Jump to content

Najam Mirani

اراکین
  • کل پوسٹس

    232
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    16

Najam Mirani last won the day on 8 دسمبر 2015

Najam Mirani had the most liked content!

About Najam Mirani

  • Birthday 20/03/1988

Contact Methods

  • Website URL
    http://www.facebook.com/NajamuddinMirani

Profile Information

  • مقام
    Larkana (Farooq Nagar)
  • Interests
    Islamic Books ,Naaten and Madani Channel

Najam Mirani's Achievements

Community Regular

Community Regular (8/14)

  • First Post
  • Collaborator
  • Conversation Starter
  • Week One Done
  • One Month Later

Recent Badges

102

کمیونٹی میں شہرت

3

Community Answers

  1. مزارات پر اعتراض کرنے والے خود مزار پر آگئے ہیں ، یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے ۔
  2. شہزاد بھائی تصحیح کے لیئے آپ کا بے حد شکریہ جزاک اللہ خیرا
  3. السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ محترم بھائی لنکس اپ ڈیٹ کریں ، کام نہیں کر رہی ہیں جزاک اللہ خیرا
  4. صالحین بعد از وصال مدد بھی کرتے ہیں اور مردے سنتے ہیں آیات ملاحظہ ہوں (1)وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَا اٰتَیتُکُم مِّن کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنصُرُنَّہٗ ؕ (پ3:،اٰل عمرٰن 81 اور وہ وقت یا د کرو جب اللہ نے نبیوں کا عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تمہارے پاس رسول تشریف لاویں جوتمہاری کتابوں کی تصدیق کریں تو تم ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا ۔ اس آیت سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں سے عہد لیا کہ تم محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا حالانکہ وہ پیغمبر آپ کے زمانہ میں وفات پاچکے تو پتا لگا کہ وہ حضرات بعد وفات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان بھی لا ئے اور روحانی مدد بھی کی چنانچہ سب نبیوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے معراج کی رات نماز پڑھی یہ اس ایمان کا ثبوت ہوا ،حج وداع میں بہت سے پیغمبر آپ کے ساتھ حج میں شریک ہوئے او رموسی علیہ السلام نے اسلام والوں کی مدد کی کہ پچاس نماز وں کی پانچ کرادیں ، آخرمیں عیسٰی علیہ السلام بھی ظاہر ی مدد کے لئے آئیں گے اموات کی مدد ثابت ہوئی۔ (2)وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذ ظَّلَمُوا اَنفُسَہُمْ جَآءُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیمًا ﴿۶۴ اور اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو تمہارے پاس آجاویں پھر خدا سے مغفرت مانگیں اور رسول بھی ان کیلئے دعاء مغفرت کریں تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔(پ5،النساء:64) ا س آیت سے معلوم ہو اکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد سے تو بہ قبول ہوتی ہے اوریہ مدد زندگی سے خاص نہیں بلکہ قیامت تک یہ حکم ہے یعنی بعد وفات بھی ہماری توبہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی کی مدد سے قبول ہوگی بعد وفات مدد ثابت ہو ئی ۔ اسی لئے آج بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ مدینہ منورہ میں سلام پڑھتے وقت یہ آیت پڑھ لیا کریں اگر یہ آیت فقط زندگی کے لئے تھی تو اب وہاں حاضری کا اور اس آیت کے پڑھنے کا حکم کیوں ہے ۔ (3)وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِینَ ﴿۱۰۷ اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر جہانوں کے لئے رحمت ۔(پ17،الانبیاء:107) حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمام جہانوں کی رحمت ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی جہان تو رہے گا اگر آپ کی مدد اب بھی باقی نہ ہو تو عالم رحمت سے خالی ہوگیا ۔ (4) وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیر"ا وَّ نَذِی را" اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر ۔(پ22،سبا:28) اس لِلنَّاسِ میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو حضور صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آئے او رآپ کی یہ مدد تا قیامت جاری ہے ۔ (5)وَکَانُوا مِن قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِینَ کَفَرُوا ۚ فَلَمَّا جَآءَہُم مَّا عَرَفُوا کَفَرُوا بِہ ٖ ۫اور یہ بنی اسرائیل کافروں کے مقابلہ میں اسی رسول کے ذریعہ سے فتح کی دعا کرتے تھے پھر جب وہ جانا ہوا رسول ان کے پاس آیا تو یہ ان کاانکار کر بیٹھے ۔(پ1،البقرۃ:89) معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے بھی لوگ آپ کے نام کی مدد سے دعائیں کرتے اور فتح حاصل کرتے تھے ۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد دنیا میں آنے سے پہلے شامل حال تھی تو بعد بھی رہے گی، اسی لئے آج بھی حضور کے نام کا کلمہ مسلمان بناتا ہے۔ درود شریف سے آفات دور ہوتی ہیں۔ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے تبرکات سے فائدہ ہوتاہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے تبرکات سے بنی اسرئیل جنگوں میں فتح حاصل کرتے تھے ۔ یہ سب بعد وفات کی مدد ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم ! اب بھی بحیات حقیقی زندہ ہیں ایک آن کے لیئے موت طاری ہوئی اور پھر دائمی زندگی عطا فرما دی گئی قرآن کریم تو شہیدوں کی زندگی کا بھی اعلان فرما رہا ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کاثبوت یہ ہے کہ زندوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ فلاں عالم ہے ، حافظ ہے ، قاضی ہے اور ُمردوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ عالم تھا ، زندوں کے لئے ہے او ر ُمردوں کے لئے 'تھا استعمال ہوتا ہے۔ نبی کا کلمہ جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کی زندگی میں پڑھتے تھے وہی کلمہ قیامت تک پڑھا جائے گا کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ صحابہ کرام بھی کہتے تھے کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ شفیع المذنبین ، رحمۃ للعالمین ہیں اور ہم بھی یہ ہی کہتے ہیں اگر آپ زندہ نہ ہوتے توہمارا کلمہ بدل جانا چاہئے تھا ہم کلمہ یوں پڑھتے کہ حضور اللہ تعالیٰ کے رسول تھے ،جب آپ کا کلمہ نہ بدلا تو معلوم ہو اکہ آپ کا حال بھی نہ بدلا لہٰذا آپ اپنی زندگی شریف کی طر ح ہی سب کی مدد فرماتے ہیں ہاں اس زندگی کا ہم کو احساس نہیں ۔ مُردو ں کا سننا مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ مردے سنتے ہیں اور زندوں کے حالات دیکھتے ہیں کچھ اجمالی طور سے یہاں عرض کیا جاتا ہے ۔ جب قرآن شریف میں مُردے ، اندھے، بہرے، گو نگے ، قبر والے کے ساتھ نہ لوٹنے ، نہ ہدایت پانے، نہ سنا نے وغیرہ کا ذکر ہوگا تو ان لفظوں سے مراد کافر ہونگے یعنی دل کے مردے ، دل کے اندھے وغیر ہ عام مردے وغیر ہ مراد نہ ہوں گے اور ان کے نہ سنانے سے مراد ان کا ہدایت نہ پانا ہوگا نہ کہ واقع میں نہ سننا ۔ اور ان آیات کامطلب یہ ہوگا کہ آپ ان دل کے مردے ، اندھے ، بہر ے کافروں کو نہیں سنا سکتے جس سے وہ ہدایت پرآجاویں یہ مطلب نہ ہوگا کہ آپ مردو ں کو نہیں سنا سکتے مثال یہ ہے ۔ (1) صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُونَ ﴿۱۸﴾ (پ1،البقرۃ:18) یہ کافر بہرے ، گونگے، اندھے ہیں پس وہ نہ لوٹیں گے ۔ (2) وَمَن کَانَ فِی ہٰذِہٖ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیلًا ﴿۷۲﴾ (پ15،بنی اسرآء یل:72) جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہے اورراستے سے بہکا ہوا ہے ۔ یہ آیا ت قرآن شریف میں بہت جگہ آئی ہیں اور ان سب میں مردو ں، اندھوں ،بہروں سے مراد کفار ہی ہیں نہ کہ ظاہری آنکھو ں کے اندھے او ربے جان مردے ۔ ان آیات کی تفسیر ان آیتو ں سے ہو رہی ہے (3) اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِین وَمَا اَنتَ بِہٰدِی الْعُمْیِ عَن ضَلٰلَتِہِمْ ؕ اِنتُسْمِعُ اِلَّا مَن یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَہُم مُّسْلِمُونَ ﴿۸۱﴾ (پ20،النمل:80،81) بے شک تم نہیں سنا سکتے مردوں کو اور نہ سناسکتے ہو بہروں کو جب پھر یں پیٹھ دے کر اورنہ تم اندھوں کو ہدایت کرنے والے ہو ۔ نہیں سنا سکتے تم مگر ان کو جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ مسلمان ہیں۔ اس آیت میں مردے اور اندھے ،بہر ے کا مقابلہ مومن سے کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ مردو ں سے مراد کا فرہیں۔ (4)فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّی وَنَصَحْتُ لَکُمْ ۚ فَکَیفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِینَ ﴿۹۳ توشعیب نے ان مرے ہوؤں سے منہ پھیر ا اور کہا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہیں نصیحت کی تو کیوں کرغم کرو ں کافروں پر ۔(پ9،الاعراف:93 ) ان آیتو ں سے معلوم ہوا کہ صالح علیہ السلام اور شعیب علیہ السلام نے ہلاک شدہ قوم پر کھڑے ہوکر ان سے یہ باتیں کیں۔ (5)وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رُّسُلِنَا ٭ اَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعْبَدُونَ ٪۴۵ ان رسولوں سے پوچھو جو ہم نے آپ سے پہلے بھیجے کیا ہم نے رحمٰن کے سوا اور خدا ٹھہرائے ہیں جو پوجے جائیں ۔(پ25،الزخرف:45) گزشتہ نبی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں وفات پاچکے تھے فرمایا جارہاہے کہ وفات یافتہ رسولوں سے پوچھو کہ ہم نے شرک کی اجازت نہ دی تو ان کی امتیں ان پر تہمت لگاکر کہتی ہیں کہ ہمیں شرک کا حکم ہمارے پیغمبروں نے دیا ہے۔ اگر مردے نہیں سنتے توان سے پوچھنے کے کیا معنی ؟ بلکہ اس تیسری آیت سے تو یہ معلوم ہوا کہ خاص بزرگو ں کو ُمردے جواب بھی دیتے ہیں اور وہ جواب بھی سن لیتے ہیں ۔ اب بھی کشف قبور کرنے والے مردوں سے سوال کرلیتے ہیں ۔ اس لئے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مقتول کافروں سے پکارکرفرمایا کہ "بولو میرے تمام فرمان سچے تھے یا نہیں"۔ فاروق اعظم نے عرض کیا کہ بے جان مردو ں سے آپ کلام کیوں فرماتے ہیں تو فرمایا "وہ تم سے زیادہ سنتے ہیں" ۔ (صحیح البخاری،کتاب الجنائز، باب فی عذاب القبر، الحدیث1370،ج1،ص462،دار الکتب العلمیۃبیروت) دوسری روایت میں ہے کہ دفن کے بعد جب زندے واپس ہوتے ہیں تو مردہ ان کے پاؤں کی آہٹ سنتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب،الباب الخامس والاربعون فی بیان القبر وسؤالہ،ص۱۷۱،دار الکتب العلمیۃبیروت) ​(6)فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوا فِی دَارِہِمْ جٰثِمِینَ ﴿۷۸﴾فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّی وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِن لَّاتُحِبُّونَ النّٰصِحِینَ ﴿۷۹ (پ8،الاعراف:78۔79) پس پکڑلیاقوم صالح کو زلزلے نے تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے پھر صالح نے ان سے منہ پھیرا اورکہا کہ اے میری قوم میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیرخواہوں کوپسند نہیں کرتے ۔ (7) وَ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ فِی اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ وَّ ہُوَ عَلَیہِمْ عَمًی ؕ اُولٰٓئِکَ یُنَادَوْنَ مِن مَّکَانٍ بَعِیدٍ ٪۴۴﴾ اورجو ایمان نہیں لائے ان کے کانوں میں ٹینٹ ہیں اوروہ ان پر اندھا پن ہے گویا وہ دور جگہ سے پکارے جارہے ہیں۔(پ24،حٰم السجدۃ:44) اس آیت نے بتایا کہ کافر گویا اندھا، بہرا ہے ۔ (8) اُولٰٓئِکَ الَّذِینَ لَعَنَہُمُ اللہُ فَاَصَمَّہُمْ وَ اَعْمٰی اَبْصَارَہُمْ ﴿۲۳﴾ ۔(پ26،محمد:23) یہ کفار وہ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کردی پس انہیں بہرا کردیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ لعنت سے آدمی اندھا، بہر ا ہوجاتا ہے یعنی دل کا اندھا ،بہرا ہماری ان مذکورہ آیتوں نے بتادیا کہ جہاں مردو ں کے سننے سنانے کی نفی کی گئی ہے وہاں مردو ں سے مراد کافر ہیں ۔ ان آیتو ں سے یہ ثابت کرنا کہ مردے سنتے نہیں بالکل جہالت ہے۔ اسی لئے ہم نمازوں میں حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرتے ہیں اور کھانا کھانے والے ، استنجا کرنے والے، سوتے ہوئے کو سلام کرنا منع ہے کیونکہ وہ جواب نہیں دے سکتے تو جو جواب نہ دے سکے اسے سلام کرنا منع ہے اگر قبر والے نہ سنتے ہوتے تو قبر ستا ن جاتے وقت ا نہیں سلام نہ کیا جاتا اور نماز میں حضور کو سلام نہ ہوتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قبر والے کسی کی بھی نہیں سنتے ،حتٰی کہ نبی کی بھی نہیں اور وہ لوگ دلیل کے طور پریہ آیت پیش کرتے ہیں : وَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوٰتُ اِنَّ اللہَ یُسْمِعُ مَن یَّشَآءُ ۚ وَ مَا اَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِی الْقُبُورِ (پارہ 22، سورہ فاطر ،آیت 22) اور برابر نہیں زندے اور مردے بیشک اللّٰہ سناتا ہے جسے چاہے اور تم نہیں سنانے والے انہیں جو قبروں میں پڑے ہیں۔ اس آیت میں کُفّارکو مُردوں سے تشبیہ دی گئی کہ جس طرح مردے سنی ہوئی بات سے نفع نہیں اٹھا سکتے اور پند پذیر نہیں ہوتے ، بدانجام کُفّار کا بھی یہی حال ہے کہ وہ ہدایت و نصیحت سے منتفع نہیں ہوتے ۔ اس آیت سے مُردوں کے نہ سننے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ آیت میں قبر والوں سے مراد کُفّار ہیں نہ کہ مردے اور سننے سے مراد وہ سنتا ہے جس پر راہ یابی کا نفع مرتب ہو ، رہا مُردوں کا سننا وہ احادیثِ کثیرہ سے ثابت ہے ۔ ضروری ہدایت: زندگی میں لوگوں کی سننے کی طاقت مختلف ہوتی ہے بعض قریب سے سنتے ہیں جیسے عام لوگ او ر بعض دور سے بھی سن لیتے ہیں جیسے پیغمبر اور اولیاءاللہ۔ مرنے کے بعد یہ طاقت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں لہٰذا عام مردو ں کو ان کے قبرستان میں جاکرپکار سکتے ہیں دور سے نہیں لیکن انبیاء واولیاءاللہ علیہم الصلوۃ والسلام کو دور سے بھی پکارسکتے ہیں کیونکہ وہ جب زندگی میں دور سے سنتے تھے تو بعدوفات بھی سنیں گے۔ لہٰذا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ہرجگہ سے سلام عرض کرو مگر دوسرے مردو ں کو صرف قبر پر جاکر دور سے نہیں۔ دوسری ہدایت: اگرچہ مرنے کے بعد رو ح اپنے مقام پر رہتی ہے لیکن اس کا تعلق قبر سے ضرورر ہتا ہے کہ عام مردو ں کو قبر پرجا کر پکارا جاوے تو سنیں گے مگر اور جگہ سے نہیں ۔جیسے سونے والا آدمی کہ اس کی ایک روح نکل کر عالم میں سیر کرتی ہے لیکن اگر اس کے جسم کے پاس کھڑے ہوکر آواز دو تو سنے گی ۔ دوسری جگہ سے نہیں سنتی۔ خطیب نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: جب کوئی شخص ایسے کی قبر پر گزرے جسے دنیا میں پہچانتا تھا اور اس پر سلام کرے تو وہ مُردہ اسے پہچانتا ہے اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے۔