Jump to content

لیڈر بورڈ

مشہور مواد

Showing content with the highest reputation on 18/10/2021 in all areas

  1. آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا اللہ عزوجل یامحمد صلو علیہ وآلہ خاتم الانبیاء، خاتم الرسل، خاتم النبی،خاتم المرسلین. الصلوۃ والسلام علیک یاسیدی یا خاتم الانبیاءؐ. و علی آلک و اصحبک یا سیدی یا خاتم النبیینؐ. ✍️المختصر تحریر قرآن و صحیح حدیث کی روشنی میں 💐صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وسلم💐 القرآن العظیم الکریم المجید میں خالق کائنات نے واضح طور حکم صادر فرما دیا : 📖 1 : مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍعَلِیۡمًا ﴿۴۰﴾سورۃ الاحزاب ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ ✍️میں (محمد عمران علی حیدری)کہتا ہوں مفسرین نے اس آیت کی جتنی بھی تفاسیر کی ہیں ان تمام کا خلاصہ و مفہوم یہ تفسیر خزائن العرفان ہے اور اسی طرح ہی تراجم میں کنزالایمان ہے۔ تفسیر خزائن العرفان یعنی آخر الانبیاء کہ نبوت آپ پر ختم ہو گئی آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتی کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام نازل ہو ں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پا چکے ہیں مگر نزول کے بعد شریعت محمدیہ پر عامل ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں گے ، حضور کا آخر الانبیاء ہونا قطعی ہے ، نص قرآنی بھی اس میں وارد ہے اور صحاح کی بکثرت احادیث تو حد تواتر تک پہنچتی ہیں ۔ ان سب سے ثابت ہے کہ حضور سب سے پچھلے نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں جو حضور کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے ، وہ ختم نبوت کا منکر اور کافر خارج از اسلام ہے. 📖 2 :حُرِّمَتۡ عَلَيۡكُمُ الۡمَيۡتَةُ وَالدَّمُ وَلَحۡمُ الۡخِنۡزِيۡرِ وَمَاۤ اُهِلَّ لِغَيۡرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالۡمُنۡخَنِقَةُ وَالۡمَوۡقُوۡذَةُ وَالۡمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيۡحَةُ وَمَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيۡتُمۡ وَمَا ذُ بِحَ عَلَى النُّصُبِ وَاَنۡ تَسۡتَقۡسِمُوۡا بِالۡاَزۡلَامِ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ فِسۡقٌ‌ ؕ اَلۡيَوۡمَ يَئِسَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡ دِيۡـنِكُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡهُمۡ وَاخۡشَوۡنِ‌ ؕ اَ لۡيَوۡمَ اَكۡمَلۡتُ لَـكُمۡ دِيۡنَكُمۡ وَاَ تۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِىۡ وَرَضِيۡتُ لَـكُمُ الۡاِسۡلَامَ دِيۡنًا‌ ؕ فَمَنِ اضۡطُرَّ فِىۡ مَخۡمَصَةٍ غَيۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثۡمٍ‌ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ. سورۃالمائدة آیت3 ترجمہ: حرام کیا گیا تم پر مردہ جانور اور خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ جانور جس پر غیر اللہ کا نام پکارا گیا اور وہ جانور جو گلا کٹنے سے مرجائے اور وہ جانور جو کسی ضرب سے مرجائے اور وہ جانور جو اوپر سے گر کر مرجائے اور وہ جانور جو کسی سے ٹکرا کر مرجائے اور وہ جانور جسے کسی درندے نے کھالیا مگر وہ جسے تم ذبح کرلو اور حرام کیا گیا وہ جانور جو ذبح کیا گیا پرستش گاہوں پر، اور یہ بھی حرام کیا گیا کہ تقسیم کرو تیروں کے ذریعہ یہ سب گناہ کے کام ہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہوگئے سو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے پورا کردیا تمہارا دین اور میں نے تم اپنی نعمت پوری کردی، اور میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر اختیار کرنے کے لئے پسند کیا، سو جو کوئی شخص مجبور ہوجائے سخت بھوک میں جو گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو سو یقیناً اللہ تعالیٰ غفور ہے رحیم ہے۔. ✍️جب دین مکمل ہوگیا ہے تو کسی اور دین کی اب قیامت تک ضرورت نہیں سواۓ اسلام کے۔ ✍️اب اسلام کے علاوہ کوئی اور دین پیش کیا جاۓ تو اسے قبول نہیں کریں مگر ان پڑھ کم علم۔ کیونکہ قرآن کی آیات سے آخری اور دین مکمل ہونا ثابت ہو چکا ہے۔ ✍️قرآن اور صحیح حدیث سے قادیانیت کو چیلنج ہے قیامت کسی اور نبی آنا ثابت نہیں کر سکیں گے ۔ ظلی بروزی ہر طرح سے یہ قادیانیت تاویلات ہیں اس ے علاوہ کچھ اور اپنی کتاب و احکام بھی بیان کرے قیامت تک ثابت نہیں کر سکیں گے۔💪۔ ✍️بس قادیانیت کی ایک جہالت یہ ہے کہ یہ ادھر ادھر کی فضول باتوں میں وقت برباد کرتے ہیں۔ ✍️کسی طرح کی نبوت باقی نہی سب ختم سیدی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد باقی اگر کوئی جاہل کٹا ظلی بروزی نبوت کا قائل ہے تو بھی وہ غلطی پر ہے۔ اس باطل تاویلی عقیدہ کو بھی قرآن و حدیث سے ثابت نہیں کر سکتے چیلنج ہے۔نبوت میں اگر کچھ بچا ہے تو وہ نبوت کے چھیالیسواں حصہ ہے اور وہ صرف اچھے خواب ہیں بس۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں وہ معارفت کی راہ ہے۔جو کہ صحابہ و اولیاء کو اکثر آتے ہیں۔ ✍️القرآن ٫٫کہے دیجیے لاو دلیل اگر سچے ہو تو۔ 💪💪صحیح احادیث💪💪 📚 1 :وَعَنْ اَبِیْ نَضْرَۃَ قَالَ: خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَلٰی مِنْبَرِ الْبَصْرَۃِ فَقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّہُ لَمْ یَکُنْ نَبِیٌّ اِلَّا لَہُ دَعْوَۃٌ قَدْ تَنَجَّزَھَا فِی الدُّنْیَا وَاِنِّیْ قَدِ اخْتَبَاْتُ دَعْوَتِیْ شَفَاعَۃً لِاُمَّتِیْ وَاَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَافَخْرَ، وَبِیَدِیْ لِوَائُ الْحَمْدِ وَلَافَخْرَ، آدَمُ فَمَنْ دُوْنَہُ تَحْتَ لِوَائِیْ وَلَافَخْرَ وَیَطُوْلُیَوْمُ الْقِیَامَۃِ عَلٰی النَّاسِ فَیَقُوْلُ بَعْضُہْمُ لِبَعْضٍ: اِنْطَلِقُوْا بِنَا اِلٰی آدَمَ اَبِیْ الْبَشَرِ فَلْیَشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّنَا عَزَّوَجَلَّ فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا، فَیَاْتُوْنَ آدَمَ علیہ السلام فَیَقُوْلُوْنَ: یَا آدَمُ! اَنْتَ الَّذِیْ خَلَقَکَ اللّٰہُ بِیَدِہٖ وَاَسْکَنَکَ جَنَّتَہُ وَاَسْجَدَ لَکَ مَلَائِکَتَہُ اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّنَا فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا، فَیَقُوْلُ: اِنِّیْ لَسْتُ ھُنَاکُمْ، اِنِّی قَدْ اُخْرِجْتُ مِنَ الْجَنَّۃِ بِخَطِیْئَتِیْ وَاِنَّہُ لَایُہِمُّنِیْ الْیَوْمَ اِلَّا نَفْسِیْ وَلٰکِنِ ائْتُوْا نُوْحًا رَاْسَ النَّبِیِّیْنَ، فَیَأْتُوْنَ نُوْحًا فَیَقُوْلُوْنَ: یَانُوْحُ! اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّنَا فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا فَیَقُوْلُ: اِنِّیْ لَسْتُ ھُنَاکُمْ اِنِّی دَعَوْتُ بِدَعْوَۃٍ اَغْرَقَتْ اَھْلَ الْاَرْضِ وَاِنَّہ لَایُہِمُّنِیْ الْیَوْمَ اِلَّا نَفْسِیْ وَلٰکِنِ ائْتُوْا اِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلَ اللّٰہِ فَیَاْتُوْنَ اِبْرَاہِیْمَ علیہ السلام فَیَقُوْلُوْنَ: یَا اِبْرَاہِیْمُ! اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّنَا فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا، فَیَقُوْلُ: اِنِّیْ لَسْتُ ھُنَاکُمْ اِنِّیْ کَذَبْتُ فِی الْاِسْلَامِ ثَلَاثَ کَذِبَاتٍ، وَاللّٰہِ اِنْ حَاوَلَ بِہِنَّ اِلَّا عَنْ دِیْنِ اللّٰہِ، قَوْلُہُ {اِنِّیْ سَقِیْمٌ}،وَقَوْلُہُ {بَلْ فَعَلَہُ کَبِیْرُھُمْ ہٰذَا فَاسْاَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ}، وَقَوْلُہُ لِاِمْرَأَتِہِ حِیْنَ اَتٰی عَلٰی الْمَلِکِ اُخْتِیْ، وَاِنَّہُ لَایُہِمُّنِیْ الْیَوْمَ اِلَّا نَفْسِیْ وَلٰکِنِ ائْتُوْا مُوْسٰی علیہ السلام الَّذِیْ اِصْطَفَاہُ اللّٰہُ بِرِسَالَتِہٖوَبِکَلَامِہٖ، فَیَاْتُوْنَہُ فَیَقُوْلُوْنَ: یَامُوْسٰی اَنْتَ الَّذِیْ اِصْطَفَاکَ اللّٰہُ بِرِسَالَتِہِ وَکَلَّمَکَ فَاشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّکَ فَیَقُوْلُ: لَسْتُ ھُنَاکُمْ، اِنِّیْ قَتَلْتُ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ وَاِنَّہُ لَایُہِمُّنِیْ اِلَّا نَفْسِیْ وَلٰکِنِ ائْتُوْا عِیْسٰی رُوْحَ اللّٰہِ وَکَلِمَتَہُ، فَیَاْتُوْنَ عِیْسٰی فَیَقُوْلُوْنَ: یَا عِیْسٰی! اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّکَ، فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا فَیَقُوْلُ: اِنِّیْ لَسْتُ ھُنَاکُمْ اِنِّی اتُّخِذْتُ اِلٰہًا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَاِنَّہُ لَایُہِمُّنِی الْیَوْمَ اِلَّا نَفْسِیْ وَلٰکِنْ اَرَاَیْتُمْ لَوْکَانَ مَتَاعٌ فِیْ وِعَائٍ مَخْتُوْمٍ عَلَیْہِ اَکَانَ یَقْدِرُ عَلٰی مَا فِیْ جَوْفِہِ حَتّٰییَعُضَّ الْخَاتَمَ قَالَ: فَیَقُوْلُوْنَ: لَا، قَالَ: فَیَقُوْلُ: اِنَّ مُحَمَّدًا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَقَدْ حَضَرَ الْیَوْمَ وَقَدْ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَاَخَّرَ۔)) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَیَاْتُوْنِّیْ فَیَقُوْلُوْنَ: یَا مُحَمَّدُ! اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّکَ فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا، فَاَقُوْلُ: اَنَا لَھَا حَتّٰییَاْذَنَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لِمَنْ یَّشَائُ وَیَرْضٰی فَاِذَا أَرَادَ اللّٰہُ تَعَالٰی اَنْ یَصْدَعَ بَیْنَ خَلْقِہِ نَادٰی مُنَادٍ: أَیْنَ اَحْمَدُ وَاُمَّتُہُ فَنَحْنُ الْآخِرُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ، نَحْنُ آخِرُ الْاُمَمِ اَوَّلُ مَنْ یُّحَاسَبُ فَتُفَرَّجُ لَنَا الْاُمَمُ عَنْ طَرِیْقِنَا فَنَمْضِیْ غُرًّا مُّحَجَّلِیْنَ مِنْ اَثَرِ الطُّہُوْرِ فَتَقُوْلُ الْاُمَمُ: کَادَتْ ہٰذِہِ الْاُمَّۃُ اَنْ تَکُوْنَ اَنْبِیَائَ کُلَّہَا، فَنَاْتِیْ بَابَ الْجَنَّۃِ فَاٰخُذُ بِحَلْقَۃِ الْبَابِ فَاَقْرَعُ الْبَابَ فَیُقَالُ: مَنْ اَنْتَ فَاَقُوْلُ: اَنَا مُحَمَّدٌ، فَیُفْتَحُ لِیْ فَآتِیْ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ عَلٰی کُرْسِیِّہٖ اَوْ سَرِیْرِہِ شَکَّ حَمَّادٌ (اَحَدُ الرُّوَاۃِ) فَاَخِرُّ لَہُ سَاجِدًا فَاَحْمَدُہُ بِمَحَامِدَ لَمْ یَحْمَدْہُ بِہَا اَحَدٌ کَانَ قَبْلِیْ وَلَیْسَ یَحْمَدُہُ بِہَا اَحَدٌ بَعْدِیْ فَیَقُوْلُ: یَامُحَمَّدُ! اِرْفَعْ رَاْسَکَ وَسَلْ تُعْطَہُ وَقُلْ تُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَاَرْفَعُ رَاْسِیِْ فَاَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ! اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ، فَیَقُوْلُ:اَخْرِجْ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ کَذَا وَکَذَا (لَمْ یَحْفَظْ حَمَّادٌ) ثُمَّ اُعِیْدُ فَاَسْجُدُ فَاَقُوْلُ: مَاقُلْتُ،فَیَقُوْلُ: اِرْفَعْ رَاْسَکَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہُ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَاَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ! اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ، فَیَقُوْلُ: اَخْرِجْ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ کَذَا وَکَذَا دُوْنَ الْاَوَّلِ، ثُمَّ اُعِیْدُ فَاَسْجُدُ فَاَقُوْلُ مِثْلَ ذٰلِکَ، فَیُقَالُ لِیْ: اِرْفَعْ رَاْسَکَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہُ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَاَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ فَیَقُوْلُ: اَخْرِجْ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ کَذَا وَکَذَا دُوْنَ ذٰلِکَ۔)) (۱۳۱۰۰) (مسند احمد: ۲۵۴۶) (ھذا حدیث صحیح) ابو نضرہ کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بصرہ کے منبر پر ہم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر نبی کو ایک ایک قبول شدہ دعا کرنے کا اختیار دیا گیا، اور ہر ایک نے دنیا ہی میں وہ دعا کرلی، البتہ میں نے اپنی دعا کو امت کے حق میں سفارش کر نے کے لیے چھپا رکھا ہے،میں قیامت کے دن ساری اولاد ِ *آدم کا سردار ہوں گا،* لیکن اس پر فخر نہیں ہے، سب سے پہلے میری قبر کی زمین پھٹے گی اور میں اس پر فخر نہیں کرتا،حمد کاجھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا، لیکن مجھے اس پر بھی فخر نہیں ہے، آدم علیہ السلام اور ان کے بعد کی تمام انسانیت میرے اس جھنڈے کے نیچے ہوگی اور مجھے اس پر بھی فخر نہیں ہے۔ قیامت کا دن لوگوں کے لیے انتہائی طویل ہو چکا ہوگا، بالآخر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ابو البشر آدم علیہ السلام کی خدمت میں چلیں، وہ ہمارے رب کے ہاں ہمارے حق میں سفارش کریں اور اس طرح اللہ تعالیٰ ہمارے درمیان فیصلے کرے، پس لوگ جمع ہو کر حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں جا کر کہیں گے:اے آدم! اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، آپ کو اپنی جنت میں ٹھہرایا اور فرشتوں کو آپ کے سامنے سجدہ ریز کرایا، آپ رب کے ہاں جا کر سفارش تو کریں کہ وہ ہمارے درمیان فیصلہ کرنا شروع کرے۔ وہ کہیں گے: میں یہ کام نہیں کر سکتا، میری بھول کی وجہ سے مجھے جنت میں نکالا گیا تھا، مجھے تو میری اپنی جان نے بے چین کر رکھا ہے، تم نوح علیہ السلام کی خدمت میں چلے جاؤ، وہ نبیوں کی اصل ہیں،چنانچہ وہ سب نوح علیہ السلام کی خدمت میں جائیں گے اور کہیں گے: اے نوح! آپ ہمارے رب کے ہاں ہمارے حق میں سفارش کریں تاکہ وہ ہمارے درمیان فیصلے کرے، لیکن وہ کہیں گے: میں اس کی جرأت نہیں کر سکتا، میں نے تو اپنی دعا کر لی ہے، جس سے تمام اہل زمین غرق ہو گئے تھے، آج تو مجھے اپنی جان کی فکر لگی ہوئی ہے، البتہ تم اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، وہ سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جا کر کہیں گے: اے ابراہیم! آپ ہمارے لیے ہمارے رب سے سفارش کریں تاکہ وہ ہمارے درمیان فیصلے کرے، وہ کہیں گے: میں اس بات کی جرأت نہیں کرسکتا، میں نے اسلام میں تین جھوٹ بولے تھے۔ حالانکہ اللہ کی قسم ہے کہ انہوں نے ان باتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے دین کا دفاع ہی کیا تھا، ایک تو انہوں نے کہا تھا. {اِنِّیْ سَقِیْمٌ} (بیشک میں بیمار ہوں۔) (سورۂ صافات: ۸۹) ،دوسرا انہوں نے کہا تھا: {بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ھٰذَا فَسْئَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ الانبیاء 63} (ابراہیم نے) کہا بلکہ اسی نے یہ کام کیا ہے (یعنی ابراہیم نے) ان میں کا بڑا یہ ہے سو ان سے پوچھو لو اگر یہ بول سکتے ہیں ) اور تیسرا یہ کہ جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ بادشاہ کے پا س پہنچے تو کہا کہ یہ تو میری بہن ہے۔ بہرحال ابراہیم علیہ السلام کہیں گے: آج تو مجھے اپنی پریشانی لگی ہوئی ہے، البتہ تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ ، ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لیے منتخب کیا تھا اور ان کے ساتھ کلام بھی کیا تھا، وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچ جائیں گے اور کہیں گے: اے موسیٰ! آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت سے نوازا اور آپ کے ساتھ کلام بھی کیا، آپ ہمارے حق میں اللہ تعالیٰ سے یہ سفارش تو کر دیں کہ وہ ہمارا حساب شروع کر دے، وہ کہیں گے: میں اس قابل نہیں ہوں، میں نے تو ایک آدمی کو بغیر کسی جرم کے قتل کر دیا تھا، مجھے تو اپنی جان کی فکر ہے، تم لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، وہ اللہ تعالیٰ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں، چنانچہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جا کران سے کہیں گے: اے عیسیٰ! آپ اپنے رب سے ہمارے حق میں سفارش کر یں تاکہ وہ ہمارے درمیان فیصلہ کرے۔ وہ کہیں گے: میں تو یہ کام نہیں کر سکتا، مجھے تو لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر معبود بنا لیا تھا، اس لیے مجھے تو اپنی پریشانی نے بے چین کر رکھا ہے، لیکن دیکھو اگر کوئی سامان کسی برتن میں بند کر کے اس پر مہر لگا دی گئی ہو، تو کیا مہر کو توڑے بغیر برتن کے اندر کی چیز کو حاصل کیا جا سکتا ہے؟ لوگ کہیں گے کہ نہیں۔ تو عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم *خاتم النّبیین ہیں،* وہ آج موجود ہیں، ان کا مقام یہ ہے کہ ان کے اگلے پچھلے تمام جہان کی بھلائیاں عطا کیے گئے ہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:اس کے بعد لوگ میرے پاس آئیں گے اور کہیں گے: اے محمد! آپ اپنے رب سے ہمارے لیے سفارش کریں تاکہ وہ ہمارے درمیان فیصلے کرے۔ تو میں کہوں گا: جی ہاں، جی ہاں، میں ہی اس شفاعت کے قابل ہوں ، یعنی آج میں ہی سفارش کرسکتا ہوں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ جسے جسے چاہے گا اور پسند کرے گا، اسے شفاعت کی اجازت دے گا، جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو الگ الگ کرنے کا ارادہ کرے گا تو اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: احمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کی امت کہاں ہیں؟ *ہم اگرچہ زمانہ کے اعتبار سے آخر میں آئے ہیں،لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے، ہم اگرچہ آخری امت ہیں* (آخری نبی علیہ السلام کی آخری امت) لیکن سب سے پہلے ہمارا حساب ہوگا۔ ہمارے راستے سے دوسری امتوں کو ہٹادیا جائے گا اور وضوء کے اثر سے میری امت کے چہرے ، ہاتھ اورپاؤں خوب چمک رہے ہوں گے، انہیں دیکھ کر دوسری امتیں رشک کرتے ہوئے کہیں گی: قریب تھا کہ اس امت کے تو سارے افراد انبیاء ہوتے، یہ امت جنت کے دروازے پر پہنچے گی۔ میں جنت کے دروازے کے کڑے کو پکڑ کر دستک دوں گا۔ پوچھا جائے گا: کون ہو؟ میں کہوں گا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہوں۔پھر میرے لیے دروازہ کھول دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کرسی یا تخت پر تشریف فرما ہوں گے،(کرسی یا تخت کا شک راوی ٔ حدیث حماد کو ہوا) میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جاکر سجدہ ریز ہو جاؤں گا اور میں اللہ تعالیٰ کی ایسی ایسی حمد کروں گا، جو نہ تو مجھ سے پہلے کسی نے بیان کی اور نہ بعد میں کوئی کر سکے گا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا جائے گا: اے محمد! سجدہ سے سر اٹھاؤ ، مانگو تمہیں دیا جائے گا، کہو تمہاری بات سنی جائے گی، سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ چنانچہ میں اپنا سر اٹھا کر کہوں گا: اے میرے رب! میری امت! میری امت! اللہ تعالیٰ فرمائے گا :جن لوگوں کے دلوں میں فلاں چیز کے برابر ایمان ہواسے جہنم سے نکال لاؤ، میں اس کے بعد دوبارہ سجدہ میں گرجاؤں گا اور اللہ تعالیٰ کو جیسے منظور ہوگا، میں سجدہ میں کہوں گا، بالآخر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: سر اٹھاؤ اور کہو تمہاری بات سنی جائے گی، مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا، سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ میں کہوں گا: اے رب! میری امت ،میری امت۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:جس کسی کے دل میں فلاں چیز کے برابر ایمان ہو، ان کو جہنم سے نکال لاؤ، اس کے بعد پھر میں سجدہ کروں گا اور پہلے کی طرح اللہ تعالیٰ کی تعریفیں کروں گا، بالآخر مجھے کہا جائے گا:سجدہ سے سر اٹھاؤ، کہو تمہاری بات سنی جائے گی، مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا، سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ میں کہوں گا: اے میرے رب! میری امت، میری امت۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ سے کہا جائے گا کہ جس کسی کے دل میں فلاں چیز کے برابر بھی ایما ن ہو، اس کو جہنم سے نکال لاؤ۔ (محمد عمران علی حیدری) 📚 2 :وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَقُتَيْبَةُ، وَابْنُ حُجْرٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنُونَ ابْنَ جَعْفَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بُنْيَانًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ، إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ مِنْ زَوَايَاهُ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ: هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ (صحیح مسلم جلد3 حدیث 5961.) ھذا حدیث صحیح ابو صالح سمان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری اور دوسرے پیغمبروں کی مثال جو کہ میرے سے پہلے ہو چکے ہیں ، ایسی ہے جیسے کسی شخص نے گھر بنایا اور اس کی زیبائش اور آرائش کی ، لیکن اس کے کونوں میں سے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی پس لوگ اس کے گرد پھرنے لگے اور انہیں وہ عمارت پسند آئی اور وہ کہنے لگے کہ یہ تو نے ایک اینٹ یہاں کیوں نہ رکھ دی گئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم الانبیاء ہوں۔ (محمد عمران علی حیدری) 📚 3: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَتَّى يَعْبُدُوا الْأَوْثَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَّابُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. (الجامع الترمذی جلد2حدیث2219) ھذا حدیث صحیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ میری امت کے کچھ قبیلے مشرکین سے مل جائیں، اور بتوں کی پرستش کریں، اور میری امت میں عنقریب تیس جھوٹے نکلیں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📚 4 :حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، ح وَحَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ عَمْرٍو الْعُكْبَرِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَذُوعِيُّ، قَالَا: ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَرْعَرَةَ، قَالَا: ثنا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: قَرَأْتُ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ , وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْهُ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنَّ نَبيَ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌قَالَ: فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ وَدَجَّالُونَ سَبْعَةٌ وَعِشْرُونَ، مِنْهُمْ أَرْبَعَةُ نِسْوَةٍ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، لا نَبِيَّ بَعْدِي. ✍️درج ذیل سات کتب میں یہ حدیث موجود ہے [(1) المعجم الکبیر للطبرانی 3026 3/169 ( 2) (فتح الباري 87/13) (3) الفتح الكبير 2/275 (4) الجامع الصغیر7707 امام سیوطیؒ (5) کنزالاعمال الرقم 38360 جلد14. صفحہ196 (6) غائیہ المقصد فی زوائد المسند الرقم 4483 جلد4ص250 (7) مسند احمد مخرجا 23358الرقم جلد38 ص380] ( إسناده جيد) حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: میری امت میں ستائیس(راوی کا وہم لگتا ہے کسی حدیث میں 27 تو کسی حدیث میں 30 کا زکر ہے) کذاب اور دجال ہوں گے،ان میں چار عورتیں ہوں گی،میں خاتم النبیین ہوں،میرے بعد کوئی نبی نہیں. (محمد عمران علی حیدری) ✍️کسی حدیث میں 27کا زکر ہے تو کسی میں 30 کا زکر ہے شائد راوی کا وہم ہے۔خیر اصل بات یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو نبوت کا دعوئ کرے وہ جھوٹا ہے ان احادیث ایک بات جو ثابت ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آۓ گا کسی بھی طرح کا۔ ✍️جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئ نبی ہوتا(یہ اس بات کی نفی ہے کے حضرت محمدؐ کے بعد کوئی نبی نہی) تو وہ عمر ہوتا ۔ ایک بات یاد رکھیں اگر نبوت بند نہ ہوتی جاری رہتی تو حضرت عمرؓ بھی نبی ہوتے ۔ لیکن سیدنا عمرؓ نے نہ نبوت کا دعوئ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ ✍️اس لیے تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسلیمہ کذاب کے ساتھ جنگ کی اس نے بھی نبی ہونے کا دعوئ کیا تھا ✍️تو اگر آج کوئی دجال کانا نبوت کا دعوئ کرے تو جھوٹا ہے، فراڈی ہے ،مکار ہے، ذلیل ہے،نمک حرام ہے، کذاب ہے۔ کافر ہے، پیروی کرنے والا مرتد ہے، وہ اور اس کے پیرو خارج از اسلام ہیں۔ ان کو نہ اقلیت کا حق نہ ملک میں رہنے کا بس قتال قتال قتال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ باللہ تاللہ۔ یہی حق ہے۔ 📚 5: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَوْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ رَبِّي زَوَى لِي الْأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنَّ مُلْكَ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَنْ لَا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ بِعَامَّةٍ وَلَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ ؟ وَإِنَّ رَبِّي قَالَ لِي:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ وَلَا أُهْلِكُهُمْ بِسَنَةٍ بِعَامَّةٍ وَلَا أُسَلِّطُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِ أَقْطَارِهَا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ بِأَقْطَارِهَا حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا، ‏‏‏‏‏‏وَحَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يَسْبِي بَعْضًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي لَمْ يُرْفَعْ عَنْهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ وَحَتَّى تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَانَ وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عِيسَى:‏‏‏‏ ظَاهِرِينَ ثُمَّ اتَّفَقَا لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ. (سنن ابو داؤد جلد4 حدیث 4252.) *الشیخ شعیب الارنؤوط* إسناده صحيح. أبو أسماء: هو عمرو بن مرثد الرَّحَبي، وأبو قلابة: هو عبد الله بن زيد الجَرمي، وأيوب: هو ابن أبي تميمة السختياني. [وأخرجه مسلم (2889)، والترمذي (2317) و (2379) من طريق أيوب السختياني، ومسلم (2889)، وابن ماجه (10) و (3952) من طريق قتادة بن دعامة، كلاهما عن أبي قلابة عبد الله بن زيد الجرمي، به. ولم يخرج أحدٌ منهم الحديث بتمامه كما هو عند المصنف. وهو في "مسند أحمد" (22394) بتمامه، و"صحيح ابن حبان" (6714) و (7238)] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی یا فرمایا: میرے لیے میرے رب نے زمین سمیٹ دی، تو میں نے مشرق و مغرب کی ساری جگہیں دیکھ لیں، یقیناً میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک زمین میرے لیے سمیٹی گئی، مجھے سرخ و سفید دونوں خزانے دئیے گئے، میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو کسی عام قحط سے ہلاک نہ کرے، ان پر ان کے علاوہ باہر سے کوئی ایسا دشمن مسلط نہ کرے جو انہیں جڑ سے مٹا دے، اور ان کا نام باقی نہ رہنے پائے، تو میرے رب نے مجھ سے فرمایا: اے محمد! جب میں کوئی فیصلہ کر لیتا ہوں تو وہ بدلتا نہیں میں تیری امت کے لوگوں کو عام قحط سے ہلاک نہیں کروں گا، اور نہ ہی ان پر کوئی ایسا دشمن مسلط کروں گا جو ان میں سے نہ ہو، اور ان کو جڑ سے مٹا دے گو ساری زمین کے کافر مل کر ان پر حملہ کریں، البتہ ایسا ہو گا کہ تیری امت کے لوگ خود آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے، انہیں قید کریں گے، اور میں اپنی امت پر گمراہ کر دینے والے ائمہ سے ڈرتا ہوں، اور جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو پھر وہ اس سے قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی، اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ میری امت کے کچھ لوگ مشرکین سے مل نہ جائیں اور کچھ بتوں کو نہ پوجنے لگ جائیں، اور عنقریب میری امت میں تیس ( ۳۰ ) کذاب پیدا ہوں گے، ان میں ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا وہ غالب رہے گا، ان کا مخالف ان کو ضرر نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📚 6 :حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ الْحَكَمِ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا ، فَقَالَ : أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ ، قَالَ : أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى ؟ إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي ،وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْحَكَمِ ، سَمِعْتُ مُصْعَبًا۔ (صحیح بخاری جلد2 حدیث 4416 ھذا حدیث صحیح) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جا رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ اور ابوداؤد طیالسی نے اس حدیث کو یوں بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے اور انہوں نے کہا میں نے مصعب سے سنا۔ 📚 7 :حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَعْنٌ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لِي خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِي الْكُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ۔ (صحیح بخاری شریف حدیث3532.4896 ھذا حدیث صحیح) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد، احمد اور ماحی ہوں ( یعنی مٹانے والا ہوں ) کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں کہ تمام انسانوں کا ( قیامت کے دن ) میرے بعد حشر ہو گا اور میں عاقب ہوں یعنی خاتم النبین ہوں۔ میرے بعد کوئی نیا پیغمبر دنیا میں نہیں آئے گا۔ تاجدار ختم نبوت زندہ باد زندہ باد لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (طالب دعا: محمد عمران علی حیدری) 17.09.2021. 09 صفر المظفر 1443ھ
