Jump to content

Mustafvi

Under Observation
  • کل پوسٹس

    196
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    1

پوسٹس ںے Mustafvi کیا

  1. خالی معذرت نہ کرتے جائیں،یہ بھی تو بتائیں کہ آپکے نزدیک اب وہ روایت طبرانی کس درجے کی ہے؟

     

    میرے نزدیک تو طبرانی کی روایت اب بھی ضعیف ہی ہے

     

    خود سے محقق بننے کی کوشش کریں گے تو انجام یہی ہوگا۔

     

     

    غلطیاں تو بڑے بڑوں سے ہو جاتی ہیں میں کس شمار میں ہوں  ؟

    غلطی کا علم  ہو جائے تو اصرار نہیں کرنا چاہئے بلکہ اقرار کر لینا چاہئے جو میں نے کر لیا

    اب کوئی اس کا تمسخر اڑائے تو وہ اس کا اپنا ظرف ہے

     

    میں مزید حیران تب ہوا جب ایک دو سطر نیچے خود آپکی تحریر پڑھی کہ آپ لکھ رہے ہیں: سیدتنا میمونہ رضی اللہ عنھا نے تین دن بعد راجز کا اشعار پڑھنا سنا۔۔۔۔۔۔ تو اتنا ہی کہہ کر کیوں چپ ہو گئے، آپ سے امید تھی کہ یہاں بھی سوال کردیتے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ کیوں نہ پوچھا کہ راجز تو تین دن قبل ہی یہ اشعار پڑھ چکا ہے، اب دوبارہ کیوں؟؟!!!!!۔

     

    محترم حیران ہونے کے علاوہ کبھی تفکر بھی فرما لیا کریں

     

    ذرا طبرانی کی روایت سے وہ مقام تو دکھائیں جہاں لکھا ہو کہ حضرت میمونہؓ نے تین دن قبل بھی راجز کے اشعار سنے تھے یا راجز نے اس وقت کوئی اشعار پڑھے بھی تھے

     

    روایت میں تو صرف حضرت میمونہؓ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سننا مذکور ہے

     

     

    الصلواۃ والسلام علیک یا رسول اللہ

  2. اعتزار

     

    میں نے پوسٹ نمبر 53 اور ایک دو اور مقامات پر یحی بن سلیمان نضلہ پر جرح کے حوالے سے امام بخاری اور ابو حاتم کی جرح پیش کی تھی کہ

    یہ منکر الحدیث اور لیس باالقوی ہے

     

    لیکن یہ میری غلطی تھی یہ جرح یحی بن سلیمان نضلہ پر نہیں بلکہ اس کے ہم نام راوی یحی بن سلیمان المدنی پر ہے

     

    میں اپنی غلطی کو تسلیم کرتا ہوں اور معذرت چاہتا ہوں

     

      لہذا پوسٹ نمبر 53 و دیگر مقامات پر اس جرح کو اگنور کیا جائے

    اس کے ساتھ ہی میں پوسٹ نمبر 53 کے سنجیدہ اور ٹو دا پواٗنٹ جواب کا منتظر ہوں

  3. آئیے اَب یہی واقعہ ایک اور سند سے پیش ہے، اس کی سند پر کلام کریں، اگر یہ سند ضعیف ہے تو دو روایتیں

    مل کر یہ قوی ہوئی یا نہیں ؟اگر ضعیف نہیں تو مان لیں کہ فریاد کی جاسکتی ہے۔

    اس روایت میں لبیکم کے الفاظ ہیں یعنی میں حاضر ہوں

     

    اس دوسری روایت میں بھی کوئی ذکر نہیں ہے کہ راجز نے تین دن کی مسافت سے پکارا تھا صرف اتنا ہے جب اس نے ندا دی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت غسل فرما رہے تھے۔

  4. محترم جناب خلیل رانا صاحب

    (bis)

    مصطفوی صاحب

    آپ نے راوی اور روایت کے بارے میں نقائص بتائے ہیں

    اس سے روایت ضعیف ثابت کی، میں نے آپ سے سوال کیا تھاکہ

     

    ضعیف حدیث سے حضور ﷺ کی سماعت ثابت ہورہی ہے،آپ کہتے ہیں کہ یہ سماعت معجزہ ہے ، اَب آپ بتائیں کہ

    اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں ایک ایسا فرشتہ ہے جسے اس نے تمام مخلوق کی آوازوں کی قوت شنوائی دے رکھی ہے۔

    آپ بتائیں کہ کیا یہ قوت سماعت ہر وقت ہوتی ہے یا معجزہ اور کرامت کی طرح عارضی؟

    اسی طرح ایک اور حدیث ہے

    جو بندہ دُرود پڑھتا ہے خواہ وہ کہیں ہو اس  کی آواز مجھے پہنچ جاتی ہے۔

    کیا یہ سماعت معجزہ کے طور پر عارضی ہے ؟

    اگر حضور نبی کریم ﷺ نےاللہ تعالیٰ کے عطا کردہ فضل و کمال سے اس صحابی کی پکار سن لی تو آپ کی توحید کو اس سے کیا دھکا لگ رہا ہے ؟

    آپ کو حضور نبی کریم ﷺ کے فضائل وکمالات سے چڑ کیوں ہے؟

    ذکر روکے فضل کاٹے نقص کا جویاں رہے

    پھر کہے مردک کہ ہوں اُمت رسول اللہ کی ؟

     

    فرشتے والی بات کا موضوع زیر بحث سے کیا تعلق بنتا ہے ؟؟

    آپ نے فرشتے کے حوالے سے جو تفصیلات پوچھی ہیں مجھے ان کے بارے معلوم نہیں ہے

     

    اور میرا خیال ہے کہ وہ فرشتہ درود شریف سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک بمعہ نام پہنچاتا ہے ساری مخلوق کی ساری آوازیں سننے کا علم نہیں

    بہرحال وہ روایت پیش کریں گے تو معلوم ہو گا

     

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک آواز پہنج جاتی ہے کب کیسے وغیرہ کی تفصیلات معلوم نہیں ہیں

     

    معاذ اللہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل سے کیوں چڑ ہو گی ؟؟؟؟؟

     

    مسئلہ زیر بحث تو دور سے مدد مانگنے کا ہے نہ کہ فضائل کا

    آپ اصل موضوع کو چھوڑ کر بحث کو دوسری طرف لے جا رہے ہیں ۔

     

     

     

  5. احمد لاہوری بھائی

     

    چکر میں نہ پڑنے سے مراد یہ ہے کہ میں اس بحث کے چکر میں نہیں پڑتا کہ یہ شرک ہے یا نہیں یا جائز ہے یا  نہیں

