Jump to content

لیڈر بورڈ

مشہور مواد

Showing content with the highest reputation on 16/10/2021 in all areas

  1. ★ تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال ★ جـبــرائــیــل عـلیــہ الســـلام کــی جہـنــم کــے حوالــے ســے ایـکـــ روایـتـــــ کـــی تحــقیـــق اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہ ◉◎➻═•━══→﷽←⁩══•━═➻◎◉ آج کل سوشل میڈیا پر ایک تحریر وائرل ہورہی ہے جس کے حوالے سے سوال بھی کیا گیا ہے ایک دوست کی طرف سے کہ اس میں ایک روایت جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف اور نبی ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کی جارہی ہے جہنم کے حوالے سے وہ مکمل روایت جس طرح بیان کی جاتی ہے اگر یہاں نقل کروں تحریر بہت طویل ہو جائے گی لہذا میں اس روایت کا مختصر سے مختصر مفہوم یہاں عرض کر دیتا ہوں مــفہــوم روایـتـــــ مشـہـور ایک بار جبرائیل علیہ سلام نبی کریم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جبرائیل کچھ پریشان ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا جبرائیل کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپ کو غم زدہ دیکھ رہا ہوں؟ جبرائیل نے عرض کی: اے محبوبِ قل، میں اللہ پاک کے حکم سے جہنم کا نظارہ کرکے آیا ہوں اس کو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوئے ہیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جبرائیل مجھے بھی جہنم کے حالات بتاؤ! جبرائیل نے عرض کی: جہنم کے قل سات درجے ہیں، ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا، اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈلیں گے، اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے، چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے، تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے، دوسرے درجے میں اللہ تعالی عیسائیوں کو ڈالیں کے۔ یہ کہہ کر جبرائیل علیہ السلام خاموش ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: جبرائیل آپ خاموش کیوں ہوگئے مجھے بتاؤ کہ پہلے درجے میں کون ہوگا؟ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول پہلے درجے میں اللہ پاک آپ کی امت کے گناہ گاروں کو ڈالیں گے الخ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ مـکمــل تــحــقیـــق حــدیــثــــــ یہ مشہور روایت انہی الفاظ کے ساتھ حدیث و تاریخ کی کسی کتاب میں نہیں البتہ ایک حنفی فقیہ ابو اللیث سمرقندی (أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم السمرقندي (المتوفى: 373 ھ) نے اپنی کتاب تنبیہ الغافلین میں نقل کی ہے امام الذہبی تاريخ الإسلام میں فقیہ ابو اللیث سمر قندی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں وفي كتاب تنبيه الغافلين موضوعات كثيرة یعنی انکی کتاب تنبیہ الغافلین میں بہت ساری موضوع (یعنی من گھڑت روایات ) پائی جاتی ہیں كتاب تاريخ الإسلام 26/583📓 اور انہوں نے اپنی کتاب تنبیہ الغافلین میں بے سند اس کو روایت کیا ہے ملاحظہ ہو وروى يزيد الرقاشي ، عن أنس بن مالك، قال: جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه وسلم في ساعة ما كان يأتيه فيها متغير اللون، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: الخ تنبیہ الغافلین للسمرقندی ص70📒 اس روایت کی باقی سند تو امام سمرقندی نے نقل نہیں کی لیکن جس ایک راوی کا ذکر کردیا یہ ضعیف راوی ہے لہذا اس روایت کا کوئی بھروسا نہیں میری رائے تو یہی ہے کہ اس کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کر کے نہ بیان کیا جائے ❖◉➻════════════════➻◉❖ اس سے ملتے جھلتے الفاظ کی ایک روایت معجم الاوسط٬ شعب الایمان٬ البدایہ والنہایہ٬ وغیرہ میں موجود ہے اصل کتاب سے سکین اس تحریر کے ساتھ اس کا لگا دوں گا مگر عرض یہ ہے کہ وہ روایت بھی ضعیف ہے امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کو ضعیف کہا اس کی سند میں ایک راوی ہے سلام بن سلم ابو عبداللہ الطویل اس کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کے چند اقوال درج ذیل ہیں ★ محمد بن إسماعيل البخاري :- يتكلمون فيه، ومرة: تركوه ★ أحمد بن شعيب النسائي :- متروك، ومرة: ليس بثقة ولا يكتب حديثه ★ أحمد بن حنبل :- روى أحاديث منكرة، منكر الحديث ★ الدارقطني :- ضعيف الحديث ★ يحيى بن معين :- له احاديث منكرة ★ ابن حجر العسقلاني :- متروك الحديث ★ أبو بكر البيهقي :- ضعيف روایـــــت کـــــے حوالــــــہ جات ملاحـــــظہ ہــــوں معجم الاوسط للطبرانی 3/89📕 البدایہ و النہایہ ابن کثیر 20/124📙 شعب الایمان للبیہقی 9/508📒 مجمع الزوائد للہیثمی 10/387📓 جامع الاحادیث للسیوطی 27/106📗 ✧✧✧ـــــــــــــــــ{🌹}ـــــــــــــــــــــ✧✧✧ خــــــــــــلاصــــــــــــــہ کــــــــــــــلام جن الفاظ کے ساتھ روایت مشہور ہے ان الفاظ کے ساتھ کسی معتبر کتاب میں بسند ثابت نہیں تنبیہ الغافلین کتاب کے بارے میں امام جرح و تعدیل شمس الدین الذھبی کا موقف آپ کو پیش کیا ملتے جھلتے الفاظ کی روایت ملتی ہے وہ بھی ضعیف ہے مگر امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد الامام الحافظ إسماعيل بن محمد بن الفضل کا قول اس دوسری والی روایت کے حوالے سے نقل کرتے ہیں قال الحافظ أبو القاسم يعني إسماعيل بن محمد بن الفضل: هذا حديث حسن، وإسناده جيد البدایہ والنہایہ 20/125 طبعه دار اله‍جر📔 اس دوسری والی روایت کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں لوگوں کو جہنم کا خوف دلانے کے لئے اور حضور ﷺ کی شفقت اور اللہ کی رحمت سے آراستہ کرنے کے لیے ❖◉➻════════════════➻◉❖ فقـــــط واللہ ورسولــــــہٗ اعلـــم بـالـصــواب ✍🏻 شــــــــــــــــــــــرف قلــــــــــــــــــم خادم اہلسنت و جماعت محمد عاقب حسین رضوی