    1 point
  2. 💪 بڑی جماعت💪 (سواد الاعظم) 1✍️پہلی بات قابل غور ہے بڑی جماعت کو ہی سواد الاعظم کہا جاتا ہے۔ 2✍️شروع سے لے کر قیامت تک بڑی جماعت اھلسنہ والجماعہ تھی، رہی ہے، رہے گی۔ 3✍️اگرچہ ان میں فروعی مسائل میں اختلاف ہوگا۔ لیکن عقائد میں اختلاف نہی ہوگا۔ 4✍️جیسے کہ حنفی شافعی حنبلی مالکی۔ان سب کے عقائد ایک ہیں۔ بس فروعی مسائل میں اختلاف ہے جو کہ:۔ افضل، الاولی، مستحب، مستحسن اور مباح کا اختلاف ہوتا ہے بس۔ 5✍️لیکن عقائد کی بات کی جاۓ تو سب کے ایک ہیں۔ ✍️جیسا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہنا۔✍️ :اب آتے ہیں حدیث کی طرف جو سندا ضعیف ہے۔ لیکن متناََ بالکل ٹھیک ہے۔ :1📘حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ السَّلَامِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو خَلَفٍ الْأَعْمَى،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمَّتِي لَنْ تَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ،‏‏‏‏ فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلَافًا فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ . ابن ماجہ 3950 میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہو گی، لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم ( یعنی بڑی جماعت ) کو لازم پکڑو۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اس میں دو راوی ہیں جس کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف کہا گیا ہے لیکن اس کا متن ثابت شدہ ہے۔ ✍️سواد الاعظم کے الفاظ ابو خلف الاعمی کی وجہ سخت ضعیف ہیں اور دوسرا راوی معان بن رفاعہ ضعیف ہے۔ ✍️اس کی سند ضعیف ہی ہے لیکن اسکا متن ٹھیک ہے۔ جو کہ دوسری احادیث سے ثابت شدہ ہے۔ 💞 اب آتے ہیں متن حدیث کی طرف💞 ✍️سواد الاعظم سے مراد بڑی جماعت ہے میں بتا چکا ہوں اوپر الفاظ کی تبدیلی ہےبس۔ مطلب ایک ہی ہے بہت بڑی جماعت۔ یعنی عام الفاظ میں بولا جا سکتا ہے سواد الاعظم۔ ✍️آپ صرف جماعت، بڑی جماعت بولیں بہت بڑی جماعت بولیں اور یاسواد الاعظم بولیں مراد ایک ہی ہے۔ (✍️ محمد عمران علی حیدری) :2✍️(۸۷۷۷)۔ عَنْ أَ بِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {ثُلَّۃٌ مِنْ الْأَ وَّلِینَ وَقَلِیلٌ مِنْ الْآخِرِینَ} [الواقعۃ: ۱۳۔ ۱۴] شَقَّ ذٰلِکَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ، فَنَزَلَتْ: {ثُلَّۃٌ مِنْ الْأَ وَّلِینَ وَثُلَّۃٌ مِنْ الْآخِرِینَ} [الواقعۃ: ۳۹۔۴۰] فَقَالَ: ((اَنْتُمْ ثُلُثُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ، بَلْ اَنْتُمْ نِصْفُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ، وَتُقَاسِمُوْنَہُمُ النِّصْفَ الْبَاقِیْ۔)) (مسند احمد: ۹۰۶۹) ھذا حدیث صحیح ۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: {ثُلَّۃٌ مِنْ الْأَ وَّلِینَ وَقَلِیلٌ مِنْ الْآخِرِینَ}… (سبقت لے جانے والوں) کا بہت بڑا گروہ (سواد الاعظم) تو اگلے لوگوں میں سے ہو گا اور تھوڑے سے پچھلے لوگوں میں سے۔ تو یہ بات مسلمانوں پر بہت گراں گزری، پس یہآیات نازل ہوئیں: {ثُلَّۃٌ مِنْ الْأَ وَّلِینَ وَثُلَّۃٌ مِنْ الْآخِرِینَ} … (دائیں ہاتھ والوں کا) جم غفیر(سواد الاعظم) اگلوں میں سے ہے اور بہت بڑی جماعت(سواد الاعظم) پچھلوں میں سے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جنت والوں میں سے تیسرا حصہ ہو گے، بلکہ اہل جنت کا نصف حصہ تم ہو گے اور باقی نصف میں بھی تم ان کے حصہ دار ہو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اس حدیث بھی یہی الفاظ استعمال ہوۓ ہیں بڑی جماعت یعنی سواد الاعظم بولیں آپ بڑی جماعت بولیں یا پھر اھلسنہ والجماعۃ بولیں یا پھر صرف جماعت کہیں کیونکہ یہی بڑی اہل سنت و جماعت ہی ہے۔ 3📘 الفصل الثانیدوسری فصل حدیث نمبر 256 روایت ہے حضرت عمر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ میرے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تمہارے بہترین ہیں ۱؎ پھر وہ جو ان کے قریب ہیں پھروہ جو ان کے قریب ہیں۲؎ پھر جھوٹ ظاہر ہوگا حتی کہ آدمی قسم کھائے گا حالانکہ قسم لیا نہ جاوے گا اور گواہی دے گا حالانکہ گواہی لیا نہ جاوے گا آگاہ رہو کہ جو جنت کا وسط چاہے وہ جماعت کو مضبوط پکڑے۳؎ کیونکہ شیطان اکیلے کے ساتھ ہوتا ہے۴؎ اور وہ دو سے دور رہتا ہے ۵؎ کوئی شخص کسی اجنبی عورت سے خلوت نہ کرے کیونکہ شیطان ان کا تیسرا ہوتا ہے ۶؎ اور جس کو اس کی نیکی خوش کرے اور اس کی برائی غمگین کرے تو وہ مؤمن ہے۷؎ : شرح ۱؎ جن صحابہ نے حضور انور کی صحبت پائی،حضور سے علم و عمل حاصل کیے،حضورکی تربیت پائی وہ تو انسان کیا فرشتوں سے بڑھ گئے مگر جن کی صرف ایک نظر جمال جہاں آرا پر پڑ گئی انہیں ایمان شہودی حاصل ہوگیا۔حضور کے جمال پر ایک نظر وہ کام کرتی ہے جو عمر بھر کے چلے خلوتیں عبادتیں نہیں کرسکتیں کوئی اس جیسا نہیں ہوسکتا۔(از اشعۃ اللمعات)۲؎ یعنی تابعین و تبع تابعین بعد والوں سے افضل ہیں کہ ان میں اکثر عادل یا مستور الحال ہیں فاسق تھوڑے مگر ان کے بعدکے لوگ اس کے برعکس ہیں کہ ان میں فاسق زیادہ عادل کم ہیں بلکہ ان زمانوں کے فاسقوں میں جتنی حمیت دینی تھی بعد کے بعض عادلوں میں اتنی نہیں غیرت ایمان برابر گھٹ رہی ہے جیساکہ آگے ارشاد ہے،محمد ابن قاسم کا سندھ فتح کرنا حجاج ابن یوسف کی ایک غیرت اسلامی کی بنا پر ہوا۔۳؎ یعنی جماعت صحابہ کے عقیدے اختیار کرے ان کے سے اعمال کرنے کی کوشش کرے،نیز عامۃ المؤمنین کی راہ چلے ہمیشہ عام مسلمانوں کی راہ چلے تا ابد بڑا گروہ اہل سنت والجماعت ہی کا رہے گا اسی لیے اس کے نام میں جماعت داخل ہے اہل سنت و الجماعت۔۴؎ یعنی جو عقائد و اعمال میں مسلمانوں کی جماعت سے الگ رہا وہ شیطان کا ساتھی ہے دوزخی ہے۔۵؎ شیطان انسان کا بھیڑیا ہے اور بھیڑیا بکریوں کے گلہ پر رحم کم کرتا ہے دور والی یا کنارے والی بکری کو جلد پھاڑتا ہے،یہ مضمون کتاب الاعتصام میں گزر چکا۔۶؎ عورت سے مراد اجنبی عورت ہے لہذا اپنی ذی رحم ماں بہن بیٹی ساری ذی رحم محرمہ یوں ہی اپنی بیوی اس حکم میں داخل نہیں بلکہ جوعورت صرف محرمہ تو ہو کہ اس سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہو مگر ذی رحم نہ ہو جیسے ساس اس سے بھی خلوت بہتر نہیں جب کہ وہ جوان ہو۔(دیکھو شامی)خیال رہے کہ دودھ کے بھائی بہن دودھ کے چجا تائے سے پردہ فرض نہیں مگر خلوت ان سے بھی بہتر نہیں جب کہ دونوں جوان ہوں کیونکہ وہ اگرچہ محرم تو ہیں مگر ذی رحم نہیں۔۷؎ یعنی علامت ایمان یہ ہے کہ آدمی کو اپنی برائیاں اپنے گناہ برے معلوم ہوں،ان پر وہ غم کرے اور اپنی نیکیاں اچھی معلوم ہوں ان پر خوشی کرے اس کا دل مفتی ہوتا ہے جو اسے برے بھلے کاموں کا فتوی دیتا رہتا ہے اللہ ایسا ایمان نصیب کرے۔ مصنف کو اس حدیث کا حوالہ نہیں ملا،یہ حدیث نسائی شریف کی ہے اس کی اسناد کے سارے راوی قوی ہیں سواء ابراہیم ابن حسن خثعمی کے اس سے مسلم،بخاری نے احادیث نہیں لیں مگر وہ بھی ثقہ ہیں لہذا حدیث صحیح ہے اور اس مضمون کی احادیث احمد ابن حبان،طبرانی،حاکم،بیہقی نے بھی روایت کیں۔(مرقات) (مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد8.صفحہ 256) (از: حکیم الامت مفسر شہیر علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ) (محمد عمران علی حیدری) : 4📘 6045 - ابن عمر، رفعه: ((لن تجتمع أمتى على ضلالة، فعليكم بالجماعة فإن يد الله على الجماعة)). للكبير (1). : (1)الطبراني جلد12 صفحہ 447 (13623)، وقال الهيثمي 5/ 218: رواه الطبراني بإسنادين رجال أحدهما ثقات رجال الصحيح خلا مرزوق مول طلحة وهو ثقة (محمد عمران علی حیدری) ✍️اگر حدیث کو دیکھیں تو اس میں جماعت کے لفظ استعمال ہوا ہے۔ ✍️جبکہ اس سے مراد بھی بڑا گروہ جماعت بھی ایک گروہ کی شکل ہوتی ہے اب آپ بیشک اس کو سواد الاعظم بھی بول سکتے ہیں۔ ✍️اچھا اس حدیث میں دیکھیں تو پتہ چلتا جماعت(سواد الاعظم) پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ اور جس پر اللہ کا ہاتھ ہو وہ ہدایت پر ہوتی ہے۔ 📘✍️اور جماعت اس میں لکھا ہے کہ لن تجتمع امتی علی ضلالۃ یعنی میری امت گمراہی پر جمع نہی ہوگی اور پھر فرمایا جماعت کے ساتھ ہو جاو اور پھر فرمایا کہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔✍️ ✍️جس نے سواد الاعظم نہی کہنا وہ جماعت بول لے اگر جماعت نہی کہنا بڑا گروہ بول لے اگر یہ نہی بولنا تو سواد الاعظم بول لیں۔✍️۔ امید کرتا ہوں سمجھ لگ گئی ہوگی۔ اس پر مزید دلائل دیے جا سکتے ہیں لیکن وقت کی قلت اور حق شناس کے لیے اتنا کافی ہے۔ اعتراض وہابیہ بعض احادیث میں آیا کہ حق والوں کی تعداد کم ہوجاۓ گی۔ الجواب اس مراد ہ نہی کہ ہمیشہ کے لیے کم رہے گی جناب بلکہ کچھ عرصہ کے لیے کم ہو سکتی جیسا آپ جانتے ہیں جب عیسیؑ بطور امتی بن کر آئیں گے تو سب ان کے ساتھ ہوجائیں گے اور وہ حق پر ہی ہوں گے۔ اور دوسری بات تعداد ہماری اہل سنت کی کم ہوگی تو پوری بھی ہوجاۓ گی۔ جیسا کہ تم لوگ ان کو بھولے بھالے سنیوں کو ورغلہ کے لے جاتے ہو جب ان کو سمجھ لگتی ہے تو وہ لوگ اکثر سنی ہوجاتے ہیں۔ اور آپ لوگوں کے بڑے علماء سنی ہوتے ہیں اور ہمارے اکثر جاہل کم علم وہابی ہوتے ہیں۔ جہالت ایک جگہ اور اہل علم الگ تو ہونے ہیں نہ۔ ورنہ بعدوار کی پیدا تو آپ لوگ ہیں وہابیہ جی کوئی بنا 1860. میں تو کوئی۔1886. میں کسی نے لیا انگریز سے نام بھیک مانگ کے تو کسی نے ہندوں کے تلوے چاٹ کے جو کہ آج بھی اپنے مدرسہ میں ہندوؤں کو بلوانے سے نہی رکتے۔اپنی کم عقلی کم سمجھی اپنے پاس رکھو۔ (طالب دعا: محمد عمران علی حیدری) 22.08.2021. 13محرم الحرام 1443