     

    میرے نزدیک قرآن و حدیث کی کسی صحیح مستند اور واضح دلیل سے دور سے مدد مانگنے کا کوئی ثبوت نہیں

     

    برادر محمد افان

     

    Hadees shareef parh kar btyen key kiya Allah rab ul izzat key hute huwy nabi kareem s.a.w nei Hazrat Jibraeal A.s se madad talab karna seekha rhy hain ya nhi ?? Agar han tu kiya

     

    آپ نے ماشا،اللہ کافی محنت کی ہے لیکن سعی لا حاصل

    اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرائیلؑ سے مدد طلب کرنا نہیں سکھا رہے بلکہ

    اللہ سے دعا کر رہے  ہیں کہ

    اے اللہ اس کی روح القدس سے مدد فرما

  6. تمام احباب کی خدمت میں

    اسلام علیکم

     

    میں نے اس تھریڈ میں فتح الباری کی معجم الکبیر الطبرانی سے پیش کردہ ایک روایت جس سے صحابہ کرام کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دور سے مدد مانگنے کا ثبوت

    پیش کیا جا رہا تھا پر سندا کچھ عرض کیا تھا

    اصولی طور پر بات صرف روایت کے حوالے تک ہی رہنی چاہئے تھی لیکن بعض اہل علم دوستوں نے بات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا

    اب میں یہاں فائنلی اپنا موقف اس روایت کے حوالے سے پیش کر کے اجازت چاہوں گا کیونکہ بحث برائے بحث کا کچھ حاصل نہیں

     

    طبرانی کی اس روایت میں ایک راوی ہے

    یحی سلیمان بن نضلہ

     

    اس راوی کی تعدیل بھی موجود ہے اور اس پر جرح بھی موجود ہے

     

    اس کی تعدیل کچھ یوں ہے

     

    ذکرہ ابن حبان فی الثقات

    قال ابن عدی ۔۔۔ أحاديث عامتها مستقيمة.

     

    اس پر جرح یہ ہے

     

    قال امام ابن ہیثمی ۔۔۔۔۔ ھو ضعیف

    قال ابن حبان ۔۔۔۔۔ یخطی ویھم

     

    قال ابو حاتم ۔۔۔۔ ليس هو بالقوى

     

    امام بخاری ۔۔۔۔ منکر الحدیث

     

    وقال ابن عقدة: سَمِعتُ ابن خراش يقول: لا يسوى شيئا

     

    اب جو راوی ضعیف ہو ۔۔ غلطیاں کرتا ہو اور اسے وہم ہو جاتا ہو ۔۔۔۔ جو قوی بھی نہ ہو ۔۔۔ جو منکر حدیث ہو اور کسی کھاتے میں نہ ہو

     

    تو ایسے راوی کی بیان کردہ روایت سے صحابہ کرام کا عقیدہ بیان کرنا بالکل بھی مناسب نہیں

     

    اس کے بعد ایک اور راوی ہے

     

    محمد بن نضلہ

    ان کے بارے میں صرف یہ معلوم ہے کہ یہ مذکورہ بالا راوی کے چچا ہیں

     

    اس کے علاوہ ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ کیسا آدمی تھا اب اس مجہول الحال راوی کی روایت کا کیا اعتبار ؟؟

     

    اس کے بعد اس روایت کے متن پر آ جائیں

     

    حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں نے آپ کو کسی انسان سے باتیں کرتے ہوئے یہ یہ کہتے سنا ہے کیا آپ کے پاس کوئی موجود تھا ؟

    فھل کان معک احد ؟

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ راجز ہے ۔۔۔۔ الخ

     

    اب اس سوال اور جواب کو سامنے رکھتے ہوئے خود ہی انصاف فرمائیں کہ کیا اس سوال و جواب سے حضرت میمونہ ؓ کے گمان میں بھی یہ بات آئی ہو گی کہ راجز یہاں موجود نہیں تھا بلکہ تین دن کی مسافت پر تھا ؟

    اس سوال جواب کے بعد روایت میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکل کر حضرت عائشہ ؓ کے پاس گئے اور سامان جہاد کی تیاری وغیرہ کا کہا

    اس کے بعد حضرت میمونہؓ فرماتی ہیں کہ

    فااقمنا ثلاثا

    ہم تین دن ٹھہرے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی تو راجز نے اشعار پڑھے 

  7. محترم خلیل رانا صاحب

    آپ نے درود شریف کے حوالے سے جو بات کہی ہے وہ موضوع بحث سے تعلق نہیں رکھتی

     

    اس حوالے سے میری اہل حدیث سے جو گفتگو ہوئی تھی وہ میں اسی فورم پر پیش کر چکا ہوں  وہاں نظر دوڑا لیں

     

    http://www.islamimehfil.com/topic/19770-%D8%B5%D9%84%D9%88%D8%A7%D8%AA-%D9%88%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D8%B6%D9%88%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%A7%DB%81%D9%84-%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB%D9%88%DA%BA-%D8%B3%DB%92-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%DA%AF%D9%81%D8%AA%DA%AF%D9%88/

  8.  
    آپ نے میرے تمام سوالوں کے جواب نہیں دئیے اور نہ میری آخری پوسٹ کو صحیح طرح پڑھا۔آپ اپنی پہلی روش بدلیں کیونکہ آپ کو ابھی تک اصل نزاعی امر کا علم ہی نہیں ہے۔ خواہ مخواہ وقت کے ضیاع کا باعث نہ بنیں۔ آپ اپنا موقف پیش کریں غیر محتمل انداز میں کہ مقربینِ خدا سے استمداد شرعاََ جائز ہے یا نہیں چاہے وہ قریب  ہوں یا دور؟ پہلے

     

    میرے بھائی

    میں اپنا موقف پیش کئے دیتا ہوں

    میں جائز ناجائز کے چکر میں نہیں پڑھتا لیکن میرے علم کی حد تک

    مقربین خدا سے حیات میں یا بعد از وفات دور سے مدد مانگنے کی قرآن و حدیث سے کوئی مستند اور صحیح دلیل موجود نہیں ہے

     

     

     

    ایک اور بات کنفرم کرتے جائیں تاکہ آئندہ کبھی بوقت ضرورت کام آ سکے

     

    آپ کے نزدیک جرح مبہم قابل قبول نہیں ہے ؟

     

    جرح و تعدیل میں سے آپ تعدیل کو مقدم کرتے ہیں ؟

  9. محترم عقیل صاحب

    برائے مہربانی میری پوری پوسٹ کو کوٹ کرنے کی بجائے صرف متعلقہ لائن کو کوٹ کر کے جواب دے دیا کریں جیسا کہ آپ پوری پوسٹ کوٹ کرنے کے بعد کرتے ہیں ۔

    اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی النجم: ۳۸

    کہ کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسری کا بوجھ نہیں اٹھاتی

     

    تو پھر امام بخاری کا بوجھ آپ میرے پر کیوں ڈال رہے ہیں اگر انہوں نے کسی پر جرح کر کے پھر خود ہی اس سے ہی روایت کی ہے تو اس کا جواب دہ میں کیسے ہوا؟

    سندوں اور روایات کے علاوہ آپ کا دارومدار  اور کس چیز پر ہے ؟؟؟؟

     

    قرآن مجید فرقانِ حمید پر نہیں ہے؟؟ اقوالِ امام پر نہیں ہے؟؟ آپ کے اصولِ حدیث پر ہرگز نہیں ہے۔

     

    بات تو حدیث کے حوالے سے چل رہی تھی ورنہ قرآن پر تو سب ہی دارو مدار رکھتے ہیں صرف آپ نہیں

    اور میری معلومات کے مطابق عقائد میں اقوال امام کی تقلید نہیں ہوتی ۔

    جب بات ہو شرک کی تو اس وقت صرف ہمارے فعل سے استدلال کیا جاتا ہے اور ہماری نیت کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے ، اب نیت و ارادہ کا دخل کیسے تسلیم کر لیا گیا؟؟ (آپ سے یہ بات اس لیے کہی جا رہی ہے کہ آپ ’’غیر مقلدین کی سی روش‘‘ والی بات سے خود کو بری نہیں کہہ رہے)۔

    آپ یہ بھی بتائیں کہ آپ کسی کے نیت و ارادے پر کیسے مطلع ہوں گے؟؟

     

     

    میں نے شرک کی بات ہی نہیں کی

    میں کیسے کسی کی نیت پر مطلع ہو سکتا ہوں جب تک وہ خود اپنی نیت کا اظہار نہ کرے

    ہم تو کہتے ہیں کہ فی الواقع مدد مانگنا ہی مقصود تھا اور یہی بات  آپ اپنی پوسٹ نمبر ۹ میں ان الفاظ میں تسلیم کر چکے بلکہ فتح الباری میں تو لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ اشعار پڑھے گئے تو ثابت ہوا کہ سامنے اشعار کا پڑھا جانا آپکو واضح طور پر تسلیم ہے (اور دور سے ’’پڑھا جانا‘‘ بھی جناب نے اپنی پوسٹ نمبر ۹ اور ۱۱ سے پلٹا کھاتے ہوئے تسلیم کیا ہے اپنی پوسٹ نمبر ۲۳ میں اگر یہ حدیث صحیح ثابت بھی ہو جائے تو اسے نبی صلی اللہ علیہ کے معجزات میں سے شمار کیا جائے گا  کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی  آپکی اس بات سے اس کے علاوہ کیا ثابت ہوتا ہے کہ اگر یہ حدیث غیر ضعیف ثابت ہوجائے (جو ہو چکی) تو آپ مان لیں گے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینۂ منورہ میں رہتے ہوئے ہی حضرت عمرو بن سالم رضی اللہ عنہ کی وہ بات سن لی تو اسکا یہ مطلب ہوا کہ وہ بات مدینہ شریف سے دور رہتے ہوئے ہی حضرت عمرو بن سالم رضی اللہ عنہ نے کہی تھی!!۔

     

    آپ کا کہنا کہ فی الواقع مدد مانگنا ہی مقصود تھا تو یہی بات تو ثبوت طلب ہے جس کا آپ ثبوت نہیں دے رہے

     

    آپ میری باتوں کو مکس کر جاتے ہیں ہر بات اپنے مقام اور سیاق و سباق کے ساتھ ہوتی ہے

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اشعار پڑھنا اور مدد طلب کرنا تو محل نزاع ہی نہیں

    اصل ثبوت تو اس بات کا دینا ہے کہ راجز نےدوران سفر اشعار پڑھے اور بطور مدد مانگنے کے پڑھے

    اور میں یہ بات پہلے بھی کہہ چکا ہوں جسے آپ میرا پلٹا کھانا کہتے ہیں کہ اگر یہ سارا واقع ایسا ہی جیسا آپ بیان کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو بھی یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہو گا

    اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ صرف ان کے اضطراب کا اظہار تھا تو پہلے اپنے اس خیال کو ثابت تو کریں اور اگر اسی پر بلا دلیل اصرار ہے تو بھی ہمیں کیا نقصان؟ کیونکہ اس طرح تو پھر بھی ثابت کہ صحابۂ کرام اپنے اضطراب میں رسول اللہ ﷺ سے ہی مدد مانگتے تھے اور ان کے اضطراب کے اظہار کا طریقہ ہمارا طریقہ ہے۔

     

    میں تو سوال کر رہا ہوں کہ کیا یہ ان کے اضطراب کا اظہار تھا ؟

    تو میں کیوں ثابت کرتا رہوں ؟

    اظہار اضطراب میں کب دوسرے کو سنانا لازم ہوتا ہے ؟

    امام ابن حجر نے جس روایت کو حسن موصول کہا ہے وہ روایت ہی اور ہے اور اس میں راجز کے مدینہ شریف ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اشعار پڑھنے کا ذکر ہے

    اس سے ہمیں کیا نقصان ہے؟؟

     

    نقصان یہ ہے کہ آپ حسن موصول کے الفاظ کواس روایت سے منسلک کر رہے تھے جس سے آپ سارا استدلال فرما رہے ہیں لیکن یہ الفاظ اس روایت سے متعلق نہیں

  10. جناب مصطفوی صاحب

    میں بھی یہی کہہ رہا تھا کہ اگر یہ حدیث ضعیف ہے تو فضائل میں معتبر ہے،راوی مجہول ہو یا متن میں اضطراب

    ہو تو حدیث موضوع نہیں ،ضعیف ہوتی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ موضوع کہہ رہے ہو۔

    آپ یہ بتائیں کہ مدینہ منورہ میں فرمانا کہ تیری مدد کی گئی، اس بات سے حضور نبی کریم ﷺ کی سماعت

    کی فضیلت ثابت ہوتی ہے یا نہیں  ؟

     

    محترم خلیل رانا صاحب

    میرا مکمل کامنٹ یہ تھا کہ

    میں نے اس روایت کو موضوع تو کہا ہی نہیں صرف ضعیف کہا ہے

     

    اور بقول آپ کے ضعیف حدیث فضائل اعمال میں جائز ہوتی ہے ۔۔۔۔ اس سے میں اتفاق کرتا ہوں لیکن یہ بات آپ بھی تسلیم کریں گے کہ ضعیف حدیث عقائد کے اندر قبول نہیں ہوتی

