعا کرتے اور اس طرح سلام پھیرتے کہ ہم کو سنا دیتے (تاکہ سوتے جاگ اٹھیں) پھر دو رکعت پڑھتے اس کے بعد، بیٹھے بیٹھے بعد سلام کے۔ غرض یہ گیارہ رکعات ہوئیں اے میرے بیٹے! پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر زیادہ ہو گئی اور بعد میں گوشت آ گیا، سات رکعات وتر پڑھنے لگے اور دو رکعتیں ویسی ہی پڑھتے جیسے اوپر ہم نے بیان کیں۔ غرض یہ سب نو رکعتیں ہوئیں۔ اے میرے بیٹے! (یعنی سات وتر و تہجد کی اور دو بعد وتر کے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب کوئی نماز پڑھتے اس پر ہمیشگی کرتے۔(صحیح مسلم1739) 7رکعات وتر،تشہد آخر رکعت میں حضرت عائشہ روایت بیان کرتی ہیں۔ حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، عن زرارة بن اوفى ، عن سعد بن هشام ، قال: سالت عائشة ، قلت: يا ام المؤمنين، افتيني عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت:" كنا نعد له سواكه وطهوره، فيبعثه الله فيما شاء ان يبعثه من الليل، فيتسوك ويتوضا، ثم يصلي تسع ركعات لا يجلس فيها إلا عند الثامنة، فيدعو ربه فيذكر الله ويحمده ويدعوه، ثم ينهض ولا يسلم، ثم يقوم فيصلي التاسعة، ثم يقعد فيذكر الله ويحمده ويدعو ربه ويصلي على نبيه، ثم يسلم تسليما يسمعنا، ثم يصلي ركعتين بعد ما يسلم وهو قاعد، فتلك إحدى عشرة ركعة، فلما اسن رسول الله صلى الله عليه وسلم، واخذ اللحم اوتر بسبع، وصلى ركعتين بعد ما سلم". ترجمہ :سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں بتائیے، تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہتا رات میں آپ کو بیدار کر دیتا، آپ مسواک اور وضو کرتے، پھر نو رکعتیں پڑھتے، بیچ میں کسی بھی رکعت پر نہ بیٹھتے، ہاں آٹھویں رکعت پر بیٹھتے، اپنے رب سے دعا کرتے، اس کا ذکر کرتے اور حمد کرتے ہوئے اسے پکارتے، پھر اٹھ جاتے، سلام نہ پھیرتے اور کھڑے ہو کر نویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے اور اللہ کا ذکر اور اس کی حمد و ثنا کرتے، اور اپنے رب سے دعا کرتے، اور اس کے نبی پر درود (صلاۃ) پڑھتے، پھر اتنی آواز سے سلام پھیرتے کہ ہم سن لیتے، سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعت پڑھتے، یہ سب گیارہ رکعتیں ہوئیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر زیادہ ہو گئی، اور آپ کا جسم مبارک بھاری ہو گیا، تو آپ سات رکعتیں وتر پڑھتے اور سلام پھیرنے کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے۔صحیح ابن ماجہ1191 7 رکعت اور چھٹی رکعت میں تشہد۔ حضرت عائشہ رضی اللہ فرماتی ہیں۔ أَنَّ عَائِشَةَ سُئِلَتْ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: «كُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ، فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ لِمَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَيَتَسَوَّكُ وَيَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يُصَلِّي سَبْعَ رَكَعَاتٍ، وَلَا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلَّا عِنْدَ السَّادِسَةِ، فَيَجْلِسُ وَيَذْكُرُ اللَّهَ وَيَدْعُو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے وتر کے بارے میہں پوچھا گیا ہے تو انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ سات رکعت وتر پڑھتے مگر چھٹی رکعت پر تشہد فرماتے تھے۔(صحیح ابن حبان2441) 5 رکعات،ان میں تشہد آخری رکعت پر حضرت عائشہ رضی اللہ بیان فرماتی ہیں۔ وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، قالا: حدثنا عبد الله بن نمير . ح، وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، " يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة، يوتر من ذلك بخمس، لا يجلس في شيء إلا في آخرها ". ‏‏‏‏ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعت پڑھتے پانچ ان میں سے وتر ہوتیں کہ بیٹھتے مگر ان کے آخر میں۔ )صحیح مسلم1720) اعتراض: اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ وتر پر بھی صلاۃ الیل کا اطلاق ہوا ہے کیونکہ چند روایات اس پر پیش کی جاتی ہیں۔ کچھ احادیث ملاحظہ ہوں جن سے ثابت ہوتاہے کہ پوری صلاۃ الیل پربھی وتر کا اطلاق ہواہے۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلاَةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: «صَلاَةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى» [صحيح البخاري 2/ 24] [امام مسلم روایت کرتے ہیں] عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ، وَمَنْ طَمِعَ أَنْ يَقُومَ آخِرَهُ فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ، فَإِنَّ صَلَاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ، وَذَلِكَ أَفْضَلُ»[صحيح مسلم 2/ 520] ان دونوں احادیث میں پوری صلاۃ اللیل پر وترکااطلاق ہواہے۔ جواب: گذارش ہے کہ غیر مقلدین نے 11 کا عدد ثابت کرنے کے لیے ہر اصول کی نفی ضرور کرنی ہے۔جس روایات سے وتر کا5،7،یا9 عدد ثابت ہوتا ہے۔اس کو یہ لوگ قیام الیل کے ضمن میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔بالفرض اگر وتر پر قیام الیل یا قیام الیل پر وتر کا اطلاق مان لیا جائے تو پھر ہماری پیش کردہ روایت میں 5،7،9 وتر پڑھنے کا طریقہ کار ہے وہ آپ کے وضع کردہ اصول کو غلط ثابت کرتا ہے۔