Jump to content

Najam Mirani

اراکین
  • کل پوسٹس

    232
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    16

سب کچھ Najam Mirani نے پوسٹ کیا

  1. قاعدہ نمبر ۵ مکر یا خداع کے معنی اور ان کی پہچان الف: ''مکر ''یا ''خداع'' کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتو اس کے معنے دھوکہ یا فریب نہ ہوں گے کیونکہ یہ عیب ہیں بلکہ اس کے معنی ہوں گے دھوکے کی سزا دینا یا خفیہ تدبیر کرنا ۔ ب:جب اس کی نسبت بندوں کی طر ف ہو تو مکر کے معنی دھوکہ ، مکاری ، دغا بازی اور خداع کے معنی فریب ہوں گے ۔ ان دونوں کی مثالیں یہ ہیں ۔ (1) یُخٰدِعُوۡنَ اللہَ وَہُوَ خَادِعُہُم وہ اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں او ررب انہیں سزادے گا (پ5،النسآء:142) یا رب ان پر خفیہ تدبیر فرمائے گا ۔ (2) یُخٰدِعُوۡنَ اللہَ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَمَا یَخْدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ منافقین دھوکہ دیا چاہتے ہیں اللہ کو اور مسلمانوں کو اور نہیں دھوکہ دیتے مگر اپنی جانوں کو۔(پ1،البقرۃ:9) (3) وَمَکَرُوۡا وَمَکَرَ اللہُ ؕ وَاللہُ خَیۡرُ الْمٰکِرِیۡنَ ﴿٪۵۴﴾ اور منافقوں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کے خلاف خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ تمام تدبیر یں کرنے والوں میں بہتر ہے ۔(پ3،ال عمرٰن:54) ان تمام آیتوں میں جہاں مکر یا خدا ع کا فاعل کفار ہیں ۔ اس سے مراد دھوکا فریب ہے او رجہاں اس کا فاعل رب تعالیٰ ہے وہاں مراد یا تو مکر کی سز اہے یا خفیہ تدبیر۔ قاعدہ نمبر۶ تقویٰ کے معنی اور ان کی پہچان الف: جب ''تقویٰ'' کی نسبت رب کی طر ف ہو تو اس سے مراد ڈرنا ہوگا۔ ب:جب'' تقویٰ'' کی نسبت آگ یا کفر یا گناہ کی طرف ہو تو اس سے مراد بچنا ہوگا ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے (1) یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ اے لوگو ! ڈرو اپنے اس رب سے جس نے تمہیں پیدا کیا۔(پ4،النسآء:1) (2) فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ او ربچو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔(پ1،البقرۃ:24) پہلے''اِتَّقُوْا''کے معنی ڈرنا ہے کیونکہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اور دوسرے''اِتَّقُوْا'' کے معنی بچنا ہے کیونکہ اس کے بعد آگ کا ذکر ہے ۔
  2. کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ مین کہ ۲۷تاریخ ماہ رجب کی، روزہ رکھنا چاہئے یا نہیں؟ بینواتوجروا الجواب بیہقی شعب الایمان اور دیلمی نے مسند الفردوس میں سلمان فارسی رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے مرفوعاً روایت کی:فی رجب یوم ولیلۃ من صام ذٰلک الیوم وقام تلک اللیلۃ کان کمن صام من الدھر مائۃ سنۃ وقام مائۃ سنۃ وھو لثلث بقین من رجب وفیہ بعث اﷲتعالٰی محمد اصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلّم۱؎۔ قال البیہقی منکر ۲؎رجب میں ایک دن اور رات ہے جو اس دن کا روزہ رکھے اور وُہ رات نوافل میں گزارے سَوبرس کے روزوں اور سَوبرس کے شب بیداری کے برابر ہو، اور وہ ۲۷رجب ہے اسی تاریخ اﷲ عزوجل نے محمد صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ ( امام بیہقی نے اس روایت کو منکر کہا ہے۔ت) (۱؎ الفردوس بمأثور الخطاب حدیث۴۳۸۱دارالکتب العلمیہ بیروت۳ /۱۴۲) (شعب الایمان حدیث ۳۸۱۱دارالکتب العلمیہ بیروت۳ /۳۷۴) (۲؎ کنز العمال بحوالہ ھب حدیث ۳۵۱۶۹مکتبۃ التراث الاسلامی بیروت۱۲ /۳۱۲) نیز اسی میں بطریق ابان بن عیاش حضرت انس رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے مرفوعاًمروی:فی رجب لیلۃ یکتب للعامل فیھا حسنات مائۃ سنۃ، وذٰلک لثلٰث بقین من رجب فمن صلی فیہ اثنتی عشرۃ رکعۃ یقرأ فی کل رکعۃ فاتحۃ الکتاب وسورۃ من القرأن، ویتشھد فی کل رکعۃ ویسلم فی اٰخرھن، ثم یقول، سبحٰن اﷲ والحمدﷲ ولاالٰہ الااﷲ واﷲاکبرمائۃ مرۃ ویستغفر اﷲمائۃ مرۃ ویصلی عن النّبی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم مائۃ مرۃ ویدعولنفسہ ماشاء من امر دنیاہ واٰخرتہ ویصبح صائمافان اﷲیستجیب دعاء کلہ الاان یدعوفی معصیۃ ۱؎۔ قال البیھقی ھو اضعف من الذی قبلہ۲؎، قال ابن حجر فیہ متھمان۔۳؎ رجب میں ایک رات ہے کہ اس میں عمل نیک کرنے والے کو سَو برس کی نیکیوں کا ثواب ہے اور وہ رجب کی ستائیسویں شب ہے جو اس میں بارہ رکعت پڑھے ہررکعت میں سورہ فاتحہ اور ایک سورت، اور ہر دورکعت پر التحیات اور آخر میں بعد سلامسبحن اﷲ والحمد ﷲ ولاالٰہ الااﷲ واﷲاکبرسوبار، استغفار سَو بار،درود سو بار ،اور اپنی دنیا وآخرت سے جس چیز کی چاہے دعا مانگے اور صبح کو رزہ رکھے تو اﷲتعالیٰ اس کی سب دعائیں قبول فرمائے سوائے اس دُعا کے جو گناہ کے لیے ہو۔ (بیہقی فرماتے ہیں یہ روایت سابقہ روایت سے زیادہ ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں اس کے دو۲ راوی متہم بالکذ ب ہیں۔ت) (۱؎ شعب الایمان حدیث۳۸۱۲۱دارالکتب العلمیہ بیروت۳ /۳۷۴) (۲؎ کنز العمال بحوالہ شعب الایمان حدیث ۳۵۱۷۰مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۲ /۳۱۲) ۳؎ ماثبت بالسنۃ مع اردوترجمہ بحوالہ ابن حجر ذکرماہ رجب ادارہ نعیمیہ رضویہ لال کھوہ موچی گیٹ لاہورص۲۵۲) فوائد ہناد میں انس رضی اﷲتعالٰی عنہ سے مروی:بعث نبیا فی السابع والعشرین رجب فمن صام ذٰلک الیوم ودعا عند افطارہ کان لہ کفارۃ عشر سنتین۴؎۔ اسنادہ منکر۔۲۷ رجب کو مجھے نبوت عطا ہُوئی جو اس دن کا روزہ رکھے اور افطار کے وقت دُعا کرے دس برس کے گناہوں کا کفارہ ہو( اس کی اسناد منکر ہے۔ت) ( ۴؎ تنزیہ الشریعۃبحوالہ فوائد ہناد کتاب الصوم حدیث۴۱دارالکتب العلمیۃ بیروت۳ /۱۶۱) جزء ابی معاذ مروزی میں بطریق شہر ابن حوشب ابوھریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے موقوفاًمروی :من صام یوم سبع وعشرین من رجب کتب اﷲلہ صیام ستین شھراوھوالیوم الذی ھبط فیہ جبریل علی محمد صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم بالرسالۃ۱؎۔جو رجب کی ستائیسویں کا روزہ رکھے تو اﷲتعالیٰ اس کے لیے ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھے، اور وُہ وُہ دن ہے جس میں جبریل علیہ الصلٰوۃ والسلام محمد صلّی اﷲتعالیٰ علیہ و سلم کے لیے پیغمبری لے کر نازل ہُوئے۔ (۱؎ تنزیہ الشریعۃبحوالہ جزء ابی معاذکتاب الصوم حدیث۴۱دارا لکتب العلمیہ بیروت۳ /۱۶۱) تنزیہ الشریعۃ سے ماثبت بالسّنۃ میں ہے:وھذاأمثل ماوردفی ھذاالمعنی۲؎۔یہ اُن سب حدیثوں سے بہتر ہے جو اس باب میں آئیں۔ بالجملہ اس کے لیے اصل ہے اور فضائلِ اعمال میں حدیثِ ضعیف باجماعِ ائمہ مقبول ہے واﷲتعالٰی اعلم۔ (۲؎ تنزیہ الشریعۃبحوالہ جزء ابی معاذکتاب الصوم حدیث۴۱دارا لکتب العلمیہ بیروت۳ /۱۶۱) (ما ثبت بالسنۃ مع اردو ترجمہ ذکرماہِ رجب ارادہ نعیمیہ رضویہ لال کھوہ موچی گیٹ لاہورص۲۳۴) مسئلہ ۲۷۴: ۱۲ شعبان المعظم۱۳۲۱ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ روزہ رکھنا ماہِ مبارک رجب مرجب کی ۲۷تاریخ کو سوارمضان کے بہ نسبت اور روزوں کے فضیلت رکھتا ہے یا نہیں؟ اور اگر رکھتا ہے تو کیا وجہ ہے اور ماسوا اس روزے کے درمیان سال بھر کے اور کون کون روزہ ایسا ہے جس کو حضرت رسول اﷲصلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد واسطے روزہ رکھنے کے فرمایا ہے، اور اگر کوئی شخص روزہ ۲۷ رجب المرجب کو رکھے تو کس قدر مستحقِ ثواب کارہوگا؟ اور نیز دُوسرے روزوں میں؟ اور اگر کوئی منع کرے اور روں کو، اور منکر ہو خود، تو وُہ کون ہے گنہ گار ہے یا نہیں؟ بیّنو اتوجروا۔ الجواب صوم وغیرہ اعمالِ صالحہ کے لیے بعد رمضان مبارک سب دنوں سے افضل عشر ذاالحجہ ہے، رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:مامن ایام العمل الصالح فیھن احب الی اﷲتعالٰی من ھذہ الایام العشرقالوا یا رسول اللہ ولاالجہاد فی سبیل اﷲقال ولا الجہاد فی سبیل اﷲالارجلا خرج بنفسہ ومالہ ثم لم یرجع من ذٰلک بشئی۱؎۔ رواہ البخاری والترمذی وابوداؤد وابن ماجۃ و الطبرانی فی الکبیر بسند جید والبیہقی کلھم عن ابن عباس رضی اﷲتعالیٰ عنھما والطبرانی فیہ بسند صحیح عن ابن مسعود والبزارفی مسندہ بسند حسن وابو یعلی بسند صحیح وابن حبان فی صحیحہ عن جابربن عبد اﷲرضی اﷲتعالٰی عنہم اجمعین۔ دس۱۰ دنوں سے زیادہ کسی دن کا عمل صالح اﷲ عزوجل کو محبوب نہیں، صحابہ نے عرض کی یا رسول اﷲ اور نہ راہ خدا میں جہاد؟ فرمایا: اور نہ راہِ خدا میں جہاد مگر وُہ کہ اپنی جان ومال لے کر نکلے پھر ان میں سے کچھ واپس نہ لائے (اسے بخاری، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ اور طبرانی نے المعجم الکبیر میں سند جیّد کے ساتھ اور بیہقی تمام حضرات نے حضرت عبد اﷲبن عباس رضی اﷲتعالیٰ عنہما سے روایت کیا ہے، اور اس میں طبرانی نے حضرت ابن مسعود رضی اﷲتعالیٰ عنہ اور بزار نے اپنی مسند میں سند حسن کے ساتھ اور ابویعلیٰ نے سند صحیح کے ساتھ اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں حضرت جابر بن عبدا ﷲرضی اﷲتعالٰی عنہم اجمعین سے روایت کیا ہے۔(ت) (۱؎جامع الترمذی باب ماجاء فی العمل فی ایّام العشرامین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی۱ /۹۴) (السنن الصغیر للبیہقی باب العمل الصالح فی العشر الخ دارالکتب العلمیہ بیروت۱ /۳۷۸) ابو ھریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے ہے رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:مامن ایام احب الی اﷲان یتعبد لہ فیھا من عشر ذی الحجہ یعدل صیام کل یوم منھا بصیام سنۃ وقیام کل لیلۃ منھا بقیام لیلۃ القدر۲؎۔ رواہ الترمذی وابن ماجۃ والبیھقی۔ اﷲ عزوجل کو عشرہ ذی الحجہ سے زیادہ کسی دن کی عبادت پسندیدہ نہیں، اُن کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں اور ہر شب کا قیام شب قدر کے برابر ہے۔(اسے ترمذی، ابن ماجہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ت) (۲؎ جامع الترمذی باب ماجاء فی العمل فی ایام العشرامین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی۱ /۹۴) (سُنن ابن ماجہ باب صیام العشرایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ص۱۲۵) خصوصاً روزِ عرفہ کہ افضل ایّام سال ہے، اس کا روزہ صحیح حدیث سے ہزاروں روزوں کے برابر ہے اور دو۲ سال کامل کے گناہوں کی معافی، ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ ۔الائمۃ الستۃ الاالبخاری عن ابی قتادۃ رضی اﷲعنہ قال سئل رسول صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلّم عن صوم یوم عرفۃ قال یکفرالسنۃ الماضیۃ والباقیۃ ۱؎ بخاری کے علاوہ ائمہ ستّہ نے حضرت ابو قتادہ رضی اﷲعنہ سے روایت کیا کہ رسول اﷲصلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم سے یوم عرفہ کے بارے دریافت کیا گیا تو فرمایا یہ سال گزشتہ اور آئندہ کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ (۱؎ صحیح مسلم کتاب الصیام قدیمی کتب خانہ کراچی۱ /۳۶۸) (سنن ابن ماجہ باب صیام العشرایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۲۵) ولابی یعلی بسند صحیح عن سھل بن سعد رضی اﷲتعالٰی عنہ قال قال رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم من صام یوم عرفۃ غفرلہ ذنب سنتین متتابعین۲؎ اور ابویعلیٰ نے سند صحیح کے ساتھ حضرت سہل بن سعد رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا : جس نے عرفہ کے دن روزہ رکھا اس کے مسلسل دوسالوں کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (۲؎ مسند ابو یعلٰی حدیث ۷۵۱۰مؤسسہ علوم القرآن بیروت۶ /۵۰۵) وللطبرانی بسند حسن والبیہقی واللفظ لہ عن ام المؤمنین رضی اﷲتعالٰی عنہا قالت کان رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم یقول صیام یوم عرفۃ کصیام الف یوم۔۳؎اور طبرانی میں سند حسن کے ساتھ اور بیہقی نے اور بیہقی کے الفاظ ہیں امّ المؤمنین رضی اﷲتعالٰی عنہا سے روایت کیا گیا ہے رسول اﷲصلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فرمایا کرتے کہ عرفہ کے روزہ کا ثواب ہزار دن کے روزوں کے برابر ہے۔(ت) (۳؎ شعب الایمان حدیث ۳۷۶۴دارا لکتب العلمیہ بیروت۳ /۳۵۷) پھر سب دنوں سے افضل روزہ عاشورہ یعنی دہم محرم کا روزہ ہے اس میں ایک سال گزشتہ کے گناہوں کی مغفرت ہے، رسول اﷲصلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:من صام یوم عرفۃ غفر لہ سنۃ امامہ وسنۃ خلفہ ومن صام عاشوراء غفرلہ سنۃ۴؎۔ رواہ الطبرانی بسند حسن فی معجمہ الاوسط عن ابی سعید ن الخدری رضی اﷲتعالٰی عنہ۔ جس نے عرفہ کاروزہ رکھا اس کے پہلے اور آئندہ کے سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور جس نے عاشوراء کا روزہ رکھا اس کے ایک سال کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ اسے طبرانی نے معجم الاوسط میں حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲتعالٰی عنہ سے سندِ حسن کے ساتھ روایت کیا ہے(ت) (۴؎ الترغیب والترھیب بحوالہ معجم اوسط الترغیب فی صوم یوم عرفہ الخ مصطفی البابی مصر۲ /۱۱۲) محرم کے ہردن کا روزہ ایک مہینہ کے روزوں کے برابر ہے۔الطبرانی فی الکبیر الصغیر عن ابن عباس رضی اﷲتعالٰی عنہما بسند لا باس بہ عن النبی صلّی اﷲتعالٰی علیہ وسلم من صام یوما من المحرم فلہ بکل یوم ثلٰثون حسنۃ۱؎۔ طبرانی نے معجم الکبیر اور صغیر میں حضرت ابن عباس رضی اﷲتعالیٰ عنہما سے ایسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے جس میں کوئی حرج نہیں، کہ رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے محرم کا ایک روزہ رکھا اس کے لیے ہر دن میں تیس۳۰ نیکیاں ہیں(ت) (۱؎ المعجم الکبیر حدیث ۱۱۰۸۲المکتبۃ الفیصلیہ بیروت۱۱ /۷۲) رسول اﷲصلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:افضل الصوم بعد رمضان، شعبان لتعظیم رمضان ۲؎۔ رواہ الترمذی واستغربہ والبیہقی فی الشعب وفیہ صدقۃ بن موسٰی۔ رمضان کے بعد سب سے افضل شعبان کے روزے ہیں تعظیم رمضان کے لیے۔ (اسے ترمذی نے روایت کرکے غریب کہا اور بیہقی نے شعب الایمان میں ذکر کیا، اور اس میں ایک راوی صدقہ بن موسیٰ ہے۔ت) (۲؎ جامع الترمذی ابواب الزکوٰۃباب ماجاء فی فضل الصدقۃ امین کمپنی دہلی۱ /۸۴) (شعب الایمان حدیث ۳۸۱۹دارالکتب العلمیہ بیروت۳ /۳۷۷) تو ۲۷ رجب کے روزے بعد رمضان سب روزوں سے افضل کہنا صحیح نہیں، ہاں بعض احادیث اُس کی فضیلت میں مروی ہُوئیں کہ فقیر نے اپنے فتاوٰی میں ذکر کیں، اُن سب میں بہتر حدیث موقوف ابوھریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے ہے:من صام یوم سبع عشرین من رجب کتب اﷲتعالٰی لہ صیام ستین شھرا ۳؎۔جو ۲۷ رجب کا روزہ رکھے اﷲتعالٰی اُس کے لیے پانچ برس کے روزوں کا ثواب لکھے۔ (۳؎ تنزیہ الشریعۃبحوالہ جزء ابی معاذکتا ب الصوم حدیث۴۱دارالکتب العلمیہ بیروت۲ /۱۶۱) ایسی جگہ حدیث موقوف مرفوع ہے کہ تعیین مقدار اجر کی طرف رائے کواصلاً راہ نہیں، اور حدیثِ ضعیف ۴؎فضائل اعمال میں باجماع ائمہ مقبول ہے کما فصلنا ہ بما لا مزید علیہ فی رسالتنا الھاد الکاف فی حکم الضعاف ( اس کی پوری تفصیل جس پر اضافہ دشوار ہے ہم نے اپنے رسالہ الہاد الکاف فی حکم الضعاف میں کی ہے۔ت) ۴؎ اس کے مطالعہ کے لیے رسالہ''منیر العین فی حکم تقبیل الابہا مین'' ملاحظہ ہو جو فتاوٰی رضویہ(جدید)جلد ۵ کے ص۴۲۹پر ہے۔ (فتاوا رضویہ جلد 10)
  3. مسئلہ ۱۷: جس کپڑے پر جاندار کی تصویر ہو، اسے پہن کر نما زپڑھنا، مکروہ تحریمی ہے۔ نماز کے علاوہ بھی ایسا کپڑا پہننا، ناجائز ہے۔ یوہیں تصویر مصلّی (نمازی) کے سر پر یعنی چھت ميں ہو یا معلّق (آویزاں) ہو، یا محل سجود (سجدے کی جگہ) میں ہو، کہ اس پر سجدہ واقع ہو، تو نماز مکروہ تحریمی ہوگی ، یوہیں مصلّی کے آگے، یا داہنے، یا بائیں تصویر کا ہونا، مکروہ تحریمی ہے، اور پسِ پُشت (پیچھے) ہونا بھی مکروہ ہے، اگرچہ ان تینوں صورتوں سے کم اور ان چاروں صورتوں میں کراہت اس وقت ہے کہ تصویر آگے پیچھے دہنے بائیں معلق ہو، یا نصب ہو یا دیوار وغیرہ میں منقوش ہو، اگر فرش میں ہے اور اس پر سجدہ نہیں، تو کراہت نہیں۔ اگر تصویر غیر جاندار کی ہے، جیسے پہاڑ دریا وغیرہا کی، تو اس میں کچھ حرج نہیں۔ (''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، ج۲، ص۵۰۲ ۔ ۵۰۴، وغيرہما مسئلہ ۱۸: اگر تصویر ذلت کی جگہ ہو، مثلاً جوتیاں اُتارنے کی جگہ يا اور کسی جگہ فرش پر کہ لوگ اسے روندتے ہوں يا تکیے پر کہ زانو وغیرہ کے نیچے رکھا جاتا ہو، تو ایسی تصویر مکان میں ہونے سے کراہت نہیں، نہ اس سے نماز میں کراہت آئے، جب کہ سجدہ اس پر نہ ہو۔ (درمختاروغیرہ مسئلہ ۱۹: جس تکیہ پر تصویر ہو، اسے منصوب (یعنی کھڑا) کرنا پڑا ہوا نہ رکھنا، اعزاز تصویر میں داخل ہوگا اور اس طرح ہونا نماز کو بھی مکروہ کردے گا۔ (درمختار مسئلہ ۲۰: اگر ہاتھ میں یا اور کسی جگہ بدن پر تصویر ہو، مگر کپڑوں سے چھپی ہو، یا انگوٹھی پر چھوٹی تصویر منقوش ہو، یا آگے، پیچھے، دہنے، بائیں، اوپر، نیچے کسی جگہ چھوٹی تصویر ہو یعنی اتنی کہ اس کو زمین پر رکھ کر کھڑے ہو کر دیکھیں تو اعضا کی تفصیل نہ دکھائی دے، یا پاؤں کے نیچے، یا بیٹھنے کی جگہ ہو، تو ان سب صورتوں میں نماز مکروہ نہیں۔ (درمختار مسئلہ ۲۱: تصویر سر بریدہ یا جس کا چہرہ مٹا دیا ہو، مثلاً کاغذ یا کپڑے یا دیوار پر ہو تو اس پر روشنائی پھیر دی ہو یا اس کے سر یا چہرے کو کھرچ ڈالا یا دھو ڈالا ہو، کراہت نہیں۔ (ردالمحتار مسئلہ ۲۲: اگر تصویر کا سر کاٹا ہو مگر سر اپنی جگہ پر لگا ہوا ہے ہنوز (یعنی ابھی تک) جدا نہ ہوا، تو بھی کراہت ہے۔ مثلاً کپڑے پر تصویر تھی، اس کی گردن پر سلائی کر دی کہ مثل طوق کے بن گئی۔ (ردالمحتار مسئلہ ۲۳: مٹانے میں صرف چہرہ کا مٹانا کراہت سے بچنے کے ليے کافی ہے، اگر آنکھ یا بھوں، ہاتھ، پاؤں جُدا کر ليے گئے تو اس سے کراہت دفع نہ ہوگی۔ (ردالمحتار مسئلہ ۲۴: تھیلی یا جیب میں تصویر چھپی ہوئی ہو، تو نماز میں کراہت نہیں۔ (درمختار) مسئلہ ۲۵: تصویر والا کپڑا پہنے ہوئے ہے اور اس پر کوئی دوسرا کپڑا اور پہن لیا کہ تصویر چھپ گئی، تو اب نماز مکروہ نہ ہوگی۔ (ردالمحتار مسئلہ ۲۶: یوں تو تصویر جب چھوٹی نہ ہو اور موضع اہانت (یعنی ذلّت کی جگہ) میں نہ ہو، اس پر پردہ نہ ہو، تو ہر حالت میں اس کے سبب نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے، مگر سب سے بڑھ کر کراہت اس صورت میں ہے، جب تصویر مصلّی کے آگے قبلہ کو ہو، پھر وہ کہ سر کے اوپر ہو، اس کے بعد وہ کہ داہنے بائیں دیوار پر ہو، پھر وہ کہ پیچھے ہو دیوار یا پردہ پر۔ (ردالمحتار، عالمگيری مسئلہ ۲۷: یہ احکام تو نماز کے ہیں، رہا تصویروں کا رکھنا اس کی نسبت صحیح حدیث میں ارشاد ہوا کہ ''جس گھر میں کُتّا ہو یا تصویر ، اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔'' (''صحيح البخاري''، کتاب المغازي، الحديث: ۴۰۰۲، ج۳، ص۱۹.) یعنی جب کہ توہین کے ساتھ نہ ہوں اور نہ اتنی چھوٹی تصویریں ہوں۔ مسئلہ ۲۸: روپے اشرفی اور دیگر سکّے کی تصویریں بھی فرشتوں کے داخل ہونے سے مانع ہیں یا نہیں۔ امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ نہیں اور ہمارے علمائے کرام کے کلمات سے بھی یہی ظاہر ہے۔ (درمختار، ردالمحتار مسئلہ ۲۹: یہ احکام تو تصویر کے رکھنے میں ہیں کہ صورت اہانت و ضرورت وغیرہما مستثنیٰ ہیں، رہا تصویر بنانا یا بنوانا، وہ بہرحال حرام ہے۔ (6) (ردالمحتار (بحوالہ بہارِ شریعت جلد اول حصہ سوم ، صفحہ 629-627)
  4. قاعدہ نمبر ۳ رب کے معنی اور ان کی پہچان الف: جب رب کی نسبت اللہ کی طر ف ہو تو اس سے مراد ہے حقیقی پالنے والا یعنی اللہ تعالیٰ ۔ ب: جب کسی بندے کو رب کہا جاوے تو اس کے معنی ہوں گے مربی ، محسن ، پرورش کرنے والا۔ ّ'' الف''کی مثال یہ آیات ہیں: (1) اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱ ساری حمد یں اللہ کے لئے ہیں جو جہان کا رب ہے ۔(پ1،الفاتحۃ:1) (2) رَبَّکُمْ وَ رَبَّ اٰبَآئِکُمُ الْاَوَّلِیۡنَ ﴿۱۲۶ وہ اللہ تمہارا اور تمہارے پچھلے باپ دادوں کا رب ہے ۔(پ23،الصّٰفّٰت:126) (3) قُلْ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۙ﴿۱﴾مَلِکِ النَّاسِ ۙ﴿۲ فرمادو میں پناہ لیتا ہوں انسانوں کے رب کی ۔(پ30،الناس:1،2) ان آیا ت میں چونکہ اللہ تعالیٰ کو رب کہا گیا لہٰذا اس سے مراد حقیقی پالنے والا ہے ۔ ''ب'' کی مثال ان آیتو ں میں ہے : (1) ارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَسْـَٔلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ الّٰتِیۡ قَطَّعْنَ اَیۡدِیَہُنَّ اپنے مربی (بادشاہ) کی طر ف لوٹ جاپھر اس سے پوچھ کہ کیا حال ہے ان عورتوں کا جنہوں نے ہاتھ کاٹے تھے ۔(پ12،یوسف:50) (2) قَالَ مَعَاذَ اللہِ اِنَّہٗ رَبِّیۡۤ اَحْسَنَ مَثْوَایَ فرمایا یوسف نے اللہ کی پناہ وہ بادشاہ میرا رب ہے اس نے مجھے اچھی طر ح رکھا ۔(پ12،یوسف:23) ان آیتو ں میں چونکہ بندوں کو رب کہا گیا ہے اس لئے اس کے معنے مربی اور پرورش کرنے والا ہیں۔ قاعدہ نمبر ۴ ضلال کے معنی اور ان کی پہچان الف: جب ''ضلال'' کی نسبت غیرنبی کی طرف ہو تواس کے معنی گمراہ ہوں گے۔ ب:جب ''ضلال'' کی نسبت نبی کی طر ف ہو تو اس کے معنی وار فتہ محبت یا راہ سے ناواقف ہوں گے ۔ '' الف'' کی مثال یہ ہے : (1) مَنۡ یُّضْلِلِ اللہُ فَلَاہَادِیَ لَہٗ جسے خدا گمراہ کرے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں ۔(پ9،الاعراف:186) (2) غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ وَلَا الضَّآ لِّیۡنَ ٪﴿۷﴾ ان کا راستہ نہ چلا جن پر غضب ہو انہ گمراہوں کا ۔(پ1،الفاتحۃ:7) (3) وَمَنۡ یُّضْلِلْ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا ﴿٪۱۷﴾ جسے رب گمراہ کردے تم اس کیلئے ہادی رہبر نہ پاؤ گے ۔(پ15،الکھف:17) ان جیسی تمام آیتو ں میں چونکہ ضلال کا تعلق نبی سے نہیں غیر نبی سے ہے تو اس کے معنی ہیں گمراہی خواہ کفر ہو یا شرک یا کوئی اور گمراہی سب اس میں داخل ہوں گے ۔ ''ب''کی مثالیں : (1) وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾ اے محبوب رب نے تمہیں اپنی محبت میں وارفتہ پایا تو اپنی راہ دے دی ۔(پ30،الضحی:7) (2) قَالُوۡا تَاللہِ اِنَّکَ لَفِیۡ ضَلٰلِکَ الْقَدِیۡمِ ﴿۹۵﴾ وہ فرزندان یعقوب بولے کہ خدا کی قسم تم تو اپنی پرانی خودر فتگی میں ہو۔(پ13،یوسف:95) (3) قَالَ فَعَلْتُہَاۤ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیۡنَ ﴿ؕ۲۰﴾ فرمایا موسیٰ نے کہ میں نے قبطی کو مارنے کا کام جب کیا تھا جب مجھے راہ کی خبر نہ تھی۔(پ19،الشعرآء:20) یعنی نہ جانتا تھا کہ گھونسہ مارنے سے قبطی مرجائے گا ۔ان جیسی تمام آیتو ں میں ''ضلال'' کے معنی گمراہی نہیں ہوسکتے کیونکہ نبی ایک آن کے لئے گمراہ نہیں ہوتے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : (1) مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی ۚ﴿۲﴾ تمہارے صاحب محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نہ بہکے نہ بے راہ چلے ۔(پ27،النجم:2) (2)لَیۡسَ بِیۡ ضَلٰلَۃٌ وَّلٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۶۱﴾ حضر ت شعیب نے فرمایا کہ مجھ میں گمراہی نہیں لیکن میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں ۔(پ8،الاعراف:61) ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ نبی گمراہ نہیں ہوسکتے۔ آیت ۲ میں''لکن'' بتارہا ہے کہ نبوت اور گمراہی جمع نہیں ہوسکتی ۔
  5. وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  6. حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ، حضرت ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھائی ہیں ، اس حساب سے وہ مسلمانوں کے ماموں ہوئے۔
  7. (381) Hazrat Allama Mufti Muhammad Hanif Qureshi's Views About Madani Channel, Ameer-e-Ahle Sunnat And Dawat-e-Islami http://www.facebook.com/photo.php?v=506234999415063&set=vb.433976309999321&type=3&theater (382)Hazrat Allama Molana Ghulam Rasool Qasmi Views about Madani Channel ,Ameer-e-Ahlesunnat and Dawateislami http://www.metacafe.com/watch/10441517/382_hazrat_allama_ghulam_rasool_qasmi_views_about_madani_chanel/ (383)HAZRAT ALLAMA MOLANA MUBARAK HUSSAIN MISBAHI USTAAZ JAMIA ASHRAFIYA MUBARAKPUR HIND VIEWS ABOUT MADANI CHANNEL http://www.metacafe.com/watch/10488289/383_allama_mubarak_hussain_misbahi_views_about_madani_channel/ (384)Hazrat Allama Molana Muhammad Khan Noori Views about Madani Channel , Ameer-e-Ahlesunnat and Dawateislami http://www.metacafe.com/watch/10488821/384_molana_muhammad_khan_noori_views_about_madani_channel/ (385)Hazrat Molana Abu Masood Khalid Hasan Mujadadi Qadri Views about Dawateislami and Madani Channel http://www.metacafe.com/watch/10488860/385_molana_abu_masood_khalid_hasan_views_about_madani_channel/
  8. Najam Mirani

    قواعد قرآنیہ

    اصطلاحاتِ قرآنیہ میں معلوم ہوچکا کہ قرآن شریف میں ایک لفظ چند معنی میں آتا ہے ،ہر مقام پر لفظ کے وہی معنی کرنا چاہئیں جو اس جگہ مناسب ہوں۔ اب ہم وہ قاعدے بیان کرتے ہیں جن سے معلوم ہوجائے کہ لفظ کے معنے معلوم کرنے کے قاعدے کیا ہیں؟ کیسے معلوم کریں کہ یہاں فلاں معنی ہیں۔ ان قواعد کو بغور مطالعہ کرو تاکہ ترجمہ قرآن میں غلطی واقع نہ ہو۔ قاعدہ نمبر ۱ وحی کی معنی اور ان کی پہچان الف: جب وحی کی نسبت نبی کی طر ف ہوگی تو ا سکے معنی ہوں گے رب تعالیٰ کابذریعہ فرشتہ پیغمبر سے کلام فرمانا یعنی وحی الٰہی عرفی ۔ ب:جب وحی کی نسبت غیرنبی کی طر ف ہو تواس سے مرادہوگادل میں ڈالنا، خیال پیدا کردینا ۔ الف کی مثال ان آیا ت میں ہے : (1) اِنَّاۤ اَوْحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ کَمَاۤ اَوْحَیۡنَاۤ اِلٰی نُوۡحٍ وَّالنَّبِیّٖنَ مِنۡۢ بَعْدِہٖ بے شک ہم نے وحی کی تمہاری طر ف جیسے وحی کی تھی نوح اور ان کے بعد والے پیغمبر وں کی طر ف ۔(پ6،النسآء:163 (2) وَ اُوۡحِیَ اِلٰی نُوۡحٍ اَنَّہٗ لَنۡ یُّؤْمِنَ مِنۡ قَوْمِکَ اِلَّا مَنۡ قَدْ اٰمَنَ اور وحی کی گئی نوح کی طر ف کہ اب ایمان نہ لا ئیگا مگر وہ جو ایمان لاچکے ۔(پ12،ھود:36) ان جیسی صدہا آیتوں میں وحی سے مراد ہے وحی ربانی جو پیغمبر وں پر آتی ہے۔ ''ب '' کی مثال یہ آیات ہیں: (1) وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوۡتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوۡنَ ﴿ۙ۶۸ اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں ڈالا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتو ں میں ۔(پ14،النحل:68) (2) وَ اِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ لَیُوۡحُوۡنَ اِلٰۤی اَوْلِیٰٓـِٕہِمْ اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتا ہے ۔(پ8،الانعام:121) (3) وَاَوْحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنْ اَرْضِعِیۡہِ اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کے دل میں ڈال دیا کہ انہیں دودھ پلاؤ ۔(پ20،القصص:7) ان آیتو ں میں چونکہ وحی کی نسبت شہد کی مکھی یا موسیٰ علیہ السلام کی ماں یا شیطان کی طر ف ہے اور یہ سب نبی نہیں اس لئے یہاں وحی نبوت مراد نہ ہوگی بلکہ فقط دل میں ڈال دینا مراد ہوگا کبھی وحی اس کلام کو بھی کہا جاتا ہے جو نبی سے بلا واسطہ فرشتہ ہو ۔ جیسے اس آیت میں ہے ۔ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیۡنِ اَوْ اَدْنٰی ۚ﴿۹﴾فَاَوْحٰۤی اِلٰی عَبْدِہٖ مَاۤ اَوْحٰی ﴿ؕ۱۰ پس ہوگئے وہ محبوب دوکمانوں کے فاصلہ پر اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی کی ۔(پ27،النجم:9۔10 معراج کی رات قرب خاص کے موقعہ پر جب فرشتہ کا واسطہ نہ رہا تھا جو رب تعالیٰ سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ہم کلامی ہوئی اسے وحی فرمایاگیا۔ قاعدہ نمبر۲ عبد کی معنی اور ان کی پہچان الف: جب'' عبد ''کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طر ف ہو تو اس سے مراد مخلوق عابد یا بندہ ہوتا ہے ۔ ب: جب'' عبد '' کی نسبت بندے کی طرف ہو تو اس کے معنی خادم نوکر ہوں گے ۔ '' الف ''کی مثال ان آیات میں ہے : (1) سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الۡاَقْصَا پاک ہے وہ جو اپنے بندہ خاص کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:1) (2) وَاذْکُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوۡبَ (3) اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمْ سُلْطٰنٌ میرے خاص بندوں پر اے ابلیس تیرا غلبہ نہ ہوگا ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:65) ان تمام آیتو ں میں چونکہ عبدکی نسبت رب تعالیٰ کی طر ف ہے اس لئے یہاں ''عبد '' کے معنی بندہ ئعا بد ہوں گے ۔ '' ب ''کی مثال ان آیات میں ہے : (1) وَ اَنۡکِحُوا الْاَیَامٰی مِنۡکُمْ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَ اِمَآئِکُمْ اور نکاح کردو ان میں سے ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق غلاموں اور لونڈیوں کا ۔(پ18،النور:32) (2) قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسْرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوۡا مِنۡ رَّحْمَۃِ اللہِ فرمادو کہ اے میرے وہ غلاموجنہوں نے زیادتی کی اپنی جانوں پر مت ناامید ہو اللہ کی رحمت سے (پ24،الزمر:53 ان آیتو ں میں چونک'' عبد '' کی نسبت بندوں کی طر ف ہے اس لئے اس کے معنی مخلوق نہ ہوں گے بلکہ خادم ، غلام ہوں گے لہٰذا عبدالنبی اور عبدالرسول کے معنی ہیں نبی کا خادم۔