     

    اور یہاں اس ضعیف روایت سے اثبات عقیدہ کیا جا رہا ہے

     

    رہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سماعت کا تو یہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ اس سے نبی مکرم کا معجزہ ثابت ہو سکتا ہے اگر اس ضعیف  حدیث کو فضائل اعمال کے علاوہ صرف فضائل میں بھی حجت مان لیا جائے

  11. محترم جناب خلیل رانا صاحب

    بحوالہ پوسٹ نمبر 33

     

    میں نے اس روایت کو موضوع تو کہا ہی نہیں صرف ضعیف کہا ہے

     

    اور بقول آپ کے ضعیف حدیث فضائل اعمال میں جائز ہوتی ہے ۔۔۔۔ اس سے میں اتفاق کرتا ہوں لیکن یہ بات آپ بھی تسلیم کریں گے کہ ضعیف حدیث عقائد کے اندر قبول نہیں ہوتی

     

    اور یہاں اس ضعیف روایت سے اثبات عقیدہ کیا جا رہا ہے

     

     

    محترم جناب سعیدی صاحب

    Yehya bin Suleman bin Nadla Zaeef sahi MAGAR

    US KI RIWAYAT AHL e MADINA se MUSTAQEEM hoti he.

    Jaisa k ibne adi ne kaha aor kisi ne radd na kia.

     

    AOR

     

    Ye riwayat wo Madni Khuzai apne madni uncle se

    Woh Imam Jafar Sadiq Madni se

    Woh Imam Baqir Madni se

    Woh Imam Zainul Aabideen se

    Woh Hazrat Maimoona Madni se bian kar rahe hain

    to Riwayat MUSTAQEEM hoi.

    ابن عدی نے کہا ہے کہ یہ راوی مالک سے اور اہل مدینہ سے روایت کرتا ہے اس کی عام احادیث مستقیم ہوتی ہیں

    ابن عدی نے یہ نہیں کہا اس کی اہل مدینہ سے روایات مستقیم ہوتی ہیں

     

    اور اس راوی کے انکل کا بھی کوئی حال معلوم نہیں یعنی یہ مجہول الحال ہے

     

     

    محترم جناب عقیل صاحب

    جرح اور تعدیل کے حوالے سے چار اقوال ہیں

    اب زیادہ تکنیکی باتیں کیوں برداشت کرلیں؟

     

    ان اقوال میں سے پہلا قول زیادہ مشہور ہے

    تو آپکا جرح مبہم پیش کر کے روایت کے ضعیف ہونے کا قول آپ کی اپنی بات سے جواب پا گیا!۔

    زیادہ تکنیکی باتیں آپ کے اصرار پر برداشت کیں

    بے شک پہلا قول زیادہ مشہور ہے کیونکہ کتب میں یہی لکھا ہے اس لئے میں نے کتب کا قول لکھ دیا ہے

     

    لیکن عملی طور پر اس پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے ۔۔۔۔ بریلوی ،دیوبندی ، اہل حدیث یہ سب مخالف کی پیشکردہ جرح کو توڑنے کے لئے اس قول کا استعمال کرتے ہیں

    لیکن خود مخالف پر جرح کرتے ہوئے اکثر جروحات مبہم سے ہی کام لیتے ہیں ۔

    یہ چیز بھی مد نظر رہے کہ جروحات کا غالب حصہ مفسر نہیں ہے

    یہ انکو مضر جن کا دارومدار محض روایات اور انکی سندوں پر ہے۔

    آپکا یہ جواب آپکے پہلے استدلال کو باطل کرنے کو کافی ہے۔

     

    سندوں اور روایات کے علاوہ آپ کا دارومدار اور کس چیز پر ہے ؟؟؟؟

    دوسرے جملہ کا جواب اوپر ہو گیا ہے ۔

    جب کسی راوی پر جرح بھی ہو اور تعدیل بھی تو اس حوالے سے جمہور علما، و محدثین کے نزدیک جرح مقدم ہو گی

    میں خود تو اس پر ابھی کلام نہیں کرتا ، آپ نیچے دئیے گئے امیجز کو ملاحظہ فرمائیں اور اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں۔ آپ نے اس بات کا جواب نہیں دیا اب تک ’’آپ غیر مقلدین کی سی روش پر ہیں‘‘۔اس کے بعد بھی ’’بخاری پرستی‘‘ کا کیا کہیں گے؟

    جب آپ نے ابھی کلام ہی نہیں کیا تو میں کیا عرض کروں

    باقی جو آپ نے امجیز لگائے ہیں اس کا میرے سے کیا تعلق ؟ اس کا جواب کوئی بخاری پرست ہی دے سکتا ہے اور غالبا ان سب کا جواب کسی نے دیا بھی ہوا ہے ۔

    واقعی ہماری دلیل فعل صحابی ہی تھی لیکن مجرد یہ روایت نہیں۔ لیکن اگر معجزۂ رسول یا کرامتِ صحابی کو دلیل بنایا جائے تو بھی ہمیں کچھ نقصان نہیں ہے۔

    امام زرقانی علیہ الرحمہ کا آپ بار بار حوالہ دے رہے ہیں تو اُن کے حوالے سے جو بات آپکو درست نہیں لگ رہی ، بادلیل بتائیں۔

    مجھے تو ابھی تک یہی مجرد روایت ہی نظر آ رہی ہے جب کوئی اور پیش کریں گے تو اس پر بات ہو گی

    امام زرقانی کی ان توضیحات کو دیکھ لیں کہ یہی کنفرم نہیں ہو رہا کہ راجز نے اصل میں کیا کیا تھا ؟

    جو کچھ اس کے ذہن نے سوچا اللہ نے وحی کے ذریعے بتا دیا

     

    یا اس نے اپنے دوستوں سے گفتگو کی

     

    یا

     

    یہ سارا کچھ دوران سفر کیا تو اللہ تعالٰی عزوجل نے انکی آمد کے تین دن پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنوا دیا

     

    اب یہاں سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دور دراز سے پکارنے اور ان سے مدد مانگنے کا عقیدہ رکھتے تھے ؟؟؟؟

     

     

    اب راجز نے فرض کیا کوئی اشعار راستے میں پڑھے بھی تھے تو یہ کیسے معلوم ہو گا کہ وہ کس نیت و ارادے سے پڑھ رہا تھا

    کیا واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنا اور مدد مانگنا مقصود تھا

    یا

    یہ صرف اس کے اضطراب کے اظہار کا طریقہ تھا ۔

     

