Jump to content

Najam Mirani

اراکین
  • کل پوسٹس

    232
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    16

سب کچھ Najam Mirani نے پوسٹ کیا

  1. قرآن کریم صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی حقانیت وصداقت کا اعلان فرما رہا ہے ، فرماتا ہے : (1) الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن ) شک کی جگہ نہیں اس میں۔(پ1،البقرۃ:1۔2) اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایاکہ قرآن میں کوئی شک وتردد نہیں۔ شک کی چار صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو بھیجنے والا غلطی کرے یا لانے والا غلطی کرے یا جس کے پاس آیا ہو وہ غلطی کرے یا جنہوں نے اس سے سن کر لوگو ں کو پہنچا یاانہوں نے دیانت سے کام نہ لیا ہو۔ اگر ان چاروں درجوں میں کلام محفوظ ہے تو واقعی شک وشبہ کے لائق نہیں۔قرآن شریف کا بھیجنے والا اللہ تعالیٰ،لانے والے حضرت جبریل علیہ السلام ،لینے والے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور حضور سے لے کر ہم تک پہنچا نے والے صحابہ کرام ہیں ( رضی اللہ عنہم اجمعین) اگر قرآن شریف اللہ تعالیٰ ، جبریل علیہ السلام ، نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک تو محفو ظ رہے لیکن صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سچے نہ ہوں او ران کے ذریعہ قرآن ہم کو پہنچے تو یقینا قرآن میں شک پیدا ہوگیا کیونکہ فاسق کی کوئی بات قابل اعتبار نہیں ہوتی ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : اِنۡ جَآءَکُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اگر تمہارے پاس فاسق کوئی خبر لاوے تو تحقیق کرلیا کرو۔(پ26،الحجرات:6) اب قرآن کا بھی اعتبار نہ رہے گا قرآن پر یقین جب ہی ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام کے تقویٰ ودیانت پر یقین ہو۔ (2) ہُدًی لِّلْمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾الَّذِیۡنَ یُؤْمِنُوۡنَ بِالْغَیۡبِ قرآن ہدایت ہے ان متقیوں کو جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔(پ1،البقرۃ:2۔3) یعنی اے کافر و!جن پر ہیز گارو ں یعنی جماعت صحابہ کو تم دیکھ رہے ہو انہیں قرآن نے ہی ہدایت دی اور یہ لوگ قرآن ہی کی ہدایت سے ایسے اعلیٰ متقی بنے ہیں۔ قرآن کریم نے ہی ان کی کایاپلٹ دی اگر قرآن کا کمال دیکھنا ہو تو ان صحابہ کرام کا تقویٰ دیکھو ۔ اس آیت میں قرآن نے صحابہ کرام کے ایمان وتقویٰ کو اپنی حقانیت کی دلیل بنایا اگر وہاں ایمان وتقویٰ نہ ہو تو قرآن کا دعویٰ بلادلیل رہ گیا ۔ (3) وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَہَاجَرُوۡا وَجٰہَدُوۡا فِی سَبِیۡلِ اللہِ وَالَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیۡمٌ ﴿۷۴﴾ اور وہ جو ایمان لائے او رانہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ جنہوں نے رسول کو جگہ دی اور ان کی مدد کی وہ سچے مسلمان ہیں ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی ۔(پ10،الانفال:74) اس آیت میں صحابہ کرام، مہاجرین اور انصار کا نام لے کر انہیں سچا مومن ، متقی او رمغفور فرمایا گیا ۔ (4) لِلْفُقَرَآءِ الْمُہٰجِرِیۡنَ الَّذِیۡنَ اُخْرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمْ وَ اَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُوۡنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنۡصُرُوۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ۚ﴿۸﴾ ان فقیر ہجرت والوں کے لئے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے اللہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے ہیں اور اللہ ورسول کی مدد کرتے ہیں وہ ہی سچے ہیں۔(پ28،الحشر:8) اس آیت میں تمام مہاجرصحابہ کو نام وپتہ بتا کر سچا کہا گیا ہے یعنی یہ ایمان میں سچے اور اقوال کے پکے ہیں ۔ (5) وَ الَّذِیۡنَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ وَ الْاِیۡمَانَ مِنۡ قَبْلِہِمْ یُحِبُّوۡنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیۡہِمْ وَ لَا یَجِدُوۡنَ فِیۡ صُدُوۡرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا وَ یُؤْثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ؕ۟ وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ ﴿ۚ۹﴾ اور وہ جنہوں نے پہلے سے اس شہر اور ایمان میں گھر بنالیا دوست رکھتے ہیں انہیں جوان کی طرف ہجرت کر کے آئے او راپنے دلوں میں کوئی حاجت نہیں پاتے اس چیز کی جو دیئے گئے اور اپنی جان پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگر چہ انہیں بہت محتاجی ہو اور جو اپنے نفس کے بخل سے بچا یا گیا وہ ہی کامیاب ہے ۔(پ28،الحشر:9) اس آیت میں انصار مدینہ کونام لے کر پتہ بتا کر کامیاب فرمایا گیا۔ معلوم ہواکہ سارے مہاجرین وانصار سچے اور کامیاب ہیں۔ (6) لَا یَسْتَوِیۡ مِنۡکُمْ مَّنْ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قَاتَلَ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعْدُ وَ قَاتَلُوۡا ؕ وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی ؕ تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ او رجہاد کیا وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح خرچ اور جہادکیا اوران سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرما چکا ہے ۔(پ27،الحدید:10) اس آیت نے بتا یا کہ سارے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے رب تعالیٰ نے جنت کا وعدہ فرمالیا ہے لیکن وہ خلفاء راشدین جو فتح مکہ سے پہلے حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے جاں نثار رہے وہ بہت درجے والے ہیں ان کے درجہ تک کسی کے وہم وگمان کی رسائی نہیں کیونکہ رب تعالیٰ نے ساری دنیا کو قلیل یعنی تھوڑا فرمایا اور اتنے بڑے عرش کو عظیم یعنی بڑا فرمایا لیکن ان خلفائے راشدین کے درجہ کو چھوٹا نہ کہا،بڑا نہ فرمایا بلکہ اعظم یعنی بہت ہی بڑا فرمایا ۔ (7) وَ سَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقَی ﴿ۙ۱۷﴾الَّذِیۡ یُؤْتِیۡ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی ﴿ۚ۱۸﴾وَ مَا لِاَحَدٍ عِنۡدَہٗ مِنۡ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰۤی ﴿ۙ۱۹﴾اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی ﴿ۚ۲۰﴾وَ لَسَوْفَ یَرْضٰی ﴿٪۲۱﴾ اور دو زخ سے بہت دور رکھا جائے گا وہ سب سے بڑا پرہیز گار جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ ستھرا ہو اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جاوے صرف اپنے رب کی رضا چاہتاہے اوربے شک قریب ہے کہ وہ راضی ہوگا ۔(پ30،اللیل:17۔21) یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں نازل ہوئی جب آپ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھاری قیمت دے کر خریدا اور آزاد کیا،کفار نے حیرت سے کہا کہ شاید حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آپ پر کوئی احسان ہوگا جس کا بدلہ ادا کرنے کے لئے آپ نے اتنی بڑی قیمت سے خرید کر آزاد کیا۔ ان کفار کی تردید میں یہ آیت نازل ہوئی اس میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حسب ذیل خصوصی صفات بیان ہوئے : ان کا دوزخ سے بہت دور رہنا ،ان کا سب سے بڑا متقی ہونا یعنی اتقی، ان کابے مثل سخی ہونا، ان کے اعمال طیبہ طاہرہ کاریا سے پاک ہونا خالص رب عزوجل کے لیے ہونا اور جنت میں انہیں رب تعالیٰ کی طر ف سے ایسی نعمتیں ملنا جس سے وہ راضی ہوجاویں۔ لطیفہ: اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لئے فرمایا وَ لَسَوْفَ یُعْطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ؕ﴿۵﴾ آپ کو آپ کا رب اتنا دے گا کہ آپ راضی ہوجاویں گے۔(الضحٰی:۵) اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے فرمایا وَ لَسَوْفَ یَرْضٰی ﴿٪۲۱﴾ عنقریب صدیق راضی ہوجاویں گے۔(اللیل:۲۱) معلوم ہوا کہ آپ کو نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے بہت ہی قرب ہے ۔ (9) یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ اے نبی آپ کو اللہ اور آپ کی پیروی کرنے والے یہ مومن کافی ہیں۔(پ10،الانفال:64) یہ آیت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان لانے پر نازل ہوئی جس میں فرمایاگیا کہ حقیقتاً آپ کو اللہ کافی ہے اور عالم اسباب میں عمر کافی ہیں۔ (10)وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمْ جو صحابہ ان نبی کے ساتھی ہیں وہ کافروں پر سخت ،آپس میں نرم ہیں۔(پ26،الفتح:29) (11) ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰىۃِ ۚۖۛ وَ مَثَلُہُمْ فِی الْاِنۡجِیۡلِ ۚ۟ۛ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ ؕ یہ جماعت صحابہ وہ ہیں جن کی مثال تو ریت وانجیل میں اس کھیت سے دی گئی ہے جس نے اپنا پٹھا نکالا... (یہاں تک کہ فرمایا)تاکہ ان سے کافروں کے دل جلیں۔(پ26،الفتح:29) اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمہارے صحابہ کے نام کے ڈنکے ہم نے توریت وانجیل میں بجادیئے وہ تو میری ہر ی بھری کھیتی ہیں جنہیں دیکھ کر میں تو خوش ہوتا ہوں اور میرے دشمن رافضی جلتے ہیں۔ لطیفہ : قرآن کریم نے بعض لوگو ں پر صاف صاف فتویٰ کفر دیا ایک تو نبی کی توہین کرنے والے ، اور دوسرے صحابہ کرام کے دشمن،صحابہ کرام کے دشمنوں پر رب تعالیٰ نے کفر کافتویٰ دیا کسی اور سے نہ دلوایا ۔ (12) ثَانِیَ اثْنَیۡنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ ابو بکر دومیں کے دوسرے ہیں جبکہ وہ غار میں ہیں جب فرماتے تھے رسول اپنے ساتھی سے غم نہ کر ۔(پ10،التوبۃ:40) یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں اتری، اس میں اس واقعہ کا ذکر ہے کہ جب غار میں یار کولے کر بیٹھے اورمارسے اپنے کو کٹوایا ۔ اس آیت نے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحابیت کا صراحۃً اعلان فرمایا ، ان کی صحابیت ایسی ہی قطعی اور یقینی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت او رنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کیونکہ جس قرآن نے تو حید ورسالت کا صراحۃً اعلان کیا ،اسی قرآن نے صدیق کی صحابیت کا ڈنکا بجایا لہذا ان کی صحابیت وعدالت پر ایمان لانا ایساہی ضروری ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لانااور ان کی صحابیت کا منکر ایسا ہی بے دین ہے جیسے توحید ونبوت کامنکر ۔ (13) وَلَا تَہِنُوۡا وَلَا تَحْزَنُوۡا وَاَنۡتُمُ الۡاَعْلَوْنَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ ﴿۱۳۹﴾ نہ سست پڑو تم لوگ نہ غمگین ہو اورتم ہی بلند ہو اگر تم سچے مومن ہو۔(پ4،اٰل عمران:139) (14) وَعَدَ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمۡ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِہِمْ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا ؕ اللہ نے وعدہ دیا ان کو جو تم میں سے ایمان لائے او راچھے کام کئے ضرور انہیں زمین میں خلافت دے گا جیسی ان سے پہلوں کو دی اور ضرور جمادے گا ان کے لئے ان کا وہ دین جو ان کیلئے پسند کیااور ضرور ان کے اگلے خوف کو امن سے بدل دے گا ۔(پ18،النور:55) ان دوآیتوں میں مسلمانوں سے دوشرطوں پر چند وعدے کئے گئے ہیں شرطیں ایمان اورتقویٰ کی ہیں ان سے وعدہ ہے۔(۱)بلندی(۲)خلافت دنیا(۳)خوف کے بعد امن بخشنا (۴) دین کو مضبوط کرنا۔ اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو بلندی بھی دی زمین میں خلافت بھی بخشی، امن بھی عطا کیا اوران کے زمانہ میں دین کو ایسا مضبوط فرمایا کہ آج اس مضبوطی کی وجہ سے اسلام قائم ہے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے دونوں شرطیں بھی پوری کیں اور مومن بھی رہے اور پرہیز گار متقی بھی، ورنہ انہیں یہ چار نعمتیں نہ دی جاتیں۔ یہ چند آیات بطور نمونہ پیش کی گئیں ورنہ قرآن کریم کی بہت سی آیات ان حضرات کے فضائل میں ہیں اور کیوں نہ ہوں یہ حضرات نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے کمال کا مظہر ہیں جیسے حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذات رب تعالیٰ کے کمال کا نمونہ ہے جیسے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تنقیص رب تعالیٰ کے کمال کا انکار ہے ایسے ہی ان کاانکار حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے کمال کا انکار ہے استاد کا زور علمی شاگردو ں کی لیاقت سے معلوم ہوتا ہے۔ اگر صف اول کی نماز فاسد ہو تو پچھلی صفوں کی نماز درست نہیں ہوسکتی کیونکہ اما م کو دیکھنے والی صف اول ہی ہے، اگر انجن کے پیچھے والا ڈبہ انجن سے کٹ کر رہ جائے تو پچھلے ڈبے کبھی سفر نہیں کرسکتے ، وہ حضرات اسلام کی صف اول ہیں اور ہم آخری صفیں وہ گاڑی کا اگلا ڈبہ ہم پچھلے ۔اگر وہ ایمان سے ر ہ گئے تو ہم کیسے مومن ہوسکتے ہیں؟ اعتراض: ان آیتوں کے نزول کے وقت تو یہ سب مومن تھے مگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کا حق چھین کر اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی میراث تقسیم نہ کرنے کی وجہ سے اسلام سے نکل گئے یہ آیات اسوقت کی ہیں بعد سے انہیں کوئی تعلق نہیں۔ جواب: اس اعتراض کے چند جواب ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اگر خلفاء راشدین کاانجام اچھا نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان کے فضائل قرآن شریف میں بیان نہ فرماتا نیز رب تعالیٰ نے ان مذکورہ آیتو ں میں خبر دی کہ یہ دوزخ سے بہت دور رہیں گے، ہم انہیں اتنا دیں گے کہ وہ راضی ہوجاویں گے ہم نے ان سب سے جنت کا وعدہ کرلیا۔ یہ باتیں انجام بخیر سے ہی حاصل ہوسکتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر یہ حضرات ایمان سے پھر گئے ہوتے تو اہلبیت اطہار خصوصاً حضرت علی مر تضی رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان کے ہاتھ پر بیعت نہ کرتے خلیفہ رسول وہ ہوسکتا ہے جو مومن متقی ہوبلکہ جیسے حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صفین میں جنگ کی اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کر بلا میں جان دے دی مگر یزید کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دیا ،اس وقت بھی وہ جنگ کرتے ۔ تیسرے یہ کہ جیسے صدیق اکبر وفاروق اعظم وعثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بعد ان کی خلافتیں میراث کے طور پر ان کی اولاد کو نہ ملیں بلکہ جس پر سب کااتفاق ہوگیا وہ خلیفہ ہوگیا اسی طر ح نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خلافت میں نہ میراث تھی نہ کسی کی ملکیت بلکہ رائے عامہ پر ہی انتخاب ہوا ۔ چوتھے یہ کہ پیغمبر کی میراث مال نہیں بلکہ علم ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے: وَوَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنۡطِقَ الطَّیۡرِ او روارث ہوئے سلیمان داؤد کے اور فرمایا کہ ہم کو پرندوں کی بولی کا علم دیا گیا ۔(پ19،النمل:16) دیکھو داؤد علیہ السلام کے بہت بیٹے تھے مگر وارث صرف حضرت سلیمان علیہ السلام ہوئے اور مال کے نہیں بلکہ علم کے وارث ہوئے اسی لئے نبی کی بیویاں بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی میراث نہ پاسکیں اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے زمانہ خلافت میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی میراث تقسیم نہ فرمائی ۔ اعتراض : تم کہتے ہو کہ سارے صحابہ متقی پر ہیز گار ہیں حالانکہ قرآن شریف ا نہیں فاسق کہہ رہا ہے۔ فرماتا ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اے مومنو ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کسی قسم کی خبر لائے تو تحقیق کرلیا کرو ۔ ولید بن عقبہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آکر خبر دی تھی کہ فلاں قوم نے زکوۃ نہ دی ۔ اس پر یہ آیت اتری جس میں ولید صحابی کو فاسق کہا گیا اور فاسق متقی نہیں ہوسکتا ۔ جواب : اس کے دو جواب ہیں، ایک یہ کہ یہاں ان کوفاسق نہ کہا گیا بلکہ ایک قانون بیان کیا گیا کہ آئندہ اگر کوئی فاسق خبر لائے تو تحقیقات کرلیا کرو ۔ دوسرے یہ کہ اس خاص وقت میں ان کو فاسق گنہگار کہا گیا صحابی سے گناہ سر زد ہوسکتا ہے وہ معصوم نہیں ہاں اس پرقائم نہیں رہتے تو بہ کی توفیق مل جاتی ہے جیسے حضرت ماعزرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زنا ہوگیا مگر بعد میں ایسی تو بہ نصیب ہوئی کہ سبحان اللہ!