    1 point
  2. اکابر و حکیمِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی کی مسئلہ عید میلاد النبی ﷺ پر پوری کتاب ایسا سمجھ لیں کہ یہ کتاب دور حاضر کی دیوبندیت کے لیے منہ مانگی موت ہے اس کتاب میں اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں حکیم الامت دیوبند صاحب میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عید میلاد لکھتے ہیں اور لکھتے ہیں ہم اسے باعث برکت سمجھتے ہیں اور جس مکان میں عید میلاد منائی جائے اس میں برکت ہوتی ہے ۔ (ارشاد العباد فی عید میلاد صفحہ نمبر 4) حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی کہتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وجود سب سے بڑی نعمت ہے یومِ ولادت پیر اور تاریخ ولادت بارہ (12) ربیع الاوّل باعث برکت ہیں اس دن و یوم میلاد سے برکتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ (ارشاد العباد فی عید میلاد صفحہ نمبر 5) حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب کہتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وجود سب سے بڑی نعمت ہے اور تمام نعمتیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صدقے ملی ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اصل ہیں تمام نعمتوں کی ۔ (اِرشادُالعِبَاد فِی عِیدِ المیلاد صفحہ نمبر 5 ، 6) اور مزید بھی اس کتاب میں بہت کچھ موجود ہے پوری کتاب کا پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کرکے مطالعہ کریں تحریر کے ساتھ پی ڈی ایف اٹیچ کر دیا جائے گا 20929014-irshad-ul-ibad-fi-eid-e-milad-ashraf-ali-thanvi.pdf
    1 point
  3. 🏹 شہادت امام حسین علیہ السلام کی نشاندہی🏹 1 : 15124- عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: لَيُقْتَلَنَّ الْحُسَيْنُ، [قَتْلًا] وَإِنِّي لَأَعْرِفُ التُّرْبَةَ الَّتِي يُقْتَلُ فِيهَا، قَرِيبًا مِنَ النَّهْرَيْنِ. ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حسین کو شہید کیا جاۓ گا اور میں اس مٹی کو پہچانتا ہوں جہاں حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا جاۓ گا دو نہروں کے قریب ہے. ✍️حضرت علیؓ بھی جانتے تھے۔ ✍️اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں باقی احادیث کو بھی اس حدیث سے تقویت مل رہی ہے یزیدی ڈاکٹرز کے پاس جائیں👨‍⚕️ ✍️دعا ہے اللہ جلدی یزیدیوں کا صفایا فرما دے آمین۔🤲 رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ. تخریج: ✍️ یہ حدیث درج ذیل کتب میں بھی موجود ہے۔✍️ 📖ابن أبي شيبة في مصنفه باب من كره الخروج في الفتنة وتعوذ عنها ~ حديث رقم 36699 📖ابن أبي شيبة في مصنفه باب ما ذكر من حديث الأمراء والدخول عليهم ~ حديث رقم 30097۔ ( محمد عمران علی حیدری) 2 :وَفِي "مُسْنَدِ أَبِي يَعْلَى": ثنا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، ثنا الْوَلِيدُ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لا يَزَالُ أَمْرُ أُمَّتِي قَائِمًا بِالْقِسْطِ، حَتَّى يَكُونَ أَوَّلُ مَنْ يَثْلَمُهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ يُقَالَ لَهُ: يَزِيدُ 📖إسناده مرسل. وانظر المجمع "5/ 241" ترجمہ: میری امت کا امر عدل کے ساتھ قائم رہے گا یہاں تک کہ پہلا شخص جو اسے تباہ کرے گا وہ بنی امیہ میں سے ہو گا جس کو یزید کہا جائیگا۔ ✍️یہ حدیث سند کے لحاظ سے سے مرسل ہے ہمارے ہاں قابل حجت ہے۔ ✍️ اور اسکا متن بالکل ٹھیک ہے۔ یزید ہی پہلا لعنتی انسان تھا جس نے اپنی من مانی کی اور اہل بیت کی بے ادبی اور شعار اسلام کی ڈھایا ہے۔واقعہ حرہ قابل غور ہے۔ ✍️جو درج نہی نہی کیا جا سکتا، آپ اس واقعہ کو پڑھ لیں ایک بار۔بس۔ 3 : ۱۲۴٤۰)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ مَلَکَ الْمَطَرِ اسْتَأْذَنَ رَبَّہُ أَنْ یَأْتِیَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَذِنَ لَہُ فَقَالَ لِأُمِّ سَلَمَۃَ: امْلِکِی عَلَیْنَا الْبَابَ لَا یَدْخُلْ عَلَیْنَا أَحَدٌ قَالَ وَجَائَ الْحُسَیْنُ لِیَدْخُلَ فَمَنَعَتْہُ فَوَثَبَ فَدَخَلَ فَجَعَلَ یَقْعُدُ عَلٰی ظَہَرِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَلٰی مَنْکِبِہِ وَعَلٰی عَاتِقِہِ قَالَ فَقَالَ الْمَلَکُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتُحِبُّہُ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ أَمَا إِنَّ أُمَّتَکَ سَتَقْتُلُہُ وَإِنْ شِئْتَ أَرَیْتُکَ الْمَکَانَ الَّذِییُقْتَلُ فِیہِ فَضَرَبَ بِیَدِہِ فَجَائَ بِطِینَۃٍ حَمْرَاء َ فَأَخَذَتْہَا أُمُّ سَلَمَۃَ فَصَرَّتْہَا فِی خِمَارِہَا قَالَ قَالَ ثَابِتٌ بَلَغَنَا أَنَّہَا کَرْبَلَائُ. 📖اسے احمد (المسند:242/1 ح 2165 ، 282/1 ح 2553 ۔۔ 📖کتاب فضائل الصحابۃ: 779/2 ح 1381 ) 📖طبرانی(الکبیر: 110/3 ح 2822) حاکم (397/4، 398 ح8201) , بیہقی (دلائل النبوۃ :471/6) اور ابن عساکر (تاریخ دمشق : 228/14) نے حماد بن سلمۃ عن عمار بن ابی عمار عن ابن عباسؓ کی سند سے روایت کیا ہے۔ اسے حاکمؒ و ذہبیؒ دونوں نے صحیح مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔ 📖حافظ ابن کثیرؒ نے کہا: اسے (کتب سبعہ میں سے)صرف احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند قوی ہے (البدایۃ و النھایۃ: 202/8 ) 📖شیخ وصی اللہ بن عباس المدنی المکی فرماتے ہیں : اس کی سند صحیح ہے۔ (تحقیق فضائل الصحابۃ: 779/2) ترجمہ: سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے دوپہر کے وقت خواب میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہیں اور آپ کے ہاتھ میں ایک شیشی ہے جس میں خون تھا۔میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، یہ کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، جسے میں آج جمع کر رہا ہوں۔ ہم نے اس دن کا حساب لگایا تو وہ وہی دن تھا، جس دن سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہوئے تھے۔ (محمد عمران علی حیدری) 3 : نبی کریم ﷺ سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت پر سخت غمگین تھے۔ ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حسین بن علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) موجود تھے اورآپ رو رہے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے جبریل (علیہ السلام) نے بتایا کہ میری امت اسے میرے بعد قتل کرے گی۔ (مشخیۃ ابراہیم بن طہمان : ۳ و سندہ حسن و من طریق ابن طہمان رواہ ابن عساکر فی تاریخ دمشق ۱۹۲/۱۴، ولہ طریق آخر عندالحاکم ۳۹۸/۴ ح ۵۲۰۲ و صححہ علیٰ شرط الشیخین و وافقہ الذہبی) 4 : شہر بن حوشب تابعی(صدوق حسن الحدیث ، و ثقہ الجمہور) سے روایت ہے کہ جب (سیدنا) حسین بن علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کی شہادت کی خبر عراق سے آئی تو ام سلمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے فرمایا: عراقیوں پر لعنت ہو، عراقیوں نے آپ کو قتل کیا ہے ،اللہ انہیں قتل کرے، انہوں نے آپ سے دھوکا کیا اور آپ کو ذلیل کیا، اللہ انہیں ذلیل کرے ۔ (فضائل الصحابۃ، زوائد القطیعی جلد2 صفحہ782 حدیث 1392. مسند احمد، جلد6 صفحہ 298 حدیث550 و سندہ حسن) 5: یزال أمر أمتی قائما بالقسط حتی یثلمہ رجل من بنی أمیۃ یقال لہ یزید۔ ابن کثیر: البدایہ والنہایہ. جلد8 صفحہ231 ’’میری امت کا امر (حکومت) عدل کے ساتھ قائم رہے گا یہاں تک کہ پہلا شخص جو اسے تباہ کرے گا وہ بنی امیہ میں سے ہو گا جس کو یزید کہا جائیگا۔‘‘ 6: (۱۲۴۳۲)۔ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِیُّ، قَالَ: بَعَثَنَا یَزِیدُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ إِلَی ابْنِ الزُّبَیْرِ فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ دَخَلْتُ عَلٰی فُلَانٍ نَسِیَ زِیَادٌ اسْمَہُ، فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَنَعُوا مَا صَنَعُوا فَمَا تَرٰی؟ فَقَالَ: أَوْصَانِی خَلِیلِی أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ((إِنْ أَدْرَکْتَ شَیْئًا مِنْ ہٰذِہِ الْفِتَنِ فَاعْمَدْ إِلٰی أُحُدٍ،فَاکْسِرْ بِہِ حَدَّ سَیْفِکَ، ثُمَّ اقْعُدْ فِی بَیْتِکَ، قَالَ: فَإِنْ دَخَلَ عَلَیْکَ أَحَدٌ إِلَی الْبَیْتِ فَقُمْ إِلَی الْمَخْدَعِ، فَإِنْ دَخَلَ عَلَیْکَ الْمَخْدَعَ فَاجْثُ عَلٰی رُکْبَتَیْکَ، وَقُلْ بُؤْ بِإِثْمِی وَإِثْمِکَ فَتَکُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ، وَذٰلِکَ جَزَائُ الظَّالِمِینَ، فَقَدْ کَسَرْتُ حَدَّ سَیْفِیْ وَقَعَدْتُ فِیْ بَیْتِیْ))۔ (مسند احمد: ۱۸۱۴۵) وسندصحیح ترجمہ: ابو ا شعت صنعانی سے مروی ہے ، انھوں نے کہا: یزید بن معاویہ نے ہمیں سیدنا ابن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مقابلہ کے لیے بھیجا، میں مدینہ منورہ پہنچا تو فلاں کے پاس حاضرہوا، زیاد نے اس کا نام بیان کیا تھا، اس نے کہا: لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، آپ سب دیکھ رہے ہیں؟ ان حالات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا: میرے خلیل ابو القاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے وصیت کی تھی کہ اگر تم ان فتنوں میں سے کسی فتنہ کو دیکھو تو اپنی تلوار کی دھار توڑ کر گھر کے اندر بیٹھ رہنا، اگر کوئی فتنہ باز شخص تمہارے گھر کے اندر گھس آئے تو تم کسی کوٹھڑی کے اندر چھپ جانا اور اگر کوئی تمہاری کو ٹھڑی میں آجائے تو تم اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جانا اور کہنا کہ تو میرے قتل کے گناہ اور اپنے گناہوں کے ساتھ واپس جا، تیرا نجام جہنم ہے اور ظالموں کا یہی بدلہ ہے، لہٰذا اے بھائی! میں تو اپنی تلوار کی دھار توڑ کر گھر کے اندر بیٹھا ہوں. (محمد عمران علی حیدری) ✍️آج لوگ کہتے ہیں یزید نے کچھ بھی نہی کیا تھا. میں مزید کیا وضاحت کروں خود ہی ساری پوسٹ پرھ لیں سمجھ لگ جاۓ گی۔۔۔إن شاءالله۔ 7 :۔ (۱۲۴۳۷)۔ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ الضَّحَّاکَ بْنَ قَیْسٍ، کَتَبَ إِلٰی قَیْسِ بْنِ الْہَیْثَمِ حِینَ مَاتَ یَزِیدُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ: سَلَامٌ عَلَیْکَ أَمَّا بَعْدُ! فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّ بَیْنَیَدَیِ السَّاعَۃِ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، فِتَنًا کَقِطَعِ الدُّخَانِ، یَمُوتُ فِیہَا قَلْبُ الرَّجُلِ، کَمَا یَمُوتُ بَدَنُہُ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَیُمْسِی کَافِرًا، وَیُمْسِی مُؤْمِنًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا، یَبِیعُ أَقْوَامٌ خَلَاقَہُمْ وَدِینَہُمْ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیَا۔)) وَإِنَّ یَزِیدَ بْنَ مُعَاوِیَۃَ قَدْ مَاتَ، وَأَنْتُمْ إِخْوَانُنَا وَأَشِقَّاؤُنَا، فَلَا تَسْبِقُونَا حَتّٰی نَخْتَارَ لِأَنْفُسِنَا۔ (مسند احمد: ۲۴۲۹۰ صحیح) ترجمہ: جب یزید بن معاویہ کی وفات ہوئی توضحاک بن قیس نے قیس بن ہیثم کو خط لکھا، اس کا مضمون یہ تھا، تم پرسلامتی ہو، أَمَّا بَعْدُ! میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت سے پہلے اندھیری رات کے ٹکڑوں جیسے شدید اور خوفناک فتنے بپا ہوں گے اور کچھ فتنے دھوئیں کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے، تب لوگوں کے دل یوں مردہ ہوجائیں گے، جیسے بدن مردہ ہو جاتے ہیں،ایک آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اور کفر کی حالت میں شام کرے گا اور ایک آدمی شام کو مومن اور صبح کو کافر ہوگا اور لوگ اپنے دین و اخلاق کو دنیا کے بدلے فروخت کرنے لگیں گے۔ یزید بن معاویہ فوت ہو چکا ہے اور تم ہمارے بھائی ہو، تم کسی معاملہ میں ہم سے سبقت نہ کرنا تاآنکہ ہم خود کسی بات کو اپنے لیے اختیار نہ کر لیں۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اس حدیث میں بات ہے نوٹ کرنے والی عقل والوں کے لیے۔ سب امثال بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ یزید فوت ہوگیا🧐🤔۔ 🤷‍♂️✍️خط بھی یزید کے مرنے کے بعد لکھا گیا تھا۔ ✍️وجہ کیا تھا ایسا کیوں کرنا پڑا اسکا مطلب صاف ہے۔ ✍️یزید کی اولاد آج بھی یزید کو بے گناہ ثابت کرنا چاھتے ہیں۔ ✍️🤲بس ایک دعا ہےہم حسینی ہیں ہمارا حشر بھی انہی کے ساتھ ہو بس۔۔ آمین🤲۔ 8: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، - وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ - عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ حِينَ كَانَ مِنْ أَمْرِ الْحَرَّةِ مَا كَانَ زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ فَقَالَ اطْرَحُوا لأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وِسَادَةً فَقَالَ إِنِّي لَمْ آتِكَ لأَجْلِسَ أَتَيْتُكَ لأُحَدِّثَكَ حَدِيثًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لاَ حُجَّةَ لَهُ وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً۔ ( صحیح مسلم جلد2حدیث4793) ترجمہ: نافع سے روایت ہے عبداﷲ بن عمر رضی ‌اللہ ‌عنہما عبداﷲ بن مطیع کے پاس آئے جب حرہ کا واقعہ ہوا یزید بن معاویہ کے زمانہ میں اس نے مدینہ منورہ پر لشکر بھیجا اور مدینہ والے حرہ میں جو ایک مقام ہے مدینہ سے ملا ہوا قتل ہوئے اس طرح کے ظلم مدینہ والوں پر ہوئے۔ عبداﷲ بن مطیع نے کہا ابو عبدالرحمن رضی ‌اللہ ‌عنہ ( یہ کنیت ہے عبداﷲ بن عمر رضی ‌اللہ ‌عنہما کی ) کے لیے تو شک بچھاؤ۔ انہوں نے کہا میں اس لیے نہیں آیا کہ بیٹھوں بلکہ ایک حدیث تجھ کو سنانے کے لیے آیا ہوں جو میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے، آپ فرماتے تھے جو شخص اپنا ہاتھ نکال لے اطاعت سے وہ قیامت کے دن خدا سے ملے گا اور کوئی دلیل اس کے پاس نہ ہوگی اور جو شخص مرجاوے اور کسی سے اس نے بیعت نہ کی ہو تو اس کی موت جاہلیت کی سی ہوگی۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️کس نے لشکر بھیجا کدھر بھیجا نقصان کس کو ہوا؟ ✍️آج لوگ کہتے نظر آتے ہیں دو شہزادوں کی جنگ تھی لعنت تم جاہلو دشمن اہل بیت لوگ ہیں یہ کہنے والے ایسا۔ ✍️ کہاں شہزادہ جنت کہاں لخت جگر بتول سلام علیہا، کہاں جگر گوشہ ابو ترابؓ۔ ✍️اور کہاں یزید رزیل لعنتی انسان۔ جس نے صحابہ پر ظلم کیا اور اہل بیت پر بھی اور مدینہ پر بھی 😭😭😭😭ظلم۔ ✍️ سلیمان بن محمد بن عمر بجرمی المصری الشافعی.✍️ سلیمان بن محمد بن عمر بجیرمی مصری شافعی اپنی کتاب تحفة الحبيب على شرح الخطيب میں لکھتے ہیں: أَنَّ لِلْإِمَامِ أَحْمَدَ قَوْلًا بِلَعْنِ يَزِيدَ تَلْوِيحًا وَتَصْرِيحًا وَكَذَا لِلْإِمَامِ مَالِكٍ وَكَذَا لِأَبِي حَنِيفَةَ وَلَنَا قَوْلٌ بِذَلِكَ فِي مَذْهَبِ إمَامِنَا الشَّافِعِيِّ وَكَانَ يَقُولُ بِذَلِكَ الْأُسْتَاذُ الْبَكْرِيُّ. وَمِنْ كَلَامِ بَعْضِ أَتْبَاعِهِ فِي حَقِّ يَزِيدَ مَا لَفْظُهُ زَادَهُ اللَّهُ خِزْيًا وَمَنَعَهُ وَفِي أَسْفَلِ سِجِّيْنَ وَضَعَهُ وَفِي شَرْحِ عَقَائِدِ السَّعْدِ يَجُوزُ لَعْنُ يَزِيدَ. یزید پر اشارتاً اور واضح طور پر لعنت کرنے کے متعلق امام احمد کے اقوال موجود ہیں اور یہی صورتحال امام مالک اور ابو حنیفہ کی بھی ہے اور ہمارے امام شافعی کا مذہب بھی یہی ہے اور البکری کا قول بھی یہی ہے۔ البکری کے بعض پروکاروں نے کہا ہے کہ اللہ یزید اور اس کے لشکر کی رسوائی میں اضافہ کرے اور اسے جہنم کے نچلے ترین درجہ پر رکھے۔ ( البجيرمي، تحفة الحبيب على شرح الخطيب، 12: 369، بيروت: دار الفكر) ( طالب دعا : محمد عمران علی حیدری) 19.08.2021
    1 point