  9. سوال: معراج کی حقیقت قرآن سے ثابت کریں؟ جواب: معراج شریف کی حقیقت قرآن مجید سے ملاحظہ ہو القرآن… سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ الذی بارکنا حولہ لنریہ من اٰیتنا انہ ہو السمیع البصیر (سورہ بنی اسرائیل‘ آیت 1 پارہ 15) ترجمہ: پاکی ہے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہم نے اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بے شک وہ سنتا دیکھتا ہے۔ سرکار اعظمﷺ کے سفر معراج کا ذکر قرآن مجید کی متعدد آیات میں مفصلاً‘ مجملاً‘ کنایتاً اور اشارتاً ملتا ہے۔ متذکرہ آیت مقدسہ کے علاوہ سورۂ والنجم پارہ 27 کی ابتدائی آیات ایک تا اٹھارہ مسلسل مضامین معراج کا ہی بیان کرتی ہیں۔ متذکرہ آیت میں لفظ آیا ہے ’’بعبدہ‘‘ اس سے مراد بندہ ہے کیونکہ بندہ روح اور جسم کے ایک ساتھ ہونے سے بنتا ہے ورنہ اگر صرف روح ہوتی تو آیت میں ’’بروحہ‘‘ آتا۔ مگر یہاں بعبدہ بیان کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ معراج کا سفر سرکار اعظمﷺ نے روح اور جسم کے ساتھ فرمایا۔ سوال : حدیث شریف کا مفہوم یوں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ معراج کی رات میں نے سرکار اعظمﷺ کا جسم گم نہ پایا اس کا جواب دیں؟ جواب: حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ سرکار اعظمﷺ کو ایک نہیں بلکہ کئی معراجیں کرائی گئیں جن میں سے ایک معراج روح اور جسم کے ساتھ ہوئی بقیہ تمام معراجیں صرف روحانی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی حدیث میں جس معراج کا ذکر ہے وہ معراج روحانی ہے۔ سوال: شب معراج سرکار اعظمﷺ کا اپنے رب جل جلالہ کا دیدار کرنا احادیث کی روشنی میں ثابت کریں؟ جواب: سرکار اعظمﷺ نے شب معراج اپنے سر کی آنکھوں سے رب تعالیٰ کا دیدار کیا۔ الحدیث: حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار اعظمﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے رب کریم کو دیکھا۔ (مسند احمد از کتاب‘ دیدار الٰہی) اس حدیث کے بارے میں امام اجل امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ خصائص کبریٰ اور علامہ عبدالرئوف شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں‘ کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ الحدیث… حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار اعظمﷺ فرماتے ہیں کہ بے شک اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دولت کلام بخشی اور مجھے اپنا دیدار عطا فرمایا۔ مجھ کو شفاعت کبریٰ و حوض کوثر سے فضیلت بخشی (بحوالہ: ابن عساکر از کتاب: دیدار الٰہی) الحدیث: طبرانی معجم اوسط میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرمایا کرتے بے شک سرکار اعظمﷺ نے دو مرتبہ اپنے رب جل جلالہ کو دیکھا۔ ایک بار اس آنکھ سے اور ایک مرتبہ دل کی آنکھ سے (طبرانی‘ معجم اوسط) الحدیث: حضرت عکرمہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا حضورﷺ نے اپنے رب جل جلالہ کو دیکھا۔ عکرمہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کیا اﷲ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ’’لاتدرکہ الابصار وہو یدرک الابصار‘‘ حضرت ابن عباس رضی اﷲ نے فرمایا۔ تم پر افسوس ہے کہ یہ تو اس وقت ہے جب وہ اپنے ذاتی نور سے جلوہ گر ہو حضورﷺ نے اپنے رب جل جلالہ کو دو مرتبہ دیکھا۔ (بحوالہ: ترمذی شریف جلد دوم‘ ابواب تفسیر القرآن‘ رقم الحدیث 1205 صفحہ 518‘ مطبوعہ فرید بک لاہور) الحدیث: حضرت عکرمہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آیت کریمہ ’’ماکذب الفوا دمارایٰ‘‘ کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا۔ حضورﷺ نے اﷲ تعالیٰ کو دل (کی آنکھوں) سے دیکھا۔ (بحوالہ ترمذی شریف‘ جلد دوم‘ابواب تفسیر القرآن‘ رقم الحدیث 1207‘ صفحہ 519‘ مطبوعہ فرید بک لاہور) عقیدہ: حضورﷺ کے خصائص سے معراج ہے کہ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور وہاں سے ساتوں آسمان اور کرسی و عرش تک بلکہ بالائے عرش رات کے ایک خفیف حصہ میں مع جسم شریف تشریف لے گئے اور وہ قرب خاص حاصل ہوا کہ کسی بشر و ملک کو کبھی نہ حاصل ہوا‘ نہ ہوگا اور جمال الٰہی اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھا اور کلام الٰہی بلا واسطہ سنا اور تمام ملکوت السموات والارض کو بالتفصیل ذرہ ذرہ ملاحظہ فرمایا (بہار شریعت حصہ اول) سوال: شب معراج کو عبادت کا خصوصی اہتمام کرنا اور اس رات کی برکتیں احادیث کی روشنی میں ثابت کریں؟ جواب: شب معراج کو اﷲ تعالیٰ کے محبوب سرکار اعظمﷺ سے نسبت ہے اس لئے اس رات اور اس دن کی بڑی فضیلتیں ہیں‘ عبادت و ریاضت ہر رات میں باعث ثواب ہے مگر متبرک اور مقدس راتوں میں عبادات کی فضیلت نہایت مختلف ہے۔ حدیث شریف: حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار اعظمﷺ نے ارشاد فرمایا‘ رجب کی 27 ویں رات میں عبادت کرنے والوں کو سو سال کی عبادت کا ثواب ملتا ہے (احیاء العلوم‘ مصنف: امام غزالی علیہ الرحمہ‘ جلد اول‘ ص 373) سوال: 27 رجب کے دن روزہ رکھنا کیسا؟ جواب: 27 رجب کو روزہ رکھنے کی بہت فضیلت ہے۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے: روایت: امام بیہقی رضی اﷲ عنہ نے شعب الایمان میں لکھا ہے کہ ماہ رجب میں ایک دن اور ایک رات بہت ہی افضل اور برتر ہے۔ جس نے اس دن روزہ رکھا اور اس رات عبادت کی تو گویا اس نے سو سال کے روزے رکھے اور سو سال تک عبادت کی۔ یہ افضل رات‘ رجب شریف کی 27 ویں شب ہے۔ (بحوالہ: ماثبت من السنہ ص 171) یہ روایات اگرچہ ضعیف ہیں لیکن ’’فضائل اعمال‘‘ میں ضعیف روایات مقبول ہوتی ہیں (بحوالہ: مرقاۃ اشعۃ للمعات) معلوم ہوا کہ شب معراج کی فضیلت بہت زیادہ ہے لہذا اس رات کو عبادت میں گزارنی چاہئے عوام بہکانے والوں کی باتوں پر کان نہ دھریں۔ حدیث: بیہقی شعب الایمان اور دیلمی نے مسند الفردوس میں حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ نے مرفوعاً روایت کی: رجب میں ایک دن اور رات ہے جو اس دن کا روزہ رکھے اور وہ رات نوافل میںگزارے‘ سو برس کے روزوں اور سو برس کی شب بیداری کے برابر ہو اور وہ 27 رجب ہے اسی تاریخ اﷲ تعالیٰ نے محمدﷺ کو مبعوث فرمایا (الفردوس بما ثور الخطاب حدیث 4381‘ دارالکتب العلمیہ بیروت 142/3‘ فتاویٰ رضویہ جدید جلد 10‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور) حدیث: حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ 27 رجب کو مجھے نبوت سرفراز فرمایا۔جو اس دن کا روزہ رکھے اور افطار کے وقت دعا کرے‘ دس برس کے گناہوں کا کفارہ ہو (تنزیہ الشریعہ بحوالہ فوائد ہناد کتاب الصوم حدیث 41‘ دارالکتب العلمیہ‘ بیروت ‘ 161/3‘ فتاویٰ رضویہ جدید جلد 10‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
  10. حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات میں سے آپ کا ” علم غیب ” بھی ہے ۔اس بات پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ علم غیب ذاتی تو خدا کے سوا کسی اور کو نہیں مگر اﷲ اپنے برگزیدہ بندوں یعنی اپنے نبیوں اور رسولوں وغیرہ کو علم غیب عطا فرماتا ہے۔ یہ علم غیب عطائی کہلاتا ہے قرآن مجید میں ہے کہ عٰلِمُ الْغَيْْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰی غَيْبِهٖٓ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ (سورہ جن ، آیت 26، پارہ 29) (اﷲ) عالم الغیب ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔ اسی طرح قرآن مجید میں دوسری جگہ اﷲ عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ وَمَاکَانَ اللّٰهُ لِيُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَيْبِ وَلٰکِنَّ اللّٰهَ يَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ يَّشَآءُ ص( سورہ آل عمران، آیت 179، پارہ 4 اﷲ کی شان نہیں کہ اے عام لوگوں! تمہیں غیب کا علم دے دے۔ ہاں اﷲ چن لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بے شمار غیوب کا علم عطا فرمایا ۔اور آپ نے ہزاروں غیب کی خبریں اپنی امت کو دیں جن میں سے کچھ کا تذکرہ تو قرآن مجید میں ہے باقی ہزاروں غیب کی خبروں کا ذکر احادیث کی کتابوں اور سیر و تواریخ کے دفتروں میں مذکور ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ تِلْکَ مِنْ اَنۡۢبَآءِ الْغَیۡبِ نُوۡحِیۡہَاۤ اِلَیۡکَ (سورہ هود، آیت 49، پارہ 12 یہ غیب کی خبریں ہیں جن کو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ ہم یہاں ان بے شمار غیب کی خبروں میں سے مثال کے طور پر چند کا ذکر تحریر کرتے ہیں۔ پہلے ان چند غیب کی خبروں کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیے جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ غالب مغلوب ہوگا:۔ ء614 ء میں روم اور فارس کے دونوں بادشاہوں میں ایک جنگ ِعظیم شروع ہوئی چھبیس ہزار یہودیوں نے بادشاہ فارس کے لشکر میں شامل ہوکر ساٹھ ہزار عیسائیوں کا قتل عام کیا یہاں تک کہ ۶۱۶ ء میں بادشاہ فارس کی فتح ہوگئی اور بادشاہ روم کا لشکر بالکل ہی مغلوب ہوگیا اور رومی سلطنت کے پرزے پرزے اڑگئے۔ بادشاہ روم اہل کتاب اور مذہباً عیسائی تھا اور بادشاہ فارس مجوسی مذہب کا پابند اور آتش پرست تھا۔ اس لیے بادشاہ روم کی شکست سے مسلمانوں کو رنج و غم ہوا اور کفار کو انتہائی شادمانی و مسرت ہوئی۔ چنانچہ کفار نے مسلمانوں کو طعنہ دیا اور کہنے لگے کہ تم اور نصاریٰ اہل کتاب ہو اور ہم اور اہل فارس بے کتاب ہیں جس طرح ہمارے بھائی تمہارے بھائیوں پر فتح یاب ہو کر غالب آ گئے اسی طرح ہم بھی ایک دن تم لوگوں پر غالب آجائیں گے۔ کفار کے ان طعنوں سے مسلمانوں کو اور زیادہ رنج و صدمہ ہوا۔ اس وقت رومیوں کی یہ افسوسناک حالت تھی کہ وہ اپنے مشرقی مقبوضات کا ایک ایک چپہ کھو چکے تھے۔ خزانہ خالی تھا۔ فوج منتشر تھی ملک میں بغاوتوں کا طوفان اٹھ رہا تھا۔ شہنشاہ روم بالکل نالائق تھا۔ ان حالات میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بادشاہ روم بادشاہ فارس پر غالب ہو سکتا تھا مگر ایسے وقت میں نبی صادق نے قرآن کی زبان سے کفار مکہ کو یہ پیش گوئی سنائی کہ الممّ ٓغُلِبَتِ الرُّوْمُ فِيْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْ م بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ ط( سورہ الروم ،آیت 2 ، پارہ 21) رومی مغلوب ہوئے پاس کی زمین میں اور وہ اپنی مغلوبی کے بعد عنقریب غالب ہوں گے چند برسوںمیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ صرف نو سال کے بعد خاص “صلح حدیبیہ” کے دن بادشاہ روم کا لشکر اہل فارس پر غالب آ گیا اور مخبر صادق کی یہ خبر غیب عالم وجود میں آگئی۔ ہجرت کے بعد قریش کی تباہی:۔ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جس بے سر و سامانی کے ساتھ ہجرت فرمائی تھی اور صحابہ کرام جس کسمپر سی اور بے کسی کے عالم میں کچھ حبشہ، کچھ مدینہ چلے گئے تھے۔ ان حالات کے پیش نظر بھلا کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ آ سکتا تھا کہ یہ بے سرو سامان اور غریب الدیار مسلمانوں کا قافلہ ایک دن مدینہ سے اتنا طاقتور ہو کر نکلے گا کہ وہ کفار قریش کی ناقابل تسخیر عسکری طاقت کو تہس نہس کر ڈالے گا جس سے کافروں کی عظمت و شوکت کا چراغ گل ہو جائے گا اور مسلمانوں کی جان کے دشمن مٹھی بھر مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہلاک و برباد ہو جائیں گے۔ لیکن خداوند علام الغیوب کا محبوب دانائے غیوب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہجرت سے ایک سال پہلے ہی قرآن پڑھ پڑھ کر اس خبر غیب کا اعلان کر رہا تھا کہ وَاِنْ کَادُوْالَيَسْتَفِزُّوْنَکَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْکَ مِنْهَا وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰـفَکَ اِلَّا قَلِيْلًا(بنی اسرائيل) اگر وہ تم کو سر زمین مکہ سے گھبرا چکے تا کہ تم کو اس سے نکال دیں تو وہ اہل مکہ تمہارے بعد بہت ہی کم مدت تک باقی رہیں گے۔ چنانچہ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور ایک ہی سال کے بعد غزوہ بدر میں مسلمانوں کی فتح مبین نے کفار قریش کے سرداروں کا خاتمہ کر دیا اور کفار مکہ کی لشکری طاقت کی جڑ کٹ گئی اور ان کی شان و شوکت کا جنازہ نکل گیا۔ مسلمان ایک دن شہنشاہ ہوں گے:۔ ہجرت کے بعد کفارِ قریش جوشِ انتقام میں آپے سے باہر ہوگئے اور بدر کی شکست کے بعد تو جذبہ انتقام نے ان کو پاگل بنا ڈالا تھا۔ تمام قبائل عرب کو ان لوگوں نے جوش دلا دلا کر مسلمانوں پر یلغار کر دینے کے لئے تیارکردیا تھا۔ چنانچہ مسلسل آٹھ برس تک خونریز لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جس میں مسلمانوں کو تنگ دستی، فاقہ مستی، قتل و خونریزی، قسم قسم کی حوصلہ شکن مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ مسلمانوں کو ایک لمحہ کے لیے سکون میسر نہیں تھا۔ مسلمان خوف و ہراس کے عالم میں راتوں کو جاگ جاگ کر وقت گزارتے تھے اور رات رات بھر رحمت عالم کے کاشانہ نبوت کا پہرہ دیا کرتے تھے لیکن عین اس پریشانی اور بے سرو سامانی کے ماحول میں دونوں جہان کے سلطان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قرآن کا یہ اعلان نشر فرمایا کہ مسلمانوں کو ” خلافت ارض ” یعنی دین و دنیا کی شہنشا ہی کا تاج پہنایا جائے گا۔ چنانچہ غیب داں رسول نے اپنے دلکش اور شیریں لہجہ میں قرآن کی ان روح پرور اور ایمان افروز آیتوں کو علی الاعلان تلاوت فرمانا شروع کر دیا کہ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ص وَلَيُمَکِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ م بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ط(سورہ نور) تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیا خدا نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کو زمین کا خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان کے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا اور جو دین ان کے لیے پسند کیا ہے اس کو مستحکم کر دے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ مسلمان جن نامساعد حالات اور پریشان کن ماحول کی کشمکش میں مبتلا تھے ان حالات میں خلافت ِارض اور دین و دنیا کی شہنشاہی کی یہ عظیم بشارت انتہائی حیرت ناک خبر تھی بھلا کون تھا جو یہ سوچ سکتا تھا کہ مسلمانوں کا ایک مظلوم و بے کس گروہ جس کو کفار مکہ نے طرح طرح کی اذیتیں دے کر کچل ڈالا تھا اور اس نے اپنا سب کچھ چھوڑ کر مدینہ آ کر چند نیک بندوں کے زیر سایہ پناہ لی تھی اور اس کو یہاں آ کر بھی سکون و اطمینان کی نیند نصیب نہیں ہوئی تھی بھلا ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ اس گروہ کو ایسی شہنشاہی مل جائے گی کہ خدا کے آسمان کے نیچے اور خدا کی زمین پر خدا کے سوا ان کو کسی اور کا ڈر نہ ہوگا۔ بلکہ ساری دنیا ان کے جاہ و جلال سے ڈر کر لرزہ بر اندام رہے گی مگر ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ بشارت پوری ہوئی اور ان مسلمانوں نے شہنشاہ بن کر دنیا پر اس طرح کامیاب حکومت کی کہ اس کے سامنے دنیا کی تمام متمدن حکومتو ں کا شیرازہ بکھر گیا اور تمام سلاطین عالم کی سلطانی کے پرچم عظمت اسلام کی شہنشاہی کے آگے سرنگوں ہوگئے۔ کیا اب بھی کسی کو اس پیشین گوئی کی صداقت میں بال کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی شک و شبہ ہو سکتا ہے۔ فتح مکہ کی پیشگوئی:۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے اس طرح ہجرت فرمائی تھی کہ رات کی تاریکی میں اپنے یارِغار کے ساتھ نکل کر غار ثور میں رونق افروز رہے۔ آپ کی جان کے دشمنوں نے آپ کی تلاش میں سرزمین مکہ کے چپے چپے کو چھان مارا اور آپ ان دشمنوں کی نگاہوں سے چھپتے اور بچتے ہوئے غیر معروف راستوں سے مدینہ منورہ پہنچے۔ ان حالات میں بھلا کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ آ سکتا تھا کہ رات کی تاریکی میں چھپ کر روتے ہوئے اپنے پیارے وطن مکہ کو خیرباد کہنے والا رسولِ برحق ایک دن فاتح مکہ بن کر فاتحانہ جاہ و جلال کے ساتھ شہر مکہ میں اپنی فتح مبین کا پرچم لہرائے گا اور اس کے دشمنوں کی قاہر فوج اس کے سامنے قیدی بن کر دست بستہ سر جھکائے لرزہ براندم کھڑی ہوگی۔ مگر نبی غیب داں نے قرآن کی زبان سے اس پیشین گوئی کا اعلان فرمایا کہ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ ط اِنَّهٗ کَانَ تَوَّابًا(سوره نصر) جب اﷲ کی مدد اور فتح (مکہ) آجائے اور لوگوں کو تم دیکھو کہ اﷲ کے دین میں فوج فوج داخل ہوتے ہیں تو اپنے رب کی ثنا کرتے ہوئے اُس کی پاکی بولو اور اس سے بخشش چاہو بے شک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔ چنانچہ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی کہ ۸ ھ میں مکہ فتح ہوگیا اور آپ فاتح مکہ ہونے کی حیثیت سے افواجِ الٰہی کے جاہ و جلال کے ساتھ مکہ مکرمہ کے اندر داخل ہوئے اور کعبہ معظمہ میں داخل ہو کر آپ نے دوگانہ ادا فرمایا اور اہل عرب فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے ۔ حالانکہ اس سے قبل اِکاد ُکا لوگ اسلام قبول کرتے تھے۔ جنگ ِبدر میں فتح کا اعلان:۔ جنگ بدر میں جب کہ کل تین سو تیرہ مسلمان تھے جو بالکل ہی نہتے، کمزور اور بے سر و سامان تھے بھلا کسی کے خیال میں بھی آ سکتا تھا کہ ان کے مقابلہ میں ایک ہزار کا لشکر جرار جس کے پاس ہتھیار اور عسکری طاقت کے تمام سامان و اوزار موجود تھے شکست کھا کر بھاگ جائے گا اور ستر مقتول اور ستر گرفتار ہو جائیں گے مگر جنگ بدر سے برسوں پہلے مکہ مکرمہ میں آیتیں نازل ہوئیں اور رسول برحق نے اقوام عالم کو کئی برس پہلے جنگ بدر میں اس طرح اسلامی فتح مبین کی بشارت سنائی کہ اَمْ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَصِرٌ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرِ کیا وہ کفار کہتے ہیں کہ ہم سب متحد اور ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ یہ لشکر عنقریب شکست کھا جائیگا اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ وَلَوْ قَاتَلَکُمُْ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَايَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا( فتح) اور اگر کفار تم (مسلمانوں) سے لڑیں گے تو یقینا وہ پیٹھ پھیرکر بھاگ جائیں گے پھر وہ کوئی حامی و مدد گار نہ پائیں گے۔ یہودی مغلوب ہوں گے:۔ مدینہ منورہ اور اس کے اطراف کے یہودی قبائل بہت ہی مالدار، انتہائی جنگجو اور بہت بڑے جنگ باز تھے اور ان کو اپنی لشکری طاقت پر بڑا گھمنڈ اور ناز تھا۔ جنگ ِبدر میں مسلمانوں کی فتح مبین کا حال سن کر ان یہودیوں نے مسلمانوں کو یہ طعنہ دیا کہ قبائل قریش فنون جنگ سے ناواقف اور بے ڈھنگے تھے اس لیے وہ جنگ ہار گئے اگر مسلمانوں کو ہم جنگ بازوں اور بہادروں سے پالا پڑا تو مسلمانوں کو ان کی چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ اور واقعی صورتحال ایسی ہی تھی کہ سمجھ میں نہیں آ سکتا تھا کہ مٹھی بھر کمزور اور بے سروسامان مسلمانوں سے قبائل یہود کا یہ مسلح و منظم لشکرکبھی شکست کھا جائے گا۔ مگر اس حال و ماحول میں غیب داں رسول نے قرآن کی زبان سے اس غیب کی خبر کا اعلان فرمایا کہ وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ط مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَکْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَ لَنْ يَّضُرُّوْکُمْْ اِلَّا ٓ اَذًی ط وَاِنْ يُّقَاتِلُوْکُمْ يُوَلُّوْکُمُ الْاَدْبَارَ قف ثُمَّ لَا يُنْصَرُوْنَ(آل عمران) اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لیے یہ بہترہوتا ان میں کچھ ایماندار اور اکثر فاسق ہیں اور وہ تم (مسلمانوں) کو بجز تھوڑی تکلیف دینے کے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اگر وہ تم سے لڑیں گے تو یقینا پشت پھیر دیں گے پھر ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ یہود کے قبائل میں سے بنو قريظهقتل کر دیئے گئے اور بنو نضیر جلا وطن کر دیئے گئے اور خیبر کو مسلمانوں نے فتح کر لیا اور باقی یہود ذلت کے ساتھ جزیہ ادا کرنے پر مجبور ہوگئے۔ عہد نبوی کے بعد کی لڑائیاں:۔ قرآن مجید کی پیشگوئیاں اور غیب کی خبریں صرف انہیں جنگوں کے ساتھ مخصوص و محدود نہیں تھیں جو عہد نبوی میں ہوئیں بلکہ اس کے بعد خلفاء کے دور خلافت میں عرب و عجم میں جو عظیم و خوں ریز لڑائیاں ہوئیں ان کے متعلق بھی قرآن مجید نے پہلے سے پیشگوئی کر دی تھی جو حرف بحرف پوری ہوئی۔ مسلمانوں کو رُوم و ایران کی زبردست حکومتوں سے جو لڑائیاں لڑنی پڑیں وہ تاریخ اسلام کے بہت ہی زریں اوراق اور نمایاں واقعات ہیں مگر قرآن مجید نے برسوں پہلے ان جنگوں کے نتائج کا اعلان ان لفظوں میں کر دیا تھا: قُلْ لِّلْمُخَلَّفِيْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِلٰي قَوْمٍ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ ج( فتح) جہاد میں پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں سے کہہ دو کہ عنقریب تم کو ایک سخت جنگجو قوم سے جنگ کرنے کے لیے بلایا جائے گا تم لوگ ان سے لڑو گے یا وہ مسلمان ہو جائیں گے۔ اس پیش گوئی کا ظہور اس طرح ہوا کہ روم و ایران کی جنگجو اقوام سے مسلمانوں کو جنگ کرنی پڑی جس میں بعض جگہ خونریز معر کے ہوئے اور بعض جگہ کے کفار نے اسلام قبول کر لیا۔ الغرض اس قسم کی بہت سی غیب کی خبریں قرآن مجید میں مذکور ہیں جن کو غیب داں رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے واقعات کے واقع ہونے سے بہت پہلے اقوام ِعالم کے سامنے بیان فرما دیا اور یہ تمام غیب کی خبریں آفتاب کی طرح ظاہر ہو کر اہل عالم کے سامنے زبان حال سے اعلان کر رہی ہیں اور قیامت تک اعلان کرتی رہیں گی کہ رفعت شانِ رفعنا لک ذِکرک دیکھے چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے احادیث میں غیب کی خبریں اسلامی فتوحات کی پیشگوئیاں ابتداء اسلام میں مسلمان جن آلام و مصائب میں گرفتار اور جس بے سرو سامانی کے عالم میں تھے اس وقت کوئی اس کو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چند نہتے، فاقہ کش اور بے سرو سامان مسلمان قیصر و کسریٰ کی جابر حکومتوں کا تختہ الٹ دیں گے۔ لیکن غیب جاننے والے پیغمبر صادق نے اس حالت میں پورے عزم و یقین کے ساتھ اپنی امت کو یہ بشارتیں دیں کہ اے مسلمانوں! تم عنقریب قسطنطنیہ کو فتح کرو گے اور قیصر و کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں تمہارے دست تصرف میں ہوں گی۔ مصر پر تمہاری حکومت کا پرچم لہرائے گا۔ تم سے ترکوں کی جنگ ہوگی جن کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی اور چہرے چوڑے چوڑے ہوں گے اور ان جنگوں میں تم کو فتح مبین حاصل ہوگی۔(بخاری جلد۱ ص ۵۰۴ تاص ۵۱۳باب علامات النبوۃ) تاریخ گواہ ہے کہ غیب داں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دی ہوئی یہ سب غیب کی خبریں عالم ظہور میں آئیں۔ قیصر و کسریٰ کی بربادی:۔ عین اس وقت جب کہ قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کے پرچم انتہائی جاہ و جلال کے ساتھ دنیا پر لہرا رہے تھے اور بظاہر ان کی بربادی کا کوئی سامان نظر نہیں آ رہا تھا مگر غیب داں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ غیب کی خبر سنائی کہ اِذَا هَلَکَ کِسْرٰي فَلاَ کِسْرٰي بَعْدَهٗ وَاِذَا هَلَکَ قَيْصَرُ فَلاَ قَيْصَرَ بَعْدَهٗ وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهٖ لَتُنْفَقَنَّ کُنُوْزُهُمَا فِیْ سَبِيْلِ اﷲِ۔ (بخاری جلد۱ ص ۵۱۱ باب علامات النبوۃ) جب کسریٰ ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہوگا اور جب قیصر ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے ضرور ان دونوں کے خزانے اﷲ تعالیٰ کی راہ میں (مسلمانوں کے ہاتھ سے) خرچ کیے جائیں گے۔ دنیا کا ہر مؤرخ اس حقیقت کا گواہ ہے کہ حضرت امیر المؤمنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں کسریٰ اور قیصر کی تباہی کے بعد نہ پھر کسی نے سلطنت فارس کا تاج خسروی دیکھا نہ رومی سلطنت کا روئے زمین پر کہیں وجود نظر آیا۔ کیوں نہ ہو کہ یہ غیب داں نبی صادق کی وہ غیب کی خبریں ہیں جو خداوند علامُ الغیوب کی وحی سے آپ نے دی ہیں۔ بھلا کیونکر ممکن ہے کہ غیب داں نبی کی دی ہوئی غیب کی خبریں بال کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی خلاف واقع ہو سکیں۔ یمن، شام، عراق فتح ہوں گے:۔ حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یمن و شام و عراق کے فتح ہونے سے برسوں پہلے یہ غیب کی خبر دی تھی کہ یمن فتح کیا جائے گا تو لوگ اپنی سواریوں کو ہنکاتے ہوئے اور اپنے اہل و عیال اور متبعین کو لے کر (مدینہ سے) یمن چلے آئیں گے حالانکہ مدینہ ہی کا قیام ان کے لیے بہتر تھا۔ کاش وہ لوگ اس بات کو جان لیتے۔ پھر شام فتح کیا جائے گا تو ایک قوم اپنے گھر والوں اور اپنے پیروی کرنے والوں کو لے کر سواریوں کو ہنکاتے ہوئے (مدینہ سے) شام چلی آئے گی حالانکہ مدینہ ہی ان کے لیے بہتر تھا کاش ! وہ لوگ اس کو جان لیتے۔ پھر عراق فتح ہوگا تو کچھ لوگ اپنے گھر والوں اور جو ان کا کہنا مانیں گے ان سب کو لے کر سواریوں کو ہنکاتے ہوئے (مدینہ سے) عراق آ جائیں گے حالانکہ مدینہ ہی کی سکونت ان کے لیے بہتر تھی کاش! وہ اس کو جان لیتے۔(مسلم جلد ۱ ص ۴۴۵ باب ترغيب الناس فی سکني المدينه) یمن ۸ ھ میں فتح ہوا اور شام و عراق اس کے بعد فتح ہوئے لیکن غیب جاننے والے مخبر صادق صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے برسوں پہلے یہ غیب کی خبریں دے دی تھیں جو حرف بحرف پوری ہوئیں۔ فتح مصر کی بشارت حضرت ابو ذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ عنقریب مصر کو فتح کرو گے اور وہ ایسی زمین ہے جہاں کا سکہ “قیراط” کہلاتا ہے۔ جب تم لوگ اس کو فتح کرو تو اس کے باشندوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا کیونکہ تمہارے اور ان کے درمیان ایک تعلق اور رشتہ ہے۔ (حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مصر کی تھیں جن کی اولاد میں سارا عرب ہے۔) اور جب تم دیکھنا کہ وہاں ایک ا ینٹ بھر جگہ کے لیے دو آدمی جھگڑا کرتے ہوں تو تم مصر سے نکل جانا۔ چنانچہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود اپنی آنکھ سے مصر میں یہ دیکھا کہ عبدالرحمن بن شرحبیل اور ان کے بھائی ربیعہ ایک ا ینٹ بھر جگہ کے لیے لڑ رہے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت ابو ذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق مصر چھوڑ کر چلے آئے۔(مسلم جلد۲ ص ۳۱۱ باب وصية النبی صلی اﷲ تعالیٰ عليه وسلم) بیت المقدس کی فتح بیت المقدس کی فتح ہونے سے برسوں پہلے حضورِ اقدس مخبر صادق صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے غیب کی خبر دیتے ہوئے اپنی امت سے ارشاد فرمایا کہ قیامت سے پہلے چھ چیزیں گن رکھو (۱) میری وفات (۲) بیت المقدس کی فتح (۳) پھر طاعون کی وبا جو بکریوں کی گلٹیوں کی طرح تمہارے اندر شروع ہو جائے گی۔(۴) اس قدر مال کی کثرت ہو جائے گی کہ کسی آدمی کو سو دینار دینے پر بھی وہ خوش نہیں ہوگا۔ (۵) ایک ایسا فتنہ اٹھے گاکہ عرب کا کوئی گھر باقی نہیں رہے گا جس میں فتنہ داخل نہ ہوا ہو۔ (۶) تمہارے اور رومیوں کے درمیان ایک صلح ہوگی اور رومی عہد شکنی کریں گے وہ اَسی جھنڈے لے کر تمہارے اوپر حملہ آور ہوں گے اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوج ہوگی۔(بخاری جلد۱ ص ۴۵۰ باب مايحذرمن الغدر) خوفناک راستے پرامن ہو جائیں گے حضرت عدی بن حاتم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں بارگاہ رسالت میں حاضر تھا تو ایک شخص نے آکر فاقہ کی شکایت کی پھر ایک دوسرا شخص آیا اس نے راستوں میں ڈاکہ زنی کا شکوہ کیا۔ یہ سن کر شہنشاہِ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عدی ! اگر تمہاری عمر لمبی ہوگی تو تم یقینا دیکھو گے کہ ایک پردہ نشین عورت اکیلی “حیرہ” سے چلے گی اور مکہ آکر کعبہ کا طواف کرے گی اور اس کو خدا کے سوا کسی کا کوئی ڈر نہیں ہوگا۔ حضرت عدی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ بھلا قبیلہ ” طی ” کے وہ ڈاکو جنہوں نے شہروں میں آگ لگا رکھی ہے کہاں چلے جائیں گے؟ پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم نے لمبی عمر پائی تو یقینا تم دیکھو گے کہ کسریٰ کے خزانوں کو مسلمان اپنے ہاتھوں سے کھولیں گے اور اے عدی! اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم ضرور ضرور دیکھو گے کہ ایک آدمی مٹھی بھر سونا یا چاندی لے کر تلاش کرتا پھرے گا کہ کوئی اس کے صدقہ کو قبول کرے مگر کوئی شخص ایسا نہیں آئے گا جو اس کے صدقہ کو قبول کرے (کیونکہ ہر شخص کے پاس بکثرت مال ہوگا اور کوئی فقیر نہ ہوگا۔) حضرت عدی بن حاتم کا بیان ہے کہ اے لوگوں!یہ تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ واقعی ’’ حیرہ ‘‘سے ایک پردہ نشین عورت اکیلی طوافِ کعبہ کے لیے چلی آئی ہے اور وہ خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی اور میں خود ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں کو کھول کر نکالا۔ یہ دو چیزیں تو میں نے دیکھ لیں اے لوگوں! اگر تم لوگوں کی عمریں دراز ہوئیں تو یقینا تم لوگ تیسری چیز کو بھی دیکھ لو گے کہ کوئی فقیر نہیں ملے گا جو صدقہ قبول کرے۔(بخاری جلد۱ ص ۵۰۷ تاص ۵۰۸ باب علامات النبوۃ) فاتح خیبر کون ہوگا جنگ خیبر کے دوران ایک دن غیب داں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ کل میں اس شخص کے ہاتھ میں جھنڈا دوں گا جو اﷲ و رسول سے محبت کرتا ہے اور اﷲ و رسول اس سے محبت کرتے ہیں اور اسی کے ہاتھ سے خیبر فتح ہوگا۔ اس خوشخبری کو سن کر لشکر کے تمام مجاہدین نے اس انتظار میں نہایت ہی بے قراری کے ساتھ رات گزاری کہ دیکھیں کون وہ خوش نصیب ہے جس کے سر اس بشارت کا سہرا بند ھتا ہے۔ صبح کو ہر مجاہد اس امید پر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا کہ شاید وہی اس خوش نصیبی کا تاجدار بن جائے۔ ہر شخص گوش بر آواز تھا کہ ناگہاں شہنشاہ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی آنکھوں میں آشوب ہے۔ ارشاد فرمایا کہ قاصد بھیج کر انہیں بلاؤ جب حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دربار رسالت میں حاضر ہوئے تو حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگا کر دعا فرما دی جس سے فی الفور وہ اس طرح شفایاب ہوگئے کہ گویا انہیں کبھی آشوب چشم ہوا ہی نہیں تھا۔ پھر آپ نے ان کے ہاتھ میں جھنڈا عطا فرمایا اور خیبر کا میدان اسی دن ان کے ہاتھوں سے سر ہوگیا۔(بخاری جلد ۲ ص ۶۰۵ باب غزوہ خیبر) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن قبل ہی یہ بتا دیا کہ کل حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خیبر کو فتح کریں گے۔ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا طیعنی ” کل کون کیا کرے گا ” کا علم غیب ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول کو عطا فرمایا۔ تیس برس خلافت پھر بادشاہی:۔ حضرت سفینہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد تیس برس تک خلافت رہے گی اس کے بعد بادشاہی ہو جائے گی۔ اس حدیث کو سنا کر حضرت سفینہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگ گن لو! حضرت ابو بکر کی خلافت دو برس اور حضرت عمر کی خلافت دس برس اور حضرت عثمان کی خلافت بارہ برس اور حضرت علی کی خلافت چھ برس یہ کل تیس برس ہوگئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم(مشکوٰۃ جلد۲ ص ۴۶۲ کتاب الفتن) ھ ؁70 ھ اور لڑکوں کی حکومت حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ۷۰ ھ کے شروع اور لڑکوں کی حکومت سے پناہ مانگو۔(مشکوٰۃ جلد ۲ ص ۳۲۳) اسی طرح حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کی تباہی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھوں پر ہوگی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس حدیث کو سنا کر فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم چاہو تو میں ان لڑکوں کے نام بتا سکتا ہوں وہ فلاں کے بیٹے اور فلاں کے بیٹے ہیں۔(بخاری جلد ۱ ص ۵۰۹ باب علامات النبوۃ) تاریخ اسلام گواہ ہے کہ ۷۰ ھ میں بنوامیہ کے کم عمر حاکموں نے جو فتنے بر پا کیے واقعی یہ ایسے فتنے تھے کہ جن سے ہر مسلمان کو خدا کی پناہ مانگنی چاہئے۔ ان واقعات کی برسوں پہلے نبی برحق صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خبر دی جو یقینا غیب کی خبر ہے۔ ترکوں سے جنگ:۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک تم لوگ ایسی قوم سے نہ لڑو گے جن کے جوتے بال کے ہوں گے ور جب تک تم لوگ قوم ترک سے نہ لڑو گے جو چھوٹی آنکھوں والے، سرخ چہروں والے، چپٹی ناکوں والے ہوں گے۔ ان کے چہرے گویا ہتھوڑوں سے پیٹی ہوئی ڈھالوں کی مانند (چوڑے چپٹے) ہوں گے اور ان کے جوتے بال کے ہوں گے۔ اوردوسری روایت میں ہے کہ تم لوگ “خوزوکرمان” کے عجمیوں سے جنگ کرو گے جن کے چہرے سرخ، ناکیں چپٹی ، آنکھیں چھوٹی ہوں گی۔ اورتیسری روایت میں یہ ہے کہ قیامت سے پہلے تم لوگ ایسی قوم سے جنگ کرو گے جن کے جوتے بال کے ہوں گے وہ اہل ” بارز ” ہیں۔ (یعنی صحراؤں اور میدانوں میں رہنے والے ہیں۔)(بخاری جلد ۱ ص ۵۰۷ باب علامات النبوۃ) غیب داں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ خبریں اس وقت دی تھیں جب اسلام ابھی پورے طور پر زمین حجاز میں بھی نہیں پھیلا تھا ۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ مخبر صادق صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ تمام پیشگوئیاں پہلی ہی صدی کے آخر تک پوری ہوگئیں کہ مجاہدین اسلام کے لشکروں نے ترکوں اور صحراؤں میں رہنے والے بربریوں سے جہاد کیا اور اسلام کی فتح مبین ہوئی اور ترک و بربری اقوام دامن اسلام میں آ گئیں۔ ہندوستان میں مجاہدین:۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہندوستان میں اسلام کے داخل اور غالب ہونے کی خوشخبری سناتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان دونوں کو جہنم سے آزاد فرما دیا ہے۔ ایک وہ گروہ جو ہندوستان میں جہاد کرے گا اور ایک وہ گروہ جو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہوگا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہا کرتے تھے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم مسلمانوں سے ہندوستان میں جہاد کرنے کا وعدہ فرمایا تھا تو اگر میں نے وہ زمانہ پا لیا جب تو میں اس کی راہ میں اپنی جان و مال قربان کر دوں گا اور اگر میں اس جہاد میں شہید ہوگیا تو میں بہترین شہید ٹھہروں گا اور اگر میں زندہ لوٹا تو میں دوزخ سے آزاد ہونے والا ابو ہریرہ ہوں گا۔(نسائي جلد ۲ ص ۶۳ باب غزوة الهند) امام نسائی نے ۳۰۲ ھ میں وفات پائی اور انہوں نے اپنی کتاب سلطان محمود غزنوی کے حملہ ہندوستان ۳۹۲ ھ سے تقریباً سو برس پہلے تحریر فرمائی۔ تمام دنیا کے مؤرخین گواہ ہیں کہ غیب داں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی زبان قدسی بیان سے ہندوستان کے بارے میں سینکڑوں برس پہلے جس غیب کی خبر کا اعلان فرمایا تھا وہ حرف بحرف پوری ہو کر رہی کہ محمد بن قاسم نے سر زمین سندھ و مکران پر جہاد فرمایا اور محمود غزنوی و شہاب الدین غوری نے ہندوستان کے سومنات و اجمیر و غیرہ پر جہاد کر کے اس ملک میں اسلام کا پرچم لہرایا۔ یہاں تک کہ سر زمین ہند میں نا گا لینڈ کی پہاڑیوں سے کوہ ہندو کش تک اور راس کماری سے ہمالیہ کی چوٹیوں تک اسلام کا پرچم لہرا چکا ۔ حالانکہ مخبر صادق صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ پیشین گوئی اس وقت دی تھی جب اسلام سر زمین حجاز سے بھی آگے نہیں پہنچ پایا تھا۔ ان غیب کی خبروں کو لفظ بلفظ پورا ہوتے ہوئے دیکھ کر کون ہے جو غیب داں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار میں اس طرح نذرانہ عقیدت نہ پیش کرے گا کہ ؎ ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں سر عرش پر ہے تری گزر دل فرش پر ہے تری نظر ( اعلیٰ حضر ت بریلوی علیہ الرحمۃ ) کون کہاں مرے گا:۔ جنگ ِبدر میں لڑائی سے پہلے ہی حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم صحابہ کو لے کر میدان جنگ میں تشریف لے گئے اور اپنی چھڑی سے لکیر کھینچ کھینچ کر بتایا کہ یہ فلاں کافر کی قتل گاہ ہے۔ یہ ابوجہل کا مقتل ہے۔ اس جگہ قریش کا فلاں سردار مارا جائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا بیان ہے کہ ہر سردار قریش کے قتل ہونے کے لیے آپ نے جو جو جگہیں مقرر فرما دی تھیں اسی جگہ اس کافر کی لاش خاک و خون میں لتھڑی ہوئی پائی گئی۔(مسلم جلد ۲ ص ۱۰۲ باب غزوہ بدر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کب ہوگی:۔ حضرت رسول خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو اپنے پاس بلا کر ان کے کان میں کوئی بات فرمائی تو وہ رونے لگیں۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد ان کے کان میں ایک اور بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا۔ انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے اس رونے اور ہنسنے کا سبب پوچھا، تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا راز ظاہر نہیں کر سکتی۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے دوبارہ دریافت کرنے پر حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پہلی مرتبہ میرے کان میں یہ فرمایا تھا کہ میں اپنی اسی بیماری میں وفات پا جاؤں گا۔ یہ سن کر میں فرط غم سے رو پڑی پھر فرمایا کہ اے فاطمہ ! میرے گھر والوں میں سب سے پہلے تم وفات پا کر مجھ سے ملو گی۔ یہ سن کر میں ہنس پڑی کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے میری جدائی کا زمانہ بہت ہی کم ہوگا۔(بخاری جلد ۱ ص ۵۱۲) اہل علم جانتے ہںر کہ یہ دونوں غبک کی خبریں حرف بحرف پوری ہوئں کہ آپ نے اپنی اسی بما ری مں وفات پائی اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بھی صرف چھ مہینے کے بعد وفات پا کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جا ملیں۔ خود اپنی وفات کی اطلاع:۔ جس سال حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علہا وسلم نے اس دناق سے رحلت فرمائی ، پہلے ہی سے آپ نے اپنی وفات کا اعلان فرمانا شروع کر دیا۔ چنانچہ حجۃ الوداع سے پہلے ہی حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علہاوسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا حاکم بنا کر روانہ فرمایا تو ان کے رخصت کرتے وقت آپ نے ان سے فرمایا کہ اے معاذ! اب اس کے بعد تم مجھ سے نہ مل سکو گے جب تم واپس آؤ گے تو مرلی مسجد اور مرای قبر کے پاس سے گزرو گے۔(مسند امام احمد بن حنبل جلد ۵ ص ۳۵) اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر جب کہ عرفات میں ایک لاکھ پچیس ہزار سے زائد مسلمانوں کا اجتماع عظیم تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے وہاں دوران خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ شاید آئندہ سال تم لوگ مجھ کو نہ پاؤ گے۔ اسی طرح مرض وفات سے کچھ دنوں پہلے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ چا ہے تو دنیا کی زندگی کو اختیار کر لے اور چا ہے تو آخرت کی زندگی قبول کر لے تو اس بندے نے آخرت کو قبول کر لیا۔ یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رونے لگے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو بڑا تعجب ہوا کہ آپ تو ایک بندے کے بارے میں یہ خبر دے رہے ہیں تو اس پر حضرت ابو بکر ( رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ) کے رونے کا کیا موقع ہے؟ مگر جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے چند ہی دنوں کے بعد وفات پائی تو ہم لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ اختیار دیا ہوا بندہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہی تھے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم لوگوں میں سے سب سے زیادہ علم والے تھے۔( کیونکہ انہوں نے ہم سب لوگوں سے پہلے یہ جان لیا تھا کہ وہ اختیار دیا ہوا بندہ خود حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہی ہیں۔)(بخاری جلد ۱ ص ۵۱۹ باب قول النبي صلی اﷲ تعالیٰ عليه وسلم سدواالابواب الخ) حضرت عمر و حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہما شہید ہوں گے:۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت ابو بکر و حضرت عمر و حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لے کر اُحد پہاڑ پر چڑھے۔ اس وقت پہاڑ ہلنے لگا تو آپ نے فرمایا کہ اے احد! ٹھہر جا اور یقین رکھ کہ تیرے اوپر ایک نبی ہے ایک صدیق ہے اور دو (عمرو عثمان) شہید ہیں۔ span class=”ref-ar”> (بخاری جلد ۱ ص ۵۱۹ باب فضل ابی بکر) نبی اور صدیق کو تو سب جانتے تھے لیکن حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی شہادت کے بعد سب کو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ دو شہید کون تھے۔ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہادت ملے گی:۔ حضرت ابو سعید خدری و حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ حضرت عمار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خندق کھود رہے تھے اس وقت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سر پر اپنا دست ِشفقت پھیر کر ارشاد فرمایا کہ افسوس! تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔(مسلم جلد ۲ ص ۳۹۵ کتاب الفتن) یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ حضرت عمار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جنگ صفین کے دن حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے اور حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھیوں کے ہاتھ سے شہید ہوئے۔ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یقینا حق پر تھے اور حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا گروہ یقینا خطا کا مرتکب تھا۔ لیکن چونکہ ان لوگوں کی خطا اجتہادی تھی لہٰذا یہ لوگ گنہگار نہ ہوں گے کیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کوئی مجتہد اگر اپنے اجتہاد میں صحیح اور درست مسئلہ تک پہنچ گیا تو اس کو دوگنا ثواب ملے گا اور اگر مجتہد نے اپنے اجتہاد میں خطا کی جب بھی اس کو ایک ثواب ملے گا۔(حاشيه بخاری بحواله کرمانی جلد ۱ ص ۵۰۹ باب علامات النبوة) اس لیے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شان میں لعن طعن ہرگز ہرگز جائز نہیں کیونکہ بہت سے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اس جنگ میں حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے۔ پھر یہ بات بھی یہاں ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ مصری باغیوں کا گروہ جنہوں نے حضرت امیرالمؤمنین عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا محاصرہ کر کے ان کو شہید کر دیا تھا یہ لوگ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لشکر میں شامل ہو کر حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے لڑ رہے تھے تو ممکن ہے کہ گھمسان کی جنگ میں انہی باغیوں کے ہاتھ سے حضرت عمار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شہید ہوگئے ہوں۔ اس صورت میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بالکل صحیح ہوگا کہ ” افسوس اے عمار! تجھ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ” اور اس قتل کی ذمہ داری سے حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دامن پاک رہے گا۔ ِواﷲ تعالیٰ اعلم۔ بہر حال حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شان میں لعن طعن کرنا رافضیوں کا مذہب ہے حضرات اہل سنت کو اس سے پرہیز کرنا لازم و ضروری ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا امتحان:۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ کے ایک باغ میں ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دروازہ کھلوا کر اندر آئے تو آپ نے ان کو جنت کی بشارت دی ۔ پھر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آئے تو آپ نے ان کو بھی جنت کی خوشخبری سنائی۔ اس کے بعد حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آئے تو آپ نے ان کو جنت کی بشارت کے ساتھ ساتھ ایک امتحان اور آزمائش میں مبتلا ہونے کی بھی اطلاع دی۔ یہ سن کر حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے صبر کی دعا مانگی اور یہ کہا کہ خدا مددگار ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت:۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور بعض دوسرے صحابہ کرام حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں بتادوں کہ سب سے بڑھ کر دو بدبخت انسان کون ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اﷲ! ( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) بتائیے ۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک قوم ثمود کا سرخ رنگ والا وہ بدبخت جس نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو قتل کیا اور دوسرا وہ بدبخت انسان جو اے علی!تمہارے یہاں پر (گردن کی طرف اشارہ کیا) تلوار مارے گا۔(مستدرک حاکم جلد ۳ ص ۱۴۰ تاص ۱۴۱مطبوعه حيدرآباد) یہ غیب کی خبر اس طرح ظہور پذیر ہوئی کہ ۱۷ رمضان ۴۰ ھ کو عبدالرحمن بن ملجم خارجی نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر تلوار سے قاتلانہ حملہ کیا جس سے زخمی ہو کر دو دن بعد حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شہادت سے سرفراز ہوگئے۔(تاريخ الخلفاء) حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے خوشخبری:۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حجۃ الوداع میں مکہ معظمہ جا کر اس قدر شدید بیمار ہوگئے کہ ان کو اپنی زندگی کی امید نہ رہی۔ ان کو اس بات کی بہت زیادہ بے چینی تھی کہ اگر میں مر گیا تو میری ہجرت نامکمل رہ جائے گی۔ حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ نے ان کی بے قراری دیکھ کر تسلی دی اور ان کے لیے دعا بھی فرمائی اور یہ بشارت دی کہ امید ہے کہ تم ابھی نہیں مرو گے بلکہ تمہاری زندگی لمبی ہوگی اور بہت سے لوگوں کو تم سے نفع اور بہت سے لوگوں کو تم سے نقصان پہنچے گا۔(بخاری جلد ۱ ص ۳۸۳ کتاب الوصايا) یہ حضرت سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لیے فتوحات عجم کی بشارت تھی۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسلامی لشکر کا سپہ سالار بن کر ایران پر فوج کشی کی اور چند سال میں بڑے بڑے معرکوں کے بعد بادشاہ ایران کسریٰ کے تخت و تاج کو چھین لیا۔ اس طرح مسلمانوں کو ان کی ذات سے بڑا فائدہ اور کفار مجوس کو ان کی ذات سے نقصان عظیم پہنچا۔ ایران حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں فتح ہوا اور اس لڑائی کا نقشہ جنگ خود امیرالمؤمنین نے ماہرین جنگ کے مشوروں سے تیار فرمایا تھا۔ حجاز کی آگ:۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک حجاز کی زمین سے ایک ایسی آگ نہ نکلے جس کی روشنی میں بصریٰ کے اونٹوں کی گردنیں نظر آئیں گی۔(مسلم جلد ۲ ص۳۹۳ کتاب الفتن) اس غیب کی خبر کا ظہور ۶۵۴ ؁ھ میں ہوا۔ چنانچہ حضرت امام نووی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کی شرح میں تحریر فرمایا کہ یہ آگ ہمارے زمانے میں ۶۵۴ ؁ھ میں مدینہ کے اندر ظاہر ہوئی۔ یہ آگ اس قدر بڑی تھی کہ مدینہ کے مشرقی جانب سے لے کر “حرہ” کی پہاڑیوں تک پھیلی ہوئی تھی اس آگ کا حال ملک شام اور تمام شہروں میں تواتر کے طریقے پر معلوم ہوا ہے اور ہم سے اس شخص نے بیان کیا جو اس وقت مدینہ میں موجود تھا۔(شرح مسلم نووی جلد ۲ ص ۳۹۳ کتاب الفتن) اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے تحریر فرمایا ہے کہ ۳ جمادی الآخرۃ ۶۵۴ ؁ھ کو مدینہ منورہ میں ناگہاں ایک گھر گھراہٹ کی آواز سنائی دینے لگی پھر نہایت ہی زور دار زلزلہ آیا جس کے جھٹکے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد دو دن تک محسوس کیے جاتے رہے۔ پھر بالکل اچانک قبیلہ قریظہ کے قریب پہاڑوں میں ایک ایسی خوفناک آگ نمودار ہوئی جس کے بلند شعلے مدینہ سے ایسے نظر آ رہے تھے کہ گویا یہ آگ مدینہ منورہ کے گھروں میں لگی ہوئی ہے۔ پھر یہ آگ بہتے ہوئے نالوں کی طرح سیلاب کے مانند پھیلنے لگی اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ پہاڑیاں آگ بن کر بہتی چلی جا رہی ہیں اور پھر اس کے شعلے اس قدر بلند ہوگئے کہ آگ کا ایک پہاڑ نظر آنے لگا اور آگ کے شرارے ہر چہار طرف فضاؤں میں اڑنے لگے۔ یہاں تک کہ اس آگ کی روشنی مکہ مکرمہ سے نظر آنے لگی اور بہت سے لوگوں نے شہر بصریٰ میں رات کو اسی آگ کی روشنی میں اونٹوں کی گردنوں کو دیکھ لیا۔ اہل مدینہ آگ کے اس ہولناک منظر سے لرزہ براندام ہو کردہشت اور گھبراہٹ کے عالم میں توبہ اور استغفار کرتے ہوئے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس پناہ لینے کے لیے مجتمع ہوگئے۔ ایک ماہ سے زائد عرصہ تک یہ آگ جلتی رہی اور پھر خود بخود رفتہ رفتہ اس طرح بجھ گئی کہ اس کا کوئی نشان بھی باقی نہیں رہا۔(تاريخ الخلفاء ص ۳۲۴) فتنوں کے علمبردار:۔ حضرت حذیفہ بن یمان صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ خدا کی قسم! میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھی بھول گئے ہیں یا جانتے ہوئے انجان بن رہے ہیں۔ واﷲ! دنیا کے خاتمہ تک جتنے فتنوں کے ایسے قائدین ہیں جن کے متبعین کی تعداد تین سو یا اس سے زائد ہوں ان سب فتنوں کے علمبرداروں کا نام، ان کے باپوں کا نام، ان کے قبیلوں کا نام رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو بتا دیا ہے۔(ابوداود جلد ۲ ص ۲۳۱ کتاب الفتن) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے گمراہوں اور فتنوں کے ہزاروں لاکھوں سرداروں اور علمبرداروں کے نام مع ولدیت و سکونت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو بتا دیئے۔ ظاہر ہے کہ یہ علم غیب ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ قیامت تک کے واقعات:۔ مسلم شریف کی حدیث ہے، حضرت عمرو بن اخطب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہم لوگوں کو نماز فجر پڑھا کر منبر پر تشریف لے گئے اور ہم لوگوں کو خطبہ سناتے رہے یہاں تک کہ نماز ظہر کا وقت آ گیا۔ پھر آپ نے منبر سے اتر کر نماز ظہر ادا فرمائی۔ پھر خطبہ دینے میں مشغول ہوگئے یہاں تک کہ نماز عصر کا وقت ہوگیا۔ اس وقت آپ نے منبر سے اتر کر نماز عصر پڑھائی پھر منبر پر چڑھ کر خطبہ پڑھنے لگے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا تو اس دن بھر کے خطبہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو تمام ان واقعات کی خبر دے دی جو قیامت تک ہونے والے تھے تو جس شخص نے جس قدر زیادہ اس خطبہ کو یاد رکھا وہ ہم صحابہ میں سب سے زیادہ علم والاہے۔(مشکوٰۃ جلد ۲ ص ۵۴۳) ضروری انتباہ:۔ مذکورہ بالا واقعات ان ہزاروں واقعات میں سے صرف چند ہیں جن میں حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے غیب کی خبریں دی ہیں۔ بلاشبہ ہزاروں واقعات جو صحاح ستہ اور احادیث کی دوسری کتابوں میں ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں، امت کو جھنجھوڑ کر متنبہ کر رہے ہیں کہ اول سے ابد تک کے تمام علوم غیبیہ کے خزانوں کو علام الغیوب جل جلالہٗ نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سینہ نبوت میں و دیعت فرما دیا ہے۔ لہٰذا ہر امتی کو یہ عقیدہ رکھنا لازمی اور ضروری ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو علم غیب عطا فرمایا ہے۔ یہ عقیدہ قرآن مجید کی مقدس تعلیم کا وہ عطر ہے جس سے اہل سنت کی دنیائے ایمان معطر ہے جیسا کہ خود خداوند عالم جل مجدہ ٗ نے ارشاد فرمایا کہ وَعَلَّمَكَ ماَلَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ ط وَكَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا (۴ :۱۳) اﷲ نے آپ کو ہر اس چیز کا علم عطا فرما دیا جس کو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اﷲ کا بہت ہی بڑا فضل ہے۔
  11. نص قرآن سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم غیب کے منکر پکے منافق ہیں قل ابا ﷲ، واٰیاتہ ورسولہ کنتم تستھزء ون (پارہ 10، سورہ التوبہ ، آیت 65) O لا تعتذروا قد کفرتم بعد ایمانکم O اے محبوب) آپ کہہ دیجئے کہ کیا مذاق کرنے کے لئے اﷲ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی رہ گیا ہے۔ باتیں نہ بنائو، ایمان قبول کرنے کے بعد تم کافر و مرتد ہوگئے‘‘ (درمنشور شان نزول: بیان کرتے ہیں کہ سرکار دوعالمﷺ کسی غزوہ میں تشریف لے گئے۔ اثنائے سفر میں کسی صحابی کا اونٹ گم ہوگیا۔ وہ اپنے عقیدہ کے مطابق سرکارﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر فریادی ہوئے اور غیب کی خبر رکھنے والے رسولﷺ سے اپنے گم شدہ اونٹ کا پتہ دریافت کیا۔ سرکار دوعالمﷺ نے اپنے علم کی روشنی میں فرمایا: ’’تمہارا اونٹ فلاں وادی میں فلاں مقام پر کھڑا ہے‘‘ وہ صحابی الٹے پائوں سرکارﷺ کے بتائے ہوئے مقام پر روانہ ہوگئے۔ اب ادھر کا قصہ سنیے… لشکر میں کچھ منافقین بھی تھے۔ جب انہیں یہ اطلاع ملی کہ حضورﷺ نے کسی گم شدہ اونٹ کے بارے میں یہ خبر دی ہے کہ وہ فلاں وادی میں فلاں مقام پر کھڑا ہے تو ازراہ طنز انہوں نے آپس میں کہنا شروع کیا ومایدری محمد بالغیب محمدﷺ غیب کی بات کیا جانیں (یعنی معاذ اﷲ انہوں نے یہ بالکل فرضی خبر دی ہے اونٹ فلاں مقام پر ہے) چھپی ہوئی باتوں کا حال انہیں کیا معلوم؟ یہ منافقین جب مدینہ پلٹ کر واپس آئے تو بعض صحابہ رضی اﷲ عنہما نے حضورﷺ تک یہ خبر پہنچائی کہ فلاں فلاں لوگ حضورﷺ کے علم غیب کے بارے میں اس طرح کا طنز کررہے تھے۔ سرکارﷺ نے جب انہیں بلاکر دریافت کیا تو ایک دم بدل گئے۔ کہنے لگے کہ ہماری قوم کے چندنوخیز لڑکوں نے یونہی ازراہ مذاق آپس میں اس طرح کی باتیں کی تھیں۔ ویسے درحقیقت ہم لوگ حضورﷺ کی غیب دانی کے منکر نہیں ہیں۔ ہمارا بھی وہی عقیدہ ہے جو عام صحابی رضی اﷲ عنہ کا ہے، اپنی صفائی میں وہ بیان دے ہی رہے تھے کہ روح الامین قرآن کی یہ آیتیں لے کر اترے۔ تشریح: اﷲ اکبر! اپنے محبوبﷺ کی حمایت میں ذرا ان آیتوں کا تیور تو دیکھئے، تنبیہات کی یہ لگاتار سرزنش لرزا دینے کے لئے کافی ہے۔ پہلی تنبیہ: تو یہ فرمائی گئی کہ رسولﷺ کی شان میں کسی طرح کا اہانت آمیز جملہ فقط رسول ہی کا انکار نہیں، خدا کا بھی انکار ہے۔ آج جو لوگ توحید خداوندی کا نام نہادسہارا لے کر اس کے رسول کی تنقیص (کسی کی ذات میں نقص نکالنا) کرتے ہیں، وہ اس گمان میں نہ رہیں کہ یہ تنقیص صرف رسولﷺ کی ہی ہے۔ بلا تفریق یہ تنقیض شان خداوندی کی بھی ہے۔ دوسری تنبیہ: یہ فرمائی گئی کہ رسول کے بارے میں علم غیب کا عقیدہ کوئی فرضی چیز نہیں ہے کہ اس کا مذاق اڑایا جائے۔ اسلام و ایمان کے دوسرے حقائق کی طرح یہ بھی ایک ایسی مثبت حقیقت ہے جس کا انکار کرتے ہی اسلام و ایمان کے ساتھ کوئی رشتہ باقی نہیں رہ جاتا۔ تیسری تنبیہ: یہ فرمائی گئی کہ رسول کی تنقیض و توہین بس یہی نہیں ہے کہ معاذ اﷲ ان کی شان میں مغلظ الفاظ استعمال کئے جائیں بلکہ ان کی کسی لازمہ نبوت فضیلت وکمال سے انکار بھی ان کی تنقیص شان کے لئے کافی ہے۔ چوتھی تنبیہ: یہ فرمائی گئی کہ دنیا میں بڑے بڑے گناہ کی معذرت قبول کی جاسکتی ہے، لیکن شان رسولﷺ میں گستاخی کا جملہ استعمال کرنے والوں کی کوئی تاویل نہیں سنی جائے گی۔ پانچویں تنبیہ: یہ فرمائی گئی کہ کلمہ گوئی اور اسلام کی ظاہری نشانیاں توہین رسالت کے نتائج، و احکام سے کسی کو بچا نہیں سکتیں۔ لاکھ کوئی اپنے آپ کو مسلمان کہتا رہے، تنقیض شان رسول کے ارتکاب کے بعد اس کے لئے دائرہ اسلام میں اب کوئی گنجائش نہیں (۳) ہے۔ تکفیر کے ذریعے اس کے اخراج کا اعلان کردینا ضروری ہے تاکہ مسلم معاشرہ اس کے نمائشی اسلام سے دھوکہ نہ کھائے، اور اس کے ساتھ دینی اشتراک کا کوئی تعلق باقی نہ رکھا جائے۔ حاشیہ (۱) نبوت کے لئے علم غیب لازم ہے کیونکہ نبوت غیب سے مطلق ہونے کا ہی نام ہے۔ نبی سے مطلق علم غیب کی نفی کرنا کفر ہے کہ یہ نبوت کو لازم ہے۔ لازم کی نفی اور انکار ملزوم کی نفی و انکار ہے۔ امام غزالی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’ان لہ صفۃ بہا یدرک ماسیکون فی الغیب‘‘ (زرقانی علم المواہب جلد 1ص 20) یعنی نبی میں ایک صفت ایسی بھی ہوتی ہے جس سے وہ غیب میں ہونے والی باتوں کو جانتا ہے۔ یعنی جو لفظ صریح طور پر گستاخی ہوگا، وہاں گستاخی کی کوئی تاویل نہیں سنی جائے گی۔ کیونکہ لفظ صریح تاویل کے قابل نہیں ہوتا۔ چنانچہ خفاجی شرح شفا میں اور انور شاہ کشمیری دیوبندی اکفارالملحدین میں لکھتے ہیں کہ ’’التقاویل فی لفظ صراح لایقبل‘‘ (شرح شفانسیم الریاض جلد 2ص 378 الکفار الملحدین ص 62) اور ضروریات دین میں تاویل کرنے سے کفر سے نہیں بچ سکتا۔ چنانچہ کشمیری صاحب لکھتے ہیں ’’والتاویل فی ضروریات الدین لایدفع الکفر‘‘ (الکفار الملحدین ص 59) لہذا گستاخ نبوت کو جس نے صریح گستاخی کی ہے ضرور کافر و مرتد قرار دیا جائے گا۔ اور جو اسے کافر نہ کہے، وہ بھی کافر قرار پائے گا۔ اور گستاخ نبوت کا قتل بھی واجب ہے، اسے کوئی معافی نہ دی جائے گی۔ چنانچہ مولانا علی قاری شرح شفا میں اور انور شاہ کشمیری دیوبندی اکفار الملحدین میں لکھتے ہیں ’’اجمع العلماء عی ان شاتم النبیﷺ المقص لہ کافرومن شک وی کفرہ و عذابہ کفر‘‘ (الکفار الملحدین ص 41/50) یعنی علماء کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ حضور اکرمﷺ کا گستاخ کافر ہے۔ اور جو اس کے کفر و عذاب میں شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔ کشمیری صاحب لکھتے ہیں۔ ’’ان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم لہ ان یعفو عن سابہ ولہ ان یقتل وقع کلا الا مرین واما لا امۃ فتجب علیہم قتلہ یعنی نبی اکرمﷺ کو حق تھا کہ اپنے گستاخ کو معاف فرمادیں یا قتل کرادیں۔ اور یہ دونوں باتیں واقع ہوئیں اور امت پر بہرحال گستاخ نبوت کا قتل واجب ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی (الکفار الملحدین، انور شاہ کشمیری) اسی کی تائید انور شاہ کشمیری کی زبانی سنئے، فرماتے ہیں ’’لاخلاف فی کفر المخالف فی ضروریات الاسلام وان کان من اہل القبلۃ المواظب طول عمرہ علی الطاعات‘‘ (الکفار الملحدین ص 11) یعنی ضروریات اسلام کی جو مخالفت اور خلاف ورزی کرنے والے کے کفر میں کوئی اختلاف نہیں، اگرچہ وہ قبلہ کو منہ کرکے نمازیں پڑھیں اور اگرچہ عمر بھر ہمیشہ طاعات و عبادات بجالاتا رہے، اس کی کوئی پروا نہ کی جائے گی
  12. علم غیب کے منکر پکے منافق ہیں نص قرآن سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم غیب کے منکر پکے منافق ہیں قل ابا ﷲ، واٰیاتہ ورسولہ کنتم تستھزء ون (پارہ 10، سورہ التوبہ ، آیت 65) O لا تعتذروا قد کفرتم بعد ایمانکم O اے محبوب) آپ کہہ دیجئے کہ کیا مذاق کرنے کے لئے اﷲ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی رہ گیا ہے۔ باتیں نہ بنائو، ایمان قبول کرنے کے بعد تم کافر و مرتد ہوگئے‘‘ (درمنشور شان نزول: بیان کرتے ہیں کہ سرکار دوعالمﷺ کسی غزوہ میں تشریف لے گئے۔ اثنائے سفر میں کسی صحابی کا اونٹ گم ہوگیا۔ وہ اپنے عقیدہ کے مطابق سرکارﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر فریادی ہوئے اور غیب کی خبر رکھنے والے رسولﷺ سے اپنے گم شدہ اونٹ کا پتہ دریافت کیا۔ سرکار دوعالمﷺ نے اپنے علم کی روشنی میں فرمایا: ’’تمہارا اونٹ فلاں وادی میں فلاں مقام پر کھڑا ہے‘‘ وہ صحابی الٹے پائوں سرکارﷺ کے بتائے ہوئے مقام پر روانہ ہوگئے۔ اب ادھر کا قصہ سنیے… لشکر میں کچھ منافقین بھی تھے۔ جب انہیں یہ اطلاع ملی کہ حضورﷺ نے کسی گم شدہ اونٹ کے بارے میں یہ خبر دی ہے کہ وہ فلاں وادی میں فلاں مقام پر کھڑا ہے تو ازراہ طنز انہوں نے آپس میں کہنا شروع کیا ومایدری محمد بالغیب محمدﷺ غیب کی بات کیا جانیں (یعنی معاذ اﷲ انہوں نے یہ بالکل فرضی خبر دی ہے اونٹ فلاں مقام پر ہے) چھپی ہوئی باتوں کا حال انہیں کیا معلوم؟ یہ منافقین جب مدینہ پلٹ کر واپس آئے تو بعض صحابہ رضی اﷲ عنہما نے حضورﷺ تک یہ خبر پہنچائی کہ فلاں فلاں لوگ حضورﷺ کے علم غیب کے بارے میں اس طرح کا طنز کررہے تھے۔ سرکارﷺ نے جب انہیں بلاکر دریافت کیا تو ایک دم بدل گئے۔ کہنے لگے کہ ہماری قوم کے چندنوخیز لڑکوں نے یونہی ازراہ مذاق آپس میں اس طرح کی باتیں کی تھیں۔ ویسے درحقیقت ہم لوگ حضورﷺ کی غیب دانی کے منکر نہیں ہیں۔ ہمارا بھی وہی عقیدہ ہے جو عام صحابی رضی اﷲ عنہ کا ہے، اپنی صفائی میں وہ بیان دے ہی رہے تھے کہ روح الامین قرآن کی یہ آیتیں لے کر اترے۔ تشریح: اﷲ اکبر! اپنے محبوبﷺ کی حمایت میں ذرا ان آیتوں کا تیور تو دیکھئے، تنبیہات کی یہ لگاتار سرزنش لرزا دینے کے لئے کافی ہے۔ پہلی تنبیہ: تو یہ فرمائی گئی کہ رسولﷺ کی شان میں کسی طرح کا اہانت آمیز جملہ فقط رسول ہی کا انکار نہیں، خدا کا بھی انکار ہے۔ آج جو لوگ توحید خداوندی کا نام نہادسہارا لے کر اس کے رسول کی تنقیص (کسی کی ذات میں نقص نکالنا) کرتے ہیں، وہ اس گمان میں نہ رہیں کہ یہ تنقیص صرف رسولﷺ کی ہی ہے۔ بلا تفریق یہ تنقیض شان خداوندی کی بھی ہے۔ دوسری تنبیہ: یہ فرمائی گئی کہ رسول کے بارے میں علم غیب کا عقیدہ کوئی فرضی چیز نہیں ہے کہ اس کا مذاق اڑایا جائے۔ اسلام و ایمان کے دوسرے حقائق کی طرح یہ بھی ایک ایسی مثبت حقیقت ہے جس کا انکار کرتے ہی اسلام و ایمان کے ساتھ کوئی رشتہ باقی نہیں رہ جاتا۔ تیسری تنبیہ: یہ فرمائی گئی کہ رسول کی تنقیض و توہین بس یہی نہیں ہے کہ معاذ اﷲ ان کی شان میں مغلظ الفاظ استعمال کئے جائیں بلکہ ان کی کسی لازمہ نبوت فضیلت وکمال سے انکار بھی ان کی تنقیص شان کے لئے کافی ہے۔ چوتھی تنبیہ: یہ فرمائی گئی کہ دنیا میں بڑے بڑے گناہ کی معذرت قبول کی جاسکتی ہے، لیکن شان رسولﷺ میں گستاخی کا جملہ استعمال کرنے والوں کی کوئی تاویل نہیں سنی جائے گی۔ پانچویں تنبیہ: یہ فرمائی گئی کہ کلمہ گوئی اور اسلام کی ظاہری نشانیاں توہین رسالت کے نتائج، و احکام سے کسی کو بچا نہیں سکتیں۔ لاکھ کوئی اپنے آپ کو مسلمان کہتا رہے، تنقیض شان رسول کے ارتکاب کے بعد اس کے لئے دائرہ اسلام میں اب کوئی گنجائش نہیں (۳) ہے۔ تکفیر کے ذریعے اس کے اخراج کا اعلان کردینا ضروری ہے تاکہ مسلم معاشرہ اس کے نمائشی اسلام سے دھوکہ نہ کھائے، اور اس کے ساتھ دینی اشتراک کا کوئی تعلق باقی نہ رکھا جائے۔ حاشیہ (۱) نبوت کے لئے علم غیب لازم ہے کیونکہ نبوت غیب سے مطلق ہونے کا ہی نام ہے۔ نبی سے مطلق علم غیب کی نفی کرنا کفر ہے کہ یہ نبوت کو لازم ہے۔ لازم کی نفی اور انکار ملزوم کی نفی و انکار ہے۔ امام غزالی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’ان لہ صفۃ بہا یدرک ماسیکون فی الغیب‘‘ (زرقانی علم المواہب جلد 1ص 20) یعنی نبی میں ایک صفت ایسی بھی ہوتی ہے جس سے وہ غیب میں ہونے والی باتوں کو جانتا ہے۔ یعنی جو لفظ صریح طور پر گستاخی ہوگا، وہاں گستاخی کی کوئی تاویل نہیں سنی جائے گی۔ کیونکہ لفظ صریح تاویل کے قابل نہیں ہوتا۔ چنانچہ خفاجی شرح شفا میں اور انور شاہ کشمیری دیوبندی اکفارالملحدین میں لکھتے ہیں کہ ’’التقاویل فی لفظ صراح لایقبل‘‘ (شرح شفانسیم الریاض جلد 2ص 378 الکفار الملحدین ص 62) اور ضروریات دین میں تاویل کرنے سے کفر سے نہیں بچ سکتا۔ چنانچہ کشمیری صاحب لکھتے ہیں ’’والتاویل فی ضروریات الدین لایدفع الکفر‘‘ (الکفار الملحدین ص 59) لہذا گستاخ نبوت کو جس نے صریح گستاخی کی ہے ضرور کافر و مرتد قرار دیا جائے گا۔ اور جو اسے کافر نہ کہے، وہ بھی کافر قرار پائے گا۔ اور گستاخ نبوت کا قتل بھی واجب ہے، اسے کوئی معافی نہ دی جائے گی۔ چنانچہ مولانا علی قاری شرح شفا میں اور انور شاہ کشمیری دیوبندی اکفار الملحدین میں لکھتے ہیں ’’اجمع العلماء عی ان شاتم النبیﷺ المقص لہ کافرومن شک وی کفرہ و عذابہ کفر‘‘ (الکفار الملحدین ص 41/50) یعنی علماء کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ حضور اکرمﷺ کا گستاخ کافر ہے۔ اور جو اس کے کفر و عذاب میں شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔ کشمیری صاحب لکھتے ہیں۔ ’’ان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم لہ ان یعفو عن سابہ ولہ ان یقتل وقع کلا الا مرین واما لا امۃ فتجب علیہم قتلہ یعنی نبی اکرمﷺ کو حق تھا کہ اپنے گستاخ کو معاف فرمادیں یا قتل کرادیں۔ اور یہ دونوں باتیں واقع ہوئیں اور امت پر بہرحال گستاخ نبوت کا قتل واجب ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی (الکفار الملحدین، انور شاہ کشمیری) اسی کی تائید انور شاہ کشمیری کی زبانی سنئے، فرماتے ہیں ’’لاخلاف فی کفر المخالف فی ضروریات الاسلام وان کان من اہل القبلۃ المواظب طول عمرہ علی الطاعات‘‘ (الکفار الملحدین ص 11) یعنی ضروریات اسلام کی جو مخالفت اور خلاف ورزی کرنے والے کے کفر میں کوئی اختلاف نہیں، اگرچہ وہ قبلہ کو منہ کرکے نمازیں پڑھیں اور اگرچہ عمر بھر ہمیشہ طاعات و عبادات بجالاتا رہے، اس کی کوئی پروا نہ کی جائے گی۔