  2. بعض لوگ صوفیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے تعویذ ، دم ، جھاڑ پھونک کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کھانے کمانے کے ڈھنگ ہیں قرآن میں اس کاثبوت نہیں بلکہ جو ہواپیٹ میں سے نکلتی ہے وہ گرم او ربیماری والی ہوتی ہے وہ پھونک بیمارکرے گی شفانہ دے گی مگر یہ خیال قرآن کے خلاف ہے ۔ قرآن کریم نے دم کر نے او رپھونکنے کی تاثیر کا اعلان فرمایا ہے آیات ملاحظہ ہو ں پھونکنے میں تاثیر ہے ۔ (1) فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۲۹﴾ رب تعالیٰ نے فرمایا تو جب میں آدم کے جسم کو ٹھیک کرلوں اور ان میں اپنی طرف سے روح پھونک دو ں تو ان کیلئے سجدے میں گرجانا۔(پ14،الحجر:29) اس آیت سے معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ نے روح پھونک کر آدم علیہ السلام کو زندگی بخشی رب تعالیٰ کا پھونکنا وہ ہے جو اس کی شان کے لائق ہو مگر لفظ پھونکنے کااستعمال فرمایا گیا بلکہ جان کو رو ح اسی واسطے کہتے ہیں کہ وہ پھونکی ہوئی ہوا ہے ۔ روح کے معنی ہوا ، پھونک ہیں ۔ (۲) وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیۡۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَکُتُبِہٖ وَ کَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیۡنَ ﴿٪۱۲﴾ اللہ بیان فرماتا ہے اور عمران کی بیٹی مریم کا جس نے اپنی پارسائی کی حفاظت کی تو ہم نے اپنی طر ف سے اس میں روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کی باتوں اور کتابوں کی تصدیق کی اور فرماں برداروں میں ہوئی ۔(پ۲۸،التحریم:۱۲) اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے گریبان میں دم کیا جس سے آپ حاملہ ہوئیں اور عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہو ئے اسی لئے آپ کا لقب روح اللہ بھی ہے اور کلمۃ اللہ بھی، یعنی اللہ کا دم یا اللہ کا کلمہ۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے کچھ پڑھ کر حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر دم کیا جس سے یہ فیض دیا ۔ اب بھی شفا وغیرہ کے لئے پڑھ کر دم ہی کرتے ہیں۔ (3) اَنِّیۡۤ اَخْلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡئَۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذْنِ اللہِ ۚ فرمایا عیسیٰ نے کہ میں بناتا ہوں تمہارے لئے پرندے کی صورت پھر اس میں دم کرتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اورکوڑھی اندھے کو اچھا کرتا ہوں اورمردے جلاتا ہوں اللہ کے حکم سے ۔(پ3،اٰل عمرٰن:49) اس آیت سے معلوم ہو اکہ عیسیٰ علیہ السلام دم کر کے مردے زندہ کرتے تھے، کوڑھی اور اندھوں کو اچھا کرتے تھے، یہاں بھی دم سے ہی یہ فیض دیئے گئے ۔ (4) وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَصَعِقَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الْاَرْضِ اور پھونکا جائے گا صورمیں تو بیہوش ہوجائیں گے وہ جو آسمانوں او رزمین میں ہیں۔(پ23،الزمر:68) ج ۔(پ30،النبا:18) معلوم ہوا قیامت کے دن صور میں پھونکا جاوے گا جس سے مردے زندہ ہوں گے غرضیکہ ابتداء،انتہاء اور بقا ہمیشہ فیض دم سے ہوا اور ہوتا ہے او رہوگا اسی لئے آج بھی صوفیاء قرآن کریم پڑھ کر دم کرتے ہیں خود نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بیماروں پر قرآن شریف پڑھ کر دم فرماتے تھے کیونکہ جیسے پھولوں سے چھوکر ہوا میں خوشبوپیدا ہوجاتی ہے ایسے ہی جس زبان سے قرآن شریف پڑھا گیا ہو اس سے چھوکر جو ہو ا آوے گی وہ شفادے گی، اسی طر ح تبرکات سے شفا ملتی ہے ۔
  3. اسلام میں آج بہت سے فرقے ہیں اور ہر فرقہ اپنے کوحق کہتا ہے اور ہر ایک قرآن سے اپنا مذہب ثابت کرتا ہے ۔ قرآن سے پوچھو کہ سچا مذہب کو ن ہے وہ فرماتا ہے : (1) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَکُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۹﴾ اے مسلمانو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو ۔(پ11،التوبۃ:119) (2) اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ۬ ہم کو سیدھے رستے کی ہدایت دے اور ان کا رستہ جن پر تو نے انعام کیا ۔(پ1،الفاتحۃ:5۔6) (3) اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدَی اللہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقْتَدِہۡ ؕ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی تو تم ان ہی کی راہ پر چلو۔(پ7،الانعام:90) (4) قَالُوۡا نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ اِسْحٰقَ اولاد یعقوب نے کہا کہ ہم آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادوں ابراہیم اسمٰعیل اسحاق کے معبودوں کو پوجیں گے ۔(پ1،البقرۃ: 133) (5) لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیۡ رَسُوۡلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ تمہارے لئے اللہ کے رسول میں اچھی پیروی ہے ۔(پ21،الاحزاب:21) (6) قُلْ بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰہٖمَ حَنِیۡفًا ؕ فرمادو بلکہ ہم پیروی کریں گے ابراہیم کے دین کی جو ہربرائی سے دور ہے ۔(پ1،البقرۃ:135) (7) وَمَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الْمُؤْمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَسَآءَتْ مَصِیۡرًا ﴿۱۱۵﴾ اور جو رسول کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ حق اس پر کھل چکا اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے ہم اسے اس کے حال پر چھوڑدیں گے اور اسے دوزخ میں داخل کریں گے وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے ۔(پ5،النسآء:115) (8)وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمْ شَہِیۡدًا ؕ اور ایسے ہی ہم نے تم کو درمیانی امت بنایا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تم پر نگہبان گواہ ہیں۔(پ2،البقرۃ:143) ان مذکورہ آیتو ں سے معلوم ہوا کہ سچے مذہب کی پہچانیں دوہیں ایک تو یہ کہ اس مذہب میں سچے لوگ یعنی اولیا ء اللہ ، صالحین ، علماء ربانی ہوں ،دوسرے یہ کہ وہ عام مومنین کا مذہب ہو، چھوٹے چھوٹے فرقے جن میں اولیا ء صالحین نہیں وہ غلط راستے ہیں اس آیت کی تفسیر وہ حدیث ہے اِتَّبِعُوا السَّوَادِ الْاَعْظَمِ (المستدرک للحاکم،کتاب العلم، باب من شذ شذ فی النار،الحدیث۴۰۴،ج۱،ص۳۱۷، دار المعرفۃ بیروت) بڑے گروہ کی پیروی کرو یعنی حضو رصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے اب تک جس مذہب پر عام مسلمان رہے ہوں وہ قبول کرو۔ یہ دونوں علامتیں آج صرف مذہب اہل سنت میں پائی جاتی ہیں ۔ شیعہ ، وہابی ، دیوبندی ، چکڑالوی میں نہ اولیاء اللہ تھے نہ ہیں۔ تمام چشتی، قادری ، سہر وردی ، نقشبندی اسی سنی مذہب میں گزرے ہیں اوراسی مذہب میں آج ہیں نیز حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم ، ان سے حاجتیں مانگنا، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو علم غیب ماننا وغیرہ تمام چیز یں عام مسلمان کا مذہب رہا اور ہے۔ اس کی تحقیق کے لئے کتاب جاء الحق کا مطالعہ کرو ۔ لطیفہ: ہر قوم کی تاریخ اس کے نام سے معلوم کرو ،قوموں کے موجودہ نام تاریخی نام ہیں ہم اس پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں۔ مرزائی: اس فرقہ کی پیدا ئش مرزا غلام احمد قادیانی کے وقت سے ہے یعنی بارہویں صدی کی پیدا وار ہے اس جماعت کی عمر سو بر س ہے ۔ چکڑالوی : اس فرقہ کی پیدائش عبداللہ چکڑالوی پنجابی کے وقت سے ہو ئی یعنی اس کی عمر ایک سو پندرہ سال ہے ۔ اثنا عشری شیعہ: اس فرقہ کی پیدائش بارہ اماموں کے وقت سے ہوئی کیونکہ اثنا عشر کے معنی ہیں بارہ امام، جب بارہ امام پیدا ہوئے تو یہ فرقہ ظہور میں آیا اس لئے اس کی عمر تقریبا گیارہ سو بر س ہے یعنی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے تین سو سال بعد میں ہوا، خیال رہے کہ ان شیعہ کے عقیدہ میں امام مہدی پیدا ہوچکے ہیں جو قرآن لے کر چھپ گئے ہیں قریب قیامت آئیں گے ۔ وہابی : خواہ دیوبند ی ہوں یا غیر مقلد اس فرقے کی پیدا وار عبدالوہاب نجدی کے وقت میں ہوئی لہذا اس کی عمرایک سو پچھتر سال ہے یعنی گیارہویں صدی میں پیدا ہوا۔ بابی،بہائی : ان دونوں فرقو ں کی پیدا واربہا ء اللہ اور عبداللہ باب کے زمانہ میں ہوئی ان کی عمر سو برس سے بھی کم ہے ۔ اہل سنت والجماعت: جب سے سنت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں آئی تب سے یہ مذہب آیا یعنی جو عمر سنت رسول اللہ کی ہے وہی اس مذہب کی ہے اور چونکہ مسلمانوں کی عام جماعت کا یہی مذہب ہے لہذا اس فرقے کانام ہوا اہل سنت وجماعت یعنی سنت رسول او رجماعت مسلین والا فرقہ ۔ قرآن پاک کی مذکورہ آیات سے معلوم ہواکہ یہ ہی فرقہ حق ہے اگرچہ قرآن پاک کا ترجمہ سب کرتے ہیں حدیثیں سب دبائے پھرتے ہیں اور علماء سارے فر قوں میں ہیں مگر صادقین یعنی اولیاء کاملین ، حضور غوث پاک ، خوا جہ اجمیر ، خوا جہ بہاؤالدین نقشبند، شیخ شہاب الدین سہروردی گزشتہ اولیاء اللہ او رموجودہ اولیاء کرام، تونسہ شریف، سیال شریف، گولڑہ شریف،علی پور شریف،بٹالہ شریف وغیرہ تمام آستانے والے اسی مذہب پر ہیں ۔لہذا ان آیات نے صاف طور پر بتایا کہ یہ ہی مذہب حق ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی پر ہم سب کو رکھے اوراسی پر خاتمہ کرے۔ آمین
  4. جس جگہ کوئی ولی رہتے ہوں یا رہے ہوں یا کبھی بیٹھے ہوں وہ جگہ حرمت والی ہے، وہاں عبادت اور دعا زیادہ قبول ہوتی ہے اس کی تعظیم کرو،دعا مانگو ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : (1) وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوۡا ہٰذِہِ الْقَرْیَۃَ فَکُلُوۡا مِنْہَا حَیۡثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ ؕ وَسَنَزِیۡدُ الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿۵۸﴾ اور یاد کرو جب ہم نے کہا کہ داخل ہو تم اس بستی میں پھر اس میں جہاں چاہو بے روک ٹوک خوب کھاؤ اور دروازے میں سجدہ کرتے داخل ہو اور کہو ہمارے گناہ معاف ہوں ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور نیکی والوں کو اور زیادہ دیں گے ۔(پ1،البقرۃ:58) اس آیت میں بتا یا گیا کہ جب بنی اسرائیل کی تو بہ قبول ہونے کا وقت آیا تو ان سے کہا گیا کہ بیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے گھسو اور گناہ کی معافی مانگو، بیت المقدس نبیوں کی بستی ہے اس کی تعظیم کرالی گئی کہ سجدہ کرتے ہوئے جاؤ اور وہاں جاکر تو بہ کرو۔ (2) وَمَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا ؕ جو اس مکہ میں داخل ہوگیا امن والا ہوگیا۔(پ4،اٰل عمرٰن:97) (3) اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّ یُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ ؕ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوۡنَ وَ بِنِعْمَۃِ اللہِ یَکْفُرُوۡنَ ﴿۶۷﴾ کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ ہم نے حرم شریف کو امن والا بنایا او ران کے آس پاس کے لوگ اچک لئے جاتے ہیں کیا باطل پر ایمان لاتے ہیں او راللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں۔(پ21،العنکبوت:67) ان آیتو ں سے پتہ چلا کہ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کی بستی جو کعبہ معظمہ کا شہر ہے بہت حرمت والا اور عظمت والا ہے ۔ (4) ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ۚ قَالَ رَبِّ ہَبْ لِیۡ مِنۡ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۚ اِنَّکَ سَمِیۡعُ الدُّعَآءِ ﴿۳۸﴾ وہاں مریم کے پاس زکریا نے دعا مانگی عرض کیا کہ اے رب مجھے اپنی طرف سے ستھری اولاد دے بے شک تو دعا کا سننے والاہے ۔(پ3،اٰل عمرٰن:38) (5) قَالَ الَّذِیۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰۤی اَمْرِہِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیۡہِمۡ مَّسْجِدًا ﴿۲۱﴾ اور جو اس معاملہ پر غالب آئے وہ بولے کہ ہم اصحاب کہف پر مسجد بنائیں گے۔(پ15،الکہف:21) ان آیتو ں سے معلوم ہو اکہ حضرت زکریا علیہ السلام نے مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس کھڑے ہوکر اولاد کی دعا مانگی تا کہ قرب ولی کی وجہ سے دعا جلد قبول ہو اور مسلمانوں نے اصحاب کہف کے غار پرمسجد بنائی تا کہ ان کی برکت سے زیادہ قبول ہوا کرے ۔ (6) لَاۤ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ ۙ﴿۱﴾وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الْبَلَدِ ۙ﴿۲﴾ میں قسم کھاتا ہوں اس شہر مکہ کی جبکہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔(پ30،البلد:1۔2) (7) وَالتِّیۡنِ وَ الزَّیۡتُوۡنِ ۙ﴿۱﴾وَ طُوۡرِ سِیۡنِیۡنَ ۙ﴿۲﴾وَ ہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیۡنِ ۙ﴿۳﴾ قسم ہے انجیر کی ،زیتو ن کی او رطور سینا پہاڑ کی اور اس امانت والے شہر کی۔(پ30،التین:1۔3) ان آیتوں سے معلوم ہواکہ جس جگہ اللہ کے بندے ہوں وہ جگہ ایسی حرمت والی ہوجاتی ہے کہ اس کی رب قسم فرماتاہے۔ ان آیات سے یہ بھی پتہ لگا کہ بزرگو ں کے چلّے جہاں انہوں نے عبادت کی وہاں جاکر نماز پڑھنا ،دعاکرنا، اس جگہ کی تعظیم کرنا با عث ثواب ہے اسی لئے مدینہ منورہ میں ایک عبادت کا ثواب پچاس ہزار ہے اورمکہ مکرمہ میں ایک کا ثواب ایک لاکھ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ یہ جگہ اللہ کے پیاروں کی ہے، ریل اگر چہ مساوی لائن سے گزرتی ہے مگر ملتی صرف اسٹیشن پر ہے، اللہ کے بندوں کی جگہ رحمت خدا کے اسٹیشن ہیں۔
  5. جس تاریخ یا جس دن میں کبھی کوئی نعمت آئی ہو تا قیامت وہ تاریخ معظم ہوجاتی ہے۔ اس تاریخ میں یادگاریں منانا ، خوشیاں منانا ، خوشی میں عبادتیں کرنا حکم قرآن ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : (1) شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ۔(پ2،البقرۃ:185) (2) اِنَّاۤ اَنۡزَلْنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الْقَدْرِ﴿۱﴾ۚۖوَ مَاۤ اَدْرٰىکَ مَا لَیۡلَۃُ الْقَدْرِ ؕ﴿۲﴾لَیۡلَۃُ الْقَدْرِ ۬ۙ خَیۡرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہۡرٍ ؕ﴿ؔ۳﴾ بے شک ہم نے قرآن شب قدر میں اتارا اور تمہیں کیا خبر کہ شب قدر کیا ہے شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔(پ30،القدر:1۔3) ان آیتو ں سے معلوم ہو اکہ شب قدر اور ماہ رمضان کی اتنی عظمت ہے کہ شب قدر تو ہزار ماہ سے افضل ہوگئی او رماہ رمضان باقی مہینوں سے بہترہوگیا اور اس کانام قرآن میں آیا اس کے سوا کسی مہینہ کا نام قرآن میں نہ آیا محض اس لئے کہ یہ مہینہ اور یہ رات قرآن کے نزول کا وقت ہے قرآن تو ایک دفعہ اتر چکا مگر ان کی یہ عظمت ہمیشہ کیلئے ہوگئی ۔ (3) وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ ﴿٪۱۱﴾ اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ۔(پ30،الضحی:11) (4) قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوۡا ؕ ہُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوۡنَ ﴿۵۸﴾ فرمادو کہ اللہ کے فضل اوراس کی رحمت پر خوب خوشیاں مناؤ وہ ان کی دھن دولت سے بہتر ہے ۔(پ11،یونس:58) ان آیات سے معلوم ہوا کہ جس تا ریخ میں اللہ کی نعمت ملی ہو اس کی یاد گار مناؤ، خوشیاں مناؤ ۔ (5) وَذَکِّرْہُمْ بِاَیّٰىمِ اللہِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ ﴿۵﴾ اے موسیٰ بنی اسرائیل کو اللہ کے دن یاد دلادو جن دنوں میں ان پر نعمتیں اتریں بے شک اس میں نشانیاں ہیں ہر بڑے صبر والے شکرگزار کو ۔(پ13،ابرٰھیم:5) (6) قَالَ عِیۡسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللہُمَّ رَبَّنَاۤ اَنۡزِلْ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوۡنُ لَنَا عِیۡدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَ اٰیَۃً مِّنۡکَ ۚ عیسیٰ ابن مریم نے عرض کیا کہ یا رب ہم پر آسمان سے دستر خوان اتار کہ وہ ہمارے لئے اگلوں پچھلوں کی عید ہو اور یہ تیری طر ف سے نشانی ہو۔(پ7،المآئدۃ:114) ان آیتو ں سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو انعامات کی تاریخیں یادد لاتے رہوان کی یاد گاریں قائم کرو اور عیسیٰ علیہ السلام نے غیبی دستر خوان کے آنے کی تاریخ کو اپنے اگلے پچھلے سارے عیسائیوں کے لئے عید قرار دیا۔ لہٰذامیلاد شریف، گیارہویں شریف ، بزرگوں کے عرس ، فاتحہ ، چالیسواں ، تیجہ وغیرہ سب جائز ہیں کیونکہ یہ اللہ کی نعمت کی یاد گار یں ہیں او ریاد گاریں منانا حکم قرآنی ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : (7) وَ اذْکُرُوۡا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیۡکُمْ اللہ کی نعمت یا د کرو جو تم پر ہے ۔(پ6،المآئدۃ:7) اعتراض: مسلم وبخاری کی روایت میں ہے کہ جمعہ کا روزہ نہ رکھو۔ (صحیح البخاری،کتاب الصوم،باب صوم یوم الجمعۃ،الحدیث ۱۹۸۴،ج۱،ص۶۵۲، دار الکتب العلمیۃبیروت) بعض روایتوں میں ہے کہ جمعہ کو رو زے سے خاص نہ کرو ۔ معلوم ہوا کہ کسی دن کی تعیین منع ہے ۔ چونکہ میلا د اور عرس میں تاریخ مقرر ہوتی ہے لہٰذا منع ہے۔ (وہابی) جواب :اس کا جواب اسی حدیث میںآگے ہے کہ اگر جمعہ کسی ایسی تاریخ میں آجائے جس کے روزے کے تم عادی ہو تو رکھو یعنی اگر کسی کی عادت بارہویں کے روزے کی ہے اور جمعہ بارہویں کو آگیا تو رکھ لے ، نیز فرماتے ہیں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کہ'' صرف جمعہ کو رو زہ نہ رکھے بلکہ آگے پیچھے ایک دن اور بھی ملائے ''معلوم ہوا کہ مقرر کرنا منع نہیں بلکہ جمعہ کے روزہ کی ممانعت ہے ممانعت کی وجہ کچھ اور ہے۔ کیا وجہ ہے؟ اس کے متعلق علماء کے بہت سے قول ہیں ایک یہ بھی ہے کہ جمعہ مسلمانوں کی عید ہے اور عید کو روزہ منع ہوتا ہے اس مناسبت سے اس کا روزہ منع ہے یعنی یہ مشابہ عید کے ہے دوسرے یہ کہ جمعہ کا دن کام کاج کا ہے غسل کرنا، کپڑے تبدیل کرنا،جمعہ کی تیاری کرنا،خطبہ سننا ، نماز جمعہ پڑھنا، ممکن ہے کہ روزے کی وجہ سے تکلیف ہو لہٰذا ان کاموں کی وجہ سے روزہ نہ رکھے جیسے حاجی کو نویں تاریخ بقر عید کا روزہ اور حاجی کو بقرعیدکی نماز مکروہ ہے اس لئے کہ وہ دن اس کے کام کے ہیں روزے سے اس کے کاموں میں حرج ہوگا ۔ تیسرے یہ کہ صرف جمعہ کے روزے میں یہود سے مشابہت ہے کہ وہ صرف ہفتہ کا روزہ رکھتے ہیں تم اگر جمعہ کا روزہ رکھو تو آگے پیچھے ایک دن اور ملا لو تا کہ مشابہت نہ رہے۔ چوتھے یہ کہ خود نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ دو شنبہ کارو زہ کیساہے فرمایاکہ اسی دن ہماری ولادت ہے اسی دن نزول وحی کی ابتداء ہوئی۔ لہٰذا روزہ رکھو اور خود نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ اسی خوشی میں رکھا کہ اس تاریخ میں موسیٰ علیہ السلام کو فر عون سے نجات ملی اگریادگاریں منانابراہوتاتویہ یادگاریں کیوں منائی جاتیں؟ اعتراض : چونکہ میلا د شریف او رعرس میں لوگ بہت حرام کام بھی کرتے ہیں لہٰذا یہ منع ہے۔ جواب : قاعدہ غلط ہے کوئی سنت حرام کام کے ملنے سے ناجائز نہیں ہوجاتی نکاح سنت ہے مگر لوگوں نے اس میں ہزار وں خرافات ملادیں تو نکاح کو نہیں روکا جاتا بلکہ ان چیزوں سے منع کیا جاتا ہے۔
