Jump to content

Ahmad Lahore

اراکین
  • کل پوسٹس

    103
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    14

Ahmad Lahore last won the day on 5 دسمبر 2016

Ahmad Lahore had the most liked content!

About Ahmad Lahore

تازہ ترین ناظرین

736 profile views

Ahmad Lahore's Achievements

Enthusiast

Enthusiast (6/14)

  • First Post
  • Collaborator
  • Conversation Starter
  • Week One Done
  • One Month Later

Recent Badges

50

کمیونٹی میں شہرت

  1. رحمٰن علوی بھائی! نبی کریم ﷺ کے جسم اطہر سے تعلق رکھنے والی ہر شے ہمارے حق میں پاک و متبرک ہے۔ جہاں تک معترض کا تعلق ہے، اس جاہل کو اصل اور نقش کے مابین فرق بھی معلوم نہیں۔ اتنا نہیں جانتا کہ کعبہ معظمہ اور مسجد نبوی کی تصویر یا تشبیہ کا حکم اصل خانہ کعبہ یا روضہ رسول کے برابر نہیں ہو سکتا، کہ یہ اصل ہے، وہ محض نقل یا شبیہ۔ پھر بھی ضد پر قائم رہے تو اس سے پوچھئے کہ مقام ابراہیم کیا ہے؟ ایک پتھر جس پر نبی اللہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قدم مبارک کا نشان ثبت ہے، جو عین مسجد الحرام کے صحن میں نصب ہے، فاصلہ زیادہ ہو تو طواف کعبہ کے لیے چکر لگاتے ہوئے یہ بھی بیچ میں پڑتا ہے، اس کے قریب نوافل کی فضیلت حکم ربانی کے تحت ثابت ہے۔ پھر مسجد الحرام میں یہ سب کرتے ہوئے معترض کو غش کیوں نہیں آتے، حالانکہ کسی عام آبادی کی مسجد کے منبر پر محض نقش نعلین رکھنے پر اسے شرک کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ بھائی! آپ کا سوال مبہم، غیر واضح ہے۔ جن پاؤں کے ساتھ ہم کسی دنیاوی حاجت کے لیے کسی ناپاک جگہ جاتے ہیں، انہی قدموں کے ساتھ ہم مسجد میں نماز ادا کرنے بھی تو جاتے ہیں، مسجد الحرام میں طواف کرنے اور مسجد نبوی میں حاضری کے لیے بھی، مگر بعد از حصول طہارت۔ ظاہر ہے، ان مبارک جگہوں پر جانے سے پہلے قدموں کو جسم سے جدا تو نہیں کر سکتے، محض اس بنا پر کہ انہی کو لے کر بیت الخلا میں جاتے ہیں۔ پھر یہ وہم کیوں؟
  2. مختصراً کچھ عرض کرتا ہوں اباحت اباحت سے مراد کسی مسٔلہ کی ایسی نوعیت ہے کہ شرعاً نہ تو اس کا کرنا مطلوب ہو نہ ہی چھوڑنا۔ نہ اس کی انجام دہی پر ثواب ہو نہ ہی ترک پر گرفت۔ مباحات ہی کی قسم میں ایک درجہ عفو کا بھی ہےجس سے مراد وہ احکام ہیں جن کا شریعت نے اثباتاً یا نفیاً کوئی تذکرہ نہ کیا ہو اور نہ ہی شریعت میں کوئی دوسری ایسی نظیر ملے جس پر اس کو قیاس کیا جا سکے۔ یعنی محض شریعت کے اس بارے میں خاموش رہنے پر انہیں مباح مان لیا جائے۔ مندوب یا مستحب یہ حکم شرعی تکلیفی کی قسم ہے۔ مندوب کو نفل، مستحب، تطوّع نیز احسان بھی کہا جاتا ہے۔ لفظ مندوب "الندب" سے مشتق ہےجس سے مراد کسی اہم معاملے کی طرف بلانا اور دعوت دینا ہے۔ اصطلاح شرع میں مندوب سے مراد ایسا فعل ہےجس کے کرنے پر مدح و تعریف کی جائے لیکن چھوڑنے پر مذمت نہ کی جائے۔ جبکہ استحباب کا مادہ "حب" ہے جس کا معنی ہے "پسندیدہ"۔ لغوی طور پر علمائے کرام نے بدعت کی جو تعریفیں بیان فرمائیں، ان میں "بدعت مباحہ" اور "بدعت حسنہ" شامل ہیں۔ اوپر بیان کئے گئے اباحت اور استحباب کے تعارف کی روشنی میں انہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ مخالف کا کہنا کہ اگر عید میلاد النبی بدعت حسنہ ہے تو پھر قرآن و سنت سے اس کا ثبوت ممکن ہی نہیں، یہ غلط محض ہے۔ وہ یوں کہ بدعت حسنہ کے حق میں اگر قرآن و سنت کی روشنی میں کوئی دلیل سرے سے موجود ہی نہ ہو، پھر اسے حسنہ کیونکر کہا جا سکتا ہے، پھر تو یہ مباح ہو گی؟ بلکہ ایسی صورت میں بدعت مباحہ اور حسنہ کا فرق ہی بے معنی ہو گا۔ مخالفین کا مسٔلہ یہ ہے کہ جیسے ہی یہ لفظ بدعت سنتے ہیں، فی الفور اس سے مراد بدعت ضلالہ لے لیتے ہیں، حالانکہ بدعت ناصرف مباح اور حسن حتیٰ کہ بعض اوقات واجب ہوتی ہے۔ جماعت تراویح کے بارے میں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول مبارک "نعم البدعۃ ھذہ" اس کی عام فہم مثال ہے۔ کہ یہاں بدعت سے مراد وہ نیا طریقہ ہے جو نبی کریم ﷺ اور پھر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں نہ تھا مگر چونکہ یہ بنفسہ اچھا تھا، اس لیے اس کی تعریف فرمائی اور حسن کہا۔
  3. یوں تو اسلامی محفل پر اہل علم حضرات نے اس موضوع کے تقریباً ہر پہلو پر مدلل اور بھرپور گفتگو فرمائی ہے، جس میں آپ کو تمام اعتراضات کے جوابات تلاش کرنے پر مل جائیں گے، انتہائی اختصار کے ساتھ ان پانچ نکات پر چند معروضات ملاحظہ فرمائیے۔ 1۔ معترض کا کہنا کہ اگرکتاب وسنت سے یہ عید ثابت ہے تو پھراسے بدعت حسنہ نہیں بلکہ سنت ثابتہ کہا جائے گا، اوراگریہ‌بدعت حسنہ یعنی بعد کی ایجاد ہے تو پھر کتاب و سنت سے اس کا ثبوت ممکن ہی نہیں۔ یہ اس کے جاہل مطلق ہونے کی دلیل ہے۔ بیچارہ اتنا نہیں جانتا کہ بدعت حسنہ ہوتی ہی وہ ہے جس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہو۔ اسے چاہئے پہلے اباحت اور استحباب کے مابین فرق کسی سے پوچھ لے، پھر اعتراض کرے۔ 2۔ مانعین کے پاس منع کی کوئی صریح دلیل نہیں مگر پھر بھی انکار کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ یہ مانتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری اہل ایمان کے حق میں نعمت ہے، یہ نعت خوانی، سیرت طیبہ کے تذکرے، ذات مبارکہ کے فضائل و محاسن کے بیان اور دیگر مستحبات کا انکار نہیں کرتے نہ ایسے امور کے حق میں ثبوت مانگتے ہیں، مگر جونہی محفل میلاد کا نام لیجئے، جو انہی یا ان میں سے بعض کے مجموعے کا نام ہے، فوراً بدعت کی گردان شروع کر دیتے ہیں۔ کیا اس پر یہ سوال نہیں بنتا کہ جب یہ تمام امور انفرادی طور پر تمہارے نزدیک جائز ہیں، پھر ان کے مجموعے کو ناجائز و بدعت قرار دینے کی تمہارے پاس کیا دلیل ہے؟ کیا عید میلاد النبی کی ممانعت پر خاص نص اتری ہے تم پر؟ ہمارے لیے تو اس کے جواز کے لیے اتنا کافی کہ شریعت میں اس کی ممانعت کی دلیل نہیں۔ 3۔ ہمارے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ نام لے کر امام نے اسے جائز کہا ہو، بس اتنا کافی کہ عدم جواز پر کوئی ثبوت نہیں۔ 4۔ یہ کس نے کہا کہ عید میلاد النبی کا جواز اجتہاد مطلق سے ثابت ہوا؟ ائمہ فقہ کے بیان کردہ اصول و قواعد کی پیروی دراصل انہی کی تقلید کرنا ہے نہ کہ ذاتی اجتہاد۔ غیر مقلد مگر کیا جانیں۔ 5۔ لعنۃ اللہ علی الکاذبین۔ معترض اپنا یہ افتراء کبھی ثابت نہیں کر سکتا کہ اہلسنت نبی کریم ﷺ کو بشر تسلیم ہی نہیں کرتے۔ چنانچہ اس افتراء کی بنیاد پر بعد کی واہی تباہی سب بیکار جس کا جواب دینا ہم پر کچھ لازم نہیں۔