  4. تحقیق مسئلہ: اولیا ءکرام کا پانی پر چلنا مرزا محمد علی جہلمی صاحب کا اولیاء کرام کی کرامات پر ٹھٹھہ بازی تحریر:خادم اہل سنت و جماعت فیصل خان رضوی بسم اللہ الرحمن الرحیم اولیاء کرام کی عظمت و شان کی وجہ تقوی اورشریعت پر پابندی ہوتی ہے۔اہل سنت و جماعت اللہ کا ولیوں سے محبت ان کی کرامات کی وجہ سے نہیں بلکہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ شریعت پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ہے۔اولیاء سے محبت صرف اللہ او ر اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہوتی ہے ۔اور اسی کا شریعت مطاہرہ نے درس بھی دیا۔ Ø ایک دوست نے جناب مرزا محمد علی صاحب کی ایک ویڈیو بھیجی ،جس میں جناب کے دیگر عقلی دلائل کے ساتھ جب اولیاء کرام کے بارے میں نہایت عامیانہ لفظ "بابے "سنا تو بہت حیرانگی ہوئی اور جب وہ اپنی اس تقریر میں اپنے جذبات میں بہتے ہوئے ایک کرکٹ کے کھلاڑی کو 6 چھکے لگانے پر کرامات کا سرٹیفیکیٹ دیا تو سوچا کہ کیا جناب مرزا صاحب کے چاہنے والے ایسی باتوں پر یقین کرتے ہیں اور وہ پڑھے لکھے ہونے کی باوجود کسی کھلاڑی کی کرامت مان سکتے ہیں؟ بہرحال ایسی باتیں ہمیشہ اپنے متبعین یا چاہنے والوں کو اپنے ساتھ لگائے رکھنے کی لیے جناب مرزا محمد علی صاحب کرتے رہتے ہیں،بلکہ ان کی ایک تقریر میں جناب مرزا صاحب تو یہ بھی کہتے سنے گئے کہ" سائنسدانوں نے تو موبائل بنا دیا ہے اگر تہمارے بابے میں طاقت ہے تو اسے کہو کہ ایک موبائل ہی بنا کر دکھا دیں۔" جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب کو شاید یہ نہیں معلوم کہ ایک طرف جہاں ان کی دلیل میں نہ استدلالی وزن ہے اور نہ عقلی ۔ بالفرض جناب کی اس عقلی دلیل کو معتبر مان لیا جائے تو اسی طرح کے اعتراض تو دہریے خدا کی ذات پر کرتے ہیں۔آپ ان کی کتابیں خود پڑھ کر دیکھ لیں۔دہریے جب بھی خدا کی ذات پر اعتراض کرتے ہیں تو کچھ اسی قسم کا اعتراض کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔بہرحال جناب محمد علی مرزا صاحب کے اعتراضات میں ایک نکتہ کی طرف کچھ تحریر کرنے کی جسارت ضرور کرتے ہیں تاکہ عوام الناس کو ان دلائل کی حقیقت اور اصلیت واضح ہوسکے۔ Ø جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب اور ان کے چند شاگردوں کی تحریروں اور تقریروں سے یہ بات سامنے واضح ہوتی ہے کہ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ولی کی شان اس کی کرامت کے ساتھ ہوتی ہے،اوروہ یہ اعتراض ہم اہل سنت پر اولیاء پر اعتراضات کے ضمن میں کرتے ہیں۔مگر اس بابت کچھ عرض یہ ہے کہ اہل سنت و جماعت کا اس معاملہ پر موقف واضح ہے کہ اولیاء کی عظمت و شان ان کا شریعت کی پابندی کی وجہ سے ہی ہوتی ہے نہ کہ ان کی کرامات کی وجہ سے ان کی شان کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔مگر اس سلسلہ میں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ایک ولی اللہ سے اگر شریعت کی پابندی کی وجہ سے کوئی کرامت ظاہر ہوں تو اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ عوام الناس کو یہ نکتہ سمجھنا چاہیے کہ اہل سنت وجماعت اولیاء کی عزت و قدر ان کی کرامات کی وجہ سے نہیں بلکہ دین و شریعت کی پابندی کی وجہ سے کرتے ہیں۔اس نکتہ کو شیخ الصوفیاء حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ بھی بیان کرتے ہیں۔ · محدث علامہ ذہبی اپنی کتاب میں حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ کا قول نقل کرتے ہیں : وَقَالَ: للهِ خَلْقٌ كَثِيْرٌ يَمْشُوْنَ عَلَى المَاءِ، لاَ قِيْمَةَ لَهُمْ عِنْدَ الله، وَلَوْ نَظَرْتُم إِلَى مَنْ أُعْطِيَ مِنَ الكَرَامَاتِ حَتَّى يَطِيْرَ، فَلاَ تَغْتَرُّوا بِهِ حَتَّى تَرَوا كَيْفَ هُوَ عِنْدَ الأَمْرِ وَالنَّهْي، وَحِفْظِ الحُدُوْدِ وَالشَّرْعِ۔ سير أعلام النبلاء13/88 ترجمہ : حضرت با یزید بسطامی علیہ الرحمہ کا فرمان ہے کہ: اللہ تعالیٰ کی بہت ساری مخلوق ایسی ہے جو پانی پر چلتی ہے ، اور اس کے باوجود اللہ کے نزدیک اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ، اور تم کسی ایسےشخص کو دیکھو جسےمتعدد کرامات حاصل ہیں ،حتی کہ وہ ہوا میں اڑتا ہے تو اس کی کرامات سے ہرگز دھوکا نہ کھانا ۔ اس وقت تک جب تک یہ نہ جان لو کہ وہ امر ونواہی اور شریعت کا پابند ہے "۔ حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ کے اس قول کو کچھ اضافہ کے ساتھ محدث ابونعیم نے اپن کتاب حلية الأولياء10/39 پر سنداً نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ قَالَ: سَمِعْتُ مَنْصُورَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا عِمْرَانَ مُوسَى يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ الْبِسْطَامِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: قَالَ أَبُو يَزِيدَ:۔۔۔ تو حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ کے اس قول سے واضح ہوا کسی ولی اللہ نے اگر شریعت کی پابندی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر ثابت ہو تو اس کی کرامات پر اعتماد ہوتا ہے ۔ اس حوالہ سے یہ نکتہ تو واضح ہوا کہ اہل سنت کے نزدیک شرف و منزلت کا دارومدار شریعت کی پابندی ہے ۔اس لیے جو لوگ صوفیاء کرام کی کرامت پر اعتراضات کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی کرامات پر اعتراضات کریں گے تو ان کی شرف ومنزلت یا ان کی بزرگی پر اعتراض ثابت ہوجائے گا ،ایسا بلکل غلط اور باطل ہے۔اس لیے کرامات سے انکار کرنے سے یہ لازم نہیں کہ اس ولی اللہ کی شان میں کوئی حرف آئے گا۔