Jump to content

Najam Mirani

اراکین
  • کل پوسٹس

    232
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    16

سب کچھ Najam Mirani نے پوسٹ کیا

  1. فلاوربک لایومنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثم لایجدوا فی انفسہم حرجاً مما قضیت ویسلموا تسلیماً ( سورہ النساء ، پارہ ۵ ، آیت ۶۵ ) ترجمہ: تو اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرمادو اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں شان نزول سرکار اقدسﷺ کے عہد پاک میں ایک منافق اور ایک یہودی کے درمیان کھیت میں پانی ٹپانے پر جھگڑا ہوگیا۔ یہودی کا کھیت پہلے پڑتا تھا۔ منافق کا کھیت اس کے بعد تھا۔ یہودی کا کہنا تھا کہ پہلے میرا کھیت سیراب ہولے گا، تب تمہارے کھیت میں پانی جانے دوں گا۔ منافق کا اصرار تھا کہ پہلے میں اپنے کھیت کو سیراب کروں گا، اس کے بعد تمہارے کھیت میں پانی جائے گا۔ جب یہ جھگڑا کسی طرح طے نہ ہوسکا تو کسی ثالث کے ذریعے فیصلے کرانے کی بات ٹھہری۔ یہودی نے کہا کہ میں تمہارے پیغمبرﷺ ہی کو اپنا ثالث مانتا ہوں۔ ان سے اختلاف کے باوجود مجھے یقین ہے کہ وہ حق کے سوا کسی کی بھی پاسداری نہ کریں گے، منافق نے یہ سوچ کر کہ یہودی کے مقابلہ میں یقینا وہ میری رعایت کریں گے۔ کیونکہ میں اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہوں، یہودی کی پیشکش قبول کرلی۔ چنانچہ یہودی اور منافق دونوں اپنا مقدمہ لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے۔ سرکارﷺ نے دونوں فریق کا الگ الگ بیان سنا۔ نزاع کی تفصیل یہ واضح کررہی تھی کہ حق یہودی کے ساتھ ہے۔ چنانچہ حضورﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ سنادیا۔ یہودی فرحاں و شاداں وہاں سے اٹھا اور باہر آکر منافق سے کہا کہ اب تو میرے حق سے تمہیں انکار نہ ہوگا۔ منافق نے منہ لٹکائے پیشانی پر بل ڈالے جواب دیا کہ میں فیصلہ تسلیم نہیں کرتا۔ میرے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔ تمہیں منظور ہو تو ہم اپنا مقدمہ حضرت عمر کے پاس لے چلیں، وہ صحیح فیصلہ کریں گے۔ یہودی نے جواب دیا۔ تم جس سے بھی فیصلہ کرائو رسول خداﷺ کا فیصلہ اپنی جگہ بحال رہے گا۔ چنانچہ دونوں حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے دولت کدۂ اقبال پر حاضر ہوئے۔ منافق نے مقدمہ کی تفصیل بتاتے ہوئے اس بات کی بار بار تکرار کی کہ میں مسلمان ہوں اور یہ یہودی ہے۔ مذہبی عناد کی وجہ سے یہ مجھے نقصان پہنچانا چاہتا ہے، منافق کا بیان ختم ہوا تو یہودی صرف اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا۔ یہ صحیح ہے کہ میں یہودی ہوں اور یہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ لیکن سن لیا جائے کہ جو مقدمہ یہ آپ کے پاس لے کر آیا ہے۔ اس کا فیصلہ پیغمبر اسلام نے میرے حق میں کردیا ہے۔ یہ مسلمان ہوکر کہتا ہے کہ مجھے ان کا فیصلہ تسلیم نہیں ہے۔ یہ اپنے نمائشی اسلام کی رشوت دے کر آپ سے رسول خداﷺ کے خلاف فیصلہ کرانے آیا ہے۔ اب آپ کو اختیار ہے کہ جو فیصلہ چاہیں، کردیں۔ یہودی کا یہ بیان سن کر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ فرط جلال سے چہرہ تمتما اٹھا۔ عالم غیظ میں منافق سے صرف اتنا دریافت کیا کہ”کیا یہودی کی بات صحیح ہے؟’’ منافق نے دبی زبان سے اعتراف کیا کہ اس نے ٹھیک ہی کہاہے۔ منافق پر بغاوت کا جرم ثابت ہوگیا۔ فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کی عدالت میں ایک مرتد کی سزا کے لئے اب کوئی لمحہ انتظار باقی نہیں تھا۔ اسی عالم قہر وغضب میں اندر تشریف لے گئے۔ دیوار سے لگی ہوئی ایک تلوار لٹک رہی تھی، اسے بے نیام کیا۔ قبضے پر ہاتھ رکھے ہوئے باہر نکلے۔ فرط ہیبت سے منافق کی آنکھیں جھپک کر رہ گئیں۔ غیرت جلال میں ڈوبی ہوئی ایک آواز فضا میں گونجی۔ ”حاکم ارض و سماوات کے فیصلے کا منکر اسلام کا کھلاہوا باغی ہے اور اس کے حق میں عمر کا فیصلہ یہ ہے کہ اس کا سر قلم کردیا جائے’’ یہ کہتے ہوئے ایک ہی وار میں منافق کے ٹکڑے اڑادیئے۔ ایک لمحے کے لئے لاش تڑپی اور ٹھنڈی ہوگئی۔ اس کے بعد مدینے میں ایک بھونچال سا آگیا۔ یہ خبر بجلی کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی۔ چارون طرف سے منافقین غول در غول دوڑ پڑے۔ گلی گلی میں شور برپا ہوگیا کہ حضرت عمر نے ایک مسلمان کو قتل کردیا۔ دشمنان اسلام کی بن آئی تھی۔ اپنی جگہ انہوں نے بھی یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ اب تک تو محمدﷺ کے ساتھیوں کی تلواریں صرف مشرکین کا خون چاٹتی تھیں۔ لیکن اب خود مسلمان بھی ان کے وار سے محفوظ نہیں ہیں۔ بات پہنچتے پہنچتے آخر سرکارﷺ کی بارگاہ تک پہنچی۔ مسجد نبوی کے صحن میں سب لوگ جمع ہوگئے۔ حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کی طلبی ہوئی۔ غیرت حق کا تیور ابھی تک اترا نہیں تھا۔ آنکھوں میں جلال عشق کا خمار لئے ہوئے حاضر بارگاہ ہوئے۔ سرکارﷺ نے دریافت فرمایا: ”کیوں عمررضی اﷲ عنہ! مدینے میں یہ کیسا شور ہے؟ کیا تم نے کسی مسلمان کو قتل کردیا ہے؟’’ جذبات کے تلاطم سے آنکھیں بھیگ گئی تھی۔ دل کا عالم زیر و زبر ہورہا تھا۔ بزم جاناں میں پہنچ کر عشق کی دبی ہوئی چنگاری بھڑک اٹھی تھی۔ بے خودی کی حالت میں کھڑے ہوکر جواب دیا۔ ”عمر کی تلوار کسی مسلمان کے خون سے کبھی آلودہ نہیں ہوگی۔ میں نے ایسے شخص کو قتل کیاہے جس نے آپﷺ کے فیصلے سے انکار کرکے اپنی جان کا رشتہ حلقہ اسلام سے توڑ لیاتھا’’ اپنی صفائی پیش کرکے حضرت عمررضی اﷲ عنہ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ فضا میں شہہ پر جبریل علیہ السلام کی آواز گونجی۔ اچانک عالم غیب کی طرف سرکار کی توجہ منعطف ہوگئی۔ دم کے دم میں محفل کا رنگ بدل گیا۔ حضرت روح الامین علیہ السلام نے خدائے ذوالجلال کی طرف سے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے مقدمے کا فیصلہ سنایا۔ وہی جواب جو فاروق اعظم نے دیا تھا۔ درج بالا آیت قرآنی میں ہمیشہ کے لئے ڈھل گیا۔ حدیثوں میں آیا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ تھی کہ اﷲ تعالیٰ ان کی زبان پر کلام کرتا ہے۔ تفسیر خازن و معالم التنزیل میںکلبی کے طریق سے حضرت امام ابو صالح و ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے: وقال جبریل ان عمر رضی اﷲ عنہ فرق بین الحق والباطل فسمی الفاروق یعنی جبریل علیہ السلام نے ساتھ ہی یہ بھی کہاکہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے حق و باطل میں امتیاز کردیا ہے۔ اس دن سے آپ کا لقب فاروق رکھاگیا۔ تشریح یہ آیت اپنے موقع نزول کی روشنی میں مندرجہ ذیل امور کو خوب اچھی طرح واضح کرتی ہے۔ 1… کلمہ اور اسلام کی نمائش کسی کو بھی بغاوت کی سزا سے نہیں بچا سکتی۔ مدنی تاجدارﷺ کی سرکار میں ذرا سی گستاخی یک لخت اسلام کا وہ سارا استحقاق چھین لیتی ہے جو کلمہ پڑھنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ 2…پیدائشی طور پر جو لوگ اسلام سے بے گانہ ہیں اور جنہوں نے کبھی بھی اپنے آپ کوکلمہ طیبہ سے وابستہ نہیں کیاہے۔ ان کے وجود کو کسی نہ کسی حالت میں یقینا برداشت کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اپنے اسلام کا اعلان کردینے کے بعد جو منکر ہوگئے یا اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے جنہوں نے نبی مرسلﷺ کی شان میں توہین آمیز رویہ اختیار کیا۔ انہیں ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔ اسلام کی زبان میں وہ مرتد ہیں۔ ان کا حال بالکل اس دوست کی طرح ہے جو رگ جاں سے قریب ہوجانے کے بعد یک بیک دغا دے دے۔ کسی بیگانے کو تو گلے لگایا جاسکتا ہے، لیکن اس کے منہ پر کوئی تھوکنا بھی گوارا نہیں کرے گا۔ انسان کی یہ عالمگیر فطرت ہے۔ ہر شخص کی زندگی میں اس طرح کی دو چار مثالیں ضرور مل سکتی ہیں۔ لیکن ماتم یہ ہے کہ فطرت کا یہ تقاضا انسان اپنے بارے میں تو تسلیم کرتا ہے لیکن خدا اور رسول کے معاملے میں فطرت کا یہ تقاضا فراموش کردیتا ہے۔ یہ اسلام و عقل کی فطرت ہی تو تھی کہ جس فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے بڑے بڑے کافران دنیا کو زندگی کا حق دیا۔ وہی فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ آج کلمہ اسلام سے برگشتہ ہوجانے والے مرتد کو ایک لمحہ بھی زندہ دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ 3… اس آیت سے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ کفر و ارتداد کچھ توحید و رسالت یا مذہب اسلام سے کھلم کھلا انکار پر ہی منحصر نہیں ہے۔ یہ بھی انکار ہی کے ہم معنی ہے کہ خدا کو اپنا خدا، یارسول کو اپنا رسول اور اسلام کو اپنا اسلام کہتے ہوئے کسی بھی رخ منصب رسالتﷺ کی تنقیص کردی جائے۔ ان کی پاکیزہ زندگی کا اگر بے غبار آنکھوں سے مطالعہ کیا جائے تو ہزاروں واقعات شہادت دیں گے کہ جب تک وہ زندہ رہے، نبیﷺ کے قدموں کے نیچے ان کے دل بچھے رہے۔ دین و دنیا کی ساری کامرانیوں اور ارجمندیوں کو انہوں نے اپنے حبیبﷺ کے دامن سے اس طرح باندھا تھا کہ کسی گرہ کاکھلنا تو بڑی بات، ڈھیلی تک نہیں ہوئی۔ اپنے پیارے نبیﷺ کی خوشنودی کے راستے میں اگر اپنا لاڈلا بیٹا بھی حائل ہوگیا، تو ان کی غیرت عشق کی تلوار نے اسے بھی معاف نہیں کیا۔ ان کی دوستی اور دشمنی کا محور نبی پاکﷺ کی مقدس پیشانی پر ابھرتی ہوئی لکیروں اور چہرۂ تاباں کی مسکراہٹوں کے گرد ہمیشہ گھومتا رہتا تھا۔ ایمان کے اس تقاضے کے ساتھ ان کی زندگی کا یہ پیمان کبھی نہیں ٹوٹ سکا کہ جو نبیﷺ کا ہے، وہی ان کا ہے اور جو نبیﷺ کا نہیں ہے، اس کے ساتھ ان کا کوئی رشتہ نہیں چاہئے، خواہ خون ہی کی خمیر سے وہ رشتہ کیوں نہ وجود میں آیاہو۔
  2. بسم اللہ الرحمٰن الرحیم انتساب اعلٰی حضرت امام اہل سنت مجدد اعظم کشتہ عشق رسالت شیخ الاسلام والمسلمین پاسبان ناموس رسالت امام الشاہ محمد احمد رضا خان حنفی بریلوی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نام جنہوں نے تمام بد مذہبوں کے خلاف جہاد فرما کر اہل اسلام کے ایمان کی حفاظت فرمائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اورآفتاب علم و حکمت منبع رشد و ہدایت محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا ابوالفضل محمد سردار احمد صاحب قدس سرہ العزیز کے نام جنہوں نے خطہءٰ پنجاب میں عشق رسول کی دولت کو عام کیا۔نائب محدث اعظم پاکستان پاسبان مسلک رضا حامی سنت ماحی بدعت حضرت مولانا ابو محمد عبدالرشید قادری رضوی علیہ الرحمۃکے نام جنہوں نے بد مذہبوں کے رد کرنے میں فقیر کو خوب دعاؤں سے نوازا۔ گر قبول افتدز ہے عزوشرفخادم اہل سنتمحمد کاشف اقبال مدنی قادری رضوی پیش لفظ الحمدللہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الکریم، اما بعد !! چودہویں صدی کے مجدد، امام عشق و محبت، اعلٰی حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ احمد رضا خاں صاحب محدث بریلوی علیہ الرحمہ کی ذات بے شمار خوبیوں کی مالک ہے، آپ نے ہر میدان میں فتوحات کے جھنڈے گاڑے، یہی وجہ تھی کہ آپ علیہ الرحمہ کی ذات سے اغیار بھی متاثر تھے جس کی بناء پر وہ آپ کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔ ایک مرتبہ مجھے کسی ساتھی نے بتایا کہ حیدر آباد شہر میں ایک بزرگ مفتی سید محمد علی رضوی صاحب مدظلہ العالی جلوہ افروز ہیں جن کو اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔ لٰہذا فقیر دل میں یہ آرزو لئے کہ اعلٰی حضرت کا دیدار تو نہ کیا مگر جس نے اعلٰی حضرت کو دیکھا ہے ان کی آنکھوں کا ہی دیدار ہو جائے، فقیر حیدر آبادر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ فقیر نے مفتی سید محمد علی رضوی صاحب سے عرض کی جس وقت اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کا وصال ہوا اس وقت کی کوئی یادگار بات ارشاد فرمائیں، آپ نے فرمایا جس وقت اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کا وصال ہوا اس وقت میں لاہور میں تھا عین اس وقت دیوبندی اکابر مولوی اشرف علی تھانوی کسی جلسے سے خطاب کر رہا تھا اس وقت مولوی اشرف علی تھانوی کو یہ اطلاع دی گئی کہ اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ بریلی شریف میں وصال فرما گئے ہیں تو اس وقت اس نے اپنی تقریر روک کر سامعین سے کہا کہ "اے لوگو ! آج سے عاشق رسول چلا گیا۔" جسے اس وقت کے تمام اخبارات نے شائع کیا، یہ میری زندگی کی یادگار بات ہے جسے میں آج تک نہیں بھلا پایا۔ اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ ساری زندگی دشمنان اسلام کے لئے شمشیر بے نیام بن کر رہے مگر اس کے باوجود باطل نظریات رکھنے والی کئی جماعتوں کے اکابرین نے اعلٰی حضرت کے متعلق تعریفی کلمات تحریر کئے، فقیر یہ سمجھتا ہے کہ یہ اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کی کرامت ہے کہ آپ کی قابلیت کو دیکھ کر مخالفین بھی تعریف لکھنے پر مجبور ہو گئے، زیر نظر کتاب بھی اسی عنوان پر ہے، جس میں مؤلف نے مخالفین کے اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کے متعلق کم و بیش ستر تاثرات جمع کے ہیں، جن میں دیوبندی، غیر مقلدین اور جماعت اسلامی (مودودی گروپ) کے قائدین ادیب، علماء، شعراء اور ایڈیٹر حضرات نے اعلٰی حضرت کے حوالے سے اپنے خیالات اور تاثرات پیش کئے ہیں، اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام سلسلہ اشاعت نمبر 154 میں جمعیت اشاعت اہلسنت نے کیا ہے۔ جمعیت اشاعت اہلسنت گزشتہ کئی سالوں سے یہ خدمت انجام دے رہی ہے تاکہ اکابر علماء کی کتابوں کو مفت شائع کرکے عوام اہلسنت کے گھروں تک پہنچایا جائے۔اللہ تعالٰی اس کتاب کو عوام اہلسنت کے لئے نافع بنائے اور جمعیت اشاعت اہلسنت کو ترقیوں سے ہم کنار فرمائے، آمین ثم آمین فقط والسلامالفقیر محمد شہزاد قادری ترابی تاثرات حضرت علامہ مولانا محمد بخش صاحب مدظلہ العالیمفتی جامعہ رضویہ مظہر اسلام، فیصل آباد مجاہد ملت مناظر اسلام فاضل ذیشان حضرت مولانا محمد کاشف اقبال مدنی شاہکوٹی کے متعلق جہاں تک فقیر کی معلومات کا تعلق ہے نہایت صحیح العقیدہ متعلب سنی حنفی بریلوی ہیں۔ مرکزی دارلعلوم جامعہ رضویہ مظہر اسلام گلستان محدث اعظم پاکستان فیصل آباد کے فارغ التحصیل ہیں مسلک حق اہلسنت و جماعت کے بے باک مبلغ ہیں۔ اعلٰی حضرت عظیم البرکت مجدد ماتہ حاضرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نظریات کے زبردست حامی اور ان پر سختی کے ساتھ کاربند ہیں اور امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی عنہ کے نظریات سے سر موانحراف کرنے والوں پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ وہابیہ دہابنہ کے سخت مخالف ہیں کئی مناظروں میں علمائے وہابیہ اور دہابنہ کو شکست فاش دے چکے ہیں۔ وہابیہ کے خلاف کئی کتابیں مثلاً مسائل قربانی اور غیر مقلدین مسائل رمضان اور بیس تراویح وہابیہ کے بطلان کا انکشاف خطرہ کی لال جھنڈی وغیرہ تصنیف فرما چکے ہیں۔ بلاوجہ شرعی و بلا ثبوت ان کی ذات کو مشکوک جاننا امانت و دیانت کے خلاف ہے حق تو یہ ہے کہ ایسے نڈر بے باک خطیب و مبلغ کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئیے نہ کہ ان کی کردار کشی کی جائے اور ان کا حوصلہ پست کیا جائے۔ مولٰی تعالٰی سے دعا ہے کہ یااللہ کریم ! اس فاضل نوجوان کو استقامت فی الدین عطا فرما اور مسلک حق اہلسنت و جماعت کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کی توفیق عطا فرما۔ الداعی فقیر ابو الصالح محمد بخشخادم دارالافتاء جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد تقریظ شرف اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری مدظلہ العالی بسم الرحمٰن الرحیم حامدا و مصلیا و مسلما عزیز محترم مولانا محمد کاشف اقبال مدنی حفظہ اللہ تعالٰی بحمدہ تعالٰی و تقدس راسخ العقیدہ سنی ہیں، پہلی ملاقات میں انہوں نے ایک مقالہ دکھایا جس کا عنوان تھا "عقائد اہل سنت قرآن و حدیث کی روشنی میں" اسے میں نے سرسری نظر سے دیکھا تو اس میں قرآن و حدیث کے حوالے بکثرت دکھائی دئیے۔ علمائے اہلسنت، علمائے دیوبند اور اہلحدیث کے بے شمار حوالے دکھائی دئیے، ایک طرف یہ مقالہ دیکھتا اور دوسری طرف اپنے سامنے ایک نو عمر بچے کو دیکھتا تو مجھے یقین نہ آتا کہ یہ اسی نے لکھا ہے، چند سوالوں کے بعد مجھے اطمینان ہو گیا کہ یہ مقالہ اسی ہونہار بچے نے لکھا ہے، ان کا مطالبہ تھا کہ اس پر تقریظ لکھ دیں، مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں نے اسی وقت تقریظ لکھ دی، اس کے بعد بھی ان سے ملاقاتیں رہیں، انہیں ہمیشہ مسلک اہل سنت کے تحفظ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے پایا، مخالفین کی کتابوں کا انہوں نے پوری بصیرت کے ساتھ وسیع مطالعہ کیا ہے۔ اللہ تعالٰی انہیں سلامت رکھے۔ اہل سنت کے بہت سے نوجوانوں کو یہ جذبہ اور سپرٹ عطا کرے۔ محمد عبدالحکیم شرف قادری18، ربیع الاول 1425ھ تقریظ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد جمیل رضوی صاحب صدر مدرس جامعہ انوار مدینہ سانگلہ ہل بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الصلوٰۃ و السلام علیک یاسیدی یارسول اللہوعلٰی اٰلک واصحابک یاسیدی یاحبیب اللہاللھم یامن لک الحمد والصلوٰۃ والسلام علی نبیک محمد وعلی الک نبیک المکرم وعلی اصحابنیک المکرم اما بعد حتی یمیز الخبیث من الطیب مولانا کاشف اقبال مدنی قادری رضوی صاحب نے امام اہلسنت مجدد دین و ملت امام عاشقاں اعلٰی حضرت عظیم البرکت امام شاہ محمد احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تعلب و نفحم نظریات پر بد مذاہب کے تاثرات اور تحسین امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ پر دیانبہ و وہابیہ خبیثہ پلیدہ ملحدہ زندیقہ کے عقائد باطلہ اور اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے متعلق روافض و قیادنہ کے رد میں بھی بد مذاہب کی تائیدات مندرج فرمائی ہیں۔ امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے متعلق نوادر روایات بد مذاہب کی تکفیر و تذلیل پر خود ان کی زبانی نقل فرمائی ہیں۔ اگر وہابیہ و دیابنہ و دیگر بد عقیدہ لوگ تعصب کی عینک اتار کر مطالعہ کریں تو مشعل راہ ہوگی۔ مدنی قادری رضوی صاحب کا نظریہ عقیدت اہلسنت کے لئے تحفہء نایاب ہے۔ اللہ تعالٰی اس تحریر سے اہلسنت کو مستفیض و مستیز فرمائے۔ احقر العباد (ابو محمد جیلانی رضوی)محمد جمیل رضویخطیب جامع مسجد مدنی فیصل آبادو صدر مدرس جامعہ انوار مدینہ سانگلہ ہل23، ربیع الاول 1425ھ مناظر اہلسنت ابو الحقائق علامہ مولانا غلام مرتضٰی ساقی مجددی حق اور باطل ہمیشہ سے برسر پیکار ہیں، جس دور میں بھی باطل نے اپنا سر اٹھایا تو اہل حق نے اپنی ایمانی اور روحانی قوت سے اس سے پنجہ آزمائی کی اور اسے دُم دبا کر بھاگ نکلنے کے لئے مجبور کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندوستان میں باطل جب وہابیت و دیوبندیت کی مکروہ شکل میں نمودار ہوا تو اس کی سرکوبی کے لئے دیگر اکابرین اہل سنت کے علاوہ امام اہل سنت، اعلٰی حضرت عظیم البرکت الشاہ امام محمد احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمۃ نے نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ نے اپنے زور قلم سے باطل کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کر ڈالا، اور منکرین کو اعلٰی حضرت علیہ الرحمۃ کے مقابلہ کی جراءت نہ ہو سکی۔۔۔۔۔۔ آپ خود فرماتے ہیں۔ کلک رضا ہے خبجر خونخوار برق باراعداء سے کہہ دو خیر منائیں نہ شر کریں آپ نے قلیل وقت میں رد وہابیت پر اس قدر خدمات دیں ہیں کہ اتنی مدت میں ایک ادارہ اور ایک تنظیم بھی سر انجام دینے سے قاصر ہیں۔ آپ کی تحریک سے ہی مسلمانان اہلسنت، وہابی، دیوبندی عقائد سے باخبر ہو کر ان سے نفرت و بیزاری کا اظہار کرنے لگے۔ علماء و مشائخ اہل سنت نے مختلف انداز میں عوام الناس کو ان کے عقائد باطلہ اور افکار فاسدہ سے متعارف کرایا۔ اور اپنے متعلقین و منسلکین کو ان سے اعراض ولا تعلقی کا حکم فرمایا۔ دور حاضرہ میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے علماء و مشائخ ان لوگوں کے خیالات فاسدہ کی تغلیظ و تردید میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ اس دور کا بہت ہی خطرناک فتنہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے ان کے افکار و نظریات کی تردید کی جتنی زیادہ ضرورت ہے ہمارے علماء و مشائخ اتنی ہی زیادہ سستی اور عدم توجہ سے کام لے رہے ہیں۔ اس عمل میں کونسا راز پنہاں ہے اسے وہ حضرات بخوبی سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ بایں ہمہ دور حاضر میں ایسے مجاہدین اسلام بھی موجود ہیں جو سردھڑکی بازی لگا کر بھی حق و صداقت کے مبارک علم کو لہرانا چاہتے ہیں۔ انہی خوش نصیب افراد میں ہمارے نڈر محقق، معتدد کتب کے مصنف، مناظر اہل سنت، فاتح دیوبندیت حضرت مولانا محمد کاشف اقبال خان مدنی کا بھی شمار ہوتا ہے۔ آپ نے اپنی پیش نظر کتاب "امام احمد رضا، مخالفین کی نظر میں" وقیع دلائل اور صریح حوالہ جات سے اس حقیقت کو ثابت کر دکھایا ہے کہ اعلٰی حضرت علیہ الرحمۃ حق و صداقت اور علم و حکمت کا وہ کوہ گراں تھے کہ جن کی تعریف میں اپنے تو ایک طرف بیگانے بھی رطب اللسان ہیں اور آپ نے جو اکابرین دیوبند کی تکفیر کی ہے وہ ریت پر اٹھائے گئے محل کی طرح بے بنیاد نہیں ہے بلکہ یہ ایسا مضبوط قلعہ ہے کہ جس کی بنیادیں کبھی لرزہ براندم نہیں ہو سکتیں اور اس کا اعتراف دیوبندی علماء کو بھی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بارگاہ رب العزت میں دعا ہے کہ مولٰی تعالٰی حضرت مصنف کو جزائے خیر عطا فرمائے اور اس تصنیف کو اہل حق کے لئے باعث تقویت اور اہل باطل کے لئے ذریعہ ہدایت بنائے۔ آمین العبد الفقیر ابو الحقائقغلام مرتضٰی ساقی مجددی10 مئی 2004ء ِنحمدہ و نصلی ونسلم علی رسولہ الکریم اما بعد ! امام اہل سنت مجدد دین و ملت کشتہء عشق رسالت شیخ الاسلام و المسلمین امام عاشقان حضرت امام محمد احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ علم و دانش کے سمندر تھے۔ ان کے علم کی ایک جھلک دیکھ کر علمائے عرب و عجم حیران رہ گئے۔ محدث بریلوی علیہ الرحمہ نے تقریباً تمام علوم و فنون پر اپنی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ وہ جامع علوم و فنون شخصیت کے مالک تھے۔ محدث بریلوی ایک عقبری شخصیت تھے۔ آپ نے پوری شدت و قوت کے ساتھ بدعات کا رد کیا اور احیاء سنت کا اہم فریضہ ادا کیا۔ علماء عرب و عجم نے آپ کو چودہویں صدی کا مجدد قرار دیا۔ محبت و عشق رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم محدث بریلوی علیہ الرحمۃ کا طرہء امتیاز تھا یہی ان کی زندگی اور یہی ان کی پہچان، وہ خود فرماتے ہیں کہ میرے دل کے دو ٹکڑے کئے جائیں تو ایک پر لاالہ الا اللہ اور دوسرے پر محمد رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) لکھا ہوگا آپ کا لکھا ہوا سلام مصطفٰے جان رحمت پہ لاکھوں سلام پوری دنیا میں پڑھا جاتا ہے۔ آپ کی کتب کی ایک ایک سطر سے عشق رسول کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ کے عشق رسول کا اپنے ہی نہیں بیگانے بھی موافق ہی نہیں مخالف بھی دل و جان سے اقرار کرتے ہیں۔ آپ نے رسول کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بے ادب گستاخ فرقوں کا پوری قوت سے قلع قمع کرنے کے لئے جہاد فرمایا۔ دیوبندی کوثر نیازی مولوی کے بقول بھی "جسے لوگ امام احمد رضا بریلوی کا تشدد کہتے ہیں وہ بارگاہ رسالت میں ان کے ادب و احتیاط کی روش کا نتیجہ ہے۔ آپ کو ہر فن میں کامل دسترس حاصل تھی۔ بلکہ بعض علوم میں آپ کی مہارت حد ایجاد تک پہنچی ہوئی تھی۔ آپ کے رسالہ مبارک الروض البمیج فی آداب التخریج کے متعلق لکھتے ہیں۔ کہ اگر پیش ازیں کتابے وریں فن نیافتہ شودپش مصنف راموجد تصنیف ہذامی تواں تفت (تذکرہ علمائے ہند فارسی صفحہ 17) ترجمہ :۔ اگر (فن تخریج حدیث میں) اور کوئی کتاب نہ ہو، تو مصنف کو اس تصنیف کا موجد کہا جا سکتا ہے۔ علم توقیت میں اس قدر کمال حاصل تھا کہ دن کو سورج اور رات کو ستارے دیکھ کر گھڑی ملا لیا کرتے تھے وقت بالکل صحیح ہوتا اور ایک منٹ کا بھی فرق نہ ہوتا۔ علم ریاضی میں بھی آپ کو حد سے زیادہ اعلٰی درجہ کی مہارت حاصل تھی کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ریاضی کے ماہر ڈاکٹر سر ضیاء الدین آپ کی ریاضی میں مہارت کی ایک جھلک دیکھ کر انگشت بدندان رہ گئے۔ علم جفر میں بھی محدث بریلوی علیہ الرحمۃ یگانہء روزگار تھے۔ الغرض اعلٰی حضرت محدث بریلوی تمام علوم و فنون پر کامل دسترس رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ دینی اور ہر قسم کے علوم و فنون کے ماہر تھے۔ اعلٰی حضرت فاضل بریلوی پاک و ہند کے نابغہء روزگار فقہیہ، محدث، مفسر اور جامع علوم و فنون تھے۔ مگر افسوس کہ ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ حضور سیدنا مجدد اعظم محدث بریلوی جتنی عظیم المرتبت شخصیت تھے آپ اتنے ہی زیادہ مظلوم ہیں اور اس ظلم میں حامی و مخالف سبھی شامل ہیں جو آپ سے محبت کا دعوٰی کرتے ہیں مگر انہوں نے آپ کی شخصیت کا عوام کے سامنے اجاگر نہیں کیا۔ آپ کی عظمت پر بہت معمولی کام کیا۔ بلکہ کئی مکار لوگوں نے آپ کا نام لیکر آپ کو ناحق بدنام کیا۔ جتنا اعلٰی حضرت فاضل بریلوی نے گمراہی اور بدعات کا قلع قمع کیا، اتنا ہی بدعات کو رواج دے کر حضور اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کو بدنام کیا جا رہا ہے۔دوسری طرف آپ کے مخالفین نے اس علمی شخصیت کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔ آپ پر بے بنیاد الزامات کے انبار لگا دئیے گویا اعلٰی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی عظیم عبقری شخصیت اپنوں کی سرد مہری اور مخالفین کے حسد اور بغض و عداوت کا شکار ہو کر رہ گئی اور یہی ایک بہت بڑا المیہ ہے مگر یہ تو واضح ہے کہ حقیقت کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کے علمی رعب و دبدبہ کا یہ حال تھا کہ آپ کے کسی مخالف کو آپ سے مناظرے کی جراءت نہ ہو سکی۔ جوں جوں تحقیق ہوئی۔ اعلٰی حضرت محدث بریلوی کی شخصیت اپنی اصلی حالت میں نمایاں ہوئی اور ان کے علم و فضل کا چرچا از سر نو شروع ہو گیا اور صرف اپنے ہی نہیں بیگانے بھی حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔ آج بھی لوگ آپ کے متعلق عوام کو غلط تاثر دیتے ہیں۔ ہم دیوبندی وہابی مذہب کے اکابرین کے تاثرات اس رسالے میں جمع کر رہے ہیں تاکہ عوام کو معلوم ہو جائے کہ دیوبندی وہابی جو محدث بریلوی کے متعلق ہرزرہ سرائی کرتے ہیں غلط ہے۔ مطالعہ بریلویت وغیرہ کتابیں لکھ کر طوفان بدتمیزی برپا کرنے والے لوگ صرف بہتان ترازی اور بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں۔ حقیقت سے ان کا کچھ تعلق نہیں۔ ان لوگوں کو کم از کم اپنے ان اکابرین کو ان اقوال کو پیش نظر رکھنا چاہئیے۔ مولٰی تعالٰی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ جلیلہ سے مذہب حق اہل سنت و جماعت (بریلوی) پر استقامت اسی پر زندگی اور اسی پر موت عطا فرمائے۔ (آمین) بانی دیوبندی مذہب محمد قاسم نانوتوی دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب (نانوتوی) دہلی شریف رکھتے تھے۔ اور ان کے ساتھ مولانا احمد حسن امروہوی اور امیر شاہ خان صاحب بھی تھے شب کو جب سونے کے لئے لیٹے تو ان دونوں نے اپنی چارپائی ذرا الگ کو بچھالی، اور باتیں کرنے لگے۔ امیر شاہ خان صاحب نے مولوی صاحب سے کہا کہ صبح کی نماز ایک برج والی مسجد میں چل کر پڑھیں گے، سنا ہے کہ وہاں کے امام قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ ارے پٹھان جاہل (آپ میں بے تکلفی بہت تھی) ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے وہ تو ہمارے مولانا (نانوتوی) کی تکفیر کرتا ہے۔ مولانا (نانوتوی) نے سن لیا اور زور سے فرمایا۔ احمد حسین میں تو سمجھا تھا تو لکھ پڑھ گیا ہے مگر جاہل ہی رہا۔ پھر دوسروں کو جاہل کہتا ہے۔ ارے کیا قاسم کی تکفیر سے وہ قابل امامت نہیں رہا میں تو اس سے اُس کی دینداری کی معتقد ہوگیا۔ اس نے میری کوئی ایسی ہی بات سنی ہوگی جس کی وجہ سے میری تکفیر واجب تھی۔ گو روایت غلط پہنچی ہو، تو یہ راوی پر الزام ہے۔ تو اس کا سبب دین ہی ہے اب میں خود اس کے پیچھے نماز پڑھوں گا۔ غرضیکہ صبح کی نماز مولانا (نانوتوی) نے اس کے پیچھے پڑھی۔ (افاضت الیومیہ ج 4 / 394 طبع ملتان) نانوتوی صاحب کے نزدیک جاہل تو وہی ہے جو نانوتوی کی تکفیر کرنے والے کو برا کہتا ہے۔ تو بتائیے کہ سیدی اعلٰی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ پر کیا وجہ اعتراض ہے۔ تحذیرالناس پر جب مولانا (نانوتوی) پر فتوے لگے، تو جواب نہیں دیا: یہ فرمایا کہ کافر سے مسلمان ہونے کا طریقہ بڑوں سے یہ سنا ہے۔ کہ بندہ کلمہ پڑھنے سے مسلمان ہو جاتا ہے تو میں کلمہ پڑھتا ہوں۔ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ( افاضات الیومیہ، ج4 صفحہ 395 طبع ملتان، ج8 صفحہ 238 ) الفضل ماشھدت بہ الاعداء اب آپ ہی بتائیے کہ حضور اعلٰیحضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے جو حکم شرعی واضح کیا۔ اس میں آپ کا کیا قصور ہے " ضمناً آپ کو یہ بھی عرض کروں، کہ بانی دیوند قاسم نانوتوی کی وجہ تکفیر کیا ہے۔ اس لئے کہ دیوبندی حضور اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کو نعوذ باللہ مکفرالمسلمین کہتے پھرتے ہیں۔ حالانکہ دیوبندی مذہب کی بنیادی کتب "تقویۃ الایمان، فتاوٰی رشیدیہ، بہشتی زیور وغیرہ سے واقف حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ مکفرالمسلمین اعلٰی حضرت محدث بریلوی علیہ الرحمہ نہیں۔ بلکہ یہی دیوبندی اکابر ہیں۔ ان کے شرک و کفر کے فتوؤں سے کوئی بھی محفوظ نہیں، نہ ہی انبیاء و اولیاء اور نہ ہی کوئی اور، تو لیجئے سنئیے:۔ کہ نانوتوی صاحب کی وجہ تکفیر کیا ہے اور وہ وجہ یہ ہے کہ بانی دیوبند قاسم نانوتوی نے اہل اسلام کے اجتماعی عقیدہ ختم نبوت کا انکار کیا ہے اور خاتم النبیین کے معنی میں تحریف کی ہے۔ نانوتوی کی چند ایک عبارات ہدیہ قارئین کی جاتی ہیں۔ بانی دیوبند قاسم نانوتوی لکھتے ہیں: سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتمہ ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں۔ مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تآخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں، پھر مقام مدح میں ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے۔ (تحذیر الناس صفحہ3 طبع دیوبند) اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔ (تحذیرالناس صفحہ 28 طبع دیوبند) آپ موصوف بوصف نبوت بالذات ہیں اور سو آپ کے اور نبی موصوف بوصف نبوت العرض۔ (تحذیرالناس صفحہ4 طبع دیوبند) تمام اہل اسلام خاتم النبیین کا معنی آخری نبی کرتے ہیں اور کرتے رہے مگر نانوتوی نے اسے جاہل عوام کا خیال بتایا۔ یہ تحریف فی القرآن ہے۔ پھر حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبی پیدا ہونے کو خاتمیت محمدی، حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے آخری نبی ہونے میں کوئی فرق نہ پڑنا بتایا جو کہ ختم نبوت کا انکار ہے۔ واضح طور پر خاتم النبیین کا ایسا معنی تجویز کیا گیا جس سے مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوٰی نبوت کا رستہ ہموار ہو گیا اور مرزائی اپنی حمایت میں آج بھی تحذیرالناس پیش کرتے ہیں تو دیوبندی اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔ قادیانیوں نے اس پر مستقل رسالہ بھی لکھ کر شائع کیا ہے۔ "افادات قاسمیہ" نبوت کی تقسیم بالذات بالعرض نانوتوی کی ایجاد ہے۔ تحذیرالناس کی تمام کفریہ عبارات کی تردید مدلل و مفصل کے لئے غزالی زماں حضرت مولانا احمد سعید کاظمی علیہ الرحمہ کی کتاب "التبشیر برد التحذیر" ، شیخ القرآن مولانا غلام علی اوکاڑوی علیہ الرحمۃ کی کتاب "التنویر" اور ماہنامہ کنزالایمان کا ختم نبوت نمبر اور راقم الحروف فقیر کی کتاب "عبارات تحذیرالناس پر ایک نظر" اور "مسئلہ تکفیر" میں ملاحظہ کیجئے اختصار مانع ہے صرف ایک حوالہ دیوبندی مذہب کا ہی حاضر خدمت ہے۔ دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں: جب مولانا محمد قاسم صاحب۔۔۔۔۔۔۔ نے کتاب تحذیرالناس لکھی تو سب نے مولانا محمد قاسم صاحب کی مخالفت کی بجز مولانا عبدالحئی صاحب نے۔ (قصص الاکابر صفحہ 159 طبع جامعہ اشرفیہ لاہور) جس وقت مولانا نے تحذیرالناس لکھی ہے کسی نے ہندوستان بھی میں مولانا کے ساتھ موافقت نہیں کی بجز مولانا عبدالحئی صاحب کے۔ (افاضات الیومیہ ج5 صفحہ 296 طبع ملتان) دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی دیوبندی خواجہ عزیزالحسن مجذوب لکھتے ہیں مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی کی بھی جن کی سخت ترین مخالفت اہل حق سے عموماً اور حضرت والا (تھانوی اشرف علی) سے خصوصاً شہرہ آفاق ہے ان کے بھی ُبرا بھلا کہنے والوں کے جواب میں دیر دیر تک حمایت فرمایا کرتے ہیں اور شد و مد کے ساتھ رد فرمایا کرتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ان کی مخالفت کا سبب واقعی حب رسول ہی ہو اور وہ غلط فہمی سے ہم لوگوں کو نعوذ باللہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخ ہی سمجھتے ہوں۔ (اشرف السوانح ج1 ص132، طبع ملتان: اسوہ اکابر صفحہ14 طبع لاہور) دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مفتی محمد حسن بیان کرتے ہیں: حضرت تھانوی نے فرمایا، اگر مجھے مولوی احمد رضا صاحب بریلوی کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقعہ ملتا، تو میں پڑھ لیتا۔ (حیات امداد صفحہ 38 طبع کراچی، انوار قاسمی صفحہ 389 )(اسوہ اکابر صفحہ15 طبع لاہور، ہفتہ روزہ چٹان لاہور، 10 فروری 1962ء) دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں میں علماء کے وجود کو دین کی بقاء کے لئے اس درجہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر سارے علماء ایسے مسلک کے بھی ہو جائیں جو مجھ کو کافر کہتے ہیں (یعنی بریلوی صاحبان) تو میں پھر بھی ان کی بقاء کے لئے دعائیں مانگتا رہوں کیونکہ گو وہ بعض مسائل میں غلو کریں اور مجھ کو ُبرا کہیں، لیکن وہ تعلیم تو قرآن و حدیث ہی کی کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے دین تو قائم ہے۔ (اشرف السوانح ج1 صفحہ 192، حیات امداد صفحہ38، اسوہء اکابر صفحہ 15) مذید فرماتے ہیں وہ (بریلوی) نماز پڑھاتے ہیں ہم پڑھ لیتے ہیں، ہم پڑھاتے ہیں۔ وہ نہیں پڑھتے تو ان کو آمادہ کرو۔ (افاضات الیومیہ ج7 صفحہ 56 طبع ملتان) وہ ہم کو کافر کہتا ہے ہم اس کو کافر نہیں کہتے۔ (افاضات الیومیہ ج7 صفحہ 26) ایک صاحب نے حضرت (تھانوی) کی خدمت میں ایک مولوی صاحب کا ذکر کیا کہ انہوں نے تو جناب کی ہمیشہ بڑی مخالفت کی، تو بجائے ان کی شکایت کے یہ فرمایا کہ میں تو اب بھی یہی کہتا ہوں، کہ "شاید ان کی مخالفت کا منشا ُحب رسول ہو۔" (افاضات الیومیہ ج10 صفحہ 245) تھانویصاحب مذید لکھتے ہیں احمد رضا خان (بریلوی) کے جواب میں کبھی (میں نے) ایک سطر بھی نہیں لکھی، کافر خبیث ملعون سب کچھ سنتا رہا۔ (حکیم الامت صفحہ 188 طبع لاہور) ایک معروف و مشہور اہل بدعت عالم (احمد رضا بریلوی) جو اکابر دیوبند کی تکفیر کرتے تھے اور ان کے خلاف بہت سے رسائل میں نہایت سخت الفاظ استعمال کرتے تھے۔ ان کا ذکر آ گیا تو فرمایا میں سچ عرض کرتا ہوں کہ مجھے ان کے متعلق تعذیب ہونے کا گمان نہیں کیونکہ ان کی نیت ان سب چیزوں سے ممکن ہے کہ تعظیم رسول ہی کی ہو۔ (مجالس حکیم الامت صفحہ 125 طبع کراچی) ایک شخص نے پوچھا کہ ہم بریلوی والوں کے پیچھے نماز پڑھیں تو نماز ہو جائے گی یا نہیں فرمایا حضرت حکیم الامت (تھانوی) ۔۔۔۔۔۔ نے ہاں (ہو جائے گی) ہم ان کو کافر نہیں کہتے اگرچہ وہ ہمیں کہتے ہیں۔ (قصص الاکابر صفحہ 252 طبع لاہور) حضرت مولانا احمد رضا خان مرحوم و مغفور کے وصال کی اطلاع حضرت تھانوی کو ملی، تو حضرت نے اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر فرمایا:فاضل بریلوی نے ہمارے بعض بزرگوں یا ناچیز کے بارے میں جو فتوے دئیے ہیں وہ ُحب رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے جذبے سے مغلوب و محجوب ہو کر دئیے ہیں۔ اس لئے انشاءاللہ تعالٰی عنداللہ معذور اور مرحوم و مغفور ہوں گے، میں اختلاف کی وجہ سے خدانخواستہ ان کے متعلق تعذیب کی بدگمانی نہیں کرتا۔ (مسلک اعتدال صفحہ 87 طبع کراچی) دیوبندی عالم کوثر نیازی لکھتے ہیں مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی سے میں نے سنا، فرمایا: جب حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب علیہ الرحمہ کی وفات ہوئی تو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کو کسی نے آکر اطلاع کی مولانا تھانوی نے بے اختیار دعاء کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے جب وہ دعاء کر چکے۔ تو حاضرین مجلس میں سے کسی نے پوچھا وہ تو عمر بھر آپ کو کافر کہتے رہے اور آپ ان کے لئے دعائے مغفرت کر رہے ہیں۔ فرمایا اور یہی بات سمجھنے کی ہے مولانا احمد رضا خان نے ہم پر کفر کے فتوے اس لئے لگائے کہ انہیں یقین تھا کہ ہم نے توہین رسول کی ہے اگر وہ یہ یقین رکھتے ہوئے بھی ہم پر کفر کا فتوٰی نہ لگاتے تو خود کافر ہو جاتے۔ (اعلٰی حضرت فاضل بریلوی ایک ہمہ جہت شخصیت صفحہ7 طبع نارووال)(روزنامہ جنگ لاہور3، اکتوبر 1990ء) (روزنامہ جنگ راولپنڈی 10 نومبر 1981ء) مولانا اشرف علی تھانوی کا قول ہے کہ کسی بریلوی کو کافر نہ کہو اور نہ آپ نے کسی بریلوی کو کافر کہا۔۔۔۔۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت تھانوی ایک بڑے جلسے میں خطاب فرما رہے تھے۔ کہ اطلاع ملی، مولوی احمد رضا بریلوی انتقال کر گئے ہیں۔ آپ نے تقریر کو ختم کر دیا اور اسی وقت خود اور اہل جلسہ نے آپ کے ساتھ مولوی احمد رضا کے لئے دعائے مغفرت فرمائی۔ (ہفت روزہ چٹان لاہور 15 دسمبر 1962ء) مولانا احمد رضا خان بریلوی زندگی بھر انہیں (اشرف علی تھانوی کو) کافر کہتے رہے۔ لیکن مولانا تھانوی فرمایا کرتے تھے کہ میرے دل میں احمد رضا کے لئے بے حد احترام ہے۔ وہ ہمیں کافر کہتا ہے لیکن عشق رسول کی بناء پر کہتا ہے کسی اور غرض سے تو نہیں کہا۔ (ہفت روزہ چٹان لاہور 23، اپریل 1962ء) آج کل دیوبندی مذہب کے لوگ اہل سنت کو بدعتی کہتے ہیں، اس کے متعلق بھی اپنے تھانوی صاحب کا فیصلہ سن لیں، تھانوی صاحب فرماتے ہیں: یہ کیا ضروری ہے کہ جو آپ کے فتوے میں بدعت ہے وہ عنداللہ بھی بدعت ہو یہ تو علمی حدود کے اعتبار سے ہے۔ باقی عشاق کی تو شان ہی جدا ہوتی ہے ان کے اوپر اعتراض ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔۔۔۔ ایسے بدعتیوں کو آپ دیکھیں گے کہ وہ جنت میں پہلے داخل کئے جائیں گے اور لوگ پیچھے جائیں گے۔ (افاضات الیومیہ ج1 صفحہ 302) بدعتی بے ادب نہیں ہوتے ان کو بزرگوں سے تعلق ہے۔ (افاضات الیومیہ ج6 صفحہ83 ) معلوم ہوا کہ اعلٰی حضرت محدث دہلوی بریلوی علیہ الرحمۃ کا عشق رسول حکیم دیوبند تھانوی کو بھی تسلیم ہے۔ الفضل ماشھدت بہ الاعداء ضمناً اشرف علی تھانوی کی وجہ تکفیر بیان کرنا بھی ضروری ہے 1901ء میں تھانوی کی کتاب حفظ الایمان شائع ہوئی جس میں مذکور تھانوی نے رسول کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی توہین کی اس میں یہ بیان کیا، کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو پاگلوں گدھوں جانوروں جیسا علم غیب حاصل ہے۔ نعوذ باللہ اصل عبارت یہ ہے۔"آپ کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کُل غیب، اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور کی ہی کیا تخصیص ہے۔ ایسا علم غیب تو زید و عمر بلکہ ہر صبی (بچہ) و مجنون (پاگل) بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لئے بھی حاصل ہے۔" (حفظ الایمان صفحہ8 طبع دیوبند) تھانوی صاحب سے اس عبارت پر توبہ کا مطالبہ کیا جاتا رہا مگر تھانوی صاحب اپنی اس عبارت پر اڑے رہے۔ اعلٰی حضرت محدث بریلوی نے خطوط لکھے کتابیں شائع کیں مناظرے کے چیلنج کئے، مگر تھانوی صاحب ٹس سے مِس نہ ہوئے بلکہ تھانوی کی زندگی میں اس کے وکیل منظور احمد نعمانی دیوبندی کے ساتھ آفتاب علم و حکمت منبع رشد و ہدایت محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا علامہ محمد سردار احمد صاحب علیہ الرحمہ کا اسی عبارت کے کفریہ ہونے کے دلائل پر مناظرہ ہوا۔ دیوبندیوں کو عبرتناک شکست ہوئی، مناظرہ بریلی کے نام سے روئیداد دستیاب ہے۔حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ کے علمی عرب و دبدبہ کی وجہ سے دیوبندی منظور نعمانی نے مناظروں سے توبہ کرلی: جس کا ثبوت موجود ہے اس عبارت کے کفریہ ہونے کے دلائل ہماری کتاب "آخری فیصلہ" میں ملاحظہ کیجئے، صرف ایک حوالہ حاضر خدمت ہے۔ تھانوی صاحب کے مریدین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں اور تھانوی کو ایک خط میں لکھتے ہیں: "الفاظ جس میں مماثلت علمیت غیبیہ محمدیہ کو علوم مجانین و بہائم سے تشبیہہ دی گئی ہے جو بادی النظر میں سخت سوء ادبی ہے۔ کیوں ایسی عبارت سے رجوع نہ کر لیا جائے جس میں مخلصین حامئیین جناب والا (تھانوی) کو حق بجانب جواب دہی میں سخت دشواری ہوتی ہے۔ وہ عبارات آسمانی والہامی عبارت نہیں کہ جس کی مصدرہ صورت اور ہیت عبارت کا بحالہ و یا بالفاظہ باقی رکھنا ضروری ہے۔ (تغیرالعنوان حفظ الایمان صفحہ 29 طبع شاہکوٹ) رشید احمد گنگوہی دیوبندی، محمود الحسن دیوبندی، خلیل احمد انبٹھیوی دیوبندی دیوبندی قطب رشید احمد گنگوہی نے کئی مسائل میں اعلٰی حضرت محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے فتاوٰی بعینیہ درج کئے ہیں اور آپ کے کئی فتاوٰی کی تصدیق کی ہے۔ ملاحظہ ہو فتاوٰی رشیدیہ صفحہ 245 طبع کراچی کتاب القول البدیع و اشتراط المصر للتجیع کے صفحہ 24 پر حضور سیدی اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کا فتوٰی تفصیلی درج ہے اس کی بھی رشید احمد گنگوہی اور دیوبندی مولوی محمود الحسن نے تصدیق کی ہے۔ (ماخوذ اتحاد امت صفحہ 41 طبع راولپنڈی) لگے ہاتھوں گنگوہی صاحب کے ساتھ دیوبندی محدث خلیل احمد سہارنپوری کی بھی سن لیجئے: لکھتے ہیں: ہم تو ان بدعتیوں (بزعم دیوبندی) (بریلویوں) کو بھی جو اہل قبلہ ہی جب تک دین کے کسی ضروری حکم کا انکار نہ کریں کافر نہیں کہتے۔ (المہند صفحہ 47 طبع لاہور) اب ان گنگوہی اور انبٹھیوی سہارنپوری کی ہفوات کی بھی ایک جھلک ملاحظہ کیجئے۔ اولاً: رشید احمد گنگوہی نے خدا تعالٰی کے لئے کذب کا وقوع مانا نعوذ باللہ اس کی تفصیلی بحث دیوبندی مذہب اور رد شہاب ثاقب میں ملاحظہ ہو۔ ثانیاً: حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے لئے رحمۃ للعلمین ہونا صفت خاصہ ماننے سے انکار کیا۔ فتاوٰی رشیدیہ صفحہ 218 مسئلہ امکان کذب خدا کے لئے بیان کیا۔ (فتاوٰی رشیدیہ صفحہ 227) صحابہ کرام کی تکفیر کرنے والے کو اہل سنت و جماعت بتایا۔ (فتاوٰی رشیدیہ صفحہ 248 ) وغیرھم نعوذ باللہ من ھذہ الخرافات۔ خلیل ا حمد انبٹھیوی نے لکھا، کہ الحاصل غور کرنا چاہئیے کہ شیطان و ملک الموت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا فخر عالم کو خلاف نصوص قطعیہ کے بلا دلیل محض قیاس فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے۔ شیطان و ملک الموت کی یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی فخر عالم کی کون سی نص قطعی ہے۔ (براہین قاطعہ صفحہ 55 طبع کراچی) یعنی حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا مبارک علم شیطان کے علم سے کم ہے اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا مبارک علم قرآن و حدیث سے ثابت نہیں جبکہ شیطان و ملک الموت کا ثابت ہے نعوذ باللہ حالانکہ شیطان و ملک الموت کے علم محیط زمین کے لئے قرآن و حدیث میں کوئی نص وارد نہیں ہوئی۔ اس کے ثبوت کا دعوٰی انکار قرآن و حدیث ہے اور دوسری طرف حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے وسعت علم کے لئے متعدد نصوص موجود ہیں دیکھئے دیوبند کے محدث کا مبلغ علم۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے لئے ماننا شرک ہے۔ وہ چیز شیطان کے لئے ماننا عین ایمان کیسے ہے۔ شرک بہرحال شرک ہوتا ہے مخلوق میں ایک کے لئے شرک ہو دوسرے کے لئے وہی عین ایمان ہو یہ دیوبند کے محدث کی نرالی رگ ہے۔ گویا شیطان کو نعوذ باللہ خدا کے مد مقابل کھڑا کر دیا ہے۔ قارئین کرام ! براہین قاطعہ تحذیرالناس، حفظ الایمان کی عبارات ہم نے بعینہ نقل کر دی ہیں، بتائیے ان عبارات میں رسول کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شان میں ایسی ناپاک توہین و بے ادبی ہے کہ کسی علانیہ کافر نے بھی نہ کی ہو یہی توہین و بے ادبی دیوبندی مذہب میں ایمان ہے۔ یہ صرف میرا دعوٰی زبان ہی نہیں دیوبند کے حکیم اشرف علی تھانوی کی زبانی سن لیجئے لکھتے ہیں : وہابی کا مطلب و معنی بے ادب با ایمان بدعتی کا مطلب با ادب بے ایمان افاضات الیومیہ ج4 صفحہ 89 الکلام الحسن ج1 صفحہ 57، اشرف اللطائف صفحہ 38، آپ انصاف کیجئے۔ اعلٰی حضرت محدث بریلوی علیہ الرحمہ نے اگر ان گستاخ بے ادب لوگوں کا رد کیا تکفیر کی رسول کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور پیار کا یہی تقاضا تھا۔ اس میں تو اعلٰی حضرت فاضل بریلوی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے وکیل ہیں اور یہ دیوبندی وہابی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے گستاخ و مد مقابل ہیں صرف ہم ان لوگوں سے اتنا ہی کہتے ہیں : نہ تم توہین یوں کرتے نہ ہم تکفیر یوں کرتےنہ کھلتے راز تمہارے نہ یوں رسوائیاں ہوتیں دیوبندی محدث انور شاہ کشمیری دیوبند کے محدث انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں جب بندہ ترمذی شریف اور دیگر کتب احادیث کی شروح لکھ رہا تھا۔ تو حسب ضرورت احادیث کی جزئیات دیکھنے کی ضرورت درپیش آئی تو میں نے شیعہ حضرات و اہل حدیث حضرات و دیوبندی حضرات کی کتابیں دیکھیں مگر ذہن مطمئن نہ ہوا۔ بالآخر ایک دوست کے مشورے سے مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کی کتابیں دیکھیں تو میرا دل مطمئن ہو گیا کہ اب بخوبی احادیث کی شروح بلاجھجک لکھ سکتا ہوں۔ تو واقعی بریلوی حضرات کے سرکردہ عالم مولانا احمد رضا خان صاحب کی تحریریں شستہ اور مضبوط ہیں جسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مولوی احمد رضا خان صاحب ایک زبردست عالم دین اور فقہیہ ہیں۔ (رسالہ دیوبند صفحہ 21 جمادی الاول 1330ھ بحوالہ طمانچہ صفحہ 39، سفید ورسیاہ صفحہ 114) فیض مجسم مولانا محمد فیض احمد اویسی صاحب بقول لیاقت پور ضلع رحیم یار خان میں مقیم قاضی اللہ بخش صاحب کہتے ہیں: جب میں دارالعلوم دیوبند میں پڑھتا تھا۔ تو ایک موقع پر حاضر ناظر کی نفی میں مولوی انور شاہ کشمیری صاحب نے تقریر فرمائی کسی نے کہا، کہ:مولانا احمد رضا خان تو کہتے ہیں کہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم حاضر ناظر ہیں، مولوی انور شاہ کشمیری نے ان سے نہایت سنجیدگی سے فرمایا کہ پہلے احمد رضا تو بنو پھر یہ مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔ (امام احمد رضا اور علم حدیث صفحہ 83 طبع لاہور) مختار قادیانی نے اعتراض کیا کہ علماء بریلوی علماء دیوبند پر کفر کا فتوٰی دیتے ہیں اور علمائے دیوبند علمائے بریلوی پر، اس پر (انور شاہ) صاحب (کشمیری) نے فرمایا، میں بطور وکیل تمام جماعت دیوبند کی جانب سے گزارش کرتا ہوں کہ حضرات دیوبند ان (بریلویوں) کی تکفیر نہیں کرتے۔ (ملفوظات محدث کشمیری صفحہ 69 طبع ملتان، حیات انور شاہ صفحہ 323)(روزنامہ نوائے وقت لاہور 8 نومبر 1976ء، حیات امداد صفحہ 39) دیوبندی شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی دیوبند کے شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں مولانا احمد رضا خان کو تکفیر کے جرم میں بُرا کہنا بہت ہی بُرا ہے کیونکہ وہ بہت بڑے عالم اور بلند پایہء محقق تھے۔ مولانا احمد رضا خان کی رحلت عالم اسلام کا ایک بہت بڑا سانحہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ (رسالہ ہادی دیوبند صفحہ 20 ذوالحج 1369ھ بحوالہ سفید و سیاہ صفحہ 116، طمانچہ صفحہ 41۔ 42) مذید لکھتے ہیں ہم ان بریلویوں کو بھی کافر نہیں کہتے جو ہم کو کافر بتلاتے ہیں۔ (الشہاب صفحہ 20، تالیفات عثمانی صفحہ 522، طبع لاہور، حیات امداد صفحہ 39) مناظر دیوبند مرتضٰی حسن چاند پوری دیوبند کے مشہور مناظر اور ناظم تعلیمات دیوبند مولوی مرتضٰی حسن چاند پوری رقمطراز ہیں :۔بعض علمائے دیوبند کو خان بریلوی (احمد رضا) یہ فرماتے ہیں:۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں جانتے، چوپائے مجانین کے علم کو آپ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کے علم کے برابر کہتے ہیں۔ شیطان کے علم کو آپ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کے علم سے زائد کہتے ہیں، لٰہذا وہ کافر ہیں۔ تمام علمائے دیوبند فرماتے ہیں کہ خان صاحب کا یہ حکم بالکل صحیح ہے جو ایسا کہے وہ کافر ہے، مرتد ہے، ملعون ہے۔ لاؤ ہم بھی تمہارے فتوے پر دستخط کرتے ہیں بلکہ ایسے مرتدوں کو جو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے یہ عقائد بے شک کفریہ عقائد ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر (احمد رضا) خان صاحب کے نزدیک بعض علمائے دیوبند واقعی ایسے تھے۔ جیسا کہ انہوں نے انہیں سمجھا، تو خان صاحب پر ان علمائے دیوبند کی تکفیر فرض تھی اگر وہ ان کو کافر نہ کہتے تو وہ خود کافر ہو جاتے۔ (اشدالعذاب صفحہ 12، صفحہ 13 طبع دیوبند) دیوبندی شیخ الادب اعزاز علی دیوبند کے شیخ الادب مولوی اعزاز علی لکھتے ہیں جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، کہ ہم دیوبندی ہیں اور بریلوی علم و عقائد سے ہمیں کوئی تعلق نہیں۔ مگر اس کہ باوجود بھی یہ احقریہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ اس دور کے اندر اگر کوئی محقق اور عالم دین ہے۔ تو وہ احمد رضا خان بریلوی ہے کیونکہ میں نے مولانا احمد رضا خان کو جسے ہم آج تک کافر بدعتی اور مشرک کہتے رہے ہیں بہت وسیع النظر اور بلند خیال، علو ہمت، عالم دین صاحب فکر و نظر پایا ہے۔ آپ کے دلائل قرآن و سنت سے متصادم نہیں بلکہ ہم آہنگ ہیں۔ لٰہذا میں آپ کو مشورہ دوں گا اگر آ پ کو کسی مشکل مسئلہ جات میں کسی قسم کی الجھن درپیش ہو تو آپ بریلی میں جاکر مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی سے تحقیق کریں۔ (رسالہ النور تھانہ بھون صفحہ 40 شوال المکرم 1342ھ بحوالہ طمانچہ صفحہ 40 سفید و سیاہ صفحہ 114) دیوبندی فقیہہ العصر مفتی کفایت اللہ دہلوی دیوبندی مذہب کے فقہیہ العصر مفتی کفایت اللہ دہلوی کہتے ہیں اس میں کلام نہیں کہ مولانا احمد رضا خان کا علم بہت وسیع تھا۔ (ہفت روزہ ہجوم نئی دہلی امام احمد رضا نمبر، 2 دسمبر 1988ء صفحہ 6 کالم 4 بحوالہ سرتاج الفقہاء صفحہ 3) مفتیء اعظم دیوبند مفتی محمد شفیع (آف کراچی) دیوبند کے مفتی اعظم محمد شفیع دیوبندی آف کراچی لکھتے ہیں مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی کے متعلقین کو کافر کہنا صحیح نہیں ہے۔ (فتاوٰی دارالعلوم دیوبند ج2 صفحہ 142 طبع کراچی) یہی مفتی محمد شفیع اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مرید صادق اجمل العلماء حضرت علامہ مفتی محمد اجمل سنبھلی علیہ الرحمۃ کے رسالہ "اجمل الارشاد فی اصل حرف الضاد" پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ حامداً و مصلیاً اما بعد ! احقر نے رسالہ ھذا علاوہ مقدمات کے بتمامہا مطالعہ کیا اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اپنے موضوع میں بے نظیر رسالہ ہے خصوصاً حرف ضاد کی تحقیق بالکل افراط و تقریظ سے پاک ہے اور نہایت بہتر تحقیق ہے مؤلف علامہ نے متقدمین کی رائے کو اختیار فرما کر ان تمام صورتوں میں فساد صلوٰۃ کا حکم دیا ہے جن میں تغیر فاحش معنٰی میں ہو جاتا ہے۔ اس بارے میں احقر کا خیال بتعاًللا کابر یہ ہے کہ اپنے عمل میں تو متقدمین ہی کے قول کو اختیار کرنا چاہئیے۔ کتبہ :۔ احقر محمد شفیع غفرلہ خادم دارالافتاء دارالعلوم دیوبند یو۔پی۔ (ہند) (فتاوٰی دارالعلوم دیوبند ج2 ص 306) دیوبندی شیخ التفسیر محمد ادریس کاندھلوی دیوبند کے شیخ التفسیر مولوی محمد ادریس کاندھلوی کے متعلق دیوبندی عالم کوثر نیازی لکھتے ہیں : میں نے صحیح بخاری کا درس مشہور دیوبندی عالم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی۔۔۔۔۔۔۔۔ سے لیا ہے۔ کبھی کبھی اعلٰی حضرت (احمد رضا بریلوی) کا ذکر آ جاتا تو مولانا (ادریس) کاندھلوی فرمایا کرتے۔ مولوی صاحب (اور یہ مولوی صاحب ان کا تکیہ کلام تھا) مولانا احمد رضا خان کی بخشش تو انہی فتوؤں کے سبب سے ہو جائے گی۔ اللہ تعالٰی فرمائے گا۔ احمد رضا خان تمہیں ہمارے رسول سے اتنی محبت تھی کہ اتنے بڑے بڑے عالموں کو بھی تم نے معاف نہیں کیا۔ تم نے سمجھا، کہ انہوں نے توہین رسول کی ہے۔ تو ان پر بھی کفر کا فتوٰی لگا دیا۔ جاؤ اسی ایک عمل پر ہم نے تمہاری بخشش کر دی۔ (اعلٰی حضرت فاضل بریلوی ایک ہمہ جہت شخصیت، صفحہ7، روزنامہ جنگ لاہور 1990۔ 10۔ 03) کسی نے مولوی محمد ادریس کاندھلوی دیوبندی سے سوال کیا کہ ترمذی میں ایک حدیث آتی ہے۔ جس کی رو سے اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے۔ تو اس کا کفر خود کہنے والے پر لوٹتا ہے۔ بریلوی مکتب فکر والے بہت سے علماء دیوبند کو کافر کہتے ہیں۔ اس حدیث کی رو سے ان کا کفر خود بریلوی پر لوٹا اور وہ کافر ہوئے۔ اس پر مولانا ادریس کاندھلوی نے جواب دیا۔ ترمذی کی حدیث تو صحیح ہے۔ مگر آپ اس کا مطلب صحیح نہیں سمجھے، حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مسلمان دیدہ و دانستہ کافر کہے۔ تو اس کا کفر کہنے والے پر لوٹے گا۔ جن بریلوی علماء نے بعض دیوبندی علماء کو کافر کہا تو انہوں نے دیدہ دانستہ ایسا نہیں کہا۔ بلکہ ان کو غلط فہمی ہوئی۔ جس کی بناء پر انہوں نے ایسا کہا۔ انہوں نے منشا تکفیر یہ تجویز کیا کہ ان دیوبندی علماء نے آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی توہین کی ہے اگرچہ ان کا یہ خیال درست نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود دیوبندی علماء کا عقیدہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والا کافر ہے مگر چونکہ جن بریلوی علماء نے بعض دیوبندی علماء کی تکفیر اس بنیاد یعنی توہین رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے مزعومہ پر بربناء غلط فہمی کی ہے اس لئے یہ کفر ان (بریلوی) تکفیر کرنے والوں پر نہ لوٹے گا۔ ویسے بھی ہم (دیوبندی) جواباً ان (بریلوی) کی تکفیر کا طریقہ اختیار نہیں کرتے۔ (تذکرہ مولانا محمد ادریس کاندھلوی صفحہ 105) قارئین کرام ! ہم نے یہ حوالہ صرف دیوبندی اکابر کے بر اعلٰی حضرت فاضل بریلوی اور دوسرے علماء اہلسنت بریلوی کی عدم تکفیر کی وجہ سے نقل کیا ہے۔ باقی جہاں تک مسئلہ تکفیر میں اہلسنت کے علماء کو غلط فہمی ہونے اور نعوذ باللہ کسی مسلمان کو کافر کہنے کا مسئلہ ہے یہ کاندھلوی کی جہالت اور بد دیانتی ہے چند ایک کفریہ عبارات دیوبندی اکابر کی ہم گزشتہ صفحات میں نقل کر چکے ہیں۔ کوئی بھی مسلمان خالی الذہن ہو کر اگر ان عبارات کو پڑھے تو وہ دیوبندی علماء کے حق میں فیصلہ نہیں دے سکتا اور تھانوی نے بے ادبی کو ایمان اور ادب کو بے ایمانی کہا حوالہ گزر چکا ہے تو بتائیے ایک طرف تو یہ لوگ رسول کائنات نور مجسم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی مبارک شاہ رفیع میں گستاخیاں کرتے ہیں۔ دوسری طرف لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ان عبارات مذکورہ کا کفریہ و غلط ہونا دلائل قاہرہ سے ثابت ہے اور آج تک کسی دیوبندی مولوی و مناظر میں جراءت پیدا نہیں ہوئی کہ وہ میدان مناظرہ میں آکر اپنا ایمان ثابت کر سکے پھر یہ کس منہ سے ان عبارات کو اسلام قرار دیتے ہیں۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی ان عبارات کے متعلق خود یہی ادریس کاندھلوی صاحب لکھتے ہیں :۔ میں صراط مستقیم، براہین قاطعہ، حفظ الایمان، رسالہ الامداد اور مرثیہ محمود الحسن نامی کتابوں کے مصنفین اور علمائے دیوبند کا عقیدت مند ہوں لیکن ان کی عبارات میرے دل کو نہیں لگ سکی ہیں۔ (ماہنامہ تجلی دیوبند اگست دسمبر 1957ء بحوالہ دیوبندی مذہب صفحہ 574) ایسے دیگر دیوبندی علماء کے حوالے فقیر کے پاس ریکارڈ میں موجود ہیں غور کیجئے ادریس کاندھلوی کہتے ہیں۔ یہ عبارات دل کو بھی نہیں لگ سکتیں۔ مگر پھر بھی میں ان کا عقیدت مند ہوں گویا ان کا تعلق خدا کے محبوب، رسول رحمت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے نہیں بلکہ ان مولویوں سے ہے۔ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھتے ایسی بے وفائی کون کر سکتا ہے " صرف یہی دیوبندی وہابی !! اعلٰی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے اس قسم کی منافقانہ نمائشی کلمہ گوئی کے متعلق کیا خوب فرمایا ہے۔ ذیاب فی ثیاب لب پہ کلمہ دل میں گستاخیسلام اسلام ملحد کو کہ تسلیم زبانی ہے گویا یہ لوگ زبان سے تو کلمہ پڑھتے ہیں مگر دل کے کافر ہیں۔ جو ان کے اقرار سے بھی ثابت ہو گیا۔ باقی جہاں تک حدیث کی روشنی میں کسی مسلمان کو کافر کہنے کا تعلق ہے۔ تو واضح رہے کہ علمائے اہلسنت نے کبھی کسی مسلمان کو کافر نہیں کہا۔ بلکہ جو خود رسول کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شان رفیع میں توہین و تنقیص کریں ان کے کفر کی نشان دہی کی ہے جیسا کہ باحوالہ گزر چکا ہے اگر مسلمانوں کو کافر و مشرک کہنا ہی دیکھنا ہے تو دیوبندی اپنے بڑوں کی کتب تقویۃ الایمان، بہشتی زیور، فتاوٰی رشیدیہ اور جواہر القرآن دیکھ لیں اور شرم کریں اور ڈوب مریں۔ وہ قصے اور ہوں گے جن کو سن کر نیند آتی ہےتڑپ اٹھو گے کانپ اٹھو گے سن کر داستان اپنی سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:۔ اس احقر نے مولانا احمد رضا صاحب بریلوی کی چند کتابیں دیکھیں تو میری آنکھیں خیرہ کی خیرہ ہو کر رہ گئیں، حیران تھا کہ واقعی مولانا بریلوی صاحب مرحوم کی ہیں جن کے متعلق کل تک یہ سنا تھا کہ وہ صرف اہل بدعت کے ترجمان ہیں اور صرف چند فروعی مسائل تک محدود ہیں مگر آج پتا چلا، کہ نہیں ہرگز نہیں یہ اہل بدعت کے نقیب نہیں بلکہ یہ تو عالم اسلام کے اسکالر اور شاہکار نظر آتے ہیں۔ جس قدر مولانا مرحوم کی تحریروں میں گہرائی پائی جاتی ہے اس قدر گہرائی تو میرے استاد مکرم جناب مولانا شبلی صاحب اور حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور حضرت مولانا محمودالحسن صاحب دیوبندی اور حضرت مولانا شیخ التفسیر علامہ شبیر احمد عثمانی کی کتابوں کے اندر بھی نہیں جس قدر مولانا بریلوی کی تحریروں کے اندر ہے۔ (ماہنامہ ندوہ اگست 1931ء صفحہ 17 بحوالہ طمانچہ ص 36، 35 سفید و سیاہ صفحہ 112) شبلی نعمانی دیوبندی شبلی نعمانی دیوبندی لکھتے ہیں :۔ مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی جو اپنے عقائد میں سخت ہی متشدد ہیں مگر اس کے باوجود مولانا صاحب کا علمی شجر اس قدر بلند درجہ کا ہے کہ اس دور کے تمام عالم دین اس مولوی احمد رضا خان صاحب کے سامنے پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس احقر نے بھی آپ کی متعدد کتابیں دیکھیں ہیں۔ (رسالہ ندوہ اکتوبر 1914ء صفحہ 17 بحوالہ طمانچہ صفحہ 34) مولوی ابو الحسن مولوی ابو الحسن دیوبندی لکھتے ہیں :۔ فقہ حنفی اور اس کی جزئیات پر جو ان (فاضل و محدث بریلوی) کو عُبور حاصل تھا۔ اس زمانہ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ (نزہت الخواطر، ج8، صفحہ 41 حیدرآباد) عبدالحئی رائے بریلوی عبدالحئی لکھتے ہیں :۔ (محدث بریلوی نے) عُلوم پر مہارت حاصل کرلی اور بہت سے فُنون بالخصوص فقہ و اُصول میں اپنے ہم عصر علماء پر فائق ہو گئے۔ (نزہتہ الخواطر، ج8 صفحہ 38 ) معین الدین ندوی لکھتے ہیں :۔ مولانا احمد رضا خان مرحوم صاحب علم و نظر مصنفین میں سے تھے۔ دینی علوم خصوصاً فقہ و حدیث پر ان کی نظر وسیع اور گہری تھی مولانا نے جس وقت نظر اور تحقیق کے ساتھ علماء کے استفسارات کے جوابات تحریر فرمائے اس سے ان کی جامعیت علمی بصیرت قرآنی استحضار ذہانت اور طباعی کا پورا پورا اندازہ ہوتا ہے ان کے عالمانہ محققانہ فتاوٰی مخالف و موافق ہر طبقہ کے مطالعہ کے لائق ہیں۔ (ماہنامہ معارف اعظم گڑھ ستمبر 1949ء بحوالہ سفید و سیاہ ص 114، 115) عبدالماجد دریا آبادی دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مولوی عبدالماجد دریا آبادی نے اعلٰی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کے خلیفہ مولانا عبدالعلیم میرٹھی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ اور یوں کہا کہ انصاف کی عدالت کا فیصلہ یہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا عبدالعلیم میرٹھی مرحوم و مغفور نے اس گروہ(بریلوی) کے ایک فرد ہو کر بیش بہا تبلیغی خدمات انجام دیں۔ (ہفت روزہ صدق جدید لکھنئو 25، اپریل 1956ء بحوالہ سوئے منزل راولپنڈی اپریل 1982ء 57) سعید احمد اکبر آبادی دیوبندی مشہور عالم سعید احمد اکبر آبادی لکھتے ہیں:۔ مولانا احمد رضا صاحب بریلوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک زبردست صلاحیت کے مالک تھے ان کی عبقریب کا لوہا پورے ملک نے مانا۔ (ماہنامہ برہان دہلی اپریل 1974ء بحوالہ امام احمد رضا اور رَد بدعات و منکرات صفحہ 34) زکریا شاہ بنوری دیوبندی مولوی محمد یوسف بنوری آف کراچی کے والد زکریا شاہ بنوی دیوبندی نے کہا اگر اللہ تعالٰی ہندوستان میں (مولانا) احمد رضا بریلوی کو پیدا نہ فرماتا تو ہندوستان میں حنفیت ختم ہو جاتی۔(بحوالہ سفید و سیاہ صفحہ 116) حسین علی واں بھچروی دیوبندی مذہب کے شیخ القرآن غلام اللہ خان، دیوبندی محدث سرفراز گکھڑوی کے استاد اور دیوبندی قطب رشید احمد گنگوہی کے شاگرد مولوی حسین علی نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے یہ بریلی والا (احمد رضا) پڑھا لکھا تھا علم والا تھا۔ (ماہنامہ الفرقان لکھنئو ستمبر 1987ء صفحہ 73) غلام رسول مہر مشہور متعصب وہابی مؤرخ مولوی غلام رسول مہر لکھتے ہیں :۔ احتیاط کے باوجود نعت کو کمال تک پہنچانا واقعی اعلٰی حضرت (بریلوی) کا کمال ہے۔ ( 1857ء کے مجاہد صفحہ 211) ماہر القادری جماعت اسلامی (مودودی گروپ) کے مشہور شاعر ماہر القادری لکھتے ہیں:۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی مرحوم دینی علوم کے جامع تھے دینی علم و فضل کے ساتھ شیوہ بیان شاعر بھی تھے۔ اور ان کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ مجازی راہ سخن سے ہٹ کر صرف نعت رسول کو اپنے افکار کا موضوع بنایا۔ مولانا احمد رضا خان کے چھوٹے بھائی مولانا حسن رضا خان بہت بڑے خوش گو شاعر تھے اور مرزا داغ سے نسبت تلمذ رکھتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خان کی نعتیہ غزل کا یہ مطلع وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیںتیرے دن اے بہار پھرتے ہیں جب استاد مرزا داغ کو حسن بریلوی نے سنایا تو داغ نے بہت تعریف کی اور فرمایا کہ مولوی ہو کر اچھے شعر کہتا ہے۔ (ماہنامہ فاران کراچی ستمبر 1973ء) ایک اور شمارے میں لکھتے ہیں:۔ مولانا احمد رضا بریلوی نے قرآن کا سلیس رواں ترجمہ کیا ہے۔۔ ۔ ۔ ۔ مولانا صاحب نے ترجمہ میں بڑی نازک احتیاط برتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مولانا صاحب کا ترجمہ خاصا اچھا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ترجمہ میں اردو زبان کے احترام پسندانہ اسلوب قائم رہے۔(ماہنامہ فاران کراچی مارچ 1976ء) عظیم الحق قاسمی عظیم الحق قاسمی فاضل دیوبند لکھتے ہیں :۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو اس بات کا علم ہو کہ (مدرسہ) دیوبند میں اعلٰی حضرت یا ان سے تعلق رکھنے والے رسائل و کتب نہیں پہنچتے، نہ ہی وہاں طلبہ کا اجازت ہوتی ہے۔ بلکہ دیکھنا جرم سے کم نہیں۔ میں بھی وہیں (دارالعلوم دیوبند) کا فراغ التحصیل ہوں، وہاں سے مجھ کو بریلویوں سے نفرت ان کی کتابوں سے عداوت دل میں پرورش پائی، اس لئے میں کبھی ان کی کتب سے استفادہ نہیں کر سکا۔ قاری چونکہ نیا رسالہ ہے اور ظاہراً یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ بریلویوں کا رسالہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سبب سے میں نے قاری کا مطالعہ کیا اور (مولانا احمد رضا) فاضل بریلوی نے شمع رسالت کی جو ضیاء پاشی کی ہے۔ اس کا ادنٰی حصہ پہلی مرتبہ "قاری" کے ذریعے نظر نواز ہوا جس نے میرے دل کی دنیا کو بدل ڈالا۔ ابھی تو صرف ایک فتوٰی نے اعلٰی حضرت کے عشق رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا مجھ کو معترف کر دیا یہ پورا فتوٰی حب رسول کا ایک گلدستہ ہے میں اپنے دل کے حالات ان لفظوں میں بیان کروں گا، کہ اگر ہمارے علماء دیوبند تنگ نظری اور تعصب کو ہٹا دیں تو شاید مولانا اسماعیل سے لیکر ہنوز سب فاضل بریلوی کے شاگردوں کی صفت میں نظر آئیں گے۔ (ماہنامہ قاری دہلی اپریل 1988ء ) احسن نانوتوی دیوبندی مولوی احسن نانوتوی نے مولانا تقی علی خان (والد گرامی اعلٰی حضرت فاضل بریلوی) کو عیدگاہ بریلی سے پیغام بھجوایا کہ میں نماز پڑھنے کے لئے آیا ہوں پڑھانا نہیں چاہتا۔ آپ تشریف لائیے جسے چاہے امام کر لیجئے۔ میں اس کی اقتداء میں نماز پڑھوں گا۔ (مولانا احسن نانوتوی صفحہ 87، طبع کراچی) نوٹ :۔ اس کتاب پر مشہور دیوبندی کی تصدیقات موجود ہیں۔ جن میں مفتی محمد شفیع آف کراچی اور قاری طیب دیوبندی شامل ہیں۔ ابو الکلام آزاد وہابیہ دیوبندیہ کے مذہب کے امام ابو الکلام آزاد نے کہا۔ مولانا احمد رضا خان ایک سچے عاشق رسول گزرے ہیں، میں تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ان سے توہین نبوت ہو۔ (بحوالہ امام احمد رضا ارباب علم و دانش کی نظر میں صفحہ 96) فخر الدین مراد آبادی مولوی فخر الدین مراد آبادی دیوبندی نے کہا، کہ :۔ مولانا احمد رضا خان سے ہماری مخالفت اپنی جگہ تھی مگر ہمیں ان کی خدمت پر بڑا ناز ہے۔ غیر مسلموں سے ہم آج تک بڑے فخر کے ساتھ یہ کہہ سکتے تھے کہ دنیا بھر کے علوم اگر کسی ایک ذات میں جمع ہو سکتے ہیں۔ تو وہ مسلمان ہی کی ذات ہو سکتی ہے۔ دیکھ لو مسلمانوں ہی میں مولوی احمد رضا خان کی ایسی شخصیت آج بھی موجود ہے جو دنیا بھر کے علوم میں یکساں مہارت رکھتی ہے ہائے افسوس کہ آج ان کے دم کے ساتھ ہمارا فخر بھی رخصت ہو گیا۔ (بحوالہ سفید و سیاہ صفحہ 116) عبدالباقی دیوبندی صوبہ بلوچستان کے دیوبندی مذہب کے مشہور عالم مولوی عبدالباقی جناب پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد صاحب کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :۔ واقعی اعلٰی حضرت مفتی صاحب قبلہ اسی منصب کے مالک ہیں۔ مگر بعض حاسدوں نے آپ کے صحیح حلیہ اور علمی تبحر طاق نسیان میں رکھ کر آپ کے بارے میں غلط اوہام پھیلا دیا ہے جس کو نا آشنا قسم کے لوگ سن کر صید وحشی کی طرح متنفر ہو جاتے ہیں اور ایک مجاہد عالم دین مجدد وقت ہستی کے بارے میں گستاخیاں کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ علمیت میں وہ ایسے بزرگوں کے عشر عشیر بھی نہیں ہوں گے۔(فاضل بریلوی علماء حجاز کی نظر میں صفحہ 17) عطاء اللہ شاہ بخاری تحریک ختم نبوت کے دوران قاسم باغ ملتان کے ایک جلسہ میں دیوبندی امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری نے کہا، کہ :۔ بھائی بات یہ ہے کہ مولانا احمد رضا خان صاحب قادری کا دماغ عشق رسول سے معطر تھا اور اس قدر غیور آدمی تھے کہ ذرہ بربار بھی توہین الوہیت و رسالت کو برداشت نہیں کر سکتے تھے پس جب انہوں نے ہمارے علماء دیوبند کی کتابیں دیکھیں تو ان کی نگاہ علماء دیوبند کی بعض ایسی عبارات پر پڑی کہ جن میں سے انہیں توہین رسول کی بُو آئی، اب انہوں نے محض عشق رسول کی بناء پر ہمارے ان دیوبندی علماء کو کافر کہہ دیا اور وہ یقیناً اس میں حق بجانب ہیں۔ اللہ تعالٰی کی ان پر رحمتیں ہوں آپ بھی سب مل کر کہیں مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سامعین سے کئی مرتبہ رحمۃ اللہ علیہ کے دعائیہ الفاظ کہلوائے۔ (ماہنامہ جناب عرض رحیم یار خان غزالی دوراں نمبر جلد1 شمارہ 10، 1990ء، ص 46۔ 245) محمد شریف کشمیری خیرالمدارس ملتان کے صدر مدرس دیوبندی شیخ المعقولات مولوی محمد شری کشمیری نے مفتی غلام سرور قادری کو ایک مباحثہ میں مخاطب کرکے کہا کہ‌ :۔ تمہارے بریلویوں کے بس ایک عالم ہوئے ہیں اور وہ مولانا احمد رضا خان، ان جیسا عالم میں نے بریلویوں میں نہ دیکھا ہے اور نہ سنا ہے وہ اپنی مثال آپ تھا اس کی تحقیقات علماء کو دنگ کر دیتی ہیں۔ (الشاہ احمد رضا بریلوی ص 82 طبع مکتبہ فریدیہ ساہیوال) مفتی محمود دیوبندی جمعیت علماء اسلام کے بڑے مشہور دیوبندی عالم مفتی محمود نے کہا کہ میں اپنے عقیدت مندوں پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر انہوں نے بریلوی حضرات کے خلاف کوئی تقریر یا ہنگامہ کیا تو میرا ان سے کوئی تعلق نہیں رہے گا اور میرے نزدیک ایسا کرنے والا نظام مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا دشمن ہو گا۔ (روزنامہ آفتاب ملتان، مارچ 1979ء) ایک صاحب دیوبندی مذید لکھتے ہیں :۔ لائق صد احترام اساتذہ (دیوبندی) میں سے کسی نے بھی تو دوران اسباق بریلوی مکتب فکر سے نفرت کا اظہار نہیں کیا۔ مفتی (محمود) صاحب نے فرمایا میرے اکابرین نے اس (بریلوی) فرقہ پر کوئی فتوٰی فسق کے علاوہ کا نہیں دیا میرا بھی یہی خیال ہے۔ (سیف حقانی صفحہ 79) بانی تبلیغی جماعت محمد الیاس تبلیغی جماعت کے بانی مولوی الیاس کے متعلق محمد عارف رضوی لکھتے ہیں:۔ کراچی میں ایک عالم دین نے جن کا تعلق مسلک دیوبند سے تھا۔ فرمایا تھا، کہ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس صاحب فرماتے تھے۔ اگر کسی کو محبت رسول سیکھنی ہو تو مولانا (احمد رضا) بریلوی سے سیکھے۔ (بحوالہ امام احمد رضا فاضل بریلوی اور ترک موالات صفحہ 100) حافظ بشیر احمد غازی آبادی لکھتے ہیں:۔ ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ حضرت فاضل بریلوی نے نعت رسول مقبول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں شریعت کی احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا، یہ سراسر غلط فہمی ہے جس کا حقائق سے دور کا بھی تعلق نہیں ہم اس غلط فہمی کی صحت کے لئے آپ کی ایک نعت نقل کرتے ہیں، فرماتے ہیں۔ سرور کہوں کہ مالک و مولا کہوں تجھےباغ خلیل کا گل زیبا کہوں تجھے بعد از خدا بزرگ تو ہی قصہ مختصر کی کیسی فصیح و بلیغ تائید ہے جتنی بار پڑھئیے کہ "خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے" دل ایمانی کیفیت سے سرشار ہوتا چلا جائے گا۔ (ماہنامہ عرفات لاہور، اپریل 1970ء صفحہ 31۔ 30) عبدالقدوس ہاشمی دیوبندی سید الطاف علی کی روایت کے مطابق مولوی عبدالقدوس ہاشمی دیوبندی نے کہا کہ قرآن پاک کا سب سے بہتر ترجمہ مولانا احمد رضا خان کا ہے جو لفظ انہوں نے ایک جگہ رکھ دیا ہے اس سے بہتر لفظ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ (خیابان رضا صفحہ 121، طبع لاہور) ابو الاعلی مودودی جماعت اسلامی کے بانی مولوی مودودی لکھتے ہیں:۔ مولانا احمد رضا خان صاحب کے علم و فضل کا میرے دل میں بڑا احترام ہے فی الواقع وہ علوم دینی پر بڑی نظر رکھتے تھے۔ اور ان کی فضیلت ان لوگوں کو بھی ہے جو ان سے اختلاف رکھتے ہیں۔ نزاعی مباحث کی وجہ سے جو تلخیاں پیدا ہوئیں وہی دراصل ان کے علمی کمالات اور دینی خدمات پر پردہ ڈالنے کی موجب ہوئیں۔(ہفت روزہ شہاب 25 نومبر 1962ء بحوالہ سفید و سیاہ صفحہ 112) ملک غلام علی مودودی جماعت کے ذمہ دار فرد اور خود مودودی کے مشیر جسٹس ملک غلام علی لکھتے ہیں:۔حقیقت یہ ہے کہ مولانا احمد رضا خان صاحب کے بارے میں اب تک ہم لوگ سخت غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں۔ ان کی بعض تصانیف اور فتاوٰی کے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جو علمی گہرائی میں نے ان کے یہاں پائی وہ بہت کم علماء میں پائی جاتی ہے اور عشق خدا اور رسول تو ان کی سطر سطر سے پھوٹا پڑتا ہے۔ (ارمغان حرم لکھنئو صفحہ14 بحوالہ سفید و سیاہ صفحہ 114) خیل العلماء مولانا خلیل اشرف صاحب علیہ الرحمۃ نے یہی عبارت مودودی کا قول میں لکھی ہے۔(ہفت روزہ شہاب 25 نومبر 1962ء بحوالہ طمانچہ صفحہ 42) منظور الحق جماعت اسلامی کے مشہور صحافی منظور الحق لکھتے ہیں:۔ جب ہم امام موصوف (فاضل بریلوی) کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص اپنی علمی فضیلت اور عبقریت کی وجہ سے دوسرے علماء پر اکیلا ہی بھاری ہے۔ (ماہنامہ حجاز جدید نئی دہلی جنوری 1989ء، صفحہ 54 بحوالہ سفید و سیاہ صفحہ 117) جعفر شاہ پھلواری لکھتے ہیں:۔ جناب فاضل بریلوی علوم اسلامیہ تفسیر حدیث و فقہ پر عبور رکھتے تھے منطق فلسفے اور ریاضی میں بھی کمال حاصل تھا۔ عشق رسول کے ساتھ ادب رسول میں اتنے سرشار تھے کہ ذرا بھی بے ادبی برداشت نہ تھی، کسی بے ادبی کی معقول توجیہہ اور تاویل نہ ملتی، تو کسی اور رعایت کا خیال کئے بغیر اور کسی بڑی سے بڑی شخصیت کی پرواہ کئے بغیر دھڑلے سے فتوٰی لگا دیتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہیں حُب رسول (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) میں اتنی زیادہ فسطائیت حاصل تھی کہ غلو کا پیدا ہو جانا بعید نہ تھا۔ تقاضائے ادب نے انہیں بڑا احساس بنا دیا تھا اور اس احساس میں جب خاصی نزاکت پیدا ہو جائے تو مزاج میں سخت گیری کا پہلو بھی نمایاں ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں، اگر بعض بے ادبانہ کلمات کو جوش توحید پر محمول کیا جا سکتا ہے تو تکفیر کو بھی محبت و ادب کا تقاضا قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لئے فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو میں اس معاملے میں معذور سمجھتا ہوں لیکن یہ حق صرف اس کے لئے مخصوص جانتا ہوں جو فاضل موصوف (محدث بریلوی) کی طرح فنافی الحب والا ادب ہو۔(بحوالہ سفید و سیاہ صفحہ 116۔ 115) مفتی انتظام اللہ شہابی لکھتے ہیں :۔ حضرت مولانا احمد رضا خان مرحوم اس عہد کے چوٹی کے عالم تھے۔ جزئیات فقہ میں ید طولٰی حاصل تھا۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ کلام مجید (کنزالایمان) اور فتاوٰی رضویہ وغیرہ کا مطالعہ کر چکا ہوں، مولانا کا نعتیہ کلام پُر اثر ہے۔ میرے دوست ڈاکٹر سراج الحق پی ایچ ڈی تو مولانا کے کلام کے گرویدہ تھے اور مولانا کو عاشق رسول سے خطاب کرتے ہیں۔ مولانا کو دینی معلومات پر گہری نظر تھی۔ (مقالات یوم رضا ج2 صفحہ 70 طبع لاہور) عامر عثمانی دیوبندی ماہنامہ تجلی دیوبند کے ایڈیٹر عامر عثمانی لکھتے ہیں :۔ مولانا احمد رضا خان اپنے دور کے بڑے عالم دین اور مدبر تھے۔ گو انہوں نے علمائے دیوبند کی تکفیر کی مگر اس کے باوجود بھی ان کی علمیت اور تدبر و افادیت بہت بڑی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جو بات ان کی تحریروں میں پائی جاتی ہے وہ بہت ہی کم لوگوں میں ہے کیونکہ ان کی تحریریں علمی و فکری صلاحیتوں سے معمور نظر آتی ہیں۔(ماہنامہ ہادی دیوبند صفحہ 17 محرم الحرام 1360ھ بحوالہ طمانچہ صفحہ 41) حماد اللہ بالیجوی دیوبندی کہتے ہیں :۔ ان (بریلویوں) کی برائی میری مجلس میں ہرگز نہ کرو وہ حب رسول ہی کی وجہ سے ہمارے (دیوبندیوں کے) متعلق غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔(ہفت روزہ خدام الدین لاہور 11 مئی 1962ء) خیرالمدارس ملتان سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے اہل سنت و الجماعت دریں امرکہ مسائل متنازعہ فیہا مابین الدیوبندیہ و بریلویہ میں علماء بریلوی اور ان کے ہم عقیدہ لوگوں کو کافر کہنا صحیح ہے یا نہیں " اگر صحیح نہیں تو پھر ایک جماعت کثیرہ علماء کی جو کہ اپنے آپ کو علمائے دیوبند کی طرف منسوب کرتی ہے اور اپنی تحریر و تقریر میں اس امر کی تشریح کرتی ہے کہ ایسے عقیدے (بریلوی) لوگ پکے کافر ہیں۔ ان کا کوئی نکاح نہیں، جو ایسے عقیدہ والوں کو ان کے عقیدہ پر مطلع ہونے کے باوجود کافر نہ کہے، انہیں بھی ایسا ہی کافر کہتی ہے کیا علماء دیوبند اس امر میں متفق ہیں یا نہیں، الخ الجواب: جو لوگ اہل بدعت (بریلوی) (بزعم دیوبندی) کو کافر کہتے ہیں، یہ ان کا ذاتی مسلک ہے۔ تکفیر مبتدعہ (بریلویہ) کو علماء دیوبند کی طرف منسوب کرنا۔ بہتان صریح ہے۔ حضرات علماء دیوبند کا مسلک ان کی تصنیفات اور رسائل سے واضح رہے۔ انہوں نے ہمیشہ مسائل تکفیر مسلم کے بارہ میں کافی احتیاط سے کام لیا ہے۔ مرزائیت اور روافض کے علاوہ اہل بدعت (بریلوی) (بزعم دیوبندی) کو انہوں نے کافر نہیں کہا۔ (خیرالفتاوٰی ج1 صفحہ 148 طبع ملتان) مفتی اعظم دیوبند مفتی عزیز الرحمٰن سوال: احمد رضا خان بریلوی کے معتقد سے کسی اہل سنت حنفی کو اپنی لڑکی کا نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟ الجواب: نکاح تو ہو جاوے گا کہ آخر وہ بھی مسلمان ہے۔ الخ(فتاوٰی دارالعلوم دیوبند، ج7 صفحہ 157 طبع ملتان) منظور احمد نعمانی مشہور دیوبندی مناظر اسلام مولوی منظور نعمانی کہتے ہیں:۔میں ان کی کتابیں دیکھنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ بے علم نہیں تھے۔ بڑے ذی علم تھے۔ (بریلوی فتنہ کا نیا روپ صفحہ 16 طبع لاہور) ابو الاوصاف رومی دیوبندی مولوی ابو الاوصاف رومی دیوبندی نے حضور اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کے خلاف بکواسات و ہفوات کا مجموعہ کتاب "دیوبند سے بریلی تک" لکھی ہے۔ مگر خدا کی قدرت دیکھئے کہ اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کو خدا و رسول اور خصوصاً صحابہ کرام کا گستاخ ثابت کرنے کی کوشش ناکام کی ہے مگر پھر بھی لکھنے پر مجبور ہے:۔ حضرات اکابر دیوبند فاضل بریلوی کی تکفیر نہیں فرماتے تھے۔ (دیوبند سے بریلی تک صفحہ 102 طبع لاہور) ہم نے مانا فاضل بریلی کو ان عرب علماء سے بھی اجازت و سند شاید مل گئی ہو۔ (دیوبند سے بریلی تک صفحہ 113) مولوی محمد فاضل مولوی محمد فاضل بزعم خود اور اپنی مولوی فاضل کی حیثیت کے مطابق پاگل ہے نے بھی حضور سیدی اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کے خلاف بکواسات اور جھوٹ کا پلندہ کتاب "پاگلوں کی کہانی" لکھی ہے۔ اس میں حضور سیدی اعلٰی حضرت علیہ الرحمۃ کے والد گرامی مولانا تقی علی خان علیہ الرحمۃ کے متعلق لکھنے پر مجبور ہے۔ مجدد بدعات (بزعم مولوی پاگل) کے والد ماجد مولانا محمد تقی علی صاحب قدس سرہ بہت بڑے بزرگ اور صاحب تصانیف کثیرہ ہیں۔ بڑے صحیح العقیدہ بزرگوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ (پاگلوں کی کہانی صفحہ 67 طبع لاہور) الفضل ما شھدت بہ الاعداء آج کل دیوبندی حضور اعلٰی حضرت علیہ الرحمۃ کے والد گرامی مولانا تقی علی کے مبارک نام سے اعلٰی حضرت اور آپ کے والدین کو نعوذ باللہ شیعہ ثابت کرنے کی ناکام و ناپاک کوشش کرتے ہیں۔ مشہور دیوبندی مولوی ڈاکٹر خالد محمود وغیرہ نے مطالعہ بریلویت اور دوسری کتابوں میں یہ شور برپا کر رکھا ہے کہ تقی علی نام شیعہ والا ہے۔ لٰہذا وہ شیعہ تھے۔ مگر اب تو ان کے ایک بڑے نے اعلٰی حضرت کے والد گرامی کی عظمت کو تسلیم کر لیا ہے۔ بتاؤ کہ کیا تمہارے بڑے نے ایک شیعہ کی تعریف کی ہے۔ دیوبندیوں کو ڈوب مرنا چاہئیے۔ ع الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میںلو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا دیوبند کا ادارہ تحقیق کتاب و سنت سیالکوٹ کی طرف سے کتاب شائع ہوئی ہے جس میں واضح لکھا ہے، اعلٰی حضرت الشاہ احمد رضا خان صاحب بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔"(ندائے حق صفحہ 4) ایک آیت کریمہ کا ترجمہ نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: خان صاحب بریلوی نے حق و صداقت پر مبنی یہ ترجمہ فرمایا۔ (ندائے حق صفحہ 197 بحوالہ ماہنامہ رضائے مصطفٰے گوجرنوالہ اکتوبر 1986ء ) وہابی ترجمان ہفت روزہ الاعتصادم لاہور میں لکھا ہے :۔ فاضل بریلوی نے ترجمہ اور ترجمانی کی درمیانی راہ اختیار کی اور ان کی تمام تر توجہ اس امر پر رہی کہ قرآن مجید کے ان بعض الفاظ جو عربی اور اردو زبان میں مختلف مفہوم رکھتے ہیں کا ایسا ترجمہ کیا جائے کہ غیر مسلم ان پر جو اعتراض کرتے ہیں اس کی نوبت ہی نہ آئے بلاشبہ بعض الفاظ کے ترجمہ کی حد تک وہ (فاضل بریلوی) کامیاب بھی رہے۔(ہفت روزہ الاعتصادم لاہور 22 ستمبر 1989ء بحوالہ رضائے مصطفٰے دسمبر 1989ء ) ابو سلیمان اور ابو الکلام آزاد ابو سلیمان شاہجہان پوری لکھتے ہیں :۔ مولانا (احمد رضا بریلوی) مرحوم بڑے ذہین اور الطباع تھے فکر و عقائد میں ایک مخصوص رنگ کے عالم تھے اور زندگی کے روایتی طریقے کو پسند کرتے تھے۔ عوام میں آپ کے عقائد کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ حتٰی کہ آپ کی نسبت سے بریلوی اور بریلویت کے الفاظ ایک طبقہ خیال اور مسلک خاص کے لئے عام طور پر استعمال کئے جانے لگے۔ مولانا بریلوی ایک اچھے نعت گو تھے۔ سیرت نبوی سیرت اصحاب و اہل بیت تذکار اولیائے کرام تفسیر حدیث فقہ نیز مسائل نزاعیہ وغیرہ میں آپ کی تصنیفات و تالیفات ہیں۔مولانا آزاد (ابوالکلام آزاد) اور مولانا احمد رضا خاں میں کسی قسم کے ذاتی یا علمی تعلقات نہ تھے لیکن مولانا آزاد بایں ہمہ (مولانا احمد رضا خان کے ان کے والد خیرالدین سے تعلقات تھے) بے حد احترام کرتے تھے۔ (مکاتیب ابولکلام آزاد صفحہ 313) کوثر نیازی دیوبندی لکھتے ہیں :۔ بریلی میں ایک شخص پیدا ہوا جو نعت گوئی کا امام تھا اور احمد رضا خان بریلوی اس کا نام تھا ان سے ممکن ہے بعض پہلوؤں میں لوگوں کو اختلاف ہو۔ عقیدوں میں اختلاف ہو۔ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ عشق رسول ان کی نعتوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ (کوثر نیازی بحوالہ تقریب اشاعت ارمغان نعت کراچی صفحہ 29، 1957ء) مذید لکھتے ہیں۔ بریلوی مکتب فکر کے امام مولانا احمد رضا خان بریلوی بھی بڑے اچھے واعظ تھے ان کی امتیازی خصوصیت ان کا عشق رسول ہے جس میں سرتاپا ڈوبے ہوئے تھے۔ چنانچہ ان کا نعتیہ کلام بھی سوز و گداز کی کیفیتوں کا آئینہ دار ہے اور مذہبی تقریبات میں بڑے ذوق و شوق اور احترام سے پڑھا جاتا ہے۔ (انداز بیان ص 90۔ 89 ) دیوبندی مولوی کوثر نیازی نے اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کے متعلق ایک تفصیلی مضمون قلمبند کیا ہے جو روزنامہ جنگ لاہور میں شائع ہوا۔ وہابی ترجمان ہفت روزہ الاسلام لاہور لکھتا ہے :۔ ہمیں ان (فاضل بریلوی) کی ذہانت و فطانت سے انکار نہیں ہے ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ بالکل اوائل عمر میں ہی علوم درسیہ سے فارغ التحصیل ہو کر مسند درس و افتاد کی زینت بن گئے تھے۔ (ہفت روزہ الاسلام لاہور 23 جنوری 1976ء بحوالہ رضائے مصطفٰے اپریل 1976ء) وہابی ترجمان ہفت روزہ الاعتصادم لاہور لکھتا ہے :۔ بریلوی کا ذبیحہ حلال ہے کیونکہ وہ اہل قبلہ مسلمان ہے۔ (ہفت روزہ الاعتصادم لاہور 20 نومبر 1959ء بحوالہ رضائے مصطفٰے فروری 1976ء) ہفت روزہ خدام الدین لاہور دیوبندی ترجمان لکھتا ہے :۔ فتاوٰی رضویہ از مولانا امام احمد رضا خان بریلوی (ہفت روزہ خدام الدین لاہور 7 ستمبر 1962ء بحوالہ رضائے مصطفٰے 1976ء) وہابی ترجمان المنبر لائل پور لکھتا ہے :۔ مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کے ترجمہ (قرآن، کنزالایمان) کو اعلٰی مقام حاصل ہے۔ (المنبرلائل پور 6 صفرالمظفر 1386ھ بحوالہ رضائے مصطفٰے فروری 1976ء) محمد متین خالد دیوبندی مذہب کی تنظیم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے محمد متین خالد لکھتے ہیں:۔ اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی مقتدر علماء روزگار سے تھے۔ مختلف موضوعات پر ان کی تقریباً ایک ہزار کے قریب تصانیف بیش بہا علمی ورثے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بالخصوص فتاوٰی رضویہ موجودہ دور کا علمی شاہکار ہے۔ اعلٰی حضرت کی پوری زندگی عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عبارت تھی۔ عشق رسول کی لازوال دولت نے ہی ان کی نعتیہ شاعری کو فکر و فن کی بلندیوں پر پہنچایا ہے۔ اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی شرک و بدعت کے خلاف شمشیر بے نیام تھے ایک سازش کے تحت ان کی اصل تعلیمات کو قفل لگا کر عوام الناس سے ہمیشہ کے لئے چھپا دیا گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جب بھی ان کی اصل تعلیمات کو بیان کیا جاتا ہے تو آدمی ششدر رہ جاتا ہے کہ کیا واقعی یہ اعلٰی حضرت کا فرمان ہے اس لحاظ سے مولانا احمد رضا خان بریلوی کی شخصیت بے حد مظلوم ہے بااثر سو مناتی علماء سو اور ابن الوقت مشائخ اعلٰی حضرت کے کندھے پر اپنی ذاتی اغراض اور دنیاوی مفادات کی بندوق رکھ کر بدعات کی ایمان شکن گولیاں چلاتے رہتے ہیں اور پھر زہریلے پراپیگنڈے کے ذریعے اس کا الزام اعلٰی حضرت پر تھوپ دیا جاتا ہے۔ (عاشق مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم امام احمد رضا اور حدائق بخشش صفحہ 6 تا 7) ماہنامہ معارف اعظم گڑھ مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی اپنے وقت کے زبردست عالم و مصنف اور فقہیہ تھے۔ انہوں نے چھوٹے بڑے سینکڑوں فقہی مسائل سے متعلق رسالے لکھے ہیں قرآن کا سلیس ترجمہ بھی کیا ہے۔ ان علمی کارناموں کے ساتھ ہزارہا فتوؤں کے جواب بھی انہوں نے دئیے ہیں۔ فقہ اور حدیث پر ان کی نظر بڑی وسیع ہے۔ (ماہنامہ معارف (ندوی) اعظم گڑھ فروری 1962ء بحوالہ رضائے مصطفٰے مئی 1982ء ) مفتی ابو البرکات وہابیہ کے احسان الٰہی ظہیر وغیرہ کے استاد مولوی ابو البرکات احمد لکھتے ہیں :۔ بریلوی کا ذبیحہ حلال ہے کیونکہ وہ اہل قبلہ مسلمان ہیں۔ (فتاوٰی برکاتیہ صفحہ 178 طبع گوجرانوالہ) ثناءاللہ امرتسری وہابیہ کے شیخ الاسلام ثناءاللہ امرتسری لکھتے ہیں :۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی مرحوم مجدد ماتہء حاضرہ۔ (فتاوٰی ثنائیہ/ ج1 صفحہ 64۔ 263 طبع لاہور) وہابیہ کے شیخ الاسلام ثناءاللہ امرتسری مذید لکھتے ہیں :۔ امرتسر میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی سال پہلے قریباً سب مسلمان اسی خیال کے تھے۔ جن کو آج کل بریلوی حنفی خیال کیا جاتا ہے۔(شمع توحید صفحہ53 لاہور صفحہ 40 طبع امرتسر و سرگودھا) نوٹ:۔ اب بعد کے ایڈیشنوں سے مذکورہ عبارت نکال دی گئی ہے۔ دیکھئے مکتبہ قدوسیہ لاہور اور اہلحدیث ٹرسٹ کراچی کی شائع کردہ شمع توحید۔ ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی دیوبندی شیخ القرآن غلام اللہ خان کی زیر سرپرستی شائع ہونے والا دیوبندی ترجمان لکھتا ہےدیگر مترجمین کا نام لینے کے بعد مولانا احمد رضا خان بریلوی کے) قرآن کے ترجمے کو اعلٰی مقام حاصل ہے۔ (ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی جون 1964ء صفحہ 24) مولوی محمد یٰسین دیوبندی / حافظ حبیب اللہ ڈیروی دیوبندی مولوی محمد حسین نیلوی اور مولوی محمد امیر بندیالوی کے تربیت یافتہ مولوی محمد یٰسین آف راولپنڈی لکھتے ہیں :۔ محقق العصر جناب اعلٰی حضرت احمد رضا خان صاحب بریلی کا فتوٰی کیا ڈاکٹری ادویات کا استعمال کرنا جائز ہے " الجواب: انگریزی دوائی استعمال کرنا حرام ہے۔ (ملفوظات) بتائیے متقی پرہیزگار صوفیا کدھر گئے " اعلٰی حضرت کتنے تقوٰی پر فتوٰی دیتے تھے۔ (صدائے حق2/ صفحہ 20) دیوبندی حافظ حبیب اللہ ڈیروی جو نہایت متعصب و معاند ہیں نے بھی حضور اعلٰی حضرت کو اعلٰی حضرت ہی تسلیم کیا ہے۔ مذکورہ بالا عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس جاہل کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کا فتوٰی مطلق انگریزی دواؤں کے متعلق نہیں بلکہ رقیق دواؤں کے بارے میں ہے۔ (قبر حق ج1 صفحہ 42 طبع ڈیرہ اسمٰعیل خان) احسان الٰہی ظہیر وہابیہ کے علامہ احسان الٰہی ظہیر نے سیدی اعلٰی حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خلاف بکواسات اور مغلظات کا مجموعہ ایک کتاب البریلویت لکھی ہے جس میں جھوٹ بولنے میں شیطان کو بھی مات کر دیا مگر اس میں بھی وہ لکھنے پر مجبور ہے کہ انما جدیدۃ من حیث النشاءۃ والاسم، ومن فرق شبہ القارۃ من حیث التکوین والمیۃ ولکنھا قدیمۃ من حیث الافکار والعقائد۔ (البریلویۃ صفحہ 7) ترجمہ:۔ یہ جماعت (بریلوی) اپنی پیدائش اور نام دار اور برصغیر کے فرقوں میں سے اپنی شکل و شباہت کے لحاظ سے اگرچہ نئی ہے لکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے۔ معلوم ہوا کہ مولانا احمد رضا بریلوی کسی مذہب کے بانی نہیں اور بریلویت نہ ہی کوئی نیا مذہب ہے نہ ہی کوئی نیا فرقہ۔ نوٹ:۔ مذکور کذاب کی کذب و افتراء پر مبنی کتاب مذکورہ کا مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری صاحب نے تحقیقی و تنقیدی جائزہ لکھا ہے۔ وہابیہ کے مولوی حنیف یزدانی لکھتے ہیں :۔ شاہ احمد رضا خان بریلوی نے اپنے دور کی ہر قسم کی خرابیوں اور گمراہیوں کے خلاف پوری قوت سے علمی جہاد کیا ہے جس پر آپ کی تصانیف شاہد ہیں مولانا موصوف نے اپنے فتاوٰی میں جہاں جہاں اصلاح عقائد پر بہت زیادہ زور دیا ہے وہاں اصلاح اعمال پر بھی پوری توجہ دی ہے۔ (تعلیمات شاہ احمد رضا خان بریلوی، ص1۔