    سند تو مستقیم ثابت ہو چکی اور امام بزار کی سند تو حسن ہے!۔ دیگر اجلہ محدثین کے نام نظر نہیں آرہے؟ پچھلے پیج پر پوسٹ نمبر ۵ میں سے دیکھو۔ اور اگر ضعیف بھی ہو تو ہمیں اس سے جو نقصان ہوگا ، اسکی وضاحت آپ کے ذمے ہے۔

     

    امام ابن حجر نے جس روایت کو حسن موصول کہا ہے وہ روایت ہی اور ہے اور اس میں راجز کے مدینہ شریف ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اشعار پڑھنے کا ذکر ہے

    ۔

    حضرت عمر نے قاصدوں اور ڈاک کا نظام

    جو نظام بنایا تھا اس کم از کم خود استعمال کرنے کی ضرورت نہیں تھی

    بس نگاہ اتھاتے اور کسی بھی محاذ جنگ کو ملاحظہ فرما کر ہدایات جاری کر دیا کرتے

    آپ تقویۃ الایمان میں مذکور اس حدیث کے حوالے سے بتا دیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ڈاک کا نظام کیوں جاری فرمایا جبکہ ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ ان اسباب سے بالکل قطع تعلق ہو جاتے ، سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مبارک افعال والی آپکی بات کا جواب میں دے دوں گا۔

    تقویتہ االایمان کا میں جواب دہ نہیں ہوں

     

    اور جہاں تک بات ہے امام ابن حجر کے فتح الباری میں سکوت کی تو انہوں نے جن احادیث و روایات پر فتح الباری میں سکوت کیا ہے، ان میں ضعیف اور ضعیف جدا بلکہ موضوع روایات بھی ہیں۔

    یہ آپ کو کس نے کہا کہ انہوں نے صرف فتح الباری میں اسے پیش کیا ہے؟؟

    بات تو امام ابن حجر کے سکوت کی ہے چاہے اسی روایت پر فتح الباری میں سکوت کریں یا کسی اور کتاب میں اور جن پر ان کا سکوت ہے ان میں ضعیف اور ضعیف جدا بلکہ موضوع روایات بھی ہیں۔

     

    اگر آپ اس روایت کو ضعیف ہی کہنے پر مصر ہیں تو بھی ہمارا موقف صحیح ثابت ہوگا کیونکہ ضعیف احادیث فضائل اعمال میں بالاتفاق معتبر ہیں۔

    اور اگر اس ضعیف روایت سے آپ کے ہاں فعل صحابی ثابت نہیں ہوتا تو معجزہ کا اثبات آپ کو بالاتفاق قبول ہے اور یہ بھی ہمارے موقف کی صحت پر دال ہے۔

    ضعیف حدیث فضائل اعمال میں معتبر ہے عقائد کے باب میں نہیں

     

    باقی آپ نے جو امیجز لگائے ہیں اور غیر اللہ سے مدد مانگنے کے جا،الحق سے سکین لگائے ہیں ان میں اکثر کا تعلق وسیلہ سے ہے یا ظاہری طور پر اسمتداد سے ہے جو ہمارا موضوع ہی نہیں

  12. محترم جناب عقیل احمد
    آپ کے تفصیلی کامنٹ کا شکریہ
    بات صرف اتنی سی تھی کہ میں نے اس روایت کو ضعیف کہا تو آپ اس روایت کی صحت ثابت کر دیتے لیکن بجائے اس روایت کی صحت ثابت کرنے کے آپ کو اپنے سوالات پر اصرار ہے ۔
    لیکن شاید آپ بات کو گھما پھرا کر اصل بات سے دور رہنا چاہتے ہیں تو میں حتی الوسع آپ کے سوالات کے مختصر جوابات دئے دیتا ہوں
    تاکہ آپ کے پاس کوئی بہانہ نہ رہے ۔

     

    جرح مبہم مقبول ہے یا غیر مقبول؟

    جرح اور تعدیل کے حوالے سے چار اقوال ہیں
    پہلا
    جرح مبہم مقبول نہیں بلکہ جرح مفسر معتبر ہے

    دوسرا

    جرح بغیر سبب کے قبول کی جائے گی جبکہ تعدیل بغیر ذکر سبب کے معتبر نہیں

    تیسرا

    جرح و تعدیل دونوں بغیر ذکر سبب کے قبول ہیں

    چوتھا
    جرح و تعدیل دونوں ہی بغیر ذکر سبب کے قبول نہیں کئے جائیں گے ۔

    ان اقوال میں سے پہلا قول زیادہ مشہور ہے

    یہ چیز بھی مد نظر رہے کہ جروحات کا غالب حصہ مفسر نہیں ہے

    جاری ہے

     

    جرح و تعدیل میں تعارض ہو تو اس صورت میں آپ کسے قبول کریں گے؟

    جب کسی راوی پر جرح بھی ہو اور تعدیل بھی تو اس حوالے سے جمہور علما، و محدثین کے نزدیک جرح مقدم ہو گی

     


    ۔۔۔ اگر حدیث بلحاظ سند صحیح کے درجے سے کم اور ضعیف کے درجے سے زیادہ ثابت ہو


    جائے تو آپکا کیا رد عمل ہوگا؟

    جب ایسا ہو جائے گا تو ردعمل بھی سامنے آ جائے گا

     


    ۔۔۔ آپ نے اپنی پوسٹ نمبر ۹ اور ۱۱ میں صراحتا کہا ہے کہ فتح الباری کی روایت


    سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اشعار کہیں دور سے پڑھے گئے ، جبکہ اب آپ کہہ رہے


    ہیں کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا


    دی۔ اس پلٹا کھانے کی وجہ (آپ واضح طور پر اقرار کر رہے ہیں کہ واقعی وہ اشعار سامنے


    نہیں بلکہ تین دن کی دوری سے پڑھے گئے تھے!) ؟؟

    میرا یہ قول بطور فرض کے ہے کہ فرض کیا ایسا ہی ہے تو اس کی توجیہ یہ ہو گی

     


    ۔۔۔ جوازِ استمداد میں (آپ کے نزدیک غیر صحیح) ہماری دلیل فعلِ صحابی (دور سے اشعار پڑھ کر رسول اللہ ﷺ سے مدد طلب کرنا) تھی یا قدرتِ رسول (مدینۂ منورہ میں ہی رہتے ہوئے تین دن کی مسافت سے آواز بھی سننا، صحابی کا علم بھی ہونا، اس کے قبیلے کا بھی جان لینا، اسکا مقصد بھی معلوم ہونا وغیرہ)؟؟؟؟

    آپ کی دلیل زیادہ فعل صحابی پر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور فعل صحابی کے تعین میں ہی ابہام ہے امام زرقانی کی توضیحات دیکھ لیں