  6. اللہ کے پیارے بندے نزدیک ودور کی چیزیں دیکھتے ہیں اور دو ر کی آہستہ آواز بھی باذن الٰہی سنتے ہیں۔ قرآن کریم اس پر گواہ ہے ۔ (1) قَالَتْ نَمْلَۃٌ یّٰۤاَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوۡا مَسٰکِنَکُمْ ۚ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیۡمٰنُ وَ جُنُوۡدُہٗ ۙ وَ ہُمْ لَا یَشْعُرُوۡنَ ﴿۱۸﴾فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنۡ قَوْلِہَا ایک چیونٹی بولی کہ اے چیونٹیواپنے گھروں میں چلی جاؤ تمہیں کچل نہ ڈالیں سلیمان اور ان کالشکر بے خبری میں تو سلیمان اس چیونٹی کی آواز سن کر مسکراکر ہنسے ۔(پ19،النمل:18،19) چیونٹی کی آواز نہایت باریک جو ہم کو قریب سے بھی معلوم نہیں ہوتی حضرت سلیمان علیہ السلام نے کئی میل دور سے سنی کیونکہ وہ اس وقت چیونٹیوں سے کہہ رہی تھی جب آپ کا لشکر ابھی اس جنگل میں داخل نہ ہواتھا اور لشکر تین میل میں تھا تو آپ نے یہ آواز یقینا تین میل سے زیادہ فاصلہ سے سنی۔ رہا چیونٹیوں کا یہ کہنا کہ'' وہ بے خبری میں کچل دیں۔'' اس سے مراد بے علمی نہیں ہے بلکہ ان کا عد ل وانصاف بتا نا مقصو د ہے کہ وہ بے قصور چیونٹی کوبھی نہیں مارتے ۔اگر تم کچلی گئیں تو اس کی وجہ صرف ان کی بے تو جہی ہوگی کہ تمہارا خیال نہ کریں اور تم کچلی جاؤ ۔ (1) وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِیۡرُ قَالَ اَبُوۡہُمْ اِنِّیۡ لَاَجِدُ رِیۡحَ یُوۡسُفَ لَوْ لَا اَنۡ تُفَنِّدُوۡنِ ﴿۹۴﴾ جب قافلہ مصر سے جدا ہوا یہاں ان کے باپ نے کہا کہ بے شک میں یوسف کی خوشبو پاتا ہوں اگر تم مجھے سٹھا ہوا نہ کہو۔(پ13،یوسف:94) یعقوب علیہ السلام کنعان میں ہیں او ریوسف علیہ السلام کی قمیص مصر سے چلی ہے اور آپ نے خوشبو یہاں سے پالی ۔ یہ نبوت کی طا قت ہے ۔ (2) قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبْلَ اَنۡ یَّرْتَدَّ اِلَیۡکَ طَرْفُکَ ؕ اس نے کہا جس کے پاس کتا ب کا علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس حاضر کردوں گا آپ کے پلک مارنے سے پہلے ۔(پ19،النمل:40) آصف شام میں ہیں اور بلقیس کا تخت یمن میں اور فوراً لانے کی خبر دے رہے ہیں اور لانا جانے کے بغیر ناممکن ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ اس تخت کو یہاں سے دیکھ رہے ہیں یہ ہے ولی کی نظر ۔ (3) وَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَمَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمْ ؕ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تمہیں خبر دیتا ہوں اس کی جو تم اپنے گھروں میں کھاتے ہو اور جو جمع کرتے ہو۔(پ3،اٰل عمرٰن:49) عیسیٰ علیہ السلام کی آنکھ گھروں کے اندر جو ہو رہا ہے اسے دور سے دیکھ رہی ہے کہ کون کھا رہا ہے اور کیا رکھ رہاہے یہ ہے نبی کی قوت نظر۔ (4) اِنَّہٗ یَرٰىکُمْ ہُوَ وَقَبِیۡلُہٗ مِنْ حَیۡثُ لَا تَرَوْنَہُمْ ؕ وہ ابلیس اور اس کا قبیلہ تم سب کو دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے۔(پ8،الاعراف:27) (1) قُلْ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمْ فرمادو تم سب کو موت کا فرشتہ موت دیگا جوتم پر مقرر کیا گیا ہے ۔(پ21،السجدۃ:11) شیطان اور اس کی ذریت کو گمراہ کرنے کے لئے ،ملک الموت کو جان نکالنے کے لئے یہ طاقت دی کہ عالم کے ہر انسان بلکہ ہر جاندار کو دیکھ لیتے ہیں تو انبیاء واولیاء کو جو رہبر و ہادی ہیں سارے عالم کی خبر ہونا لازم ہے تا کہ دوا کی طا قت بیماری سے کم نہ ہو۔ (2) وَ اَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاۡتُوۡکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ اورلوگوں کو حج کا اعلان سنا دو وہ آئیں گے تمہارے پاس پیدل اور ہر اونٹنی پر ۔(پ17،الحج:27) ابراہیم علیہ السلام کی آواز تمام انسانوں نے سنی جو قیامت تک ہونے والے ہیں ۔ (3) وَکَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبْرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَلِیَکُوۡنَ مِنَ الْمُوۡقِنِیۡنَ ﴿۷۵﴾ اوراس طر ح ہم ابراہیم کو دکھاتے ہیں آسمانوں او رزمین کی بادشاہت اور اس لئے کہ وہ عین الیقین والوں میں سے ہوجائیں۔(پ7،الانعام:75) اس آیت سے معلوم ہواکہ ابراہیم علیہ السلام کی آنکھوں کو رب تعالیٰ نے وہ بینائی بخشی کہ انہوں نے''تحت الثرٰی''سے ''عرش اعلیٰ'' تک دیکھ لیا۔ کیونکہ خدا کی بادشاہی تو ہر جگہ ہے اور ساری بادشاہی انہیں دکھائی گئی ۔ (4) اَلَمْ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیۡلِ ؕ﴿۱﴾ کیا نہ دیکھا آپ نے کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں سے کیا کیا ؟(پ30،الفیل:1) (1) اَلَمْ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ﴿۶﴾ کیا نہ دیکھا آپ نے اے محبوب کہ آپ کے رب نے قوم عاد سے کیا کیا؟(پ30،الفجر:6) اصحاب فیل کی تباہی نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت شریف سے چالیس دن پہلے ہے اور قوم عاد وثمود پر عذاب آنا حضور کی ولاد ت شریف سے ہزاروں بر س پہلے ہے لیکن ان دونوں قسم کے واقعوں کے لئے رب تعالیٰ نے استفہام انکاری کے طور پر فرمایا:''اَلَمْ تَرَ''کیا آپ نے یہ واقعات نہ دیکھے یعنی دیکھے ہیں معلوم ہو ا کہ نبی کی نظر گذشتہ آئندہ سب کو دیکھتی ہے اس لئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے معراج کی رات دوزخ میں مختلف قوموں کو عذاب پاتے دیکھا ۔ حالانکہ ان کا عذاب پانا قیامت کے بعد ہوگا ۔ اس لئے رب تعالیٰ نے فرمایا : (2) سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الۡاَقْصَا الَّذِیۡ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ البَصِیۡرُ ﴿۱﴾ پاک ہے وہ اللہ جو راتوں رات لے گیا اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے تا کہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں بے شک وہ بندہ سننے والا دیکھنے والاہے ۔(پ15،بنی اسرآء یل:1) معلوم ہو اکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی نظر نے اگلے پچھلے واقعات ،اللہ کی ذات ،صفات ، نشانیاں، قدرت سب کو دیکھا ۔ اعتراض: یعقوب علیہ السلام کی نظر او رقوت شامہ اگر اتنی تیز تھی کہ مصر کے حالات معلوم کرلیئے تو چالیس سال تک فراق یوسف میں کیوں روتے رہے ان کے رونے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ یوسف علیہ السلام سے بے خبر تھے ۔ جواب : اس کاآسان جواب تویہ ہے کہ انبیاء کی تمام قوتیں اللہ تعالیٰ کی مشیت میں ہیں جب چاہتا ہے تب انہیں ادھر متوجہ کردیتا ہے اور جب چاہتا ہے ادھر متوجہ نہیں فرماتا ۔ بے علمی او ر ہے بے تو جہی کچھ اور۔ تحقیقی جواب یہ ہے کہ یعقوب علیہ السلام کا گر یہ عشق الٰہی میں تھا یوسف علیہ السلام اس کا سبب ظاہر ی تھے مجاز حقیقت کا پل ہے ورنہ آپ یوسف علیہ السلام کے ہر حال سے واقف تھے خود قرآن کریم نے ان کے کچھ قول ایسے نقل فرمائے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ جانتے تھے ۔ فرماتا ہے ۔ (1) قَالَ اِنَّمَاۤ اَشْکُوۡا بَثِّیۡ وَحُزْنِیۡۤ اِلَی اللہِ وَاَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوۡنَ ﴿۸۶﴾ یٰبَنِیَّ اذْہَبُوۡا فَتَحَسَّسُوۡا مِنۡ یُّوۡسُفَ وَاَخِیۡہِ وَلَا تَایۡـَٔسُوۡا مِنۡ رَّوْحِ اللہِ ؕ میں اپنی پر یشانی او رغم کی فریاد اللہ سے کرتاہوں اوراللہ کی طر ف سے وہ باتیں جانتا ہوں جوتم نہیں جانتے اے بچو!جاؤ یوسف او راس کے بھائی کا سراغ لگاؤاور اللہ سے ناامید نہ ہو۔(پ13،یوسف:86،87) (2) عَسَی اللہُ اَنۡ یَّاۡتِـیَنِیۡ بِہِمْ جَمِیۡعًا ؕ قریب ہے کہ اللہ ان تینوں یہود ا،بنیامین، یوسف کو میرے پاس لائے گا ۔(پ13،یوسف:83) پہلی آیت میں فرمایا گیا کہ برادارن یوسف علیہ السلام بنیامین کو مصر میں چھوڑ کر آئے تھے مگر آپ فرماتے ہیں یوسف اور اس کے بنیامین بھائی کا سراغ لگاؤ یعنی وہ دونوں ایک ہی جگہ ہیں دوسری آیت سے معلوم ہو اکہ دو بارہ مصر میں بظاہر یہودا اور بینا مین دو نوں گئے تھے مگر آپ فرماتے ہیں کہ اللہ ان تینوں کو میرے پاس لائے گا تیسرے کو ن تھے وہ یوسف علیہ السلام ہی تو تھے ۔ (3) وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیۡکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ اے یوسف تمہیں اللہ اسی طر ح نبوت کے لئے چنے گا او ر تمہیں باتوں کا انجام بتائے گا۔(پ12،یوسف:6) خود تعبیر دے چکے ہیں کہ تم نبی بنوگے اور علم تعبیر دیئے جاؤگے اور ابھی تک وہ تعبیر ظاہر نہ ہوئی تھی اور آپ جانتے تھے کہ یہ خواب سچا ہے ضرور ظاہر ہوگا ۔ اعتراض: حضرت سلیمان علیہ السلام کو بلقیس کے ملک کی خبر نہ ہوئی ہدہد نے کہا اَحَطۡتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ وَ جِئْتُکَ مِنۡ سَبَاٍۭ بِنَبَاٍ یَّقِیۡنٍ ﴿۲۲﴾ میں وہ بات دیکھ آیا ہوں جو آپ نے نہ دیکھی اورمیں آپ کے پاس سبا سے سچی خبر لایا ہوں ۔(پ19،النمل:22) اس کے جواب میں آپ نے فرمایا : قَالَ سَنَنۡظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ کُنۡتَ مِنَ الْکٰذِبِیۡنَ ﴿۲۷﴾ فرمایا اب ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا یا تو جھوٹوں میں سے ہے ۔(پ19،النمل:27) اگر آپ ملک بلقیس سے واقف ہوتے تو بلقیس کے پاس خط بھیج کر یہ تحقیق کیوں فرماتے کہ ہدہد سچا ہے یا جھوٹا معلوم ہوا کہ آپ بلقیس سے بے خبر تھے اور ہدہد خبر دار تھا پتا لگا کہ نبی کے علم سے جانور کا علم زیادہ ہوسکتا ہے۔( وہابی دیوبندی) جواب : ان آیات میں رب تعالیٰ نے کہیں نہ فرمایا کہ سلیمان علیہ السلام کو علم نہ تھا ہدہد نے بھی آکر یہ نہ کہا کہ آپ کو بلقیس کی خبر نہیں وہ کہتا ہے اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ میں وہ چیز دیکھ کرآیاجو آپ نے نہ دیکھی۔ یعنی نہ آپ وہاں گئے تھے نہ دیکھ کر آئے تھے۔ یہ کہاں سے پتا لگا کہ آپ بے خبر بھی تھے اگر بے خبر ہوتے تو جب آصف کوحکم دیا کہ بلقیس کا تخت لاؤ تو آصف نے کہا کہ حضور میں نے وہ جگہ دیکھی نہیں نہ مجھے خبر ہے کہ اس کا تخت کہا ں رکھا ہے آپ ہدہد کو میرے ساتھ بھیجیں وہ راستہ دکھائے تو میں لادوں گا نہ کسی سے راستہ پوچھا نہ پتا دریافت کیا بلکہ آناً فاناً حاضر کردیا ۔ اگر وہ تخت ان کی نگاہوں کے سامنے نہ تھاتو لے کیسے آئے جب آصف کی نگاہ سے تخت غائب نہیں تو حضرت سلیمان علیہ السلام سے کیسے غائب ہوگا ۔ مگر ہر کام کا ایک وقت اور ایک سبب ہوتا ہے بلقیس کے ایمان لانے کا یہ ہی وقت تھا او رہدہد کو اس کا سبب بنانا منظور تھا تاکہ پتالگے کہ پیغمبر وں کے درباری جانور بھی لوگو ں کو ایمان دیا کرتے ہیں اس لیے اس سے پہلے آپ کو بلقیس کی خبر نہ دی۔آپ کا تحقیق فرمانا بے علمی کی دلیل نہیں ورنہ رب تعالیٰ بھی قیامت میں تمام مخلوق کے اعمال کی تحقیق فرما کر فیصلہ کر ے گا ۔ تو چاہئے کہ وہ بھی بے خبر ہو۔
  7. تمہارے منہ سے جو نکلی وہ بات ہو کے رہی ! اللہ کے پیاروں کی زبان کن کی کنجی ہے جو ان کے منہ سے نکل جاتا ہے وہ اللہ کے حکم سے پورا ہوجاتا ہے ۔ اس پر قرآن شریف کی آیتیں گواہ ہیں۔ (1) قَالَ فَاذْہَبْ فَاِنَّ لَکَ فِی الْحَیٰوۃِ اَنۡ تَقُوۡلَ لَا مِسَاسَ ۪ وَ اِنَّ لَکَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَہٗ ۚ موسی علیہ السلام نے فرمایا اچھا جا تیری سزا دنیا کی زندگی میں یہ ہے کہ تو کہتا پھر یگا کہ چھونہ جانا اور بے شک تیرے لئے ایک وعدے کا وقت ہے جوتجھ سے خلاف نہ ہوگا (پ16،طہ:97) موسیٰ علیہ السلام سامری سے ناراض ہوگئے کیونکہ اس نے بچھڑا بنا کر لوگوں کو مشرک کردیا تھا توآپ کے منہ سے نکل گیا جا تیرے جسم میں یہ تاثیرپیدا ہوجائے گی کہ جس سے تو چھوجاوے تو اسے بھی بخا ر آجاوے او رتجھے بھی ایسا ہی ہواو روہ لوگوں سے کہتا پھرتا تھا کہ مجھے کوئی نہ چھونا اور فرمایا کہ یہ تو دنیا کی سزا ہے ۔ آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہے۔ (2) وَ اَمَّا الۡاٰخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَاۡکُلُ الطَّیۡرُ مِنۡ رَّاۡسِہٖ ؕ قُضِیَ الۡاَمْرُ الَّذِیۡ فِیۡہِ تَسْتَفْتِیٰنِ ﴿ؕ۴۱﴾ اور لیکن دوسرا قید ی پس سولی دیا جائیگا او رپھر پرندے اس کا سر کھائیں گے فیصلہ ہوچکا اس بات کا جس کا تم سوال کرتے ہو۔(پ12،یوسف:41) یوسف علیہ السلام سے جیل میں ایک قیدی نے اپنا خواب بیان کیا آپ نے تعبیر دی کہ تجھے سولی ہوگی ۔ وہ بولا کہ میں نے خواب تو کچھ بھی نہ دیکھا تھا میں تو مذاق میں کہتا تھا آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تو نے خواب دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو جو میرے منہ سے نکل گیا وہ رب تعالیٰ کے ہاں فیصلہ ہوگیا،پتا لگا کہ ان کی زبان رب کا قلم ہے ۔ (1) رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰۤی اَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلٰی قُلُوۡبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوۡا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الۡاَلِیۡمَ ﴿۸۸﴾ موسی علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے ہمارے رب فرعونیوں کے مال برباد کردے اور ان کے دل سخت کردے پس یہ نہ ایمان لاویں جب تک کہ درد ناک عذاب دیکھ لیں ۔(پ11،یونس:88) موسیٰ علیہ السلام نے فرعونیوں کے لئے تین بد دعائیں کیں ایک یہ کہ ان کے مال ہلاک ہو جائیں ۔ دوسرے اپنے جیتے جی یہ ایمان نہ لاویں ۔ تیسرے یہ کہ مرتے وقت ایمان لاویں اور پھر ایمان قبول نہ ہو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ فرعونیوں کا روپیہ پیسہ، پھل، غلہ سب پتھر ہوگیا اور ایمان کی توفیق زندگی میں نہ ملی ۔اور ڈوبتے وقت فرعون ایمان لایا اور بولا اٰمَنْتُ بِرَبِّ مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ میں حضرت موسی اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں مگر ایمان قبول نہ ہوا۔ دیکھو فرعون کے سواکوئی کافر قوم ایمان لاکر نہ مری جو کلیم اللہ علیہ السلام کے منہ سے نکلا وہ ہی ہو ا۔ (1) وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَہۡلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ جب ابراہیم نے عرض کیا کہ مولیٰ اس جگہ کو امن والا شہر بنادے اور یہاں کے باشندوں کوطر ح طر ح کے پھل دے ۔(پ1،البقرۃ:126) (2) وَمِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ ۪ ابراہیم نے دعا کی کہ ہماری اولاد میں ہمیشہ ایک جماعت فرمانبردار رکھ۔(پ1،البقرۃ:128) (3) رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیۡہِمْ رَسُوۡلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوۡا عَلَیۡہِمْ اٰیٰتِکَ اے رب ہمارے اسی مسلم جماعت میں وہ رسول آخری بھیج جوان پر تیری آیتیں تلاوت کرے ۔(پ1،البقرۃ:129) (4) رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسْکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرْعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمْ وَارْزُقْہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوۡنَ ﴿۳۷﴾ اے میرے رب میں نے اپنی کچھ اولاد ایک جنگل میں بسائی ہے جس میں کھیتی نہیں تیرے حرمت والے گھر کے پاس اے رب ہمارے اس لئے کہ نماز قائم رکھیں تو توکچھ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور انہیں کچھ پھل کھانے کو دے شائد وہ احسان مانیں ۔(پ13،ابرٰھیم:37) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی حسب ذیل دعاؤں کا ذکر فرمایا : اس جنگل کو شہر بنادے (۲) شہرامن والا ہو(۳) یہاں کے باشندوں کو روزی اورپھل دے (۴) ہماری اولاد سب کافر نہ ہوجائے ۔ہمیشہ کچھ مسلمان ضرورر ہیں (۵) اس مومن اولاد میں نبی آخر الزمان پیدا ہوں(۶) لوگوں کے دل اس بستی کی طرف مائل فرمادے۔(۷)یہ لوگ نماز قائم رکھیں ۔ آج بھی دیکھ لو کہ یہ سات دعائیں کیسی قبول ہوئیں ۔ وہاں آج تک مکہ شریف آبا د ہے آپ کی ساری اولاد کا فر نہ ہوئی سید صاحبان سب گمراہ نہیں ہوسکتے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اسی مومن جماعت میں پیدا ہوئے ۔ وہاں باوجود یکہ کھیتی باڑی نہیں مگر رزق اورپھل کی کثرت ہے ہر جگہ قحط سے لوگ مرتے ہیں مگر وہاں آج تک کوئی قحط سے نہیں مرا مسلمانوں کے دل مکہ شریف کی طر ف کیسے مائل ہیں وہ دن رات دیکھنے میں آرہا ہے کہ فاسق وفاجر بھی مکہ پر فدا ہیں۔ نوٹ ضروری : حضرت ابراہیم علیہ السلام کے منہ سے نکل گیا کہ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ بے کھیتی والاجنگل تا ثیر تو دیکھو کہ اب تک وہ جگہ ریتلی ہی ہے کہ وہاں کھیتی ہوسکتی ہی نہیں۔ یہ ان کی زبان کی تاثیر ہے ۔ اور کیوں نہ ہو رب تعالیٰ نے فرمایا: اپنالڑکا ذبح کردو ۔عرض کیا: بہت اچھا۔ فرمایا: اپنے کو نمرو د کی آگ میں ڈال دو۔ عرض کیا: بہت اچھا۔ فرمایا: اپنے بچے بیوی کو ویران جنگل میں بے آب ودانہ چھوڑ آؤ ۔ عرض کیا: بہت اچھا۔ یہ نہ پوچھا کہ کیوں ؟ جب وہ رب تعالیٰ کی اتنی مانتے ہیں تو رب تعالیٰ بھی ان کی مانتا ہے ۔خلیل نے کہاجلیل نے مانا غرضکہ انکی زبان کن کی کنجی ہے ۔ (1) وَ قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیۡنَ دَیَّارًا ﴿۲۶﴾اِنَّکَ اِنۡ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوۡا عِبَادَکَ وَ لَا یَلِدُوۡۤا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا ﴿۲۷﴾رَبِّ اغْفِرْ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِمَنۡ دَخَلَ بَیۡتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیۡنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ؕ وَ لَا تَزِدِ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا تَبَارًا ﴿٪۲۸﴾ اور نوح نے عرض کیا کہ اے رب میرے زمین پر کافروں میں سے کوئی رہنے والا نہ چھوڑ،بے شک اگر تو انہیں چھوڑ ے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ کر دیں گے اور نہ جنیں گے مگر بدکار ناشکرکو۔اے میرے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور اسے جو ایمان کے ساتھ میرے گھر میں ہے اور سب مسلمان مردوں اور سب مسلمان عورتوں کو اور کافروں کو نہ بڑھا (پ29،نوح:26۔28) مگر تباہی سورہ نوح کی ان آخری تین آیتوں میں نوح علیہ السلام کی تین دعائیں ذکر ہوئیں۔سارے کافروں کوہلاک کردے کہ اب ان کی اولاد بھی کافر ہی ہوگی۔ میری اور میرے ماں باپ کی مغفرت کر اور جو میرے گھر میں پناہ لے لے اسے بھی بخش دے۔ ان دعاؤں کو رب تعالیٰ نے حرف بحرف قبول فرمایا ۔سارے عالم کے کافر غرق کردیے گئے ۔آپ کے ماں باپ کی مغفرت کی گئی اور جس نے کشتی میں پناہ لی اسے بچالیاگیا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ نے نبوت کی عینک سے ان کی ہونے والی اولاد تک کا حال معلوم کرلیاکہ وہ کافر ہی ہوگی۔ خلاصہ یہ ہوا کہ ان حضرات کی زبانیں ''کن'' کی کنجی ہیں۔ یہ بھی خیال رہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی جو دعاارادہ الٰہی کے خلاف ہوتی ہے اس سے انہیں روک دیا جاتاہے تا کہ ان کی زبان خالی نہ جاوے اور یہ انتہائی عظمت ہوتی ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے: (1) یٰۤـاِبْرٰہِیۡمُ اَعْرِضْ عَنْ ہٰذَا ۚ اِنَّہٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّکَ ۚ وَ اِنَّہُمْ اٰتِیۡہِمْ عَذَابٌ غَیۡرُ مَرْدُوۡدٍ ﴿۷۶﴾ اے ابراہیم اس دعا سے اعراض کرو قوم لوط پر عذاب آنے والا ہے نہیں لوٹ سکتا ۔(پ12،ھود:76) (2) وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ؕ آپ منافقین میں سے کسی پر جو مرجائے نماز نہ پڑھیں اور اس کی قبر پر کھڑے نہ ہوں۔(پ10،التوبۃ:84) ابراہیم علیہ السلام نے قوم لوط کے لئے دعا فرمائی لیکن چونکہ ان کی نجات ارادہ الٰہی کے خلاف تھی لہٰذا انہیں اس سے روک دیا گیا ۔ ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو منافق پر جنازہ سے روک دیا گیا کیونکہ اس نماز میں میت کے لئے دعا بخشش ہوتی ہے اور منافقین کی بخشش ارادہ الٰہی کے خلاف ہے لہٰذا آپ کو اور آپ کے صدقے سے سب کو اس سے منع کردیاگیا ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان حضرات کی دعا قبول ہوتو بھی ان کی عظمت اور اگر ان کی دعا کسی وجہ سے قبول نہ بھی ہوسکے تو بھی ان کی عظمت ہے ، ان کی مثل کوئی ہوسکتا ہی نہیں ۔
