Jump to content

Najam Mirani

اراکین
  • کل پوسٹس

    232
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    16

سب کچھ Najam Mirani نے پوسٹ کیا

  1. وُجُودِ الٰہی کے انکار کے بارے میں سُوال جواب سُوال:اللہ عَزَّوَجَلَّ کو انسان کی طرح بدن والا ماننا کیسا ہے؟ جواب:ایسا کہنے یا ماننے والا کافر ہے۔میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن فتاویٰ رضویہ،جلد14، صَفْحَہ 250 پر''دُرِّمُختار''کے حوالے سے نَقل کرتے ہیں: ''اگر ضَروریاتِ دین سے کسی چیز کامنکِرہو تو کافر ہے جیسے یہ کہناکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اَجسام کے مانند جسم ہے ۔"" (دُرِّمُختار ج2 ص 358) سُوال:کسی نے مُشکِلات سے تنگ آکر يہ کہہ ديا:''اگر واقِعی اللہ عَزَّوَجَلَّ ہوتا تو غریبوں کا ساتھ دیتا، مجبوروں کا سَہارا ہوتا''اس بارے ميں کچھ ارشاد فرمائیے۔ جواب:مذکورہ جُملے سے صاف ظاہِر ہے کہ کہنے والااللہ عَزَّوَجَلَّ کے وُجُود ہی کا اِنکار کررہا ہے کہ غریبوں مجبوروں کی مدد نہ ہونا اِس وجہ سے ہے کہ (مَعاذَاللہ عَزَّوَجَلَّ)اللہ عَزَّوَجَلَّ نہيں ہے اگر ہوتا تو ان کی مدد ہوتی۔ کہنے والاکافِر و مُرتَدہے ۔ سُوال:یہ کہنا کیسا کہ ''مجھے ایسا لگتا ہے کہ اللہ نہیں ہے اگر ہوتاتو میری دُعا ضَرُور سنتا۔'' جواب:اِس جُملے میں اللہُ غفّار عَزَّوَجَلَّ کے وُجُود کا انکار پایا جا رہا ہے ۔کہنے والا کافِر ہو گیا ۔ ''اللہ عَزَّوَجَلَّ مکان سے پاک ہے''کے بارے میں سُوال جواب سُوال:''روزی دینے والا یا انصاف کرنے والا اوپر بیٹھا ہے۔ ''کہنا کیسا؟ جواب:یہ کلِمۂ کُفْر ہے کیوں کہ اس میں اللہُ الرَّحمٰن عَزَّوَجَلّ َکے لئے سَمْت و مکان ثابِت کئے گئے ہیں۔ صَدْرُالشَّرِیْعَہ ، بَدْرُ الطَّريقہ حضرت علامہ مَوْلانامُفتی محمد امجَد علی اعظمی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے مکان ثابِت کرنا کُفْر ہے کہ وہ مکان سے پاک ہے، یہ کہناکہ''اوپر خُدا ہے نیچے تم ''یہ کَلِمَۂ کُفْر ہے۔ (بہارِ شریعت حصّہ 9 ص 180، فتاوٰی قاضی خان ج4ص470) سُوال:اپنے بچوں کو بعض لوگ یِہی ذِہن دیتے ہیں کہ اللہ اوپر ہے۔ لہٰذا ان بچّوں کو جب پیار سے پوچھا جائے کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ تو فوراً آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھا دیتے ہیں۔ایسا سکھانا کیسا؟ جواب:اس طرح وُہی سکھاتا ہو گا جس کا اپنا ذِہن بھی یِہی ہوتا ہو گا کہ مَعاذَاللہ عَزَّوَجَلَّ''اللہ تعالیٰ اوپر ہے یا اوپر اُس کا مکان ہے جس میں وہ رہتا ہے ''یہ دونوں باتیں کفر ہیں۔ اللہ تعالیٰ جِہَت (یعنی سمت)سے بھی پاک ہے اور مکان سے بھی ۔بچّہ کو اشارہ مت سکھایئے بلکہ جُوں ہی بولنے کے لائق ہو سب سے پہلے اُس کی زَبان سے لَفظ''اللہ'' نِکلوانے کی کوشِش فرمائیے۔ اِس کے بعدلَآ اِلٰہَ اِلَّاا للہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کہنا سکھائیے۔نیز اُس کو یہ کہنا بھی سکھایئے:اللہ ہماری جان سے بھی قریب ہے۔ پارہ 26سورۂ ق آیت نمبر16میں اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیۡہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیۡدِ ﴿16﴾ ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم دل کی رگ سے بھی اس سے زیادہ نزدیک ہیں۔ ( پ26 ق16) صدرُ الافاضِل حضرتِ علامہ مولیٰنا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں:یہ کمالِ علم کا بیان ہے کہ ہم بندے کے حال کو خود اس سے زیادہ جاننے والے ہیں ،''وَرِید''وہ رَگ ہےجس میں خون جاری ہو کر بدن کے ہر ہرجُزو(یعنی حصّے)میں پہنچتا ہے، یہ رگ گردن میں ہے۔ معنیٰ یہ ہیں کہ انسان کے اَجزاء ایک دوسرے سے پردے میں ہیں مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے کوئی چیز پردے میں نہیں۔ (خَزَائِنُ الْعِرْفَان ص 826) سُوال:آج کل گونگے بَہروں کو تربیّت دینے والے''اللہ'' کا اشارہ آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھوا کر سکھاتے ہیں یہ کہاں تک دُرُست ہے؟ جواب:یہ طریقہ قَطعاً (قَطْ۔عاً)غَلَط ہے۔ ان بے چاروں کے ذِہن میں یِہی نظریات بیٹھ جاتے ہوں گے کہ''ا للہ تعالیٰ اوپر ہے یا اوپر اُس کا مکان ہےجس میں وہ رہتا ہے”یہ دونوں باتیں کفر ہیں''اللہ عَزَّوَجَلَّ جِہَت (یعنی سَمت)سے بھی پاک ہے اور مکان سے بھی ۔ آسمان کی طرف اشارہ کرنے کے بجائے ان کو ہاتھ کے ذَرِیعے لفظ''اللہ''بنانا سکھانا چاہئے اور اِس کا طریقہ نہایت ہی آسان ہے۔ سیدھے ہاتھ کی اُنگلیاں معمولی سی کُشادہ کر کے انگوٹھے کا سِرااوپر کی طرف تھوڑا سابڑھا کر شہادت کی اُنگلی کے پہلو کے وَسط میں لگا لیجئے اب سیدھی ہتھیلی کی پُشت کی طرف دیکھئے تو لفظش محسوس ہوگا۔اِسی طرح کر کے اُلٹے ہاتھ کی ہتھیلی کی اگلی طرف دیکھیں گے تواللہ لکھا ہوا نظر آئے گا۔ فِلمیں کُفرِیّات سیکھنے کا ذَ رِیعہ ہیں میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اللہ تعالیٰ کے لئے مکان اورجِہَت(یعنی سَمت)ثابِت کرنے والے جُملے لوگوں میں کافی رائج ہوتے جا رہے ہیں مَثَلاً''اُوپر والا''کہنا تو بَہُت زیادہ عام ہے۔ جو کہ اکثر لوگوں نے زیادہ تر فلموں ڈِراموں سے سیکھا ہے۔ چُونکہ ہر مسلمان کفریات کی پہچان نہیں کر پاتا ،اِس وجہ سے نہ جانے کتنے مسلمان روزانہ یہ غلطیاں کرتے ہوں گے۔ جن لوگوں سے زندَگی میں کبھی ایک بار بھی یہ جُملہ صادِر ہو گیا ہو انھیں چاہیے کہ اس سے توبہ کریں اور نئے سرے سے کلمہ پڑھیں اور اگر شادی شُدہ ہیں تو نئے سرے سینِکاح بھی کریں۔کاش!مسلمان بُرے خاتمے کا ڈر اپنے اندر پیدا کریں ،فلموں ڈِراموں اور گانے باجوں سے کَنارا کشی اختیار کریں اورضَروریاتِ دین کا علم حاصِل کریں۔آہ!موت ہر وقت سر پر کھڑی ہے !موت بیماریوں، دھماکوں، ہنگاموں،سیلابوں، طوفانی بارِشوں، زلزلوں، آتَش زدگیوں، نیز تیز رفتار گاڑیوں کے حادِثوں کے ذَرِیعے اچّھے خاصے کڑیل جوانوں کو بھی فوری طور پر اُچک کر لے جاتی ہے اور ساری خَرمستیاں اورفنکاریاں خاک میں مل جاتی ہیں ؎ جل گئے پروانے شَمعیں پانی پانی ہو گئیں میرا تیرا ذکر ہو کر انجمن میں رہ گیا ''اللہ آسمان سے دیکھ رہا ہے''کہنا کیسا؟ سُوال:بدنِگاہی کرنے والے کو ڈرانے کیلئے یہ کہہ سکتے ہیں یا نہیں کہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ آسمان سے دیکھ رہا ہے۔ جواب:نہيں کہہ سکتے کہ یہ کُفر یہ جملہ ہے ۔ فتاوٰی عالَمگیری جلد2 صَفْحَہ 259 پر ہے:'' اللہ تعالیٰ آسمان سے یا عرش سے دیکھ رہا ہے''ایسا کہنا کفر ہے ۔ (عالمگیری ج2ص259) ہاں بدنِگاہی بلکہ کسی بھی طرح کا گناہ کرنے والے کو یہ اِ حساس دلایا جائے کہ '' اللہ عَزَّوَجَلَّ دیکھ رہا ہے ۔ ''جیسا کہ پارہ 30 سورۃُ الْعَلَق کی14 ویں آیتِ کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے: اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اللہَ یَرٰی ﴿ؕ14﴾ ترجَمۂ کنزالایمان:کیا نہ جانا کہ اللہ(عَزَّوَجَلَّ)دیکھ رہا ہے۔ ہزار حج سے بہتر عمل میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!کاش!حقیقی معنوں میں ہمارے ذِہن میں ہر وَقت یہ بات جمی رہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں دیکھ رہا ہے اگرواقعی اس تصوُّر کی معراج نصیب ہو جائے تو پھر گناہوں کا صُدور نہیں ہوسکتا۔ حضرتِ سیِّدُنا امام ابو القاسِم قُشَیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:حضرت حصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمایا کرتے تھے:''ایک بار بیٹھنا ہزار حج سے بہتر ہے۔''اِس ایک بار بیٹھنے سے مُرادیِہی ہے کہ تمام تر توجُّہ جمع کر کے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنے آپ کو حاضِر تصوُّر کرنا(کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے دیکھ رہا ہے) (الرِّسالۃُ القُشَیرِیَّۃ ص 321) اللہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کُفرِیہ کلمات کے مُتَعَلِّق عِلْم سیکھنا فرض ہے یاد رکھئے!کُفرِیَّہ کلمات کے مُتَعَلِّق علم حاصِل کرنا فرض ہے ۔ چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 23 صَفْحَہ 624 پر فرماتے ہیں:مُحَرَّمَاتِ باطِنِیَّہ یعنی باطِنی ممنوعات مَثَلاً)تکبُّرو رِیا وعُجَب (یعنی خود پسندی)و حسد وغیرہا اور اُن کے مُعَالََجَات (یعنی علاج)کہ ان کا علم بھی ہر مسلمان پر اَہَم فرائض سے ہے۔(1)مزید صَفْحَہ 626 پر فتاوٰی شامی کے حوالے سے فرماتے ہیں:حرام الفاظ اورکُفرِیَّہ کلمات کے مُتَعَلِّق علم سیکھنا فرض ہے، اِس زمانے میں یہ سب سے ضَروری اُمُور ہیں۔ (رَدُّالْمُحتار ج1 ص107) کفریہ کلمات جاننے کے لیئے امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ کی لکھی ہوئی کتاب کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب کا مطالعہ فرمائیں۔ اس لنک سے یہ کتاب دائون لوڈ کی جا سکتی ہے۔ http://www.dawateislami.net/books/bookslibrary.do#!section:bookDetail_494.ur
  2. Najam Mirani

    عالمِ برزخ کا بیان

    دنیا اور آخرت کے درمیان ایک اور عالَم ہے جس کو برزخ کہتے ہیں، مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے تمام اِنس وجن کو حسبِ مراتب اُس میں رہنا ہوتا ہے، اور یہ عالَم اِس دنیا سے بہت بڑا ہے۔ دنیا کے ساتھ برزخ کو وہی نسبت ہے جو ماں کے پیٹ کے ساتھ دنیا کو ، برزخ میں کسی کو آرام ہے اور کسی کو تکلیف۔ عقیدہ(۱): ہر شخص کی جتنی زندگی مقرّر ہے اُس میں نہ زیادتی ہو سکتی ہے نہ کمی، جب زندگی کا وقت پورا ہو جاتا ہے، اُس وقت حضرت عزرائیل علیہ السلام قبضِ روح کے لیے آتیہیں اور اُس شخص کے دہنے بائیں جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے فرشتے دکھائی دیتے ہیں ، مسلمان کے آس پاس رحمت کے فرشتے ہوتے ہیں اور کافر کے دہنے بائیں عذاب کے۔ اُس وقت ہر شخص پر اسلام کی حقّانیت آفتاب سے زیادہ روشن ہو جاتی ہے، مگر اُس وقت کا ایمان معتبر نہیں، اس لیے کہ حکم ایمان بالغیب کا ہے اور اب غیب نہ رہا، بلکہ یہ چیزیں مشاہد ہو گئیں۔ عقیدہ (۲): مرنے کے بعد بھی روح کا تعلق بدنِ انسان کے ساتھ باقی رہتا ہے، اگرچہ روح بدن سے جُدا ہو گئی، مگر بدن پر جو گزرے گی رُوح ضرور اُس سے آگاہ و متأثر ہوگی، جس طرح حیاتِ دنیا میں ہوتی ہے، بلکہ اُس سے زائد۔ دنیا میں ٹھنڈا پانی، سرد ہَوا، نرم فرش، لذیذ کھانا، سب باتیں جسم پر وارِد ہوتی ہیں، مگر راحت و لذّت روح کو پہنچتی ہے اور ان کے عکس بھی جسم ہی پر وارِد ہوتے ہیں اور کُلفت و اذیّت روح پاتی ہے،اور روح کے لیے خاص اپنی راحت واَلم کے الگ اسباب ہیں، جن سے سرور یا غم پیداہوتا ہے، بعینہٖ یہی سب حالتیں برزخ میں ہیں۔ (''منح الروض الأزہر''، ص۱۰۰۔۱۰۱ عقیدہ (۳): مرنے کے بعد مسلمان کی روح حسبِ مرتبہ مختلف مقاموں میں رہتی ہے، بعض کی قبر پر ، بعض کی چاہِ زمزم شریف میں، بعض کی آسمان و زمین کے درمیان، بعض کی پہلے، دوسرے، ساتویں آسمان تک اور بعض کی آسمانوں سے بھی بلند، اور بعض کی روحیں زیرِ عرش قندیلوں میں، اور بعض کی اعلیٰ عِلّیین میں مگر کہیں ہوں، اپنے جسم سے اُن کو تعلق بدستور رہتا ہے۔ جو کوئی قبر پر آئے اُسے دیکھتے، پہچانتے، اُس کی بات سنتے ہیں، بلکہ روح کا دیکھنا قُربِ قبر ہی سے مخصوص نہیں، اِس کی مثال حدیث میں یہ فرمائی ہے، کہ ''ایک طائر پہلے قفص میں بند تھا اور اب آزاد کر دیا گیا۔'' ائمہ کرام فرماتے ہیں: ''إِنَّ النُّفُوْسَ القُدْسِیَّۃَ إِذَا تَجَرَّدَتْ عَنِ الْـعَـلَا ئِقِ الْبَدَنِیَّۃِ اتّصَلَتْ بِالْمَلَإِ الْأَعْلٰی وَتَرٰی وَتَسْمَعُ الکُلَّ کَالْمُشَاھِدِ .'' ( ''فیض القدیر'' شرح ''الجامع الصغیر''، حرف الصاد، تحت الحدیث: ۵۰۱۶، ج۴، ص۲۶۳. بألفاظ متقاربۃ. ''بیشک پاک جانیں جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں، عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور سب کچھ ایسا دیکھتی سنتی ہیں جیسے یہاں حاضر ہیں۔'' حدیث میں فرمایا: ((إِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ یُخلّٰی سَرْبُہٗ یَسْرَحُ حَیْثُ شآءَ.))( ''شرح الصدور''، باب فضل الموت، ص۱۳ ''جب مسلما ن مرتا ہے اُس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے۔'' شاہ عبدالعزیز صاحب لکھتے ہیں( ''فتاوی رضویہ ''، ج ۲۹ ، ص۵۴۵، بحوالہ ئ ''فتاوی عزیزیہ '' روح را قُرب و بُعد مکانی یکساں است۔'' (یعنی روح کے لیے کوئی جگہ دور یا نزدیک نہیں ،بلکہ سب جگہ برابر ہے۔ کافروں کی خبیث روحیں بعض کی اُن کے مرگھٹ، یا قبر پر رہتی ہیں، بعض کی چاہِ برہُوت میں کہ یمن میں ایک نالہ ہے، بعض کی پھلی، دوسری، ساتویں زمین تک، بعض کی اُس کے بھی نیچے سجّین میں، اور وہ کہیں بھی ہو، جو اُس کی قبر یا مرگھٹ پر گزرے اُسے دیکھتے، پہچانتے، بات سُنتے ہیں، مگر کہیں جانے آنے کا اختیار نہیں، کہ قید ہیں۔ عقیدہ( ۴): یہ خیال کہ وہ روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے، خواہ وہ آدمی کا بدن ہو یا کسی اور جانور کا جس کو تناسخ اور آواگون کہتے ہیں، محض باطل اور اُس کا ماننا کفر ہے۔ عقیدہ (۵): موت کے معنی روح کا جسم سے جدا ہو جانا ہیں، نہ یہ کہ روح مر جاتی ہو، جو روح کو فنا مانے، بد مذہب ہے۔ عقیدہ (۶): مردہ کلام بھی کرتا ہے اور اُس کے کلام کو عوام، جن اور انسان کے سوا اور تمام حیوانات وغیرہ سنتے بھی ہیں۔) عقیدہ (۷): جب مردہ کو قبر میں دفن کرتے ہیں، اُس وقت اُس کو قبر دباتی ہے۔ اگر وہ مسلمان ہے تو اُس کا دبانا ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ماں پیار میں اپنے بچّے کو زور سے چپٹا لیتی ہے ، اور اگر کافر ہے تو اُس کو اِس زور سے دباتی ہے کہ اِدھر کی پسلیاں اُدھر اور اُدھر کی اِدھر ہو جاتی ہیں۔ عقیدہ (۸): جب دفن کرنے والے دفن کرکے وہاں سے چلتے ہیں وہ اُن کے جوتوں کی آواز سنتا ہے، اُس وقت اُس کے پاس دو فرشتے اپنے دانتوں سے زمین چیرتے ہوئے آتے ہیں، اُن کی شکلیں نہایت ڈراؤنی اور ہیبت ناک ہوتی ہیں، اُن کے بدن کا رنگ سیاہ، اور آنکھیں سیاہ اور نیلی، اور دیگ کی برابر اور شعلہ زن ہیں، اور اُن کے مُہیببال سر سے پاؤں تک، اور اُن کے دانت کئی ہاتھ کے، جن سے زمین چیرتے ہوئے آئیں گے، اُن میں ایک کو منکَر، دوسرے کو نکیر کہتے ہیں ،مردے کو جھنجھوڑتے اور جھڑک کر اُٹھاتے اور نہایت سختی کے ساتھ کرخت آواز میں سوال کرتے ہیں۔ پھلا سوال: ((مَنْ رَّبُّکَ؟)) ''تیرا رب کو ن ہے؟'' دوسرا سوال: ((مَا دِیْنُکَ؟)) ''تیرا دین کیا ہے؟'' تیسرا سوال: ((مَا کُنْتَ تَقُولُ فِيْ ھَذَا الرَّجُلِ؟)) ''ان کے بارے میں تُو کیا کہتا تھا؟'' مردہ مسلمان ہے تو پہلے سوال کا جواب دے گا: ((رَبِّيَ اللہُ.)) ''میرا رب اﷲ (عزوجل) ہے۔'' اور دوسرے کا جواب دے گا : ((دِیْنِيَ الإِسْلاَمُ.)) ''میرا دین اسلام ہے۔'' تیسرے سوال کا جواب دے گا: ((ھُوَ رَسُوْلُ اللہِ صلّی اللہ تعالٰی علیْہ وَسلَّم.)) ''وہ تو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔'' وہ کہیں گے، تجھے کس نے بتایا؟ کہے گا: میں نے اﷲ (عزوجل) کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لایا اور تصدیق کی۔ (''سنن أبي داود''، کتاب السنۃ، باب في المسألۃ في القبر وعذاب القبر، الحدیث: ۴۷۵۳، ج۴، ص۲۶۶. بعض روایتوں میں آیا ہے، کہ سوال کا جواب پا کر کہیں گے کہ ہمیں تو معلوم تھا کہ تُو یہی کہے گا، اُس وقت آسمان سے ایک منادی ندا کریگا کہ میرے بندہ نے سچ کہا، اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھاؤ، اور جنت کا لباس پہناؤ اور اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو۔ جنت کی نسیم اور خوشبو اُس کے پاس آتی رہے گی اور جہاں تک نگاہ پھیلے گی، وہاں تک اُس کی قبر کشادہ کردی جائے گی اور اُس سے کہا جائے گا کہ تو سو جیسے دُولہا سوتا ہے۔ یہ خواص کے لیے عموماً ہے اور عوام میں اُن کے لیے جن کو وہ چاہے، ورنہ وسعتِ قبر حسبِ مراتب مختلف ہے ، بعض کیلئے ستّر ستّر ہاتھ لمبی چوڑی، بعض کے لیے جتنی وہ چاہے زیادہ، حتیٰ کہ جہاں تک نگاہ پہنچے ، اور عُصاۃ ( عاصی کی جمع، یعنی گنہگار وں، نافرمانوں) میں بعض پر عذاب بھی ہو گا ان کی معصیت کے لائق ، پھر اُس کے پیرانِ عظام یا مذہب کے امام یا اور اولیائے کرام کی شفاعت یا محض رحمت سے جب وہ چاہے گا ،نجات پائیں گے ، اور بعض نے کہا کہ مؤمن عاصی پر عذابِ قبر شبِ جمعہ آنے تک ہے، اس کے آتے ہی اٹھا لیا جائے گا، واﷲ تعالیٰ اعلم۔ ہاں! یہ حدیث سے ثابت ہے کہ جو مسلمان شبِ جمعہ یا روزِ جمعہ یا رمضانِ مبارک کے کسی دن رات میں مرے گا، سوالِ نکیرین و عذابِ قبر سے محفوظ رہے گا۔ اور یہ جو ارشاد ہوا کہ اُس کے لیے جنت کی کھڑکی کھول دیں گے، یہ یوں ہو گا کے پہلے اُس کے بائیں ہاتھ کی طرف جہنم کی کھڑکی کھولیں گے، جس کی لپٹ اور جلن اور گرم ہوا اور سخت بدبو آئے گی اور معاً بند کر دیں گے، اُس کے بعد دہنی طرف سے جنت کی کھڑکی کھولیں گے اور اُس سے کہا جائے گا کہ اگر تُو اِن سوالوں کے صحیح جواب نہ دیتا تو تیرے واسطے وہ تھی اور اب یہ ہے، تاکہ وہ اپنے رب کی نعمت کی قدر جانے کہ کیسی بلائے عظیم سے بچا کر کیسی نعمتِ عظمیٰ عطا فرمائی۔ اور منافق کے لیے اس کا عکس ہوگا، پہلے جنت کی کھڑکی کھولیں گے کہ اس کی خوشبو، ٹھنڈک، راحت، نعمت کی جھلک دیکھے گا اور معاً بند کر دیں گے اور دوزخ کی کھڑکی کھول دیں گے، تاکہ اُس پر اس بلائے عظیم کے ساتھ حسرتِ عظیم بھی ہو ، کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو نہ مان کر، یا اُن کی شانِ رفیع میں ادنیٰ گستاخی کرکے کیسی نعمت کھوئی اور کیسی آفت پائی! اور اگر مُردہ منافق ہے تو سب سوالوں کے جواب میں یہ کہے گا ((ھَاہْ ھَاہْ لَا أَدْرِي.)) ''افسوس! مجھے توکچھ معلوم نہیں۔'' ((کُنْتُ أَسْمَعُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ شَیْأاً فأقوْلُ.)) ''میں لوگوں کو کہتے سنتا تھا، خود بھی کہتا تھا۔'' اس وقت ایک پکارنے والا آسمان سے پکارے گا: کہ یہ جھوٹا ہے، اس کے لیے آگ کا بچھونا بچھاؤ اور آگ کا لباس پہناؤ اور جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دو۔ اس کی گرمی اور لپٹ اس کو پہنچے گی اور اس پر عذاب دینے کے لیے دو فرشتے مقرر ہوں گے، جو اندھے اور بہرے ہوں گے، ان کے ساتھ لوہے کاگُرز ہو گا کہ پہاڑ پر اگر مارا جائے تو خاک ہو جائے، اُس ہتوڑے سے اُس کو مارتے رہیں گے۔ نیز سانپ اور بچھو اسے عذاب پہنچاتے رہیں گے، نیز اعمال اپنے مناسب شکل پر متشکل ہو کر کتّا یا بھیڑیا یا اور شکل کے بن کر اُس کو ایذا پہنچائیں گے اور نیکوں کے اعمالِ حَسَنہ مقبول و محبوب صورت پر متشکل ہو کر اُنس دیں گے۔ عقیدہ(۹): عذابِ قبر حق ہے اور یوہیں تنعیمِ قبر حق ہے، اور دونوں جسم وروح دونوں پر ہیں، جیسا کہ اوپر گزرا۔ جسم اگرچہ گل جائے، جل جائے، خاک ہو جائے، مگر اُس کے اجزائے اصلیہ قیامت تک باقی رہیں گے، وہ مُوردِ عذاب وثواب ہوں گے اور اُنھیں پر روزِ قیامت دوبارہ ترکیبِ جسم فرمائی جائے گی، وہ کچھ ایسے باریک اجزا ہیں ریڑھ کی ہڈی میں جس کو ''عَجبُ الذَّنب'' کہتے ہیں، کہ نہ کسی خوردبین سے نظر آسکتے ہیں، نہ آگ اُنھیں جلا سکتی ہے، نہ زمین اُنھیں گلا سکتی ہے، وہی تُخمِ جسم ہیں۔ ولہٰذا روزِ قیامت روحوں کا اِعادہ اُسی جسم میں ہوگا، نہ جسمِ دیگر میں،بالائی زائد اجزا کا گھٹنا، بڑھنا، جسم کو نہیں بدلتا، جیسا: بچہ کتنا چھوٹا پیدا ہوتا ہے، پھر کتنا بڑا ہو جاتاہے، قوی ہیکل جوان بیماری میں گھل کر کتنا حقیر رہ جاتا ہے، پھر نیا گوشت پوست آکر مثلِ سابق ہوجاتا ہے، اِن تبدیلیوں سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ شخص بدل گیا۔ یوہیں روزِ قیامت کا عَود ہے، وہی گوشت اور ہڈیاں کہ خاک یا راکھ ہوگئے ہوں، اُن کے ذرّے کہیں بھی منتشر ہو گئے ہوں، رب عزوجل انھیں جمع فرما کر اُس پھلی ہیئت پر لا کر اُنھیں پہلے اجزائے اصلیہ پر کہ محفوظ ہیں، ترکیب دے گا اور ہر رُوح کو اُسی جسمِ سابق میں بھیجے گا، اِس کا نام حشر ہے، عذاب وتنعیمِ قبر کا اِنکار وہی کریگا، جو گمراہ ہے۔ عقیدہ (۱۰): مردہ اگر قبر میں دفن نہ کیا جائے تو جہاں پڑا رہ گیا یا پھینک دیا گیا، غرض کہیں ہو اُس سے وہیں سوالات ہوں گے اور وہیں ثواب یا عذاب اُسے پہنچے گا، یہاں تک کہ جسے شیر کھا گیا تو شیر کے پیٹ میں سوال و ثواب و عذاب جو کچھ ہو پہنچے گا۔ مسئلہ : انبیاء علیہم السلام اور اولیائے کرام وعلمائے دین وشہدا وحافظانِ قرآن کہ قرآن مجید پر عمل کرتے ہوں اور وہ جو منصب محبت پر فائز ہیں اور وہ جسم جس نے کبھی اللہ عزوجل کی معصیت نہ کی اور وہ کہ اپنے اوقات درود شریف میں مستغر ق رکھتے ہیں ، ان کے بدن کو مٹی نہیں کھاسکتی( (وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَاء ٌ وَّلٰـکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ) پ۲، البقرۃ: ۱۵۴۔ (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ) پ۴، آل عمران: ۱۶۹۔ عن أبي الدرداء قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((أکثروا الصلاۃ علي یوم الجمعۃ، فإنّہ مشھود تشھدہ الملائکۃ، فإنّ أحداً لن یصلي علي إلاّ عرضت علي صلاتہ حتی یفرغ منھا، قال قلت: وبعد الموت؟ قال: وبعد الموت، إنّ اللہ حرم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیاء علیہم السلام، فنبي اللہ حي یرزق)). ''سنن ابن ماجہ''، أبواب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ، الحدیث: ۱۶۳۷، ج۲، ص۲۹۱. جو شخص انبیائے کرام علیہم السلام کی شان میں یہ خبیث کلمہ کہے کہ مرکے مٹی میں مل گئے ،گمراہ ، بددین ، خبیث ، مرتکب توہین ہے ۔ قبرِستان کے مُردے خواب میں آپہنچے! ایک صاحِب کا معمول تھاکہ وہ قبرِستان میں آکر بیٹھ جاتے اور جب بھی کوئی جنازہ آتااس کی نماز پڑھتے اور شام کے وقت قبرِستان کے دروازے پر کھڑے ہوکراِس طرح دعائیں دیتے:''(اے قَبْر والو!)خداتم کو اُنْس عطاکرے ،تمہاری غُربت پررحم کرے تمہارے گناہ مُعاف فرمائے اور نیکیاں قَبول کرے۔''وُہی صاحِب فرماتے ہیں: ایک شام (بوقتِ رخصت )میں اپنا قبرِستان والا معمول پورا نہ کرسکا یعنی انہیں دعائیں دیئے بِغیر ہی گھر آگیا۔میرے خواب میں ایک کثیر مخلوق آگئی!میں نے ان سے پوچھا : آپ لوگ کون ہیں اور کیوں آئے ہیں؟ بولے: ہم قبرِستان والے ہیں، آپ نے عادَت کرلی تھی کہ گھر آتے وقت ہم کو ہَدیّہ(یعنی تحفہ)دیتے تھے اور آج نہ دیا۔ میں نے کہا: وہ ہدیّہ(ہَ۔دی۔یہ)کیا تھا؟ تو انہوں نے کہا :وہ ہَدیّہ دعاؤں کا تھا۔ میں نے کہا : اچّھا ،اب یہ ہَدیّہ میں تم کو پھر سے دوں گا۔ اس کے بعد میں نے اپنے اِس معمول کو کبھی ترک نہ کیا۔ (شرحُ الصُّدور ص۲۲۶) رُوحیں گھروں پر آکرایصالِ ثواب کامُطالَبہ کرتی ہیں میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مَعلوم ہوامرنے والے اپنی قبروں پرآنے جانے والوں کوپہچانتے ہیں،اور انہیں زِندوں کی دعاؤں سے فائِدہ پہنچتا ہے،جب زِندہ لوگوں کی طرف سے ایصالِ ثواب کے تحفے آنا بند ہوتے ہیں،تو ان کو آگاہی حاصل ہو جاتی ہے اوراللہ عزوجل انہیں اجازت دیتا ہے توگھروں پر جا کر اِیصالِ ثواب کا مُطالَبہ بھی کرتے ہیں۔ میرے آقااعلیٰ حضرت امامِ اہلِسنّت مُجَدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃُ الرحمن فتاوٰی رضویہ( مُخَرَّجہ )جلد9صَفْحَہ650 پر نَقْل کرتے ہیں : ''غَرائب'' اور ''خَزانہ'' میں منقول ہے کہ مومِنین کی رُوحیں ہر شبِ جُمُعہ(یعنی جُمَعرات اور جمعہ کی درمِیانی رات)، روزِ عید ، روزِ عاشورا ء اور شبِ بَراءَ ت کو اپنے گھر آ کر باہَر کھڑی رہتی ہیں اور ہر رُوح غمناک بُلند آواز سے نِداکرتی(یعنی پکار کر کہتی)ہے کہ اے میرے گھروالو !اے میری اولاد! اے میرے قَرابت دارو!(ہمارے ایصالِ ثواب کی نیَّت سے)صَدَقہ (خیرات)کر کے ہم پر مِہربانی کرو۔ ہے کون کہ گِریہ کرے یا فاتِحہ کو آئے بے کس کے اُٹھائے تِری رَحمت کے بَھرَن پھول (حدائقِ بخشش شریف) ،
