Jump to content

Najam Mirani

اراکین
  • کل پوسٹس

    232
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    16

سب کچھ Najam Mirani نے پوسٹ کیا

  1. مزارات پر اعتراض کرنے والے خود مزار پر آگئے ہیں ، یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے ۔
  2. شہزاد بھائی تصحیح کے لیئے آپ کا بے حد شکریہ جزاک اللہ خیرا
  3. السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ محترم بھائی لنکس اپ ڈیٹ کریں ، کام نہیں کر رہی ہیں جزاک اللہ خیرا
  4. صالحین بعد از وصال مدد بھی کرتے ہیں اور مردے سنتے ہیں آیات ملاحظہ ہوں (1)وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَا اٰتَیتُکُم مِّن کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنصُرُنَّہٗ ؕ (پ3:،اٰل عمرٰن 81 اور وہ وقت یا د کرو جب اللہ نے نبیوں کا عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تمہارے پاس رسول تشریف لاویں جوتمہاری کتابوں کی تصدیق کریں تو تم ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا ۔ اس آیت سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں سے عہد لیا کہ تم محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا حالانکہ وہ پیغمبر آپ کے زمانہ میں وفات پاچکے تو پتا لگا کہ وہ حضرات بعد وفات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان بھی لا ئے اور روحانی مدد بھی کی چنانچہ سب نبیوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے معراج کی رات نماز پڑھی یہ اس ایمان کا ثبوت ہوا ،حج وداع میں بہت سے پیغمبر آپ کے ساتھ حج میں شریک ہوئے او رموسی علیہ السلام نے اسلام والوں کی مدد کی کہ پچاس نماز وں کی پانچ کرادیں ، آخرمیں عیسٰی علیہ السلام بھی ظاہر ی مدد کے لئے آئیں گے اموات کی مدد ثابت ہوئی۔ (2)وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذ ظَّلَمُوا اَنفُسَہُمْ جَآءُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیمًا ﴿۶۴ اور اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو تمہارے پاس آجاویں پھر خدا سے مغفرت مانگیں اور رسول بھی ان کیلئے دعاء مغفرت کریں تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔(پ5،النساء:64) ا س آیت سے معلوم ہو اکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد سے تو بہ قبول ہوتی ہے اوریہ مدد زندگی سے خاص نہیں بلکہ قیامت تک یہ حکم ہے یعنی بعد وفات بھی ہماری توبہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی کی مدد سے قبول ہوگی بعد وفات مدد ثابت ہو ئی ۔ اسی لئے آج بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ مدینہ منورہ میں سلام پڑھتے وقت یہ آیت پڑھ لیا کریں اگر یہ آیت فقط زندگی کے لئے تھی تو اب وہاں حاضری کا اور اس آیت کے پڑھنے کا حکم کیوں ہے ۔ (3)وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِینَ ﴿۱۰۷ اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر جہانوں کے لئے رحمت ۔(پ17،الانبیاء:107) حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمام جہانوں کی رحمت ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی جہان تو رہے گا اگر آپ کی مدد اب بھی باقی نہ ہو تو عالم رحمت سے خالی ہوگیا ۔ (4) وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیر"ا وَّ نَذِی را" اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر ۔(پ22،سبا:28) اس لِلنَّاسِ میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو حضور صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آئے او رآپ کی یہ مدد تا قیامت جاری ہے ۔ (5)وَکَانُوا مِن قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِینَ کَفَرُوا ۚ فَلَمَّا جَآءَہُم مَّا عَرَفُوا کَفَرُوا بِہ ٖ ۫اور یہ بنی اسرائیل کافروں کے مقابلہ میں اسی رسول کے ذریعہ سے فتح کی دعا کرتے تھے پھر جب وہ جانا ہوا رسول ان کے پاس آیا تو یہ ان کاانکار کر بیٹھے ۔(پ1،البقرۃ:89) معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے بھی لوگ آپ کے نام کی مدد سے دعائیں کرتے اور فتح حاصل کرتے تھے ۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد دنیا میں آنے سے پہلے شامل حال تھی تو بعد بھی رہے گی، اسی لئے آج بھی حضور کے نام کا کلمہ مسلمان بناتا ہے۔ درود شریف سے آفات دور ہوتی ہیں۔ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے تبرکات سے فائدہ ہوتاہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے تبرکات سے بنی اسرئیل جنگوں میں فتح حاصل کرتے تھے ۔ یہ سب بعد وفات کی مدد ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم ! اب بھی بحیات حقیقی زندہ ہیں ایک آن کے لیئے موت طاری ہوئی اور پھر دائمی زندگی عطا فرما دی گئی قرآن کریم تو شہیدوں کی زندگی کا بھی اعلان فرما رہا ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کاثبوت یہ ہے کہ زندوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ فلاں عالم ہے ، حافظ ہے ، قاضی ہے اور ُمردوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ عالم تھا ، زندوں کے لئے ہے او ر ُمردوں کے لئے 'تھا استعمال ہوتا ہے۔ نبی کا کلمہ جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کی زندگی میں پڑھتے تھے وہی کلمہ قیامت تک پڑھا جائے گا کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ صحابہ کرام بھی کہتے تھے کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ شفیع المذنبین ، رحمۃ للعالمین ہیں اور ہم بھی یہ ہی کہتے ہیں اگر آپ زندہ نہ ہوتے توہمارا کلمہ بدل جانا چاہئے تھا ہم کلمہ یوں پڑھتے کہ حضور اللہ تعالیٰ کے رسول تھے ،جب آپ کا کلمہ نہ بدلا تو معلوم ہو اکہ آپ کا حال بھی نہ بدلا لہٰذا آپ اپنی زندگی شریف کی طر ح ہی سب کی مدد فرماتے ہیں ہاں اس زندگی کا ہم کو احساس نہیں ۔ مُردو ں کا سننا مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ مردے سنتے ہیں اور زندوں کے حالات دیکھتے ہیں کچھ اجمالی طور سے یہاں عرض کیا جاتا ہے ۔ جب قرآن شریف میں مُردے ، اندھے، بہرے، گو نگے ، قبر والے کے ساتھ نہ لوٹنے ، نہ ہدایت پانے، نہ سنا نے وغیرہ کا ذکر ہوگا تو ان لفظوں سے مراد کافر ہونگے یعنی دل کے مردے ، دل کے اندھے وغیر ہ عام مردے وغیر ہ مراد نہ ہوں گے اور ان کے نہ سنانے سے مراد ان کا ہدایت نہ پانا ہوگا نہ کہ واقع میں نہ سننا ۔ اور ان آیات کامطلب یہ ہوگا کہ آپ ان دل کے مردے ، اندھے ، بہر ے کافروں کو نہیں سنا سکتے جس سے وہ ہدایت پرآجاویں یہ مطلب نہ ہوگا کہ آپ مردو ں کو نہیں سنا سکتے مثال یہ ہے ۔ (1) صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُونَ ﴿۱۸﴾ (پ1،البقرۃ:18) یہ کافر بہرے ، گونگے، اندھے ہیں پس وہ نہ لوٹیں گے ۔ (2) وَمَن کَانَ فِی ہٰذِہٖ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیلًا ﴿۷۲﴾ (پ15،بنی اسرآء یل:72) جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہے اورراستے سے بہکا ہوا ہے ۔ یہ آیا ت قرآن شریف میں بہت جگہ آئی ہیں اور ان سب میں مردو ں، اندھوں ،بہروں سے مراد کفار ہی ہیں نہ کہ ظاہری آنکھو ں کے اندھے او ربے جان مردے ۔ ان آیات کی تفسیر ان آیتو ں سے ہو رہی ہے (3) اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِین وَمَا اَنتَ بِہٰدِی الْعُمْیِ عَن ضَلٰلَتِہِمْ ؕ اِنتُسْمِعُ اِلَّا مَن یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَہُم مُّسْلِمُونَ ﴿۸۱﴾ (پ20،النمل:80،81) بے شک تم نہیں سنا سکتے مردوں کو اور نہ سناسکتے ہو بہروں کو جب پھر یں پیٹھ دے کر اورنہ تم اندھوں کو ہدایت کرنے والے ہو ۔ نہیں سنا سکتے تم مگر ان کو جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ مسلمان ہیں۔ اس آیت میں مردے اور اندھے ،بہر ے کا مقابلہ مومن سے کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ مردو ں سے مراد کا فرہیں۔ (4)فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّی وَنَصَحْتُ لَکُمْ ۚ فَکَیفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِینَ ﴿۹۳ توشعیب نے ان مرے ہوؤں سے منہ پھیر ا اور کہا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہیں نصیحت کی تو کیوں کرغم کرو ں کافروں پر ۔(پ9،الاعراف:93 ) ان آیتو ں سے معلوم ہوا کہ صالح علیہ السلام اور شعیب علیہ السلام نے ہلاک شدہ قوم پر کھڑے ہوکر ان سے یہ باتیں کیں۔ (5)وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رُّسُلِنَا ٭ اَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعْبَدُونَ ٪۴۵ ان رسولوں سے پوچھو جو ہم نے آپ سے پہلے بھیجے کیا ہم نے رحمٰن کے سوا اور خدا ٹھہرائے ہیں جو پوجے جائیں ۔(پ25،الزخرف:45) گزشتہ نبی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں وفات پاچکے تھے فرمایا جارہاہے کہ وفات یافتہ رسولوں سے پوچھو کہ ہم نے شرک کی اجازت نہ دی تو ان کی امتیں ان پر تہمت لگاکر کہتی ہیں کہ ہمیں شرک کا حکم ہمارے پیغمبروں نے دیا ہے۔ اگر مردے نہیں سنتے توان سے پوچھنے کے کیا معنی ؟ بلکہ اس تیسری آیت سے تو یہ معلوم ہوا کہ خاص بزرگو ں کو ُمردے جواب بھی دیتے ہیں اور وہ جواب بھی سن لیتے ہیں ۔ اب بھی کشف قبور کرنے والے مردوں سے سوال کرلیتے ہیں ۔ اس لئے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مقتول کافروں سے پکارکرفرمایا کہ "بولو میرے تمام فرمان سچے تھے یا نہیں"۔ فاروق اعظم نے عرض کیا کہ بے جان مردو ں سے آپ کلام کیوں فرماتے ہیں تو فرمایا "وہ تم سے زیادہ سنتے ہیں" ۔ (صحیح البخاری،کتاب الجنائز، باب فی عذاب القبر، الحدیث1370،ج1،ص462،دار الکتب العلمیۃبیروت) دوسری روایت میں ہے کہ دفن کے بعد جب زندے واپس ہوتے ہیں تو مردہ ان کے پاؤں کی آہٹ سنتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب،الباب الخامس والاربعون فی بیان القبر وسؤالہ،ص۱۷۱،دار الکتب العلمیۃبیروت) ​(6)فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوا فِی دَارِہِمْ جٰثِمِینَ ﴿۷۸﴾فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّی وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِن لَّاتُحِبُّونَ النّٰصِحِینَ ﴿۷۹ (پ8،الاعراف:78۔79) پس پکڑلیاقوم صالح کو زلزلے نے تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے پھر صالح نے ان سے منہ پھیرا اورکہا کہ اے میری قوم میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیرخواہوں کوپسند نہیں کرتے ۔ (7) وَ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ فِی اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ وَّ ہُوَ عَلَیہِمْ عَمًی ؕ اُولٰٓئِکَ یُنَادَوْنَ مِن مَّکَانٍ بَعِیدٍ ٪۴۴﴾ اورجو ایمان نہیں لائے ان کے کانوں میں ٹینٹ ہیں اوروہ ان پر اندھا پن ہے گویا وہ دور جگہ سے پکارے جارہے ہیں۔(پ24،حٰم السجدۃ:44) اس آیت نے بتایا کہ کافر گویا اندھا، بہرا ہے ۔ (8) اُولٰٓئِکَ الَّذِینَ لَعَنَہُمُ اللہُ فَاَصَمَّہُمْ وَ اَعْمٰی اَبْصَارَہُمْ ﴿۲۳﴾ ۔(پ26،محمد:23) یہ کفار وہ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کردی پس انہیں بہرا کردیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ لعنت سے آدمی اندھا، بہر ا ہوجاتا ہے یعنی دل کا اندھا ،بہرا ہماری ان مذکورہ آیتوں نے بتادیا کہ جہاں مردو ں کے سننے سنانے کی نفی کی گئی ہے وہاں مردو ں سے مراد کافر ہیں ۔ ان آیتو ں سے یہ ثابت کرنا کہ مردے سنتے نہیں بالکل جہالت ہے۔ اسی لئے ہم نمازوں میں حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرتے ہیں اور کھانا کھانے والے ، استنجا کرنے والے، سوتے ہوئے کو سلام کرنا منع ہے کیونکہ وہ جواب نہیں دے سکتے تو جو جواب نہ دے سکے اسے سلام کرنا منع ہے اگر قبر والے نہ سنتے ہوتے تو قبر ستا ن جاتے وقت ا نہیں سلام نہ کیا جاتا اور نماز میں حضور کو سلام نہ ہوتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قبر والے کسی کی بھی نہیں سنتے ،حتٰی کہ نبی کی بھی نہیں اور وہ لوگ دلیل کے طور پریہ آیت پیش کرتے ہیں : وَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوٰتُ اِنَّ اللہَ یُسْمِعُ مَن یَّشَآءُ ۚ وَ مَا اَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِی الْقُبُورِ (پارہ 22، سورہ فاطر ،آیت 22) اور برابر نہیں زندے اور مردے بیشک اللّٰہ سناتا ہے جسے چاہے اور تم نہیں سنانے والے انہیں جو قبروں میں پڑے ہیں۔ اس آیت میں کُفّارکو مُردوں سے تشبیہ دی گئی کہ جس طرح مردے سنی ہوئی بات سے نفع نہیں اٹھا سکتے اور پند پذیر نہیں ہوتے ، بدانجام کُفّار کا بھی یہی حال ہے کہ وہ ہدایت و نصیحت سے منتفع نہیں ہوتے ۔ اس آیت سے مُردوں کے نہ سننے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ آیت میں قبر والوں سے مراد کُفّار ہیں نہ کہ مردے اور سننے سے مراد وہ سنتا ہے جس پر راہ یابی کا نفع مرتب ہو ، رہا مُردوں کا سننا وہ احادیثِ کثیرہ سے ثابت ہے ۔ ضروری ہدایت: زندگی میں لوگوں کی سننے کی طاقت مختلف ہوتی ہے بعض قریب سے سنتے ہیں جیسے عام لوگ او ر بعض دور سے بھی سن لیتے ہیں جیسے پیغمبر اور اولیاءاللہ۔ مرنے کے بعد یہ طاقت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں لہٰذا عام مردو ں کو ان کے قبرستان میں جاکرپکار سکتے ہیں دور سے نہیں لیکن انبیاء واولیاءاللہ علیہم الصلوۃ والسلام کو دور سے بھی پکارسکتے ہیں کیونکہ وہ جب زندگی میں دور سے سنتے تھے تو بعدوفات بھی سنیں گے۔ لہٰذا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ہرجگہ سے سلام عرض کرو مگر دوسرے مردو ں کو صرف قبر پر جاکر دور سے نہیں۔ دوسری ہدایت: اگرچہ مرنے کے بعد رو ح اپنے مقام پر رہتی ہے لیکن اس کا تعلق قبر سے ضرورر ہتا ہے کہ عام مردو ں کو قبر پرجا کر پکارا جاوے تو سنیں گے مگر اور جگہ سے نہیں ۔جیسے سونے والا آدمی کہ اس کی ایک روح نکل کر عالم میں سیر کرتی ہے لیکن اگر اس کے جسم کے پاس کھڑے ہوکر آواز دو تو سنے گی ۔ دوسری جگہ سے نہیں سنتی۔ خطیب نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: جب کوئی شخص ایسے کی قبر پر گزرے جسے دنیا میں پہچانتا تھا اور اس پر سلام کرے تو وہ مُردہ اسے پہچانتا ہے اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے۔( 'تاریخ بغداد، رقم: ۳۱۷۵،ج۷،ص98-(99 صحیح مسلم میں بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم لوگوں کو تعلیم دیتے تھے کہ جب قبروں کے پاس جائیں یہ کہیں۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَآءَ اللہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ نَسْأَلُ اللہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ ترجمہ: اے قبرستان والے مومنو اورمسلمانو! تم پر سلامتی ہو اور انشاء اﷲ عزوجل ہم تم سے آملیں گے ،ہم اﷲ عزوجل سے اپنے لئے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم،کتاب الجنائز،باب ما یقال عند دخول القبور...إلخ،الحدیث:۱۰۴۔(۹۷۵)،ص۴۸۵ وسنن ابن ماجہ،کتاب ماجاء في الجنائز،باب ماجاء فیما یقال إذا دخل المقابر،الحدیث:۱۵۴۷،ج۲،ص۲۴۰) ترمذی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماسے روایت کی، کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مدینہ میں قبور کے پاس گزرے تو اودھر کو مونھ کرلیا اور یہ فرمایا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَـفُنَا وَنَحْنُ بِالْاَثَرِ ترجمہ:اے قبرستان والو! تم پر سلامتی ہو،اﷲ عزوجل ہماری اورتمہاری مغفرت فرمائے ،تم ہم سے پہلے چلے گئے اورہم تمہارے پیچھے آنے والے ہیں۔ ( 'سنن الترمذي،کتاب الجنائز،باب ما یقول الرجل إذا دخل المقابر،الحدیث:۱۰۵۵،ج۲،ص۳۲۹) امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ ایک نوجوان صالح کی قبر پر تشریف لے گئے اورفرمایا کہ اے فلاں !اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ﴿۴۶ یعنی جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرگیااس کے لیے دو جنتیں ہیں۔ اے نوجوان!بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے؟اس نوجوان صالح نے قبر کے اندر سے آپ کا نام لے کر پکارااوربآواز بلند دو مرتبہ جواب دیا کہ میرے رب نے یہ دونوں جنتیں مجھے عطافرماد ی ہیں ۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ج۲،ص۸۶۰بحوالہ حاکم) موت کے بعد گفتگو حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت زید بن خارجہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ کے بعض راستوں میں ظہر وعصر کے درمیان چلے جارہے تھے کہ ناگہاں گرپڑے اور اچانک ان کی وفات ہوگئی ۔ لوگ انہیں اٹھا کر مدینہ منورہ لائے اور ان کو لٹا کر کمبل اوڑھادیا۔ جب مغرب وعشاء کے درمیان کچھ عورتوں نے رونا شروع کیا تو کمبل کے اند رسے آواز آئی : اے رونے والیو!خاموش رہو۔ یہ آواز سن کر لوگوں نے ان کے چہرے سے کمبل ہٹایا تو وہ بے حد دردمندی سے نہایت ہی بلند آواز سے کہنے لگے: 'حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نبی امی خاتم النبیین ہیں اوریہ بات اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے ۔اتنا کہہ کر کچھ دیر تک بالکل ہی خاموش رہے پھر بلند آواز سے یہ فرمایا: 'سچ کہا، سچ کہا ابوبکرصدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے جو نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے خلیفہ ہیں ، قوی ہیں ، امین ہیں، گو بدن میں کمزور تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے کام میں قوی تھے ۔ یہ با ت اللہ تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں ہے۔ اتنا فرمانے کے بعد پھر ان کی زبان بند ہوگئی اورتھوڑ ی دیر تک بالکل خاموش رہے پھر ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے اوروہ زور زور سے بولنے لگے:سچ کہا، سچ کہا درمیان کے خلیفہ اللہ تعالیٰ کے بندے امیر المؤمنین حضرت عمربن خطا ب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے نہ اس کی کوئی پروا کرتے تھے اور وہ لوگوں کو اس بات سے روکتے تھے کہ کوئی قوی کسی کمزور کوکھاجائے اوریہ بات اللہ تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔ اس کے بعد پھر وہ تھوڑی دیر تک خاموش رہے پھر ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے اورزور زور سے بولنے لگے :سچ کہا، سچ کہا حضرت عثمان غنی ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے جو امیر المؤمنین ہیں اورمؤمنوں پر رحم فرمانے والے ہیں ۔ دوباتیں گزرگئیں اور چار باقی ہیں جو یہ ہیں: (1)لوگوں میں اختلاف ہوجائے گااور ان کے لیے کوئی نظام نہ رہ جائے گا۔ (۲)سب عورتیں رونے لگیں گی اور ان کی پردہ دری ہوجائے گی۔ (۳)قیامت قریب ہوجائے گی ۔ (۴)بعض آدمی بعض کو کھاجائے گا ۔اس کے بعد ان کی زبان بالکل بند ہوگئی ۔ (طبرانی والبدایہ والنہایہ،ج۶،ص۱۵۶ واسدالغابہ،ج۲،ص۲۲۷)
  5. آمین آپ کا بے حد شکریہ حوصلہ افزائی کے لیئے اللہ عزوجل آپ کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین
  6. بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
  7. Aqal ke andhay Quran ki Aayatain /Ahkaam Qayamat tak aane waale Muslamano ke liye hain , sirf us waqt ke zinda logon ke liye nhi hain. Beshak Qabar waale sunte hain : For example : Jab Musalman Qabaristan jata hai to Qabar walon ko salam karta hai aur ye sunnat bhi hai , Ahadees se sabit hai . agar murda qabar mein na sunta hota to salam karne ka kya maqsad ? aray jahil Qabar mein Murda sunta hai tabhi to us ko salam kiya jata hai .