2 مطبوعہ لاہور) ڈاکٹر خالد محمود دیوبندی یہ صاحب بھی پی ایچ ڈی ہیں جھوٹ میں انہوں نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ ڈاکٹر خالد محمود نے کذب و افتراء کا مجموعہ کتاب مطالعہ بریلویت لکھی ہے، جس میں ڈاکٹر خالد محمود نے اعلٰی حضرت پر خدا تعالٰی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم انبیاء کرام صحابہ کرام اہل بیت عظام کی توہین کا الزام لگایا، اعلٰی حضرت پر قادیانیت اور شیعیت کا بھی الزام لگایا نعوذ باللہ مگر اس کے باوجود بھی لکھنے پر مجبور ہیں: مولوی احمد رضا خان صاحب نے جب علماء دیوبند کو کافر کہا تو علماء دیوبند نے خان صاحب کو جواباً کافر نہ کہا جب ان سے کہا گیا کہ آپ انہیں کافر کیوں نہیں کہتے تو انہوں نے کہا کہ مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی نے الزامات میں ہم پر جھوٹ باندھا ہے۔ جھوٹ اور بہتان باندھنا گناہ اور فسق تو ہے مگر کفر ہرگز نہیں لٰہذا ہم اس مفتری کو کافر نہیں کہتے۔ (مطالعہ بریلویت/ ج صفحہ 278 ) یہی ڈاکٹر صاحب اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں :۔ ہمارے اکابر کی تحقیق کے مطابق بریلویوں پر حکم کفر نہیں ہے اور دارالعلوم دیوبند نے انہیں ہرگز کافر قرار نہیں دیا۔ (عبقات صفحہ 154)اولاً: عبارات مذکورہ سے ہمارا مدعا صرف یہ ہے کہ آج دیوبندی ہم اہل سنت و جماعت پر کفر و شرک کے فتوے لگاتے پھرتے ہیں کہ ان کو اپنے ان اکابر کی ان عبارات کو دیکھ شرم کرنی چاہئیے۔ ثانیاً: جہاں تک ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا کہ اعلٰی حضرت فاضل بریلوی نے اکابرین دیوبند پر جھوٹے الزامات لگائے۔ نعوذ باللہ۔ یہ ان کا بہت بڑا جھوٹ اور بد دیانتی ہے۔ حضور سیدی اعلٰی حضرت نے جن دیوبندی اکابرین اور ان کی عبارات متنازعہ پر حکم تکفیر لگایا۔ وہ کتب آج بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ اور وہ عبارات توہین آمیز آج بھی ان کی کتب میں بدستور موجود ہیں اور پھر انہی عبارات مذکورہ پر عرب و عجم کے علماء نے کفر کے فتوے لگائے۔ (دیکھئے حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ) لٰہذا ان دیوبندیوں کا اعلٰی حضرت فاضل بریلوی پر جھوٹ اور بہتان کا الزام لگانا خود بہت بڑا جھوٹ اور بہتان ہے نہ جانے ان دیوبندیوں کو جھوٹ بولتے ہوئے شرم کیوں نہیں آتی، مذید تفصیل کے طالب مولانا محمد عبدالحکیم شاہجہان پوری علیہ الرحمۃ کی کتاب کلمہء حق اور راقم کی کتاب مسئلہ تکفیر ملاحظہ فرمائیں۔ (1) نوٹ:۔ ڈاکٹر خالد محمود دیوبندی کی کذب و افتراء پر مبنی کتاب مطالعہ بریلویت کا مجاہد اہل سنت مولانا محمد حسن علی رضوی آف میلسی محاسبہ دیوبندیت کے نام سے جواب تحریر فرما رہےہیں اس کی دو جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ (2) مولانا سید بادشاہ تبسم شاہ بخاری صاحب نے بھی مطالعہ بریلویت کے جواب میں ماہنامہ القول السدید لاہور میں پانچ قسطیں بنام "ڈاکٹر خالد محمود دیوبندی کی ایمان سوز فریب کاریاں" تحریر فرمائی ہیں۔ قاضی شمس الدین درویش مفتی کفایت اللہ دہلوی کے شاگرد اور مولوی عبداللہ دیوبندی کندیاں کے خلیفہ قاضی شمس الدین درویش لکھتے ہیں :۔ فن فتوٰی نویسی کا مسلمہ اصول ہے، کہ سوال کا جواب سوال کے مضمون کے مطابق ہوا کرتا ہے جیسا سوال ہوگا جواب اس کے مطابق ہو گا۔ ادھر اعلٰی حضرت فاضل بریلوی بیک وقت شیخ طریقت بھی تھے، معلم شریعت بھی تھے، مقرر اور خطیب بھی تھے، عالم اور طبیب بھی تھے، بے حد مصروف الاوقات بھی تھے۔ (غلغلہ برزلزلہ صفحہ 24) اکرم اعوان، حافظ عبدالرزاق دیوبندی تنظیم الاخوان کے بانی اکرم اعوان کی زیر پرستی نکلنے والے رسالہ میں ہے۔ شعر در اصل ہے اپنی حسرت سنتے ہی دل میں اتر جائے اہل دل اور اہل درد اور اہل صفا کی نعتوں میں یہ اثر لازماً پایا جاتا ہے کہ ان کی نعتوں کے پڑھنے سے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اور اللہ تعالٰی کی محبت ضرور پیدا ہو جاتی ہے خواہ کسی درجے کی ہو اور اس درجے کا انحصار پڑھنے والے کے خلوص پر ہے۔ اب ہم چند ایسی نعتیں درج کرتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی 1340ھ فیض ہے یا شہ تسنیم نرالا تیراآپ پیاسوں کے تجسس میں ہے دریا تیرا(ماہنامہ المرشد چکوال اکتوبر 1984ء ) ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی دیوبندی ترجمان لکھتا ہے :۔ صورت مسئولہ میں خلل اندازی نماز کے متعلق حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب بریلی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ذاتی مذہب کے متعلق دریافت کیا گیا ہے ان کا ذاتی مذہب کوئی خود ساختہ نہیں بلکہ مسئلہ مذکورہ، میں ان کا مذہب وہی جو ان کے امام مستقل مجتہد مطلق امام الفقہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا ہے۔ (ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی اگست 1975ء) مفتی عبدالرحمٰن آف جامعہ اشرفیہ لاہور لکھتے ہیں، تمام اہل سنت و الجماعت خواہ دیوبندی ہو خواہ بریلوی قرآن و سنت کے علاوہ فقہ حنفی میں بھی شریک ہیں۔۔۔۔۔۔۔ دیوبندی بریلوی کے پیچھے نماز پڑھ لے کیونکہ دونوں حنفی ہیں۔ (روزنامہ جنگ لاہور 28 اپریل 1990ء) یہی مولوی عبدالرحمٰن اشرفی مہتمم اشرفیہ لاہور روزنامہ پاکستان کے سنڈے ایڈیشن میں انٹریو دیتے ہوئے کہتے ہیں۔ بریلوی حضرات سے مجھے بڑی محبت ہے۔ اس لئے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے عاشق ہیں۔ چنانچہ بریلوی عشق رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے مجھے پیارے لگتے ہیں۔ (روزنامہ پاکستان سنڈے ایڈیشن ہفت روزہ "زندگی" یکم تا 7 اگست 2004ء) (بحوالہ رضائے مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم رجب المرجب 1425ھ بمطابق ستمبر 2004ء) قارئین کرام ! یہ سرار جھوٹ ہے کہ دیوبندی اہل سنت ہیں اس لئے کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرنے والا سنی نہیں ہو سکتا۔ دیوبندیوں سے ہمارا اصول اختلاف ہی تو یہی ہے تفصیل گذشتہ اوراق میں گزر چکی ہے اور جہاں تک ان کے حنفی ہونے کا دعوٰی ہے تو یہ بھی صرف ایک دھوکہ ہے انہوں نے تو امام اعظم سے بیزاری ظاہر کی ہے ثبوت ملاحظہ ہو انور شاہ کشمیری دیوبندی کے متعلق دیوبندی ترجمان لکھتا ہے، کہ میں نے شام سے لے کر ہند تک اس (کشمیری) کی شان کا کوئی محدث و عالم نہیں پایا۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر میں قسم کھاؤں کہ یہ (کشمیری) امام اعظم ابو حنیفہ سے بھی بڑے عالم ہیں تو میں اس دعوٰی میں کاذب نہ ہوں گا۔ (ہفت روزہ خدام الدین لاہور 18 دسمبر 1964ء) دیوبندی مناظر یوسف رحمانی نے لکھا ہے، کہ ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ اگر امام اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا فرمان بھی قرآن و حدیث کے معارض ہوگا ہم اس کو بھی ٹھکرادیں گے۔ (سیف رحمانی صفحہ 71) یہ ہے دیوبندیوں کی حنفیت اور یہ کہ دیوبندیوں کے نزدیک حضرت امام اعظم کے بعض اقوال قرآن و حدیث سے متصادم بھی ہیں۔ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ دیوبندی اکابر تو حنفیت کے دفاع کو عمر کا ضیاع قرار دیتے رہے ہیں۔ مفتی دیوبند محمد شفیع آف کراچی لکھتے ہیں: قادیان کے جلسہ کے موقع پر نماز فجر کے وقت حاضر ہوا۔ تو دیکھا، کہ حضرت (انور شاہ) کشمیری سر پکڑے مغموم بیٹھے ہیں میں نے پوچھا کہ حضرت کیسا مزاج ہے کہا ہاں ٹھیک ہی ہے۔ میاں مزاج کیا پوچھتے ہو عمر ضائع کردی میں نے عرض کیا کہ حضرت آپ کی ساری عمر علم کی خدمت میں۔ دین کی اطاعت میں گزری ہے ہزاروں آپ کے شاگرد علماء ہیں مشاہیر ہیں جو آپ سے مستفید ہوئے اور خدمت دین میں لگے ہوئے ہیں آپ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو کس کی عمر کام میں لگی " فرمایا: میں صحیح کہتا ہوں عمر ضائع کردی۔ میں نے عرض کیا حضرت بات کیا ہے فرمایا ہماری عمر کا ہماری تقریروں کا ہماری ساری کدوکاش کا یہ خلاصہ رہا ہے کہ دوسرے ملکوں پر حنفیت کی ترجیح قائم کر دیں۔ امام ابو حنیفہ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں اور دوسرے آئمہ کے مسائل پر آپ کے مسلک کی ترجیح ثابت کر دیں یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا تقریروں کا اور علمی زندگی کا اب غور کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی۔ الخ (وحدت امت صفحہ18 )قارئین کرام ! انصاف سے کہئیے ان دلائل کی بناء پر تو یہ ثابت ہو گیا کہ ان دیوبندیوں کا اپنے کو حنفی مذہب کا ٹھیکیدار کہنا ان کا دھوکہ اور فراڈ ہے۔ امام احمد رضا بریلوی کا رد شیعت کرنا علماء دیوبند کی زبانی آج کل دیوبندی علماء نے یہ پراپیگنڈا شروع کر رکھا ہے کہ مولانا احمد رضا بریلوی شیعہ تھے نعوذ باللہ حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے۔ اعلٰی حضرت فاضل بریلوی نے شیعہ پر کفر و اتداد واضح بیان کیا ہے۔ شیعہ کے کسی اہل سنت سے اختلافی مسئلے کی حمایت کبھی نہیں کی۔ بلکہ ہمیشہ ان کی تردید کی ہے۔ دیوبندیوں میں اگر کوئی مائی کا لعل اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کی معتمد کتب سے شیعہ سے اہل سنت کے کسی اختلافی مسئلے کی حمایت ثابت کردے تو ہم اسے منہ مانگا انعام دیں گے۔ ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین۔ دوسری طرف دیوبندی اکابر کی شیعیت نوازی ان کی کتب سے ثابت ہے۔ یہاں تک کہ ان کے اکابر صحابہء کرام کی تکفیر کرنے والے کو سنت جماعت سے خارج نہیں مانتے، شیعہ کی امداد ان سے نکاح ان کے ذبیحہ حلال ہونے تعزیہ کی اجازت کے فتوے دیتے ہیں۔ نوٹ:۔ تفصیل کے لئے مولانا غلام مہر علی صاحب کی کتاب دیوبندی مذہب کا مطالعہ سود مند رہے گا۔ دیوبندیوں کو تو اپنے اکابر کے فتاوٰی پڑھ کر ڈوب مرنا چاہئیے۔ اب ہم اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کا ببانگ دہل شیعیت کی تردید کرنا دیوبندی علماء کی زبانی بیان کرتے ہیں۔ عبدالقادر رائے پوری دیوبندی :۔ مولوی محمد شفیع نے کہا کہ یہ بریلوی بھی شیعہ ہی ہیں یونہی حنفیوں میں گھس آئے ہیں (عبدالقادر رائے پوری نے) فرمایا یہ غلط ہے۔ مولوی احمد رضا خان صاحب شیعہ کو بہت بُرا سمجھتے تھے۔ بانس بریلی میں ایک شیعہ تفضیلی تھے۔ ان کے ساتھ مولوی احمد رضا خان صاحب کا ہمیشہ مقابلہ رہتا تھا۔ (حیات طیبہ صفحہ 232 طبع لاہور) نوٹ :۔ تفصیل کے لئے فقیر کی کتاب علمائے دیوبند کی شیعیت نوازی ملاحظہ فرمائیں۔ (فقیر مدنی) حق نواز جھنگوی دیوبندی :۔ دیوبندی امیر عزیمت بانی نام نہاد سپاہ صحابہ حق نواز جھنگوی فرماتے ہیں کہ علامہ (احمد رضا) بریلوی جن کا قائد جن کا راہنما بلکہ بقول بریلوی علماء کا مجدد احترام کے ساتھ نام لوں گا۔ احمد رضا بریلوی اپنے فتاوٰی رضویہ میں اور اپنے مختصر رسالے رد رفض میں تحریر فرماتے ہیں: شیعہ اثنا عشری بدترین کافر ہیں اور الفاظ یہ ہیں کہ شیعہ بڑا ہو یا چھوٹا مرد ہو یا عورت شہری ہو یا دیہاتی کوئی بھی ہو لاریب و لاشک قطعاً خارج از اسلام ہیں اور صرف اتنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے اور لکھتے ہیں۔ من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفرترجمہ:۔ جو شخص شیعہ کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ یہ فتوٰی مولانا احمد (رضا) خان بریلوی کا ہے جو فتوٰی رضویہ میں موجود ہے۔ بلکہ احمد رضا خان نے تو یہاں تک شیعہ سے نفرت دلائی ہے کہ ایک شخص پوچھتا ہے کہ اگر شیعہ کنویں میں داخل ہو جائے۔ تو کنویں کا سارا پانی نکالنا ہے یا کچھ ڈول نکالنے کے بعد کنویں کا پانی پاک ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ اعلٰی حضرت فاضل بریلوی لکھتے ہیں: کنویں کا سارا پانی نکال دیں جب کنواں پاک ہوگا۔ اور وجہ لکھتے ہیں کہ شیعہ سنی کو ہمیشہ حرام کھلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر اس سے اور کچھ بھی نہ ہو سکا۔ تب بھی وہ اہل سنت کے کنویں میں پیشاب ضرور کر آئے گا۔ اس لئے اس کنویں کا سارا پانی نکال دینا لازمی اور ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے بھی شیعہ کا کفر بیان کیا ہے اور کھل کر بیان کیا ہے۔(حق نواز جھنگوی کی 15 تاریخ ساز تقریریں صفحہ 13 تا صفحہ 15/ صفحہ 224 طبع لاہور خطبات جھنگوی ج اول ص 278 ) احمد رضا خان بریلوی شیعوں کو کافر کہتے ہیں۔ (حوالہ بالا صفحۃ 142) نوٹ:۔ یاد رہے کہ اس کتاب مذکورہ کا پیش نظر دیوبندی مولوی ضیاء القاسمی نے لکھا ہے۔ ضیاء الرحمٰن فاروقی اور نام نہاد سپاہ صحابہ :۔ دیوبندی مذہب کے مشہور متعصب مولوی ضیاء الرحمٰن فاروقی اپنی تقاریر میں کہتے رہے کہ مولوی احمد رضا بریلوی کے شیعہ ہونے پر میرے پاس ستائیس دلائل موجود ہیں۔ نعوذ باللہ الٰہی آسمان کیوں نہیں ٹوٹ پڑا کاذب پر مگر پھر سپاہ صحابہ (نام نہاد) کے سٹیج سے شیعہ کو کافر کہنے کے لئے اعلٰی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کا ہی نام لیتے رہے کہ لوگو ! اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کا فتوٰی ہے کہ شیعہ کافر ہیں۔ ہم یہ کہتے ہوئے حق بجانب ہیں: یہ سیدنا اعلٰی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی زندہ کرامت ہے کہ جو فاروقی (بزعم خود) اعلٰی حضرت کو شیعہ کہتا تھا۔ اب وہی اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کے حوالے سے شیعہ کو کافر قرار دیتا ہے۔ اب مذکورہ مولوی کی تحریر بھی ملاحظہ ہو۔دیوبندی مولوی ضیاء الرحمان فاروقی لکھتے ہیں:۔ فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ (کا فتوٰی) رافضی تبرائی جو حضرات شیخین صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ خواہ ان میں سے ایک کی شان پاک میں گستاخی کرے اگرچہ صرف اسی قدر کہ انہیں امام و خلیفہ برحق نہ مانے کتب معتمد و فقہ حنفی کی تصریحات اور عامہ آئمہ ترجیح و فتوٰی کی تصحیحات پر مطلقاً کافر ہیں۔ یہ حکم فقہی تبرائی رافضیوں کا ہے۔ اگرچہ تبراء و انکار خلافت شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہا کے سوا ضروریات دین کا انکار نہ کرتے ہوں۔ ولا حوط مافیہ قول المتکلمین انھم ضلال من کلاب النار وکناردبہ ناخذ۔ ترجمہ:۔ یعنی یہ گمراہ ہیں جہنم کی آگ کے کتے ہیں اور کافر ہیں اور روافض زمانہ (شیعہ) تو ہرگز صرف تبرائی نہیں۔ علی العموم منکران ضروریات دین اور باجماع مسلمین یقیناً قطعاً کفار مرتدین ہیں۔ یہاں تک کہ علماء کرام نے تصریح فرمائی، کہ جو انہیں کافر نہ جانیں وہ خود کافر ہے۔۔۔۔۔۔ بہت سے عقائد کفریہ کے علاوہ وہ (شیعہ) کفر صریح میں ان کے عالم جاہل مرد، عورت چھوٹے بڑے سب بالا تفاق گرفتار ہیں۔ کفر اول :۔ قرآن عظیم کو ناقص بتاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اور جو شخص قرآن مجید میں زیادت نقص یا تبدیل کسی طرح کے تصرف بشرٰی کا دخل مانے یا اسے متحمل جانے بالا جماع کافر و مرتد ہے۔ کفر دوم :۔ ان کا ہر متنفس سیدنا امیر المومنین مولٰی علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور دیگر آئمہ طاہرین رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کو حضرات عالیات انبیاء سابقین علیہم الصلوٰت والتحیات سے افضل بتاتا ہے اور جو کسی غیر نبی کو نبی سے افضل کہے بہ اجماع مسلمین کافر بے دین ہے۔ ۔۔۔ بالجملہ ان رافضیوں تبرائیوں (شیعوں) کے باب میں حکم قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کفار مرتدین ہیں۔ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ مردار ہے۔ ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خالص زنا ہے۔ مرد رافضی (شیعہ) اور عورت مسلمان ہو تو یہ سخت قہر الٰہی ہے۔ اگر مرد سنی اور عورت ان خبیثوں کی ہو جب بھی ہرگز نکاح نہ ہوگا۔ محض زنا ہوگا، اولاد ولدالزنا ہوگی۔ باپ کا ترکہ نہ پائے گی۔ اگرچہ اولاد بھی سنی ہی ہو کہ شرعاً والدالزنا کا باپ کوئی نہیں۔ عورت نہ ترکہ کی مستحق ہوگی نہ مہر کی، کہ زانیہ کے لئے مہر نہیں، رافضی اپنے کسی قریب حتٰی کہ باپ بیٹے، ماں، بیٹی کا بھی ترکہ نہیں پا سکتا، ان کے مرد عورت عالم جاہل کسی سے میل جول سلام کلام سب سخت کبیرہ اشد حرام، جو ان کے ملعون عقیدوں پر آگاہ ہو کر بھی پھرا نہیں مسلمان جانے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرے۔ باجماع تمام آئمہ دین خود کافر بے دین ہے اور اس کے لئے بھی یہی احکام ہیں۔ جو ان کے لئے مذکور ہوئے۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس فتوٰی کو بگوش ہوش سنیں اور اس پر عمل کرکے سچے پکے مسلمان سنی بنیں۔ (تاریخی دستاویز صفحہ۔ 65۔ 66) اہل سنت و الجماعت علماء بریلی کے تاریخ ساز فتوٰی جو شخص شیعہ کے کفر میں شک کرے وہ خود کافر ہے۔ غوث وقت حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔ اعلٰی حضرت مولانا احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔ حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔ دارالعلوم حزب الاحناف لاہور کا فتوٰی۔ دارالعلوم غوثیہ لاہور کا فتوٰی۔ جامعہ نظامیہ رضویہ کا فتوٰی۔ (ردالرفضہ کے حوالے سے اعلٰی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کا فتوٰی نقل کیا ہے جو اوپر مذکور ہوا) اعلٰی حضرت کی تصانیف رد شیعت میں :۔ اعلٰی حضرت نے رد شیعیت میں ردالرفضہ کے علاوہ متعدد رسائل لکھے ہیں۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔ الادلۃ الطاعنۃ (روافض کی اذان میں کلمہ خلیفہ بلا فصل کا شدید رد) اعالی الافادہ فی تعزیۃ الہندو بیان الشہادۃ 1321ھ (تعزیہ داری اور شہادت نامہ کا حکم) جزاءاللہ عدوہ بابا بہ ختم النبوۃ 1317ھ (مرزائیوں کی طرح روافض کا بھی رد) المعۃ الشمعۃ الشفتہ 1312ھ (تفصیل و تفسیق کے متعلق سات سوالوں کے جواب) شرح المطالب فی مبحث ابی طالب 1316ھ ایک سو کتب تفسیر و عقائد وغیرہا سے ایمان نہ لانا ثابت کیا۔ ان کے علاوہ رسائل اور قصائد جو سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شان میں لکھے ہیں وہ شیعہ و روافض کی تردید ہیں۔ (تاریخی دستاویز صفحہ 114۔ 113) دیوبندی تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان نے جامع مسجد حق نواز جھنگ صدر سے ایک پمفلٹ شائع کیا ہے۔ "اہل سنت و الجماعت علماء بریلی کے تاریخ ساز فتاوٰی" جس میں مذکورہ کتاب تاریخی دستاویز از ضیاء الرحمٰن فاروقی کی صفحہ 114۔ 113 کی عبارات جو اوپر مذکور ہوئیں نقل کی گئی ہیں۔ نام نہاد سپاہ صحابہ :۔ دیوبندی مذہب کی ترجمان نام نہاد سپاہ صحابہ نے جھنگ صدر سے ایک پمفلٹ شائع کیا ہے جس میں لکھا ہے: اہم نکات تاریخی فتوٰی مولانا احمد رضا خاں علیہ الرحمہ بریلوی :۔ شیعہ مرد یا شیعہ عورت سے نکاح حرام اور اولاد ولدالزنا۔ شیعہ کا ذبیحہ حرام۔ شیعہ سے میل جول سلام کلام اشد حرام۔ جو شخص شیعہ کے ملعون عقائد سے آگاہ ہوکر پھر بھی انہیں مسلمان جانے بالا جماع تمام آئمہ دین خود کافر ہے۔ (پمفلٹ "کیا شیعہ سنی بھائی بھائی ہیں" صفحہ 11طبع جھنگ) قاضی مظہر حسین دیوبندی دیوبندی مولوی حسین احمد مدنی کے خلیفہ مجاز قاضی مظہر حسین دیوبندی آف چکوال لکھتے ہیں:مسلک بریلویت کے پیشوا حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب مرحوم نے بھی ہندوستان میں فتنہ رفض کے انسداد میں بہت مؤثر کام کیا ہے روافض کے اعتراضات کے جواب میں اصحاب رسول کی طرف سے دفاع کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ بحث ماتم کے درمیان مولانا بریلوی کے فتاوٰی نقل کئے جا چکے ہیں۔ منکرین صحابہ کی تردید میں ردالرفضہ۔۔۔۔۔ رد تعزیہ داری الادلۃ الطاعنہ فی اذان الملاعنہ وغیرہ آپ کے یادگار رسائل ہیں جن میں سنی شیعہ نزاعی پہلو سے آپ نے مذہب اہلسنت کا مکمل تحفظ کر دیا ہے۔ (بشارات الدارین صفحہ 529) بریلوی مسلک کے امام مولانا احمد رضا خان صاحب مرحوم نے روافض کے خلاف اکابر علماء دیوبند سے بھی سخت فتوٰی دیا ہے۔ چنانچہ، آپ کا رسالہ ردالرفضہ جس کے شروع میں ہی ایک استفسار کے جواب میں لکھتے ہیں۔ رافضی تبرائی جو حضرات شیخین صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہما خواہ ان میں سے ایک کی شان پاک میں گستاخی کی ہے اگرچہ صرف اس قدر انہیں امام و خلیفہ برحق نے مانے کتب معتمدہ فقہ حنفی کی تصریحات اور عامہ آئمہ۔۔۔۔۔۔ ترجیح و فتاوٰی کی تصحیحات پر مطلقاً کافر ہے۔ (ماہنامہ حق چاریار لاہور جون جولائی 1970ء صفحہ 50) قاری اظہر ندیم قاری اظہر ندیم دیوبندی جلی عنوان کے ساتھ لکھتے ہیں۔ جدید و قدیم شیعہ کافر ہیں:۔ امام اہل سنت اعلٰی حضرت شاہ احمد رضا خان صاحب بریلویکا فتوٰی، مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس فتقے کو بگوش ہوش سنیں اور اس پر عمل کرکے پکے سچے سنی بنیں۔ (کیا شیعہ مسلمان ہیں صفحہ 288 ) ]قاضی احسان الحق شجاع آبادی، سجاد بخاری :۔ مولوی غلام اللہ خان دیوبندی کے نظریات کا ترجمان قاضی احسان الحق شجاع آبادی کی زیر نگرانی اور سجاد بخاری دیوبندی کی زیر ادارت نکلنے والے رسالے تعلیم القرآن میں لکھا ہوا ہے۔ دشمنان رسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم و صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے بارے میں اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کا فتوٰی۔ بالجملہ ان رافضیوں تبرائیوں (شیعوں) کے بارے میں حکم قطعی بعد اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم مرتدین ہیں ان کے ہاتھوں کا ذبیحہ مردار ہے۔ ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خالص زنا ہے معاذاللہ مرد رافضی اور عورت مسلمان ہو تو یہ سخت قہر الٰہی ہے اور اگر مرد سنی اور عورت ان خبیثوں میں سے ہو جب بھی ہرگز نکاح نہ ہوگا بلکہ محض زنا ہوگا اور اولاد ولدالزنا ہوگی باپ کا ترکہ نہ پائے گی اگرچہ اولاد بھی سنی ہی ہو شرعاً والدالزنا کا کوئی باپ نہیں، عورت نہ ترکہ کی مستحق ہوگی نہ مہر کی زانیہ کے لئے مہر نہیں رافضی اپنے قریب کسی حتٰی کہ باپ بیٹے ماں بیٹی کا بھی ترکہ نہیں پا سکتا۔ الخ (ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی اگست ستمبر 1968ء ص 72) محمد نافع دیوبندی دیوبندی مولوی محمد نافع آف محمدی شریف جھنگ نے اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کا فتوٰی نقل کیا کہ جو حضرت امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے کتا ہے اور پھر حضرت امیر معاویہ کی عظمت کے دفاع میں اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کے چھے رسائل کا تذکرہ مع نام رسالہ کیا ہے۔ پھر لکھا یے کہ مذکورہ بالا رسائل میں علامہ احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی طرف سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ پر مطاعن اور اعتراضات کا مسکت جواب دیا گیا ہے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی جانب سے عمدہ صفائی پیش کی گئی ہے اور پر زور طریقہ سے دفاع کا حق ادا کیا ہے۔ (سیرت حضرت امیر معاویہ/ ج1 صفحہ 655) ضیاء الرحمان فاروقی دیوبندی نے ایک اشتہار مرتب کیا جو فیصل آباد سے شائع ہوا جس کا عنوان ہے "حضرت امیر معاویہ و اہل بیت رسول" اس میں اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کا فتوٰی مذکورہ بالا دربار، حضرت امیر معاویہ نقل کیا گیا اصل الفاظ یہ ہیں جو شخص حضرت معاویہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتا ہے ایسے شخص کے پیچھے نماز حرام ہے حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی، اشتہار مذکورہ مطبوعہ اشاعت المعارف فیصل آبادیہ مذکورہ بالا فقرہ اشتہار میں جلی حروف میں ہے۔ دیوبندی تنظیم سپاہ صحابہ کی طرف سے پمفلٹ کونڈوں کی حقیقت میں بھی اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کا مذکورہ فتوٰی نقل کیا گیا ہے۔ امام احمد رضا بریلوی کا قادیانیت کا شدید رد بلیغ کرنا علمائے دیوبند کی زبانی اعلٰی حضرت محدث دہلوی نے اپنے وقت کے تمام فتنوں کے خلاف زبردست جہاد فرمایا ان فتنوں میں ایک فتنہ قادیانیت بھی ہے مرزا غلام احمد قادیانی اور قادیانیت کے خلاف امام احمد رضا بریلوی نے متعدد کتب لکھیں۔ آپ نے اپنی زندگی کی آخری کتاب بھی مرزائیوں کے رد میں لکھی ہے۔ جس کا نام الجراز الدیانی علی المرتد القادیانی، اس کے علاوہ فتاوٰی رضویہ ملاحظہ فرمائیں۔ مگر حقیقت کا انکار اور جھوٹ یہ دونوں چیزیں دیوبندی مذہب اور وہابی مذہب کی بنیاد ہیں ان کے بغیر ان کا چلنا مشکل ہے۔ دیوبندیوں، وہابیوں نے اعلٰی حضرت فاضل بریلوی جو قادیانیت کے لئے شمشیر بے نیام تھے کو مرزا قادیانی کے بھائی کا شاگرد قرار دے دیا۔ حالانکہ یہ ایسا من گھڑت حوالہ ہے جس کا ثبوت ان کے پاس موجود نہیں ہے۔ حالانکہ اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کے بچپن میں چند کتابوں کے استاد مرزا غلام قادر بیگ مرحوم اور مرزا قادیانی کا بھائی دو الگ شخصیات ہیں۔ ان کی تفصیل مولانا علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری نے بریلویت کا تحقیقی جائزہ ہیں بیان کی ہے وہاں ملاحظہ فرمائیں ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ دیوبندیو تم ڈوب مرو اگر مرزا غلام قادر بیگ (اعلٰی حضرت کے استاد) اگر قادیانی یا مرزا قادیانی کے بھائی تھے تو یہ بتاؤ کہ اسی مرزا غلام قادر بیگ کو بریلی میں دیوبندی مدرسہ مصباح العلوم کے مدرس اول تمہارے اکابرین نے کیوں بنایا تھا دیکھئے کتاب مولانا احسن نانوتوی مصدقہ مفتی شفیع و قاری طیب۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی اب ہم اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کا قادیانیت کے لئے شمشیر بے نیام ہونا علمائے دیوبند سے ثبوت نقل کرتے ہیں ملاحظہ کیجئے۔ دیوبندی وہابی حضرات کے قادیانیت نوازی کے ثبوت محفوظ ہیں۔ بوقت ضرورت شائع کریں گے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت :۔ دیوبندی تنظیم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت جوکہ دیوبندی حضرات کی محبوب تنظیم ہے۔ اس وقت ان کے امیر مولوی خان محمد آف کندیاں ہیں ان کی طرف سے ایک رسالہ شائع ہوا، اس میں صاف لکھا ہوا ہے:۔ نبی آخرالزماں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت پر ڈاکہ زنی ہوتے دیکھ کر مولانا احمد بریلوی تڑپ اٹھے اور مسلمانوں کو مرزائی نبوت کے زہر سے بچانے کے لئے انگریز کے ظلم و بربریت کے دور میں علم حق بلند کرتے ہوئے اور شمع جراءت جلاتے ہوئے مندرجہ ذیل فتوٰی دیا جس کا حرف حرف قادیانیت کے سومنات کے لئے گرز محمود غزنوی ہے۔ قادیانیوں کے کفریہ عقائد کی بناء پر اعلٰی حضرت احمد رضا خان بریلوی نے مرزائی اور مرزائی نوازوں کے بارے میں فتوٰی دیا قادیانی مرتد منافق ہیں مرتد منافق وہ کہ لب پر کلمہ اسلام پڑھتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا، اور اللہ عزوجل یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم یا کسی نبی کی توہین یا ضروریات دین میں کسی شے کا منکر ہے۔ اس کا ذبیح محض نجس اور مردار حرام قطعی ہے مسلمانوں کے بائیکاٹ کے سبب قادیانی کو مظلوم سمجھنے اور میل جول چھوڑنے کو ظلم اور ناحق سمجھنے والا اسلام سے خارج ہے اور جو کافر کو کافر نہ کہے وہ کافر۔(احکام شریعت 112۔ 122، 177) اعلٰی حضرت احمد رضا خان بریلوی فرید نے مذید فرمایا کہ اس صورت میں فرض قطعی ہے کہ تمام مسلمان موت و حیات کے تمام علاقے اس سے قطع کردیں بیمار پڑے پوچھنے کو جانا حرام مر جائے تو اس کے جنازے پر جانا حرام ہے مسلمانوں کے گورستان میں دفن کرنا حرام اس کی قبر پر جانا حرام ہے۔ (فتاوٰی رضویہ/ ج6 صفحہ 51 مولانا احمد رضا خان بریلوی عشق خاتم النبیین صفحہ4، 5) یہی عبارت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان کی شائع کردہ کتاب قادیانیت صفحہ 76 از محمد طاہر رازق میں موجود ہے۔ تنظیم مذکورہ کی طرف سے ایک کتاب بنام قادیانیت ہماری نظر میں شائع ہوئی ہے اس میں ایک باب ہے قادیانیت علماء کرام کی نظر میں اس میں سب سے پہلا نام اعلٰی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کا لکھا ہے۔ احکام شریعت اور فتاوٰی رضویہ کے حوالہ سے اور قادیانیت میں اعلٰی حضرت بریلوی کی عبارات نقل کی گئی ہیں۔ دیوبندی تنظیم مذکورہ نے ننکانہ سے اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کا فتوٰی مرزائیوں کی تکفیر کا اشتہار کی صورت میں شائع کیا ہے۔ پروفیسر خالد شبیر دیوبندی :۔ لکھتے ہیں۔ مولانا احمد رضا بریلوی کے نام نامی سے کون واقف نہیں علم و فضل اور تقوٰی میں ایک خاص مقام حاصل ہے ذیل میں ان کا ایک فتوٰی السوء والعقاب علی المسیح الکذاب 1320ء پیش کیا جاتا ہے جس میں انہوں نے مرزا صاحب کے کفر کو بد لائل عقلیہ و نقلیہ ثابت کیا ہے اس فتوٰی سے جہاں مولانا کے کمال علم کا احساس ہوتا ہے۔ وہاں مرزا غلام احمد کے کفر کے بارے میں ایسے دلائل بھی سامنے آتے ہیں کہ جن کے بعد کوئی ذی شعور مرزا صاحب کے اسلام اور اس کے مسلمان ہونے کا تصور نہیں کر سکتا۔ (تاریخ محاسبہ قادیانیت صفحہ 455) علوم و فنون سے فراغت کے بعد آپ نے ساری زندگی تصنیف و تالیف اور درس و تدریس میں بسر کردی۔ مولوی صاحب نے تقریباً پچاس علوم و فنون میں کتب و رسائل تحریر کئے ہیں۔(تاریخ محاسبہ قادیانیت صفحہ 456) اللہ وسایا دیوبندی :۔ دیوبندی مولوی اللہ وسایا نے مرزائیت کی تردید میں اعلٰی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کے چار رسائل کا تذکرہ کیا ہے۔(قادیانیت کے خلاف قلمی جہاں کی سرگزاشت صفحہ 414) اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کی کتاب السوء العقاب علی المسیح الکذاب پر اللہ وسایا دیوبندی نے یہ تبصرہ کیا۔ یہ کتابچہ دراصل ایک فتوٰی ہے جس میں روشن دلائل سے ثابت کیا گیا ہے۔ مرزائی قادیانی، دعوٰٰی نبوت و رسالت، انبیاء علیہم السلام کی توہین کے ارتکاب کے باعث ضروریات دین کے افکار کے بموجب مرتد تھا وہ اور اس کے ماننے والے سب دائرہ اسلام سے خارج اور کافر و مرتد ہیں۔ ان سے نکاح شادی میل جول کے تمام وہی احکام ہیں جو مرتد کے ہوتے ہیں۔(کتاب مذکورہ صفحہ 168 ) اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کی کتاب الجراز الدیانی علی المرتد القادیانی پر اللہ وسایا کا تبصرہ یہ قادیانی مرتد پر خدائی خنجر اس کے نام کا ترجمہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصنف کی یہ آخری تصنیف ہے۔(کتاب مذکورہ صفحہ 107) اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کے لشکر کے ایک سپاہی مناظر اعظم مولانا محمد عمر اچھروی کی کتاب مقیاس نبوت پر تبصرہ ملاحظہ کیجئے۔ بریلوی مکتب فکر کے ممتاز عالم دین جناب مولانا محمد عمر اچھروی ایک نامور خطیب اور مناظر تھے۔ وہ فریق مخالف پر گرفت مضبوط رکھنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مقیاس نبوت جس کے دو حصے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں سوال جواب کے طرز میں مرزائیوں کے سینکڑوں سوالات کے جوابات کافی و شافی دندان شکن دئیے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ان عنوان پر مناظرہ کے لئے اس کتاب کا مطالعہ ہر مناظر کے لئے فائدہ کا باعث ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالٰی مرحوم کی مغفرت فرمائیں۔ (کتاب مذکور صفحہ 308 ) یاد رہے کہ مقیاس نبوت دو حصوں میں نہیں بلکہ مبسوط تین جلدوں میں ہے کتاب مذکور میں متعدد اکابرین اہل سنت بریلوی کے رد قادیانیت میں تحریری خدمات کا تذکرہ ہے اور علماء اہل سنت بریلوی کی تحریک ختم نبوت میں خدمات کو اللہ وسایا دیوبندی نے ایمان پرور یادیں میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ عبدالقادر رائے پوری :۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ مولوی احمد رضا خان صاحب نے ایک دفعہ مرزائیوں کی کتابیں منگوائیں تھیں اس غرض سے کہ ان کی تردید کریں گے۔ میں نے بھی دیکھیں قلب پر اتنا اثر ہوا کہ اس طرف میلان ہو گیا اور ایسا معلوم ہونے لگا کہ (مرزائی سچے ہیں۔) (سوانح مولانا عبدالقادر رائے پوری صفحہ 56) حرفِ آخر قارئین کرام ! ان تمام حوالہ جات سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ امام اہلسنت مجدد دین و ملت شیخ الاسلام والمسلمین امام احمد رضا خان محدث بریلوی کے خلاف دیوبندی، وہابی حضرات کا پراپیگنڈا جھوٹ اور غلط ہے اور یہ بات اپنے ہی نہیں بلکہ اغیار بھی مانتے ہیں کہ علم و فضل ہو یا تقوٰی و طہارت ہو، عشق رسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہو۔ ان میں امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ کا کوئی بھی ثانی نہیں۔ امام احمد رضا محدث بھی تھے اور فقہیہ بھی تھے۔ مجدد بھی تھے اور مفسر بھی تھے وہ محقق تھے اور مدقق بھی۔ امام احمد رضا بریلوی ان تمام اوصاف و کمالات اور تمام علم و فنون کے جامع و ماہر تھے۔ امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ نے اپنے دور کی ہر گمراہی اور ہر فتنے کے خلاف زبردست جہاد کیا اور کبھی بھی کسی بد مذہب، بے دین کے لئے کوئی تعریفی جملہ نہ کہا اور نہ لکھا اور قرآن مجید کا ترجمہ کیا وہ تقدیس الوہیت اور شان رسالت کا پاسبان ہے اور یہ وہ چیزیں ہیں جن کا آپ کے مخالفین کو بھی اعتراف ہے۔امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ کا پیغام بھی سن لیجئے۔ ہے یہ پیغام سرکار احمد رضابارگاہِ نبی کے رہو با وفااُن کے پیغام سے منحرف جو ہوادین حق سے یقیناً پھسل جائے گاجن کا اسم گرامی ہے احمد رضاہیں وہی اصل میں دین کے پیشوامان لے گا انہیں مومن با وفااور گستاخ کا دل ان سے جل جائیگا آخر میں دعا کرتے ہیں، کہ مولٰی تعالٰی اپنے حبیب کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہء جلیلہ سے مذہب حق اہلسنت و جماعت پر ہمیں استقامت عطا فرمائے۔ امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ کے پیغام کو پھیلانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ و السلام
  3. مؤلف: ایک صاحب جن کا میلان قدرے وہابیت کی طر ف تھا، انہوں نے علمِ غیبِ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی نسبت سوال کیا تو فرمایا :ارشاد :کیا آپ مطلق علمِ غیب کو پوچھتے ہیں یا علمِ مَا کَانَ وَ مَا یَکُون، (یعنی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ آئندہ ہو گا ان سب کا علم ) ، جیسا سوال ہو اُس کے موافق جواب دیا جائے ۔ عرض : میں حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلمکو سب سے افضل واعلیٰ جانتا ہوں اور حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم)کو روشن ضمیر مانتا ہوں مگر یہ کہ وہ دلوں کی بات جانتے ہیں، یہ نہیں مانتا ۔ ارشاد : روشن ضمیر ہونے کے تویہی معنی ہیں کہ دلوں کی حالتیں جانیں (پھر اس کے ثبوت کی طرف توجہ فرمائی)قرآنِ عظیم فرماتا ہے : وَمَا کَانَ اللہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیۡبِ وَلٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِیۡ مِنۡ رُّسُلِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۪ اے عام لوگو اللہ(عَزَّوَجَلَّ)اس لئے نہیں کہ تمہیں غیب پر مطلع فرمادے ۔ ہاں اپنے رسولوں سے چن لیتا ہے جسے چاہے۔(پ۴، اٰل عمرٰن:۱۷۹) اور فرماتا ہے: عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا اللہ تعالیٰ عالمِ الغیب ہے تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں فرماتا مگر اپنے پسندیدہ رسول کو ۔(پ۲۹، الجن :۲۶) صرف اظہار ہی نہیں بلکہ رسولوں کو علمِ غیب پر مسلط فرمادیا ۔ (اس کے بعد ارشاد فرمایا ) کہ علمائے اہلِ سنت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اتفاق ہے کہ جو فضائل اور انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کو عنایت فرمائے گئے وہ سب باکمل وجوہ(یعنی اَکمل طور پر)، ان سے بد ر جہا (یعنی کئی درجے ) زائد حضور سیدِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو مرحمت (یعنی عطا)ہوئے اور اہلِ باطن کا اس پر اتفاق ہے کہ جو کچھ فضائل اور انبیاء صلواتُ اللہ تعالیٰ وسلامہ علٰی سیدہم وعلیہم کو ملے وہ سب حضور کے دیئے سے اور حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم)کے طفیل میں ۔ اصحابِ صحیح بخاری ومسلم نے روایت کی: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ یُعْطِیْ میں بانٹنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔ ( صحیح البخاری کتاب العلم باب من یرد اللہ۔۔۔۔۔۔ الخ، الحدیث۷۱، ج۱، ص۴۳) ( صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب النھی عن المسألۃ، الحدیث۱۰۳۷، ص۵۱۷) اللہ تعالیٰ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بابت (کے بارے میں)فرماتا ہے: وَکَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبْرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ یعنی اَیسا ہی ہم ابراہیم کو آسمان وزمین کی ساری سلطنت دکھاتے ہیں۔(پ۷، الانعام:۷۵) اور لفظ ''نُرِیْ'' اِستمرار وتجدُّد (یعنی ہمیشگی اور تکرار )پر دال (یعنی دلالت کرتا)ہے جس کا یہ مطلب کہ وہ دکھانا ایک بار کے لئے نہ تھا بلکہ مُسْتَمِرّ (یعنی ہمیشہ )ہے تو یہ صفت حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں اَکمل طو ر پر ثابت ، حضورکے دیئے سے اور حضور کے طفیل میں حضور کے جدِّا کرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ ابیہ وبارَک وسلم کو یہ فضلیت ملی ۔اس کا اِنکار نہ کریگا مگر کو ربا طن (یعنی کینہ رکھنے والا) اَعَاذَنَا اللہُ تَعَالٰی مِنْ ھٰذِہِ الْعَقِیْدَۃِ الْبَاطِلَۃِ (یعنی اللہ تعالیٰ ہمیں اس باطل عقیدے سے بچائے۔ت) اور لفظ ''کَذٰلِکَ''تشبیہ کے واسطے ہے جسے ہر معمولی عربی داں جانتا ہے اور تشبیہ کے لئے مُشَبَّہ(یعنی جسے تشبیہ دی گئی) اور مُشَبَّہ بِہٖ (یعنی جس سے تشبیہ دی گئی)ضرور (یعنی لازِم)ہے۔''مُشَبَّہ ''تو خود قرآنِ کریم میں مذکور ہے یعنی حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام ۔ باقی رہا ''مُشَبَّہ بِہٖ'' وہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں ۔ مطلب یہ ہوا کہ اے حبیب لبیب (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) جیسے ہم آپ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کو آسمانوں اور زمینوں کی سلطنتیں دکھا رہے ہیں یونہی آپ(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے طفیل میں آپ کے والد ماجد حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو بھی ان کا معائنہ کرار ہے ہیں او رقرآن کریم میں اِرشاد فرماتا ہے : وَ مَا ہُوَ عَلَی الْغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ ﴿ۚ۲۴﴾ یعنی میرا محبوب غیب پر بخیل نہیں۔(پ۳۰، التکویر:۲۴) جس میں اِستعداد(یعنی صلاحیت) پاتے ہیں اسے بتاتے بھی ہیں اور ظاہر کہ بخیل وہ جس کے پاس مال ہو اور صَرف(یعنی خرچ) نہ کرے۔ وہ کہ جس کے پاس مال ہی نہیں کیا بخیل کہا جائے گا؟ اور یہاں بخیل کی نفی کی گئی تو جب تک کوئی چیز صرف (یعنی خرچ) کی نہ ہو (نفی کا) کیا مَفاد(یعنی فائدہ) ہوا؟ لھٰذا معلوم ہوا کہ حضور(صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم) غیب پر مطلع(یعنی خبردار) ہیں ، اور اپنے غلاموں کو اس پر اِطِّلاع بخشتے ہیں اور فرماتا ہے: وَ نَزَّلْنَا عَلَیۡکَ الْکِتٰبَ تِبْیٰنًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ ہم نے تم پر یہ کتاب ہر شے کا روشن بیان کردینے کے لئے اُتاری۔(پ۱۴، النحل:۸۹) ''تِبْیَانًا''ارشاد فرمایا، ''بَیَانًا ''نہ فرمایا کہ معلوم ہوجائے کہ اس میں بیانِ اشیا اس طر ح پر ہے کہ اصلاًخِفا (یعنی پوشیدگی)نہیں اور حدیث میں ہے جسے امام ترمذی وغیرہ نے دس صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایت کیا کہ صحابہ کرام( رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ) فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم صبح کو نمازِ فجر کے لئے مسجدنبوی (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام )میں حاضر ہوئے، اور حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم)کی تشریف آوری میں دیر ہوئی ۔ حَتّٰی کِدْنَا اَنْ نَّتَرَای عَیْنَ الشَّمْسِ یعنی قریب تھا کہ آفتاب طلوع کر آئے ۔ اتنے میں حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم) تشریف فرما ہوئے ، اور نماز پڑھائی ۔ پھر صحابہ (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین)سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم جانتے ہو کیوں دیر ہوئی؟سب نے عرض کی '' اَللہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ'' اللہ و رسول (عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم)خوب جانتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا : فَاِذَا اَنَا بِرَبِّی تَبَارَکَ وتعالٰی فِی اَحْسَنِ صُوْرَۃٍ میرا ربّ(عَزَّوَجَلَّ ) سب سے اچھی تجلی میں میرے پاس تشریف لایا ۔ یعنی میں ایک دوسری نماز میں مشغول تھا ۔ اس نماز میں عبد (یعنی بندہ)درگاہِ معبود میں حاضر ہوتا ہے اور وہاں خود ہی معبود کی عبد پر تجلی ہوئی ۔ ' 'قَالَ یَا مُحَمَّدُ فِیْمَا یَخْتَصِمُ الْمَلَاءُ الْاَعْلٰی '' اس نے فرمایا :''اے محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ فرشتے کس بات میں مُخاصَمہ (یعنی تنازعہ) اور مُباہات (یعنی فخر)کرتے ہیں ؟ '''' فَقُلْتُ لَا اَدْرِیْ'' میں نے عرض کی میں بے تیرے بتائے کیا جانوں، فَوَضَعَ کَفَّہ، بَیْنَ کَتِفَیَّ فَوَجَدْتُّ بَردَ اَنَامِلِہٖ بَیْنَ ثَدَیَّ فَتَجَلّٰی لِیْ کلُّ شَیْءٍ وَعَرَفْتُ ( جامع ترمذی ، کتاب التفسیر ، الحدیث ۳۲۴۶، ج۵، ص۱۶۰) تو ربّ العزّت (عَزَّوَجَلَّ )نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا اور اس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں پائی اور میرے سامنے ہر چیز روشن ہو گئی اور میں نے پہچان لی۔ صرف اسی پر اِکْتِفا نہ فرمایا کہ کسی وہابی صاحب کو یہ کہنے کی گنجائش نہ رہے کہ کل شے سے مراد ہر شے متعلق بشرا یع (یعنی شریعتوں کے متعلق ہر چیز)ہے بلکہ ایک روایت میں فرمایا: مَا فِی السَّمٰوٰتِ ومَافِی الْاَرْضِ میں نے جان لیا جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے۔ ( جامع ترمذی، کتاب التفسیر، الحدیث۳۲۴۴،ج۵،ص۱۵۸) اور دوسری روایت میں فرمایا: فَعَلِمْتُ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اور میں نے جان لیا جو کچھ مشرق سے مغرب تک ہے ۔ (جامع ترمذی، کتاب التفسیر، الحدیث۳۲۴۵، ج۵، ص۱۵۹) یہ تینوں روایتیں صحیح ہیں تو تینوں لفظ ارشادِ اقدس (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم)سے ثابت ہیں۔ یعنی میں نے جان لیا جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو کچھ مشرق سے مغرب تک ہے۔ ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے پہچان لی اور روشن ہونے کے ساتھ پہچان لینا اس لئے فرمایا کہ کبھی شے معروف (یعنی معلوم )ہوتی ہے پیشِ نظر نہیں اور کبھی شے پیشِ نظر ہوتی ہے اور معروف نہیں جیسے ہزار آدمیوں کی مجلس کو چھت پر سے دیکھو ، وہ سب تمہارے پیشِ نظر ہوں گے مگر ان میں بہت کو پہچانتے نہ ہوں گے۔ اس لئے ارشاد فرمایا کہ تمام اشیائے عالَم ہمارے پیشِ نظر بھی ہوگئیں ، اورہم نے پہچان بھی لیں کہ ان میں نہ کوئی ہماری نگاہ سے باہر رہی نہ علم سے خارج وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ مسلمان دیکھیں نصوص میں بلا ضرورت تاویل وتخصیص باطل ونا مسموع ہے(یعنی ناقابلِ قبول ہے)۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرمایا ہر چیز کا روشن بیان کردینے کو یہ کتاب ہم نے تم پر اُتاری۔ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : ہرچیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے پہچان لی تو بلاشبہ یہ رویت ومعرفت (یعنی دیکھنا اور پہچاننا)، جمیع مکنوناتِ قلم ومکتوباتِ لوح (یعنی قلم اور لوحِ محفوظ کے تمام سربستہ رازوں) کو شامل ہے جس میں سب ''مَاکَانَ وَمَا یَکُونُ مِنَ الْیَوْمِ الْاَوَّلِ اِلٰی یَوْمِ الْاٰخِرِ '' (یعنی روزِ اول سے روزِ آخر تک جو کچھ ہوا ..یا ..ہوگا )وجملہ ضمائر وخواطر (یعنی تمام پوشیدہ اُمور بشمول احوالِ دِل)سب کچھ داخل ولھٰذا طبرانی ونعیم بن حماد اُستاذ اما م بخاری وغیر ہمانے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : اِنَّ اللہَ عَزَّوَجَلَّ قَدْ رَفَعَ لِیَ الدُّنْیَا فَانَا اَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ اِلٰی مَا ھُوَکَائِنٌ فِیْہَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیامَۃِ کَاَنَّمَا اَنْظُرُ اِلَی کَفِّیْ ھٰذِہ بے شک اللہ(عَزَّوَجَلَّ)نے میرے سامنے دنیا اٹھالی ہے تو میں اسے اور اس میں جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے ، سب کو ایسا دیکھ رہا ہوں جیسے اپنی اس ہتھیلی کو۔ ( مجمع الزوائدکتاب علامات النبوۃ باب ۳۳، الحدیث ۱۴۰۶۷، ج۸، ص۵۱۰) اور حضور(صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم) کے صدقے میں اللہ تعالیٰ نے حضور کے غلاموں کو یہ مرتبہ عنایت فرمایا ۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں : ''وہ مرد نہیں جو تمام دنیا کو مثل ہتھیلی کے نہ دیکھے ۔'' انہوں نے سچ فرمایا اپنے مرتبہ کا اظہار کیا ۔ ان کے بعد حضرت شیخ بہاء الملۃ والدین نقشبندقُدِّسَ سِرُّہ، نے فرمایا :'' میں کہتا ہوں مرد وہ نہیں جو تمام عالم کو انگوٹھے کے ناخن کی مثل نہ دیکھے۔'' اور وہ جو نسب میں حضور کے صاحبزادے اور نسبت میں حضور کے ایک اعلیٰ جاہ کَفَش بردار (یعنی بلند رتبہ غلام )ہیں اَعْنِی (یعنی ) حضور سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ قصیدہ غوثیہ شریف میں ارشاد فرماتے ہیں : نَظَرْتُ اِلٰی بِلاَدِ اللہ جَمْعًا کَخَرْدَلَۃٍ عَلٰی حُکْمِ اتِّصَالٖ یعنی میں نے اللہ(عَزَّوَجَلَّ )کے تمام شہروں کو مثل را ئی کے دانے کے ملاحظہ کیا۔ اور یہ دیکھنا کسی خاص وقت سے خاص نہ تھا بلکہ عَلَی الْاِتِّصال (یعنی لگاتار)یہ ہی حکم ہے ، اور فرماتے ہیں : ''اِنَّ بُؤْبُؤۃ عَیْنِی فِی اللَّوْحِ الْمَحْفُوْظِ میری آنکھ کی پتلی لوحِ محفو ظ میں لگی ہے۔'' لوحِ محفوظ کیا ہے ۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَکُلُّ صَغِیۡرٍ وَّکَبِیۡرٍ مُّسْتَطَرٌ ﴿۵۳﴾ ہر چھوٹی بڑی چیز لکھی ہوئی ہے۔(پ۲۷، القمر:۵۳) اور فرماتا ہے: مَا فَرَّطْنَا فِی الۡکِتٰبِ مِنۡ شَیۡءٍ ہم نے کتاب میں کوئی شے اٹھانہ رکھی ۔(پ۷، الانعام:۳۸) اور فرماتا ہے : وَلَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۵۹﴾ کوئی تروخشک ایسا نہیں جو کتابِ مبین میں نہ ہو ۔(پ ۷، الانعام:۵۹) تو جب لوحِ محفوظ کی یہ حالت کہ اس میں تمام کائنات روزِا ول سے روزِ آخرتک محفو ظ ہیں تو جس کو اس کا علم ہو ، بے شک اسے ساری کائنات کا علم ہوگا ۔ (ملفوظات ِ اعلیٰ حضرت صفحہ 77ٓ -82 )