  8. اللہ کے مقبول بندے (اولیاء اللہ) باذن الٰہی مشکل کشا حاجت روادافع بلاہیں اللہ کے پیارے اللہ کے حکم سے بندو ں کی حاجتیں پوری کرتے ہیں مشکلیں حل کرتے ہیں قرآن کریم اس کا اعلان فرمارہاہے ۔ دور ونزدیک ہر جگہ سے مافوق الاسباب مشکل کشائی اور مدد کرتے ہیں۔ (1) اِذْہَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ ہٰذَا فَاَلْقُوۡہُ عَلٰی وَجْہِ اَبِیۡ یَاۡتِ بَصِیۡرًا ۚ میرا یہ کر تہ لے جاؤ اسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی۔(پ13،یوسف:93) (2) فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الْبَشِیۡرُ اَلْقٰىہُ عَلٰی وَجْہِہٖ فَارْتَدَّ بَصِیۡرًا ۚ پھر جب خوشی سنا نے والا آیا تو وہ قمیص یعقوب کے منہ پر ڈال دی ۔ اسی وقت ان کی آنکھیں لوٹ آئیں ۔(پ13،یوسف:96) یعقوب علیہ السلام نابینا ہوگئے تھے ان کی اس مصیبت کو یوسف علیہ السلام نے اپنی قمیص کے ذریعہ دور فرمایا اور ان کی مشکل کشائی کی قمیص سے شفا دینا مافوق الاسباب مدد ہے (3) وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہٖ ۚ وَہَمَّ بِہَا لَوْلَاۤ اَنۡ رَّاٰبُرْہَانَ رَبِّہٖ ؕ اوربے شک زلیخا نے قصد کرلیا یوسف کا اور یوسف علیہ السلام بھی ارادہ کرلیتے اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھتے ۔(پ12،یوسف:24) یوسف علیہ السلام کو زلیخا نے سات کو ٹھڑیوں میں بند کر کے اپنی طرف مائل کرنا چاہا تو آپ نے سامنے یعقوب علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اشارے سے منع فرمارہے ہیں جس سے آپ کے دل میں ادھر میلان نہ پیدا ہو ا۔ یہ رب تعالیٰ کی بر ہان تھی جس کا ذکر اس آیت میں ہے تو یعقوب علیہ السلام نے کنعان سے بیٹھے ہوئے مصر کی بندکوٹھڑی میں یوسف علیہ السلام کی یہ مدد کی کہ انہیں بڑی آفت اور ارادہ گناہ سے بچالیا۔ یہ ہے اللہ والوں کی مشکل کشائی اور مافوق الاسباب امداد ۔ (1) وَاُبْرِیُٔ الۡاَکْمَہَ وَالۡاَبْرَصَ وَاُحۡیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللہِ ۚ عیسی علیہ السلام نے کہا کہ میں اللہ کے حکم سے شفادیتاہوں مادرزاداندھوں اور کوڑھیوں کو اور مردو ں کو زندہ کرتا ہوں ۔(پ3،ال عمرٰن:49) اندھا،کوڑھی ہونا بلاہے جسے عیسی علیہ السلام اللہ کے حکم سے دفع کردیتے ہیں لہٰذا اللہ کے پیارے دافع البلا ہوتے ہیں یعنی مافوق الاسباب مشکل کشائی فرماتے ہیں۔ (2) فَقُلْنَا اضْرِبۡ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ ؕ فَانۡفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیۡنًا ؕ ہم نے موسی علیہ السلام سے کہا کہ اپنی لاٹھی سے پتھر کو ماروپس فوراً اس پتھر سے بارہ چشمے جاری ہوگئے ۔(پ1،البقرۃ:60) بنی اسرئیل تیہ کے میدان میں پیا س کی آفت میں پھنسے تو رب تعالیٰ نے براہ راست انہیں پانی نہ دیا بلکہ موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ آپ ان کے لئے دافع البلا بن جائیں تاکہ انہیں پانی ملے معلوم ہوا کہ اللہ کے بندے بحکم الٰہی پیاس کی بلا دور کرتے ہیں مافوق الاسباب ۔ (3) قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوۡلُ رَبِّکِ ٭ۖ لِاَہَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا جبریل نے مریم سے کہا کہ میں تمہارے رب کا قاصد ہوں آیا ہوں تا کہ تمہیں ستھرا بیٹا دوں ۔(پ16،مریم:19) معلوم ہوا کہ حضر ت جبریل علیہ السلام اللہ عزوجل کے حکم سے بیٹا بخشتے ہیں یعنی بندوں کی حاجتیں پوری کرتے ہیں۔ (1) وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾ اے محبوب اگر یہ مجرم لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر کے آپ کے پاس آجاویں اور خدا سے مغفرت مانگیں اور آپ بھی ان کی سفارش کریں تو اللہ کوتوبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔(پ5،النساء:64) ا س آیت نے بتا یاکہ جو گناہو ں کی بیماری میں پھنس جاوے وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے شفاخانہ میں پہنچے وہاں شفا ملے گی آپ دافع البلاء ہیں اور مافوق الاسباب گناہ بخشوادیتے ہیں۔ (2) اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ ۚ ہٰذَا مُغْتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ ﴿۴۲﴾ اے ایوب زمین پر اپنا پاؤں مارو یہ ہے ٹھنڈا چشمہ نہانے اور پینے کو ۔(پ23،ص:42) ایوب علیہ السلام کی بیماری اس طر ح دور فرمائی گئی کہ ان سے فرمایا گیا ۔ اپنا پاؤں زمین پر رگڑو ۔ رگڑنے سے پانی کا چشمہ پیدا ہوا ۔ فرمایا اسے پی لو ۔ اور غسل فرمالو۔ پینے سے اندرونی تکلیف دور ہوئی اور غسل سے بیرونی بیماری کو شفا ہوئی معلوم ہوا کہ پیغمبر وں کے پاؤں کا دھوون اللہ کے حکم سے شفا ہے ۔ آج آب زمزم اس لئے شفا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑی سے پیدا ہوا ۔ مدینہ پاک کی مٹی کو خاک شفا کہتے ہیں کیونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک سے مس ہوگئی معلوم ہوا کہ بزرگ دافع بلا ہیں او ریہ بر کتیں مافو ق الاسباب ہیں۔ (1) فَقَبَضْتُ قَبْضَۃً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوۡلِ فَنَبَذْتُہَا وَکَذٰلِکَ سَوَّلَتْ لِیۡ نَفْسِیۡ ﴿۹۶﴾ پس میں نے فر شتے کے اثرسے ایک مٹھی مٹی لے لی پس یہ مٹی اس بچھڑے میں ڈالدی میرے دل نے یہی چاہا ۔(پ16،طہ:96) سامری نے حضرت جبریل علیہ السلام کی گھوڑی کے ٹاپ کے نیچے کی خاک اٹھالی اور سونے کے بچھڑے کے منہ میں ڈالی جس سے اس میں زندگی پیدا ہوگئی اور وہ آواز کرنے لگا یہ ہی اس آیت میں مذ کورہے معلوم ہو اکہ بزرگو ں کے تبرکات بے جان دھات میں جان ڈال سکتے ہیں باذن اللہ ! (1) اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ التَّابُوۡتُ فِیۡہِ سَکِیۡنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمْ وَبَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوۡسٰی وَاٰلُ ہٰرُوۡنَ تَحْمِلُہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق آوے گا جس میں تمہارے رب کی طر ف سے دل کاچین ہے او رکچھ بچی ہوئی چیز یں ہیں معزز موسی او رمعزز ہارون کے ترکہ کی اٹھائے لائیں گے اسے فر شتے ۔(پ2،البقرۃ:248) بنی اسرائیل کو ایک صندو ق رب تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا جس میں حضرت موسی علیہ السلام کی پگڑی ، حضرت ہارون علیہ السلام کی نعلین شریف وغیرہ تھے اور انہیں حکم تھا کہ جنگ میں اسے اپنے سامنے رکھیں فتح ہوگی۔ اس آیت میں یہی واقعہ مذکور ہے جس سے معلوم ہوا کہ بزرگو ں کے تبر کات ان کی وفات کے بعد دافع البلاء ہیں خیال رہے مٹی سے جان پڑنا تبر کات سے فتح ہونا مافوق الاسباب مدد ہے ۔ (1) وَمَا کَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنۡتَ فِیۡہِمْ ؕ اور اللہ تعالیٰ انہیں عذاب نہیں دے گا حالانکہ آپ ان میں ہیں ۔(پ9،الانفال:33) (2) لَوْ تَزَیَّلُوۡا لَعَذَّبْنَا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنْہُمْ اگر مسلمان مکہ سے نکل جاتے تو ہم کافروں پر عذاب بھیجتے ۔(پ26،الفتح:25) (3) فَاَخْرَجْنَا مَنۡ کَانَ فِیۡہَا مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ ﴿ۚ۳۵﴾ پس نکال دیا ہم نے قوم لوط کی بستی سے ان مومنوں کو جو وہا ں تھے ۔(پ27،الذٰریت:35) ان آیات میں فرمایا کہ دنیا پر عذاب نہ آنے کی وجہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا تشریف فرما ہونا ہے نیز مکہ والوں پر فتح مکہ سے پہلے اس لئے عذاب نہ آیا کہ وہا ں کچھ غریب مسلمان تھے قوم لوط پر عذاب جب آیا تو مومنین کو وہاں سے پہلے ہی نکال دیا معلوم ہو اکہ انبیاء کرام علیہم السلام او رمومنین کے طفیل سے عذاب الٰہی نہیں آتا۔ یہ حضرات دافع البلاء ہیں بلکہ آج بھی ہمارے اس قدر گناہوں کے باوجود جو عذاب نہیں آتا یہ سب اس سبز گنبد کی بر کت سے ہے ۔ اعلیٰ حضرت نے کیا خوب فرمایا ؎ تمہیں حاکم برایا تمہیں قاسم عطایا تمہیں دافع بلایا تمہیں شافع خطایا کوئی تم سا کون آیا اعتراض: قرآن شریف سے ثابت ہے کہ بہت دفعہ پیغمبر وں نے کسی کو دعا یا بد دعا دی ۔ مگر قبول نہ ہوئی پھر وہ مشکل کشا،دافع البلا کیسے ہوئے؟ جواب: یہ حضرات اللہ کے حکم سے دافع البلاء اورمشکل کشاہیں جہاں اذن الٰہی نہ ہو وہا ں بلاد فع نہ ہوگی۔ ہر چیز کا یہی حال ہے کہ خدا کے حکم سے نفع یا نقصان دیتی ہے غرضیکہ انبیاء علیہم السلام واولیا ء اللہ مافوق الاسباب مدد کرتے ہیں مشکلیں آسان ، مصیبت دور فرما تے ہیں ۔
  9. جو عجیب وغریب حیرت انگیز کام نبی(علیہ السلام) سے صادر ہو تو اگر نبوت کے ظہور سے پہلے صادر ہوا وہ ارہا ص ہے۔ جیسے عیسیٰ علیہ السلام کابچپن شریف میں کلام فرمانا یا ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کوکنکروں،پتھروں کابچپن میں سلام کرنا۔ اگر ظہو ر نبوت کے بعد ہو تو اسے معجزہ کہتے ہیں۔ جیسے موسی علیہ السلام کا عصا اور ید بیضا ۔یا نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا چاند کو چیرنا، سورج کو واپس لانا ،اور جو ولی(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) سے صادر ہو اسے کرامت کہتے ہیں اورجو عجیب وغریب کا م کافر سے ہو وہ استدراج کہلاتا ہے ۔ جیسے دجال کا پانی برسانا، مردے زندہ کرنا۔ ابھی تک اللہ عزوجل کے فضل وکرم سے مسلمانوں میں کوئی فرقہ ایسا پیدا نہیں ہوا جو معجزات کا انکار کرتا ہو ۔ قادیانی صرف حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات کا انکار کرتے ہیں وہ صرف اس لئے کہ ان کے مسیح موعود میں کوئی معجزہ نہیں ۔تو وہ کہتے ہیں کہ چونکہ اصلی مسیح میں کوئی معجزہ نہ تھا اس لئے ان کے مثل مسیح میں کوئی معجزہ نہیں، ورنہ معجزات کے وہ بھی قائل ہیں۔ خود قرآن کریم کو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کامعجزہ مانتے ہیں۔ ہاں بہت لوگ کرامات اولیاء اللہ کے منکر ہوگئے اور کہنے لگے کہ ساری کرامات گھڑے ہوئے قصے کہانی ہیں، قرآن سے ثبوت نہیں۔ ہم وہ آیات قرآنیہ پیش کرتے ہیں جن میں کرامات کا صریحی ذکر ہے ۔ (1) کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیۡہَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ ۙ وَجَدَ عِنۡدَہَا رِزْقًا ۚ قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ؕ قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنۡدِ اللہِ ؕ جب مریم کے پاس زکر یاعلیہ السلام آتے تو بے موسم پھل پاتے تو کہا اے مریم تمہارے پاس یہ کہا ں سے آئے تو بولیں یہ رب کے پاس سے آئے ہیں۔(پ3،ال عمرٰن:37) حضرت مریم بنی اسرائیل کی ولیہ ہیں ان کی کرامت یہ بیان ہوئی کہ مقفل کوٹھڑی میں بے موسم پھل انہیں غیب سے عطا ہوئے یہ کرامت ولی ہے ۔ (2) وَ لَبِثُوۡا فِیۡ کَہۡفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیۡنَ وَازْدَادُوۡا تِسْعًا ﴿۲۵﴾ اصحاب کہف غار میں تین سو بر س ٹھہرے نو اوپر ۔(پ15،الکھف:25) اصحاب کہف نبی نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے ولی ہیں ان کی کرامت یہ بیان ہوئی کہ غار میں تین سو نو برس سوتے رہے ۔ اتنا عرصہ بے غذا سونا اور فنا نہ ہونا کرامت ہے ۔ (1) وَ تَحْسَبُہُمْ اَیۡقَاظًا وَّ ہُمْ رُقُوۡدٌ ٭ۖ وَّ نُقَلِّبُہُمْ ذَاتَ الْیَمِیۡنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ ٭ۖ وَکَلْبُہُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَیۡہِ بِالْوَصِیۡدِ ؕ اورتم انہیں جاگتا سمجھو اور وہ سورہے ہیں اور ہم انہیں دائیں بائیں کروٹیں بدلتے ہیں اور ان کا کتا اپنی کلائیاں پھیلا ئے ہوئے غار کی چو کھٹ پر ہے ۔(پ15،الکھف:18) اس آیت میں اصحاب کہف جو اولیاء ہیں ۔ ان کی تین کرامتیں بیان ہوئیں ایک تو جاگنے کی طر ح اب تک سونا ۔ دوسرے رب کی طر ف سے کروٹیں بدلنا اور زمین کا ان کے جسموں کو نہ کھانا اور بغیر غذاباقی رہنا تیسرے ان کے کتے کا اب تک لیٹے رہنا یہ بھی ان کی کرامت ہے نہ کہ کتے کی ۔ (2) قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبْلَ اَنۡ یَّرْتَدَّ اِلَیۡکَ طَرْفُکَ ؕ اور بولا وہ جس کے پاس کتا ب کا علم تھا کہ میں تخت بلقیس آپ کے پاس لے آؤں گا آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے ۔(پ19،النمل:40) اس آیت میںآصف بن بر خیا کی جو بنی اسرائیل کے نبی نہیں بلکہ ولی ہیں کئی کرامتیں بیان ہو ئیں۔ بغیر کسی کے پوچھے یمن پہنچ جانا ۔ وہاں سے اتنا وزنی تخت لے آنا اور یہ دور دراز سفر شام سے یمن تک جانا آناایک آن میں طے کرلینا ۔ (3) فَانۡطَلَقَا ۟ حَتّٰۤی اِذَا رَکِبَا فِی السَّفِیۡنَۃِ خَرَقَہَا ؕ قَالَ اَخَرَقْتَہَا لِتُغْرِقَ اَہۡلَہَا ۚ دونوں موسیٰ وخضر علیہما السلام چلے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو خضر نے کشتی کو توڑدیا موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا تم نے اس لئے تو ڑ دیا کہ کشتی والے ڈوب جائیں ۔(پ15،الکھف:71) اس آیت کریمہ میں خضر علیہ السلام جوکہ غالباً کسی قوم کے ولی ہیں ۔ ان کی یہ کرامت بیان کی کہ انہوں نے کشتی توڑ ڈالی مگر کشتی نہ ڈوبی ۔ حالانکہ موسی علیہ السلام کو خطرہ پیدا ہوگیا تھا ۔ (1) وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَیۡنِ فَخَشِیۡنَاۤ اَنۡ یُّرْہِقَہُمَا طُغْیَانًا وَّکُفْرًا ﴿ۚ۸۰﴾ حضرت خضر نے فرمایا کہ اس بچے کے ماں باپ مومن ہیں ہم نے خوف کیا کہ وہ انہیں سر کشی اور کفر پر چڑھادے ۔(پ16،الکھف:80) اس آیت میں حضرت خضر کی یہ کرامت بیان ہوئی کہ انہوں نے مقتول بچے اور اس کے والدین کے انجام کو جان لیا کہ وہ مومن رہیں گے اور یہ کافر ہوگا حالانکہ یہ علوم خمسہ میں سے ہے ۔ (2) وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا وَکَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ۚ خضر نے فرمایا کہ اس دیوار کے نیچے دو یتیموں کا خزانہ ہے اور ان کاباپ نیک آدمی تھا ۔(پ16،الکھف:82) اس آیت میں خضر علیہ السلام کی یہ کرامت بیان ہوئی کہ انہوں نے زمین کے نیچے کا دفینہ معلوم کرلیا۔ان جیسی بہت سی آیات میں اولیاء اللہ کی کرامات بیان ہو ئیں ، ان کا علم غیب،طی الارض یعنی بہت جلدسفرطے کرنا،بے آب وغذا بہت عرصہ زندہ رہنا، غرضیکہ بہت کرامات کا ذکر ہے
  10. دسویں محرم (عاشورہ): محرم کی نویں اور دسویں کو رو زہ رکھے تو بہت ثواب پائے گا ۔ بال بچو ں کے لئے دسویں محرم کو خوب اچھے اچھے کھانے پکائے توإن شاءاللہ عزّوجلّ! سال بھر تک گھر میں برکت رہے گی ۔ بہتر ہے کہ حلیم (کھچڑا )پکا کر حضرت شہید کر بلا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فا تحہ کر ے بہت مجر ب ہے اسی تا ریخ کو غسل کرے تو تمام سال إن شاءاللہ عزّوجلّ! بیماریوں سے امن میں رہے گا کیونکہ ا س دن آب زم زم تمام پانیوں میں پہنچتا ہے۔ (رو ح البیان ، پ ۱۲ ، ھود : تحت ۳۸،ج۴ ،ص ۱۴۲) اسی دسویں محرم کو جو سر مہ لگائے تو سال بھر تک اس کی آنکھیں نہ دکھیں۔ (درمختار کتاب الصوم)(رد المحتار ، کتاب الصوم ،باب ما یفسد الصوم ، مطلب فی حدیث التو سعۃ ۔۔۔۔۔۔الخ ، ج ۳ ،ص ۴۵۷) ربیع الا ول کا میلا د شریف: ربیع الاول بارہویں تا ریخ حضور انورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پاک کی خوشی میں روزہ رکھنا ثواب ہے مگر بہتر ہے کہ دو روزے رکھیں اور اس مہینہ میں محفل میلا د شریف کرنے سے تمام سال گھر میں بر کتیں اور ہر طرح کا امن رہتا ہے۔ (رو ح البیان ، پ ۲۶ ، الفتح : تحت ۲۹ ، ج۹ ، ص ۵۷ ملخصا) اس کا بہت تجربہ کیا گیا ہے اور گیارہویں، بارہویں تاریخوں کی درمیانی رات کو تمام رات جاگے اس رات میں غسل کرے ، نئے کپڑے بدلے ، خوشبو لگائے ، ولادت پاک کی خوشی کرے اور بالکل ٹھیک صبح صادق کے وقت قیام اور سلام کرے ۔ ان شاء اللہ عزوجل!جو بھی نیک دعا مانگے قبول ہوگی۔ بہت ہی مجرب ہے ۔ اعتقاد شرط ہے ۔ لادوامریض اوربہت مصیبت زدوں پر آزما یا گیا ، درست پایا مگر قیام اور سلام کا وقت نہایت صحیح ہو ۔ ربیع الآخر کی گیارہویں شریف: اس مہینہ میں ہر مسلمان اپنے گھر میں حضور غوث پاک سر کا ر بغدادرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاتحہ کرے ۔ سال بھر تک بہت بر کت رہے گی اگر ہرچاندکی گیارہویں شب کو یعنی دسویں او رگیارہویں تا ریخ کی درمیانی رات کو مقرر پیسو ں کی شیرینی مسلمان کی دکان سے خر ید کرپا بندی سے گیارہویں کی فا تحہ دیا کرے تو رزق میں بہت ہی بر کت ہوگی اوران شاء اللہ تعالیٰ کبھی پر یشان حال نہ ہوگا مگر شر ط یہ ہے کہ کوئی تا ریخ ناغہ نہ کرے اور جتنے پیسے مقر ر کردے اس میں کمی نہ ہو اتنے ہی پیسے مقر ر کرے جتنے کی پابندی کرسکے ۔ خود میں اس کا سختی سے پابند ہو ں اور بفضلہ تعالیٰ اس کی خوبیاں بے شمار پاتا ہوں وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ رجب: رجب کے مہینے میں تیر ہویں ، چودھویں اور پندرھویں تا ریخ کو رو زے رکھے اس کو ہزاری رو زہ کہتے ہیں کیونکہ ان رو زوں کا ثواب مشہور یہ ہے کہ ایک ہزار روزوں کے برابر ہے ۔ بائیسویں رجب کو امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فا تحہ کر ے ، بہت اڑی ہوئی مصیبتیں جاتی ہیں۔ ستا ئیسویں رجب کو معراج النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں جلسے کریں ، خوشیاں منائیں رات کو جاگ کر نوافل پڑھیں، پنجاب میں رجب کے مہینہ میں زکوٰۃ نکالتے ہیں لیکن ضروری یہ ہے کہ جب مال کا سال پورا ہوجائے فوراً زکوٰۃ نکال دے رجب کا انتظار نہ کرے ہاں سال پورا ہوجانے سے پہلے بھی نکال سکتا ہے اور اگر رمضان میں زکوٰۃ نکالے تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ رمضان میں نیک کاموں کا ثواب زیادہ ہے ۔ شعبان، شب برأت: اس مہینہ کی پندرھویں رات جس کو شب ِبرأت کہتے ہیں بہت مبارک رات ہے ۔ اس رات میں قبر ستان جانا ، وہاں فاتحہ پڑھنا سنت ہے ، اسی طر ح بزرگان دین کے مزارات پر حاضر ہونا بھی ثواب ہے اگر ہو سکے تو چودھویں اور پندرھویں تا ریخ کو رو زے رکھے ۔ پندرھویں تا ریخ کو حلوہ وغیرہ بزرگان دین کی فاتحہ پڑھ کر صدقہ وخیرات کرے اور پندرھویں رات کو ساری رات جاگ کر نفل پڑھے اور اس رات کو ہر مسلمان ایک دوسرے سے اپنے قصور معا ف کرالیں، قرض وغیرہ ادا کریں کیونکہ بغض والے مسلمان کی دعا قبول نہیں ہوتی اور بہتر یہ ہے کہ سو رکعت نفل پڑھے دو دو رکعت کی نیت باندھے اور ہر رکعت میں ایک ایک با رسورہ فا تحہ پڑھے گیارہ گیارہ مرتبہ'' قُلْ ھُوَاللہُ اَحَدٌ''پڑھے تو رب تعالیٰ اس کی تمام حاجتیں پوری فرمادے اور اس کے گناہ معاف فرمادے۔ ( رو ح البیان ، پ ۲۵، الدخان: تحت ۳ ، ج ۸ ،ص ۴۰۳) اور اگرتمام رات نہ جاگ سکے تو جس قدر ہو سکے عبادت کرے اور زیاراتِقبور کرے (عورتوں کو قبرستان جانا منع ہے) لہٰذا وہ صرف نوافل اور روزے ادا کریں۔ اگر اس رات کو سات پتے بیری کے پانی میں جوش دے کر غسل کرے تو ان شاء اللہ العزیز تمام سال جادو کے اثر سے محفو ظ رہے گا ۔ ماہ رمضان: یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس کا ہرہرمنٹ بر کتوں سے بھرا ہے اس میں ہر وقت عبادت کی جاتی ہے ، دن کو رو زہ اور تلاوت قرآن پاک اور رات تر وایح اور سحری میں گزرتی ہے ۔ مگر اس ماہ میں ایک رات بڑی ہی مبارک ہے ۔دن تو جمعۃ الوداع کا دن اور رات ستائیسویں رات ، اس کے کچھ عمل بتائے جاتے ہیں ۔ رمضان شریف کی ستا ئیسویں رات غالبا ًشب قدر ہے ۔اس رات کو جاگ کر گزارے اگر تمام رات نہ جاگ سکے تو سحری کھا کر نہ سوئے اور یہ دعا زیادہ مانگے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْعَفْوَ وَ الْعَا فِیَۃَ فِی الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا وَالْاٰ خِرَۃِ اور اگر ہو سکے تو سورکعت نفل دودو کی نیت سے پڑھے اور ہررکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد اِنَّااَنْزَلْنَاہ، فِیْ لَیْلَۃِالْقَدْرِ(الخ)ایک بار اور '' قُلْ ھُوَاللہُ اَحَد'' تین تین بار پڑھ لے اور ہر سلام پر کم از کم دس دس باردرود شریف پڑھتا جائے اور بہتر یہ ہے کہ اسی ستا ئیسویں شب کو تراویح کا ختم قرآن بھی کیا جائے ۔ ( رو ح البیان ، پ ۳۰ ، القدر : تحت ۳ ، ج ۸ ، ص ۴۰۳) جمعۃ الواداع میں نماز قضا عمری پڑھے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جمعۃ الوداع کے دن ظہر وعصر کے درمیان بار ہ رکعت نفل دو دو رکعت کی نیت سے پڑھے اور ہررکعت میں سورہ فاتحہ کے بعدا یک بار آیت الکرسی اور تین بار ''قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ'' اور ایک ایک بار فلق اور ناس پڑھے ۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جس قد ر نمازیں اس نے قضا کر کے پڑھی ہوں گی ۔ ان کے قضا کرنے کا گناہ إن شاءاللہ عزّوجلّ! معا ف ہوجائے گا۔یہ نہیں کہ قضا نمازیں اس سے معاف ہوجائیں گی وہ تو پڑھنے سے ہی ادا ہوں گی ۔ عید بقرعید کی راتوں میں عبادت کرنا ثواب ہے ۔ (بحوالہ اسلامی زندگی)