  8. Najam Mirani

    رمضان کی تعریف

    بسم اللہ الرحمان الرحیم شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلْیَصُمْہُ ؕ وَمَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ۫ وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوۡنَ ﴿۱۸۵ تَرجَمَہ کَنْزُ الْاِیْمَان:رَمَضان کا مہینہ ، جس میں قُراٰن اُترا،لوگوں کے لئے ہِدایت اور رَہنُمائی اور فیصلہ کی رُوشن باتیں ،تَو تُم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضَرور اِس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سَفر میں ہو،تَو اُتنے روزے اور دِنوں میں۔اللہ (عَزَّوَجَلَّ) تُم پر آسانی چاہتا ہے اور تُم پر دُشواری نہیں چاہتا اوراِس لئے کہ تم گِنتی پوری کرواور اللہ (عَزَّوَجَل) کی بڑائی بولو اِس پر کہ اُس نے تمہیں ہِدایت کی اور کہیں تم حق گُزار ہو ۔ ( پ ۲ البقرہ۱۸۵ صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالیٰ علیٰ محمَّد رمضان کی تعریف اِس آیتِ مُقدَّسہ کے اِبْتِدائی حِصّہ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ کے تَحت مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان تَفسِیْرِ نعیمی میں فرماتے ہیں:'' رَمَضَان '' یا تَو''رحمٰن عَزَّ وَجَلَّ'' کی طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ کا نام ہے، چُونکہ اِس مہینہ میں دِن رات اللہ عز وَجَلَّ کی عِبادت ہوتی ہے ۔ لہٰذا اِسے شَہرِ رَمَضان یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا مہینہ کہا جاتا ہے۔جیسے مسجِد وکعبہ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا گھر کہتے ہیں کہ وہاں اللہ عز وَجَلَّ کے ہی کام ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی رَمضَان اللہ عز وَجَلَّ کا مہینہ ہے کہ اِس مہینے میں اللہ عز وَجَلَّ کے ہی کام ہوتے ہیں۔رَوزہ تَراویح وغیرہ تَو ہیں ہی اللہ عز وَجَلَّ کے۔ مگربَحَالتِ روزہ جو جائِز نوکری اور جائِز تِجارت وغیرہ کی جاتی ہے وہ بھی اللہ عز وَجَلَّ کے کام قرار پاتے ہیں ۔اِس لئے اِس ماہ کا نام رَمَضَان یعنی اللہ عز وَجَلَّ کا مہینہ ہے۔یا یہ ''رَمْضَاء ٌ '' سے مُشْتَق ہے ۔ رَمْضَاءٌ موسِمِ خَرِیف کی بارِش کو کہتے ہیں،جس سے زمین دُھل جاتی ہے اور''رَبِیع'' کی فَصْل خُوب ہوتی ہے۔ چُونکہ یہ مہینہ بھی دِل کے گَر د وغُبار دھودیتا ہے اور اس سے اَعمال کی کَھیتی ہَری بَھری رہتی ہے اِس لئے اِسے رَمَضَان کہتے ہیں۔ ''سَاوَن'' میں روزانہ بارِشیں چاہئیں اور ''بھادَوں'' میں چار ۔ پھر ''اَساڑ' ' میں ایک ۔اِس ایک سے کھیتیاں پَک جاتی ہیں۔تَو اِسی طرح گیارہ مہینے برابر نیکیاں کی جاتی رَہیں۔پھر رَمَضَان کے روزوں نے اِن نیکیوں کی کھیتی کو پَکا دیا ۔ یا یہ '' رَمْض '' سے بنا جس کے معنٰی ہیں''گرمی یاجلنا ۔ '' چُونکہ اِس میں مُسلمان بُھوک پیاس کی تَپش برداشت کرتے ہیں یا یہ گناہوں کو جَلا ڈالتا ہے،اِس لئے اِسے رَمَضَان کہاجاتا ہے۔(کنز العُمّال کی آٹھویں جلد کے صفحہ نمبر دو سوسَتَّرَہ پر حضرتِ سَیّدُنا اَنَس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ نبیِّ کریم ، رءُ وْفٌ رّحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا، ''اس مہینے کانام رَمَضَان رکھا گیا ہے کیونکہ یہ گنا ہو ں کوجلادیتا ہے۔ مہینوں کے نام کی وجہ حضرتِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں: بعض مُفَسِّرِین رَحِمَہُمُ اللہُ تعالٰی نے فرمایا کہ جب مہینوں کے نام رکھے گئے تَو جس موسِم میں جو مہینہ تھا اُسی سے اُس کا نام ہُوا ۔جو مہینہ گرمی میں تھااُسے رَمَضَان کہہ دیا گیا اور جو موسِمِ بَہار میں تھا اُسے ربیعُ الْاَوّل اور جو سردی میں تھا جب پانی جم رہا تھا اُسے جُمادِی الْاُولٰی کہا گیا۔اِسلام میں ہرنام کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے اور نام کام کے مُطابِق رکھا جاتا ہے۔دُوسری اِصطِلاحات میں یہ بات نہیں ۔ ہمارے یہاں بڑے جاہِل کانام'' محمّد فاضِل'' ، اور بُزدِل کا نام'' شیر بہادُر''، ہوتا ہے اور بدصُورت کو ''یُوسُف خان'' کہتے ہیں !اِسلام میں یہ عَیب نہیں۔رَمَضَان بَہُت خُوبیوں کا جامعِ تھا اِسی لئے اس کا نام رَمَضَان ہوا۔ (تفسیر نعیمی ج ۲ص۵ ۲۰ صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
  9. حضورغوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مختصرحالات سرکارِبغدارحضورِغوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کااسم مبارک''عبدالقادر''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کنیت ''ابومحمد''اورالقابات ''محی الدین،محبوبِ سبحانی،غوثُ الثقلین،غوثُ الاعظم''وغیرہ ہیں،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۴۷۰ھ میں بغدادشریف کے قریب قصبہ جیلان میں پیدا ہوئے اور۵۶۱ھ میں بغدادشریف ہی میں وصال فرمایا،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزارِپُراَنوارعراق کے مشہورشہربغدادشریف میں ہے۔ (بہجۃالاسرارومعدن الانوار،ذکرنسبہ وصفتہ، ص۱۷۱،الطبقات الکبرٰی للشعرانی،ابو صالح سیدی عبدالقادرالجیلی،ج۱،ص۱۷۸) غوث کسے کہتے ہیں؟ ''غوثیت''بزرگی کاایک خاص درجہ ہے،لفظِ''غوث''کے لغوی معنی ہیں ''فریادرس یعنی فریادکوپہنچنے والا''چونکہ حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ غریبوں،بے کسوں اورحاجت مندوں کے مددگارہیں اسی لئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ''غوث ِاعظم''کے خطاب سے سرفرازکیاگیا،اوربعض عقیدت مندآپ کو''پیران پیردستگیر''کے لقب سے بھی یادکرتے ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نسب شریف آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ والدماجدکی نسبت سے حسنی ہیں سلسلہ نسب یوں ہے سیّد محی الدین ابومحمدعبدالقادربن سیّدابوصالح موسیٰ جنگی دوست بن سیّدابوعبداللہ بن سیّد یحییٰ بن سیدمحمدبن سیّدداؤدبن سیّدموسیٰ ثانی بن سیّدعبداللہ بن سیّدموسیٰ جون بن سیّد عبداللہ محض بن سیّدامام حسن مثنیٰ بن سیّدامام حسن بن سیّدناعلی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی والدہ ماجدہ کی نسبت سے حسینی سیّد ہیں۔ (بہجۃالاسرار،معدن الانوار،ذکرنسبہ،ص۱۷۱) آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے آباء واجداد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا خاندان صالحین کاگھراناتھاآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ناناجان،داداجان،والدماجد، والدہ محترمہ،پھوپھی جان،بھائی اورصاحبزادگان سب متقی وپرہیزگارتھے،اسی وجہ سے لوگ آپ کے خاندان کواشراف کا خاندان کہتے تھے۔ سیدوعالی نسب دراولیاء است نورِچشم مصطفےٰ ومرتضےٰ است آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدمحترم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدمحترم حضرت ابوصالح سیّدموسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تھے، آپ کا اسم گرامی ''سیّدموسیٰ''کنیت ''ابوصالح''اورلقب ''جنگی دوست'' تھا،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جیلان شریف کے اکابر مشائخ کرام رحمہم اللہ میں سے تھے۔ ''جنگی دوست''لقب کی وجہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کالقب جنگی دوست اس لئے ہواکہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خالصۃًاللہ عزوجل کی رضاکے لئے نفس کشی اورریاضتِ شرعی میں یکتائے زمانہ تھے، نیکی کے کاموں کا حکم کرنے اوربرائی سے روکنے کے لئے مشہورتھے،اس معاملہ میں اپنی جان تک کی بھی پروا نہ کرتے تھے،چنانچہ ایک دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جامع مسجدکوجارہے تھے کہ خلیفہ وقت کے چندملازم شراب کے مٹکے نہایت ہی احتیاط سے سروں پراٹھائے جارہے تھے،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جب ان کی طرف دیکھاتوجلال میں آگئے اوران مٹکوں کوتوڑدیا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے رعب اوربزرگی کے سامنے کسی ملازم کودم مارنے کی جرأت نہ ہوئی توانہوں نے خلیفہ وقت کے سامنے واقعہ کااظہارکیااورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلاف خلیفہ کوابھارا،توخلیفہ نے کہا:''سیّدموسیٰ(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)کوفوراًمیرے دربارمیں پیش کرو۔''چنانچہ حضرت سیّدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دربارمیں تشریف لے آئے خلیفہ اس وقت غیظ وغضب سے کرسی پربیٹھاتھا،خلیفہ نے للکارکرکہا:''آپ کون تھے جنہوں نے میرے ملازمین کی محنت کورائیگاں کردیا؟''حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:''میں محتسب ہوں اورمیں نے اپنافرض منصبی اداکیاہے۔''خلیفہ نے کہا:''آپ کس کے حکم سے محتسب مقررکئے گئے ہیں؟''حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے رعب دارلہجہ میں جواب دیا:''جس کے حکم سے تم حکومت کررہے ہو۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس ارشادپرخلیفہ پرایسی رقّت طاری ہوئی کہ سربزانو ہوگیا(یعنی گھٹنوں پرسررکھ کر بیٹھ گیا)اورتھوڑی دیرکے بعدسرکواٹھاکرعرض کیا: ''حضوروالا! امربالمعروفاورنہی عن المنکرکے علاوہ مٹکوں کو توڑنے میں کیا حکمت ہے؟''حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشادفرمایا:''تمہارے حال پرشفقت کرتے ہوئے نیزتجھ کودنیااورآخرت کی رسوائی اورذلت سے بچانے کی خاطر۔''خلیفہ پرآپ کی اس حکمت بھری گفتگوکابہت اثرہوااورمتاثرہوکرآپ کی خدمت اقدس میں عرض گزارہوا:''عالیجاہ!آپ میری طرف سے بھی محتسب کے عہدہ پرمامورہیں۔'' حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے متوکلانہ اندازمیں فرمایا:''جب میں حق تعالیٰ کی طرف سے مامورہوں توپھرمجھے خَلْق کی طرف سے مامورہونے کی کیا حاجت ہے ۔''اُسی دن سے آپ''جنگی دوست''کے لقب سے مشہورہوگئے۔ (سیرت غوث ا لثقلین،ص۵۲) آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ناناجان حضورسیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ناناجان حضرت عبداللہ صومعیرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جیلان شریف کے مشائخ میں سے تھے،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نہایت زاہداور پرہیزگارہونے کے علاوہ صاحب فضل وکمال بھی تھے،بڑے بڑے مشائخ کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے شرف ملاقات حاصل کیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مستجاب الدعوات تھے شیخ ابو محمدالداربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مستجاب الدعوات تھے (یعنی آپ کی دعائیں قبول ہوتی تھیں)۔اگر آپ کسی شخص سے ناراض ہوتے تو اللہ عزوجل اس شخص سے بدلہ لیتا اور جس سے آپ خوش ہوتے تو اللہ عزوجل اس کو انعام و اکرام سے نوازتا، ضعیف الجسم اور نحیف البدن ہونے کے باوجود آپ نوافل کی کثرت کیا کرتے اور ذکر واذکار میں مصروف رہتے تھے۔آپ اکثر امور کے واقع ہونے سے پہلے اُن کی خبر دے دیا کرتے تھے اور جس طرح آپ ان کے رونما ہونے کی اطلاع دیتے تھے اسی طرح ہی واقعات روپذیر ہوتے تھے۔'' ( بہجۃالاسرار،ذکر نسبہ،وصفتہ،رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ،ص۱۷۲) آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نیک سیرت بیویاں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف "عوارف المعارف"میں تحریر فرماتے ہیں: ''ایک شخص نے حضور سیدناغوثُ الاعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا:''یاسیدی! آپ نے نکاح کیوں کیا؟''سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' بے شک میں نکاح کرنا نہیں چاہتا تھا کہ اس سے میرے دوسرے کاموں میں خلل پیدا ہو جائے گا مگر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ ''عبدالقادر! تم نکاح کر لو، اللہ عزوجل کے ہاں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔''پھرجب یہ وقت آیاتواللہ عزوجل نے مجھے چار بیویاں عطافرمائیں، جن میں سے ہر ایک مجھ سے کامل محبت رکھتی ہے۔'' (عوارف المعا رف،الباب الحادی والعشرون فی شرح حال المتجردوالمتاھل من الصوفیۃ...الخ،ص۱۰۱،ملخصاً) حضورسیدی غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بیویاں بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے روحانی کمالات سے فیض یاب تھیں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے صاحبزادے حضرت شیخ عبدالجباررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی والدہ ماجدہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ''جب بھی والدہ محترمہ کسی اندھیرے مکان میں تشریف لے جاتی تھیں تو وہاں چراغ کی طرح روشنی ہو جاتی تھیں۔ایک موقع پر میرے والدمحترم غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی وہاں تشریف لے آئے ،جیسے ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نظر اس روشنی پرپڑی تووہ روشنی فوراًغائب ہوگئی،توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشادفرمایاکہ ''یہ شیطان تھا جو تیری خدمت کرتاتھااسی لئے میں نے اسے ختم کر دیا، اب میں اس روشنی کو رحمانی نورمیں تبدیل کئے دیتا ہوں۔'' اس کے بعد والدہ محترمہ جب بھی کسی تاریک مکان میں جاتی تھیں تو وہاں ایسا نور ہوتا جوچاند کی روشنی کی طرح معلوم ہوتا تھا۔'' (بہجۃالاسرارومعدن الانوار،ذکرفضل اصحابہ...الخ،ص۱۹۶)
  10. آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حوصلہ افزائی کرنے کا بہت بہت شکریہ بھائی ، جزاک اللہ خیرا