  4. Najam Mirani

    نامِ''محمد'' کے فضائل

    ایک حدیث میں ہے ،حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ''جو میری محبت کی وجہ سے اپنے لڑکے کا نام محمد یا احمد رکھے گا اللہ تعالیٰ باپ اور بیٹے دونوں کو بخشے گا ۔'' (کنز العمال ، کتاب النکاح ،قسم الاقوال ، الحدیث ۴۵۲۱۵،ج۱۶،ص ۱۷۵۔لفظہ ''مَن ولد لہ مولود ذکر فسماہ محمّداً حبّاً لی وتبرکاً باسمی کان ھو و مولودہ فی الجنۃ'') ایک روایت میں ہے: ''قیامت کے دن ملائکہ کہیں گے کہ جن کانام محمد یا احمد ہے جنت میں چلے جاؤ ۔'' (فردوس الاخبار دیلمی، باب الیاء، الحدیث ۸۵۱۵،ج۲،ص۵۰۳۔ ملتقطًا) ایک روایت میں ہے:'' ملائکہ (یعنی فرشتے)اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں جس میں کسی کا نام محمد یا احمد ہے ۔'' ایک روایت میں ہے:'' جس مشورے میں اِس نام (یعنی محمدنام)کا آدمی شریک ہو اس میں برکت رکھی جاتی ہے ۔'' (کنز العمال ، کتاب النکاح ، قسم الاقوال، الحدیث۴۵۲۱۶،ج۱۶، ص۱۷۵) ایک روایت میں ہے :''تمہارا کیا نقصان ہے کہ تمہارے گھروں میں دو یا تین محمد ہوں۔'' ( الطبقات الکبرٰی لابن سعد، الحدیث ۶۲۲، ج۵، ص۴۰)
  5. سید محمد علی بھائی نے ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب احادیث ختم نبوت سے سیاست کے بارے میں واضح دلیل دے دی ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ لفظ سیاست برا لفظ نہیں ہے ، بلکہ ایک مقدس لفظ ہے۔ جزاک اللہ خیرا سید محمد علی بھائی
  6. حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ چہارم جانشین رسول وزوج بتول حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ''ابوالحسن''اور''ابو تراب''ہے۔ آپ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے چچا ابو طالب کے فرزند ارجمندہیں۔ عام الفیل کے تیس برس بعد جبکہ حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی عمر شریف تیس برس کی تھی ۔ ۱۳رجب کو جمعہ کے دن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خانۂ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ آ پ کی والد ہ ماجدہ کا نام حضرت فاطمہ بنت اسد ہے (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)آپ نے اپنے بچپن ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا اورحضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے زیرتربیت ہر وقت آ پ کی امدادونصرت میں لگے رہتے تھے ۔ آپ مہاجرین اولین اورعشر ہ مبشرہ میں اپنے بعض خصوصی درجات کے لحاظ سے بہت زیادہ ممتاز ہیں۔ جنگ بدر، جنگ اُحد، جنگ خندق وغیرہ تمام اسلامی لڑائیوں میں اپنی بے پناہ شجاعت کے ساتھ جنگ فرماتے رہے اورکفار عرب کے بڑے بڑے نامور بہادر اور سورما آپ کی مقدس تلوارِ ذُوالفقارکی مار سے مقتول ہوئے ۔امیرالمؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد انصارومہاجرین نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کر کے آپ کو امیرالمؤمنین منتخب کیا اورچاربرس آٹھ ماہ نو دن تک آپ مسندخلافت کو سرفراز فرماتے رہے ۔ ۱۷ رمضان ۴۰ھ؁ کو عبدالرحمن بن ملجم مرادی خارجی مردود نے نماز فجر کو جاتے ہوئے آ پ کی مقدس پیشانی اورنورانی چہرے پر ایسی تلوار ماری جس سے آپ شدیدطور پر زخمی ہوگئے اوردودن زندہ رہ کر جام شہادت سے سیراب ہوگئے اوربعض کتابوں میں لکھا ہے کہ ۱۹ رمضان جمعہ کی رات میں آپ زخمی ہوئے اور۲۱رمضان شب یکشنبہ آپ کی شہادت ہوئی ۔واللہ تعالیٰ اعلم آپ کے بڑے فرزند ارجمند حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو دفن فرمایا۔(1)(تاریخ الخلفاء، وازالۃ الخفاء وغیرہ) حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں گئے تو آپ نے قبروں کے سامنے کھڑے ہوکر باآواز بلند فرمایا کہ اے قبروالو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ ! کیا تم لوگ اپنی خبریں ہمیں سناؤ گے یا ہم تم لوگوں کو تمہاری خبریں سنائیں؟ اس کے جواب میں قبروں کے اندر سے آواز آئی: ''وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ'' اے امیر المؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ہی ہمیں یہ سنائيے کہ ہماری موت کے بعد ہمارے گھروں میں کیا کیا معاملات ہوئے ؟حضرت امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے قبر والو! تمہارے بعد تمہارے گھروں کی خبر یہ ہے کہ تمہاری بیویوں نے دوسرے لوگوں سے نکاح کرلیا اور تمہارے مال ودولت کو تمہارے وارثوں نے آپس میں تقسیم کرلیا اور تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہوکر دربدر پھر رہے ہیں اورتمہارے مضبوط اور اونچے اونچے محلوں میں تمہارے دشمن آرام اورچین کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں ۔ اس کے جواب میں قبروں میں سے ایک مردہ کی یہ دردناک آواز آئی کہ اے امیرالمؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہماری خبریہ ہے کہ ہمارے کفن پرانے ہوکر پھٹ چکے ہیں اورجو کچھ ہم نے دنیا میں خرچ کیا تھا اس کو ہم نے یہاں پالیا ہے اورجو کچھ ہم دنیا میں چھوڑآئے تھے اس میں ہمیں گھاٹا ہی گھاٹااٹھانا پڑا ہے ۔(1) (حجۃ اللہ علی العالمین ج۲،ص۸۶۳) تبصرہ اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو یہ طاقت وقدرت عطافرماتاہے کہ قبر والے ان کے سوالوں کا باآواز بلنداس طرح جواب دیتے ہیں کہ دوسرے حاضرین بھی سن لیتے ہیں ۔ یہ قدرت وطاقت عام انسانوں کو حاصل نہیں ہے۔ لوگ اپنی آوازیں تو مردوں کو سنا سکتے ہیں اورمردے ان کی آوازوں کو سن بھی لیتے ہیں مگر قبر کے اندر سے مردوں کی آوازوں کو سن لینا یہ عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے ،بلکہ یہ خاصا ن خدا کا خاص حصہ اور خاصہ ہے جس کوان کی کرامت کے سواکچھ بھی نہیں کہاجاسکتااوراس روایت سے یہ بھی پتاچلا کہ قبروالوں کا یہ اقبالی بیان ہے کہ مرنے والے دنیا میں جو مال ودولت چھوڑ کر مرجاتے ہیں اس میں مرنے والوں کے لیے سر اسر گھاٹا ہی گھاٹا ہے اورجس مال ودولت کو وہ مرنے سے پہلے خدا عزوجل کی راہ میں خرچ کرتے ہیں وہی ان کے کام آنے والاہے ۔
  7. آیات ختم نبوت قادیانیت کا محاسبہ http://www.islamimehfil.com/topic/20923-%D8%A2%DB%8C%D8%A7%D8%AA-%D8%AE%D8%AA%D9%85-%D9%86%D8%A8%D9%88%D8%AA-%D9%82%D8%A7%D8%AF%DB%8C%D8%A7%D9%86%DB%8C%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D8%AD%D8%A7%D8%B3%D8%A8%DB%81/
  8. جزاک اللہ خاکساربھائی ، محمد اویس بھائی ٹھیک کہ رہے ہیں میری لنک وہ دیکھ سکے گا جو میری فریند لسٹ میں ہوگا ، بہتر یہی ہے کہ وہ سارے امیجز میں یہاں پر اپلوڈ کردیتا ہوں
  9. احادیثِ ختم نبوت قادیانیت کا محاسبہ http://www.facebook.com/NajamuddinMirani/media_set?set=a.223413277697238.54332.100000857020909&type=3 آیات ختم نبوت قادیانیت کا محاسبہhttp://www.facebook.com/NajamuddinMirani/media_set?set=a.223406587697907.54331.100000857020909&type=3
  10. حضرت حزقیل علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیسرے خلیفہ ہیں جو منصب نبوت پر سرفراز کئے گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات اقدس کے بعد آپ کے خلیفہ اول حضرت یوشع بن نون علیہ السلام ہوئے جن کو اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی۔ ان کے بعد حضرت کالب بن یوحنا علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خلافت سے سرفراز ہو کر مرتبہ نبوت پر فائز ہوئے۔ پھر ان کے بعد حضرت حزقیل علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جانشین اور نبی ہوئے۔ حضرت حزقیل علیہ السلام کا لقب ابن العجوز (بڑھیا کے بیٹے)ہے۔ اور آپ ذوالکفل بھی کہلاتے ہیں۔ ''ابن العجوز'' کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس وقت پیدا ہوئے تھے جب کہ ان کی والدہ ماجدہ بہت بوڑھی ہوچکی تھیں۔ اور آپ کا لقب ذوالکفل اس لئے ہوا کہ آپ نے اپنی کفالت میں لے کر ستر انبیاء کرام کو قتل سے بچالیا تھا جن کے قتل پر یہودی قوم آمادہ ہو گئی تھی۔ پھر یہ خود بھی خدا کے فضل و کرم سے یہودیوں کی تلوار سے بچ گئے اور برسوں زندہ رہ کر اپنی قوم کو ہدایت فرماتے رہے۔ (تفسیر الصاوی،ج۱،ص۲۰۶،پ۲،البقرۃ ۲۴۳) مرد وں کے زندہ ہونے کا واقعہ اس کا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت جو حضرت حزقیل علیہ السلام کے شہر میں رہتی تھی، شہر میں طاعون کی وبا پھیل جانے سے ان لوگوں پر موت کا خوف سوار ہو گیا۔ اور یہ لوگ موت کے ڈر سے سب کے سب شہر چھوڑ کر ایک جنگل میں بھاگ گئے اور وہیں رہنے لگے تو اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کی یہ حرکت بہت زیادہ ناپسند ہوئی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک عذاب کے فرشتہ کو اس جنگل میں بھیج دیا۔ جس نے ایک پہاڑ کی آڑ میں چھپ کر اور چیخ مار کر بلند آواز سے یہ کہہ دیا کہ ''موتوا''یعنی تم سب مرجاؤ اور اس مہیب اور بھیانک چیخ کو سن کر بغیر کسی بیماری کے بالکل اچانک یہ سب کے سب مر گئے جن کی تعداد ستر ہزار تھی۔ ان مردوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ لوگ ان کے کفن و دفن کا کوئی انتظام نہیں کرسکے اور ان مردوں کی لاشیں کھلے میدان میں بے گور و کفن آٹھ دن تک پڑی پڑی سڑنے لگیں اور بے انتہا تعفن اور بدبو سے پورے جنگل بلکہ اس کے اطراف میں بدبو پیدا ہو گئی۔ کچھ لوگوں نے ان کی لاشوں پر رحم کھا کر چاروں طرف سے دیوار اٹھا دی تاکہ یہ لاشیں درندوں سے محفوظ رہیں۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت حزقیل علیہ السلام کا اس جنگل میں ان لاشوں کے پاس گزر ہوا تو اپنی قوم کے ستر ہزار انسانوں کی اس موتِ ناگہانی اور بے گور و کفن لاشوں کی فراوانی دیکھ کر رنج و غم سے ان کا دل بھر گیا۔ آبدیدہ ہو گئے اور باری تعالیٰ کے دربار میں دکھ بھرے دل سے گڑگڑا کر دعا مانگنے لگے کہ یا اللہ یہ میری قوم کے افراد تھے جو اپنی نادانی سے یہ غلطی کر بیٹھے کہ موت کے ڈر سے شہر چھوڑ کر جنگل میں آگئے۔ یہ سب میرے شہر کے باشندے ہیں ان لوگوں سے مجھے انس تھا اور یہ لوگ میرے دکھ سکھ کے شریک تھے۔ افسوس کہ میری قوم ہلاک ہو گئی اور میں بالکل اکیلا رہ گیا۔ اے میرے رب یہ وہ قوم تھی جو تیری حمد کرتی تھی اور تیری توحید کا اعلان کرتی تھی اور تیری کبریائی کا خطبہ پڑھتی تھی۔ آپ بڑے سوزِ دل کے ساتھ دعا میں مشغول تھے کہ اچانک آپ پر یہ وحی اتر پڑی کہ اے حزقیل (علیہ السلام)آپ ان بکھری ہوئی ہڈیوں سے فرما دیجئے کہ اے ہڈیو! بے شک اللہ تعالیٰ تم کو حکم فرماتا ہے کہ تم اکٹھا ہوجاؤ۔ یہ سن کر بکھری ہوئی ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ہر آدمی کی ہڈیاں جمع ہو کر ہڈیوں کے ڈھانچے بن گئے۔ پھر یہ وحی آئی کہ اے حزقیل (علیہ السلام)آپ فرما دیجئے کہ اے ہڈیو!تم کو اللہ کا یہ حکم ہے کہ تم گوشت پہن لو۔ یہ کلام سنتے ہی فوراً ہڈیوں کے ڈھانچوں پر گوشت پوست چڑھ گئے۔ پھر تیسری بار یہ وحی نازل ہوئی۔ اے حزقیل اب یہ کہہ دو کہ اے مردو! خدا کے حکم سے تم سب اٹھ کرکھڑے ہوجاؤ۔ چنانچہ آپ نے یہ فرما دیا تو آپ کی زبان سے یہ جملہ نکلتے ہی ستر ہزار لاشیں دم زدن میں ناگہاں یہ پڑھتے ہوئے کھڑی ہو گئیں کہ ''سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ۔ پھر یہ سب لوگ جنگل سے روانہ ہو کر اپنے شہر میں آ کر دوبارہ آباد ہو گئے۔ اور اپنی عمروں کی مدت بھر زندہ رہے لیکن ان لوگوں پر اس موت کا اتنا نشان باقی رہ گیا کہ ان کی اولاد کے جسموں سے سڑی ہوئی لاش کی بدبو برابر آتی رہی اور یہ لوگ جو کپڑا بھی پہنتے تھے وہ کفن کی صورت میں ہوجاتا تھا۔ اور قبر میں جس طرح کفن میلا ہوجاتا تھا ایسا ہی میلا پن ان کے کپڑوں پر نمودار ہوجاتا تھا۔ چنانچہ یہ اثرات آج تک ان یہودیوں میں پائے جاتے ہیں جو ان لوگوں کی نسل سے باقی رہ گئے ہیں۔ (تفسیر روح البیان،ج۱،ص۳۷۸،پ۲،البقرۃ: ۲۴۳) یہ عجیب و غریب واقعہ قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں خداوند قدوس نے اس طرح بیان فرمایا کہ:۔ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمْ وَہُمْ اُلُوۡفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ ۪ فَقَالَ لَہُمُ اللہُ مُوۡتُوۡا ۟ ثُمَّ اَحْیَاہُمْ ؕ اِنَّ اللہَ لَذُوۡ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوۡنَ ﴿243﴾ ترجمہ کنزالایمان:۔اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے تواللہ نے ان سے فرمایا مرجاؤ پھر اُنہیں زندہ فرما دیا بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔ (پ2،البقرۃ:243) درس ہدایت:۔بنی اسرائیل کے اس محیر العقول واقعہ سے مندرجہ ذیل ہدایات ملتی ہیں: (۱)آدمی موت کے ڈر سے بھاگ کر اپنی جان نہیں بچا سکتا۔ لہٰذا موت سے بھاگنا بالکل ہی بیکار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو موت مقدر فرما دی ہے وہ اپنے وقت پر ضرور آئے گی نہ ایک سیکنڈ اپنے وقت سے پہلے آسکتی ہے نہ ایک سیکنڈ بعد آئے گی لہٰذابندوں کو لازم ہے کہ رضاء الٰہی پر راضی رہ کر صابر و شاکر رہیں اور خواہ کتنی ہی وبا پھیلے یا گھمسان کا رن پڑے اطمینان و سکون کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور یہ یقین رکھیں کہ جب تک میری موت نہیں آتی مجھے کوئی نہیں مارسکتا اور نہ میں مرسکتا ہوں اور جب میری موت آجائے گی تو میں کچھ بھی کروں، کہیں بھی چلا جاؤں، بھاگ جاؤں یا ڈٹ کر کھڑا رہوں میں کسی حال میں بچ نہیں سکتا۔ (۲)اس آیت میں خاص طور پر مجاہدین کو ہدایت کی گئی ہے کہ جہاد سے گریز کرنا یا میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جانا ہرگز موت کو دفع نہیں کرسکتا لہٰذا مجاہدین کو میدانِ جنگ میں دل مضبوط کر کے ڈٹے رہنا چاہے اور یہ یقین رکھنا چاہے کہ میں موت کے وقت سے پہلے نہیں مرسکتا نہ کوئی مجھے مار سکتا ہے۔ یہ عقیدہ رکھنے والا اس قدر بہادر اور شیر دل ہوجاتا ہے کہ خوف اور بزدلی کبھی اس کے قریب نہیں آتی اور اس کے پائے استقلال میں کبھی بال برابر بھی کوئی لغزش نہیں آسکتی۔ اسلام کا بخشا ہوا یہی وہ مقدس عقیدہ ہے کہ جس کی بدولت مجاہدین اسلام ہزاروں کفار کے مقابلہ میں تنہا پہاڑ کی طرح جم کر جنگ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ فتح مبین ان کے قدموں کا بوسہ لیتی تھی۔ اور وہ ہر جنگ میں مظفر و منصور ہو کر اجرِ عظیم اور مالِ غنیمت کی دولت سے مالا مال ہو کر اپنے گھروں میں اس حال میں واپس آتے تھے کہ ان کے جسموں پر زخموں کی کوئی خراش بھی نہیں ہوتی تھی اور وہ کفار کے دل بادل لشکروں کا صفایا کر دیتے تھے۔ شاعر مشرق نے اس منظر کی تصویر کشی کرتے ہوئے کسی مجاہد اسلام کی زبان سے یہ ترانہ سنایا ہے کہ ؎ ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے حق سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے تیغ کیا چیز ہے؟ ہم توپ سے لڑ جاتے تھے نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے زیرِ خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے لطیفہ:۔منقول ہے کہ بنو امیہ کا بادشاہ عبدالملک بن مروان جب ملک شام میں طاعون کی وبا پھیلی تو موت کے ڈر سے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے شہر سے بھاگ نکلا اور ساتھ میں اپنے خاص غلام اور کچھ فوج بھی لے لی اور وہ طاعون کے ڈر سے اس قدر خائف اور ہراساں تھا کہ زمین پر پاؤں نہیں رکھتا تھا بلکہ گھوڑے کی پشت پر سوتا تھا۔ دورانِ سفر ایک رات اس کو نیند نہیں آئی۔ تو اس نے اپنے غلام سے کہا کہ تم مجھے کوئی قصہ سناؤ۔ تو ہوشیار غلام نے بادشاہ کو نصیحت کرنے کا موقع پا کر یہ قصہ سنایا کہ ایک لومڑی اپنی جان کی حفاظت کے لئے ایک شیر کی خدمت گزاری کیا کرتی تھی تو کوئی درندہ شیر کی ہیبت کی وجہ سے لومڑی کی طرف دیکھ نہیں سکتا تھا۔ اور لومڑی نہایت ہی بے خوفی اور اطمینان سے شیر کے ساتھ زندگی بسر کرتی تھی۔ اچانک ایک دن ایک عقاب لومڑی پر جھپٹا تو لومڑی بھاگ کر شیر کے پاس چلی گئی۔ اور شیر نے اس کو اپنی پیٹھ پر بٹھالیا۔ عقاب دوبارہ جھپٹا اور لومڑی کو شیر کی پیٹھ پر سے اپنے چنگل میں دبا کر اڑ گیا۔ لومڑی چلا چلا کر شیر سے فریاد کرنے لگی تو شیر نے کہا کہ اے لومڑی! میں زمین پر رہنے والے درندوں سے تیری حفاظت کرسکتا ہوں لیکن آسمان کی طرف سے حملہ کرنے والوں سے میں تجھے نہیں بچا سکتا۔ یہ قصہ سن کر عبدالملک بادشاہ کو بڑی عبرت حاصل ہوئی اور اس کی سمجھ میں آگیا کہ میری فوج ان دشمنوں سے تو میری حفاظت کرسکتی ہے جو زمین پر رہتے ہیں مگر جو بلائیں اور وبائیں آسمان سے مجھ پر حملہ آور ہوں، ان سے مجھ کو نہ میری بادشاہی بچا سکتی ہے نہ میرا خزانہ اور نہ میرا لشکر میری حفاظت کرسکتا ہے۔ آسمانی بلاؤں سے بچانے والا تو بجز خدا کے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ یہ سوچ کر عبدالملک بادشاہ کے دل سے طاعون کا خوف جاتا رہا اور وہ رضاء الٰہی پر راضی رہ کر سکون و اطمینان کے ساتھ اپنے شاہی محل میں رہنے لگا۔ (تفسیر روح البیان،ج۱،ص۳۷۸،پ۲،البقرۃ:۲۴۴)
  11. Najam Mirani

    خاتم النبیین

    خاتم النبیین لفظ خاتم ختم سے بناہے جس کے لغوی معنی ہیں مہر لگانا ۔اصطلاح میں اس کے معنی ہیں تمام کرنا، ختم کرنا، بند کرنا،کیونکہ مہر یا تو مضمون کے آخر پر لگتی ہے جس سے مضمون بند ہوجاتا ہے یا پارسل بند ہونے پر لگتی ہے جب نہ کوئی شے اس میں داخل ہوسکے نہ اس سے خارج ،اسی لئے تمام ہونے کو ختم کہا جاتا ہے قرآن شریف میں یہ لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ چنانچہ رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : (1) خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمۡ اللہ تعالیٰ نے ان کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ۔(پ1،البقرۃ:7) (2) اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤی اَفْوَاہِہِمْ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡہِمْ وَ تَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوۡا یَکْسِبُوۡنَ ﴿۶۵﴾ آج ہم ان کے منہ پرمہر لگادیں گے اور ہم سے ان کے ہاتھ بولیں گے او ران کے پاؤں گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے ۔(پ23،یٰسۤ:65) (3) فَاِنۡ یَّشَاِ اللہُ یَخْتِمْ عَلٰی قَلْبِکَ تو اگر اللہ چاہے توآپ کے دل پر رحمت وحفاظت کی مہر لگادے ۔(پ25،الشورٰی:24) یُسْقَوْنَ مِنۡ رَّحِیۡقٍ مَّخْتُوۡمٍ ﴿ۙ۲۵﴾خِتٰمُہٗ مِسْکٌ ؕ نتھاری شراب پلائے جائیں گے جو مہر کی ہوئی ہے اس کی مہر مشک پر ہے ۔(پ۳۰،المطففین:۲۵) ان جیسی تمام آیتوں میں ختم بمعنی مہر استعمال فرمایا گیا ہے کہ جب کفار کے دل وکان پر مہر لگ گئی تونہ باہر سے وہاں ایمان داخل ہونہ وہاں سے کفر باہر نکلے یوں ہی جنت میں شَرَابًاطَہُوْرًا ایسے بر تنوں سے پلائی جائے گی جن پر حفاظت کے لئے اور یاد کرو ہمارے بندہ ایوب کو ۔(پ23،ص:41) مہر ہے تا کہ کوئی توڑ کرنہ باہر سے کوئی آمیز ش کر سکے نہ اندر سے کچھ نکال سکے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ محمد تمہارے مردو ں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے ۔(پ22،الاحزاب:40) اس جگہ خاتم عرفی معنی میں استعمال ہوا یعنی آخری اور پچھلا ۔ لہٰذا اب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملنانا ممکن ہے۔ اس معنی کی تائید حسب ذیل آیات سے ہوتی ہے اوران آیتوں سے معلوم ہوتاہے کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ (1) اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیۡنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیۡکُمْ نِعْمَتِیۡ (پ6،المآئدۃ:3) آج میں نے تمہارے لئے دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ۔ (2) ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗ پھر تشریف لائیں تمہارے پا س وہ رسول جو تمہاری کتا بوں کی تصدیق کریں توتم سب نبی ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا۔(پ3،ال عمرٰن:81) (3) وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنۡ قَبْلِہِ الرُّسُلُ (4) فَکَیۡفَ اِذَا جِئْنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ ۭبِشَہِیۡدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیۡدًا﴿ؕؔ۴۱﴾ تو کیسی ہوگی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اوراے محبوب تمہیں ان سب پر گواہ ونگہبان لائیں گے ۔(پ5،النساء:41) ان آیتوں سے تین باتیں معلوم ہوئیں ۔ ایک یہ کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا دین مکمل ہے اور دین کے مکمل ہوچکنے کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں۔ دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمام نبیوں کی تصدیق کرتے ہیں کسی نبی کی بشارت یا خوشخبری نہیں دیتے اور پچھلے نبی کی تصدیق ہوتی ہے آئندہ کی بشارت اگر آپ کے بعد کوئی اور نبی ہوتا تو اس کے بشیر بھی ہوتے۔ تیسرے یہ کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سارے پیغمبروں اور ان کی امتوں پر گواہ ہیں لیکن کوئی نبی حضور کا گواہ یا حضو رکی امت کا گواہ نہیں جس سے معلوم ہوا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ چوتھے یہ کہ سارے نبی آپ سے پہلے گزرچکے کوئی باقی نہیں رہا ۔ اعتراض: خاتم النبیین کے معنی ہیں نبیوں سے افضل جیسے کہا کرتے ہیں فلاں شخص خَاتَمُ الشُّعَرَآءِ یا خَاتَمُ الْمُحَدِّثِیْنَ ہے اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ شاعروں یا محدثوں میں آخری شاعر یاآخری محدث ہے بلکہ محدثوں میں افضل ہے۔ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا: '' اَنْتَ خَاتَمُ المُھَاجِرِیْنَ'' (فضائل الصحابۃ لابن حنبل،باب فضائل ابی الفضل العباس بن عبدالمطلب، الحدیث۱۸۱۲، ج۲،ص۹۴۱،مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)' 'تم مہاجرین میں خاتم یعنی افضل ہو۔'' نہ یہ معنی کہ آخری مہاجر ہو کیونکہ ہجرت تو قیامت تک جاری رہے گی لہٰذاآپ کے بعد نبی آسکتے ہیں،ہاں آپ سب سے افضل ہیں اورخاتم النبیین کے معنی یہی ہیں ۔ جواب :خاتم ختم سے بنا ہے جس کے معنی افضل نہیں ورنہ خَتَمَ اللہُ عَلَی قُلُوْبِہِمْ (پ 1،البقرۃ:7) کے معنی یہ ہوتے کہ اللہ نے کافروں کے دل افضل کردیئے۔ جب ختم میں افضلیت کے معنی نہیں تو خاتم میں جوا س سے مشتق ہے یہ معنی کہا ں سے آگئے لوگو ں کا کسی کو خاتم الشعراء کہنا مبالغہ ہوتا ہے گویا اب اس شان کا شاعر نہ آوے گا کہا کرتے ہیں فلاں پر شعر گوئی ختم ہوگئی ۔ رب تعالیٰ کا کلام مبالغہ اور جھوٹ سے پاک ہے ، حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان مہاجرین میں جنہوں نے مکہ مکر مہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی آخری مہاجرہی کیونکہ ان کی ہجرت فتح مکہ کے دن ہوئی جس کے بعد یہ ہجرت بند ہوگئی لہٰذا وہاں بھی خاتم آخر کے معنی میں ہے ۔ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْیَوْمِ آج کے بعد اب مکہ سے ہجرت نہ ہوگی ،اگر وہاں خاتم کے معنی افضل ہوں تو لازم آئے گا کہ حضر ت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے بھی افضل ہوجاویں کیونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم بھی مہاجرہیں ۔ اعتراض: اگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں تو پھر عیسیٰ علیہ السلام کیوں آپ کے بعد آویں گے ۔آخری نبی کے بعد کوئی نبی نہ چاہیے ؟ جواب: آخر ی نبی کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے زمانہ یا آپ کے بعد کوئی نبی باقی نہ رہے۔ آخری اولاد کے معنی یہ ہیں کہ پھر کوئی بچہ پیدا نہ ہو، نہ یہ کہ پچھلے سب مرجاویں نیز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تشریف لانا اب نبوت کی حیثیت سے نہ ہوگا بلکہ حضور کے امتی کی حیثیت سے یعنی وہ اپنے وقت کے نبی ہیں اور اس وقت کے امتی۔ جیسے کوئی جج دوسرے جج کی کچہری میں گواہی دینے کے لئے جاوے تو وہ اگرچہ اپنے علاقہ میں جج ہے مگر اس علاقہ میں گواہ عیسیٰ علیہ السلام محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے علاقہ میں ان کے دین کی نصرت ومدد کرنے تشریف لاویں گے ۔ نوٹ ضروری:جب ختم بمعنی مہر ہوتا ہے تو اس کے بعد علٰی ضرورہوتا ہے خواہ ظاہر ہو یا پوشیدہ جیسے کہ ہماری پیش کر دہ آیات سے ظاہر ہے اور جب ختم بمعنی آخر ہونا یا تمام کرنا ہوگا تو علٰی کی ضرورت نہیں خاتم النبین میں علی نہ ظاہر ہے نہ پوشیدہلہٰذا یہاں آخری نبی مراد ہیں ۔ نوٹ ضروری : خاتم النبیین کے معنی ''آخری نبی ''خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائے اور اس پر امت کا اجماع رہا اب آخر ی زمانہ میں مولوی محمد قاسم دیوبندی اور مرزا غلام احمد قادیانی نے اس کے نئے معنے ایجاد کئے یعنی اصلی نبی، افضل نبی اور ان اجماعی معنی کاانکار کیا اسی لئے ان دونوں پر عرب وعجم کے علماء نے فتوی کفردیا اور جیسے قرآن مجیدکے الفاظ کا انکار کفر ہے ویسے ہی اس کے اجماعی معنی کاانکار بھی کفر ہے اگر کوئی کہے کہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ (پ 1،البقرۃ:43) پر میرا ایمان ہے یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے ہیں مگر صلوٰۃ کے معنی نماز نہیں بلکہ اس کے معنے دعاہیں ۔ ہاں نماز بھی اس معنی میں داخل ہے اور زکوٰۃ کے معنی صدقہ واجبہ نہیں بلکہ اس کے معنی پاکی ہے ہا ں صدقہ وخیرات بھی اس میں داخل ہے تو وہ کافر ہے کیونکہ اگر چہ وہ قرآن کے لفظوں کا انکار نہیں کرتا مگر متواتر معنی کا انکار کرتاہے اس صورت میں خواہ نماز کو فر ض ہی مانے مگر جب قرآن میں الصلوٰۃ کے معنی نماز نہیں کرتا تو وہ کافر ہے ، نیز نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سارے صفات کو ماننا ایمان کے لئے ضروری ہے جیسے کہ حضور نبی ہیں، رسول ہیں ،شفیع المذنبین ہیں اور رحمت للعالمین ہیں ایسے ہی آپ خاتم النبیین بمعنی آخری نبی ہیں جیسے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا ماننا ضروری ہے اور نبوت کے وہی معنی ہیں جو مسلمان مانتے ہیں ایسے ہی آپ کو خاتم النبیّین اسی معنی سے ماننا ضروری ہے جو مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔ نیز جیسے لا الہ الا اللہ میں الٰہ نکرہ ہے نفی کے بعد تو معنی یہ ہے کہ خدا کے سوا کسی طر ح کا کوئی معبود نہیں، نہ اصلی نہ ظلی،نہ بروزی نہ مراتی نہ مذاتی ۔ ایسے ہی ''لانبی بعدی'' میں نبی نکرہ نفی کے بعد ہے جس کے معنی ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی طرح کا نبی اصلی ، نقلی ، بروزی وغیر ہ آنا ایسا ہی ناممکن ہے جیسا دوسرا الٰہ ہونا ،جو کوئی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت کا امکان بھی مانے ، وہ بھی کافر ہے لہٰذا دیوبندی اور قادیانی اس ختم نبوت کے انکار کی وجہ سے دونوں مرتد ہیں ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے: فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اہْتَدَوْا اے صحابیو! اگر ایسا ایمان لائیں جیسا تمہارا ایمان ہے تو ہدایت پاجائینگے (پ۱،البقرۃ:۱۳۷) اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ مانا لہٰذا نبی ماننا گمراہی ہے ۔
  12. خاتم النبیین لفظ خاتم ختم سے بناہے جس کے لغوی معنی ہیں مہر لگانا ۔اصطلاح میں اس کے معنی ہیں تمام کرنا، ختم کرنا، بند کرنا،کیونکہ مہر یا تو مضمون کے آخر پر لگتی ہے جس سے مضمون بند ہوجاتا ہے یا پارسل بند ہونے پر لگتی ہے جب نہ کوئی شے اس میں داخل ہوسکے نہ اس سے خارج ،اسی لئے تمام ہونے کو ختم کہا جاتا ہے قرآن شریف میں یہ لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ چنانچہ رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : (1) خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمۡ اللہ تعالیٰ نے ان کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ۔(پ1،البقرۃ:7) (2) اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤی اَفْوَاہِہِمْ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡہِمْ وَ تَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوۡا یَکْسِبُوۡنَ ﴿۶۵﴾ آج ہم ان کے منہ پرمہر لگادیں گے اور ہم سے ان کے ہاتھ بولیں گے او ران کے پاؤں گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے ۔(پ23،یٰسۤ:65) (3) فَاِنۡ یَّشَاِ اللہُ یَخْتِمْ عَلٰی قَلْبِکَ تو اگر اللہ چاہے توآپ کے دل پر رحمت وحفاظت کی مہر لگادے ۔(پ25،الشورٰی:24) یُسْقَوْنَ مِنۡ رَّحِیۡقٍ مَّخْتُوۡمٍ ﴿ۙ۲۵﴾خِتٰمُہٗ مِسْکٌ ؕ نتھاری شراب پلائے جائیں گے جو مہر کی ہوئی ہے اس کی مہر مشک پر ہے ۔(پ۳۰،المطففین:۲۵) ان جیسی تمام آیتوں میں ختم بمعنی مہر استعمال فرمایا گیا ہے کہ جب کفار کے دل وکان پر مہر لگ گئی تونہ باہر سے وہاں ایمان داخل ہونہ وہاں سے کفر باہر نکلے یوں ہی جنت میں شَرَابًاطَہُوْرًا ایسے بر تنوں سے پلائی جائے گی جن پر حفاظت کے لئے اور یاد کرو ہمارے بندہ ایوب کو ۔(پ23،ص:41) مہر ہے تا کہ کوئی توڑ کرنہ باہر سے کوئی آمیز ش کر سکے نہ اندر سے کچھ نکال سکے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ محمد تمہارے مردو ں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے ۔(پ22،الاحزاب:40) اس جگہ خاتم عرفی معنی میں استعمال ہوا یعنی آخری اور پچھلا ۔ لہٰذا اب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملنانا ممکن ہے۔ اس معنی کی تائید حسب ذیل آیات سے ہوتی ہے اوران آیتوں سے معلوم ہوتاہے کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ (1) اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیۡنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیۡکُمْ نِعْمَتِیۡ (پ6،المآئدۃ:3) آج میں نے تمہارے لئے دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ۔ (2) ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗ پھر تشریف لائیں تمہارے پا س وہ رسول جو تمہاری کتا بوں کی تصدیق کریں توتم سب نبی ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا۔(پ3،ال عمرٰن:81) (3) وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنۡ قَبْلِہِ الرُّسُلُ (4) فَکَیۡفَ اِذَا جِئْنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ ۭبِشَہِیۡدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیۡدًا﴿ؕؔ۴۱﴾ تو کیسی ہوگی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اوراے محبوب تمہیں ان سب پر گواہ ونگہبان لائیں گے ۔(پ5،النساء:41) ان آیتوں سے تین باتیں معلوم ہوئیں ۔ ایک یہ کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا دین مکمل ہے اور دین کے مکمل ہوچکنے کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں۔ دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمام نبیوں کی تصدیق کرتے ہیں کسی نبی کی بشارت یا خوشخبری نہیں دیتے اور پچھلے نبی کی تصدیق ہوتی ہے آئندہ کی بشارت اگر آپ کے بعد کوئی اور نبی ہوتا تو اس کے بشیر بھی ہوتے۔ تیسرے یہ کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سارے پیغمبروں اور ان کی امتوں پر گواہ ہیں لیکن کوئی نبی حضور کا گواہ یا حضو رکی امت کا گواہ نہیں جس سے معلوم ہوا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ چوتھے یہ کہ سارے نبی آپ سے پہلے گزرچکے کوئی باقی نہیں رہا ۔ اعتراض: خاتم النبیین کے معنی ہیں نبیوں سے افضل جیسے کہا کرتے ہیں فلاں شخص خَاتَمُ الشُّعَرَآءِ یا خَاتَمُ الْمُحَدِّثِیْنَ ہے اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ شاعروں یا محدثوں میں آخری شاعر یاآخری محدث ہے بلکہ محدثوں میں افضل ہے۔ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا: '' اَنْتَ خَاتَمُ المُھَاجِرِیْنَ'' (فضائل الصحابۃ لابن حنبل،باب فضائل ابی الفضل العباس بن عبدالمطلب، الحدیث۱۸۱۲، ج۲،ص۹۴۱،مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)' 'تم مہاجرین میں خاتم یعنی افضل ہو۔'' نہ یہ معنی کہ آخری مہاجر ہو کیونکہ ہجرت تو قیامت تک جاری رہے گی لہٰذاآپ کے بعد نبی آسکتے ہیں،ہاں آپ سب سے افضل ہیں اورخاتم النبیین کے معنی یہی ہیں ۔ جواب :خاتم ختم سے بنا ہے جس کے معنی افضل نہیں ورنہ خَتَمَ اللہُ عَلَی قُلُوْبِہِمْ (پ 1،البقرۃ:7) کے معنی یہ ہوتے کہ اللہ نے کافروں کے دل افضل کردیئے۔ جب ختم میں افضلیت کے معنی نہیں تو خاتم میں جوا س سے مشتق ہے یہ معنی کہا ں سے آگئے لوگو ں کا کسی کو خاتم الشعراء کہنا مبالغہ ہوتا ہے گویا اب اس شان کا شاعر نہ آوے گا کہا کرتے ہیں فلاں پر شعر گوئی ختم ہوگئی ۔ رب تعالیٰ کا کلام مبالغہ اور جھوٹ سے پاک ہے ، حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان مہاجرین میں جنہوں نے مکہ مکر مہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی آخری مہاجرہی کیونکہ ان کی ہجرت فتح مکہ کے دن ہوئی جس کے بعد یہ ہجرت بند ہوگئی لہٰذا وہاں بھی خاتم آخر کے معنی میں ہے ۔ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْیَوْمِ آج کے بعد اب مکہ سے ہجرت نہ ہوگی ،اگر وہاں خاتم کے معنی افضل ہوں تو لازم آئے گا کہ حضر ت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے بھی افضل ہوجاویں کیونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم بھی مہاجرہیں ۔ اعتراض: اگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں تو پھر عیسیٰ علیہ السلام کیوں آپ کے بعد آویں گے ۔آخری نبی کے بعد کوئی نبی نہ چاہیے ؟ جواب: آخر ی نبی کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے زمانہ یا آپ کے بعد کوئی نبی باقی نہ رہے۔ آخری اولاد کے معنی یہ ہیں کہ پھر کوئی بچہ پیدا نہ ہو، نہ یہ کہ پچھلے سب مرجاویں نیز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تشریف لانا اب نبوت کی حیثیت سے نہ ہوگا بلکہ حضور کے امتی کی حیثیت سے یعنی وہ اپنے وقت کے نبی ہیں اور اس وقت کے امتی۔ جیسے کوئی جج دوسرے جج کی کچہری میں گواہی دینے کے لئے جاوے تو وہ اگرچہ اپنے علاقہ میں جج ہے مگر اس علاقہ میں گواہ عیسیٰ علیہ السلام محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے علاقہ میں ان کے دین کی نصرت ومدد کرنے تشریف لاویں گے ۔ نوٹ ضروری:جب ختم بمعنی مہر ہوتا ہے تو اس کے بعد علٰی ضرورہوتا ہے خواہ ظاہر ہو یا پوشیدہ جیسے کہ ہماری پیش کر دہ آیات سے ظاہر ہے اور جب ختم بمعنی آخر ہونا یا تمام کرنا ہوگا تو علٰی کی ضرورت نہیں خاتم النبین میں علی نہ ظاہر ہے نہ پوشیدہلہٰذا یہاں آخری نبی مراد ہیں ۔ نوٹ ضروری : خاتم النبیین کے معنی ''آخری نبی ''خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائے اور اس پر امت کا اجماع رہا اب آخر ی زمانہ میں مولوی محمد قاسم دیوبندی اور مرزا غلام احمد قادیانی نے اس کے نئے معنے ایجاد کئے یعنی اصلی نبی، افضل نبی اور ان اجماعی معنی کاانکار کیا اسی لئے ان دونوں پر عرب وعجم کے علماء نے فتوی کفردیا اور جیسے قرآن مجیدکے الفاظ کا انکار کفر ہے ویسے ہی اس کے اجماعی معنی کاانکار بھی کفر ہے اگر کوئی کہے کہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ (پ 1،البقرۃ:43) پر میرا ایمان ہے یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے ہیں مگر صلوٰۃ کے معنی نماز نہیں بلکہ اس کے معنے دعاہیں ۔ ہاں نماز بھی اس معنی میں داخل ہے اور زکوٰۃ کے معنی صدقہ واجبہ نہیں بلکہ اس کے معنی پاکی ہے ہا ں صدقہ وخیرات بھی اس میں داخل ہے تو وہ کافر ہے کیونکہ اگر چہ وہ قرآن کے لفظوں کا انکار نہیں کرتا مگر متواتر معنی کا انکار کرتاہے اس صورت میں خواہ نماز کو فر ض ہی مانے مگر جب قرآن میں الصلوٰۃ کے معنی نماز نہیں کرتا تو وہ کافر ہے ۔ نیز نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سارے صفات کو ماننا ایمان کے لئے ضروری ہے جیسے کہ حضور نبی ہیں، رسول ہیں ،شفیع المذنبین ہیں اور رحمت للعالمین ہیں ایسے ہی آپ خاتم النبیین بمعنی آخری نبی ہیں جیسے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا ماننا ضروری ہے اور نبوت کے وہی معنی ہیں جو مسلمان مانتے ہیں ایسے ہی آپ کو خاتم النبیّین اسی معنی سے ماننا ضروری ہے جو مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔ نیز جیسے لا الہ الا اللہ میں الٰہ نکرہ ہے نفی کے بعد تو معنی یہ ہے کہ خدا کے سوا کسی طر ح کا کوئی معبود نہیں، نہ اصلی نہ ظلی،نہ بروزی نہ مراتی نہ مذاتی ۔ ایسے ہی ''لانبی بعدی'' میں نبی نکرہ نفی کے بعد ہے جس کے معنی ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی طرح کا نبی اصلی ، نقلی ، بروزی وغیر ہ آنا ایسا ہی ناممکن ہے جیسا دوسرا الٰہ ہونا ،جو کوئی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت کا امکان بھی مانے ، وہ بھی کافر ہے لہٰذا دیوبندی اور قادیانی اس ختم نبوت کے انکار کی وجہ سے دونوں مرتد ہیں ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے: فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اہْتَدَوْا اے صحابیو! اگر ایسا ایمان لائیں جیسا تمہارا ایمان ہے تو ہدایت پاجائینگے (پ۱،البقرۃ:۱۳۷) اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ مانا لہٰذا نبی ماننا گمراہی ہے ۔