    1 point
  3. ⛲ امت شرک نہی کرے گی⛲ ✍️نبی علیہ السلام نے قسم کھا کے فرمایا کہ تم میرے بعد شرک نہی کرو گے۔✍️ ✍️شرک والوں کے درمیان تم لوگ اس طرح ہوگے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں یا سرخ جسم پر سیاہ بال✍️ یا اللہ عزوجل یارسول اللہ صلو علیہ وآلہ واصحابہ وسلم الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہ وعلی الک واصحبک یامحمد الرسول اللہ۔ 📚 1 : حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ , عَنْ عُقْبَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ , ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ , وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ , وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ , أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ , وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد2 حدیث4085) ھذا حدیث صحیح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا۔ میں اب بھی اپنے (ملکیت ہے تو فرمایا اپنے )حوض (حوض کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا «مفاتيح الأرض» یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📘 2 : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ , أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ , أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ , عَنْ حَيْوَةَ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ , عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ , قَالَ : صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَتْلَى أُحُدٍ بَعْدَ ثَمَانِي سِنِينَ كَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْيَاءِ وَالْأَمْوَاتِ , ثُمَّ طَلَعَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ : إِنِّي بَيْنَ أَيْدِيكُمْ فَرَطٌ , وَأَنَا عَلَيْكُمْ شَهِيدٌ , وَإِنَّ مَوْعِدَكُمُ الْحَوْضُ وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَيْهِ مِنْ مَقَامِي هَذَا , وَإِنِّي لَسْتُ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا أَنْ تَنَافَسُوهَا , قَالَ : فَكَانَتْ آخِرَ نَظْرَةٍ نَظَرْتُهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (صحیح بخاری جلد2حدیث 4042.) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ سال بعد یعنی آٹھویں برس میں غزوہ احد کے شہداء پر نماز جنازہ ادا کی۔ جیسے آپ زندوں اور مردوں سب سے رخصت ہو رہے ہوں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ”میں تم سے آگے آگے ہوں، میں تم پر گواہ رہوں گا اور مجھ سے ( قیامت کے دن ) تمہاری ملاقات حوض ( کوثر ) پر ہو گی۔ اس وقت بھی میں اپنی اس جگہ سے حوض ( کوثر ) کو دیکھ رہا ہوں۔ تمہارے بارے میں مجھے اس کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ تم شرک کرو گے، ہاں میں تمہارے بارے میں دنیا سے ڈرتا ہوں کہ تم کہیں دنیا کے لیے آپس میں مقابلہ نہ کرنے لگو۔“ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ آخری دیدار تھا جو مجھ کو نصیب ہوا۔ (محمد عمران علی حیدری) 📙 3: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ شُرَحْبِيلٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ: إِنِّي فَرَطُكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ إِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ خَزَائِنَ مَفَاتِيحِ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ بَعْدِي أَنْ تُشْرِكُوا وَلَكِنْ أَخَافُ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد2 حدیث3596) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مدینہ سے باہر نکلے اور شہداء احد پر نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں ( حوض کوثر پر ) تم سے پہلے پہنچوں گا اور قیامت کے دن تمہارے لیے میر سامان بنوں گا۔ میں تم پر گواہی دوں گا اور اللہ کی قسم میں اپنے حوض کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں، مجھے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے۔ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا داری میں پڑ کر ایک دوسرے سے رشک و حسد نہ کرنے لگو۔ (محمد عمران علی حیدری) 📗 4: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد2 حدیث1344) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ دیکھو میں تم سے پہلے جا کر تمہارے لیے میر ساماں بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اور قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( یہ فرمایا کہ ) مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📖 5 : حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا ، فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ : إِنِّي فَرَطُكُمْ ، وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي ، وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد3 حدیث6426) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور جنگ احد کے شہیدوں کے لیے اس طرح نماز پڑھی جس طرح مردہ پر نماز پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا آخرت میں میں تم سے آگے جاؤں گا اور میں تم پر گواہ ہوں گا، واللہ میں اپنے حوض کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( فرمایا کہ ) زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور اللہ کی قسم! میں تمہارے متعلق اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ مجھے تمہارے متعلق یہ خوف ہے کہ تم دنیا کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو گے۔ 📘 6: حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ ، حَدَّثَنَا وهيب ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى ثَلَاثِ طَرَائِقَ رَاغِبِينَ رَاهِبِينَ ، وَاثْنَانِ عَلَى بَعِيرٍ ، وَثَلَاثَةٌ عَلَى بَعِيرٍ ، وَأَرْبَعَةٌ عَلَى بَعِيرٍ ، وَعَشَرَةٌ عَلَى بَعِيرٍ ، وَيَحْشُرُ بَقِيَّتَهُمُ النَّارُ ، تَقِيلُ مَعَهُمْ حَيْثُ قَالُوا ، وَتَبِيتُ مَعَهُمْ حَيْثُ بَاتُوا ، وَتُصْبِحُ مَعَهُمْ حَيْثُ أَصْبَحُوا ، وَتُمْسِي مَعَهُمْ حَيْثُ أَمْسَوْا. (صحیح بخاری جلد3 حدیث6522) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لوگوں کا حشر تین فرقوں میں ہو گا ( ایک فرقہ والے ) لوگ رغبت کرنے نیز ڈرنے والے ہوں گے۔ ایک اونٹ پر دو آدمی سوار ہوں گے کسی اونٹ پر تین ہوں گے، کسی اونٹ پر چار ہوں گے اور کسی پر دس ہوں گے۔ اور باقی لوگوں کو آگ جمع کرے گی جب وہ قیلولہ کریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ ٹھہری ہو گی جب وہ رات گزاریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ وہاں ٹھہری ہو گی جب وہ صبح کریں گے تو آگ بھی صبح کے وقت وہاں موجود ہو گی اور جب وہ شام کریں گے تو آگ بھی شام کے وقت ان کے ساتھ موجود ہو گی۔ (محمد عمران علی حیدری) 📚 7: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ فِي قُبَّةٍ فَقَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ ، قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ ، قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ ، قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ، وَذَلِكَ أَنَّ الْجَنَّةَ لَا يَدْخُلُهَا إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ ، وَمَا أَنْتُمْ فِي أَهْلِ الشِّرْكِ إِلَّا كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ ، أَوْ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَحْمَرِ. (صحیح بخاری جلد3 حدیث6528) ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خیمہ میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا ایک چوتھائی رہو؟ ہم نے کہا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم ایک تہائی رہو؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم نصف رہو؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم لوگ ( امت مسلمہ ) اہل جنت کا حصہ ہو گے اور ایسا اس لیے ہو گا کہ جنت میں فرمانبردار نفس کے علاوہ اور کوئی داخل نہ ہو گا اور *تم لوگ شرک کرنے والوں کے درمیان اس طرح ہو گے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں یا جیسے سرخ کے جسم پر ایک سیاہ بال ہو۔