  11. وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ کتاب غنیۃ الطالبین حضور پرنور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تصنیف ہی نہیں مسئلہ ۷۵: حضور قطب الاقطاب سیدنا ومولانا محبوب سبحانی غوث الصمدانی رحمۃ اﷲ علیہ نے جو اپنے رسالہ غنیۃ الطالبین میں مذہبِ حنفیہ کو گمراہ فرقہ میں مندرج فرمایا ہے اس کو اچھی طرح سے حضور واضح فرما کر تسکین و تشفی بخشیں کہ وسوسہ و خطراتِ نفسانی و شیطانی رفع ہوجائیں ، عبدالعظیم نامی ضلع غازیپور کے باشندے نے ایک رسالہ تصنیف کیا ہے جس میں رسالہ تقویۃ الایمان عرف تفویۃ الایمان کے مضمون کو مکتوبات مخدوم الملک رحمۃ اﷲ علیہ و مجدد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ اور بھی بزرگان دین کے مکتوبات سے دکھلایا ہے وثابت کیا ہے کہ ان بزرگوں نے اپنے مکتوبات میں تقویۃ الایمان سے بھی سخت سخت الفاظ نام بنام لکھاہے کہ اﷲ چاہے تو فلاں کو مردود کردے و فرعون و نمرود کو چاہے مقبول کرے، سینکڑوں کعبہ تیار کردے وغیرہ وغیرہ۔اب خاکسار عرض کرتا ہے کہ یا تو کوئی رسالہ ان کے جواب میں شائع فرمایا ہو تو بذریعہ ریلوے ڈاک پارسل ارسال ہو یا واضح خلاصہ جواب ارقام ہو والسلام مع الاکرام۔غنیۃ الطالبین کے مضامین سے زیادہ اس لیے انتشار ہے کہ دونوں حضرات سے تعلق و رشتہ و ایمان و ایقان کا سلسلہ ملحق ہے، حنفی اگر مذہب ہے تو قادری مشرب ہے، اب ذرا بھی ان دونوں پیشوا کی طرف سے ریب و شک دامنگیر ہوا کہ بہت بڑا حملہ ایمان پر ہونے کا خوف و ڈر ہے، ﷲ میرے حالِ زار پر رحم فرمائیں اس وقت میرے لیے بہت بڑا امتحان مدنظر ہے۔ زیادہ حد ادب۔ الجواب : بسم اﷲ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلّی علٰی رسولہ الکریم مکرم کرم فرما اکرمکم اﷲ تعالٰی وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ اولاً کتاب غنیۃ الطالبین شریف کی نسبت حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا تو یہ خیال ہے کہ وہ سرے سے حضور پرنور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تصنیف ہی نہیں مگر یہ نفی مجرد ہے۔ اور امام حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے تصریح فرمائی کہ اس کتاب میں بعض مستحقین عذاب نے الحاق کردیا ہے، فتاوٰی حدیثیہ میں فرماتے ہیں: وایّاک ان تغتربما وقع فی الغنیۃ لامام العارفین و قطب الاسلام والمسلمین الاستاذ عبدالقادر الجیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ فانہ دسہ علیہ فیہا من سینتقم اﷲ منہ والا فہو برئ من ذلک ۔۱ یعنی خبردار دھوکا نہ کھاناا اس سے جو امام اولیاء سردارِ اسلام و مسلمین حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی غنیہ میں واقع ہوا کہ اس کتاب میں اسے حضور پر افتراء کرکے ایسے شخص نے بڑھا دیا ہے کہ عنقریب اللہ عزوجل اس سے بدلہ لے گا ، حضرت شیخ رضی اللہ تعالٰی عنہ اس سے بَری ہیں۔ ( ۱ ؎ الفتاوی الحدیثیۃ مطلب ان مافی الغنیۃ للشیخ عبدالقادر مطبعۃ الجمالیہ مصر ص ۱۴۸) ثانیاً اسی کتاب میں تمام اشعریہ یعنی اہلسنت و جماعت کو بدعتی ، گمراہ ، گمراہ گر لکھا ہے کہ:خلاف ماقالت الاشعریۃ من ان کلام اﷲ معنی قائم بنفسہ واﷲ حسیب کل مبتدع ضال مضل ۔۲؂ بخلاف اس کے جو اشاعرہ نے کہا کہ اﷲ تعالٰی کا کلام ایسا معنی ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اﷲ تعالٰی ہر بدعتی، گمراہ و گمراہ گر کے لیے کافی ہے۔(ت) ( ۲ ؎ الغنیۃ لطالبی طریق الحق فصل فی اعتقاد ان القرآن حروف مفہومۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۹۱) کیا کوئی ذی انصاف کہہ سکتا ہے کہ معاذ اﷲ یہ سرکار غوثیت کا ارشاد ہے جس کتاب میں تمام اہلسنت کو بدعتی ، گمراہ گمراہ گر لکھا ہے اس میں حنفیہ کی نسبت کچھ ہو تو کیا جائے شکایت ہے۔ لہذا کوئی محلِ تشویش نہیں۔ ثالثاً پھر یہ خود صریح غلط اور افترا بر افترا ہے کہ تمام حنفیہ کو ایسا لکھا ہے غنیۃ الطالبین کے یہاں صریح لفظ یہ ہیں کہ:ھم بعض اصحاب ابی حنیفۃ ۔۳؂وہ بعض حنفی ہیں۔ ( ۳ ؎ الغنیۃ لطالبی طریق الحق فصل واما الجہمیۃ الخ ادارہ نشرو اشاعت علوم اسلامیہ پشاور ۱/ ۹۱ ) اس نے نہ حنفیہ پر الزام آسکتا ہے نہ معا ذا للہ حنفیت پر ، آخر یہ تو قطعاً معلوم ہے اور سب جانتے ہیں کہ حنفیہ میں بعض معتزلی تھے، جیسے زمخشری صاحبِ کشاف و عبدالجبار و مطرزی صاحبِ مغرب و زاہدی صاحبِ قینہ و حاوی و مجتبےٰ ، پھر اس سے حنفیت و حنفیہ پر کیا الزام آیا۔ بعض شافعیہ زیدی رافضی ہیں اس سے شافعیہ و شافعیت پر کیا الزام آیا۔ نجد کے وہابی سب حنبلی ہیں پھر اس سے حنبلیہ و حنبلیت پر کیا الزام آیا، جانے دو رافضی خارجی معتزلی وہابی سب اسلام ہی میں نکلے اور اسلام کے مدعی ہوئے پھر معاذ اﷲ اس سے اسلام و مسلمین پر کیا الزام آیا۔ رابعاً کتاب مستطاب بھجۃ الاسرار میں بسندِ صحیح حضرت ابوالتقی محمد بن ازہرصریفینی سے ہے مجھے رجال الغیب کے دیکھنے کی تمنا بھی مزارِ پاک امام احمد رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حضور ایک مرد کو دیکھا دل میں آیا کہ مردانِ غیب سے ہیں وہ زیارت سے فارغ ہو کر چلے یہ پیچھے ہوئے ان کے لیے دریائے دجلہ کا پاٹ سمٹ کر ایک قدم بھر کا رہ گیا کہ وہ پاؤں رکھ کر اس پار ہوگئے انہوں نے قسم دے کر روکا اور ان کا مذہب پوچھا، فرمایا:حنفی مسلم وما انا من المشرکین ہر باطل سے الگ مسلمان، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ یہ سمجھے کہ حنفی ہیں ، حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بارگاہ میں عرض کے لیے حاضر ہوئے حضور اندر ہیں دروازہ بند ہے ان کے پہنچتے ہی حضور نے اندر سے ارشاد فرمایا : اے محمد ! آج روئے زمین پر اس شان کا کوئی ولی حنفی المذہب نہیں ۔۱؂ ( ۱ ؎ بہجۃ الاسرار ذکر فصول من کلامہ مرصعا بشیئ من عجائب احوالہ مختصرا دارالکتب العلمیہ بیروت ص ۱۵۲) کیا معاذ اﷲ گمراہ بدمذہب لوگ اولیاء اﷲ ہوتے ہیں جن کی ولایت کی خود سرکار غوثیت نے شہادت دی، وہ وہابی رسالہ نظر سے نہ گزرا، یہاں چند امور واجب اللحاظ ہیں۔ اولاً وہ کلمات جو ان کتب سے مخالف نے نقل کیے اسمعیل دہلوی کے کلمات ملعونہ کے مثل ہوں ورنہ استشہاد مردود ، یہاں یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ بعض متحمل لفظ جب کسی مقبول سے صادر ہوں بحکم قرآن انہیں معنی حسن پر حمل کریں گے، اور جب کسی مردود سے صادر ہوں جو صریح تو ہینیں کرچکا ہو تو اس کی خبیث عادت کی بنا پر معنی خبیث ہی مفہوم ہوں گے کہ:کل اناء یترشح بما فیہ صرح بہ الامام ابن حجر المکی رحمۃ اﷲ تعالٰی ۔ہر برتن سے وہی کچھ باہر آتا ہے جوا س کے اندر ہوتا ہے، امام حجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ ثانیاً وہ کتاب محفوظ مصؤن ہونا ثابت ہو جس میں کسی دشمنِ دین کے الحاق کا احتمال نہ ہو جیسے ابھی غنیۃ الطالبین شریف میں الحاق ہونا بیان ہوا، یونہی امام حجۃ الاسلام غزالی کے کلام میں الحاق ہوئے اور حضرت شیخ اکبر کے کلام میں تو الحاقات کا شمار نہیں جن کا شافی بیان امام عبدالوہاب شعرانی نے کتاب الیواقیت والجواہر میں فرمایا او ر فرمایا کہ خود میری زندگی میں میری کتاب میں حاسدوں نے الحاقات کیے، اسی طرح حضرت حکیم سنائی و حضرت خواجہ حافظ و غیرہما اکابر کے کلام میں الحاقات ہونا شاہ عبدالعزیز صاحب نے تحفہ اثناء عشریہ میں بیان فرمایا ، کسی الماری میں کوئی قلمی کتاب ملے اس میں کچھ عبارت ملنی دلیل شرعی نہیں کہ بے کم و بیش مصنف کی ہے پھر اس قلمی نسخہ سے چھاپا کریں تو مطبوعہ نسخوں کی کثرت کثرت نہ ہوگی اور ان کی اصل وہی مجہول قلمی ہے جیسے فتوحات مکیہ کے مطبوعہ نسخے۔ ثالثاً اگر بہ سند ہی ثابت ہو تو تو اترو تحقیق درکار امام حجۃ الاسلام غزالی وغیرہ اکابر فرماتے ہیں:لاتجوز نسبۃ مسلم الٰی کبیرۃ من غیر تحقیق، نعم یجوز ان یقال قتل ابن ملجم علیّا فان ذٰلک ثبت متواترا۔۱؂بلا تحقیق مسلمان کی طرف گنا ہِ کبیرہ کی نسبت کرنا جائز نہیں ، ہاں یوں کہنا جائز ہے کہ ابن ملجم نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قتل کیا، کیونکہ یہ خبر متواتر سے ثابت ہے۔ ( ۱؎ احیاء العلوم کتاب آفات اللسان الافۃ الثامنۃ اللعن مطبعۃ المشہد الحسینی القاہرہ ۳/ ۱۲۵) جب بے تحقیق تام عام مسلمان کلمہ گو کی طرف گناہ کی نسبت ناجائز ہے تو اولیاء کرام کی طرف معاذ اﷲ کلمہ کفر کی نسبت بلا ثبوت قطعی کیسے حلال ہوسکتی ہے۔ رابعاً سب فرض کرلیں تو اب وہابی کے جواب کا حاصل یہ ہوگا کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی توہین بری نہیں کہ فلاں فلاں نے بھی کی ہے کیا یہ جواب کوئی مسلمان دے سکتا ہے، بفرض غلط توہین جس سے ثابت ہو وہ ہی مقبول نہ ہوگا نہ یہ کہ معاذ اﷲ اس کے سب توہین مقبول ہوجائے ۔ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم واﷲ تعالٰی اعلم ۔ نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی قوت مگر بلند وعظمت والے اﷲ کی توفیق سے ، واﷲ تعالٰی اعلم۔ (فتاوا رضویہ Jild 29, Page No.219-25)
  12. وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ mzeeshanimtiaz bhai deobnadi hazraat is Hadees pak ko zaeef keh kar Hayaat e Nabi ka inkar karte hain , ab aap ki confusion kya hai wo hamen bataiye aur aap ne jo link di hai us se bhi yehi sabit hota hai ke deobnadi hazraat Hayat e Nabi ka inkar kar rahe hain . kya aap ko Hayat e Nabi ke baare mein saboot chahiye ?
  13. قاعدہ نمبر ۲۱ کسی کے اعمال دوسرے کے کام آنے نہ آنے کا قاعدہ الف:جن آیتوں میں فرمایا گیا ہے کہ انسان کوصرف اپنے عمل ہی کام آویں گے یا فرمایا گیا ہے کہ نہیں ہے انسان کے لئے مگر وہ جو خود کرے ، اس سے مراد بدنی فرض عبادتیں ہیں یا یہ مطلب ہے کہ قابل اعتماد اپنے اعمال ہیں کسی کے بھیجنے کا یقین نہیں ۔ ب:جن آیتو ں میں فرمایا گیا ہے کہ دوسروں کی نیکی اپنے کام آتی ہے۔ اس سے مراد اعمال کا ثواب ہے یا مصیبت دور ہونا یا درجے بلند ہونا ۔ ''الف''کی مثال یہ ہے۔ وَ اَنۡ لَّیۡسَ لِلْاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ﴿ۙ۳۹ نہیں ہے انسا ن کیلئے مگر وہ جو کوشش کرے ۔(پ27،النجم:39 لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیۡہَا مَا اکْتَسَبَتْ اس نفس کیلئے مفید ہیں وہ عمل جو خود کرے اور اس کو مضر ہیں وہ گناہ جو خود کرے ۔(پ3،البقرۃ:286 ان دنوں آیتوں کا منشایہ ہے کہ کوئی کسی کی طر ف سے فرض نماز نہیں پڑھ سکتا، فرضی روزہ نہیں رکھ سکتا ، ان آیتوں میں اسی لئے سعی او رکسب کا ذکر ہے یا منشاء یہ ہے کہ اپنی ملکیت انہی عملوں پر ہے جو خود کرلئے جاویں کیا خبر کوئی دوسرا ثواب بھیجے یا نہ بھیجے ۔ اس کے بھروساپر خود غافل رہنا بیوقوفی ہے ۔ ''ب'' کی مثال یہ ہے : وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا وَکَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ۚ فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّہُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا کَنۡزَہُمَا حضرت خضرنے فرمایاکہ اس دیوار کے نیچے دو یتیموں کا خزانہ ہے او ران کا باپ نیک تھاپس تمہارے رب نے چاہاکہ یہ بالغ ہوں تو اپنا خزانہ نکالیں۔(پ16،الکھف:82 وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمۡ بِاِیۡمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰہُمۡ مِّنْ عَمَلِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اور جو ایمان لا ئے اوران کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہم نے ان کی اولاد ان سے ملادی اور ان کے عمل میں انہیں کچھ کمی نہ دی ۔(پ27،الطور:21 پہلی آیت سے معلوم ہو اکہ جس گرتی ہوئی دیوار کی مرمت حضرت خضر و موسیٰ علیہما السلام نے کی ۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اس کے نیچے خزانہ تھا جو ایک نیک آدمی کاتھا ۔ اس کے دو چھوٹے بچے تھے ، رب تعالیٰ نے چاہا کہ دیوار کھڑی رہے اور خزانہ محفوظ رہے تا کہ بچے جوان ہو کر نکال لیں ۔ اس لئے دو پیغمبر وں کو اس کی مرمت کے لئے بھیجا ، ان نابالغ یتیموں پر یہ مہربانی ان کے باپ کی نیکی کی وجہ سے ہوئی۔ دوسری آیت سے معلوم ہو اکہ نیکوں کی مومن اولاد جنت میں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہے گی اگرچہ اولا د کے اعمال باپ سے کم درجہ کے ہوں ۔ ایسے ہی نابالغ بچے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فرزندان حضرت طیب وطاہر وقاسم وابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہم جنت میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں گے حالانکہ کوئی نیکی نہ کی۔ معلوم ہوا کہ کسی کی نیکی دوسرے کے کام آجاتی ہے۔ اسی وجہ سے ایصال ثواب ، فاتحہ وغیرہ کرتے ہیں بلکہ حج بدل بھی دوسرے کی طر ف سے کرسکتے ہیں۔اور زکوۃ میں دوسرے کے نائب بن سکتے ہیں۔ قاعدہ نمبر ۲۲ کسی کا بوجھ اٹھانے کی صورتیں اور ان کی پہچان الف: جن آیتو ں میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت میں کوئی کسی کا بو جھ نہیں اٹھائے گا اس کامطلب ہے کہ بخوشی نہ اٹھائے گا یا اس طر ح نہ اٹھائے گا جس سے مجرم آزاد ہوجائے گا ۔ ب: جن آیتو ں میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت میں بعض لوگ بعض کابوجھ اٹھائیں گے اس کا مطلب یہ ہے کہ مجبوراً اٹھائیں گے یا یہ بھی اٹھائیں گے اور مجرم بھی یہ تو اٹھائیں گے گناہ کرانے کی وجہ سے اور مجرم بوجھ اٹھائے گا گناہ کرنے کی وجہ سے ۔ ''الف''کی مثال یہ آیت ہے وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیۡہَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی اور نہ کمائے گا کوئی نفس مگر اپنے ذمہ پر اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی ۔(پ8،الانعام:164 اِنْ اَحْسَنۡتُمْ اَحْسَنۡتُمْ لِاَنۡفُسِکُمْ ۟ وَ اِنْ اَسَاۡتُمْ فَلَہَا اگر تم بھلائی کرو گے تو اپنے لئے بھلائی کرو گے اور اگر بر اکروگے تو اپنا ۔(پ15، بنیۤ ا سرآء یل:7) مَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفْسِہٖ ۚ وَمَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا جو راہ پر آیا وہ اپنے ہی بھلے کو راہ پر آیا اور جو بہکا وہ اپنے ہی برے کوبہکا۔(پ15، بنیۤ اسرآء یل:15 (4) وَقَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوۡا سَبِیۡلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰیٰکُمْ ؕ وَمَا ہُمۡ بِحَامِلِیۡنَ مِنْ خَطٰیٰہُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۲ او رکافر مسلمانوں سے بولے ہماری راہ پر چلو اور ہم تمہارے گناہ اٹھالیں گے حالانکہ وہ ان کے گناہوں میں سے کچھ نہ اٹھائیں گے بے شک وہ جھوٹے ہیں۔(پ20،العنکبوت:12 لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمۡ مَّا کَسَبْتُمْ ۚ وَلَا تُسْـَٔلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعْمَلُوۡنَ ﴿۱۳۴ اس جماعت کے لئے وہ ہے جو وہ خود کماگئی تمہارے لئے تمہاری کمائی ہے اور تم ان کے اعمال سے نہ پوچھے جاؤگے ۔(پ1،البقرۃ:134 ان تمام آیتوں سے معلوم ہوا کہ کسی کی پکڑ دوسرے کی وجہ سے نہ ہوگی اورکوئی کسی کا نہ گناہ اٹھائے نہ نیکی سے فائدہ پائے بلکہ اپنی کرنی اپنی بھرنی ہے ۔ '' ب'' کی مثال یہ ہے وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَہُمْ وَاَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْ ۫ وَ لَیُسْـَٔلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوۡا یَفْتَرُوۡنَ ﴿٪۱۳ اوربے شک ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گے اوراپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ اور ضرور قیامت کے دن پوچھے جائیں گے جو کچھ بہتان اٹھاتے تھے۔(پ9،الانفال:25 یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ وَ اَہۡلِیۡکُمْ نَارًا وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ ۔ اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔(پ28،التحریم:6 وَاتَّقُوۡا فِتْنَۃً لَّا تُصِیۡبَنَّ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡکُمْ خَآصَّۃً ۚ وَاعْلَمُوۡۤا اَنَّ اللہَ شَدِیۡدُ الْعِقَابِ ﴿۲۵ اور اس فتنہ سے ڈرتے رہو جو ہرگز تم میں سے خاص ظالموں کو ہی نہ پہنچے گا ، اور جان لو کہ اللہ کاعذاب سخت ہے ۔ وَلَا تَکُوۡنُوۡۤا اَوَّلَ کَافِرٍۭ بِہٖ تم قرآن کے پہلے کافر نہ بنو۔(پ1،البقرۃ:41 ان آیات سے معلوم ہو اکہ قیامت میں بعض گنہگار دوسرے مجرموں کا بھی بوجھ اٹھائیں گے اوریہ بھی پتا لگا کہ بعض کے گناہوں کی وجہ سے دنیا میں بھی دوسروں پر مصیبت آجاتی ہے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنی نجات کے لئے اپنے گھر والوں کو ہدایت دینا ضروری ہے۔ مطابقت اسی طر ح ہوگی جو ہم نے عرض کردیا کہ بخوشی کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور کوئی دوسرے کا بوجھ اس طر ح نہ اٹھائے گا کہ اصلی مجرم بالکل آزاد ہوجائے ہاں گمراہ کرانے والا بری باتوں کا موجد سارے مجرموں کا بوجھ اٹھائے گا یہ ضرور خیال رکھنا چاہیے ۔