  13. اللہ عزوجل مولانامحمداشرف سیالوی رحمت اللہ علیہ کو جنت الفردوس میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پڑوس عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  14. ایمان و کفر کا بیان ایمان اسے کہتے ہیں کہ سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریاتِ دین ہیں اور کسی ایک ضرورتِ دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں، اگرچہ باقی تمام ضروریات کی تصدیق کرتا ہو۔ ضروریاتِ دین وہ مسائلِ دین ہیں جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں، جیسے اﷲ عزوجل کی وحدانیت، انبیا کی نبوت، جنت و نار، حشر و نشر وغیرہا، مثلاً یہ اعتقاد کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا۔ عوام سے مراد وہ مسلمان ہیں جو طبقہ علما میں نہ شمار کیے جاتے ہوں، مگر علما کی صحبت سے شرفیاب ہوں اور مسائلِ علمیہ سے ذوق رکھتے ہوں، نہ وہ کہ کوردہ اور جنگل اور پہاڑوں کے رہنے والے ہوں جو کلمہ بھی صحیح نہیں پڑھ سکتے، کہ ایسے لوگوں کا ضروریاتِ دین سے ناواقف ہونا اُس ضروری کو غیر ضروری نہ کر دے گا، البتہ ان کے مسلمان ہونے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ ضروریاتِ دین کے منکر نہ ہوں اور یہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے، ان سب پر اِجمالاً ایما ن لائے ہوں۔ عقیدہ (۱): اصلِ ایمان صرف تصدیق کا نام ہے، اعمالِ بدن تو اصلاً جزو ایمان نہیں، رہا اقرار، اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر تصدیق کے بعد اس کو اظہار کا موقع نہ ملا تو عند اﷲ مومن ہے اور اگر موقع ملا اور اُس سے مطالبہ کیا گیا اور اقرار نہ کیا تو کافر ہے اور اگر مطالبہ نہ کیا گیا تو احکام دنیا میں کافر سمجھا جائے گا، نہ اُس کے جنازے کی نماز پڑھیں گے، نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کریں گے، مگر عند اﷲ مومن ہے اگر کوئی امر خلافِ اسلام ظاہر نہ کیا ہو۔ عقیدہ (۲): مسلمان ہونے کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ زبان سے کسی ایسی چیز کا انکار نہ کرے جو ضروریاتِ دین سے ہے، اگرچہ باقی باتوں کا اقرار کرتا ہو، اگرچہ وہ یہ کہے کہ صرف زبان سے انکار ہے دل میں انکار نہیں، کہ بلا اِکراہِ شرعی مسلمان کلمہ کفر صادر نہیں کر سکتا، وہی شخص ایسی بات منہ پر لائے گا جس کے دل میں اتنی ہی وقعت ہے کہ جب چاہا اِنکار کر دیا اور ایمان تو ایسی تصدیق ہے جس کے خلاف کی اصلاً گنجاءش نہیں۔ مسئلہ(۱): اگر معاذ اﷲ کلمہ کفر جاری کرنے پر کوئی شخص مجبور کیا گیا، یعنی اُسے مار ڈالنے یا اُس کا عضو کاٹ ڈالنے کی صحیح دھمکی دی گئی کہ یہ دھمکانے والے کو اس بات کے کرنے پر قادر سمجھے تو ایسی حالت میں اس کو رخصت دی گئی ہے، مگر شرط یہ ہے کہ دل میں وہی اطمینانِ ایمانی ہو جو پیشتر تھا ، مگر افضل جب بھی یہی ہے کہ قتل ہو جائے اور کلمہ کفر نہ کہے۔ مسئلہ (۲): عملِ جوارح داخلِ ایمان نہیں، البتہ بعض اعمال جو قطعاً مُنافی ایمان ہوں اُن کے مرتکب کو کافر کہا جائے گا، جیسے بُت یا چاند سورج کو سجدہ کرنا اور قتلِ نبی یا نبی کی توہین یا مصحَف شریف یا کعبہ معظمہ کی توہین اور کسی سنّت کو ھلکا بتانا، یہ باتیں یقینا کُفر ہیں۔ یوہیں بعض اعمال کفر کی علامت ہیں، جیسے زُنّار باندھنا، سر پر چُوٹیا رکھنا، قَشْقَہْ لگانا، ایسے افعال کے مرتکب کو فقہائے کرام کافر کہتے ہیں۔ تو جب ان اعمال سے کفر لازم آتا ہے تو ان کے مرتکب کو از سرِ نو اسلام لانے اور اس کے بعد اپنی عورت سے تجدیدِ نکاح کا حکم دیا جائے گا۔ عقیدہ (۳): جس چیز کی حِلّت، نصِّ قطعی سے ثابت ہو اُس کو حرام کہنا اور جس کی حُرمت یقینی ہو اسے حلال بتانا کفر ہے، جبکہ یہ حکم ضروریاتِ دین سے ہو، یا منکر اس حکمِ قطعی سے آگاہ ہو۔ مسئلہ (۱): اُصولِ عقائد میں تقلید جاءز نہیں بلکہ جو بات ہو یقینِ قطعی کے ساتھ ہو، خواہ وہ یقین کسی طرح بھی حاصل ہو، اس کے حصول میں بالخصوص علمِ استدلالی کی حاجت نہیں، ہاں! بعض فروعِ عقائد میں تقلید ہوسکتی ہے ، اِسی بنا پر خود اھلِ سنّت میں دو گروہ ہیں: ''ماتُرِیدیہ'' کہ امام عَلم الہدیٰ حضرت ابو منصور ماتریدی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے متّبع ہوئے اور ''اَشاعرہ'' کہ حضرت امام شیخ ابو الحسن اشعری رحمہ اﷲ تعالیٰ کے تابع ہیں، یہ دونوں جماعتیں اھلِ سنّت ہی کی ہیں اور دونوں حق پر ہیں، آپس میں صرف بعض فروع کا اختلاف ہے۔ اِن کا اختلاف حنفی، شافعی کا سا ہے، کہ دونوں اھلِ حق ہیں، کوئی کسی کی تضلیل و تفسیق نہیں کرسکتا۔ مسئلہ (۲): ایمان قابلِ زیادتی و نقصان نہیں، اس لیے کہ کمی بیشی اُس میں ہو تی ہے جو مقدار یعنی لمبائی، چوڑائی، موٹائی یا گنتی رکھتا ہو اور ایمان تصدیق ہے اور تصدیق، کَیف یعنی ایک حالتِ اِذعانیہ۔ بعض آیات میں ایمان کا زیادہ ہونا جو فرمایا ہے اُس سے مراد مُؤمَن بہ ومُصدََّق بہ ہے، یعنی جس پر ایمان لایا گیا اور جس کی تصدیق کی گئی کہ زمانہ نزولِ قرآن میں اس کی کوئی حد معیّن نہ تھی، بلکہ احکام نازل ہوتے رہتے اور جو حکم نازل ہوتا اس پر ایمان لازم ہوتا، نہ کہ خود نفسِ ایمان بڑھ گَھٹ جاتا ہو، البتہ ایمان قابلِ شدّت و ضُعف ہے کہ یہ کَیف کے عوارض سے ہیں۔ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا تنہا ایمان اس اُمت کے تمام افراد کے مجموع ایمانوں پر غالب ہے۔ عقیدہ (۴): ایمان و کفر میں واسطہ نہیں، یعنی آدمی یا مسلمان ہوگا یا کافر، تیسری صورت کوئی نہیں کہ نہ مسلمان ہو نہ کافر۔ مسئلہ: نفاق کہ زبان سے دعوی اسلام کرنا اور دل میں اسلام سے انکار، یہ بھی خالص کفر ہے، بلکہ ایسے لوگوں کے لیے جہنم کا سب سے نیچے کا طبقہ ہے۔ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں کچھ لوگ اس صفت کے اس نام کے ساتھ مشہور ہوئے کہ ان کے کفرِ باطنی پر قرآن ناطق ہوا، نیز نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے وسیع علم سے ایک ایک کو پہچانا اور فرما دیا کہ یہ منافق ہے۔ اب اِس زمانہ میں کسی خاص شخص کی نسبت قطع کے ساتھ منافق نہیں کہا جاسکتا، کہ ھمارے سامنے جو دعوی اسلام کرے ہم اس کو مسلمان ہی سمجھیں گے، جب تک اس سے وہ قول یا فعل جو مُنافیِ ایمان ہے نہ صادر ہو، البتہ نفاق کی ایک شاخ اِس زمانہ میں پائی جاتی ہے کہ بہت سے بد مذہب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور دیکھا جاتا ہے تو دعوی اسلام کے ساتھ ضروریاتِ دین کا انکار بھی ہے۔ عقیدہ (۵): شرک کے معنی غیرِ خدا کو واجبُ الوجود یا مستحقِ عبادت جاننا، یعنی اُلوہیت میں دوسرے کو شریک کرنا اور یہ کفر کی سب سے بدتر قسم ہے، اس کے سوا کوئی بات اگرچہ کیسی ہی شدید کفر ہو حقیقۃً شرک نہیں، ولہٰذا شرعِ مطہّر نے اھلِ کتاب کفّار کے احکام مشرکین کے احکام سے جدا فرمائے، کتابی کا ذبیحہ حلال، مشرک کا مُردار، کتابیہ سے نکاح ہو سکتا ہے، مشرکہ سے نہیں ہوسکتا۔ امام شافعی کے نزدیک کتابی سے جزیہ لیا جائے گا، مشرک سے نہ لیا جائے گا اور کبھی شرک بول کر مطلق کفر مراد لیا جاتا ہے۔ یہ جو قرآنِ عظیم میں فرمایا: کہ ـ''شرک نہ بخشا جائے گا۔'' وہ اسی معنی پر ہے، یعنی اَصلاً کسی کفر کی مغفرت نہ ہوگی، باقی سب گناہ اﷲ عزوجل کی مشیت پر ہیں، جسے چاہے بخش دے۔ عقیدہ (۶): مرتکبِ کبیرہ مسلمان ہے اور جنت میں جائے گا، خواہ اﷲ عزوجل اپنے محض فضل سے اس کی مغفرت فرما دے، یا حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شفاعت کے بعد، یا اپنے کیے کی کچھ سزا پا کر، اُس کے بعد کبھی جنت سے نہ نکلے گا۔ مسئلہ: جو کسی کافر کے لیے اُس کے مرنے کے بعد مغفرت کی دعا کرے، یا کسی مردہ مُرتد کو مرحوم یا مغفور، یا کسی مُردہ ہندو کو بیکنٹھ باشی(3) کہے، وہ خود کافر ہے۔ عقیدہ (۷): مسلمان کو مسلمان، کافر کو کافر جاننا ضروریاتِ دین سے ہے، اگرچہ کسی خاص شخص کی نسبت یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا خاتمہ ایمان یا معاذاﷲ کفر پر ہوا، تاوقتیکہ اس کے خاتمہ کا حال دلیلِ شرعی سے ثابت نہ ہو، مگر اس سے یہ نہ ہوگا کہ جس شخص نے قطعاً کفر کیا ہو اس کے کُفر میں شک کیا جائے، کہ قطعی کافر کے کفر میں شک بھی آدمی کو کافر بنا دیتا ہے۔ خاتمہ پر بِنا روزِ قیامت اور ظاہر پر مدار حکمِ شرع ہے، اس کو یوں سمجھو کہ کوئی کافر مثلاً یہودی یا نصرانی یا بُت پرست مر گیا تو یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کفر پر مرا، مگر ہم کو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کا حکم یہی ہے کہ اُسے کافر ہی جانیں، اس کی زندگی میں اور موت کے بعد تمام وہی معاملات اس کے ساتھ کریں جو کافروں کے لیے ہیں، مثلاً میل جول، شادی بیاہ، نمازِ جنازہ، کفن دفن، جب اس نے کفر کیا تو فرض ہے کہ ہم اسے کافر ہی جانیں اور خاتمہ کا حال علمِ الٰہی پر چھوڑیں، جس طرح جو ظاہراً مسلمان ہو اور اُس سے کوئی قول و فعل خلافِ ایمان نہ ہو، فرض ہے کہ ہم اسے مسلمان ہی مانیں، اگرچہ ہمیں اس کے خاتمہ کا بھی حال معلوم نہیں۔ اِس زمانہ میں بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ'' میاں...! جتنی دیر اسے کافر کہو گے، اُتنی دیر اﷲ اﷲ کروکہ یہ ثواب کی بات ہے۔'' اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کب کہتے ہیں کہ کافرکافر کا وظیفہ کرلو...؟! مقصود یہ ہے کہ اُسے کافر جانو اور پوچھا جائے تو قطعاً کافر کہو، نہ یہ کہ اپنی صُلحِ کل سے(کل مذاہب کا ایک مآل سمجھ کر مختلف مذاہب کے لوگوں سے خصومت نہ کرنا اور دوست و دشمن سے یکساں برتاؤ رکھنا) اس کے کُفر پر پردہ ڈالو۔ تنبیہ ضروری: حدیث میں ہے: ((سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ ثَلٰثًا وَسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً کُلُّھُمْ فِيْ النَّارِ إلاَّ وَاحِدَۃً.)) ''یہ امت تہتّر فرقے ہو جائے گی، ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی۔'' صحابہ نے عرض کی: ''مَنْ ھُمْ یَا رَسُوْلَ اللہِ؟'' ''وہ ناجیفرقہ کون ہے یا رسول اﷲ ؟'' فرمایا: ((مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِيْ.))(''سنن الترمذي''، کتاب الإیمان، باب ما جاء في افتراق ھذہ الأمۃ، الحدیث: ۲۶۵۰، ج۴، ص۲۹۲) ''وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں''، یعنی سنّت کے پیرو۔ دوسری روایت میں ہے، فرمایا: ((ھُمُ الْجَمَاعَۃُ.))(''السنۃ'' لابن أبي عاصم، باب فیما أخبر بہ النبي علیہ السلام أن أمتہ ستفترق علی... إلخ، الحدیث: ۶۳، ص۲۲) ''وہ جماعت ہے۔'' یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ ہے جسے سوادِ اعظم فرمایا اور فرمایا: جو اس سے الگ ہوا، جہنم میں الگ ہوا۔ اسی وجہ سے اس ''ناجی فرقہ'' کا نام ''اھلِ سنت و جماعت'' ہوا۔ اُن گمراہ فرقوں میں بہت سے پیدا ہو کر ختم ہو گئے، بعض ہندوستان میں نہیں ،ان فرقوں کے ذکر کی ہمیں کیا حاجت؟!، کہ نہ وہ ہیں، نہ اُن کا فتنہ، پھر ان کے تذکرہ سے کیا مطلب جو اِس ہندوستان میں ہیں؟! مختصراً ان کے عقائدکا ذکر کیا جاتا ہے، کہ ھمارے عوام بھائی ان کے فریب میں نہ آئیں، کہ حدیث میں اِرشاد فرمایا: ((إِ یَّاکُمْ وَإِ یَّاھُمْ لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا یَفْتِنُوْنَکُمْ.))(''صحیح مسلم''، مقدمۃ الکتاب للإمام مسلم، باب النھي عن الروایۃ عن الضعفائ... إلخ، الحدیث: ۷، ص۹.) ''اپنے کو اُن سے دُور رکھو اور اُنھیں اپنے سے دور کرو، کہیں وہ تمھیں گمراہ نہ کر دیں، کہیں وہ تمھیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔'' قادیانی قادیانی: کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے پیرو ہیں، اس شخص نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا اور انبیائے کرام علیہم السلام کی شان میں نہایت بیباکی کے ساتھ گستاخیاں کیں، خصوصاً حضرت عیسیٰ روح اﷲ وکلمۃاﷲ علیہ الصلاۃ والسلام اور ان کی والدہ ماجدہ طیِّبہ طاہرہ صدیقہ مریم کی شانِ جلیل میں تو وہ بیہودہ کلمات استعمال کیے، جن کے ذکر سے مسلمانوں کے دل ہِل جاتے ہیں، مگر ضرورتِ زمانہ مجبور کر رہی ہے کہ لوگوں کے سامنے اُن میں کے چندبطور نمونہ ذکر کیے جائیں، خود مدّعی نبوت بننا کافر ہونے اور ابد الآباد جہنم میں رہنے کے لیے کافی تھا، کہ قرآنِ مجید کا انکار اور حضور خاتم النبیین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہ ماننا ہے، مگر اُس نے اتنی ہی بات پر اکتفا نہ کیا بلکہ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی تکذیب و توہین کا وبال بھی اپنے سَر لیا اور یہ صدہا کفر کا مجموعہ ہے، کہ ہر نبی کی تکذیب مستقلاً کفر ہے، اگرچہ باقی انبیا و دیگر ضروریات کا قائل بنتا ہو، بلکہ کسی ایک نبی کی تکذیب سب کی تکذیب ہے ، چنانچہ آیہ : (کَذَّبَتْ قَوْمُ نُوۡحِۣ الْمُرْسَلِیۡنَ ﴿۱۰۵﴾ )ـپ۱۹، الشعرآء ۱۰۵ـ وغیرہ اس کی شاہد ہیں اور اُس نے تو صدہا کی تکذیب کی اور اپنے کو نبی سے بہتر بتایا۔ ایسے شخص اور اس کے متّبِعین کے کافر ہونے میں مسلمانوں کو ہرگز شک نہیں ہوسکتا، بلکہ ایسے کی تکفیر میں اس کے اقوال پر مطلع ہو کر جو شک کرے خود کافر۔ اب اُس کے اقوال سُنیے) : ''اِزالہ اَوہام'' صفحہ ۵۳۳: (خدا تعالیٰ نے ''براہین احمدیہ'' میں اس عاجز کا نام امّتی بھی رکھا اور نبی بھی)۔ ''انجام آتھم'' صفحہ ۵۲ میں ہے: (اے احمد! تیرا نام پورا ہو جائے گا قبل اس کے جو میرا نام پورا ہو)۔ صفحہ ۵۵ میں ہے: (تجھے خوشخبری ہو اے احمد! تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے)۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں جو آیتیں تھیں انہیں اپنے اوپر جَما لیا۔ ''انجام'' صفحہ ۷۸ میں کہتا ہے: (وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾ ) ـپ۱۷، الانبیآء : ۱۰۷.ـ ''تجھ کو تمام جہان کی رحمت کے واسطے روانہ کیا۔'' نوٹ: قادیانی شیطان کی تقریباً۸۰ اَسّی سے زائد کتابیں ہیں ، جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں: '' انجامِ آتھم''، ''ضمیمہ اَنجامِ آتھم'' ، ''کشتیئ نوح'' ، ''اِزالہ اَوہام''، '' دافع البلاء ومعیار اھل الاصطفائ''، ''اربعین'' اور ''براہین اَحمدیہ'' وغیرہا ، ''روحانی خزائن '' نامی کتاب میں ان کتابوں کو ۲۳ تیئس حصوں میں جمع کیا گیا ہے ۔ نیز اس شیطان کے کئی اشتہارات ہیں جو تین۳ حصوں میں جمع کئے گئے ہیں، اور مغلظات بھی ہیں ، جنہیں۱۰د س حصوں میں ''ملفوظات'' کے نام سے جمع کیا گیا ہے نیز یہ آیہ کریمہ (وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعْدِی اسْمُہٗۤ اَحْمَدُ ؕ)ـپ۲۸، الصف : ۶ـ سے اپنی ذات مراد لیتا ہے۔ ''دافع البلاء'' صفحہ ۶ میں ہے: مجھ کو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: (أَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَۃِ أَوْلاَدِيْ أَنْتَ مِنِّي وَأنَا مِنْکَ). یعنی اے غلام احمد! تو میری اولاد کی جگہ ہے تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں)۔) ''اِزالہ اَوہام'' صفحہ ۶۸۸ میں ہے: (حضرت رسُولِ خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اِلہام و وحی غلط نکلی تھیں)۔ صفحہ ۸ میں ہے: (حضرت مُوسیٰ کی پیش گوئیاں بھی اُس صورت پر ظہور پذیر نہیں ہوئیں، جس صورت پر حضرت مُوسیٰ نے اپنے دل میں اُمید باندھی تھی، غایت ما فی الباب یہ ہے کہ حضرت مسیح کی پیش گوئیاں زیادہ غلط نکلیں)۔ ''اِزالہ اَوہام'' صفحہ ۷۵۰ میں ہے: (سورہ بقر میں جو ایک قتل کا ذکر ہے کہ گائے کی بوٹیاں نعش پر مارنے سے وہ مقتول زندہ ہوگیا تھا اور اپنے قاتل کا پتا دے دیا تھا، یہ محض موسیٰ علیہ السلام کی دھمکی تھی اور علمِ مِسمریزم تھا)۔ اُسی کے صفحہ ۷۵۳ میں لکھتا ہے: حضرت اِبراہیم علیہ السلام کا چار پرندے کے معجزے کا ذکر جو قرآن شریف میں ہے، وہ بھی اُن کا مِسمریزم کا عمل تھا)۔) صفحہ ۶۲۹ میں ہے: (ایک باشاہ کے وقت میں چار سو نبی نے اُس کی فتح کے بارے میں پیشگوئی کی اور وہ جھوٹے نکلے، اور بادشاہ کو شکست ہوئی، بلکہ وہ اسی میدان میں مر گیا)۔(1) اُسی کے صفحہ ۲۸، ۲۶ میں لکھتا ہے: قرآن شریف میں گندی گالیاں بھری ہیں اور قرآنِ عظیم سخت زبانی کے طریق کو استعمال کر رہا ہے)۔) اور اپنی ''براہینِ احمدیہ'' کی نسبت ''اِزالہ'' صفحہ ۵۳۳ میں لکھتا ہے: براہینِ احمدیہ خدا کا کلام ہے)۔ ) ''اَربعین'' نمبر ۲ صفحہ ۱۳ پر لکھا: (کامل مہدی نہ موسیٰ تھا نہ عیسیٰ)۔ اِن اُولو العزم مرسَلین کا ہادی ہونا درکنار، پورے راہ یافتہ بھی نہ مانا۔ اب خاص حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی شان میں جو گستاخیاں کیں، اُن میں سے چند یہ ہیں۔ ''معیار'' صفحہ ۱۳: اے عیسائی مِشنریو! اب ربّنا المسیح مت کہو اور دیکھو کہ آج تم میں ایک ہے، جو اُس مسیح سے بڑھ کر ہے)۔) صفحہ ۱۳ و ۱۴ میں ہے: (خدا نے اِس امت میں سے مسیح موعود بھیجا، جو اُس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا، تایہ اِشارہ ہو کہ عیسائیوں کا مسیح کیسا خدا ہے جو احمد کے ادنیٰ غلام سے بھی مقابلہ نہیں کرسکتا یعنی وہ کیسا مسیح ہے، جو اپنے قرب اور شفاعت کے مرتبہ میں احمد کے غلام سے بھی کمتر ہے)۔) ''کشتی'' صفحہ ۱۳ میں ہے: مثیلِ موسیٰ، موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیلِ ابنِ مریم، ابنِ مریم سے بڑھ کر)۔ ) نیز صفحہ ۱۶ میں ہے: خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ مسیحِ محمدی، مسیحِ مُوسوِی سے افضل ہے)۔) ''دافع البلاء'' صفحہ ۲۰ : (اب خدا بتلاتا ہے کہ دیکھو! میں اس کا ثانی پیدا کروں گا جو اُس سے بھی بہتر ہے، جو غلام احمد ہے یعنی احمد کا غلام ؎ ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو اُس سے بہتر غلام احمد ہے یہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں اور اگر تجربہ کی رو سے خدا کی تائید مسیح ابن مریم سے بڑھ کر میرے ساتھ نہ ہو تو میں جھوٹا ہوں)۔ ''دافع البلاء'' ص ۱۵: (خدا تو، بہ پابندی اپنے وعدوں کے ہر چیز پر قادر ہے، لیکن ایسے شخص کو دوبارہ کسی طرح دنیا میں نہیں لاسکتا، جس کے پہلے فتنہ نے ہی دنیا کو تباہ کر دیا ہے)۔(1) ''انجام آتھم'' ص ۴۱ میں لکھتا ہے: مریم کا بیٹا کُشلیا کے بیٹے سے کچھ زیادت نہیں رکھتا)۔ ) ''کشتی'' ص ۵۶ میں ہے: (مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کہ اگر مسیح ابنِ مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کلام جو میں کر سکتا ہوں، وہ ہر گز نہ کرسکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں، وہ ہر گز دِکھلا نہ سکتا)۔) ''اعجاز احمدی'' ص ۱۳: (یہود تو حضرت عیسیٰ کے معاملہ میں اور ان کی پیشگوئیوں کے بارے میں ایسے قوی اعتراض رکھتے ہیں کہ ہم بھی جواب میں حیران ہیں، بغیر اس کے کہ یہ کہہ دیں کہ'' ضرور عیسیٰ نبی ہے، کیونکہ قرآن نے اُس کو نبی قرار دیا ہے اور کوئی دلیل اُن کی نبوت پر قائم نہیں ہوسکتی، بلکہ ابطالِ نبوت پر کئی دلائل قائم ہیں)۔) اس کلام میں یہودیوں کے اعتراض، صحیح ہونا بتایا اور قرآن عظیم پر بھی ساتھ لگے یہ اعتراض جما دیا کہ قرآن ایسی بات کی تعلیم دے رہا ہے جس کے بُطلان پر دلیلیں قائم ہیں۔ ص ۱۴ میں ہے: عیسائی تو اُن کی خدائی کو روتے ہیں، مگر یہاں نبوت بھی اُن کی ثابت نہیں)۔ اُسی کتاب کے ص ۲۴ پر لکھا : کبھی آپ کو شیطانی اِلہام بھی ہوتے تھے)۔) مسلمانو! تمھیں معلوم ہے کہ شیطانی اِلہام کس کو ہوتا ہے؟ قرآن فرماتا ہے: (تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیۡمٍ ﴿۲۲۲﴾ ) ـپ۱۹، الشعرآء: ۲۲۲ـ ''بڑے بہتان والے سخت گنہگار پر شیطان اُترتے ہیں۔'' اُسی صفحہ میں لکھا: ( اُن کی اکثر پیش گوئیاں غلطی سے پُر ہیں)۔ صفحہ ۱۳ میں ہے: (افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُن کی پیش گوئیوں پر یہود کے سخت اعتراض ہیں، جو ہم کسی طرح اُن کو دفع نہیں کرسکتے)۔ صفحہ ۱۴: (ہائے! کس کے آگے یہ ماتم لے جائیں، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تین پیش گوئیاں صاف طور پر جھوٹی نکلیں)۔ اس سے ان کی نبوت کا انکار ہے، چنانچہ اپنی کتاب ''کشتی نوح'' ص ۵ میں لکھتا ہے: ممکن نہیں کہ نبیوں کی پیش گوئیاں ٹل جائیں)۔) اور ''دافع الوساوس'' ص ۳ و ''ضمیمہ انجام آتھم'' ص ۲۷ پر اِس کو سب رُسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی اور ذلت کہتا ہے۔ ''دافع البلاء'' ٹائٹل پیج صفحہ ۳ پر لکھتا ہے: (ہم مسیح کو بیشک ایک راست باز آدمی جانتے ہیں کہ اپنے زمانہ کے اکثر لوگوں سے البتہ اچھا تھا واﷲ تعالیٰ اعلم، مگر وہ حقیقی منجی نہ تھا، حقیقی منجی وہ ہے جو حجاز میں پیدا ہوا تھا اور اب بھی آیا، مگر بُروز کے طور پر خاکسار غلام احمد از قادیان)۔ آگے چل کر راست بازی کا بھی فیصلہ کر دیا، کہتا ہے: (یہ ھمارا بیان نیک ظنّی کے طور پر ہے، ورنہ ممکن ہے کہ عیسیٰ کے وقت میں بعض راست باز اپنی راست بازی میں عیسیٰ سے بھی اعلیٰ ہوں)۔ اسی کے صفحہ ۴ میں لکھا: (مسیح کی راست بازی اپنے زمانہ میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی، بلکہ یحییٰ کو اُس پر ایک فضیلت ہے، کیونکہ وہ (یحییٰ) شراب نہ پیتا تھا اور کبھی نہ سنا کہ کسی فاحشہ عورت نے اپنی کمائی کے مال سے اُس کے سر پر عِطر مَلا تھا، یا ہاتھوں اور اپنے سر کے بالوں سے اُس کے بدن کو چُھوا تھا، یا کوئی بے تعلق جوان عورت اُس کی خدمت کرتی تھی، اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کا نام ''حصور'' رکھا، مگر مسیح کا نہ رکھا، کیونکہ ایسے قصّے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے)۔ ''ضمیمہ اَنجام آتھم'' ص ۷ میں لکھا: (آپ کا کنجریوں سے مَیلان اور صحبت بھی شاید اِسی وجہ سے ہو کہ جَدّی مناسبت درمیان ہے، ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اُس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگا دے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر مَلے اور اپنے بالوں کو اُس کے پیروں پر مَلے، سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے)۔ نیز اس رسالہ میں اُس مقدّس و برگزیدہ رسول پر اور نہایت سخت سخت حملے کیے، مثلاً شریر، مکار، بدعقل، فحش گو، بدزبان، جھوٹا، چور، خللِ دماغ والا، بد قسمت، نِرا فریبی، پیرو شیطان ، حد یہ کہ صفحہ ۷ پر لکھا: (آپ کا خاندان بھی نہایت پاک ومطہّر ہے، تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار اورکسبی عورتیں تھیں، جن کے خون سے آپ کا وجود ہوا)۔ ہر شخص جانتا ہے کہ دادی باپ کی ماں کو کہتے ہیں تو اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے باپ کا ہونا بیان کیا، جو قرآن کے خلاف ہے اور دوسری جگہ یعنی ''کشتی نوح'' صفحہ ۱۶ میں تصریح کر دی: یسوع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں، یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں تھیں، یعنی یوسف اور مریم کی اولاد تھے)۔ ) حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کے معجزات سے ایک دم صاف انکار کر بیٹھا۔ ''انجامِ آتھم'' صفحہ ۶ میں لکھتا ہے: (حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہ ہوا)۔) صفحہ ۷ پر لکھا: (اُس زمانہ میں ایک تالاب سے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوتے تھے، آپ سے کوئی معجزہ ہوا بھی تو وہ آپ کا نہیں، اُس تالاب کا ہے، آپ کے ہاتھ میں سِوا مکروفریب کے کچھ نہ تھا)۔ ''اِزالہ'' کے صفحہ ۴ میں ہے (ما سِوائے اِس کے اگر مسیح کے اصلی کاموں کو اُن حواشی سے الگ کرکے دیکھا جائے جو محض افتراء یا غلط فہمی سے گڑھے ہیں تو کوئی اعجوبہ نظر نہیں آتا، بلکہ مسیح کے معجزات پر جس قدر اعتراض ہیں میں نہیں سمجھ سکتا کہ کسی اور نبی کے خَوارق پرایسے شبہات ہوں، کیا تالاب کا قصّہ مسیحی معجزات کی رونق نہیں دُور کرتا)۔ کہیں اُن کے معجزہ کو کَلْ کا کھلونا بتاتا ہے، کہیں مسمریزم بتا کر کہتا ہے: اگر یہ عاجز اِس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو اِن اعجوبہ نمائیوں میں ابنِ مریم سے کم نہ رہتا)۔) اور مسمریزم کا خاصہ یہ بتایا : (کہ جو اپنے تئیں اس مشغولی میں ڈالے، وہ رُوحانی تاثیروں میں جو روحانی بیماریوں کو دور کرتی ہیں، بہت ضعیف اور نکمّا ہوجاتاہے، یہی وجہ ہے کہ گو مسیح جسمانی بیماریوں کو اِس عمل کے ذریعہ سے اچھا کرتے رہے، مگر ہدایت و توحید اور دینی استقامتوں کے دِلوں میں قائم کرنے میں اُن کا نمبر ایسا کم رہا کہ قریب قریب ناکام رہے)۔ ) غرض اِس دجّال قادیانی کے مُزَخرفات کہاں تک گنائے جائیں، اِس کے لیے دفتر چاہیے، مسلمان اِن چند خرافات سے اُس کے حالات بخوبی سمجھ سکتے ہیں، کہ اُس نبی اُولو العزم کے فضائل جو قرآن میں مذکور ہیں، اُن پر یہ کیسے گندے حملے کر رہا ہے...! تعجب ہے اُن سادہ لوحوں پر کہ ایسے دجّال کے متبع ہو رہے ہیں، یا کم از کم مسلمان جانتے ہیں...! اور سب سے زیادہ تعجب اُن پڑھے لکھے کٹ بگڑوں سے کہ جان بوجھ کر اس کے ساتھ جہنم کے گڑھوں میں گر رہے ہیں...! کیا ایسے شخص کے کافر، مرتد، بے دین ہونے میں کسی مسلمان کو شک ہوسکتا ہے۔ حَاشَ للہ! ''مَنْ شَکَّ فيْ عَذَابِہ وَکُفْرِہ فَقَدْ کَفَرَ.'' ''جو اِن خباثتوں پر مطلع ہو کر اُس کے عذاب و کفر میں شک کرے، خود کافر ہے۔''
  15. دوزخ کا بیان یہ ایک مکان ہے کہ اُس قہار و جبار کے جلال و قہر کا مظہر ہے۔ جس طرح اُس کی رحمت و نعمت کی انتہا نہیں کہ انسانی خیالات و تصورات جہاں تک پہنچیں وہ ایک شَمّہ ہے اُس کی بے شمار نعمتوں سے، اسی طرح اس کے غضب و قہر کی کوئی حد نہیں کہ ہر وہ تکلیف و اذیت کہ اِدراک کی جائے، ایک ادنیٰ حصہ ہے اس کے بے انتہا عذاب کا۔ قرآنِ مجید و احادیث میں جو اُس کی سختیاں مذکور ہیں، ان میں سے کچھ اِجمالاً بیان کرتا ہوں، کہ مسلمان دیکھیں اور اس سے پناہ مانگیں اور اُن اعمال سے بچیں جن کی جزا جہنم ہے۔ حدیث میں ہے کہ جو بندہ جہنم سے پناہ مانگتا ہے، جہنم کہتا ہے: اے رب! یہ مجھ سے پناہ مانگتا ہے، تُو اس کو پناہ دے۔ قرآن مجید میں بکثرت ارشاد ہوا کہ جہنم سے بچو! دوزخ سے ڈرو! ھمارے آقا و مولیٰ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہم کو سکھانے کے لیے کثرت کے ساتھ اُس سے پناہ مانگتے۔ جہنم کے شرارے (پھول) اُونچے اُونچے محلوں کی برابر اُڑیں گے، گویا زَرد اُونٹوں کی قطار کہ پیہم آتے رہیں گے۔ آدمی اور پتھر اُس کا ایندھن ہے ، یہ جو دنیا کی آگ ہے اُس آگ کے ستّر جُزوں میں سے ایک جُز ہے۔ جس کو سب سے کم درجہ کا عذاب ہوگا، اسے آگ کی جوتیاں پہنا دی جائیں گی، جس سے اُس کا دماغ ایسا کَھولے گا جیسے تانبے کی پتیلی کَھولتی ہے، وہ سمجھے گا کہ سب سے زیادہ عذاب اس پر ہو رہا ہے، حالانکہ اس پر سب سے ھلکا ہے، سب سے ھلکے درجہ کا جس پر عذاب ہوگا، اس سے اﷲ عزوجل پوچھے گا: کہ اگرساری زمین تیری ہو جائے تو کیا اس عذاب سے بچنے کے لیے تو سب فدیہ میں دیدے گا؟ عرض کریگا: ہاں! فرمائے گا: کہ جب تُو پُشتِ آدم میں تھا تو ہم نے اِس سے بہت آسان چیز کا حکم دیا تھا کہ کفر نہ کرنا مگر تُو نے نہ مانا۔ جہنم کی آگ ہزار برس تک دھونکائی گئی، یہاں تک کہ سُرخ ہوگئی، پھر ہزار برس اور، یہاں تک کہ سفید ہو گئی، پھر ہزار برس اور، یہاں تک کہ سیاہ ہو گئی، تو اب وہ نِری سیاہ ہے ، جس میں روشنی کا نام نہیں۔ جبرئیل علیہ السلام نے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے قسم کھا کر عرض کی: کہ اگر جہنم سے سوئی کے ناکے کی برابر کھول دیا جائے تو تمام زمین والے سب کے سب اس کی گرمی سے مر جائیں اور قسم کھا کر کہا : کہ اگر جہنم کا کوئی داروغہ اھلِ دنیا پر ظاہر ہو تو زمین کے رہنے والے کُل کے کُل اس کی ہَیبت سے مر جائیں اور بقسم بیان کیا: کہ اگر جہنمیوں کی زنجیر کی ایک کڑی دنیا کے پہاڑوں پررکھ دی جائے تو کانپنے لگیں اور انہیں قرار نہ ہو، یہاں تک کہ نیچے کی زمین تک دھنس جائیں۔ یہ دنیا کی آگ (جس کی گرمی اور تیزی سے کون واقف نہیں کہ بعض موسم میں تو اس کے قریب جانا شاق ہوتا ہے، پھر بھی یہ آگ) خدا سے دعا کرتی ہے کہ اسے جہنم میں پھر نہ لے جائے ، مگر تعجب ہے انسان سے کہ جہنم میں جانے کا کام کرتا ہے اور اُس آگ سے نہیں ڈرتا جس سے آگ بھی ڈرتی اور پناہ مانگتی ہے۔ دوزخ کی گہرائی کو خدا ہی جانے کہ کتنی گہری ہے، حدیث میں ہے کہ اگر پتھر کی چٹان جہنم کے کنارے سے اُس میں پھینکی جائے تو ستّر برس میں بھی تہ تک نہ پہنچے گی اور اگر انسان کے سر برابر سیسہ کا گولا آسمان سے زمین کو پھینکا جائے تو رات آنے سے پہلے زمین تک پہنچ جائے گا، حالانکہ یہ پانسو برس کی راہ ہے۔ پھر اُس میں مختلف طبقات و وَادی اور کوئیں ہیں، بعض وادی ایسی ہیں کہ جہنم بھی ہر روز ستّر مرتبہ یا زیادہ اُن سے پناہ مانگتا ہے، یہ خود اس مکان کی حالت ہے، اگر اس میں اور کچھ عذاب نہ ہوتا تو یہی کیا کم تھا! مگر کفّار کی سَرْزَنِش کے لیے اور طرح طرح کے عذاب مہیّا کیے، لوہے کے ایسے بھاری گُرزوں سے فرشتے ماریں گے کہ اگر کوئی گُرز زمین پر رکھ دیا جائے تو تمام جن و انس جمع ہو کر اُس کو اُٹھا نہیں سکتے۔ بُختی اونٹ ۱ ؎ کی گردن برابر بچھو اور اﷲ (عزوجل) جانے کس قدر بڑے سانپ کہ اگر ایک مرتبہ کاٹ لیں تو اس کی سوزش، درد، بے چینی ہزار برس تک رہے، تیل کی جلی ہوئی تلچھٹ کی مثل سخت کَھولتا پانی پینے کو دیا جائے گا، کہ مونھ کے قریب ہوتے ہی اس کی تیزی سے چہرے کی کھال گر جائے گی۔ سر پر گرم پانی بہایا جائے گا۔4 جہنمیوں کے بدن سے جو پیپ بہے گی وہ پلائی جائے گی ، خاردار تُھوہڑ کھانے کو دیا جائے گا ، وہ ایسا ہو گا کہ اگر اس کا ایک قطرہ دنیا میں آئے تو اس کی سوزش و بدبُو تمام اھلِ دنیا کی معیشت برباد کردے اور وہ گلے میں جا کر پھندا ڈالے گا، اس کے اتارنے کے لیے پانی مانگیں گے، اُن کو وہ کُھولتا پانی دیا جائے گا کہ مونھ کے قریب آتے ہی مونھ کی ساری کھال گل کر اس میں گِر پڑے گی، اور پیٹ میں جاتے ہی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور وہ شوربے کی طرح بہہ کر قدموں کی طرف نکلیں گی ، پیاس اس بلا کی ہوگی کہ اس پانی پر ایسے گریں گے جیسے تونس کے مارے ہوئے اونٹ، پھر کفّار جان سے عاجز آکرباہم مشورہ کر کے مالک علیہ الصلاۃ والسلام داروغہ جہنم کو پکاریں گے: کہ اے مالک (علیہ الصلاۃ والسلام)! تیرا رب ھمارا قصہ تمام کر دے، مالک علیہ الصلاۃ والسلام ہزار برس تک جواب نہ دیں گے، ہزار برس کے بعد فرمائیں گے: مجھ سے کیا کہتے ہو، اُس سے کہو جس کی نافرمانی کی ہے!، ہزار برس تک رب العزت کو اُس کی رحمت کے ناموں سے پکاریں گے، وہ ہزار برس تک جواب نہ دے گا، اس کے بعد فرمائے گا تویہ فرمائے گا: ''دُور ہوجاؤ! جہنم میں پڑے رہو! مجھ سے بات نہ کرو!'' اُس وقت کفّار ہر قسم کی خیر سے نا اُمید ہو جائیں گے اور گدھے کی آواز کی طرح چلّا کر روئیں گے ، ابتداء آنسو نکلے گا، جب آنسو ختم ہو جائیں گے تو خون روئیں گے، روتے روتے گالوں میں خندقوں کی مثل گڑھے پڑ جائیں گے، رونے کا خون اور پیپ اس قدر ہو گا کہ اگر اس میں کشتیاں ڈالی جائیں تو چلنے لگیں۔ جہنمیوں کی شکلیں ایسی کرِیہ ہوں گی کہ اگر دنیا میں کوئی جہنمی اُسی صورت پر لایا جائے تو تمام لوگ اس کی بدصورتی اور بدبُو کی وجہ سے مر جائیں۔ اور جسم ان کا ایسا بڑا کر دیا جائے گا کہ ایک شانہ سے دوسرے تک تیز سوار کے لیے تین ۳دن کی راہ ہے۔ ایک ایک داڑھ اُحد کے پہاڑ برابر ہوگی، کھال کی موٹائی بیالیس ذراع کی ہوگی، زبان ایک کوس دو کوس تک مونھ سے باہر گھسٹتی ہوگی کہ لوگ اس کو روندیں گے ، بیٹھنے کی جگہ اتنی ہوگی جیسے مکہ سے مدینہ تک اور وہ جہنم میں مونھ سکوڑے ہوں گے کہ اوپر کا ہونٹ سمٹ کر بیچ سر کو پہنچ جائے گا اور نیچے کا لٹک کر ناف کو آلگے گا۔ ان مضامین سے یہ معلو م ہوتا ہے کہ کفّار کی شکل جہنم میں انسانی شکل نہ ہوگی کہ یہ شکل اَحسنِ تقویم ہے اور یہ اﷲ عزوجل کو محبوب ہے، کہ اُس کے محبوب کی شکل سے مشابہ ہے، بلکہ جہنمیوں کا وہ حُلیہ ہے جو اوپر مذکور ہوا، پھر آخر میں کفّار کے لیے یہ ہوگا کہ اس کے قد برابر آگ کے صندوق میں اُسے بند کریں گے، پھر اس میں آگ بھڑ کائیں گے اور آگ کا قُفل لگایا جائے گا، پھر یہ صندوق آگ کے دوسرے صندوق میں رکھا جائے گا اور ان دونوں کے درمیان آگ جلائی جائے گی اور اس میں بھی آگ کا قفل لگایا جائے گا، پھر اِسی طرح اُس کو ایک اور صندوق میں رکھ کر اور آگ کا قفل لگا کر آگ میں ڈال دیا جائے گا، تو اب ہر کافر یہ سمجھے گا کہ اس کے سوا اب کوئی آگ میں نہ رہا، اور یہ عذاب بالائے عذاب ہے اور اب ہمیشہ اس کے لیے عذاب ہے۔ جب سب جنتی جنت میں داخل ہولیں گے اور جہنم میں صرف وہی رہ جائیں گے جن کو ہمیشہ کے لیے اس میں رہنا ہے، اس وقت جنت و دوزخ کے درمیان موت کو مینڈھے کی طرح لا کر کھڑا کریں گے، پھر مُنادی جنت والوں کو پکارے گا، وہ ڈرتے ہوئے جھانکیں گے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں سے نکلنے کا حکم ہو، پھر جہنمیوں کو پکارے گا،وہ خوش ہوتے ہوئے جھانکیں گے کہ شاید اس مصیبت سے رہائی ہو جائے، پھر ان سب سے پوچھے گا کہ اسے پہچانتے ہو؟ سب کہیں گے: ہاں! یہ موت ہے، وہ ذبح کر دی جائے گی اور کہے گا: اے اھلِ جنت! ہمیشگی ہے، اب مرنا نہیں اور اے اھلِ نار! ہمیشگی ہے، اب موت نہیں، اس وقت اُن کے لیے خوشی پر خوشی ہے اور اِن کے لیے غم بالائے غم۔ نَسْألُ اللہَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِي الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ.