     


    ۔۔۔ اب تک یہی بات سامنے آئی ہے کہ آپ کے عدم قبولِ استمداد کی علت ضعف روایتِ مذکورہ ہے۔ یعنی آپکا انکارِ استمداد معلول بہ علت ہے تو جب علت ہی نہ رہے گی پھر بھی آپ کے نزدیک اثباتِ استمداد کیوں نہ ہوگا؟؟

    اول تو ایسا ہو گا نہیں کہ علت دور ہو جائے لیکن باالفرض ایسا ہو بھی جائے تو روایت متن کے اندر بھی ایسی کوئی واضح بات نہیں ہے محض قیاسات ہیں

     


    ۔۔۔ آپ نے اپنی پوسٹ نمبر ۲۱ اور ۲۳ میں خود اقرار کیا کہ ’’اگر غیر ضعیف ثابت ہو جائے تو بھی اس سے صحابہ کرام کا استمداد کا قائل ہونا کہیں ثابت نہیں ہوتا‘‘ تو جب آپ کے نزدیک اس سے ہمارا نظریہ ثابت ہی نہیں ہوگا اگر یہ غیر ضعیف ثابت بھی ہو جائے ، پھر آپ اسکے راویوں پر ’’جرح‘‘ کیوں بیان کر رہے ہیں؟؟ کیا ہمارا اور آپ کا اس ٹاپک میں اختلاف معجزۂ رسول میں ہے یا باب استمداد میں؟؟

    اس لئے کہ تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے جس روایت سے آپ قیاسات کر رہے ہیں وہ سندا بھی ضعیف ہے

     


    ۔۔۔ آپ نے اپنی پوسٹ نمبر ۲۹ میں کہا کہ حضرت عمر کی اس کرامت کو کلیہ کیسے بنایا جا سکتا ہے ؟ ایک جزئی واقعہ کو کل پر منطبق کرنا عجیب بات ہے تو عرض یہ ہے کہ آپ بار بار بھول جاتے ہیں یا راہ فرار اختیار کرتے ہیں کیونکہ بحث آپ استمداد میں کر رہے ہیں اور بات معجزہ کرامت کی شروع کر دیتے ہیں۔ اور اب ساتھ یہ بھی بتائیں کہ کرامت سے ثبوت کیوں نہیں لایا جا سکتا۔ رہا آپکا یہ دعویٰ کہ ایک جزئی واقعہ کو کل پر منطبق کرنا عجیب بات ہے تو عرض یہ ہے کہ پہلے تو اسے جزئی واقعہ ثابت کریں ، پھر یہ ثابت کریں کہ اس واقعہ کو کل پر منطبق کرنا شرعا ناجائز ہے ، اور لگے ہاتھوں یہ بھی بتائیں کہ کیا ہر عجیب بات شرعا درست نہیں ہوتی؟؟

    رضا صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا میں نے اس پر تبصرہ کر دیا
    حضرت ساریہ نے حضرت عمر کو نہیں پکارا اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بطور کشف یہ منظر دکھا دیا تو حضرت عمر کی کرامت ہی ہوئی

    اگر ایسا کرنا حضرت عمر کا معمول تھا تو کوئی دلیل پیش فرمائیں ۔۔۔۔ اور اگر یہ حضرت عمر کا معمول تھا تو پھر حضرت عمر نے قاصدوں اور ڈاک کا نظام
    جو نظام بنایا تھا اس کم از کم خود استعمال کرنے کی ضرورت نہیں تھی
    بس نگاہ اتھاتے اور کسی بھی محاذ جنگ کو ملاحظہ فرما کر ہدایات جاری کر دیا کرتے


    اور جہاں تک بات ہے امام ابن حجر کے فتح الباری میں سکوت کی تو انہوں نے جن احادیث و روایات پر فتح الباری میں سکوت کیا ہے، ان میں ضعیف اور ضعیف جدا بلکہ موضوع روایات بھی ہیں۔

    برادر خلیل رانا صاحب
    میری بحث شرک یا عدم شرک کے حوالے سے نہیں ہے میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جس روایت سے رضا صاحب استدلال کر رہے ہیں وہ سندا بھی ضعیف ہے اور متن بھی غیر واضح ہے ان کے استدلال کے حوالے سے
  13. جناب نے پورے ٹاپک میں صرف ایک روایت کو پکڑا ہوا ہے۔جبکہ ہمارا عقیدہ صرف اس روایت پر تھوڑا ہی ہے۔

     

    اور آپ سے اس ایک روایت کی صحت ثابت نہیں ہورہی

     

    مشکوۃ ،  حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو آواز دی  جو انہوں نے مقام نہاوند میں جنگ کو دوران سن لی اور ان کی نصرت  بھی ہوگئی

     

    حضرت عمر کی اس کرامت کو کلیہ کیسے بنایا جا سکتا ہے ؟ ایک جزئی واقعہ کو کل پر منطبق کرنا عجیب بات ہے

  14. میرے بھائی

     

    بات کو آپ خود بحث برائے بحث کی طرف لے جا رہے ہیں  ۔ اور ایسے سوال پوچھ رہے ہیں جن کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں بنتا ۔

    اپنے بارے میں جتنا بتانا ضروری تھا وہ بتا دیا ۔

     

    اب بات تو دلائل کی ہے جس میں ذاتیات کی ضرورت نہیں ہے

     

    میں نے تکنیکی باتوں کا انکار نہیں کیا صرف زیادہ تکنیکی باتوں سے گریز کا مشورہ دیا تھا

     

    میں نے حدیث کے راویوں پر کچھ جرح پیش کی تھی لیکن آپ سوائے اس بات کہ اگر حدیث کا ضعیف نہ ہونا ثابت کر دیا جائے تو ۔۔ پر ہی ہیں

     

    حالانکہ میں نے درخواست کی تھی کہ اس حدیث کی صحت ثابت کر دیں

  15. آپ نے ان کا جواب نہیں دیا

    ۔’’آپ بجائے غیر جانبدارانہ تحقیق کے غیرمقلدین کی سی روش پر ہیں‘‘۔

    ۔’’محترم کشمیر خان صاحب کے اعتراضات آپ پر اب بھی قائم ہیں‘‘۔

     

     

    اس میں جواب دینے والی کیا بات ہے ؟ یہ خان صاحب کی میرے بارے ان کی اپنی رائے ہے 

    خان صاحب کے اعتراضات اگر قائم ہیں تو وہ خود استفسار کر سکتے ہیں ۔

     

     

    میں نے اپنے بارے کچھ نہیں چھپایا میں نے جس لنک کا ایڈریس دیا تھا اس میں کافی حد تک اپنے بارے میں معلومات فراہم کر چکا ہوں 