  14. وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ یا اللہ عزوجل پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھ اور دشمنانِ اسلام کے منصوبے خاک میں ملا دے۔ آمین بجاہِ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  15. حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بارگاہ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہاکا بیان ہے کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کے بعد بعض لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو شہدا ء کے درمیان دفن کردیں اور بعض کہتے تھے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو جنت البقیع میں دفن کیا جائے۔ میں نے کہامیں تو انھیں اپنے حجرے میں اپنے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے پاس دفن کروں گی۔ ابھی ہم اس اختلاف میں تھے کہ مجھ پر نیند غالب آگئی میں نے کسی کو یہ کہتے سنا کہ محبوب کو محبوب کی طرف لے آؤ۔ جب میں بیدار ہوئی تو پتا چلا کہ تما م حاضرین نے اس آواز کو سن لیا تھایہاں تک کہ مسجد میں موجودلوگوں نے بھی اس آواز کو گوش ہوش سے سُنا۔ وفات سے پہلے سید نا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے تابوت (جنازہ)کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے روضہ انور کے پاس لاکر رکھ دینا اور السلام علیک یارسول اللہ کہہ کر عرض کرنا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم !ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے آستانہ عالیہ پر حاضر ہواہے۔ اگر اجازت ہوئی تو دروازہ کھل جائے گااور مجھے اندرلے جاناورنہ جنت البقیع میں دفن کردینا ۔راوی کا بیان ہے کہ جب حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی وصیت پر عمل کیا گیا تو ابھی وہ کلمات پایہ اختتام کو نہ پہنچے تھے کہ پردہ اٹھ گیا۔ اور آواز آئی کہ:''حبیب کو حبیب کی طرف لے آؤ''۔ (شواہد النبوۃ،رکن سادس،ص۲۰۰) جائے غور ہے کہ اگر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو زندہ نہ جانتے تو ہر گز ایسی وصیت نہ فرماتے کہ روضۂ اقدس کے سامنے میر ا جنازہ رکھ کر اجازت طلب کی جائے۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وصیت کی اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اسے عملی جامہ پہنا یا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کاعقیدہ تھا کہ رسول اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم بعد وصال بھی قبر انور میں زندہ اور صاحب اختیار و تصرف ہیں۔الحمد للہ عزوجل سلام سے دروازہ کھل گیا جب حضرت امیرالمؤمنین ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقدس جنازہ لے کر لوگ حجرہ منورہ کے پاس پہنچے تو لوگوں نے عرض کیا کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ ھٰذَا اَبُوْ بَکْرٍ یہ عرض کرتے ہی روضہ منورہ کا بند دروازہ یک دم خود بخود کھل گیا اور تمام حاضرین نے قبر انور سے یہ غیبی آواز سنی : اَدْخِلُوا الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ (یعنی حبیب کو حبیب کے دربار میں داخل کردو۔ (التفسیر الکبیر للرازی ، سورۃ الکھف ، تحت الایۃ : ۹-۱۲، ج۷ ، ص۴۳۳)(تفسیر کبیر،ج۵،ص۴۷۸)
  16. جزاک اللہ خیرا خاکسار بھائی اور مغل بھائی خاکسار بھائی مینے اسلامی محفل پر وڈیو اپلوڈ کرنے کے بارے میں پوچھا تھا ، وہ اب مغل بھائی نے بتا دیا۔
  17. Ameer-E-AhleSunnat Ba-Hesiyat-e-Aalim-e-Deen Taweel Arsey se kuch jaahil o fitnabaaz log ulamaa ki tauheen ker rahe hain aur ulama k mutaliq ye aitrazaat kerte hain k:: 1) fulaan AALIM kabhi madrse me nahi parhne gaya... 2) fulaan aalim ki sanad dikhaao to maanenge 3) agr nahi to hum usko AAliM nahi maan sakte ye wo aitrazaat hain jo chand chhutey huey badmaash jaga jaga kerte hain aur apni is jahalat ki aar me ulamaa ki tauheen ko jaaez samajhte hain, halaan ke agr inse poocha jaaey k AALIM honey k lye madrse jaaney ki shart tumhe kis ne bataai? aur kya ye usool agr tumhara maan liya jaaey to kya humey her aalim ko aalim maan'ne k lye uski sanad talab ker k check kerni paregi ya uska ilm o amal jaancha jaaega? to isper hazraat baghlen jhaankne lagte hain ....ye post aisay hi logon k lye taaziyana hai aur apne nafs k peeche chal rahe hain aur ulamaa o auliya o sadaat ki tauheen ker k shetaan k sachey shagird honey ka saboot dete hain....aisay kam bakhton k in jahilana aitrazaat ka jawaab buht pehle hi Aala hazrat Aleih rehma aur mufti jalaluddin amjadi sahab RehmatUllah Alaih de chukey hain......umeed kerta hun k aakhirat ki fikr rakhne waley aainda aisi jahilana herkaat o aitrazaat nahi karenge... Aql ko Tanqeed Se Fursat Nahi:::: Ishq Per Aimaal Ki Bunyaad Rakh::: استادِامیراہلسنت کا اپنے شاگردکے بارے تاثر امیرِ اہلسنّت کا ذریعہ تعلیم تعلیم کے مروجہ ذرائع امیرِ اھلسنّت دامت برکاتھم العالیہ کون ؟؟ علماء کی تذلیل وتحقیرکرنا کیساہے ؟
  18. السلام علیکم ورحمت اللہ وبراکتہ اسلامی محفل پر کتابیں اور وڈیو نعت اپ لوڈ کرنے کا طریقہ کار کیا ہے ؟
  19. بیشک شیعہ کافر ہیں رافضی تبرائی جو حضرات شیخین صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہما خواہ اُن میں سے ایک کی شان پاک میں گستاخی کرے اگرچہ صرف اس قدرکہ انھیں امام و خلیفہ بر حق نہ مانے۔ کتب معتمدہ فقہ حنفی کی تصریحات اور عامہ ائمہ ترجیح و فتوٰی کی تصحیحات پر مطلقاً کافر ہے۔ درمختار مطبوعہ مطبع ہاشمی صفحہ۶۴ میں ہے:ان انکربعض ما علم من الدین ضرورۃ کفربھا کقولہ ان اﷲ تعالٰی جسم کالاجسام وانکارہ صحبۃالصدیق۔۲؎اگر ضروریاتِ دین سے کسی چیز کا منکر ہو تو کافر ہے مثلاً یہ کہنا کہ اللہ تعالٰی اجسام کے مانند جسم ہے یا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی صحا بیت کا منکر ہونا۔ (۲؎ درمختار باب الامامۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۸۳) طحطاوی حاشیہ در مطبوعہ مصر جلد اول ص ۲۴۴ میں ہے:وکذاخلا فتہ ۳؎ (اور ایسے ہی آپ کی خلافت کا انکار کرنابھی کفر ہے۔ (۳؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار باب الامامۃ دارالمعرفۃ بیروت ۱/ ۲۴۴) فتاوٰی خلاصہ قلمی کتاب الصلوۃ فصل ۱۵ اور خزانۃ المفتین قلمی کتاب الصلوۃ فصل فی من یصح الا قتداء بہ ومن لا یصح میں ہے:الرافضی ان فضل علیا علی غیرہ فھومبتدع ولوانکرخلافۃ الصدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ فھوکافر۔۴؎رافضی اگر مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کو سب صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے افضل جانے تو بدعتی گمراہ ہے اور اگر خلافتِ صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا منکر ہو تو کافر ہے۔ (۴؎خزانۃ المفتین کتاب الصلوۃ فصل من یصح الاقتداء بہ ومن لا یصح قلمی ۱/ ۲۸) فتح القدیر شرح ہدایہ مطبع مصر جلد اول ص ۲۴۸ اور حاشیہ تبیین العلامہ احمد شلبی مطبوعہ مصر جلد اول ص۱۳۵میں ہے:فی الرافض من فضل علیاعلی الثلا ثۃ فمبتدع وان انکرخلافۃ الصدیق اوعمررضی اﷲعنھما فھوکافر۔۱؎رافضیوں میں جو شخص مولٰی علی کو خلفاء ثلاثہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے افضل کہے گمراہ ہے اور اگر صدیق یافاروق رضی اللہ تعالٰی عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو کافرہے۔ (۱؎ حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق کتاب الصلوۃ باب الامامۃ والحدث فی الصلوۃ المطبعۃ الکبری الا میر یہ مصر ۱/ ۱۳۵) وجیزامام کردری مطبوعہ مصر جلد ۳ ص ۳۱۸ میں ہے:من انکرخلا فۃ ابی بکر رضی اﷲ تعالٰی عنہ فھو کافرفی الصحیح ومن انکر خلافۃ عمر رضی اللہ تعالی عنہ فھو کافر فی الاصح ۔ ۲؎خلافتِ ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا منکر کافرہے، یہی صحیح ہے، اور خلافتِ عمر فاروق رضی اللہ رتعالٰی عنہ کا منکر بھی کافر ہے، یہی صحیح تر ہے، (۲؎ فتاوٰ ی بزازیہ علی ہامش فتاوی ہندیہ نوع فیما یتصل بہا مما یجب اکفارہ من اہل البدع نورانی کتب خانہ پشاور ۶/ ۳۱۸) تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق مطبوعہ مصر جلد اول ص ۱۳۴ میں ہے قال المرغینانی تجوز الصلوۃ خلف صاحب ھوی و بد عۃ ولا تجوز خلف الرافضی والجھمی و القدری والمشبہ ومن یقول بخلق القراٰن، حاصلہ ان کان ھوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز مع الکراھۃ والا فلا۔ ۳؎امام مرغینانی نے فرمایا بد مذہب بد عتی کے پیچھے نماز ادا ہو جائیگی اور رافضی ، جہمی، قدری ، تشبہی کے پیچھے ہوگی ہی نہیں، اور اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر اُ س بد مذہبی کے باعث وُہ کافر نہ ہو تو نماز اُس کے پیچھے کراہت کے ساتھ ہو جائے گی ورنہ نہیں۔ (۳؎ تبیین الحقائق کتاب الصلوۃ باب الامامۃ والحدث فی الصلوۃ المطبعۃ الکبری الامیر یہ مصر ۱/ ۱۳۴) فتاوٰی عالمگیر یہ مطبوعہ مصر جلد اول ص ۸۴ میں اس عبارت کے بعد ہے ھکدافی التبیین والخلاصۃ وھو الصحیح ھکذافی البدائع۔ایساہی تبیین الحقائق و خلاصہ میں ہے اور یہی صحیح ہے ایسا ہی بدائع میں ہے۔ اُسی کی جلد۳ صفحہ ۲۶۴ اور بزازیہ جلد ۳ صفحہ۳۱۹ اور الاشباہ قلمی فن ثانی کتاب السیر اور اتحاف الابصار والبصائر مطبوعہ مصر صفحہ ۱۸۷ اور فتاوی انقرویہ مطبوعہ مصر جلد اول ص ۲۵ اور واقعات المفتین مطبوعہ مصر ص۱۳ سب میں فتاوٰی خلاصہ سے ہے:االرافضی ان کان یسب الشیخین و یلعنھما والعیاذ باﷲ تعالٰی فھو کافر وان کان یفضل علیا کرم اﷲتعالٰی وجہہ علیھما فھو مبتدع۔ ۱؎رافضی تبرائی جو حضرات شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہما کو معاذ اللہ بُرا کہے کافر ہے، اور اگر مولا علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کو صدیق اکبر اور عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی سے افضل بتائے تو کافر نہ ہوگا مگر گمراہ ہے۔ (۱؎ فتاوٰی بزازیہ علی ھامش فتاوٰی ہندیۃ نوع فیما یتصل بہا نورانی کتب خانہ پشاور ۶/ ۳۱۹) اُسی کے صفحہ مذکورہ اور بر جندی شرح نقایہ مطبوعہ لکھنؤ جلد ۴ص ۲۱ میں فتاوٰی ظہیریہ سے ہے:من انکر امامۃ ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ فھو کافر وعلی قول بعضھم ھو مبتدع ولیس بکافر والصحیح انہ کافر و کذٰلک من انکر خلافۃ عمر رضی اﷲتعالٰی عنہ فی اصح الاقوال۔ ۲؎امامت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کا منکر کافر ہے، اور بعض نے کہا بد مذہب ہے کافر نہیں، اور صحیح یہ ہے کہ وُہ کافر ہے، اسی طرح خلافت فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا منکر بھی صحیح قول پر کافر ہے۔ (۲؎ بر جندی شرح نقایہ کتاب الشہادۃ فصل یقبل الشہادۃ من اہل الھواء نو لکشور لکھنؤ ۴/ ۲۰،۲۱) وہیں فتاوٰ ی بزازیہ سے ہے:ویجب اکفارھم باکفار عثمان و علی وطلحۃ و زبیر و عائشۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔ ۳؎رافضیوں، ناصبیوں اور خارجیوں کا کافر کہنا واجب ہے اس سبب سے کہ وہ امیرالمومنین عثمان و مولی علی و حضرت طلحہ و حضرت زبیر و حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کو کافرکہتے ہیں۔ (۳؎ فتاوٰی بزازیہ علی ھامش فتاوٰی ہندیۃ نوع فیمایتصل بہا مما یجب اکفارہ الخ نورانی کتب خانہ پشاور۶/ ۳۱۸) بحرالرائق مطبوعہ مصر جلد ۵ ص ۱۳۱ میں ہے:یکفر بانکارہ امامۃ ابی بکر رضی اﷲ تعالٰی عنہ علی الا صح کا نکارہ خلافۃ عمر رضی اﷲتعالٰی عنہ علی الاصح۔۴؎اصح یہ ہے کہ ابو بکر یا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی امامت و خلافت کا منکر کافرہے۔ (۴؎ بحرالرائق باب احکام المرتدین ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۵/ ۱۲۱) مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر مطبوعہ قسطنطنیہ جلد اول ص ۱۰۵ میں ہے:الرافضی ان فضل علیا فھو مبتدع وان انکر خلافۃ الصدیق فھو کافر۔ ۵؎رافضی اگر صرف تفضیلیہ ہو تو بد مذہب ہے اور اگر خلافتِ صدیق کا منکر ہو تو کافر ہے۔ (۵؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر کتاب الصلٰوۃ فصل الجماعۃ سنۃ موکدۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۱۰۸) اُسی کے صفحہ ۱۳۶ میں ہے:یکفر بانکار ہ صاحبۃ ابی بکر رضی اﷲتعالٰی عنہ وبانکارہ امامتہ علی الاصح وبانکارہ صحبۃ عمر رضی اﷲتعالٰی عنہ علی الاصح۔ ۱؎جو شخص ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی صحابیت کا منکر ہو کافر ہے۔ یُونہی جو اُن کے امامِ برحق ہونے کاانکار کرنے مذہب اصح میں کافر ہے، یونہی عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی صحابیت کا انکار قول اصح پرکفر ہے۔ (۱؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر باب المرتد فصل ان الفاظ الکفر انواع داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۶۹۲) غنیہ شرح منیہ مطبوعہ قسطنطنیہ ص ۵۱۴ میں ہے:المر ادبالمبتدع من یعتقدشیئا علی خلاف مایعتقدہ اھل السنۃ والجماعۃ وانما یجوز الاقتداء بہ مع الکراھۃ اذالم یکن ما یعتقدہ یؤدی الی الکفر عنداھل السنۃ اما لوکان مؤدیا الی الکفر فلا یجوزاصلا کا لغلاۃ من الروافض الذین ید عون الالوھیۃ لعلی رضی اﷲتعالٰی اوان النبوۃ کانت لہ فغلط جبریل و نحو ذٰلک مما ھو کفر و کذامن یقذف الصدیقۃ اوینکر صحبۃ الصدیق اوخلافتہ اویسب الشیخین۔ ۲؎بد مذہب سے وُہ مراد ہے جو کسی بات کا اہلسنت و جماعت کے خلاف عقیدہ رکھتا ہو ، اور اس کی اقتداء کراہت کے ساتھ اُس حال میں جائز ہے جب اُس کا عقیدہ اہلسنت کے نزدیک کفر تک نہ پہنچا تاہو، اگر کفر تک پہنچائے تو اصلاً جائز نہیں، جیسے غالی رافضی کہ مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کو خدا کہتے ہیں، یا یہ کہ نبوت ان کے لئے تھی جبریل نے غلطی کی۔اور اسی قسم کی اور باتیں کہ کفر ہیں، اور یونہی جو حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو معاذ اللہ اس تہمت ملعونہ کی طرف نسبت کرے یا صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی صحابیت یا خلافت کا انکار کرے یا شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہما کو بُراکہے۔ (۲؎ غنیہ المستملی فصل الاولی بالا مامۃ سہیل اکیڈیمی لاہور ص ۵۱۵) کفایہ شرح ہدایہ مطبع بمبئ جلد اول اور مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق مطبع احمدی ص ۳۲ میں ہے:ان کان ھوا ہ یکفر اھلہ کالجھمی و القدری الذی قال بخلق القراٰن والرافضی لغالی الذی ینکر خلافۃ ابی بکر رضی اﷲتعالٰی عنہ لا تجوز الصلٰوۃ خلفہ۔ ۳؎بد مذہبی اگر کافر کر دے جیسے جہمی اور قدری کہ قرآن کو مخلوق کہے ، اور رافضی غالی کہ خلافت صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا انکار کرے اُس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ (۳؎ مستخلص الحقائق باب فی بیان احکام الامامۃ مطبع کانشی رام برورکس لاہور ۱/ ۲۰۲) (الکفایۃ مع فتح القدیر باب الامامۃ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۳۰۵) شرح کنز للملا مسکین مطبع مصر جلد اول ص۲۰۸ علی ہامش فتح المعین میں ہے :فی الخلاصۃ یصح الاقتداء باھل الاھواء الاالجہمیۃ والجبریۃ والقدریۃ والرافضی الغالی ومن یقول بخلق القراٰن والمشبہ ، وجملتاہ ان من کان من اھل قبلتنا ولم یغل فی ھواہ حتی لم یحکم بکونہ کافراتجوزالصلوۃ خلفہ وتکر ہ واراد بالرافضی الغالی الذی ینکر خلافۃ ابی بکر رضی اﷲتعالٰی عنہ۔۱؎خلاصہ میں ہے بد مذہبوں کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے سوائے جہمیہ و جبریہ و قدریہ و رافضی غالی قائل خلق قرآن و مشبہ کے اور حاصل یہ کہ اہل قبلہ سے جو اپنی بدمذہبی میں غالی نہ ہو یہاں تک کہ اُسے کافر نہ کہاجائے اُ س کے پیچھے نماز بکراہت جائزہے۔ اور رافضی غالی سے وہ مراد ہے جو صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت کا منکر ہو۔ (۱؎ شرح کنز للملا مسکین علی ہامش فتح المعین باب الامامۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/ ۲۰۸) طحطاوی علی مرقی الفلاح مطبع مصر ۱۹۸ میں ہے: ان انکر خلافۃ الصدیق کفر و الحق فی الفتح عمر بالصدیق فی ھذا الحکم والحق فی البرھان عثمان بھما ایضا ولا تجوز الصلوۃ خلف منکر المسح علی الخفین او صحبۃ الصدیق ومن یسب الشیخین اویقذف الصدیقۃ ولا خلف من انکر بعض ماعلم من الدین ضرورۃ لکفرہ ولا یلتف الٰی تاویلہ و اجتھادہ۲؎یعنی خلافتِ صدیق رضی اللہ تعالٰی کا منکر کافرہے اور فتح القدیر میں فرمایا کہ خلافتِ فاروق رضی اللہ تعالٰی کا منکر بھی کفر ہے، اور برہان شرح مواہب الرحمن میں فرمایا خلافت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کا منکر بھی کافر ہے اور نماز اس کے پیچھے جائز نہیں جو مسحِ موزہ یا صحابیتِ صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا منکر ہو یا شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہما کو بُرا کہے یاصدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا پر تہمت رکھے، اور نہ اس کے پیچھے جو ضروریات دین سے کسی شے کا منکر ہو کہ وہ کافر ہے اور اُس کی تاویل کی طرف التفات نہ ہوگا نہ اس جانب کہ اس نے رائے کی غلطی سے ایسا کہا۔ (۲؎ طحطاوی علی مراقی الفلاح باب الا مامۃ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص۱۶۵) نظم الفرائد منظومہ علامہ ابن وہبان مطبوعہ مصر ہامش مجیبہ ص ۴۰ اور نسخہ قدیمہ قلمیہ مع الشرح فصل من کتاب السیر میں ہے:؎ومن لعن الشیخین اوسب کافر ومن قال فی الاید ی الجوارح اکفر وصحح تکفیرمنکرخلافت ال عتیق فی الفاروق ذٰلک الاظھر ۳؎جو شخص حضرات شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہما پر تبرابکے یا بُرا کہے کافر ہے ، اور جو کہے ید اللہ سے ہاتھ مراد ہے وُہ اس سے بڑھ کر کافر ہے اور خلافتِ صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے انکار میں قول مصحح تکفیر ہے اور یہی دربارہ انکار خلافتِ فاروق رضی اللہ تعالٰی اظہرہے۔ (۳؂نظم الفرائد منظومہ علامہ ابن وہبان) تیسیر المقاصد شرح وہبانیہ للعلا مہ الشر نبلالی قلمی کتاب السیر میں ہے:الرافضی اذاسب ابا بکر و عمر رضی اﷲتعالٰی عنھما ولعنھما یکون کافر اوان فضل علیھما علیالا یکفر و ھو مبتدع۔۱؎رافضی اگر شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہما کو بُرا کہے یا اُن پر تبرابکے کافر ہو جائے، اور اگر مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کو اُن سے افضل کہے کافر نہیں گمراہ بد مذہب ہے۔ (۱؎ تیسیر المقاصد شرح وہبانیہ للشرنبلالی) اسی میں وہیں ہے۔من انکر خلافۃ ابی بکرالصدیق فھو کافر فی الصحیح وکذامنکر خلافۃ ابی حفص عمر ابن الخطاب رضی اﷲتعالٰی عنہ فی الاظھر۔ ۲؎خلافتِ صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا منکر مذہب صحیح پر کافر ہے ، اور ایسا ہی قولِ اظہر میں خلافتِ فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا منکر بھی۔ (۲؎تیسیر المقاصد شرح وہبانیہ للشرنبلالی) فتوی علامہ نوح آفندی ، پھر مجموعہ شیخ الاسلام عبید اللہ آفندی، پھر مغنی المستفتی عن سوال المفتی، پھر عقودالدریۃ مطبع مصر جلد اول ص ۹۲ ، ۹۳ میں ہے:الروافض کفرۃ جمعوا بین اصناف الکفر منھا انھم یسبون الشیخین سوداﷲ وجوھھم فی الدارین فمن اتصف بواحد من ھذہ الامور فھو کافر ملتقطا ۔ ۳؎رافضی کافر ہیں طرح طرح کے کفر وں کے مجمع میں ازانجملہ خلافت شیخین کا انکار کرتے ہیں ازانجملہ شیخین کو بُرا کہتے ہیں: اللہ تعالٰی دونوں جہان میں رافضیوں کا منہ کالا کرے ، جو ان میں کسی بات سے متصف ہو کافرہے۔ ملتقطا۔ (۳؎ عقودالدریۃ باب الردۃ والتعزیر ارگ بازار قندھار افغانستان ۱/۴، ۱۰۳) اُنھیں میں ہے:اماسب الشیخین رضی اﷲ تعالٰی عنہما فانہ کسب النبی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم وقال اصدر الشہیدمن سب الشیخین اولعنھما یکفر ۔ ۱؎شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہما کو بُراکہنا ایسا ہے جیسے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنا ، اور امام صدر شہید نے فرمایا:جو شیخین کو بُرا کہے یا تبرابکے کافر ہے۔ (۱؎ عقو دالدریۃ باب الردۃ والتعزیر ارگ بازار قندھار افغانستان ۱/ ۱۰۴) عقووالدریہ میں بعد نقل فتوٰی مذکورہ ہے:وقد اکثر مشانخ الاسلام من علماء الدولۃ العثمانیۃ لا زالت مؤید ۃ بالنصرۃ العلیۃ الافتاء فی شان الشیعۃ المذکورین وقد اشبع الکلام فی ذٰلک کثیر منھم والّفوافیہ الرسائل وممن افتی بنحوذٰلک فیھم المحقق المفسر ابوا السعود اٰفندی العما دی و نقل عبارتہ العلامۃ الکواکبی الحلبی فی شرحہ علی منظومتہ الفقھیۃ المسماۃ بالفرائد السنیۃ۔ ۲؎علمائے دولتِ عثمانیہ کہ ہمیشہ نصرت الٰہی سے موید رہے، اُن سے جو اکابر شیخ الاسلام ہوئے انھوں نے شیعہ کے باب میں کثرت سے فتوے دئے ، بہت نے طویل بیان لکھے اور اس بارے میں رسالے تصنیف کئے، اور انھیں میں سےجنھوں نے روافض کے کفر و ارتداد کا فتوٰی دیا ۔ محقق مفسر ابو سعود آفندی عمادی (سردار مفتیان دولت علیہ عثمانیہ ) ہیں اور اُس کی عبارت علامہ کو اکبی حلبی نے اپنے منظومہ فقہیہ مسمی بہ فرائد سنیہ کی شرح میں نقل کی۔ (۲؎عقو دالدریۃ باب الردۃ والتعزیر ارگ بازار قندھار افغانستان ۱/ ۱۰۵) اشباہ قلمی فن ثانی باب الرواۃ اور اتحاف ص ۱۸۷ اور انقروی جلد اول ص ۲۵ اور واقعات المفتین ص ۱۳ سب میں مناقب کردری سے ہے:یکفر اذا انکر خلاتھما او یبغضھمالمحبۃ النبی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم لھما۔ ۳؎جو خلافت شیخین کا انکار کرے یا اُن سے بغض رکھے کافر ہے کہ وُہ تو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے محبوب ہیں۔ (۳؎ واقعات المفتین کتاب السیر دائرہ معارف اسلامیہ ، بلوچستان ص ۱۳) بلکہ بہت اکابر نے تصریح فرمائی کہ رافضی تبرائی ایسےکافر ہیں جن کی تو بہ بھی قبول نہیں تنویر الابصار متن درمختار مطبع ہاشمی ص ۳۱۹ میں ہے:کل مسلم ارتد فتو بتہ مقبولۃ الا الکافر بسب النبی اوالشیخین او احدھما۔ ۱؎ہر مرتد کی توبہ قبول ہے مگر وہ جو کسی نبی یا حضرات الشیخین یا ان میں ایک کی شان میں گستاخی سے کافر ہو۔ (۱؎ درمختار کتاب الجہاد باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۵۷ ۔ ۳۵۶)
  20. مرزا غلام احمد قادیانی انبیائے کرام علیہم السلام کی شان میں نہایت بیباکی کے ساتھ گستاخیاں کیں ہیں ، خصوصاً حضرت عیسیٰ روح اﷲ وکلمۃاﷲ علیہ الصلاۃ والسلام اور ان کی والدہ ماجدہ طیِّبہ طاہرہ صدیقہ مریم کی شانِ جلیل میں تو وہ بیہودہ کلمات استعمال کیے، جن کے ذکر سے مسلمانوں کے دل ہِل جاتے ہیں، مگر ضرورتِ زمانہ مجبور کر رہی ہے کہ لوگوں کے سامنے اُن میں کے چندبطور نمونہ ذکر کیے جائیں، خود مدّعی نبوت بننا کافر ہونے اور ابد الآباد جہنم میں رہنے کے لیے کافی تھا، کہ قرآنِ مجید کا انکار اور حضور خاتم النبیین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہ ماننا ہے، مگر اُس نے اتنی ہی بات پر اکتفا نہ کیا بلکہ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی تکذیب و توہین کا وبال بھی اپنے سَر لیا اور یہ صدہا کفر کا مجموعہ ہے، کہ ہر نبی کی تکذیب مستقلاً کفر ہے، اگرچہ باقی انبیا و دیگر ضروریات کا قائل بنتا ہو، بلکہ کسی ایک نبی کی تکذیب سب کی تکذیب ہے ، چنانچہ آیہ (کَذَّبَتْ قَوْمُ نُوۡحِۣ الْمُرْسَلِیۡنَ ﴿۱۰۵﴾ ــپ۱۹، الشعرآء ۱۰۵ وغیرہ اس کی شاہد ہیں اور اُس نے تو صدہا کی تکذیب کی اور اپنے کو نبی سے بہتر بتایا۔ ایسے شخص اور اس کے متّبِعین کے کافر ہونے میں مسلمانوں کو ہرگز شک نہیں ہوسکتا، بلکہ ایسے کی تکفیر میں اس کے اقوال پر مطلع ہو کر جو شک کرے خود کافر۔ (في'' الد رالمختار'' ، کتاب الجھاد ، باب المرتد ، ج۶، ص۳۵۶ ۔ ۳۵۷ : ( ومن شک في عذ ابہ وکفرہ کفر اب اُس کے اقوال سُنیے (نوٹ: قادیانی شیطان کی تقریباً۸۰ اَسّی سے زائد کتابیں ہیں ، جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں: '' انجامِ آتھم''، ''ضمیمہ اَنجامِ آتھم'' ، ''کشتیئ نوح'' ، ''اِزالہ اَوہام''، '' دافع البلاء ومعیار اھل الاصطفائ''، ''اربعین'' اور ''براہین اَحمدیہ'' وغیرہا ، ''روحانی خزائن '' نامی کتاب میں ان کتابوں کو ۲۳ تیئس حصوں میں جمع کیا گیا ہے ۔ نیز اس شیطان کے کئی اشتہارات ہیں جو تین۳ حصوں میں جمع کئے گئے ہیں، اور مغلظات بھی ہیں ، جنہیں۱۰د س حصوں میں ''ملفوظات'' کے نام سے جمع کیا گیا ہے ۔ اِزالہ اَوہام'' صفحہ ۵۳۳: (خدا تعالیٰ نے ''براہین احمدیہ'' میں اس عاجز کا نام امّتی بھی رکھا اور نبی بھی)۔ (''اِزالہ اَوہام'' صفحہ ۵۳۳، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۳، ص ۳۸۶ انجام آتھم'' صفحہ ۵۲ میں ہے: (اے احمد! تیرا نام پورا ہو جائے گا قبل اس کے جو میرا نام پورا ہو)۔ (''انجام آتھم'' صفحہ ۵۲ ، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۱۱، ص۵۲ صفحہ ۵۵ میں ہے: (تجھے خوشخبری ہو اے احمد! تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے)۔('انجام آتھم'' صفحہ ۵۵ ، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۱۱، ص۵۵ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں جو آیتیں تھیں انہیں اپنے اوپر جَما لیا۔ ''انجام '' صفحہ ۷۸ میں کہتا ہے (وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾ ــپ۱۷، الانبیآء : ۱۰۷ تجھ کو تمام جہان کی رحمت کے واسطے روانہ کیا۔ (''انجام آتھم'' صفحہ ۷۸ ، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۱۱، ص۷۸) نیز یہ آیہ کریمہ (وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعْدِی اسْمُہٗۤ اَحْمَدُ ؕ)ـپ۲۸، الصف ۶ـ سے اپنی ذات مراد لیتا ہے۔ روحاني خزائن''، ج۱۱، ص۷۸. و''توضیح المرام''، ص۱۶۳، مطبوعہ ریاض الہند امرتسر دافع البلاء'' صفحہ ۶ میں ہے: مجھ کو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے (أَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَۃِ أَوْلاَدِيْ أَنْتَ مِنِّي وَأنَا مِنْکَ) یعنی اے غلام احمد! تو میری اولاد کی جگہ ہے تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں۔ (''دافع البلاء'' صفحہ ۶، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۱۸، ص۲۲۷) اِزالہ اَوہام'' صفحہ ۶۸۸ میں ہے حضرت رسُولِ خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اِلہام و وحی غلط نکلی تھیں۔ (''اِزالہ اَوہام'' صفحہ ۶۸۸، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۳، ص۴۷۱) صفحہ ۸ میں ہے حضرت مُوسیٰ کی پیش گوئیاں بھی اُس صورت پرظہور پذیر نہیں ہوئیں ، جس صورت پر حضرت مُوسیٰ نے اپنے دل میں اُمید باندھی تھی، غایت ما فی الباب(اس بارے میں نتیجہ اور انتہاء) یہ ہے کہ حضرت مسیح کی پیش گوئیاں زیادہ غلط نکلیں۔ (''اِزالہ اَوہام'' صفحہ ۸، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۳، ص۱۰۶ اِزالہ اَوہام'' صفحہ ۷۵۰ میں ہے سورہ بقر میں جو ایک قتل کا ذکر ہے کہ گائے کی بوٹیاں نعش پر مارنے سے وہ مقتول زندہ ہوگیا تھا اور اپنے قاتل کا پتا دے دیا تھا، یہ محض موسیٰ علیہ السلام کی دھمکی تھی اور علمِ مِسمریزم تھا۔ ( مِسمِریزم: ڈاکٹر مسمر باشندہ آسٹریا کا ایجاد کیا ہوا ایک علم جس میں تصور یا خیال کا اثر دوسرے کے دل پر ڈال کر پوشیدہ اور آئندہ کے حالات پوچھے جاتے ہیں. ''فیروز اللغات''، ص۱۲۴۷) ۔ (''اِزالہ اَوہام'' صفحہ ۷۵۰، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۳، ص۵۰۴ اُسی کے صفحہ ۷۵۳ میں لکھتا ہے حضرت اِبراہیم علیہ السلام کا چار پرندے کے معجزے کا ذکر جو قرآن شریف میں ہے، وہ بھی اُن کا مِسمریزم کا عمل تھا۔ (''اِزالہ اَوہام'' صفحہ ۷۵۳، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۳، ص۵۰۶) صفحہ ۶۲۹ میں ہے ایک باشاہ کے وقت میں چار سو نبی نے اُس کی فتح کے بارے میں پیشگوئی کی اور وہ جھوٹے نکلے، اور بادشاہ کو شکست ہوئی، بلکہ وہ اسی میدان میں مر گیا۔ (''اِزالہ اَوہام''، ۶۲۹، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج۳، ص ۴۳۹ اُسی کے صفحہ ۲۸، ۲۶ میں لکھتا ہے قرآن شریف میں گندی گالیاں بھری ہیں اور قرآنِ عظیم سخت زبانی کے طریق کو استعمال کر رہا ہے۔ ''اِزالہ اَوہام''، ۲۶۔۲۸، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج۳، ص ۱۱۵۔۱۱۶ اور اپنی ''براہینِ احمدیہ'' کی نسبت ''اِزالہ'' صفحہ ۵۳۳ میں لکھتا ہے براہینِ احمدیہ خدا کا کلام ہے۔ (''اِزالہ اَوہام'' صفحہ ۵۳۳، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۳، ص ۳۸۶) ''اَربعین'' نمبر ۲ صفحہ ۱۳ پر لکھا کامل مہدی نہ موسیٰ تھا نہ عیسیٰ۔ اِن اُولو العزم مرسَلین کا ہادی ہونا درکنار، پورے راہ یافتہ بھی نہ مانا۔ (''اَربعین'' نمبر ۲ ص۱۳ ، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۱۷، ص ۳۶۰) اب خاص حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی شان میں جو گستاخیاں کیں، اُن میں سے چند یہ ہیں۔ ''معیار'' صفحہ ۱۳ اے عیسائی مِشنریو! اب ربّنا المسیح مت کہو اور دیکھو کہ آج تم میں ایک ہے، جو اُس مسیح سے بڑھ کر ہے۔ (''معیار'' ص۱۳ ، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۱۸، ص۲۳۳۔ ) صفحہ ۱۳ و ۱۴ میں ہے خدا نے اِس امت میں سے مسیح موعود بھیجا، جو اُس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا، تایہ اِشارہ ہو کہ عیسائیوں کا مسیح کیسا خدا ہے جو احمد کے ادنیٰ غلام سے بھی مقابلہ نہیں کرسکتا یعنی وہ کیسا مسیح ہے، جو اپنے قرب اور شفاعت کے مرتبہ میں احمد کے غلام سے بھی کمتر ہے۔ (''معیار'' ص۱۳ ، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۱۸، ص۲۳۳۔ ۲۳۴) ''کشتی'' صفحہ ۱۳ میں ہے مثیلِ موسیٰ، موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیلِ ابنِ مریم، ابنِ مریم سے بڑھ کر۔ (''کشتی نوح'' ص۱۳ ، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۱۹، ص۱۴ نیز صفحہ ۱۶ میں ہے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ مسیحِ محمدی، مسیحِ مُوسوِی سے افضل ہے۔ (''کشتی نوح'' ص۱۶ ، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۱۹، ص۱۷) ''دافع البلاء'' صفحہ ۲۰ اب خدا بتلاتا ہے کہ دیکھو! میں اس کا ثانی پیدا کروں گا جو اُس سے بھی بہتر ہے، جو غلام احمد ہے یعنی احمد کا غلام ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو اُس سے بہتر غلام احمد ہے یہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں اور اگر تجربہ کی رو سے خدا کی تائید مسیح ابن مریم سے بڑھ کر میرے ساتھ نہ ہو تو میں جھوٹا ہوں۔ (''دافع البلاء'' صفحہ ۲۰، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۱۸، ص۲۴۰۔۲۴۱) ''دافع البلاء'' ص ۱۵ خدا تو، بہ پابندی اپنے وعدوں کے ہر چیز پر قادر ہے، لیکن ایسے شخص کو دوبارہ کسی طرح دنیا میں نہیں لاسکتا، جس کے پہلے فتنہ نے ہی دنیا کو تباہ کر دیا ہے۔ (''دافع البلاء'' صفحہ ۱۵، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۱۸، ص۲۳۵) ''انجام آتھم'' ص ۴۱ میں لکھتا ہے مریم کا بیٹا کُشلیا کے بیٹے سے کچھ زیادت نہیں رکھتا۔ (''اَنجام آتھم''، صفحہ ۱۵، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۱۱، ص۴۱) ''کشتی'' ص ۵۶ میں ہے مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کہ اگر مسیح ابنِ مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کلام جو میں کر سکتا ہوں، وہ ہر گز نہ کرسکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں، وہ ہر گز دِکھلا نہ سکتا۔ (''کشتیئ نوح'' ص۵۶ ، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۱۹، ص۶۰) ''اعجاز احمدی'' ص ۱۳ یہود تو حضرت عیسیٰ کے معاملہ میں اور ان کی پیشگوئیوں کے بارے میں ایسے قوی اعتراض رکھتے ہیں کہ ہم بھی جواب میں حیران ہیں، بغیر اس کے کہ یہ کہہ دیں کہ'' ضرور عیسیٰ نبی ہے، کیونکہ قرآن نے اُس کو نبی قرار دیا ہے اور کوئی دلیل اُن کی نبوت پر قائم نہیں ہوسکتی، بلکہ ابطالِ نبوت پر کئی دلائل قائم ہیں۔ (''اِعجاز احمدی'' ص۱۳، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۱۹، ص۱۲۰ اس کلام میں یہودیوں کے اعتراض، صحیح ہونا بتایا اور قرآن عظیم پر بھی ساتھ لگے یہ اعتراض جما دیا کہ قرآن ایسی بات کی تعلیم دے رہا ہے جس کے بُطلان پر دلیلیں قائم ہیں۔ ص ۱۴ میں ہے عیسائی تو اُن کی خدائی کو روتے ہیں، مگر یہاں نبوت بھی اُن کی ثابت نہیں۔ (''اِعجاز احمدی'' ص۱۳، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۱۹، ص۱۲۱) اُسی کتاب کے ص ۲۴ پر لکھا کبھی آپ کو شیطانی اِلہام بھی ہوتے تھے۔ (''اِعجاز احمدی'' ص۲۴، بحوالہ ''روحانی خزائن''، ج ۱۹، ص۱۳۳) مسلمانو! تمھیں معلوم ہے کہ شیطانی اِلہام کس کو ہوتا ہے؟ قرآن فرماتا ہے (تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیۡمٍ ﴿۲۲۲﴾ ـپ۱۹، الشعرآء: ۲۲۲ـ ''بڑے بہتان والے سخت گنہگار پر شیطان اُترتے ہیں۔''