  11. اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ؕ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ؕ نیکی کی دعوت کا بیان اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کُنۡتُمْ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالْمَعْرُوۡفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنۡکَرِ وَتُؤْمِنُوۡنَ بِاللہِ ؕ ترجمہ کنزالایمان: تم بہتر ہو ان سب امتوں میں(۱)جولوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کاحکم دیتے ہواور برائی سے منع کرتے ہو(۲)اور اللہ پرایمان رکھتے ہو۔(پ۴،اٰل عمرٰن:۱۱۰) تفسیر: (۱)خیال رہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی امت تمام امتوں سے افضل ہے ۔ بنی اسرائیل کا عالمین سے افضل ہونا اس وقت ہی تھا ۔ مگر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی امت کا افضل ہونا دائمی ہے جیسا کہ کُنْتُمْ سے معلوم ہوا ۔یہ بھی معلوم ہواکہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی امت تمام عالم کی استاذہے۔ (۲)اس سے معلوم ہوا کہ ہرمسلمان مبلغ ہوناچاہے۔ جو مسئلہ معلوم ہو دوسرے کو بتائے اور خود اس کی اپنے عمل سے تبلیغ کرے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور کا ماننا اللہ کا ماننا ہے حضو رصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا منکر رب عزوجل کا منکر ہے۔ اس لیے فرمایا کہ تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔(تفسیر نور العرفان) نمازکی اہميت اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَارْکَعُوۡا مَعَ الرَّاکِعِیۡنَ ﴿۴۳ ترجمہ کنزالایمان: اور نماز قائم رکھو(۱) اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔(۲)(پ۱،البقرۃ:۴۳) تفسير: (۱) اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے ايک يہ کہ نماز زکوۃ سے افضل اور مقدم ہے ۔ دوسرا يہ کہ نماز پڑھناکمال نہيں نماز قائم کرنا کمال ہے۔ تيسرا يہ کہ انسان کو جانی،مالی ہر قسم کی نيکی کرنی چاہے۔ (۲) اس سے معلوم ہوا کہ جماعت سے نماز پڑھنا بہت بہترہے۔ اشارۃً يہ بھی معلوم ہوا کہ رکوع ميں شامل ہو جانے سے رکعت مل جاتی ہے۔جماعت کی نماز ميں اگر ايک کی قبول ہو جائے تو سب کی قبول ہو جاتی ہے۔ (تفسير نورالعرفان) علم دين کی اہميت اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے اَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیۡلِ سَاجِدًا وَّ قَآئِمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَ یَرْجُوۡا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ ؕ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیۡنَ یَعْلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعْلَمُوۡنَ ؕ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ ٪﴿۹﴾ ترجمہ کنزالایمان: کيا وہ جسے فرمانبرداری ميں رات کی گھڑيا ں گزريں(۱) سجود ميں اور قيا م ميں ۔آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت کی آس لگائے۔ کيا وہ نافرمانوں جيسا ہو جائے گا تم فرماؤ کيا برابر ہيں جاننے والے اور انجان نصيحت تو وہی مانتے ہيں(۲) جو عقل والے ہيں(۳)۔(پ۲۳، الزمر: ۹) تفسير: (۱) اس سے نمازِ تہجد کی افضليت معلوم ہوئی يہ بھی معلوم ہوا کہ نماز ميں قيا م اور سجدہ اعلیٰ درجہ کے رکن ہيں يہ بھی معلوم ہوا کہ نمازی اور پرہيزگار کو رب عزوجل سے خوف ضرور چاہے۔ اپنی عبادت پر نازاں نہ ہو، ڈرتا رہے (شانِ نزول) يہ آيت کريمہ حضرت سیدنا ابوبکر صديق و حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے حق ميں نازل ہوئی۔ بعض نے فرمايا کہ عثمانِ غنی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کے حق ميں نازل ہوئی جو نمازِ تہجد کے بہت پابند تھے۔ اور اس وقت اپنے کسی خادم کو بیدار نہ کرتے تھے ۔سب کام اپنے دستِ مبارک سے سر انجام ديتے تھے۔ (۲) معلوم ہوا کہ عابد سے عالمِ دين افضل ہے، ملائکہ عابد تھے اور آدم عليہ السلام عالم۔ عابدوں کو عالم کے سامنے جھکايا گيا ، يہاں مطلقاً ارشاد ہوا کہ عالم غيرِ عالم سے افضل ہے، غيرِ عالم خواہ عابد ہو يا غير عابد، بہرحال اس سے عالم افضل ہے۔ خيا ل رہے کہ عالم سے مراد عالم دين ہيں۔ انہيں کے فضائل قرآن و حديث ميں وارد ہوئے۔ اسی لئے حضرت سیدتنا عائشہ صديقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تمام ازواج مطہرات بلکہ تمام جہان کی بيبيوں سے افضل ہيں کہ بڑی عالمہ ہيں۔ (۳) اس ميں اشارۃً فرمايا گيا کہ عاقل وہی ہے جو انبيا ء کی تعليم سے فائدہ اٹھائے جو علم و عقل حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے قدم شريف پر نہ جھکائے وہ جہالت اور بيوقوفی ہے۔ (تفسير نورالعرفان)
  12. آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت بہت شکریہ سید محمد علی بھائی حوصلہ افزائی کا ، جزاک اللہ خیرا
  13. خلافت اور جمہوریت جب کسی کو خلافت کے حق میں، جمہوریت کی مخالفت کرتے ہوئے اور اسی طرح جمہوریت کے حق میں، خلافت کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو حیرانی ہوتی ہے۔ حیرانی اس لئے ہوتی ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ دونوں (خلافت اور جمہوریت) ایک دوسرے سے ملتے جلتے طرزِ حکومت ہیں اور دونوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ اگر کہیں فرق ہے تو دونوں کے ناموں میں، دونوں کے حامیوں کی ایک دوسرے کی مخالفت میں اور اپنی اپنی عینک لگا کر دونوں نظاموں کو دیکھنے والوں کی سوچ میں۔ کئی مسلمان اور اسی طرح کئی مغرب کے دلدادہ بھی ان ملتے جلتے نظاموں کو اپنے اپنے نام دیتے ہیں اور ایک دوسرے کی مخالفت میں دوسرے کے نظام کی بھی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق خلافت ایک جمہوری طریقہ ہے۔ سب سے پہلے یہ بات میں ذہن میں رکھیں کہ عام طور پر جمہوریت کی تین اقسام (بلاواسطہ، نمائندگانی اور آئینی جمہوریت) ہیں۔ فی الحال ان اقسام کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا، کیونکہ یہاں اس کی ضرورت نہیں۔ جمہوریت کے تحت اس وقت دنیا میں کئی قسم کے طرزِ حکومت چل رہے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال صدارتی اور پارلیمانی نظام وغیرہ ہیں۔ تھوڑا سا غور کیجئے کہ جمہوریت میں صدر یا وزیراعظم یا دونوں ہوتے ہیں۔ جنہیں پارلیمنٹ یا قومی اسمبلی کے نمائندگان منتخب کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح خلافت میں خلیفہ ہوتا ہے، جس کو مجلس شوریٰ منتخب کرتی ہے۔ غور کریں! یہاں تک فرق صرف اپنے اپنے رکھے ہوئے ناموں کا ہے۔ کوئی اسے قومی اسمبلی کہتا ہے تو کوئی مجلس شوری کہتا ہے جبکہ صدر، وزیراعظم یا خلیفہ کو چند ”بڑے لوگوں“ کا ایک گروہ ہی منتخب کرتا ہے۔ یہاں سے ایک قدم آگے چلیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی یا مجلس شوری کن لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے؟ جمہوریت والے کہتے ہیں قومی اسمبلی کے نمائندے عوام منتخب کرتے ہیں جبکہ خلافت والے کہتے ہیں کہ مجلس شوری پرہیزگار، اچھے، ایماندار، معزز اور صاحب رائے وغیرہ لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہاں قومی اسمبلی والا کھاتا تو صاف ہوا کہ انہیں عوام منتخب کرتے ہیں، مگر مجلس شوری والے معتبر اور صاحب رائے لوگوں کے معاملے پر شاید کچھ لوگ غور نہیں کرتے کہ یہ ”معتبر“ کی وضاحت کون کرے گا اور یہ کیسے منتخب ہوں گے۔ خیال رہے یہاں معتبر ایسے بندے کو کہا جا رہا ہے جس میں مجلس شوری کا رکن ہونے والی خصوصیات ہوں یعنی اچھا اور معزز بندہ۔ خیر معتبر ہونا کوئی ”راکٹ سائنس“ نہیں کہ جیسے تیسے کہیں سے حاصل کر لی اور اپنے نام کے ساتھ لکھ دیا جی کہ میں معتبر/اچھا بندہ ہوں۔ تھوڑا سا غور کریں کہ کوئی اپنے اچھے کاموں کے بعد اچھا تب ہی کہلاتا ہے جب لوگ اس کی اچھائی کی گواہی دیں۔ آپ کو اس بات پر حیرانی تو ہو گی مگر غور کریں کہ انسانوں کی گواہی پر ہی کسی کا مجرم ہونا ثابت ہوتا ہے اور مجرم کو سزا انہیں گواہیوں کی بنا پر دی جاتی ہے۔ اللہ کے نزدیک کسی کے تقویٰ کا کیا معیار ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے اور اس کا فیصلہ انسان کے بس میں نہیں۔ یہاں میں معاشرے میں کسی انسان کے معیار کی بات کر رہا ہوں۔ کوئی انسان لاکھ اچھا ہو مگر عام طور پر اس کی معاشرے میں اچھائی بھی دوسرے انسانوں کی اس کے متعلق رائے سے ہی ثابت ہوتی ہے۔ اب ایسا تو نہیں ہو سکتا ہے کہ لوگ گواہی دیں کہ زید برا انسان ہے مگر زید خود کہے کہ میں اچھا ہوں تو اسے معتبر مان لیا جائے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ لوگ جس کو اپنا معتبر بنائیں وہی اس معاشرے میں معتبر ہو گا۔ یوں ایک طرف قومی اسمبلی عوام منتخب کرتے ہیں تو دوسری طرف میرے خیال مجلس شوری بھی عوام ہی منتخب کریں گے۔ بس پرانے زمانے میں زبانی زبانی کسی کے معزز ہونے کا اعتراف ہو جاتا تھا یعنی کسی کی اچھائی کے بارے میں عوام میں ایک رائے قائم ہو جاتی تھی اور وہ بندہ معزز قرار پاتا تھا جبکہ آج حالات ایسے ہیں کہ عوام میں کسی کی اچھائی کی صرف مشہوری سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس کے لئے تحریری رائے درکار ہے۔ لہٰذا پرانا طریقہ کارآمد نہیں رہا تو تحریری ووٹ کے ذریعے کسی کی اچھائی/معتبری کی گواہی لی جاتی ہے۔ یہ تو عوام پر ہے کہ وہ چور ڈاکو کو معتبر بناتی ہے یا اچھے لوگوں کو۔ آسان الفاظ میں یہ کہ کوئی خود سے معتبر نہیں ہوتا بلکہ لوگوں کی رائے (ووٹ) سے ہی کوئی معتبر بنتا ہے۔ جو بھی ہو لیکن عوام کی رائے سے ہی سب کچھ ہو گا۔ لوگوں کی رائے سے منتخب ہونے والے کو معتبر کہو یا عوام کا نمائندہ، معتبر لوگوں کی مجلس شوری بناؤ یا نمائندوں کی قومی اسمبلی، مجلس شوری خلیفہ منتخب کرے یا قومی اسمبلی وزیر اعظم، بات ایک ہی ہے بس ہر کسی نے اپنا اپنا نام دے رکھا ہے۔ کئی لوگ خلافت کا مطلب صرف یہ لیتے ہیں کہ پوری امت مسلمہ کا ایک خلیفہ ہونا چاہئے۔ جی بالکل ہونا چاہئے۔ مغرب والے یورپی یونین بنا سکتے ہیں تو مسلمان متحد ہو کر خلافت کیوں نہیں بنا سکتے۔ مگر ٹھہرو! پہلے یہ بات تو سمجھ لو کہ خلیفہ جمہوری طریقے سے ہی بنے گا۔ پہلے جمہوریت کے ذریعے ہر ہر مسلمان ملک میں معتبر لوگ چن کر ان معتبر لوگوں کی مجلس شوری بنے گی، پھر ہر ملک کی معتبر لوگوں کی مجلس شوری اپنے ملک کا خلیفہ چنے گی، پھر تمام ممالک کے خلفاء کی ایک مجلس شوری ہو گی اور یہ خلفاء کی مجلس شوری ایک ”خلیفہ اعظم“ چنے گی۔ خدا کے بندو! میری رائے یہ ہے کہ پہلے نظام کو سمجھیں پھر خلافت کے حق میں اور جمہوریت کی مخالفت میں بولیں۔ اسی طرح مغرب کے دلدادہ جو بغیر سوچے سمجھے جمہوریت جمہوریت کرتے ہوئے خلافت کی مخالفت کرتے ہیں، پہلے وہ خلافت کو تو سمجھیں۔ میرے خیال میں خلافت ایک جمہوری طریقہ ہے۔ کہتے ہیں کہ خلافت میں اسلامی قانون رائج ہوتا ہے اور خلیفہ اللہ کو جواب دہ ہوتا ہے۔ جبکہ جمہوریت میں عوام کی اکثریت کی مرضی کا قانون رائج ہوتا ہے اور صدر یا وزیراعظم عوام کو جوابدہ ہوتا ہے۔ میں یہ بات تو تفصیل سے کر چکا ہوں کہ خلافت ایک جمہوری طریقہ ہے۔ اب اس قانون کی بات یوں سمجھیں کہ جب عوام مسلمان ہو گی تو ظاہر ہے کہ وہ اسلامی قانون رائج کرنے کے حق میں ہو گی تو ایسے بندے کو منتخب کرے گی جو اسلامی قانون رائج کرے گا، بالکل اسی طرح اگر عوام اسلامی قانون کے حق میں نہیں ہو گی تو اسلامی قانون رائج نہیں ہو گا بلکہ جو عوام کہے گی وہی قانون ہو گا۔ رہی بات اللہ یا عوام کو جوابدہ کی تو ایک اچھا مسلمان ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ وہ عوام کے ساتھ ساتھ اللہ کو بھی جوابدہ ہے۔ اب کئی لوگوں کو عوام کو جوابدہ ہونے پر اعتراض ہو گا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ والا وہ واقعہ یاد کریں جس میں ایک بندے نے خلیفہ وقت سے فقط اک کپڑے کے ٹکڑے کا جواب مانگ لیا تھا۔ آسان الفاظ میں یہ کہ طریقہ جمہوری ہی ہو گا۔ اب ملک مسلمانوں کا ہوا تو خودبخود اسلامی قانون رائج ہو جائے گا اور اگر غیرمسلموں کا ہے تو وہ اپنی مرضی کا قانون رائج کر لیں گے۔ اگر حکمران (خلیفہ یا صدر وغیرہ) مسلمان ہو گا تو وہ اللہ کو جوابدہ ہو گا اور اگر حکمران غیر مسلم ہوا تو اس کی مرضی۔ اسلام کے اولین دور (خلافت راشدہ) کے مسلمان کسی کو تاحیات خلیفہ بنانے پر راضی تھے تو انہوں نے تاحیات بنا لیا۔ آج کے مسلمان اگر تاحیات کی بجائے خاص عرصے کے لئے بنانا چاہتے ہیں تو میرے خیال میں اس میں کوئی حرج والی بات نہیں اور جہاں تک مجھے معلوم ہے اسلام میں اس چیز کی کوئی پابندی نہیں۔ میری معلومات کے مطابق اسلام نے خلافت (طرزِحکومت) کے معاملے میں ”جرنل“ اصول واضح کیے ہیں اور باقی مسلمانوں پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ حالات کے مطابق اصول بنا لیں کہ آیا خلیفہ تاحیات ہو گا یا خاص عرصے کے لئے، آیا رائے (ووٹ) زبانی لینا ہے یا تحریری صورت میں، آیا اٹھارہ سال والا رائے دے سکتا ہے یا بیس اکیس سال والا، آیا ہر کوئی ووٹ دے سکتا ہے یا صرف پڑھے لکھے لوگ، آیا ایک ان پڑھ اور پڑھے لکھے کی رائے برابر ہے یا پھر کچھ ”پوائنٹس“ کا فرق ہے وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال عوام کی رائے تو لینی ہی پڑے گی، ورنہ خلافت بادشاہت بن جائے گی۔ دوستو! جہاں تک مجھے معلوم ہے اس کے مطابق مسلمانوں کا نظام خلافت سیدھا سیدھا جمہوری ہے اور اسلام میں بادشاہت یا ”ڈکٹیٹر“ کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ موجودہ جمہوریت کی کونسی قسم، خلافت کے قریب ترین ہیں، یا موجودہ جمہوریت کی نوک پلک سنوارنے کی ضرورت ہے۔ لیکن میری معلومات کے مطابق خلافت جمہوری طریقہ ہی ہے۔ جس میں عوام اچھے اور ایماندار لوگوں کو منتخب کر کے مجلس شوری بناتی ہے، پھر مجلس شوری خلیفہ منتخب کرتی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ بدعنوانی عروج پر ہے اور عوام اس سے تنگ ہیں تو اس نظامِ جمہوریت کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ بدعنوان حکمران منتخب کون کرتا ہے؟ کیا وہ عوام سے منتخب ہو کر نہیں جاتے؟ دوستو! گو کہ خلافت بھی ایک جمہوری طریقہ ہے لیکن ہم اسے علیحدہ علیحدہ بھی کر لیں تب بھی جب تک عوام ٹھیک نہیں ہو گی، کچھ بھی نہیں بدلے گا کیونکہ جیسی عوام ویسے حکمران۔ مزید ایک جمہوری طریقے کو خلافت کہو یا کوئی اور نظام کہو، معتبر لوگوں کے گروہ کو مجلس شوری کہو یا قومی اسمبلی، حاکم وقت کو خلیفہ کہو یا صدر کہو، ان ناموں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، تبدیلی تو تب آئے گی جب عوام کسی ”بندے کے پتر“ کو منتخب کرے گی۔ نوٹ:- اس تحریر میں یہ بحث نہیں کہ خلیفہ یا صدر وغیرہ کا کردار کیسا ہونا چاہئے یا اسے کیسے کام کرنا چاہئے، یہ بھی بحث نہیں کہ خلافت یا جمہوریت اچھی ہے یا بری بلکہ بحث اس چیز کی ہے کہ خلیفہ یا صدر وغیرہ بنانے کا طریقہ کیا ہوتا ہے یعنی آیا وہ جمہوری طریقے سے منتخب ہوتا ہے یا کسی دوسرے طریقے سے؟ اب ایک نظر ”خلفاء راشدین کیسے منتخب ہوئے“ پر بھی ہو جائے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اسلام خلیفہ مقرر کرنے کا کیا طریقہ بتاتا ہے۔ خلفاء راشدین کیسے منتخب ہوئے ہمارے ہاں اکثر کہا جاتا ہے کہ اسلامی نظام نافذ ہونا چاہئے۔ جی بالکل ہونا چاہئے، میں بھی اس کے حق میں ہوں لیکن جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ اسلامی نظام کیسے نافذ ہو گا؟ تو جواب میں خلافت راشدہ کا حوالہ ملتا ہے۔ بے شک خلفاء راشدین عظیم لوگ تھے اور ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ اسی لیے اس تحریر میں خلفاء راشدین منتخب ہونے کا مختصر جائزہ پیش کر رہا ہوں۔ باقی فیصلہ آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے کہ خلفاء راشدین مقرر ہونے کے طریقوں میں کونسی بات، کونسی چیز مشترک تھی؟ خلفاء راشدین اور تب کے دیگر مسلمان، خلیفہ منتخب کرنے میں کس چیز کو خاص طور پر مدِنظر رکھتے تھے؟ خلفاء راشدین مقرر ہونے کے طریقوں میں سے آج کے دور میں خلیفہ مقرر کرنے کے لئے کونسا طریقہ اپنایا جا سکتا ہے یا کونسا طریقہ مناسب رہے گا؟ خود تحقیق کریں اور جانیں کہ خلیفہ مقرر ہونے کے طریقے میں وہ کونسا بنیادی اصول تھا، جس کو اس وقت کے مسلمان سب سے زیادہ ترجیح دیتے تھے اور وہ کونسی بات تھی جو خلافت کو بادشاہت سے ممتاز کرتی تھی؟ سب سے اہم بات کہ اسلام نے خلیفہ منتخب کرنے کا اختیار کس کو دیا ہے؟ اس تحریر کو دو طرح پیش کر رہا ہوں۔ ایک یہ: جو کہ آپ پڑھ رہے ہیں۔ یہ تفصیلی (مگر مختصر) جائزہ بمعہ حوالہ جات ہے۔ ویسے تو یہ حصہ بھی زیادہ لمبا نہیں۔ لیکن پھر بھی اگر کسی کے پاس وقت بہت کم ہے تو اس کے لئے علیحدہ خلاصہ لکھ دیا ہے۔ ایک بات واضح کر دوں: ہو سکتا ہے کہ میری تحقیق میں کوئی کمی رہ گئی ہو، اس لئے اگر کہیں آپ کو لگے کہ میں غلطی کر رہا ہوں تو اس کی نشاندہی ضرور کیجئے۔ اس کے علاوہ جو باتیں لکھ رہا ہوں وہ سب جن کتب سے مجھے معلوم ہوئی تھیں، ساتھ میں ان کتب کا حوالہ بھی لکھ رہا ہوں۔ اب اگر تاریخی یا دیگر باتوں میں کہیں کوئی غلطی ہے تو اس کی ساری ذمہ داری ان کتب پر ہے جن ذریعے ہم تک یہ باتیں پہنچی۔ اسلام (قرآن و حدیث) میں ہمیں امیر (خلیفہ) کے اوصاف، اس کے کردار، مسلمانوں کو امیر کی اطاعت اور نافرمانی کرنے[سورۃ النساء آیت 5 اور 59۔ سورۃ الکہف آیت 28۔ سورۃ الشعراء آیت 151-152 ] وغیرہ کے بارے میں تو ملتا ہے لیکن امیر مقرر کرنے کا ”طریقہ کار“ نہیں ملتا۔ میرے حساب سے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے بتا دیا ہے کہ فلاں فلاں خصوصیات کے حامل کو اپنا امیر مقرر کرو جبکہ امیر مقرر کرنے کا طریقہ مسلمانوں پر چھوڑ دیا ہے یعنی مسلمان حالات کے مطابق، باہمی مشاورت سے اپنا امیر مقرر کر لیں۔ مسلمانوں کا باہمی مشاورت سے کام کاج کرنے کا ذکر قرآن میں ملتا ہے۔[سورۃ الشوریٰ آیت 38۔سورۃ آل عمران آیت 159] ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ نے اپنی زندگی میں اپنا کوئی جانشین یا اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا[صحیح بخاری: کتاب: احکام کا بیان۔ صحیح مسلم: کتاب: امارت و خلافت کا بیان۔ (ایزی قرآن و حدیث سافٹ ویئر 4.0 کے مطابق:- حدیث نمبر 6975، 12013، 12014) ]۔ البتہ مختلف واقعات جیسے رسول اللہﷺ کی بیماری کے دنوں میں نماز کی امامت کے لئے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو حکم دینا[صحیح بخاری: کتاب: اذان کا بیان۔ صحیح مسلم: کتاب: نماز کا بیان۔ (ایزی قرآن و حدیث سافٹ ویئر 4.0 کے مطابق:- حدیث نمبر 637، 650 تا 656، 8241، 8242، 8249) ]۔اس کے علاوہ 9 ہجری میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اپنے قائم مقام کی حیثیت سے امیر الحج بنا کر بھیجنا[صحیح بخاری: کتاب: حج کا بیان۔ (ایزی قرآن و حدیث سافٹ ویئر 4.0 کے مطابق:- حدیث نمبر366، 1557) ] اور اسی طرح چند ایک دیگر واقعات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ رسول اللہﷺ کی نظر میں آپﷺ کی غیر موجودگی میں مسلمانوں کے امیر حضرت ابوبکرصدیقؓ کو ہونا چاہئے۔ بعض جگہ یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ رسول اللہﷺ کو ڈر تھا کہ میرے بعد کئی لوگ خلافت کی آرزو کریں گے اور کہنے والے یہ بھی کہیں گے کہ میں خلافت کا زیادہ حق دار ہوں، اس لئے آپﷺ ابوبکرصدیقؓ کو اپنا جانشین بنانا تو چاہتے تھے لیکن مقرر نہیں کیا تھا[صحیح بخاری: کتاب: بیماریوں کا بیان۔ صحیح مسلم: کتاب: فضائل کا بیان۔ (ایزی قرآن و حدیث سافٹ ویئر 4.0 کے مطابق:- حدیث نمبر5494، 13477) ]۔ حضورﷺ کو خلافت کے متعلق لوگوں کی آرزو اور لوگوں کا اپنے آپ کو زیادہ حق دار سمجھنے کا ڈر ہونے کے باوجود بھی جانشین یا خلیفہ نامزد نہ کرنا، کچھ اور واضح کرتا ہے یا نہیں لیکن میرے خیال میں یہ صاف واضح کرتا ہے کہ آپﷺ نے خلیفہ بنانے کا اختیار آنے والے وقت اور مسلمانوں پر چھوڑ دیا تھا۔ اگر آپﷺ خلیفہ مقرر کر جاتے تو پھر وہ حدیث ہو جاتی اور مسلمانوں کا خلیفہ بنانے کا وہی طریقہ ہوتا یعنی پچھلا خلیفہ اگلا خلیفہ مقرر کر جائے جبکہ آپﷺ نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا۔ آپ خود سوچیں کہ اگر خلیفہ مقرر کرنے کا اختیار مسلمانوں کے پاس نہ ہوتا یا اس کا کوئی دوسرا خاص طریقہ ہوتا تو کم از کم خلفاء راشدین ضرور اس خاص طریقے سے خلیفہ مقرر ہوتے، جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ خلفاء راشدین مختلف حالات میں مختلف طریقوں سے مقرر ہوئے۔ آسان الفاظ میں یہ کہ خلیفہ مقرر کرنے کا اختیار اور طریقہ مسلمانوں پر چھوڑ دیا گیا، تاکہ مسلمان اپنے حالات کے مطابق باہمی مشاورت سے خلیفہ مقرر کر لیں۔ حضورﷺ کی وفات کے بعد صحابہؓ آپﷺ کی تجہیزوتکفین میں مصروف تھے تو انصار کے کچھ لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں امیر منتخب کرنے کے لئے جمع ہو گئے[صحیح بخاری: کتاب: انبیاء علیہ السلام کا بیان۔ (ایزی قرآن و حدیث سافٹ ویئر 4.0 کے مطابق:- حدیث نمبر 3523) ]۔ جب حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ بھی ادھر پہنچ گئے۔ امیر مقرر کرنے پر مشاورت شروع ہوئی اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ انصار میں سے کسی نے کہا کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک قریش میں سے۔ حالات کچھ ایسے بن گئے کہ اچانک حضرت عمرفاروقؓ نے خلیفہ کے لئے حضرت ابوبکرصدیقؓ کا نام تجویز کیا اور ان کی بیعت کر لی[صحیح بخاری: کتاب: جنگ کرنے کا بیان۔ (ایزی قرآن و حدیث سافٹ ویئر 4.0 کے مطابق:- حدیث نمبر6615) ]۔ اس کے بعد مدینے کے لوگوں(جو درحقیقت اُس وقت پورے ملک میں عملاً نمائندہ حیثیت رکھتے تھے[9])کی اکثریت نے اپنی خوشی سے حضرت ابوبکرصدیقؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اگرچہ مدتوں کے تجربے سے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ خلافت کا بارِگراں حضرت عمرؓ کے سوا اور کسی سے اٹھ نہیں سکتا۔ لہٰذا آپؓ نے حضرت عمرؓ کو نامزد کر دینے کا عزم کر لیا۔ اس نامزدگی سے متعلق آپ اکابر صحابہؓ کی رائے کا بھی اندازہ کرنا چاہتے تھے[10] تو اس سلسلے میں آپؓ نے کئی صحابہؓ سے مشورہ کیا اور پھر لوگوں کو جمع کر کے کہا ”کیا تم اُس شخص پر راضی ہو جسے میں اپنا جانشین بنا رہا ہوں؟ خدا کی قسم میں نے رائے قائم کرنے کے لیے اپنے ذہن پر زور ڈالنے میں کوئی کمی نہیں کی ہے اور اپنے کسی رشتہ دار کو نہیں بلکہ عمر بن الخطاب کو جانشین مقرر کیا ہے، لہٰذا تم ان کی سنو اور اطاعت کرو۔“ اس پر لوگوں نے کہا ”ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے“[11]۔ یوں اس طرح صحابہ اکرامؓ سے مشورہ کرنے اور دیگر لوگوں کا بھی اس پر متفق ہو جانے سے حضرت عمر فاروقؓ خلیفہ بنے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دورِخلافت کے آخری سال حج کے دنوں میں ایک شخص نے کہا کہ اگر عمر فاروقؓ کا انتقال ہوا تو میں فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا، کیونکہ ابوبکرصدیقؓ کی بیعت بھی تو اچانک ہی ہوئی تھی اور وہ کامیاب ہو گئی[8]۔ دراصل اچانک بیعت اور کامیاب ہونے سے اس شخص کی مراد وہ پرانا واقعہ تھا جس میں سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت عمرؓ نے اچانک حضرت ابوبکرؓ کا نام تجویز کیا تھا اور ہاتھ بڑھا کر فوراً بیعت کر لی تھی اور پھر وہ بیعت کامیاب ہوئی یعنی دیگر مسلمان بھی اس بیعت پر راضی ہو گئے۔ اس شخص کی بات کے جواب میں حضرت عمرؓ نے مسجد نبوی میں خلافت کے حوالے سے تاریخ ساز خطبہ دیا۔ جس میں انہوں نے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ تم میں سے کوئی کہتا ہے ”اگر عمر فاروقؓ مرجائیں تو میں فلاں کی بیعت کرلوں گا“۔ تمہیں کوئی شخص یہ کہہ کر دھوکہ نہ دے کہ ابوبکرؓ کی بیعت ہنگامی حالات میں ہوئی اور پھر کامیاب ہوگئی، سن لو کہ وہ ایسی ہی تھی لیکن اللہ نے اس (طرح کی) بیعت کے شر سے (امت کو) محفوظ رکھا۔ پھر تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جس میں ابوبکرؓ جیسی فضیلت ہو؟ جس سے ملنے کے لیے لوگ سفر کرتے ہوں۔۔۔ اس کے علاوہ اس خطبہ میں حضرت عمرؓ نے کہا کہ اب جس کسی نے مسلمانوں سے مشورے کے بغیر کسی کی بیعت کی تو بیعت کرنے والا اور جس کی بیعت کی گئی ہو دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے[8]۔ میرے خیال میں اس خطبے میں حضرت عمرؓ نے واضح کیا کہ بے شک حضرت ابوبکرؓ کی بیعت ہنگامی حالات میں اچانک ہوئی تھی اور کامیاب بھی ہوئی لیکن اس کو آئندہ کے لئے مثال نہیں بنایا جا سکتا۔ ویسے بھی حضرت ابوبکرؓ جیسی بلندوبالا اور مقبول شخصیت کا آدمی اور کون ہے؟ اگر کوئی حضرت ابوبکرؓ کی اچانک بیعت ہونے والے پہلو کو ثبوت کے طور پر پیش کر کے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر بیعت کرنا چاہے تو اس کے دھوکے میں نہ آنا بلکہ مسلمانوں کے مشورے سے بیعت کرنا۔ جب حضرت عمرؓ کو زخمی کیا گیا تو لوگوں نے آپؓ کو خلیفہ مقرر کرنے کا کہا تو آپؓ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت فرمائے گا اور اگر میں خلیفہ مقرر کروں تو مجھ سے بہتر و افضل حضرت ابوبکرؓ مقرر کر چکے ہیں اور اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر نہ کروں تو مجھ سے بہتروافضل رسول اللہﷺ نے بھی کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا[3]۔ عبداللہ بن عمرؓ نے کہتے ہیں کہ جب آپؓ نے رسول اللہﷺ کا ذکر کیا تو میں جان گیا کہ آپؓ کسی کو خلیفہ نامزد نہیں فرمائیں گے۔ جب حضرت عمرؓ آخری وصیتیں فرما رہے تھے تب لوگوں نے عرض کیا امیرالمومنین کسی کو خلیفہ بنا دیں حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرے نزدیک ان لوگوں سے زیادہ کوئی خلافت کا مستحق نہیں ہے جن سے رسول اللہﷺ انتقال کے وقت راضی تھے پھر آپ نے حضرت علیؓ، عثمانؓ، زبیرؓ، طلحہؓ، سعدؓ، عبدالرحمنؓ بن عوف کا نام لیا اور فرمایا کہ عبد اللہ بن عمرؓ تمہارے پاس حاضر رہا کریں گے مگر خلافت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ آپ نے یہ جملہ ابن عمرؓ کی تسلی کے لیے کہا۔ پھر حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد وہ لوگ جو حضرت عمرؓ کی نظر میں خلافت کے مستحق تھے جمع ہوئے۔ ان چھ صحابہ نے اتفاق رائے سے اپنے میں سے تین لوگ منتخب کر لیے۔ پھر ان تینوں نے اتفاق رائے سے خلیفہ تجویز کرنے کا اختیار عبدالرحمٰنؓ بن عوف کو دے دیا۔ عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے بہت سوچ بچار، عام لوگوں کا رحجان کس طرف ہے اور کئی صحابہ اکرامؓ سے مشورہ کرنے کے بعد عثمان غنیؓ کو خلیفہ منتخب کیا[صحیح بخاری: کتاب: انبیاء علیہ السلام کا بیان اور کتاب: احکام کا بیان۔ (ایزی قرآن و حدیث سافٹ ویئر 4.0 کے مطابق:- حدیث نمبر3553اور 6964) ]۔ کہا جاتا ہے کہ خلیفہ مقرر کرنے کے لئے عبدالرحمٰنؓ بن عوف اکابر سے بھی مشورہ کرتے اور ان کے پیروکاروں سے بھی۔ اجتماعاً بھی اور متفرق طور پر بھی۔ اکیلے اکیلے سے بھی اور دو دو سے بھی۔ خفیہ بھی اور اعلانیہ بھی، حتی کہ پردہ نشین عورتوں سے بھی مشورہ کیا۔ مدرسے کے طالب علموں سے بھی اور مدینہ کی طرف آنے والے سواروں سے بھی(حج سے واپس گزرتے ہوئے قافلوں سے بھی دریافت کیا[13])، بدووں سے بھی جنہیں وہ مناسب سمجھتے۔ تین دن اور تین راتیں یہ مشورہ جاری رہا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ ان تین دن اور تین راتوں میں بہت کم سوئے۔ وہ اکثر نماز، دعا، استخارہ اور ان لوگوں سے مشورہ میں وقت گزارتے تھے جن کو وہ مشورہ کا اہل سمجھتے[14]۔ آخر اس استصوابِ عام سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اکثر لوگ حضرت عثمانؓ کے حق میں ہیں[13]۔ جہاں تک میری معلومات ہے اس کے مطابق حضرت عثمانؓ نے بھی اپنا کوئی جانشین مقرر نہیں کیا تھا۔ لیکن ایک جگہ پر یہ پڑھنے کو ملا کہ حضرت عثمانؓ نے اپنے بعد خلافت عبدالرحمٰنؓ بن عوف کے لئے لکھ کر اپنے منشی کے پاس وہ کاغذ رکھوا دیا تھا۔ مگر حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف ان کی زندگی میں ہی 32ھ میں انتقال کر گئے[15]۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت 35ھ میں ہوئی جبکہ حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف تین سال قبل 32ھ میں انتقال کر گئے تو پھر اگر حضرت عثمانؓ اپنا جانشین مقرر کرنا چاہتے تھے تو انہوں نے ان تین سالوں میں کسی دوسرے کو جانشین مقرر کیوں نہ کیا؟ خیر اس کے علاوہ صحیح بخاری میں ذکر ملتا ہے کہ جب حضرت عثمانؓ کو اتنی نکسیر پھوٹی کہ آپؓ کو حج سے رکنا پڑا اور وصیت بھی کر دی تھی کہ ایک قریشی نے آپ کے پاس جا کر عرض کیا کہ کسی کو خلیفہ مقرر کر دیجئے۔ حضرت عثمانؓ نے پوچھا کیا لوگ خلیفہ مقرر کرنے کو کہتے ہیں؟ اس نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا کس کو؟ وہ خاموش رہا پھر ایک اور شخص آپؓ کے پاس آیا اس نے کہا کسی کو خلیفہ بنائیے۔ آپؓ نے اس سے بھی پوچھا کیا لوگ خلیفہ مقرر کرنے کو کہتے ہیں؟ اس نے کہا ہاں۔ آپؓ نے اس سے بھی فرمایا کس کو؟ شاید وہ بھی تھوڑی دیر خاموش رہا پھر کہنے لگا شاید لوگوں کی رائے ہے زبیر کو خلیفہ بنایا جائے تو حضرت عثمانؓ نے فرمایا! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میرے علم میں زبیر سب سے بہتر ہیں یقیناً وہ سرور عالمﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ اس سے اگلی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے تین بار یہ بات دہرائی کہ”تم خود جانتے ہو کہ زبیرؓ بن عوام تم سب میں سے بہتر ہیں“[صحیح بخاری: کتاب: انبیاء علیہ السلام کا بیان۔ (ایزی قرآن و حدیث سافٹ ویئر 4.0 کے مطابق:- حدیث نمبر3567 اور 3568) ]۔ ان واقعات سے یہ تو ثابت ہوتا کہ حضرت عثمانؓ سے جب خلیفہ بنانے کا کہا گیا تو انہوں نے حضرت زبیرؓ بن عوام کو پسند فرمایا اور سب سے بہتر کہا۔ میرا خیال ہے کہ یہ حضرت زبیرؓ کے متعلق حضرت عثمانؓ کی رائے تھی اور اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عثمانؓ نے حضرت زبیرؓ کو اپنا جانشین یا خلیفہ مقرر کیا ہو۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے وقت باغی اور شورش پسند عنصر مدینہ پر چھایا ہوا تھا۔ انہوں نے شہر کی ناکہ بندی کی ہوئی تھی۔ پورے شہر کا نظم و نسق باغیوں میں سے ہی ایک شخص غافقی بن حرب کے ہاتھ میں تھا۔ یہی شخص 5 دن تک امامت کے فرائض بھی انجام دیتا رہا۔ شرپسندوں کا یہ گروہ حضرت عثمانؓ کو شہید کر دینے تک تو متفق تھا لیکن آئندہ خلیفہ بنانے میں ان میں اختلاف تھا۔ مصری حضرت علیؓ کو، کوفی حضرت زبیرؓ کو اور بصری حضرت طلحہؓ کو خلیفہ بنانے چاہتے تھے۔ لیکن ان تینوں حضرات نے انکار کر دیا۔ پھر یہ لوگ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس بھی گئے لیکن ان دونوں حضرات نے بھی صاف انکار کر دیا۔ اس صورت حال سے ان شورشیوں کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ اگر ہم اس معاملہ کو یونہی چھوڑ کر واپس چلے گئے تو ہماری خیر نہیں (خود عبداللہ بن سبا مصر سے بھیس بدل کر مدینہ آیا اور اپنے چیلوں کو تاکید کی کہ خلیفہ کے تقرر کے بغیر اپنے علاقوں کو ہرگز واپس نہ جائیں)[17]۔ ایک روایت کے مطابق جب حضرت علیؓ سے خلافت سنبھالنے کو کہا گیا تو آپ نے فرمایا ”میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہو سکتی۔ یہ مسلمانوں کی مرضی سے ہونی چاہیئے“۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آپؓ نے اس کا یوں جواب دیا ”یہ اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر کا کام ہے، جسے وہ منتخب کریں وہی خلیفہ ہو گا۔ پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملہ پر غور کریں گے“[18]۔ حضرت علیؓ کے خلیفہ مقرر ہونے کے بارے میں ”خلافت و جمہوریت“ کے صفحہ 75 اور 76 پر مولانا عبدالرحمٰن کیلانی صاحب ”البدایہ“ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شورشی یہ سوچ کر (خلیفہ بنائے بغیر واپس چلے گئے تو ہماری خیر نہیں) حضرت علیؓ کے پاس آئے اور اصرار کیا اور اس گروہ کے سرخیل اشترنخعی نے حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کر لی۔ اس کے بعد دیگر افراد نے بھی بیعت کی۔ لیکن حضرت علیؓ کی خواہش کے مطابق اہل شوریٰ اور اہل بدر کے جمع ہونے کا موقع میسر نہ آ سکا اور اس کے بغیر ہی آپ خلیفہ چن لیے گئے۔ ”خلافت و ملوکیت“ کے صفحہ 83 تا 86 پر ابوالاعلی مودودی صاحب جہاں دیگر خلفاء کے مقرر ہونے کا طریقہ بیان کرتے ہیں وہاں پر حضرت علیؓ کے خلیفہ مقرر ہونے کا طریقہ واضح الفاظ میں نہیں لکھتے جبکہ صفحہ 121 اور 122 پر لکھتے ہیں کہ تمام معتبر روایتوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے اصحاب اور دوسرے اہلِ مدینہ ان (حضرت علیؓ) کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ ”یہ نظام کسی امیر کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا، لوگوں کے لیے ایک امام کا وجود ناگزیر ہے، اور آج آپ کے سوا ہم کوئی ایسا شخص نہیں پاتے جو اس منصب کے لئے آپ سے زیادہ مستحق ہو، نہ سابق خدمات کے اعتبار سے، اور نہ رسول اللہﷺ کے ساتھ قُرب کے اعتبار سے۔“ انہوں نے انکار کیا اور لوگ اصرار کرتے رہے۔ آخر کار انہوں نے کہا ”میری بیعت گھر بیٹھے خفیہ طریقہ سے نہیں ہو سکتی، عام مسلمانوں کی رضا کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔“ پھر مسجد نبویؐ میں اجتماع عام ہوا اور تمام مہاجرین اور انصار نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ صحابہؓ میں سے 17 یا 20 ایسے بزرگ تھے جنہوں نے بیعت نہیں کی تھی۔ حضرت علیؓ کی وفات کے قریب لوگوں نے پوچھا کہ اے امیر المومنین! اگر آپ فوت ہو جائیں تو ہم آپ کے صاحبزادے حضرت حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں؟ آپؓ نے جواب دیا ”میں نہ تم کو اس کا حکم دیتا ہوں، نہ منع کرتا ہوں۔ تم لوگ خود اچھی طرح دیکھ سکتے ہو“۔ حضرت علیؓ کی وفات کے قریب ہی لوگوں نے کہا کہ آپؓ اپنا ولی عہد مقرر کر جائیں۔ آپ نے جواب میں فرمایا ”میں مسلمانوں کو اُسی حالت میں چھوڑوں گا جس میں رسول اللہﷺ نے چھوڑا تھا“[19]۔ قارئین! فیصلہ آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ سوچیں اور تحقیق کریں، تحریر کے شروع میں لکھے گئے سوالات کے جوابات ڈھونڈیں۔ خاص طور پر ان نکات پر غور کریں کہ اسلام (قرآن و حدیث) میں خلیفہ مقرر کرنے کا طریقہ نہ ہونا، حضورﷺ کا اپنا جانشین مقرر نہ کرنا، حضورﷺ کے بعد خلیفہ منتخب کرنے کے لئے سقیفہ بنی ساعدہ میں مسلمانوں کا مشاورت کرنا، حضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد کرنے کے لئے حضرت ابو بکرؓ کا اکابر صحابہؓ سے مشورہ کرنا اور پھر دیگر مسلمانوں کا اس سے متفق ہونا، حضرت عمرؓ کا خطبے میں یہ فرمانا کہ ”جس کسی نے مسلمانوں سے مشورے کے بغیر کسی کی بیعت کی تو بیعت کرنے والا اور جس کی بیعت کی گئی ہو دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے“، مزید حضرت عمرؓ کا کسی کو خلیفہ نامزد نہ کرنا، حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد جب عبدالرحمٰنؓ بن عوف کو خلیفہ نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا تو ان کی اس معاملے میں بہت سوچ بیچار اور خاص طور یہ جاننا کہ عام لوگوں کی اکثریت کا رحجان کس شخصیت کی طرف ہے، حضرت علیؓ کا یہ فرمانا ”میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہو سکتی۔ یہ مسلمانوں کی مرضی سے ہونی چاہیئے“۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آپؓ کا یوں فرمانا ”یہ اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر کا کام ہے، جسے وہ منتخب کریں وہی خلیفہ ہو گا۔ پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملہ پر غور کریں گے“، مزید آپؓ کا ولی عہد مقرر کرنے والی بات پر یہ فرمانا ”میں مسلمانوں کو اُسی حالت میں چھوڑوں گا جس میں رسول اللہﷺ نے چھوڑا تھا“۔ ایک نظر ”جمہوریت کیا ہے؟“ پر بھی ہو جائے۔ جمہوریت کیا ہے ؟ جمہوریت خود کوئی دو ٹوک اور مکمل نظام نہیں بلکہ یہ تو نظام بنانے یا نافذ کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے۔ اس طریقے میں اہلِ شعور کی رائے سے نظام ترتیب دیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں اتفاق رائے سے کام کرنے کو جمہوری طریقہ کہا جائے گا۔ کہتے ہیں کہ جمہوریت کی آج تک کوئی واضح تعریف نہیں ہو سکی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ نہ تو جمہوریت کی کوئی ایک قسم ہے بلکہ دن بدن جمہوریت کی نئی سے نئی شکلیں سامنے آ رہی ہیں اور دوسرا یہ کہ مختلف قسم کے جمہوری طریقوں سے مختلف ممالک میں مختلف نظام بنے ہیں اور دن بدن ان میں ترامیم ہو رہی ہیں۔ جمہوری طریقے سے بننے والے تقریباً تمام نظام ہی کسی نہ کسی حوالے سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ البتہ جو نظام جمہوری طریقہ استعمال کر کے تیار ہوتا ہے یار لوگ اسے جمہوریت کہتے ہیں۔ خیر ہر کسی نے جمہوریت کی اپنے اپنے حساب سے تعریف کی ہے۔ اس وقت جمہوریت کے لئے سب سے مشہور الفاظ سولہویں امریکی صدر ابراہم لنکن کے ہیں، جن کا ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے ”لوگوں کے لئے، لوگوں کے ذریعے، لوگوں کی حکومت“۔ میرا خیال ہے کہ جمہوریت کی آسان سی تعریف صرف اتنی ہے کہ لوگوں کی رائے سے نظام ترتیب دینے کو جمہوریت کہا جاتا ہے، یا دوسری صورت میں آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ لوگوں کی رائے سے کیے گئے فیصلے کو جمہوری فیصلہ کہا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا میں کئی طرح کی جمہوریت پائی جاتی ہے۔ کہیں پر عوام براہ راست حکومتی فیصلے کرتے تھے، کہیں پر اپنے نمائندے منتخب کر کے نظام ترتیب دیا جا رہا ہے تو کہیں پر ایک آئین ترتیب دے دیا جاتا ہے جس کے ماتحت حکومت چلتی ہے۔ عام طور پر ماہرین جمہوریت کی یہی تین اقسام یعنی بلاواسطہ، نمائندگانی اور آئینی جمہوریت پیش کرتے ہیں، جبکہ میرا خیال ہے کہ جمہوریت صرف ان تین اقسام تک محدود نہیں بلکہ اس کی مزید کئی اقسام بنائی جا سکتی ہیں۔ جیسے جیسے انسان ترقی کرتا جائے گا وہ اپنے لئے بہتر سے بہتر جمہوریت تشکیل دیتا جائے گا اور نئی سے نئی قسم وجود میں آتی جائے گی۔ اب تک جمہوری طریقے سے کئی ایک نظام ترتیب دیئے جا چکے ہیں۔ جمہوریت کے تحت بننے والے نظاموں میں اس وقت سب سے مشہور صدارتی اور پارلیمانی نظام ہیں۔ جمہوریت، نظام ترتیب دینے کا ایک طریقہ تو ہے مگر یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس کا سوائے ایک اصول کے دوسرا کوئی مستقل اصول نہیں ، اور وہ ایک اصول یہ ہے کہ عوام کی رائے اور مشورے سے نظام ترتیب دیا جائے۔ جو لوگ صرف موجودہ ”ووٹنگ سسٹم“ یا مغربی طریقوں کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں، میرے خیال میں اگر وہ قصداً ایسا نہیں کرتے تو پھر وہ ایک بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں، کیونکہ جمہوریت کی صرف ایک مغربی شکل ہی نہیں۔ اگر عوام کو موجودہ ووٹنگ سسٹم اور مغربی نظام پسند نہیں تو وہ باہمی مشاورت اور اتفاق رائے کے بعد کوئی دوسرا ووٹنگ سسٹم اور دیگر نظام ترتیب دے لیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ جب تک عوام کی رائے اور مشورے سے نظام ترتیب دیتے رہیں گے تو وہ جمہوریت ہی رہے گی، لیکن جیسے ہی عوام کی رائے اور مشوروں کو چھوڑیں گے تو پھر پیچھے بادشاہت یا ڈکٹیٹر شپ تو ہو گی مگر جمہوریت نہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ جمہوریت کی موجودہ شکل سو فیصد درست ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جمہوریت کی موجودہ شکل میں کئی ایک خامیاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اگر جمہوریت کا لیبل لگا کر بادشاہت چلائی جائے تو صرف لیبل لگا دینے سے نظام جمہوری نہیں ہوتا۔ خیر جہاں دن بدن جمہوریت کے تحت بننے والے نظاموں میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں، وہیں پر خود جمہوری طریقہ دن بدن نکھرتا جا رہا ہے۔ جمہوری طریقے میں موجود خامیوں کو ختم کرنے پر تحقیق ہوتی رہتی ہے۔ جیسے جیسے دنیا میں مزید شعور اجاگر ہوتا جاتا ہے، ویسے ویسے وہ اپنے اپنے جمہوری نظاموں میں بہتری لا رہے ہیں۔ بہرحال یہ تو حقیقت ہے کہ جمہوریت جیسی بھی ہے لیکن پھر بھی بادشاہت اور ڈکٹیٹر شپ سے لاکھ درجے بہتر ہے۔ چونکہ جمہوریت میں لوگوں کی رائے سے نظام ترتیب دیا جاتا ہے، اس لئے یہ عوام پر ہوتا ہے کہ وہ نظام چلانے کے لئے خود قانون بنانا پسند کرتے ہیں یا پھر پہلے سے بنے ہوئے قوانین (جیسے مذہبی قوانین) نافذ کرنا پسند کرتے ہیں۔ لوگوں کے اتفاق رائے سے مذہبی قوانین کی زیرِنگرانی نظام ترتیب دینے کو آپ ”مذہبی جمہوریت“ کہہ سکتے ہیں۔ میرے حساب سے اسلام کی زیرِنگرانی مسلمانوں کی رائے اور باہمی مشاورت سے نظام ترتیب دیا جائے تو اسے ”اسلامی جمہوریت“ کہا جائے گا۔ اگر اہلِ مغرب یا کوئی اور یہ کہے کہ بنے بنائے قوانین نافذ کرنے کی بجائے عوام خود قانون سازی کرے تو ہی جمہوریت ہو گی۔ اس پر میرا جواب صرف اتنا ہے کہ جب آپ خود کہتے ہو کہ جمہوریت میں عوام کی مرضی سے عوام کی حکومت ہوتی ہے، تو اگر عوام اپنی مرضی سے مذہبی قوانین نافذ کرنا چاہتے ہیں تو پھر اعتراض کاہے کا؟ جب عوام کی مرضی مذہبی قوانین کا نفاذ ہو تو پھر خود سے قانون سازی کرنے پر زور دینا الٹا جمہوری روح کے خلاف ہے۔ پتہ نہیں یار لوگ جمہوریت کو صرف مغرب کے تیار کردہ نظاموں سے ہی کیوں منسوب کرتے ہیں اور صرف یہی کیوں سوچتے ہیں کہ جمہوریت صرف وہی ہے جو مغرب میں رائج ہے، جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جمہوریت کے تحت بے شمار نظام وجود میں آ سکتے ہیں۔ اگر ایک طرف اہلِ مغرب نے جمہوریت کے تحت اپنی پسند کے نظام بنا رکھے ہیں، جن میں وہ سارا اختیار عوام کو دیتے ہیں، تو دوسری طرف مسلمان جمہوریت کے تحت اپنی پسند کا نظام یعنی اسلامی نظام نافذ کر سکتے ہیں۔ اہلِ مغرب نے اتفاق رائے سے یہ نظام ترتیب دیا ہے کہ قانون سازی کا اختیار عوام کو ہے، جبکہ مسلمان اتفاق رائے سے ایسا نظام ترتیب دے سکتے ہیں جس میں اسلام کا قانون نافذ ہو۔ جمہوریت کے تحت ہر ملک اپنے اپنے حساب سے نظام واضح کر لیتا ہے۔ کسی نے کوئی نظام بنایا تو کسی نے کوئی نظام نافذ کیا۔ نظام تو وہی وجود میں آئے یا نافذ ہو گا جو عوام چاہے گی۔ عوام اسلامی نظام چاہتی ہے تو اسلامی نظام ہی رائج ہو گا۔ اگر کوئی عوام کی رائے کے خلاف چل کر کسی بھی قسم کا نظام نافذ کرنا چاہتا ہے تو پھر اس کے پاس صرف ”تلوار“ والا طریقہ رہ جاتا ہے کیونکہ کوئی نظام نافذ کرنے کے لئے دنیا میں فی الحال صرف دو ہی طریقے ہیں۔ ایک بزورِ تلوار اور دوسرا جمہوری طریقہ یعنی لوگوں کے اتفاق رائے اور مشاورت سے۔ بات تو یہ بھی سوچنے والی ہے کہ اسلام کس طریقے کو ترجیح دیتا ہے؟ خیر اس موضوع پر ”خلفاء راشدین کیسے منتخب ہوئے“ پڑھیے، باقی پھر کبھی تفصیلی بات کریں گے، کیونکہ فی الحال موضوع جمہوریت ہے۔ جمہوریت کے تحت بننے والے مغربی نظام کی بے شک مخالفت کریں بلکہ میں خود مغربی نظام کی برائیوں اور خرابیوں کے خلاف ہوں مگر خراب نظام بننے میں جمہوریت یعنی نظام ترتیب دینے کے طریقے کا کوئی قصور نہیں، جبکہ خراب نظام بنانا ”جمہور“ (عوام) کا قصور ہے۔ جیسی عوام ویسے حکمران اور پھر ویسا ہی نظام۔