  13. نذر ونیاز قرآن کریم میں یہ لفظ بہت جگہ استعمال ہوا ہے نذر کے لغوی معنی ہیں ڈرانا یا ڈرسنانا ۔ شرعی معنی ہیں غیر لازم عبادت کو اپنے پر لازم کرلینا ، عرفی معنی ہیں نذرانہ وہدیہ قرآن کریم میں یہ لفظ ان تینوں معانی میں استعمال ہوا ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے: (1) اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دینے والا ڈرسنا نے والا۔(پ22،فاطر:24) (2) وَ اِنۡ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ ﴿۲۴﴾ نہیں ہے کوئی جماعت مگر گذرے ان میں ڈرا نے والے ۔(پ22،فاطر:24) (۳)اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ رَبِّکُمْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآءَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہ آئے جو تم پر تمہارے رب کی آیات تلاوت کرتے ہیں اور تمہیں اس دن کے ملنے سے ڈراتے ۔(پ۲۴،الزمر:۷۱) (4) فَاَنۡذَرْتُکُمْ نَارًا تَلَظّٰی ﴿ۚ۱۴﴾ اور ڈرایا میں نے تم کو بھڑکتی ہوئی آگ سے ۔(پ30،الیل:14) (5) اِنَّا اَنۡزَلْنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ ﴿۳﴾ ہم نے قرآن شریف اتارا برکت والی رات میں ہم ہیں ڈرانے والے ۔(پ25،الدخان:3) ان جیسی بہت سی آیات میں نذر لغوی معنی میں استعمال ہو ا ہے بمعنی ڈرانا، دھمکانا۔ اس معنی میں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی آتا ہے اور انبیا ء کرام کے لئے بھی اورعلماء دین کے لئے بھی۔یہ لفظ شرعی معنی میں بھی استعمال ہو اہے رب تعالیٰ فرماتا ہے : محمد( صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم )رسول ہی ہیں ان سے پہلے سارے رسول گزر چکے ۔(پ4،ال عمرٰن:144) (1) وَمَاۤ اَنۡفَقْتُمۡ مِّنۡ نَّفَقَۃٍ اَوْ نَذَرْتُمۡ مِّنۡ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللہَ یَعْلَمُہٗ جو کچھ تم خرچ کر ویانذر مانو کوئی نذر، اللہ اسے جانتا ہے ۔(پ3،البقرۃ:270) (2) رَبِّ اِنِّیۡ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیۡ بَطْنِیۡ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیۡ اے میرے رب میں نے نذر مانی تیرے لئے اس بچے کی جو میرے پیٹ میں ہے آزاد ۔ پس قبول فرما مجھ سے ۔(پ3،ال عمرٰن:35) (3) وَلْیُوۡفُوۡا نُذُوۡرَہُمْ وَلْیَطَّوَّفُوۡا بِالْبَیۡتِ الْعَتِیۡقِ ﴿۲۹﴾ چاہیے کہ یہ لوگ اپنی نذریں پوری کریں اور پرانے گھر کا طواف کریں ۔(پ17،الحج:29) (4) اِنِّیۡ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ اِنۡسِیًّا ﴿ۚ۲۶﴾ میں نے اللہ کے لئے روزے کی نذر مانی ہے پس آج کسی سے کلام نہ کرو ں گی۔ (پ16،مریم:26) ان جیسی آیات میں نذر سے شرعی معنی مراد ہیں یعنی منت ماننا اور غیر ضروری عبادت کو لازم کرلینا یہ نذر عبادت ہے اس لئے خدا کے سوا کسی بندے کے لئے نہیں ہوسکتی اگر کوئی کسی بندے کی نذر مانتا ہے تو مشرک ہے کیونکہ غیر خدا کی عبادت شرک ہے چونکہ عبادت میں شرط یہ ہے کہ معبود کو الٰہ یعنی خدا یا خدا کے برابر ماناجائے، اس لئے اس نذر میں بھی یہی قید ہوگی کہ کسی کو خدایا خدا کے برابر مان کر نذر مانی جائے، اگر ناذ ر کا یہ عقیدہ نہیں ہے بلکہ جس کی نذر مانی اسے محض بندہ سمجھتا ہے تو وہ شرعی نذر نہیں اسی لئے فقہانے اس نذر میں تقرب کی قید لگائی ۔ تقرب کے معنی عبادت ہیں ۔ یہ بھی خیال رہے کہ اگر کوئی کسی بندے کے نام پر شرعی نذر کرے یعنی اس کی الوہیت کا قائل ہو کر اس کی منت مانے تو اگر چہ یہ شخص مشرک ہوگا اور اس کا یہ کام حرام ہوگا مگر وہ چیز حلال رہے گی اس چیز کو حرام جاننا سخت غلطی ہے اور قرآن کریم کے خلاف ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : (1) مَا جَعَلَ اللہُ مِنۡۢ بَحِیۡرَۃٍ وَّلَا سَآئِبَۃٍ وَّلَا وَصِیۡلَۃٍ وَّلَا حَامٍ ۙ وَّلٰکِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یَفْتَرُوۡنَ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ ؕ نہیں بنایا اللہ نے بحیرہ اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام یہ مشرکین اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں ۔(پ7،المآئدۃ:103) کفار عرب ان چا رقسم کے جانور وصیلہ حام وغیر ہ کو اپنے بتو ں کے نام کی نذر کرتے تھے اور انہیں کھانا حرام جانتے تھے ۔ رب تعالیٰ نے ان کی تردید فرمادی اور فرمایا کہ یہ حلال ہیں جیسے آج کل ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے سانڈ ھ حلال ہیں ۔ اللہ کے نام پر ذبح کر و اور کھاؤ ۔ (2) وَ جَعَلُوۡا لِلہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الۡاَنْعَامِ نَصِیۡبًا فَقَالُوۡا ہٰذَا لِلہِ بِزَعْمِہِمْ وَہٰذَا لِشُرَکَآئِنَا اور ٹھہر ایا ان کا فروں نے اللہ کا اس کھیتی اور جانوروں میں ایک حصہ پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا حصہ ہے اپنے خیال پر اور یہ ہمارے شریکوں کا ہے ۔(پ8،الانعام:136) (3) وَ قَالُوۡا ہٰذِہٖۤ اَنْعَامٌ وَّ حَرْثٌ حِجْرٌ ٭ۖ لَّا یَطْعَمُہَاۤ اِلَّا مَنۡ نَّشَآءُ اور کافر کہتے ہیں کہ یہ جانور اور کھیتی منع ہے اسے نہ کھائے مگر وہ جسے ہم چاہیں۔(پ8،الانعام:138) ان آیات سے معلوم ہوا کہ کفار عرب اپنے جانوروں کھیتوں میں بتو ں کی نذر مان لیتے تھے او رکچھ حصہ بتو ں کے نام پر نامز د کردیتے تھے پھر انہیں کھانا یا تو بالکل حرام جانتے تھے جیسے بحیرہ، سائبہ جانور اور یا ان کے کھانے میں پا بندی لگاتے تھے کہ مرد کھائیں عورتیں نہ کھائیں فلاں کھائے فلاں نہ کھائے ۔ ان دونوں حرکتوں کی رب نے تردید ان آیات میں فرمادی: (1) وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہٰذَا حَلٰلٌ وَّ ہٰذَا حَرَامٌ اور نہ کہو اپنی زبانوں کے جھوٹ بتانے سے کہ یہ حلال ہے اوریہ حرام۔(پ14،النحل:116) (2) قُلْ اَرَءَیۡتُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللہُ لَکُمۡ مِّنۡ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمۡ مِّنْہُ حَرَامًا وَّحَلٰلًا فرماؤ کہ بھلا دیکھو تو جو اللہ نے تمہارا رزق اتارا تم نے اس میں کچھ حلال بنایا کچھ حرام۔(پ11، یونس: 59) (3) قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللہِ الَّتِیۡۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ فرماؤ کس نے حرام کی اللہ کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لئے نکالی اور ستھرا رزق۔(پ8،الاعراف:32) (4) َّحَرَّمُوۡا مَا رَزَقَہُمُ اللہُ افْتِرَآءً عَلَی اللہِ ان کافروں نے حرام سمجھ لیا اسے جو اللہ نے انہیں رزق دیا اللہ پر جھوٹ باندھتے ہوئے ۔(پ8،الانعام:140) (5) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَاشْکُرُوۡا لِلہِ اِنۡ کُنۡتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوۡنَ ﴿۱۷۲﴾ اے مسلمانو! کھاؤ وہ ستھری چیز یں جو ہم تمہیں رزق دیں اور اللہ کا شکر کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔(پ2،البقرۃ:172) (6) وَمَا لَکُمْ اَلَّا تَاۡکُلُوۡا مِمَّا ذُکِرَاسْمُ اللہِ عَلَیۡہِ اور تمہارا کیا حال ہے کہ نہیں کھاتے اس میں سے جس پر اللہ کانام لیا گیا ۔(پ8،الانعام:119) (8) اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الْمَیۡتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنۡزِیۡرِ وَمَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللہِ اللہ نے صرف مردار کو اور خون کو اور سورکے گو شت کو اور اس جانور کو جو غیر خدا کے نام پر ذبح کیاجائے تم پر حرام فرمایا۔(پ2،البقرۃ:173) (9) قَدْ خَسِرَ الَّذِیۡنَ قَتَلُوۡۤا اَوْلَادَہُمْ سَفَہًۢا بِغَیۡرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوۡا مَا رَزَقَہُمُ اللہُ افْتِرَآءً عَلَی اللہِ بے شک نقصان میں رہے وہ جنہوں نے اپنی اولاد کو نادانی اور جہالت سے قتل کر ڈالااور اللہ کے دیئے ہوئے رزق کو حرام کرلیا اللہ پر تہمت لگاتے ہوئے ۔(پ8،الانعام:140) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار عرب کے اس عقیدے کی پرزور تردید فرمائی کہ جس جانور اور جس کھیتی وغیر ہ کو بت کے نام پر لگادیا جاوے وہ حرام ہوجاتا ہے۔ فرمایا: تم اللہ پر تہمت لگاتے ہو اللہ نے یہ چیزیں حرام نہ کیں تم کیوں حرام جانتے ہو، جس سے معلوم ہو اکہ بتوں کے نام کی نذر ماننا شرک تھا اور ان کا یہ فعل سخت جرم تھا مگر اس چیز کو حلال ٹھہرایا اس کے حرام جاننے پر عتاب کیا ،اسے حلال رزق اور طیب روزی فرمایا ۔ ان بتوں کے نام پر چھوٹے ہوئے جانوروں کے متعلق حکم فرمایا کہ اللہ کے نام پر ذبح کرو اور کھاؤ کافروں کی باتوں میں نہ آؤ ۔ ایسے ہی آج بھی جس چیز کو غیر خدا کے نام پر شرعی طور پر نذر کر دیا جائے وہ بھی حلال طیب ہے اگرچہ یہ نذر شرک ہے ۔ نذر کے تیسرے معنی عرفی ہیں یعنی کسی بزرگ کو کوئی چیز ہدیہ ، نذرانہ ، تحفہ پیش کرنا یا پیش کرنے کی نیت کرنا کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو حضو ر غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام کی دیگ پکاؤں گا یعنی دیگ بھرکھانا خیرات کر وں گا اللہ کے لئے اور ثواب اس کا سرکار بغداد کی رو ح شریف کو نذرانہ کرو ں گایہ بالکل جائز ہے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایسی نذریں بارگاہ رسالت میں مانی اور پیش کی ہیں او رحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبول فرمائی ہیں نہ یہ کام حرام نہ چیز حرام ۔ اسی کو عوام کی اصطلاح میں نیاز کہتے ہیں بمعنی نذرانہ ۔ اس کا قرآن شریف میں بھی ثبوت ہے اور احادیث صحیحہ میں بھی۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : وَمِنَ الۡاَعْرَابِ مَنۡ یُّؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنۡفِقُ قُرُبٰتٍ عِنۡدَ اللہِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ ؕ اَلَاۤ اِنَّہَا قُرْبَۃٌ لَّہُمْ ؕ سَیُدْخِلُہُمُ اللہُ فِیۡ رَحْمَتِہٖ ؕ اِنَّ اللہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿٪۹۹﴾ کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور جو خرچ کریں اسے اللہ کی نزدیکیوں اور رسول سے دعا ئیں لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں یقینا ان کیلئے با عث قرب ہے اللہ جلد انہیں اپنی رحمت میں داخل کریگا ۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔(پ11،التوبۃ:99) اس آیت میں بتایا کہ مؤمنین اپنے صدقہ میں دونیتیں کرتے ہیں ۔ ایک اللہ کی نزدیکی اور اس کی عبادت، دوسرے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی دعائیں لینا اور خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خوش ہونا ۔ یہ ہی فاتحہ بزرگان دینے والے، ان کی نذر ماننے والے کا مقصد ہوتا ہے کہ خیرات اللہ کے لئے ہو اور ثواب اس بزرگ کے لئے تا کہ ان کی رو ح خوش ہو کرہمیں دعا کرے ۔ اسی لئے عوام کہتے ہیں ، نذر اللہ، نیاز حسین ، اس میں کوئی قباحت نہیں ۔ جب نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ایک غزوہ سے بخیر یت واپس تشریف لائے تو ایک لڑکی نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہِ اِنِّی کُنْتُ نَذَرْتُ اِنْ رَدَّکَ اللہُ صَالِحًا اَنْ اَضْرِبَ بَیْنَ یَدَیْکَ بِالدُّفِ وَاَتَغَنّٰی بِہٖ فَقَالَ لَہَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنْ کُنْتِ نَذَرْتِ فَاضْرِ بِیْ وَاِلَّا فَـلَا ۔ ( مشکوۃ باب مناقب عمر) (مشکاۃ المصابیح،کتاب المناقب،باب مناقب عمر رضی اللہ عنہ،الحدیث۶۰۴۸، المجلدالثانی،ص۴۱۹،دارالکتب العلمیۃ بیروت) حضور میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ عزوجل آپ کو بخیر یت واپس لائے تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں اور گاؤں،سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : اگر تم نے نذرمانی ہے تو بجاؤ ورنہ نہیں۔ اس حدیث میں لفظ نذر اسی نذرانہ کے معنی میں ہے نہ کہ شرعی نذرکیونکہ گانا بجاناعبادت نہیں صرف اپنے سرور وخوشی کا نذرانہ پیش کرنا مقصود تھا جو سرکار میں قبول فرمایا گیا ۔ یہ عرفی نذر ہے جو ایک صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مانتی ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس کے پورے کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔ اسی مشکوۃ کے حاشیہ میں بحوالہ ملا علی قاری ہے وان کان السرور بمقدمہ الشریف نفسہ قربۃ. (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،کتاب مناقب والفضائل، باب مناقب عمر رضی اللہ عنہ،تحت الحدیث۶۰۴۸،ج۱۰، ص۴۰۳،دارالفکربیروت) ''حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری پر خوشی منانا عبادت ہے۔'' غرضکہ اس قسم کی عرفی نذریں عوام وخواص میں عام طو پر مروج ہیں۔ استا د ، ماں ، باپ ،شیخ سے عرض کرتے ہیں کہ یہ نقدی آپ کی نذر ہے اسے شرک کہنا انتہا درجہ کی بیوقوفی ہے ۔
  14. وعلیکم السلام ورحمت اللہ و برکاتہ ، آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  15. من دون اللہ قرآن شریف میں یہ لفظ بہت زیادہ استعمال ہوا ہے ۔ عبادت کے ساتھ بھی آیا ہے ۔ تصرف اور مدد کے ساتھ بھی ، ولی اور نصیر کے ساتھ بھی ۔ شہید اور وکیل کے ساتھ بھی ، شفیع کے ساتھ بھی ۔ ہدایت ، ضلالت کے ساتھ بھی جیسے کہ قرآن کی تلاوت کرنے والوں پر مخفی نہیں اور ہم بھی ہر طرح کی آیات گزشتہ مضامین میں پیش کرچکے ہیں ۔ اس لفظ دون کے معنی سواء اور علاوہ ہیں،مگر یہ معنی قرآن کی ہر آیت میں درست نہیں ہوتے ۔ اگر ہر جگہ اس کے معنی سواء کئے جا ئیں تو کہیں تو آیات میں سخت تعارض ہوگا اور کہیں قرآن میں صراحۃًجھوٹ لازم آئے گاجس کے دفع کے لئے سخت دشواری ہوگی قرآن کریم میں تامل کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ تین معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ (۱) سواء، علاوہ(۲) مقابل(۳)اللہ کو چھوڑ کر ۔ جہاں من دون اللہ عبادت کے ساتھ ہو یا ان الفاظ کے ہمراہ آوے جو عبادت یا معبود کے معنی میں استعمال ہوئے ہوں تو اس کے معنی سواء ہوں گے کیونکہ خدا کے سوا ء کسی کی عبادت نہیں ہوسکتی، جیسے اس آیت میں ۔ (1) فَلَاۤ اَعْبُدُ الَّذِیۡنَ تَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ وَلٰکِنْ اَعْبُدُ اللہَ الَّذِیۡ یَتوَفّٰىکُمْ پس نہیں پوجتا میں انہیں جن کو تم پوجتے ہو اللہ کے سوا اور لیکن میں تو اس اللہ کو پوجوں گا جو تمہیں موت دیتا ہے ۔(پ11،یونس:104) (2) وَ یَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَا یَنۡفَعُہُمْ وَ لَا یَضُرُّہُمْ او رپوجتے ہیں وہ کافر اللہ کے سوا ء انہیں جو نہ انہیں نفع دیں نہ نقصان ۔(پ19،الفرقان:55) (3) اُحْشُرُوا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا وَ اَزْوَاجَہُمْ وَمَا کَانُوۡا یَعْبُدُوۡنَ ﴿ۙ۲۲﴾مِنۡ دُوۡنِ اللہِ جمع کرو ظالموں کو اور ان کی بیویوں کو اور ان کو جن کی پوجا کر تے تھے یہ اللہ کے سواء۔(پ23،الصّٰفّٰت:22،23) اس جیسی بہت سی آیات میں مِنْ دُوْنِ اللہِ کے معنی اللہ کے سواء ہیں کیونکہ یہ عبادت کے ساتھ آئے ہیں اور عبادت غیر اللہ کسی کی بھی نہیں ہوسکتی ۔ (4) قُلْ اَرَءَیۡتُمْ شُرَکَآءَکُمُ الَّذِیۡنَ تَدْعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ ؕ اَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقُوۡا فرماؤ کہ تم بتا ؤ کہ تمہارے وہ شرکاء جن کی تم پوجاکرتے ہو خدا کے سواء مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے کیا پیدا کیا ۔(پ22،فاطر:40) (5) وَادْعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۳ اور بلا لو اپنے معبودوں کو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو ۔(پ1،البقرۃ:23) (6) اَفَحَسِبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا عِبَادِیۡ مِنۡ دُوۡنِیۡۤ اَوْلِیَآءَ تو کافر وں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ میرے بندوں کومیرے سوا معبود بنائیں ۔(پ16،الکہف:102) ان جیسی آیا ت میں چونکہ دون کا لفظ تدعون اور اولیاء کے ساتھ آیا ہے اور یہاں تدعون کے معنی عبادت ہیں اور اولیاء کے معنی معبود لہٰذا یہاں بھی دون بمعنی علاوہ اور سواہوگا ۔ لیکن جہاں ''دون'' مدد یا نصرت یا دوستی کے ساتھ آوے گا تو وہاں اس کے معنی صرف سواء کے نہ ہوں گے ۔ بلکہ اللہ کے مقابل یا اللہ کو چھوڑ کر ہوں گے یعنی اللہ کے سواء اللہ کے دشمن۔ اس تفسیر اور معنی میں کوئی دشواری نہ ہوگی جیسے (1) اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾ کہ میرے مقابل کسی کو وکیل نہ بناؤ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:2) (2) اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ کیا ان لوگوں نے اللہ کے مقابل کچھ سفارشی بنا رکھے ہیں۔(پ24،الزمر:43) (3) وَمَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۰۷﴾ اور اللہ کے مقابل نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ مدد گار ۔(پ1،البقرۃ:107) (4) وَّلَا یَجِدُوۡنَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیۡرًا ﴿۱۷۳﴾ اور وہ اللہ کے مقابل اپنا نہ کوئی دوست پائینگے اور نہ مدد گار ۔(پ6،النسآء:173) (5) لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوۡنَ الْکٰفِرِیۡنَ اَوْلِیَآءَ مِنۡ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیۡنَ مومن مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائیں ۔(پ3،اٰل عمرٰن:28) (6) وَمَنۡ یَّتَّخِذِ الشَّیۡطٰنَ وَلِیًّا مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیۡنًا ﴿۱۱۹﴾ اور جو شیطان کو دوست بنائے خدا کو چھوڑ کر وہ کھلے ہوئے گھاٹے میں پڑگیا ۔(پ5،النسآء:119) (7) وَمَا کَانَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنْ اَوْلِیَآءَ اور نہیں ہے ان کافروں کے لئے اللہ کے مقابل کوئی مدد گار ۔(پ12،ہود:20) ان جیسی تمام ان آیتوں میں جہاں مدد، نصرت ، ولایت، دوستی وغیرہ کے ساتھ لفظ دون آیا ہے ۔ ان میں اس کے معنی صرف سواء یا علاوہ کے نہیں بلکہ وہ سواء مراد ہے جو رب تعالیٰ کا دشمن یا مقابل ہے ۔ لہٰذا اس دون کے معنے مقابل کرنا نہایت موزوں ہے جن مفسرین نے یا تر جمہ کرنیوالوں نے ان مقامات میں سواء ترجمہ کیا ہے ان کی مراد بھی سواء سے ایسے ہی سواء مرا دہیں ۔ اس دون کی تفسیر یہ آیات ہیں: (1) وَ اِنۡ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِہٖ اوراگر رب تمہیں رسوا کرے تو کون ہے جو پھر تمہاری مدد کرے ۔(پ4،اٰل عمرٰن:160) (2) لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیۡرًا ﴿۱۷﴾ تم فرماؤ کہ وہ کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچائے اگر ارادہ کرے رب تمہارے لئے برائی کا اور ارادہ کرے مہربانی کا اور وہ اللہ کے مقابل کوئی نہ دوست پائیں گے نہ مد د گار ۔(پ21،الاحزاب:17) (3) اَمْ لَہُمْ اٰلِہَۃٌ تَمْنَعُہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِنَا ؕ کیا ان کے کچھ ایسے خدا ہیں جو انہیں ہم سے بچالیں۔(پ17،الانبیآء:43) ان آیات نے تفسیر فرمادی کہ جہاں مد د یادوستی کے ساتھ لفظ دون آئے گا وہاں مقابل اور رب کو چھوڑ کر معنی دے گا نہ کہ صرف سواء یاعلاوہ کے ۔ نیز اگر اس جگہ دون کے معنی سواء کئے جائیں تو آیات میں تعارض بھی ہوگا کیونکہ مثلاً یہاں تو فرمایا گیا رب کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مدد گار نہیں اور جو آیات ولی کی بحث میں پیش کی گئیں وہاں فرمایا گیا کہ تمہارا ولی اللہ اوررسول اور نیک مومنین ہیں یا تمہارے ولی فرشتے ہیں یا فرمایا گیا کہ اے مولیٰ اپنی طر ف سے ہمارے مدد گار فرما ۔ ا س تعارض کا اٹھانا بہت مشکل ہوگا ۔ نیز اگر ان آیات میں دون کے معنی سواء کئے جائیں تو عقل کے بالکل خلاف ہوگا اور رب کا کلام معا ذ اللہ جھوٹا ہوگا ۔ مثلاً یہا ں فرمایا گیا کہ اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ ؕ انہوں نے خدا کے سوا سفارشی بنالیئے ۔ سفارشی تو خدا کے سواہی ہوگا۔(پ۲۴،الزمر:۴۳) خدا تو سفارشی ہوسکتا ہی نہیں یا فرمایاگیا: اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾ (بنیۤ اسرآء یل:2) میرے سوا کسی کو وکیل نہ بناؤ حالانکہ دن رات وکیل بنایا جاتا ہے اب وکیل کے معنی کی تو جیہیں کرو اور شفعاء کے متعلق بحث کرتے پھرو لیکن اگر یہاں دون کے معنی مقابل کرلئے جائیں تو کلام نہایت صاف ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقابل نہ کوئی سفارشی ہے نہ وکیل، نہ کوئی حمایتی ہے نہ کوئی مدد گار نہ کوئی دوست جو کوئی جو کچھ ہے وہ رب تعالیٰ کے ارادہ اور اسی کے حکم سے ہے لہٰذا جہاں بندوں سے ولایت، حمایت، مدد، دوستی کی نفی ہے وہاں رب تعالیٰ کے مقابل ہوکر ہے کہ رب تعالیٰ چاہے ہلاک کرنا اور یہ مدد کر کے بچالیں او رجہاں ان چیز وں کا بندوں کے لئے ثبوت ہے وہاں اذن الٰہی سے مدد نصرت وغیرہ ہے ۔ اعتراض : ان آیات میں مِنْ دُوْنِ اللہِ سے اللہ کے سواء ہی مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا ء غائبانہ مافوق الاسباب مدد کرنے والا کوئی نہیں ۔ یہ ہی عقیدہ شرک ہے جن آیتو ں میں اللہ کے بندوں کی مدد اور ولایت کا ثبوت ہے ۔ وہاں حاضرین زندوں کی اسباب غائبانہ مدد مراد ہے ۔(جواہر القرآن) جواب:یہ تو جیہہ بالکل غلط ہے چند وجہوں سے ایک یہ کہ نفی مدد کی آیتوں میں کوئی قید نہیں ہے مطلق ہیں تم نے اپنے جیب سے اس میں تین قیدیں لگائیں غائبانہ، مافوق الاسباب ، مردو ں کی مدد ، قرآن کی آیت خبر واحد سے بھی مقید نہیں ہوسکتی اور تم صرف اپنے گمان وہم سے مقید کر رہے ہو ۔ او راگردون کوبمعنی مقابل لیا جاوے تو کوئی قید لگانی نہیں پڑتی ۔ دوسرے یہ کہ تمہاری یہ تفسیر خود قرآن کی اپنی تفسیر کے خلاف ہے قرآن کی مذکورہ بالا آیات نے بتایا کہ یہاں دون بمعنی مقابل ہے ۔ لہٰذا تمہاری یہ تفسیر تحریف ہے ۔ تفسیر نہیں ۔ تیسرے یہ کہ ان قیدوں کے با وجود آیت درست نہیں ہوتی کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ منورہ سے بیٹھے ہوئے حضرت ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ کی مافوق الاسباب مدد فرمادی کہ انہیں دشمن کی خفیہ تدبیر سے مطلع فرمادیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام کی مافوق الاسباب دور سے مدد فرمادی کہ اپنی قمیص کے ذریعہ باذن پر ور دگار ان کی آنکھیں روشن فرمادیں اور ظاہر ہے کہ قمیص آنکھ کی شفا کا سبب نہیں لہٰذا یہ مدد مافوق الاسباب ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی وفات کے بعد ہماری مافوق الاسباب یہ مدد کی کہ پچاس نمازوں کی پانچ کرادیں۔ اس قسم کی سینکڑوں مددیں ہیں جو اللہ کے پیاروں نے غائبانہ مافوق الاسباب فرمائیں ۔ تمہاری اس تفسیر کی رو سے سب شرک ہوگئیں غرضیکہ تمہاری یہ تفسیر درست نہیں ہوسکتی ۔چوتھے یہ کہ تم اپنی قیدوں پر خود قائم نہ رہو گے ۔ اچھا بتاؤ ۔اگر غائبانہ امداد تو منع ہے کیا حاضر انہ امداد جائز ہے تو بتا ؤ کسی زندہ ولی سے اس کے پاس جاکر فر زند مانگنا یا رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اطہر پر جاکر حضور سے جنت مانگنا ودوزخ سے پناہ مانگنا جائز ہے تم اسے بھی شرک کہتے ہو تو تمہاری یہ قیدیں خود تمہارے مذہب کے خلاف ہیں بہر حال یہ قیود باطل ہیں ان آیات میں دون بمعنی مقابل ہے ۔
  16. عبادت قرآن شریف کی اصطلاحوں میں عبادت بھی بہت اہم اور نازک اصطلاح ہے ۔کیونکہ یہ لفظ قرآن شریف میں بہت کثرت سے آیا ہے اور اس کے معنے میں نہایت باریکی ہے ۔ اطاعت ، تعظیم ، عبادت ان تینوں میں نہایت لطیف فرق ہے بعض لوگ اس نازک فرق کا اعتبار نہیں کرتے ۔ ہر تعظیم کو بلکہ ہر اطاعت کو عبادت کہہ کر سارے مسلمانوں بلکہ اپنے بزرگوں کو بھی مشرک وکافر کہہ دیتے ہیں ۔ اس لئے اس کا مفہوم ، اس کا مقصو د ، بہت غور سے سنیئے ۔ عبادت عبدٌ سے بنا ہے بمعنی بندہ، عبادت کے لغوی معنی ہیں بندہ بننا یا اپنی بندگی کا اظہار کرنا جس سے لازم آتا ہے معبود کی الوہیت کا اقرار کرنا مفسرین نے اس کی تعریف انتہائی تعظیم بھی کی ہے اورانتہائی عاجزی بھی۔دونوں تعریفیں درست ہیں کیونکہ عابدکی انتہائی عاجزی سے معبودکی انتہائی تعظیم لازم ہے اور معبود کی انتہائی تعظیم سے عابد کی انتہائی عاجزی مستلزم۔ انتہائی تعظیم کی حد یہ ہے کہ معبود کی وہ تعظیم کی جاوے جس سے زیادہ تعظیم ناممکن ہو او راپنی ایسی عاجزی کی جاوے جس سے نیچے کوئی درجہ متصور نہ ہو اس لئے عبادت کی شرط یہ ہے کہ بندگی کر نیوالا معبود کو الٰہ اور اپنے کو اس کا بندہ سمجھے یہ سمجھ کر جو تعظیم بھی اس کی کریگا عبادت ہوگی ۔ اگر اسے الٰہ نہیں سمجھتا ۔ بلکہ نبی ، ولی ، باپ ، استاد ، پیر ، حاکم ، بادشاہ سمجھ کر تعظیم کرے تو اس کا نام اطا عت ہوگا ۔ توقیر ، تعظیم ، تبجیل ہوگا ، عبادت نہ ہوگا غرضیکہ اطاعت وتعظیم تو اللہ تعالیٰ اور بندوں سب کی ہوسکتی ہے لیکن عبادت اللہ تعالیٰ ہی کی ہوسکتی ہے بندے کی نہیں اگر بندے کی عبادت کی تو شرک ہوگیا اور اگر بندے کی تعظیم کی تو جیسا بندہ ویسا اس کی تعظیم کا حکم ۔کوئی تعظیم کفر ہے، جیسے گنگا جمنا ، ہولی ، دیوالی کی تعظیم ۔ کوئی تعظیم ایمان ہے جیسے پیغمبر کی تعظیم، کوئی تعظیم ثواب ہے، کوئی گناہ ۔ اسی لئے قرآن کریم میں عبادت کے ساتھ ہمیشہ اللہ تعالیٰ یا رب یاالٰہ کا ذکر ہے اور اطاعت وتعظیم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بھی ذکر ہے اورنبی کا بھی ، ماں باپ کا بھی حاکم کا بھی فرماتا ہے : (1) وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیۡنِ اِحْسَانًا آپ کے رب نے فیصلہ فرمادیا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:23) (2) مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیۡ بِہٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّیۡ وَرَبَّکُمْ نہیں کہا تھا میں نے ان سے مگر وہ'' ہی'' جس کاتو نے مجھے حکم دیا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارارب ہے ۔(پ7،المائدۃ:117) (3) یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمْ اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کر و جس نے تمہیں پیدا کیا ۔(پ1،البقرۃ:21) (4) نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ اِسْحٰقَ ہم عبادت کر ینگے آپ کے الٰہ کی اور آپ کے باپ دادوں ابراہیم، اسمٰعیل اور اسحق کے الٰہ کی۔ علیہم السلام(پ1،البقرۃ:133) (5) قُلْ یٰۤاَیُّہَا الْکٰفِرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ فرمادو اے کافر و جن کی تم پوجا کرتے ہو ان کی پوجا میں نہیں کرتا ۔(پ30،الکا فرون:1۔2) ان جیسی ساری عبادت کی آیتو ں میں صرف اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوگا لیکن اطاعت وتعظیم میں سب کا ذکر ہوگا۔ (1) اَطِیۡعُوا اللہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمْرِ مِنۡکُمْ اطا عت کرواللہ کی اور اطاعت کرورسول کی اور اپنے میں سے حکم والوں کی ۔(پ5،النسآء:59) (2) مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ جس نے رسول کی فرمانبرداری کی اس نے اللہ کی فرمانبرداری کی ۔(پ5،النسآء:80) (3) وَ تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ نبی کی مدد کرو اور ان کی تعظیم وتو قیر کر و۔(پ26،الفتح:9) (4) فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَعَزَّرُوۡہُ وَنَصَرُوۡہُ پس جو ایمان لائے نبی پر اور تعظیم کی ان کی اور مدد کی ۔(پ9،الاعراف:157) (5) وَ مَنۡ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقْوَی الْقُلُوۡبِ ﴿۳۲﴾ اور جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ دلی پرہیز گاری ہے ۔(پ17،الحج:32) غرضیکہ تعظیم واطاعت بندے کی بھی ہوسکتی ہے لیکن عبادت صرف اللہ کی جب عبادت میں یہ شرط ہے کہ الٰہ جان کر کسی کی تعظیم کرنا تو یہ بھی سمجھ لو کہ الٰہ کون ہے اس کی پوری تحقیق ہم الٰہ کی بحث میں کر چکے کہ الٰہ وہ ہے جسے خالق مانا جائے یا خالق کے برابر ۔ برابری خواہ خدا کی اولاد مان کر ہو یا اس طر ح مستقل مالک ، حاکم ، حی ، قیوم مان کریا اللہ تعالیٰ کو اس کا حاجت مند مان کر ہو ۔ ایک ہی کام اس عقیدے سے ہو تو عبادت ہے اور اس عقیدے کے بغیر ہو تو عبادت نہیں۔ دیکھو رب تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو : (1) فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۲۹﴾ پس جب میں انہیں برابر کردو ں اور ان میں اپنی روح پھونک دو ں تو تم ان کیلئے سجدہ میں گر جاؤ۔(پ14،الحجر:29) (2) وَرَفَعَ اَبَوَیۡہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوۡا لَہٗ سُجَّدًا اور یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کو تخت پراٹھالیا اور وہ سب ان کے سامنے سجدے میں گر گئے ۔(پ13،یوسف:100) ان آیتو ں سے پتا لگا کہ فرشتو ں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا ۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے انہیں سجدہ کیا اور بھی امتوں میں سجدہ کا رواج تھا کہ چھوٹے بڑوں کو سجدہ کرتے تھے پھر یہ بھی فرمایا : (3) لَا تَسْجُدُوۡا لِلشَّمْسِ وَ لَا لِلْقَمَرِ وَ اسْجُدُوۡا لِلہِ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو ۔اور اللہ کوسجدہ کر و۔(پ24،حٰمۤ السجدۃ:37) اس قسم کی بہت آیتو ں میں سجدہ کرنے کو منع فرمایا گیا بلکہ اسے کفر قرار دیا ۔ پچھلی آیتو ں میں سجدہ تعظیمی مراد ہے اور ان آیتو ں میں سجدہ تعبدی مراد ہے ۔ بندوں کو تعبدی سجدہ نہ اس سے پہلے کسی دین میں جائز تھا نہ ہمارے اسلام میں جائز، ہمیشہ سے یہ شرک ہے سجدہ تعظیمی پہلے دینوں میں جائز تھا ہمارے اسلام میں حرام، لہٰذا کسی کو سجدہ تعظیمی کرنا اب حرام ہے شرک نہیں ۔ لیکن سجدہ تعبدی کرنا شرک ہے ۔ ایک ہی کام الوہیت کے عقیدے سے شرک ہے اور بغیر عقیدہ الوہیت شرک نہیں مسلمان سنگ اسود، مقام ابراہیم ، آب زمزم کی تعظیم کرتے ہیں مشرک نہیں مگر ہندو بت یا گنگا جل کی تعظیم کرے تو مشرک ہے کیونکہ مومن کا عقیدہ ان چیز وں کی الوہیت کا نہیں اور کفار کا عقیدہ الوہیت کا ہے ۔ عبادت کی قسمیں عبادت بہت طر ح کی ہے ۔ جانی ، مالی ، بدنی ، وقتی وغیرہ مگر اس کی قسمیں دو ہیں ۔ ایک وہ جس کا تعلق براہ راست رب تعالیٰ سے ہو کسی بندے سے نہ ہو ، جیسے نماز، روزہ ، حج ، زکوۃ ، جہاد وغیرہ کہ بندہ ان کاموں سے صرف رب تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیت کرتا ہے بندے کی رضا کا اس میں دخل نہیں ۔ دوسرے وہ جن کا تعلق بندے سے بھی ہے اور رب تعالیٰ سے بھی یعنی جن بندوں کی اطاعت کا رب تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان کی اطاعت خدا کو راضی کرنے کے لئے رب کی عبادت ہے ۔ جیسے والدین کی فرمانبرداری ، مرشد استاد کی خوشی ، نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر درود شریف ، اہل قرابت کے حقوق کی ادائیگی غرضیکہ کوئی جائز کام ہو ۔ اگر اس میں رب تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیت کرلی جائے تووہ رب تعالیٰ کی عبادت بن جاتے ہیں اور ان پر ثواب ملتا ہے حتی کہ جو اپنے بیوی بچو ں کو کماکر اس لئے کھلائے کہ یہ سنت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے، رب تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے تو کمانا بھی عبادت ہے اور جو خدا کا رزق اس لئے کھائے کہ رب تعالیٰ کا حکم ہے کُلُوْا وَاشْرَبُوْا، اور حضو رصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے ،ادا ء فرض کا ذریعہ ہے تو کھانا بھی عبادت ہے ۔ اسی لئے مجاہد فی سبیل اللہ غازی کا کھانا ، پینا ، سونا، جاگنا عبادت ہے بلکہ ان کے گھوڑوں کی رفتار بھی عبادت ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا ۙ﴿۱﴾ قسم ہے ان گھوڑوں کی جو دو ڑتے ہیں سینے کی آواز نکالتے ۔ (پ30،العٰدیٰت:1) فَالْمُوۡرِیٰتِ قَدْحًا ۙ﴿۲﴾ پھر سم مار کر پتھر وں سے آگ نکالتے ہیں ۔ (پ30،العٰدیٰت:2) فَالْمُغِیۡرٰتِ صُبْحًا ۙ﴿۳﴾ پھر صبح ہوتے ہی کفار کو تا خت وتاراج کرتے ہیں۔(پ30،العٰدیٰت:3) لہٰذا ماں باپ کو راضی کرنا ۔ ان کی اطاعت کرنا ، رب تعالیٰ کی عبادت ہے ، نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر جان ومال قر بان کرنا اس سرکار کی اطاعت ہے اور رب تعالیٰ کی عبادت بلکہ اعلیٰ ترین عبادت ہے ۔ موجود ہ وہابی اس الوہیت کی قید سے بے خبر رہ کر نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تو قیر کو شرک کہہ دیتے ہیں ان کے ہاں محفل میلاد شریف شرک، قبر وں پر جانا شرک ، عید کو سویاں پکانا شرک، نعلین کو بوسہ دینا شرک ، گویا قدم قدم پر شرک ہے اور ساری مشرکین وکفار کی آیات مسلمانوں پر چسپاں کر تے ہیں ۔ اعتراض : کسی کو حاجت روا مشکل کشا سمجھ کر اس کی تعظیم کرنا عبادت ہے اور اس کے سامنے جھکنا بندگی ہے۔ (جواہر القرآن ۔ تقویۃ الایمان) جواب : یہ غلط ہے ہم حکام وقت کی تعظیم کرتے ہیں یہ سمجھ کر کہ بہت سی مشکلات میں ان کے پاس جانا پڑتا ہے کیا یہ عبادت ہے ؟ ہر گز نہیں حکیم ، استاد کی تعظیم کی جاتی ہے کہ ان سے کام نکلتے رہتے ہیں ۔ یہ عبادت نہیں ۔ اعتراض: کسی کو مافوق الاسباب متصرف مان کر اس کی تعظیم کرنا عبادت ہے اور یہ ہی شرک ہے ۔ جواب: یہ بھی غلط ہے فرشتے مافوق الاسباب تصرف کرتے ہیں ۔ یہ جان نکالتے ہیں ماں کے پیٹ میں بچے بناتے ہیں بارش برساتے ہیں عذاب الٰہی لاتے ہیں ۔ یہ سمجھ کر فرشتوں کی تغٰظیم کرنا ان کی عبادت ہے؟ نہیں ۔ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے انگلیوں سے پانی کے چشمے باذن اللہ جاری کردیئے ۔ چاند پھاڑ ڈالا ۔ ڈوبا سورج واپس بلالیا، کنکروں، پتھر وں سے کلمہ پڑھوایا ۔ درختو ں، جانوروں سے اپنی گواہی دلوائی،حضرت عیسی علیہ السلام نے باذن اللہ مردے زندہ کئے ۔ اندھے ، کوڑھی اچھے کئے یہ سارے کام مافوق الاسباب کئے ۔ اس لئے ان کی تعظیم کرنا عبادت ہے ۔ ہرگز نہیں کیونکہ انہیں خدا کے برابر کوئی نہیں مانتا۔ خدا کے برابر ماننا ہی عبادت کے لئے شرط اول ہے ۔ یہ سب اللہ کے بندے اللہ کے اذن وارادے سے کرتے ہیں ۔اسی لئے حضرت صالح و حضرت ہو د، حضرت شعیب ، حضرت نوح اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی قوم کو پہلی تبلیغ یہ ہی فرمائی : یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَکُمۡ مِّنْ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی اور معبودنہیں ۔(پ8،الاعراف:59) یعنی میری اطاعت کرنا ، تعظیم کرنا ، تو قیر بجالانا ، مجھے تمام قوم سے افضل سمجھنا لیکن مجھے خدا یا خدا کی اولاد، خدا کے برابر یا خدا کو میرا محتاج نہ سمجھنا اور ایسا عقیدہ رکھ کر میری تعظیم نہ کرنا کیونکہ اس عقیدے سے کسی کی تعظیم وتوقیر عبادت ہے اور عبادت خدا کے سوا کسی کی درست نہیں ۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف کی سچی سمجھ عطا فرمائے ۔ اس میں بہت بڑ ے لوگ ٹھوکریں کھاجاتے ہیں۔
  17. دعا دُعَا دَعْوٌ یادَعْوَتٌ سے بناہے جس کے معنی بلانا یا پکارنا ہے ۔قرآن شریف میں لفظ دعا پانچ معنی میں استعمال ہوا ہے ۔۱۔پکارنا، ۲۔بلانا، ۳۔مانگنا یا دعا کرنا، ۴۔پوجنا یعنی معبود سمجھ کر پکارنا، ۵۔ تمنا آرزو کرنا۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : (1) اُدْعُوۡہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنۡدَ اللہِ (پ21،الاحزاب:5) انہیں ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو یہ اللہ کے نزدیک عدل ہے ۔ (2) وَّ الرَّسُوۡلُ یَدْعُوۡکُمْ فِیۡۤ اُخْرٰىکُمْ (پ4،اٰل عمرٰن:153) اور پیغمبر تم کو تمہارے پیچھے پکارتے تھے (3) لَا تَجْعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمۡ بَعْضًا ؕ (پ18،النور:63) رسول کے پکارنے کو بعض کے بعض کو پکارنے کی طر ح نہ بناؤ ۔ ان جیسی تمام آیات میں دعا بمعنی پکارنا ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : (1) اُدْعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ (پ14،النحل:125) اپنے رب کے راستہ کی طر ف لوگو ں کو حکمت اور اچھی نصیحت سے بلاؤ ۔ (۲)وَادْعُوْاشُہَدَآءَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ (پ۱،البقرۃ:۲۳) اور بلاؤ اپنے مدد گار وں کو اللہ کے سوا۔ (3) وَلْتَکُنۡ مِّنۡکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوۡنَ اِلَی الْخَیۡرِ (پ4،اٰل عمرٰن:104) اور تم میں ایک گر وہ ایسا ہونا چاہیے جو بھلائی کی طر ف بلائے ۔ ان جیسی آیات میں دعا کے معنی بلانے کے ہیں ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : (1) اُدْعُوۡا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً (پ8،الاعراف:55) اپنے رب سے عاجزی سے خفیہ طو ر پر دعا مانگو ۔ (2) اِنَّ رَبِّیۡ لَسَمِیۡعُ الدُّعَآءِ ﴿۳۹﴾ (پ13،ابراہیم:39) بے شک میرا رب دعا کا سننے والاہے ۔ (3) رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِ (پ13،ابراہیم:40) اے ہمارے رب میری دعا سن لے ۔ (4) فَاِذَا رَکِبُوۡا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ (پ21،العنکبوت:65) جب وہ کشتی پر سوار ہوتے ہیں توخداسے دعامانگتے ہیں دین کو اس کیلئے خالص کر کے ۔ (5) وَّ لَمْ اَکُنۡۢ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا ﴿۴﴾ (پ16،مریم:4) اے میرے رب میں تجھ سے دعا مانگنے میں کبھی نامراد نہ رہا ۔ (6) اُجِیۡبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (پ2،البقرۃ:186) میں دعا مانگنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں جب مجھ سے دعا کرتا ہے۔ (7) وَمَا دُعَآءُ الْکٰفِرِیۡنَ اِلَّا فِیۡ ضَلٰلٍ ﴿۱۴﴾ (پ13،الرعد:14) اور نہیں ہے کافرو ں کی دعا مگر بربادی میں۔ (8) ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ (پ3،اٰل عمرٰن:38) وہا ں زکریا نے اپنے رب سے دعا کی ۔ ان جیسی تمام آیات میں دعا کے معنی دعا مانگنا ہیں۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : وَ لَکُمْ فِیۡہَا مَا تَشْتَہِیۡۤ اَنۡفُسُکُمْ وَ لَکُمْ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ ﴿ؕ۳۱﴾ (پ24،حمۤ السجدۃ:31) اور تمہارے لئے جنت میں وہ ہوگا جو تمہارے دل چا ہیں اور تمہارے لئے وہاں وہ ہوگا جس کی تم تمنا کرو ۔ اس آیت میں دعا بمعنی آرزو کرنا، چاہنا ،خواہش کرنا ہے۔ (1) اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدْعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ (پ9،الاعراف:194) جنہیں تم خدا کے سوا پوجتے ہو وہ تم جیسے بندے ہیں ۔ (2) وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوۡا مَعَ اللہِ اَحَدًا ﴿ۙ۱۸﴾ (پ29،الجن:18) بے شک مسجدیں اللہ کی ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پوجو۔ (3) وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنۡ یَّدْعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَنۡ لَّا یَسْتَجِیۡبُ لَہٗۤ اِلٰی یَوۡمِ الْقِیٰمَۃِ (پ26،الاحقاف:5) اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو خدا کے سوا ایسوں کو پوجتا ہے جو اس کی عبادت قبول نہ کرے قیامت تک ۔ (4) قَالُوۡا ضَلُّوۡا عَنَّا بَلۡ لَّمْ نَکُنۡ نَّدْعُوۡا مِنۡ قَبْلُ شَیْـًٔا ؕ (پ24،المؤمن:74) کافر کہیں گے کہ وہ غائب ہوگئے ہم سے بلکہ ہم ا س سے پہلے کسی چیز کو نہ پوجتے تھے ۔ (5) وَالَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ لَا یَخْلُقُوۡنَ شَیْـًٔا وَّہُمْ یُخْلَقُوۡنَ ﴿ؕ۲۰﴾اَمْوَاتٌ غَیۡرُ اَحْیَآءٍ (پ14،النحل:20،21) اور وہ جن کی یہ مشرکین پوجا کرتے ہیں اللہ کے سوا وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ پیدا کئے جاتے ہیں یہ مردے ہیں زندہ نہیں ۔ (6) وَ اِذَا رَاَ الَّذِیۡنَ اَشْرَکُوۡا شُرَکَآءَہُمْ قَالُوۡا رَبَّنَا ہٰۤؤُلَآءِ شُرَکَآؤُنَا الَّذِیۡنَ کُنَّا نَدْعُوْ مِنۡ دُوۡنِکَ (پ14،النحل:86) اورجب مشرکین اپنے معبودوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے اے رب ہمارے یہ ہمارے وہ معبود ہیں جنہیں ہم تیرے سوا پوجا کرتے تھے ۔ ان جیسی تمام وہ آیات جن میں غیر خدا کی دعا کو شرک وکفر کہا گیا یا اس پر جھڑکا گیا ان سب میں دعا کے معنی عبادت (پوجا) ہے اور یدعون کے معنی ہیں وہ پوجتے ہیں اس کی تفسیر قرآن کی ان آیتو ں نے کی ہے جہاں دعا کے ساتھ عبادت یا الٰہ کا لفظ آگیا ہے ،فرماتا ہے : (1) ہُوَ الْحَیُّ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَادْعُوۡہُ مُخْلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ؕ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۶۵﴾قُلْ اِنِّیۡ نُہِیۡتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیۡنَ تَدْعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ (پ24،المؤمن:66) وہ ہی زندہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسے پوجو۔ اس کے لئے دین کو خالص کر کے سب خوبیاں اللہ رب العالمین کیلئے ہیں تم فرماؤ میں منع کیا گیا ہوں کہ انہیں پوجوں جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو۔ اس آیت میں لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَا وراَنْ اَعْبُدَنے صاف بتادیا کہ یہاں دعا سے پوجنا مراد ہے نہ کہ پکارنا۔ (2) وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسْتَکْبِرُوۡنَ عَنْ عِبَادَتِیۡ سَیَدْخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیۡنَ ﴿٪۶۰﴾ (پ24،المؤمن:60) اور تمہارے رب نے فرمایا کہ مجھ سے دعا کرومیں تمہاری دعاقبول کرو ں گا بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر دو زخ میں جائیں گے یہاں دعا سے مراد دعا مانگنا ہے اور دعا بھی عبادت ہے اس لئے ساتھ ہی عبادت کا ذکر ہو افقط پکارنا مراد نہیں ۔ (3) وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنۡ یَّدْعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَنۡ لَّا یَسْتَجِیۡبُ لَہٗۤ اِلٰی یَوۡمِ الْقِیٰمَۃِ وَ ہُمْ عَنۡ دُعَآئِہِمْ غٰفِلُوۡنَ ﴿۵﴾ وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوۡا لَہُمْ اَعْدَآءً وَّ کَانُوۡا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیۡنَ ﴿۶﴾ (پ26،الاحقاف:5ـ6) اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو خدا کے سوا اس کی پوجا کرتا ہے جو قیامت تک اس کی نہ سنیں اور جب لوگوں کا حشر ہوگا تو یہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت سے منکر ہوجاویں گے۔ یہاں بھی دعا سے مراد پکارنا نہیں بلکہ پوجنا یعنی معبود سمجھ کرپکارنا مراد ہے کیونکہ ساتھ ہی ان کے اس فعل کو عبادت کہا گیا ہے۔ ان آیات نے ان تمام کی شرح کردی جہاں غیر خدا کی دعاکو شرک فرمایا گیا اور بتا دیا کہ وہاں دعا سے مراد پوجنا یا دعا مانگنا ہے اور دعا بھی عبادت ہے اگر غیر خدا کو پکارنا شرک ہوتا تو جن آیتو ں میں پکارنے کا حکم دیا گیا ۔ ان سے ان آیات کا تعارض ہوجاتا ۔ پکارنے کی آیات ہم نے ابھی پیش کردیں اس لئے عام مفسرین ان ممانعت کی آیتو ں میں دعا کے معنی عبادت کرتے ہیں ان کی یہ تفسیر قرآن کی ان آیتوں سے حاصل ہے ۔ اعتراض: دعا کے معنی کسی لغت میں عبادت نہیں دعا کے معنی بلانا، نداکر نا عام لغت میں مذکور ہیں لہٰذا ان تمام آیتوں میں اس کے معنی پکارنا ہی ہیں (جواہر القرآن ) جواب : اس کے دو جواب ہیں ایک یہ کہ دعاکے لغوی معنی پکارنا ہیں او راصطلاحی معنی عبادت ہیں۔ قرآن میں یہ لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہوا جہاں دعا کی اجاز ت ہے وہا ں لغوی پکارنا مراد ہیں اور جہاں غیر خدا کی دعا سے ممانعت ہے وہاں عرفی معنی پوجنا مراد ہیں ۔ جیسے لغت میں صلوۃ کے معنی دعا ہیں او رعرفی معنی نماز۔ قرآن میں اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ میں صلوٰۃسے مراد نمازہے اور صَلِّ عَلَیْہِمْ اور صَلُّوْاعَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا میں صلوٰۃسے مراددعا ہے ۔ تمہارا اعتراض ایسا ہے جیسے کوئی نماز کا انکار کردے اور کہے قرآن میں جہاں بھی صلوٰۃآیاہے وہاں دعامرادہے کیونکہ یہی اس کے لغوی معنی ہیں ایسے ہی طواف کے لغوی معنی گھومنا ہیں اوراصطلاحی معنی ایک خاص عبادت ہیں قرآن میں یہ لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہو اہے ۔ دوسرے یہ کہ واقعی دعا کے معنی پکارنا ہیں مگر پکارنے کی بہت سی نوعیتیں ہیں جن میں سے کسی کو خدا سمجھ کر پکارنا عبادت ہے ، ممانعت کی آیات میں یہی مراد ہے یعنی کسی کو خدا سمجھ کر نہ پکارے ۔ اس کی تصریح قرآن کی اس آیت نے فرمادی: وَمَنۡ یَّدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ۙ لَا بُرْہَانَ لَہٗ بِہٖ ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُہٗ عِنۡدَ رَب اور جو خدا کے ساتھ دوسرے خدا کو پکارے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اس کا حساب رب کے پاس ہے ۔ ِّہٖ (پ18،المؤمنون:117) اس آیت نے خوب صاف فرمادیا کہ پکارنے سے خدا سمجھ کر پکارنا مراد ہے ۔ اعتراض : ان ممانعت کی آیتو ں میں پکارنا ہی مراد ہے مگر کسی کو دور سے پکارنا مراد ہے یہ سمجھ کر کہ وہ سن رہا ہے یہ ہی شرک ہے ۔(جواہر القرآن) جواب :یہ بالکل غلط ہے ۔ قرآن کی ان آیتو ں میں دور نزدیک کا ذکر نہیں ۔ یہ قید آپ نے اپنے گھر سے لگائی ہے نیز یہ قید خود قرآن کی اپنی تفسیر کے بھی خلاف ہے لہٰذا مردود ہے نیز اگر دور سے پکارنا شرک ہو تو سب مشرک ہوجائیں گے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ منورہ سے حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پکارا حالانکہ وہ نہا وند میں تھے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ بنا کر تمام دور کے لوگوں کو پکارا اور تمام روحوں نے جو قیامت تک پیدا ہونیوالی تھیں انہوں نے سن لیا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے ۔ آج نمازی حضور علیہ السلام کو پکارتا ہے: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیّ اے نبی!علیہ الصلوۃ والسلام آپ پر سلام ہو ۔اگر یہ شرک ہوجاوے تو ہر نمازی کی نماز تو پیچھے ختم ہوا کرے ایمان پہلے ختم ہوجاوے آج ریڈیو کے ذریعہ دور سے لوگو ں کو پکارتے ہیں او روہ سن لیتے ہیں اگر کہا جائے کہ ریڈیوکی بجلی کی طاقت ایک سبب ہے اور سبب کے ماتحت دور سے سننا شرک نہیں تو ہم بھی کہیں گے کہ نبوت کے نور کی طاقت ایک سبب ہے اور سبب کے ماتحت سننا شر ک نہیں غرضیکہ یہ اعتراض نہایت ہی لغوہے ۔ اعتراض: ممانعت کی آیتو ں میں مردو ں کو پکارنا مراد ہے یعنی مرے ہوئے کو پکارنا یہ سمجھ کر کہ وہ سن رہاہے شرک ہے ۔ (جواہر القرآن) جواب : یہ بھی غلط ہے چند وجہ سے ایک یہ کہ یہ قید تمہارے گھر کی ہے قرآن میں نہیں آئی۔ رب تعالیٰ نے مردہ ، زندہ ، غائب ، حاضر ، دور نزدیک کی قید لگا کر ممانعت نہ فرمائی ۔ لہٰذا یہ قید باطل ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ تفسیر خود قرآن کی تفسیر کے خلاف ہے ۔ اس نے فرمایا کہ دعا سے مراد عبادت ہے ۔ تیسرے یہ کہ اگر مردو ں کو پکارنا شرک ہو تو ہرنمازی نمازمیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو پکارتا ہے: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ اے نبی!علیہ الصلوۃ والسلام آپ پر سلام ہو،حالانکہ حضور وفات پاچکے ہیں ہم کو حکم ہے کہ قبر ستان جا کر یوں سلام کریں : اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، اے مسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلام ہو۔ ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کی ہوئی چڑیوں کو پکارا اور انہوں نے سن لیا ۔ رب تعالیٰ نے فرمایا : ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاۡتِیۡنَکَ سَعْیًا پھر ان مرے ہوئے پرندوں کو پکار و وہ دوڑتے ہوئے تم تک آجائیں گے ۔(پ3،البقرۃ:260) حضرت صالح علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام نے قوم کو ان کی ہلاکت کے بعد پکارا ، صالح علیہ السلام کا قصہ سورہئ اعراف میں اس طر ح بیان ہوا : فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمْ جٰثِمِیۡنَ ﴿۷۸﴾فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِنۡ لَّاتُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿۷۹﴾ تو انہیں زلزلے نے پکڑلیا تو وہ اپنے گھرو ں میں اوندھے پڑے رہ گئے تو صالح نے ان سے منہ پھیر ا اور کہا اے میری قوم بے شک میں نے تم تک اپنے رب کا پیغام پہنچادیا اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے ۔ (پ8،الاعراف:78۔79) شعیب علیہ السلام کا واقعہ اسی سورہ اعراف میں کچھ آگے یوں بیان فرمایا : فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ ۚ فَکَیۡفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾ شعیب نے ہلاکت کفار کے بعد ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم ! میں نے تجھے اپنے رب کے پیغام پہنچا دیئے اور تمہاری خیر خواہی کی تو میں کا فر قوم پر کیسے غم کرو ں ؟ (پ9،الاعراف:93) ان دونوں آیتو ں میں فَتَوَلّٰی کی ف سے معلوم ہوا کہ ان دونوں پیغمبر وں علیہما الصلوۃ والسلام کا یہ خطاب قوم کی ہلاکت کے بعد تھا ۔ خود ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بد ر کے دن مرے ہوئے ابوجہل، ابولہب،امیہ ابن خلف وغیرہ کفار سے پکار کر فرمایا اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عرض کرنے پر فرمایا کہ تم ان مردوں سے زیادہ نہیں سنتے ۔ (صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی عذاب القبر، الحدیث۱۳۷۰،ج۱،ص۴۶۲،دار الکتب العلمیۃ) کہیے ! اگر قرآن کے فتوے سے مردوں کو پکارنا شرک ہے تو ان انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے اس پکارنے کا کیا جواب دوگے ۔ غرضیکہ یہ اعتراض محض باطل ہے ۔ اعتراض : کسی کو دور سے حاجت روائی کے لئے پکارنا شرک ہے اور ممانعت کی آیتو ں میں یہی مراد ہے لہٰذا اگر کسی نبی ولی کو دور سے یہ سمجھ کر پکارا گیا کہ وہ ہمارے حاجت روا ہیں تو شرک ہوگیا ۔ ( جواہر القرآن) جواب : یہ اعتراض بھی غلط ہے ۔ اولًا تو اس لئے کہ قرآن کی ممانعت والی آیتو ں میں یہ قید نہیں تم نے اپنے گھر سے لگائی ہے ۔لہٰذا معتبر نہیں ۔ دو سرے اس لئے کہ یہ تفسیر خود قرآن کی اپنی تفسیر کے خلاف ہے جیسا کہ ہم نے بیان کر دیا ۔ تیسرے اس لئے کہ ہم نے بتادیا کہ اللہ کے بندے دور سے سنتے ہیں خواہ نورنبوت سے یا نور ولایت سے۔ دوسرے باب میں ہم عرض کریں گے کہ قرآن کہہ رہا ہے کہ اللہ کے بندے حاجت روا ، مشکل کشا بھی ہیں ۔ جب یہ دونوں باتیں علیحد ہ علیحد ہ صحیح ہیں تو ان کا مجموعہ شرک کیونکر ہوسکتا ہے ۔قرآن فرمارہا ہے کہ اللہ کے بندے وفات کے بعد سن بھی لیتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں جوخاص خاص کو محسوس ہوتا ہے ۔ رب فرماتا ہے : وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنۡ قَبْلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ ٭ اَجَعَلْنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعْبَدُوۡنَ ﴿٪۴۵﴾ اے حبیب ان رسولوں سے پوچھوجو ہم نے آپ سے پہلے بھیجے کیا ہم نے خدا کے سوا ایسے معبود بنائے ہیں جن کی عبادت کی جاوے ۔(پ25،الزخرف:45) غور کر و کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں انبیاء سابقین علیہم الصلوۃ والسلام وفات پاچکے تھے۔ مگر رب تعالیٰ فرمارہا ہے کہ اے محبوب ! ان وفات یافتہ رسولوں سے پوچھ لوکہ کیا کوئی خدا کے سوا اور معبود ہے اور پوچھا اس سے جاتا ہے جو سن بھی لے اور جواب بھی دے ۔پتا لگا کہ اللہ کے بندے بعد وفات سنتے اور بولتے ہیں معراج کی رات سارے وفات یافتہ رسولوں نے حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے پیچھے نماز پڑھی ۔ حجۃ الوداع کے موقعہ پر وفات یافتہ رسولوں نے حج میں شرکت کی اور حج ادا کیا۔ اس بارے میں بہت سی صحیح احادیث موجود ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ دعا قرآن کریم میں بہت سے معنوں میں استعمال ہوا ہے ہر جگہ اس کے وہ معنی کرنا چاہئیں جو وہاں کے مناسب ہیں ۔ جن وہابیوں نے ہرجگہ اس کے معنی پکارنا کئے ہیں وہ ایسے فحش غلط ہیں جس سے قرآنی مقصد فو ت ہی نہیں بلکہ بدل جاتا ہے۔ اسی لئے وہابیوں کو اس پکارنے میں بہت سی قیدیں لگانی پڑتی ہیں کبھی کہتے ہیں غائب کو پکارنا ،کبھی کہتے ہیں مردہ کو پکارنا،کبھی کہتے ہیں دور سے سنانے کیلئے پکارنا، کبھی کہتے ہیں مافوق الاسباب سنانے کے لئے دور سے پکارنا شرک ہے مگر پھر بھی نہیں مانتے پھر تعجب ہے کہ جب کسی کو پکارنا عبادت ہوا تو عبادت کسی کی بھی کی جائے شرک ہے ، زندہ کی یا مردہ کی ، قریب کی یادور کی پھر یہ قیدیں بے کار ہیں ۔ غرضکہ یہ معنی نہایت ہی غلط ہیں ۔ ان جگہوں میں دعا سے مراد پوجنا ہے ۔ اس معنی پر نہ کسی قید کی ضرورت ہے نہ کوئی دشواری پیش آسکتی ہے ۔ نوٹ ضروری: اللہ کے پیارے وفات کے بعد زندوں کی مدد کرتے ہیں۔ قرآن شریف سے ثابت ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗ یاد کرو جب اللہ نے پیغمبر وں سے عہد لیا کہ جو میں تمہیں کتا ب وحکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے تو تم اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ۔ (پ3،اٰل عمرٰن:81) اس آیت سے پتا لگاکہ میثاق کے دن رب تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے دو وعدے لئے ۔ ایک حضو رصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا ، دوسرے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرنا ۔ اور رب تعالیٰ جانتا تھا کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے کسی کی زندگی میں نہ تشریف لائینگے پھر بھی انہیں ایمان لانے اور مدد کرنے کا حکم دیا معلوم ہوا کہ روحانی ایمان اور روحانی مدد مراد ہے اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے دونوں وعدوں کو پورا کیا کہ معراج کی رات سب نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پیچھے نماز پڑھی یہ ایمان کاثبوت ہے ۔ بہت سے پیغمبر وں نے حج الوداع میں شرکت کی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شب معراج دین مصطفی کی اس طر ح مدد کی کہ پچا س نمازوں کی پانچ کرادیں ۔ اب بھی وہ حضرات انبیائعلیہم الصلوۃ والسلام مسلمانوں کی اور حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے دین کی روحانی مدد فرمارہے ہیں اگر یہ مدد نہ ہوا کرتی تو یہ عہد لغو ہوتا عیسی علیہ السلام آخر زمانہ میں اس عہد کو ظاہر طور پر بھی پورا فرمانے کے لئے تشریف لائیں گے ۔