ان روایت میں یہ ثابت ہے کہ 9 رکعات میں آخری رکعت میں تشہد کیا،7رکعات وترمیںتشہد آخر رکعت میں،7 رکعات میں چھٹی رکعت میں تشہد،5 رکعات میں تشہد آخری رکعت پر ۔ اب پیش کردہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات تو آپ کے اعتراض اور دعوی دونوں کے برخلاف ہیں۔مزید یہ بھی کہ ان روایات میں تو جس طرح 9،یا7یا6یا5 عدد وتر اور اس کا طریقہ کار ہے وہ بھی موصوف کے موقف کے خلاف ہے کیونکہ اول تو موصوف کا دعوی ہے کہ مسنون تراویح 8 اور 3رکعت ہے۔جبکہ ان روایت میں تو وتر کی تعداد 5،6،7،9 ایک ہی سلام کے ساتھ ثابت ہے اور اگر ان وتر والی رکعات سے قیام الیل کی دلیل لینی ہے تو پھر ان رکعات کے پڑھنے کا طریقہ کار ہی آپ کے خلاف ہے۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ کفایت اللہ سنابلی کی پیش کردہ روایت سے 11 رکعت تراویح مسنون ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ رات کی نماز کی تعداد؟ یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ نبی کریمﷺ کی رات کی نماز چاہے رمضان ہو یا غیر رمضان وہ کتنی ہوتی تھی؟ تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کفایت اللہ سنابلی کی پیش کردہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو 11 رکعت سے زیادہ نہ پڑھنے کی روایت ہے اس پر دیگر صحابہ کرام نے مختلف روایات بیان کی ہیں۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں 13 رکعت کی نماز ثابت ہے جس میں نہ تو عشاء کی نماز شامل ہے اور نہ ہی فجر سے قبل 2 رکعات سنت۔اس پر روایت پر گمان کے طور پر کوئی حکم لگانا یا قیاس کرنا غیر مقلدین حضرات کے اپنے ہی منہج کے خلاف ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں روایت ہے کہ جس میں آقا کریمﷺ سے کوئی معین تعداد کی نماز کی نفی ہوتی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرسے مروی ہے۔ حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت عقبة بن حريث ، قال: سمعت ابن عمر يحدث، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا رايت ان الصبح يدركك فاوتر بواحدة "، فقيل لابن عمر: ما مثنى مثنى؟ قال: ان تسلم في كل ركعتين. ‏‏‏ترجمہ:‏ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو دو رکعت ہے پھر جب تجھے معلوم ہو کہ صبح آ پہنچی تو ایک رکعت وتر پڑھ لے۔“ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ دو دو رکعت کے کیا معنی ہیں؟ انہوں نے کہا: ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتا جائے۔صحیح مسلم1763 اس مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ رات سے لے کر صبح تک قیام الیل میں نبی کریم ﷺکو جتنا وقت بھی میسر ہوتا اس میں 2،2 رکعات کر کےنماز پڑھتے،اور ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرتے۔اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ وقت میسر کے تحت قیام اللیل کی ادائیگی میں رکعات کا اضافہ ہوتا رہتا،جن صحابہ نے جو دیکھا اس کو بیان کر دیا۔مگر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ سے علی الاطلاق8یا 11 کا تعین کرنا اور پھر اس تعداد کو اپنے مسلکی حمایت میں ہی مسنون کہنے پر بضد ہونا مناسب عمل نہیں۔ [صحیح مسلم رقم الحدیث 1763 میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کا یہ حصہ کہ " فإذا رايت ان الصبح يدركك فاوتر بواحدة پھر جب تجھے معلوم ہو کہ صبح آ پہنچی تو ایک رکعت وتر پڑھ لے"بھی بہت اہم ہے کیونکہ یہ روایت اس بات کی بھی وضاحت کر رہی ہے کہ ایک رکعت وتر پڑھنا کن معنوں اور کس پس منظر میں ہے،اس کی مزید تفصیل علامہ فقیر محمد جہلمی صاحب کی 3رکعات وتر والی کتاب کی تحقیق میں پیش کی جائیگی۔ان شاء اللہ۔] یہ بات یاد رہے کہ مسنون تراویح کی تعداد کا تعیین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوتا ہے کیونکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیل القدر صحابی ہونے کی حیثیت سے ان افعال کا زیادہ مشاہدہ رکھتے تھے اور انہی کے فیصلہ پر دیگر صحابہ کرام نے اتفاق کیا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے صحیح اسانید سے 20 رکعت تراویح ثابت ہے۔ پھر جس تابعی یا تبع تابعی نے رات کےنوافل میں اضافہ کیا ،انہوں نے 20 رکعت کو مسنون مان کر ہی اس پر نوافل زائدہ کی ادائیگی کی جس کہ وجہ علامہ عینی نے البنایہ اور دیگر علماء نے پیش کی ہے۔ اس تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ ایک تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ایک طرق کو پیش کر کے دیگر روایات کو نظر انداز کرنا علمی خیانت ہے۔پھر دیگر روایات سے جو رکعات اور افعال ثابت ہوئے اس پر غیر مقلدین حضرات کا بالکل ہی عمل نہیں ہے۔کفایت اللہ سنابلی صاحب نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ والی حدیث پر پیش کیے جانے والے احتمالات کے جوابات میں بہت زور لگایا مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
    1 point
×
×
  • Create New...