( 'تاریخ بغداد، رقم: ۳۱۷۵،ج۷،ص98-(99 صحیح مسلم میں بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم لوگوں کو تعلیم دیتے تھے کہ جب قبروں کے پاس جائیں یہ کہیں۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَآءَ اللہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ نَسْأَلُ اللہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ ترجمہ: اے قبرستان والے مومنو اورمسلمانو! تم پر سلامتی ہو اور انشاء اﷲ عزوجل ہم تم سے آملیں گے ،ہم اﷲ عزوجل سے اپنے لئے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم،کتاب الجنائز،باب ما یقال عند دخول القبور...إلخ،الحدیث:۱۰۴۔(۹۷۵)،ص۴۸۵ وسنن ابن ماجہ،کتاب ماجاء في الجنائز،باب ماجاء فیما یقال إذا دخل المقابر،الحدیث:۱۵۴۷،ج۲،ص۲۴۰) ترمذی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماسے روایت کی، کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مدینہ میں قبور کے پاس گزرے تو اودھر کو مونھ کرلیا اور یہ فرمایا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَـفُنَا وَنَحْنُ بِالْاَثَرِ ترجمہ:اے قبرستان والو! تم پر سلامتی ہو،اﷲ عزوجل ہماری اورتمہاری مغفرت فرمائے ،تم ہم سے پہلے چلے گئے اورہم تمہارے پیچھے آنے والے ہیں۔ ( 'سنن الترمذي،کتاب الجنائز،باب ما یقول الرجل إذا دخل المقابر،الحدیث:۱۰۵۵،ج۲،ص۳۲۹) امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ ایک نوجوان صالح کی قبر پر تشریف لے گئے اورفرمایا کہ اے فلاں !اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ﴿۴۶ یعنی جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرگیااس کے لیے دو جنتیں ہیں۔ اے نوجوان!بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے؟اس نوجوان صالح نے قبر کے اندر سے آپ کا نام لے کر پکارااوربآواز بلند دو مرتبہ جواب دیا کہ میرے رب نے یہ دونوں جنتیں مجھے عطافرماد ی ہیں ۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ج۲،ص۸۶۰بحوالہ حاکم) موت کے بعد گفتگو حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت زید بن خارجہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ کے بعض راستوں میں ظہر وعصر کے درمیان چلے جارہے تھے کہ ناگہاں گرپڑے اور اچانک ان کی وفات ہوگئی ۔ لوگ انہیں اٹھا کر مدینہ منورہ لائے اور ان کو لٹا کر کمبل اوڑھادیا۔ جب مغرب وعشاء کے درمیان کچھ عورتوں نے رونا شروع کیا تو کمبل کے اند رسے آواز آئی : اے رونے والیو!خاموش رہو۔ یہ آواز سن کر لوگوں نے ان کے چہرے سے کمبل ہٹایا تو وہ بے حد دردمندی سے نہایت ہی بلند آواز سے کہنے لگے: 'حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نبی امی خاتم النبیین ہیں اوریہ بات اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے ۔اتنا کہہ کر کچھ دیر تک بالکل ہی خاموش رہے پھر بلند آواز سے یہ فرمایا: 'سچ کہا، سچ کہا ابوبکرصدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے جو نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے خلیفہ ہیں ، قوی ہیں ، امین ہیں، گو بدن میں کمزور تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے کام میں قوی تھے ۔ یہ با ت اللہ تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں ہے۔ اتنا فرمانے کے بعد پھر ان کی زبان بند ہوگئی اورتھوڑ ی دیر تک بالکل خاموش رہے پھر ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے اوروہ زور زور سے بولنے لگے:سچ کہا، سچ کہا درمیان کے خلیفہ اللہ تعالیٰ کے بندے امیر المؤمنین حضرت عمربن خطا ب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے نہ اس کی کوئی پروا کرتے تھے اور وہ لوگوں کو اس بات سے روکتے تھے کہ کوئی قوی کسی کمزور کوکھاجائے اوریہ بات اللہ تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔ اس کے بعد پھر وہ تھوڑی دیر تک خاموش رہے پھر ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے اورزور زور سے بولنے لگے :سچ کہا، سچ کہا حضرت عثمان غنی ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے جو امیر المؤمنین ہیں اورمؤمنوں پر رحم فرمانے والے ہیں ۔ دوباتیں گزرگئیں اور چار باقی ہیں جو یہ ہیں: (1)لوگوں میں اختلاف ہوجائے گااور ان کے لیے کوئی نظام نہ رہ جائے گا۔ (۲)سب عورتیں رونے لگیں گی اور ان کی پردہ دری ہوجائے گی۔ (۳)قیامت قریب ہوجائے گی ۔ (۴)بعض آدمی بعض کو کھاجائے گا ۔اس کے بعد ان کی زبان بالکل بند ہوگئی ۔ (طبرانی والبدایہ والنہایہ،ج۶،ص۱۵۶ واسدالغابہ،ج۲،ص۲۲۷)
  5. آمین آپ کا بے حد شکریہ حوصلہ افزائی کے لیئے اللہ عزوجل آپ کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین
  6. بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
  7. Aqal ke andhay Quran ki Aayatain /Ahkaam Qayamat tak aane waale Muslamano ke liye hain , sirf us waqt ke zinda logon ke liye nhi hain. Beshak Qabar waale sunte hain : For example : Jab Musalman Qabaristan jata hai to Qabar walon ko salam karta hai aur ye sunnat bhi hai , Ahadees se sabit hai . agar murda qabar mein na sunta hota to salam karne ka kya maqsad ? aray jahil Qabar mein Murda sunta hai tabhi to us ko salam kiya jata hai .
  8. Najam Mirani