  18. بدعت بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیزاصطلاح شریعت میں بدعت کہتے ہیں دین میں نیا کام جو ثواب کیلئے ایجاد کیا جائے اگر یہ کام خلاف دین ہو تو حرام ہے اور اگر اس کے خلاف نہ ہو تودرست یہ دونوں معنی قرآن شریف میں استعمال ہوئے ہیں۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے۔ (1) بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ ؕ وہ اللہ آسمانوں اور زمین کا ایجاد فرمانے والا ہے ۔(پ1،البقرۃ:117) (2)قُلْ مَا کُنۡتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ فرمادو کہ میں انوکھا رسول نہیں ہوں۔ (پ26،الاحقاف:9) ان دونوں آیتو ں میں بدعت لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی انوکھا نیا رب تعالیٰ فرماتا ہے : وَ جَعَلْنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ رَاۡفَۃً وَّ رَحْمَۃً ؕ وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابْتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبْنٰہَا عَلَیۡہِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللہِ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنْہُمْ اَجْرَہُمْ ۚ وَکَثِیۡرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوۡنَ ﴿۲۷﴾ اور عیسیٰ علیہ السلام کے پیروؤں کے دل میں ہم نے نرمی اور رحمت رکھی اور ترک دنیا یہ بات جو انہوں نے دین میں اپنی طر ف سے نکالی ۔ ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوں نے اللہ کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے مومنوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا اور ان میں سے بہت سے فاسق ہیں۔(پ27،الحدید:27) اس آیت سے معلوم ہوا کہ عیسائیوں نے رہبانیت اور تارک الدنیا ہونا اپنی طر ف سے ایجاد کیا ۔ رب تعالیٰ نے ان کو اس کا حکم نہ دیا ۔ بد عت حسنہ کے طور پر انہوں نے یہ عبادت ایجاد کی اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بدعت کا ثواب دیا مگر جو اسے نباہ نہ سکے یا جو ایمان سے پھر گئے وہ عذاب کے مستحق ہوگئے معلوم ہوا کہ دین میں نئی بدعتیں ایجاد کرنا جو دین کے خلاف نہ ہوں ثواب کا با عث ہیں مگر انہیں ہمیشہ کرنا چاہیے جیسے چھ کلمے ، نماز میں زبان سے نیت ،قرآن کے رکوع وغیرہ ،علم حدیث، محفل میلا د شریف ،اور ختم بزرگان، کہ یہ دینی چیزیں اگر چہ حضور صلی ا للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے بعد ایجاد ہوئیں مگر چونکہ دین کے خلاف نہیں اور ان سے دینی فائدہ ہے لہٰذا باعث ثواب ہیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ جو اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کرے اسے بہت ثواب ہوگا ۔ بدعت آئمہ و محدثین کرام کی نظر میں امام محمد بن اِدریس بن عباس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 204ھ) امام بیہقی (المتوفی 458 ھ) نے اپنی سند کے ساتھ ’’مناقبِ شافعی‘‘ میں روایت کیا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تقسیم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں : 1. المحدثات من الأمور ضربان : أحدهما ما أحدث مما يخالف کتاباً أوسنة أو اثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، و الثانية ما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضي الله عنه في قيام رمضان نعمت البدعة هذه(1) يعني إِنَّها محدثة لم تکن و إِذا کانت ليس فيها ردُّ لما مضي. (2) ’’محدثات میں دو قسم کے امور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے امور ہیں جو قرآن و سنت یا اثر صحابہ یا اجماع امت کے خلاف ہوں وہ بدعت ضلالہ ہے، اور دوسری قسم میں وہ نئے امور ہیں جن کو بھلائی کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی (امرِ شریعت) کی مخالفت نہ کرتا ہو پس یہ امور یعنی نئے کام محدثہ غیر مذمومۃ ہیں۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے یعنی یہ ایک ایسا محدثہ ہے جو پہلے نہ تھا اور اگر یہ پہلے ہوتا تو پھر مردود نہ ہوتا۔‘‘ 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250 2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269 3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250 4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266 5. زرقاني، شرح الزرقاني علي موطا الامام مالک، 1 / 340 1. بيهقي، المدخل الي السنن الکبريٰ، 1 : 206 2. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 8 : 408 3. نووي، تهذيب الاسماء واللغات، 3 : 21 علامہ ابن رجب حنبلی (795ھ) اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم‘‘ میں تقسیمِ بدعت کے تناظر میں اِمام شافعی کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں : 2. وقد روي الحافظ أبو نعيم بإسناد عن إبراهيم ابن الجنيد قال : سمعت الشافعي يقول : البدعة بدعتان : بدعة محمودة و بدعة مذمومة، فما وافق السنة فهو محمود، وما خالف السنة فهو مذموم. واحتجّ بقول عمر رضي الله عنه : نعمت البدعة هي. (1) و مراد الشافعي رضي الله عنه ما ذکرناه من قبل أن أصل البدعة المذمومة ما ليس لها أصل في الشريعة ترجع إليه و هي البدعة في إطلاق الشرع. وأما البدعة المحمودة فما وافق السنة : يعني ما کان لها أصل من السنة ترجع إليه، و إنما هي بدعة لغة لا شرعا لموافقتها السنة. وقد روي عن الشافعي کلام آخر يفسر هذا و أنه قال : المحدثات ضربان : ما أحدث مما يخالف کتابا أو سنة أو أثرا أو إجماعا فهذه البدعة الضلالة، وما أحدث فيه من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا و هذه محدثة غير مذمومة، و کثير من الأمور التي أحدثت ولم يکن قد اختلف العلماء في أنها بدعة حسنة حتي ترجع إلي السنة أم لا. فمنها کتابة الحديث نهي عنه عمر وطائفة من الصحابة و رخص فيها الأکثرون واستدلوا له بأحاديث من السنة. ومنها کتابة تفسير الحديث والقرآن کرهه قوم من العلماء و رخص فيه کثير منهم. وکذلک اختلافهم في کتابة الرأي في الحلال والحرام و نحوه. و في توسعة الکلام في المعاملات و أعمال القلوب التي لم تنقل عن الصحابة والتابعين. (2) 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250 2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269 3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح موطا مالک، 1 / 105، رقم : 250 4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266 5. زرقاني، شرح الزرقاني علي موطا الامام مالک، 1 / 340 ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم : 4 - 253 ’’حافظ ابو نعیم نے ابراہیم بن جنید کی سند سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں۔ 1۔ بدعت محمودہ 2۔ بدعت مذمومۃ جو بدعت سنت کے مطابق و موافق ہو وہ محمودہ ہے اور جو سنت کے مخالف و متناقض ہو وہ مذموم ہے اور انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول (نعمت البدعۃ ھذہ) کو دلیل بنایا ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مراد بھی یہی ہے جو ہم نے اس سے پہلے بیان کی ہے بے شک بدعت مذمومہ وہ ہے جس کی کوئی اصل اور دلیل شریعت میں نہ ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہے اور اسی پر بدعت شرعی کا اطلاق ہوتا ہے اور بدعت محمودہ وہ بدعت ہے جو سنت کے موافق ہے یعنی اس کی شریعت میں اصل ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہو اور یہی بدعت لغوی ہے شرعی نہیں ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے دوسری دلیل اس کی وضاحت پر یہ ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ محدثات کی دو اقسام ہیں پہلی وہ بدعت جو کتاب و سنت، اثر صحابہ اور اجماع اُمت کے خلاف ہو یہ بدعت ضلالہ ہے اور ایسی ایجاد جس میں خیر ہو اور وہ ان چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اثر اور اجماع) میں سے کسی کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعتِ غیر مذمومہ ہے اور بہت سارے امور ایسے ہیں جو ایجاد ہوئے جو کہ پہلے نہ تھے جن میں علماء نے اختلاف کیا کہ کیا یہ بدعت حسنہ ہے۔ یہاں تک کہ وہ سنت کی طرف لوٹے یا نہ لوٹے اور ان میں سے کتابت حدیث ہے جس سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے ایک گروہ نے منع کیا ہے اور اکثر نے اس کی اجازت دی اور استدلال کے لیے انہوں نے کچھ احادیث سنت سے پیش کی ہیں اور اسی میں سے قرآن اور حدیث کی تفسیر کرنا جس کو قوم کے کچھ علماء نے ناپسند کیا ہے اور ان میں سے کثیر علماء نے اس کی اجازت دی ہے۔ اور اسی طرح حلال و حرام اور اس جیسے معاملات میں اپنی رائے سے لکھنے میں علماء کا اختلاف ہے اور اسی طرح معاملات اور دل کی باتیں جو کہ صحابہ اور تابعین سے صادر نہ ہوئی ہوں ان کے بارے میں گفتگو کرنے میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔‘‘ (2) اِمام ابو عبداﷲ محمد بن احمد القرطبی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 380ھ) معروف مفسرِ قرآن اِمام ابو عبداﷲ محمدبن احمد قرطبی بدعت کی مختلف اقسام بیان کرتے ہوئے اپنی معروف تفسیر ’’الجامع لاحکام القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں : 3. کل بِدعة صدرت من مخلوق فلا يخلو أن يکون لها أصل في الشرع أولا؛ فإن کان لها أصل کانت واقعة تحت عموم ما ندب اﷲ إليه و حضّ رسوله عليه؛ فهي في حيز المدح. وإن لم يکن مثاله موجودا کنوع من الجود والسخاء و فعل المعروف؛ فهذا فعله من الأفعال المحمودة، وإن لم يکن الفاعل قد سبق إليه. و يعْضُدْ هذا قول عمر رضی الله عنه : نعمت البدعة هذه؛ لما کانت من أفعال الخير و داخلة في حيز المدح، وهي وإن کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم قد صلاها إلا أنه ترکها ولم يحافظ عليها، ولا جمع الناس عليها؛ فمحافظة عمر رضی الله عنه، عليها وجمع الناس لها، وندبهم إليها، بدعة لکنها بدعة محمودة ممدوحة. وإن کانت في خلاف ما أمرﷲ به ورسوله فهي في حيّز الذم والإنکار؛ قال معناه الخطابي و غيره قلت : وهو معني قوله صلي الله عليه وآله وسلم في خطبته : ’’وشَرُّ الأمور محدثاتها وکل بدعة ضلالة‘‘(1) يريد مالم يوافق کتابا أو سنة، أو عمل الصحابة رضي اﷲ عنهم، وقد بين هذا بقوله : ’’مَنْ سَنّ فِي الإسلام سُنَّة حسنة کان له أجرها و أجر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء ومَن سنّ في الإسلام سُنَّة سيئة کان عليه وزرُها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيئ‘‘. (2) وهذا إشارة إلي ما ابتدع من قبيح و حسن.(3) ’’ہر بدعت جو مخلوق سے صادر ہوتی ہے دوحالتوں سے خالی نہیں ہوتی وہ یہ کہ اس کی اصل شریعت میں ہوتی ہے یا نہیں اگر اس کی اصل شریعت میں ہو تو پھر وہ لازمی طور پر عموم کے تحت واقع ہوگی جس کو اﷲ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو پس یہ بدعت مقامِ مدح میں ہوگی اور اگر ان کی مثال پہلے سے موجود نہ ہو جیسے جود و سخاء وغیرہ کی اقسام اور معروف کام تو ایسے امور کا سر انجام دینا افعال محمودہ میں سے ہے چاہے کسی نے یہ کام پہلے نہ کئے ہوں اور یہ عمل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول، ’’ نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کو تقویت دیتا ہے جو کہ اچھے کاموں میں سے تھی اور وہ محمود کاموں میں داخل ہیں اور وہ یہ ہے کہ بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز تراویح کو پڑھا تھا مگر آپ نے اسے (باجماعت) ترک کر دیا اور اس کی محافظت نہیں فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا پس (بعد میں مصلحت وقت کے تحت) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس (نمازِ تراویح) کی محافظت کی اور لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا اور انہوں نے لوگوں کو اس کی ترغیب دی تو وہ بدعت ہوئی لیکن بدعت محمودہ اور ممدوحہ ہے اور اگر وہ بدعت اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو تو وہ مقام ذم میں ہوگی اور یہ معنی خطابی اور دیگر نے بھی کیا ہے تو امام قرطبی کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ وہی معنی آقا علیہ السلام کے خطبہ سے بھی ثابت ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’وشرالامور محدثاتہا و کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اور اس سے مراد وہ کام ہے جو کتاب و سنت اور عمل صحابہ کے موافق نہ ہو اور یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول سے بھی واضح ہوتی ہے کہ ’’جس نے اسلام میں کسی اچھی چیز کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور اس کے بعد جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی اسے ملے گا اور ان کے اجر میں ذرّہ برابر بھی کمی نہیں ہوگی اور جس کسی نے اسلام میں کسی بری چیز کی ابتداء کی تو اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہوگا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کی برائی کا وبال بھی اس پر ہوگا اور ان کے وبال میں سے کوئی کمی نہ کی جائے گی‘‘ اور یہ اشارہ اس کی طرف ہے جس نے کسی اچھے یا برے کام کی ابتداء کی۔ 1. ابن ماجه، السنن، باب اجتناب البدع الجدل، 1 / 18، رقم : 46 2. ابن حبان، الصحيح، 1 / 186، رقم : 10 3. طبراني، المعجم الکبير، 9 / 96، رقم : 8518 4. ابويعلي، المسند، 4 / 85، رقم : 2111 5. ديلمي، المسند الفردوس، 1 / 380، رقم : 1529 1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017 2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554 3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203 4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357 - 359 5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 101، 102، رقم : 3308 قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 87 (3) اِمام علی بن اَحمد ابن حزم الاندلسی رحمۃ اللہ علیہ (456 ھ) اِمام ابن حزم اندلسی اپنی کتاب ’’الاحکام فی اُصول الاحکام‘‘ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : 4. والبدعة کل ما قيل أو فعل مما ليس له أصل فيما نسب إليه صلي الله عليه وآله وسلم و هو في الدين کل مالم يأت في القرآن ولا عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إلا أن منها ما يؤجر عليه صاحبه و يعذر بما قصد إليه من الخير و منها ما يؤجر عليه صاحبه و يکون حسنا و هو ماکان أصله الإباحة کما روي عن عمر رضي الله عنه نعمت البدعة هذه(1) و هو ما کان فعل خير جاء النص بعموم استحبابه و إن لم يقرر عمله في النص و منها ما يکون مذموما ولا يعذر صاحبه و هو ما قامت به الحجة علي فساده فتمادي عليه القائل به. (2) ’’بدعت ہر اس قول اور فعل کو کہتے ہیں جس کی دین میں کوئی اصل یا دلیل نہ ہو اور اس کی نسبت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی جائے لہٰذا دین میں ہر وہ بات بدعت ہے جس کی بنیاد کتاب و سنت پر نہ ہو مگر جس نئے کام کی بنیاد خیر پر ہو تو اس کے کرنے والے کو اس کے اِرادئہ خیر کی وجہ سے اَجر دیا جاتا ہے اور یہ بدعتِ حسنہ ہوتی ہے اور یہ ایسی بدعت ہے جس کی اصل اباحت ہے۔ جس طرح کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نعمت البدعۃ ہذہ قول ہے۔ اور یہ وہی اچھا عمل تھا جس کے مستحب ہونے پر نص وارد ہوئی اگرچہ پہلے اس فعل پر صراحتاً نص نہیں تھی اور ان (بدعات) میں سے بعض افعال مذموم ہوتے ہیں لہٰذا اس کے عامل کو معذور نہیں سمجھا جاتا اور یہ ایسا فعل ہوتا ہے جس کے ناجائز ہونے پر دلیل قائم ہوتی ہے اور اس کا قائل اس پر سختی سے عامل ہوتا ہے۔‘‘ 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250 2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269 3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250 4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266 ابن حزم الاندلسي، الاحکام في اُصول الاحکام، 1 : 47 (4) اِمام ابوبکر احمد بن حسین البیہقی رحمۃ اللہ علیہ (458 ھ) امام ابوبکر احمد بن حسین البیہقی اپنی کتاب ’’المدخل الی السنن الکبريٰ‘‘ میں ربیع بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں کہ : 5. قال الشافعي رضي الله عنه المحدثات من الأمور ضربان : أحدهما ما أحدث مما يخالف کتاباً أوسنة أو اثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، و الثانية ما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضي الله عنه في قيام رمضان نعمت البدعة هذه(1) يعني إِنَّها محدثة لم تکن و إِذا کانت ليس فيها ردُّ لما مضي. (2) ’’محدثات میں دو قسم کے امور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے امور ہیں جو قرآن و سنت یا اثر صحابہ یا اجماع امت کے خلاف ہوں وہ بدعت ضلالہ ہے، اور دوسری قسم میں وہ نئے امور ہیں جن کو بھلائی کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی (امرِ شریعت) کی مخالفت نہ کرتا ہو پس یہ امور محدثہ غیر مذمومۃ ہیں۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔ یعنی یہ ایک ایسا محدثہ یعنی نیا عمل ہے جو پہلے نہ تھا اور اگر یہ پہلے ہوتا تو پھر مردود نہ ہوتا۔‘‘ 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250 2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269 3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250 4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266 5. زرقاني، شرح الزرقاني علي مؤطا الامام مالک، 1 / 340 1. بيهقي، المدخل الي السنن الکبري، 1 : 206 2. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 8 : 408 3. نووي، تهذيب الاسماء واللغات، 3 : 21 (5) اِمام ابو حامد محمد بن محمد الغزالی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 505ھ) امام ابوحامد محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب’’احیاء علوم الدین‘‘ میں بدعت کے حوالے سے رقمطراز ہیں : 6. فليس کل ما أبدع منهيا بل المنهي بدعة تضاد سُنة ثابتة و ترفع أمرا من الشرع مع بقاء علته بل الابداع قد يجب في بعض الاحوال إذا تغيرت الأسباب وليس في المائدة إلا رفع الطعام عن الأرض لتيسير الأکل و أمثال ذلک مما لا کراهة فيه. والأربع التي جمعت في أنها مبدعة ليست متساوية بل الأشنان حسن لما فيه من النظافة فإن الغسل مستحب للنظافة والأشنان أتم في التنظيف، وکانوا لا يستعملونه لأنه ربما کان لا يعتاد عندهم أو لا يتيسر، أو کانوا مشغولين بأمور أهم من المبالغة في النظافة فقد کانوا لا يغسلون اليد أيضا، وکانت مناديلهم أخمص أقدامهم وذلک لا يمنع کون الغسل مستحبا. و أما المنخل فالمقصود منه تطييب الطعام وذلک مباح مالم ينته إلي التنعم المفرط. و أما المائدة فتيسير للأکل و هو أيضا مباح مالم ينته إلي الکبر والتعاظم. و أما الشبع فهو أشد هذه الأربعة فإنه يدعو إلي تهييج الشهوات و تحريک الأدواء في البدن فلتدرک التفرقة بين هذه البدعات. ’’ہر بدعت ممنوع نہیں ہوتی بلکہ ممنوع صرف بدعت وہ ہوتی ہے جو سنتِ ثابتہ سے متضاد ہو اور اس سنت کی علت کے ہوتے ہوئے اَمرِ شریعت کو اٹھادے (مزید برآں) بعض احوال میں جب اسباب متغیر ہوجائیں تو بدعت واجب ہوجاتی ہے اور بلند دسترخوان میں یہی بات تو ہے کہ کھانے کی آسانی کے لیے کھانے کو زمین سے بلند کیا جاتا ہے اور اس قسم کے کاموں میں کراہت نہیں ہوتی۔ جن چار باتوں کو جمع کیا گیا کہ یہ بدعت ہیں تو یہ سب برابر بھی نہیں ہیں بلکہ اُشنان (ایک بوٹی جو صفائی کے کام آتی ہے) اچھی چیز ہے کیونکہ اس میں نظافت ہے کیونکہ پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے غسل مستحب ہے اور اُشنان اس نظافت کو مکمل کرتی ہے اور وہ لوگ اس لیے استعمال نہیں کرتے تھے کہ ان کی عادت نہیں تھی یا انہیں حاصل نہیں ہوتی تھی۔ یا وہ نظافت سے زیادہ اہمیت کے کاموں میں مشغول ہوتے تھے بعض اوقات وہ ہاتھ بھی نہیں دھوتے تھے اور ان کے رومال پاؤں کے تلوے ہوتے تھے (یعنی پاؤں کے تلوؤں سے ہاتھ صاف کرلیتے تھے) اور یہ عمل، دھونے کے استحباب کے خلاف نہیں، چھلنی سے مقصود کھانے کو صاف کرنا ہوتا ہے اور یہ جائز ہے جب تک حد سے متجاوز عیاشی کی طرف نہ لے جائے۔ اونچے دسترخوان سے چونکہ کھانا کھانے میں آسانی ہوتی ہے لہٰذا یہ بھی جائز ہے جب تک تکبر اور بڑائی پیدا نہ کرے شکم سیری ان چاروں میں سے زیادہ سخت ہے کیونکہ اس سے خواہشات ابھرتی ہیں اور بدن میں بیماریاں پیدا ہوتی ہیں تو ان چاروں بدعات میں فرق معلوم ہونا چاہے۔‘‘ غزالي، إحياء علوم الدين، 2 : 3 (6) اِمام مبارک بن محمد ابن اثیر الجزری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 606ھ) علامہ ابن اثیر جزری حدیثِ عمر ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ (بخاری، رقم : 1906) کے تحت بدعت کی اقسام اور ان کا شرعی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 7. البدعة بدعتان : بدعة هدًي، و بدعة ضلال، فما کان في خلاف ما أمر اﷲ به و رسوله صلي الله عليه وآله وسلم فهو في حيز الذّم والإنکار، وما کان واقعا تحت عموم ما ندب اﷲ إليه و حضَّ عليه اﷲ أو رسوله فهو في حيز المدح، وما لم يکن له مثال موجود کنوع من الجود والسخاء و فعل المعروف فهو من الأفعال المحمودة، ولا يجوز أن يکون ذلک في خلاف ما ورد الشرع به؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قد جعل له في ذلک ثوابا فقال من سنّ سُنة حسنة کان له أجرها و أجر من عمل بها وقال في ضِدّه ومن سنّ سنة سيّئة کان عليه وزرُها ووِزرُ من عمل بها(1) وذلک إذا کان في خلاف ما أمر اﷲ به ورسوله صلي الله عليه وآله وسلم ومن هذا النوع قول عمر رضی الله عنه : نِعمت البدعة هذه(2). لمَّا کانت من أفعال الخير وداخلة في حيز المدح سماها بدعة ومدحها؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم لم يسُنَّها لهم، و إنما صلّاها ليالي ثم ترکها ولم يحافظ عليها، ولا جمع الناس لها، ولا کانت في زمن أبي بکر، وإنما عمر رضی الله عنه جمع الناس عليها و ندبهم إليها، فبهذا سمّاها بدعة، وهي علي الحقيقة سُنَّة، لقوله صلي الله عليه وآله وسلم (عليکم بِسُنَّتي و سنَّة الخلفاء الراشدين من بعدي)(3) وقوله (اقتدوا باللذين من بعدي أبي بکر و عمر)(4) و علي هذا التأويل يحمل الحديث الآخر (کل مُحْدَثة بدعة) إنما يريد ما خالف أصول الشريعة ولم يوافق السُّنَّة(5). ’’بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ. جو کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے، اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ تعاليٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو اس کام کا کرنا محمود ہے اور جن کاموں کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے سخاوت کی اقسام اور دوسرے نیک کام، وہ اچھے کام ہیں بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کاموں پر ثواب کی بشارت دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص نے اچھے کام کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی ملے گا اور اس کے برعکس جو برے کام کی ابتداء کرے گا اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے برے کام کی ابتداء کی اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہو گا اور جو اس برائی کو کریں گے ان کا وبال بھی اس پر ہو گا اور یہ اس صورت میں ہے جب وہ کام اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو اور اِسی قسم یعنی بدعتِ حسنہ کے بارے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے پس جب کوئی کام افعالِ خیر میں سے ہو اور مقام مدح میں داخل ہو تو اسے لغوی اعتبار سے بدعت کہا جائے گا مگر اس کی تحسین کی جائے گی کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باجماعت نماز تراویح کو ان کے لئے مسنون قرار نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند راتیں اس کو پڑھا پھر باجماعت پڑھنا ترک کر دیا اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ محافظت فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا، بعد میں نہ ہی یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں باجماعت پڑھی گئی پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس پر جمع کیا اور ان کو اس کی طرف متوجہ کیا پس اس وجہ سے اس کو بدعت کہا گیا درآں حالیکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول ’’علیکم بسنّتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی‘‘ اور اس قول’’اقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر و عمر‘‘ کی وجہ سے حقیقت میں سنت ہے پس اس تاویل کی وجہ سے حدیث ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ کو اصول شریعت کی مخالفت اور سنت کی عدم موافقت پر محمول کیا جائے گا۔ 1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017 2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554 3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203 4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359 5. دارمي، السنن، 1 : 141، رقم : 514 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250 2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269 3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250 1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607 2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676 3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42 4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126 1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر، 5 / 609، رقم : 3662 2. ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 37، رقم : 97 3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451 ابن أثير جزري، النهاية في غريب الحديث والأثر1 : 106 (7) اِمام عز الدین عبدالعزیز بن عبد السلام رحمۃ اللہ علیہ (660ھ)
  19. ولی لفظ'' وَلِیْ'' وَلْیٌ یا وَلَایَۃٌ سے بنا ہے ۔ وَلْیٌ کے معنی قرب اور ولایت کے معنی حمایت ہیں، لہٰذا وَلْیٌ کے لغوی معنی قریب ، والی ، حمایتی ہیں۔ قرآن شریف میں یہ لفظ اتنے معنی میں استعمال ہوا ہے ۱۔دوست ،۲۔قریب ،۳۔مددگار ،۴۔والی، ۵۔وارث ، ۶۔معبود ، ۷۔ مالک ، ۸۔ ہادی (1) اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوۡنَ ﴿۵۵﴾ تمہارا دوست یا مدد گار صرف اللہ اور اسکے رسول اور وہ مومن ہیں جونماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اوررکوع کرتے ہیں۔(پ6،المائدۃ:55) (2)نَحْنُ اَوْلِیٰٓـؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ ہم ہی تمہارے دوست ہیں دنیا اور آخرت میں۔(پ24،حٰمۤ السجدۃ:31) (3) فَاِنَّ اللہَ ہُوَ مَوْلٰىہُ وَ جِبْرِیۡلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیۡنَ ۚ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ ﴿۴﴾ پس نبی کا مدد گار اللہ ہے اور جبریل اور نیک مومن او راس کے بعد فرشتے مدد گار ہیں ۔(پ28،التحریم:4) (4) وَاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚۙ وَّاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۷۵﴾ پس بنادے تو ہمارے لئے اپنے پاس سے والی اور بنادے ہمارے لئے اپنے پاس سے مدد گار ۔(پ5،النسآء:75) (5) اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیۡنَ مِنْ اَنۡفُسِہِمْ وَ اَزْوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمْ نبی زیادہ قریب یا زیادہ مالک ہیں مسلمانوں کے بمقابلہ ان کی جانوں کے اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ۔(پ21،الاحزاب:6) ان آیتوں میں ولی کے معنی قریب ، دو ست ، مدد گار، مالک ہیں۔ (6) اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنۡفُسِہِمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَالَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ؕ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں اوروہ جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی ان کے بعض بعض کے وارث ہیں(پ10،الانفال:72) اس آیت میں ولی بمعنی وارث ہے کیونکہ شروع اسلام میں مہاجرو انصار ایک دوسرے کے وارث بنادیئے گئے تھے ۔ (7) وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَلَمْ یُہَاجِرُوۡا مَا لَکُمۡ مِّنۡ وَّلَایَتِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡا اور جو ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت نہ کی انہیں ان کی وراثت سے کچھ نہیں یہاں تک کہ ہجرت کریں۔(پ10،الانفال:72) اس آیت میں بھی ولی سے مراد وارث ہے کیونکہ اول اسلام میں غیرمہاجر،مہاجرکا وارث نہ ہوتاتھا۔ (8) وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ اور کافر بعض بعض کے وارث ہیں۔(پ10،الانفال:73) (9) وَاُوْلُوا الۡاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ رشتہ دار بعض بعض کے وارث ہیں(پ10،الانفال:75) (10) فَہَبْ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۙ﴿۵﴾یَّرِثُنِیۡ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوۡبَ تومجھے اپنے پاس سے کوئی ایسا وارث دے جو میرا اور آل یعقوب کا وارث وجانشین ہو۔ (پ16،مریم:5،6) ان آیات میں بھی ولی سے مراد وارث ہے جیسا کہ بالکل ظاہر ہے ۔ (11) اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یُخْرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۬ؕ وَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡلِیٰٓـُٔہُمُ الطَّاغُوۡتُ ۙیُخْرِجُوۡنَہُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ؕ اللہ تعالیٰ مومنوں کا حامی والی ہے کہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طر ف نکالتا ہے اور کافروں کے حامی والی شیطان ہیں جوانہیں روشنی سے اندھیرے کی طر ف نکالتے ہیں ۔(پ3،البقرۃ:257) اس آیت میں ولی بمعنی حامی والی ہے ، بعض آیات میں ولی بمعنی معبود آیا ہے ملاحظہ ہو: (12) وَالَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوْلِیَآءَ ۘ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللہِ زُلْفٰی ؕ جنہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنالئے اور کہتے ہیں کہ نہیں پوجتے ہم ان کو مگر اس لئے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔(پ23،الزمر:3) جنہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنالئے اور کہتے ہیں کہ نہیں پوجتے ہم ان کو مگر اس لئے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔ اس آیت میں ولی بمعنی معبود ہے اس لئے آگے فرمایا گیا: مَانَعْبُدُہُمْ (13) اَفَحَسِبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا عِبَادِیۡ مِنۡ دُوۡنِیۡۤ اَوْلِیَآءَ ؕ اِنَّـاۤ اَعْتَدْنَا جَہَنَّمَ لِلْکٰفِرِیۡنَ نُزُلًا ﴿۱۰۲﴾ تو کیا یہ کافر یہ سمجھتے ہیں کہ میرے سوا میرے بندوں کو معبود بنالیں بے شک ہم نے کافروں کی مہمانی کیلئے دوزخ تیا رکر رکھی ہے ۔(پ16،الکہف:102) اس آیت میں بھی ولی بمعنی معبود ہے ۔ اس لئے ان ولی بنانے والوں کو کافر کہا گیا ۔ کیونکہ کسی کو دوست اور مدد گار بنانے سے انسان کافر نہیں ہوتا جیسا کہ پچھلی آیتوں سے معلوم ہوا ہے ۔ معبود بنانے سے کافر ہوتا ہے : (14) مَثَلُ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنۡکَبُوۡتِ ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَیۡتًا ان کی مثال جنہوں نے خدا کے سوا کوئی معبود بنالیا مکڑی کی طر ح ہے جس نے گھر بنایا ۔(پ20،العنکبوت:41) اس آیت میں بھی ولی بمعنی معبود ہے کہ یہاں کفار کی مذمت بیان ہو رہی ہے اور کافر ہی دوسروں کو معبود بناتے ہیں ۔ ولی اللہ، ولی من دون اللہ ولی بمعنی دو ست یامدد گار دو طرح کے ہیں ایک اللہ کے ولی ،دوسرے اللہ کے مقابل ولی۔ اللہ کے ولی وہ ہیں جو اللہ سے قرب رکھتے ہیں اور اس کے دوست ہوں او راسی وجہ سے دنیا والے انہیں دوست رکھتے ہیں ولی من دون اللہ کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ خدا کے دشمنوں کو دوست بنایا جائے جیسے کافر وں یابتوں یا شیطان کو ، دوسرے یہ کہ اللہ کے دوستوں یعنی نبی ،ولی کو خدا کے مقابل مدد گار سمجھا جائے کہ خدا کا مقابلہ کرکے یہ ہمیں کام آئیں گے ۔ ولی اللہ کو ماننا عین ایمان ہے اور ولی من دون اللہ بنانا عین کفر وشرک ہے ۔ ولی اللہ کے لئے یہ آیت ہے : (1)اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿ۚ۶۲﴾الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾ خبردار ! اللہ کے دوست نہ ان پر خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہونگے وہ ہیں جو ایمان لائے اور پرہیز گاری کرتے ہیں۔(پ11،یونس:62،63) اس آیت میں ولی اللہ کا ذکر ہے۔ (2) لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوۡنَ الْکٰفِرِیۡنَ اَوْلِیَآءَ مِنۡ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیۡنَ مسلمان کافروں کو دوست نہ بنائیں مسلمانوں کے سوا۔(پ3،اٰل عمرٰن:28) (3) مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۰۷﴾ اللہ کے مقابل نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ مدد گار (پ1،البقرۃ:107) ان دو آیتو ں میں ولی من دون اللہ کا ذکر ہے۔ پہلی آیت میں دشمنان خدا کو دوست بنانے کی ممانعت ہے ۔ دوسری میں خدا کے مقابل دوست کی نفی ہے یعنی رب تعالیٰ کے مقابل دنیا میں کو ئی مد د گار نہیں نہ ولی ، نہ پیر ، نہ نبی۔ یہ حضرات جس کی مدد کرتے ہیں اللہ کے حکم اور اللہ کے ارادے سے کرتے ہیں ۔ ولی یا اولیاء کے ان معانی کابہت لحاظ رکھنا چاہیے۔ بے موقع تر جمہ بدعقیدگی کا باعث ہوتا ہے مثلا ۔ اگرنمبر۱کی آیت اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہ، (المائدۃ:55) کا ترجمہ یہ کردیا جائے کہ تمہارے معبود اللہ، رسول اور مومنین ہیں شرک ہوگیا اور اگر وَمَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۰۷﴾ (البقرۃ:۱۰۷) کے یہ معنی کردیئے جائیں کہ خدا کے سوا کوئی مددگا ر نہیں تو کفر ہوگیاکیونکہ قرآن نے بہت سے مدد گا روں کا ذکر فرمایا ہے اس آیت کا انکار ہوگیا۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے کافر وں ، ملعونوں کا کوئی مددگار نہیں۔ معلوم ہواکہ مومنوں کے مدد گار ہیں۔ (1) وَمَنۡ یَّلْعَنِ اللہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۵۲﴾ اور جس پر خدا لعنت کردے اس کے لئے مدد گار کوئی نہیں پاؤگے۔(پ5،النسآء:52) (2) وَ مَنۡ یُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ وَّلِیٍّ مِّنۡۢ بَعْدِہٖ ؕ (پ25،الشورٰی:44) اور جسے اللہ گمراہ کردے اس کے پیچھے کوئی مدد گار نہیں۔ (3) وَمَنۡ یُّضْلِلْ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا ﴿٪۱۷﴾ (پ15،الکھف:17) جسے اللہ گمراہ کردے اس کیلئے ہادی مرشد آپ نہ پائیں گے ۔