* (محمد عمران علی حیدری) 📕 8: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ عَلَى الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ، أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي ، وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. 6590صحیح بخاری جلد3 حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور شہداء احد کے لیے اس طرح دعا کی جس طرح میت کے لیے جنازہ میں دعا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ”لوگو! میں تم سے آگے جاؤں گا اور تم پر گواہ رہوں گا اور میں واللہ اپنے حوض کی طرف اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا فرمایا کہ زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے، البتہ اس سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا کے لالچ میں پڑ کر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️نبی علیہ السلام نے امت کو شرک سے اتنا ڈرایا کہ اب یہ امید ہی نہیں کی جا سکتی کہ امت شرک کرے۔ ✍️کیوں شرک کی ممانعت قرآن و حدیث میں بہت آئی ہے اس لیے۔ ✍️یہاں تک کہ آخر میں سیدی، آقا کائنات، ذات بابرکات، نے فرمایا کہ مجھے یہ امید نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ فرمایا کہ دنیا میں راغبت کرو گے۔ ✍️قرآن کہتا ہے کہ: 📖 :وَمَا يَنۡطِقُ عَنِ الۡهَوٰىؕ ترجمہ: وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ النجم۔(03،) ✍️لہذا جن احادیث میں شرک کی وعید ہے وہ ان احادیث سے پہلے کی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اتنا ڈرایا کہ آخر فرمایا کہ میرے بعد شرک نہیں کرو گے۔ ✍️اگر سیدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ نہ فرماتے ہیں میرے بعد شرک نہیں کرو گے تو پھر امت شرک کرتی۔ ✍️لہذا جن آیات احادیث میں شرک کی ممانعت ہے ان سے واضح طو پر شرک جلی مراد ہے جو کہ امت کبھی نہ کرے گی نہ اس پر جمع ہوگی مگر کفار۔ ✍️شرک خفی ریاکاری ہے اس کا شکار گناہ میں ہوتا ہے جو جلی ہے اس سے مراد ذات واحدہ لاشریک کے ساتھ دوسرا الہ یا خدا ماننا ہے اور یہ امت کبھی نہیں کرے گی۔ ✍️امت اجابت شرک نہیں کرے گی کبھی بھی یہ صحیح احادیث سے ثابت ہو چکا ہے۔ ✍️باقی شرک ڈرایا بہت گیا ہے اور ایسا کہیں بھی نہیں کہا کے میرے بعد تم لوگ شرک کرو گے بلکہ کہا کہ میرے بعد شرک نہیں کرو گے بلکہ دنیا کی حرص میں پڑ جاو گے۔ ✍️اور کچھ خارجی مخلوق کفار اور بتوں کے بارے نازل شدہ آیات مسلمانوں پر چسپا کرتے ہیں پریشان نہ ہوں ایسے لوگوں کو خارجی کہا جاتا ان کی یہی پہچان ہے۔ ✍️ شرک کا فتوئ لگانے والے پر واپس لوٹتا ہے ہے یہ حدیث بھی پڑھ لیں۔ 📚 :37308- عن حذيفة قال قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: إن مما أتخوف عليكم رجلا قرأ القرآن حتى إذا رؤيت بهجته وكان ردء الإسلام أعره إلى ما شاء الله انسلخ منه، ونبذه وراء ظهره، وخرج على جاره بالسيف، ورماه بالشرك، قلت: يا رسول الله أيهما أولى بالشرك المرمى أو الرامى قال: لا بل الرامى۔ (أبو نعيم) [كنز العمال 8985] أخرجه أيضًا: ابن حبان (1/281، رقم81) ،والبزار(7/220، رقم 2793) ترجمہ: سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:. یعنی مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی،اور اس کی چادر (ظاہری روپ) اسلام ہوگا ۔ یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا ،پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا ، اور اپنے (مسلمان) ہمسائے پر تلوار اٹھائے گا اور اس پر شرک کا فتویٰ جڑے گا،راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یانبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ! دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا ؟ جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا ، آپ نے فرمایا : فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا) ۔ یعنی وہ فتویٰ مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہوا تھا واپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا ، اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا. ( محمد عمران علی حیدری) : الحدیث 📖: الخوارج کلاب النار۔ خوارج جہنم کے کتے ہیں۔ _____✍️ نوٹ ✍️____ _____✍️ NOTE✍️____ ✍️ خارجیت کی پہچان✍️ 📓 :وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللَّهِ، وَقَالَ: «إِنَّهُمُ انْطَلَقُوا إِلَى آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الكُفَّارِ، فَجَعَلُوهَا عَلَى المُؤْمِنِينَ» ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خارجی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے ، کیونکہ انہوں نے یہ کام کیا کہ جو آیات کافروں کے باب میں اتری تھیں ، ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا. : تخریج .وسند صحیح 1 صحيح بخاري ، كتاب استتابة) :( المرتدين والمعاندين وقتالهم ، باب : قتل (الخوارج والملحدين بعد اقامة الحجة عليهم،) 2:(الاعتصام کتاب النغی۔باب قتال الخوارج) 3:(:اسباب الخطا فی التفسیر ص975) لہذا اب کسی تاویل کی کنجائش باقی نہیں رہی سنی دوستوں اب آپ اس سے واضح طور پر سمجھ چکے ہیں۔ (ازقلم وطالب دعا: محمد عمران علی حیدری.) 26 صفر المظفر 1443ھ۔ 04.10.2021.
    1 point
  4. ⛲ امت شرک نہی کرے گی⛲ ✍️نبی علیہ السلام نے قسم کھا کے فرمایا کہ تم میرے بعد شرک نہی کرو گے۔✍️ ✍️شرک والوں کے درمیان تم لوگ اس طرح ہوگے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں یا سرخ جسم پر سیاہ بال✍️ یا اللہ عزوجل یارسول اللہ صلو علیہ وآلہ واصحابہ وسلم الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہ وعلی الک واصحبک یامحمد الرسول اللہ۔ 📚 1 : حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ , عَنْ عُقْبَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ , ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ , وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ , وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ , أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ , وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد2 حدیث4085) ھذا حدیث صحیح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا۔ میں اب بھی اپنے (ملکیت ہے تو فرمایا اپنے )حوض (حوض کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا «مفاتيح الأرض» یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📘 2 : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ , أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ , أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ , عَنْ حَيْوَةَ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ , عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ , قَالَ : صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَتْلَى أُحُدٍ بَعْدَ ثَمَانِي سِنِينَ كَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْيَاءِ وَالْأَمْوَاتِ , ثُمَّ طَلَعَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ : إِنِّي بَيْنَ أَيْدِيكُمْ فَرَطٌ , وَأَنَا عَلَيْكُمْ شَهِيدٌ , وَإِنَّ مَوْعِدَكُمُ الْحَوْضُ وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَيْهِ مِنْ مَقَامِي هَذَا , وَإِنِّي لَسْتُ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا أَنْ تَنَافَسُوهَا , قَالَ : فَكَانَتْ آخِرَ نَظْرَةٍ نَظَرْتُهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (صحیح بخاری جلد2حدیث 4042.) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ سال بعد یعنی آٹھویں برس میں غزوہ احد کے شہداء پر نماز جنازہ ادا کی۔ جیسے آپ زندوں اور مردوں سب سے رخصت ہو رہے ہوں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ”میں تم سے آگے آگے ہوں، میں تم پر گواہ رہوں گا اور مجھ سے ( قیامت کے دن ) تمہاری ملاقات حوض ( کوثر ) پر ہو گی۔ اس وقت بھی میں اپنی اس جگہ سے حوض ( کوثر ) کو دیکھ رہا ہوں۔ تمہارے بارے میں مجھے اس کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ تم شرک کرو گے، ہاں میں تمہارے بارے میں دنیا سے ڈرتا ہوں کہ تم کہیں دنیا کے لیے آپس میں مقابلہ نہ کرنے لگو۔“ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ آخری دیدار تھا جو مجھ کو نصیب ہوا۔ (محمد عمران علی حیدری) 📙 3: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ شُرَحْبِيلٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ: إِنِّي فَرَطُكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ إِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ خَزَائِنَ مَفَاتِيحِ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ بَعْدِي أَنْ تُشْرِكُوا وَلَكِنْ أَخَافُ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد2 حدیث3596) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مدینہ سے باہر نکلے اور شہداء احد پر نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں ( حوض کوثر پر ) تم سے پہلے پہنچوں گا اور قیامت کے دن تمہارے لیے میر سامان بنوں گا۔ میں تم پر گواہی دوں گا اور اللہ کی قسم میں اپنے حوض کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں، مجھے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے۔ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا داری میں پڑ کر ایک دوسرے سے رشک و حسد نہ کرنے لگو۔ (محمد عمران علی حیدری) 📗 4: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد2 حدیث1344) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ دیکھو میں تم سے پہلے جا کر تمہارے لیے میر ساماں بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اور قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( یہ فرمایا کہ ) مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📖 5 : حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا ، فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ : إِنِّي فَرَطُكُمْ ، وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي ، وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد3 حدیث6426) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور جنگ احد کے شہیدوں کے لیے اس طرح نماز پڑھی جس طرح مردہ پر نماز پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا آخرت میں میں تم سے آگے جاؤں گا اور میں تم پر گواہ ہوں گا، واللہ میں اپنے حوض کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( فرمایا کہ ) زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور اللہ کی قسم! میں تمہارے متعلق اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ مجھے تمہارے متعلق یہ خوف ہے کہ تم دنیا کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو گے۔ 📘 6: حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ ، حَدَّثَنَا وهيب ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى ثَلَاثِ طَرَائِقَ رَاغِبِينَ رَاهِبِينَ ، وَاثْنَانِ عَلَى بَعِيرٍ ، وَثَلَاثَةٌ عَلَى بَعِيرٍ ، وَأَرْبَعَةٌ عَلَى بَعِيرٍ ، وَعَشَرَةٌ عَلَى بَعِيرٍ ، وَيَحْشُرُ بَقِيَّتَهُمُ النَّارُ ، تَقِيلُ مَعَهُمْ حَيْثُ قَالُوا ، وَتَبِيتُ مَعَهُمْ حَيْثُ بَاتُوا ، وَتُصْبِحُ مَعَهُمْ حَيْثُ أَصْبَحُوا ، وَتُمْسِي مَعَهُمْ حَيْثُ أَمْسَوْا. (صحیح بخاری جلد3 حدیث6522) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لوگوں کا حشر تین فرقوں میں ہو گا ( ایک فرقہ والے ) لوگ رغبت کرنے نیز ڈرنے والے ہوں گے۔ ایک اونٹ پر دو آدمی سوار ہوں گے کسی اونٹ پر تین ہوں گے، کسی اونٹ پر چار ہوں گے اور کسی پر دس ہوں گے۔ اور باقی لوگوں کو آگ جمع کرے گی جب وہ قیلولہ کریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ ٹھہری ہو گی جب وہ رات گزاریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ وہاں ٹھہری ہو گی جب وہ صبح کریں گے تو آگ بھی صبح کے وقت وہاں موجود ہو گی اور جب وہ شام کریں گے تو آگ بھی شام کے وقت ان کے ساتھ موجود ہو گی۔ (محمد عمران علی حیدری) 📚 7: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ فِي قُبَّةٍ فَقَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ ، قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ ، قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ ، قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ، وَذَلِكَ أَنَّ الْجَنَّةَ لَا يَدْخُلُهَا إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ ، وَمَا أَنْتُمْ فِي أَهْلِ الشِّرْكِ إِلَّا كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ ، أَوْ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَحْمَرِ. (صحیح بخاری جلد3 حدیث6528) ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خیمہ میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا ایک چوتھائی رہو؟ ہم نے کہا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم ایک تہائی رہو؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم نصف رہو؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم لوگ ( امت مسلمہ ) اہل جنت کا حصہ ہو گے اور ایسا اس لیے ہو گا کہ جنت میں فرمانبردار نفس کے علاوہ اور کوئی داخل نہ ہو گا اور *تم لوگ شرک کرنے والوں کے درمیان اس طرح ہو گے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں یا جیسے سرخ کے جسم پر ایک سیاہ بال ہو۔* (محمد عمران علی حیدری) 📕 8: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ عَلَى الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ، أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي ، وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. 6590صحیح بخاری جلد3 حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور شہداء احد کے لیے اس طرح دعا کی جس طرح میت کے لیے جنازہ میں دعا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ”لوگو! میں تم سے آگے جاؤں گا اور تم پر گواہ رہوں گا اور میں واللہ اپنے حوض کی طرف اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا فرمایا کہ زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے، البتہ اس سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا کے لالچ میں پڑ کر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️نبی علیہ السلام نے امت کو شرک سے اتنا ڈرایا کہ اب یہ امید ہی نہیں کی جا سکتی کہ امت شرک کرے۔ ✍️کیوں شرک کی ممانعت قرآن و حدیث میں بہت آئی ہے اس لیے۔ ✍️یہاں تک کہ آخر میں سیدی، آقا کائنات، ذات بابرکات، نے فرمایا کہ مجھے یہ امید نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ فرمایا کہ دنیا میں راغبت کرو گے۔ ✍️قرآن کہتا ہے کہ: 📖 :وَمَا يَنۡطِقُ عَنِ الۡهَوٰىؕ ترجمہ: وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ النجم۔(03،) ✍️لہذا جن احادیث میں شرک کی وعید ہے وہ ان احادیث سے پہلے کی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اتنا ڈرایا کہ آخر فرمایا کہ میرے بعد شرک نہیں کرو گے۔ ✍️اگر سیدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ نہ فرماتے ہیں میرے بعد شرک نہیں کرو گے تو پھر امت شرک کرتی۔ ✍️لہذا جن آیات احادیث میں شرک کی ممانعت ہے ان سے واضح طو پر شرک جلی مراد ہے جو کہ امت کبھی نہ کرے گی نہ اس پر جمع ہوگی مگر کفار۔ ✍️شرک خفی ریاکاری ہے اس کا شکار گناہ میں ہوتا ہے جو جلی ہے اس سے مراد ذات واحدہ لاشریک کے ساتھ دوسرا الہ یا خدا ماننا ہے اور یہ امت کبھی نہیں کرے گی۔ ✍️امت اجابت شرک نہیں کرے گی کبھی بھی یہ صحیح احادیث سے ثابت ہو چکا ہے۔ ✍️باقی شرک ڈرایا بہت گیا ہے اور ایسا کہیں بھی نہیں کہا کے میرے بعد تم لوگ شرک کرو گے بلکہ کہا کہ میرے بعد شرک نہیں کرو گے بلکہ دنیا کی حرص میں پڑ جاو گے۔ ✍️اور کچھ خارجی مخلوق کفار اور بتوں کے بارے نازل شدہ آیات مسلمانوں پر چسپا کرتے ہیں پریشان نہ ہوں ایسے لوگوں کو خارجی کہا جاتا ان کی یہی پہچان ہے۔ ✍️ شرک کا فتوئ لگانے والے پر واپس لوٹتا ہے ہے یہ حدیث بھی پڑھ لیں۔ 📚 :37308- عن حذيفة قال قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: إن مما أتخوف عليكم رجلا قرأ القرآن حتى إذا رؤيت بهجته وكان ردء الإسلام أعره إلى ما شاء الله انسلخ منه، ونبذه وراء ظهره، وخرج على جاره بالسيف، ورماه بالشرك، قلت: يا رسول الله أيهما أولى بالشرك المرمى أو الرامى قال: لا بل الرامى۔ (أبو نعيم) [كنز العمال 8985] أخرجه أيضًا: ابن حبان (1/281، رقم81) ،والبزار(7/220، رقم 2793) ترجمہ: سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:. یعنی مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی،اور اس کی چادر (ظاہری روپ) اسلام ہوگا ۔ یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا ،پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا ، اور اپنے (مسلمان) ہمسائے پر تلوار اٹھائے گا اور اس پر شرک کا فتویٰ جڑے گا،راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یانبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ! دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا ؟ جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا ، آپ نے فرمایا : فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا) ۔ یعنی وہ فتویٰ مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہوا تھا واپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا ، اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا. ( محمد عمران علی حیدری) : الحدیث 📖: الخوارج کلاب النار۔ خوارج جہنم کے کتے ہیں۔ _____✍️ نوٹ ✍️____ _____✍️ NOTE✍️____ ✍️ خارجیت کی پہچان✍️ 📓 :وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللَّهِ، وَقَالَ: «إِنَّهُمُ انْطَلَقُوا إِلَى آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الكُفَّارِ، فَجَعَلُوهَا عَلَى المُؤْمِنِينَ» ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خارجی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے ، کیونکہ انہوں نے یہ کام کیا کہ جو آیات کافروں کے باب میں اتری تھیں ، ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا. : تخریج .وسند صحیح 1 صحيح بخاري ، كتاب استتابة) المرتدين والمعاندين وقتالهم ، باب : قتل (الخوارج والملحدين بعد اقامة الحجة عليهم،) 2:(الاعتصام کتاب النغی۔باب قتال الخوارج) 3:(:اسباب الخطا فی التفسیر ص975) لہذا اب کسی تاویل کی کنجائش باقی نہیں رہی سنی دوستوں اب آپ اس سے واضح طور پر سمجھ چکے ہیں۔ (ازقلم وطالب دعا: محمد عمران علی حیدری.) 26 صفر المظفر 1443ھ۔ 04.10.2021.