  21. نزول عیسیٰ علیہ ا لسلام قرآن کی نظر میں اِذْ قَالَ اللہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَجَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوْقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیۡنَکُمْ فِیۡمَا کُنۡتُمْ فِیۡہِ تَخْتَلِفُوۡنَ ﴿55 ترجمہ کنزالایمان:۔ یاد کرو جب اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے پاک کر دوں گا اور تیرے پیروؤں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤ گے تو میں تم میں فیصلہ فرما دوں گا جس بات میں جھگڑتے ہو۔ (پ3،آل عمران:55 آیت میں (اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ ) فرمایا گیا، لفظ توفی “وفا” سے مشتق ہے، جس کے معنی پورا پورا لینے کے ہیں، انہی معنوں میں وفات کا لفظ موت کے لیے بھی اصطلاحاً مستعمل ہے کیونکہ موت انسان کے تمام تر علائق کا دنیا سے خاتمہ کردیتی ہے ۔لیکن قرآن کریم میں “توفی” کا لفظ کہیں بھی موت کے لیے استعمال نہیں ہوا، چنانچہ فرمایا گیا ( حتیٰ یتوفھنّٰ الموت ) یہاں موت اور توفی ایک ساتھ استعمال ہوئے ہیں، کیونکہ یہ دونوں لغوی اعتبار سے ہم معنی یا مترادف نہیں۔ “لغت عرب میں توفی کے معنی استیفاء پورا پورا لینے کے ہیں اور توفی کی تین قسمیں ہیں ایک توفی نوم یعنی نیند اور خواب کی توفی اور دوسری توفی موت کے وقت روح کو پورا پورا قبض کرلینا،تیسری توفی الروح والجسد یعنی روح اور جسم کو پورا پورا لے لینا۔” اس کے بعد فرمایا (رَافِعُكَ اِلَيَّ ) اس میں جو “رفع” ہے، وہ آیت کی تفسیر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے، قرآن کریم میں متعدد مقامات پر رفع بمعنی بلندیٔ درجات بھی آیا ہے۔ لیکن زیربحث آیت میں “رفع” کے ساتھ “الی” بھی شامل ہے، جس کا غالب قرینہ یہی ہے کہ ﷲ رب العزت نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا، اس کی تائید “تفسیر القرآن بالقرآن” کے اصول کے تحت قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے بھی ہوتی ہے۔ (وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا ١٥٧؀ۙ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا ١٥٨ )(سورة النسآء:١٥٧-١٥٨) آیت میں پہلے یہود ونصاریٰ کے” اتباع الظن” کی تردید کی گئی ہے اور یہ تردید “بل”کہہ کر کی گئی ہے، (وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا ١٥٧؀ۙ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ) کا ترجمہ اگر یہ کیا جائے کہ: “اور انہیں ہر گز قتل نہیں کیا گیا بلکہ اللہ نے اپنی طرف ان کا درجہ بلند کیا ہے۔ تو”بل” کا فائدہ ختم ہوجائے گااور معنوں میں ایک بے ربطی پیدا ہوگی۔ اس کے برعکس (وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا ١٥٧؀ۙ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ) کا ترجمہ :”اور انہیں ہر گز قتل نہیں کیا گیا بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا۔” مناسب ہے کیوں کہ یہ امر روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ بل رفعہ اللہ الیہ کی ضمیر اس طرف راجع ہے کہ جس طرف قتلوہ اور صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ قتلوہ اور صلبوہ کی ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم مبارک اور جسدِ مطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں۔ اس لیے کہ قتل کرنا اور صلیب پر چڑ ھانا جسم ہی کا ممکن ہے۔ روح کا قتل اور صلیب قطعاً ناممکن ہے۔ لہٰذا بل رفعہ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی جس جسم کی طرف قتلوہ اور صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں۔ منکرینِ نزول عیسیٰ علیہ السلام کو چاہیئے کہ وہ ( بل رفعہ اللہ الیہ ) کی صحیح تشریح فرمائیں وگرنہ اتباع حق کی پیروی اختیار کریں۔ وَ اِنۡ مِّنْ اَہۡلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ ۚ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوۡنُ عَلَیۡہِمْ شَہِیۡدًا ﴿-سورہ النساء-۱۵۹ اس آیت میں فرمایا گیا (کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اورقیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا ) ( وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ )(سورة الزخرف :٦١) ترجمہ : اور بیشک عیسٰی قیامت کی خبر ہے اس آیت میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ذات کو علامات قیامت میں سے فرمایا گیا ہے، بعض ارباب علم کے نزدیک اس میں حضرت مسیح علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن دنیا میں قدرت الٰہیہ سے معجزات کاصدور کچھ کم نہیں ہوا، معجزات کا صدور جب بھی ہوا ہے تو اس کی غرض وغایت اس کے سوا اور کیا تھی کہ مادہ پرست انسانوں کو ان کی عاجزی سے آگاہ کردیا جائے اور جتلا دیا جائے کہ ایک ایسی ہستی ہے جو کارخانۂ ہستی کوچلارہی ہے۔ طوفان نوح (علیہ السلام) کیا ایک معجزئہ عظیم نہ تھا؟ آتش نمرود میں سیدنا خلیل اللہ علیہ الصلوةٰ و السلام کا زندہ سلامت رہنا کیا ایک امر مستبعاد نہ تھا؟ قوم لوط (علیہ السلام) پر غیر معمولی عذابِ الٰہی کیا ایک غیر معمولی واقعہ نہ تھا؟ کیا سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا باذن الٰہی دریائے نیل کے شوریدہ پانیوں کو دوحصوں میں تقسیم کرنا، اس کے درمیان سے اپنی قوم کو صحیح سلامت گزار لینا اور فرعون و آل فرعون کا اس دریا میں غرق ہوجانا، انسانی عقل کے لیے اس کے عجز کا اظہار نہ تھا؟ پھر آخر کیا و جہ ہے کہ “الساعة” کے معنی میں صرف سیدنا مسیح علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کو علامت قیامت قرار دیاجائے؟ آخر کیوں سیدنا مسیح علیہ السلام کی مکمل ذات اور بالخصوص ان کے نزول کو مراد نہ لیا جائے؟ کیا اللہ غالب عزیز وحکیم نہیں ہے؟ أفلا یتدبرون۔ نزول عیسیٰ علیہ ا لسلام احادیث صحیحہ کی نظر میں قرآن کریم کے بعد احادیث صحیحہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ بکثرت احادیث میں”امارات الساعة” کے بیان میں نزول مسیح ابن مریم علیہما السلام کی روایات موجود ہیں۔ عام طور پر منکرین نزول عیسیٰ علیہ السلام یہ دجل و تلبیس دیتے ہیں کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام سے بابت احادیث کتب حدیث کے تیسرے درجے کی کتابوں میں مرقوم ہیںاور سب کی سب پائے ثقاہت سے گری ہوئی ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق احادیث تقریباً تمام معتبر کتب احادیث میں بکثرت مرقوم ہیں۔ “صحیح بخاری”میں نزول عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق چار احادیث ہیں: ١۔ باب قتل الخنزیر من کتاب البیوع ٢ ۔ باب کسر الصلیب من کتاب المظالم ٣ ۔ باب نزول عیسیٰ بن مریم علیھما السلام من کتاب أحادیث الأنبیائمیں دو حدیثیں ہیں۔ صحیح مسلم میں کتاب الایمان اور کتاب الفتن و اشراط الساعة میں متعد د احادیث نزول مسیح علیہ السلام موجود ہیں۔ سنن أبی دائود میں کتاب الملاحم کے مختلف ابواب میں احادیث نزول مسیح ابن مریم موجود ہیں۔ سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ کے کتاب الفتن میں بھی یہ احادیث موجود ہیں۔ کسی منصف پر مخفی نہیں کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی ذات شریفہ کا بحیثیت حاکم مقسط نزول الی الارض احادیث صحیحہ اور سنت مطہرہ سے ثابت ہے اور اسی پر اہل سنت کا اتفاق ہے۔ بے شک وہ اس وقت آسمان پر زندہ ہیں یقیناً انہیں موت نہیں آئی۔ اور جیسا کہ اس کے ثبوت میں اللہعزو جل نے قرآن میں یہود (جن پر اللہکا غضب ہوا) کے گمان کی کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو قتل کیاہے، کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: (وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا ١٥٧؀ۙ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ) (ترجمہ: “اور یقیناًانہیں قتل نہیں کیا گیا بلکہ ﷲ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا”) پس اس آیت کریمہ میں ﷲتعالیٰ نے ہمیں خبر دی کہ بے شک جو ارادہ یہودیوں نے ان کے قتل کرنے کا اور انہیں پکڑنے کاکیاانہی عیسیٰ علیہ السلام کے سوا اللہ نے کسی دوسرے کے جسم عنصری کو اپنی طرف نہیں اٹھایا اوریہودی کامیاب نہیں ہوئے اور عیسیٰ علیہ السلام کو ذرا تکلیف بھی نہ پہنچاسکے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رفع سے قبل ان سے وعدہ فرمایاتھا: ( و ما یضرونک من شیئٍ ) (ترجمہ:”اور وہ آپ کو ذرا سے بھی تکلیف نہیں پہنچاسکتے”) اور ان کے جسم کو زندہ اٹھالیا یہی تفسیر ابن عباس نے کی ہے جیسا کہ ان سے باسناد صحیح ثابت ہے۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ اٹھالیا گیا اور اسی پر ہماری ذکر کردہ احادیث صحیحہ متواترہ مذکورہ مصرحہ دلیل ہیں کہ ان کی ذات شریفہ کا نزول ہوگا جس میں کسی تاویل کا احتمال نہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ ) (ترجمہ:”اور یہ کہ اہل کتاب میں سے کوئی نہ ہوگا جو ان کی موت سے قبل ان پر ایمان نہ لے آئے”)۔اس میں عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے قبل کہا گیا ہے جیسا کہ ابو ہریرہ اور عبد اللہ بن عباس اور ان دونوں کے علاوہ دیگر صحابہ اور سلف صالحین نے کہا ہے اور ابن کثیر کی تفسیر سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت نہیں ہوئی ہے اور ان کی موت آخری زمانے میں ہوگی اور ان پر تمام اہل کتاب ایمان لے آئیں گے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ان کے نزول الی الارض کو علامات قیامت میں شمار کرتے ہوئے فرمایا وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ۔ ابن کثیر اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں “بے شک اس میں ضمیر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف جاتی ہے۔ اس سیاق میں ان کے ذکر سے مراد یہ ہے کہ ان کا نزول قیامت کے دن سے قبل ہوگا جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ) اس میں عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے قبل مراد ہے اور انہی معنوں کی تائید میں یہ قرأت ہے وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ) یعنی عین اور لام پر زبر کے ساتھ، جس کا مطلب قیامت ہے اور وہ و قوع قیامت کی دلیل ہیں۔ مجاہد کہتے ہیں وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ) اس آیت میں للساعة سے یوم قیامت سے قبل خروج عیسیٰ بن مریم مراد ہے اور ایسا ہی روایت کیا گیا ہے ابو ہریرہ، ابن عباس، ابو العالیہ، ابو مالک، عکرمہ، حسن، قتادہ، ضحاک وغیرہم سے۔ اور بلاشبہ تواتر کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم سے یہ خبر منقول ہے کہ انہوں نے خبر دی کہ یوم قیامت سے قبل عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بحیثیت امام، عادل، حاکم، مقسط ہوگا۔” انتہی پس ان آیات کریمہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم سے منقول نصوص صریحہ ثابتہ اس امر پر واضح دلیل ہیں کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا نزول آسمان سے زمین کی طرف قیامت کے قریب ہوگا۔ سنن ترمذی کی ایک اہم اسرائیلی روایت احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں قرآن پاک کی تفسیر نہایت سہل ہوگئی ہے، اس کی تائید میں محرف زدہ اناجیل بھی ہے اور گمشدہ توریت بھی۔ امام ترمذی نے اپنی “الجامع” کے کتاب المناقب میں ایک موقوف اثر روایت کیا ہے۔ وھو ھذا “حدثنا زید بن اخزم الطائی البصری حدثنا ابو قتیبة حدثنی ابو مودود المدنی حدثنا عثمان بن الضحاک عن محمد بن یوسف بن عبد اﷲ بن سلام عن ابیہ عن جدہ قال: “مکتوب فی التوراة صفة محمد و صفة عیسی ابن مریم یدفن معہ۔” فقال ابو مودود و قد بقی فی البیت موضع قبر قال ابو عیسیٰ ھذا حدیث حسن غریب ھکذا قال عثمان بن الضحاک بن عثمان المدنی۔ یعنی: ”توریت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی صفت میں یہ لکھا تھاکہ دونوں ایک ہی جگہ مدفون ہوں گے۔” اس حدیث کے راویوں میں زید بن اخزم الطائی کو نسائی و دارقطنی نے ثقہ کہا ہے، ابن حبان انہیں مستقیم الحدیث کہتے ہیں۔ ابو قتیبہ مسلم بن قتیبہ کے لیے یحییٰ بن معین “لیس بہ بأس” کہتے ہیں۔ ابو داود و دارقطنی انہیں ثقہ کہتے ہیں۔ ابو مودود المدنی کی وثاقت پر امام احمد، یحییٰ بن معین، علی بن المدینی، ابو دائود، ابن حبان وغیرہم متفق ہیں۔ عثمان بن الضحاک کو ابن حبان نے ثقہ کہا جبکہ ابوداود نے تضعیف کی۔ محمد بن یوسف مقبول راوی ہیں اور زمرئہ تابعین میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے والد یوسف صغار صحابی ہیں اور ان کے دادا عبدا ﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ معروف صحابی ہیں اور معلوم ہے کہ ”الصحابة کلھم العدول”۔ منکرین نزول مسیح کے چند اعتراضات ٭ منکرین نزول عیسیٰ کی طرف سے ایک اہم اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی نزول ساعتِ موعودہ کا نظریہ درحقیقت عیسائیوں سے آیا ہے، جبکہ انہیں غور فرمانا چاہیئے کہ اناجیل و دیگر کتب سابقہ میں کی متعدد تعلیمات اسلام میں بھی شامل ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی متعدد پیشینگوئیاں توریت وانجیل میں مرقوم ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ظن و تخمین کو اپنی دلیل بنانے کی بجائے علم صریح کی پیروی کریں۔ ٭ منکرین نزول عیسیٰ علیہ السلام کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم خاتم النبین ہیں لہٰذا نزول عیسیٰ سے ان کی صفت خاتمیت پر زد آتا ہے۔ لیکن یہ اعتراض بھی غیر دانشمندانہ ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہورِثانی بحیثیت نبی کے نہیں ہوگا، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی “شان خاتمیت“ تو اس امر سے واضح ہے کہ “والذی نفس محمد بیدہ لو بدالکم موسیٰ فا تبعتموہ و ترکتمونی لضللتم عن سواء السبیل و لو کان حیاً و ادرک نبوتی لاتبعنی“ (رواہ الدارمی فی کتاب المقدمة) “اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اگر تمہارے درمیان موسیٰ ظاہر ہوجائیں اور تم سب ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو یقینا تم سیدھی راہ سے گمراہ ہوجائو گے اور اگر وہ زندہ ہوتے اور میرے (زمانۂ) نبوّت کو پاتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے۔“ جبکہ عیسیٰ علیہ السلام صاحبِ شریعت نبی بھی نہیں ہیں، ان کا دورِ اول “شریعت موسوی“ کی تبلیغ میں گزرااور اب دورِثانی “تجدید شریعت محمدی” کے لیے وقف ہوگا۔ نیز بحیثیت نبی ان کا نزولِ ثانی نصِ قرآنی کے بھی خلاف ہے کیونکہ اللہ ربّ العزت نے (وَ رَسُوْلاً اِلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ) (آل عمران :49) فرما کر ان کی رسالت کو صرف بنی اسرائیل کے لیے خاص فرمادیا ہے۔ لہٰذا ان کا نزولِ ثانی بحیثیت امام عادل یا بالفاظِ دیگر امتِ محمدیہ کے آخری مجددِ کامل کی حیثیت سے ہوگا۔ بلاشبہ روایات میں نزول مسیح علیہ السلام کی خبر دی گئی ہے اور صحیحین کی روایات اس باب میں معلوم ومشہور ہیں۔ اس سے کسے انکار ہے لیکن اس معاملہ کا تعلق قیامت کے آثار و مقدمات سے ہے نہ کہ تکمیل دین کے معاملہ سے نیز انہی روایات میں تصریحات موجود ہیں کہ حضرت مسیح کا نزول بہ حیثیت رسول کے نہیں ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں اس تیرہ سو برس میں مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ یہی رہا ہے کہ دین ناقص نہیں اور اپنے تکمیل کے لیے کسی نئے ظہور کا محتاج نہیں۔ “صحیح بخاری“ کی حدیث کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بحیثیت “حکماً مقسطاً” ہوگا نہ کہ بحیثیت نبی۔ (صحیح البخاری، کتاب، باب کسر الصلیب و قتل الخنزیر) ٭منکرین نزول عیسیٰ علیہ السلام کی جانب سے ایک دلچسپ انکشاف یہ بھی ہوتا ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام فطرت کے خلاف ہے اور (لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اﷲ) لیکن ان کے بارگاہِ عقل و فکر میں اس عاجز کا عاجزانہ سوال یہ ہے کہ وہ ربِ تعالیٰ کی خلقت اور قدرت کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ جو وہ یوں فیصلے صادر کریں؟ أفلا یتدبرون۔ یہاں یہ ذکر بے محل نہیں مرزا غلام احمد قادیانی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سری نگر میں ہوئی تھی اور وہیں ان کی قبر بھی موجود ہے۔ اپنے اس دعویٰ کے اثبات میں اس نے ایک کتاب موسوم بہ “مسیح ہندوستان میں” لکھی۔ نیز اپنی کتاب “کشتی نوح“ میں لکھتا ہے: “مسیح فوت ہوچکا اور سری نگر محلہ خانیار میں اس کی قبر ہے۔” (ص 103) اوراس قبر کی تائید میں اس نے ایک یہودی عالم کی تائید نقل کی ہے اور “شہد شاہد من بنی اسرائیل- ایک اسرائیلی عالمِ توریت کی شہادت دربارئہ قبر مسیح “کے عنوان کے تحت وہ تائیدی عبارت حسب ذیل ہے: “میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے دیکھا ایک نقشہ پاس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور تحقیق وہ صحیح ہے قبر بنی اسرائیل کی قبروں میں سے، اور وہ ہے بنی اسرائیل کے اکابر کی قبروں میں سے اور میں نے دیکھا یہ نقشہ آج کے دن جب لکھی میں نے یہ شہادت ماہ انگریزی جون 12، 1899 ئ۔ سلمان یوسف یسحاق تاجر۔” (ص 103) قارئین گرامی غور فرمائیں دعویٰ سیدنا مسیح علیہ السلام کی قبر کا ہے اور دلیل بنی اسرائیل کے اکابر کی ایک قبر سے دی جارہی ہے۔ مرزا صاحب کے اس دعویٰ کی تردید میں مولانا عبد الحلیم شرر اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے قلمی کاوش کی ہے، جس سے مرزا صاحب کاابطال ہوجاتا ہے۔ ہم یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی امت کو چھوڑ کر کشمیر کی وادیوں میں چلے جانا خود ان کے منصبِ نبوت کے بھی خلاف ہے، بقول خود: و قال اﷲ تعالیٰ فی القرآن: ( وَ رَسُوْلاً اِلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ ) (آل عمران : 49) اب ذرا مرزا صاحب کی دریافت کردہ قبر کی حقیقت بھی سنتے چلیے۔ جناب بشیر احمد صاحب اپنی کتاب “بہائیت اسرائیل کی خفیہ سیاسی تنظیم“ میں لکھتے ہیں: “کشمیر کا مولوی عبد اﷲ وکیل جس کا ذکر مرزا صاحب کی کتاب رازِ حقیقت میں موجود ہے اور جس نے کشمیر میں قبر مسیح کے مفروضے کو تقویت دینے کے لیے شواہد اکٹھے کیے بہائی مبلغ بن گیا۔ مرزا قادیانی نے جب دعویٰ کیاکہ اس کو خدا نے وحی کی ہے کہ خانیار سری نگر میں حضرت عیسیٰ کی قبر موجود ہے تو اس کے جواب میں عبد اﷲ وکیل نے ایک کتابچہ شائع کرایا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ صریح جھوٹ ہے اس جعلی نظریے کا خالق ہی وہ اور خلیفہ نوردین جمونی تھے۔” (بہائیت اسرائیل کی خفیہ سیاسی تنظیم: 224، مطبوعہ اسلامک اسٹڈی فورم راولپنڈی) نتیجہ دلائل: سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے نزول سے متعلقہ دلائل سے عیاں ہوتا ہے کہ ان کا نزول بہ ساعتِ موعودہ حق ہے اور اس کا انکار محض وادی جہل و ضلالت میں سرگرداں ہونے کے مترادف ہے۔ انسانی ایمان کی خوبی یہ نہیں ہے کہ جو امور اس کی مزعومہ فکر وفہم کے مطابق ہو اسے قبول کرلے اور جو امور اس کے نزدیک خلاف فطرت وامر مستبعاد ہو اس کا انکار کردے۔ بلکہ کمال ایمان تو یہ ہے کہ ہر وہ امر جو “نصوص صریحہ” سے ثابت ہو اسے تسلیم کرلے، خواہ اس کی عقل تائید کرے یا نہ کرے کیونکہ ایمان تسلیم و تصدیق کا نام ہے آزمائش و پیمائش کا نہیں۔ ایک ذاتی تاثر قرآن پاک کی تفسیر وتفہیم محض زورِ علمی سے ممکن نہیں، اس کے لیے کسی صاحبِ ذوق کا ہونابہت ضروری ہے جس کا دل رب تعالیٰ کی خشیت سے لرزاں وترساں ہواور جس کی زندگی تقویٰ شعاری سے مزین ہو، گناہگار قلوب اس کے قطعا مستحق نہیں ہوسکتے کہ وہ کلام الٰہی کی تفسیر میں اپنے زورِ فکر وفہم کو لگائیں۔ مجھے اپنے عجز کا مکمل اعتراف ہے، میری حیثیت تو اس قدر بھی نہیں کہ صاحبان زہد وتقویٰ کا خدمت گزار ہی بن سکوں۔ بایں ہمہ اس اعتراف ذاتی کے بعد ( اِنَّ مَثَلَ عِیْسیٰ عِنْدَ اﷲِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ) سے متعلق اپنے ایک ذاتی تأثر کو نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ﷲ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنت میں رہائش دی پھر انہیں دنیا میں اتارا اس طرح انہوں نے “توفی بالموت” سے قبل دو عالم دیکھے۔ یہی معاملہ حضرت عیسیٰ کا ہے ان کی ولادت دنیا میں ہوئی پھر ان کا رفع الی السماء ہوا اب ان کا دوبارہ نزول ہوگا تاکہ ( کل نفس ذائقة الموت ) کا الٰہی حکم ان پر وارد ہو۔ اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی “توفی بالموت” سے قبل دو عالم ملاحظہ فرمائے۔ یہ بھی کیا دلچسپ اتفاق ہے کہ سیدنا آدم “آغازِ تخلیق دنیا“ کا سر عنوان ہیں اور سیدنا مسیح علیہ السلام “خاتمہ تخلیق دنیا” کی ایک علامت۔ ھذا ماعندی والعلم عند اﷲ۔ Nazool ka matlab kya hay yay samajhnay kay lyay haemin Quran-e-Majid mein lafzay Nazool ka zikar dekhna paray ga kay kaisay hua hay وَظَلَّلْنَا عَلَیۡکُمُ الْغَمَامَ وَاَنۡزَلْنَا عَلَیۡکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی- سورہ البقرہ، آیت 58 ترجمہ کنزالایمان- اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا اور تم پرمنْ اور َسلْویٰ اتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں فَبَدَّلَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا قَوْلًا غَیۡرَ الَّذِیۡ قِیۡلَ لَہُمْ فَاَنۡزَلْنَا عَلَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا کَانُوۡا یَفْسُقُوۡنَ﴿سورہ البقرہ، آیت59 ترجمہ کنزالایمان- تو ظالموں نے اور بات بدل دی جو فرمائی گئی تھی اس کے سوا تو ہم نے آسمان سے ان پر عذاب اتارا بدلہ ان کی بے حُکمی کا وَلَقَدْ اَنۡزَلْنَاۤ اِلَیۡکَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ۚ وَمَا یَکْفُرُ بِہَاۤ اِلَّا الْفٰسِقُوۡنَ﴿ سورہ البقرہ ، آیت 99 ترجمہ کنزالایمان- اور بیشک ہم نے تمہاری طرف روشن آیتیں اتاریں اور ان کے منکر نہ ہوں گے مگر فاسق لوگ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکْتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْہُدٰی مِنۡۢ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِۙ اُولٰٓئِکَ یَلۡعَنُہُمُ اللہُ وَیَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوۡنَ﴿ سورہ البقرہ ، آیت 159 ترجمہ کنزالایمان- بیشک وہ جو ہماری اتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں بعد اس کے کہ لوگوں کے لئے ہم اسے کتاب میں واضح فرماچکے ہیں ان پر اللّٰہ کی لعنت ہے اور لعنت کرنے والوں کی لعنت اِنَّاۤ اَنۡزَلْنَاۤ اِلَیۡکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىکَ اللہُ ؕ وَلَا تَکُنۡ لِّلْخَآئِنِیۡنَ خَصِیۡمًا ﴿ سورہ النساء ، آیت 105 ترجمہ کنزالایمان- اے محبوب بے شک ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری کہ تم لوگوں میں فیصلہ کرو جس طرح تمہیں اللّٰہ دکھائے اور دغا والوں کی طرف سے نہ جھگڑو پس ان تمام آیتوں سے معلوم ہوا کہ نزول کی معنی آسمان سے اتارنا ہی ہے ۔
  22. سب سے پہلے میں آپ کو بتا دوں کہ تھانوی اور جالندھری سنی نہیں ہیں ، یہ لوگ دیو بندی ہیں جو کہ گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ، ہم دیو بندیوں کو قادیانیوں کا بڑا بھائی سمجھتے ہیں کیوں کہ یہ دیوبندی بھی ختمِ نبوت کے انکاری ہیں، مہربانی کر کے آئندہ ان گستاخوں کے تراجم یہاں پر پیسٹ نہ کیجیئے گا،۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب یہودیوں کے سامنے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو چونکہ یہودی توراۃ میں پڑھ چکے تھے کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام ان کے دین کو منسوخ کردیں گے۔ اس لئے یہودی آپ کے دشمن ہو گئے۔ یہاں تک کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ محسوس فرمالیا کہ یہودی اپنے کفر پر اڑے رہیں گے اور وہ مجھے قتل کردیں گے تو ایک دن آپ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ مَنْ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللہِ ؕ یعنی کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کے دین کی طرف۔ بارہ یا اُنیس حواریوں نے یہ کہا کہ نَحْنُ اَنۡصَارُ اللہِ ۚ اٰمَنَّا بِاللہِ ۚ وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوۡنَ ﴿۵۲ یعنی ہم خدا کے دین کے مددگار ہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ باقی تمام یہودی اپنے کفر پر جمے رہے یہاں تک کہ جوش عداوت میں ان یہودیوں نے آپ کے قتل کا منصوبہ بنالیا اور ایک شخص کو یہودیوں نے جس کا نام ''ططیانوس'' تھا آپ کے مکان میں آپ کو قتل کردینے کے لئے بھیجا۔ اتنے میں اچانک اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ایک بدلی کے ساتھ بھیجا اور اس بدلی نے آپ کو آسمان کی طرف اٹھالیا۔ آپ کی والدہ جوشِ محبت میں آپ کے ساتھ چمٹ گئیں تو آپ نے فرمایا کہ اماں جان! اب قیامت کے دن ہماری اور آپ کی ملاقات ہو گی اور بدلی نے آپ کو آسمان پر پہنچا دیا۔ یہ واقعہ بیت المقدس میں شب قدر کی مبارک رات میں وقوع پذیر ہوا۔ اس وقت آپ کی عمر شریف بقول علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ ۳۳ برس کی تھی ۔ (تفسیر جمل علی الجلالین،ج۱،ص۴۲۷،پ۳، آل عمران:۵۷) ''ططیانوس''جب بہت دیر مکان سے باہر نہیں نکلا تو یہودیوں نے مکان میں گھس کر دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے ''ططیانوس''کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل کا بنا دیا یہودیوں نے ''ططیانوس''کو حضرت عیسیٰ سمجھ کر قتل کردیا۔ اس کے بعد جب ططیانوس کے گھر والوں نے غور سے دیکھا تو صرف چہرہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تھا باقی سارا بدن ططیانوس ہی کا تھا تو اس کے اہل خاندان نے کہا کہ اگر یہ مقتول حضرت عیسیٰ ہیں تو ہمارا آدمی ططیانوس کہاں ہے؟ اور اگر یہ ططیانوس ہے تو حضرت عیسیٰ کہاں گئے؟ اس پر خود یہودیوں میں جنگ و جدال کی نوبت آگئی اور خود یہودیوں نے ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیا اور بہت سے یہودی قتل ہو گئے۔ خداوند قدوس نے قرآن مجید میں اس واقعہ کو اس طرح بیان فرمایا کہ:۔ وَمَکَرُوۡا وَمَکَرَ اللہُ ؕ وَاللہُ خَیۡرُ الْمٰکِرِیۡنَ ﴿54﴾اِذْ قَالَ اللہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَجَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوْقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیۡنَکُمْ فِیۡمَا کُنۡتُمْ فِیۡہِ تَخْتَلِفُوۡنَ ﴿55 ترجمہ کنزالایمان:۔اور کافروں نے مکر کیا اوراللہ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے یاد کرو جب اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے پاک کر دوں گا اور تیرے پیروؤں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤ گے تو میں تم میں فیصلہ فرما دوں گا جس بات میں جھگڑتے ہو۔ (پ3،آل عمران:54،55 آپ کے آسمان پر چلے جانے کے بعد حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے چھ برس دنیا میں رہ کر وفات پائی (بخاری و مسلم) کی روایت ہے کہ قربِ قیامت کے وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین پر اتریں گے اور نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کریں گے اور دجال و خنزیر کو قتل فرمائیں گے اور صلیب کو توڑیں گے اور سات برس تک دنیا میں عدل فرما کر وفات پائیں گے اور مدینہ منورہ میں گنبد ِ خضراء کے اندر مدفون ہوں گے۔ (تفسیر جمل علی الجلالین،ج۱،ص۴۲۷،پ۳، آل عمران:۵۷) اور قرآن مجید میں عیسائیوں اور قادیانیوں کا رد کرتے ہوئے یہ بھی نازل ہوا کہ وَمَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًاۢ ﴿157﴾ۙبَلۡ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَیۡہِ ؕ وَکَانَ اللہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿158 ترجمہ کنزالایمان:۔اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہ کیا بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (پ6،النساء:157،158 اور اس سے اوپر والی آیت میں ہے کہ:۔ وَمَا قَتَلُوۡہُ وَمَا صَلَبُوۡہُ وَلٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمْ ؕ ترجمہ کنزالایمان:۔ انہوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی دی بلکہ ان کے لئے اس کی شبیہ کا ایک بنا دیا گیا۔ (پ6،النساء:157 خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہودیوں کے ہاتھوں مقتول نہیں ہوئے اور اللہ نے آپ کو آسمانوں پر اٹھا لیا، جو یہ عقیدہ رکھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قتل ہو گئے اور سولی پر چڑھائے گئے جیسا کہ نصاریٰ کا عقیدہ ہے تو وہ شخص کافر ہے کیونکہ قرآن مجید میں صاف صاف مذکور ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ مقتول ہوئے نہ سولی پر لٹکائے گئے۔ ستر ہزار مرد وں کے زندہ ہونے کا واقعہ اس کا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت جو حضرت حزقیل علیہ السلام کے شہر میں رہتی تھی، شہر میں طاعون کی وبا پھیل جانے سے ان لوگوں پر موت کا خوف سوار ہو گیا۔ اور یہ لوگ موت کے ڈر سے سب کے سب شہر چھوڑ کر ایک جنگل میں بھاگ گئے اور وہیں رہنے لگے تو اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کی یہ حرکت بہت زیادہ ناپسند ہوئی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک عذاب کے فرشتہ کو اس جنگل میں بھیج دیا۔ جس نے ایک پہاڑ کی آڑ میں چھپ کر اور چیخ مار کر بلند آواز سے یہ کہہ دیا کہ ''موتوا''یعنی تم سب مرجاؤ اور اس مہیب اور بھیانک چیخ کو سن کر بغیر کسی بیماری کے بالکل اچانک یہ سب کے سب مر گئے جن کی تعداد ستر ہزار تھی۔ ان مردوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ لوگ ان کے کفن و دفن کا کوئی انتظام نہیں کرسکے اور ان مردوں کی لاشیں کھلے میدان میں بے گور و کفن آٹھ دن تک پڑی پڑی سڑنے لگیں اور بے انتہا تعفن اور بدبو سے پورے جنگل بلکہ اس کے اطراف میں بدبو پیدا ہو گئی۔ کچھ لوگوں نے ان کی لاشوں پر رحم کھا کر چاروں طرف سے دیوار اٹھا دی تاکہ یہ لاشیں درندوں سے محفوظ رہیں۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت حزقیل علیہ السلام کا اس جنگل میں ان لاشوں کے پاس گزر ہوا تو اپنی قوم کے ستر ہزار انسانوں کی اس موتِ ناگہانی اور بے گور و کفن لاشوں کی فراوانی دیکھ کر رنج و غم سے ان کا دل بھر گیا۔ آبدیدہ ہو گئے اور باری تعالیٰ کے دربار میں دکھ بھرے دل سے گڑگڑا کر دعا مانگنے لگے کہ یا اللہ یہ میری قوم کے افراد تھے جو اپنی نادانی سے یہ غلطی کر بیٹھے کہ موت کے ڈر سے شہر چھوڑ کر جنگل میں آگئے۔ یہ سب میرے شہر کے باشندے ہیں ان لوگوں سے مجھے انس تھا اور یہ لوگ میرے دکھ سکھ کے شریک تھے۔ افسوس کہ میری قوم ہلاک ہو گئی اور میں بالکل اکیلا رہ گیا۔ اے میرے رب یہ وہ قوم تھی جو تیری حمد کرتی تھی اور تیری توحید کا اعلان کرتی تھی اور تیری کبریائی کا خطبہ پڑھتی تھی۔ آپ بڑے سوزِ دل کے ساتھ دعا میں مشغول تھے کہ اچانک آپ پر یہ وحی اتر پڑی کہ اے حزقیل (علیہ السلام)آپ ان بکھری ہوئی ہڈیوں سے فرما دیجئے کہ اے ہڈیو! بے شک اللہ تعالیٰ تم کو حکم فرماتا ہے کہ تم اکٹھا ہوجاؤ۔ یہ سن کر بکھری ہوئی ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ہر آدمی کی ہڈیاں جمع ہو کر ہڈیوں کے ڈھانچے بن گئے۔ پھر یہ وحی آئی کہ اے حزقیل (علیہ السلام)آپ فرما دیجئے کہ اے ہڈیو!تم کو اللہ کا یہ حکم ہے کہ تم گوشت پہن لو۔ یہ کلام سنتے ہی فوراً ہڈیوں کے ڈھانچوں پر گوشت پوست چڑھ گئے۔ پھر تیسری بار یہ وحی نازل ہوئی۔ اے حزقیل اب یہ کہہ دو کہ اے مردو! خدا کے حکم سے تم سب اٹھ کرکھڑے ہوجاؤ۔ چنانچہ آپ نے یہ فرما دیا تو آپ کی زبان سے یہ جملہ نکلتے ہی ستر ہزار لاشیں دم زدن میں ناگہاں یہ پڑھتے ہوئے کھڑی ہو گئیں کہ ''سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ۔ پھر یہ سب لوگ جنگل سے روانہ ہو کر اپنے شہر میں آ کر دوبارہ آباد ہو گئے۔ اور اپنی عمروں کی مدت بھر زندہ رہے لیکن ان لوگوں پر اس موت کا اتنا نشان باقی رہ گیا کہ ان کی اولاد کے جسموں سے سڑی ہوئی لاش کی بدبو برابر آتی رہی اور یہ لوگ جو کپڑا بھی پہنتے تھے وہ کفن کی صورت میں ہوجاتا تھا۔ اور قبر میں جس طرح کفن میلا ہوجاتا تھا ایسا ہی میلا پن ان کے کپڑوں پر نمودار ہوجاتا تھا۔ چنانچہ یہ اثرات آج تک ان یہودیوں میں پائے جاتے ہیں جو ان لوگوں کی نسل سے باقی رہ گئے ہیں۔ (تفسیر روح البیان،ج۱،ص۳۷۸،پ۲،البقرۃ: ۲۴۳) یہ عجیب و غریب واقعہ قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں خداوند قدوس نے اس طرح بیان فرمایا کہ:۔ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمْ وَہُمْ اُلُوۡفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ ۪ فَقَالَ لَہُمُ اللہُ مُوۡتُوۡا ۟ ثُمَّ اَحْیَاہُمْ ؕ اِنَّ اللہَ لَذُوۡ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوۡنَ ﴿243 ترجمہ کنزالایمان:۔اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے تواللہ نے ان سے فرمایا مرجاؤ پھر اُنہیں زندہ فرما دیا بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔ (پ2،البقرۃ:243 درس ہدایت:۔بنی اسرائیل کے اس محیر العقول واقعہ سے مندرجہ ذیل ہدایات ملتی ہیں آدمی موت کے ڈر سے بھاگ کر اپنی جان نہیں بچا سکتا۔ لہٰذا موت سے بھاگنا بالکل ہی بیکار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو موت مقدر فرما دی ہے وہ اپنے وقت پر ضرور آئے گی نہ ایک سیکنڈ اپنے وقت سے پہلے آسکتی ہے نہ ایک سیکنڈ بعد آئے گی لہٰذابندوں کو لازم ہے کہ رضاء الٰہی پر راضی رہ کر صابر و شاکر رہیں اور خواہ کتنی ہی وبا پھیلے یا گھمسان کا رن پڑے اطمینان و سکون کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور یہ یقین رکھیں کہ جب تک میری موت نہیں آتی مجھے کوئی نہیں مارسکتا اور نہ میں مرسکتا ہوں اور جب میری موت آجائے گی تو میں کچھ بھی کروں، کہیں بھی چلا جاؤں، بھاگ جاؤں یا ڈٹ کر کھڑا رہوں میں کسی حال میں بچ نہیں سکتا۔ سو برس تک مردہ رہے پھر زندہ ہو گئے یہ واقعہ حضرت عزیر بن شرخیا علیہ السلام کا ہے جو بنی اسرائیل کے ایک نبی ہیں۔ واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کی بد اعمالیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو ان پر خدا کی طرف سے یہ عذاب آیا کہ بخت نصر بابلی ایک کافر بادشاہ نے بہت بڑی فوج کے ساتھ بیت المقدس پر حملہ کردیا اور شہر کے ایک لاکھ باشندوں کو قتل کر دیا۔ اور ایک لاکھ کو ملک شام میں ادھر ادھر بکھیر کر آباد کردیا۔ اور ایک لاکھ کو گرفتار کر کے لونڈی غلام بنالیا۔ حضرت عزیر علیہ السلام بھی انہیں قیدیوں میں تھے۔ اس کے بعد اس کافر بادشاہ نے پورے شہر بیت المقدس کو توڑ پھوڑ کر مسمار کردیا اور بالکل ویران بنا ڈالا۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت عزیر علیہ السلام جب کسی طرح ''بخت نصر'' کی قید سے رہا ہوئے تو ایک گدھے پر سوار ہو کر اپنے شہر بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ اپنے شہر کی ویرانی اور بربادی دیکھ کر ان کا دل بھر آیا اور وہ رو پڑے۔ چاروں طرف چکر لگایا مگر انہیں کسی انسان کی شکل نظر نہیں آئی۔ ہاں یہ دیکھا کہ وہاں کے درختوں پر خوب زیادہ پھل آئے ہیں جو پک کر تیار ہوچکے ہیں مگر کوئی ان پھلوں کو توڑنے والا نہیں ہے۔ یہ منظر دیکھ کر نہایت ہی حسرت و افسوس کے ساتھ بے اختیار آپ کی زبان مبارک سے یہ جملہ نکل پڑا کہ اَنّٰی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِھَا یعنی اس شہر کی ایسی بربادی اور ویرانی کے بعد بھلا کس طرح اللہ تعالیٰ پھر اس کو آباد کریگا؟ پھر آپ نے کچھ پھلوں کو توڑ کر تناول فرمایا، اور انگوروں کو نچوڑ کر اس کا شیرہ نوش فرمایا پھر بچے ہوئے پھلوں کو اپنے جھولے میں ڈال لیا اور بچے ہوئے انگور کے شیرہ کو اپنی مشک میں بھر لیا اور اپنے گدھے کو ایک مضبوط رسی سے باندھ دیا۔ اور پھر آپ ایک درخت کے نیچے لیٹ کر سو گئے اور اسی نیند کی حالت میں آپ کی وفات ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے درندوں، پرندوں، چرندوں اور جن و انسان سب کی آنکھوں سے آپ کو اوجھل کردیا کہ کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا۔ یہاں تک کہ ستر برس کا زمانہ گزر گیا تو ملک فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ بیت المقدس کے اس ویرانے میں داخل ہوا۔ اور بہت سے لوگوں کو یہاں لا کر بسایا اور شہر کو پھر دوبارہ آباد کردیا۔ اور بچے کھچے بنی اسرائیل کو جو اطراف و جوانب میں بکھرے ہوئے تھے سب کو بلابلا کر اس شہر میں آباد کردیا۔ اور ان لوگوں نے نئی عمارتیں بنا کر اورقسم قسم کے باغات لگا کر اس شہر کو پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت اور بارونق بنا دیا۔ جب حضرت عزیر علیہ السلام کو پورے ایک سو برس وفات کی حالت میں ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ فرمایا تو آپ نے دیکھا کہ آپ کا گدھا مرچکا ہے اور اس کی ہڈیاں گل سڑ کر ادھر ادھر بکھری پڑی ہیں۔ مگر تھیلے میں رکھے ہوئے پھل اور مشک میں رکھا ہوا انگور کا شیرہ بالکل خراب نہیں ہوا، نہ پھلوں میں کوئی تغیر نہ شیرے میں کوئی بو باس یا بدمزگی پیدا ہوئی ہے اور آپ نے یہ بھی دیکھا کہ اب بھی آپ کے سر اور داڑھی کے بال کالے ہیں اور آپ کی عمر وہی چالیس برس ہے۔ آپ حیران ہو کر سوچ بچار میں پڑے ہوئے تھے کہ آپ پر وحی اتری اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے دریافت فرمایا کہ اے عزیر! آپ کتنے دنوں تک یہاں رہے؟ تو آپ نے خیال کر کے کہاکہ میں صبح کے وقت سویا تھا اور اب عصر کا وقت ہو گیا ہے، یہ جواب دیا کہ میں دن بھر یا دن بھر سے کچھ کم سوتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں،اے عزیر! تم پورے ایک سو برس یہاں ٹھہرے رہے، اب تم ہماری قدرت کا نظارہ کرنے کے لئے ذرا اپنے گدھے کو دیکھو کہ اس کی ہڈیاں گل سڑ کر بکھر چکی ہیں اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں پر نظر ڈالو کہ ان میں کوئی خرابی اور بگاڑ نہیں پیدا ہوا۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اے عزیر! اب تم دیکھو کہ کس طرح ہم ان ہڈیوں کو اٹھا کر ان پر گوشت پوست چڑھا کر اس گدھے کو زندہ کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عزیر علیہ السلام نے دیکھا کہ اچانک بکھری ہوئی ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ایک دم تمام ہڈیاں جمع ہو کر اپنے اپنے جوڑ سے مل کر گدھے کا ڈھانچہ بن گیا اور لمحہ بھر میں اس ڈھانچے پر گوشت پوست بھی چڑھ گیا اور گدھا زندہ ہو کر اپنی بولی بولنے لگا۔ یہ دیکھ کر حضرت عزیر علیہ السلام نے بلند آواز سے یہ کہا اَعْلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿259﴾ ترجمہ کنزالایمان:۔ میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ (پ3،البقرۃ:259) اس کے بعد حضرت عزیر علیہ السلام شہر کا دورہ فرماتے ہوئے اس جگہ پہنچ گئے جہاں ایک سو برس پہلے آپ کا مکان تھا۔ تو نہ کسی نے آپ کو پہچانا نہ آپ نے کسی کو پہچانا۔ ہاں البتہ یہ دیکھا کہ ایک بہت ہی بوڑھی اور اپاہج عورت مکان کے پاس بیٹھی ہے جس نے اپنے بچپن میں حضرت عزیر علیہ السلام کو دیکھا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا یہی عزیر کا مکان ہے تو اس نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ پھر بڑھیا نے کہا کہ عزیر کا کیا ذکر ہے؟ ان کو تو سو برس ہو گئے کہ وہ بالکل ہی لاپتہ ہوچکے ہیں یہ کہہ کر بڑھیا رونے لگی تو آپ نے فرمایا کہ اے بڑھیا!میں ہی عزیر ہوں تو بڑھیا نے کہا کہ سبحان اللہ آپ کیسے عزیر ہوسکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اے بڑھیا! مجھ کو اللہ تعالیٰ نے ایک سو برس مردہ رکھا۔ پھر مجھ کو زندہ فرما دیا اور میں اپنے گھر آگیا ہوں تو بڑھیا نے کہا کہ حضرت عزیر علیہ السلام تو ایسے باکمال تھے کہ ان کی ہر دعا مقبول ہوتی تھی اگر آپ واقعی حضرت عزیر (علیہ السلام)ہیں تو میرے لئے دعا کردیجئے کہ میری آنکھوں میں روشنی آجائے اور میرا فالج اچھا ہوجائے۔ حضرت عزیر علیہ السلام نے دعا کردی تو بڑھیا کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں اور اس کا فالج بھی اچھا ہو گیا۔ پھر اس نے غور سے آپ کو دیکھا تو پہچان لیا اور بول اٹھی کہ میں شہادت دیتی ہوں کہ آپ یقینا حضرت عزیر علیہ السلام ہی ہیں پھر وہ بڑھیا آپ کو لے کر بنی اسرائیل کے محلہ میں گئی۔ اتفاق سے وہ سب لوگ ایک مجلس میں جمع تھے اور اسی مجلس میں آپ کا لڑکا بھی موجود تھا جو ایک سو اٹھارہ برس کا ہوچکا تھا۔ اور آپ کے چند پوتے بھی تھے جو سب بوڑھے ہوچکے تھے۔ بڑھیا نے مجلس میں شہادت دی اور اعلان کیا کہ اے لوگو! بلاشبہ یہ حضرت عزیر علیہ السلام ہی ہیں مگر کسی نے بڑھیا کی بات کو صحیح نہیں مانا۔ اتنے میں ان کے لڑکے نے کہا کہ میرے باپ کے دونوں کندھوں کے درمیان ایک کالے رنگ کا مسہ تھا جو چاند کی شکل کا تھا۔ چنانچہ آپ نے اپنا کرتا اتار کر دکھایا تو وہ مسہ موجود تھا۔ پھر لوگوں نے کہا کہ حضرت عزیر کو تو توراۃ زبانی یاد تھی اگر آپ عزیر ہیں تو زبانی توراۃ پڑھ کر سنایئے۔ آپ نے بغیر کسی جھجک کے فوراً پوری توراۃ پڑھ کر سنا دی۔ بخت نصر بادشاہ نے بیت المقدس کو تباہ کرتے وقت چالیس ہزار توراۃ کے عالموں کو چن چن کر قتل کردیا تھا اور توراۃ کی کوئی جلد بھی اس نے زمین پر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ حضرت عزیر نے توراۃ صحیح پڑھی ہے یا نہیں؟ تو ایک آدمی نے کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا ہے کہ جس دن ہم لوگوں کو بخت نصر نے گرفتار کیا تھا اس دن ایک ویرانے میں ایک انگور کی بیل کی جڑ میں توریت کی ایک جلد دفن کردی گئی تھی اگر تم لوگ میرے دادا کے انگور کی جگہ کی نشان دہی کردو تو میں توراۃ کی ایک جلد برآمد کردوں گا۔ اس وقت پتا چل جائے گا کہ حضرت عزیر نے جو توراۃ پڑھی ہے وہ صحیح ہے یا نہیں؟ چنانچہ لوگوں نے تلاش کر کے اور زمین کھود کر توراۃ کی جلد نکال لی تو وہ حرف بہ حرف حضرت عزیر کی زبانی یاد کی ہوئی توراۃ کے مطابق تھی۔ یہ عجیب و غریب اور حیرت انگیز ماجرا دیکھ کر سب لوگوں نے ایک زبان ہو کر یہ کہنا شروع کردیا کہ بے شک حضرت عزیر یہی ہیں اور یقینا یہ خدا کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ اسی دن سے یہ غلط اور مشرکانہ عقیدہ یہودیوں میں پھیل گیا کہ معاذ اللہ حضرت عزیر خدا کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ آج تک دنیا بھر کے یہودی اس باطل عقیدہ پر جمے ہوئے ہیں کہ حضرت عزیر علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ (معاذاللہ (تفسیر جمل علی الجلالین، ج۱،ص۳۲۲،پ۳،البقرۃ:۲۵۹) اللہ تعالی نے قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ میں اس واقعہ کو ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے۔ اَوْکَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا ۚ قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ہٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِہَا ۚ فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ؕ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ ؕ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ؕ قَالَ بَلۡ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانۡظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہۡ ۚ وَانۡظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ ۟ وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَانۡظُرْ اِلَی الۡعِظَامِ کَیۡفَ نُنۡشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوۡہَا لَحْمًا ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿259 ترجمہ کنزالایمان:۔ یا اس کی طرح جو گزرا ایک بستی پراور وہ ڈھئی پڑی تھی اپنی چھتوں پر۔ بولا اسے کیونکر جلائے گا اللہ اس کی موت کے بعد تو اللہ نے اسے مردہ رکھا سو برس پھر زندہ کر دیا فرمایا تو یہاں کتنا ٹھہرا ، عرض کی دن بھر ٹھہرا ہوں گا یا کچھ کم۔ فرمایا نہیں بلکہ تجھے سو برس گزر گئے اور اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ کہ اب تک بُو نہ لایا اور اپنے گدھے کو دیکھ (کہ جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں)اور یہ اس لئے کہ تجھے ہم لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور ان ہڈیوں کو دیکھ کیونکر ہم انہیں اٹھان دیتے پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں جب یہ معاملہ اس پر ظاہر ہو گیا بولا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ (پ3،البقرۃ:259 درس ہدایت:۔(۱)ان آیتوں میں صاف صاف موجود ہے کہ ایک ہی جگہ پر ایک ہی آب و ہوا میں حضرت عزیر علیہ السلام کا گدھا تو مر کر گل سڑ گیا اور اس کی ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئیں مگر پھلوں اور شیرہ انگور اور خود حضرت عزیر علیہ السلام کی ذات میں کسی قسم کا کوئی تغیر نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ سو برس میں ان کے بال بھی سفید نہیں ہوئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی قبرستان کے اندر ایک ہی آب و ہوا میں اگر بعض مردوں کی لاشیں گل سڑ کر فنا ہوجائیں اور بعض بزرگوں کی لاشیں سلامت رہ جائیں اور ان کے کفن بھی میلے نہ ہوں ایسا ہوسکتا ہے، بلکہ بارہا ایسا ہوا ہے اور حضرت عزیر علیہ السلام کا یہ قرآنی واقعہ اس کی بہترین دلیل ہے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم بیت المقدس کی تباہی اور ویرانی دیکھ کر حضرت عزیر علیہ السلام غم میں ڈوب گئے اور فکرمند ہو کر یہ کہہ دیا کہ اس شہر کی بربادی اور ویرانی کے بعد کیونکر اللہ تعالیٰ اس شہر کو دوبارہ آباد فرمائے گا؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے وطن اور شہر سے محبت کرنا اور الفت رکھنا یہ صالحین اور اللہ والوں کا طریقہ ہے۔ (واللہ تعالٰی اعلم
×
×
  • Create New...