Jump to content

لیڈر بورڈ

مشہور مواد

Showing content with the highest reputation on 16/09/2021 in all areas

  1. Holy Madina Munawara Documentary about Madina City History of Madina Shareef in Urdu Madina The City of Prophet (SAW) Part 1: https://www.youtube.com/watch?v=--We4X_8uXk Part 2: https://www.youtube.com/watch?v=y7owWStHMfA Part 3: https://www.youtube.com/watch?v=vsReK6Y3aL0 Part 4: https://www.youtube.com/watch?v=j8PfPwwe1dM
    1 point
  2. عقیدہ حاضر و ناظر حاضروناظر کا معنی مختار الصحاح میں ابن ابی بکر رازی کہتے ہیں: الناظر فی المقلۃ السواد الاصغر الذی فیہ الماء العین۔ (المختار الصحاح ص 491) جہاں تک ہماری نظر کام کرے وہاں تک ہم ناظر ہیں اور جس جگہ تک ہماری دسترس ہو کہ تصرف کرلیں وہاں تک ہم حاضر ہیں۔ روح اعظم کی کائنات میں جلوہ گری نبی اکرم ﷺ کے لیے لفظ حاضروناظر بولا جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ کی بشریت مطہرہ اور جسم خاص ہر جگہ ہر شخص کے سامنے موجود ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ اپنے مقام رفیع پر فائز ہونے کے باوجود تمام کائنات کو ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح ملاحظہ فرماتے ہیں نبی اکرم ﷺ اپنی روحانیت اور نورانیت کے اعتبار سے بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوسکتے ہیں اور اولیائے کرام بیداری میں آپ کے جمال اقدس کا مشاہدہ کرتے ہیں اور حضور انور ﷺ بھی انہیں نظر رحمت و عنایت سے مسرور و محفوظ فرماتے ہیں۔ گویا حضور ﷺ کا اپنے غلاموں کے سامنے ہونا، سرکار کے حاضروناظر ہونے کے معنی ہیں اور انہیں اپنی نظر مبارک سے دیکھناحضور کے ناظر ہونے کا مفہوم ہے۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ عقیدہ ظنیہ اور از قبیل فضائل ہے۔ اس کے لیے دلائل قطعیہ کا ہونا ہی ضروری نہیں، بلکہ دلائل ظنیہ بھی مقید مقصد ہیں۔ قرآن سے ثبوت 1: ارشاد باری تعالیٰ ہے: یایھاالنبی انا ارسلنک شاھدا الاحزاب 33 اے غیب کی خبریں دینے والے بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضروناظر ۔ علامہ ابوالسعود اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں اے نبی! ہم نے تمہیں ان لوگوں پر شاہد (حاضروناظر) بنا کر بھیجا جن کی طرف آپ مبعوث ہیں۔ آپ ان کے احوال و اعمال کا مشاہدہ اور نگرانی کرتے ہیں۔ آپ ان سے صادر ہونے والی تصدیق و تکذیب اور ہدایت و ضلالت کے بارے میں گواہی حاصل کرتے ہیں اور قیامت کے دن ان کے حق میں یا ان کے خلاف جو گواہی آپ دیں گے مقبول ہوگی۔ تفسیر ابوالسعود ج 7 ص 42، احیاء التراث العربی، بیروت علامہ سلمان جمل نے الفتوحات الالٰہیہ ج 2 ص 442 اور علامہ سید محمود آلوسی نے تفسیر روح المعانی ج 22 ص 45 میں یہی تفسیر کی ہے۔ امام محی السنۃ علاءالدین خازن رحمہ اللہ علیہ نے نے ایک تفسیر یہ بیان کی ہے شاھدا علی الخلق کلھم یوم القیامۃ۔ آپ قیامت کے دن تمام مخلوق پر گواہ ہوں گے۔ (تفسیر لباب التاویل فی معانی التنزیل ج 5 ص 266، مصطفیٰ البابی مصر) نبی اکرم ﷺ کی دعوت اسلام ہرمومن و کافر کو شامل ہے۔ لہذا امت دعوت میں ہر مومن و کافر داخل ہے۔ البتہ! امت اجابت میں صرف وہ خوش قسمت افراد داخل ہیں جو حضور ﷺ کی دعوت پر مشرف بااسلام ہوئے۔ آیت مبارکہ کی تفسیر میں علی من بعثت الیھم (جن کی طرف آپ کو بھیجا گیا) اور علی الخلق کلھم کہہ کر حضرات مفسرین نے اشارہ کیا ہے کہ آپ صرف اہل ایمان کو ہی نہیں، بلکہ کافروں کے احوال بھی مشاہدہ فرمارہے ہیں۔ اسی لیے آپ مومنوں کے حق میں اور کافروں کے خلاف گواہی دیں گے۔ امام فخرالدین رازی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فرمان شاھدا میں کئی احتمال ہیں (پہلا احتمال یہ ہے کہ )آپ قیامت کے دن مخلوق پر گواہی دینے والے ہیں جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ویکون الرسول علیکم شھیدا (رسول تم پر گواہ ہوں گے اور نگہبان) اس بنا پر نبی اکرم ﷺ شاہد بنا کر بھیجے گئے ہیں، یعنی آپ گواہ بنتے ہیں اور آخرت میں آپ شہید ہوں گے یعنی اس گواہی کو ادا کریں گے جس کے آپ حامل بنے تھے۔ 📘 ( تفسیر کبیر ج 25 ص 216) علامہ اسماعیل حقی فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر کا مطلب یہ ہے کہ اس ظاہر و باطن میں آپ ﷺ کی سنت کی حقیقی پیروی کی جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ آپ موجودات کا خلاصہ اور نچوڑ ہیں۔ آپ ہی محبوب ازلی ہیں، باقی تمام مخلوق آپ کے تابع ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا۔ چونکہ نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کی پہلی مخلوق ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور ربوبیت کے شاہد ہیں اور عدم سے وجود کی طرف نکالی جانے والی تمام ارواح ، نفوس، احرام و ارکان، اجسام و اجساد، معدنیات ، نباتات، حیوانات، فرشتوں، جنات، شیاطین اور انسانوں وغیرہ کےشاہد ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے افعال کے اسرار عجائب صنعت اور غرائب قدرت میں سے جس چیز کا ادراک مخلوق کے لیے ممکن ہو وہ آپ کے مشاہدہ سے خارج نہ رہے، آپ کو ایسا مشاہدہ عطا کیا کہ کوئی دوسرا اس میں آ پ کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا علمت ماکان وما یکون (ہم نے جان لیا وہ سب جو ہوچکا اور جو ہوگا) کیونکہ آپ نے سب کا مشاہدہ کیا۔ اور ایک لمحہ بھی غائب نہیں رہے۔ آپ نے آدم علیہ السلام کی پیدائش ملاحظہ فرمائی، اسی لیے فرمایا: ہم اس وقت بھی نبی تھے جب کہ آدم علیہ السلام مٹی اور پانی کے درمیان تھے، یعنی ہم پیدا ہوگئے تھے اور جانتے تھے کہ ہم نبی ہیں اور ہمارے لیے نبوت کا حکم کیا گیا ہے جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کا جسم اور ان کی روح ابھی پیدا نہیں کی گئی تھی۔ آپ نے ان کی پیدائش، اعزاز و اکرام کا مشاہدہ کیا اور خلاف ورزی کی بنا پر جنت سے نکالا جانا ملاحظہ فرمایا: آپ نے ابلیس کی پیدائش دیکھی اور حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کے سبب اس پر جو کچھ گزرا ، اسے راندہ درگاہ اور ملعون قرار دیا گیا، سب کچھ ملاحظہ فرمایا، ایک حکم کی مخالفت کی بنا پر اس کی طویل عبادت اور وسیع علم رائگاں گیا۔ انبیاء ورسل اور ان کی امتوں پر وارد ہونے والے حالات کے علوم آپ کو حاصل ہوئے۔ 📘 (روح البیان ج 9 ص 18) ویکون الرسول علیکم شھیدا۔ اور یہ رسول تمہارے گواہ (اور حاضروناظر ہیں) (البقرہ آیت 143) علامہ اسماعیل حقی اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہم الرحمہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ کے گواہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نور نبوت کے ذریعہ ہر دیندار کے بارے میں جانتے ہیں کہ اس کے دین کا مرتبہ کیا ہے ، اس کے ایمان کی حقیقت کیا ہے اور اس حجاب کو بھی جانتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کمال دین سے روک دیا گیا ہے۔ پس آپ امتیوں کے گناہ، ان کے ایمان کی حقیقت، ان کے اعمال ، نیکیوں، برائیوں اور اخلاص و نفاق وغیرہ کو جانتے ہیں۔ روح البیان ج 9 ص248 تفسیر عزیزی فارسی ج 1 ص 518 امام ابن الحاج فرماتے ہیں نبی اکرم ﷺ اپنی امت کو ملاحظہ فرماتےہیں۔ ان کے احوال نیتوں، عزائم اور خیالات کو جانتے ہیں اور اس سلسلہ میں آپ کی حیات مبارکہ اور وصال میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور یہ سب کچھ آپ پر عیاں ہے اور اس میں کچھ اخفا نہیں ہے۔ (المدخل، ج 1 ص 262، ) وجئنا بک علی ھؤلاء شھیدا۔ اور ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔ (النساء 41) ان آیات مبارکہ میں نبی اکرم ﷺ کو شاہد اور شہید کہا گیا ہے۔ ان دونوں کا مصدر شہود اور شہادت ہے۔ آئیے دیکھیں کہ علماء لغت اور ائمہ دین نے اس کا کیا معنی بیان کیا ہے امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں الشھود والشھادۃ الحضور مع المشاھدۃ اما بالبصر او بالبصیرۃ والشھادۃ قول صادر عن علم حصل بمشاھدۃ بصیرۃ او بصر۔۔۔ واما الشھید فقد یقال للشاھد والمشاھد للشئ وکذا قولہ فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید وجئنا بک علی ھؤلاء شھید۔ ترجمہ: شہود اور شہادۃ کا معنی مشاہدہ کے ساتھ حاضر ہونا ہے۔ مشاہدہ آنکھ سے ہو یا بصیرت سے شہادت اس قول کو کہتے ہیں جو آنکھ یا بصیرت کے مشاہدہ سےحاصل ہونے والے علم کی بنا پر صادر ہو، رہا شہید تو وہ گواہ اور شے کا مشاہدہ کرنے والے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں یہی معنی ہے (جس کا ترجمہ ہے) کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔ ( المفردات ص 269، 70) امام رازی فرماتے ہیں شہادت ، مشاہدہ اور شہود کا معنی دیکھنا ہے، جب تم کسی چیز کو دیکھو تو تم کہتے ہو شھدت کذا (میں نے فلاں چیز دیکھی) چونکہ آنکھ کے دیکھنے اور دل کے پہچاننے میں شدید مناسبت ہے، اس دل کی معرفت اور پہچان کو بھی مشاہدہ اور شہود بھی کہا جاتا ہے۔ (تفسیر کبیر ج 4 ص 113، 114) امام قرطبی فرماتے ہیں شہادت کی تین شرطیں ہیں جن کے بغیر وہ مکمل نہیں ہوتی 1: حاضر ہونا 2: جو کچھ دیکھا ہے اسے محفوظ رکھنا 3: گواہی کا ادا کرنا 📘( التذکرہ ص 183) امام ابوالقاسم قشیری فرماتے ہیں ومعنی الشاھد الحاضر فکل ما ھو حاضر قلبک فھو شاھد لک (الرسالہ القشیریہ ص 47) قرآن پاک سے ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ شاہد ہیں اور شاہد کا معنی حاضر ہے جیسے کہ امام قشیری نے فرمایا کہ امام اصفہانی کے مطابق شہادت کا معنی حضور مع المشاہدہ ہے۔ خواہ مشاہدہ سر کی آنکھوں سے ہو یا دل کی بصیرت سے۔ کہنے دیجیے کہ قرآن پاک کی آیات سے ثابت ہوگیا کہ حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ نےحاضروناظر بنایا ہے۔ اس عقیدے کو اپنی نادانی کی بنا پر کوئی شخص نہیں مانتا تو بے شک نہ مانے لیکن اسے شرک قرار دینے کا کوئی قطعا جواز نہیں ہے۔ حضور ﷺ کس کی نسبت سے حاضروناظر ہیں؟ اس سے پہلے مستند تفاسیر کے حوالہ سے بیان کیا جاچکا ہے۔ امام رازی اور امام خازن نے فرمایا کہ آپ قیامت کے دن تمام مخلوق پر گواہ ہوں گے، امام ابوسعود نے فرمایا: جن کی طرف آپ کو بھیجا گیا ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے جو امام رازی نے بیان کیا کیونکہ حدیث پاک میں ہے: ارسلت الی الخلق ۔ ہم تمام مخلوق کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 1167، ج 2) مخالفین کہتے ہیں کہ شاہد اور شہید کے الفاظ دوسرے لوگوں کے لیے بھی وارد ہوئے ہیں کیا آپ انہیں بھی نبی اکرم ﷺ کی طرح حاضروناظر مانیں گے؟ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہر شاہد اپنی شہادت کے دائرہ کار تک حاضروناظر رہتا ہے، نبی اکرم ﷺ تو تمام امت اور تمام مخلوق کے شاہد ہیں، کوئی ایسا شاہد نہیں پیش کیا جاسکتا جس کی شہادت کا دائرہ اتنا وسیع ہو، لہذا نبی اکرم ﷺ کی طرح کسی کو حاضروناظر ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ النبی اولی بالمؤمنین من انفسھم۔ (الاحزاب آیت 6) علامہ آلوسی نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا النبی اولی) ای احق واقرب الیھم (من انفسھم) نبی ان کی جانوں کی نسبت زیادہ حق رکھتے ہیں اور ان کے زیادہ قریب ہیں۔ (روح المعانی ج 21 ص 151) شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اس آیت کا ترجمہ کیا ہے پیغمبر نزدیک تر است بمومناں از ذات ہائے ایشاں۔ (مدارج النبوۃ فارسی ج 1 ص 81) پیغمبر مومنوں کے زیادہ قریب ہیں ان کی ذوات سے بھی۔ دیوبندی مکتب فکر کا پہلا امام قاسم نانوتوی کہتا ہے النبی اولی بالمومنین من انفسھم جس کے معنی یہ ہیں کہ نبی نزدیک ہے مومنوں سے بہ نسبت ان کی جانوں کے یعنی ان کی جانیں ان سے اتنی نزدیک نہیں جتنا نبی ان سے نزدیک ہے۔ اصل معنی اولیٰ کے اقرب ہیں۔ (آب حیات ، ص 73 تحذیرالناس ص 10) اللہ اکبر! عقیدہ حاضروناظر کی کتنی کھلی تائید اور ترجمانی ہے۔ اب بھی اگر کوئی شخص نہ مانے تو ہمارے پاس اس کا کیا علاج ہے؟ کیا یہ قرب صرف صحابہ کرام سے خاص تھا یا قیامت تک آنے والے تمام مومنوں کو شامل ہے؟ اس سلسلےمیں امام بخاری کی ایک روایت ملاحظہ فرمائیں اور فیصلہ خود کریں۔ ما من مومن الا وانا الناس بہ فی الدنیا والاخرۃ ہم دنیا اور آخرت میں دوسرے تمام لوگوں کی نسبت ہرمومن کے زیادہ قریب ہیں۔ (صحیح البخاری ج 2 ص 705، حدیث نمبر 2399)
    1 point
×
×
  • Create New...