اس کے برعکس اہل سنت و جماعت اولیاء صالحین کی شریعت کی پابندی اور اللہ کے نیک بندے ہونے کی وجہ سے اگر کوئی کرامات ظاہر ہو تو اس کا انکار بھی نہیں کرتے۔اولیاء صالحین کی کرامات کے منکر معتزلہ ہیں اور صوفیاء کرام کی کرامات پر یقین رکھنااہل سنت و جماعت کے عقائد میں سے ہے۔ · جب ان لوگوں کے پاس دلائل نہیں ہوتے تو ایک بات الزامی طور پر کہتے ہیں ہیں کہ صوفیاء کرام کی کرامت نہ ماننے پر کون سے شریعت کے قانون کا انکار لازم آتا ہے؟ان لوگوں سے گذارش ہے کہ اگر وہ اپنا مطالعہ وسیع کر لیں تو ان کو یہ معلوم ہوگا کہ اولیاء کرام کی کرامات کا اقرار کرنا عقائد اہل سنت کے قبیل سے ہے ۔اس پر شرعی حکم اگر کسی مفتی صاحب ہی سے پوچھ لیں تو بہتر ہوگا۔ جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب سے جب اولیاء کرام کی شان کے خلاف کوئی دلیل نہ ملی تو اولیاء کرام پر اعتراض کرنے کے لیے عقلی دلیل پیش کی کہ اگر کوئی ولی پانی پر چل سکتا ہے تو آج کل کوئی ایسا شخص ہے جو پانی پر چل کر دکھا سکے۔ جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب کی اس بات کا مقصد یہ عوام الناس کے ذہن میں یہ نکتہ راسخ کر دیا جائے کہ کیونکہ آج کوئی ولی اگر پانی پر چل نہیں سکتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی تمام کرامات جو کتب میں موجود ہیں وہ جھوٹی ہیں۔اور اگر ان اولیاء کرام کی کرامات جھوٹی ثابت ہوئیں تو ان کی شان و منزلت پر یقین کرنا بھی صحیح نہیں۔ مرزا محمد علی صاحب کی خدمت میں گذارش ہے کہ آپ کی دلیل عقلی و نقلی طور پر غلط ہے ،وہ اس لیے کہ 1-موجودہ کسی نیک شخص اور متقدمین اولیاء کا تقابل میں قیاس مع الفارق ہے،کیونکہ اہل سنت و جماعت نے یہ موقف واضح کیا ہے کہ ولی اللہ کے لیے کرامت کا ظہور ضرور ی نہیں،اس پر بے شمار عقائد کی کتب میں تصریحات موجود ہیں۔ 2-ولی اللہ کے لیے یہ بھی شرط نہیں کہ جب کوئی اعتراض کرے تو وہ اس کرامات کو ظہور پذیر کرنے کا پابند بھی ہو۔ 3-امت کے ولیوں میں صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین کا بھی شمار ہوتا ہے،ان صحابہ کرام سے ظہور پذیر کرامات کا [جو کہ صحاح ستہ اور دیگر کتب احادیث میں مروی ہیں]اگر کوئی اس دلیل کے ساتھ رد کرے کہ ہم ان جیل القدر شخصیات کی کرامات کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ اگر ایسی کرامت ہوسکتی ہے تو پھر آج کا کوئی ولی ہمارے سامنے ایسی کرامات کا ظہور کر کے دکھائے۔ شاید مرزا محمد علی صاحب کو قران مجید کی ان آیات کا بغور مطالعہ کیا ہو جس میں بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام سے خدا کو ماننے کی شرائط رکھیں تھیں۔مرزا محمد علی جہلمی صاحب کے ان استدلال پر اتنی بات ہی بہت ہے کیونکہ قارئین کرام عقل بھی رکھتے ہیں اور شعور بھی۔ 4-جناب ایسے استدلال سے تو آپ کو صحیحین اور صحاح ستہ کی بے شمار احادیث کو غلط اور جھوٹ کہنا پڑجائے گا کیونکہ کثیر روایات میں صحابہ کرام اور تابعین و تبع تبعین کی کرامات ثابت ہیں۔ 5- اگر ان حادث صحیحہ کی کرامات کو آپ یہ کہہ کر تسلیم کرتے ہیں کہ ہم صرف اُن کرامات کو مناتے ہیں جو صحیح روایات میں منقول و ثابت ہے تو جوابا ًعرض ہے کہ پھر تو آپ کی وہ عقلی دلیل[کہ اگر پانی پر چلنا یا ہوا میں اڑنا کسی ولی سے ہو سکتا ہے تو کوئی ہمارے سامنے کر دکھائے]بھی ہبا منشور ہوجاتی ہے ،کیونکہ آپ نے کرامات کو جانچنے کا طریقہ یہ رکھا ہے کہ اگر کوئی آج کل ایسی ہی کرامت کر کے دکھا دے تو آپ اس کو مان لیں گے۔جناب مرزا صاحب،پھر تو صحابہ کرام کی ہر کرامت کو آپ کو اس وقت ماننا چاہیے جب ایسی کرامت آج کوئی آپ کے سامنے ظہور پذیر کرسکے۔ اب جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب خود فیصلہ کریں کہ کون سی دلیل معتبر ہے اور کون سی قابل رد۔کیونکہ آپ کے اصولوں کے مطابق اگر آپ کے سامنےظہور پذیر کرامات کو دلیل لیا جائے تو پھر کوئی بھی کرامت کیا ثابت ہو سکتی ہے؟اگر احادیث و مروایات صحیحہ کی کرامات آپ کو قبول ہیں تو دیگر اولیاء کرام کی کرامات پر انکار کیوں؟اس کا فیصلہ آپ کے چاہنے والے خود کریں تو بہتر ہوگا۔ موصوف محمد علی مرزا جہلمی صاحب کی ہر دلیل ا و رقیاس ان کے اپنے ہی خلاف جاتا ہے۔ اولیاء کرام کی کرامات تو اس تواتر سے ثابت ہیں کہ اس کا انکار کوئی ضدی یا ہٹ دھرم شخص ہی کرسکتا ہے کوئی عقل و شعور رکھنے والا ایسی بات نہیں کرسکتا۔ان کرامات کو تواتر کے ساتھ نہ صرف صوفیاء نے اپنی کتب میں بیان کیا ہے بلکہ محدثین کرام نے اولیاء کرام کی کرامات پر کتب لکھیں ہیں جن میں محدث ابن خلال اور محدث لالکائی علیہ الرحمہ کی کرامات اولیاء مشہور و معروف کتب ہیں۔ اس مقام پر مناسب ہے کہ اس امت کے اولیاء میں سے ایک ولی اللہ حضرت ابو مسلم الخولانی علیہ الرحمہ کی کرامت کا بیان کیا جائے کہ ان سے پانی پر چلنا معتبر کتب و اسانید سے محدثین کرام نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔ حضرت ابو مسلم الخولانی کا پانی پر چلنا 1. امام عبداللہ سے مروی امام احمد بن حنبل نے اپنی کتاب میں حضرت ابو مسلم الخولانی کا پانی پر چلنے کا واقعہ صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، أَوْ غَيْرِهِ أَنَّ أَبَا مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيَّ، مَرَّ بِدِجْلَةَ وَهِيَ تَرْمِي بِالْخَشَبِ مِنْ مَدِّهَا فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: «هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ مَتَاعِكُمْ شَيْئًا فَتَدْعُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ»۔