  16. جنّت کا بیان جنت ایک مکان ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے بنایا ہے، اس میں وہ نعمتیں مہیا کی ہیں جن کو نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا، نہ کسی ۱ ؎ آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرا۔ جو کوئی مثال اس کی تعریف میں دی جائے سمجھانے کے لیے ہے، ورنہ دنیا کی اعلیٰ ۲ ؎ سے اعلیٰ شے کو جنت کی کسی چیز کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں۔ وہاں کی کوئی عورت اگر زمین کی طرف جھانکے تو زمین سے آسمان تک روشن ہوجائے اور خوشبو سے بھر جائے اور چاند سورج کی روشنی جاتی رہے اور اُس کا دوپٹا دنیا ومافیہا سے بہتر۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ اگر حُور اپنی ہتھیلی زمین و آسمان کے درمیان نکالے تو اس کے حسن کی وجہ سے خلائق فتنہ میں پڑ جائیں اور اگر اپنا دوپٹا ظاہر کرے تو اسکی خوبصورتی کے آگے آفتاب ایسا ہو جائے جیسے آفتاب کے سامنے چراغ اور اگر جنت کی کوئی ناخن بھَر چیز دنیا میں ظاہر ہو تو تمام آسمان و زمین اُس سے آراستہ ہو جائیں اور اگرجنتی کا کنگن ظاہر ہو تو آفتاب کی روشنی مٹادے، جیسے آفتاب ستاروں کی روشنی مٹا دیتا ہے۔ جنت کی اتنی جگہ جس میں کوڑا رکھ سکیں دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ جنت کتنی وسیع ہے، اس کو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہی جانیں، اِجمالی بیان یہ ہے کہ اس میں ۱۰۰سو درجے ہیں۔ ہر دو درجوں میں وہ مسافت ہے، جو آسمان و زمین کے درمیان ہے۔ رہا یہ کہ خود اُس درجہ کی کیا مسافت ہے، اس کے متعلق کوئی روایت خیال میں نہیں، البتہ ایک حدیث ''ترمذی'' کی یہ ہے: ''کہ اگر تمام عالم ایک درجہ میں جمع ہو تو سب کے لیے وسیع ہے۔ '' جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایہ میں ۱۰۰سو برس تک تیز گھوڑے پر سوار چلتا رہے اورختم نہ ہو۔ جنت کے دروازے اتنے وسیع ہوں گے کہ ایک بازو سے دوسرے تک تیز گھوڑے کی ستّر برس کی راہ ہوگی پھر بھی جانے والوں کی وہ کثرت ہوگی کہ مونڈھے سے مونڈھا چِھلتا ہوگا، بلکہ بھیڑ کی وجہ سے دروازہ چَرچَرانے لگے گا۔ اس میں قسم قسم کے جواہر کے محل ہیں، ایسے صاف و شفاف کہ اندر کا حصہ باہر سے اور باہر کا اندر سے دکھائی دے۔ جنت کی دیواریں سونے اور چاندی کی اینٹوں اور مُشک کے گارے سے بنی ہیں، ایک اینٹ سونے کی، ایک چاندی کی، زمین زعفران کی، کنکریوں کی جگہ موتی اور یاقوت۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جنتِ عدن کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے، ایک یاقوتِ سرخ کی، ایک زَبَرْجَد سبز کی ،اور مشک کا گارا ہے اورگھاس کی جگہ زعفران ہے، موتی کی کنکریاں، عنبر کی مٹی، جنت میں ایک ایک موتی کا خیمہ ہوگا جس کی بلندی ساٹھ میل۔ جنت میں چار دریا ہیں، ایک پانی کا، دوسرا دودھ کا، تیسرا شہد کا، چوتھا شراب کا، پھر اِن سے نہریں نکل کر ہر ایک کے مکان میں جاری ہیں۔ وہاں کی نہریں زمین کھود کر نہیں بہتیں، بلکہ زمین کے اوپر اوپر رواں ہیں، نہروں کا ایک کنارہ موتی کا، دوسرا یاقوت کا اور نہروں کی زمین خالص مشک کی، وہاں کی شراب دنیا کی سی نہیں جس میں بدبُو اور کڑواہٹ اور نشہ ہوتا ہے اور پینے والے بے عقل ہو جاتے ہیں، آپے سے باہر ہو کر بیہودہ بکتے ہیں، وہ پاک شراب اِن سب باتوں سے پاک و منزَّہ ہے۔ جنتیوں کو جنت میں ہر قسم کے لذیذ سے لذیذ کھانے ملیں گے، جو چاہیں گے فوراً ان کے سامنے موجود ہو گا، اگر کسی پرند کو دیکھ کر اس کے گوشت کھانے کو جی ہو تو اُسی وقت بُھنا ہوا اُن کے پاس آجائے گا، اگر پانی وغیرہ کی خواہش ہو تو کوزے خود ہاتھ میں آجائیں گے، ان میں ٹھیک اندازے کے موافق پانی، دودھ، شراب، شہد ہوگا کہ ان کی خواہش سے ایک قطرہ کم نہ زیادہ، بعد پینے کے خودبخود جہاں سے آئے تھے چلے جائیں گے۔ وہاں نجاست، گندگی، پاخانہ، پیشاب، تھوک، رینٹھ، کان کا میل، بدن کا میل اصلاً نہ ہوں گے، ایک خوشبو دار فرحت بخش ڈکار آئے گی، خوشبو دار فرحت بخش پسینہ نکلے گا، سب کھانا ہضم ہوجائے گا اور ڈکا ر اور پسینے سے مشک کی خوشبو نکلے گی۔ ہر شخص کو ۱۰۰سو آدمیوں کے کھانے، پینے، جماع کی طاقت دی جائے گی۔ ہر وقت زبان سے تسبیح و تکبیر بہ قصد اور بلا قصد مثل سانس کے جاری ہوگی۔ کم سے کم ہر شخص کے سرہانے د۱۰س ہزار خادم کھڑے ہونگے، خادموں میں ہر ایک کے ایک ہاتھ میں چاندی کا پیالہ ہوگا اور دوسرے ہاتھ میں سونے کا اور ہر پیالے میں نئے نئے رنگ کی نعمت ہو گی، جتنا کھاتا جائے گا لذت میں کمی نہ ہوگی بلکہ زیادتی ہوگی ، ہر نوالے میں ۷۰ ستّرمزے ہوں گے، ہر مزہ دوسرے سے ممتاز، وہ معاً محسوس ہوں گے، ایک کا احساس دوسرے سے مانع نہ ہوگا، جنتیوں کے نہ لباس پرانے پڑیں گے، نہ ان کی جوانی فنا ہوگی۔ پھلا گروہ جو جنت میں جائے گا، اُن کے چہرے ایسے روشن ہوں گے جیسے چودہویں رات کا چاند اور دوسرا گروہ جیسے کوئی نہایت روشن ستارہ، جنتی سب ایک دل ہوں گے، ان کے آپس میں کوئی اختلاف و بغض نہ ہوگا، ان میں ہر ایک کو حورِ عِین میں کم سے کم دو بیبیاں ایسی ملیں گی کہ ستّر ستّر جوڑے پہنے ہوں گی، پھر بھی ان لباسوں اور گوشت کے باہر سے ان کی پنڈلیوں کا مغز دکھائی دے گا، جیسے سفید شیشے میں شرابِ سُرخ دکھائی دیتی ہے اور یہ اس وجہ سے کہ اﷲ عزوجل نے انہیں یاقوت سے تشبیہ دی اور یاقوت میں سوراخ کرکے اگر ڈورا ڈالا جائے تو ضرور باہر سے دکھائی دے گا۔ آدمی اپنے چہرے کو اس کے رُخسار میں آئینہ سے بھی زیادہ صاف دیکھے گا اور اس پر ادنیٰ درجہ کا جو موتی ہوگا، وہ ایسا ہو گا کہ مشرق سے مغرب تک روشن کر دے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ مرد اپنا ہاتھ اس کے شانوں کے درمیان رکھے گا تو سینہ کی طرف سے کپڑے اور جلد اور گوشت کے باہر سے دکھائی دے گا۔ اگر جنت کا کپڑا دنیا میں پہنا جائے تو جو دیکھے بے ہوش ہو جائے، اور لوگوں کی نگا ہیں اس کا تحمل نہ کرسکیں، مرد جب اس کے پاس جائے گا اسے ہر بار کوآری پائے گا، مگر اس کی وجہ سے مرد و عورت کسی کو کوئی تکلیف نہ ہوگی، اگر کوئی حور سمندر میں تھوک دے تو اُس کے تھوک کی شیرینی کی وجہ سے سمندر شیریں ہوجائے۔ اور ایک روایت ہے کہ اگر جنت کی عورت سات سمندروں میں تھوکے تو وہ شہد سے زیادہ شیریں ہو جائیں۔ جب کوئی بندہ جنت میں جائے گا تو اس کے سرہانے اور پائنتی دو حوریں نہایت اچھی آواز سے گائیں گی، مگر اُن کا گانا یہ شیطانی مزامیر نہیں بلکہ اﷲ عزوجل کی حمد و پاکی ہوگا، وہ ایسی خوش گُلو ہوں گی کہ مخلوق نے ویسی آواز کبھی نہ سنی ہوگی اور یہ بھی گائیں گی: کہ ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں، کبھی نہ مریں گے، ہم چَین والیاں ہیں، کبھی تکلیف میں نہ پڑیں گے، ہم راضی ہیں ناراض نہ ہوں گے، مبارک باد اس کے لیے جو ھمارا اور ہم اس کے ہوں۔ سر کے بال اور پلکوں اور بھَووں کے سوا جنتی کے بدن پر کہیں بال نہ ہوں گے، سب بے ریش ہوں گے، سُرمگیں آنکھیں، تیس برس کی عمر کے معلوم ہوں گے ، کبھی اس سے زیادہ معلوم نہ ہوں گے۔ ادنیٰ جنتی کے لیے اَ۸۰سّی ہزار خادم اور ۷۲بہتّربیبیاں ہوں گی اور اُن کو ایسے تاج ملیں گے کہ اس میں کا ادنیٰ موتی مشرق و مغرب کے درمیان روشن کر دے اور اگر مسلمان اولاد کی خواہش کرے تو اس کا حمل اور وضع اور پوری عمر (یعنی تیس سال کی)، خواہش کرتے ہی ایک ساعت میں ہو جائے گی۔ جنت میں نیند نہیں، کہ نیند ایک قسم کی موت ہے اور جنت میں موت نہیں۔ جنتی جب جنت میں جائیں گے ہر ایک اپنے اعمال کی مقدار سے مرتبہ پائے گا اور اس کے فضل کی حد نہیں۔ پھر اُنھیں دنیا کی ایک ہفتہ کی مقدار کے بعد اجازت دی جائے گی کہ اپنے پروردگار عزوجل کی زیارت کریں اور عرشِ الٰہی ظاہر ہوگا اور رب عزوجل جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں تجلّی فرمائے گا اور ان جنتیوں کے لیے منبر بچھائے جائیں گے، نورکے منبر، موتی کے منبر، یاقوت کے منبر، زَبرجَد کے منبر، سونے کے منبر، چاندی کے منبر اور اُن میں کا ادنیٰ مشک و کافور کے ٹیلے پر بیٹھے گا اور اُن میں ادنیٰ کوئی نہیں، اپنے گمان میں کرسی والوں کو کچھ اپنے سے بڑھ کر نہ سمجھیں گے اور خدا کا دیدار ایسا صاف ہوگا جیسے آفتاب اور چودھویں رات کے چاند کو ہر ایک اپنی اپنی جگہ سے دیکھتا ہے، کہ ایک کا دیکھنا دوسرے کے لیے مانع نہیں اور اﷲ عزوجل ہر ایک پر تجلّی فرمائے گا، ان میں سے کسی کو فرمائے گا: اے فلاں بن فلاں! تجھے یاد ہے، جس دن تُو نے ایسا ایسا کیا تھا...؟! دنیا کے بعض مَعاصی یاد دلائے گا، بندہ عرض کریگا: تو اے رب! کیا تُو نے مجھے بخش نہ دیا؟ فرمائے گا: ہاں! میری مغفرت کی وسعت ہی کی وجہ سے تُو اِس مرتبہ کو پہنچا، وہ سب اسی حالت میں ہونگے کہ اَبر چھائے گا اور اُن پر خوشبو برسائے گا، کہ اُس کی سی خوشبو ان لوگوں نے کبھی نہ پائی تھی اور اﷲ عزوجل فرمائے گا: کہ جاؤ اُس کی طرف جو میں نے تمہارے لیے عزت تیار کر رکھی ہے، جو چاہو لو، پھر لوگ ایک بازار میں جائیں گے جسے ملائکہ گھیرے ہوئے ہیں، اس میں وہ چیزیں ہوں گی کہ ان کی مثل نہ آنکھوں نے دیکھی، نہ کانوں نے سنی، نہ قلوب پر ان کا خطرہ گزرا، اس میں سے جو چاہیں گے، اُن کے ساتھ کر دی جائے گی اور خریدوفروخت نہ ہوگی اور جنتی اس بازار میں باہم ملیں گے، چھوٹے مرتبہ والا بڑے مرتبہ والے کو دیکھے گا، اس کا لباس پسند کریگا، ہنوز گفتگو ختم بھی نہ ہوگی کہ خیال کریگا، میرا لباس اُس سے اچھا ہے اور یہ اس وجہ سے کہ جنت میں کسی کے لیے غم نہیں، پھر وہاں سے اپنے اپنے مکانوں کو واپس آئیں گے۔ اُن کی بیبیاں استقبال کریں گی اور مبارکباد دے کر کہیں گی کہ آپ واپس ہوئے اور آپ کا جمال اس سے بہت زائد ہے کہ ھمارے پاس سے آپ گئے تھے، جواب دیں گے کہ پروردگار جبّار کے حضور بیٹھنا ہمیں نصیب ہوا تو ہمیں ایسا ہی ہوجانا سزاوار تھا۔ جنتی باہم ملنا چاہیں گے تو ایک کا تخت دوسرے کے پاس چلا جائے گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ان کے پاس نہایت اعلیٰ درجہ کی سواریاں اور گھوڑے لائے جائیں گے اور ان پر سوار ہو کر جہاں چاہیں گے جائیں گے۔ سب سے کم درجہ کا جو جنتی ہے اس کے باغات اور بیبیاں اور نعیم و خدّام اور تخت ہزار برس کی مسافت تک ہوں گے اور اُن میں اﷲ عزوجل کے نزدیک سب میں معزز وہ ہے جو اﷲ تعالیٰ کے وجہِ کریم کے دیدار سے ہر صبح و شام مشرّف ہوگا۔ جب جنتی جنت میں جا لیں گے اﷲ عزوجل اُن سے فرمائے گا: کچھ اور چاہتے ہو جو تم کو دوں؟ عرض کریں گے: تُو نے ھمارے مونھ روشن کیے، جنت میں داخل کیا، جہنم سے نجات دی، اس وقت پردہ کہ مخلوق پر تھا اُٹھ جائے گا تو دیدارِ الٰہی سے بڑھ کر انھیں کوئی چیز نہ ملی ہوگی۔ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا زِیَارَۃَ وَجْھِکَ الْکَرِیْمِ بِجَاہِ حَبِیْبِکَ الرَّؤُوفِ الرَّحِیْمِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالتسلیمُ، اٰمین!
  17. معاد و حشر کا بیان بیشک زمین و آسمان اور جن و اِنس و مَلک سب ایک دن فنا ہونے والے ہیں، صرف ایک اﷲ تعالیٰ کے لیے ہمیشگی و بقا ہے۔ دنیا کے فنا ہونے سے پہلے چند نشانیاں ظاہر ہوں گی۔ (۱) تین خسف ہوں گے یعنی آدمی زمین میں دھنس جائیں گے، ایک مشرق میں، دوسرا مغرب میں، تیسرا جزیره عرب میں۔ (۲) عِلم اُٹھ جائے گا یعنی علما اُٹھالیے جائیں گے، یہ مطلب نہیں کہ علما تو باقی رہیں اور اُن کے دلوں سے علم محو کردیا جائے۔ (۳) جھل کی کثرت ہوگی۔ (۴) زنا کی زیادتی ہوگی اور اِس بے حیائی کے ساتھ زنا ہوگا، جیسے گدھے جُفتی کھاتے ہیں، بڑے چھوٹے کسی کا لحاظ پاس نہ ہوگا۔ (۵) مرد کم ہوں گے اور عورتیں زیادہ، یہاں تک کہ ایک مرد کی سرپرستی میں پچاس عورتیں ہوں گی۔ (۶) علاوہ اُس بڑے دجّال کے اور تیس دجّال ہوں گے، کہ وہ سب دعوی نبوت کریں گے، حالانکہ نبوت ختم ہوچکی۔ جن میں بعض گزرچکے، جیسے مسیلمہ کذّاب، طلیحہ بن خوَیلد، اسود عَنسی، سجاح عورت کہ بعد کو اسلام لے آئی غلام احمد قادیانی وغیرہم۔ اور جو باقی ہیں، ضرور ہوں گے۔ (۷) مال کی کثرت ہوگی ، نہر فرات اپنے خزانے کھول دے گی کہ وہ سونے کے پہاڑ ہوں گے۔ (۸) ملک ِعرب میں کھیتی اور باغ اور نہریں ہوجائیں گی۔ (۹) دین پر قائم رہنا اتنا دشوار ہوگا جیسے مُٹھی میں انگارا لینا ، یہاں تک کہ آدمی قبرستان میں جاکر تمنا کریگا، کہ کاش! میں اِس قبر میں ہوتا۔ (۱۰) وقت میں برکت نہ ہوگی، یہاں تک کہ سال مثل مہینے کے اور مہینہ مثل ہفتہ کے اور ہفتہ مثل دن کے اور دن ایسا ہوجائے گا جیسے کسی چیز کو آگ لگی اور جلد بھڑک کر ختم ہوگئی ، یعنی بہت جلد جلد وقت گزرے گا۔ (۱۱) زکوٰۃ دینا لوگوں پر گراں ہوگا کہ اس کو تاوان سمجھیں گے۔ (۱۲) علمِ دین پڑھیں گے، مگر دین کے لیے نہیں۔ (۱۳) مرد اپنی عورت کا مُطِیع ہوگا۔ (۱۴) ماں باپ کی نافرمانی کریگا۔ (۱۵) اپنے احباب سے میل جول رکھے گا اور باپ سے جدائی۔ (۱۶) مسجد میں لوگ چِلّائیں گے۔ (۱۷) گانے باجے کی کثرت ہوگی۔ (۱۸) اَگلوں پر لوگ لعنت کریں گے، ان کو بُرا کہیں گے۔ (۱۹) درندے، جانور، آدمی سے کلام کریں گے، کوڑے کی پُھنچی، جُوتے کا تَسْمہ کلام کریگا، اُس کے بازار جانے کے بعد جو کچھ گھر میں ہوا بتائے گا، بلکہ خود انسان کی ران اُسے خبر دے گی۔ (۲۰) ذَلیل لوگ جن کو تَن کا کپڑا، پاؤں کی جوتیاں نصیب نہ تھیں، بڑے بڑے محلوں میں فخر کریں گے۔ (۲۱) دجّال کا ظاہر ہونا کہ چا۴۰لیس دن میں حرمَیْنِ طیّبین کے سوا تمام روئے زمین کا گشت کریگا۔چالیس دن میں، پھلا دن سال بھر کے برابر ہوگا اور دوسرا دن مہینے بھر کے برابر اور تیسرا دن ہفتہ کے برابر اور باقی دن چوبیس چوبیس گھنٹے کے ہوں گے اور وہ بہت تیزی کے ساتھ سیر کریگا، جیسے بادل جس کو ہَوا اڑاتی ہو۔ اُس کا فتنہ بہت شدید ہوگا ، ایک باغ اور ایک آگ اُس کے ہمراہ ہوں گی، جن کا نام جنت و دوزخ رکھے گا، جہاں جائے گا یہ بھی جائیں گی، مگر وہ جو دیکھنے میں جنت معلوم ہوگی وہ حقیقۃً آگ ہوگی اور جو جہنم دکھائی دے گا، وہ آرام کی جگہ ہوگی اور وہ خدائی کا دعویٰ کریگا ، جو اُس پر ایمان لائے گا اُسے اپنی جنت میں ڈالے گا اور جو انکار کریگا اُسے جہنم میں داخل کریگا ، مُردے جِلائے گا ۔ زمین کو حکم دے گا وہ سبزے اُگائے گی، آسمان سے پانی برسائے گا اور اُن لوگوں کے جانور لمبے چوڑے خوب تیار اور دودھ والے ہوجائیں گے اور ویرانے میں جائے گا تو وہاں کے دفینے شہد کی مکھیوں کی طرح دَل کے دَل اس کے ہمراہ ہوجائیں گے۔ اِسی قسم کے بہت سے شُعبدے دکھائے گا اور حقیقت میں یہ سب جادو کے کرشمے ہوں گے اور شیاطین کے تماشے، جن کو واقعیت سے کچھ تعلق نہیں، اِسی لیے اُس کے وہاں سے جاتے ہی لوگوں کے پاس کچھ نہ رہے گا۔ حرمین شریفین میں جب جانا چاہے گا ملائکہ اس کا منہ پھیردیں گے۔ البتہ مدینہ طیبہ میں تین زلزلے آئیں گے کہ وہاں جو لوگ بظاہر مسلمان بنے ہوں گے اور دل میں کافر ہوں گے اور وہ جو علمِ الٰہی میں دجّال پر ایمان لاکر کافر ہونے والے ہیں، اُن زلزلوں کے خوف سے شہر سے باہر بھاگیں گے اور اُس کے فتنہ میں مبتلا ہوں گے۔ دجّال کے ساتھ یہود کی فوجیں ہوں گی ، اُس کی پیشانی پر لکھا ہوگا: ''ک، ف، ر'' یعنی کافر، جس کو ہر مسلمان پڑھے گا اور کافر کو نظر نہ آئے گا۔جب وہ ساری دنیا میں پھِر پھِرا کر ملکِ شام کو جائے گا، اُس وقت حضرت مسیح علیہ السلام آسمان سے جامع مسجد دمشق کے شَرقی مینارہ پر نُزُول فرمائیں گے، صبح کا وقت ہوگا، نمازِ فجر کے لیے اِقامت ہو چکی ہوگی، حضرت امام مَہدی کو کہ اُس جماعت میں موجود ہوں گے امامت کا حکم دیں گے، حضرت امام مَہدی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نماز پڑھائیں گے، وہ لعین دجّال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سانس کی خوشبو سے پگھلنا شروع ہوگا، جیسے پانی میں نمک گھلتا ہے اور اُن کی سانس کی خوشبو حدّ ِ بصر تک پہنچے گی، وہ بھاگے گا، یہ تعاقب فرمائیں گے اور اُس کی پیٹھ میں نیزہ ماریں گے، اُس سے وہ جہنم واصل ہوگا۔ (۲۲) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نُزُوْل فرمانا اِس کی مختصر کیفیت اوپر معلوم ہو چکی، آپ کے زمانہ میں مال کی کثرت ہوگی، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص دوسرے کو مال دے گا تو وہ قبول نہ کریگا ، نیز اُس زمانہ میں عداوت و بغض و حسد آپس میں بالکل نہ ہو گا۔ عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلامصَلِیْب توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے ، تمام اھلِ کتاب جو قتل سے بچیں گے سب اُن پر ایمان لائیں گے۔ تمام جہان میں دین ایک دینِ اسلام ہوگا اور مذہب ایک مذہبِ اھلِ سنّت۔ بچے سانپ سے کھیلیں گے اور شیر اور بکری ایک ساتھ چَریں گے ، چالیس برس تک اِقامت فرمائیں گے، نکاح کریں گے، اولاد بھی ہوگی، بعدِ وفات روضہ انورمیں دفن ہونگے۔ (۲۳) حضرت امام مَہدی رضی اللہ تعالی عنہ کاظاہر ہونا اِس کا اِجمالی واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں جب سب جگہ کفر کا تسلط ہوگا اُس وقت تمام اَبدال بلکہ تمام اولیا سب جگہ سے سِمٹ کر حرمین شریفین کو ہجرت کر جائیں گے، صرف وہیں اسلام ہو گا اور ساری زمین کفرستان ہو جائے گی۔ رمضان شریف کا مہینہ ہوگا، اَبدال طوافِ کعبہ میں مصروف ہوں گے اور حضرت امام مَہدی بھی وہاں ہوں گے، اولیاء اُنھیں پہچانیں گے، اُن سے درخواستِ بیعت کریں گے، وہ انکار کریں گے۔ دفعتہ غیب سے ایک آواز آئے گی ھٰذَا خَلِیْفَۃُ اللہِ الْمَھْدِيُّ فَاسْمَعُوْا لَـہٗ وَأَطِیْعُوْہُ. ''یہ اﷲ (عزوجل) کا خلیفہ مہدی ہے، اس کی بات سُنو اور اس کا حکم مانو۔'' تمام لوگ اُن کے دستِمبارک پر بیعت کریں گے۔ وہاں سے سب کو اپنے ہمراہ لے کر ملکِ شام کو تشریف لے جائیں گے۔ بعد قتلِ دجّال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حکمِ الٰہی ہوگا کہ مسلمانوں کو کوہِ طور پر لے جاؤ، اس لیے کہ کچھ ایسے لوگ ظاہر کیے جائیں گے، جن سے لڑنے کی کسی کوطاقت نہیں۔ (۲۴) یاجُوج و ماجُوج کا خروج مسلمانوں کے کوہِ طور پر جانے کے بعد یاجُوج و ماجُوج ظاہر ہوں گے، یہ اس قدر کثیر ہوں گے کہ ان کی پھلی جماعت بُحَیْرَہ طَبَرِیَّہ پر (جس کا طول دس میل ہو گا ) جب گزرے گی، اُس کا پانی پی کر اس طرح سُکھادے گی کہ دوسری جماعت بعد والی جب آئے گی تو کہے گی: کہ یہاں کبھی پانی تھا!۔ پھر دنیا میں فساد و قتل و غارت سے جب فرصت پائیں گے تو کہیں گے کہ زمین والوں کو تو قتل کرلیا، آؤ اب آسمان والوں کو قتل کریں، یہ کہہ کر اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے، خداکی قدرت کہ اُن کے تیر اوپر سے خون آلودہ گریں گے۔ یہ اپنی اِنہیں حرکتوں میں مشغول ہوں گے اور وہاں پہاڑ پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام مع اپنے ساتھیوں کے محصور ہوں گے، یہاں تک کہ اُن کے نزدیک گائے کے سر کی وہ وقعت ہوگی جو آج تمہارے نزدیک ۱۰۰سو اشرفیوں کی نہیں، اُس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام مع اپنے ہمراہیوں کے دُعا فرمائیں گے، اﷲ تعالیٰ اُن کی گردنوں میں ایک قسم کے کیڑے پیدا کر دے گا کہ ایک دَم میں وہ سب کے سب مر جائیں گے، اُن کے مرنے کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام پہاڑ سے اُتریں گے، دیکھیں گے کہ تمام زمین اُن کی لاشوں اور بدبُو سے بھری پڑی ہے، ایک بالشت بھی زمین خالی نہیں۔ اُس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام مع ہمراہیوں کے پھر دُعا کریں گے، اﷲ تعالیٰ ایک قسم کے پرند بھیجے گا کہ وہ انکی لاشوں کو جہاں اﷲ (عزوجل) چاہے گا پھینک آئیں گے اور اُن کے تیر و کمان و تَرکش کو مسلمان سا۷ت برس تک جلائیں گے، پھر اُس کے بعد بارش ہو گی کہ زمین کو ہموار کر چھوڑے گی اور زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھلوں کو اُگا اور اپنی برکتیں اُگل دے اور آسمان کو حکم ہوگا کہ اپنی برکتیں اُنڈیل دے تو یہ حالت ہو گی کہ ایک انار کو ایک جماعت کھائے گی اور اُس کے چھلکے کے سایہ میں د۱۰س آدمی بیٹھیں گے اوردودھ میں یہ برکت ہوگی کہ ایک اونٹنی کا دودھ، جماعت کو کافی ہوگا اور ایک گائے کا دودھ، قبیلہ بھر کو اور ایک بکری کا، خاندان بھر کو کفایت کریگا۔ (۲۵) دُھواں ظاہر ہوگا: جس سے زمین سے آسمان تک اندھیرا ہو جائے گا۔ ) (۲۶) دابۃُ الارض کا نکلنا: یہ ایک جانور ہے، اِس کے ہاتھ میں عصائے موسیٰ اور انگشتری سلیمان علیھما السلام ہوگی، عصا سے ہر مسلما ن کی پیشانی پر ایک نشان نورانی بنائے گا اور انگشتری سے ہر کافر کی پیشانی پر ایک سخت سیاہ دھبّا، اُس وقت تمام مسلم و کافر علانیہ ظاہر ہوں گے۔ یہ علامت کبھی نہ بدلے گی، جو کافر ہے ہر گز ایمان نہ لائے گا اور جو مسلمان ہے ہمیشہ ایمان پر قائم رہے گا۔ (۲۷) آفتاب کا مغرب سے طلو ع ہونا: اِس نشانی کے ظاہر ہوتے ہی توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا،اُس وقت کا اسلام معتبر نہیں۔ (۲۸)"وفاتِ سیدنا عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے ایک زمانہ کے بعد جب قیامِ قیامت کو صرف چالیس برس رہ جائیں گے، ایک خوشبو دار ٹھنڈی ہوا چلے گی، جو لوگوں کی بغلو ں کے نیچے سے گزرے گی، جس کا اثر یہ ہو گا کہ مسلمان کی روح قبض ہو جائے گی اور کافر ہی کافر رہ جائیں گے اور اُنھیں پر قیامت قائم ہوگی۔ یہ چند نشانیاں بیان کی گئیں، اِن میں بعض واقع ہوچکیں اور کچھ باقی ہیں، جب نشانیاں پوری ہو لیں گی اور مسلمانوں کی بغلوں کے نیچے سے وہ خوشبودار ہوا گزرلے گی جس سے تمام مسلمانوں کی وفات ہو جائے گی، اس کے بعدپھر چالیس برس کا زمانہ ایسا گزرے گا کہ اس میں کسی کے اولاد نہ ہو گی، یعنی چالیس برس سے کم عُمر کا کو ئی نہ رہے گا اور دنیا میں کافر ہی کافر ہوں گے، اﷲ کہنے والا کوئی نہ ہوگا ، کوئی اپنی دیوار لیستاہوگا، کوئی کھانا کھاتا ہوگا، غرض لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوں گے کہ دفعتہ حضرت اسرافیل علیہ السلام کو صُور پھو نکنے کا حکم ہوگا، شروع شروع اس کی آواز بہت باریک ہوگی اور رفتہ رفتہ بہت بلند ہو جائے گی، لوگ کان لگا کر اس کی آواز سنیں گے اور بے ہوش ہو کر گِر پڑیں گے اور مر جائیں گے، آسمان، زمین، پہاڑ، یہاں تک کہ صُور اور اسرافیل اور تمام ملائکہ فَنا ہو جائیں گے، اُس وقت سوا اُس واحدِ حقیقی کے کوئی نہ ہوگا، وہ فرمائے گا (لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ؕ ) ـپ۲۴، المؤمن: ۱۶ـ آج کس کی بادشاہت ہے۔۔۔؟! کہاں ہیں جَبّارین۔۔۔؟! کہاں ہیں متکبرین۔۔۔؟! مگر ہے کون جو جواب دے، پھر خود ہی فرمائے گا ( لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ ﴿۱۶﴾ ) ـپ۲۴، المؤمن: ۱۶ـ ''صرف اﷲ واحد قہار کی سلطنت ہے۔'' پھر جب اﷲ تعالیٰ چاہے گا، اسرافیل کو زندہ فرمائے گا اور صور کو پیدا کرکے دوبارہ پھونکھنے کا حکم دے گا، صور پھونکھتے ہی تمام اوّلین و آخرین، ملائکہ و اِنس و جن و حیوانات موجود ہو جائیں گے۔ سب سے پہلے حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قبر مبارک سے یوں برآمد ہونگے کہ دَہنے ہاتھ میں صدیقِ اکبر کا ہاتھ، بائیں ہاتھ میں فاروقِ اعظم کا ہاتھ رضی اﷲ تعالیٰ عنھما ، پھر مکہ معظمہ ومدینہ طیبہ کے مقابر میں جتنے مسلمان دفن ہیں، سب کو اپنے ہمراہ لے کر میدانِ حشر میں تشریف لے جائیں گے۔ عقیدہ (۱): قیامت بیشک قائم ہو گی، اس کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ عقیدہ (۲): حشر صرف رُوح کا نہیں، بلکہ روح و جسم دونوں کا ہے، جو کہے صرف روحیں اٹھیں گی جسم زندہ نہ ہوں گے، وہ بھی کافر ہے۔ عقیدہ (۳): دنیا میں جو رُوح جس جسم کے ساتھ متعلق تھی اُس رُوح کا حشر اُسی جسم میں ہوگا، یہ نہیں کہ کوئی نیا جسم پیدا کرکے اس کے ساتھ روح متعلق کر دی جائے۔ عقیدہ (۴): جسم کے اجزا اگرچہ مرنے کے بعد متفرق ہوگئے اور مختلف جانوروں کی غذا ہوگئے ہوں، مگر اﷲ تعالیٰ ان سب اجزا کو جمع فرماکر قیامت کے دن اٹھائے گا ، قیامت کے دن لوگ اپنی اپنی قبروں سے ننگے بدن، ننگے پاؤں، نَاخَتْنہَ شُدہ اٹھیں گے ، کوئی پیدل، کوئی سوار اور ان میں بعض تنہا سوار ہوں گے اور کسی سواری پر دو۲، کسی پر تین۳، کسی پر چار۴، کسی پر د۱۰س ہوں گے۔ کافر منہ کے بل چلتا ہوا میدانِ حشر کو جائے گا ، کسی کو ملائکہ گھسیٹ کر لے جائیں گے، کسی کو آگ جمع کرے گی۔ یہ میدانِ حشر ملکِ شام کی زمین پر قائم ہوگا۔ زمین ایسی ہموار ہو گی کہ اِس کنارہ پر رائی کا دانہ گر جائے تو دوسرے کنارے سے دکھائی دے ، اُس دن زمین تانبے کی ہوگی اور آفتاب ایک میل کے فاصلہ پر ہوگا۔ راوی حدیث نے فرمایا : ''معلوم نہیں میل سے مراد سُرمہ کی سلائی ہے یا میلِ مُسَافت'' ، اگر میل مسافت بھی ہو تو کیا بہت فاصلہ ہے...؟! کہ اب چار ہزار برس کی راہ کے فاصلہ پر ہے اور اِس طرف آفتاب کی پیٹھ ہے ، پھر بھی جب سر کے مقابل آجاتا ہے، گھر سے باہر نکلنا دشوار ہوجاتا ہے، اُس وقت کہ ایک میل کے فاصلہ پر ہوگا اور اُس کا منہ اِس طرف کو ہوگا، تپش اورگرمی کا کیا پوچھنا...؟! اور اَب مِٹی کی زمین ہے، مگر گرمیوں کی دھوپ میں زمین پرپاؤں نہیں رکھا جاتا، اُس وقت جب تانبے کی ہوگی اور آفتاب کا اتنا قرب ہوگا، اُس کی تپش کون بیان کرسکے...؟! اﷲ (عزوجل) پناہ میں رکھے۔ بھیجے کھولتے ہوں گے اور اس کثرت سے پسینہ نکلے گا کہ ستّر گز زمین میں جذب ہوجائے گا ، پھر جو پسینہ زمین نہ پی سکے گی وہ اوپر چڑھے گا، کسی کے ٹخنوں تک ہو گا، کسی کے گھٹنوں تک، کسی کے کمر کمر، کسی کے سینہ، کسی کے گلے تک، اور کافر کے تو منہ تک چڑھ کر مثلِ لگام کے جکڑ جائے گا ، جس میں وہ ڈبکیاں کھائے گا۔ اس گرمی کی حالت میں پیاس کی جو کیفیت ہوگی محتاجِ بیان نہیں، زبانیں سُوکھ کر کانٹا ہوجائیں گی، بعضوں کی زبانیں منہ سے باہر نکل آئیں گی، دل اُبل کر گلے کو آجائیں گے، ہر مُبتلا بقدرِ گناہ تکلیف میں مبتلا کیا جائے گا، جس نے چاندی سونے کی زکوٰۃ نہ دی ہو گی اُس مال کو خوب گرم کرکے اُس کی کروٹ اور پیشانی اور پیٹھ پر داغ کریں گے ، جس نے جانوروں کی زکوٰۃ نہ دی ہوگی اس کے جانور قیامت کے دن خوب طیار ہو کر آئیں گے اور اس شخص کو وہاں لٹائیں گے اور وہ جانور اپنے سینگوں سے مارتے اور پاؤں سے روندتے اُس پر گزریں گے، جب سب اسی طرح گزر جائیں گے پھر اُدھر سے واپس آکر یوہیں اُس پر گزریں گے، اسی طرح کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ لوگوں کا حساب ختم ہو وعلی ھذا القیاس۔ پھر باوجود ان مصیبتوں کے کوئی کسی کا پُرسانِ حال نہ ہوگا، بھائی سے بھائی بھاگے گا، ماں باپ اولاد سے پیچھا چھڑائیں گے، بی بی بچے الگ جان چُرائیں گے ، ہر ایک اپنی اپنی مصیبت میں گرفتار، کون کس کا مدد گار ہوگا...! حضرت آدم علیہ السلام کو حکم ہو گا، اے آدم! دوزخیوں کی جماعت الگ کر، عر ض کرینگے: کتنے میں سے کتنے؟ ارشاد ہوگا: ہر ہزار سے نو سو ننانوے، یہ وہ وقت ہو گا کہ بچے مارے غم کے بوڑھے ہوجائیں گے، حمل والی کا حمل ساقط ہو جائے گا، لوگ ایسے دکھائی دیں گے کہ نشہ میں ہیں، حالانکہ نشہ میں نہ ہوں گے، ولیکن اﷲ کا عذاب بہت سخت ہے ، غرض کس کس مصیبت کا بیان کیا جائے، ایک ہو، دو۲ ہوں، ۱۰۰سو ہوں، ۱۰۰۰ہزار ہوں تو کوئی بیان بھی کرے، ہزارہا مصائب اور وہ بھی ایسے شدید کہ الاماں الاماں...! اور یہ سب تکلیفیں دو چار گھنٹے، دو چار دن، دو چار ماہ کی نہیں، بلکہ قیامت کا دن کہ پچاس ہزار برس کا ایک دن ہوگا ، قریب آدھے کے گزر چکا ہے اور ابھی تک اھلِ محشر اسی حالت میں ہیں۔ اب آپس میں مشورہ کریں گے کہ کوئی اپنا سفارشی ڈھونڈنا چاہیے کہ ہم کو اِن مصیبتوں سے رہائی دلائے، ابھی تک تو یہی نہیں پتا چلتا ہے کہ آخر کدھر کو جانا ہے، یہ بات مشورے سے قرار پائے گی کہ حضرت آدم علیہ السلام ہم سب کے باپ ہیں، اﷲ تعالیٰ نے اِن کو اپنے دستِ قدرت سے بنایا اور جنت میں رہنے کو جگہ دی اور مرتبہ نبوت سے سرفراز فرمایا، اُنکی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے، وہ ہم کو اِس مصیبت سے نجات دلائیں گے۔ غرض اُفتاں و خیزاں کس کس مشکل سے اُن کے پاس حاضر ہو ں گے اور عرض کریں گے: اے آدم! آپ ابو البشر ہیں، اﷲ عزوجل نے آپ کو اپنے دستِ قدرت سے بنایا اور اپنی چُنی ہوئی روح آپ میں ڈالی اور ملائکہ سے آپ کو سجدہ کرایا اور جنت میں آپ کو رکھا، تمام چیزوں کے نام آپ کو سکھائے، آپ کو صفی کیا، آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں...؟! آپ ھماری شفاعت کیجیے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس سے نجات دے۔ فرمائیں گے: میرا یہ مر تبہ نہیں ، مجھے آج اپنی جان کی فکر ہے، آج رب عزوجل نے ایسا غضب فرمایا ہے کہ نہ پہلے کبھی ایسا غضب فرمایا، نہ آئندہ فرمائے، تم کسی اور کے پاس جاؤ! لوگ عرض کریں گے: آخر کس کے پاس ہم جائیں...؟ فرمائیں گے: نُوح کے پاس جاؤ، کہ وہ پہلے رسول ہیں کہ زمین پر ہدایت کے لیے بھیجے گئے، لوگ اُسی حالت میں حضرت نُوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور اُن کے فضائل بیان کرکے عرض کریں گے کہ: آپ اپنے ربّ کے حضورھماری شفاعت کیجیے کہ وہ ھمارا فیصلہ کر دے، یہاں سے بھی وہی جواب ملے گا کہ میں اس لائق نہیں، مجھے اپنی پڑی ہے، تم کسی اور کے پاس جاؤ! عرض کریں گے، کہ آپ ہمیں کس کے پاس بھیجتے ہیں...؟ فرمائیں گے: تم ابراہیم خلیل اﷲ کے پاس جاؤ، کہ اُن کو اﷲ تعالیٰ نے مرتبہ خُلّت سے ممتاز فرمایا ہے، لوگ یہاں حاضر ہوں گے، وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اِس کے قابل نہیں، مجھے اپنا اندیشہ ہے۔ مختصر یہ کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ و السلام کی خدمت میں بھیجیں گے، وہاں بھی وہی جواب ملے گا،پھر موسیٰ علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ و السلام کے پاس بھیجیں گے، وہ بھی یہی فرمائیں گے: کہ میرے کرنے کا یہ کام نہیں، آج میرے رب نے وہ غضب فرمایا ہے، کہ ایسا نہ کبھی فرمایا، نہ فرمائے، مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، تم کسی دوسرے کے پاس جاؤ، لوگ عرض کریں گے: آپ ہمیں کس کے پاس بھیجتے ہیں؟ فرمائیں گے: تم اُن کے حضور حاضر ہو، جن کے ہاتھ پر فتح رکھی گئی، جو آج بے خوف ہیں، اور وہ تمام اولادِ آدم کے سردارہیں، تم محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو، وہ خاتم النبیین ہیں، وہ آج تمہاری شفاعت فرمائیں گے، اُنھیں کے حضور حاضر ہو، وہ یہاں تشریف فرما ہیں۔ اب لوگ پھِرتے پھِراتے، ٹھوکریں کھاتے، روتے چلّاتے، دُہائی دیتے حاضرِ بارگاہِ بے کس پناہ ہو کر عرض کریں گے: اے محمد! اے اﷲ کے نبی! حضور کے ہاتھ پر اﷲ عزوجل نے فتحِ باب رکھا ہے، آج حضور مطمئن ہیں، اِن کے علاوہ اور بہت سے فضائل بیان کرکے عرض کریں گے: حضور ملاحظہ تو فرمائیں ہم کس مصیبت میں ہیں! اور کس حال کو پہنچے! حضور بارگاہِ خداوندی میں ھماری شفاعت فرمائیں اورہم کو اس آفت سے نجات دلوائیں۔ جواب میں ارشاد فرمائیں گے: ((أَنَا لَھَا)) میں اس کام کے لیے ہوں، ((أنَا صَاحِبُکُمْ)) میں ہی وہ ہوں جسے تم تمام جگہ ڈھونڈ آئے، یہ فرماکر بارگاہِ عزّت میں حاضر ہوں گے اور سجدہ کریں گے، ارشاد ہوگا : ((یَا مُحَمَّدُ! ارْفَعْ رَأسَکَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ))(''صحیح البخاري''، کتاب التوحید، باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ مع الأنبیاء وغیرھم، الحدیث: ۷۵۱۰، ج۴، ص۵۷۷ نی جائے گی اور مانگو جو کچھ مانگو گے ملے گا اور شفاعت کرو، تمہاری شفاعت مقبول ہے۔'' دوسری روایت میں ہے: ((وَقُلْ تُطَعْ))(وفي روایۃ ''المسند'' للشاشي: ((فیقال: ارفع رأسک، قل تطع، واشفع تشفع)). الحدیث: ۱۱۱۵، ج۳، ص۳۵۳. ''فرماؤ! تمہاری اِطاعت کی جائے۔'' پھر تو شفاعت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا، یہاں تک کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ سے کم سے کم بھی ایمان ہوگا، اس کے لیے بھی شفاعت فرماکر اُسے جہنم سے نکالیں گے، یہاں تک کہ جو سچے دل سے مسلمان ہوا اگرچہ اس کے پاس کوئی نیک عمل نہیں ہے، اسے بھی دوزخ سے نکالیں گے۔ اَب تمام انبیا اپنی اُمّت کی شفاعت فرمائیں گے، اولیائے کرام ،شہدا، علما، حُفّاظ ، حُجّاج ، بلکہ ہر وہ شخص جس کو کوئی منصبِ دینی عنایت ہوا، اپنے اپنے متعلقین کی شفاعت کریگا۔ نابالغ بچے جو مرگئے ہیں، اپنے ماں باپ کی شفاعت کریں گے، یہاں تک کہ علما کے پاس کچھ لوگ آکر ;">عرض کریں گے: ہم نے آپ کے وضو کے لیے فلاں وقت میں پانی بھر دیا تھا، کوئی کہے گا :کہ میں نے آپ کو استنجے کے لیے ڈھیلا دیا تھا ، علما اُن تک کی شفاعت کریں گے۔ عقیدہ (۵): حساب حق ہے، اعمال کا حساب ہونے والا ہے۔ عقیدہ (۶): حساب کا منکر کافر ہے ، کسی سے تو اس طرح حساب لیا جائے گا کہ خُفیۃً اُس سے پوچھا جائے گا: تو نے یہ کیا اور یہ کیا؟ عرض کریگا: ہاں اے رب! یہاں تک کہ تمام گناہوں کا اقرار لے لے گا، اب یہ اپنے دل میں سمجھے گا کہ اب گئے، فرمائے گا: کہ ہم نے دنیا میں تیرے عیب چھپائے اور اب بخشتے ہیں۔ اور کسی سے سختی کے ساتھ ایک ایک بات کی باز پرس ہوگی، جس سے یوں سوال ہوا، وہ ھلاک ہوا۔ کسی سے فرمائے گا: اے فلاں! کیا میں نے تجھے عزت نہ دی...؟! تجھے سردار نہ بنایا...؟! اور تیرے لیے گھوڑے اور اونٹ وغیرہ کو مُسخّر نہ کیا...؟! ان کے علاوہ اور نعمتیں یاد دلائے گا، عر ض کریگا: ہاں! تُو نے سب کچھ دیا تھا، پھر فرمائے گا: تو کیا تیراخیال تھا کہ مجھ سے ملنا ہے؟ عرض کریگا کہ نہیں، فرمائے گا: تو جیسے تُو نے ہمیں یاد نہ کیا، ہم بھی تجھے عذاب میں چھوڑتے ہیں۔ بعض کافر ایسے بھی ہوں گے کہ جب نعمتیں یاد دلا کر فرمائے گا کہ تُو نے کیا کیا؟ عرض کریگا: تجھ پر اور تیری کتاب اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا، نماز پڑھی، روزے رکھے، صدقہ دیااو ر ان کے علاوہ جہاں تک ہوسکے گا، نیک کاموں کا ذکر کر جائے گا۔ ارشاد ہو گا: تو اچھا تُو ٹھہر جا! تجھ پر گواہ پیش کیے جائیں گے، یہ اپنے جی میں سوچے گا: مجھ پر کون گواہی دیگا...؟! اس وقت اس کے مونھ پرمُہرکر دی جائے گی اور اَعضا کو حکم ہوگا: بول چلو، اُس وقت اُس کی ران اور ہاتھ پاؤں، گوشت پوست، ہڈیاں سب گواہی دیں گے کہ یہ تو ایسا تھا ایسا تھا، وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اُمّت سے ستّر ہزار بے حساب جنت میں داخل ہوں گے اور ان کے طفیل میں ہر ایک کے ساتھ ستّر ہزار اور رب عزوجل ان کے ساتھ تین جماعتیں اور دے گا، معلوم نہیں ہر جماعت میں کتنے ہوں گے، اس کا شمار وہی جانے۔ تہجد پڑھنے والے بِلا حساب جنت میں جائیں گے۔ اس امت میں وہ شخص بھی ہوگا، جس کے ننانوے دفتر گناہوں کے ہوں گے اور ہر دفتر اتنا ہوگا، جہاں تک نگاہ پہنچے، وہ سب کھولے جائیں گے، رب عزوجل فرمائے گا: ان میں سے کسی امر کا تجھے انکار تو نہیں ہے؟ میرے فرشتوں کراماً کاتبین نے تجھ پر ظلم تو نہیں کیا؟ عرض کریگا: نہیں اے رب! پھر فرمائے گا: تیرے پاس کوئی عذر ہے؟ عرض کریگا: نہیں اے رب! فرمائے گا: ہاں تیری ایک نیکی ھمارے حضور میں ہے اور تجھ پر آج ظلم نہ ہوگا، اُس وقت ایک پرچہ جس میں ''أَشْھَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ وَأَشْھَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ'' ہو گا نکالا جائے گا اور حکم ہوگا جا تُلوا، عرض کرے گا: اے رب! یہ پرچہ ان دفتروں کے سامنے کیا ہے؟ فرمائے گا: تجھ پر ظلم نہ ہوگا، پھر ایک پلّے پر یہ سب دفتر رکھے جائیں گے اور ایک میں وہ، وہ پرچہ ان دفتروں سے بھاری ہو جائے گا۔ بالجملہ اس کی رحمت کی کوئی انتہا نہیں، جس پر رحم فرمائے، تھوڑی چیز بھی بہت کثیر ہے۔ عقیدہ (۷): قیامت کے دن ہر شخص کو اُس کانامہ اعمال دیا جائے گا ، نیکوں کے دہنے ہاتھ میں اور بدوں کے بائیں ہاتھ میں، کافر کا سینہ توڑ کر اُس کا بایاں ہاتھ اس سے پسِ پشت نکال کر پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا۔ عقیدہ (۸): حوضِ کوثر کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو مرحمت ہوا، حق ہے۔ اِس حوض کی مسافت ایک مہینہ کی راہ ہے ، اس کے کناروں پر موتی کے قُبّے ہیں ، چاروں گوشے برابر یعنی زاویے قائمہ ہیں ، اس کی مٹی نہایت خوشبودار مشک کی ہے ، اس کا پانی دُودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ میٹھا اور مشک سے زیادہ پاکیزہ اور اس پر برتن ستاروں سے بھی گنتی میں زیادہ جو اس کا پانی پیے گا کبھی پیاسا نہ ہوگا ، اس میں جنت سے دو پر نالے ہر وقت گرتے ہیں، ایک سونے کا، دوسرا چاندی کا۔ عقیدہ (۹): میزان حق ہے۔ اس پر لوگوں کے اعمال نیک و بد تولے جائیں گے، نیکی کا پلّہ بھاری ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اوپر اُٹھے، دنیا کا سا معاملہ نہیں کہ جو بھاری ہوتا ہے نیچے کو جھکتا ہے۔ عقیدہ (۱۰): حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اﷲ عزوجل مقامِ محمود عطا فرمائے گا، کہ تمام اوّلین وآخرین حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی حمد و ستائش کریں گے۔ عقیدہ (۱۱): حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ایک جھنڈا مرحمت ہو گا جس کو لواء الحمد کہتے ہیں، تمام مومنین حضرت آدم علیہ السلام سے آخر تک سب اُسی کے نیچے ہوں گے۔ عقیدہ (۱۲): صراط حق ہے ۔یہ ایک پُل ہے کہ پشتِ جہنم پر نصب کیا جائے گا، بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا ، جنت میں جانے کا یہی راستہ ہے، سب سے پہلے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم گزر فرمائیں گے، پھر اور انبیا و مرسلین، پھر یہ اُمّت پھر اور اُمتیں گزریں گی اور حسبِ اختلافِ اعمال پُلِ صراط پر لوگ مختلف طرح سے گزریں گے، بعض تو ایسے تیزی کے ساتھ گزریں گے جیسے بجلی کا کوندا کہ ابھی چمکا اور ابھی غائب ہوگیا اور بعض تیز ہواکی طرح، کوئی ایسے جیسے پرند اڑتا ہے , اور بعض جیسے گھوڑا دوڑتا ہے اور بعض جیسے آدمی دوڑتا ہے، یہاں تک کہ بعض شخص سُرین پر گھسٹتے ہوئے اور کوئی چیونٹی کی چال جائے گا اور پُل صراط کے دونوں جانب بڑے بڑے آنکڑے (اﷲ (عزوجل) ہی جانے کہ وہ کتنے بڑے ہونگے) لٹکتے ہوں گے، جس شخص کے بارے میں حکم ہوگا اُسے پکڑلیں گے، مگر بعض تو زخمی ہو کرنجات پا جائیں گے اور بعض کو جہنم میں گرا دیں گے اور یہ ھلاک ہوا۔ یہ تمام اھلِ محشر تو پُل پر سے گزرنے میں مشغول، مگر وہ بے گناہ، گناہگاروں کا شفیع پُل کے کنارے کھڑا ہوا بکمالِ گریہ وزاری اپنی اُمّتِ عاصی کی نجات کی فکر میں اپنے رب سے دُعا کر رہا ہے: ((رَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ))، اِلٰہی! ان گناہگاروں کو بچالے بچالے۔ اور ایک اسی جگہ کیا! حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اُس دن تمام مواطن میں دورہ فرماتے رہیں گے، کبھی میزان پر تشریف لے جائیں گے، وہاں جس کے حسنات میں کمی دیکھیں گے، اس کی شفاعت فرما کر نجات دلوائیں گے اور فوراً ہی دیکھو تو حوضِ کوثر پر جلوہ فرما ہیں ، پیاسوں کو سیراب فرمارہے ہیں اور وہاں سے پُل پر رونق افروز ہوئے اور گِرتوں کو بچایا۔ غرض ہر جگہ اُنھیں کی دُوہائی، ہر شخص اُنھیں کو پکارتا، اُنھیں سے فریا دکرتا ہے اور اُن کے سوا کس کوپکارے...؟! کہ ہر ایک تو اپنی فکر میں ہے، دوسروں کو کیا پوچھے، صرف ایک یہی ہیں، جنہیں اپنی کچھ فکر نہیں اور تمام عالم کا بار اِن کے ذمّے۔ ''صَلّی اللہ تعالی علیہ وَعلٰی آلِہٖ وأَصْحَابِہٖ وَبارَکَ وَسَلَّمَ اَللّٰھُمَّ نَجِّنَا مِنْ أَھْوَالِ الْمَحْشَرِ بِجَاہِ ھٰذَا النَّبِيِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖ وَأَصْحَابِہٖ أَفْضَلُ الصَّلاَۃِ وَالتَّسْلِیْمِ، اٰمِیْنَ ! یہ قیامت کا دن کہ حقیقۃً قیامت کا دن ہے، جو پچاس ہزار برس کا دن ہوگا ، جس کے مصائب بے شمار ہوں گے، مولیٰ عزوجل کے جو خاص بندے ہیں ان کے لیے اتنا ھلکا کر دیا جائے گا، کہ معلوم ہوگا اس میں اتنا وقت صَرف ہوا جتنا ایک وقت کی نمازِ فرض میں صَرف ہوتا ہے ، بلکہ اس سے بھی کم ، یہاں تک کہ بعضوں کے لیے تو پلک جھپکنے میں سارا دن طے ہو جائے گا۔ وَمَآ اَمْرُ السَّاعَۃِ اِلَّا کَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ ھُوَ اَقْرَبُ )) ''قیامت کا معاملہ نہیں مگر جیسے پلک جھپکنا، بلکہ اس سے بھی کم۔'' سب سے اعظم و اعلیٰ جو مسلمانوں کو اس روز نعمت ملے گی وہ اﷲ عزوجل کا دیدار ہے، کہ اس نعمت کے برابر کوئی نعمت نہیں، جسے ایک بار دیدار میسّر ہوگا، ہمیشہ ہمیشہ اس کے ذوق میں مستغرق رہے گا، کبھی نہ بھولے گا اور سب سے پہلے دیدارِ الٰہی، حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ہوگا۔ یہاں تک تو حشرکے اہوال و احوال مختصراً بیان کیے گئے، ان تمام مرحلوں کے بعد اب اسے ہمیشگی کے گھر میں جانا ہے، کسی کو آرام کا گھر ملے گا، جس کی آسائش کی کوئی انتہا نہیں، اس کو جنت کہتے ہیں۔یا تکلیف کے گھر میں جانا پڑے جس کی تکلیف کی کوئی حد نہیں، اسے جہنم کہتے ہیں۔ عقیدہ (۱۳): جنت ودوزخ حق ہیں، ان کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ عقیدہ (۱۴): جنت ودوزخ کو بنے ہوئے ہزارہا سال ہوئے اور وہ اب موجود ہیں، یہ نہیں کہ اس وقت تک مخلوق نہ ہوئیں، قیامت کے دن بنائی جائیں گی۔ عقیدہ (۱۵): قیامت و بعث و حشر و حساب و ثواب و عذاب و جنت و دوزخ سب کے وہی معنی ہیں جو مسلمانوں میں مشہور ہیں، جو شخص ان چیزوں کو تو حق کہے، مگر ان کے نئے معنی گھڑے (مثلاً ثواب کے معنی اپنے حسنات کو دیکھ کر خوش ہونا اور عذاب اپنے بُرے اعمال کو دیکھ کر غمگین ہونا، یا حشر فقط روحوں کا ہونا)، وہ حقیقۃً ان چیزوں کا منکر ہے اور ایسا شخص کافر ہے۔ اب جنت و دوزخ کی مختصر کیفیت بیان کی جاتی ہے۔
  18. عالمِ برزخ کا بیان دنیا اور آخرت کے درمیان ایک اور عالَم ہے جس کو برزخ کہتے ہیں، مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے تمام اِنس وجن کو حسبِ مراتب اُس میں رہنا ہوتا ہے، اور یہ عالَم اِس دنیا سے بہت بڑا ہے۔ دنیا کے ساتھ برزخ کو وہی نسبت ہے جو ماں کے پیٹ کے ساتھ دنیا کو ، برزخ میں کسی کو آرام ہے اور کسی کو تکلیف۔ عقیدہ(۱): ہر شخص کی جتنی زندگی مقرّر ہے اُس میں نہ زیادتی ہو سکتی ہے نہ کمی، جب زندگی کا وقت پورا ہو جاتا ہے، اُس وقت حضرت عزرائیل علیہ السلام قبضِ روح کے لیے آتیہیں اور اُس شخص کے دہنے بائیں جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے فرشتے دکھائی دیتے ہیں ، مسلمان کے آس پاس رحمت کے فرشتے ہوتے ہیں اور کافر کے دہنے بائیں عذاب کے۔ اُس وقت ہر شخص پر اسلام کی حقّانیت آفتاب سے زیادہ روشن ہو جاتی ہے، مگر اُس وقت کا ایمان معتبر نہیں، اس لیے کہ حکم ایمان بالغیب کا ہے اور اب غیب نہ رہا، بلکہ یہ چیزیں مشاہد ہو گئیں۔ عقیدہ (۲): مرنے کے بعد بھی روح کا تعلق بدنِ انسان کے ساتھ باقی رہتا ہے، اگرچہ روح بدن سے جُدا ہو گئی، مگر بدن پر جو گزرے گی رُوح ضرور اُس سے آگاہ و متأثر ہوگی، جس طرح حیاتِ دنیا میں ہوتی ہے، بلکہ اُس سے زائد۔ دنیا میں ٹھنڈا پانی، سرد ہَوا، نرم فرش، لذیذ کھانا، سب باتیں جسم پر وارِد ہوتی ہیں، مگر راحت و لذّت روح کو پہنچتی ہے اور ان کے عکس بھی جسم ہی پر وارِد ہوتے ہیں اور کُلفت و اذیّت روح پاتی ہے،اور روح کے لیے خاص اپنی راحت واَلم کے الگ اسباب ہیں، جن سے سرور یا غم پیداہوتا ہے، بعینہٖ یہی سب حالتیں برزخ میں ہیں۔ (''منح الروض الأزہر''، ص۱۰۰۔۱۰۱ عقیدہ (۳): مرنے کے بعد مسلمان کی روح حسبِ مرتبہ مختلف مقاموں میں رہتی ہے، بعض کی قبر پر ، بعض کی چاہِ زمزم شریف میں، بعض کی آسمان و زمین کے درمیان، بعض کی پہلے، دوسرے، ساتویں آسمان تک اور بعض کی آسمانوں سے بھی بلند، اور بعض کی روحیں زیرِ عرش قندیلوں میں، اور بعض کی اعلیٰ عِلّیین میں مگر کہیں ہوں، اپنے جسم سے اُن کو تعلق بدستور رہتا ہے۔ جو کوئی قبر پر آئے اُسے دیکھتے، پہچانتے، اُس کی بات سنتے ہیں، بلکہ روح کا دیکھنا قُربِ قبر ہی سے مخصوص نہیں، اِس کی مثال حدیث میں یہ فرمائی ہے، کہ ''ایک طائر پہلے قفص میں بند تھا اور اب آزاد کر دیا گیا۔'' ائمہ کرام فرماتے ہیں: ''إِنَّ النُّفُوْسَ القُدْسِیَّۃَ إِذَا تَجَرَّدَتْ عَنِ الْـعَـلَا ئِقِ الْبَدَنِیَّۃِ اتّصَلَتْ بِالْمَلَإِ الْأَعْلٰی وَتَرٰی وَتَسْمَعُ الکُلَّ کَالْمُشَاھِدِ .'' ( ''فیض القدیر'' شرح ''الجامع الصغیر''، حرف الصاد، تحت الحدیث: ۵۰۱۶، ج۴، ص۲۶۳. بألفاظ متقاربۃ. ''بیشک پاک جانیں جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں، عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور سب کچھ ایسا دیکھتی سنتی ہیں جیسے یہاں حاضر ہیں۔'' حدیث میں فرمایا: ((إِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ یُخلّٰی سَرْبُہٗ یَسْرَحُ حَیْثُ شآءَ.))( ''شرح الصدور''، باب فضل الموت، ص۱۳ ''جب مسلما ن مرتا ہے اُس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے۔'' شاہ عبدالعزیز صاحب لکھتے ہیں( ''فتاوی رضویہ ''، ج ۲۹ ، ص۵۴۵، بحوالہ ئ ''فتاوی عزیزیہ '' روح را قُرب و بُعد مکانی یکساں است۔'' (یعنی روح کے لیے کوئی جگہ دور یا نزدیک نہیں ،بلکہ سب جگہ برابر ہے۔ کافروں کی خبیث روحیں بعض کی اُن کے مرگھٹ، یا قبر پر رہتی ہیں، بعض کی چاہِ برہُوت میں کہ یمن میں ایک نالہ ہے، بعض کی پھلی، دوسری، ساتویں زمین تک، بعض کی اُس کے بھی نیچے سجّین میں، اور وہ کہیں بھی ہو، جو اُس کی قبر یا مرگھٹ پر گزرے اُسے دیکھتے، پہچانتے، بات سُنتے ہیں، مگر کہیں جانے آنے کا اختیار نہیں، کہ قید ہیں۔ عقیدہ( ۴): یہ خیال کہ وہ روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے، خواہ وہ آدمی کا بدن ہو یا کسی اور جانور کا جس کو تناسخ اور آواگون کہتے ہیں، محض باطل اور اُس کا ماننا کفر ہے۔ عقیدہ (۵): موت کے معنی روح کا جسم سے جدا ہو جانا ہیں، نہ یہ کہ روح مر جاتی ہو، جو روح کو فنا مانے،بد مذہب ہے۔ عقیدہ (۶): مردہ کلام بھی کرتا ہے اور اُس کے کلام کو عوام، جن اور انسان کے سوا اور تمام حیوانات وغیرہ سنتے بھی ہیں۔) عقیدہ (۷): جب مردہ کو قبر میں دفن کرتے ہیں، اُس وقت اُس کو قبر دباتی ہے۔ اگر وہ مسلمان ہے تو اُس کا دبانا ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ماں پیار میں اپنے بچّے کو زور سے چپٹا لیتی ہے ، اور اگر کافر ہے تو اُس کو اِس زور سے دباتی ہے کہ اِدھر کی پسلیاں اُدھر اور اُدھر کی اِدھر ہو جاتی ہیں۔ عقیدہ (۸): جب دفن کرنے والے دفن کرکے وہاں سے چلتے ہیں وہ اُن کے جوتوں کی آواز سنتا ہے، اُس وقت اُس کے پاس دو فرشتے اپنے دانتوں سے زمین چیرتے ہوئے آتے ہیں، اُن کی شکلیں نہایت ڈراؤنی اور ہیبت ناک ہوتی ہیں، اُن کے بدن کا رنگ سیاہ، اور آنکھیں سیاہ اور نیلی، اور دیگ کی برابر اور شعلہ زن ہیں، اور اُن کے مُہیببال سر سے پاؤں تک، اور اُن کے دانت کئی ہاتھ کے، جن سے زمین چیرتے ہوئے آئیں گے، اُن میں ایک کو منکَر، دوسرے کو نکیر کہتے ہیں ،مردے کو جھنجھوڑتے اور جھڑک کر اُٹھاتے اور نہایت سختی کے ساتھ کرخت آواز میں سوال کرتے ہیں۔ پھلا سوال: ((مَنْ رَّبُّکَ؟)) ''تیرا رب کو ن ہے؟'' دوسرا سوال: ((مَا دِیْنُکَ؟)) ''تیرا دین کیا ہے؟'' تیسرا سوال: ((مَا کُنْتَ تَقُولُ فِيْ ھَذَا الرَّجُلِ؟)) ''ان کے بارے میں تُو کیا کہتا تھا؟'' مردہ مسلمان ہے تو پہلے سوال کا جواب دے گا: ((رَبِّيَ اللہُ.)) ''میرا رب اﷲ (عزوجل) ہے۔'' اور دوسرے کا جواب دے گا : ((دِیْنِيَ الإِسْلاَمُ.)) ''میرا دین اسلام ہے۔'' تیسرے سوال کا جواب دے گا ((ھُوَ رَسُوْلُ اللہِ صلّی اللہ تعالٰی علیْہ وَسلَّم.)) ''وہ تو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔'' وہ کہیں گے، تجھے کس نے بتایا؟ کہے گا: میں نے اﷲ (عزوجل) کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لایا اور تصدیق کی۔ (''سنن أبي داود''، کتاب السنۃ، باب في المسألۃ في القبر وعذاب القبر، الحدیث: ۴۷۵۳، ج۴، ص۲۶۶. بعض روایتوں میں آیا ہے، کہ سوال کا جواب پا کر کہیں گے کہ ہمیں تو معلوم تھا کہ تُو یہی کہے گا، اُس وقت آسمان سے ایک منادی ندا کریگا کہ میرے بندہ نے سچ کہا، اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھاؤ، اور جنت کا لباس پہناؤ اور اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو۔ جنت کی نسیم اور خوشبو اُس کے پاس آتی رہے گی اور جہاں تک نگاہ پھیلے گی، وہاں تک اُس کی قبر کشادہ کردی جائے گی اور اُس سے کہا جائے گا کہ تو سو جیسے دُولہا سوتا ہے۔ یہ خواص کے لیے عموماً ہے اور عوام میں اُن کے لیے جن کو وہ چاہے، ورنہ وسعتِ قبر حسبِ مراتب مختلف ہے ، بعض کیلئے ستّر ستّر ہاتھ لمبی چوڑی، بعض کے لیے جتنی وہ چاہے زیادہ، حتیٰ کہ جہاں تک نگاہ پہنچے ، اور عُصاۃ ( عاصی کی جمع، یعنی گنہگار وں، نافرمانوں) میں بعض پر عذاب بھی ہو گا ان کی معصیت کے لائق ، پھر اُس کے پیرانِ عظام یا مذہب کے امام یا اور اولیائے کرام کی شفاعت یا محض رحمت سے جب وہ چاہے گا ،نجات پائیں گے ، اور بعض نے کہا کہ مؤمن عاصی پر عذابِ قبر شبِ جمعہ آنے تک ہے، اس کے آتے ہی اٹھا لیا جائے گا، واﷲ تعالیٰ اعلم۔ ہاں! یہ حدیث سے ثابت ہے کہ جو مسلمان شبِ جمعہ یا روزِ جمعہ یا رمضانِ مبارک کے کسی دن رات میں مرے گا، سوالِ نکیرین و عذابِ قبر سے محفوظ رہے گا۔ اور یہ جو ارشاد ہوا کہ اُس کے لیے جنت کی کھڑکی کھول دیں گے، یہ یوں ہو گا کے پہلے اُس کے بائیں ہاتھ کی طرف جہنم کی کھڑکی کھولیں گے، جس کی لپٹ اور جلن اور گرم ہوا اور سخت بدبو آئے گی اور معاً بند کر دیں گے، اُس کے بعد دہنی طرف سے جنت کی کھڑکی کھولیں گے اور اُس سے کہا جائے گا کہ اگر تُو اِن سوالوں کے صحیح جواب نہ دیتا تو تیرے واسطے وہ تھی اور اب یہ ہے، تاکہ وہ اپنے رب کی نعمت کی قدر جانے کہ کیسی بلائے عظیم سے بچا کر کیسی نعمتِ عظمیٰ عطا فرمائی۔ اور منافق کے لیے اس کا عکس ہوگا، پہلے جنت کی کھڑکی کھولیں گے کہ اس کی خوشبو، ٹھنڈک، راحت، نعمت کی جھلک دیکھے گا اور معاً بند کر دیں گے اور دوزخ کی کھڑکی کھول دیں گے، تاکہ اُس پر اس بلائے عظیم کے ساتھ حسرتِ عظیم بھی ہو ، کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو نہ مان کر، یا اُن کی شانِ رفیع میں ادنیٰ گستاخی کرکے کیسی نعمت کھوئی اور کیسی آفت پائی! اور اگر مُردہ منافق ہے تو سب سوالوں کے جواب میں یہ کہے گا ((ھَاہْ ھَاہْ لَا أَدْرِي.)) ''افسوس! مجھے توکچھ معلوم نہیں۔'' ((کُنْتُ أَسْمَعُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ شَیْأاً فأقوْلُ.)) ''میں لوگوں کو کہتے سنتا تھا، خود بھی کہتا تھا۔'' اس وقت ایک پکارنے والا آسمان سے پکارے گا: کہ یہ جھوٹا ہے، اس کے لیے آگ کا بچھونا بچھاؤ اور آگ کا لباس پہناؤ اور جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دو۔ اس کی گرمی اور لپٹ اس کو پہنچے گی اور اس پر عذاب دینے کے لیے دو فرشتے مقرر ہوں گے، جو اندھے اور بہرے ہوں گے، ان کے ساتھ لوہے کاگُرز ہو گا کہ پہاڑ پر اگر مارا جائے تو خاک ہو جائے، اُس ہتوڑے سے اُس کومارتے رہیں گے۔ نیز سانپ اور بچھو اسے عذاب پہنچاتے رہیں گے، نیز اعمال اپنے مناسب شکل پر متشکل ہو کر کتّا یا بھیڑیا یا اور شکل کے بن کر اُس کو ایذا پہنچائیں گے اور نیکوں کے اعمالِ حَسَنہ مقبول و محبوب صورت پر متشکل ہو کر اُنس دیں گے۔ عقیدہ(۹): عذابِ قبر حق ہے اور یوہیں تنعیمِ قبر حق ہے، اور دونوں جسم وروح دونوں پر ہیں، جیسا کہ اوپر گزرا۔ جسم اگرچہ گل جائے، جل جائے، خاک ہو جائے، مگر اُس کے اجزائے اصلیہ قیامت تک باقی رہیں گے، وہ مُوردِ عذاب وثواب ہوں گے اور اُنھیں پر روزِ قیامت دوبارہ ترکیبِ جسم فرمائی جائے گی، وہ کچھ ایسے باریک اجزا ہیں ریڑھ کی ہڈی میں جس کو ''عَجبُ الذَّنب'' کہتے ہیں، کہ نہ کسی خوردبین سے نظر آسکتے ہیں، نہ آگ اُنھیں جلا سکتی ہے، نہ زمین اُنھیں گلا سکتی ہے، وہی تُخمِ جسم ہیں۔ ولہٰذا روزِ قیامت روحوں کا اِعادہ اُسی جسم میں ہوگا، نہ جسمِ دیگر میں،بالائی زائد اجزا کا گھٹنا، بڑھنا، جسم کو نہیں بدلتا، جیسا: بچہ کتنا چھوٹا پیدا ہوتا ہے، پھر کتنا بڑا ہو جاتاہے، قوی ہیکل جوان بیماری میں گھل کر کتنا حقیر رہ جاتا ہے، پھر نیا گوشت پوست آکر مثلِ سابق ہوجاتا ہے، اِن تبدیلیوں سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ شخص بدل گیا۔ یوہیں روزِ قیامت کا عَود ہے، وہی گوشت اور ہڈیاں کہ خاک یا راکھ ہوگئے ہوں، اُن کے ذرّے کہیں بھی منتشر ہو گئے ہوں، رب عزوجل انھیں جمع فرما کر اُس پھلی ہیئت پر لا کر اُنھیں پہلے اجزائے اصلیہ پر کہ محفوظ ہیں، ترکیب دے گا اور ہر رُوح کو اُسی جسمِ سابق میں بھیجے گا، اِس کا نام حشر ہے، عذاب وتنعیمِ قبر کا اِنکار وہی کریگا، جو گمراہ ہے۔ عقیدہ (۱۰): مردہ اگر قبر میں دفن نہ کیا جائے تو جہاں پڑا رہ گیا یا پھینک دیا گیا، غرض کہیں ہو اُس سے وہیں سوالات ہوں گے اور وہیں ثواب یا عذاب اُسے پہنچے گا، یہاں تک کہ جسے شیر کھا گیا تو شیر کے پیٹ میں سوال و ثواب و عذاب جو کچھ ہو پہنچے گا۔ مسئلہ : انبیاء علیہم السلام اور اولیائے کرام وعلمائے دین وشہدا وحافظانِ قرآن کہ قرآن مجید پر عمل کرتے ہوں اور وہ جو منصب محبت پر فائز ہیں اور وہ جسم جس نے کبھی اللہ عزوجل کی معصیت نہ کی اور وہ کہ اپنے اوقات درود شریف میں مستغر ق رکھتے ہیں ، ان کے بدن کو مٹی نہیں کھاسکتی( (وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَاء ٌ وَّلٰـکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ) پ۲، البقرۃ: ۱۵۴۔ (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ) پ۴، آل عمران: ۱۶۹۔ عن أبي الدرداء قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((أکثروا الصلاۃ علي یوم الجمعۃ، فإنّہ مشھود تشھدہ الملائکۃ، فإنّ أحداً لن یصلي علي إلاّ عرضت علي صلاتہ حتی یفرغ منھا، قال قلت: وبعد الموت؟ قال: وبعد الموت، إنّ اللہ حرم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیاء علیہم السلام، فنبي اللہ حي یرزق)). ''سنن ابن ماجہ''، أبواب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ، الحدیث: ۱۶۳۷، ج۲، ص۲۹۱. جو شخص انبیائے کرام علیہم السلام کی شان میں یہ خبیث کلمہ کہے کہ مرکے مٹی میں مل گئے ،گمراہ ، بددین ، خبیث ، مرتکب توہین ہے ۔
  19. ملائکہ کا بیان فرشتے اجسامِ نوری ہیں، اﷲ تعالیٰ نے اُن کو یہ طاقت دی ہے کہ جو شکل چاہیں بن جائیں ، کبھی وہ انسان کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی دوسری شکل میں۔ عقیدہ(۱): و ہ و ہی کرتے ہیں جو حکمِ الٰہی ہے ، خدا کے حکم کے خلاف کچھ نہیں کرتے، نہ قصداً، نہ سہواً، نہ خطاً، وہ اﷲ (عزوجل) کے معصوم بندے ہیں، ہر قسم کے صغائر و کبائر سے پاک ہیں۔ ) عقیدہ (۲): ان کو مختلف خدمتیں سپرد ہیں، بعض کے ذمّہ حضراتِ انبیا ئے کرام کی خدمت میں وحی لانا، کسی کے متعلق پانی برسانا، کسی کے متعلق ہوا چلانا ، کسی کے متعلق روزی پہنچانا ، کسی کے ذمہ ماں کے پیٹ میں بچہ کی صورت بنانا ، کسی کے متعلق بدنِ انسان کے اندر تصرّف کرنا، کسی کے متعلق انسان کی دشمنوں سے حفاظت کرنا،کسی کے متعلق ذاکرین کا مجمع تلاش کرکے اُس میں حاضر ہونا ، کسی کے متعلق انسان کے نامہ اعمال لکھنا ، بہُتوں کا دربارِ رسالت میں حاضر ہونا ، کسی کے متعلق سرکار میں مسلمانوں کی صلاۃ و سلام پہنچانا ، بعضوں کے متعلق مُردوں سے سوال کرنا ، کسی کے ذمّہ قبضِ روح کرنا ، بعضوں کے ذمّہ عذاب کرنا، کسی کے متعلق صُور پُھونکنا اور اِن کے علاوہ اور بہت سے کام ہیں جو ملائکہ انجام دیتے ہیں۔ عقیدہ( ۳): فرشتے نہ مرد ہیں، نہ عورت۔ عقیدہ (۴): اُن کو قدیم ماننا یا خالق جاننا کفر ہے۔ عقیدہ (۵): انکی تعداد وہی جانے جس نے ان کو پیدا کیا اور اُس کے بتائے سے اُس کا رسول۔ چار فرشتے بہت مشہور ہیں: جبریل و میکائیل و اسرافیل و عزرائیل علیہم السلام اور یہ سب ملائکہ پر فضیلت رکھتے ہیں۔ ) عقیدہ (۶): کسی فرشتہ کے ساتھ ادنیٰ گستاخی کفر ہے، جاھل لوگ اپنے کسی دشمن یا مبغوض کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ملک الموت یا عزرائیل آگیا، یہ قریب بکلمہ کُفر ہے۔ عقیدہ (۷): فرشتوں کے وجود کا انکار، یا یہ کہنا کہ فرشتہ نیکی کی قوت کو کہتے ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں، یہ دونوں باتیں کُفر ہیں۔ جِنّ کا بیان عقیدہ (۱): یہ آگ سے پیدا کیے گئے ہیں۔اِن میں بھی بعض کو یہ طاقت دی گئی ہے کہ جو شکل چاہیں بن جائیں ، اِن کی عمریں بہت طویل ہوتی ہیں، اِن کے شریروں کو شیطان کہتے ہیں، یہ سب انسان کی طرح ذی عقل اور ارواح و اجسام والے ہیں، اِن میں توالد و تناسل ہوتا ہے، کھاتے، پیتے، جیتے، مرتے ہیں۔ عقیدہ (۲): اِن میں مسلمان بھی ہیں اور کافر بھی ، مگر اِن کے کفّار انسان کی بہ نسبت بہت زیادہ ہیں ، اور اِن میں کے مسلمان نیک بھی ہیں اور فاسق بھی، سُنّی بھی ہیں، بد مذہب بھی ، اور اِن میں فاسقوں کی تعداد بہ نسبت انسان کے زائد ہے۔ عقیدہ (۳): اِن کے وجود کا انکار یا بدی کی قوت کا نا م جن یا شیطان رکھنا کفر ہے۔