    رمضان کی تعریف

    بسم اللہ الرحمان الرحیم شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلْیَصُمْہُ ؕ وَمَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ۫ وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوۡنَ ﴿۱۸۵ تَرجَمَہ کَنْزُ الْاِیْمَان:رَمَضان کا مہینہ ، جس میں قُراٰن اُترا،لوگوں کے لئے ہِدایت اور رَہنُمائی اور فیصلہ کی رُوشن باتیں ،تَو تُم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضَرور اِس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سَفر میں ہو،تَو اُتنے روزے اور دِنوں میں۔اللہ (عَزَّوَجَلَّ) تُم پر آسانی چاہتا ہے اور تُم پر دُشواری نہیں چاہتا اوراِس لئے کہ تم گِنتی پوری کرواور اللہ (عَزَّوَجَل) کی بڑائی بولو اِس پر کہ اُس نے تمہیں ہِدایت کی اور کہیں تم حق گُزار ہو ۔ ( پ ۲ البقرہ۱۸۵ صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالیٰ علیٰ محمَّد رمضان کی تعریف اِس آیتِ مُقدَّسہ کے اِبْتِدائی حِصّہ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ کے تَحت مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان تَفسِیْرِ نعیمی میں فرماتے ہیں:'' رَمَضَان '' یا تَو''رحمٰن عَزَّ وَجَلَّ'' کی طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ کا نام ہے، چُونکہ اِس مہینہ میں دِن رات اللہ عز وَجَلَّ کی عِبادت ہوتی ہے ۔ لہٰذا اِسے شَہرِ رَمَضان یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا مہینہ کہا جاتا ہے۔جیسے مسجِد وکعبہ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا گھر کہتے ہیں کہ وہاں اللہ عز وَجَلَّ کے ہی کام ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی رَمضَان اللہ عز وَجَلَّ کا مہینہ ہے کہ اِس مہینے میں اللہ عز وَجَلَّ کے ہی کام ہوتے ہیں۔رَوزہ تَراویح وغیرہ تَو ہیں ہی اللہ عز وَجَلَّ کے۔ مگربَحَالتِ روزہ جو جائِز نوکری اور جائِز تِجارت وغیرہ کی جاتی ہے وہ بھی اللہ عز وَجَلَّ کے کام قرار پاتے ہیں ۔اِس لئے اِس ماہ کا نام رَمَضَان یعنی اللہ عز وَجَلَّ کا مہینہ ہے۔یا یہ ''رَمْضَاء ٌ '' سے مُشْتَق ہے ۔ رَمْضَاءٌ موسِمِ خَرِیف کی بارِش کو کہتے ہیں،جس سے زمین دُھل جاتی ہے اور''رَبِیع'' کی فَصْل خُوب ہوتی ہے۔ چُونکہ یہ مہینہ بھی دِل کے گَر د وغُبار دھودیتا ہے اور اس سے اَعمال کی کَھیتی ہَری بَھری رہتی ہے اِس لئے اِسے رَمَضَان کہتے ہیں۔ ''سَاوَن'' میں روزانہ بارِشیں چاہئیں اور ''بھادَوں'' میں چار ۔ پھر ''اَساڑ' ' میں ایک ۔اِس ایک سے کھیتیاں پَک جاتی ہیں۔تَو اِسی طرح گیارہ مہینے برابر نیکیاں کی جاتی رَہیں۔پھر رَمَضَان کے روزوں نے اِن نیکیوں کی کھیتی کو پَکا دیا ۔ یا یہ '' رَمْض '' سے بنا جس کے معنٰی ہیں''گرمی یاجلنا ۔ '' چُونکہ اِس میں مُسلمان بُھوک پیاس کی تَپش برداشت کرتے ہیں یا یہ گناہوں کو جَلا ڈالتا ہے،اِس لئے اِسے رَمَضَان کہاجاتا ہے۔(کنز العُمّال کی آٹھویں جلد کے صفحہ نمبر دو سوسَتَّرَہ پر حضرتِ سَیّدُنا اَنَس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ نبیِّ کریم ، رءُ وْفٌ رّحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا، ''اس مہینے کانام رَمَضَان رکھا گیا ہے کیونکہ یہ گنا ہو ں کوجلادیتا ہے۔ مہینوں کے نام کی وجہ حضرتِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں: بعض مُفَسِّرِین رَحِمَہُمُ اللہُ تعالٰی نے فرمایا کہ جب مہینوں کے نام رکھے گئے تَو جس موسِم میں جو مہینہ تھا اُسی سے اُس کا نام ہُوا ۔جو مہینہ گرمی میں تھااُسے رَمَضَان کہہ دیا گیا اور جو موسِمِ بَہار میں تھا اُسے ربیعُ الْاَوّل اور جو سردی میں تھا جب پانی جم رہا تھا اُسے جُمادِی الْاُولٰی کہا گیا۔اِسلام میں ہرنام کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے اور نام کام کے مُطابِق رکھا جاتا ہے۔دُوسری اِصطِلاحات میں یہ بات نہیں ۔ ہمارے یہاں بڑے جاہِل کانام'' محمّد فاضِل'' ، اور بُزدِل کا نام'' شیر بہادُر''، ہوتا ہے اور بدصُورت کو ''یُوسُف خان'' کہتے ہیں !اِسلام میں یہ عَیب نہیں۔رَمَضَان بَہُت خُوبیوں کا جامعِ تھا اِسی لئے اس کا نام رَمَضَان ہوا۔ (تفسیر نعیمی ج ۲ص۵ ۲۰ صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
  9. حضورغوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مختصرحالات سرکارِبغدارحضورِغوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کااسم مبارک''عبدالقادر''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کنیت ''ابومحمد''اورالقابات ''محی الدین،محبوبِ سبحانی،غوثُ الثقلین،غوثُ الاعظم''وغیرہ ہیں،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۴۷۰ھ میں بغدادشریف کے قریب قصبہ جیلان میں پیدا ہوئے اور۵۶۱ھ میں بغدادشریف ہی میں وصال فرمایا،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزارِپُراَنوارعراق کے مشہورشہربغدادشریف میں ہے۔ (بہجۃالاسرارومعدن الانوار،ذکرنسبہ وصفتہ، ص۱۷۱،الطبقات الکبرٰی للشعرانی،ابو صالح سیدی عبدالقادرالجیلی،ج۱،ص۱۷۸) غوث کسے کہتے ہیں؟ ''غوثیت''بزرگی کاایک خاص درجہ ہے،لفظِ''غوث''کے لغوی معنی ہیں ''فریادرس یعنی فریادکوپہنچنے والا''چونکہ حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ غریبوں،بے کسوں اورحاجت مندوں کے مددگارہیں اسی لئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ''غوث ِاعظم''کے خطاب سے سرفرازکیاگیا،اوربعض عقیدت مندآپ کو''پیران پیردستگیر''کے لقب سے بھی یادکرتے ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نسب شریف آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ والدماجدکی نسبت سے حسنی ہیں سلسلہ نسب یوں ہے سیّد محی الدین ابومحمدعبدالقادربن سیّدابوصالح موسیٰ جنگی دوست بن سیّدابوعبداللہ بن سیّد یحییٰ بن سیدمحمدبن سیّدداؤدبن سیّدموسیٰ ثانی بن سیّدعبداللہ بن سیّدموسیٰ جون بن سیّد عبداللہ محض بن سیّدامام حسن مثنیٰ بن سیّدامام حسن بن سیّدناعلی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی والدہ ماجدہ کی نسبت سے حسینی سیّد ہیں۔ (بہجۃالاسرار،معدن الانوار،ذکرنسبہ،ص۱۷۱) آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے آباء واجداد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا خاندان صالحین کاگھراناتھاآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ناناجان،داداجان،والدماجد، والدہ محترمہ،پھوپھی جان،بھائی اورصاحبزادگان سب متقی وپرہیزگارتھے،اسی وجہ سے لوگ آپ کے خاندان کواشراف کا خاندان کہتے تھے۔ سیدوعالی نسب دراولیاء است نورِچشم مصطفےٰ ومرتضےٰ است آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدمحترم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدمحترم حضرت ابوصالح سیّدموسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تھے، آپ کا اسم گرامی ''سیّدموسیٰ''کنیت ''ابوصالح''اورلقب ''جنگی دوست'' تھا،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جیلان شریف کے اکابر مشائخ کرام رحمہم اللہ میں سے تھے۔ ''جنگی دوست''لقب کی وجہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کالقب جنگی دوست اس لئے ہواکہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خالصۃًاللہ عزوجل کی رضاکے لئے نفس کشی اورریاضتِ شرعی میں یکتائے زمانہ تھے، نیکی کے کاموں کا حکم کرنے اوربرائی سے روکنے کے لئے مشہورتھے،اس معاملہ میں اپنی جان تک کی بھی پروا نہ کرتے تھے،چنانچہ ایک دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جامع مسجدکوجارہے تھے کہ خلیفہ وقت کے چندملازم شراب کے مٹکے نہایت ہی احتیاط سے سروں پراٹھائے جارہے تھے،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جب ان کی طرف دیکھاتوجلال میں آگئے اوران مٹکوں کوتوڑدیا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے رعب اوربزرگی کے سامنے کسی ملازم کودم مارنے کی جرأت نہ ہوئی توانہوں نے خلیفہ وقت کے سامنے واقعہ کااظہارکیااورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلاف خلیفہ کوابھارا،توخلیفہ نے کہا:''سیّدموسیٰ(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)کوفوراًمیرے دربارمیں پیش کرو۔''چنانچہ حضرت سیّدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دربارمیں تشریف لے آئے خلیفہ اس وقت غیظ وغضب سے کرسی پربیٹھاتھا،خلیفہ نے للکارکرکہا:''آپ کون تھے جنہوں نے میرے ملازمین کی محنت کورائیگاں کردیا؟''حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''میں محتسب ہوں اورمیں نے اپنافرض منصبی اداکیاہے۔''خلیفہ نے کہا:''آپ کس کے حکم سے محتسب مقررکئے گئے ہیں؟''حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے رعب دارلہجہ میں جواب دیا:''جس کے حکم سے تم حکومت کررہے ہو۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس ارشادپرخلیفہ پرایسی رقّت طاری ہوئی کہ سربزانو ہوگیا(یعنی گھٹنوں پرسررکھ کر بیٹھ گیا)اورتھوڑی دیرکے بعدسرکواٹھاکرعرض کیا: ''حضوروالا! امربالمعروفاورنہی عن المنکرکے علاوہ مٹکوں کو توڑنے میں کیا حکمت ہے؟''حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشادفرمایا:''تمہارے حال پرشفقت کرتے ہوئے نیزتجھ کودنیااورآخرت کی رسوائی اورذلت سے بچانے کی خاطر۔''خلیفہ پرآپ کی اس حکمت بھری گفتگوکابہت اثرہوااورمتاثرہوکرآپ کی خدمت اقدس میں عرض گزارہوا:''عالیجاہ!آپ میری طرف سے بھی محتسب کے عہدہ پرمامورہیں۔'' حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے متوکلانہ اندازمیں فرمایا:''جب میں حق تعالیٰ کی طرف سے مامورہوں توپھرمجھے خَلْق کی طرف سے مامورہونے کی کیا حاجت ہے ۔''اُسی دن سے آپ''جنگی دوست''کے لقب سے مشہورہوگئے۔ (سیرت غوث ا لثقلین،ص۵۲) آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ناناجان حضورسیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ناناجان حضرت عبداللہ صومعیرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جیلان شریف کے مشائخ میں سے تھے،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نہایت زاہداور پرہیزگارہونے کے علاوہ صاحب فضل وکمال بھی تھے،بڑے بڑے مشائخ کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے شرف ملاقات حاصل کیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مستجاب الدعوات تھے شیخ ابو محمدالداربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مستجاب الدعوات تھے (یعنی آپ کی دعائیں قبول ہوتی تھیں)۔اگر آپ کسی شخص سے ناراض ہوتے تو اللہ عزوجل اس شخص سے بدلہ لیتا اور جس سے آپ خوش ہوتے تو اللہ عزوجل اس کو انعام و اکرام سے نوازتا، ضعیف الجسم اور نحیف البدن ہونے کے باوجود آپ نوافل کی کثرت کیا کرتے اور ذکر واذکار میں مصروف رہتے تھے۔آپ اکثر امور کے واقع ہونے سے پہلے اُن کی خبر دے دیا کرتے تھے اور جس طرح آپ ان کے رونما ہونے کی اطلاع دیتے تھے اسی طرح ہی واقعات روپذیر ہوتے تھے۔'' ( بہجۃالاسرار،ذکر نسبہ،وصفتہ،رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ،ص۱۷۲) آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نیک سیرت بیویاں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف "عوارف المعارف"میں تحریر فرماتے ہیں: ''ایک شخص نے حضور سیدناغوثُ الاعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا:''یاسیدی! آپ نے نکاح کیوں کیا؟''سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' بے شک میں نکاح کرنا نہیں چاہتا تھا کہ اس سے میرے دوسرے کاموں میں خلل پیدا ہو جائے گا مگر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ ''عبدالقادر! تم نکاح کر لو، اللہ عزوجل کے ہاں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔''پھرجب یہ وقت آیاتواللہ عزوجل نے مجھے چار بیویاں عطافرمائیں، جن میں سے ہر ایک مجھ سے کامل محبت رکھتی ہے۔'' (عوارف المعا رف،الباب الحادی والعشرون فی شرح حال المتجردوالمتاھل من الصوفیۃ...الخ،ص۱۰۱،ملخصاً) حضورسیدی غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بیویاں بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے روحانی کمالات سے فیض یاب تھیں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے صاحبزادے حضرت شیخ عبدالجباررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی والدہ ماجدہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ''جب بھی والدہ محترمہ کسی اندھیرے مکان میں تشریف لے جاتی تھیں تو وہاں چراغ کی طرح روشنی ہو جاتی تھیں۔ایک موقع پر میرے والدمحترم غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی وہاں تشریف لے آئے ،جیسے ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نظر اس روشنی پرپڑی تووہ روشنی فوراًغائب ہوگئی،توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشادفرمایاکہ ''یہ شیطان تھا جو تیری خدمت کرتاتھااسی لئے میں نے اسے ختم کر دیا، اب میں اس روشنی کو رحمانی نورمیں تبدیل کئے دیتا ہوں۔'' اس کے بعد والدہ محترمہ جب بھی کسی تاریک مکان میں جاتی تھیں تو وہاں ایسا نور ہوتا جوچاند کی روشنی کی طرح معلوم ہوتا تھا۔'' (بہجۃالاسرارومعدن الانوار،ذکرفضل اصحابہ...الخ،ص۱۹۶)
  10. آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حوصلہ افزائی کرنے کا بہت بہت شکریہ بھائی ، جزاک اللہ خیرا
  11. وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ کتاب غنیۃ الطالبین حضور پرنور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تصنیف ہی نہیں مسئلہ ۷۵: حضور قطب الاقطاب سیدنا ومولانا محبوب سبحانی غوث الصمدانی رحمۃ اﷲ علیہ نے جو اپنے رسالہ غنیۃ الطالبین میں مذہبِ حنفیہ کو گمراہ فرقہ میں مندرج فرمایا ہے اس کو اچھی طرح سے حضور واضح فرما کر تسکین و تشفی بخشیں کہ وسوسہ و خطراتِ نفسانی و شیطانی رفع ہوجائیں ، عبدالعظیم نامی ضلع غازیپور کے باشندے نے ایک رسالہ تصنیف کیا ہے جس میں رسالہ تقویۃ الایمان عرف تفویۃ الایمان کے مضمون کو مکتوبات مخدوم الملک رحمۃ اﷲ علیہ و مجدد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ اور بھی بزرگان دین کے مکتوبات سے دکھلایا ہے وثابت کیا ہے کہ ان بزرگوں نے اپنے مکتوبات میں تقویۃ الایمان سے بھی سخت سخت الفاظ نام بنام لکھاہے کہ اﷲ چاہے تو فلاں کو مردود کردے و فرعون و نمرود کو چاہے مقبول کرے، سینکڑوں کعبہ تیار کردے وغیرہ وغیرہ۔اب خاکسار عرض کرتا ہے کہ یا تو کوئی رسالہ ان کے جواب میں شائع فرمایا ہو تو بذریعہ ریلوے ڈاک پارسل ارسال ہو یا واضح خلاصہ جواب ارقام ہو والسلام مع الاکرام۔غنیۃ الطالبین کے مضامین سے زیادہ اس لیے انتشار ہے کہ دونوں حضرات سے تعلق و رشتہ و ایمان و ایقان کا سلسلہ ملحق ہے، حنفی اگر مذہب ہے تو قادری مشرب ہے، اب ذرا بھی ان دونوں پیشوا کی طرف سے ریب و شک دامنگیر ہوا کہ بہت بڑا حملہ ایمان پر ہونے کا خوف و ڈر ہے، ﷲ میرے حالِ زار پر رحم فرمائیں اس وقت میرے لیے بہت بڑا امتحان مدنظر ہے۔ زیادہ حد ادب۔ الجواب : بسم اﷲ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلّی علٰی رسولہ الکریم مکرم کرم فرما اکرمکم اﷲ تعالٰی وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ اولاً کتاب غنیۃ الطالبین شریف کی نسبت حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا تو یہ خیال ہے کہ وہ سرے سے حضور پرنور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تصنیف ہی نہیں مگر یہ نفی مجرد ہے۔ اور امام حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے تصریح فرمائی کہ اس کتاب میں بعض مستحقین عذاب نے الحاق کردیا ہے، فتاوٰی حدیثیہ میں فرماتے ہیں: وایّاک ان تغتربما وقع فی الغنیۃ لامام العارفین و قطب الاسلام والمسلمین الاستاذ عبدالقادر الجیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ فانہ دسہ علیہ فیہا من سینتقم اﷲ منہ والا فہو برئ من ذلک ۔۱ یعنی خبردار دھوکا نہ کھاناا اس سے جو امام اولیاء سردارِ اسلام و مسلمین حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی غنیہ میں واقع ہوا کہ اس کتاب میں اسے حضور پر افتراء کرکے ایسے شخص نے بڑھا دیا ہے کہ عنقریب اللہ عزوجل اس سے بدلہ لے گا ، حضرت شیخ رضی اللہ تعالٰی عنہ اس سے بَری ہیں۔ ( ۱ ؎ الفتاوی الحدیثیۃ مطلب ان مافی الغنیۃ للشیخ عبدالقادر مطبعۃ الجمالیہ مصر ص ۱۴۸) ثانیاً اسی کتاب میں تمام اشعریہ یعنی اہلسنت و جماعت کو بدعتی ، گمراہ ، گمراہ گر لکھا ہے کہ:خلاف ماقالت الاشعریۃ من ان کلام اﷲ معنی قائم بنفسہ واﷲ حسیب کل مبتدع ضال مضل ۔۲؂ بخلاف اس کے جو اشاعرہ نے کہا کہ اﷲ تعالٰی کا کلام ایسا معنی ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اﷲ تعالٰی ہر بدعتی، گمراہ و گمراہ گر کے لیے کافی ہے۔(ت) ( ۲ ؎ الغنیۃ لطالبی طریق الحق فصل فی اعتقاد ان القرآن حروف مفہومۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۹۱) کیا کوئی ذی انصاف کہہ سکتا ہے کہ معاذ اﷲ یہ سرکار غوثیت کا ارشاد ہے جس کتاب میں تمام اہلسنت کو بدعتی ، گمراہ گمراہ گر لکھا ہے اس میں حنفیہ کی نسبت کچھ ہو تو کیا جائے شکایت ہے۔ لہذا کوئی محلِ تشویش نہیں۔ ثالثاً پھر یہ خود صریح غلط اور افترا بر افترا ہے کہ تمام حنفیہ کو ایسا لکھا ہے غنیۃ الطالبین کے یہاں صریح لفظ یہ ہیں کہ:ھم بعض اصحاب ابی حنیفۃ ۔۳؂وہ بعض حنفی ہیں۔ ( ۳ ؎ الغنیۃ لطالبی طریق الحق فصل واما الجہمیۃ الخ ادارہ نشرو اشاعت علوم اسلامیہ پشاور ۱/ ۹۱ ) اس نے نہ حنفیہ پر الزام آسکتا ہے نہ معا ذا للہ حنفیت پر ، آخر یہ تو قطعاً معلوم ہے اور سب جانتے ہیں کہ حنفیہ میں بعض معتزلی تھے، جیسے زمخشری صاحبِ کشاف و عبدالجبار و مطرزی صاحبِ مغرب و زاہدی صاحبِ قینہ و حاوی و مجتبےٰ ، پھر اس سے حنفیت و حنفیہ پر کیا الزام آیا۔ بعض شافعیہ زیدی رافضی ہیں اس سے شافعیہ و شافعیت پر کیا الزام آیا۔ نجد کے وہابی سب حنبلی ہیں پھر اس سے حنبلیہ و حنبلیت پر کیا الزام آیا، جانے دو رافضی خارجی معتزلی وہابی سب اسلام ہی میں نکلے اور اسلام کے مدعی ہوئے پھر معاذ اﷲ اس سے اسلام و مسلمین پر کیا الزام آیا۔ رابعاً کتاب مستطاب بھجۃ الاسرار میں بسندِ صحیح حضرت ابوالتقی محمد بن ازہرصریفینی سے ہے مجھے رجال الغیب کے دیکھنے کی تمنا بھی مزارِ پاک امام احمد رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حضور ایک مرد کو دیکھا دل میں آیا کہ مردانِ غیب سے ہیں وہ زیارت سے فارغ ہو کر چلے یہ پیچھے ہوئے ان کے لیے دریائے دجلہ کا پاٹ سمٹ کر ایک قدم بھر کا رہ گیا کہ وہ پاؤں رکھ کر اس پار ہوگئے انہوں نے قسم دے کر روکا اور ان کا مذہب پوچھا، فرمایا:حنفی مسلم وما انا من المشرکین ہر باطل سے الگ مسلمان، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ یہ سمجھے کہ حنفی ہیں ، حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بارگاہ میں عرض کے لیے حاضر ہوئے حضور اندر ہیں دروازہ بند ہے ان کے پہنچتے ہی حضور نے اندر سے ارشاد فرمایا : اے محمد ! آج روئے زمین پر اس شان کا کوئی ولی حنفی المذہب نہیں ۔۱؂ ( ۱ ؎ بہجۃ الاسرار ذکر فصول من کلامہ مرصعا بشیئ من عجائب احوالہ مختصرا دارالکتب العلمیہ بیروت ص ۱۵۲) کیا معاذ اﷲ گمراہ بدمذہب لوگ اولیاء اﷲ ہوتے ہیں جن کی ولایت کی خود سرکار غوثیت نے شہادت دی، وہ وہابی رسالہ نظر سے نہ گزرا، یہاں چند امور واجب اللحاظ ہیں۔ اولاً وہ کلمات جو ان کتب سے مخالف نے نقل کیے اسمعیل دہلوی کے کلمات ملعونہ کے مثل ہوں ورنہ استشہاد مردود ، یہاں یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ بعض متحمل لفظ جب کسی مقبول سے صادر ہوں بحکم قرآن انہیں معنی حسن پر حمل کریں گے، اور جب کسی مردود سے صادر ہوں جو صریح تو ہینیں کرچکا ہو تو اس کی خبیث عادت کی بنا پر معنی خبیث ہی مفہوم ہوں گے کہ:کل اناء یترشح بما فیہ صرح بہ الامام ابن حجر المکی رحمۃ اﷲ تعالٰی ۔ہر برتن سے وہی کچھ باہر آتا ہے جوا س کے اندر ہوتا ہے، امام حجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ ثانیاً وہ کتاب محفوظ مصؤن ہونا ثابت ہو جس میں کسی دشمنِ دین کے الحاق کا احتمال نہ ہو جیسے ابھی غنیۃ الطالبین شریف میں الحاق ہونا بیان ہوا، یونہی امام حجۃ الاسلام غزالی کے کلام میں الحاق ہوئے اور حضرت شیخ اکبر کے کلام میں تو الحاقات کا شمار نہیں جن کا شافی بیان امام عبدالوہاب شعرانی نے کتاب الیواقیت والجواہر میں فرمایا او ر فرمایا کہ خود میری زندگی میں میری کتاب میں حاسدوں نے الحاقات کیے، اسی طرح حضرت حکیم سنائی و حضرت خواجہ حافظ و غیرہما اکابر کے کلام میں الحاقات ہونا شاہ عبدالعزیز صاحب نے تحفہ اثناء عشریہ میں بیان فرمایا ، کسی الماری میں کوئی قلمی کتاب ملے اس میں کچھ عبارت ملنی دلیل شرعی نہیں کہ بے کم و بیش مصنف کی ہے پھر اس قلمی نسخہ سے چھاپا کریں تو مطبوعہ نسخوں کی کثرت کثرت نہ ہوگی اور ان کی اصل وہی مجہول قلمی ہے جیسے فتوحات مکیہ کے مطبوعہ نسخے۔ ثالثاً اگر بہ سند ہی ثابت ہو تو تو اترو تحقیق درکار امام حجۃ الاسلام غزالی وغیرہ اکابر فرماتے ہیں:لاتجوز نسبۃ مسلم الٰی کبیرۃ من غیر تحقیق، نعم یجوز ان یقال قتل ابن ملجم علیّا فان ذٰلک ثبت متواترا۔۱؂بلا تحقیق مسلمان کی طرف گنا ہِ کبیرہ کی نسبت کرنا جائز نہیں ، ہاں یوں کہنا جائز ہے کہ ابن ملجم نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قتل کیا، کیونکہ یہ خبر متواتر سے ثابت ہے۔ ( ۱؎ احیاء العلوم کتاب آفات اللسان الافۃ الثامنۃ اللعن مطبعۃ المشہد الحسینی القاہرہ ۳/ ۱۲۵) جب بے تحقیق تام عام مسلمان کلمہ گو کی طرف گناہ کی نسبت ناجائز ہے تو اولیاء کرام کی طرف معاذ اﷲ کلمہ کفر کی نسبت بلا ثبوت قطعی کیسے حلال ہوسکتی ہے۔ رابعاً سب فرض کرلیں تو اب وہابی کے جواب کا حاصل یہ ہوگا کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی توہین بری نہیں کہ فلاں فلاں نے بھی کی ہے کیا یہ جواب کوئی مسلمان دے سکتا ہے، بفرض غلط توہین جس سے ثابت ہو وہ ہی مقبول نہ ہوگا نہ یہ کہ معاذ اﷲ اس کے سب توہین مقبول ہوجائے ۔ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم واﷲ تعالٰی اعلم ۔ نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی قوت مگر بلند وعظمت والے اﷲ کی توفیق سے ، واﷲ تعالٰی اعلم۔ (فتاوا رضویہ Jild 29, Page No.219-25)
  12. وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ mzeeshanimtiaz bhai deobnadi hazraat is Hadees pak ko zaeef keh kar Hayaat e Nabi ka inkar karte hain , ab aap ki confusion kya hai wo hamen bataiye aur aap ne jo link di hai us se bhi yehi sabit hota hai ke deobnadi hazraat Hayat e Nabi ka inkar kar rahe hain . kya aap ko Hayat e Nabi ke baare mein saboot chahiye ?
×
×
  • Create New...