  14. نیزہ پر سراقدس کی تلاوت حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جب یزیدیوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر مبارک کو نیزہ پرچڑھا کر کوفہ کی گلیوں میں گشت کیا تو میں اپنے مکان کے بالا خانہ پر تھا جب سرمبارک میرے سامنے سے گزراتو میں نے سنا کہ سر مبارک نے یہ آیت تلاوت فرمائی : اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ ۙ کَانُوۡا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا (کھف، پ15) (ترجمۂ کنزالایمان:کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔ (پ۱۵،الکہف:۹) اسی طرح ایک دوسرے بزرگ نے فرمایا کہ جب یزیدیوں نے سر مبارک کو نیزہ سے اتارکر ابن زیادکے محل میں داخل کیا تو آپ کے مقدس ہونٹ ہل رہے تھے اورزبان اقدس پر اس آیت کی تلاوت جاری تھی وَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوۡنَ ۬ؕ (ترجمۂ کنزالایمان:اور ہرگز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے۔ (پ۱۳، ابرٰہیم :۴۲) (روضۃ الشہداء ،ص230) تبصرہ ان ایمان افروز کرامتوں سے یہ ایمانی روشنی ملتی ہے کہ شہدائے کرام اپنی اپنی قبروں میں تمام لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں ۔ خدا کی عبادت بھی کرتے ہیں اور قسم قسم کے تصرفات بھی فرماتے رہتے ہیں اوران کی دعائیں بھی بہت جلد مقبول ہوتی ہیں۔ موت کے بعد گفتگو حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت زید بن خارجہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ کے بعض راستوں میں ظہر وعصر کے درمیان چلے جارہے تھے کہ ناگہاں گرپڑے اور اچانک ان کی وفات ہوگئی ۔ لوگ انہیں اٹھا کر مدینہ منورہ لائے اور ان کو لٹا کر کمبل اوڑھادیا۔ جب مغرب وعشاء کے درمیان کچھ عورتوں نے رونا شروع کیا تو کمبل کے اند رسے آواز آئی :''اے رونے والیو!خاموش رہو۔'' یہ آواز سن کر لوگوں نے ان کے چہرے سے کمبل ہٹایا تو وہ بے حد دردمندی سے نہایت ہی بلند آواز سے کہنے لگے: ''حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نبی امی خاتم النبیین ہیں اوریہ بات اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے ۔''اتنا کہہ کر کچھ دیر تک بالکل ہی خاموش رہے پھر بلند آواز سے یہ فرمایا: ''سچ کہا، سچ کہا ابوبکرصدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے جو نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے خلیفہ ہیں ، قوی ہیں ، امین ہیں، گو بدن میں کمزور تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے کام میں قوی تھے ۔ یہ با ت اللہ تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں ہے۔'' اتنا فرمانے کے بعد پھر ان کی زبان بند ہوگئی اورتھوڑ ی دیر تک بالکل خاموش رہے پھر ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے اوروہ زور زور سے بولنے لگے:''سچ کہا، سچ کہا درمیان کے خلیفہ اللہ تعالیٰ کے بندے امیر المؤمنین حضرت عمربن خطا ب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے نہ اس کی کوئی پروا کرتے تھے اور وہ لوگوں کو اس بات سے روکتے تھے کہ کوئی قوی کسی کمزور کوکھاجائے اوریہ بات اللہ تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔'' اس کے بعد پھر وہ تھوڑی دیر تک خاموش رہے پھر ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے اورزور زور سے بولنے لگے :''سچ کہا، سچ کہا حضرت عثمان غنی ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے جو امیر المؤمنین ہیں اورمؤمنوں پر رحم فرمانے والے ہیں ۔ دوباتیں گزرگئیں اور چار باقی ہیں جو یہ ہیں1)لوگوں میں اختلاف ہوجائے گااور ان کے لیے کوئی نظام نہ رہ جائے گا۔(۲)سب عورتیں رونے لگیں گی اور ان کی پردہ دری ہوجائے گی۔ (۳)قیامت قریب ہوجائے گی ۔(۴)بعض آدمی بعض کو کھاجائے گا ۔''اس کے بعد ان کی زبان بالکل بند ہوگئی ۔ (طبرانی والبدایہ والنہایہ،ج۶،ص۱۵۶ واسدالغابہ،ج۲،ص۲۲۷)
  15. قبر کے اندرسے سلام حضرت فاطمہ خزاعیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ میں ایک دن حضرت سید الشہداء جناب حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار اقدس کی زیارت کے لئے گئی اورمیں نے قبر منور کے سامنے کھڑے ہوکر اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللہ کہا تو آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بآواز بلند قبر کے اندر سے میرے سلام کا جواب دیا جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا۔ (حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۶۳بحوالہ بیہقی) اسی طرح شیخ محمود کردی شیخانی نزیل مدینہ منورہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر انور پر حاضر ہوکرسلام عرض کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبر منور کے اندر سے بآواز بلند ان کے سلام کا جواب دیا اورارشاد فرمایاکہ اے شیخ محمود! تم اپنے لڑکے کا نام میرے نام پر ''حمزہ''رکھنا۔چنانچہ جب خداوند کریم نے ان کو فرزند عطافرمایا تو انہوں نے اس کا نام ''حمزہ ''رکھا۔(حجۃ اللہ علی العالمین،ج۲،ص۸۶۳بحوالہ کتاب الباقیات الصالحات) تبصرہ اس روایت سے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چند کرامتیں معلوم ہوئیں: (1) یہ کہ آپ نے قبر کے اندرسے شیخ محمود کے سلام کوسن لیااور دیکھ بھی لیا کہ سلام کرنے والے شیخ محمود ہیں ۔ پھر آپ نے سلام کا جواب شیخ محمود کو سنا بھی دیا حالانکہ دوسرے قبر والے سلام کرنے والوں کے سلام کو سن تو لیتے ہیں اورپہچان بھی لیتے ہیں مگر سلام کا جواب سلام کرنے والوں کو سنا نہیں سکتے ۔ (۲)سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی قبر شریف کے اندر رہتے ہوئے یہ معلوم تھا کہ ابھی شیخ محمود کے کوئی بیٹا نہیں ہے مگر آئندہ ان کو خداوند کریم فرزند عطا فرمائے گا۔ جبھی تو آپ نے حکم دیا کہ اے شیخ محمود ! تم اپنے لڑکے کا نام میرے نام پر حمزہ رکھنا۔ (۳)آپ نے جواب سلام اوربیٹے کا نام رکھنے کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا وہ اس قدر بلند آواز سے فرمایا کہ شیخ محمود اور دوسرے حاضرین نے سب کچھ اپنے کانوں سے سن لیا۔ مذکورہ بالا کرامتوں سے اس مسئلہ پر روشنی پڑتی ہے کہ شہداء کرام اپنی اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں اوران کے علم کی وسعت کا یہ حال ہے کہ وہ یہاں تک جان او رپہچان لیتے ہیں کہ آدمی کی پشت میں جو نطفہ ہے اس سے پیدا ہونے والا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی ۔ یہی توو جہ ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے شیخ محمود ! تم اپنے لڑکے کا نام میرے نام پر رکھنا اگر ان کو بالیقین یہ معلوم نہ ہوتا کہ لڑکا ہی پیدا ہوگا تو آپ کس طرح لڑکے کا نام اپنے نام پر رکھنے کا حکم دیتے ؟ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ قبر میں سے خون نکلا جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی حکومت کے دوران مدینہ منورہ کے اندر نہریں کھودنے کا حکم دیا تو ایک نہر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار اقدس کے پہلو میں نکل رہی تھی۔لاعلمی میں اچانک نہر کھودنے والوں کا پھاوڑاآپ کے قدم مبارک پر پڑگیا اورآپ کا پاؤں کٹ گیا تو اس میں سے تازہ خون بہہ نکلا حالانکہ آپ کو دفن ہوئے چھیالیس سال گزرچکے تھے ۔ (حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۶۴بحوالہ ابن سعد) تبصرہ وفات کے بعد تازہ خون کابہہ نکلنا یہ دلیل ہے کہ شہداء کرام اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں کفن سلامت ،بدن تروتازہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جنگ احد کے دن میں نے اپنے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دوسرے شہید(حضرت عمروبن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ساتھ ایک ہی قبرمیں دفن کردیا تھا ۔ پھر مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میرے باپ ایک دوسرے شہید کی قبر میں دفن ہیں اس لئے میں نے اس خیال سے کہ ان کو ایک الگ قبر میں دفن کروں ۔ چھ ماہ کے بعد میں نے ان کی قبر کو کھود کر لاش مبارک کو نکالاتو وہ بالکل اسی حالت میں تھے جس حالت میں ان کو میں نے دفن کیا تھا بجز اس کے کہ انکے کان پر کچھ تغیر ہوا تھا۔ (بخاری ،ج۱،ص۱۸۰ وحاشیہ بخاری) اورابن سعد کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر زخم لگا تھاا ور ان کا ہاتھ ان کے زخم پر تھا جب ان کا ہاتھ ان کے زخم سے ہٹایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا ۔ پھر جب ان کا ہاتھ ان کے زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیااوران کا کفن جو ایک چادر تھی جس سے چہرہ چھپا دیا گیا تھا اوران کے پیروں پر گھاس ڈال دی گئی تھی ، چادر اورگھاس دونوں کو ہم نے اسی طرح پر پڑا ہوا پایا۔) (ابن سعد،ج۳،ص۵۶۲) پھر اس کے بعد مدینہ منورہ میں نہروں کی کھدائی کے وقت جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اعلان کرایا کہ سب لوگ میدان احد سے اپنے اپنے مردوں کو ان کی قبروں سے نکال کر لے جائیں توحضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دوبارہ چھیالیس برس کے بعداپنے والد ماجدحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کھود کر ان کی مقدس لاش کو نکالا تومیں نے ان کو اس حال میں پایا کہ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ۔ جب ان کا ہاتھ اٹھایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا پھر جب ہاتھ زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیا اور ان کا کفن جو ایک چادر کا تھا بدستو رصحیح و سالم تھا۔ ) (حجۃ اللہ علی العالمین، ج۲،ص۸۶۴بحوالہ بیہقی) قبر میں تلاوت حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی زمین کی دیکھ بھال کے لیے ''غابہ ''جا رہا تھا تو راستہ میں رات ہوگئی ۔ اس لئے میں حضرت عبداللہ بن عمروبن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے پاس ٹھہر گیا ۔ جب کچھ رات گزرگئی تو میں نے ان کی قبر میں سے تلاوت کی اتنی بہترین آواز سنی کہ اس سے پہلے اتنی اچھی قرأت میں نے کبھی بھی نہیں سنی تھی ۔ جب میں مدینہ منورہ کو لوٹ کرآیا اورمیں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا اے طلحہ! تم کو یہ معلوم نہیں کہ خدا نے ان شہیدوں کی ارواح کو قبض کر کے زبرجد او ریاقوت کی قندیلوں میں رکھا ہے اور ان قندیلوں کو جنت کے باغوں میں آویزاں فرمادیاہے جب رات ہوتی ہے تو یہ روحیں قندیلوں سے نکال کر ان کے جسموں میں ڈال دی جاتی ہیں پھرصبح کو وہ اپنی جگہوں پر واپس لائی جاتی ہیں ۔(حجۃ اللہ علی العالمین، ج۲،ص۸۷۱بحوالہ ابن مندہ) تبصرہ یہ مستند روایات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرا ت شہداء کرام اپنی اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں اوروہ اپنے جسموں کے ساتھ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں تلاوت کر سکتے ہیں اور دوسرے قسم قسم کے تصرفات بھی کرسکتے اور کرتے ہیں۔ حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ رسول خداعزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ساتھ قبرستان میں گزرے تو میں نے ایک قبر میں دھماکہ سنا گھبرا کر میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم میں نے ایک قبر میں دھماکہ کی آواز سنی ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تو نے بھی اس دھماکہ کی آواز سن لی ؟میں نے عرض کیا کہ جی ہاں !ارشادفرمایاکہ ٹھیک ہے ایک قبر والے کو اس کی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے یہ اسی عذاب کی آواز کا دھماکہ تھا جو تو نے سنا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!عز وجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم اس قبر والے کو کس گناہ کے سبب عذاب دیا جا رہا ہے ؟آپ نے فرمایا کہ یہ شخص چغل خوری کیا کرتا تھا اوراپنے بدن اورکپڑوں کو پیشاب سے نہیں بچاتا تھا۔ (حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۷۴بحوالہ بیہقی) موت کے بعد وصیت حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی یہ ایک کرامت ایسی بے مثل کرامت ہے کہ اس کی دوسری کوئی مثال نہیں مل سکتی ۔ شہید ہوجانے کے بعد آپ نے ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خواب میں یہ فرمایا کہ اے شخص!تم امیر لشکر حضرت خالد بن الولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میرا یہ پیغام کہہ دو کہ میں جس وقت شہید ہوا میرے جسم پر لوہے کی ایک زرہ تھی جس کو ایک مسلمان سپاہی نے میرے بدن سے اتار لیا اور اپنے گھوڑاباندھنے کی جگہ پر اس کو رکھ کر اس پر ایک ہانڈی اوندھی کر کے اس کو چھپا رکھا ہے لہٰذا امیرلشکر میری اس زرہ کو برآمد کر کے اپنے قبضے میں لے لیں اور تم مدینہ منورہ پہنچ کر امیر المؤمنین حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میرا یہ پیغام کہہ دینا کہ جو مجھ پر قرض ہے وہ اس کو ادا کردیں اورمیرا فلاں غلام آزاد ہے ۔ خواب دیکھنے والے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا خواب حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا تو انہوں نے فوراً ہی تلاشی لی اورواقعی ٹھیک اسی جگہ سے زرہ برآمد ہوئی جس جگہ کا خواب میں آپ نے نشان بتایا تھا اورجب امیر المؤمنین حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خواب سنایا گیا تو آپ نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت کو نافذ کرتے ہوئے انکا قرض ادا فرمادیااور انکے غلام کو آزاد قراردے دیا۔ مشہورصحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ خصوصیت ہے جو کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی کیونکہ ایساکوئی شخص بھی میرے علم میں نہیں ہے کہ اس کے مرجانے کے بعد خواب میں کی ہوئی اس کی وصیت کو نافذ کیا گیا ہو۔(تفسیر صاوی ، ج۲،ص۱۰۸)
  16. امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ ایک نوجوان صالح کی قبر پر تشریف لے گئے اورفرمایا کہ اے فلاں !اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ﴿ۚ۴۶ یعنی جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرگیااس کے لیے دو جنتیں ہیں اے نوجوان!بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے؟اس نوجوان صالح نے قبر کے اندر سے آپ کا نام لے کر پکارااوربآواز بلند دو مرتبہ جواب دیا کہ میرے رب نے یہ دونوں جنتیں مجھے عطافرماد ی ہیں ۔(2) (حجۃ اللہ علی العالمین ج۲،ص۸۶۰بحوالہ حاکم) قبروالوں سے سوال وجواب حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں گئے تو آپ نے قبروں کے سامنے کھڑے ہوکر باآواز بلند فرمایا کہ اے قبروالو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ ! کیا تم لوگ اپنی خبریں ہمیں سناؤ گے یا ہم تم لوگوں کو تمہاری خبریں سنائیں؟ اس کے جواب میں قبروں کے اندر سے آواز آئی: ''وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ'' اے امیر المؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ہی ہمیں یہ سنائيے کہ ہماری موت کے بعد ہمارے گھروں میں کیا کیا معاملات ہوئے ؟حضرت امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے قبر والو! تمہارے بعد تمہارے گھروں کی خبر یہ ہے کہ تمہاری بیویوں نے دوسرے لوگوں سے نکاح کرلیا اور تمہارے مال ودولت کو تمہارے وارثوں نے آپس میں تقسیم کرلیا اور تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہوکر دربدر پھر رہے ہیں اورتمہارے مضبوط اور اونچے اونچے محلوں میں تمہارے دشمن آرام اورچین کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں ۔ اس کے جواب میں قبروں میں سے ایک مردہ کی یہ دردناک آواز آئی کہ اے امیرالمؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہماری خبریہ ہے کہ ہمارے کفن پرانے ہوکر پھٹ چکے ہیں اورجو کچھ ہم نے دنیا میں خرچ کیا تھا اس کو ہم نے یہاں پالیا ہے اورجو کچھ ہم دنیا میں چھوڑآئے تھے اس میں ہمیں گھاٹا ہی گھاٹااٹھانا پڑا ہے ۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ج۲،ص۸۶۳ تبصرہ اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو یہ طاقت وقدرت عطافرماتاہے کہ قبر والے ان کے سوالوں کا باآواز بلنداس طرح جواب دیتے ہیں کہ دوسرے حاضرین بھی سن لیتے ہیں ۔ یہ قدرت وطاقت عام انسانوں کو حاصل نہیں ہے۔ لوگ اپنی آوازیں تو مردوں کو سنا سکتے ہیں اورمردے ان کی آوازوں کو سن بھی لیتے ہیں مگر قبر کے اندر سے مردوں کی آوازوں کو سن لینا یہ عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے ،بلکہ یہ خاصا ن خدا کا خاص حصہ اور خاصہ ہے جس کوان کی کرامت کے سواکچھ بھی نہیں کہاجاسکتااوراس روایت سے یہ بھی پتاچلا کہ قبروالوں کا یہ اقبالی بیان ہے کہ مرنے والے دنیا میں جو مال ودولت چھوڑ کر مرجاتے ہیں اس میں مرنے والوں کے لیے سر اسر گھاٹا ہی گھاٹا ہے اورجس مال ودولت کو وہ مرنے سے پہلے خدا عزوجل کی راہ میں خرچ کرتے ہیں وہی ان کے کام آنے والاہے ۔ ایک قبر سے دوسری قبر میں شہادت کے بعد حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بصرہ کے قریب دفن کردیا گیا مگر جس مقام پرآپ کی قبر شریف بنی وہ نشیب میں تھا اس لئے قبر مبارک کبھی کبھی پانی میں ڈوب جاتی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو بار بار متواتر خواب میں آکراپنی قبر بدلنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اپنا خواب بیان کیا تو آپ نے دس ہزار درہم میں ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکان خرید کر اس میں قبر کھودی اورحضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مقدس لاش کو پرانی قبرمیں سے نکال کراس قبر میں دفن کردیا۔ کافی مدت گزر جانے کے باوجودآ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقدس جسم سلامت اوربالکل ہی تروتازہ تھا۔ (کتاب عشرہ مبشرہ،ص۲۴۵) تبصرہ غورفرمائيے کہ کچی قبر جو پانی میں ڈوبی رہتی تھی ایک مدت گزرجانے کے باوجود ایک ولی اورشہید کی لاش خراب نہیں ہوئی تو حضرات انبیاء علیہم الصلوۃوالسلام خصوصاً حضورسید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے مقدس جسم کو قبر کی مٹی بھلا کس طرح خراب کرسکتی ہے ؟یہی و جہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا: اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاء(مشکوۃ ،ص۱۲۱) (یعنی اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم الصلوۃ ولسلام کے جسموں کو زمین پر حرام فرمادیا ہے کہ زمین ان کو کبھی کھانہیں سکتی ۔) اسی طرح اس روایت سے اس مسئلہ پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ شہداء کرام اپنے لوازم حیات کے ساتھ اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں ،کیونکہ اگر وہ زندہ نہ ہوتے تو قبر میں پانی بھر جانے سے ان کو کیا تکلیف ہوتی؟اسی طرح اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شہداء کرام خواب میں آکر زندوں کو اپنے احوال و کیفیات سے مطلع کرتے رہتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کو یہ قدرت عطافرمائی ہے کہ وہ خواب یا بیداری میں اپنی قبروں سے نکل کر زندوں سے ملاقات اورگفتگوکرسکتے ہیں۔ اب غور فرمائیے کہ جب شہیدوں کا یہ حال ہے اوران کی جسمانی حیات کی یہ شان ہے تو پھر حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام خاص کر حضورسیدالانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی جسمانی حیات اور ان کے تصرفات اوران کے اختیارواقتدارکا کیا عالم ہوگا۔ غورفرمائیے کہ وہابیوں کے پیشوامولوی اسماعیل دہلوی نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں یہ مضمون لکھ کر کہ ''حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم مر کر مٹی میں مل گئے۔ '' (نعوذباللہ)کتنا بڑا جرم اورظلم عظیم کیا ہے ۔ اللہ اکبر!ان بے ادبوں اورگستاخوں نے اپنے نوک قلم سے محبین رسول کے قلوب کو کس طرح مجروح وزخمی کیا ہے ، اس کو بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں ۔ فَاِلَی اللہِ الْمُشْتَکٰی وَھُوَ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَام
  17. Smart Ali Bhai khabeeson ko saboot ke taur par pesh kar sakte hain kyun ke in khabeeson ka aqeeda hi ye hai ke Murda chahe kafir ho ya Musalaman wo nhi sunta , Al-Hamdolillah Hamara aqeeda wazah hai ke Murday chaahe kafir hon ya Muslaman wo suntay hain , ye hi hum ne Quran aur Hadith se sabit bhi kar diya hai .
  18. smart ali bhai ye ahle khabees log buton aur kafiron par naazil hone waali aayatain Aulia Kram aur Musalamano par chaspa karte hain , aisa karna kharjiyon ka kaam hai . hamara aqeeda ye hai ke Murday chaahe kafir hon ya Muslaman wo suntay hain , ye hi hum ne Quran aur Hadith se sabit kar diya hai, is baat ko chaspa nhi kehte .