  20. بدعت بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیزاصطلاح شریعت میں بدعت کہتے ہیں دین میں نیا کام جو ثواب کیلئے ایجاد کیا جائے اگر یہ کام خلاف دین ہو تو حرام ہے اور اگر اس کے خلاف نہ ہو تودرست یہ دونوں معنی قرآن شریف میں استعمال ہوئے ہیں۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے۔ (1) بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ ؕ وہ اللہ آسمانوں اور زمین کا ایجاد فرمانے والا ہے ۔(پ1،البقرۃ:117) (2)قُلْ مَا کُنۡتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ فرمادو کہ میں انوکھا رسول نہیں ہوں۔ (پ26،الاحقاف:9) ان دونوں آیتو ں میں بدعت لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی انوکھا نیا رب تعالیٰ فرماتا ہے : وَ جَعَلْنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ رَاۡفَۃً وَّ رَحْمَۃً ؕ وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابْتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبْنٰہَا عَلَیۡہِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللہِ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنْہُمْ اَجْرَہُمْ ۚ وَکَثِیۡرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوۡنَ ﴿۲۷﴾ اور عیسیٰ علیہ السلام کے پیروؤں کے دل میں ہم نے نرمی اور رحمت رکھی اور ترک دنیا یہ بات جو انہوں نے دین میں اپنی طر ف سے نکالی ۔ ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوں نے اللہ کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے مومنوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا اور ان میں سے بہت سے فاسق ہیں۔(پ27،الحدید:27) اس آیت سے معلوم ہوا کہ عیسائیوں نے رہبانیت اور تارک الدنیا ہونا اپنی طر ف سے ایجاد کیا ۔ رب تعالیٰ نے ان کو اس کا حکم نہ دیا ۔ بد عت حسنہ کے طور پر انہوں نے یہ عبادت ایجاد کی اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بدعت کا ثواب دیا مگر جو اسے نباہ نہ سکے یا جو ایمان سے پھر گئے وہ عذاب کے مستحق ہوگئے معلوم ہوا کہ دین میں نئی بدعتیں ایجاد کرنا جو دین کے خلاف نہ ہوں ثواب کا با عث ہیں مگر انہیں ہمیشہ کرنا چاہیے جیسے چھ کلمے ، نماز میں زبان سے نیت ،قرآن کے رکوع وغیرہ ،علم حدیث، محفل میلا د شریف ،اور ختم بزرگان، کہ یہ دینی چیزیں اگر چہ حضور صلی ا للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے بعد ایجاد ہوئیں مگر چونکہ دین کے خلاف نہیں اور ان سے دینی فائدہ ہے لہٰذا باعث ثواب ہیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ جو اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کرے اسے بہت ثواب ہوگا ۔ الٰہ قرآن شریف کی اصطلاحوں میں سے ایک اصطلاح لفظ الٰہ بھی ہے اس کی پہچان مسلمان کے لئے بہت ہی ضروری ہے کیونکہ کلمہ میں اسی کا ذکر ہے : لا الہ الا اللہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں نماز شر وع کرتے ہی پڑھتے ہیں: لاالہ غیرک یا اللہ ! تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں غرضیکہ ایمان اور نماز بلکہ سارے اعمال اسی کی پہچان پر موقوف ہیں اگرہمیں الٰہ کی خبر نہ ہو تو دوسروں سے نفی کس چیز کی کریں گے اور رب تعالیٰ کیلئے ثبوت کس چیز کا کرینگے غرضیکہ اس کی معرفت بہت اہم ہے ۔ الٰہ کے متعلق ہم تین چیز یں عرض کرتے ہیں (۱) الٰہ کے معنی وہابیوں نے کیا سمجھے اور اس میں کیا غلطی کی(۲) الٰہ ہونے کی پہچان شریعت اورقرآن میں کیا ہے یعنی کیسے پہچا نیں کہ الٰہ حق کو ن ہے اور الٰہ باطل کون (۳)ا لوہیت کامدار کس چیز پر ہے یعنی وہ کونسی صفات ہیں جن کے مان لینے سے اسے الٰہ ماننا پڑتا ہے ۔ان تینوں باتو ں کو بہت غور سے سوچنا چاہیے۔ (۱) وہابیوں نے الٰہ کا مدار دو چیزوں پر سمجھا ہے علم غیب اور مافوق الاسباب حاجات میں تصرف یعنی جس کے متعلق یہ عقیدہ ہو کہ وہ غیب کی بات جان لیتا ہے یا وہ بغیر ظاہری اسباب کے عالم میں تصرف یعنی عملدر آمد کرتا ہے حاجتیں پوری اور مشکلیں حل کرتاہے وہی الٰہ ہے، دیکھو جواہر القرآن صفحہ۱۱۲ ( قانون لفظ الہ)مصنفہ مولوی غلام اللہ خاں صاحب۔ اس سے ان کا مقصود یہ ہے کہ عام مسلمان انبیاء علیہم السلام،اولیاء رحمہم اللہ کو عالم غیب بھی مانتے ہیں او رمافوق الاسباب متصرف بھی لہٰذا یہ لوگ کلمہ کے ہی منکر ہیں اور مشرک ہیں۔ لیکن یہ معنی بالکل غلط قرآن کے خلاف ، خود وہابیہ کے عقیدوں کے خلاف ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور عام مسلمین کے عقائد کے خلاف ہیں ، اس لئے کہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ فرشتے باذن پروردگار عالم میں تصرف کرتے ہیں کوئی زندوں کو مردہ کرتا ہے (ملک الموت) کوئی ماں کے پیٹ میں بچہ بناتا ہے کوئی بارش بر ساتا ہے کوئی حساب قبر لیتا ہے اوریہ سارے کام مافوق اسباب ہیں ۔ تو وہابیہ کے نزدیک یہ سارے الٰہ ہوگئے اسی طر ح انبیاء کرام علیہم السلام ما فوق اسباب حاجتیں پوری کرتے ہیں مشکلیں حل کرتے ہیں عیسیٰ علیہ السلام اندھوں، کوڑھوں کو اچھا اور مردو ں کو زندہ کرتے تھے ۔ یوسف علیہ السلام اپنی قمیص سے باذن پروردگار نابینا آنکھ کو بینا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ، یہ سب الٰہ ٹھہرے او ران کا ماننے والا لاالہ الا اللہ کا منکر ہو احضرت عیسیٰ علیہ السلام گھر میں کھائی بچائی چیزوں کی خبر یں دیتے تھے ۔ آصف برخیاتخت بلقیس آن کی آن میں شام میں لے آتے ہیں یہ بھی الٰہ ہوئے ۔ غرضیکہ اس تعریف سے کوئی قرآن ماننے والا مسلمان نہیں ہوسکتا ۔ شاید جو اہر القرآن والے نے یہ تعریف سوتے میں لکھی ہے یا نشہ میں۔ مذکورہ بالا امور کی آیات ان شاء اللہ تیسرے با ب میں پیش ہوں گی۔ (۲) الٰہ بر حق کی بڑی پہچان صر ف یہ ہے کہ جس کو نبی کی زبان الٰہ کہے ، وہ الٰہ بر حق ہے او ر جس کی الوہیت کا پیغمبر انکار کریں وہ الٰہ باطل ہے ۔ تمام کافرو ں نے سورج ، چاند ، ستا روں ، پتھرو ں کو الٰہ کہا نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا انکار کیا سارے جھوٹے اورنبی سچے ،رب تعالیٰ کی الوہیت کا سارے فرعونیوں نے انکار کیا کلیم اللہ صلوۃ اللہ علیہ وسلامہ نے اقرار کیا ۔ سارے فرعونی جھوٹے اور موسیٰ علیہ السلام سچے الٰہ کی پہچان اس سے اعلی ناممکن ہے نبی الٰہ کی دلیل مطلق او ربرہان ناطق ہیں آیات ملاحظہ ہوں ۔ (1)فَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیۡنَ ﴿ۙ۴۶﴾قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۴۷﴾رَبِّ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ ﴿۴۸﴾ پس جادو گر سجدے میں ڈال دیئے گئے وہ بولے کہ ہم ایمان لائے جہانوں کے رب پر ، جو رب ہے حضرت موسی وہارون کا ۔(پ19،الشعرآء:46۔48) رب العالمین کی پہچان یہ بتائی کہ جو حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام کا رب ہے ورنہ فرعون کہہ سکتا تھا کہ رب العالمین تو میں ہوں یہ مجھ پر ایمان لارہے ہیں فرعون نے ڈوبتے وقت کہا تھا :اٰمَنْتُ بِرَبِّ مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ میں حضرت موسیٰ و ہارون کے رب پر ایمان لایا۔اس نے بھی رب تعالیٰ کی معرفت بذریعہ ان دو پیغمبر وں کے کی اگر چہ اس کاایمان اس لئے قبول نہ ہوا کہ عذاب دیکھ کر ایمان لایا ۔ جب ایمان کا وقت گزرچکا تھا ۔ (2) اِذْ قَالَ لِبَنِیۡہِ مَا تَعْبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعْدِیۡ ؕ قَالُوۡا نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا جب فرمایا یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہ میرے بعد کسے پوجوگے ؟ تو وہ بولے کہ آپ کے اور آپ کے باپ دادوں ابراہیم، اسمٰعیل اور اسحاق علیہم السلام کے رب کی عبادت کریں گے۔(پ1 البقرۃ:133) ان بزرگو ں نے بھی سچے الٰہ کی پہچان یہی عرض کی کہ جو پیغمبر وں کا بتایا ہوا الٰہ ہے وہی سچا ہے جیسے دھوپ آفتاب کی بڑی دلیل ہے ایسے ہی انبیاء کرام علیہم السلام نور الٰہی کی تجلی اولی ہیں ان کافر مان رب تعالیٰ کی قوی برہان ہے اگر کوئی نبی کا فرمان چھوڑ کر اپنی عقل ودانش سے خدا کو پہچانے نہ وہ مومن ہے نہ موحد ۔ لفظ اِلٰہ کی تحقیق اِلٰہ اِلٰہٌ سے بنا جس کے لغوی معنی ہیں انتہائی بلندی یا حیرانی ۔ الٰہ وہ جو انتہائی بلند و بر تر ہو یا جس کی ذات یا صفات میں مخلوق کی عقل حیران رہ جائے قرآن کی اصطلاح میں الٰہ بمعنی مستحق عبادت ہے یعنی معبود جہاں کہیں اِلٰہ آوے اس کے معنی معبود ہونگے لااِلٰہ نہیں ہے کوئی مستحق عبادت اِلَّا اللہ خدا کے سوا۔ مستحق عبادت وہ جس میں یہ صفات ہوں پیدا کرنا ،رزق،زندگی، موت کا مالک ہونا ۔ خود مخلو ق کی صفات سے پاک ہونا جیسے کھانا ،پینا ،مرنا ، سونا، مخلوق ہونا، کسی عیب کا حامل ہونا وغیرہ دانا غیب مطلق ہونا ۔ عالم کا مالک حقیقی ہونا وغیرہ۔ فرماتا ہے : (1) اَمِ اتَّخَذُوۡۤا اٰلِہَۃً مِّنَ الْاَرْضِ ہُمْ یُنۡشِرُوۡنَ ﴿۲۱﴾ کیا انہوں نے زمین میں سے معبود بنالیے وہ کچھ پیدا کرتے ہیں ۔(پ17،الانبیآء:21) یعنی چونکہ ان بتوں میں پیدا کرنے کی قابلیت نہیں وہ توخود مخلوق ہیں لہٰذا وہ خدا نہیں۔ (2) اَللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوۡمُ ۬ۚ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الۡاَرْضِ ؕ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آپ زندہ ہے اور وں کو قائم رکھنے والا ہے اسے نہ اونگھ آوے نہ نیند اس کی ہی وہ چیزیں ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ۔(پ3،البقرۃ:255) (3) مَا کَانَ مَعَہٗ مِنْ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ کُلُّ اِلٰہٍۭ بِمَا خَلَقَ اور نہ اس کے ساتھ کوئی معبود ہے یوں ہوتا تو ہر خدا پنی مخلوق لے جاتا ۔(پ18،المؤمنون:91) (4) وَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً لَّا یَخْلُقُوۡنَ شَیْـًٔا وَّ ہُمْ یُخْلَقُوۡنَ وَلَا یَمْلِکُوۡنَ لِاَنۡفُسِہِمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا وَّ لَا یَمْلِکُوۡنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوۃً وَّ لَا نُشُوۡرًا ﴿۳﴾ انہوں نے خدا کے سوا اور خدا ٹھہرالئے جو کچھ نہیں پید اکرتے او رخود پیدا کئے جاتے ہیں اور نہیں مالک ہیں اپنی جانوں کیلئے نقصان ونفع کے اور نہیں مالک ہیں مرنے جینے کے اور نہ اٹھنے کے۔(پ18،الفرقان:3) ان جیسی بہت سی آیات سے یہ ہی پتا لگتا ہے کہ الٰہ حقیقی ہونے کا مدار مذکورہ بالا صفات پر ہے۔ مشرکین کے بتو ں اور اللہ تعالیٰ کے دیگر بندو ں میں چو نکہ یہ صفات موجود نہیں ہیں او رمخلوق کی صفتیں موجود ہیں جیسے کھانا ،پینا ، مرنا، سونا، صاحب اولاد ہونا ۔ لہٰذا وہ الٰہ نہیں ہوسکتے ۔ وَ اُمُّہٗ صِدِّیۡقَۃٌ ؕ کَانَا یَاۡکُلٰنِ الطَّعَامَ اور عیسیٰ علیہ السلام کی ماں بہت سچی تھیں یہ دونوں کھانا کھاتے تھے ۔(پ6،المآئدۃ:75) یعنی مسیح اور ان کی والدہ صاحبہ چونکہ کھانا کھاتے لہٰذا الٰہ نہیں ۔ مشرکین عر ب نے اپنے معبودوں میں چونکہ حسب ذیل باتیں مانیں لہٰذا انہیں الٰہ مان لیا اور مشرک ہوگئے ۔ (۱) رب تعالیٰ کے مقابل دوسروں کی اطاعت کر نا حق سمجھ کر یعنی ان کا معبود جو کہے وہی حق ہے۔ خواہ رب کے خلاف ہی ہو ۔ (1) اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ اَفَاَنۡتَ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِ وَکِیۡلًا ﴿ۙ۴۳﴾ تو دیکھوتو جس نے اپنی خواہش نفسانی کو اپنا الٰہبنالیا تو کیا تم اس کی نگہبانی کے ذمہ دار ہوگئے ۔(پ19،الفرقان:43) (2) اِتَّخَذُوۡۤا اَحْبَارَہُمْ وَرُہۡبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ وَالْمَسِیۡحَ ابْنَ مَرْیَمَ ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوۡۤا اِلٰـہًا وَّاحِدًا عیسائیوں نے اپنے پادریوں اور جو گیوں کو اللہ کے سوا خدا بنالیا او رمسیح بیٹے مریم کو او رانہیں حکم نہ تھا مگر یہ کہ ایک خدا کو پوجیں۔(پ10،التوبۃ:31) ظاہر ہے کہ عیسائیوں نے نہ تو اپنی خواہش کو نہ اپنے پادریوں کو خدا مانا مگر چونکہ رب تعالیٰ کے مقابلہ میں ان کی اطاعت کی اس لئے انہیں گویا الٰہ بنالیا۔ (۲) کسی کو یہ سمجھناکہ یہ ہم کو رب تعالیٰ کے مقابلہ میں اس سے بچالے گا یعنی وہ عذاب دینا چاہے تو یہ نہ دینے دیں۔ (1) اَمْ لَہُمْ اٰلِہَۃٌ تَمْنَعُہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِنَا ؕ لَا یَسْتَطِیۡعُوۡنَ نَصْرَ اَنۡفُسِہِمْ وَ لَا ہُمۡ مِّنَّا یُصْحَبُوۡنَ ﴿۴۳﴾ کیا ان کے کچھ خدا ہیں جو ان کو ہمارے مقابل ہم سے بچالیں وہ تو اپنی جانوں کو نہیں بچاسکتے اور نہ ہماری طر ف سے ان کی مدد کی جائے ۔ (پ17،الانبیآء:43) (۳) کسی کو دھونس کا شفیع سمجھنا کہ رب تعالیٰ کے مقابل اس کی مرضی کیخلاف ہمیں اس سے چھڑا لیگا ۔ (1) اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ ؕ قُلْ اَوَ لَوْ کَانُوۡا لَا یَمْلِکُوۡنَ شَیْـًٔا وَّ لَا یَعْقِلُوۡنَ ﴿۴۳﴾قُلۡ لِّلہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیۡعًا کیا انہوں نے اللہ کے مقابل سفارشی بنا رکھے ہیں فرمادو کہ کیا اگر چہ وہ کسی چیز کے مالک نہ ہوں اور نہ عقل رکھیں فرمادو کہ شفاعت تو سب اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔(پ24،الزمر:43،44) (2) مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشْفَعُ عِنْدَہٗۤ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ؕ وہ کو ن ہے جو رب کے پاس اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کر سکے ۔(پ3البقرۃ:255) (۴)کسی کو شفیع سمجھ کر پوجنا اسے تعبدی سجدہ کرنا ۔ وَیَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَایَضُرُّہُمْ وَ لَایَنۡفَعُہُمْ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللہِ اور وہ اللہ کے سواا ن چیزوں کو پوجتے ہیں جو نہ انہیں نقصان دے نہ نفع اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے سفارشی ہیں اللہ کے نزدیک۔(پ11،یونس:18) (۵)کسی کو خدا کی اولاد ماننا، پھر اس کی اطا عت کرنا ۔ وَ جَعَلُوۡا لِلہِ شُرَکَآءَ الْجِنَّ وَخَلَقَہُمْ وَ خَرَقُوۡا لَہٗ بَنِیۡنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیۡرِ عِلْمٍ ؕ اور بنایا ان مشرکین نے جنات کو اللہ کا شریک حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا اور بنایا اس کے لئے بیٹے اوربیٹیاں ۔ (پ7،الانعام:100) غرضیکہ الٰہ کا مدار صرف اسی پر ہے کہ کسی کو اللہ تعالیٰ کے برابر ماننا اور برابر ی کی وہ ہی صورتیں ہیں جو اوپر کی آیا ت سے معلوم ہوئیں۔ ہم مخلوق کو سمیع ، بصیر، زندہ ، قادر ، مالک ،وکیل، حاکم ،شاہد اور متصرف مانتے ہیں مگر مشرک نہیں کیونکہ کسی کو ان صفات میں رب تعالیٰ کی طر ح نہیں مانتے ۔ اعتراض:رب تعالیٰ بتو ں او رنبیوں ، ولیوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے : مَا کَانَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ ؕ سُبْحٰنَ اللہِ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوۡنَ ﴿۶۸﴾ اور ان کے لئے کوئی اختیار نہیں اللہ پاک اور برتر ہے اس سے جو شرک کرتے ہیں۔ (پ20،القصص:68) اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی کو اختیارماننا ہی شرک ہے تم بھی نبیوں ، ولیوں کو اختیار مانتے ہو۔ تم نے انہیں الٰہ بنالیا ۔ جواب : یہا ں اختیار سے مراد پید اکرنے کا اختیارہے، اسی لئے فرمایا گیا : وَ رَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُ ؕ مَا کَانَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ ؕ آپ کا رب جو چاہے پیدا کرے اور اختیار فرمائے انہیں کوئی اختیار نہیں ۔(پ20،القصص:68) بااختیار سے مراد ہے رب تعالیٰ کے مقابل اختیار ورنہ تم بھی بادشاہوں ، حاکموں کوبا اختیار مانتے ہو ۔ اسی لئے ان سے ڈرتے ہو ۔ اعتراض : رب تعالیٰ نے نبیوں ، ولیوں اور بتوں کے لئے فرمایا: وَیَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَایَضُرُّہُمْ وَ لَایَنۡفَعُہُمْ وہ ا للہ کے سوا ان چیز وں کو پوجتے ہیں جو نہ انہیں نقصان دے نہ نفع ۔(پ11،یونس:18) معلوم ہوا کہ کسی کو نافع اور ضار ماننا اسے الٰہ ماننا ہے اور تم بھی نبیوں ، ولیوں کو نافع اور ضار مانتے ہو تم بھی مشرک ہوئے ۔ جواب: ان جیسی آیات میں رب تعالیٰ کے مقابلہ میں نافع ماننا مراد ہے کہ رب تعالیٰ چاہے ہمیں نقصان پہنچا نا اور یہ ہمیں نفع پہنچادیں ، اس کی تفسیر یہ آیت ہے : وَ اِنۡ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِہٖ ؕ اگر خدا تمہیں رسوا کرے تو اس کے بعد تمہیں مدد کون دے گا ۔(پ4،اٰل عمرٰن: 160) ورنہ تم بھی بادشاہ حاکموں ، بلکہ سانپ ، بچھو، دواؤں کو نافع اور نقصان دہ مانتے ہو۔ نیز فرماتا ہے : وَ اِنۡ یَّمْسَسْکَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗۤ اِلَّا ہُوَ ؕ وَ اِنۡ یَّمْسَسْکَ بِخَیۡرٍ فَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱۷﴾ اگر تجھے اللہ سختی پہنچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنیوالا نہیں اور جو تجھے بھلائی پہنچائے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔(پ7،الانعام:17) یہ آیت ان تمام آیتو ں کی تفسیر ہے کہ نفع نقصان سے مراد رب تعالیٰ کے مقابل نفع او رنقصان ہے ۔ اعتراض : رب تعالیٰ فرماتا ہے : یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیۡ عَنۡکَ شَیْـًٔا ﴿۴۲﴾ براہیم علیہ السلام نے کہاکہ اے باپ تم اسے کیوں پوجتے ہو جو نہ سنے نہ دیکھے نہ تم سے کچھ مصیبت دور کرے ۔(پ16،مریم:42) معلوم ہوا کہ کسی کو غائبانہ پکار سننے والا ،غائبانہ دیکھنے والا ، نافع وضا ر ماننا، اسے الٰہ ماننا ہے۔ یہ شرک ہے ۔تم بھی نبیوں ، ولیوں میں یہ صفات مانتے ہو ۔ لہٰذا انہیں الٰہ مانتے ہو ۔ جواب : اس آیت میں دور سے سننے، دیکھنے کا ذکر کہا ں ہے؟ یہا ں تو کفار کی حماقت کا ذکر ہے کہ وہ ایسے پتھروں کو پوجتے ہیں جن میں دیکھنے ،سننے کی بھی طاقت نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ جو سنے، دیکھے ،وہ خدا ہے ورنہ پھرتو ہر زندہ انسان خدا ہونا چاہیے کہ وہ سنتا ،دیکھتا ہے۔ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿ۚ ۲﴾ (الدہر:2) ، رب تعالیٰ فرماتا ہے : اَلَہُمْ اَرْجُلٌ یَّمْشُوۡنَ بِہَاۤ ۫ اَمْ لَہُمْ اَیۡدٍ یَّبْطِشُوۡنَ بِہَاۤ ۫ اَمْ لَہُمْ اَعْیُنٌ یُّبْصِرُوۡنَ بِہَاۤ ۫ کیا ان بتوں کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑیں یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھیں ۔(پ9،الاعراف:195) اس میں بھی ان کفار کی حماقت کا ذکر ہے کہ وہ بے آنکھ ، بے ہاتھ اور بے پاؤں کی مخلوق کو پوجتے ہیں حالانکہ ان بتو ں سے خود یہ بہترہیں کہ ان کے ہاتھ ، پاؤں، آنکھ ، کان وغیرہ تو ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس کے آنکھ ، کان ہوں وہ خدا ہوجائے ۔ اعتراض : رب تعالیٰ فرماتاہے : وَ اِنۡ تَجْہَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی ﴿۷﴾اَللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ اگر تم اونچی بات کہو تو وہ پوشیدہ اور چھپی باتو ں کو جان لیتا ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔(پ16،طہ:7،8) اس آیت سے معلوم ہو اکہ ا لٰہ کی شان یہ ہے کہ اونچی نیچی ، ظاہر، چھپی سب باتوں کو جانے، اگر کسی نبی ولی میں یہ طا قت مانی گئی تو اسے الٰہ مان لیا گیا او رشرک ہوگیا ۔ جواب : خدا کی یہ صفات ذاتی ، قدیم ، غیر فانی ہیں ۔ اسی طر ح کسی میں یہ صفات ماننا شرک ہے ۔ اس نے اپنے بندوں کو ظاہر پوشیدہ باتیں جاننے کی قوت بخشی ہے یہ قوت بہ عطاء الٰہی عارضی غیر میں ماننا عین ایمان ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : مَا یَلْفِظُ مِنۡ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیۡہِ رَقِیۡبٌ عَتِیۡدٌ ﴿۱۸﴾ بندہ کوئی بات منہ سے نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک محافظ تیار بیٹھا ہے ۔(پ26،قۤ:18) یعنی اعمالنا مہ لکھنے والا فرشتہ انسا ن کا ہر ظاہر اور پوشیدہ کلام لکھتا ہے ۔اگر اسی فرشتے کو ہر ظاہر باطن بات کا علم نہ ہوتا تو لکھتا کیسے ہے ؟ وَ اِنَّ عَلَیۡکُمْ لَحٰفِظِیۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾کِرَامًا کَاتِبِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾یَعْلَمُوۡنَ مَا تَفْعَلُوۡنَ ﴿۱۲﴾ اور بے شک تم پر کچھ نگہبان ہیں معزز لکھنے والے جانتے ہیں ہر وہ جوتم کرو ۔(پ30،الانفطار:10۔12) پتا لگا کہ اعمال نامہ لکھنے والے فرشتے ہمارے چھپے اور ظاہر عمل کو جانتے ہیں ورنہ تحریر کیسے کریں ۔ اعتراض : رب تعالیٰ فرماتا ہے : وَّ اَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنۡسِ یَعُوۡذُوۡنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوۡہُمْ رَہَقًا ۙ﴿۶﴾ اورکچھ انسانوں کے مرد کچھ جنوں کے مردوں کی پنا ہ لیتے تھے اور اس سے ان کا اور تکبر بڑھ گیا ۔(پ29،الجن:6) معلوم ہوا کہ خدا کے سوا کسی کی پناہ لینا کفر و شرک ہے ۔ فرماتا ہے : وَّ ہُوَ یُجِیۡرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیۡہِ وہ رب پناہ دیتا ہے اور اس پر پناہ نہیں دی جاتی ۔ (پ18،المؤمنون:88) جواب : ان آیات میں رب تعالیٰ کے مقابل پناہ لینا مراد ہے نہ کہ اس کے اذن سے اس کے بندوں کی پناہ ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾ اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر کے تمہارے پاس آجاویں اور اللہ سے بخشش چاہیں اور آپ بھی ان کی مغفرت کی دعا کریں تو اللہ کو توبہ قبول کرنیوالا مہربان پائیں ۔(پ5،النسآء:64) اگر یہ مراد نہ ہو تو ہم سردی گرمی میں کپڑوں مکانوں سے پناہ لیتے ہیں، بیماری میں حکیم سے ، مقدمہ میں حاکموں سے یہ سب شرک ہوجاوے گا ۔ اعتراض : خدا کے سوا کسی کو علم غیب ماننا شرک ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : قُل لَّا یَعْلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیۡبَ اِلَّا اللہُ ؕ فرمادو جو آسمانوں اور زمین میں ہے ان میں غیب کوئی نہیں جانتا اللہ کے سوا ۔(پ20،النمل:65) علم غیب دلیل الوہیت ہے جسے علم غیب مانا اسے الٰہ مان لیا ۔(جواہر القرآن ) جواب : اگر علم غیب دلیل الوہیت ہے تو ہر مومن الٰہ ہے کیونکہ ایمان با لغیب کے بغیر کوئی مومن نہیں ہوتا اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ(البقرۃ:3) اور بغیر علم کے ایمان ناممکن ہے اور ملک الموت، ابلیس ، فرشتہ کا تب تقدیر بھی الٰہ ہوگئے کہ ان سب کو بہت علوم غیبیہ دیئے گئے ہیں۔ رب فرماتا ہے : اِنَّہٗ یَرٰىکُمْ ہُوَ وَقَبِیۡلُہٗ مِنْ حَیۡثُ لَا تَرَوْنَہُمْ ؕ وہ ابلیس اور اس کے قبیلہ والے تم کو وہاں سے دیکھتے ہیں کہ تم انہیں دیکھ نہیں سکتے ۔(پ8،الاعراف:27) غیب کے متعلق نفی کی آیا ت بھی ہیں اور ثبوت کی بھی ۔ نفی کی آیات میں واجب، قدیم، کل ،ذاتی علم مراد ہے اور ثبوت کی آیات میں عطائی، ممکن، بعض، عارضی علم مراد۔ رب فرماتا ہے : (1) وَلَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۵۹﴾ نہیں ہے کوئی خشک وتر چیز مگر وہ روشن کتاب لوح محفوظ میں ہے ۔(پ7،الانعام:59) (2) وَتَفْصِیۡلَ الْکِتٰبِ لَارَیۡبَ فِیۡہِ قرآن لوح محفوظ کی تفصیل ہے اس میں شک نہیں ۔(پ11،یونس:37) (3) وَ نَزَّلْنَا عَلَیۡکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ ہم نے آپ پرقرآن اتاراتمام چیزوں کاروشن بیان(پ14،النحل:89) اگر کسی کو علم غیب نہیں دینا تھا تو لکھا کیوں ؟ اور جب لکھا گیا تو جو فرشتے لوح محفوظ کے حافظ ہیں تو انہیں علم ہے یا نہیں ؟ضرور ہے تو چا ہیے کہ یہ سب الٰہ بن جائیں ۔ رب تعالیٰ نے فرمایا کہ حکم صرف اللہ کا ہے : (1) اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ نہیں ہے حکم مگر اللہ کا۔(پ7،الانعام:57) (2) اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا میرے سوا کسی کو وکیل نہ بناؤ ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:2) (3)وَکَفٰی بِاللہِ حَسِیۡبًا ﴿۶﴾ اللہ کافی حساب لینے والاہے۔ (پ4،النسآء:6) تو چاہیے کہ وکیل ہونا ، حکم ہونا ، حسیب ہونا ، الوہیت کی دلیل ہو ۔ جسے وکیل مانا ۔ اسے خدا مان لیا۔ ؎ گرہمیں مکتب وہمیں مُلّا کار طفلاں تمام خواہد شد!
  21. شرک شرک کے لغوی معنی ہیں حصہ یا ساجھا ۔ لہٰذا شریک کے معنی ہیں حصہ دار یا ساجھی۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : (1) اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ ۚ کیا ان بتوں کا ان آسمانوں میں حصہ ہے ۔(پ22،فاطر:40) (2) ہَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَآءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَآءٌ تَخَافُوْنَہُمْ کَخِیۡفَتِکُمْ اَنۡفُسَکُمْ ؕ کیا تمہارے مملوک غلاموں میں سے کوئی شریک ہے اس میں جو ہم نے تمہیں دیا ہے کہ تم اس میں برابر ہو ان غلاموں سے تم ایساڈرو جیسا اپنے نفسوں سے ڈرتے ہو(پ21،الروم:28) (3) رَّجُلًا فِیۡہِ شُرَکَآءُ مُتَشٰکِسُوۡنَ وَ رَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ؕ ہَلْ یَسْتَوِیٰنِ ایک وہ غلام جس میں برابر کے چند شریک ہوں اور ایک وہ غلام جو ایک ہی آدمی کا ہو ۔ کیا یہ دونوں برابر ہیں(پ23،زمر:29) ان آیتوں میں شرک اور شریک لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی حصہ ، ساجھا اور حصہ دار وساجھی ۔ لہٰذا شرک کے لغوی معنی ہیں کسی کو خدا کے برابر جاننا ۔ قرآن کریم میں یہ لفظ ان دونوں معنی میں استعمال ہواہے ۔شرک بمعنی کفران آیات میں آیا : (1) اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنۡ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ اللہ تعالیٰ اس جرم کو نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیاجائے اس کے سوا جس کو چاہے بخش دے گا ۔(پ5،النسآء:48) (2) وَ لَا تُنۡکِحُوا الْمُشْرِکِیۡنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوۡا ؕ نکاح نہ کرو مشرکوں سے یہاں تک کہ ایمان لے آویں۔(پ2،البقرۃ:221) (3) وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشْرِکٍ مومن غلام مشرک سے اچھاہے۔(پ2،البقرۃ:221) (4) مَاکَانَ لِلْمُشْرِکِیۡنَ اَنۡ یَّعْمُرُوۡا مَسٰجِدَ اللہِ شٰہِدِیۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ بِالْکُفْرِؕ مشرکوں کو یہ حق نہیں کہ اللہ کی مسجد یں آباد کریں اپنے پر کفر کی گواہی دیتے ہوئے ۔(پ10،التوبۃ:17) ان آیات میں شرک سے مرادہر کفر ہے کیونکہ کوئی بھی کفر بخشش کے لائق نہیں اور کسی کافر مرد سے مومنہ عورت کا نکاح جائز نہیں او رہر مومن ہر کافر سے بہتر ہے خواہ مشرک ہو جیسے ہند و یا کوئی اور جیسے یہودی ، پارسی ، مجوسی۔ دوسرے معنی کا شرک یعنی کسی کو خدا کے برابر جاننا کفر سے خاص ہے کفر اس سے عام یعنی ہر شرک کفر ہے مگر ہر کفر شرک نہیں۔ جیسے ہر کوا کالا ہے مگر ہر کا لا کو انہیں۔ ہر سوناپیلا ہے مگر ہر پیلا سونانہیں ۔ لہٰذا دہر یہ کافر ہے مشرک نہیں اور ہند ومشرک بھی ہے کافر بھی۔ قرآن شریف میں شرک اکثر اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے (1)جَعَلَا لَہٗ شُرَکَآءَ فِیۡمَاۤ اٰتٰہُمَا ان دونوں نے خدا کے برابر کر دیا اس نعمت میں جو رب تعالیٰ نے انہیں دی۔(پ9،الاعراف: 190) (2) حَنِیۡفًا وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾ میں تمام برے دینوں سے بیزار ہوں اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔(پ7،الانعام:79) (3) اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳﴾ بے شک شرک بڑا ظلم ہے ۔(پ21،لقمٰن:13) (4) وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمۡ مُّشْرِکُوۡنَ ﴿۱۰۶﴾ ان میں سے بہت سے لوگ اللہ پر ایمان نہیں لائے مگر وہ مشرک ہوتے ہیں۔(پ13,یوسف:106) ان جیسی صدہا آیتو ں میں شرک اس معنی میں استعمال ہوا ہے بمعنی کسی کو خدا کے مساوی جاننا۔ شرک کی حقیقت شرک کی حقیقت رب تعالیٰ سے مساوات پر ہے یعنی جب تک کسی کو رب کے برابر نہ جانا جائے تب تک شرک نہ ہوگا اسی لئے قیامت میں کفار اپنے بتوں سے کہیں گے ۔ تَاللہِ اِنۡ کُنَّا لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۹۷﴾ خدا کی قسم ہم کھلی گمراہی میں تھے کہ تم کورب العالمین کے برابر ٹھہراتے تھے ۔(پ19،الشعرآء:97) اس برابر جاننے کی چند صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی کو خدا کا ہم جنس مانا جائے جیسے عیسائی عیسی علیہ السلام کو اور یہودی عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے تھے اور مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں مانتے تھے چونکہ اولاد باپ کی ملک نہیں ہوتی بلکہ باپ کی ہم جنس اور مساوی ہوتی ہے ۔ لہٰذا یہ ماننے والا مشرک ہوگا ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے: (1) وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ ؕ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾ یہ لوگ بولے کہ اللہ نے بچے اختیار فرمائے پاکی ہے اس کے لئے بلکہ یہ اللہ کے عزت والے بندے ہیں ۔(پ17،الانبیاء:26) (2) وَقَالَتِ الْیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیۡحُ ابْنُ اللہِ یہودی بولے کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور عیسائی بولے کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں ۔(پ10،التوبۃ:30) (3) وَ جَعَلُوۡا لَہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْءًا ؕ اِنَّ الْاِنۡسَانَ لَکَفُوۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ؕ٪۱۵﴾ بنادیا ان لوگوں نے اللہ کے لئے اس کے بندوں میں سے ٹکڑا بے شک آدمی کھلا ناشکرا ہے۔(پ25،الزخرف:15) (4) وَ جَعَلُوا الْمَلٰٓئِکَۃَ الَّذِیۡنَ ہُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا ؕ اَشَہِدُوۡا خَلْقَہُمْ ؕ انہوں نے فرشتوں کو جو رحمن کے بندے ہیں عورتیں ٹھہرایا کیا ان کے بناتے وقت یہ حاضر تھے ۔(پ25،الزخرف:19) (5) اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصْفٰىکُمۡ بِالْبَنِیۡنَ ﴿۱۶﴾ کیا اس نے اپنی مخلوق میں سے بیٹیا ں بنالیں اور تمہیں بیٹوں کے ساتھ خاص کیا۔(پ25،الزخرف: 16) (6) وَ جَعَلُوۡا لِلہِ شُرَکَآءَ الْجِنَّ وَخَلَقَہُمْ وَ خَرَقُوۡا لَہٗ بَنِیۡنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیۡرِ عِلْمٍ ؕ اور اللہ کا شریک ٹھہرایا جنوں کو حالانکہ اس نے ان کو بنایا اور اس کیلئے بیٹے اور بیٹیاں گھڑلیں جہالت سے ۔(پ7،الانعام:100) (7) لَیُسَمُّوۡنَ الْمَلٰٓئِکَۃَ تَسْمِیَۃَ الْاُنۡثٰی ﴿۲۷﴾ یہ کفار فرشتوں کا نام عورتوں کا سا رکھتے تھے ۔(پ27،النجم:27) ان جیسی بہت سی آیتوں میں اسی قسم کا شرک مراد ہے یعنی کسی کو رب کی اولاد ماننا دوسرے یہ کہ کسی کو رب تعالیٰ کی طر ح خالق مانا جائے جیسے کہ بعض کفار عرب کا عقیدہ تھا کہ خیر کا خالق اللہ ہے اور شرکا خالق دوسرا رب ،اب بھی پارسی یہی مانتے ہیں خالق خیر کو'' یزداں'' اور خالق شر کو ''اہر من ''کہتے ہیں ۔ یہ وہی پرانا مشر کا نہ عقیدہ ہے یا بعض کفار کہتے تھے کہ ہم اپنے برے اعمال کے خود خالق ہیں کیونکہ ان کے نزدیک بری چیزوں کا پیدا کرنا براہے لہٰذا اس کا خالق کوئی اور چاہیے اس قسم کے مشرکوں کی تردید کے لئے یہ آیات آئیں۔ خیال رہے کہ بعض عیسائی تین خالقوں کے قائل تھے جن میں سے ایک عیسی علیہ السلام ہیں ان تمام کی تردید میں حسب ذیل آیات ہیں۔ (1) وَاللہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوۡنَ ﴿۹۶﴾ اللہ نے تم کو اور تمہارے سارے اعمال کو پیدا کیا ۔(پ23،الصافات:96) (2) اَللہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ۫ وَّ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ ﴿۶۲﴾ اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز کا مختار ہے۔(پ24،الزمر:62) (3) خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ اللہ نے موت اور زندگی کو پیدا فرمایا ۔(پ29،الملک:2) (3) اَنَّ اللہَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرْضَ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا۔(پ13،ابرٰھیم:19) (4) لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللہَ ہُوَ الْمَسِیۡحُ ابْنُ مَرْیَمَ بے شک کافر ہوگئے وہ جنہوں نے کہاکہ اللہ وہی مسیح مریم کابیٹاہے ۔(پ6،المآئدۃ:17) (5) لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ بے شک کافر ہوگئے وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ تین خداؤں میں تیسرا ہے ۔(پ6،المآئدۃ:73) (6)لَوْکَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَت اگر زمین وآسمان میں خدا کے سوا اور معبود ہوتے تو یہ دونوں بگڑجاتے۔َا (پ17،الانبیآء:22) (7) ہٰذَا خَلْقُ اللہِ فَاَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقَ الَّذِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ؕ یہ اللہ کی مخلوق ہے پس مجھے دکھا ؤ کہ اس کے سوااوروں نے کیا پیداکیا ۔(پ21،لقمٰن:11) ان جیسی تمام آیتو ں میں اسی قسم کے شر ک کا ذکر ہے اور اسی کی تردید ہے۔ اگر یہ مشرک غیر خدا کو خالق نہ مانتے ہوتے تو ان سے یہ مطالبہ کرنا کہ ان معبودوں کی مخلوق دکھاؤ درست نہ ہوتا ۔ تیسرے یہ کہ خود زمانہ کو مؤثر مانا جائے اور خدا کی ہستی کا انکار کیا جائے جیسا کہ بعض مشرکین عرب کا عقیدہ تھا ۔ موجودہ دہر یہ انہی کی یادگارہیں۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : (1) وَقَالُوۡا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوۡتُ وَ نَحْیَا وَمَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ ۚ وَ مَا لَہُمۡ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ ۚ وہ بولے وہ تو نہیں مگر یہ ہی ہماری دنیا کی زندگی مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں ہلاک نہیں کرتا مگر زمانہ اور انہیں اس کا علم نہیں ۔(پ25،الجاثیۃ:24) اس قسم کے دہر یوں کی تردید کے لئے تمام وہ آیات ہیں جن میں حکم دیا گیا ہے کہ عالم کی عجائبات میں غور کر و کہ ایسی حکمت والی چیز یں بغیر خالق کے نہیں ہوسکتیں۔ (1) یُغْشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۳﴾ ڈھکتا ہے رات سے دن کو اس میں نشانیاں ہیں فکر والوں کے لئے۔(پ13،الرعد:3) (2) اِنَّ فِیۡ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیۡلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلْبَابِ ﴿۱۹۰﴾ بے شک آسمان وزمین کی پیدائش اور دن رات کے گھٹنے بڑھنے میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لئے ۔(پ4،اٰل عمرٰن:190) (3) وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوۡقِنِیۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمْ ؕ اَفَلَا تُبْصِرُوۡنَ ﴿۲۱﴾ اور زمین میں نشانیاں ہیں یقین والوں کے لئے اور خود تمہاری ذاتوں میں ہیں تو تم دیکھتے کیوں نہیں ۔(پ26،الذٰریٰت:20،21) (4) اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتْ ﴿ٝ۱۷﴾وَ اِلَی السَّمَآءِ کَیۡفَ رُفِعَتْ ﴿ٝ۱۸﴾وَ اِلَی الْجِبَالِ کَیۡفَ نُصِبَتْ ﴿ٝ۱۹﴾وَ اِلَی الْاَرْضِ کَیۡفَ سُطِحَتْ ﴿۲۰﴾ٝ کیا یہ نہیں دیکھتے اونٹ کی طر ف کہ کیسے پیدا کیا گیا اور آسمان کی طرف کہ کیسا اونچا کیاگیااورپہاڑوں کی طرف کہ کیسے گاڑاگیا اور زمین کی طر ف کہ کیسے بچھائی گئی ۔(پ30،الغاشیۃ:17۔20) اس قسم کی بیسیوں آیات میں ان دہر یوں کی تردید ہے ۔ چوتھے یہ عقیدہ کہ خالق ہر چیز کا تو رب ہی ہے مگر وہ ایک بار پیدا کر کے تھک گیا،اب کسی کام کانہیں رہا،اب اس کی خدائی کی چلانے والے یہ ہمارے معبودین باطلہ ہیں۔ اس قسم کے مشرکین عجیب بکواس کرتے تھے ۔ کہتے تھے کہ چھ دن میں آسمان زمین پیدا ہوئے اور ساتواں دن اللہ نے آرام کا رکھا تھکن دور کرنے کو اب بھی وہ آرام ہی کر رہا ہے۔ چنانچہ فرقہ تعطیلیہ اسی قسم کے مشرکوں کی یاد گار ہے۔ ان کی تردید ان آیا ت میں ہے : (1) وَ لَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ٭ۖ وَّ مَا مَسَّنَا مِنۡ لُّغُوۡبٍ ﴿۳۸﴾ اور بے شک ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے چھ دن میں بنایا اور ہم کو تھکن نہ آئی(پ26،قۤ:38) (2) اَفَعَیِیۡنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ ؕ بَلْ ہُمْ فِیۡ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِیۡدٍ ﴿٪۱۵﴾ تو کیا ہم پہلی بار بنا کر تھک گئے بلکہ وہ نئے بننے سے شبہ میں ہیں۔(پ26،قۤ:15) (3) اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللہَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنْ یُّحْیَِۧ الْمَوْتٰی ؕ اور کیا ان لوگو ں نے غور نہ کیا کہ اللہ نے آسمانوں او رزمین کو پیدافرمایا اور انہیں پیدا کر کے نہ تھکا وہ قادر اس پر بھی ہے کہ مردو ں کو زندہ کر ے ۔(پ26،الاحقاف:33) (4) اِنَّمَاۤ اَمْرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔا اَنْ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوۡنُ ﴿۸۲﴾ اس کی شان یہ ہے کہ جب کسی چیز کا ارادہ فرماتا ہے تو اس سے کہتا ہے ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے ۔(پ23،یٰسۤ:82) اس قسم کے مشرکوں کی تردید کیلئے اس جیسی کئی آیات ہیں جن میں فرمایا گیا کہ ہم کو عالم کے بنانے میں کسی قسم کی کوئی تھکاوٹ نہیں پہنچتی ۔ اس قسم کے مشرک قیامت کے منکر اس لئے بھی تھے کہ وہ سمجھتے تھے ایک دفعہ دنیا پیدا فرما کر حق تعالیٰ کافی تھک چکا ہے اب دو بارہ کیسے بنا سکتا ہے۔ معاذاللہ ! اس لئے فرمایا گیا کہ ہم تو صرف ''کُنْ''سے ہر چیز پیدا فرماتے ہیں تھکن کیسی؟ ہم دوبارہ پیدا کرنے پر بدرجہ اولیٰ قادرہیں کہ اعادہ سے ایجاد مشکل ہے ۔ شرک کی پانچویں قسم یہ عقیدہ ہے کہ ہر ذرہ کا خالق ومالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر وہ اتنے بڑے عالم کو اکیلا سنبھالنے پر قادر نہیں اس لئے اس نے مجبور اً اپنے بندوں میں سے بعض بندے عالم کے انتظام کے لئے چن لئے ہیں جیسے دنیاوی بادشاہ اور ان کے محکمے ، اب یہ بندے جنہیں عالم کے انتظام میں دخیل بنایا گیا ہے وہ بندے ہونے کے باوجود رب تعالیٰ پردھونس رکھتے ہیں کہ اگر ہماری شفاعت کریں تو رب کو مرعوب ہوکر ماننی پڑے اگر چاہیں تو ہماری بگڑی بنادیں، ہماری مشکل کشائی کردیں،جو وہ کہیں رب تعالیٰ کو ان کی ماننی پڑے ورنہ اس کا عالم بگڑجاوے جیسے اسمبلی کے ممبرکہ اگر چہ وہ سب بادشاہ کی رعایا تو ہیں مگر ملکی انتظام میں ان کو ایسا دخل ہے کہ ملک ان سب کی تدبیر سے چل رہا ہے ۔ یہ وہ شرک ہے جس میں عرب کے بہت سے مشرکین گرفتا ر تھے اور اپنے بت ودّ ، یغوث، لات ومنات وعزی وغیرہ کو رب کا بندہ مان کر اور سارے عالم کا رب تعالیٰ کو خالق مان کر مشرک تھے ۔ اس عقیدے سے کسی کو پکارنا شرک ، اس کی شفاعت ماننا شرک، اسے حاجت روا مشکل کشا ماننا شرک ، اس کے سامنے جھکنا شر ک، اس کی تعظیم کرنا شرک ، غرضیکہ یہ برابری کا عقیدہ رکھ کر اس کے ساتھ جو تعظیم وتو قیر کا معاملہ کیا جاوے وہ شرک ہے ۔ ان کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے : وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمۡ مُّشْرِکُوۡنَ ﴿۱۰۶﴾ ان مشرکین میں سے بہت سے وہ ہیں کہ اللہ پر ایمان نہیں لاتے مگر شرک کرتے ہوئے۔(پ13،یوسف:106) کہ خدا کو خالق ، رازق مانتے ہوئے پھر مشرک ہیں ، انہی پانچویں قسم کے مشرکین کے بارے میں فرمایا گیا : (1) وَلَئِنۡ سَاَلْتَہُمۡ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤْفَکُوۡنَ ﴿۶۱﴾ اگر آپ ان مشرکوں سے پوچھیں کہ کس نے آسمان و زمین پیدا کئے او رکام میں لگائے سورج اور چاند تو وہ کہیں گے اللہ نے تو فرماؤ کہ کیوں بھولے جاتے ہیں ۔(پ21العنکبوت:61) (2) قُلْ مَنۡۢ بِیَدِہٖ مَلَکُوۡتُ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُوَ یُجِیۡرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیۡہِ اِنۡ کُنۡتُمْ تَعْلَمُوۡنَ ﴿۸۸﴾سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلہِ ؕ قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوۡنَ ﴿۸۹﴾ فرمادو کہ ہر چیز کی بادشاہی کس کے قبضے میں ہے جو پناہ دیتا ہے اور پناہ نہیں دیا جاتا بتا ؤ اگر تم جانتے ہو تو کہیں گے اللہ ہی کی ہے کہو پھر کہا ں تم پر جادو پڑا جاتا ہے ۔(پ18المؤمنون:88۔89) (3) وَ لَئِنۡ سَاَلْتَہُمۡ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوۡلُنَّ خَلَقَہُنَّ الْعَزِیۡزُ الْعَلِیۡمُ ﴿ۙ۹﴾ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان اور زمین کس نے پیدا کئے تو کہیں گے کہ انہیں غالب جاننے والے اللہ نے پیدا کیا ہے ۔(پ25،الزخرف:9) (4) قُلۡ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنۡ فِیۡہَاۤ اِنۡ کُنۡتُمْ تَعْلَمُوۡنَ ﴿۸۴﴾سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلہِ ؕ قُلْ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۸۵﴾ فرماؤ کس کی ہے زمین اور اس کی چیزیں اگر تم جانتے ہو تو کہیں گے اللہ کی فرماؤ کہ تم نصیحت حاصل کیوں نہیں کرتے ۔(پ18،المؤمنون:84۔85) (5) قُلْ مَنۡ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیۡمِ ﴿۸۶﴾سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلہِ ؕ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۸۷﴾ فرماؤ کہ سات آسمان اور بڑے عرش کا رب کون ہے ؟ توکہیں گے اللہ کا ہے فرماؤ کہ تم ڈرتے کیوں نہیں ۔(پ18،المؤمنون:86۔87) (6) قُلْ مَنۡ یَّرْزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرْضِ اَمَّنۡ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَ الۡاَبْصَارَ وَ مَنۡ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنۡ یُّدَبِّرُ الۡاَمْرَ ؕ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ اللہُ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۳۱﴾ فرماؤ تمہیں آسمان وزمین سے رزق کو ن دیتا ہے یا کان آنکھ کاکون مالک ہے اورکون زندے کو مردے سے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے اور کاموں کی تدبیر کو ن کرتاہے تو کہیں گے اللہ!فرماؤتوتم ڈرتے کیوں نہیں ؟(پ11،یونس:31) (7) وَلَئِنۡ سَاَلْتَہُمۡ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤْفَکُوۡنَ ﴿۶۱﴾ اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور کس نے سورج وچاند تا بعدار کیا تو کہیں گے اللہ نے تو فرماؤ تم کدھر پھر ے جاتے ہو۔(پ21،العنکبوت:61) (8) وَلَئِنۡ سَاَلْتَہُمۡ مَّنۡ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ مِنۡۢ بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُوۡلُنَّ اللہُ ؕ اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کس نے آسمان سے پانی اتاراپس زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کیا تو کہیں گے اللہ نے ۔(پ21،العنکبوت:63) ان جیسی بہت سی آیات سے معلوم ہوا کہ یہ پانچویں قسم کے مشرک اللہ تعالیٰ کو سب کا خالق ،مالک ، زندہ کرنے والا ، مارنے والا ، پناہ دینے والا, عالم کا مدبر مانتے تھے مگر پھر مشرک تھے یعنی ذات، صفات کا اقرار کرنے کے باوجود مشرک رہے کیوں ؟ یہ بھی قرآن سے پوچھئے ۔ قرآن فرماتا ہے کہ ان عقائد کے باوجود وہ دو سبب سے مشرک تھے ایک یہ کہ وہ صرف خدا کو عالم کا مالک نہیں مانتے تھے بلکہ اللہ کوبھی اور دوسرے اپنے معبودوں کو بھی۔ یہاں'' للہ ''میں لام ملکیت کا ہے یعنی وہ اللہ کی ملکیت مانتے تھے مگر اکیلے کی نہیں بلکہ ساتھ ہی دوسرے معبودوں کی بھی،اسی لیے وہ یہ نہ کہتے تھے کہ ملکیت وقبضہ صرف اللہ کا ہے ، اور وں کا نہیں بلکہ وہ کہتے تھے اللہ کا بھی ہے اور دوسروں کا بھی، دو سرے اسلئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ اکیلا یہ کام نہیں کرتا بلکہ ہمارے بتوں کی مدد سے کرتا ہے ۔ خود مجبور ہے اسی لئے ان دونوں عقیدوں کی تردید کے لئے حسب ذیل آیات ہیں: (1) وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیۡ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الْمُلْکِ وَ لَمْ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیۡرًا ﴿۱۱۱﴾٪ اور فرماؤ کہ سب خوبیاں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے اپنے لئے اولاد نہ بنائی او رنہ اس کے ملک میں کوئی شریک ہے او رنہ کوئی کمزوری کی وجہ سے ا س کا ولی مدد گار ہے تو اس کی بڑائی بولو ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:111) اگر یہ مشرکین ملک اور قبضہ میں خدا کے سوا کسی کوشریک نہیں مانتے تھے تو یہ تردید کس کی ہو رہی ہے او رکس سے یہ کلام ہو رہاہے ۔ (2) تَاللہِ اِنۡ کُنَّا لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۹۷﴾اِذْ نُسَوِّیۡکُمۡ بِرَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۹۸﴾ دوزخ میں مشرکین اپنے بتوں سے کہیں گے اللہ کی قسم ہم کھلی گمراہی میں تھے ۔کیونکہ ہم تم کو رب العالمین کے برابر سمجھتے تھے۔(پ19،الشعرآء:97۔98) یہ مشرک مسلمانوں کی طر ح اللہ تعالیٰ کو ہر شے کا خالق، مالک بلا شرکت غیرکے مانتے تھے تو برابر ی کرنے کے کیا معنی ہیں ،فرماتا ہے: (3)اَمْ لَہُمْ اٰلِہَۃٌ تَمْنَعُہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِنَا ؕ لَا یَسْتَطِیۡعُوۡنَ نَصْرَ اَنۡفُسِہِمْ وَ لَا ہُمۡ مِّنَّا یُصْحَبُوۡنَ ﴿۴۳﴾ کیا ان کے کچھ خدا ہیں جو ان کو ہم سے بچاتے ہیں وہ اپنی جانوں کو نہیں بچاسکتے اور نہ ہماری طر ف سے ان کی کوئی یاری ہو۔(پ17،الانبیآء:43) اس آیت میں مشرکین کے اسی عقیدے کی تردید کی ہے کہ ہمارے معبود ہمیں خدا سے مقابلہ کر کے بچاسکتے ہیں : (4) اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ ؕ قُلْ اَوَ لَوْ کَانُوۡا لَا یَمْلِکُوۡنَ شَیْـًٔا وَّ لَا یَعْقِلُوۡنَ ﴿۴۳﴾قُلۡ لِّلہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیۡعًا ؕ بلکہ انہوں نے اللہ کے مقابل کچھ سفارشی بنا رکھے ہیں فرماد و کہ کیا اگر چہ وہ کسی چیز کے مالک نہ ہوں اور نہ عقل رکھیں فرمادو ساری شفاعتیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔(پ 24الزمر:43،44) اس آیت میں مشرکین کے اسی عقیدے کی تردید ہے کہ ہمارے معبود بغیر اذن الٰہی دھونس کی شفاعت کر کے ہمیں اس کے غضب سے بچاسکتے ہیں اسی لئے اس جگہ بتوں کے مالک نہ ہونے اور رب کی ملکیت کا ذکر ہے یعنی ملک میں شریک ہونے کی وجہ سے اس کے ہاں کوئی شفیع نہیں ہے: (5) وَیَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَایَضُرُّہُمْ وَ لَایَنۡفَعُہُمْ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللہِ او رپوجتے ہیں وہ اللہ کے سوا ان چیزوں کو جو نہ انہیں نقصان دیں نہ نفع اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے شفیع ہیں اللہ کے نزدیک ۔(پ11،یونس:18) اس آیت میں بھی مشرکین کے اسی عقیدے کی تردید ہے کہ ہمارے بت دھونس کی شفاعت کریں گے کیونکہ وہ رب تعالیٰ کے ساتھ اس کی مِلک میں او رعالم کاکام چلانے میں شریک ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین عرب کا شرک ایک ہی طرح کا نہ تھا بلکہ اس کی پانچ صورتیں تھیں: (۱)خالق کا انکار اور زمانہ کو مؤثر ماننا (۲) چند مستقل خالق ماننا (۳) اللہ کو ایک مان کر اس کی اولاد ماننا (۴) اللہ کو ایک مان کر اسے تھکن کی وجہ سے معطل ماننا (۵) اللہ کو خالق و مالک مان کر اسے دوسرے کا محتاج ماننا ،جیسے اسمبلی کے ممبر، شاہان موجودہ کیلئے اور انہیں ملکیت اور خدائی میں دخیل ماننا ۔ ان پانچ کے سوا اور چھٹی قسم کا شر ک ثابت نہیں۔ ان پانچ قسم کے مشرکین کے لئے پانچ ہی قسم کی تردید یں قرآن میں آئی ہیں جن پانچوں کا ذکر سورہ اخلاص میں اس طر ح ہے کہ قُلْ ھُوَاللہُ میں دہر یوں کا رد کہ اللہ عالم کا خالق ہے ۔ اَحَدٌ میں ان مشرکوں کا رد جو عالم کے دوخالق مستقل مانتے تھے تا کہ عالم کا کام چلے۔ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ میں ان مشرکین کا رد جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام وحضرت عزیر علیہ السلام کو رب تعالیٰ کا بیٹا یا فرشتوں کو رب تعالیٰ کی بیٹیاں مانتے تھے۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ، کُفُوًا اَحَدٌ میں ان لوگو ں کا رد جو خالق کو تھکاہوا مان کر مدبر عالم اوروں کو مانتے تھے ۔ (۱) اعتراض: مشرکین عرب بھی اپنے بتو ں کو خدا کے ہاں سفارشی اور خدا رسی کا وسیلہ مانتے تھے اور مسلمان بھی نبیوں ، ولیوں کو شفیع اوروسیلہ مانتے ہیں تو وہ کیوں مشرک ہوگئے اور یہ کیوں مومن رہے ؟ ان دونوں میں کیا فر ق ہے ؟ جواب : دو طر ح فرق ہے کہ مشرکین خدا کے دشمنوں یعنی بتو ں وغیرہ کو سفارشی اور وسیلہ سمجھتے تھے جو کہ واقعہ میں ایسے نہ تھے اور مومنین اللہ کے محبو بوں کو شفیع او روسیلہ سمجھتے ہیں لہٰذا وہ کافر ہوئے اور یہ مومن رہے جیسے گنگاکے پانی اور بت کے پتھر کی تعظیم ، ہولی، دیوالی ، بنارس ، کاشی کی تعظیم شرک ہے مگرآب زمزم ، مقام ابراہیم ، رمضان ، محرم، مکہ معظمہ ، مدینہ طیبہ کی تعظیم ایمان ہے ۔ حالانکہ زمزم اور گنگا جل دو نوں پانی ہیں۔ مقام ابراہیم اور سنگ اسود ۔ اور بت کا پتھر دونوں پتھر ہیں وغیرہ وغیرہ ، دوسرے یہ کہ وہ اپنے معبودوں کو خدا کے مقابل دھونس کا شفیع مانتے تھے اور جبری وسیلہ مانتے تھے، مومن انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام رحمۃاللہ تعالیٰ علیہم کو محض بندہ محض اعزازی طور پر خدا کے اذن وعطا سے شفیع یا وسیلہ مانتے ہیں ۔ اذن اور مقابلہ ایمان وکفر کا معیا ر ہے ۔ (۲)اعتراض : مشرکین عر ب کا شرک صرف اس لئے تھا کہ وہ مخلوق کو فریاد رس، مشکل کشا، شفیع ، حاجت روا،دور سے پکار سننے والا، عالم غیب،وسیلہ مانتے تھے وہ اپنے بتوں کو خالق، مالک ، رازق ، قابض موت وحیات بخشنے والا نہیں مانتے تھے ۔ اللہ کا بندہ مان کر یہ پانچ باتیں ان میں ثابت کرتے تھے قرآن کے فتوے سے وہ مشرک ہوئے۔ لہٰذاموجودہ مسلمان جو نبیوں علیہم السلام ، ولیوں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کے لئے یہ مذکورہ بالا چیزیں ثابت کرتے ہیں وہ انہیں کی طر ح مشرک ہیں اگر چہ انہیں خدا کا بندہ مان کر ہی کریں چونکہ یہ کام مافوق الاسباب مخلوق کے لئے ثابت کرتے تھے ،مشرک ہوئے۔ جواب : یہ محض غلط اور قرآن کریم پر افترا ہے۔جب تک رب تعالیٰ کے ساتھ بندے کو برابر نہ مانا جاوے ، شرک نہیں ہوسکتا۔ وہ بتوں کو رب تعالیٰ کے مقابل ان صفتوں سے موصوف کرتے تھے ۔ مومن رب تعالیٰ کے اذن سے انہیں محض اللہ کا بندہ جان کر مانتا ہے لہٰذا وہ مومن ہے ۔ ان اللہ کے بندوں کے لئے یہ صفات قرآن کریم سے ثابت ہیں ،قرآنی آیات ملاحظہ ہوں۔ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں باذن الٰہی مردوں کو زندہ ، اندھوں ، کوڑھیوں کو اچھا کر سکتا ہوں، میں باذن الٰہی ہی مٹی کی شکل میں پھونک مار کر پرندہ بنا سکتا ہوں جو کچھ تم گھر میں کھاؤیا بچا ؤ بتا سکتا ہوں ۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ میری قمیص میرے والد کی آنکھوں پر لگا دو ۔ انہیں آرام ہوگا، جبریل علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے کہا کہ میں تمہیں بیٹا دوں گا ۔ ان تمام میں مافوق الاسباب مشکل کشائی حاجت روائی علم غیب سب کچھ آگیا ۔ حضرت جبریل علیہ السلام کی گھوڑی کی ٹاپ کی خاک نے بے جان بچھڑے میں جان ڈال دی،یہ مافوق الاسباب زندگی دینا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصاء دم میں لاٹھی اور دم میں زندہ سانپ بن جاتا تھا آپ کے ہاتھ کی بر کت سے، حضرت آصف آنکھ جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس یمن سے شام میں لے آئے، حضرت سلیمان علیہ السلام نے تین میل کے فاصلے سے چیونٹی کی آواز سن لی ، حضرت یعقوب علیہ السلام نے کنعان بیٹھے ہوئے یوسف علیہ السلام کو سات قفلوں سے بندمقفل کو ٹھڑی میں برے ارادے سے بچایا،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے روحوں کو حج کیلئے پکارا اور تاقیامت آنے والی روحوں نے سن لیا یہ تمام معجزات قرآن کریم سے ثابت ہیں جن کی آیات ان شاء اللہ باب احکام قرآنی میں پیش کی جائیں گی ۔ یہ توسب شرک ہوگئیں بلکہ معجزات اور کرامات توکہتے ہی انہیں ہیں جواسباب سے ورا ہو ۔ اگر مافوق الاسباب تصرف ماننا شرک ہوجاوے تو ہر معجزہ وکرامت ماننا شرک ہوگا۔ ایسا شرک ہم کو مبارک رہے جو قرآن کریم سے ثابت ہو اور سارے انبیاء و اولیاء کا عقیدہ ہو۔ فرق وہی ہے کہ باذن اللہ یہ چیزیں بندوں کو ثابت ہیں اور رب کے مقابل ماننا شرک ہے انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء عظام رحمہم اللہ کے معجزات اور کرامات تو ہیں ہی ۔ ایک ملک الموت اور ان کے عملہ کے فرشتے سارے عالم کو بیک وقت دیکھتے ہیں او رہر جگہ بیک وقت تصرف کرتے ہیں ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : (1) قُلْ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمْ فرمادو کہ تم سب کو موت کا فرشتہ موت دیگا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے ۔(پ21،السجدۃ:11) (2) حَتّٰۤی اذَا جَآءَتْہُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَہُمْ یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے قاصد آئینگے انہیں موت دینے (پ8،الاعراف:37) ابلیس ملعون کو یہ قوت دی گئی ہے کہ وہ گمراہ کرنے کیلئے تمام کو بیک وقت دیکھتا ہے وہ بھی اور اس کی ذریت بھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (3) اِنَّہٗ یَرٰىکُمْ ہُوَ وَقَبِیۡلُہٗ مِنْ حَیۡثُ لَا تَرَوْنَہُمْ ؕ وہ شیطان اور اس کا قبیلہ تم سب کو وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے ۔(پ8،الاعراف:27) جو فرشتے قبر میں سوال و جواب کرتے ہیں، جو فرشتہ ماں کے پیٹ میں بچہ بناتا ہے، وہ سب جہان پر نظر رکھتے ہیں کیونکہ بغیر اس قوت کے وہ اتنا بڑا انتظام کرسکتے ہی نہیں اور تمام کا م مافوق الاسباب ہیں ۔ جواہر القرآن کے اس فتوے سے اسلامی عقائد شرک ہوگئے ۔ فر ق وہ ہی ہے جو عرض کیا گیا کہ رب کے مقابل یہ قوت ماننا شرک ہے اور رب کے خدام اور بندوں میں باذن الٰہی رب کی عطا سے یہ طاقتیں ماننا عین ایمان ہے ۔