(الزهد أحمد بن محمد بن حنبل 1/310،رقم:2253) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ 2. محدث ابو نعیم اسی روایت کو سند سے بیان کرتے ہیں۔ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ مَالِكٍ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، ثنا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، أَوْ غَيْرِهِ، أَنَّ أَبَا مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيَّ، مَرَّ بِدِجْلَةَ وَهِيَ تَرْمِي بِالْخَشَبِ مِنْ مَدِّهَا، فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ مَتَاعِكُمْ شَيْئًا فَنَدْعُو اللهَ؟۔( حلية الأولياء وطبقات الأصفياء5/120) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ 3. محدث لالکائی روایت نقل کرتے ہیں۔ أَخْبَرَنَا عَلِيٌّ، أنا الْحُسَيْنُ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: ثنا أَبُو مُوسَى هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: ثنا أَبُو النَّضْرِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ: انْتَهَى أَبُو مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ إِلَى دِجْلَةَ وَهِيَ تَرْمِي بِالْخَشَبِ مِنْ مَدِّهَا فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ شَيْئًا فَنَدْعُو اللَّهَ تَعَالَى؟ (كرامات الأولياء للالكائي: ص188،رقم149) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ 4. امام ابن الدنیا اس روایت کو اپنی سندسے بیان کرتے ہیں۔ حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ: " انْتَهَى أَبُو مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ إِلَى دِجْلَةَ وَهِيَ تَرْمِي بِالْخَشَبِ مِنْ مَدِّهَا، فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ شَيْئًا؟ فَتَدْعُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ "۔ (مجابو الدعوة1/68،رقم86) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ 5. امام بیھقی اپنی کتاب میں روایت نقل کرکے تحریر کرتے ہیں۔ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ، أَنْبَأَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّمُرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ السَّرَّاجُ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، أَنَّ أَبَا مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيَّ جَاءَ إِلَى الدِّجْلَةِ وَهِيَ تَرْمِي الْخَشَبَ مِنْ مَدِّهَا، فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ وَالْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، وَقَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ مَتَاعِكُمْ شَيْئًا فَنَدْعُوَ اللهَ. هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ۔ (دلائل النبوة6/54) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔امام بیھقی نے فرمایا کہ اس کی اسناد صحیح ہیں۔ صوفیاء پر سب سے زیادہ نقل کرنے والے محدث ابن الجوزی کو جب اپنی تحریر کے بارے میں احساس ہوا تو انہوں نے اپنے موقف سے رجوع کرتے ہوئے صوفیاء کرام کی کرامات کا اقرار بھی کیا اور اسے بیان بھی کیا اورصوفیاء کے حالات پر ایک تفصیلی کتاب صفوۃ الصفوۃ بھی لکھی۔ 6. محدث ابن الجوزی حضرت ابو مسلم الخولانی کے بارے میں لکھتے ہیں۔ سليمان بن المغيرة قال: جاء مسلم بن يسار إلى دجلة وهي تقذف بالزبد، فمشى على الماء ثم التفت إلى أصحابه فقال: هل تفقدون شيئاً؟. (صفة الصفوة 2/142) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ کیا تم اپنے سامان کے بارے میں فکر مند ہو۔ 7. امام نووی جنہوں نے مسلم شریف کی شرح لکھی جو شرح نووی کے نام سے مشہور و معروف ہے،انہوں نے اپنی کتاب میں بھی حضرت ابو مسلم الخولانی کی کرامت کو بیان کر کے اس کو تسلیم کیا ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں۔ ومن نفائس كراماته ما رواه الامام أحمد بن حنبل في كتاب الزهد له أن أبا مسلم الخولاني مر بدجلة وهي ترمي الخشب من برها فمشي على الماء ثم التفت إلى الصحابة فقال هل تفقدون من متاعكم شيئا فتدعوا الله عز وجل. (بستان العارفين1/71) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ مذکورہ بالا تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت ابو مسلم الخولانی سے یہ کرامت صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے اور محدثین کرام نے اس کرامت کو اپنی کتب میں بیان کر کے کرامت پر دلیل بھی پیش کی ہے۔ محدثین کرام کی نظر میں - اولیاء کا پانی پر چلنا صحابہ کرام و اولیاء امت سےاسانید صحیحہ سے ایسی کرامات ثابت ہی جس میں دریا کا پھٹنا،ان کا ہٹنا اور پانی پر چلنا۔دریا کا پھٹنا اور دریا کا راستہ دینا تو مرویات صحیحہ میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت العلاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔اس کے بارے میں تفصیل کے ساتھ کتب احادیث میں روایات موجود ہیں۔ محدث علامہ سبکی کی تحقیق: · محدث علامہ سبکی علیہ الرحمہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔ النَّوْع الثَّالِث انفلاق الْبَحْر وجفافه والمشى على المَاء وكل ذَلِك كثير وَقد اتّفق مثله لشيخ الْإِسْلَام وَسيد الْمُتَأَخِّرين تقى الدّين بن دَقِيق العَبْد۔ (طبقات الشافعية الكبرى2/339) ترجمہ: دریا کا پھٹ جانا،دریا کے پانی کا کم ہوجانا اور پانی پر چلنا ،ایسی کرامات بھی لاتعداد ہیں۔شیخ الاسلام سید المتاخرین حضرت تقی الدین دقیق العید سے بھی ایسی کرامات کا ظہور ہوا ہے۔ قارئین کرام کو یہ بخوبی علم ہوگا کہ علامہ سبکی ایک جلیل القدر شافعی محدث تھے،جنہوں نے ایسی کرامات کے ظہور کا نہ صرف اقرار کیا بلکہ محدث ابن دقیق العید جو کہ علامہ ذہبی کے شیخ تھےان سے بھی ایسی کرامات کے ظہور کا لکھا ہے۔ اب ہم جناب محمد علی مرزا جہلمی صاحب سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ جناب آپ تو اہل سنت و جماعت کے اکابرین کا تمسخر اڑاتے ہیں کہ" دیکھو جی ان کی کتب میں لکھا ہے کہ فلاں ولی پانی پر چلتے تھے"،ی"ہ دیکھو جی ان کے بابے"۔ان جیسے الفاظ سے جو آپ نے اولیاء امت کا ٹھٹہ اڑایا،اب آپ کا ان محدثین کرام کے بارے میں کیا رائے ہے؟پانی پر چلنے والی کرامت کا اقرار ایک عظم محدث علامہ سبکی نے کی اور اس کا ثبوت محدث ابن دقیق العید سے دیا۔ابن دونوں جیل القدر محدثین کرام کا تمسخر بھی اسی طرح اڑائیں گے یا پھر علمی روش کو اپناتے ہوئے اپنے موقف پر کوئی نظر ثانی بھی کریں گےیا نہیں؟ جناب محمد علی مرزا صاحب نے اولیا امت کی ایسی کرامات کو نقل کرنے پر نہ صرف علماء اہل سنت کو ہدف تنقید بنایا بلکہ ان ہستیوں کے ذکر کرنے پر بہت لعن طعن بھی کیا اور ان اکابرین کو اہل سنت کے "بابے" جیسے الفاظ بھی استعمال کیے۔لفظ بابے پر جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب یہ موقف پیش کرسکتے ہیں کہ" بابے "پنچابی کالفظ ہے اور اس کا مطلب بزرگ ہوتا ہے۔عرض یہ ہے کہ ہر لفظ کے استعمال کا جہاں موقع محل ہوتا ہے وہاں سیاق و سباق بھی لفظ کے معنی متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔مرزا صاحب کی یہ تاویل قابل سماع ہر گز نہیں کیونکہ تقریر وہ اردو میں کرتے ہیں اور درمیان میں مطعون کرنے کے لیے ایسے لفظ کا استعمال یہ واضح کرتے ہیں کہ اکابرین اہل سنت اور اولیاء امت پر طعن و تشنیع مقصد ہے۔بہرحال ہو جس انداز میں گفتگو کرنا چاہیں مگر اب یہ بھی غور کریں کہ اولیاء امت کی کرامات کو ذکر کر کے محدثین کرام کو جناب محمد علی مرزا صاحب کن الفاظ سےپکاریں گے؟ قارئین کرام کی خدمت میں پہلے تو روایت صحیحہ پیش کردی گئی ہے کہ پانی پر چلنا تابعین کرام سےبھی ثابت ہے۔اب جناب محمد علی مرزا جہلمی صاحب کی خدمت میں محدثین کرام کے بے شمار حوالہ جات میں سے چند حوالے پیش خدمت ہیں۔ محدث ابن رجب حنبلی کی تحقیق: · محدث ابن رجب حنبلی اپنی کتاب میں علامہ ذہبی کے حوالہ سے فقیہ ابو الموفق ابن قدامہ کا پانی پر چلنا کا اثبات کرتے ہیں۔ وقرأت بخط الحافظ الذهبي: سمعت رفيقنا أبا طاهر أَحْمَد الدريبي سمعت الشيخ إِبْرَاهِيم بْن أَحْمَد بْن حاتم - وزرت مَعَهُ قبر الشيخ الموفق - فَقَالَ: سمعت الفقيه مُحَمَّد اليونيني شيخنا يَقُول: رأيت الشيخ الموفق يمشي عَلَى الماء. ذيل طبقات الحنابلة 3/291 ترجمہ: اپنے شیخ الفقیہ محمد الیونینی سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ الموفق کو پانی پر چلتے دیکھا۔ محدث ابن ملقن شافعی کا حوالہ: · محدث ابن ملقن شافعی ،یہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی شیخ اور استاد ہیں ،اصول حدیث المقنع اور حدیث پر البدر المنیراور صحیح بخاری کی شرح مشہور و معروف ہیں،اپنی کتاب طبقات الاولیا میں امام ابراھیم بن سعد العلوی کے ترجمہ میں ان کا پانی پر نماز پڑھنے کا واقعہ نقل کیا ہے ۔ حكى عنه أبو الحارث، قال: " كنت معه فى البحر، فبسط كساءه على الماء وصلى عليه ". طبقات الأولياء 1/24 ترجمہ:حضرت ابو الحارث فرماتے ہیں کہ میں ایک بار سمندرمیں ان کے ساتھ تھا،آپ نے اپنا مصلی پانی پر بچھایا اور اس کے اوپر آپ نے نماز ادا کی۔ حضرت ابراھیم بن سعد العلوی کا سمندر میں پانی پرنماز پڑھنے کا واقعہ صرف محدث ابن ملقن نے ہی نہیں لکھا،بلکہ اس واقعہ کو سند کے ساتھ خطیب بغدای اور محدث ابن عساکر نے بھی روایت کیا ہے۔محدث خطیب بغدادی کا حوالہ: · محدث خطیب بغدادی لکھتے ہیں: عنه أَبُو الحارث.قَالَ: كنت معه فِي البحر فبسط كساءه عَلَى الماء وصلى عَلَيْهِ۔. تاريخ بغداد وذيوله 6/84 ترجمہ:حضرت ابو الحارث فرماتے ہیں کہ میں ایک بار سمندر میں ان کے ساتھ تھا،آپ نے اپنا مصلی پانی پر بچھایا اور اس کے اوپر آپ نے نماز ادا کی۔ محث حافظ بن عساکر کا حوالہ:· حافظ ابن عساکر لکھتے ہیں: عنه أبو الحارث قال كنت معه في البحر فبسط كساءه على الماء وصلى عليه۔( تاريخ دمشق6/401) ترجمہ:حضرت ابو الحارث فرماتے ہیں کہ میں ایک بار سمندرمیں ان کے ساتھ تھا،آپ نے اپنا مصلی پانی پر بچھایا اور اس کے اوپر آپ نے نماز ادا کی۔ مذکورہ بالا حوالہ جات محدثین کرام کی کتاب سے ہیں،کسی سنی بریلوی کی متاخر کتب سے کوئی حوالہ موجود نہیں،اب ان حوالہ جات کو پڑھ کر جناب محمد علی مرزا جہلمی صاحب کوئی نظر ثانی کا پروگرام رکھتے ہیں؟ یا پھر اہل سنت و جماعت سے ہی کوئی خاص دلی لگاو ہے۔ اس مضمون میں اگر کوئی خطاء یا غلطی ہو تو آگاہ کریں،اگر تحریر مسلک یا تعصب سے پاک لگے تو اس پر عمل کریں۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں حق بات کرنے اور اکابرین اہل سنت کا ادب و احترام کی توفیق عطا فرما۔
    1 point
×
×
  • Create New...