Jump to content

لیڈر بورڈ

مشہور مواد

Showing content with the highest reputation on 25/05/2022 in all areas

  1. حضرت ہندہ بنت عتبہ کا سید الشہداء اسداللہ واسدالرسول حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما کا کلیجہ چبانا ثابت ہے اسے سند صحیح کے ساتھ امام احمد بن حنبل نے مسند میں روایت کیا جس میں جناب سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب کا جگر چبانے کے واضح الفاظ ہے حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ .......... فَنَظَرُوا فَإِذَا حَمْزَةُ قَدْ بُقِرَ بَطْنُهُ، وَأَخَذَتْ هِنْدُ كَبِدَهُ فَلَاكَتْهَا، فَلَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَأْكُلَهَا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَأَكَلَتْ مِنْهُ شَيْئًا " قَالُوا: لَا. قَالَ: " مَا كَانَ اللهُ لِيُدْخِلَ شَيْئًا مِنْ حَمْزَةَ النَّارَ ..... الخ چنانچہ صحابہ کرام نے دیکھا کہ حضرت حمزہ کا پیٹ چاک کردیا گیا تھا اور ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے انکا جگر نکال کر اسے چبایا تھا لیکن اسے کھا نہیں سکی تھی. تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی لاش دیکھ کر پوچھا کیا اس نے اس میں سے کچھ کھایا بھی ہے ؟؟ تو صحابہ نے عرض کیا نہیں تو نبی علیہ السلام نے فرمایا اللہ حمزہ کے جسم کے کسی بھی حصے کو جہنم میں داخل نہیں کرنا چاہتا ...... الخ ( كتاب مسند أحمد - ط الرسالة 7/419 ) بعض وہابی حضرات نے اس کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے انقطاع کا ڈھونگ رچایا اور یہ اعتراض کیا کہ امام شعبی کا ابن مسعود سے سماع نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ امام شعبی کا ابن مسعود سے سماع نہیں لیکن امام شعبی کی مراسیل عندالمحدثین صحیح اور متصل ہوتی ہیں امام عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مرسل الشعبي صحيح، لا يرسل إلا صحيحًا صحيحًا. امام شعبی کی مرسل صحیح ہوتی ہے ان کی کوئی مرسل نہیں ہوتی سوائے صحیح کے صحیح کے ( كتاب الثقات للعجلي ت قلعجي ص244 ) فقط واللہ و رسولہ اعلم باالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
    1 point
  2. یہ ان الفاظ کے ساتھ مشہور ہے إن الزنا دين إذا أقرضته ... كان الوفا من أهل بيتك فاعلم بلاشبہ زنا ایک قرض ہے، اگر تم اس قرض میں مبتلا ہوئے ہو، تو یاد رکھو! اس قرض کی ادائیگی بھی تمہارے گھر ہی سے ہوگی نہ تو یہ حدیث ہے اور نہ ہی کسی بزرگ کا قول بلکہ یہ اصول شریعت کے بھی خلاف ہے کوئی کسی کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھاتا قرآن کی نص ہے وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۚ اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی سورۃ فاطر :- 18 یہ اشعار ناصر الحدیث امام محمد بن ادریس الشافعی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب دیوان الشافعی میں موجود ہیں اسی بنیاد پر بعض لوگ اسے امام شافعی کا قول کہتے ہیں لیکن امام شافعی کی ذات مبارکہ اس سے بری ہے والحمدللہ دیوان شافعی امام شافعی سے ثابت نہیں فقط واللہ و رسولہ اعلم باالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
    1 point
  3. اس قول کے مفہوم پر ملتی جلتی ایک روایت المستدرک للحاکم (ج4، 170، رقم 7258)ہے امام حاکم نے اس کی تصحیح کی لیکن امام ذہبی نے تضعیف کی ہے جس کا ثبوت یہ ہے حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ هَانِئٍ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الصَّرَّافُ، قَالَا: ثَنَا سُوَيْدٌ أَبُو حَاتِمٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عِفُّوا عَنْ نِسَاءِ النَّاسِ تَعِفَّ نِسَاؤُكُمْ وَبَرُّوا آبَاءَكُمْ تَبَرَّكُمْ أَبْنَاؤُكُمْ وَمَنْ أَتَاهُ أَخُوهُ مُتَنَصِّلًا فَلْيَقْبَلْ ذَلِكَ مِنْهُ مُحِقًّا كَانَ أَوْ مُبْطِلًا فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ لَمْ يَرِدْ عَلَيَّ الْحَوْضَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ " [التعليق - من تلخيص الذهبي] بل سويد ضعيفحضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:لوگوں کی عورتوں کو پاکدامن رکھو،(بدلے میں)تمہاری عورتوں کو پاکدامن رکھا جائے گا،تم اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو،تمہاری اولادیں تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں گی،جس شخص کے پاس اس کا بھائی لاچار ہوکر آئے،اس کو چاہئے کہ اپنے بھائی کی بات کو مانے خواہ حق پر ہویا ناحق ہو۔اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو میرے حوض کوثر پر مجھ سے نہیں مل سکےگا۔ اور امام ابن حجر عسقلانی نے بھی امام ذہبی کے قول کو برقرار رکھا۔ اتحاف المھرہ، رقم 20067 اس طرح کی اور روایات ہیں لیکن کوئی بھی ضعف سے خالی نہیں۔ واللہ اعلم
    1 point
  4. اس روایت کی سند میں حماد سے مراد حماد بن سلمہ ہی ہیں اس بات کی تصریح دوسری سند سے مل گئی ہے جس کا ثبوت یہ ہے قال أخبرنا عفان بن مسلم قال أخبرنا حماد بن سلمة قال أخبرنا عطاء بن السائب عن الشعبي عن بن مسعود قال قال أبو سفيان يوم أحد قد كانت في القوم مثلة وإن كانت لعن غير ملا مني ما أمرت ولا نهيت ولا أحببت ولا كرهت ساءني ولا سرني قال ونظروا فإذا حمزة قد بقر بطنه وأخذت هند كبده فلاكتها فلم تستطيع هند أن تأكلها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أكلت منها شيئا قالوا لا قال ما كان الله ليدخل شيئا من حمزة النار الطبقات الکبری لابن سعد، ج 3، ص13
    1 point
×
×
  • Create New...