  22. قرآن شریف میں بعض الفاظ کسی خاص معنی میں استعمال فرمائے گئے ہیں کہ اگر اس کے علاوہ ان کے دوسرے معنی کیے جائیں تو قرآن کا مقصد بدل جاتا ہے یا فوت ہوجا تا ہے ان اصطلاحوں کو بہت یاد رکھنا چاہئے تا کہ ترجمہ میں دھوکا نہ ہو ۔ ایمان ایمان امن سے بنا ہے جس کے لغوی معنی امن دینا ہے اصطلاح شریعت میں ایمان عقائد کا نام ہے جن کے اختیار کرنے سے انسان دائمی عذاب سے بچ جاوے جیسے تو حید، رسالت ، حشر و نشر ، فرشتے ، جنت ، دو زخ اور تقدیر کو ماننا وغیرہ وغیرہ جس کا کچھ ذکر اس آیت میں ہے ۔ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ ۟ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖ ۟ سب مومن اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے رسولوں میں فرق نہیں کرتے(پ3،البقرۃ:285) لیکن اصطلاح قرآن میں ایمان کی اصل جس پر تمام عقیدوں کا دار ومدار ہے یہ ہے کہ بندہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو دل سے اپنا حاکم مطلق مانے ۔ اپنے کو ان کا غلام تسلیم کرے کہ مومن کے جان ، مال ، اولاد سب حضور کی ملک ہیں او رنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا سب مخلوق سے زیادہ ادب واحترام کرے ۔ اگر اس کو ما ن لیاتو توحید اورکتب، فرشتے وغیرہ تمام ایمانیات کو مان لیا اور اگر اس کو نہ مانا تو اگرچہ توحید ، فرشتے، حشر نشر ، جنت ودوزخ سب کو مانے مگر قرآن کے فتوے سے وہ مومن نہیں بلکہ کافرومشرک ہے ۔ ابلیس پکا موحد ، نمازی ، ساجد تھا ۔ فرشتے ، قیامت ، جنت ودوزخ سب کو مانتا تھا مگر رب تعالیٰ نے فرمایا : وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ شیطان کا فر وں میں سے ہے ۔ (البقرۃ:۳۴) کیوں؟ صرف اس لئے کہ نبی کی عظمت کا قائل نہ تھا۔ غرض ایمان کا مدار قرآن کے نزدیک عظمت مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ہے ۔ ان آیات میں یہی اصطلاح استعمال ہوئی۔ (۱) فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَیُسَلِّمُوۡا تَسْلِیۡمًا ﴿۶۵﴾ اے محبوب ! تمہارے رب کی قسم !یہ سارے توحید والے اور دیگر لوگ اس وقت تک مومن نہ ہونگے جب تک کہ تم کو اپنا حاکم نہ مانیں اپنے سارے اختلاف و جھگڑوں میں پھر تمہارے فیصلے سے دلوں میں تنگی محسوس نہ کریں او ررضا وتسلیم اختیار کریں ۔(پ5،النساء:65) پتاچلا کہ صرف تو حید کا ماننا ایمان نہیں اور تمام چیز وں کا ماننا ایمان نہیں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو حاکم ماننا ایمان ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : (2)وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَ بِالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ وَمَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ۘ﴿۸﴾ لوگوں میں بعض وہ(منافق )بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور قیامت پر ایمان لائے مگر وہ مومن نہیں ۔(پ1،البقرۃ:8) دیکھو اکثر منافق یہودی تھے جو خدا کی ذات وصفات اور قیامت وغیرہ کو مانتے تھے مگر انہیں رب نے کافر فرمایا کیونکہ وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کونہیں مانتے تھے اس لیے انہوں نے اللہ کا اور قیامت کانام تو لیا مگر حضور مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا نام نہ لیا رب نے انہیں مومن نہیں مانا۔ فرماتا ہے : (3)یَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیۡنَ لَکٰذِبُوۡنَ ۚ﴿۱﴾ جب آپ کے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اللہ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں او راللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹے ہیں ۔ (پ28،المنٰفقون:1) پتا چلا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو فقط زبانی طور پر معمولی طریقہ سے مان لینے کا دعویٰ کردینا مومن ہونے کیلئے کافی نہیں،انہیں دل سے ماننے کا نام ایمان ہے۔ سبحان اللہ ! قول سچا مگر قائل جھوٹا کیونکہ یہاں دل کی گہرائیوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ما دروں را بنگریم و حال را ما بروں را ننگریم و قال را (4) وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمْرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ ؕ اور نہ کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو حق ہے کہ جب اللہ اور رسول کچھ حکم فرمادیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے ۔(پ22،الاحزاب:36) اس آیت نے بتایا کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے سامنے مومن کو اپنی جان کے معاملات کا بھی اختیار نہیں ، یہ آیت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح کے بارے میں نازل ہوئی کہ وہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ نکاح کرنے کو تیار نہ تھیں۔ (التفسیر الکبیر،الجزء الخامس والعشرون،سورۃالاحزاب،تحت الآیۃ۳۶، ج۹،ص۱۶۹،دار احیاء التراث العربی بیروت) مگر حضو رصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے نکاح ہوگیا۔ہر مومن حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا غلام اور ہر مومنہ ان سرکار کی لونڈی ہے ۔ یہ ہے حقیقت ایمان۔ (5) اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیۡنَ مِنْ اَنۡفُسِہِمْ وَ اَزْوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمْ ؕ نبی مومنوں کے ان کی جان سے بھی زیادہ مالک ہیں او رنبی کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں ۔(پ21،الاحزاب:6) جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہماری جان سے بھی زیادہ ہمارے مالک ہوئے تو ہماری اولاد مال کے بدرجہ اولی مالک ہیں۔ (۶) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرْفَعُوۡۤا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوۡا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہۡرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنۡ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَ اَنۡتُمْ لَا تَشْعُرُوۡنَ ﴿۲﴾ اے ایمان والو! اپنی آوازیں ان نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو نہ ان کی بارگاہ میں ایسے چیخ کر بو لو جیسے بعض بعض کیلئے خطرہ ہے کہ تمہارے اعمال بر باد ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔(پ۲۶،الحجرات:۲) پتا چلا کہ ان کی تھوڑی سی بے ادبی کرنے سے نیکیاں بر باد ہوجاتی ہیں اور اعمال کی بر بادی کفر وار تداد سے ہوتی ہے معلوم ہوا کہ ان کی ادنیٰ گستاخی کفر ہے ۔ (7) قُلْ اَبِاللہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوۡلِہٖ کُنۡتُمْ تَسْتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۶۵﴾لَاتَعْتَذِرُوۡا قَدْکَفَرْتُمۡ بَعْدَ اِیۡمَانِکُمْ ؕ فرمادوکہ کیا تم اللہ اور اس کی آیتو ں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے مسلمان ہوکر ۔(پ10،التوبۃ65۔66) جن منافقین کا اس آیت میں ذکر ہے انہوں نے ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے علم غیب کا مذاق اڑایا تھا کہ بھلا حضور کب روم پر غالب آسکتے ہیں اس گستاخی کو رب کی آیتو ں کی گستاخی قرار دے کر ان کے کفرکا فتوی صادر فرمایا کس نے ؟ کسی مولوی نے ؟ نہیں ! بلکہ خود اللہ جل شانہ نے ۔ (8) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَقُوۡلُوا انۡظُرْنَا وَاسْمَعُوۡا ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۰۴﴾ اے ایمان والو!میرے پیغمبرسے راعنا نہ کہاکرو انظر ناکہا کرو خوب سن لو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔(پ1،البقرۃ:104) اس سے پتا لگا کہ جو کوئی توہین کے لئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایسا لفظ بولے جس میں گستاخی کا شائبہ بھی نکلتا ہو وہ ایمان سے خارج ہوجاتا ہے۔ (جیسے راعنا) خلاصہ یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے مسلمانوں کو قرآن میں ہر جگہ یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کہہ کر پکارا، موحدیا نمازی یا مولوی یا فاضل دیوبند کہہ کر نہ پکارا تا کہ پتا لگے کہ رب تعالیٰ کی تمام نعمتیں ایمان سے ملتی ہیں اور ایمان کی حقیقت وہ ہے جو ان آیتوں میں بیان ہوئی یعنی غلامی سرکار مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ۔ توحید نوٹ کا کا غذ ہے اور نبوت اس کی مہر جیسے نوٹ کی قیمت سرکاری مہر سے ہے اس کے بغیر وہ قیمتی نہیں اسی طر ح ایمان کے نوٹ کی قیمت بازار قیامت میں جب ہی ہوگی جب اس پر حضور کے نام کی مہر لگی ہو ۔ ان سے منہ موڑکر توحید کی کوئی قیمت نہیں اسی لئے کلمہ میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کانام ہے اور قبر میں تو حید کا اقرار کرانے کے بعد حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پہچان ہے ۔خیال رہے کہ حدیث وقرآن میں بھی مسلمانوں کو موحد نہ کہا گیا بلکہ مومن ہی سے خطاب فرمایا ۔ اسلام اسلام سلم سے بناجن کے معنی ہیں صلح،جنگ کامقابل۔ رب تعالیٰ فرماتاہے وَ اِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا اگر وہ صلح کی طر ف مائل ہوں توتم بھی اس طر ف جھک جاؤ۔(پ10،الانفال:61) لہٰذا اسلام کے معنی ہوئے صلح کرنا ۔ مگر عرف میں اسلام کے معنی اطاعت وفرمانبرداری ہے ،قرآن شریف میں یہ لفظ کبھی تو ایمان کے معنی میں آتا ہے او رکبھی اطاعت وفرمانبرداری کرنے کے لئے ، ان آیات میں اسلام بمعنی ایمان ہے ۔ (1) اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللہِ الۡاِسْلَامُ پسندیدہ دین اللہ کے نزدیک اسلام ہے(پ3،اٰل عمرٰن:19) (2)ہُوَ سَمّٰىکُمُ الْمُسْلِمِیۡنَ ۬ۙ اس رب نے تمہارا نام مسلم رکھا(پ17،الحج:78) (3) مَاکَانَ اِبْرٰہِیۡمُ یَہُوۡدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنۡ کَانَ حَنِیۡفًا مُّسْلِمًا ؕ ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے نہ عیسائی لیکن وہ حنیف ایمان والے تھے۔(پ3،اٰل عمرٰن:67) (4) قُلۡ لَّا تَمُنُّوۡا عَلَیَّ اِسْلَامَکُمۡ ۚ بَلِ اللہُ یَمُنُّ عَلَیۡکُمْ اَنْ ہَدٰىکُمْ لِلْاِیۡمَانِ اِنۡ کُنۡتُمْ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۷﴾ فرمادو کہ تم مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ جتا ؤ بلکہ اللہ تم پر احسان فرماتا ہے کہ تمہیں ایمان کی ہدایت دی اگر تم سچے ہو ۔(پ26،الحجرات:17) (5)تَوَفَّنِیۡ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۰۱﴾ مجھے مومن اٹھا اور صالحوں سے ملا۔(پ13،یوسف:101) (6)وَّ اَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُوۡنَ وَ مِنَّا الْقَاسِطُوۡنَ ؕ فَمَنْ اَسْلَمَ فَاُولٰٓئِکَ تَحَرَّوْا رَشَدًا ﴿۱۴﴾ اورہم میں سے کچھ مسلمان ہیں اور کچھ ظالم جو اسلام لائے انہوں نے بھلائی تلاش کرلی ۔(پ29،الجن:14) ان آیات اور ان جیسی دو سری آیات میں اسلام ایمان کے معنی میں ہے۔ لہٰذا جیسے ایمان کا دار ومدار امت کے لئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سچی غلامی پر ہے ایسے ہی اسلام کا مدار بھی اس سرکار کی غلامی پر ہے۔ لہٰذا حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت کا منکر نہ مومن ہے نہ مسلمان جیسے شیطان نہ مومن ہے نہ مسلم بلکہ کافر و مشرک ہے ۔ بعض آیات میں اسلام بمعنی اطا عت آیاہے جیسے (1) لَہٗۤ اَسْلَمَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ اس اللہ کے فرمانبردار ہیں تمام آسمانوں اور زمینوں کے لوگ ۔(پ3،اٰل عمرٰن:83) کُلٌّ لَّہ، قَانِتُوْنَ ہر ایک اس کامطیع ہے یعنی تکوینی احکام میں۔(پ۲۱،الروم:۲۶) یہا ں''قانتین'' نے''اسلم'' کی تفسیر کردی کیونکہ ساری چیز یں رب تعالیٰ کی تکوینی امور میں مطیع توہیں مگر سب مومن نہیں بعض کا فر بھی ہیں۔ فَمِنۡکُمْ کَافِرٌ وَّ مِنۡکُمْ مُّؤْمِنٌ ؕ (پ28،التغابن:2) (2) قُلۡ لَّمْ تُؤْمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمْ ؕ اے منافقو! یہ نہ کہو کہ تم ایمان لے آئے بلکہ یوں کہو کہ ہم نے اطا عت قبول کرلی اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ۔(پ26،الحجرات:14) منافق مسلم بمعنی مطیع تو تھے مومن نہ تھے ۔ (3) فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّہٗ لِلْجَبِیۡنِ ﴿۱۰۳﴾ۚوَ نَادَیۡنٰہُ اَنْ یّٰۤاِبْرٰہِیۡمُ ﴿۱۰۴﴾ۙ توجب دونوں ابراہیم واسماعیل نے ہمارے حکم پر گردن رکھی اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹادیا (ذبح کیلئے) اور ہم نے ندا کی اے ابراہیم(پ23،الصّٰفّٰت:103،104) (4) اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗۤ اَسْلِمۡ ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۳۱﴾ جب فرمایا ابراہیم سے ان کے رب نے مطیع ہوجاؤ عرض کیا کہ میں اللہ رب العالمین کا فرمانبردار ہوا۔(پ1،البقرۃ:131) ان دونوں آخر ی آیات میں اسلام کے معنی ایمان نہیں بن سکتے کیونکہ انبیاء پیدا ئشی مومن ہوتے ہیں ان کے ایمان لانے کے کیا معنی ؟ ان آیات میں اسلام بمعنی اطاعت ہے ۔ پہلی آیت میں تکوینی امور کی اطاعت مراد ہے جیسے بیماری ، تندرستی ، موت، زندگی وغیرہ ۔ آخری دوسری دوآیات میں تشریعی احکام کی اطا عت مراد ہے لہٰذا منافق مومن نہ تھے مسلم تھے یعنی مجبوراً اسلامی قوانین کے مطیع ہوگئے تھے ۔ تقویٰ قرآن کریم میں یہ لفظ بہت استعمال ہوا ہے بلکہ ایمان کے ساتھ تقویٰ کا اکثر حکم آتا ہے ۔ تقویٰ کے معنی ڈرنا بھی ہیں اور بچنا بھی اگر اس کا تعلق اللہ تعالیٰ یا قیامت کے دن سے ہو تو اس سے ڈرنا مراد ہوتا ہے کیونکہ رب سے اور قیامت سے کوئی نہیں بچ سکتا جیسے (1) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ اے ایما ن والو! اللہ سے ڈرو!(پ3،البقرۃ:278) (2) وَاتَّقُوۡا یَوْمًا لَّا تَجْزِیۡ نَفْسٌ عَنۡ نَّفْسٍ شَیْـًٔا اور اس دن سے ڈرو جس دن کو ئی نفس کسی نفس کی طر ف سے نہ بدلا دے گا ۔(پ1،البقرۃ:48) اور اگر تقویٰ کے ساتھ آگ یا گناہ کا ذکر ہو تو وہاں تقویٰ سے بچنا مراد ہوگا جیسے (3)فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ اور اس آگ سے بچو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں۔(پ1،البقرۃ:24) اگر تقوی کے بعد کسی چیز کا ذکر نہ ہو نہ رب تعالیٰ کا نہ دو زخ کا تو وہاں دونوں معنی یعنی ڈرنا اور بچنا درست ہیں جیسے (4) ہُدًی لِّلْمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾الَّذِیۡنَ یُؤْمِنُوۡنَ بِالْغَیۡبِ ہدایت ہے ان پر ہیز گار وں کے لئے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔(پ1،البقرۃ:2۔3) (5) فَاصْبِرْ ؕۛ اِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِیۡنَ ﴿٪۴۹﴾ پس صبر کرو بیشک انجام پر ہیز گاروں کے لئے ہے ۔(پ12،ھود:49) قرآن کی اصطلاح میں تقوی کی دو قسمیں ہیں تقویٰ بدن اور تقویٰ دل تقویٰ بدن کا مدار اطا عت خدا اور رسول پر ہے ۔ فرماتا ہے : (1) فَمَنِ اتَّقٰی وَاَصْلَحَ فَلَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿۳۵﴾ تو جس نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ان پر نہ خو ف ہے نہ وہ غمگین ہوں گے ۔(پ8،الاعراف:35) (2) الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾ ولی اللہ وہ ہیں جوایمان لائے اور پرہیزگار ی کرتے تھے ۔(پ11،یونس:63) (3) اِنۡ تَتَّقُوا اللہَ یَجْعَلۡ لَّکُمْ فُرْقَانًا اگر اللہ کی اطاعت کر و گے تو تمہارے لئے فرق بتا دے گا ۔ (پ9،الانفال:29) دلی تقوی کا دار ومدار اس پر ہے کہ اللہ کے پیارو ں بلکہ جس چیز کو ان سے نسبت ہوجاوے اس کی تعظیم وادب دل سے کر ے ۔ تبرکات کا بے ادب دلی پرہیز گار نہیں ہو سکتا ۔ فرماتا ہے : (1) وَ مَنۡ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقْوَی الْقُلُوۡبِ ﴿۳۲﴾ جو کوئی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ دل کی پرہیز گا ری سے ہے ۔(پ17،الحج:32) (2) وَمَنۡ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللہِ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ؕ اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو اس کیلئے اس کے رب کے ہاں بہتری ہے ۔(پ17،الحج:30) یہ بھی قرآن کریم ہی سے پوچھو کہ شعا ئر اللہ یعنی اللہ کی نشانیا ں کیا چیز ہیں۔فرماتا ہے : (3)اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللہِ ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیۡتَ اَوِاعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِ اَنۡ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا ؕ صفا اور مروہ پہاڑ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو کو ئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ اس پر گناہ نہیں کہ ان پہاڑوں کا طواف کرے ۔(پ2،البقرۃ:158) صفا اور مروہ وہ پہاڑ ہیں جن پر حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں سات بار چڑھیں او راتریں ۔ اس اللہ والی کے قدم پڑجانے کی بر کت سے یہ دونوں پہاڑ شعائر اللہ بن گئے اور تا قیامت حاجیوں پرا س پاک بی بی کی نقل اتارنے میں ان پر چڑھنا اور اتر ناسات بار لازم ہوگیا ۔ بزرگو ں کے قدم لگ جانے سے وہ چیز شعائر اللہ بن جاتی ہے۔ فرماتا ہے : (4)وَ اتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی ؕ تم لوگ مقام ابراہیم کو جاء نماز بناؤ ۔(پ1،البقرۃ:125) مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ معظمہ کی تعمیر کی وہ بھی حضرت خلیل علیہ السلام کی برکت سے شعائر اللہ بن گیااوراس کی تعظیم ایسی لازم ہوگئی کہ طواف کے نفل اس کے سامنے کھڑے ہوکر پڑھنا سنت ہوگئے کہ سجدہ میں سر اس پتھر کے سامنے جھکے۔ جب بزرگو ں کے قدم پڑجانے سے صفا مروہ اور مقام ابراہیم شعائر اللہ بن گئے اور قابل تعظیم ہوگئے تو قبو ر انبیاء واولیاء جس میں یہ حضرات دائمی قیام فرما ہیں یقینا شعائر اللہ ہیں اور ان کی تعظیم لازم ہے ۔ رب تعالیٰ فرما تاہے : (5) فَقَالُوا ابْنُوۡا عَلَیۡہِمۡ بُنْیَانًا ؕ رَبُّہُمْ اَعْلَمُ بِہِمْ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰۤی اَمْرِہِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیۡہِمۡ مَّسْجِدًا ﴿۲۱﴾ پس لوگ بولے کہ ان اصحاب کہف پر کوئی عمارت بناؤ ان کا رب انہیں خوب جانتا ہے اور وہ بولے جواس کام میں غالب رہے کہ ہم تو ضرور ان پر مسجد بنائیں گے ۔(پ15،الکھف:21) اصحاب کہف کے غار پر جو ان کا آرام گاہ ہے گذشتہ مسلمانوں نے مسجد بنائی اور رب نے ان کے کام پر ناراضگی کا اظہار نہ کیا پتا لگا کہ وہ جگہ شعا ئر اللہ بن گئی جس کی تعظیم ضروری ہوگئی۔ (6) وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللہِ لَکُمْ فِیۡہَا خَیۡرٌ اور قربانی کے جانور(ہدی)ہم نے تمہارے لئے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے تمہارے لئے ان میں خیر ہے ۔(پ17،الحج:36) جو جانور قربانی کے لئے یا کعبہ معظمہ کیلئے نامزد ہوجائے وہ شعائر اللہ ہے اس کا احترام چاہیے جیسے قرآن کا جزدان اور کعبہ کا غلاف اور زمزم کاپانی اورمکہ شریف کی زمین۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ان کو رب یا رب کے پیاروں سے نسبت ہے ان سب کی تعظیم ضروری ہے ۔فرماتا ہے : (7) لَاۤ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ ۙ﴿۱﴾وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الْبَلَدِ ۙ﴿۲﴾ میں اس شہر مکہ معظمہ کی قسم فرماتا ہوں حالانکہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرماہو۔(پ30،البلد:1۔2) (8) وَالتِّیۡنِ وَ الزَّیۡتُوۡنِ ۙ﴿۱﴾وَ طُوۡرِ سِیۡنِیۡنَ ۙ﴿۲﴾وَ ہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیۡنِ ۙ﴿۳﴾ قسم ہے انجیر کی اور زیتو ن کی اورطور سینا پہاڑ کی اور اس امانت والے شہر مکہ شریف کی۔(پ30،التین:1۔3) (9) وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ اوربیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے گھسو اور کہو معافی دے، ہم بخش دیں گے۔(پ1،البقرۃ:58) طور سینا پہاڑ اور مکہ معظمہ اس لئے عظمت والے بن گئے کہ طو ر کو کلیم اللہ سے اور مکہ معظمہ کو حبیب اللہ علیہماالسلام سے نسبت ہوگئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے پیارو ں کی چیزیں شعائر اللہ ہیں جیسے قرآن شریف، خانہ کعبہ، صفا مروہ پہاڑ ،مکہ معظمہ ،بیت المقدس، طورسینا،مقابر اولیاء اللہ وانبیاء کرام ، آب زمزم وغیرہ اورشعائر اللہ کی تعظیم و تو قیر قرآنی فتوے سے دلی تقویٰ ہے جو کوئی نمازی رو زہ دار تو ہو مگر اس کے دل میں تبرکات کی تعظیم نہ ہو وہ دلی پر ہیز گا ر نہیں۔ ان آیات قرآنیہ سے معلوم ہو اکہ جہاں کہیں قرآن کریم میں تقویٰ کا ذکر ہے وہاں یہ تقویٰ دلی یعنی متبر ک چیزوں کی تعظیم ضرورمراد ہے ۔ یہ آیات کریمہ تقویٰ کی تمام آیات کی تفسیر ہیں۔جہاں تقوی کا ذکر ہو وہاں یہ قید ضروری ہے ۔ رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : اِنَّ الَّذِیۡنَ یَغُضُّوۡنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنۡدَ رَسُوْلِ اللہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوۡبَہُمْ لِلتَّقْوٰی ؕ لَہُمۡ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۳﴾ بے شک جو لوگ اپنی آوازیں رسول اللہ کے نزدیک پست کرتے ہیں یہ وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیز گاری کے لئے پرکھ لیا ہے ان کیلئے بخشش اور بڑا ثواب ہے ۔(پ26،الحجرات:3) معلوم ہو اکہ مجلس میں حضور مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا احترام تقویٰ ہے۔ کیونکہ یہ بھی شعائر اللہ ہے اور شعائر اللہ کی حرمت دلی تقویٰ ہے ۔ ایمان جڑ ہے اور تقوی اس کی شاخیں،پھل وہی کھاسکتا ہے جو ان دونوں کی حفاظت کرے ۔ اسی طر ح بخشش کے پھل اسی کو نصیب ہوں گے جوایمان اور تقویٰ دونوں کا حامل ہو۔ کفر کفر کے معنی چھپانا اور مٹا نا ہے اسی لئے جرم کی شرعی سز اکو کفارہ کہتے ہیں کہ وہ گناہ کو مٹادیتا ہے ایک دوا کانام کافور ہے کہ وہ اپنی تیز خوشبو سے دوسری خوشبوؤ ں کو چھپالیتا ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : اِنۡ تَجْتَنِبُوۡا کَبٰٓئِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنۡکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمۡ مُّدْخَلًا کَرِیۡمًا ﴿۳۱﴾ اگر تم بڑے گناہوں سے بچو گے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ مٹا دیں گے اور تم کو اچھی جگہ میں داخل کر یں گے (پ5،النسآء:31) قرآن شریف میں یہ لفظ چندمعنوں میں استعمال ہواہے ناشکری،انکار، اسلام سے نکل جانا۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : (1) لَئِنۡ شَکَرْتُمْ لَاَزِیۡدَنَّکُمْ وَلَئِنۡ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ ﴿۷﴾ اگر تم شکر کرو گے تو تم کو اور زیادہ دیں گے اور اگر تم ناشکری کرو گے تو ہمارا عذاب سخت ہے(پ13،ابرٰہیم:7) (2) وَاشْکُرُوۡا لِیۡ وَلَا تَکْفُرُوۡنِ ﴿۱۵۲﴾ میرا شکر کرونا شکری نہ کرو(پ2،البقرۃ:152) (3) وَ فَعَلْتَ فَعْلَتَکَ الَّتِیۡ فَعَلْتَ وَ اَنۡتَ مِنَ الْکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۹﴾ فرعون نے موسی علیہ السلام سے کہا کہ تم نے اپنا وہ کام کیا جو کیا اور تم ناشکر ے تھے(پ19،الشعرآء:19) ان آیات میں کفر بمعنی ناشکری ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے: (1) فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوۡتِ وَیُؤْمِنۡۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی پس جوکوئی شیطان کا انکا ر کرے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے مضبوط گرہ پکڑلی۔(پ3،البقرۃ:256) (2) یَکْفُرُ بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْعَنُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا اس دن تمہارے بعض بعض کا انکار کریں گے اور بعض بعض پر لعنت کریں گے ۔(پ۲۰،عنکبوت:۲۵) (3) وَّ کَانُوۡا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیۡنَ ﴿۶﴾ یہ معبود ان باطلہ ان کی عبادت کے انکاری ہوجاویں گے۔(پ26،الاحقاف:6) ان تمام آیات میں کفر بمعنی انکار ہے نہ کہ اسلام سے پھر جانا ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : (1) قُلْ یٰۤاَیُّہَا الْکٰفِرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ فرمادو کافر و میں تمہارے معبودوں کو نہیں پوجتا۔(پ30الکٰفرون:1۔2) (2) فَبُہِتَ الَّذِیۡ کَفَرَ ؕ پس وہ کافر (نمرود )حیران رہ گیا۔(پ3،البقرۃ:258) (3) وَالْکٰفِرُوۡنَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۲۵۴﴾ اور کافر لوگ ظالم ہیں ۔(پ3،البقرۃ:254) (4) لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللہَ ہُوَ الْمَسِیۡحُ ابْنُ مَرْیَمَ وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا ، اللہ عیسی ابن مریم ہیں۔(پ6،المآئدۃ:17) (5) لَاتَعْتَذِرُوۡا قَدْکَفَرْتُمۡ بَعْدَ اِیۡمَانِکُمْ ؕ بہانے نہ بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے(پ10،التوبۃ:66) (6) فَمِنْہُمۡ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْہُمۡ مَّنۡ کَفَرَ ؕ ان میں سے بعض ایمان لے آئے بعض کافر رہے ۔(پ3،البقرۃ:253) ان جیسی اور بہت سی آیات میں کفر ایمان کا مقابل ہے جس کے معنی ہیں بے ایمان ہوجانا، اسلام سے نکل جانا ۔ اس کفر میں ایمان کے مقابل تمام چیزیں معتبر ہوں گی یعنی جن چیزوں کا ماننا ایمان تھا ان میں سے کسی کا بھی انکار کرنا کفر ہے ۔ لہٰذا کفر کی صدہا قسمیں ہوں گی ۔ خدا کا انکار کفر، اس کی تو حید کا انکا ر یعنی شرک یہ بھی کفر، اسی طر ح فرشتے،دوزخ وجنت، حشر نشر ، نماز ، روزہ،قرآن کی آیتیں،غرضیکہ ضروریات دین میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے ۔ اسی لئے قرآن شریف میں مختلف قسم کے کافروں کی تردید فرمائی گئی ہے جیسا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ شرک کی بحث میں آوے گا۔ حقیقتِ کفر جیسے کہ صدہاچیزوں کے ماننے کا نام ایمان تھا لیکن ان سب کا مدار صرف ایک چیز پر تھا یعنی پیغمبر کوماننا کہ جس نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو کما حقہ مان لیا ۔ اس نے سب کچھ مان لیا ۔ اسی طر ح کفر کا مدار صرف ایک چیز پر ہے یعنی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کاانکار، ان کی عظمت کا انکار ، ان کی شان اعلی کا انکار ، اصل کفر تو یہ ہے باقی تمام اس کی شاخیں ہیں مثلا جورب کی ذات یا صفات کاانکار کرتا ہے وہ بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ہے کہ حضور نے فرمایا : اللہ ایک ہے۔ یہ کہتا ہے کہ دو ہیں۔اسی طر ح نماز، رو زہ وغیرہ کسی ایک کا انکار درحقیقت حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا انکار ہے کہ وہ سر کار فرماتے ہیں کہ یہ چیزیں فرض ہیں۔وہ کہتا ہے کہ نہیں۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ادنی توہین ،ان کی کسی شے کی توہین، قرآنی فتوے سے کفر ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : (1) وَیَقُوۡلُوۡنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ ۙ وَّیُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا ﴿۱۵۰﴾ۙ ۙاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوۡنَ حَقًّا اور وہ کفار کہتے ہیں کہ ہم پیغمبر وں پر ایمان لائینگے اور بعض کا انکار کریں گے اور چاہتے ہیں کہ ایمان وکفر کے بیچ میں کوئی راہ نکالیں یہی لوگ یقینا کا فر ہیں(پ6،النسآء:150۔151) (2) وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۰۴﴾ کافروں ہی کے لئے درد ناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104) (3) وَالَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ رَسُوۡلَ اللہِ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۶۱﴾ اور جو لوگ رسول اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان ہی کے لئے دردناک عذاب ہے ۔(پ10،التوبۃ:61) یعنی صرف کافر کو دردناک عذاب ہے اور صرف اسے درد ناک عذاب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا دے ۔لہٰذا پتا لگا کہ صرف وہ ہی کافر ہے جو رسول کو ایذادے اور جو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت واحترام ، خدمت ، اطاعت کرے وہ سچا مومن ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَہَاجَرُوۡا وَجٰہَدُوۡا فِی سَبِیۡلِ اللہِ وَالَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیۡمٌ ﴿۷۴﴾ اورجوایمان لائے اورانہوں نے ہجرت کی اوراللہ کی راہ میں جہادکیااوروہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو جگہ دی اور ان کی مدد کی وہ سچے مسلمان ہیں ان کیلئے بخشش ہے اور عزت کی روزی ۔(پ10،الانفال:74) رب تعالیٰ فرماتا ہے : اَلَمْ یَعْلَمُوۡۤا اَنَّہٗ مَنۡ یُّحَادِدِ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ فَاَنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خَالِدًا فِیۡہَا ؕ ذٰلِکَ الْخِزْیُ الْعَظِیۡمُ ﴿۶۳﴾ کیا انہیں خبر نہیں کہ جو مخالفت کرے اللہ اور اس کے رسول کی تو اس کے لئے جہنم کی آگ ہے ہمیشہ اس میں رہے گا ۔ یہ بڑی رسوائی ہے ۔ بلکہ جس اچھے کام میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اطا عت کا لحاظ نہ ہو بلکہ ان کی مخالفت ہو وہ کفر بن جاتا ہے اور جس برے کام میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہو وہ ایمان بن جاتا ہے مسجد بنانا اچھا کام ہے لیکن منافقین نے جب مسجد ضرار حضور کی مخالفت کرنے کی نیت سے بنائی توقرآن نے اسے کفر قرار دیا ہے۔ فرماتا ہے : وَالَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِیۡقًۢا بَیۡنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ مِنۡ قَبْلُ ؕ اور وہ لوگ جنہوں نے مسجد بنائی نقصان پہنچا نے اور کفر کیلئے اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کو اور اس کے انتظار میں جو پہلے سے اللہ اور رسول کا مخالف ہے۔(پ11،التوبۃ:107) نماز توڑنا گناہ ہے لیکن حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بلانے پر نماز توڑنا گناہ نہیں ہے بلکہ عبادت ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیۡبُوۡا لِلہِ وَلِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحْیِیۡکُمْ اے ایمان والو اللہ رسول کا بلاوا قبول کروجب وہ تمہیں بلائیں اس لئے کہ وہ تمہیں زندگی بخشتے ہیں۔(پ9،الانفال:24) اسی لئے حضو رصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر اونچی آواز کرنے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ادنیٰ گستاخی کرنے کو قرآن نے کفر قرار دیا جس کی آیات ایمان کی بحث میں گز ر چکیں۔ شیطان کے پاس عبادات کافی تھیں مگر جب اس نے آدم علیہ السلام کے متعلق کہا کہ قَالَ اَنَا خَیۡرٌ مِّنْہُ ؕ خَلَقْتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ ﴿۷۶﴾قَالَ فَاخْرُجْ مِنْہَا فَاِنَّکَ رَجِیۡمٌ ﴿۷۷﴾ میں ان سے اچھا ہوں کہ تو نے مجھے آگ سے اور انہیں مٹی سے پیدا کیا رب نے فرمایا یہاں سے نکل جا تو مردود ہوگیا۔ (پ23،ص:76۔77) تو فورا کافر ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام کے جادو گر وں نے موسیٰ علیہ السلام کا ادب کیا کہ جادو کرنے سے پہلے عرض کیا قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِمَّاۤ اَنۡ تُلْقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ نَّکُوۡنَ نَحْنُ الْمُلْقِیۡنَ ﴿۱۱۵﴾ عرض کیا کہ اے موسی یا پہلے آپ ڈالیں یا ہم ڈالنے والے ہوں ۔(پ9،الاعراف:115) اس اجازت لینے کے ادب کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں ایک دن میں ایمان ،کلیم اللہ کی صحابیت ، تقویٰ ، صبر ، شہادت نصیب ہوئی۔رب نے فرمایا : فَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیۡنَ ﴿ۙ۴۶﴾ جادو گر سجدے میں گرادیئے گئے ۔(پ19،الشعرآء:46) یعنی خود سجدے میں نہیں گرے بلکہ رب کی طر ف سے ڈال دیئے گئے۔ کافر کے دل میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ادب آجائے توان شاء اللہ مومن ہوجائے گا ۔ اگر مومن کو بے ادبی کی بیماری ہوجائے تو اس کے ایمان چھوٹ جانے کاخطرہ ہے۔ یوسف علیہ السلام کے بھائی قصور مند تھے مگر بے ادب نہ تھے آخر بخش دیئے گئے ۔ قابیل یعنی آدم علیہ السلام کا بیٹا جرم کے ساتھ نبی کا گستاخ بھی تھالہٰذا خاتمہ خراب ہو ا۔
  23. سارے مسلمانوں کا عقیدہ تھا اور ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رب تعالیٰ نے بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا مگر اب موجودہ زمانہ میں قادیانیوں نے اس کا انکار کیا ،ان کی دیکھا دیکھی بعض بھولے جاہل مسلمان بھی اس ظاہری مسئلہ کے منکر ہوگئے اور کہنے لگے کہ قرآن سے یہ ثابت نہیں حالانکہ قرآن شریف اس کا بہت زور شورسے اعلان فرمارہاہے ،رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : (1) اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ خَلَقَہٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۵۹﴾اَلْحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنۡ مِّنَ الْمُمْتَرِیۡنَ ﴿۶۰﴾ بے شک عیسیٰ کی کہاوت اللہ کے نزدیک آدم کی طر ح ہے کہ اسے مٹی سے بنایا پھر اس سے فرمایا کہ ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے تو تم شک والوں میں سے نہ ہو۔(پ۳،اٰل عمرٰن:۵۹۔۶۰) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدا ئش کو آدم علیہ السلام کی پیدائش سے تشبیہ دی کہ جیسے آدم علیہ السلام بغیر نطفے کے پیدا ہوئے ایسے ہی آپ بھی۔ جب آدم علیہ السلام خدا کے بیٹے نہ ہوئے تو اے عیسائیو! عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے کب ہو سکتے ہیں ؟ اگر عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش عام انسانوں کی طر ح ہوتی تو انہیں آدم علیہ السلام سے تشبیہ نہ دی جاتی ۔ (2) قَالَتْ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیۡ بَشَرٌ قَالَ کَذٰلِکِ ۚ قَالَ رَبُّکِ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ ۚ وَ لِنَجْعَلَہٗۤ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ رَحْمَۃً مِّنَّا ۚ مریم نے جبریل سے کہا کہ میرے بیٹا کیسے ہوسکتا ہے مجھے تو کسی مردنے چھوا بھی نہیں فرمایا ایسے ہی ہوگا تمہارے رب نے فرمایا کہ یہ کام مجھ پر آسان ہے اور تا کہ بنائیں ہم اس بچہ کو لوگوں کے لئے نشان اور اپنی طرف سے رحمت۔(پ16، مریم :20)(پ16،مریم:21) اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیٹا ملنے کی خبر پر حیرت کی کہ بغیر مرد کے بیٹا کیسے پیدا ہوگا اور انہیں رب کی طرف سے جواب ملا کہ اس بچہ سے رب تعالیٰ کی قدرت کا اظہار مقصود ہے لہذا ایسے ہی بغیر باپ کے ہوگا، اگر آپ کی پیدائش معمول کے مطابق تھی تو تعجب کے کیا معنی اور رب تعالیٰ کی نشانی کیسی؟ (3) فَاَتَتْ بِہٖ قَوْمَہَا تَحْمِلُہٗ ؕ قَالُوۡا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْـًٔا فَرِیًّا ﴿۲۷﴾ تو انہیں گود میں اپنی قوم کے پاس لائیں بولے اے مریم تو نے بہت بری بات کی۔(پ16،مریم:27) معلوم ہواکہ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پر لوگوں نے حضرت مریم کو بہتان لگایا اگر آپ خاوند والی ہوتیں تو اس بہتان کی کیا وجہ ہوتی ۔ (4) فَاَشَارَتْ اِلَیۡہِ ؕ قَالُوۡا کَیۡفَ نُکَلِّمُ مَنۡ کَانَ فِی الْمَہۡدِ صَبِیًّا ﴿۲۹﴾قَالَ اِنِّیۡ عَبْدُ اللہِ ؕ۟ پھر مریم نے بچہ کی طرف اشارہ کر دیا وہ بولے ہم کیسے بات کریں اس سے جو پالنے میں بچہ ہے بچہ نے فرمایا میں اللہ کا بندہ ہوں ۔(پ16،مریم:29۔30) اس آیت سے معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو بچپن میں ہی گویائی دی اور آپ علیہ السلام نے خود اپنی ماں کی پاکدامنی اور رب تعالیٰ کی قدرت بیان فرمائی اگر آپ کی پیدائش باپ سے ہے تو اس معجزے اور گواہی کی ضرورت نہ تھی۔ (5) اِنَّمَا الْمَسِیۡحُ عِیۡسٰی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوۡلُ اللہِ وَکَلِمَتُہٗ ۚ اَلْقٰىہَاۤ اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوۡحٌ مِّنْہُ عیسیٰ مریم کا بیٹا اللہ کا رسول ہی ہے اور اس کا ایک کلمہ کہ مریم کی طرف بھیجا اور رب کی طر ف سے ایک روح۔(پ6،النسآء:171) اس آیت میں عیسیٰ علیہ السلام کو مریم کا بیٹا فرمایا حالانکہ اولاد کی نسبت باپ کی طر ف ہوتی ہے نہ کہ ماں کی طرف آپ کا اگر والد ہوتا تو آپ کی نسبت اسی کی طرف ہونی چاہیے تھی نیز قرآن کریم نے کسی عورت کانام نہ لیا اور نہ کسی کی پیدائش کا واقعہ اس قدر تفصیل سے بیان فرمایا چونکہ آپ کی پیدائش عجیب طر ح صرف ماں سے ہے لہذا ان بی بی کا نام بھی لیا اور واقعہ پیدائش پورے ایک رکوع میں بیان فرمایا ،نیز انہیں کلمۃ اللہ اور اللہ کی روح فرمایا، معلوم ہوا کہ آپ کی پیدائش ایک کلمہ سے ہے اور آپ کی روح مافوق الاسباب آئی ہے ۔ (6) وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَہۡدِ وَکَہۡلًا وَّمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۴۶﴾ عیسیٰ کلام کریں گے لوگوں سے پالنے سے اور پکی عمرمیں اور خاص نیکوں میں ہوں گے ۔(پ3،اٰل عمرٰن:46) اس آیت سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت بچپن اوربڑھاپے میں کلام کرنا ہے بچپن میں کلام کرنا تو اس لئے معجزہ ہے کہ بچے اتنی عمر میں بولا نہیں کرتے اور بڑھاپے میں کلام کرنا اس لئے معجزہ ہے کہ آپ بڑھاپے سے پہلے آسمان پرگئے اور وہاں سے آکربوڑھے ہو کر کلام کریں گے ۔ ان آیات مذکورہ بالا سے روز روشن کی طرح آپکا بغیر باپ کے پیدا ہونا ظاہر ہوا ۔ اعتراض: اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ انسا ن بلکہ سارے حیوانات کو نطفے سے پیدا فرمادے او رقانون کی مخالفت ناممکن ہے لہذا عیسیٰ علیہ السلام کا خلاف قانون پیدا ہونا غیر ممکن ہے ۔رب تعالیٰ صاف فرما رہاہے : (1) اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ٭ۖ نَّبْتَلِیۡہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿ۚ ۲﴾ بے شک ہم نے پیدا کیا انسان کو ماں باپ کے مخلوط نطفے سے کہ ہم اسے آزمائیں پس ہم نے اسے سننے دیکھنے والا بنادیا ۔(پ29،الدہر:2) (2) وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّ صِہۡرًا ؕ اور وہی ہے جس نے پانی سے بنایا آدمی پھر اس کے رشتے اور سسرال مقرر کردی۔(پ19،الفرقان:54) (3) وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ اَفَلَا یُؤْمِنُوۡنَ ﴿۳۰﴾ اورہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان نہ لائیں گے ۔(پ17،الانبیآء:30) (4) فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِیۡلًا ۬ۚ اور تم ہر گز اللہ کے قانون کو بدلتا ہوا نہ پاؤگے ۔(پ22،فاطر:43) (5) وَ لَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیۡلًا ﴿٪۷۷﴾ اور تم ہمارا قانون بدلتا ہوا نہ پاؤگے ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:77) ان آیتو ں سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ تمام انسان اور حیوانات کی پیدائش کا قانون یہ ہے کہ اس کی پیدائش نطفے سے ہو ۔ دوسرے یہ کہ خدا کے قانون میں تبدیلی ناممکن ہے اگر عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بغیر باپ مانی جائے توان آیات کے خلاف ہوگا ۔ جواب: اس اعتراض کے دو جواب ہیں ایک الزامی ، دوسرا تحقیقی ۔ الزامی جواب تو یہ ہے کہ آدم علیہ السلام بغیر نطفے کے پیدا ہوئے ہمارے سروں میں جوئیں ، چارپائی میں کھٹمل ، پیٹ اور زخم میں کیڑے بغیر نطفے کے دن رات پیدا ہوتے ہیں ، برسات میں کیڑے، پھل میں جانور بغیر نطفے کے پیدا ہوتے ہیں بتا ؤ یہ قانون کے خلاف کیوں ہوا ۔ تحقیقی جواب یہ ہے کہ معجزات اور کرامات اولیاء خود قانون الٰہی ہیں یعنی رب تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ نبی اور ولی پر حیرت انگیز باتیں ظاہر ہو ں تو آپ کا بغیر باپ کے پیدا ہونا اس معجزے کے قانون کے ماتحت ہے تمہاری پیش کردہ آیات کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق خدا کے قانون میں تبدیلی نہیں کرسکتی اگر خالق خود کرے تو وہ قادر ہے ۔ انسان کی پیدائش نطفے سے ہونا قانون ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کا بغیر نطفے کے ہونا قدرت ہے ہم قانون کو بھی مانتے ہیں او رقدرت کو بھی،رب تعالیٰ قانون کا پابند نہیں ہم پابند ہیں ۔ دیکھو قانون یہ ہے کہ آگ جلادے مگر ابراہیم علیہ السلام کو نہ جلایا یہ قدرت ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : قُلْنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبْرٰہِیۡمَ ﴿ۙ۶۹﴾ ہم نے کہاکہ اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی او رسلامتی والی ہوجا ۔(پ17،الانبیآء:69) اسی طر ح او ربہت سارے معجزات کا حال ہے اللہ تعالیٰ قادر وقیوم ہے جو چاہے کرے اس کی قدرتوں کا انکار کرنا اپنے ایما ن سے ہاتھ دھونا ہے۔ رب تعالیٰ ہم سب کو اس راستہ پر چلائے جو اس کے نیک بندوں کا ہے او راس زمانہ کی ہواؤں سے ہمارا ایمان محفو ظ رکھے۔آمین آمین یا رب العالمین! وصلی اللہ تعالٰی علی خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ واصحابہ اجمعین آمین برحمتہ وھو ارحم الرحمین.
×
×
  • Create New...