  3. یہ بات وھابیوں کی اپنی طرف سے من گھڑت بات ہے۔ عقیدہ (۲): مرنے کے بعد بھی روح کا تعلق بدنِ انسان کے ساتھ باقی رہتا ہے، اگرچہ روح بدن سے جُدا ہو گئی، مگر بدن پر جو گزرے گی رُوح ضرور اُس سے آگاہ و متأثر ہوگی، جس طرح حیاتِ دنیا میں ہوتی ہے، بلکہ اُس سے زائد۔ دنیا میں ٹھنڈا پانی، سرد ہَوا، نرم فرش، لذیذ کھانا، سب باتیں جسم پر وارِد ہوتی ہیں، مگر راحت و لذّت روح کو پہنچتی ہے اور ان کے عکس بھی جسم ہی پر وارِد ہوتے ہیں اور کُلفت و اذیّت روح پاتی ہے،اور روح کے لیے خاص اپنی راحت واَلم کے الگ اسباب ہیں، جن سے سرور یا غم پیداہوتا ہے، بعینہٖ یہی سب حالتیں برزخ میں ہیں۔ (''منح الروض الأزہر''، ص۱۰۰۔۱۰۱ عقیدہ (۳): مرنے کے بعد مسلمان کی روح حسبِ مرتبہ مختلف مقاموں میں رہتی ہے، بعض کی قبر پر ، بعض کی چاہِ زمزم شریف میں، بعض کی آسمان و زمین کے درمیان، بعض کی پہلے، دوسرے، ساتویں آسمان تک اور بعض کی آسمانوں سے بھی بلند، اور بعض کی روحیں زیرِ عرش قندیلوں میں، اور بعض کی اعلیٰ عِلّیین میں مگر کہیں ہوں، اپنے جسم سے اُن کو تعلق بدستور رہتا ہے۔ جو کوئی قبر پر آئے اُسے دیکھتے، پہچانتے، اُس کی بات سنتے ہیں، بلکہ روح کا دیکھنا قُربِ قبر ہی سے مخصوص نہیں، اِس کی مثال حدیث میں یہ فرمائی ہے، کہ ''ایک طائر پہلے قفص میں بند تھا اور اب آزاد کر دیا گیا۔'' ائمہ کرام فرماتے ہیں: ''إِنَّ النُّفُوْسَ القُدْسِیَّۃَ إِذَا تَجَرَّدَتْ عَنِ الْـعَـلَا ئِقِ الْبَدَنِیَّۃِ اتّصَلَتْ بِالْمَلَإِ الْأَعْلٰی وَتَرٰی وَتَسْمَعُ الکُلَّ کَالْمُشَاھِدِ .'' ( ''فیض القدیر'' شرح ''الجامع الصغیر''، حرف الصاد، تحت الحدیث: ۵۰۱۶، ج۴، ص۲۶۳. بألفاظ متقاربۃ. ''بیشک پاک جانیں جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں، عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور سب کچھ ایسا دیکھتی سنتی ہیں جیسے یہاں حاضر ہیں۔'' حدیث میں فرمایا: ((إِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ یُخلّٰی سَرْبُہٗ یَسْرَحُ حَیْثُ شآءَ.))( ''شرح الصدور''، باب فضل الموت، ص۱۳ ''جب مسلما ن مرتا ہے اُس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے۔'' شاہ عبدالعزیز صاحب لکھتے ہیں( ''فتاوی رضویہ ''، ج ۲۹ ، ص۵۴۵، بحوالہ ئ ''فتاوی عزیزیہ '' روح را قُرب و بُعد مکانی یکساں است۔'' (یعنی روح کے لیے کوئی جگہ دور یا نزدیک نہیں ،بلکہ سب جگہ برابر ہے۔ کافروں کی خبیث روحیں بعض کی اُن کے مرگھٹ، یا قبر پر رہتی ہیں، بعض کی چاہِ برہُوت میں کہ یمن میں ایک نالہ ہے، بعض کی پھلی، دوسری، ساتویں زمین تک، بعض کی اُس کے بھی نیچے سجّین میں، اور وہ کہیں بھی ہو، جو اُس کی قبر یا مرگھٹ پر گزرے اُسے دیکھتے، پہچانتے، بات سُنتے ہیں، مگر کہیں جانے آنے کا اختیار نہیں، کہ قید ہیں۔ عقیدہ( ۴): یہ خیال کہ وہ روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے، خواہ وہ آدمی کا بدن ہو یا کسی اور جانور کا جس کو تناسخ اور آواگون کہتے ہیں، محض باطل اور اُس کا ماننا کفر ہے۔ عقیدہ (۵): موت کے معنی روح کا جسم سے جدا ہو جانا ہیں، نہ یہ کہ روح مر جاتی ہو، جو روح کو فنا مانے، بد مذہب ہے۔ عقیدہ (۶): مردہ کلام بھی کرتا ہے اور اُس کے کلام کو عوام، جن اور انسان کے سوا اور تمام حیوانات وغیرہ سنتے بھی ہیں۔) عقیدہ (۷): جب مردہ کو قبر میں دفن کرتے ہیں، اُس وقت اُس کو قبر دباتی ہے۔ اگر وہ مسلمان ہے تو اُس کا دبانا ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ماں پیار میں اپنے بچّے کو زور سے چپٹا لیتی ہے ، اور اگر کافر ہے تو اُس کو اِس زور سے دباتی ہے کہ اِدھر کی پسلیاں اُدھر اور اُدھر کی اِدھر ہو جاتی ہیں۔ عقیدہ (۸): جب دفن کرنے والے دفن کرکے وہاں سے چلتے ہیں وہ اُن کے جوتوں کی آواز سنتا ہے، اُس وقت اُس کے پاس دو فرشتے اپنے دانتوں سے زمین چیرتے ہوئے آتے ہیں، اُن کی شکلیں نہایت ڈراؤنی اور ہیبت ناک ہوتی ہیں، اُن کے بدن کا رنگ سیاہ، اور آنکھیں سیاہ اور نیلی، اور دیگ کی برابر اور شعلہ زن ہیں، اور اُن کے مُہیببال سر سے پاؤں تک، اور اُن کے دانت کئی ہاتھ کے، جن سے زمین چیرتے ہوئے آئیں گے، اُن میں ایک کو منکَر، دوسرے کو نکیر کہتے ہیں ،مردے کو جھنجھوڑتے اور جھڑک کر اُٹھاتے اور نہایت سختی کے ساتھ کرخت آواز میں سوال کرتے ہیں۔ خاکسار بھائی کے اسکین پیجز بھی آپ غور سے پڑھیں۔
  4. وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ ، جزاک اللہ عزوجل
  5. آمین، سمارٹ علی بھائی آپ کا بہت بہت شکریہ ہمت افزائی کا ، اللہ عزوجل آپ کو شاد و آباد رکھے۔ اسلامی محفل کی پوری ٹیم آپ کے ساتھ ہے
  6. آمین، وھابی جھوٹ بولتے ہیں ،جوتوں کی آواز سننا یہ مخصوص وقت کے لیئے نہیں ہے ، آپ جب بھی کسی اپنے عزیز کے پاس قبرستان جائینگے تو قبر والا آپ کے جوتوں کی آواز سن لیتا ہے ، اس کے لیئے وقت مقرر نہیں ہے اور جو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگِ بدر میں کفار کو پکارا تھا وہ بالکل معجزہ ہے ، اس سے وھابی کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟
  7. وعلیکم السلام ورحمت اللہ و برکاتہ خاکسار بھا ئی ، جزاک اللہ عزوجل
  8. مردے سنتے ہیں او رمحبوبین بعد وفات مدد کرتے ہیں مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ مردے سنتے ہیں او رزندوں کے حالات دیکھتے ہیں کچھ اجمالی طور سے یہاں عرض کیا جاتا ہے ۔ (1) فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمْ جٰثِمِیۡنَ ﴿۷۸﴾فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِنۡ لَّاتُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿۷۹﴾ پس پکڑلیاقوم صالح کو زلزلے نے تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے پھر صالح نے ان سے منہ پھیرا اورکہا کہ اے میری قوم میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیرخواہوں کوپسند نہیں کرتے ۔(پ8،الاعراف:78۔79) (2) فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ ۚ فَکَیۡفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾ توشعیب نے ان مرے ہوؤں سے منہ پھیر ا اور کہا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہیں نصیحت کی تو کیوں کرغم کرو ں کافروں پر ۔(پ9،الاعراف:93) ان آیتو ں سے معلوم ہوا کہ صالح علیہ السلام اور شعیب علیہ السلام نے ہلاک شدہ قوم پر کھڑے ہوکر ان سے یہ باتیں کیں۔ (3) وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنۡ قَبْلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ ٭ اَجَعَلْنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعْبَدُوۡنَ ﴿٪۴۵﴾ ان رسولوں سے پوچھو جو ہم نے آپ سے پہلے بھیجے کیا ہم نے رحمن کے سوا اور خدا ٹھہرائے ہیں جو پوجے جاویں ۔(پ25،الزخرف:45) گزشتہ نبی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں وفات پاچکے تھے فرمایا جارہاہے کہ وفات یافتہ رسولوں سے پوچھو کہ ہم نے شرک کی اجازت نہ دی تو ان کی امتیں ان پر تہمت لگاکر کہتی ہیں کہ ہمیں شرک کا حکم ہمارے پیغمبروں نے دیا ہے۔ اگر مردے نہیں سنتے توان سے پوچھنے کے کیا معنی ؟ بلکہ اس تیسری آیت سے تو یہ معلوم ہوا کہ خاص بزرگو ں کو مردے جواب بھی دیتے ہیں اور وہ جواب بھی سن لیتے ہیں ۔ اب بھی کشف قبور کرنے والے مردوں سے سوال کرلیتے ہیں ۔ اس لئے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مقتول کافروں سے پکارکرفرمایا کہ بولو میرے تمام فرمان سچے تھے یا نہیں ۔ فاروق اعظم نے عرض کیا کہ بے جان مردو ں سے آپ کلام کیوں فرماتے ہیں تو فرمایا وہ تم سے زیادہ سنتے ہیں ۔ (صحیح البخاری،کتاب الجنائز، باب فی عذاب القبر، الحدیث1370،ج1،ص462،دار الکتب العلمیۃبیروت) دوسری روایت میں ہے کہ دفن کے بعد جب زندے واپس ہوتے ہیں تو مردہ ان کے پاؤں کی آہٹ سنتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب،الباب الخامس والاربعون فی بیان القبر وسؤالہ،ص۱۷۱،دار الکتب العلمیۃبیروت) اسی لئے ہم نمازوں میں حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرتے ہیں اور کھانا کھانے والے ، استنجا کرنے والے، سوتے ہوئے کو سلام کرنا منع ہے کیونکہ وہ جواب نہیں دے سکتے تو جو جواب نہ دے سکے اسے سلام کرنا منع ہے اگر مردے نہ سنتے ہوتے تو قبر ستا ن جاتے وقت ا نہیں سلام نہ کیا جاتا اور نماز میں حضور کو سلام نہ ہوتا۔ ضروری ہدایت:زندگی میں لوگوں کی سننے کی طاقت مختلف ہوتی ہے بعض قریب سے سنتے ہیں جیسے عام لوگ او ر بعض دور سے بھی سن لیتے ہیں جیسے پیغمبر اور اولیائ۔ مرنے کے بعد یہ طاقت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں لہٰذا عام مردو ں کو ان کے قبرستان میں جاکرپکار سکتے ہیں دور سے نہیں لیکن انبیاء واولیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو دور سے بھی پکارسکتے ہیں کیونکہ وہ جب زندگی میں دور سے سنتے تھے تو بعدوفات بھی سنیں گے۔ لہٰذا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ہرجگہ سے سلام عرض کرو مگر دوسرے مردو ں کو صرف قبر پر جاکر دور سے نہیں۔ دوسری ہدایت: اگرچہ مرنے کے بعد رو ح اپنے مقام پر رہتی ہے لیکن اس کا تعلق قبر سے ضرورر ہتا ہے کہ عام مردو ں کو قبر پرجا کر پکارا جاوے تو سنیں گے مگر اور جگہ سے نہیں ۔جیسے سونے والا آدمی کہ اس کی ایک روح نکل کر عالم میں سیر کرتی ہے لیکن اگر اس کے جسم کے پاس کھڑے ہوکر آواز دو تو سنے گی ۔ دوسری جگہ سے نہیں سنتی۔ مردے مدد بھی کرتے ہیں آیات ملاحظہ ہوں ۔ (1) وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ اور وہ وقت یا د کرو جب اللہ نے نبیوں کا عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تمہارے پاس رسول تشریف لاویں جوتمہاری کتابوں کی تصدیق کریں تو تم ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا ۔(پ3،اٰل عمرٰن:81) اس آیت سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں سے عہد لیا کہ تم محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا حالانکہ وہ پیغمبر آپ کے زمانہ میں وفات پاچکے تو پتا لگا کہ وہ حضرات بعد وفات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان بھی لا ئے اور روحانی مدد بھی کی چنانچہ سب نبیوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے معراج کی رات نماز پڑھی یہ اس ایمان کا ثبوت ہوا حج وداع میں بہت سے پیغمبر آپ کے ساتھ حج میں شریک ہوئے او رموسی علیہ السلام نے اسلام والوں کی مدد کی کہ پچاس نماز وں کی پانچ کرادیں آخرمیں عیسی علیہ السلام بھی ظاہر ی مدد کے لئے آئیں گے اموات کی مدد ثابت ہوئی۔ (2) وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾ اور اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو تمہارے پاس آجاویں پھر خدا سے مغفرت مانگیں اور رسول بھی ان کیلئے دعاء مغفرت کریں تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔(پ5،النساء:64) ا س آیت سے معلوم ہو اکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد سے تو بہ قبول ہوتی ہے اوریہ مدد زندگی سے خاص نہیں بلکہ قیامت تک یہ حکم ہے یعنی بعد وفات بھی ہماری تو بہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی کی مدد سے قبول ہوگی بعد وفات مدد ثابت ہو ئی ۔ اسی لئے آج بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ مدینہ منورہ میں سلام پڑھتے وقت یہ آیت پڑھ لیا کریں اگر یہ آیت فقط زندگی کے لئے تھی تو اب وہاں حاضری کا اور اس آیت کے پڑھنے کا حکم کیوں ہے ۔ (3) وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾ اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر جہانوں کے لئے رحمت ۔(پ17،الانبیاء:107) حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمام جہانوں کی رحمت ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی جہان تو رہے گا اگر آپ کی مدد اب بھی باقی نہ ہو تو عالم رحمت سے خالی ہوگیا ۔ (4) وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر ۔(پ22،سبا:28) اس''لِلنَّاسِ''میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو حضور صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آئے او رآپ کی یہ مدد تا قیامت جاری ہے ۔ (5) وَکَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ اور یہ بنی اسرائیل کافروں کے مقابلہ میں اسی رسول کے ذریعہ سے فتح کی دعا کرتے تھے پھر جب وہ جانا ہوا رسول ان کے پاس آیا تو یہ ان کاانکار کر بیٹھے ۔(پ1،البقرۃ:89) معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے بھی لوگ آپ کے نام کی مدد سے دعائیں کرتے اور فتح حاصل کرتے تھے ۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد دنیا میں آنے سے پہلے شامل حال تھی تو بعد بھی رہے گی اسی لئے آج بھی حضور کے نا م کا کلمہ مسلمان بناتا ہے۔ درود شریف سے آفات دور ہوتی ہیں۔ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے تبرکات سے فائدہ ہوتاہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے تبرکات سے بنی اسرئیل جنگوں میں فتح حاصل کرتے تھے ۔ یہ سب بعد وفات کی مدد ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم ! اب بھی بحیات حقیقی زندہ ہیں ایک آن کے لئے موت طاری ہوئی اور پھر دائمی زندگی عطا فرما دی گئی قرآن کریم تو شہیدوں کی زندگی کا بھی اعلان فرما رہا ہے۔ حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کاثبوت یہ ہے کہ زندوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ فلاں عالم ہے ، حافظ ہے ، قاضی ہے اور مردوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ عالم تھا ، زندوں کے لئے'' ہے'' او ر مردوں کے لئے ''تھا'' استعمال ہوتا ہے۔ نبی کا کلمہ جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کی زندگی میں پڑھتے تھے وہی کلمہ قیامت تک پڑھا جاوے گا کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ صحابہ کرام بھی کہتے تھے کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ شفیع المذنبین ، رحمۃ للعالمین ہیں اور ہم بھی یہ ہی کہتے ہیں اگر آپ زندہ نہ ہوتے توہمارا کلمہ بدل جانا چاہئے تھا ہم کلمہ یوں پڑھتے کہ حضور اللہ تعالیٰ کے رسول تھے ،جب آپ کا کلمہ نہ بدلا تو معلوم ہو اکہ آپ کا حال بھی نہ بدلا لہٰذا آپ اپنی زندگی شریف کی طر ح ہی سب کی مدد فرماتے ہیں ہاں اس زندگی کا ہم کو احساس نہیں ۔
  9. مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ مردے سنتے ہیں اور زندوں کے حالات دیکھتے ہیں کچھ اجمالی طور سے یہاں عرض کیا جاتا ہے ۔ ​(1) فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمْ جٰثِمِیۡنَ ﴿۷۸﴾فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِنۡ لَّاتُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿۷۹ پس پکڑلیاقوم صالح کو زلزلے نے تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے پھر صالح نے ان سے منہ پھیرا اورکہا کہ اے میری قوم میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیرخواہوں کوپسند نہیں کرتے ۔(پ8،الاعراف:78۔79 (2) فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ ۚ فَکَیۡفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیۡنَ ﴿٪۹۳ توشعیب نے ان مرے ہوؤں سے منہ پھیر ا اور کہا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہیں نصیحت کی تو کیوں کرغم کرو ں کافروں پر ۔(پ9،الاعراف:93 ان آیتو ں سے معلوم ہوا کہ صالح علیہ السلام اور شعیب علیہ السلام نے ہلاک شدہ قوم پر کھڑے ہوکر ان سے یہ باتیں کیں۔ (3) وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنۡ قَبْلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ ٭ اَجَعَلْنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعْبَدُوۡنَ ﴿٪۴۵ ان رسولوں سے پوچھو جو ہم نے آپ سے پہلے بھیجے کیا ہم نے رحمن کے سوا اور خدا ٹھہرائے ہیں جو پوجے جاویں ۔(پ25،الزخرف:45 گزشتہ نبی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں وفات پاچکے تھے فرمایا جارہاہے کہ وفات یافتہ رسولوں سے پوچھو کہ ہم نے شرک کی اجازت نہ دی تو ان کی امتیں ان پر تہمت لگاکر کہتی ہیں کہ ہمیں شرک کا حکم ہمارے پیغمبروں نے دیا ہے۔ اگر مردے نہیں سنتے توان سے پوچھنے کے کیا معنی ؟ بلکہ اس تیسری آیت سے تو یہ معلوم ہوا کہ خاص بزرگو ں کو مردے جواب بھی دیتے ہیں اور وہ جواب بھی سن لیتے ہیں ۔ اب بھی کشف قبور کرنے والے مردوں سے سوال کرلیتے ہیں ۔ اس لئے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مقتول کافروں سے پکارکرفرمایا کہ "بولو میرے تمام فرمان سچے تھے یا نہیں"۔ فاروق اعظم نے عرض کیا کہ بے جان مردو ں سے آپ کلام کیوں فرماتے ہیں تو فرمایا "وہ تم سے زیادہ سنتے ہیں" ۔ (صحیح البخاری،کتاب الجنائز، باب فی عذاب القبر، الحدیث1370،ج1،ص462،دار الکتب العلمیۃبیروت) دوسری روایت میں ہے کہ دفن کے بعد جب زندے واپس ہوتے ہیں تو مردہ ان کے پاؤں کی آہٹ سنتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب،الباب الخامس والاربعون فی بیان القبر وسؤالہ،ص۱۷۱،دار الکتب العلمیۃبیروت) اسی لئے ہم نمازوں میں حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرتے ہیں اور کھانا کھانے والے ، استنجا کرنے والے، سوتے ہوئے کو سلام کرنا منع ہے کیونکہ وہ جواب نہیں دے سکتے تو جو جواب نہ دے سکے اسے سلام کرنا منع ہے اگر مردے نہ سنتے ہوتے تو قبر ستا ن جاتے وقت ا نہیں سلام نہ کیا جاتا اور نماز میں حضور کو سلام نہ ہوتا۔ ضروری ہدایت: زندگی میں لوگوں کی سننے کی طاقت مختلف ہوتی ہے بعض قریب سے سنتے ہیں جیسے عام لوگ او ر بعض دور سے بھی سن لیتے ہیں جیسے پیغمبر اور اولیاءاللہ۔ مرنے کے بعد یہ طاقت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں لہٰذا عام مردو ں کو ان کے قبرستان میں جاکرپکار سکتے ہیں دور سے نہیں لیکن انبیاء واولیاءاللہ علیہم الصلوۃ والسلام کو دور سے بھی پکارسکتے ہیں کیونکہ وہ جب زندگی میں دور سے سنتے تھے تو بعدوفات بھی سنیں گے۔ لہٰذا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ہرجگہ سے سلام عرض کرو مگر دوسرے مردو ں کو صرف قبر پر جاکر دور سے نہیں۔ دوسری ہدایت: اگرچہ مرنے کے بعد رو ح اپنے مقام پر رہتی ہے لیکن اس کا تعلق قبر سے ضرورر ہتا ہے کہ عام مردو ں کو قبر پرجا کر پکارا جاوے تو سنیں گے مگر اور جگہ سے نہیں ۔جیسے سونے والا آدمی کہ اس کی ایک روح نکل کر عالم میں سیر کرتی ہے لیکن اگر اس کے جسم کے پاس کھڑے ہوکر آواز دو تو سنے گی ۔ دوسری جگہ سے نہیں سنتی۔ صالحین بعد از وصال مدد بھی کرتے ہیں آیات ملاحظہ ہوں ۔ (1) وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ اور وہ وقت یا د کرو جب اللہ نے نبیوں کا عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تمہارے پاس رسول تشریف لاویں جوتمہاری کتابوں کی تصدیق کریں تو تم ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا ۔(پ3،اٰل عمرٰن:81 اس آیت سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں سے عہد لیا کہ تم محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا حالانکہ وہ پیغمبر آپ کے زمانہ میں وفات پاچکے تو پتا لگا کہ وہ حضرات بعد وفات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان بھی لا ئے اور روحانی مدد بھی کی چنانچہ سب نبیوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے معراج کی رات نماز پڑھی یہ اس ایمان کا ثبوت ہوا حج وداع میں بہت سے پیغمبر آپ کے ساتھ حج میں شریک ہوئے او رموسی علیہ السلام نے اسلام والوں کی مدد کی کہ پچاس نماز وں کی پانچ کرادیں آخرمیں عیسی علیہ السلام بھی ظاہر ی مدد کے لئے آئیں گے اموات کی مدد ثابت ہوئی۔ (2) وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴ اور اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو تمہارے پاس آجاویں پھر خدا سے مغفرت مانگیں اور رسول بھی ان کیلئے دعاء مغفرت کریں تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔(پ5،النساء:64 ا س آیت سے معلوم ہو اکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد سے تو بہ قبول ہوتی ہے اوریہ مدد زندگی سے خاص نہیں بلکہ قیامت تک یہ حکم ہے یعنی بعد وفات بھی ہماری توبہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی کی مدد سے قبول ہوگی بعد وفات مدد ثابت ہو ئی ۔ اسی لئے آج بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ مدینہ منورہ میں سلام پڑھتے وقت یہ آیت پڑھ لیا کریں اگر یہ آیت فقط زندگی کے لئے تھی تو اب وہاں حاضری کا اور اس آیت کے پڑھنے کا حکم کیوں ہے ۔ (3) وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷ اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر جہانوں کے لئے رحمت ۔(پ17،الانبیاء:107 حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمام جہانوں کی رحمت ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی جہان تو رہے گا اگر آپ کی مدد اب بھی باقی نہ ہو تو عالم رحمت سے خالی ہوگیا ۔ (4) وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر ۔(پ22،سبا:28 اس''لِلنَّاسِ''میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو حضور صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آئے او رآپ کی یہ مدد تا قیامت جاری ہے ۔ (5) وَکَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ اور یہ بنی اسرائیل کافروں کے مقابلہ میں اسی رسول کے ذریعہ سے فتح کی دعا کرتے تھے پھر جب وہ جانا ہوا رسول ان کے پاس آیا تو یہ ان کاانکار کر بیٹھے ۔(پ1،البقرۃ:89 معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے بھی لوگ آپ کے نام کی مدد سےدعائیں کرتے اور فتح حاصل کرتے تھے ۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد دنیا میں آنے سے پہلے شامل حال تھی تو بعد بھی رہے گی اسی لئے آج بھی حضور کے نام کا کلمہ مسلمان بناتا ہے۔ درود شریف سے آفات دور ہوتی ہیں۔ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے تبرکات سے فائدہ ہوتاہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے تبرکات سے بنی اسرئیل جنگوں میں فتح حاصل کرتے تھے ۔ یہ سب بعد وفات کی مدد ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم ! اب بھی بحیات حقیقی زندہ ہیں ایک آن کے لئے موت طاری ہوئی اور پھر دائمی زندگی عطا فرما دی گئی قرآن کریم تو شہیدوں کی زندگی کا بھی اعلان فرما رہا ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کاثبوت یہ ہے کہ زندوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ فلاں عالم ہے، حافظ ہے ، قاضی ہے اور مردوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ عالم تھا ، زندوں کے لئے'' ہے'' او ر مردوں کے لئے ''تھا'' استعمال ہوتا ہے۔ نبی کا کلمہ جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کی زندگی میں پڑھتے تھے وہی کلمہ قیامت تک پڑھا جاوے گا کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ صحابہ کرام بھی کہتے تھے کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ شفیع المذنبین ، رحمۃ للعالمین ہیں اور ہم بھی یہ ہی کہتے ہیں اگر آپ زندہ نہ ہوتے توہمارا کلمہ بدل جانا چاہئے تھا ہم کلمہ یوں پڑھتے کہ حضور اللہ تعالیٰ کے رسول تھے ،جب آپ کا کلمہ نہ بدلا تو معلوم ہو اکہ آپ کا حال بھی نہ بدلا لہٰذا آپ اپنی زندگی شریف کی طر ح ہی سب کی مدد فرماتے ہیں ہاں اس زندگی کا ہم کو احساس نہیں ۔ عقیدہ (۲): مرنے کے بعد بھی روح کا تعلق بدنِ انسان کے ساتھ باقی رہتا ہے، اگرچہ روح بدن سے جُدا ہو گئی، مگر بدن پر جو گزرے گی رُوح ضرور اُس سے آگاہ و متأثر ہوگی، جس طرح حیاتِ دنیا میں ہوتی ہے، بلکہ اُس سے زائد۔ دنیا میں ٹھنڈا پانی، سرد ہَوا، نرم فرش، لذیذ کھانا، سب باتیں جسم پر وارِد ہوتی ہیں، مگر راحت و لذّت روح کو پہنچتی ہے اور ان کے عکس بھی جسم ہی پر وارِد ہوتے ہیں اور کُلفت و اذیّت روح پاتی ہے،اور روح کے لیے خاص اپنی راحت واَلم کے الگ اسباب ہیں، جن سے سرور یا غم پیداہوتا ہے، بعینہٖ یہی سب حالتیں برزخ میں ہیں۔ (''منح الروض الأزہر''، ص۱۰۰۔۱۰۱ عقیدہ (۳): مرنے کے بعد مسلمان کی روح حسبِ مرتبہ مختلف مقاموں میں رہتی ہے، بعض کی قبر پر ، بعض کی چاہِ زمزم شریف میں، بعض کی آسمان و زمین کے درمیان، بعض کی پہلے، دوسرے، ساتویں آسمان تک اور بعض کی آسمانوں سے بھی بلند، اور بعض کی روحیں زیرِ عرش قندیلوں میں، اور بعض کی اعلیٰ عِلّیین میں مگر کہیں ہوں، اپنے جسم سے اُن کو تعلق بدستور رہتا ہے۔ جو کوئی قبر پر آئے اُسے دیکھتے، پہچانتے، اُس کی بات سنتے ہیں، بلکہ روح کا دیکھنا قُربِ قبر ہی سے مخصوص نہیں، اِس کی مثال حدیث میں یہ فرمائی ہے، کہ ''ایک طائر پہلے قفص میں بند تھا اور اب آزاد کر دیا گیا۔'' ائمہ کرام فرماتے ہیں: ''إِنَّ النُّفُوْسَ القُدْسِیَّۃَ إِذَا تَجَرَّدَتْ عَنِ الْـعَـلَا ئِقِ الْبَدَنِیَّۃِ اتّصَلَتْ بِالْمَلَإِ الْأَعْلٰی وَتَرٰی وَتَسْمَعُ الکُلَّ کَالْمُشَاھِدِ .'' ( ''فیض القدیر'' شرح ''الجامع الصغیر''، حرف الصاد، تحت الحدیث: ۵۰۱۶، ج۴، ص۲۶۳. بألفاظ متقاربۃ. ''بیشک پاک جانیں جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں، عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور سب کچھ ایسا دیکھتی سنتی ہیں جیسے یہاں حاضر ہیں۔'' حدیث میں فرمایا: ((إِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ یُخلّٰی سَرْبُہٗ یَسْرَحُ حَیْثُ شآءَ.))( ''شرح الصدور''، باب فضل الموت، ص۱۳ ''جب مسلما ن مرتا ہے اُس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے۔'' شاہ عبدالعزیز صاحب لکھتے ہیں( ''فتاوی رضویہ ''، ج ۲۹ ، ص۵۴۵، بحوالہ ئ ''فتاوی عزیزیہ '' روح را قُرب و بُعد مکانی یکساں است۔'' (یعنی روح کے لیے کوئی جگہ دور یا نزدیک نہیں ،بلکہ سب جگہ برابر ہے۔ کافروں کی خبیث روحیں بعض کی اُن کے مرگھٹ، یا قبر پر رہتی ہیں، بعض کی چاہِ برہُوت میں کہ یمن میں ایک نالہ ہے، بعض کی پھلی، دوسری، ساتویں زمین تک، بعض کی اُس کے بھی نیچے سجّین میں، اور وہ کہیں بھی ہو، جو اُس کی قبر یا مرگھٹ پر گزرے اُسے دیکھتے، پہچانتے، بات سُنتے ہیں، مگر کہیں جانے آنے کا اختیار نہیں، کہ قید ہیں۔ عقیدہ( ۴): یہ خیال کہ وہ روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے، خواہ وہ آدمی کا بدن ہو یا کسی اور جانور کا جس کو تناسخ اور آواگون کہتے ہیں، محض باطل اور اُس کا ماننا کفر ہے۔ عقیدہ (۵): موت کے معنی روح کا جسم سے جدا ہو جانا ہیں، نہ یہ کہ روح مر جاتی ہو، جو روح کو فنا مانے، بد مذہب ہے۔ عقیدہ (۶): مردہ کلام بھی کرتا ہے اور اُس کے کلام کو عوام، جن اور انسان کے سوا اور تمام حیوانات وغیرہ سنتے بھی ہیں۔) عقیدہ (۷): جب مردہ کو قبر میں دفن کرتے ہیں، اُس وقت اُس کو قبر دباتی ہے۔ اگر وہ مسلمان ہے تو اُس کا دبانا ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ماں پیار میں اپنے بچّے کو زور سے چپٹا لیتی ہے ، اور اگر کافر ہے تو اُس کو اِس زور سے دباتی ہے کہ اِدھر کی پسلیاں اُدھر اور اُدھر کی اِدھر ہو جاتی ہیں۔ عقیدہ (۸): جب دفن کرنے والے دفن کرکے وہاں سے چلتے ہیں وہ اُن کے جوتوں کی آواز سنتا ہے، اُس وقت اُس کے پاس دو فرشتے اپنے دانتوں سے زمین چیرتے ہوئے آتے ہیں، اُن کی شکلیں نہایت ڈراؤنی اور ہیبت ناک ہوتی ہیں، اُن کے بدن کا رنگ سیاہ، اور آنکھیں سیاہ اور نیلی، اور دیگ کی برابر اور شعلہ زن ہیں، اور اُن کے مُہیببال سر سے پاؤں تک، اور اُن کے دانت کئی ہاتھ کے، جن سے زمین چیرتے ہوئے آئیں گے، اُن میں ایک کو منکَر، دوسرے کو نکیر کہتے ہیں ،مردے کو جھنجھوڑتے اور جھڑک کر اُٹھاتے اور نہایت سختی کے ساتھ کرخت آواز میں سوال کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مقتول کافروں سے پکارکرفرمایا کہ بولو میرے تمام فرمان سچے تھے یا نہیں ۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ بے جان مردو ں سے آپ کلام کیوں فرماتے ہیں تو فرمایا وہ تم سے زیادہ سنتے ہیں ۔ (صحیح البخاری،کتاب الجنائز، باب فی عذاب القبر، الحدیث1370،ج1،ص462،دار الکتب العلمیۃبیروت) خطیب نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا:''جب کوئی شخص ایسے کی قبر پر گزرے جسے دنیا میں پہچانتا تھا اور اس پر سلام کرے تو وہ مُردہ اسے پہچانتا ہے اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے۔''( ''تاریخ بغداد''، رقم: ۳۱۷۵،ج۷،ص98-99 صحیح مسلم میں بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم لوگوں کو تعلیم دیتے تھے کہ جب قبروں کے پاس جائیں یہ کہیں۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَآءَ اللہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ نَسْأَلُ اللہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ .(''صحیح مسلم''،کتاب الجنائز،باب ما یقال عند دخول القبور...إلخ،الحدیث:۱۰۴۔(۹۷۵)،ص۴۸۵. و''سنن ابن ماجہ''،کتاب ماجاء في الجنائز،باب ماجاء فیما یقال إذا دخل المقابر،الحدیث:۱۵۴۷،ج۲،ص۲۴۰. ترجمہ:اے قبرستان والے مومنو اورمسلمانو! تم پر سلامتی ہو اور انشاء اﷲ عزوجل ہم تم سے آملیں گے ،ہم اﷲ عزوجل سے اپنے لئے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ ترمذی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماسے روایت کی، کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مدینہ میں قبور کے پاس گزرے تو اودھر کو مونھ کرلیا اور یہ فرمایا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَـفُنَا وَنَحْنُ بِالْاَثَرِ .( ''سنن الترمذي''،کتاب الجنائز،باب ما یقول الرجل إذا دخل المقابر،الحدیث:۱۰۵۵،ج۲،ص۳۲۹. ترجمہ:اے قبرستان والو! تم پر سلامتی ہو،اﷲ عزوجل ہماری اورتمہاری مغفرت فرمائے ،تم ہم سے پہلے چلے گئے اورہم تمہارے پیچھے آنے والے ہیں دوسری روایت میں ہے کہ دفن کے بعد جب زندے واپس ہوتے ہیں تو مردہ ان کے پاؤں کی آہٹ سنتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب،الباب الخامس والاربعون فی بیان القبر وسؤالہ،ص۱۷۱،دار الکتب العلمیۃبیروت) اسی لئے ہم نمازوں میں حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرتے ہیں اور کھانا کھانے والے ، استنجا کرنے والے، سوتے ہوئے کو سلام کرنا منع ہے کیونکہ وہ جواب نہیں دے سکتے تو جو جواب نہ دے سکے اسے سلام کرنا منع ہے اگر مردے نہ سنتے ہوتے تو قبر ستا ن جاتے وقت ا نہیں سلام نہ کیا جاتا اور نماز میں حضور کو سلام نہ ہوتا۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ ایک نوجوان صالح کی قبر پر تشریف لے گئے اورفرمایا کہ اے فلاں !اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ﴿ۚ۴۶ یعنی جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرگیااس کے لیے دو جنتیں ہیں اے نوجوان!بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے؟اس نوجوان صالح نے قبر کے اندر سے آپ کا نام لے کر پکارااوربآواز بلند دو مرتبہ جواب دیا کہ میرے رب نے یہ دونوں جنتیں مجھے عطافرماد ی ہیں ۔(2) (حجۃ اللہ علی العالمین ج۲،ص۸۶۰بحوالہ حاکم) قبروالوں سے سوال وجواب حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں گئے تو آپ نے قبروں کے سامنے کھڑے ہوکر باآواز بلند فرمایا کہ اے قبروالو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ ! کیا تم لوگ اپنی خبریں ہمیں سناؤ گے یا ہم تم لوگوں کو تمہاری خبریں سنائیں؟ اس کے جواب میں قبروں کے اندر سے آواز آئی: ''وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ'' اے امیر المؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ہی ہمیں یہ سنائيے کہ ہماری موت کے بعد ہمارے گھروں میں کیا کیا معاملات ہوئے ؟حضرت امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے قبر والو! تمہارے بعد تمہارے گھروں کی خبر یہ ہے کہ تمہاری بیویوں نے دوسرے لوگوں سے نکاح کرلیا اور تمہارے مال ودولت کو تمہارے وارثوں نے آپس میں تقسیم کرلیا اور تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہوکر دربدر پھر رہے ہیں اورتمہارے مضبوط اور اونچے اونچے محلوں میں تمہارے دشمن آرام اورچین کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں ۔ اس کے جواب میں قبروں میں سے ایک مردہ کی یہ دردناک آواز آئی کہ اے امیرالمؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہماری خبریہ ہے کہ ہمارے کفن پرانے ہوکر پھٹ چکے ہیں اورجو کچھ ہم نے دنیا میں خرچ کیا تھا اس کو ہم نے یہاں پالیا ہے اورجو کچھ ہم دنیا میں چھوڑآئے تھے اس میں ہمیں گھاٹا ہی گھاٹااٹھانا پڑا ہے ۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ج۲،ص۸۶۳ تبصرہ اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو یہ طاقت وقدرت عطافرماتاہے کہ قبر والے ان کے سوالوں کا باآواز بلنداس طرح جواب دیتے ہیں کہ دوسرے حاضرین بھی سن لیتے ہیں ۔ یہ قدرت وطاقت عام انسانوں کو حاصل نہیں ہے۔ لوگ اپنی آوازیں تو مردوں کو سنا سکتے ہیں اورمردے ان کی آوازوں کو سن بھی لیتے ہیں مگر قبر کے اندر سے مردوں کی آوازوں کو سن لینا یہ عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے ،بلکہ یہ خاصا ن خدا کا خاص حصہ اور خاصہ ہے جس کوان کی کرامت کے سواکچھ بھی نہیں کہاجاسکتااوراس روایت سے یہ بھی پتاچلا کہ قبروالوں کا یہ اقبالی بیان ہے کہ مرنے والے دنیا میں جو مال ودولت چھوڑ کر مرجاتے ہیں اس میں مرنے والوں کے لیے سر اسر گھاٹا ہی گھاٹا ہے اورجس مال ودولت کو وہ مرنے سے پہلے خدا عزوجل کی راہ میں خرچ کرتے ہیں وہی ان کے کام آنے والاہے ۔ ایک قبر سے دوسری قبر میں شہادت کے بعد حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بصرہ کے قریب دفن کردیا گیا مگر جس مقام پرآپ کی قبر شریف بنی وہ نشیب میں تھا اس لئے قبر مبارک کبھی کبھی پانی میں ڈوب جاتی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو بار بار متواتر خواب میں آکراپنی قبر بدلنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اپنا خواب بیان کیا تو آپ نے دس ہزار درہم میں ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکان خرید کر اس میں قبر کھودی اورحضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مقدس لاش کو پرانی قبرمیں سے نکال کراس قبر میں دفن کردیا۔ کافی مدت گزر جانے کے باوجودآ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقدس جسم سلامت اوربالکل ہی تروتازہ تھا۔ (کتاب عشرہ مبشرہ،ص۲۴۵) تبصرہ غورفرمائيے کہ کچی قبر جو پانی میں ڈوبی رہتی تھی ایک مدت گزرجانے کے باوجود ایک ولی اورشہید کی لاش خراب نہیں ہوئی تو حضرات انبیاء علیہم الصلوۃوالسلام خصوصاً حضورسید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے مقدس جسم کو قبر کی مٹی بھلا کس طرح خراب کرسکتی ہے ؟یہی و جہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا: اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاء(مشکوۃ ،ص۱۲۱) (یعنی اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم الصلوۃ ولسلام کے جسموں کو زمین پر حرام فرمادیا ہے کہ زمین ان کو کبھی کھانہیں سکتی ۔) اسی طرح اس روایت سے اس مسئلہ پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ شہداء کرام اپنے لوازم حیات کے ساتھ اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں ،کیونکہ اگر وہ زندہ نہ ہوتے تو قبر میں پانی بھر جانے سے ان کو کیا تکلیف ہوتی؟اسی طرح اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شہداء کرام خواب میں آکر زندوں کو اپنے احوال و کیفیات سے مطلع کرتے رہتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کو یہ قدرت عطافرمائی ہے کہ وہ خواب یا بیداری میں اپنی قبروں سے نکل کر زندوں سے ملاقات اورگفتگوکرسکتے ہیں۔ اب غور فرمائیے کہ جب شہیدوں کا یہ حال ہے اوران کی جسمانی حیات کی یہ شان ہے تو پھر حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام خاص کر حضورسیدالانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی جسمانی حیات اور ان کے تصرفات اوران کے اختیارواقتدارکا کیا عالم ہوگا۔ غورفرمائیے کہ وہابیوں کے پیشوامولوی اسماعیل دہلوی نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں یہ مضمون لکھ کر کہ ''حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم مر کر مٹی میں مل گئے۔ '' (نعوذباللہ)کتنا بڑا جرم اورظلم عظیم کیا ہے ۔ اللہ اکبر!ان بے ادبوں اورگستاخوں نے اپنے نوک قلم سے محبین رسول کے قلوب کو کس طرح مجروح وزخمی کیا ہے ، اس کو بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں ۔ فَاِلَی اللہِ الْمُشْتَکٰی وَھُوَ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَام قبر کے اندرسے سلام حضرت فاطمہ خزاعیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ میں ایک دن حضرت سید الشہداء جناب حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار اقدس کی زیارت کے لئے گئی اورمیں نے قبر منور کے سامنے کھڑے ہوکر اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللہ کہا تو آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بآواز بلند قبر کے اندر سے میرے سلام کا جواب دیا جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا۔ (حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۶۳بحوالہ بیہقی) اسی طرح شیخ محمود کردی شیخانی نزیل مدینہ منورہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر انور پر حاضر ہوکرسلام عرض کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبر منور کے اندر سے بآواز بلند ان کے سلام کا جواب دیا اورارشاد فرمایاکہ اے شیخ محمود! تم اپنے لڑکے کا نام میرے نام پر ''حمزہ''رکھنا۔چنانچہ جب خداوند کریم نے ان کو فرزند عطافرمایا تو انہوں نے اس کا نام ''حمزہ ''رکھا۔(حجۃ اللہ علی العالمین،ج۲،ص۸۶۳بحوالہ کتاب الباقیات الصالحات) تبصرہ اس روایت سے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چند کرامتیں معلوم ہوئیں: (1) یہ کہ آپ نے قبر کے اندرسے شیخ محمود کے سلام کوسن لیااور دیکھ بھی لیا کہ سلام کرنے والے شیخ محمود ہیں ۔ پھر آپ نے سلام کا جواب شیخ محمود کو سنا بھی دیا حالانکہ دوسرے قبر والے سلام کرنے والوں کے سلام کو سن تو لیتے ہیں اورپہچان بھی لیتے ہیں مگر سلام کا جواب سلام کرنے والوں کو سنا نہیں سکتے ۔ (۲)سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی قبر شریف کے اندر رہتے ہوئے یہ معلوم تھا کہ ابھی شیخ محمود کے کوئی بیٹا نہیں ہے مگر آئندہ ان کو خداوند کریم فرزند عطا فرمائے گا۔ جبھی تو آپ نے حکم دیا کہ اے شیخ محمود ! تم اپنے لڑکے کا نام میرے نام پر حمزہ رکھنا۔ (۳)آپ نے جواب سلام اوربیٹے کا نام رکھنے کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا وہ اس قدر بلند آواز سے فرمایا کہ شیخ محمود اور دوسرے حاضرین نے سب کچھ اپنے کانوں سے سن لیا۔ مذکورہ بالا کرامتوں سے اس مسئلہ پر روشنی پڑتی ہے کہ شہداء کرام اپنی اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں اوران کے علم کی وسعت کا یہ حال ہے کہ وہ یہاں تک جان او رپہچان لیتے ہیں کہ آدمی کی پشت میں جو نطفہ ہے اس سے پیدا ہونے والا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی ۔ یہی توو جہ ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے شیخ محمود ! تم اپنے لڑکے کا نام میرے نام پر رکھنا اگر ان کو بالیقین یہ معلوم نہ ہوتا کہ لڑکا ہی پیدا ہوگا تو آپ کس طرح لڑکے کا نام اپنے نام پر رکھنے کا حکم دیتے ؟ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ قبر میں سے خون نکلا جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی حکومت کے دوران مدینہ منورہ کے اندر نہریں کھودنے کا حکم دیا تو ایک نہر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار اقدس کے پہلو میں نکل رہی تھی۔لاعلمی میں اچانک نہر کھودنے والوں کا پھاوڑاآپ کے قدم مبارک پر پڑگیا اورآپ کا پاؤں کٹ گیا تو اس میں سے تازہ خون بہہ نکلا حالانکہ آپ کو دفن ہوئے چھیالیس سال گزرچکے تھے ۔ (حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۶۴بحوالہ ابن سعد) تبصرہ وفات کے بعد تازہ خون کابہہ نکلنا یہ دلیل ہے کہ شہداء کرام اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں کفن سلامت ،بدن تروتازہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جنگ احد کے دن میں نے اپنے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دوسرے شہید(حضرت عمروبن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ساتھ ایک ہی قبرمیں دفن کردیا تھا ۔ پھر مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میرے باپ ایک دوسرے شہید کی قبر میں دفن ہیں اس لئے میں نے اس خیال سے کہ ان کو ایک الگ قبر میں دفن کروں ۔ چھ ماہ کے بعد میں نے ان کی قبر کو کھود کر لاش مبارک کو نکالاتو وہ بالکل اسی حالت میں تھے جس حالت میں ان کو میں نے دفن کیا تھا بجز اس کے کہ انکے کان پر کچھ تغیر ہوا تھا۔ (بخاری ،ج۱،ص۱۸۰ وحاشیہ بخاری) اورابن سعد کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر زخم لگا تھاا ور ان کا ہاتھ ان کے زخم پر تھا جب ان کا ہاتھ ان کے زخم سے ہٹایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا ۔ پھر جب ان کا ہاتھ ان کے زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیااوران کا کفن جو ایک چادر تھی جس سے چہرہ چھپا دیا گیا تھا اوران کے پیروں پر گھاس ڈال دی گئی تھی ، چادر اورگھاس دونوں کو ہم نے اسی طرح پر پڑا ہوا پایا۔) (ابن سعد،ج۳،ص۵۶۲) پھر اس کے بعد مدینہ منورہ میں نہروں کی کھدائی کے وقت جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اعلان کرایا کہ سب لوگ میدان احد سے اپنے اپنے مردوں کو ان کی قبروں سے نکال کر لے جائیں توحضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دوبارہ چھیالیس برس کے بعداپنے والد ماجدحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کھود کر ان کی مقدس لاش کو نکالا تومیں نے ان کو اس حال میں پایا کہ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ۔ جب ان کا ہاتھ اٹھایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا پھر جب ہاتھ زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیا اور ان کا کفن جو ایک چادر کا تھا بدستو رصحیح و سالم تھا۔ ) (حجۃ اللہ علی العالمین، ج۲،ص۸۶۴بحوالہ بیہقی) قبر میں تلاوت حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی زمین کی دیکھ بھال کے لیے ''غابہ ''جا رہا تھا تو راستہ میں رات ہوگئی ۔ اس لئے میں حضرت عبداللہ بن عمروبن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے پاس ٹھہر گیا ۔ جب کچھ رات گزرگئی تو میں نے ان کی قبر میں سے تلاوت کی اتنی بہترین آواز سنی کہ اس سے پہلے اتنی اچھی قرأت میں نے کبھی بھی نہیں سنی تھی ۔ جب میں مدینہ منورہ کو لوٹ کرآیا اورمیں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا اے طلحہ! تم کو یہ معلوم نہیں کہ خدا نے ان شہیدوں کی ارواح کو قبض کر کے زبرجد او ریاقوت کی قندیلوں میں رکھا ہے اور ان قندیلوں کو جنت کے باغوں میں آویزاں فرمادیاہے جب رات ہوتی ہے تو یہ روحیں قندیلوں سے نکال کر ان کے جسموں میں ڈال دی جاتی ہیں پھرصبح کو وہ اپنی جگہوں پر واپس لائی جاتی ہیں ۔(حجۃ اللہ علی العالمین، ج۲،ص۸۷۱بحوالہ ابن مندہ) تبصرہ یہ مستند روایات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرا ت شہداء کرام اپنی اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں اوروہ اپنے جسموں کے ساتھ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں تلاوت کر سکتے ہیں اور دوسرے قسم قسم کے تصرفات بھی کرسکتے اور کرتے ہیں۔ حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ رسول خداعزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ساتھ قبرستان میں گزرے تو میں نے ایک قبر میں دھماکہ سنا گھبرا کر میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم میں نے ایک قبر میں دھماکہ کی آواز سنی ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تو نے بھی اس دھماکہ کی آواز سن لی ؟میں نے عرض کیا کہ جی ہاں !ارشادفرمایاکہ ٹھیک ہے ایک قبر والے کو اس کی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے یہ اسی عذاب کی آواز کا دھماکہ تھا جو تو نے سنا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!عز وجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم اس قبر والے کو کس گناہ کے سبب عذاب دیا جا رہا ہے ؟آپ نے فرمایا کہ یہ شخص چغل خوری کیا کرتا تھا اوراپنے بدن اورکپڑوں کو پیشاب سے نہیں بچاتا تھا۔ (حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۷۴بحوالہ بیہقی) موت کے بعد وصیت حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی یہ ایک کرامت ایسی بے مثل کرامت ہے کہ اس کی دوسری کوئی مثال نہیں مل سکتی ۔ شہید ہوجانے کے بعد آپ نے ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خواب میں یہ فرمایا کہ اے شخص!تم امیر لشکر حضرت خالد بن الولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میرا یہ پیغام کہہ دو کہ میں جس وقت شہید ہوا میرے جسم پر لوہے کی ایک زرہ تھی جس کو ایک مسلمان سپاہی نے میرے بدن سے اتار لیا اور اپنے گھوڑاباندھنے کی جگہ پر اس کو رکھ کر اس پر ایک ہانڈی اوندھی کر کے اس کو چھپا رکھا ہے لہٰذا امیرلشکر میری اس زرہ کو برآمد کر کے اپنے قبضے میں لے لیں اور تم مدینہ منورہ پہنچ کر امیر المؤمنین حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میرا یہ پیغام کہہ دینا کہ جو مجھ پر قرض ہے وہ اس کو ادا کردیں اورمیرا فلاں غلام آزاد ہے ۔ خواب دیکھنے والے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا خواب حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا تو انہوں نے فوراً ہی تلاشی لی اورواقعی ٹھیک اسی جگہ سے زرہ برآمد ہوئی جس جگہ کا خواب میں آپ نے نشان بتایا تھا اورجب امیر المؤمنین حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خواب سنایا گیا تو آپ نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت کو نافذ کرتے ہوئے انکا قرض ادا فرمادیااور انکے غلام کو آزاد قراردے دیا۔ مشہورصحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ خصوصیت ہے جو کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی کیونکہ ایساکوئی شخص بھی میرے علم میں نہیں ہے کہ اس کے مرجانے کے بعد خواب میں کی ہوئی اس کی وصیت کو نافذ کیا گیا ہو۔(تفسیر صاوی ، ج۲،ص۱۰۸) نیزہ پر سراقدس کی تلاوت حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جب یزیدیوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر مبارک کو نیزہ پرچڑھا کر کوفہ کی گلیوں میں گشت کیا تو میں اپنے مکان کے بالا خانہ پر تھا جب سرمبارک میرے سامنے سے گزراتو میں نے سنا کہ سر مبارک نے یہ آیت تلاوت فرمائی : اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ ۙ کَانُوۡا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا (کھف، پ15) (ترجمۂ کنزالایمان:کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔ (پ۱۵،الکہف:۹) اسی طرح ایک دوسرے بزرگ نے فرمایا کہ جب یزیدیوں نے سر مبارک کو نیزہ سے اتارکر ابن زیادکے محل میں داخل کیا تو آپ کے مقدس ہونٹ ہل رہے تھے اورزبان اقدس پر اس آیت کی تلاوت جاری تھی وَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوۡنَ ۬ؕ (ترجمۂ کنزالایمان:اور ہرگز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے۔ (پ۱۳، ابرٰہیم :۴۲) (روضۃ الشہداء ،ص230) تبصرہ ان ایمان افروز کرامتوں سے یہ ایمانی روشنی ملتی ہے کہ شہدائے کرام اپنی اپنی قبروں میں تمام لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں ۔ خدا کی عبادت بھی کرتے ہیں اور قسم قسم کے تصرفات بھی فرماتے رہتے ہیں اوران کی دعائیں بھی بہت جلد مقبول ہوتی ہیں۔ موت کے بعد گفتگو حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت زید بن خارجہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ کے بعض راستوں میں ظہر وعصر کے درمیان چلے جارہے تھے کہ ناگہاں گرپڑے اور اچانک ان کی وفات ہوگئی ۔ لوگ انہیں اٹھا کر مدینہ منورہ لائے اور ان کو لٹا کر کمبل اوڑھادیا۔ جب مغرب وعشاء کے درمیان کچھ عورتوں نے رونا شروع کیا تو کمبل کے اند رسے آواز آئی :''اے رونے والیو!خاموش رہو۔'' یہ آواز سن کر لوگوں نے ان کے چہرے سے کمبل ہٹایا تو وہ بے حد دردمندی سے نہایت ہی بلند آواز سے کہنے لگے: ''حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نبی امی خاتم النبیین ہیں اوریہ بات اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے ۔''اتنا کہہ کر کچھ دیر تک بالکل ہی خاموش رہے پھر بلند آواز سے یہ فرمایا: ''سچ کہا، سچ کہا ابوبکرصدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے جو نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے خلیفہ ہیں ، قوی ہیں ، امین ہیں، گو بدن میں کمزور تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے کام میں قوی تھے ۔ یہ با ت اللہ تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں ہے۔'' اتنا فرمانے کے بعد پھر ان کی زبان بند ہوگئی اورتھوڑ ی دیر تک بالکل خاموش رہے پھر ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے اوروہ زور زور سے بولنے لگے:''سچ کہا، سچ کہا درمیان کے خلیفہ اللہ تعالیٰ کے بندے امیر المؤمنین حضرت عمربن خطا ب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے نہ اس کی کوئی پروا کرتے تھے اور وہ لوگوں کو اس بات سے روکتے تھے کہ کوئی قوی کسی کمزور کوکھاجائے اوریہ بات اللہ تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔'' اس کے بعد پھر وہ تھوڑی دیر تک خاموش رہے پھر ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے اورزور زور سے بولنے لگے :''سچ کہا، سچ کہا حضرت عثمان غنی ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے جو امیر المؤمنین ہیں اورمؤمنوں پر رحم فرمانے والے ہیں ۔ دوباتیں گزرگئیں اور چار باقی ہیں جو یہ ہیں1)لوگوں میں اختلاف ہوجائے گااور ان کے لیے کوئی نظام نہ رہ جائے گا۔(۲)سب عورتیں رونے لگیں گی اور ان کی پردہ دری ہوجائے گی۔ (۳)قیامت قریب ہوجائے گی ۔(۴)بعض آدمی بعض کو کھاجائے گا ۔''اس کے بعد ان کی زبان بالکل بند ہوگئی ۔ (طبرانی والبدایہ والنہایہ،ج۶،ص۱۵۶ واسدالغابہ،ج۲،ص۲۲۷)
  10. نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مقتول کافروں سے پکارکرفرمایا کہ بولو میرے تمام فرمان سچے تھے یا نہیں ۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ بے جان مردو ں سے آپ کلام کیوں فرماتے ہیں تو فرمایا وہ تم سے زیادہ سنتے ہیں ۔ (صحیح البخاری،کتاب الجنائز، باب فی عذاب القبر، الحدیث1370،ج1،ص462،دار الکتب العلمیۃبیروت)
  11. خاکسار بھائی خلافت کے بارے فتاوا رضویہ کی جلد 14 اور 21 میں کافی تفصیل ہے ۔ فی الحال جلد 14 سے ایک فتوا پپیش خدمت ہے۔ مسئلہ۲۴:کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ سلطنت عثمانیہ کی اعانت مسلمانوں پر لازم ہے یانہیں فرضیتِ اعانت کے لئے بھی سلطان کا قرشی ہونا شرط ہے یانہیں یا صرف خلافت شرعیہ کےلئے یا کسی کے لئے نہیں، مولوی فرنگی محلی کے خطبہ صدارت میں اس کے متعلق چند سطور ہیں اور مسٹر ابوالکلام آزاد نے رسالہ مسئلہ خلافت وجزیرہ عرب میں صفحہ۳۲ سے صفحہ۷۰ تک حسبِ عادت اسے بہت پھیلا کر بیان کیا ہے، ان دونوں کا محصل یہ ہے کہ خلافت شرعیہ میں بھی قرشیت شرط نہیں، یہ صحیح ہے یانہیں؟ اور اس بارے میں مذہب اہلسنت کیا ہے؟بینواتوجروا الجواب الحمدﷲ الذی فرض اعانۃ سلاطین الاسلام علی المسلمین وفضل قریشا بخاتم النبیین وسید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلیھم وبارک وسلم الٰی یوم الدین وعلٰی اٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ کل اٰن وحین۔رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ان الدین النصیحۃ ﷲ ولکتابہ ولرسولہ ولائمۃ المسلمین وعامتھم۱؎، رواہ احمد ومسلم وابوداؤد والنسائی عن تمیم الداری والترمذی والنسائی عن ابی ھریرۃ واحمد عن ابن عباس والطبرانی فی الاوسط عن ثوبان رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔بیشک دین یہ ہے کہ اﷲ اور اس کی کتاب اور اس کے رسول سے سچا دل رکھے اور سلاطینِ اسلام اور جملہ مسلمانوں کی خیر خواہی کرے(اسے احمد،مسلم، ابوداؤد اور نسائی نے تمیم داری سے اور ترمذی اور نسائی نے ابوہریرہ سے اور احمد نے ابن عباس سے اور طبرانی نے اوسط میں ثوبان رضی ا ﷲ تعالٰی عنہم سے روایت کیا ہے۔(ت) (۱؎ صحیح مسلم کتاب الایمان قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۴) (سنن ابوداؤد کتاب الادب آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۳۲۰) (مسند احمد بن حنبل حدیث تمیم الداری دارالفکر بیروت ۴/ ۱۰۲) سلطنت علیہ عثمانیہ ایدہا اﷲ تعالٰی نہ صرف عثمانیہ ہر سلطنت اسلام نہ صرف سلطنت ہر جماعت اسلام نہ صرف جماعت ہر فرد اسلام کی خیر خواہی ہر مسلمان پر فرض ہے اس میں قرشیت شرط ہونا کیا معنی، دل سے خیر خواہی مطلقاً فرض عین ہے، اور وقت حاجت دعا سے امداد واعانت بھی ہر مسلمان کو چاہئے کہ اس سے کوئی عاجز نہیں اور مال یا اعمال سے اعانت فرض کفایہ ہے اور ہر فرض بقدر قدرت ہر حکم بشرط استطاعت۔ قال تعالٰی لایکلف اﷲ نفسا الّا وسعھا۲؎، وقال تعالٰی فاتقوااﷲ مااستطعتم۳؎۔اﷲ تعالٰی نے فرمایا: اﷲ کسی نفس کواس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ اور اﷲ نے فرمایا: تو اﷲ سے ڈرو جہاں تک ہوسکے۔(ت) (۲؎ القرآن الکریم ۳/ ۲۸۶) (۳؎ القرآن الکریم ۶۴/ ۱۶) مفلس پر اعانت مال نہیں، بے دست وپا پراعانتِ اعمال نہیں، ولہذا مسلمانانِ ہند پر حکم جہاد وقتال نہیں۔ بادشاہ اسلام اگرچہ غیر قرشی ہواگرچہ کوئی غلام حبشی ہوامور جائزہ میں اس کی اطاعت تمام رعیت اور وقت حاجت اس کی اعانت بقدر استطاعت سب اہلِ کفایت پر لازم ہے، البتہ اہلسنت کے مذہب میں خلافت شرعیہ کے لئے ضرور قرشیت شرط ہے اس بارے میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے متواتر حدیثیں ہیں، اسی پر صحابہ کا اجماع، تابعین کا اجماع، اہلسنت کا اجماع ہے، اس میں مخالف نہیں مگر خارجی یا کچھ معتزلی کتب عقائد وکتب حدیث و کتب فقہ اس سے مالامال ہیں، بادشاہ غیر قرشی کو سلطان، امام، امیر، والی، ملک کہیں گے، مگر شرعاً خلیفہ یا امیر المومنین کہ یہ بھی عرفاً اسی کا مترادف ہے، ہر بادشاہ قرشی کو بھی نہیں کہہ سکتے سوااس کے جو ساتوں شروط خلافت اسلام، عقل، بلوغ، حریت، ذکورت، قدرت، قرشیت سب کا جامع ہوکر تمام مسلمانوں کا فرمان فرمائے اعظم ہو۔ اجمالی کلام وواقعات عام وازالہ اوہام جہال خام اقول وباﷲ التوفیق اسم خلافت میں یہ شرعی اصطلاح ہے جملہ صدیوں میں اسی پر اتفاقِ مسلمین رہا۔ (۱) زمانہ صحابہ سے برابر علمائے کرام خلفاء ملوک کو علیحدہ کرتے آئے حتی کہ خود سلاطین اسی کے پابند رہے اور آج تک ہیں، بڑے بڑے جبار بادشاہ گزرے کبھی غیر قریش نے ترک ہوں یا مغل یا پٹھان یا کوئی اور اپنے آپ کو خلیفہ نہ کہلوایا، نہ خلافت مصطفویہ شرعیہ کا دعوٰی کیا، جب تک خلافت عباسیہ قائم رہی خلیفہ ہی کی سرکار سے سلاطین کی تاجپوشی ہوتی، سلطان دستِ خلیفہ پر بیعت کرتا اوراس منصب شرعی کا مستحق اسی کو اگرچہ زور و طاقت وسطوت میں اس سے کہیں زائد ہوتا، جب کفار تاتار کے دستِ ظلم سے محرم ۶۵۶ھ میں جامہ خلافت تار تار ہوگیا علماء نے فرمایا ساڑھے تین برس تک خلافت منقطع رہی حالانکہ اس وقت بھی قاہر سلطنتیں موجود تھیں، مصر میں ملک ظاہر سلطان بیبرس کا دور دورہ تھا، امام جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفاء میں خاتم الخلفا مستعصم باﷲ کی شہادت کے بعد ذکر فرماتے ہیں: ثم دخلت سنۃ سبع وخمسین والدنیا بلاخلیفۃ۱؎۔پھر ۶۵۷ھ آیا اور دنیا بے خلیفہ تھی۔ (۱؎ تاریخ الخلفاء احوال المستعصم باﷲ مطبع مجتبائی دہلی ص۳۳۰) پھر فرمایا:ثم دخلت سنۃ ثمان وخمسین والوقت ایضا بلاخلیفۃ ۲؎۔پھر ۶۵۸ھ آیا اور زمانہ اسی طرح بے خلیفہ تھا۔ (۲؎تاریخ الخلفاء احوال المستعصم باﷲ مطبع مجتبائی دہلی ۳۳۱) پھر فرمایا:وتسلطن بیبرس وازال المظالم وتلقب بالملک الظاہر ثم دخلت سنۃ تسع وخمسین والوقت ایضا بلاخلیفۃ الٰی رجب فاقیمت بمصر الخلافۃ وبویع المستنصر وکان مدۃ انقطاع الخلافۃ ثلاث سنین ونصفا۱؎۔(ملخصاً)بیبرس سلطان ہوا اوراس نے ظلم دفع کئے اور اپنا لقب ملک ظاہر رکھا، پھر ۶۵۹؁آیا اوروقت ماہ رجب تک یونہی بے خلیفہ تھا یہاں تک کہ مصر میں پھر خلافت قائم کی گئی مستنصر باﷲ عباسی کے ہاتھ پر بیعت ہوئی خلافت ساڑھے تین برس تک معدوم رہی۔(ملخصًا)۔ (۱؎ تاریخ الخلفاء احوال المستعصم باﷲ مطبع مجتبائی دہلی ص۳۳۱) یونہی حسن المحاضرہ فی اخبار مصر والقاہرہ میں فرمایا:لمااخذالتاتاربغداد وقتل الخلیفۃ اقامت الدنیا بلاخلیفۃ ثلث سنین ونصف سنۃ وذٰلک من یوم الاربعاورابع عشر صفر سنۃ ست وخمسین وھو یوم قتل الخلیفۃ المستعصم رحمہ اﷲ تعالٰی الٰی اثناء سنۃ تسع وخمسمائۃ۔۲؎یعنی جبکہ تاتاریوں نے بغداد مقدس لے لیا اور خلیفہ شہید ہوئے دنیا ساڑھے تین برس بے خلیفہ رہی اور یہ ۱۴صفر روز چار شنبہ ۶۵۶ھ سے کہ رو زشہادت خلیفہ مستعصم رحمہ اﷲ تعالٰی تھا سے ۱۳ رجب ۶۵۹ھ تک کا زمانہ ہے۔ (۲؎ حسن المحاضرۃ فی اخبار مصر والقاہرۃ ) (۲) یہ خلافت کہ مصر میں قائم ہوئی اور ڈھائی سو برس سے زائد رہی خود سلطان کی قائم کی ہوئی تھی، سلطان بظاہر اس کا دست نگر ہوتا اور خلاف پر قادر تھا نظر بقوت بے تفویض خلیفہ بھی نظم ونسق ورتق، فتق وامر وحکم میں سلطان مستقل تھا، خلیفہ امیر المومنین کہلانے اور بیعت لینے اور خطبہ و سکہ کو زینت اور سلاطین کو تاج و خلعت دینے کے لئے ہوتا بلکہ اس کی بنا خود خلافت بغداد میں پڑچکی تھی، مقتدر باﷲکو ۲۹۶ھ میں تیرہ برس کی عمر میں خلافت ملی، طفلی واشتغال بازی واختیارات زنان واستخدام یہود ونصارٰی نے ضعف پہنچایا ملک مغرب نکل گیا، مصر نکل گیا، قرامطہ ملعونوں کا زور ہوا، پھر ۳۲۴ھ میں واسطہ کا صوبہ محمد بن رائق خلیفہ راضی باﷲ پر فائق ہوا خلیفہ نام کے لئے تھا پھر یہ بدعت شنیعہ مدتوں مستمر رہی مگر تمام علماء ومسلمین اور خودوہ جبار سے جبار سلاطین بھی خلافت انہیں قرشی خلفاء کی مانتے اور انہیں سے پروانہ وخلعت سلطنت لیتے۔ اگر غیر قرشی بھی خلیفہ ہوسکتا تو سلاطین خود خلفاء بنتے، کیا ضرورت تھی ان قرشیوں کو اپنا تغلب مٹانے کے لئے حیلہ شرعیہ کے واسطے خلیفہ بناتے اور اپنے زیردستوں کے حضور سربندگی جھکاتے اور ان کے ہاتھ سے تاج وخطاب پاتے ،مگر نہیں وہ مسلمان تھے سنی تھے جانتے تھے کہ ہم قرشی نہیں ہماری خلافت نہیں ہوسکتی اور بے تولیت خلافت بطور خود سلطنت کرینگے تو داغ تغلب ہماری پیشانی سے نہ مٹے گا اسی لئے ان عباسی قرشیوں کی خلافت رکھی تھی۔ (۳) پھر ادھرہی کے سلاطین نہیں اس دور دراز ممکت ہند کے متشرع سلاطین نے بھی انہیں خلفاء سے اپنے نام پروانہ سلطنت کیا حالانکہ یہ کسی طرح تسلط کی راہ سے ان کے ماتحت نہ تھے، تاریخ الخلفاء میں ہے:وفی سنۃ اربع عشرۃ ارسل غیاث الدین اعظم شاہ بن اسکندر شاہ ملک الھند یطلب التقلید من الخلیفۃ وارسل الیہ مالاوللسلطان ھدیۃ۱؎۔سنہ آٹھ سوچودہ میں بادشاہ ہند اعظم شاہ غیاث الدین بن سکندر شاہ نے خلیفہ مستعین باﷲ ابوالفضل سے اپنے لئے پروانہ تقررِ سلطنت مانگا اور خلیفہ کے لئے نذر اور سلطانِ مصر کو ہدیہ بھیجا۔ (۱؎ تاریخ الخلفاء احوال المستعین باﷲ ابوالفضل مطبع مجتبائی دہلی ص۳۵۷) خود مسٹر کے اسی رسالہ خلافت ص۷۹ میں ہے: ''جب تک بغداد کی خلافت رہی ہندوستان کے تمام حکمران اس کے فرماں بردار رہے جب ۶۶۰ھ(عہ) میں مصر کی عباسی خلافت کا سلسلہ شروع ہوا تو اگرچہ عباسیہ کے کارواں رفتہ کا محض ایک نمود غبار تھا تاہم سلاطین ہند اس کی حلقہ بگوشی وغلامی کو اپنے لئے فخر سمجھتے رہے اور مرکزی خلافت کی عظمت دینی نے مجبور کیا کہ اپنی حکومت کو شرعی طور پر منوادینے کے لئے مقامِ خلافت سے پروانہ نیابت حاصل کرتے رہیں''۔ عہ: یہ غلط ہے بلکہ ۹/رجب ۶۵۹ھ۔۱۲منہ غفرلہ پھر سلطان محمد بن تغلق شاہ وسلطان فیروز شاہ کی بندگی وغلامی جو اس خلافت سے رہی اور فیروز شاہ کے لئے دربارخلافت سے دوبار پروانہ تقرر سلطنت ونشان خلعت کاآنا لکھا اور یہ کہ سلطان نے اس کی کمال تعظیم کی اور یہ سمجھا کہ گویا یہ عزت آسمان سے اتری اور یہ سند بارگاہ رسالت سے ملی، پھر کہا(ص۸۰) ''غور کرو مقامِ خلافت کی عظمت کا ہمیشہ کیا حال رہا خلافت بغداد مٹنے کے بعد بھی خلافت کی صرف ایک اسمی نسبت بھی اس درجہ جبروت رکھتی تھی کہ ہندوستان جیسے بعید گوشہ میں ایک عظیم الشان فرمانراوئے اقلیم مصر کے دربار خلافت سے اذن واجازت حاصل ہونے پر فخر کرتاہے مٹنے پر بھی اس مقام کی عظمت تمام عالم اسلامی پر اس طرح چھائی رہتی ہے کہ وہاں کافرمان آسمانی فرمان اور وہاں کا حکم بارگاہِ نبوت کا حکم سمجھا جاتا ہے''۔ خداجانے مسٹر آزاد یہ کس جنگ یا کس نشے کی ترنگ میں لکھ گئے، ان کا اعتقاد تو یہ ہے ص۴۵ کہ: ''انتخاب خلیفہ کا موقع نہ رہا ہوتو خلیفہ تسلیم کرلینے کےلئے بجز اسلام اور حکومت کے جماؤ اور جگہ پکڑلینے کے اور کوئی شرط نہیں۔'' سبحان اﷲ ! یہ سلاطین ہند وسلاطینِ مصر اور خود سلطان بیبرس جس نے اس خلافت کی بنیاد رکھی مسلمان ہی تھے اور ان کی حکومتیں جمی ہوئی تھیں تو آپ کی کافی ساختہ دونوں شرط خلافت موجود تھیں پھر انہوں نے خود اپنے آپ کو خلیفہ کیوں نہ جانا اور ان کی حکومت شرعی طور پر ماننے کے قابل کیوں نہ ہوئی حالانکہ آپ کے نزدیک شریعت کا حکم ہے کہ: ''اسی کو خلیفہ ماننا چاہئے خواہ تمام شرطیں اس میں پائی جائیں یا نہ پائی جائیں۔''(ص۵۱) ''ہر مسلمان پر ازروئے شرع واجب ہے کہ اسی کو خلیفہ اسلام تسلیم کرے''(ص۳۵) خیر آپ کا تناقض آپ کو مبارک ۔سلاطین اسلام نے کیوں اپنی خلافت نہ مانی اور وہ کیا بات ان میں کم تھی جس کے لیے انھیں دوسرے کی خلافت جمانے اور اس کی اجازت کے صدقے اپنی حکومت کو شرعی منوانے کی ضرورت پڑی ۔ظاہر ہے کہ وہ نہ تھی مگر شرط قرشیت ۔ (۴) مسٹر کو چھوڑئیے جنہوں نے دو ہی شرطیں رکھیں، ائمہ دین تو سات بتاتے ہیں دیکھئے شاید ان میں کوئی اور شرط مفقود ہونے کے سبب سلاطین نے اپنے آپ کو خلیفہ نہ سمجھا، اوپر گزرا کہ وہ اسلام وحریت وذکورت وعقل وبلوغ و قدرت وقرشیت ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ ان سلاطین میں چھ موجود تھیں پہلی پانچ بداہۃً اور قدرت یوں کہ حکومت کا جماؤ بے اس کے نہیں تو صرف ایک ہی قرشیت نہ تھی لاجرم اسی کے نہ ہونے تمام سلاطین نے اپنے آپ کو خلیفہ نہ مانا اورقرشی خلافت کا محتاج دست نگر جانا۔ (۵) بلکہ بطور مسٹر امر واضح تر ہے ان نام کے خلفا میں اگر قرشیت موجود تھی قدرت مفقود تھی کہ وہ سلاطین کے ہاتھوں میں شطرنج کے بادشاہ تھے، جبار خونخوار متکبر متجبر سلاطین کے سر میں یوں بھی سودائے مساوات و بے نیازی نہ سمایا اور انہیں کو خلیفہ اور اپنے آپ کو ان کو محتاج ٹھہرایا حتی کہ جب سلطان بیبرس نے مستنصر کو خلیفہ کیا اور اس سے پروانہ سلطنت لیا خلیفہ نے اظہار انقیاد کے لئے اس کے پاؤں میں سونے کی بیڑیاں ڈالیں اور سلطان نے خدم حشم کے ساتھ یونہی قاہرہ اپنے دار السلطنت کا گشت کیا کہ گلے میں طوق اور پاؤں میں بیڑیاں اور آگے آگے وزیر کے سر پر خلیفہ کا عطا کیا ہو اپروانہ سلطنت (حسن المحاضرہ) روشن ہوا کہ وہ شرط قرشیت کس درجہ اہم وضروری ترجانتے تھے انہوں نے خیال کیا کہ قدرت مکتسبہ بھی ہوتی ہے بلکہ اسے اکتساب سے مفر نہیں کہ ملکوں پر تنہا کا تسلط عادۃً نہیں ہوتا مگر افواج واطاعت جماعت سے جب اقتدار والوں نے انہیں سرپررکھ لیا تو مقصود اقتدار حاصل ہوگیا جیسے خلیفہ میں خود عالم اصول وفروع ہونے کی شرط اتفاقی نہ رہی کہ دوسرے کے علم سے کام چل سکتا ہے لیکن قرشیت ایسی چیز نہیں کہ دوسرے سے مکتسب وہ لہذا اپنے اقتدار کا خیال نہ کیا اور ان کی قرشیت کے آگے سر جھکادیا۔ (۶) نہ صرف سلاطین بلکہ بکثرت ائمہ وعلماء نے اسی کو خلافت جانا خلافت بغداد پر پچھلی تین صدیاں جیسی گزریں انہیں جانے دو تو یہی خلافت مصر لو جسے تم کاروانِ رفتہ کی محض ایک نمود غبار کہتے ہو۔ (ا) جب بیبرس نے مستنصر کی خلافت قائم کرنی چاہی سب میں پہلے امام اجل امام عزالدین بن عبدالسلام نے بیعت فرمائی پھر سلطان بیبرس پھر قاضی پھر امراء وغیرہم نے۔ (ب) پھر ابوالعباس حاکم بامراﷲ کے بیٹے تیسرے خلیفہ مصری مستکفی باﷲ کی خلافت کا امضا اور اس کی صحت کاثبوت امام اجل تقی الدین بن دقیق العید کے فتوے سے ہوا ان کےعہدنامہ خلافت میں تھا، الحمدﷲ الذی ادام الائمۃ من قریش وجعل الناس تبعالھم فی ھذاالامرفغیرھم بالخلافۃ العظمۃ لایدعی ولایسمّی۱؎۔سب خوبیاں اﷲکو جس نے خلیفہ ہمیشہ قریش میں سے کئے اور تمام لوگوں کو خلافت میں ان کو تابع کیا تو غیر قرشی کو نہ خلیفہ کہا جائے گا نہ وہ اس نام سے پکارا جائے۔ اس پر قاضی القضاۃ شمس الدین حنفی کے دستخط ہوئے۔ (۱؎ حسن المحاضرۃ فی اخبار مصر والقاہرۃ ) (ج) پھر مستکفی کے بیٹے ابوالعباس احمد حاکم بامر اﷲ کی صحت خلافت پر امام قاضی القضاۃ عزالدین بن جماعہ نے شہادت دی اور ان کی مثال بیعت علامہ احمد شہاب ابن فضل اﷲ نے لکھی اس میں ان کو خلیفہ جامع شرائط خلافت لکھا اور لکھا کہ: وصل الحق الٰی مستحقہ ۲؎حق بحقدار رسید، کل ذٰلک فی حسن المحاضرۃ(یہ سب کا سب حسن المحاضرۃ میں موجود ہے۔ت) (۲؎حسن المحاضرۃ فی اخبار مصر والقاہرۃ) (د) امام اجل ابوزکریا نووی اسی خلافت مصریہ کے دور سے متعلق شرح صحیح مسلم میں فرمارہے ہیں:قد ظھرما قالہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فمن زمنہ الی الاٰن الخلافۃ فی قریش ۳؎۔رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ظاہر ہوگیا کہ جب سے آج تک خلافت قریش ہی میں ہے۔ دیکھو اکابر ائمہ برابر انہیں خلفاء مانتے آئے۔ (۳؎ شرح صحیح مسلم مع صحیح مسلم کتاب الامارۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۹) (ہ) امام خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں یہ تمام خلافتیں بغدادی پھر مصری ذکر کیں اور خطبہ میں فرمایا: ترجمت فیہ الخلفاء امراء المؤمنین القائمین بامرالامۃ من عھد ابی بکر الصدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ والی عھدنا ھذا۱؎۔میں نے اس کتاب میں ان کے احوال بیان کئے جو خلیفہ امیر المومنین کارامت پر قیام کرنے والے صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے وقت سے ہمارے زمانے تک ہوئے۔ (۱؎ تاریخ الخلفاء خطبہ کتاب مطبع مجتبائی دہلی ص۶) (و) پھر فرمایا میں نے اس میں کسی عبیدی کا ذکر نہ کیا کہ کئی وجہ سے ان کی خلافت صحیح نہیں، ایک تو وہ قرشی نہ تھے، دوسرے وہ بدمذہب بے دین کم از کم رافضی تھے ومثل ھؤلاء لاتنعقد لھم بیعۃ ولاتصح لھم امامۃ۲؎ایسوں کے لئے نہ بیعت ہوسکے نہ ان کی خلافت صحیح۔ تیسرے یہ کہ ان کی بیعت اس وقت ہوئی کہ خلافت عباسی قائم تھی اور ایک وقت میں وہ خلیفہ نہیں ہوسکتے، چوتھے یہ کہ حدیث فرماچکی کہ خلافت جب بنی عباس کو ملے گی پھر ظہور امام مہدی تک دوسرے کونہ پہنچے گی، ان وجوہ سے میں نے عبیدیوں کو ذکر نہ کیا وانماذکرت الخلیفۃ المتفق علٰی صحۃ امامتہ۳؎میں نے وہی خلفاء ذکر کئے جن کی صحتِ خلافت پر اتفاق ہے دیکھو کیسے صریح نص ہیں کہ یہ کمزور خلافتیں بھی صحیح خلافت ہیں، آخر کس لئے، اس لیے کہ قرشی ہیں اور زبردست طاقتور سلاطین غیر قرشی۔ (۲؎تاریخ الخلفاء خطبہ کتاب مطبع مجتبائی دہلی ص۷) (۳؎تاریخ الخلفاء خطبہ کتاب مطبع مجتبائی دہلی ص۸) (ز) جب خلیفہ مستکفی باﷲ نے شعبان ۷۴۰ھ یا ۷۴۱ھ میں وفات پائی اور اپنے بیٹے احمد حاکم بامراﷲ کو ولی عہد کیا سلطان ناصر الدین محمد بن قلادون ترکی نے کہ۷۳۶ھ میں مستکفی باﷲ سے رنجیدہ ہوگیا اور ۱۸ذی الحجہ کو اسے مصر سے باہر شہر قوص میں مقیم کیا(اگرچہ ادارات پہلے سے بھی زائد کردئے اور خطبہ وسکہ خلیفہ ہی کا جاری رہا اس عہد کو نہ مانا اور جبراً خلیفہ مستکفی کے بھتیجے ابراہیم بن محمد حاکم بامراللہ کے لیے بیعت لی (اگرچہ مرتے وقت خود اس پر نادم ہوا اور سرداروں کو وصیت کی کہ خلافت ولی عہد مستکفی احمد ہی کے لئے ہو جس پر ابن فضل اﷲ نے وہ لکھا کہ حق بحقدار رسید)ابن قلادون کی اس حرکت پر امام جلال الدین سیوطی نے حسن المحاضرہ میں فرمایا کہ اﷲ عزوجل نے ناصربن قلادون پر اس کے سب سے زیادہ عزیز بیٹے امیر نوک کی موت کی مصیبت ڈالی، یہ اسے پہلی سزادی، پھر مستکفی کے بعد سلطنت سے متمتع نہ ہوا ایک سال اور کچھ روزوں کے بعد اﷲ عزوجل نے اسے ہلاک کیا بلکہ بعض نے مستکفی کی وفات۷۴۱ھ میں لکھی ہے تو یوں تین ہی مہینے بعد مرا، سنۃ اﷲ فیمن مس احدامن الخلفاء بسوء فان اﷲ تعالٰی یقصمہ عاجلا وما ید خرلہ فی الاٰخرۃ من العذاب اشد۔۱؎سنت الٰہیہ ہے کہ جو کوئی کسی خلیفہ سے برائی کرے اﷲ تعالٰی اسے ہلاک فرمادیتا ہے اور وہ جو آخرت میں اسے کے لئے رکھتا ہے سخت تر عذاب ہے۔ (۱؎حسن المحاضر ۃ فی اخبار مصر والقاہرۃ۔) پھر اولاد ابن قلادون میں اس کی شامت کی سرایت بیان فرمائی کہ ان میں جو بادشاہ ہواتخت سے اتارا گیا اور قید یا جلاوطن یا قتل کیا گی، خود اس کا صلبی بیٹا کہ اس کے بعد تخت پر بیٹھا دو مہینے سے کم میں اتاردیا گیا اور مصر سے قوص ہی کو بھیجا گیا جہاں سلطان نے خلیفہ کو بھیجا تھا اور وہیں قتل کیا گیا، ناصر نے چالیس برس سے زیادہ سلطنت کی اور اس کی نسل سے بارہ ۱۲بادشاہ ہوئے جن کی مجموعی مدت اتنی نہ ہوئی۔ (ح) نیز امام ممدوح کتاب موصوف میں فرماتے ہیں:اعلم ان مصر من حین صارت دارالخلافۃ عظم امرھاوکثرت شعائرالاسلام فیھا وعلت فیھا السنۃ وعفت عنھا البدعۃ وصارت محل سکن العلماء ومحط الرجال الفضلاء وھذاسرمن اسرار اﷲ تعالٰی اودعہ فی الخلافۃ النبویۃ کمادل ان الایمان والعلم یکونان مع الخلافۃ اینما کانت ولایظن ان ذٰلک بسبب الملوک فقد کانت ملوک بنی ایوب اجل قدراو اعظم قدر امن ملوک جاء ت بعدھم بکثیر ولم تکن مصر فی زمنھم کبغداد وفی اقطار الارض الاٰن من الملوک من ھواشد بأساواکثر جندامن ملوک مصر کالعجم والعراق والروم والھندوالمغرب ولیس الدین قائما ببلادھم کقیامہ بمصر ولاشعائر الاسلام ظاھرۃ فی اقطارھم کظہورھا فی مصرو لانشرت السنۃ والحدیث والعلم فیھا کما فی مصر۱؎۔یعنی مصر جب سے دارالخلافہ ہوا اس کی شان بڑھ گئی، شعائرِ اسلام کی اس میں کثرت ہوئی، سنت غالب ہوئی بدعت مٹی، علماء کا جنگل فضلاء کا دنگل ہوگیا، اور یہ رازِ الٰہی ہے کہ اس نے خلافتِ نبوت میں رکھا ہے جس طرح حدیث میں آیا کہ خلافت جہاں ہوگی علم وایمان اس کے ساتھ ہوں گے، اوریہ کوئی نہ سمجھے کہ مصر میں یہ دین کی ترقی سلاطین کے سبب ہوئی کہ سلاطین بنی ایوب سلاطینِ مابعد سے بہت زیادہ جلیل القدر تھے اور ان کے زمانے میں مصر بغداد کو نہ پہنچتا تھا اور اب اطراف زمین میں وہ سلاطین ہیں کہ سلاطین مصر سے ان کی آنچ سخت اور لشکر زائد جیسے ایران ، عراق ،روم، مغرب، ہندوستان۔ مگر دین وہاں ایسا قائم نہیں جیسا مصر میں ہے، نہ شعائر اسلام ایسے ظاہر نہ سنت وحدیث وعلم کا ایسا شیوع، یہ سب خلافت ہی کی برکت ہے، دیکھو کیسا جبار وبالاقتدار سلاطین کو جن میں ترک بھی ہیں الگ کردیا اور خلافت نبوت ایسی کمزور خلافت مصر میں مانی۔ (۱؎ حسن المحاضرۃ فی اخبارمصر والقاہرۃ) آخر یہ فرقِ قرشیت نہیں تو کیا ہے۔ (۷) اگر کہے وہ خلافت سے نامزد ہوچکے تھے لہذا بعد کے سلاطین نے اگرچہ جامع شروط تھے اپنے آپ کو خلیفہ نہ جانا کہ خلافت جب ایک کے لئے ہولے دوسرا نہیں ہوسکتا، اقول(میں کہتا ہوں۔ت) اولًا ہو تو سلاطین یا بعد میں ہو، بیبرس کی سلنطت تو پہلے منعقد ہولی تھی، پھر دوسرے کو خلیفہ بنانے اور اس کے آگے ہاتھ پھیلانے اور یہ سلسلہ ماضیہ جلانے جمانے کے کیا معنی تھے، کاش سلطان اپنے آپ کو معزول کرلیتا اور مستنصر ہی کے ہاتھ میں باگ دیتا مگر نہیں وہ سلطنت پر قائم رہا، اور تمہارے زعم میں خود بیبرس کی خلافت صحیحہ اور ہر مسلمان پر شرعاً واجب التسلیم تھی، اب اس نے انتخاب کی طر ف آکر اپنی صحیح شرعی خلافت تو باطل کردی اور ایک اسمی رسمی قائم کی، یہ کیسا جنون ہوا جسے تمام علمائے عصر نے بھی پسندکیا طرفہ تریہ کہ یہ اپنی حکومت شرعی طور پر منوانے کےلئے کیا جس کا مسٹر کو بھی اعتراف ہے حالانکہ اس سے پہلے اس کی خلافت کا ماننا آپ کے نزدیک شرعاً واجب تھا، اور اب نہ رہا کہ انتخاب نے شرائط عائد کیں وہ نہ اس میں ہیں نہ اس خلیفہ میں، تو اپنی خلافت کھوئی خلیفہ اسمی سے تولیت لی وہ گئی اور یہ نہ ہوئی دونوں دین سے گئے اسی لئے گلے میں طوق اور پاؤں میں بیڑیاں پہنی تھیں۔عبیکسیہائے تمنا کہ نہ دنیا ونہ دین (بیکسی کی آرزو پر افسوس ہے کہ نہ دنیا ہاتھ آئی نہ دین حاصل ہوا۔ت) غرض یہ ایجاد آزاد وہ مہمل وبیمعنی ہذیان ہے جو سلاطین وعلماء کی خواب میں بھی نہ تھا وہ یقینا جانتے تھے کہ خلافت میں ہمارا کچھ حصہ نہیں اور داغِ تغلب ہم سے نہ مٹے گا جب تک کسی خلیفہ قرشی سے اذن نہ لیں لہذا یہ صورت خلافت قائم کی کہمالایدرک کلہ لایترک کلہ (جسے نہ کلی طور پر حاصل کیا جاسکتا ہے نہ ہی اسے چھوڑاجاسکتا ہے۔ت) (۸) ثانیاً دنیا میں اسلامی سلطنتیں مختلف ممالک میں پھیلی ہوئی تھیں اور ہر ایک اپنے ملک کا حاکم مستقل اور آپ کی دونوں شرط خلافت کا جامع تھا اور تبدل ایام و موت، تقرر سلاطین سے کبھی یہاں کی سلطنت پہلے ہوتی کبھی وہاں کی، ان میں کسی متأخر نے یہ نہ جانا کہ خلافت اس دوسرے سلطان کا حق ہے مجھے اس سے اذن وپروانہ لینا چاہئے لیکن سمجھا تو اس قریشی خلافت کا محتاج سمجھا تو ہرگز اس کی بناء پر تقدم و تأخر نہ تھی کہ بلکہ وہی ایک اکیلی شرط قرشیت کہ نامقتدری خلیفہ کی حالت میں بھی اپنا رنگ جماتی اور بڑے بڑے اقتدار وجبروت والوں کا سراپنے سامنے جھکاتی تھی۔ الحمدﷲ کیسے روشن بیانوں سے ثابت ہوا کہ یہ سارے جلوے شرط قرشیت کے تھے تمام سلاطین کا خودیہی عقیدہ تھا کہ ہم بوجہ عدم قرشیت لائق خلافت نہیں، قرشی کے سوا دوسرا شخص خلیفہ نہیں ہوسکتا کہ ہر وقت وقرن کے علماء انہیں یہی بتاتے رہے۔ اور قطعاً یہی مذہب اہلسنت ہے اور اسی پر احادیث مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی متواتر شہادت ہےفماذابعد الحق الا الضلا ل (تو حق کے بعد کیا ہے صرف گمراہی ہے۔ت) رہا مسئلہ اعانت، کیاآپ لوگوں کے زعم میں سلطانِ اسلام کی اعانت کچھ ضرور نہیں، صرف خلیفہ کی اعانت جائز ہے کہ مسلمانوں کو اعانت پر ابھارنے کے لئے ادعائے خلافت ضرور ہوا یا سلطان مسلمین کی اعانت صرف قادروں پر ہے اور خلیفہ کی اطاعت بلاقدرت بھی فرض ہے، یہ نصوص قطعیہ قرآن کے خلاف ہے، اور جب کوئی وجہ نہیں پھر کیا ضرور ت تھی کہ سیدھی بات میں جھگڑا ڈالنے کے لئے جملہ علمائے کرام کی واضح تصریحات متظافرہ اور اجماعِ صحابہ واجماعِ امت واحادیثِ متواترہ کے خلاف یہ تحریک لفظ خلافت سے شروع کرکے عقیدہ اجماعیہ اہلسنت کا خلاف کیا جائے، خارجیوں معتزلیوں کا ساتھ دیاجائے، دوراز کار تاویلوں، تبدیلیوں، تحریفوں، خیانتوں، عنادوں، مکابروں سے حق چھپانے اور باطل پھیلانے کا ٹھیکالیاجائے، والعیاذ باﷲ تعالٰی۔ اب ہم بتوفیقہ تعالٰی اس اجمال مفصل کی تفصیل مجمل کے لئے کلام کو ایک مقدمہ اور تین فصل پر منقسم کرتے ہیں: مقدمہ: خلیفہ وسلطان کے فرق اور یہ کہ کسی عرف حادث سے مسئلہ خلافت مصطلحہ شرعیہ پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔ فصل اول: احادیث متواترہ واجماع صحابہ وتابعین ومذہب اہلسنت نصرھم اﷲ تعالٰی سے شرطِ قرشیت کے روشن ثبوت۔ فصل دوم:خطبہ صدارت میں مولوی فرنگی صاحب کی پندرہ سطری کار گزاری کی ناز برداری۔ فصل سوم: رسالہ خلافت میں مسٹر ابوالکلام آزاد کے ہذیانات وتلبیسات کی خدمتگزاری۔ وباﷲ التوفیق لارب سواہ، والصلوٰۃ والسلام علٰی مصطفاہ واٰلہ وصحبہ والاہ۔ مقدمہ خلیفہ و سلطان کے فرق اور یہ کہ سلطان کہہ دیا جانا ہی خلیفہ نہ ہونے کی کافی دلیل ہے اور یہ کہ لفظ خلیفہ میں اگر کوئی عرف حادث ہوتو اس سے خلافت مصطلحہ شرعیہ پر کیا اثر۔ (۱) خلیفہ حکمرانی وجہانبانی میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا نائب مطلق تمام امت پر ولایت عامہ والا ہے، شرح عقائد نسفی میں ہےخلافتھم) ای نیابتھم عن الرسول فی اقامۃ الدین بحیث یجب علی کافۃ الامم الاتباع۱؎۔ان کی خلافت، یعنی دین کی اقامت میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی نیابت کا مقام یہ ہے کہ تمام امت پر اس کی اتباع واجب ہے(ت) (۱؎ شرح العقائد النسفیۃ دارالاشاعۃ العربیۃ قندھار، افغانستان ص۱۰۸) خودسر کفار کا اسے نہ ماننا شرعاً اس کے استحقاق ولایت عامہ میں مخل نہیں جس طرح ان کا خود نبی کو نہ ماننا یونہی روئے زمین کے مسلمانوں میں جو اسے نہ مانے گا اس کی خلافت میں خلاف نہ آئے گا یہ خود ہی باغی قرار پائے گا اور اصطلاح میں سلطان وہ بادشاہ ہے جس کا تسلط قہری ملکوں پر ہوچھوٹے چھوٹے والیانِ ملک اس کے زیرِ حکم ہوں، کماذکرہ الامام جلال الدین السیوطی رحمہ اﷲ تعالٰی فی حسن المحاضرۃ عن ابن فضل اﷲ فی المسالک عن علی بن سعید۔جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اﷲ تعالٰی نے حسن المحاضرۃ میں ابن فضل اﷲ سے انہوں نے مسالک میں علی بن سعید سے اسے ذکر کیا۔(ت) یہ دو قسم ہے: (۱) مُولّی جسے خلیفہ نے والی کیا ہو اس کی ولایت حسبِ عطائے خلیفہ ہوگی جس قدر پر والی کرے۔ (۲) دوسرا متغلب کہ بزورِ شمشیر ملک دبا بیٹھا اس کی ولایت اپنی قلمر و پر ہوگی وبس۔ (۲) کہ اول پر متفرع ہے خلیفہ کی اطاعت غیر معصیت الٰہی میں تمام امت پر فرض جس کا منشا خود اس کا منصب ہے کہنا نائبِ رسول رب ہے صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم، اور سلطان کی اطاعت صرف اپنی قلمرو پر، پھر اگر مولٰی ہے تو بواسطہ عطائے خلیفہ اس منصب ہی کی وجہ سے کہ اس کا امر امرِ خلیفہ ہے اور امرِ خلیفہ امر نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم، اور اگر متغلب ہے تو نہ اس کے منصب سے کہ وہ شرعی نہیں بلکہ دفعِ فتنہ اور اپنے تحفظ کے لئے خود مسٹر نے فتح الباری سے دربارہ سلطان متغلب نقل کیا (ص۵۱)۔طاعتہ خیرمن الخروج علیہ لما فی ذٰلک من حقن الدماء وتسکین الدھماء۱؎۔اس کے خلاف کے مقابلہ میں اس کی طاعت بہتر ہے کیونکہ اس میں جانوں کا تحفظ اور شورش سے سکون ہے(ت) (۱؎ مسئلہ خلافت بحث بعض کتب مشہورہ عقائد و فقہ داتا پبلشر لاہور ص ۱۰۶) (۳) کہ دوم پر متفرع ہے خلیفہ نے جس مباح کا حکم دیا حقیقۃً فرض ہوگیا جس مباح سے منع کیا حقیقۃً حرام ہوگیا یہاں تک تنہائی وخلوت میں بھی اس کا خلاف جائز نہیں کہ خلیفہ نہ دیکھے اﷲ دیکھتا ہے، ایک زمانے میں خلیفہ منصور نے امام الائمہ سراج الامہ سید نا امام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو فتوٰی دینے سے منع کردیا تھا، امام ہمام کی صاحبزادی نے گھرمیں ایک مسئلہ پوچھا، امام نے فرمایا : میں جواب نہیں دے سکتا خلیفہ نے منع کیا ہے۔ یہاں سے ظاہر ہوا کہ خلیفہ کا حکم مباح درکنار فرض کفایہ پر غالب ہے جبکہ دوسرے اس کے ادا کرنے والے موجود ہوں کہ اب اس کا ترک معصیت نہیں تو حکمِ خلیفہ نافذ ہوگا اگرچہ خلیفہ ظالم بلکہ خود اس کا وہ حکم ظلم ہو کہ امام کو فتوٰی سے روکنا نہ ہوگا مگر ظلماً، اور سلطان متغلب جس کی ولایت خلیفہ سے مستفاد نہ ہو اس کے امر و نہی سے مباحات فی نفسہا واجب و حرام نہ ہوجائیں گے تنہائی میں اس طور پر کہ اسے اطلاع پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو مباح اپنی اباحت پر رہے گا۔ علامہ شہاب الدین خفاجی رحمہ اﷲ تعالٰی صاحب نسیم الریاض وعنایۃ القاضی وغیرہما کتب نافعہ کے زمانے میں سلطان نے حقہ پینے سے لوگوں کو منع کیا تھا یہ پردہ ڈال کر پیتے۔ امام علامہ عارف باﷲ سیدی عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی رسالہ الصلح بین الاخوان میں فرماتے ہیں: ''نہ خود حقہ پیتا ہوں نہ میرے گھر بھر میں کوئی پیتا ہے مگر مباح کو حرام نہیں کہہ سکتا''۔۲؎ (۲؎ رسالہ الصلح بین الاخوان لعبد الغنی نابلسی ) اور منع سلطانی کے جواب میں شرح ہدیہ ابن العماد میں فرماتے ہیں:لیت شعری ای امر من امریہ یتمسک بہ امرہ الناس بترکہ اوامرہ باعطاء المکس علیہ علی ان المراد من اولی الامر فی الاٰیۃ العلماء علی اصح الاقوال کماذکرہ العینی فی اٰخر مسائل شتی من شرح الکنز وایضا ھل منع السلاطین الظلمۃ یثبت حکما شرعیا وقد قالوا من قال لسلطان زماننا عادل کفر۔۱؎یعنی کاش میں جانوں کہ سلطان کا کون سا حکم لیاجائے یہ کہ لوگ حقہ نہ پئیں یا یہ کہ تمباکو پرٹیکس دیں معہذا آیہ کریمہ میں اصح قول یہ ہے کہ اولی الامر سے مراد علماء ہیں جس طرح شرح کنز امام عینی میں ہے نیز کیا ظالم سلاطین کا حکم حکم شرعی ہوجائے گا حالانکہ ائمہ دین نے تصریح فرمائی ہے کہ جو ہمارے زمانے کے سلطان کو عادل کہے کافر ہوجائیگا انتہی۔ یہ ارشاد امام علم الہدٰی ابو منصور ماتریدی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا اپنے زمانے کے سلاطین میں ہے جنہیں ہزار برس سے زائد ہوئے نہ کہ اب۔نسأل اﷲ العفووالعافیۃ۔ (۱؎ شرح ہدیۃ ابن العماد ) (۴)کہ نیز دوم پر متفرع ہے ایک وقت میں تمام جہان میں ایک ہی ہوسکتا ہے اور سلاطین دس ملکوں میں دس۔ خود مسٹر آزاد لکھتے ہیں(ص۸۴): ''اسلام نے مسلمانوں کی حکومت ایک ہی قرار دی تھی یعنی روئے زمین پر مسلمانوں کا صرف ایک ہی فرمانرواوخلیفہ ہو۔'' (۵)کوئی سلطان اپنے انعقاد سلطنت میں دوسرے سلطان کے اذن کا محتاج نہیں مگر ہر سلطان اذن خلیفی کا محتاج ہے کہ بے اس کے اس کی حکومت شرعی و مرضی شرع نہیں ہوسکتی، خود آزاد کے ص۷۹ سے گزرا کہ: ''خلافت کی عظمت دینی نے مجبور کیا کہ اپنی حکومت کو شرعی طور پر منوادینے کے لئے خلافت سے پروانہ نیابت حاصل کرتے رہیں۔'' (۶) خلیفہ بلاوجہ شرعی کسی بڑے سے بڑے سلطان کے معزول کئے معزول نہیں ہوسکتا، خود جبار وسرکش قوّاد ترک کہ متوکل بن معتصم بن ہارون رشید کو قتل کرکے خلفاء پر حاوی ہوگئے تھے جب ان میں کسی کو زندہ رکھ کر معزول کرنا چاہتے خود اسے مجبورکرتے کہ خلافت سے استعفٰی دے تاکہ عزل صحیح ہوجائے بخلاف سلطان کہ خلیفہ کا صرف زبان سے کہہ دینا'' میں نے تجھے معزول کیا'' اس کے عزل کو بس ہے۔ (۷) سلطنت کے لئے قرشیت درکنار حریت بھی شرط نہیں، بہتیرے غلام بادشاہ ہوئے، خود رسالہ آزاد صفحہ۵۵میں ہے: ''غلاموں نے بادشاہت کی ہے اور تمام سادات وقریش نے ان کے آگے اطاعت کاسر جھکایا ہے''۔ اور خلافت کےلئے حریت باجماع اہل قبلہ شرط ہےکمافی المواقف وشرحہ وعامۃ الکتب (جیسا کہ مواقف اور اس کی شرح اور عامہ کتب میں ہے۔ت) یہاں سے خلیفہ وسلطان کے فرق ظاہرہوگئے، نیزکھل گیا کہ سلطان خلیفہ سے بہت نیچا درجہ ہے، ولہذا کبھی خلیفہ کے نام کے ساتھ لفظ سلطان نہیں کہا جاتا کہ اس کی کسرِ شان ہے آج تک کسی نے سلطان ابوبکر صدیق،سلطان عمر فاروق، سلطان عثمان غنی، سلطان علی المرتضٰی بلکہ سلطان عمر بن عبدالعزیز بلکہ سلطان ہارون رشید نہ سنا ہوگا، کسی خلیفہ اموی یا عباسی کے نام کے ساتھ اسے نہ پائیے گا، تو کھل گیا کہ جس کے نام کے ساتھ سلطان لگاتے ہیں اسے خلیفہ نہیں مانتے کہ خلیفہ اس سے بلندوبالا ہے، یہی وہ خلافت مصطلحہ شرعیہ ہے جس کی بحث ہے، اسی کے لئے قرشیت وغیرہا سات شرطیں لازمی ہیں عرف حادث میں اگر کسی سلطان کو بھی خلیفہ کہیں یا مدح میں ذکر کرجائیں وہ نہ حکمِ شرع کا نافی ہے نہ اصطلاحِ شرع کا منافی۔ جس طرح اجماعِ اہلسنت ہے کہ بشر میں انبیا ء علیہم الصلاۃ والسلام کے سواکوئی معصوم نہیں ، جو دوسرےکو معصوم مانے اہلسنت سے خارج ہے، پھر عرف حادث میں بچوں کو بھی معصوم کہتے ہیں یہ خارج ازبحث ہے جیسے لڑکوں کے معلم تک کو خلیفہ کہتے ہیں، یہ مبحث واجب الحفظ ہے کہ دھوکا نہ ہووباﷲ التوفیق۔ فصل اوّل احادیث متواترہ سرکار رسالت واجماع صحابہ وتابعین وائمہ امت ومذہب مہذب اہلسنت وجماعت سے شرط قرشیت کے روشن ثبوت احادیث شریفہ کو میں جدا لاؤں ان کی تخریج و شان تو اتر بتاؤں ان سے اتمام تقریب ووجہ احتجاج دکھاؤں اس سے یہی بہتر کہ کتبِ عقائد وکتبِ حدیث وکتبِ فقہ سے اقوال جلیلہ ائمہ کرام علمائے اعلام بتادیں گے کہ حدیثیں متواتر ہیں ان کی حجتیں قاہرہ ہیں ہر طبقہ وقرن کے اجماع متظافر ہیں مخالف سنی نہیں خارجی معتزلی گمراہ خاسر ہیں وباﷲ التوفیق۔ کتب عقائد امام ہمام مفتی الجن والانس عارف باﷲ نجم الملۃ والدین عمر نسفی استادِ امام برہان الملۃ والدین صاحبِ ہدایہ رحمہمااﷲ تعالٰی کا متن عقائد مشہور بہ عقائد نسفی جو سلسلہ نظامیہ ودیگر سلاسل تعلیمیہ میں عقائد اہلسنت کی درسی کتاب ہے جسے درس میں اسی لئے رکھا ہے کہ طلبہ عقائدِ اہلسنت سے آگاہ ہوجائیں، اس کتاب جلیل میں ہے:ویکون من قریش ولایجوز من غیرھم۱؎یعنی خلیفہ قریش سے ہو غیر قریشی جائز نہیں۔ (۱؎ شرح العقائد النسفیۃ دارالاشاعۃ العربیۃ قندھار،افغانستان ص۱۱۱) شرح علامہ تفتازانی میں ہے:لم یخالف فیہ الاالخوارج وبعض المعتزلۃ۱؎۔قرشیت کی شرط میں کسی نے خلاف نہ کیا مگر خارجیوں اور بعض معتزلیوں نے۔ (۱؎ شرح العقائد النسفیۃ دارالاشاعۃ العربیۃ قندھار، افغانستان ص۱۱۲) اسی میں ہے:یشترط ان یکون الامام قریشیا لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام الائمۃ من قریش وھذا وان کان خبراواحدا لکن لمارواہ ابوبکر محتجابہ علی الانصار ولم ینکرہ احد فصار مجمعاعلیہ۲؎۔یعنی شرط یہ ہے کہ خلیفہ قریشی ہو بدلیل قول نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش اور یہ حدیث اگرچہ خبر واحد ہے لیکن جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے انصار پر حجت میں اسے پیش کیا اورصحابہ کرام میں کسی نے اس پر انکار نہ کیا تو اس پر اجماع ہوگیا۔ (۲؎شرح العقائد النسفیۃ دارالاشاعۃ العربیۃ قندھار، افغانستان ص۱۱۱ و ۱۱۲) کتاب قواعد العقائد امام حجۃ الاسلام غزالی میں ہے:شرط الامامۃ نسبۃ قریش لقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش۳؎۔خلافت کی شرط نسب قریشی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا خلفاء قریش سے ہیں ۔ (۳؎ احیاء العلوم کتاب قواعد العقائد الفصل الثالث الرکن الرابع مکتبۃ المشہد الحسینی قاہرہ مصر ۱/ ۱۱۵) اس کی شرح اتحاف میں ہے:ان کثیرامن المعتزلہ نفی ھذاالاشتراط، ودلیل اھل السنۃ قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش قال العراقی اخرجہ النسائی من حدیث انس والحاکم من حدیث علی وصححہ اھ قلت وکذا اخرجہ البخاری فی التاریخ وابویعلی والطیالسی والبزار عن انس واخرجہ احمد من حدیث ابی ھریرۃ وابی بکر الصدیق والطبرانی من حدیث علی وعندہ عن انس بلفظ ان الملک فی قریش واخرج یعقوب بن سفیان وابویعلی والطبرانی من طریق سکین من عبدالعزیز حدثنا سیاربن سلامۃ ابوالمنہال قال دخلت مع ابی علی ابی برزۃ الاسلمی فسمعتہ یقول سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یقول الامراء من قریش الخ۱؎(ملخصاً)یعنی بہت معتزلیوں نے شرطِ قرشیت کا انکار کیا اور اہلسنت کی دلیل، رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ خلفا قریش سے ہوں، امام زین الدین عراقی نے فرمایا یہ حدیث نسائی نے حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ اور حاکم نے امیر المومنین مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ سے روایت کی اور کہا یہ حدیث صحیح ہے اھ میں کہتا ہوں یونہی اسے امام بخاری نے کتاب التاریخ اور ابویعلی وابوداؤد طیالسی و بزار نے انس اور امام احمد نے ابوہریرہ وحضرت صدیق اکبر اور طبرانی نے مولٰی علی سے روایت کیا رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین، نیز طبرانی کے یہاں بروایت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ ان لفظوں سے ہے کہ سلطنت قریش میں ہے اور یعقوب بن سفیان و ابویعلٰی وطبرانی نے سکین بن عبدالعزیز سے روایت کی کہ ہم سے سیار بن سلامہ ابو المنہال نے حدیث بیان کی کہ میں اپنے والد کے ساتھ ابوبرزہ اسلمی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے پاس گیا انہیں یہ حدیث روایت کرتے سنا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی کو فرماتے سنا کہ خلفاء قریش سے ہیں الخ(ملخصاً) (۱؎ اتحاف السادۃ المتقین کتاب قواعد العقائد دارالفکربیروت ۲/ ۲۳۱) ثم ذکرتخاریج حدیث لایزال ھذا الامر فی قریش۲؎ وشواھدہ وکلہ ماخوذ من الفتح۔پھر انہوں نے حدیث، کہ یہ خلافت ہمیشہ قریش میں ہوگی، کی تخریجات اور شواہدات کو ذکر کیا اور یہ سب فتح الباری سے ماخوذ ہے(ت) (۲؎اتحاف السادۃ المتقین کتاب قواعد العقائد دارالفکربیروت ۲/ ۲۳۱) مسایرہ امام محقق علی الاطلاق کمال الدین بن الہام میں ہے:شرط الامام نسب قریش خلافا لکثیر من المعتزلۃ۳؎۔خلیفہ کی شرط نسب قرشی ہے بہت معتزلیوں کا اس میں خلاف ہے(ت) (۳؎ مسایرۃ مع المسامرۃ شروط الامام متکبہ تجاریۃ کبرٰی مصر ص۲۳۹) مسامرہ علامہ ابن ابی شریف شافعی تلمیذ امام ابن الہمام میں ہے:لنا قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش قدمناتخریجہ وقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الناس تبع لقریش اخرجہ الشیخان وفی البخاری من حدیث معٰویۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ ان ھذاالامر فی قریش۱؎۔ہم اہلسنت کی دلیل رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ خلفا قریش سے ہیں، ہم نے اس حدیث کی تخریج اوپر بیان کی نیز حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد کہ سب آدمی قریش کے تابع ہیں، اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا، نیز بخاری میں امیر معاویہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی حدیث سے ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا بیشک خلافت قریش میں ہے۔ اور تخریج حدیث چھ ورق اوپر بیان کی، رواہ النسائی من حدیث انس ورواہ بمعناہ الطبرانی فی الدعاء والبزار والبیھقی وافردہ شیخنا الامام الحافظ ابوالفضل بن حجر بجزء جمع فیہ طرقہ نحومن اربعن صحابیا۲؎۔یہ حدیث نسائی نے انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کی اور یہی مضمون طبرانی نے کتاب الدعاء اور بزار و بیہقی نے روایت کیا اور ہمارے شیخ امام حافظ ابو الفضل ابن حجر عسقلانی نے خاص اس حدیث میں ایک مستقل رسالہ لکھا جس میں ا س کی روایات قریب چالیس صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے جمع کیں۔ (۱؎ مسامرۃ شرح مسایرہ شروط الامام مکتبہ تجاریہ کبرٰی مصر ص۳۲۰) (۲؎مسامرۃ شرح مسایرہ شروط الامام مکتبہ تجاریہ کبرٰی مصر ص۳۰۶) علامہ امام قاسم بن قطلوبغا حنفی تلمیذ ابن الہمام تعلیقات مسایرہ میں فرماتے ہیں:اماعندنا فالشروط انواع بعضھا لازم لاتنعقد بدونہ، وھی الاسلام والذکورۃ والحریۃ والعقل والبلوغ واصل الشجاعۃ وان یکون قرشیا۳؎۔ہمارے نزدیک خلافت کی شرطیں کئی قسم ہیں بعض تو شروط لازم ہیں کہ ان کے بغیر خلافت صحیح ہی نہیں ہوسکتی وہ یہ ہیں اسلام اور مرد ہونا اور آزادی وعقل وبلوغ واصل شجاعت اور قرشی ہونا۔ (۳؎ تعلیقات مسایرۃ مع المسامرۃ شروط الامام مکتبہ تجاریہ کبرٰی مصر ص۳۱۹ و ۳۲۰) پھر فرمایا:امانسب قریش فلقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش رواہ البزار وھذا وان کان خبرواحد فقد اتفقت الصحابۃ علی قبولہ الامام ابوالعباس الصابونی وغیرہ۴؎۔قریشی ہونا اس لئے شر ط ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: خلفاء قریش سے ہوں۔ اسے بزار نے روایت کیا، اور یہ اگرچہ خبر احاد ہو مگر صحابہ کرام نے اس کے قبول پر اجماع فرمایا، یہ امام ابوالعباس صابونی وغیرہ نے افادہ فرمایا۔ (۴؎تعلیقات مسایرۃ مع المسامرۃ شروط الامام مکتبہ تجاریہ کبرٰی مصر ص۳۲۰) طوالع الانوار علامہ بیضاوی میں ہے:التاسعۃ کونہ قرشیا خلافا للخوارج وجمع من المعتزلۃ قولہ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش واللام فی الجمع حیث لاعھد للعموم۱؎۔یعنی خلافت کی نویں شرط قریشی ہونا ہے اس میں خارجیوں اور ایک گروہ معتزلہ کو خلاف ہے کہ وہ خلیفہ کا قریشی ہونا ضروری نہیں جانتے، ہماری دلیل رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ خلفاء قریش سے ہوں جہاں عہد نہ ہو جمع پر لام استغراق کے لئے ہوتا ہے یعنی تمام خلفاء قریش ہی سے ہوں۔ (۱؎ طوالع الانوار علامہ بیضاوی ) مواقف میں ہے:یکون قرشیا ومنعہ الخوارج وبعض المعتزلۃ لنا قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش ثم ان الصحابۃ عملوابمضمون ھذاالحدیث واجمعواعلیہ فصار قاطعا۲؎۔یعنی خلیفہ قریشی ہوخارجی اور بعض معتزلی اس شرط کے منکر ہیں ہماری دلیل نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ خلیفہ قریشی ہو، پھر صحابہ کرام اس حدیث کے مضمون پر عامل ہوئے اور ان کا اس پر اجماع ہوا تو وہ دلیل قطعی ہوگئی۔ (۲؎ مواقف مع شرح المواقف المرصد الرابع فی الامامۃ منشورات الشریف رضی قم ایران ۸/ ۳۵۰) شرح علامہ سید شریف میں ہے:صاردلیلا قطعا یفید الیقین باشتراط القرشیۃ۳؎۔یعنی دلیل قطعی ہوگئی جس سے قرشیت کا شرط ہونا یقینی ہوگیا۔ اسی میں ہے:اشترطہ الاشاعرۃ۴؎یعنی اہلسنت کے نزدیک خلیفہ کا قرشی ہونا شرط ہے۔ (۳؎مواقف مع شرح المواقف المرصد الرابع فی الامامۃ منشورات الشریف رضی قم ایران ۸/ ۳۵۰) (۴؎مواقف مع شرح المواقف المرصد الرابع فی الامامۃ منشورات الشریف رضی قم ایران ۸/ ۳۵۰) مقاصد میں ہے:یشترط فی الامام کونہ قرشیا لقولہ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش۵؎۔امام میں شرط ہے کہ قرشی ہو، رسول اﷲ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: خلفاء قریش سے ہوں۔ (۵؎ مقاصد علی ہامش شرح المقاصد الفصل الرابع فی الامامۃ المبحث الثانی دارالمعارف النعمانیۃ لاہور ۲/ ۲۷۷) شرح مقاصد میں ہے:اتفقت الامۃ علی اشتراط کونہ قرشیا خلافنا للخوارج لنا السنۃ والاجماع اماالسنۃ فقولہ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش واماالاجماع فھو انہ لما قال الانصار یوم السقیفۃ مناامیرومنکم امیرمنعھم ابوبکر رضی اﷲ تعالٰی عنہ بعدم کونھم من قریش ولم ینکرہ علیہ احد من الصحابۃ فکان اجماعا۱؎۔یعنی تمام امت کا اجماع ہے کہ خلیفہ کا قریشی ہونا شرط ہے اس میں مخالف خارجی ہیں اور اکثر معتزلی، ہماری دلیل حدیث اور اجماع امت ہے، حدیث تو حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ سلم کا ارشاد ہے کہ خلفاء قریش سے ہیں، اور اجماع یوں کہ جب انصار رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے روز سقیفہ بنی ساعدہ مہاجرین رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے کہا ایک امیر ہم میں سے اور ایک تم میں سے، انہیں صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی نے دعوی خلافت سے یوں باز رکھا کہ تم قریشی نہیں(اور خلیفہ کا قریشی ہونا لازم ہے) اس پر کسی صحابی نے انکار نہ کیا تو اجماع ہوگیا۔ (۱؎ شرح المقاصد الفصل الرابع فی الامامۃ دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۲/ ۲۷۷) شرح فقہ اکبر میں ہے:یشترط ان یکون الامام قرشیا لقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش وھو حدیث مشہور ولیس المراد ادبہ الامامۃ فی الصلٰوۃ اتفاقا فتعینت الامامۃ الکبری خلافا للخوارج وبعض المعتزلۃ۲؎۔یعنی شرط یہ ہے کہ خلیفہ قریشی ہو کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ائمہ قریش سے ہیں۔ اور یہ حدیث مشہور ہے اور اس میں امامت نماز باجماع مراد نہیں تو ضرور خلافت مراد ہے اس میں مخالف خارجی ہیں یا بعض معتزلی۔ (۲؎ منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر نصب الامام واجب مصطفی البابی مصر ص۱۴۷) طریقہ محمد یہ میں ہے:المسلمون لابدلھم من امام قرشی ولایشترط ان یکون ھاشمیا۳؎۔یعنی مسلمانوں کے لئے ضرور ہے کہ کوئی قریشی خلیفہ ہو اور ہاشمی ہوناشرط نہیں۔ (۳؎ طریقہ محمدیۃ المسلمون لابدلہم من امام مکتبہ حنفیہ کوئٹہ ا/۷۱) حدیقہ ندیہ میں ہے:یکون من قریش ولایجوز من غیرھم۴؎۔خلیفہ قریشی ہو غیر قریشی کی خلافت درست نہیں۔ (۴؎ حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمد یہ المسلمون لابدلہم من امام مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۱/ ۲۹۵) تمہید امام ابوالشکور سالمی جسے سلطان الاولیاء محبوب الٰہی نظام الحق والدین نے درس میں پڑھا اس میں ہے:اجمعنا علی ان الامام من قریش ولایکون من غیرہ۱؎۔ہم اہلسنت کا اجماع ہے کہ خلیفہ قریش سے ہو ان کے غیر سے نہیں۔ (۱؎ التمہید فی بیان التوحید الباب الحادی عشر فی الخلافۃ دارالعلوم حزب الاحناف لاہور ص۱۵۹) کتب حدیث صحیح مسلم وصحیح بخاری میں ہے رسول ا ﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:لایزال ھذاالامر فی قریش مابقی من الناس اثنان۲؎۔خلافت ہمیشہ قریش کےلئے ہے جب تک دنیامیں دو آدمی بھی رہیں۔ (۲؎ صحیح بخاری کتاب الاحکام باب الامراء من قریش قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۰۵۷) (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب الناس تبع لقریش قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۹) شرح صحیح مسلم للامام النووی وشرح صحیح بخاری للامام القسطلانی ومرقاۃ علی قاری میں ہے:بین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ان ھذا الحکم مستمر الٰی اٰخر الدنیا مابقی من الناس اثنان۳؎۔رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ظاہر فرمادیا کہ یہ حکم ختم دنیا تک ہے جب تک دو آدمی بھی رہیں۔ (۳؎ شرح مسلم مع صحیح مسلم کتاب الامارۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۹) (ارشاد الساری باب الامراء من قریش دارالکتاب العربی بیروت ۱۰/ ۲۱۸) ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں ابن المنیر سے اور عمدۃ القاری امام بدر محمود عینی حنفی میں ہے:قریش ھم اصحاب الخلافۃ وھی مستمرۃ لھم الی اٰخر الدنیا مابقی من الناس اثنان۴؎۔قریش ہی خلافت والے ہیں وہ ختمِ دنیا تک انہیں کے لئے ہے جب تک دو آدمی بھی باقی رہیں۔ (۴؎ عمدۃ القاری شرح البخاری باب الامراء من قریش ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ ۱۶/ ۷۵) امام قرطبی کی مفہم شرح صحیح مسلم میں پھر عمدۃ القاری وفتح الباری شروح صحیح بخاری میں ہے:ھذاالحدیث خبر عن المشروعیۃ ای لاتنعقد الامامۃ الکبری الالقرشی مھما وجد منھم احد۱؎۔اس حدیث میں حکمِ شرعی کا بیان ہے یہ فرمایاہے کہ جب تک دنیا میں ایک قرشی بھی باقی رہے اور وں کی خلافت صحیح نہیں۔ (۱؎ فتح الباری شرح البخاری باب الامراء من قریش مصطفی البابی مصر ۱۶/ ۲۳۵) امام نووی شرح صحیح مسلم پھر امام قسطلانی شرح بخاری اور علامہ طیبی وعلامہ سید شریف وعلی قاری شروحِ مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں: ھذہ الاحادیث واشباھھا دلیل ظاھر ان الخلافۃ مختصۃ لقریش لایجوز عقدھا لاحد من غیرھم وعلی ھذا انعقد الاجماع فی زمن الصحابۃ وکذلک بعدھم ومن خالف فیہ من اھل البدع اواعرض بخلاف من غیرھم فھو محجوج باجماع الصحابۃ والتابعین فمن بعدھم بالاحادیث الصحیحۃ۲؎۔یہ حدیث اور ان کے مثل اور احادیث روشن دلیلیں ہیں کہ خلافت قریش کے ساتھ خاص ہے ان کے سواکسی کو خلیفہ بنانا جائز نہیں، اسی پر زمانہ صحابہ میں یوں ہی ان کے بعد اجماع منعقد ہواتو جن بدمذہبوں نے اس میں خلاف کیا یا جس نے اور کسی کے خلاف کا اشارہ کیا اس کاقول صحابہ تابعین وعلمائے مابعد کے اجماع اورصحیح حدیثوں سے مردود ہے۔ (۲؎ شرح صحیح مسلم مع صحیح مسلم کتاب الامارۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۹) علامہ ابن المنیر پھر حافظ عسقلانی شرح صحیح بخاری میں لکھتے ہیں:الصحابۃ اتفقواعلی افادۃ المفھوم للحصر خلافا لمن انکرذلک والی ھذاذھب جمھور اھل العلم ان شرط الامام ان یکون قرشیا وقالت الخوارج وطائفۃ من المعتزلۃ یجوز ان یکون الامام غیرقرشی وبالغ ضرار بن عمرو فقال تولیۃ غیر القرشی اولی وقال ابوبکر الطیب لم یعرج المسلمون علی ھذاالقول بعد ثبوت حدیث الائمۃ من قریش وعمل المسلمون بہ قرنابعد قرن وانعقد الاجماع علی اعتبار ذالک قبل ان یقع الاختلاف۱؎۔یعنی صحابہ نے اتفاق فرمایا کہ حدیث الائمۃ من قریش خلافت کا قریشی میں حصر فرماتی ہے بر خلاف اس کے جواس کا منکر ہو، اور یہی مذہب جمہور اہل علم کا ہے کہ خلیفہ کے لئے قریشی ہونا شرط اور خارجیوں اور ایک گروہ معتزلہ نے کہا کہ غیر قریشی بھی خلیفہ ہوسکتا ہے اور ضرار بن عمرو تو یہاں تک بڑھ گیا کہ کہا غیر قریشی کا خلیفہ کرنا بہتر ہے۔ امام ابوبکر ابن الطیب نے فرمایا مسلمانوں نے اس قول کی طرف التفات نہ کیا بعداس کے کہ حدیث "الائمۃ من قریش" ثابت ہوچکی اور ہر قرن میں مسلمان اس پر عامل رہے اور اس اختلاف اٹھنے سے پہلے اس کے ماننے پر اجماع (عہ) منعقد ہولیا۔ عہ: تنبیہ ضروری: یہ کلام جلیل یادرکھنے کا ہے کہ بعونہٖ تعالٰی اس سے اہلِ باطل کا منہ کالا ہوگا۱۲ حشمت علی عفی عنہ ۔ (۱؎ فتح الباری شرح البخاری باب الامراء من قریش مصطفی البابی مصر ۱۶/ ۲۳۶) امام احمد ناصرالدین اسکندرانی پھر امام شہاب الدین کنانی وجہ دلالت حدیث "لایزال ھذالامر فی قریش"میں فرماتے ہیں:المبتدأبالحقیقۃ ھٰھنا ھوالامرالواقع صفۃ لھذاوھذالا یوصف الا بالجنس فمقتضاہ حصر جنس الامر فی قریش کانہ قال لاامر الافی قریش والحدیث وانکان بلفظ الخبر فھو بمعنی الامر، بقیۃ طرق الحدیث تؤید ذٰلک۲؎۔یعنی حاصل حدیث یہ ہے کہ "ھذاالامر فی قریش" دائما یہ امر خلافت ہمیشہ قریش کے لیے ہے" ھذا" مبتدا ہے اور "امر" اس کی صفت، اور "ھذا" کی صفت میں ہمیشہ جنس ہی آتی ہے، تو مطلب یہ کہ جنس خلافت قریش ہی کےلئے ہے(ان کے غیرکے لئے اس کا کوئی فرد نہیں)گویا الفاظ یوں ارشاد ہوئے کہ خلافت نہیں مگر قریش میں، حدیث اگرچہ صورۃً خبر ہے معنًی امر ہے، حدیث کی باقی روایتیں اس معنٰی کی مؤید ہیں۔ (۲؎فتح الباری شرح البخاری باب الامراء من قریش مصطفی البابی مصر ۱۶/ ۲۳۶) امام ابن حجر اور ان سے پہلے امام ابن بطال شرح بخاری للمہلب سے ناقل:یجوز ان یکون ملک یغلب علی الناس بغیر ان یکون خلیفۃ، وانما انکرمعٰویۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ خشیۃ ان یظن احدان الخلافۃ تجوز فی غیرقریش، فلما خطب بذٰلک دل علی ان ذٰلک الحکم عندھم کذلک اذلم ینقل عن احد منھم انکر علیہ ۳؎۔یعنی جب حضرت عبدا ﷲ بن عمر و رضی اﷲ تعالٰی عنہما نے کہا کہ عنقریب ایک بادشاہ قبیلہ قحطان سے ہو گا ، حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اس پر سخت انکار کیا اور خطبہ پڑھا اس میں فرمایا میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ خلافت قریش میں ہے، یہ انکار اس بنا پر نہ تھا کہ کوئی غیر قرشی بادشاہ بھی نہیں ہوسکتا، یہ توجائز ہے کہ کوئی بادشاہ لوگوں پر تغلب کرے اور خلیفہ نہ ہو بلکہ انکار کی وجہ یہ تھی کہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ غیر قرشی خلیفہ ہوسکتاہے لہذا حضرت امیر معاویہ نے خطبہ پڑھا کہ کوئی غیر قرشی خلیفہ نہیں ہوسکتا اوراس پر کسی صحابی وتابعی نے انکار نہ کیا تو معلوم ہوا کہ ان سب کا یہی مذہب ہے۔ (۳؎فتح الباری شرح البخاری باب الامراء من قریش مصطفی البابی مصر ۱۶/ ۲۳۲) مہلب پھر ابن بطال پھر عینی وعسقلانی وقسطلانی سب شروح بخاری میں فرماتے ہیں:ان القحطانی اذاقام ولیس من بیت النبوۃ ولا من قریش الذین جعل اﷲ فیھم الخلافۃ فھو من اکبر تغیر الزمان وتبدیل الاحکام۱؎۔جب قحطانی قائم ہوگا اور وہ نہ خاندان نبوت سے ہے نہ قریش سے جن میں اﷲ عزوجل نے خلافت رکھی ہے تو یہ ایک بڑا تغیر زمانہ اور احکامِ شریعت کی تبدیل ہوگا۔ (۱؎ فتح الباری کتاب الفتن باب تغیر الزمان حتی یعبد الاوثان مصطفی البابی مصر ۱۶/ ۱۹۱) امام اجل قاضی عیاضی پھر امام ابو زکریا نووی شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں:اشتراط کونہ قرشیا ھو مذھب العلماء کافۃ وقد احتج بہ ابوبکر وعمر علی الانصار یوم السقیفۃ فلم ینکرہ احدوقد عدھا العلماء فی مسائل الاجماع ولم ینقل عن احد من السلف فیھا قول ولافعل یخالف ماذکرنا وکذٰلک من بعدھم فی جمیع الاعصار ولااعتداد بقول النظام ومن وافقہ من الخوارج واھل البدع انہ یجوز کونہ من غیر قریش لما ھو علیہ من مخالفۃ اجماع المسلمین۔۲؎خلیفہ میں قرشی ہونےکی شرط جمیع علماء کا مذہب ہے اور بیشک اسی سے صدیق اکبر فاروق اعظم نے روز سقیفہ انصار پر حجت قائم فرمائی اور صحابہ میں کسی نے اس کا انکار نہ کیااور بیشک علماء نے اسے مسائل اجماع میں گنا اور سلف صالح میں کوئی قول یا فعل اس کے خلاف منقول نہ ہوا، یونہی تمام زمانوں میں علماء سے مابعد سے اور وہ جو نظام معتزلی اور خارجیوں اور بدمذہبوں نے کہا کہ غیر قریشی بھی خلیفہ ہوسکتا ہے کچھ گنتی شمار میں نہیں کہ اجماع مسلمین کے خلاف ہے۔ (۲؎ شرح صحیح مسلم مع صحیح مسلم کتاب الامارۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۹) شیخ عبدالحق محدث دہلوی اشعۃ اللمعات میں فرماتے ہیں:گفت آں حضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ہمیشہ می باشد امر خلافت در قریش یعنی مے باید کہ در ایشاں باشد وجائز نیست شرعا عقد خلافت مر غیر ایشاں را وبریں منعقد شد اجماع در زمن صحابہ وبایں حجت کردند مہاجران بر انصار۱؎۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: خلافت ہمیشہ قریش میں ہوگی یعنی انہی میں ہونا چاہئے اور شرعاً ان کے غیر میں خلافت کا انعقاد جائز نہیں صحابہ کے زمانہ میں اس پر اجماع ہوچکا ہے اور اسی حدیث کو مہاجرین نے انصار پر بطورِ حجت پیش کیا۔(ت) (۱؎ اشعۃ اللمعات شرح المشکوٰۃ باب مناقب قریش فصل اول مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۴/ ۶۱۹) امام جلال الدین کی تاریخ الخلفاء(عہ) سے گزرا: لم اورد احدا من الخلفاء العبیدیین لان امامتھم غیر صحیح لانھم غیر قریش۲؎۔میں نے اس کتاب میں خلفائے عبیدیہ سے کسی کا ذکر نہ کیا اس لئے کہ ان کی خلافت باطل ہے کہ وہ قرشی نہیں۔ عہ:اوردہ آخر کتب الحدیث تبعا ۱۲ منہ غفرلہ ا س کوکتب حدیث کے آخر میں تابع ہونے کی حیثیت سے ذکر کیا ہے(ت) (۲؎ تاریخ الخلفاء خطبہ کتاب مطبع مجتبائی دہلی ص۷) کتبِ فقہ حنفی فتاوی سراجیہ کتاب الاستحسان باب مسائل اعتقادیہ میں ہے:یشترط ان یکون الخلیفۃ قرشیا ولایشترط ان یکون ھاشمیا۳؎۔خلیفہ میں شرط ہے کہ قرشی ہو اور ہاشمی ہونا شرط نہیں۔ (۳؎ فتاوٰی سراجیہ کتاب الاستحسان باب مسائل اعتقاد نولکشور لکھنؤ ص۷۰) اشباہ والنظائر فن ثالث بیان فرق پھر ابوالسعود ازہری علی الکنز میں ہے: یشترط فی الامام ان یکون قرشیا۴؎۔خلیفہ میں شرط ہے کہ قریشی ہو۔ (۴؎ الاشباہ والنظائر الفن الثالث ادارۃ القرآن کراچی ۲/ ۲۵۳ و ۶۵۴) غمزالعیون میں ہے:یشترط نسب قریش لقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش۵؎۔قرشی ہونا شرط ہے کہ رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:خلفاء قریشی ہوں۔ (۵؎ غمز عیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر الفن الثالث ادارۃ القرآن کراچی ۲/ ۲۵۳ و ۶۵۴) درمختار میں ہے:یشترط کونہ مسلما حراذکرا عاقلا بالغا قادر اقرشیا۱؎۔خلیفہ ہونے کے لئے شرط ہے کہ مسلمان آزاد، مرد، عاقل، بالغ، قادر، قرشی ہو۔ (۱؎ درمختار باب الامامۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۸۲) طحطاوی علے الدرمیں ہے:اشترط کونہ قرشیا لقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش وقد سلمت الانصار الخلافۃ لقریش بھذاالحدیث۔ ۲؎خلیفہ کا قرشی ہونا شرط ہے کہ رسول ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: خلفاء قرشی ہوں۔ اسی حدیث سے انصار نے قریش کی خلافت تسلیم کردی۔ (۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار باب الامامۃ دارالمعرفۃ بیروت ۱/ ۲۳۹) ردالمحتار میں اسی کے مثل لکھ کر فرمایا:وبہ یبطل قول الضراریۃ ان الامامۃ تصلح فی غیر قریش والکعبیۃ ان القرشی اولی بھا۳؎۔یعنی اسی حدیث واتفاق صحابہ کرام سے ضرار یہ کا قول باطل ہوا جو کہتے ہیں کہ خلافت غیر قریش میں لائق ہے اور کعبیہ کا جو کہتے ہیں خلافت کےلئے قرشی ہونا صرف اولٰی ہے یعنی ان دونوں گمراہ فرقوں نے اہلسنت کا خلاف کیا، اول نے غیر قرشی کی خلافت کو اولٰی جانا دوم نے قرشی کی خلافت کو صرف اولٰی سمجھا لازم نہ جانا، اہلسنت کے نزدیک خلیفہ کا قرشی ہونا لازم ہے دوسرا خلیفہ شرعی نہیں ہوسکتا۔ (۳؎ ردالمحتار باب الامامۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۳۶۸) تمہید امام ابوشکور سالمی میں امام الائمہ سراج الامہ اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے نص سے اس کی تصریح ہے کہ: قال ابوحنیفۃ رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ یصح امامتہ اذاکان قرشیا براکان اوفاجرا۴؎۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے فرمایا: خلافت صحیح ہے بشرطیکہ قرشی ہو نیک خواہ بد۔ (۴؎ تمہید ابو شکور سالمی الباب الحادی عشر فی الخلافۃ والامامۃ دارالعلوم حزب الاحناف لاہور ص۱۵۹) ازالہ وہم میں عباراتِ کتب عقائد وحدیث بالجملہ مسئلہ قطعاً یقینا اہلسنت کا اجماعی ہے ولہذا حدیث بخاری:اسمعوا واطیعواوان استعمل علیکم عبد حبشی۵؎۔سنو اور مانو اگرچہ تم پر کوئی حبشی غلام عامل کیا جائے۔ (۵؎ صحیح بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعۃ للامام قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۰۵۷) اس کی شرح میں علما قاطبۃً ازالہ وہم کی طرف متوجہ ہوئے، شرح مقاصدمیں ہے:ذٰلک فی غیر الامام من الحکام۱؎۔یہ حدیث خلیفہ کے سوا اور حکام ماتحت کے بارے میں ہے۔ (۱؎ شرح المقاصد الفصل الرابع فی الامامۃ المبحث الثانی دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۲/ ۲۷۷) مواقف میں ہے:ذلک الحدیث فی من امرہ الامام علی سریۃ وغیرہا۲؎۔یہ حدیث اس کے بارے میں ہے جسے کسی لشکر وغیرہ پر سردار کرے۔ (۲؎ مواقف شرح المواقف المرصدا لرابع فی الامامۃ منشورات الشریف الرضی، قم، ایران ۸/ ۳۵۰) شرح مواقف میں ہے:یجب حملہ علی ھذادفعا للتعارض بینہ وبین الاجماع،او نقول ھو مبالغۃ علی سبیل الفرض ویدل علیہ انہ لایجوز کون الامام عبدااجماعا۳؎۔حدیث کو اس معنی پر حمل کرنا واجب ہے کہ اجماع کے مخالف نہ پڑے، یایوں کہیں کہ وہ بروجہ مبالغہ بطور فرض ارشاد ہواہے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ امام کا غلام ہونا بالاجماع باطل ہے۔ (۳؎ شرح المواقف المرصدا لرابع فی الامامۃ منشورات الشریف الرضی، قم، ایران ۸/ ۳۵۰) ابن الجوزی نے تحقیق پھر امام بدر محمود عینی نے عمدۃ القاری، پھر حافظ عسقلانی نے شرح بخاری کتاب الصلوٰۃ میں فرمایا:ھذا فی الامراء والعمال لاالائمۃ والخلفاء فان الخلافۃ فی قریش لامدخل فیھا لغیرھم۔۴؎یہ حدیث سرداروں اور عاملوں کے بارے میں ہے نہ کہ خلفا میں کہ خلافت تو قریش میں ہے دوسروں کو اس میں دخل ہی نہیں۔ (۴؎عمدۃ القاری شرح البخاری باب امامۃ العبد والمولٰی قدیمی کتب خانہ کراچی ۵/ ۲۲۸) یہیں فتح الباری میں ہے:امر بطاعۃ العبد الحبشی والامامۃ العظمی انما تکون بالاستحقاق فی قریش فیکون غیرھم متغلبا۵؎۔حبشی غلام کی اطاعت کا حکم فرمایا اور خلافت تو صرف قریش کا حق ہے تو غیر قریشی متغلب ہوگا یعنی زبردستی امیر بن بیٹھنے والا۔ (۵؎ فتح الباری شرح البخاری باب امامۃ العبد والمولٰی مصطفی البابی مصر ۱۶/ ۲۳۹) عمدۃ القاری وفتح الباری کتاب الاحکام میں اسی حدیث کے نیچے ہے:ای جعل عاملا بان امرامارۃ عامۃ علی البلد مثلا او ولی فیھا ولایۃ خاصۃ کالامامۃ فی الصلٰوۃ اوجبایۃ الخراج او مباشرۃ الحرب فقد کان فی زمن الخلفاء الراشدین من تجمع لہ الامور الثلثۃ ومن یختص ببعضھا۔۱؎مراد یہ ہے کہ وہ عامل کیا جائے، یوں کہ خلیفہ غلام حبشی کو کسی شہر کا عام والی کردے یا کسی خاص منصب کی ولایت دے جیسے نماز کی امامت یا خراج کی تحصیل یا کسی لشکر کی سرداری، خلفائے راشدین کے زمانے میں یہ تینوں باتیں بعض میں جمع ہوجاتی تھیں اورکسی میں بعض۔ (۱؎ فتح الباری باب السمع والطاعۃ مصطفی البابی مصر ۱۶/ ۲۳۹) امام ابوسلیمٰن خطابی پھر امام عینی وامام عسقلانی علی قاری نے فرمایا:قدیضرب المثل بمالایقع فی الوجود وھذا من ذاک واطلق العبد الحبشی مبالغۃ فی الامر بالطاعۃ وان کان لایتصور شرعا ان یلی ذٰلک۲؎اھ بلفظ المرقاۃ قال الخطابی قدیضرب المثل بمالایکاد یصح فی الوجود۳؎۔یعنی کبھی ضرب مثل میں وہ بات کہی جاتی ہے جو واقع نہ ہوگی، یہ حدیث اسی قبیل سے ہے، حبشی کاذکر حکمِ اطاعت میں مبالغہ کے لئے فرمایااگرچہ حبشی غلام کا ولی بننا شرعًا متصور نہیں، مرقاۃ کے الفاظ یہ ہیں خطابی نے کہا کبھی مثل میں وہ بات کہی جاتی ہے جوواقع نہ ہوگی۔(ت) (۲؎ فتح الباری باب السمع والطاعۃ مصطفی البابی مصر ۱۶/ ۲۴۰) (۳؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح کتاب الامارۃ الفصل الاول مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۷/ ۲۴۶) اشعۃ اللمعات میں ہے:ذکر عبد برائے مبالغہ است بروتیرہ قول آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ہر کہ بناکند مسجدے اگرچہ مثل آشیانہ کنجشک و مرمسجد ہر گز مثل آشیانہ کنجشک نباشد لیکن مقصود مبالغہ است یا مراد نائب خلیفہ است۴؎۔ غلام کا ذکر بطور مبالغہ ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کے طور پر، جو مسجد بنائے اگرچہ چڑیا کے گھونسلے کی مثل ہو، حلانکہ مسجد ہرگز چڑیا کے گھونسلے کی مثل نہیں ہوتی، لیکن مقصود مبالغہ ہے یا خلیفہ کا کوئی نائب مراد ہے(ت) (۴؎ اشعۃ اللمعات کتاب الامارۃ الفصل الاول مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۳/ ۳۰۱) عمدۃ القاری و کواکب الدراری ومجمع البحار میں ہے:ھذافی الامراء والعمال دون الخلفاء لان الحبشی لایتولی الخلافۃ لان الائمۃ من قریش۱؎۔یہ حدیث سرداروں اور عاملوں میں ہے حبشی خلیفہ نہ ہوگا کہ خلفاء تو قریش سے ہیں (۱؎ عمدۃ القاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعۃ ادارۃ المنیریۃ دمشق ۲۳/ ۲۲۴) مہلب پھر ابن بطال پھر ابن حجر نے فتح میں کہا:قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اسمعوا واطیعوالایوجب ان یکون المستعمل للعبد الاامام قرشی لما تقدم ان الامامۃ لاتکون الافی قریش۲؎۔نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد کہ غلام کی اطاعت کرو اسی کو واجب کرتا ہے کہ غلام کو قریشی خلیفہ نے عامل بنایا ہو کہ خلافت تو نہیں مگر قریش میں۔ (۲؎ فتح الباری شرح البخاری باب السمع والطاعۃ مصطفی البابی مصر ۱۶/ ۳۴۰) فتح الباری وارشاد الساری و مرقاۃ قاری میں ہے:واللفظ لھا(وان استعمل علیکم عبد حبشی) ای وان استعملہ الامام الاعظم علی القوم لاان العبد الحبشی ھوالامام الاعظم فان الائمۃ من قریش۳؎۔اگرچہ تم پر غلام حبشی عامل کیا جائے یعنی اگرچہ خلیفہ کسی غلام کو عامل بنائے نہ یہ کہ خود غلام حبشی خلیفہ ہوکہ خلفاء تو قریش سے ہیں۔ (۳؎ مرقات المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح کتاب الامارۃ الفصل الاول مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۷/ ۲۴۶) مجمع البحار الانوار میں ہے: شرط الامام الحریۃ والقرشیۃ ولیس فی الحدیث انہ یکون امامابل یفوض الیہ الامام امرامن الامور۴؎۔ خلیفہ کےلئے شرط ہے کہ آزاد وقریشی ہو او رحدیث میں یہ نہیں کہ غلام خلیفہ ہو بلکہ یہ مراد کہ خلیفہ اسے کوئی کام سپرد کردے۔ (۴؎ مجمع بحار الانوار تحت لفظ جدع مکتبہ دارالایمان مدینہ منورہ ۱/ ۳۳۰) اقول(میں کہتا ہوں۔ت) بلکہ خود حدیث صحیح میں اس معنی کی تصریح صریح موجود جس کابیان فصل سوم میں آئے گا ان شاء اﷲ الغفور الودود۔ بالجملہ دربارہ خلافت ہر طبقے اور ہر مذہب کے علمائے اہلسنت ایسا ہی فرماتے آئے یہاں تک کہ اب دورِ آخر میں مولوی عبدالباری صاحب کے جد اعلٰی حضرت ملک العلماء بحر العلوم عبدالعلی لکھنوی فرنگی محلی رحمہ اﷲ تعالٰی نے شرح فقہ اکبر سید ناامام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ میں خلافتِ صدیقی پر اجماع قطعی کے منعقد ہونے میں فرمایا: باقی ماند کہ سعد بن عبادہ از بیعت متخلف ماند میگویم کہ سعد بن عبادہ امارات خود می خواست وایں مخالف نص ست چہ حضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرمودہ اند الائمۃ من قریش ائمہ از قریش اند پس مخالفت اودراجماع قدح ندارد چہ مخالفت مررائہاے صحابہ نبود بلکہ مخالفتِ اجماع واواعتبار ندارد۱؎۔ باقی رہایہ کہ سعد بن عبادہ نے بیعت نہ کی، تو ہم کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ اپنے لئے خلافت کے خواہشمند تھے ان کی یہ خواہش نص کے خلاف تھی کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے لہذا ان کی مخالفت اجماع پر اثر انداز نہیں ہے کیونکہ یہ محض صحابہ کرام کی رائے کی مخالفت نہ تھی بلکہ اجماع کی مخالفت تھی جس کا اعتبار نہیں ہے۔(ت) (۱؎ شرح الفقہ الاکبر لعبد العلی فرنگی محلی) پھر خلافت فاروقی پر انعقاد اجماع میں فرمایا:ہمہ صحابہ بر آں عمل کردند و بیعت حضرت امیرا لمومنین عمر کردند و دریں ہم کسے مخالفت نکرد سوائے سعد بن عبادہ لیکن مخالفت او مخالفت نص بود چہ امارت خود میخو است چنانچہ دانستی۲؎۔ تمام صحابہ نے اس حدیث پر عمل کیا اور امیر المومنین عمر فاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی بیعت کی ا س میں بھی سوائے سعد بن عبادہ کے کسی نے مخالفت نہ کی لیکن ان کی مخالفت نص کے خلاف تھی کیونکہ وہ اپنے لئے امارت کے خواہشمند تھے جیسا کہ آپ نے جان لیا۔(ت) (۲؎شرح الفقہ الاکبر لعبد العلی فرنگی محلی ) اب سب سے اخیر دور میں حضرت مولانا فضل (عہ) رسول صاحب مرحوم اپنی کتاب عقائد المعتقد المنتقد میں فرماتے ہیں:یشترط نسب قریش خلافا لکثیر من المعتزلۃ ولایشترط کونہ ھا شمیا خلافا للرافض۳؎۔خلیفہ کا قریشی النسب ہونا شرط ہے برخلاف بہت معتزلیوں کے، اور ہاشمی ہونا شرط نہیں برخلاف رافضیوں کے۔ عہ: بدایونی لیڈر عبدالماجد صاحب کے دادا کے دادا ۱۲ حشمت علی لکھنو عفی عنہ (۳؎ المعتقد المنتقد الباب الرابع فی الامامۃ مکتبہ حامدیہ لاہور ص۱۹۷) حضرت مولٰنا(عہ) عبدالقادر صاحب بدایونی مرحوم اپنے رسالہ عقائد احسن الکلام میں فرماتے ہیں:نعتقد انہ یجب علی المسلمین نصب امام من قریش۔۱؎ (۱؎ احسن الکلام ) ہم پر اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ مسلمانوں پر قریشی خلیفہ قائم کرنا فرض ہے۔ عہ: مذکور متلڈر بدایونی (ہداہ اﷲ تعالٰی) کے پردادا۱۲ حشمت علی قادر رضوی لکھنوی غفرلہ نوعِ دگراز کتب عقائد علامہ سعد الدین تفتازانی شرح عقائد میں فرماتے ہیں:فان قیل فعلی ماذکرمن ان مدۃ الخلافۃ ثلثون سنۃ یکون الزمان بعد الخلفاء الراشدین خالیا عن الامام فتعصی الامۃ کلھم، قلنا المراد بالخلافۃ الکاملۃ ولوسلم فلعل الخلافۃ تنقضی دون الامامۃ بناء علی ان الامامۃ اعم لکن ھذاالاصطلاح لم نجدہ من القوم واما بعد الخلفاء العباسیۃ فالامر مشکل ۲؎(ملخصاً)یعنی اگر کہا جائے کہ جب خلافت حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد تیس ہی برس رہی تو خلفائے راشدین رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے بعد زمانہ امام سے خالی رہا اورمعاذاﷲ تمام امت گنہگار ٹھہری کہ نصب امام امت پر واجب تھا تو ہم جواب دیں گے کہ وہ جو تیس برس پر ختم ہوگئی خلافت راشدہ کا ملہ تھی نہ کہ مطلق خلافت، اور اگر تسلیم بھی کرلیں تو شاید خلافت ختم ہوگئی امامت بعد کو رہی اور واجب نصب امام ہی تھا تو امت گنہگار نہ ہوئی یہ اس پر مبنی ہوگا کہ امامت خلافت سے عام ہے مگر ہم نے قوم سے یہ اصطلاح نہ پائی، بہرحال جب سے خلفائے عباسیہ نہ رہے امر مشکل ہے کہ اس وقت سے نہ کوئی امام ہے نہ کوئی خلیفہ، تو اعتراض نہ اٹھاانتہی(ملخصاً)۔ (۲؎ شرح العقائد النسفیہ دارالاشاعۃ قندھار، افغانستان ص۱۱۰ و ۱۱۱) اقول اولًا صحیح جواب اول ہے اور اشکال کا جواب خود علامہ کے کلام سے آتا ہے اس وقت نظر اس پر نہ کہی تھی۔ ثانیاً امامت بیشک عام ہے جس کا بیان ہم کرینگے ان شاء اﷲ۔ نیز علامہ موصوف شرح مقاصد میں اسی اعتراض کو ذکر کرکے بہت صحیح وواضح جواب سے دفع فرماتے ہیں:فان قیل لووجب نصب الامام لزم اطباق الامۃ فی اکثر الاعصار علی ترک الواجب لانتفاء الامام المتصف بمایجب من الصفات سیما بعد انقضاء الدولۃ العباسیۃ قلنا انما یلزم الضلالۃ لوترکوہ عن قدرۃ واختیار لاعجز واضطرار۱؎۔اگر کہا جائے کہ نصب امام واجب ہوتا تو اکثر زمانوں میں ترک واجب پر امت کا اتفاق لازم آتا ہے کہ امام کے لئے جو صفات لازم ہیں ایسا مدت سے نہیں خصوصاً جب سے دولتِ عباسیہ نہ رہی خلافت کانام نشان تک نہ رہا اور ایسا ترک واجب گمراہی ہے اور گمراہی پر امت کا اتفاق محال،تو ہم جواب دیں گے کہ گمراہی توجب ہوتی کہ ان کے بعد امت نصب امام پر قادر ہوتی اور قصدًا ترک کرتی، عجز و مجبوری کی حالت میں کیا الزام ہو۔ (۱؎ شرح المقاصد الفصل الرابع فی الامامۃ المبحث الاول فی نصب الامام دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۲/ ۲۷۵) یہی مضمون مولوی علی الخیالی میں ہے حدیث عجز واضطرار بیان کرکے کہا:وبھذا الحدیث یندفع الاشکال بعدالخلفاء الراشدین والعباسیۃ ایضًا۲؎۔یعنی خلفائے عباسیہ کے بعد تمام عالم سے خلافت ضرور مفقود ہے مگر امت پر الزام نہیں آتا کہ عذر مجبوری موجود ہے۔ (۲؎ مولوی علی الخیالی مطبع ہندوپریس دہلی ص۲۵۷) شرح عقائد امام نسفی پھر تعلیقات المسایرۃ للعلامۃ قاسم الحنفی تلمیذ الامام ابن الہمام رحمہم اﷲ تعالٰی میں ضرورت خلیفہ بتائی کہ دین و دنیا کے اِن ان کاموں کے انتظام کو اس کا ہونا ضرور ہے پھر فرمایا:فان قیل فلیکتف بذی شوکۃ لہ الریاسۃ العامۃ اماماکان او غیر امام فان انتظام الامر یحصل بذٰلک کما فی عھد الاتراک قلنا نعم یحصل بعض النظام فی امرالدنیا ولکن یختل امرالدین وھو المقصود الاھم۳؎۔یعنی اگر کوئی کہے کہ انتظام ہی کی ضرورت ہے تو ایک عام ریاست والے پر کیوں نہ قناعت ہوجائے وہ خلیفہ ہو یا نہ ہو کہ انتظام اس سے بھی حاصل ہوجائیگا جیسے سلطنت ترکی سے کہ خلافت نہیں اور انتظام کررہی ہے پھر خلیفہ کی کیا ضرورت، تو ہم جواب دینگے ہاں ایسی سلطنتوں سے دنیاوی کاموں کا کچھ انتظام چل جائے گا مگر دینی کاموں میں خلل آئے گا وہ بے خلیفہ نہ بنیں گے اور دین ہی مقصود اعظم ہے۔ (۳؎ شرح العقائد النسفیہ دارالاشاعت قندھار افغانستان ص۱۱۰) لہذاترکی سلطنت یا اور بادشاہیاں کافی نہیں خلیفہ کی ضرورت ہے، کیاان سے بھی صاف نص کی حاجت ہے وﷲ الحجۃ البالغۃ۔ تنبیہ: اسی نوع سے ہے وہ حدیث کہ صدر کلام میں امام خاتم الحفّاظ سے گزری کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ خلافت جب بنی عباس کو پہنچے گی ظہور مہدی تک اور کو نہ ملے گی۔ ظاہر ہو اکہ۱۳۳۱ھ سے آج تک اور آج سے ظہور حضرت امام مہدی تک کوئی غیر عباسی خلیفہ نہ ہوا ہے نہ ہوگا جو دوسرے کو خلیفہ مانے حدیث کی تکذیب کرتا ہے یہ حدیث اپنے طرق عدیدہ سے حسن ہے اسے طبرانی نے معجم کبیر میں ام المومنین ام سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے روایت کیا، اور دیلمی نے مسند الفردوس میں انہیں سے بسندِ دیگر اور دارقطنی نے افراد میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے مرفوعاً اور خطیب نے بسندِ خلفاء حضرت حبرالامۃ سے موقوفاً اور حاکم نے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے، حدیث طبرانی کے لفظ یہ ہیں:لکنھا فی ولد عمی صنوابی حتی یسلموھا الی الدجال۔۱؎ہاں خلافت میرے چچا میرے باپ کی جگہ عباس کی اولاد میں ہے یہاں تک کہ اسے سپرد دجال کرینگے۔ (۱؎ المعجم الکبیر حدیث۱۰۱۶ مروی از ام سلمہ رضی اﷲ عنہا مکتبہ فیصلیہ بیروت ۲۳/ ۴۲۰) اور حدیث ابن مسعود میں ہے:لاتذھب الایام واللیالی حتی یملک رجل من اھل بیتی یواطی اسمہ اسمی واسم ابیہ اسم ابی فیملؤھا قسطا وعد لاکماملئت جوراوظلما۲؎۔شب وروز گزرنے کے بعد وہ خلافت کو میرے اہلبیت سے ایک مرد کے سپرد کریں گے جس کا نام میرا نام ہوگااور اس کے باپ کانام میرے باپ کا نام، وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جس طرح ظلم و ستم سے بھر گئی تھی یعنی حضرت امام مہدی رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔ (۲؎ المستدرک للحاکم کتاب الفتن والملاحم دارالفکر بیروت ۴/ ۴۴۲) امام خاتم الحفاظ نے اس حدیث سے استناد اور اس پر اعتماد کیا کما تقدم(جیسا کہ پیچھے گزرا۔ت) یہ ہیں تقریبًا پچاس حدیثیں اور کتب عقائد و تفسیر وحدیث و فقہ کی بانوے عبارتیں۔ سنی بانصاف کو اسی قدر کافی ووافی ہیں۔ وﷲ الحمد والحمد ﷲ رب العٰلمین وصلی اﷲ تعالٰی علٰی سیدنا ومولٰنا محمد واٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ اجمعین۔ (فتاوا رضویہ جلد 14)
  12. وعلیکم السلام is Post ka reference : Daily Nai Baat 06-05-2013 http://www.naibaat.com.pk/ePaper/peshawar/06-05-2013/details.aspx?id=p1_06.jpg
  13. نجدی فضل الرحمان نے منافقت کی حد کردی
  14. Najam Mirani

    داڑھی مُنڈے کی 30 شامتیں

    فتاوٰی رضویہ جلد 22میں داڑھی منڈانے اور ایک مُٹھی سے گھٹانے کی مذمَّت میں ’’لَمْعَۃُ الضُّحٰی فِی اِعفَاءِ اللُّحٰی‘‘ نامی ایک رِسالہ ہے اور اُس رسالے کے اِختِتام پر یعنی فتاوٰی رضویہ جلد 22صَفْحَہ 675تا676 پر داڑھی مُنڈانے اور ایک مُٹّھی سے گھٹانے والوں کے مُتَعلِّق قراٰن و حدیث کی روشنی میں 30سزاؤں،وَعیدوں اور مَذَمَّتوں کی فہرس دَرج فرمائی ہےبخوفِ طَوالت حوالے حَذف کر دیئے ہیں،جنہیں دیکھناہو وہ وہیں سے دیکھ لیں)*داڑھی منڈانے والے اللہ و رسول کے نافرمان ہیں جَلَّ جَلا لُہٗ وَ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم * شیطانِ لعین کے محکوم(یعنی ماتَحت)ہیں * سخت احمق ہیں *اللہ(عزوجل)ان سے بیزار ہے* صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم بیزار ہیں * رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو ایسی صورت دیکھنے سے کَراہَت آتی ہے * یہودی صورت ہیں * نصرانی وَضع ہیں فرنگیوں سے مُشابہ(یعنی مِلتے جُلتے)ہیں * مجوس(آتش پرستوں)کے پَیرو(یعنی نقشِ قدم پر)ہیں * ہندوؤں کی صورت،مشرِکین کی سیرت ہیں * مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے گُرَوہ سے نہیں * اُنھیں(اُن ہی)اپنے ہم صورَتوں نصاریٰ ویہود ومَجُوس وہُنُودکے گُروہ سے ہیں * واجِبُ التَّعزیر(یعنی لائقِ سزا)ہیں شہر بَدَر کرنے کے قابِل ہیں * مُبَدِّلِینِ فِطرت(یعنی فِطرت بدلنے والے)ہیں مغَیِّرِخَلقِ اللّٰہ(یعنی اللہ کے بنائے ہوئے کو بگاڑنے والے)ہیں * زَنانے مُخَنَّث(یعنی ہیجڑے)ہیں *خدا کے عَہد شِکَن(وعدہ خلاف)ہیں * ذلیل وخوار ہیں *گھِنَونے قابلِ نفرت ہیں * مردودُ الشَّہادۃ(یعنی گواہی کیلئے نالائق)ہیں * پورے اسلام میں داخِل نہ ہوئے * ہَلاکت میں ہیں،مستحقِ بربادی ہیں * دین میں بے بَہرہ(محروم)آخِرت میں بے نصیب ہیں * عذابِ الٰہی کے منتظر* اللہ عزوجل کو سخت دشمن ومَبغُوض ہیں * صبح ہیں تو اللہ عزوجل کے غَضَب میں،شام ہیں تو اللہ کے غَضَب میں * قِیامت کے دن ان کی صورَتیں بگاڑی جائیں گی * اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے ملعون ہیں،دُنیا وآخِرت میں ملعون(لعنت کئے گئے)ہیں،الہ وملائکہ وبَشَر(انسان)سب کی اُن پر لعنت ہے،فِرِشتوں نے ان کے لعنتی ہو نے پر اٰمین کہی * اللہ تعالیٰ ان پرنَظَرِ رَحمت نہ فرمائے گا خوہ بہشت(یعنی جنَّت)میں نہ جائیں گی* اللہ عزوجل انھیں جہنَّم میں ڈالے گا۔وَالعِیاذُ بِاللّٰہِ تعالٰی(یعنی اور(اس سے)اللہ تعالیٰ کی پناہ) مکرِشیطاں میں مت آؤ بھائیو! رخ پہ تم داڑھی سجاؤ بھائیو! چھوڑو فیشن مان جاؤ بھائیو! خود کو دوزخ سے بچاؤ بھائیو! بالیقیں دنیا بڑی ہے بیوفا اِس سے تم مت دل لگاؤ بھائیو!