     

    ایک طرف آپ کا یہ کہنا ہے کہ ’’اپنے بارے کچھ نہیں چھپایا‘‘ اور ساتھ ہی یوں کہہ دیا کہ’’کافی حد تک اپنے بارے میں معلومات فراہم کر چکا ہوں‘‘۔ ’’کچھ نہیں‘‘ کا مقابل ’’کافی حد تک‘‘ بنتا ہے؟؟

     

     

    کچھ نہیں کا تعلق ان ہی معلومات سے ہے جو مجھ سے پوچھی گئی تھیں اور کچھ نہیں استغراق عرفی کے سینس میں ہے اور کافی حد تک کا یہی مفہوم ہے

    کہ حتی الوسع

     

    فی الحال اتنا بتائیں کہ

    ۔۔۔   جرح مبہم مقبول ہے یا غیر مقبول؟

    ۔۔۔   جرح و تعدیل میں تعارض ہو تو اس صورت میں آپ کسے قبول کریں گے؟

    ۔۔۔   اگر حدیث بلحاظ سند صحیح کے درجے سے کم اور ضعیف کے درجے سے زیادہ ثابت ہو جائے تو آپکا کیا رد عمل ہوگا؟

     

     

    میرے بھائی زیادہ تکنیکی باتوں میں نہ جائیں کیوں کہ اس معاملے میں بھی علما، جرح و تعدیل کی آرا مختلف ہیں 

     

       آپ نے اپنی پوسٹ نمبر ۹ اور ۱۱ میں صراحتا کہا ہے کہ فتح الباری کی روایت سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اشعار کہیں دور سے پڑھے گئے ، جبکہ اب آپ کہہ رہے ہیں کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی۔ اس پلٹا کھانے کی وجہ (آپ واضح طور پر اقرار کر رہے ہیں کہ واقعی وہ اشعار سامنے نہیں بلکہ تین دن کی دوری سے پڑھے گئے تھے!) ؟؟

     

     

    میرے بھائی اس طرح کے جوابات بطور فرض کے ہوتے ہیں 

     

    اوپر ایک بھائی نے امام زرقانی کی چند توضیحات بیان کی تھیں 

     رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس وفد سے پہلے ان کی خبر و اطلاع دینا ،علامات نبوت میں سے بڑی واضح نشانی ہے۔راجز نے جو کچھ اپنے ذہن میں سوچا اور تصور کیا اسے وحی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان لیا یا انہوں نے اپنے دوستوں سے گفتگو کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قبول کر کے فرمایا تمہاری مدد کو پہنچا۔اس نے یہ سارا کچھ دوران سفر کیا تو اللہ تعالٰی عزوجل نے انکی آمد کے تین دن پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنوا دیا اور اس میں کوئی بعد و پریشانی نہیں کیوں کہ امام ابو نعیم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ میں آسمانوں کی چڑچڑاہٹ سنتا ہوں اور ان کے چڑ چڑاھنے پر کوئی ملامت نہیں۔

     

     

    اب ان توضیحات کو دیکھ لیں کہ یہی کنفرم نہیں ہو رہا کہ راجز نے اصل میں کیا کیا تھا ؟

    جو کچھ اس کے ذہن نے سوچا اللہ نے وحی کے ذریعے بتا دیا 

     

    یا اس نے اپنے دوستوں سے گفتگو کی

     

    یا

     

     یہ سارا کچھ دوران سفر کیا تو اللہ تعالٰی عزوجل نے انکی آمد کے تین دن پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنوا دیا  

     

    اب یہاں سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دور دراز سے پکارنے اور ان سے مدد مانگنے کا عقیدہ رکھتے تھے ؟؟؟؟

     

     

    اب راجز نے فرض کیا کوئی اشعار راستے میں پڑھے بھی تھے تو یہ کیسے معلوم ہو گا کہ وہ کس نیت و ارادے سے پڑھ رہا تھا 

    کیا واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنا اور مدد مانگنا مقصود تھا 

    یا

    یہ صرف اس کے اضطراب کے اظہار کا طریقہ تھا ۔

     

    تو میرے بھائی ایسی ضعیف روایات سے محض قیاس کی بنیاد پر عقیدے بنانا چھوڑ دیں 

     

    اب تک آپ یہی فرما رہے ہیں کہ اگر یہ روایت غیر ضعیف ثابت ہو جائے تو 

     

    تو بھائی اگر مگر کو چھوڑیں اور اس روایت کا غیر ضعیف ہونا ثابت فرما دیں 

  16. AqeelAhmedWaqas

     برادر 

    میں نے اپنے بارے کچھ نہیں چھپایا میں نے جس لنک کا ایڈریس دیا تھا اس میں کافی حد تک اپنے بارے میں معلومات فراہم کر چکا ہوں 

    آپ نے پوچھا کہ اگر اس حدیث کو غیر ضعیف ثابت کر دیا جائے تو ؟

    تو جناب اگر یہ حدیث صحیح ثابت بھی ہو جائے تو 

    اسے نبی صلی اللہ علیہ کے معجزات میں سے شمار کیا جائے گا  کہ 

     آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی 

    لیکن اس روایت سے  یہ نتیجہ نہیں نکلتا جو

     

    Kilk-e-Raza

    نے پوسٹ نمبر 5 میں نکالنے کی کوشش کی ہے 

  17. یہ حدیث مبارکہ صحیح ہے طبرانی کبیر کے محشیٰ ﴿جو کہ غیر مقلد ہے﴾نے مجمع الزوائد کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسکی سند میں یحییٰ بن سلیمان نضلة ہے جو کہ ضعیف ہے۔اسکاجواب یہ ہے کہ یہ جرح مبہم جو کہ طے شدہ اصولوں کے مطابق قبول نہیں۔علامہ ہیثمی علیہ الرحمت کی یہ جرح مبہم ہے اس لیے قابل قبول نہیں۔دوم امام  ا بن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ یحییٰ بن سلیمان رحمة اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔

    وذکرہ بن حبان فی الثقات﴿لسان المیزان ،جلد ٦ ص،۲٦١﴾ ۔

    امام الحافظ عبداللہ بن عدی الجرجانی لکھتے ہیں۔

    اس کی عام احادیث مستقیم ہیں﴿الکامل فی ضعفاءالرجال ،ج ۷ ص ۲۵۵﴾۔

    ماخوذ از سعید الحق 

     

     

    میرے بھائی جرح مفسر تو آپ کو خال خال ہی نظر آئے گی ۔

    زیادہ تر انہیں جروحات مبہم سے کام لیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ میں نے دو اور راویوں کا بھی میں ذکر کیا تھا ان پر بھی کچھ ارشاد فرمائیں

    ابن حبان کی مکمل جرح لسان المیزان میں یوں ہے 

     

    وذَكَره ابن حِبَّان في الثقات فقال: يخطىء ويهم.