    1 point
  5. اصلی اہل حدیث اور جعلی اہل حدیث ⛲ بسم اللہ الرحمن الرحیم ⛲ یا اللہ جَلَّ جَلَالُہٗ یارسول ﷺ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہ _________________________ : ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہی 1: "وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْحَدِيثِ فِي هَذَا فَقَالَ بَعْضُهُمْ حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ رَاشِدٍ عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَصَحُّ وَقَالَ بَعْضُهُمْ حَدِيثُ حُصَيْنٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَى وَهَذَا عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو ابْنِ مُرَّةَ"۔ (ترمذی، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَاجَاءَ فِي الصَّلَاةِ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ،حدیث نمبر:۲۱۳،) ترجمہ:اہلحدیث کا اس میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں عمروبن مرہ کی روایت زیادہ صحیح اور بعض کہتے ہیں حصین کی روایت زیادہ صحیح ہے۔ (محمد عمران علی حیدری) اس سے ثابت ہوا امام ترمذی اہل حدیث سے مراد محدثین کو لیتے ہیں۔ نہ کہ موجودہ دور کا نام نہاد فرقہ مراد ہے بلکہ اس وقت تو اس فرقہ کا وجود ہی نہیں تھا۔ ✍️شیر کی کھال میں گیڈر آجاۓ تو وہ گیڈر ہی رہے گا شیر نہیں بن سکتا۔✍️ 2 :الانصاری المدینی کے بارے میں لکھتے ہیں: "لَيْسَ ہُوَبِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ"۔ (ترمذی:۱/۲۱) ترجمہ:وہ اہلحدیث کے ہاں قوی نہیں ہے۔ (محمد عمران علی حیدری) (اب بتاو امام ترمذیؒ فرما رہے ہیں کہ وہ (راوی) اہلحدیث کے ہاں قوی نہیں آج کے نام نہاد اہلحدیث فرقہ کے اکثر عوام کو بیت الخلاء جانے کی دعا نہیں آتی وہ سند حدیث کو کیا جانیں گے میں کہتا ہوں ان کو یہ بھی پتہ نہیں ہوگا کہ سند حدیث کیا ہوتا ہے۔ وہ کسی راوی کو ضعف صدوق ثقہ کیسے جانیں گے؟ ھھھ) ✍️ایک اور راوی کے بارے میں لکھتے ہیں: 3: "تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ"۔ (ترمذی،كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ،بَاب مَنَاقِبِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،حدیث نمبر:۳۶۹۹،) ترجمہ:اس میں بعض اہلحدیث نے حفظ کی رو سے کلام کیا ہے۔ (محمد عمران علی حیدری) اب بتائیں امام ترمذیؒ نے یہاں بھی لفظ اہلحدیث استعمال کیا ہے اور فرمایا کیا ہے کہ اہلحدیث(محدثین) نے اس راوی کا حفظ(حافظہ) پر کلام کیا ہے۔ پھرایک اور جگہ لکھتے ہیں: 4: "وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ"۔ (ترمذی،كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي الْحَضَرِ،حدیث نمبر:۱۷۳) ترجمہ:وہ اہلِ حدیث کے ہاں ضعیف ہے۔ (محمد عمران علی حیدری) لو جی ایک اور راوی کے بارے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہلحدیث(محدثین) کے نزدیک یہ راوی ضعیف ہے۔ امام ترمذی اہلحدیث کوکہیں کہیں اصحاب الحدیث کہہ کربھی ذکر کرتے ہیں، حدیث "لاتزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق" کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان سے مراد اصحاب الحدیث ہیں، 5: امام بخاری نے بھی تصریح کی ہےکہ اس سے مراد لعم حدیث(حدیث کا علم رکھنے والے)کے ماہراہل العلم ہیں۔ (بخاری:۲/۱۰۸۷) (محمد عمران علی حیدری) ✍️اب کیا کہیں گے نام نہاد اہلحدیث انگریزوں سے لیا ہوا نام اور بدنام کر رہے ہیں محدثین کو اللہ اپنی پناہ میں رکھے آمین۔ 6: خطیب بغدادیؒ (۴۶۲ھ) ابوعبداللہ الحاکم کے اس زعم پرکہ حدیث طیبہ اور حدیث "من کنت مولاہ" صحیحین کی شرطوں کے مطابق ہیں، جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "فانکرعلیہ اصحاب الحدیث ذلک ولم یلتفتوا الی قولہ ولاصوبوہ علی فعلہ"۔ (تاریخ بغداد۵/۴۷۴) ترجمہ:اصحاب الحدیث نے اس پرانکار کیا ہے اور اس کی بات پرتوجہ نہیں کی اور اسے اس کے عمل میں درست نہیں کہا۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️یہاں اہلحدیث کو امام صاحب اصحاب الحدیث بول رہے ہیں اب کوئی نیا بندہ اٹھے اور وہ خود ہو اصحاب الحدیث کہنا شروع کر دے تو کیا ہم یہی کہیں گے ان کا تو زکر امام ترمذیؒ نے کیا بڑی پرانی جماعت ہے جبکہ سچ یہ ہے کہ اس سے مراد محدثین حدیث کا علم رکھنے والے حفاظ حدیث. 7: حافظ ابن عبدالبر مالکی (۴۶۳ھ) بھی ایک جگہ لکھتے ہیں: "وقالت فرقة من أهل الحديث: إن وطئ في الدم فعليه دينار، وإن وطئ في انقطاعه فنصف دينار ورأت فرقہ من اھل الحدیث تطویل السجود فی ذلک"۔ (تمہید:۳/۱۷۶) ترجمہ: اہل حدیث کی ایک جماعت نے کہا ہے اگراس نے ایام میں اس سے صحبت کی تواسے ایک دینار صدقہ لازم آئے گا اور بعض اہلِ حدیث نے کہا ہے کہ اس پر دراز سجدہ اس کے ذمہ ہے۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اب ادھر بتائیں جناب کہ بعض اہلحدیث سے کیا مراد ہے؟ میں بتاتا چلوں سنی دوستو اس سے مراد بعض محدثین ہیں۔ ✍️دوسری بات کہ ایک اہلحدیث کی جماعت سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کا مطلب ہے اہلحدیث کی بہت ساری جماعتیں ہیں ایسا نہی ہے؟ بالکل اس مراد یہی ہے تو یہاں نام نہاد اہلحدیث کیا مراد لیں گے کہ اب بہت ساری یا دو، تین، پانچ، یا اس سے زیادہ فرقے اہلحدیث کے نام سے پہلے موجود تھے؟؟ھھھھ۔ ✍️آو میں بتاتا ہوں سنی دوستو اس سے مراد محدثین کی جماعتیں ہیں جو آپ جانتے کوئی حدیث جمع کرنے والے تھے کوئی اسماء الرجال پر کام کرنے والے تھے ہر محدث نے اپنے ہر جماعت محدثین نے اپنا اپنا کام ہے ہے اس کا مطلب ہوا کہ بہت سارے گروہ تھے حدیث جمع حفظ اصول حدیث وغیرہ پر کام کرنے والے۔ اس سے اب سمجھ لگ گئی ہوگی ۔ إن شاءالله۔ 8 "یجوز عند اہل الحدیث التساہل فی الاسانید الضعیفۃ وروایۃ ماسوی الموضوع من الضعیف والعمل بہ"۔ (تقریب بشرح التدریب:۱۹۶) (ضرب حیدری) ترجمہ:اہلِ حدیث کے ہاں اسانید ضعیفہ میں بشرطیکہ موضوع کی حد تک نہ ہوں؛ درگزر سے کام لینا اور اس پرعمل کرنا جائز رکھا گیا ہے۔ ✍️لو جی اب کیا کہیں گے اس سے کیا مراد ہے یہاں بھی محدثین مراد ہیں حدیث پر محدثین نے کام کیا انہی کو ہی اہلحدیث کہا جاتا ہے۔ اس ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ اگر حدیث کی سند موضوع نہ ہو اس پر حدیث پر عمل جائز رکھا گیا ہے۔ 9: حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ ایک مقام پر حدیث "لَنْ تزال ھذہ الامۃ قائمۃ علی امراللہ" کی شرح میں لکھتے ہیں: "وقد جزم البخاري بأن المراد بهم أهل العلم بالآثار وقال أحمد بن حنبل إن لم يكونوا أهل الحديث فلا أدري من هم"۔ (فتح الباری:۱/۱۶۴) ترجمہ:امام بخاریؒ نے پورے یقین سے کہا ہے کہ اس سے مراد احادیث کے اہلِ علم ہیں اور امام احمد فرماتے ہیں کہ اگراس سے اہلحدیث مراد نہ ہوں تومیں نہیں جانتا کہ پھرکون لوگ مراد ہوں گے۔ (محمد عمران علی حیدری) اب اس کی میں کیا وضاحت کروں آپ لوگ خود سمجھ دار ہیں۔ بس سنی دوستو ایک بات یاد رکھو غیر کا فہم نہ لو آپ لوگ اپنے علماء سے سمجھیں اگر کچھ سمجھ نہیں آتا تو۔ 10 :شامی محقق ابنِ ہمامؒ نے لکھا ہے: "وَذَهَبَ بَعْضُ الْمُحَدِّثِينَ إلَى كُفْرِهِمْ، قَالَ ابْنُ الْمُنْذِرِ: وَلَاأَعْلَمُ أَحَدًا وَافَقَ أَهْلَ الْحَدِيثِ عَلَى تَكْفِيرِهِمْ"۔ (ردالمحتار:۳/۴۲۸) ترجمہ: بعض محدثین ان کی تکفیر کے قائل ہیں ابن المنذر نے کہا ہے میں نہیں جانتا کہ کسی نے اس پرمحدثین کی موافقت کی ہو۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️یاد رہے علامہ شامیؒ خوارج کا تذکرہ کرتے ہوۓ یہ بات فرماتے ہیں۔ 11: شیخ عبدالحق محدث دہلوی سے حدیث کی باقاعدہ اشاعت ہوئی، آپ کے دور تک لفظ اہل الحدیث اسی پرانی اصطلاح سے جاری تھا، حضرت شیخ ایک مقام پر لکھتے ہیں: "وکانوالہ اصحاب من التابعین واتباعہم وکلہم کانوا اہل الحدیث والفقہ والزھد والورع" (انوارالسنۃ لردادالجنۃ:۱٢). ترجمہ:تابعین اور تبع تابعین میں ان کے کئی ساتھی تھے اور وہ سب اہلحدیث وفقہ وزہدورع تھے۔ اہلحدیث سے مراد ترک تقلید کے نام سے ایک فقہی مسلک ہوا یہ جدید اصطلاح اسلام کی پہلی تیرہ صدیوں میں کہیں نہیں ملتی، اس کا آغاز چودھویں صدی ہجری سے ہوتا ہے؛ یایوں سمجھ لیجئے کہ تیرہویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں اس کے لیئے کچھ حالات سازگار ہوگئے تھے۔ (محمد عمران علی حیدری) 12: ہندوستان کے مشہور عالمِ دین مولانا محمدشاہ صاحب شاہجہانپوری لکھتے ہیں: "پچھلے زمانہ میں شاذ ونادر اس خیال کے لوگ کہیں ہوں توہوں؛ مگراس کثرت سے دیکھنے میں نہیں آئے؛ بلکہ ان کا نام ابھی تھوڑے ہی دنوں سے سنا ہے، اپنے آپ کوتووہ اہلحدیث یامحمدی یاموحد کہتے ہیں؛ مگرمخالف فریق میں ان کا نام غیرمقلد یاوہابی یالامذہب لیا جاتا ہے"۔ (الارشاد الی سبیل الرشاد:۱۳) (محمد عمران علی حیدری) لیں جی اب آتے نام نہاد اہلحدیثوں کے گھر کی طرف. :تاریخ نام نہاد اہلحدیث :مولوی عبدالمجید صاحب سوہدروی لکھتے ہیں "مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی نے اشاعت السنۃ کے ذریعہ اہلحدیث کی بہت خدمت کی، لفظ وہابی آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اور کاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کو اہلحدیث کے نام سے موسوم کیا گیا"۔ (سیرت ثنائی:۳۷۲)۔ (محمد عمران علی حیدری) :مولوی محمدحسین صاحب نے سیکریٹری گورنمنٹ کوجودرخواست دی اس کے آخری الفاظ یہ تھے "استعمال لفظ وہابی کی مخالفت اور اجراء نام اہلحدیث کا حکم پنجاب میں نافذ کیا جائے"۔ (اشاعۃ السنۃ:۱۱/ شمارہ نمبر:۲) (محمد عمران علی حیدری) :مشہور غیر مقلد شیخ الحدیث وہابیہ اسماعیل سلفی لکھتے ہے جماعت نے اپنا مقصد اسی دن کھو دیا تھا جِس دن سرکار انگلشیہ (انگریز) سے نیا نام اہلحدیث لیا اور تصدیق کرادی تھی ۔ (نگارشات جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 382) (محمد عمران علی حیدری) : اہلحدیث وہابی عبد القادر حصاروی لکھتے ہے انگریز گورنمنٹ نے وہابی سے اہلحدیث نام منظور کیا ۔ (فتاویٰ حصاریّہ جلد اول صفحہ نمبر 567 (محقق العصر اہلحدیث عبد القادر حصاروی ( طالب دعا: محمد عمران علی حیدری) post: 12 july 2021. 12ذولحجہ 1442ھ
    1 point
×
×
  • Create New...