  20. عقا ئد متعلقہ ذات و صفاتِ الٰہی جَلّ جلا لہ عقیدہ (۱): اﷲ (عزوجل) ایک ہے ، کوئی اس کا شریک نہیں، نہ ذات میں، نہ صفات میں، نہ افعال میں نہ احکام میں، نہ اسماء میں ، واجب الوجود ہے، یعنی اس کا وجود ضروری ہے اور عَدَم مُحَال، قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے، اَزَلی کے بھی یہی معنی ہیں، باقی ہے یعنی ہمیشہ رہے گا اور اِسی کو اَبَدی بھی کہتے ہیں۔ وہی اس کا مستحق ہے کہ اُس کی عبادت و پرستش کی جائے۔ عقیدہ (۲): وہ بے پرواہ ہے، کسی کا محتاج نہیں اور تمام جہان اُس کا محتاج۔) عقیدہ (۳): اس کی ذات کا اِدراک عقلاً مُحَال کہ جو چیز سمجھ میں آتی ہے عقل اُس کو محیط ہوتی ہے اور اُس کو کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا ، البتہ اُس کے افعال کے ذریعہ سے اِجمالاً اُس کی صفات، پھر اُن صفات کے ذریعہ سے معرفتِ ذات حاصل ہوتی ہے۔ عقیدہ (۴): اُس کی صفتیں نہ عین ہیں نہ غیر، یعنی صفات اُسی ذات ہی کا نام ہو ایسا نہیں اور نہ اُس سے کسی طرح کسی نحوِ وجود میں جدا ہوسکیں کہ نفسِ ذات کی مقتضٰی ہیں اور عینِ ذات کو لازم۔ ) عقیدہ (۵): جس طرح اُس کی ذات قدیم اَزلی اَبدی ہے، صفات بھی قدیم اَزلی اَبَدی ہیں۔ ) عقیدہ (۶): اُس کی صفات نہ مخلوق ہیں نہ زیرِ قدرت داخل۔ عقیدہ (۷): ذات و صفات کے سِوا سب چیزیں حادث ہیں، یعنی پہلے نہ تھیں پھر موجود ہوئیں۔) عقیدہ (۸): صفاتِ الٰہی کو جو مخلوق کہے یا حادث بتائے، گمراہ بد دین ہے۔ ) عقیدہ (۹): جو عالَم میں سے کسی شے کو قدیم مانے یا اس کے حدوث میں شک کرے، کافر ہے۔ ) عقیدہ (۱۰): نہ وہ کسی کا باپ ہے، نہ بیٹا، نہ اُس کے لیے بی بی، جو اُسے باپ یا بیٹا بتائے یا اُس کے لیے بی بی ثابت کرے کافر ہے ، بلکہ جو ممکن بھی کہے گمراہ بد دین ہے۔ عقیدہ (۱۱): و ہ حَی ہے، یعنی خود زندہ ہے اور سب کی زندگی اُس کے ہاتھ میں ہے، جسے جب چاہے زندہ کرے اور جب چاہے موت دے۔ ) عقیدہ (۱۲): وہ ہر ممکن پر قادر ہے، کوئی ممکن اُس کی قدرت سے باہر نہیں۔ ) عقیدہ (۱۳): جو چیز مُحال ہے، اﷲ عزوجل اس سے پاک ہے کہ اُس کی قدرت اُسے شامل ہو، کہ مُحال اسے کہتے ہیں جو موجود نہ ہوسکے اور جب مقدور ہوگا تو موجود ہوسکے گا، پھر مُحال نہ رہا۔ اسے یوں سمجھو کہ دوسرا خدا مُحال ہے یعنی نہیں ہوسکتا تو یہ اگر زیرِ قدرت ہو تو موجود ہوسکے گا تو مُحال نہ رہا اور اس کو مُحال نہ ماننا وحدانیت کا انکار ہے۔ یوہیں فنائے باری مُحال ہے، اگر تحتِ قدرت ہو تو ممکن ہوگی اور جس کی فنا ممکن ہو وہ خدا نہیں۔ تو ثابت ہوا کہ مُحال پر قدرت ماننا اﷲ (عزوجل) کی اُلوہیت سے ہی انکار کرنا ہے۔ ) عقیدہ (۱۴): ہر مقدور کے لیے ضرور نہیں کہ موجود ہو جائے، البتہ ممکن ہونا ضروری ہے اگرچہ کبھی موجود نہ ہو۔ عقیدہ (۱۵): وہ ہر کمال و خوبی کا جامع ہے اور ہر اُ س چیز سے جس میں عیب و نقصان ہے پاک ہے، یعنی عیب ونقصان کا اُس میں ہونا مُحال ہے، بلکہ جس بات میں نہ کمال ہو، نہ نقصان، وہ بھی اُس کے لیے مُحال، مثلاً جھوٹ، دغا، خیانت، ظلم، جھل، بے حیائی وغیرہا عیوب اُس پرقطعاً محال ہیں اوریہ کہنا کہ جھوٹ پر قدرت ہے بایں معنی کہ وہ خود جھو ٹ بول سکتا ہے، مُحال کو ممکن ٹھہرانا اور خدا کو عیبی بتانا بلکہ خدا سے انکار کرنا ہے اور یہ سمجھنا کہ مُحا لات پر قادر نہ ہو گا تو قدرت ناقص ہو جائے گی باطل محض ہے، کہ اس میں قدرت کا کیا نقصان! نقصان تو اُس مُحال کا ہے کہ تعلّقِ قدرت کی اُس میں صلاحیت نہیں۔) عقیدہ (۱۶): حیا۱ت، قدرت۲، سننا۳، دیکھنا۴ ، کلا۵م، علم۶، اِرادہ ۷ اُس کے صفاتِ ذاتیہ ہیں، مگر کان، آنکھ، زبان سے اُس کا سننا، دیکھنا، کلام کرنا نہیں، کہ یہ سب اَجسام ہیں اور اَجسام سے وہ پاک۔ ہر پست سے پست آواز کو سنتا ہے، ہر باریک سے باریک کو کہ خُوردبین سے محسوس نہ ہو وہ دیکھتا ہے، بلکہ اُس کا دیکھنا اور سننا انہیں چیزوں پر منحصر نہیں، ہر موجود کو دیکھتا ہے اور ہر موجود کو سنتا ہے۔ عقیدہ (۱۷): مثل دیگر صفات کے کلام بھی قدیم ہے، حادث و مخلوق نہیں، جو قرآنِ عظیم کو مخلوق مانے ھمارے امامِ اعظم و دیگر ائمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھم نے اُسے کافر کہا، بلکہ صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھم سے اُس کی تکفیر ثابت ہے۔ ) عقیدہ (۱۸): اُس کا کلام آواز سے پاک ہے اور یہ قر آ نِ عظیم جس کو ہم اپنی زبان سے تلاوت کرتے، مَصاحِف میں لکھتے ہیں، اُسی کا کلام قدیم بلا صوت ہے اور یہ ھمارا پڑھنا لکھنا اور یہ آواز حادث، یعنی ھمارا پڑھنا حادث ہے اور جو ہم نے پڑھا قدیم اور ھمارا لکھنا حادث اور جو لکھا قدیم، ھمارا سنناحادث ہے اور جو ہم نے سنا قدیم، ھمارا حفظ کرنا حادث ہے اور جو ہم نے حفظ کیا قدیم یعنی متجلّی قدیم ہے اور تجلّی حادث۔ عقیدہ (۱۹): اُس کا علم ہر شے کو محیط یعنی جزئیات، کلیات، موجودات، معدومات، ممکنات، مُحالات، سب کو اَزل میں جانتا تھا اور اب جانتا ہے اور اَبَد تک جانے گا، اشیاء بدلتی ہیں اور اُس کا علم نہیں بدلتا، دلوں کے خطروں اور وَسوسوں پر اُس کو خبر ہے اور اُس کے علم کی کوئی انتہا نہیں۔ ) شہادت کا غیرِ خدا کے لیے ثابت کرے کافر ہے۔ علمِ ذاتی کے یہ معنی کہ بے خدا کے دیے خود حاصل ہو۔ عقیدہ (۲۰): وہ غیب و شہادت سب کو جانتا ہے ، علمِ ذاتی اُس کا خاصہ ہے، جو شخص علمِ ذاتی، غیب خواہ شہادت کا غیرِ خدا کے لیے ثابت کرے کافر ہے۔ علمِ ذاتی کے یہ معنی کہ بے خدا کے دیے خود حاصل ہو۔ عقیدہ (۲۱) : وہی ہر شے کا خالق ہے ، ذوات ہوں خواہ افعال، سب اُسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔) عقیدہ (۲۲) : حقیقۃً روزی پہنچانے والا وہی ہے ، ملائکہ وغیر ہم و سائل و وسائط ہیں۔ ) عقیدہ (۲۳) : ہر بھلائی، بُرائی اُس نے اپنے علمِ اَزلی کے موافق مقدّر فرما دی ہے، جیسا ہونے والا تھا اورجو جیسا کرنے والا تھا، اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ لیا تو یہ نہیں کہ جیسا اُس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے، بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اُس نے لکھ دیا۔ زید کے ذمّہ برائی لکھی اس لیے کہ زید برائی کرنے والا تھا، اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا وہ اُس کے لیے بھلائی لکھتا تو اُس کے علم یا اُس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔ تقدیر کے انکار کرنے والوں کو نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس اُمت کا مجوس بتایا۔ ) عقیدہ (۲۴): قضا تین ۳ قسم ہے۔ مُبرَمِ ۱ حقیقی، کہ علمِ الٰہی میں کسی شے پر معلّق نہیں۔ اور معلّقِ ۲ محض، کہ صُحفِ ملائکہ میں کسی شے پر اُس کا معلّق ہونا ظاہر فرما دیا گیا ہے۔ اور معلّقِ ۳ شبیہ بہ مُبرَم، کہ صُحف ِملائکہ میں اُس کی تعلیق مذکور نہیں اور علمِ الٰہی میں تعلیق ہے۔ وہ جو مُبرَمِ حقیقی ہے اُس کی تبدیل نا ممکن ہے، اکابر محبوبانِ خدا اگر اتفاقاً اس بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں تو اُنھیں اس خیال سے واپس فرما دیا جاتا ہے۔ ملائکہ قومِ لوط پر عذاب لے کر آئے، سیّدنا ابراہیم خلیل اﷲ علی نبیّنا الکریم وعلیہ افضل الصّلاۃ والتسلیم کہ رحمتِمحضہ تھے، اُن کا نامِ پاک ہی ابراہیم ہے، یعنی ابِ رحیم ، مہربان باپ، اُن کافروں کے بارے میں اتنے ساعی ہوئے کہ اپنے رب سے جھگڑنے لگے، اُن کا رب فرماتا ہے۔ ( یُجَادِلُنَا فِیۡ قَوْمِ لُوۡطٍ ﴿ؕ۷۴﴾ (پ۱۲، ھود: ۷۴ ) ''ہم سے جھگڑنے لگا قومِ لوط کے بارے میں۔'' یہ قرآنِ عظیم نے اُن بے دینوں کا رَد فرمایا جو محبوبانِ خدا کی بارگاہِ عزت میں کوئی عزت و وجاہت نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اس کے حضور کوئی دَم نہیں مار سکتا، حالانکہ اُن کا رب عزوجل اُن کی وجاہت اپنی بارگاہ میں ظاہر فرمانے کو خود ان لفظوں سے ذکر فرماتا ہے کہ : ''ہم سے جھگڑنے لگا قومِ لوط کے بارے میں''، حدیث میں ہے: شب ِمعراج حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک آواز سنی کہ کوئی شخص اﷲ عزوجل کے ساتھ بہت تیزی اور بلند آواز سے گفتگو کر رہا ہے، حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جبریل امین علیہ الصلاۃ والسلام سے دریافت فرمایا :''کہ یہ کون ہیں؟ '' عرض کی موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام، فرمایا: ''کیا اپنے رب پر تیز ہو کر گفتگو کرتے ہیں؟'' عرض کی: اُن کا رب جانتا ہے کہ اُن کے مزاج میں تیزی ہے۔ جب آیہ کریمہ (وَ لَسَوْفَ یُعْطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ) ــ نازل ہوئی کہ ''بیشک عنقریب تمھیں تمھارا رب اتنا عطا فرمائے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔'' حضور سیّدالمحبوبین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِذاً لاَّ أَرْضٰی وَوَاحِدٌ مِّنْ أُمَّتِيْ فِي النَّارِ)).( ''التفسیر الکبیر''، پ۳۰، الضحی: تحت الآیۃ: ۵، ج۱۱، ص۱۹۴ ) ''ایسا ہے تو میں راضی نہ ہوں گا، اگر میرا ایک اُمتی بھی آگ میں ہو۔'' یہ تو شانیں بہت رفیع ہیں، جن پر رفعت عزت وجاہت ختم ہے۔ صلوات اﷲ تعالیٰ و سلامہ علیہم مسلمان ماں باپ کا کچّا بچہ جو حمل سے گر جاتا ہے اُس کے لیے حدیث میں فرمایا: کہ ''روزِ قیامت اﷲ عزوجل سے اپنے ماں باپ کی بخشش کے لیے ایسا جھگڑے گا جیسا قرض خواہ کسی قرض دار سے، یہاں تک کہ فرمایا جائے گا: ((أَیُّـھَا السِّقْطُ المُرَاغِمُ رَبَّـہٗ)).(''سنن ابن ماجہ''، أبواب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء فیمن أصیب بسقط، الحدیث: ۱۶۰۸، ج۲، ص۲۷۳. ''اے کچے بچے! اپنے رب سے جھگڑنے والے! اپنے ماں باپ کا ہاتھ پکڑ لے اور جنت میں چلا جا۔'' خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، مگر ایمان والوں کے لیے بہت نافع اور شیاطین الانس کی خبا ثت کا دافع تھا، کہنا یہ ہے کہ قومِ لوط پر عذاب قضائے مُبرَمِ حقیقی تھا، خلیل اﷲ علیہ الصّلاۃ والسلام اس میں جھگڑے تو اُنھیں ارشاد ہوا: ''اے ابراہیم! اس خیال میں نہ پڑو ... بیشک اُن پر وہ عذاب آنے والاہے جو پھرنے کا نہیں۔'' اور وہ جو ظاہر قضائے معلّق ہے، اس تک اکثر اولیا کی رسائی ہوتی ہے، اُن کی دُعا سے، اُن کی ہمّت سے ٹل جاتی ہے اور وہ جو متوسّط حالت میں ہے، جسے صُحف ِملائکہ کے اعتبا ر سے مُبرَم بھی کہہ سکتے ہیں، اُس تک خواص اکابر کی رسائی ہوتی ہے۔ حضور سیّدنا غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اسی کو فرماتے ہیں: ''میں قضائے مُبرَم کو رد کر دیتا ہوں اور اسی کی نسبت حدیث میں ارشاد ہوا: ((إِنَّ الدُّعَاءَ یَرُدُّ القَضَاءَ بَعْدَ مَا اُبْرِمَ)).( ''کنز العمال''، کتاب الأذکار، ج۱، الجزء الثاني، ص۲۸، الحدیث:۳۱۱۷. بألفاظ متقاربۃ. ''بیشک دُعا قضائے مُبرم کو ٹال دیتی ہے۔'' مسئلہ (۱): قضا و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے، ان میں زیادہ غور و فکر کرنا سببِ ھلاکت ہے، صدیق وفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنھما اس مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے۔ ما و شما کس گنتی میں ...! اتنا سمجھ لو کہ اﷲ تعالیٰ نے آدمی کو مثلِ پتھر اور دیگر جمادات کے بے حس و حرکت نہیں پیدا کیا، بلکہ اس کو ایک نوعِ اختیار دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے، چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی عقل بھی دی ہے کہ بھلے، بُرے، نفع، نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا کر دیے ہیں، کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اُسی قسم کے سامان مہیّا ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پر اُس پر مؤاخذہ ہے۔ اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا، دونوں گمراہی ہیں۔ ) مسئلہ (۲): بُرا کام کرکے تقدیرکی طرف نسبت کرنا اور مشیتِالٰہی کے حوالہ کرنا بہت بُری بات ہے ، بلکہ حکم یہ ہے کہ جو اچھا کام کرے، اسے منجانب اﷲ کہے اور جو برائی سر زد ہو اُس کو شامتِ نفس تصوّر کرے۔ ) عقیدہ (۲۵): اﷲ تعالیٰ جہت ومکا ن و زمان و حرکت و سکون و شکل و صورت و جمیع حوادث سے پاک ہے۔ عقیدہ (۲۶): دنیا کی زندگی میں اﷲ عزوجل کا دیدار نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے اور آخرت میں ہر سُنّی مسلمان کے لیے ممکن بلکہ واقع۔ رہا قلبی دیدار یا خواب میں، یہ دیگر انبیا علیہم السلام بلکہ اولیا کے لیے بھی حاصل ہے۔ ھمارے امامِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو خواب میں سو ۱۰۰ بار زیارت ہوئی۔ ) عقیدہ (۲۷): اس کا دیدار بلا کیف ہے، یعنی دیکھیں گے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیسے دیکھیں گے، جس چیز کو دیکھتے ہیں اُس سے کچھ فاصلہ مسافت کا ہوتا ہے، نزدیک یا دور، وہ دیکھنے والے سے کسی جہت میں ہوتی ہے، اوپر یا نیچے، دہنے یا بائیں، آگے یا پیچھے، اُس کا دیکھنا اِن سب باتوں سے پاک ہوگا۔ پھر رہا یہ کہ کیونکر ہوگا؟ یہی تو کہا جاتا ہے کہ کیونکر کو یہاں دخل نہیں، اِن شاء اﷲ تعالیٰ جب دیکھیں گے اُس وقت بتا دیں گے۔ اس کی سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک عقل پہنچتی ہے، وہ خدا نہیں اور جو خدا ہے، اُس تک عقل رسا نہیں، اور وقتِ دیدار نگاہ اُس کا اِحاطہ کرے، یہ محال ہے۔) عقیدہ (۲۸): وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، کسی کو اُس پر قابو نہیں اور نہ کوئی اُس کے ارادے سے اُسے باز رکھنے والا۔ اُس کو نہ اُونگھ آئے نہ نیند، تمام جہان کا نگاہ رکھنے والا ، نہ تھکے، نہ اُکتائے ، تمام عالم کا پالنے والا ماں باپ سے زیادہ مہربان، حلم والا۔ اُسی کی رحمت ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا ، اُسی کے لیے بڑائی اور عظمت ہے۔ ماؤں کے پیٹ میں جیسی چاہے صورت بنانے والا ، گناہوں کو بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا، قہر و غضب فرمانے والا ، اُس کی پکڑ نہایت سخت ہے ، جس سے بے اُس کے چھڑائے کوئی چھوٹ نہیں سکتا۔ وہ چاہے تو چھوٹی چیز کو وسیع کر دے اور وسیع کو سمیٹ دے ، جس کو چاہے بلند کر دے اور جس کو چاہے پست، ذلیل کو عزت دیدے اور عزت والے کو ذلیل کر دے ، جس کو چاہے راہِ راست پر لائے اور جس کو چاہے سیدھی راہ سے الگ کر دے ، جسے چاہے اپنا نزدیک بنالے اور جسے چاہے مردود کر دے، جسے جو چاہے دے اور جو چاہے چھین لے، وہ جو کچھ کرتا ہے یا کریگا عدل وانصاف ہے ، ظلم سے پاک و صاف ہے نہایت بلند و بالا ہے ، وہ سب کو محیط ہے اُس کا کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا، نفع و ضرر اُسی کے ہاتھ میں ہیں، مظلوم کی فریاد کو پہنچتا اور ظالم سے بدلا لیتا ہے، اُس کی مشیت اور اِرادہ کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا ، مگر اچھے پر خوش ہوتا ہے اور بُرے سے ناراض، اُس کی رحمت ہے کہ ایسے کام کا حکم نہیں فرماتا جو طاقت سے باہر ہے۔ اﷲ عزوجل پر ثواب یا عذاب یا بندے کے ساتھ لطف یا اُس کے ساتھ وہ کرنا جو اُس کے حق میں بہتر ہو اُس پر کچھ واجب نہیں۔ مالک علی الاطلاق ہے، جو چاہے کرے اور جو چاہے حکم دے، ہاں! اُس نے اپنے کرم سے وعدہ فرما لیا ہے کہ مسلمانوں کوجنت میں داخل فرمائے گا اور بمقتضائے عدل کفّار کو جہنم میں ، اور اُس کے وعدہ و وعید بدلتے نہیں ، اُس نے وعدہ فرمالیا ہے کہ کفر کے سوا ہر چھوٹے بڑے گناہ کو جسے چاہے معاف فرمادے گا۔) عقیدہ (۲۹): اُس کے ہر فعل میں کثیر حکمتیں ہیں، خواہ ہم کو معلوم ہوں یا نہ ہوں اور اُس کے فعل کے لیے غرض نہیں، کہ غرض اُس فائدہ کو کہتے ہیں جو فاعل کی طرف رجوع کرے، نہ اُس کے فعل کے لیے غایت، کہ غایت کا حاصل بھی وہی غرض ہے اور نہ اُس کے افعال علّت و سبب کے محتاج، اُس نے اپنی حکمتِ بالغہ کے مطابق عالَمِ اسباب میں مسبّبات کو اسباب سے ربط فرمادیا ہے، آنکھ دیکھتی ہے، کان سنتا ہے، آ گ جلاتی ہے، پانی پیاس بجھاتا ہے، وہ چاہے تو آنکھ سُنے، کان دیکھے، پانی جلائے، آگ پیاس بجھائے، نہ چاہے تو لاکھ آنکھیں ہوں دن کو پہاڑ نہ سُوجھے، کروڑآگیں ہوں ایک تنکے پر داغ نہ آئے۔ کس قہر کی آگ تھی جس میں ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو کافروں نے ڈالا...! کوئی پاس نہ جا سکتا تھا، گوپھن میں رکھ کر پھینکا، جب آگ کے مقابل پہنچے، جبریلِ امین علیہ الصلاۃ والسلام حاضر ہوئے اور عرض کی: ابراہیم کچھ حاجت ہے؟ فرمایا: ہے مگر نہ تم سے۔ عرض کی: پھر اُسی سے کہیے جس سے حاجت ہے، فرمایا: ''عِلْمُہٗ بِحَالِيْ کَفَانِي عَنْ سُؤَالِيْ''.( ''ملفوظات ''، حصہ ۴، ص ۴۶۲ ۔ یعنی: اس کا میرے حال کو جاننا یہی مجھے کفایت کرتا ہے میرے سوال کرنے سے اظہارِ احتیاج خود آنجاچہ حاجت ست۔ (اپنی حاجت کے اِظہار کی وہاں کیا حاجت ہے! ؎ ارشاد ہوا: (یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبْرٰہِیۡمَ ﴿ۙ۶۹﴾ ) پ۱۷، الأنبیآء : ۶۹. ''اے آگ! ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا ابراہیم پر۔'' اس ارشاد کو سُن کر روئے زمین پر جتنی آگیں تھیں سب ٹھنڈی ہوگئیں کہ شاید مجھی سے فرمایا جاتا ہو اور یہ تو ایسی ٹھنڈی ہوئی کہ علما فرماتے ہیں کہ اگر اس کے ساتھ (وَسَلٰمًا) کا لفظ نہ فرما دیا جاتا کہ ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا تو اتنی ٹھنڈی ہو جاتی کہ اُس کی ٹھنڈک ایذا دیتی۔ عقائد متعلّقہ نبوت مسلمان کے لیے جس طرح ذات و صفات کا جاننا ضروری ہے، کہ کسی ضروری کا انکار یا محال کا اثبات اسے کافر نہ کر دے، اسی طرح یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ نبی کے لیے کیاجاءز ہے اور کیا واجب اور کیا محال، کہ واجب کا انکار اور محال کا اقرار موجب کُفر ہے اور بہت ممکن ہے کہ آدمی نادانی سے خلاف عقیدہ رکھے یا خلاف بات زبان سے نکالے اور ھلاک ہو جائے۔ عقیدہ (۱): نبی اُس بشر کو کہتے ہیں جسے اﷲ تعالیٰ نے ہدایت کے لیے وحی بھیجی ہو اور رسول بشر ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ملائکہ میں بھی رسول ہیں۔ ) عقیدہ (۲): انبیا سب بشر تھے اور مرد، نہ کوئی جن نبی ہوا نہ عورت۔ ) عقیدہ (۳): اﷲ عزوجل پر نبی کا بھیجنا واجب نہیں، اُس نے اپنے فضل وکرم سے لوگوں کی ہدایت کے لیے انبیا بھیجے۔ ) عقیدہ (۴): نبی ہونے کے لیے اُس پر وحی ہونا ضروری ہے، خواہ فرشتہ کی معرفت ہو یا بلا واسطہ۔ () عقیدہ (۵): بہت سے نبیوں پر اﷲ تعالیٰ نے صحیفے اور آسمانی کتابیں اُتاریں، اُن میں سے چار کتابیں بہت مشہور ہیں: ''تورات'' حضرت موسیٰ علیہ السلام پر، ''زبور'' حضرت داؤد علیہ السلام پر، ''اِنجیل'' حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر، ''قرآنِ عظیم'' کہ سب سے افضل کتاب ہے، سب سے افضل رسول حضور پُر نور احمدِ مجتبیٰ محمدِ مصطفےٰ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر۔ کلامِ الٰہی میں بعض کا بعض سے افضل ہونا اس کے یہ معنی ہیں کہ ھمارے لیے اس میں ثواب زائد ہے، ورنہ اﷲ (عزوجل) ایک، اُس کا کلام ایک، اُس میں افضل ومفضول کی گنجاءش نہیں۔) عقیدہ (۶): سب آسمانی کتابیں اور صحیفے حق ہیں اور سب کلام اﷲ ہیں، اُن میں جو کچھ ارشاد ہوا سب پر ایمان ضروری ہے ، مگر یہ بات البتہ ہوئی کہ اگلی کتابوں کی حفاظت اﷲ تعالیٰ نے اُمّت کے سپرد کی تھی، اُن سے اُس کا حفظ نہ ہوسکا، کلامِ الٰہی جیسا اُترا تھا اُن کے ہاتھوں میں ویسا باقی نہ رہا، بلکہ اُن کے شریروں نے تو یہ کیا کہ اُن میں تحریفیں کر دیں، یعنی اپنی خواہش کے مطابق گھٹا بڑھا دیا۔ ) لہٰذا جب کوئی بات اُن کتابوں کی ھمارے سامنے پیش ہو تو اگر وہ ھماری کتاب کے مطابق ہے، ہم اُس کی تصدیق کریں گے اور اگر مخالف ہے تو یقین جانیں گے کہ یہ اُن کی تحر یفات سے ہے اور اگر موافقت، مخالفت کچھ معلوم نہیں تو حکم ہے کہ ہم اس بات کی نہ تصدیق کریں نہ تکذیب، بلکہ یوں کہیں کہ : '' اٰمَنْتُ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ.'' ''اﷲ (عزوجل) اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں پر ھمارا ایمان ہے۔'' ) عقیدہ (۷): چونکہ یہ دین ہمیشہ رہنے والا ہے، لہٰذا قرآنِ عظیم کی حفاظت اﷲ عزوجل نے اپنے ذِمّہ رکھی، فرماتا ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ ) ـپ۱۴، الحجر: ۹ـ ''بے شک ہم نے قرآن اُتارا اور بے شک ہم اُـس کے ضرور نگہبان ہیں۔'' لہٰذا اس میں کسی حرف یا نقطہ کی کمی بیشی محال ہے، اگرچہ تمام دنیا اس کے بدلنے پر جمع ہو جائے تو جو یہ کہے کہ اس میں کے کچھ پارے یا سورتیں یا آیتیں بلکہ ایک حرف بھی کسی نے کم کر دیا، یا بڑھا دیا، یا بدل دیا، قطعاً کافر ہے، کہ اس نے اُس آیت کا انکار کیا جو ہم نے ابھی لکھی۔ ) عقیدہ (۸): قرآنِ مجید، کتابُ اﷲ ہونے پر اپنے آپ دلیل ہے کہ خود اعلان کے ساتھ کہہ رہا ہے: ( وَ اِنۡ کُنۡتُمْ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثْلِہٖ ۪ وَادْعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۳﴾فَاِنۡ لَّمْ تَفْعَلُوۡا وَلَنۡ تَفْعَلُوۡا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ۚۖ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۴﴾ )۔ـپ۱، البقرۃ: ۲۳۔۲۴ـ ''اگر تم کو اس کتاب میں جو ہم نے اپنے سب سے خاص بندے ( محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر اُتاری کوئی شک ہو تو اُس کی مثل کوئی چھوٹی سی سُورت کہہ لاؤ اور اﷲ کے سوا اپنے سب حمایتیوں کوبلالو اگر تم سچے ہو تو اگر ایسا نہ کرسکو اور ہم کہے دیتے ہیں ہرگز ایسا نہ کر سکو گے تو اُس آگ سے ڈرو! جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔'' لہٰذا کافروں نے اس کے مقابلہ میں جی توڑ کوششیں کیں، مگر اس کی مثل ایک سطر نہ بنا سکے نہ بناسکیں۔ ) مسئلہ : اگلی کتابیں انبیا ہی کو زبانی یاد ہوتیں، قرآنِ عظیم کا معجزہ ہے کہ مسلمانوں کا بچہّ بچہّ یاد کر لیتا ہے۔ ) عقیدہ (۹): قرآنِ عظیم کی سات قرائتیں سب سے زیادہ مشہور اور متواتر ہیں، ان میں معاذ اﷲ کہیں اختلافِ معنی نہیں، وہ سب حق ہیں، اس میں اُمّت کے لیے آسانی یہ ہے کہ جس کے لیے جو قراء ت آسان ہو وہ پڑھے اور حکم یہ ہے کہ جس ملک میں جو قراء ت رائج ہے عوام کے سامنے وہی پڑھی جائے، جیسے ھمارے ملک میں قرا ء تِ عاصم بروایتِ حفص، کہ لوگ ناواقفی سے انکار کریں گے اور وہ معا ذ اﷲ کلمہ کفر ہوگا۔ عقیدہ (۱۰): قرآنِ مجید نے اگلی کتابوں کے بہت سے احکام منسو خ کر دیے۔ یو ہیں قرآنِ مجید کی بعض آیتوں نے بعض آیت کو منسوخ کر دیا۔) عقیدہ (۱۱): نَسخْ کا مطلب یہ ہے کہ بعض احکام کسی خاص وقت تک کے لیے ہوتے ہیں، مگر یہ ظاہر نہیں کیا جاتا کہ یہ حکم فلاں وقت تک کے لیے ہے، جب میعاد پوری ہوجاتی ہے تو دوسرا حکم نازل ہوتا ہے، جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ پھلا حکم اُٹھا دیا گیا اور حقیقۃً دیکھا جائے تو اُس کے وقت کا ختم ہو جانا بتایا گیا۔ منسوخ کے معنی بعض لوگ باطل ہونا کہتے ہیں، یہ بہت سخت بات ہے، احکامِ الٰہیہ سب حق ہیں، وہاں باطل کی رسائی کہاں...! عقیدہ (۱۲): قرآن کی بعض باتیں مُحکَم ہیں کہ ھماری سمجھ میں آتی ہیں اور بعض متشابہ کہ اُن کا پورا مطلب اﷲ اور اﷲ کے حبیب (عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم) سوا کوئی نہیں جانتا۔ متشابہ کی تلاش اور اُس کے معنی کی کِنْکاش وہی کرتا ہے جس کے دل میں کجی ہو۔) عقیدہ (۱۳): وحیئ نبوت، انبیا کے لیے خاص ہے ، جو اسے کسی غیرِ نبی کے لیے مانے کافر ہے۔ نبی کو خواب میں جو چیز بتائی جائے وہ بھی وحی ہے، اُس کے جھوٹے ہونے کا احتمال نہیں۔ ولی کے دل میں بعض وقت سوتے یا جاگتے میں کوئی بات اِلقا ہوتی ہے، اُس کو اِلہام کہتے ہیں اور وحی شیطانی کہ اِلقا من جانبِ شیطان ہو، یہ کاہن، ساحر اور دیگر کفّار وفسّاق کے لیے ہوتی ہے۔) عقیدہ (۱۴): نبوّت کسبی نہیں کہ آدمی عبادت و رِیاضت کے ذریعہ سے حاصل کرسکے، بلکہ محض عطائے الٰہی ہے، کہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے دیتا ہے، ہاں! دیتا اُسی کو ہے جسے اس منصبِ عظیم کے قابل بناتا ہے، جو قبلِ حصولِ نبوّت تمام اخلاق رذیلہ سے پاک، اور تمام اخلاق فاضلہ سے مزین ہو کر جملہ مدارجِ ولایت طے کر چکتا ہے اور اپنے نسب و جسم و قول وفعل وحرکات و سکنات میں ہرایسی بات سے منزّہ ہوتا ہے جو باعثِ نفرت ہو، اُسے عقلِ کامل عطا کی جاتی ہے، جو اوروں کی عقل سے بدرجہا زائد ہے، کسی حکیم اور کسی فلسفی کی عقل اُس کے لاکھویں حصّہ تک نہیں پہنچ سکتی۔ (اَللہُ اَعْلَمُ حَیۡثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ؕ )ـترجمہ کنز الایمان: اللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھے. پ۸، الأنعام: ۱۲۴ـ ( ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیۡمِ ﴿۲۱﴾ ) (ترجمہ کنز الایمان: یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے. پ۲۷، الحدید: ۲۱.) اور جو اِسے کسبی مانے کہ آدمی اپنے کسب و ریاضت سے منصبِ نبوّت تک پہنچ سکتا ہے، کافر ہے۔ ) عقیدہ (۱۵): جو شخص نبی سے نبوّت کا زوال جاءز جانے کافر ہے۔ ) عقیدہ (۱۶): نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے اور یہ عصمت نبی اور مَلَک کا خاصہ ہے، کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں۔اماموں کو انبیا کی طرح معصوم سمجھنا گمراہی و بد دینی ہے۔ عصمتِ انبیا کے یہ معنی ہیں کہ اُن کے لیے حفظِ الٰہی کا وعدہ ہو لیا، جس کے سبب اُن سے صدورِ گناہ شرعاً محال ہے بخلاف ائمہ و اکابر اولیا، کہ اﷲ عزوجل اُنھیں محفوظ رکھتا ہے، اُن سے گناہ ہوتا نہیں، مگر ہو تو شرعاً محال بھی نہیں۔ عقیدہ (۱۷): انبیا علیہم السلام شرک و کفر اور ہرایسے امر سے جو خلق کے لیے باعثِ نفرت ہو، جیسے کذب و خیانت و جھل وغیرہا صفاتِ ذمیمہ سے، نیز ایسے افعال سے جو وجاہت اور مُروّت کے خلاف ہیں قبلِ نبوت اور بعد ِنبوت بالاجماع معصوم ہیں اور کبائر سے بھی مطلقاً معصوم ہیں اور حق یہ ہے کہ تعمّدِ صغائر سے بھی قبلِ نبوّت اور بعدِ نبوّت معصوم ہیں۔ عقیدہ (۱۸): اﷲ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام پر بندوں کے لیے جتنے احکام نازل فرمائے اُنھوں نے وہ سب پہنچا دیے، جو یہ کہے کہ کسی حکم کو کسی نبی نے چھپا رکھا، تقیہ یعنی خوف کی وجہ سے یا اور کسی وجہ سے نہ پہنچایا، کافر ہے۔ ) عقیدہ (۱۹): احکامِ تبلیغیہ میں انبیا سے سہو و نسیان محال ہے۔ عقیدہ (۲۰): اُن کے جسم کا برص و جذام وغیرہ ایسے امراض سے جن سے تنفّر ہوتا ہے، پاک ہونا ضروری ہے۔ عقیدہ(۲۱): اﷲ عزوجل نے انبیا علیہم السلام کو اپنے غیوب پر اطلاع دی۔ زمین و آسمان کا ہر ذرّہ ہر نبی کے پیشِ نظر ہے، مگر یہ علمِ غیب کہ ان کو ہے اﷲ (عزوجل) کے دیے سے ہے، لہٰذا ان کا علم عطائی ہوا اور علمِ عطائی اﷲ عزوجل کے لیے محال ہے، کہ اُس کی کوئی صفت، کوئی کمال کسی کا دیا ہوا نہیں ہوسکتا، بلکہ ذاتی ہے۔ جو لوگ انبیا بلکہ سیّد الانبیا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وعلیہم وسلم سے مطلق علمِ غیب کی نفی کرتے ہیں، وہ قرآنِ عظیم کی اس آیت کے مصداق ہیں: ( اَفَتُؤْمِنُوۡنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوۡنَ بِبَعْضٍ ۚ ) ـپ۱، البقرۃ: ۸۵.ـ یعنی: ''قرآنِ عظیم کی بعض باتیں مانتے ہیں اور بعض کے ساتھ کُفر کرتے ہیں۔'' کہ آیتِ نفی دیکھتے ہیں اور اُن آیتوں سے جن میں انبیا علیہم السلام کو علومِ غیب عطا کیا جانا بیان کیا گیا ہے، انکار کرتے ہیں، حالانکہ نفی واِثبات دونوں حق ہیں، کہ نفی علمِ ذاتی کی ہے کہ یہ خاصہ اُلوہیت ہے، اِثبات عطائی کا ہے، کہ یہ انبیا ہی کی شایانِ شان ہے اور مُنافی اُلوہیت ہے اور یہ کہنا کہ ہر ذرّہ کا علم نبی کے لیے مانا جائے تو خالق و مخلوق کی مساوات لازم آئے گی، باطل محض ہے، کہ مساوات تو جب لازم آئے کہ اﷲ عزوجل کیلئے بھی اتنا ہی علم ثابت کیا جائے اور یہ نہ کہے گا مگر کافر، ذرّاتِ عالَم متناہی ہیں اور اُس کا علم غیرِ متناہی، ورنہ جھل لازم آئے گا اور یہ محال، کہ خدا جھل سے پاک، نیز ذاتی و عطائی کا فرق بیان کرنے پر بھی مساوات کا الزام دینا صراحۃً ایمان و اسلام کے خلاف ہے، کہ اس فرق کے ہوتے ہوئے مساوات ہو جایا کرے تو لازم کہ ممکن و واجب وجود میں معاذاﷲ مساوی ہو جائیں، کہ ممکن بھی موجود ہے اور واجب بھی موجود اور وجود میں مساوی کہنا صریح کُفر، کھلا شرک ہے۔ انبیا علیہم السلام غیب کی خبر دینے کے لیے ہی آتے ہیں کہ جنّت و نار و حشر و نشر و عذاب و ثواب غیب نہیں تو اور کیا ہیں...؟ اُن کا منصب ہی یہ ہے کہ وہ باتیں ارشاد فرمائیں جن تک عقل و حواس کی رسائی نہیں اور اسی کا نام غیب ہے۔ اولیا کو بھی علمِ غیب عطائی ہوتا ہے، مگر بواسطہ انبیا کے۔ عقیدہ (۲۲): انبیائے کرام، تمام مخلوق یہاں تک کہ رُسُلِ ملائکہ سے افضل ہیں۔ ولی کتنا ہی بڑے مرتبہ والا ہو، کسی نبی کے برابر نہیں ہوسکتا۔ جو کسی غیرِ نبی کو کسی نبی سے افضل یا برابر بتائے، کافر ہے۔ عقیدہ (۲۳): نبی کی تعظیم فرضِ عین بلکہ اصلِ تمام فرائض ہے۔ کسی نبی کی ادنیٰ توہین یا تکذیب، کفر ہے۔ عقیدہ (۲۴): حضرت آدم علیہ السلام سے ھمارے حضور سیّد عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تک اﷲ تعالیٰ نے بہت سے نبی بھیجے، بعض کا صریح ذکر قرآنِ مجید میں ہے اور بعض کا نہیں، جن کے اسمائے طیّبہ بالتصریح قرآنِ مجید میں ہیں، وہ یہ ہیں: حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ہارون علیہ السلام ،حضرت شعیب علیہ السلام، حضرت لُوط علیہ السلام، حضرت ہُود علیہ السلام، حضرت داود علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت ایّوب علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام، حضرت یحیٰی علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت الیاس علیہ السلام، حضرت الیسع علیہ السلام، حضرت یونس علیہ السلام، حضرت ادریس علیہ السلام، حضرت ذوالکفل علیہ السلام، حضرت صالح علیہ السلام، [حضرت عزیر علیہ السلام]، حضور سیّد المرسلین محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم۔ عقیدہ (۲۵): حضرت آدم علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے بے ماں باپ کے مٹی سے پیدا کیا اور اپنا خلیفہ کیا اور تمام اسما ومسمّیات کا علم دیا، ملائکہ کو حکم دیا کہ ان کو سجدہ کریں، سب نے سجدہ کیا، شیطان (کہ از قسمِ جِن تھا ، مگر بہت بڑا عابد زاہد تھا، یہاں تک کہ گروہِ ملائکہ میں اُس کا شمار تھا ) بانکار پیش آیا، ہمیشہ کے لیے مردود ہوا۔ ) عقیدہ (۲۶): حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے انسان کا وجود نہ تھا، بلکہ سب انسان اُن ہی کی اولاد ہیں، اسی وجہ سے انسان کو آدمی کہتے ہیں، یعنی اولادِ آدم اور حضرت آدم علیہ السلام کو ابو البشر کہتے ہیں، یعنی سب انسانوں کے باپ۔ عقیدہ (۲۷): سب میں پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہوئے اور سب میں پہلے رسول جو کُفّار پر بھیجے گئے حضرت نوح علیہ السلام ہیں ، اُنھوں نے ساڑھے نو سو برس ہدایت فرمائی ، اُن کے زمانہ کے کفّار بہت سخت تھے، ہر قسم کی تکلیفیں پہنچاتے، استہزا کرتے، اتنے عرصہ میں گنتی کے لوگ مسلمان ہوئے، باقیوں کو جب ملاحظہ فرمایا کہ ہرگز اصلاح پذیر نہیں، ہٹ دھرمی اور کُفر سے باز نہ آئیں گے، مجبور ہو کر اپنے رب کے حضور اُن کے ھلاک کی دُعا کی، طوفان آیا اور ساری زمین ڈوب گئی، صرف وہ گنتی کے مسلمان اور ہر جانور کا ایک ایک جوڑا جو کشتی میں لے لیا گیا تھا، بچ گئے۔ عقیدہ (۲۸): انبیا کی کوئی تعداد معیّن کرنا جاءز نہیں، کہ خبریں اِس باب میں مختلف ہیں اور تعداد معیّن پر ایمان رکھنے میں نبی کو نبوّت سے خارج ماننے، یا غیرِ نبی کو نبی جاننے کا احتمال ہے اور یہ دونوں باتیں کفر ہیں، لہٰذا یہ اعتقاد چاہیے کہ اﷲ (عزوجل) کے ہر نبی پر ھمارا ایمان ہے۔ عقیدہ (۲۹): نبیوں کے مختلف درجے ہیں، بعض کو بعض پر فضیلت ہے اور سب میں افضل ھمارے آقا و مولیٰ سیّدالمرسلین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں، حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے بعد سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کا ہے،پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کا، اِن حضرات کو مرسلین اُولو العزم کہتے ہیں اور یہ پانچوں حضرات باقی تمام انبیا و مرسلینِ انس و مَلَک و جن و جمیع مخلوقاتِ الٰہی سے افضل ہیں۔ جس طرح حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) تمام رسولوں کے سردار اور سب سے افضل ہیں، بلا تشبیہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے صدقہ میں حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی اُمت تمام اُمتوں سے افضل۔ عقیدہ (۳۰): تمام انبیا، اﷲ عزوجل کے حضور عظیم وجاہت و عزت والے ہیں، ان کو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک معاذاﷲ چوہڑے چمار کی مثل کہنا کُھلی گستاخی اور کلمہ کفر ہے۔ عقیدہ (۳۱): نبی کے دعوی نبوّت میں سچے ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ نبی اپنے صدق کا علانیہ دعویٰ فرماکر محالاتِ عادیہ کے ظاہر کرنے کا ذمّہ لیتا اور منکروں کو اُس کے مثل کی طرف بلاتا ہے، اﷲ عزوجل اُس کے دعویٰ کے مطابق امرِ محالِ عادی ظاہر فرما دیتا ہے اور منکرین سب عاجز رہتے ہیں اسی کو معجزہ کہتے ہیں ، جیسے حضرت صالح علیہ السلام کا ناقہ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا سانپ ہو جانا اور یدِ بیضا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مُردوں کو جِلا دینا اور مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دینا اور ھمارے حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے معجزے تو بہت ہیں۔ عقیدہ (۳۲): جو شخص نبی نہ ہو اور نبوّت کا دعویٰ کرے، وہ دعویٰ کرکے کوئی محالِ عادی اپنے دعوے کے مطابق ظاہر نہیں کرسکتا، ورنہ سچے جھوٹے میں فرق نہ رہے گا۔ فائدہ: نبی سے جو بات خلافِ عادت قبلِ نبوّت ظاہر ہو، اُس کو اِرہاص کہتے ہیں اور ولی سے جو ایسی بات صادر ہو، اس کو کرامت کہتے ہیں اور عام مومنین سے جو صادر ہو، اُسے معونت کہتے ہیں اور بیباک فجّار یا کفّار سے جو اُن کے موافق ظاہر ہو، اُس کو اِستِدراج کہتے ہیں اور اُن کے خلاف ظاہر ہو تو اِہانت ہے۔ عقیدہ (۳۳): انبیا علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں اُسی طرح بحیاتِ حقیقی زندہ ہیں ، جیسے دنیا میں تھے، کھاتے پیتے ہیں، جہاں چاہیں آتے جاتے ہیں، تصدیقِ وعدہ الٰہیہ کے لیے ایک آن کو اُن پر موت طاری ہوئی، پھر بدستور زندہ ہوگئے ، اُن کی حیات، حیاتِ شہدا سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے ، فلھذا شہید کا ترکہ تقسیم ہوگا، اُس کی بی بی بعدِ عدت نکاح کرسکتی ہے،بخلاف انبیا کے، کہ وہاں یہ جاءز نہیں۔ یہاں تک جو عقائد بیان ہوئے، اُن میں تمام انبیا علیہم السلام شریک ہیں، اب بعض وہ اُمور جو نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خصائص میں ہیں، بیان کیے جاتے ہیں۔ عقیدہ (۳۴): اور انبیا کی بعثت خاص کسی ایک قوم کی طرف ہوئی ، حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تمام مخلوق انسان وجن، بلکہ ملائکہ، حیوانات، جمادات، سب کی طرف مبعوث ہوئے ، جس طرح انسان کے ذمّہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی اِطاعت فرض ہے۔ یوہیں ہر مخلوق پر حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی فرمانبرداری ضروری۔ عقیدہ (۳۵): حضورِ ا قدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ملائکہ و انس و جن و حُور و غلمان و حیوانات و جمادات، غرض تمام عالَم کے لیے رحمت ہیں اور مسلمانوں پر تو نہایت ہی مہربان۔ ) عقیدہ (۳۶): حضور، خاتم النبییّن ہیں، یعنی اﷲ عزوجل نے سلسلہ نبوّت حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ختم کر دیا ، کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے زمانہ میں یا بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا ، جو حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے زمانہ میں یا حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے بعد کسی کو نبوّت ملنا مانے یا جاءز جانے، کافر ہے۔ عقیدہ (۳۷): حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) افضل جمیع مخلوقِ الٰہی ہیں، کہ اوروں کو فرداً فرداًجو کمالات عطا ہوئے حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں وہ سب جمع کر دیے گئے اور اِن کے علاوہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو وہ کمالات ملے جن میں کسی کا حصہ نہیں، بلکہ اوروں کو جو کچھ مِلا حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے طفیل میں، بلکہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے دستِ اقدس سے ملا، بلکہ کمال اس لیے کمال ہوا کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی صفت ہے اور حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اپنے رب کے کرم سے اپنے نفسِ ذات میں کامل و اکمل ہیں، حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کا کمال کسی وصف سے نہیں، بلکہ اس وصف کا کمال ہے کہ کامل کی صفت بن کر خود کمال و کامل و مکمّل ہو گیا، کہ جس میں پایا جائے اس کو کامل بنا دے۔ عقیدہ (۳۸): مُحال ہے کہ کوئی حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کا مثل ہو، جو کسی صفتِخاصّہ میں کسی کو حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کا مثل بتائے،گمراہ ہے یا کافر۔ عقیدہ (۳۹): حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو اﷲ عزوجل نے مرتبہ محبوبیتِ کبریٰ سے سرفراز فرمایا ، کہ تمام خَلق جُویائے رضائے مولا ہے اور اﷲ عزوجل طالبِ رضائے مصطفےٰ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم۔ عقیدہ (۴۰): حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے خصائص سے معراج ہے، کہ مسجد ِحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک اور وہاں سے ساتوں آسمان اور کُرسی و عرش تک، بلکہ بالائے عرش رات کے ایک خفیف حصّہ میں مع جسم تشریف لے گئے اور وہ قربِ خاص حاصل ہوا کہ کسی بشر و مَلَک کو کبھی نہ حاصل ہوا نہ ہو ، اور جمالِ الٰہی بچشمِ سر دیکھا اور کلامِ الٰہی بلاواسطہ سنا اور تمام ملکوت السمٰوات والارض کو بالتفصیل ذرّہ ذرّہ ملاحظہ فرمایا ۔) عقیدہ (۴۱): تمام مخلوق اوّلین وآخرین حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نیاز مند ہے، یہاں تک کہ حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام۔ عقیدہ (۴۲): قیامت کے دن مرتبہ شفاعتِ کبریٰ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے خصائص سے ہے کہ جب تک حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) فتحِ بابِ شفاعت نہ فرمائیں گے کسی کو مجالِ شفاعت نہ ہو گی، بلکہ حقیقۃً جتنے شفاعت کرنے والے ہیں حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے دربار میں شفاعت لائیں گے اور اﷲ عزوجل کے حضور مخلوقات میں صرف حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) شفیع ہیں اور یہ شفاعتِ کُبریٰ مومن، کافر، مطیع، عاصی سب کے لیے ہے، کہ وہ انتظارِ حساب جو سخت جانگزا ہوگا، جس کے لیے لوگ تمنّائیں کریں گے کہ کاش جہنم میں پھینک دیے جاتے اور اس انتظار سے نجات پاتے، اِس بلا سے چھٹکارا کفّار کو بھی حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی بدولت ملے گا، جس پر اوّلین و آخرین، موافقین و مخالفین، مؤمنین و کافرین سب حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی حمد کریں گے، اِسی کا نام مقامِ محمود ہے اور شفاعت کے اور اقسام بھی ہیں، مثلاً بہتوں کو بلاحساب جنت میں داخل فرمائیں گے، جن میں چار اَرَب نوے کروڑ کی تعداد معلوم ہے، اِس سے بہت زائد اور ہیں، جو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے علم میں ہیں، بہُتیرے وہ ہوں گے جن کا حساب ہوچکا ہے اور مستحقِ جہنم ہوچکے، اُن کو جہنم سے بچائیں گےاور بعضوں کی شفاعت فرما کر جہنم سے نکالیں گے اور بعضوں کے درجات بلند فرمائیں گےاور بعضوں سے تخفیفِ عذاب فرمائیں گے۔ عقیدہ (۴۳): ہر قسم کی شفاعت حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے لیے ثابت ہے۔ شفاعت بالو جاہۃ، شفاعت بالمحبۃ، شفاعت بالاذن، اِن میں سے کسی کا انکار وہی کریگا جو گمراہ ہے۔ عقیدہ (۴۴): منصبِ شفاعت حضور کو دیا جاچکا، حضور فرماتے ہیں صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ((أُعْطِیْتُ الشَّفَاعَۃَ))(یعنی: ''مجھے شفاعت دے دی گئی''. ''صحیح البخاري''، کتاب التیمم، الحدیث: ۳۳۵، ج۱، ص۱۳۴.) ، اور ان کا رب فرماتا ہے: ( وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنۡۢبِکَ وَ لِلْمُؤْمِنِیۡنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ؕ ) ـپ۲۶، محمّد: ۱۹.ـ ''مغفرت چاہو اپنے خاصوں کے گناہوں اور عام مؤمنین و مؤمنات کے گناہوں کی۔'' شفاعت اور کس کا نام ہے...؟ ''اَللّٰھُمَّ ارْزُقْـنَا شَفَاعَۃَ حَبِیبِکَ الْکَرِیْمِ.'' (یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ o لا اِلَّا مَنْ اَ تَی اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ o ط ) (ترجمہ کنز الایمان: جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے مگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا سلامت دل لے کر. پ۱۹، الشعرآء: ۸۸ ۔۸۹) شفاعت کے بعض احوال، نیز دیگر خصائص جو قیامت کے دن ظاہر ہوں گے، احوالِ آخرت میں اِن شاء اﷲ تعالیٰ بیان ہوں گے۔ عقیدہ (۴۵): حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی محبت مدار ِایمان،بلکہ ایمان اِسی محبت ہی کا نام ہے، جب تک حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی محبت ماں باپ اولاد اور تمام جہان سے زیادہ نہ ہو آدمی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ ) عقیدہ (۴۶): حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی اِطاعت عین طاعتِ الٰہی ہے، طاعتِ الٰہی بے طاعتِ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ناممکن ہے، یہاں تک کہ آدمی اگر فرض نماز میں ہو اور حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اُسے یاد فرمائیں، فوراً جواب دے اور حاضرِ خدمت ہو اوریہ شخص کتنی ہی دیر تک حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) سے کلام کرے، بدستور نماز میں ہے، اِس سے نماز میں کوئی خلل نہیں۔ عقیدہ (۴۷): حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم یعنی اعتقادِ عظمت جزو ِایمان و رکنِ ایمان ہے اور فعلِ تعظیم بعد ایمان ہر فرض سے مقدّم ہے، اِس کی اہمیت کاپتا اس حدیث سے چلتا ہے کہ غزوہ خیبر سے واپسی میں منزل صہبا پر نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نمازِ عصر پڑھ کر مولیٰ علی کرّم اﷲ تعالیٰ وجہہ کے زانو پر سرِ مبارک رکھ کر آرام فرمایا، مولیٰ علی نے نمازِ عصر نہ پڑھی تھی، آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ وقت جارہا ہے، مگر اِس خیال سے کہ زانو سرکاؤں تو شاید خوابِ مبارک میں خلل آئے، زانو نہ ہٹایا، یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا، جب چشمِ اقدس کھلی مولیٰ علی نے اپنی نماز کا حال عرض کیا، حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے حکم دیا، ڈوبا ہوا آفتاب پلٹ آیا، مولیٰ علی نے نماز ادا کی پھر ڈوب گیا، اس سے ثابت ہوا کہ افضل العبادات نماز اور وہ بھی صلوٰۃِ وُسطیٰ نمازِ عصر مولیٰ علی نے حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نیند پر قربان کر دی، کہ عبادتیں بھی ہمیں حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)ہی کے صدقہ میں ملیں۔ دوسری حدیث اسکی تائید میں یہ ہے کہ غارِ ثور میں پہلے صدیقِ اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ گئے، اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر اُس کے سوراخ بند کر دیے، ایک سوراخ باقی رہ گیا، اُس میں پاؤں کا انگوٹھا رکھ دیا، پھر حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بلایا، تشریف لے گئے اور اُن کے زانو پر سرِاقدس رکھ کر آرام فرمایا، اُس غارمیں ایک سانپ مشتاقِ زیارت رہتا تھا، اُس نے اپنا سَر صدیقِ اکبر کے پاؤں پر مَلا، انھوں نے اِس خیال سے کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نیند میں فرق نہ آئے پاؤں نہ ہٹایا، آخر اُس نے پاؤں میں کاٹ لیا، جب صدیقِ اکبر کے آنسو چہرہ انور پر گرے، چشمِ مبارک کھلی، عرضِ حال کیا، حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے لعابِ دہن لگا دیا فوراً آرام ہوگیا ، ہر سال وہ زہر عَود کرتا، بار۲ ۱ ہ برس بعد اُسی سے شہادت پائی۔ ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اَصلُ الاصول بندگی اُس تاجور کی ہے عقیدہ (۴۸): حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی تعظیم و توقیر جس طرح اُس وقت تھی کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اِس عالم میں ظاہری نگاہوں کے سامنے تشریف فرماتھے، اب بھی اُسی طرح فرضِ اعظم ہے ، جب حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کا ذکر آئے توبکمالِ خشوع و خضوع و انکسار بادب سُنے ، اور نامِ پاک سُنتے ہی درود شریف پڑھنا واجب ہے۔ ) ''اَللَّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَ مَوْلٰـنَا مُحَمَّدٍ مَعْدِنِ الْجُوْدِ وَالْکَرَمِ وَاٰلہِ الْکِرَامِ وَصَحْبِہِ الْعظَامِ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ .'' اور حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) سے محبت کی علامت یہ ہے، کہ بکثرت ذکر کرے اور درود شریف کی کثرت کرے اور نامِ پاک لکھے تو اُس کے بعد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم لکھے، بعض لوگ براہِ اختصار صلعم یا لکھتے ہیں، یہ محض ناجاءز وحرام ہے اور محبت کی یہ بھی علامت ہے کہ آل و اَصحاب ، مہاجرین و انصار و جمیع متعلقین و متوسلین سے محبت رکھے اور حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے دشمنوں سے عداوت رکھے، اگرچہ وہ اپنا باپ یا بیٹا یا بھائی یا کُنبہ کے کیوں نہ ہوں اور جو ایسا نہ کرے وہ اِس دعویٰ میں جھوٹا ہے، کیا تم کو نہیں معلوم کہ صحابہ کرام نے حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی محبت میں اپنے سب عزیزوں، قریبوں، باپ، بھائیوں اور وطن کو چھوڑا اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) سے بھی محبت ہو اور اُن کے دشمنوں سے بھی اُلفت...! ایک کو اختیار کر کہ ضِدَّین جمع نہیں ہو سکتیں، چاہے جنت کی راہ چل یا جہنم کو جا۔ نیز علامتِ محبت یہ ہے کہ شانِ اقدس میں جو الفاظ استعمال کیے جائیں ادب میں ڈوبے ہوئے ہوں، کوئی ایسا لفظ جس میں کم تعظیمی کی بُو بھی ہو، کبھی زبان پر نہ لائے، اگر حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو پکارے تو نامِ پاک کے ساتھ ندا نہ کرے، کہ یہ جاءز نہیں، بلکہ یوں کہے: '' یَا نَبِيَّ اللہِ! یَا رَسُوْلَ اللہ! یَا حَبِیبَ اللہِ! ''((لَا تَجْعَلُوْا دُعَاءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَاءِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا) پ۱۸، النور: ۶۳.) اگر مدینہ طیبہ کی حاضری نصیب ہو تو روضہ شریف کے سامنے چارہاتھ کے فاصلہ سے دست بستہ جیسے نماز میں کھڑا ہوتا ہے، کھڑا ہو کر سر جھکا ئے ہوئے صلاۃ و سلام عرض کرے، بہُت قریب نہ جائے، نہ اِدھر اُدھر دیکھے اور خبردار...! خبردار...! آواز کبھی بلند نہ کرنا ، کہ عمر بھر کا سارا کِیا دھرا اَکارت جائے اور محبت کی یہ نشانی بھی ہے کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے اقوال و افعال و احوال لوگوں سے دریافت کرے اور اُن کی پیروی کرے۔ عقیدہ (۴۹): حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے کسی قول و فعل و عمل و حالت کو جو بہ نظرِ حقارت دیکھے کافر ہے۔ تحتِ تصرّف کر دیا گیا ، جو چاہیں کریں، جسے جو چاہیں دیں، جس سے جو چاہیں واپس لیں، تمام جہان میں اُن کے حکم کا پھیرنے والا کوئی نہیں، تمام جہان اُن کا محکوم ہے اور وہ اپنے رب کے سوا کسی کے محکوم نہیں، تمام آدمیوں کے مالک ہیں ، جو اُنھیں اپنا مالک نہ جانے حلاوتِ سنّت سے محروم رہے، تمام زمین اُن کی مِلک ہے، تمام جنت اُن کی جاگیر ہے، ملکوت السمٰواتِ والارض حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے زیرِ فرمان، جنت و نار کی کنجیاں دستِ اقدس میں دیدی گئیں، رزق وخیر اور ہر قسم کی عطائیں حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں، دنیا و آخرت حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی عطا کا ایک حصہ ہے، احکامِ تشریعیہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے قبضہ میں کر دیے گئے، کہ جس پر جو چاہیں حرام فرما دیں اور جس کے لیے جو چاہیں حلال کر دیں اور جو فرض چاہیں معاف فرما دیں۔ عقیدہ (50): سب سے پہلے مرتبہ نبوّت حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو ملا۔ روزِ میثاق تمام انبیا سے حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ایمان لانے اور حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نصرت کرنے کا عہد لیا گیا اور اِسی شرط پر یہ منصبِ اعظم اُن کو دیا گیا۔ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نبی الانبیا ہیں اور تمام انبیا حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے اُمّتی، سب نے اپنے اپنے عہدِ کریم میں حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نیابت میں کام کیا، اﷲ عزوجل نے حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو اپنی ذات کا مظہر بنایا اور حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے نُور سے تمام عالَم کو منوّر فرمایا، بایں معنی ہر جگہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) تشریف فرما ہیں۔ ؎ کالشمس في وسط السماءِ ونُورُھا یغشي البلاد مشارقاً ومغارباً(یعنی: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سورج کی طرح ہیں جو آسمانوں کے وسط میں ہو اور اس کی روشنی مشرقوں اور مغربوں کے تمام شہروں کو ڈہانک لے۔ ''تفسیر روح المعاني''، پ۲۲، الأحزاب، تحت الآیۃ:۴۰، الجزء الثاني والعشرون، ص۲۹۴. وانظر للتفصیل: ''صلات الصفاء في نور المصطفی''، ج۳۰، ص۶۵۷۔) مگر کورِ باطن کا کیا علاج ؎ گر نہ بیند بروز شپرہ چشم چشمہ آفتاب را چہ گناہ (یعنی: اگر چمگادڑ کو دن میں روشنی نظر نہ آئے تو اس میں سورج کا کیا قصور۔) مسئلہ ضروریہ: انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام سے جو لغزشیں واقع ہوئیں، انکا ذکر تلاوتِ قرآن و روایتِ حدیث کے سوا حرام اور سخت حرام ہے، اوروں کو اُن سرکاروں میں لب کشائی کی کیا مجال...! مولیٰ عزوجل اُن کا مالک ہے، جس محل پر جس طرح چاہے تعبیر فرمائے، وہ اُس کے پیارے بندے ہیں، اپنے رب کے لیے جس قدرچاہیں تواضع فرمائیں، دوسرا اُن کلمات کو سند نہیں بناسکتا اور خود اُن کا اطلاق کرے تو مردودِ بارگاہ ہو، پھر اُنکے یہ افعال جن کو زَلَّت و لغزش سے تعبیر کیا جائے ہزارہا حِکَم و مَصالح پر مبنی، ہزارہا فوائد و برکات کی مُثمِر ہوتی ہیں، ایک لغزشِ اَبِیْنَا آدم علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھیے، اگر وہ نہ ہوتی، جنت سے نہ اترتے، دنیا آباد نہ ہوتی، نہ کتابیں اُترتیں، نہ رسول آتے، نہ جہاد ہوتے، لاکھوں کروڑوں مثُوبات کے دروازے بند رہتے، اُن سب کا فتحِ باب ایک لغزشِ آدم کا نتیجہ بارکہ و ثمرہ طیّبہ ہے۔ بالجملہ انبیا علیہم الصلاۃ والسلام کی لغزش، مَن و تُو کس شمار میں ہیں، صدیقین کی حَسَنَات سے افضل و اعلیٰ ہے۔ ''حَسَنَاتُ الأبْرَارِ سَیّاٰتُ الْمُقَرَّبِیْنَ.'' (''کشف الخفاء'' للعجلوني، ج۱، ص۳۱۸. و''النبراس''، الملائکۃ علیہم السلام، ص۲۸۶. یعنی: نیک لوگوں کی نیکیاں مقربین کے لیے خطاؤں کا درجہ رکھتی ہیں۔ (بحوالہ بہارِ شریعت حصہ اول عقائد کا بیان )
  21. عقیدہ (۱۲): وہ ہر ممکن پر قادر ہے، کوئی ممکن اُس کی قدرت سے باہر نہیں۔ ) عقیدہ (۱۳): جو چیز مُحال ہے، اﷲ عزوجل اس سے پاک ہے کہ اُس کی قدرت اُسے شامل ہو، کہ مُحال اسے کہتے ہیں جو موجود نہ ہوسکے اور جب مقدور ہوگا تو موجود ہوسکے گا، پھر مُحال نہ رہا۔ اسے یوں سمجھو کہ دوسرا خدا مُحال ہے یعنی نہیں ہوسکتا تو یہ اگر زیرِ قدرت ہو تو موجود ہوسکے گا تو مُحال نہ رہا اور اس کو مُحال نہ ماننا وحدانیت کا انکار ہے۔ یوہیں فنائے باری مُحال ہے، اگر تحتِ قدرت ہو تو ممکن ہوگی اور جس کی فنا ممکن ہو وہ خدا نہیں۔ تو ثابت ہوا کہ مُحال پر قدرت ماننا اﷲ (عزوجل) کی اُلوہیت سے ہی انکار کرنا ہے۔ ) عقیدہ (۱۴): ہر مقدور کے لیے ضرور نہیں کہ موجود ہو جائے، البتہ ممکن ہونا ضروری ہے اگرچہ کبھی موجود نہ ہو۔ عقیدہ (۱۵): وہ ہر کمال و خوبی کا جامع ہے اور ہر اُ س چیز سے جس میں عیب و نقصان ہے پاک ہے، یعنی عیب ونقصان کا اُس میں ہونا مُحال ہے، بلکہ جس بات میں نہ کمال ہو، نہ نقصان، وہ بھی اُس کے لیے مُحال، مثلاً جھوٹ، دغا، خیانت، ظلم، جھل، بے حیائی وغیرہا عیوب اُس پرقطعاً محال ہیں اوریہ کہنا کہ جھوٹ پر قدرت ہے بایں معنی کہ وہ خود جھو ٹ بول سکتا ہے، مُحال کو ممکن ٹھہرانا اور خدا کو عیبی بتانا بلکہ خدا سے انکار کرنا ہے اور یہ سمجھنا کہ مُحا لات پر قادر نہ ہو گا تو قدرت ناقص ہو جائے گی باطل محض ہے، کہ اس میں قدرت کا کیا نقصان! نقصان تو اُس مُحال کا ہے کہ تعلّقِ قدرت کی اُس میں صلاحیت نہیں۔ (بہارِ شریعت جلد اول ، عقائد کا بیان ) برائے خاکِ مدینہ بہار شریعت سے عقائد کا بیان مکمل پڑھ لیجیئے ، کچھ دن کے بعد میں بہار شریعت سے عقائد کا بیان مکمل پوسٹ کردونگا۔ ان شاء اللہ عزوجل
  22. السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ برہان بھائی پاکستان میں یوٹیوب پر بین ہے ، آپ سے گذارش ہے کہ یہ وڈیوز فیس بک پر یا کسی اور ویب سائیٹ پر اپلوڈ کریں تا کہ ہم بھی اسے شیئر کر سکیں
×
×
  • Create New...