    میزان الاعتدال میں ہے 

    قال أبو حاتم: يكتب حديثه، ليس هو بالقوى.

    وقال البخاري: منكر الحديث.

    لسان المیزان میں ہے 

     

    وقال ابن عقدة: سَمِعتُ ابن خراش يقول: لا يسوى شيئا

  18. محترم جناب 

    Qadri Sultani

     

     جہاں تک امام زرقانی کی یہ بات ہے کہ

     رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس وفد سے پہلے ان کی خبر و اطلاع دینا ،علامات نبوت میں سے بڑی واضح نشانی ہے۔راجز نے جو کچھ اپنے ذہن میں سوچا اور تصور کیا اسے وحی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان لیا یا انہوں نے اپنے دوستوں سے گفتگو کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قبول کر کے فرمایا تمہاری مدد کو پہنچا۔اس نے یہ سارا کچھ دوران سفر کیا تو اللہ تعالٰی عزوجل نے انکی آمد کے تین دن پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنوا دیا اور اس میں کوئی بعد و پریشانی نہیں کیوں کہ امام ابو نعیم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ میں آسمانوں کی چڑچڑاہٹ سنتا ہوں اور ان کے چڑ چڑاھنے پر کوئی ملامت نہیں۔

     

     

    تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور اسے نبی صلی اللہ علیہ کے معجزات میں سے شمار کیا جائے گا  کہ 

     آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی 

    لیکن اس روایت سے جس کی صحت قابل بحث ہے اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا جو

     

    Kilk-e-Raza

    نے پوسٹ نمبر 5 میں نکالنے کی کوشش کی ہے 

  19.  

    میرا یہ کہنا ہے کہ میرے نزدیک تم بھی مجہول ہو تاوقتیکہ نچلے سوالوں کے جواب دو

    دعا ہے کہ اللہ کریم آپ کو شائستہ انداز میں گفتگو کرنے کی توفیق عطا فرمائے 

    میرے بھائی میرے مجہول ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے میں کوئی حدیث تو روایت کر نہیں رہا کہ میرے بارے میں ساری معلومات معلوم ہونا ضروری ہو ۔

     

    بات تو دلیل کی ہے اور آپ کو جذباتی پن چھوڑ کر دلیل کا جواب دلیل سے دینا چاہئے ۔

     

    آپ کے سوالات میں سے اکثر سوالات کے جواب بہت عرصہ پہلے اسی فورم میں کسی جگہ دے چکا ہوں 

    یہ لنک چیک کر لیں 

     

    http://www.islamimehfil.com/topic/19737-mustafvi-sahib-say-suwal/?hl=mustafvi

     

    ویسے میرے خیال میں آپ کے سوالات بے مقصد ہیں 

    دلیل سے بات کرنا سیکھیں 

  20. برادر کشمیر خان

    مجھے نہیں معلوم کہ آپ میرے ایک استفسار پر اس قدر جذباتی پن کا مظاہرہ کیوں فرما رہے ہیں 

    حالانکہ تحمل مزاجی اور شائستہ انداز میں بھی بات ہو سکتی ہے 

     

    فتح الباری کی صحیح روایت سے جو بات ثابت ہو رہی ہے وہ فقط یہی ہے کہ سالم الخزاعی نے وہ اشعار نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھے 

     

    جہاں تک تعلق ہے طبرانی کی روایت کا وہاں بھی یہ بات قیاسا ہی کہی جا سکتی ہے کہ سالم الخزاعی نے وہ اشعار 3 دن کی مسافت سے پڑھے 

    سند کے اعتبار سے بھی یہ روایت کوئی مضبوط روایت نہیں ہے 

    1. امام ہیثمیؒ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں کہ ''رواہ الطبراني في الصغير والكبير وفيه يحي سليمان بن نضلة وھو ضعيف'' (مجمع الزوائد :۶؍۱۶۴) ''اسے امام طبرانی نے المعجم الکبیر اور المعجم الصغیر میں روایت کیا ہے اور اس کی سند میں یحییٰ بن سلیمان نامی راوی ضعیف ہے۔''


    2. امام ذہبیؒ اور حافظ ابن حجرؒ نے بھی اس راوی پر کلام کیا ہے۔ ملاحظہ ہو میزان الاعتدال : ۳؍۲۹۲ اور لسان المیزان :۶؍۲۶۱

    3. اس کی سند میں محمد بن عبداللہ نامی راوی کے بارے میں امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ لایعرف(میزان الاعتدال :۳؍۸۳) یعنی یہ راوی مجہول ہے اور مجہول راوی کی روایت ضعیف کہلاتی ہے۔

    4. اس کی سند میں محمد بن نضلہ نامی راوی کے حالات کتب ِرجال سے نہیں ملتے لہٰذا یہ بھی کوئی مجہول راوی ہے۔

  21.  

    آپ اس سے پہلے کی لائنیں دیکھتے رہیے

    انڈر لائنڈ سے آگے پڑھنے کی زحمت بھی کر لو۔

     

     

    جی محترم میں نے زحمت کر کے آگے بھی پڑھا ہے لیکن وہاں بھی ایسا کچھ نہیں  ہے ۔

     

    آپ یہ بتا دیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایسا کہا تو اگر یہ دور سے کہنا شرک ہوتا تو اب بھی بدستور شرک ہی رہتا!!۔

    آپکا شرک بھی عجیب نہیں بلکہ بہت زیادہ عجیب ہے جو فاصلہ کم زیادہ ہونے اور موجودگی و غیبت سے بدلتا رہتا ہے۔۔۔

     

     

    یہ شرک بیچ میں کہاں سے آ گیا ؟ میں نے شرک یا عدم شرک کی کوئی بات ہی نہیں چھیڑی 

    رضا صاحب نے اپنے موقف میں ایک دلیل پیش کی تھی میں نے اس حوالے سے کچھ وضاحت کا عرض کیا تھا ۔

     

    اسی طرح آپ کے باقی سوالات بھی بالکل غیر متعلقہ ہیں 

  22. محترم

    فتح الباری کے سکین سے تو کہیں سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سالم الخزاعی نے یہ اشعار کہیں دور سے پڑھے تھے بلکہ فتح الباری میں تو لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ اشعار پڑھے گئے

    جہاں سے اشعار شروع ہوتے ہیں اس سے پہلے کی لائن دیکھ لیں

×
×
  • Create New...