  19. خطیب نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا:''جب کوئی شخص ایسے کی قبر پر گزرے جسے دنیا میں پہچانتا تھا اور اس پر سلام کرے تو وہ مُردہ اسے پہچانتا ہے اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے۔''( ''تاریخ بغداد''، رقم: ۳۱۷۵،ج۷،ص98-99 smart Ali bhai ab ahle khabees se poochna ke pehle Hadees pak se kafir murday ka sun'na sabit kiya tha , ab is Hadees pak se Musalman Murday ka sun'na bhi sabit ho gaya hai , ab kya kehte ho khabees ? صحیح مسلم میں بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم لوگوں کو تعلیم دیتے تھے کہ جب قبروں کے پاس جائیں یہ کہیں۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَآءَ اللہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ نَسْأَلُ اللہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ .(''صحیح مسلم''،کتاب الجنائز،باب ما یقال عند دخول القبور...إلخ،الحدیث:۱۰۴۔(۹۷۵)،ص۴۸۵. و''سنن ابن ماجہ''،کتاب ماجاء في الجنائز،باب ماجاء فیما یقال إذا دخل المقابر،الحدیث:۱۵۴۷،ج۲،ص۲۴۰. ترجمہ:اے قبرستان والے مومنو اورمسلمانو! تم پر سلامتی ہو اور انشاء اﷲ عزوجل ہم تم سے آملیں گے ،ہم اﷲ عزوجل سے اپنے لئے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ ترمذی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماسے روایت کی، کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مدینہ میں قبور کے پاس گزرے تو اودھر کو مونھ کرلیا اور یہ فرمایا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَـفُنَا وَنَحْنُ بِالْاَثَرِ .( ''سنن الترمذي''،کتاب الجنائز،باب ما یقول الرجل إذا دخل المقابر،الحدیث:۱۰۵۵،ج۲،ص۳۲۹. ترجمہ:اے قبرستان والو! تم پر سلامتی ہو،اﷲ عزوجل ہماری اورتمہاری مغفرت فرمائے ،تم ہم سے پہلے چلے گئے اورہم تمہارے پیچھے آنے والے ہیں سمارٹ علی بھائی اس اھل ِ خبیث کو کہنا کہ دوسری روایت میں ہے کہ دفن کے بعد جب زندے واپس ہوتے ہیں تو مردہ ان کے پاؤں کی آہٹ سنتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب،الباب الخامس والاربعون فی بیان القبر وسؤالہ،ص۱۷۱،دار الکتب العلمیۃبیروت) اسی لئے ہم نمازوں میں حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرتے ہیں اور کھانا کھانے والے ، استنجا کرنے والے، سوتے ہوئے کو سلام کرنا منع ہے کیونکہ وہ جواب نہیں دے سکتے تو جو جواب نہ دے سکے اسے سلام کرنا منع ہے اگر مردے نہ سنتے ہوتے تو قبر ستا ن جاتے وقت ا نہیں سلام نہ کیا جاتا اور نماز میں حضور کو سلام نہ ہوتا۔
  20. وعلیکم السلام ورحمت اللہ و برکاتہ Bhai Face Book wali tamam posts mene Islamimehfil par bhi post kardi hain . is link par aap tamam posts dekh sakte hain http://www.islamimehfil.com/topic/20377-dawat-e-islami-par-aitrazaat-ke-jawabaat/
  21. خطیب نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا:''جب کوئی شخص ایسے کی قبر پر گزرے جسے دنیا میں پہچانتا تھا اور اس پر سلام کرے تو وہ مُردہ اسے پہچانتا ہے اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے۔''( ''تاریخ بغداد''، رقم: ۳۱۷۵،ج۷،ص98-99 صحیح مسلم میں بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم لوگوں کو تعلیم دیتے تھے کہ جب قبروں کے پاس جائیں یہ کہیں۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَآءَ اللہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ نَسْأَلُ اللہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ .(''صحیح مسلم''،کتاب الجنائز،باب ما یقال عند دخول القبور...إلخ،الحدیث:۱۰۴۔(۹۷۵)،ص۴۸۵. و''سنن ابن ماجہ''،کتاب ماجاء في الجنائز،باب ماجاء فیما یقال إذا دخل المقابر،الحدیث:۱۵۴۷،ج۲،ص۲۴۰. ترجمہ:اے قبرستان والے مومنو اورمسلمانو! تم پر سلامتی ہو اور انشاء اﷲ عزوجل ہم تم سے آملیں گے ،ہم اﷲ عزوجل سے اپنے لئے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ ترمذی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماسے روایت کی، کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مدینہ میں قبور کے پاس گزرے تو اودھر کو مونھ کرلیا اور یہ فرمایا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَـفُنَا وَنَحْنُ بِالْاَثَرِ .( ''سنن الترمذي''،کتاب الجنائز،باب ما یقول الرجل إذا دخل المقابر،الحدیث:۱۰۵۵،ج۲،ص۳۲۹. ترجمہ:اے قبرستان والو! تم پر سلامتی ہو،اﷲ عزوجل ہماری اورتمہاری مغفرت فرمائے ،تم ہم سے پہلے چلے گئے اورہم تمہارے پیچھے آنے والے ہیں
  22. یاد رکھئے!کُفرِیَّہ کلمات کے مُتَعَلِّق علم حاصِل کرنا فرض ہے ۔ چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 23 صَفْحَہ 624 پر فرماتے ہیں:مُحَرَّمَاتِ باطِنِیَّہ یعنی باطِنی ممنوعات مَثَلاً)تکبُّرو رِیا وعُجَب (یعنی خود پسندی)و حسد وغیرہا اور اُن کے مُعَالََجَات (یعنی علاج)کہ ان کا علم بھی ہر مسلمان پر اَہَم فرائض سے ہے۔(1)مزید صَفْحَہ 626 پر فتاوٰی شامی کے حوالے سے فرماتے ہیں:حرام الفاظ اورکُفرِیَّہ کلمات کے مُتَعَلِّق علم سیکھنا فرض ہے، اِس زمانے میں یہ سب سے ضَروری اُمُور ہیں۔ (رَدُّالْمُحتار ج1 ص107) کفریہ کلمات جاننے کے لیئے امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ کی لکھی ہوئی کتاب کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب کا مطالعہ فرمائیں۔ اس لنک سے یہ کتاب دائون لوڈ کی جا سکتی ہے۔ http://www.dawateisl...okDetail_494.ur
  23. عقیدہ (۱): اﷲ (عزوجل) ایک ہے ، کوئی اس کا شریک نہیں، نہ ذات میں، نہ صفات میں، نہ افعال میں نہ احکام میں، نہ اسماء میں ، واجب الوجود ہے، یعنی اس کا وجود ضروری ہے اور عَدَم مُحَال، قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے، اَزَلی کے بھی یہی معنی ہیں، باقی ہے یعنی ہمیشہ رہے گا اور اِسی کو اَبَدی بھی کہتے ہیں۔ وہی اس کا مستحق ہے کہ اُس کی عبادت و پرستش کی جائے۔ عقیدہ (۲): وہ بے پرواہ ہے، کسی کا محتاج نہیں اور تمام جہان اُس کا محتاج۔) عقیدہ (۳): اس کی ذات کا اِدراک عقلاً مُحَال کہ جو چیز سمجھ میں آتی ہے عقل اُس کو محیط ہوتی ہے اور اُس کو کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا ، البتہ اُس کے افعال کے ذریعہ سے اِجمالاً اُس کی صفات، پھر اُن صفات کے ذریعہ سے معرفتِ ذات حاصل ہوتی ہے۔ عقیدہ (۴): اُس کی صفتیں نہ عین ہیں نہ غیر، یعنی صفات اُسی ذات ہی کا نام ہو ایسا نہیں اور نہ اُس سے کسی طرح کسی نحوِ وجود میں جدا ہوسکیں کہ نفسِ ذات کی مقتضٰی ہیں اور عینِ ذات کو لازم۔ ) عقیدہ (۵): جس طرح اُس کی ذات قدیم اَزلی اَبدی ہے، صفات بھی قدیم اَزلی اَبَدی ہیں۔ ) عقیدہ (۶): اُس کی صفات نہ مخلوق ہیں نہ زیرِ قدرت داخل۔ عقیدہ (۷): ذات و صفات کے سِوا سب چیزیں حادث ہیں، یعنی پہلے نہ تھیں پھر موجود ہوئیں۔) عقیدہ (۸): صفاتِ الٰہی کو جو مخلوق کہے یا حادث بتائے، گمراہ بد دین ہے۔ ) عقیدہ (۹): جو عالَم میں سے کسی شے کو قدیم مانے یا اس کے حدوث میں شک کرے، کافر ہے۔ ) عقیدہ (۱۰): نہ وہ کسی کا باپ ہے، نہ بیٹا، نہ اُس کے لیے بی بی، جو اُسے باپ یا بیٹا بتائے یا اُس کے لیے بی بی ثابت کرے کافر ہے ، بلکہ جو ممکن بھی کہے گمراہ بد دین ہے۔ عقیدہ (۱۱): و ہ حَی ہے، یعنی خود زندہ ہے اور سب کی زندگی اُس کے ہاتھ میں ہے، جسے جب چاہے زندہ کرے اور جب چاہے موت دے۔ ) عقیدہ (۱۲): وہ ہر ممکن پر قادر ہے، کوئی ممکن اُس کی قدرت سے باہر نہیں۔ ) عقیدہ (۱۳): جو چیز مُحال ہے، اﷲ عزوجل اس سے پاک ہے کہ اُس کی قدرت اُسے شامل ہو، کہ مُحال اسے کہتے ہیں جو موجود نہ ہوسکے اور جب مقدور ہوگا تو موجود ہوسکے گا، پھر مُحال نہ رہا۔ اسے یوں سمجھو کہ دوسرا خدا مُحال ہے یعنی نہیں ہوسکتا تو یہ اگر زیرِ قدرت ہو تو موجود ہوسکے گا تو مُحال نہ رہا اور اس کو مُحال نہ ماننا وحدانیت کا انکار ہے۔ یوہیں فنائے باری مُحال ہے، اگر تحتِ قدرت ہو تو ممکن ہوگی اور جس کی فنا ممکن ہو وہ خدا نہیں۔ تو ثابت ہوا کہ مُحال پر قدرت ماننا اﷲ (عزوجل) کی اُلوہیت سے ہی انکار کرنا ہے۔ ) عقیدہ (۱۴): ہر مقدور کے لیے ضرور نہیں کہ موجود ہو جائے، البتہ ممکن ہونا ضروری ہے اگرچہ کبھی موجود نہ ہو۔ عقیدہ (۱۵): وہ ہر کمال و خوبی کا جامع ہے اور ہر اُ س چیز سے جس میں عیب و نقصان ہے پاک ہے، یعنی عیب ونقصان کا اُس میں ہونا مُحال ہے، بلکہ جس بات میں نہ کمال ہو، نہ نقصان، وہ بھی اُس کے لیے مُحال، مثلاً جھوٹ، دغا، خیانت، ظلم، جھل، بے حیائی وغیرہا عیوب اُس پرقطعاً محال ہیں اوریہ کہنا کہ جھوٹ پر قدرت ہے بایں معنی کہ وہ خود جھو ٹ بول سکتا ہے، مُحال کو ممکن ٹھہرانا اور خدا کو عیبی بتانا بلکہ خدا سے انکار کرنا ہے اور یہ سمجھنا کہ مُحا لات پر قادر نہ ہو گا تو قدرت ناقص ہو جائے گی باطل محض ہے، کہ اس میں قدرت کا کیا نقصان! نقصان تو اُس مُحال کا ہے کہ تعلّقِ قدرت کی اُس میں صلاحیت نہیں۔) عقیدہ (۱۶): حیا۱ت، قدرت۲، سننا۳، دیکھنا۴ ، کلا۵م، علم۶، اِرادہ ۷ اُس کے صفاتِ ذاتیہ ہیں، مگر کان، آنکھ، زبان سے اُس کا سننا، دیکھنا، کلام کرنا نہیں، کہ یہ سب اَجسام ہیں اور اَجسام سے وہ پاک۔ ہر پست سے پست آواز کو سنتا ہے، ہر باریک سے باریک کو کہ خُوردبین سے محسوس نہ ہو وہ دیکھتا ہے، بلکہ اُس کا دیکھنا اور سننا انہیں چیزوں پر منحصر نہیں، ہر موجود کو دیکھتا ہے اور ہر موجود کو سنتا ہے۔ عقیدہ (۱۷): مثل دیگر صفات کے کلام بھی قدیم ہے، حادث و مخلوق نہیں، جو قرآنِ عظیم کو مخلوق مانے ھمارے امامِ اعظم و دیگر ائمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھم نے اُسے کافر کہا، بلکہ صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھم سے اُس کی تکفیر ثابت ہے۔ ) عقیدہ (۱۸): اُس کا کلام آواز سے پاک ہے اور یہ قر آ نِ عظیم جس کو ہم اپنی زبان سے تلاوت کرتے، مَصاحِف میں لکھتے ہیں، اُسی کا کلام قدیم بلا صوت ہے اور یہ ھمارا پڑھنا لکھنا اور یہ آواز حادث، یعنی ھمارا پڑھنا حادث ہے اور جو ہم نے پڑھا قدیم اور ھمارا لکھنا حادث اور جو لکھا قدیم، ھمارا سنناحادث ہے اور جو ہم نے سنا قدیم، ھمارا حفظ کرنا حادث ہے اور جو ہم نے حفظ کیا قدیم یعنی متجلّی قدیم ہے اور تجلّی حادث۔ عقیدہ (۱۹): اُس کا علم ہر شے کو محیط یعنی جزئیات، کلیات، موجودات، معدومات، ممکنات، مُحالات، سب کو اَزل میں جانتا تھا اور اب جانتا ہے اور اَبَد تک جانے گا، اشیاء بدلتی ہیں اور اُس کا علم نہیں بدلتا، دلوں کے خطروں اور وَسوسوں پر اُس کو خبر ہے اور اُس کے علم کی کوئی انتہا نہیں۔ ) شہادت کا غیرِ خدا کے لیے ثابت کرے کافر ہے۔ علمِ ذاتی کے یہ معنی کہ بے خدا کے دیے خود حاصل ہو۔ عقیدہ (۲۰): وہ غیب و شہادت سب کو جانتا ہے ، علمِ ذاتی اُس کا خاصہ ہے، جو شخص علمِ ذاتی، غیب خواہ شہادت کا غیرِ خدا کے لیے ثابت کرے کافر ہے۔ علمِ ذاتی کے یہ معنی کہ بے خدا کے دیے خود حاصل ہو۔ عقیدہ (۲۱) : وہی ہر شے کا خالق ہے ، ذوات ہوں خواہ افعال، سب اُسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔) عقیدہ (۲۲) : حقیقۃً روزی پہنچانے والا وہی ہے ، ملائکہ وغیر ہم و سائل و وسائط ہیں۔ ) عقیدہ (۲۳) : ہر بھلائی، بُرائی اُس نے اپنے علمِ اَزلی کے موافق مقدّر فرما دی ہے، جیسا ہونے والا تھا اورجو جیسا کرنے والا تھا، اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ لیا تو یہ نہیں کہ جیسا اُس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے، بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اُس نے لکھ دیا۔ زید کے ذمّہ برائی لکھی اس لیے کہ زید برائی کرنے والا تھا، اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا وہ اُس کے لیے بھلائی لکھتا تو اُس کے علم یا اُس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔ تقدیر کے انکار کرنے والوں کو نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس اُمت کا مجوس بتایا۔ ) عقیدہ (۲۴): قضا تین ۳ قسم ہے۔ مُبرَمِ ۱ حقیقی، کہ علمِ الٰہی میں کسی شے پر معلّق نہیں۔ اور معلّقِ ۲ محض، کہ صُحفِ ملائکہ میں کسی شے پر اُس کا معلّق ہونا ظاہر فرما دیا گیا ہے۔ اور معلّقِ ۳ شبیہ بہ مُبرَم، کہ صُحف ِملائکہ میں اُس کی تعلیق مذکور نہیں اور علمِ الٰہی میں تعلیق ہے۔ وہ جو مُبرَمِ حقیقی ہے اُس کی تبدیل نا ممکن ہے، اکابر محبوبانِ خدا اگر اتفاقاً اس بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں تو اُنھیں اس خیال سے واپس فرما دیا جاتا ہے۔ ملائکہ قومِ لوط پر عذاب لے کر آئے، سیّدنا ابراہیم خلیل اﷲ علی نبیّنا الکریم وعلیہ افضل الصّلاۃ والتسلیم کہ رحمتِمحضہ تھے، اُن کا نامِ پاک ہی ابراہیم ہے، یعنی ابِ رحیم ، مہربان باپ، اُن کافروں کے بارے میں اتنے ساعی ہوئے کہ اپنے رب سے جھگڑنے لگے، اُن کا رب فرماتا ہے۔ ( یُجَادِلُنَا فِیۡ قَوْمِ لُوۡطٍ ﴿ؕ۷۴﴾ (پ۱۲، ھود: ۷۴ ) ''ہم سے جھگڑنے لگا قومِ لوط کے بارے میں۔'' یہ قرآنِ عظیم نے اُن بے دینوں کا رَد فرمایا جو محبوبانِ خدا کی بارگاہِ عزت میں کوئی عزت و وجاہت نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اس کے حضور کوئی دَم نہیں مار سکتا، حالانکہ اُن کا رب عزوجل اُن کی وجاہت اپنی بارگاہ میں ظاہر فرمانے کو خود ان لفظوں سے ذکر فرماتا ہے کہ : ''ہم سے جھگڑنے لگا قومِ لوط کے بارے میں''، حدیث میں ہے: شب ِمعراج حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک آواز سنی کہ کوئی شخص اﷲ عزوجل کے ساتھ بہت تیزی اور بلند آواز سے گفتگو کر رہا ہے، حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جبریل امین علیہ الصلاۃ والسلام سے دریافت فرمایا :''کہ یہ کون ہیں؟ '' عرض کی موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام، فرمایا: ''کیا اپنے رب پر تیز ہو کر گفتگو کرتے ہیں؟'' عرض کی: اُن کا رب جانتا ہے کہ اُن کے مزاج میں تیزی ہے۔ جب آیہ کریمہ (وَ لَسَوْفَ یُعْطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ) ــ نازل ہوئی کہ ''بیشک عنقریب تمھیں تمھارا رب اتنا عطا فرمائے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔'' حضور سیّدالمحبوبین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِذاً لاَّ أَرْضٰی وَوَاحِدٌ مِّنْ أُمَّتِيْ فِي النَّارِ)).( ''التفسیر الکبیر''، پ۳۰، الضحی: تحت الآیۃ: ۵، ج۱۱، ص۱۹۴ ) ''ایسا ہے تو میں راضی نہ ہوں گا، اگر میرا ایک اُمتی بھی آگ میں ہو۔'' یہ تو شانیں بہت رفیع ہیں، جن پر رفعت عزت وجاہت ختم ہے۔ صلوات اﷲ تعالیٰ و سلامہ علیہم مسلمان ماں باپ کا کچّا بچہ جو حمل سے گر جاتا ہے اُس کے لیے حدیث میں فرمایا: کہ ''روزِ قیامت اﷲ عزوجل سے اپنے ماں باپ کی بخشش کے لیے ایسا جھگڑے گا جیسا قرض خواہ کسی قرض دار سے، یہاں تک کہ فرمایا جائے گا: ((أَیُّـھَا السِّقْطُ المُرَاغِمُ رَبَّـہٗ)).(''سنن ابن ماجہ''، أبواب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء فیمن أصیب بسقط، الحدیث: ۱۶۰۸، ج۲، ص۲۷۳. ''اے کچے بچے! اپنے رب سے جھگڑنے والے! اپنے ماں باپ کا ہاتھ پکڑ لے اور جنت میں چلا جا۔'' خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، مگر ایمان والوں کے لیے بہت نافع اور شیاطین الانس کی خبا ثت کا دافع تھا، کہنا یہ ہے کہ قومِ لوط پر عذاب قضائے مُبرَمِ حقیقی تھا، خلیل اﷲ علیہ الصّلاۃ والسلام اس میں جھگڑے تو اُنھیں ارشاد ہوا: ''اے ابراہیم! اس خیال میں نہ پڑو ... بیشک اُن پر وہ عذاب آنے والاہے جو پھرنے کا نہیں۔'' اور وہ جو ظاہر قضائے معلّق ہے، اس تک اکثر اولیا کی رسائی ہوتی ہے، اُن کی دُعا سے، اُن کی ہمّت سے ٹل جاتی ہے اور وہ جو متوسّط حالت میں ہے، جسے صُحف ِملائکہ کے اعتبا ر سے مُبرَم بھی کہہ سکتے ہیں، اُس تک خواص اکابر کی رسائی ہوتی ہے۔ حضور سیّدنا غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اسی کو فرماتے ہیں: ''میں قضائے مُبرَم کو رد کر دیتا ہوں اور اسی کی نسبت حدیث میں ارشاد ہوا: ((إِنَّ الدُّعَاءَ یَرُدُّ القَضَاءَ بَعْدَ مَا اُبْرِمَ)).( ''کنز العمال''، کتاب الأذکار، ج۱، الجزء الثاني، ص۲۸، الحدیث:۳۱۱۷. بألفاظ متقاربۃ. ''بیشک دُعا قضائے مُبرم کو ٹال دیتی ہے۔'' مسئلہ (۱): قضا و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے، ان میں زیادہ غور و فکر کرنا سببِ ھلاکت ہے، صدیق وفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنھما اس مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے۔ ما و شما کس گنتی میں ...! اتنا سمجھ لو کہ اﷲ تعالیٰ نے آدمی کو مثلِ پتھر اور دیگر جمادات کے بے حس و حرکت نہیں پیدا کیا، بلکہ اس کو ایک نوعِ اختیار دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے، چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی عقل بھی دی ہے کہ بھلے، بُرے، نفع، نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا کر دیے ہیں، کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اُسی قسم کے سامان مہیّا ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پر اُس پر مؤاخذہ ہے۔ اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا، دونوں گمراہی ہیں۔ ) مسئلہ (۲): بُرا کام کرکے تقدیرکی طرف نسبت کرنا اور مشیتِالٰہی کے حوالہ کرنا بہت بُری بات ہے ، بلکہ حکم یہ ہے کہ جو اچھا کام کرے، اسے منجانب اﷲ کہے اور جو برائی سر زد ہو اُس کو شامتِ نفس تصوّر کرے۔ ) عقیدہ (۲۵): اﷲ تعالیٰ جہت ومکا ن و زمان و حرکت و سکون و شکل و صورت و جمیع حوادث سے پاک ہے۔ عقیدہ (۲۶): دنیا کی زندگی میں اﷲ عزوجل کا دیدار نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے اور آخرت میں ہر سُنّی مسلمان کے لیے ممکن بلکہ واقع۔ رہا قلبی دیدار یا خواب میں، یہ دیگر انبیا علیہم السلام بلکہ اولیا کے لیے بھی حاصل ہے۔ ھمارے امامِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو خواب میں سو ۱۰۰ بار زیارت ہوئی۔ ) عقیدہ (۲۷): اس کا دیدار بلا کیف ہے، یعنی دیکھیں گے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیسے دیکھیں گے، جس چیز کو دیکھتے ہیں اُس سے کچھ فاصلہ مسافت کا ہوتا ہے، نزدیک یا دور، وہ دیکھنے والے سے کسی جہت میں ہوتی ہے، اوپر یا نیچے، دہنے یا بائیں، آگے یا پیچھے، اُس کا دیکھنا اِن سب باتوں سے پاک ہوگا۔ پھر رہا یہ کہ کیونکر ہوگا؟ یہی تو کہا جاتا ہے کہ کیونکر کو یہاں دخل نہیں، اِن شاء اﷲ تعالیٰ جب دیکھیں گے اُس وقت بتا دیں گے۔ اس کی سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک عقل پہنچتی ہے، وہ خدا نہیں اور جو خدا ہے، اُس تک عقل رسا نہیں، اور وقتِ دیدار نگاہ اُس کا اِحاطہ کرے، یہ محال ہے۔) عقیدہ (۲۸): وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، کسی کو اُس پر قابو نہیں اور نہ کوئی اُس کے ارادے سے اُسے باز رکھنے والا۔ اُس کو نہ اُونگھ آئے نہ نیند، تمام جہان کا نگاہ رکھنے والا ، نہ تھکے، نہ اُکتائے ، تمام عالم کا پالنے والا ماں باپ سے زیادہ مہربان، حلم والا۔ اُسی کی رحمت ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا ، اُسی کے لیے بڑائی اور عظمت ہے۔ ماؤں کے پیٹ میں جیسی چاہے صورت بنانے والا ، گناہوں کو بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا، قہر و غضب فرمانے والا ، اُس کی پکڑ نہایت سخت ہے ، جس سے بے اُس کے چھڑائے کوئی چھوٹ نہیں سکتا۔ وہ چاہے تو چھوٹی چیز کو وسیع کر دے اور وسیع کو سمیٹ دے ، جس کو چاہے بلند کر دے اور جس کو چاہے پست، ذلیل کو عزت دیدے اور عزت والے کو ذلیل کر دے ، جس کو چاہے راہِ راست پر لائے اور جس کو چاہے سیدھی راہ سے الگ کر دے ، جسے چاہے اپنا نزدیک بنالے اور جسے چاہے مردود کر دے، جسے جو چاہے دے اور جو چاہے چھین لے، وہ جو کچھ کرتا ہے یا کریگا عدل وانصاف ہے ، ظلم سے پاک و صاف ہے نہایت بلند و بالا ہے ، وہ سب کو محیط ہے اُس کا کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا، نفع و ضرر اُسی کے ہاتھ میں ہیں، مظلوم کی فریاد کو پہنچتا اور ظالم سے بدلا لیتا ہے، اُس کی مشیت اور اِرادہ کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا ، مگر اچھے پر خوش ہوتا ہے اور بُرے سے ناراض، اُس کی رحمت ہے کہ ایسے کام کا حکم نہیں فرماتا جو طاقت سے باہر ہے۔ اﷲ عزوجل پر ثواب یا عذاب یا بندے کے ساتھ لطف یا اُس کے ساتھ وہ کرنا جو اُس کے حق میں بہتر ہو اُس پر کچھ واجب نہیں۔ مالک علی الاطلاق ہے، جو چاہے کرے اور جو چاہے حکم دے، ہاں! اُس نے اپنے کرم سے وعدہ فرما لیا ہے کہ مسلمانوں کوجنت میں داخل فرمائے گا اور بمقتضائے عدل کفّار کو جہنم میں ، اور اُس کے وعدہ و وعید بدلتے نہیں ، اُس نے وعدہ فرمالیا ہے کہ کفر کے سوا ہر چھوٹے بڑے گناہ کو جسے چاہے معاف فرمادے گا۔) عقیدہ (۲۹): اُس کے ہر فعل میں کثیر حکمتیں ہیں، خواہ ہم کو معلوم ہوں یا نہ ہوں اور اُس کے فعل کے لیے غرض نہیں، کہ غرض اُس فائدہ کو کہتے ہیں جو فاعل کی طرف رجوع کرے، نہ اُس کے فعل کے لیے غایت، کہ غایت کا حاصل بھی وہی غرض ہے اور نہ اُس کے افعال علّت و سبب کے محتاج، اُس نے اپنی حکمتِ بالغہ کے مطابق عالَمِ اسباب میں مسبّبات کو اسباب سے ربط فرمادیا ہے، آنکھ دیکھتی ہے، کان سنتا ہے، آ گ جلاتی ہے، پانی پیاس بجھاتا ہے، وہ چاہے تو آنکھ سُنے، کان دیکھے، پانی جلائے، آگ پیاس بجھائے، نہ چاہے تو لاکھ آنکھیں ہوں دن کو پہاڑ نہ سُوجھے، کروڑآگیں ہوں ایک تنکے پر داغ نہ آئے۔ کس قہر کی آگ تھی جس میں ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو کافروں نے ڈالا...! کوئی پاس نہ جا سکتا تھا، گوپھن میں رکھ کر پھینکا، جب آگ کے مقابل پہنچے، جبریلِ امین علیہ الصلاۃ والسلام حاضر ہوئے اور عرض کی: ابراہیم کچھ حاجت ہے؟ فرمایا: ہے مگر نہ تم سے۔ عرض کی: پھر اُسی سے کہیے جس سے حاجت ہے، فرمایا: ''عِلْمُہٗ بِحَالِيْ کَفَانِي عَنْ سُؤَالِيْ''.( ''ملفوظات ''، حصہ ۴، ص ۴۶۲ ۔ یعنی: اس کا میرے حال کو جاننا یہی مجھے کفایت کرتا ہے میرے سوال کرنے سے اظہارِ احتیاج خود آنجاچہ حاجت ست۔ (اپنی حاجت کے اِظہار کی وہاں کیا حاجت ہے! ؎ ارشاد ہوا: (یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبْرٰہِیۡمَ ﴿ۙ۶۹﴾ ) پ۱۷، الأنبیآء : ۶۹. ''اے آگ! ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا ابراہیم پر۔'' اس ارشاد کو سُن کر روئے زمین پر جتنی آگیں تھیں سب ٹھنڈی ہوگئیں کہ شاید مجھی سے فرمایا جاتا ہو اور یہ تو ایسی ٹھنڈی ہوئی کہ علما فرماتے ہیں کہ اگر اس کے ساتھ (وَسَلٰمًا) کا لفظ نہ فرما دیا جاتا کہ ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا تو اتنی ٹھنڈی ہو جاتی کہ اُس کی ٹھنڈک ایذا دیتی۔ (بحوالہ بہارِ شریعت حصہ اول عقائد کا بیان )
×
×
  • Create New...