  15. میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہوش سنبھالنے کے بعد تقریبًا ہر مسلمان لوحِ محفوظ کانام سُن لیتا ہے لیکن سب کو لوحِ محفوظ کے بارے میں معلومات بھی ہوں یہ ضروری نہیں،آیئے! معلوم کرتے ہیں کہ لوحِ محفوظ کیا ہے۔لوحِ محفوظ کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ پارہ 30سورۃ البروج آیت نمبر 21اور22میں ارشاد فرماتا ہے: بَلْ ہُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیۡدٌ ﴿ۙ۲۱﴾ فِیۡ لَوْحٍ مَّحْفُوۡظٍ ﴿٪۲۲﴾ ترجَمۂ کنز الایمان:بلکہ وہ کمال شَرَف والاقراٰن ہے لَوحِ مَحفوظ میں۔ حضرتِ علّامہ محمد بن احمد انصاری قُرطبی علیہ رحمۃ اللہ القوی تفسیرِ قُرطُبی جلد10صَفْحَہ 210پر ان آیات کے تحت لکھتے ہیں:یعنی قراٰنِ کریم ایک لَوح میں لکھا گیا ہے جو شیاطین کی پہنچ سے دُور،اللہ عزوجل کے پاس محفوظ ہے۔عُلَماءکرام رحمھم اللہ السلام لکھتے ہیں:لوحِ محفوظ میں مخلوق کی تمام اَقسام اور ان کے مُتَعلِّق تمام اُمورمَثَلًا موت،رزق،اعمال اور اس کے نتائج اوران پر نافِذ ہونے والے فیصلوں کابیان ہے۔ (تفسیرقُرطُبی ج۱۰ص۲۱۰) لوحِ محفوظ کہا ں ہے؟ حضرتِ سیِّدُنامُقاتِل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:لوح محفوظ عرش کی دائیں(یعنی سیدھی)جانب ہے۔ (تفسیرقرطبی ج۱۰ص۲۱۰) لوحِ محفوظ سفید موتی سے بنی ہے حضرتِ سیِّدُنا ابنِ عبّاس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ عزوجل کے مَحبوب،دانائے غُیوب،مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لوحِ محفوظ سفید موتی سے بنی ہے،اس کا قلم نور اورکِتابت(یعنی لکھائی)بھی نور ہے۔ (ماخوذ ازحِلْیَۃُ الْاولیاء ج۴ص۳۳۸ رقم ۵۷۶۷) سب سے پہلے لوحِ محفوظ میں کیا لکھا گیا؟ حضرتِ سیِّدُنا ابنِ عبّاس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا:اللہ عزوجل نے سب سے پہلی چیز لَوحِ محفوظ میں یہ لکھی کہ میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی عبادت کا مستِحق نہیں!محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم) میرے رسول ہیں۔جس نے میرے فیصلے کوتسلیم کرلیااور میری نازل کی ہوئی مصیبت پر صبر کیا اور میری نعمتوں کا شکر ادا کیا تو میں نے اس کو صِدّیق لکھا ہے اور اس کوصِدّیقین کے ساتھ اٹھا ؤں گا اور جس نے میرے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور میری نازِل کی ہوئی مصیبت پر صَبْرنہیں کیا اور میری نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا وہ میرے سواجسے چاہے اپنامعبود بنالے۔ (تفسیرقرطبی ج۱۰ص۲۱۰) قِیامت تک ہونے والی ہر بات لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہے حضرتِ سیِّدُنا ابنِ عبّاس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا:اللہ عزوجل نے لوح محفوظ کو پیدا فرمایا،اس کی لمبائی ایک سو سال کی مَسافت(فاصلہ۔دُوری) تھی پھر اس نے مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے قلم کو فرمایاتُو میری مخلوق کے بارے میں میراعِلم لکھ دے پس اُس نے قِیامت تک ہونے والا سب کچھ لکھ دیا۔ (العظمۃ لابی الشیخ ص۸۶رقم ۲۲۳)
  16. وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا فریضہ ضرورادا کرتے رہو ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر ایسا ظالم بادشاہ مسلط فرمادے گا جو نہ تمہارے بڑوں کی عزت کرے گا نہ چھوٹوں پررحم کرے گا ۔ اس وقت تمہارے بزرگوں کی دعا بھی قبول نہیں کی جائے گی ۔ وہ مدد چاہیں گے لیکن بے سود، استغفار کریں گے لیکن بے فائدہ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم بخدا ! ضرور بالضرور تم امر بالمعروف اورنہی عن المنکر پر کاربند رہو۔ورنہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایسے عذاب میں مبتلا کرے گا کہ تم دعا مانگو گے تو اسے قبولیت حاصل نہ ہوگی۔ (جامع الترمذی رقم الحدیث ۲۱۶۹، مسند اما م احمد رقم الحدیث ۲۲۲۱۲) (حدیث پاک میں ہے)اگر مسلمانوں نے تبلیغ چھوڑ دی تو اُن پر ظالم بادشاہ مُسَلَّط ہوں گے،اور اُن کی دعائیں قَبول نہ ہوں گی۔ (رُوحْ الْمَعانی ج۴ص۳۲۶)
  17. (378)Syed Hashmi Miyan Views About Madani Channel , Ameer-e-Ahle Sunnat & Dawat-e-Islami http://www.metacafe.com/watch/10436897/378_syed_hashmi_miyan_views_about_madani_channel/ (379)Haji Muhammad Hanif Tayyab Views about Madani Channel, Ameer-e-Ahlesunnat and Dawateislami http://www.metacafe.com/watch/10436900/379_haji_muhammad_hanif_tayyab_views_about_madani_channel/ (380)Hazrat Allama Ahmad Ali Qusuri Views about Madani Channel, Ameer-e-Ahlesunnat and Dawateislami http://www.metacafe.com/watch/10436923/380_hazrat_allama_ahmad_ali_qusuri_views_about_madani_channel/
  18. Ghatain Gham ki Chhain Dil Pareshan یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (Complete Naat ) http://www.metacafe.com/watch/10436973/ghatain_gham_ki_chain_dil_prshan/
  19. خلیفہ اول جانشین پیغمبرامیرالمؤمنین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام نامی ''عبداللہ ''''ابو بکر'' آ پ کی کنیت اور''صدیق وعتیق''آپ کا لقب ہے۔ آپ قریشی ہیں اورساتویں پشت میں آپ کا شجرہ نسب رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے خاندانی شجرہ سے مل جاتاہے ۔ آپ عام الفیل کے ڈھائی برس بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ اس قدر جامع الکمالات اورمجمع الفضائل ہیں کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد تمام اگلے اور پچھلے انسانوں میں سب سے افضل واعلیٰ ہیں ۔ آزادمردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا اورسفرو وطن کے تمام مشاہدو اسلامی جہادوں میں مجاہدانہ کارناموں کے ساتھ شامل ہوئے اورصلح وجنگ کے تمام فیصلوں میں آپ شہنشاہ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے وزیر ومشیر بن کر مراحلِ نبوت کے ہر ہر موڑ پر آپ کے رفیق وجاں نثار رہے ۔ دو برس تین ماہ گیارہ دن مسند خلافت پر رونق افروز رہ کر ۲۲جمادی الاخریٰ ۱۳ھ ؁منگل کی رات وفات پائی ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور روضہ منورہ میں حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے پہلو ئے مقدس میں دفن ہوئے ۔ (اکمال وتاریخ الخلفاء )
  20. وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ اِنا ِللہ واِنا اِلیہ راجعون اللہ عزوجل علامہ خرم رضا قادری عطاری کی مغفرت فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پڑوس نصیب فرمائے اوراللہ عزوجل ان کے اہل و عیال کوصبر و جمیل عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  21. (374)Shaikh-ul-Hadees Jamia Hajvaria Mufti Muhammad Siddique Hazarvi Views about Madani Channel ,Ameer-e-Ahlesunnat and Dawateislami http://www.metacafe.com/watch/10420008/374_mufti_muhammad_siddique_hazarvi_views_about_madani_channel/ 375)Shaikh-ul-Islam Pir Syed Mahroof Hussain Shah Naushahi Qadri Views About Madani Channel http://www.metacafe.com/watch/10420054/375_syed_mahroof_hussain_naushahi_views_about_madani_channel/ (376)Shazada-e-Khatib-e-azam Pakistan Hazrat Molana Dr. Kokab Norani Views about Madani Chanel ,Ameer-e-Ahlesunnat and Dawateislami http://www.metacafe.com/watch/10429779/376_hazrat_molana_dr_kokab_noorani_views_about_madani_channel/ (377)Shazada-e-Sadrush Shariah Molana Qari Raza ul Mustafa Aazami Views About Madani Channel ,Ameer-e-Ahlesunnat and Dawateislami http://www.metacafe.com/watch/10429808/377_molana_qari_raza_ul_mustafa_aazami_views_about_madani_chanel/
  22. (371)KHALEEFA-E-MUFTI AZAM HIND MUFTI MAHMOOD MIYAN VIEWS ABOUT DAWATEISLAMI & MADANI CHANNEL http://www.metacafe.com/watch/10412097/371_mufti_mahmood_miyan_views_about_madani_channel/ (372)Nabeera-e-Alahazat Hazrat Molana Mannan Raza Khan Mannani Views about Madani Chanel , Ameer-e-Ahlesunnat and Dawateislami http://www.metacafe.com/watch/10419703/372_hazrat_molana_mannan_raza_khan_views_about_madani_channel/ (373)Shaikh-ul-Hadees Darul uloom Nizamia Rizvia Molana Abdul Tawwab Siddiqui Views about Madani Channel , Ameer-e-Ahlesunnat and Dawateislami http://www.metacafe.com/watch/10419750/373_molana_abdul_tawwab_siddiqui_views_about_madani_channel/
  23. Buton/Kufaar Par Nazil Hone Wali Ayat Musalmano Per Chaspa Kerna Kharjiyon Ka Kaam Hai No. 32 mulaahiza karein...
  24. دیو بندی اب فیس بک پر اپنے ایک پیج پر امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ اور اویس قادری کا فوٹو لگا کر عوام اہل ِسنت سے دھوکے سے چندہ مانگ رہے ہیں ۔ دیو بندیوں کو ایسی حرکت کرتے ہوئے شرم آنی چاہیئے ۔
  25. Shirk ki Tareef aur WazaahatTauheed ki Meaning: ALLAH TA'ALA ki Zaat-e-paak ko uski zaat o siffaat main shareek se Paak maanna, Yaani jesa ALLAH TA'ALA hai, wesa hum kisi ko ALLAH TA'ALA na maanen, agar koiALLAH TA'ALA k hote huwe, kisi dusre ko ALLAH TA'ALA Tassawwur karta hai, to woh Zaat-e-Bari TA'ALA main Shirk karta hai.. SHIRK kisay kehte hain: ALLAMA Taftaazaani (Rehmatullah) apni kitaab Sharah Aqaid-e-Nasfiyah main Shirk ki Taareef is tarah farmate hain, "Kisi ko Shareek therane se murad yeh hai k, Majoosiyon ki tarah kisi ko Khuda aur Waajib ul Wajood samjha jae, ya But Paraston ki tarah kisi ko ALLAH k siwa Ibadat k laek samjha hae" SHIRK ki taareef se maaloom huwa k 2 Khudaon k Maanne waale jese, Majoosi (AAG PARAST), mushrik hain, isi tarah ALLAH k siwae Ibadat k laek samajhne waala Mushrik hoga.. E.g Jese But Parast jo Buton ko mustahik-E-ibadat samajhte hain.. SHIRK ki QISMEN (types or Kinds): Shirk ki 3 qismen (types or kinds) hain, 1) Shirk-FiL-IBADAT 2) Shirk-Fiz-ZAAT 3) Shirk-Fis-SIFFAAT 1) Shirk-FiL-IBADAT: Is se murad hai, k ALLAH TA'ALA k ilawa kisi aur zaat ko Ibadat k Laek samjha jae.. 2) Shirk-Fiz-ZAAT: Is se murad hai k kisi zaat ko ALLAH TA'ALA jesa maanna, jesa k Majoosi 2 khuda ko maante the.. 3) Shirk-Fis-SIFFAAT: Kisi Zaat o shakhsiyat wagera main ALLAH TA'ALA jesi Siffaat maanna (ALLAH TA'ALA ki Ata k bager), SHIRK-FIS-SIFFAAT kehlata hai.. SHETAAN SHIRK-FIS-SIFFAT ki haqeeqt ko samajhne se rokta hai, aur yahaan Ummat main wiswisay peda karta hai.. ab main aap ko QURA'AN ki Aayat k zariye SHIRK-FIS-SIFFAAT samjhata hun.. Gor se parhiya ga 1) * ALLAH TA'ALA RAOUF AUR RAHEEM HAI: Tarjuma: "Beshak ALLAH TA'ALA Logon par RAOUF AUR RAHEEM hai". (Surah Bakara, Aayat 143) * SARKAR (ALEH SALAAM) Bhi RAOUF Aur RAHEEM hain: Tarjuma: "Beshak tumhare pas tashreef lae, tum main se woh Rasool jin par tumhara Mushkat parna, Giraan(bhari) hai, tumhari Bhalai k nihayat chahne waale, Mominon par RAOUF AUR RAHEEM hain". (Surah Toba, Ayat 128, Para 10) NOTE: Pehli Aayat par Gor karen to sawaal peda hota hai k RAOUUF aur RAHEEM,ALLAH TA'ALA ki Siffat hain, phir Dusri Aayat main Huzoor (Aleh Salaam) ko RAOUFaur RAHEEM farmaya gaya, to kiya yeh SHIRK hogaya???? Is main Tatbee yun Qaem hogi, k ALLAH TA'ALA haqeeqi tor par RAOUF aur RAHEEMhai, jab k Huzoor (Aleh Salaam), ALLAH TA'ALA ki Ata se RAOUF aur RAHEEM hain, Lihaza jahaan Zaati aur Ataai ka Faraq waazeh hojae, wahaan SHIRK ka Hukum nahin lagta. 2) * ILM-E-GAIB, ALLAH TA'ALA K SIWA KISI K PASS NAHIN: Tarjuma: "Tum farmao ALLAH k siwa Gaib nahin jante, jo koi Aasmanon aur zameenon main hai". (Surah Namal, Aayat 65, Parah 20) * RASOOLON KO BHI ILM-E-GAIB ATA KIYA GAYA: Tarjuma: "Gaib ka jaanne wala, apne Gaib par sirf apne Pasandeeda RASOOLON hi ko Aagah farmata hai, har kisi ko Yeh ILM nahin deta". (Surah JIN, Aayat 26/27, Parah 29) NOTE: Pehli Aayat se saabit huwa k ILM-E-GAIB ALLAH TA'ALA ki Siffat hai, magar Dusri Aayat se maaloom huwa k ILM-E-GAIB, ALLAH TA'ALA ne apne pasandeedaRASOOLON ko bhi Ata kiya hai, to kiya yeh SHIRK hogaya?? Is ki Tatbee yun Qaem hogi k ALLAH TA'ALA ZAATI tor par AALIM-E-GAIB hai, jab kALLAH TA'ALA k tamaam RASOOLON ko ALLAH TA'ALA ki Ata se ILM-E-GAIB par Aagahi haasil hai, Lihaza jahaan ZAATI aur ATAAI ka faraq waazeh hojae, wahaanSHIRK ka hukum nahin lagta. 3) * MADADGAAR SIRF ALLAH TA'ALA HAI: Tarjuma: "Yeh is liya k Musalmaanon ka madadgaar ALLAH hai" (Surah Muhammad, Aayat 11, Parah 26) * JIBRAEL (ALEH SALAAM) AUR OLIYA-E-KARAM BHI MADADGAAR HAIN: Tarjuma: "Beshak ALLAH un ka madadgaar hai, aur Jibrael, aur Naik Momineen madadgaar hain". (Surah Tehreem, Aayat 4, Parah 28) NOTE: Pehli Aayat par Gor karen to yeh Sawaal peda hoga, k Madad karna ALLAH TA'ALA ki siffat hai, phir dusri Aayat main Hazrat Jibrael (Aleh Salaam) aur Oliya-E-Karam ko madadgaar farmaya, to kiya yeh SHIRK huwa??? Is main Tatbee yun Qaem hogi, k ALLAH Haqeeqi madadgaar hai, Aur Jibrael (Aleh Salaam), aur Oliya-E-Karam, ALLAH TA'ALA ki Ata se madadgaar hain, jo Zaat-E-Baari TA'ALA Ata farma rahi hai, us main aur jis ko Ata kiya ja raha hai, un Hazraat main barabri ka Tassawwur bhi nahin kiya jasakta, aur jab barabri nahin to SHIRK kahaan se hoga?? 4) * Bager ALLAH TA'ALA ki Ijazat k kon hai jo SHAFA'AT Kare: Tarjuma: "Kon hai jo Shafa'at kare bager Izn-E-KUDAWANDI k". (Suarh Bakarah, AaytalKursi, Parah 3) * HAZRAT EESAA (Aleh Salaam) ka ALLAH TA'ALA k hukum se Shifa dena: Tarjuma: "Aur main Acha karta hun Andhay aur Korhi ko, aur Murday zinda karta hun, ALLAH k hukum se". (Surah Al-Imran, Aayat 49, Para 3) NOTE: Pehli Aayat se maaloom huwa k Bager ALLAH TA'ALA ki Ata k kisi k liye Shafa'at ka Aqeedah rakhna SHIRK hai magar ALLAH TA'ALA ki Ata se Shifa'at ka Aqeedah rakhna "TAUHEED" hai, isi tarah dusri Aayat se maaloom huwa, k murdon ko chalana, shifa dena, yeh ALLAH TA'ALA ki Siffaat hain, magar ALLAH TA'ALA kisi ko ata karden, to ALLAH k khazane main koi kami nahin, Lihaza Ahle-ALLAH k muta'alliq yeh Aqeedah rakhna k woh ALLAH TA'ALA ki Ata se murdon ko chala sakte hain, yeh SHIRK nahin hai, Q k ZAATI aur Ataai kaam baraabar nahin hosakte, aur jab Baraabari nahin to SHIRK b na huwa. Aur ALHAMDULILLAH, AHL-E-SUNNAT (BARELVI, AHL-E-HAQ) ka bhi yahi Aqeedah hai. 5) * ALLAH TA'ALA jise Chahe Aulaad de: Tarjuma: " ALLAH jise chahay Betiyan Ata farmae, aur Jise chahay Betay de". (Surah Shooraa, Aayat 49, Parah 25) * HAZRAT JIBRAEL (Aleh Salaam) ne kaha main tujhe Beta dun: Tarjuma: "(Hazrat Jibrael (Aleh Salaam) ne BIBI MARYUM se kaha) Kaha main tere RAB ka Bheja huwa hun, Taa k main tjhe ek Suthra Beta dun" (Surah Mariyum, Aayat 19, Parah 16) NOTE: Pehli Aayat main hai, k Aulaad sirf ALLAH TA'ALA Ata farmata hai, magar is k Bar'aqs HAZRAT JIBRAEL (Aleh SALAAM), Hazrat Mariyum se farmate hain, k main tujhe ek suthra beta dun, to kiya yeh SHIRK hogaya??? Is main Tatbee yun Qaem hogi, K ALLAH TA'ALA khud Aulaad Ata farmata hai, aur JIBRAEL (Aleh Salaam), ALLAH TA'ALA ki Ata se BIBI MARIYUM ko Beta de Rahe hain, Lihaza in Aayat main Barabri ka koi Pehlu nahin, Q k ZAATI aur ATAAI barabar nahin hosakte, Jab barabri nahin paai gai, to SHIRK b na huwa. 6) * ALLAH TA'ALA Mout deta hai: Tarjuma: " ALLAH jaanon ko Mout deta hai". (Surah Zamr, Aayat 42, Parah 24) * Tumhen MOUT deta hai, MOUT ka farishta: Tarjuma: "Tum farmao, tumhen WAFAAT deta hai MOUT ka FARISHTA, jo tum par Muqarrar hai". (Surah Sajda, Aayat 11, Parah 21) NOTE: Pehli Aayat main hai k, ALAH TA'ALA, MOUT deta hai, magar is k Bar'Aqs, Dusri Aayat main hai k, Tumhen MOUT ka Farishta MOUT deta hai, to Kiya yeh SHIRK hogaya???? Is main Tatbee yun Qaem hogi k ALLAH TA'ALA, MOUT dene main kisi ka Mohtaaj nahin, magar Malakul MOUT (Farishtay) ROOH Qabz karne main ALLAH k hukum k mohtaaj hain, Lihaza Is main Bhi Barabari nahin Paai gai, to jab Barabari nahin, Is liye SHIRK b na huwa. 7) * ALLAH TA'ALA Zinda hai: Tarjuma: "ALLAH hai jis k siwa kisi ki Puja nahin ki jaati, Aap Zindah, Auronka Qaem rakhne Waale" (Aaytal Kursi) * Banday bhi Zinda hain: ALLAH TA'ALA ki Hayaat (zinda hone par) par to hum sab ka Eemaan hai, aur jin logon ko ALLAH TA'ALA ne Siffat-e-Hayaat di hai, woh sab is Siffat k Haamil hain, Pas hum ne apne liye bhi Hayaat ki Sifat ko Jaana, aur ALLAH TA'ALA k Liye bhi Sifat-e-Hayaat ko maana, is ki wajah yeh hai k jo Hayaat hum ALLAH TA'ALA k Liye maante hain, woh Hayaat na hum apne liye maante hain, aur na kisi aur k liye, Q k ALLAH TA'ALA humen Zindagi dene waala hai, ALLAH TA'ALA ko koi Hayaat dene waala nahin, Hamari Hayaat (Zindagi) Aarzi hai aur ALLAH TA'ALA ki Ata karda hai aur Mehdood aur Faani (Khatam hone waali) hai, Jab k ALLAH TA'ALA ki Hayaat (Zindagi) Aarzi nahin, Ataai nahin, aur Mehdood bhi nahin, ALLAH TA'ALA to Lazawaal, Baaqi aur Hamesha rehne waala hai, jab k Hum Faani hain. Lihaza hamari Hayaat aur ALLAH TA'ALA ki Hayaat barabar nahin, Jab barabri Nahin huwi, to Shirk bhi na huwa.. 8) * ALLAH TA'ALA sunta, dekhta hai: Tarjuma: "Aur is liye k ALLAH sunta dekhta hai". (Surah Haj, Aayat 61, Parah 17) * Banday bhi Suntay aur Dekhte hain: ALLAH TA'ALA sunne aur dekhne waala yaani Sami o Baseer hai, aur farmata hai, k hum ne Insaan ko bhi Sami O Baseer banaya, Haalaankay Sami O Baseer hona to ALLAH TA'ALA ki Sifat hai, ALLAH TA'ALA bhi Sami O Baseer, aur Insaan bhi Sami O Baseer, To kiya yeh SHIRK huwa?? ALLAH TA'ALA ki Siffat Sami O Baseer us ki zaati sifat hai, aur hamara sunna aur dekhna, ALLAH TA'ALA ki Ata se hai, Lihaza jahaan ZAATI aur ATAAI ka Faraq waazih hojae, wahaan SHIRK nahin hosakta.. Mene aap ko 8 alag alag tarah ki misalon, (EXAMPLES) se samjhaya k JIS BAAT main ZAATI aur ATAAI ki baat aajae, wahaan SHIRK nahin hota. aesi Be hisaab misalen (EXAMPLES) aur b hain, par woh baad k topicx main clear hongi.. JAZAK ALLAH ab kuch aur baaten b sunlen, jin ko BAD AQEEDAH, SHIRK kehte hain, par woh SHIRK nahin hain. 1) ALLAH TA'ALA ka ILM-E-GAIB, ZAATI hai PAR HUZOOR (ALEH SALAAM) ka ILM-E-GAIB, ATAAI.. 2) ALLAH TA'ALA ka NOOR, ZAATI hai PAR HUZOOR (ALEH SALAAM) ki NOORANIYAT, AATAI hai. 3) ALLAH TA'ALA, HAQEEQI MADADGAAR hai PAR AMBIYA KARAM, aur OLIYA KARAM, ALLAH TA'ALA ki Ata se MADADGAAR hain. 4) ALLAH TA'ALA, HAQEEQI RAOUF O RAHEEM hai PAR HUZOOR (ALEH SALAAM), ALLAH TA'ALA ki Ata se RAOUF O RAHEEM hain. 5) ALLAH TA'ALA, HAQEEQI MUKHTAR E KUL hai PAR HUZOOR (ALEH SALAAM), ALLAH TA'ALA ki Ata se MUKHTAR E KUL hain. 6) ALLAH TA'ALA, ZAATI tor par ZINDAH hain. PAR HUZOOR (Sallalaho Alehe Wasallam), AMBIYA (Aleh Salaam) aur OLIYA KARAM, ALLAH ki Ata se Baad Az Wisaal ZINDAH hain. 7) ALLAH TA'ALA, Bazzat-e-khud, Murdon ko ZINDAH Karta hai. PAR AMBIYA KARAAM, OLIYA KARAAM, ALLAH TA'ALA ki Ata se Murdon ko ZINDAH karte hain.. 8) MUSHRIKEEN BUTON ko ALLAH TA'ALA ki Ata k bager Sahib-E-EKHTIYAR maante the. PAR Hum AMBIYA KARAAM, aur OLIYA KARAAM ko ALLAH TA'ALA ki Ata se Sahib-E-Ekhtiyar maante hain. 9) MUSRIKEEN, Buton ko Apna MA'ABOOD, maante The. PAR Hum ALLAH TA'ALA hi ko MA'ABOOD maante hain, aur ALLAH k Naik Bandon ko, ALLAH TA'ALA k KHAS banday maante hain. NATEEJAH (RESULT): Puray Kalaam ka Nateejah yeh Nikla k ISLAMI Aqaid aur MUSHRIKEEN k Aqaid main Kahin B Barabri nahin, To Phir SHIRK bhi na Huwa, LIHAZA MUSALMAANON k AQAID ko MUSHRIKEEN k AQAID se milana ZULM hai..
×
×
  • Create New...