  4. وہی گھسا پٹا سطحی اعتراض۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ کوئی شخص قبل از زمانہ پیدائش مذکور وہابی صاحب پر قیاس کرتے ہوئے دعویٰ کرے کہ جناب آپ تو سِرے سے وجود ہی نہیں رکھتے، بایں وجہ کہ آپ فلاں زمانے میں موجود نہ تھے۔ ظاہر ہے، وہابی صاحب قدامت کے تو دعویدار نہیں ہوں گے، مگر کیا اس بنا پر اپنی پیدائش کے بھی منکر ہیں؟ عقلمند را اشارہ کافی است
  5. اللہ تعالیٰ آپ کی عمر، علم، عمل میں برکتیں عطا فرمائے۔
  6. معترض اپنا اعتراض واضح طور پر پیش کر کے جواب کیوں نہیں مانگتا؟ بہرکیف، نبی کریم ﷺ کے علم مبارک کے بارے میں اہلسنت کا عقیدہ واضح ہے جس کا خلاصہ یہ کہ آپ ﷺ کا علم عطائی، غیر مستقل ہے، نہ تو یہ علم ایسا ہے جس میں تغیر و تبدل ممکن نہ ہو اور نہ ایسا جس کا سلب محال ہو، نہ یہ علم ازلی ابدی ہے۔ ذات نبوی ﷺ اس علم کے حصول اور اس کے قائم رہنے، دونوں میں مکمل طور پر ذات باری عزوجل کی محتاج ہے۔ مزید برآں، یہ علم لامحدود نہیں، بلکہ محدود ہے۔
  7. حجاز پہ قبضے کا دن منانا یہ تو حماقت در حماقت ہے کہ سعودی عرب کی حکومت کو حجاز پہ قبضہ سے موسوم کرے۔ اگر ان بریلوی کو یہ حکومت ملتی۔۔۔۔۔۔۔ سلفی میں اعتراض سمجھنے کی بھی اہلیت نہیں اس لیے جواب دینے کے بجائے خلط مبحث میں مبتلا ہو گیا۔ اعتراض کی اصل یہ کہ اگر بالفرض نجدیوں کی خدمت میں حجاز کی حکومت بصد احترام و تکریم پیش کی گئی ہوتی، تب بھی اس دن کو منانے کی شرعی دلیل آخر کیا ہے؟ اور اگر شرعی دلیل موجود نہیں، پھر اسے منانے کا حکم شرعی کیا ہو گا؟ ہر سال کعبہ شریف کو غسل دینا اسی طرح غسل کعبۃ اللہ بھی عملی تواتر سے ثابت ہے ۔ بعض روایات میں تصریح موجود ہے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتوں کو توڑنے اور تصاویر کو مٹانے کے بعد کعبۃ اللہ کو غسل دینے کا حکم دیا تھا۔ عملی تواتر تو لکھ دیا، اس کے حق میں دلیل کیوں پیش نہ کی؟ ان حضرات کے اسماء بھی جن کا قول یا عمل سلفی کے نزدیک حجت شرعی ہو اور تواتر عملی کا ثبوت بھی؟ نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے غسل کعبہ کا حکم غیر شرعی تصویروں کو دھونے کے لیے دیا، نجدی کون سی تصویروں کو دھوتے ہیں؟ مزید برآں، سلفی اپنے اس شرعی اصول کا نام بھی بتا دے جس کی روشنی میں اس روایت کو ہر سال بالاتزام غسل کعبہ کے حق میں دلیل گردان رہا ہے؟ غلاف کعبہ کے بارے میں سلفی نے حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ کا قول قاضی زین الدین عبدالباسط کے بارے میں پیش کیا۔ حافظ ابن حجر کے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں کہ اس نے غلاف کی بے انتہا تحسین و تزئین کی۔ شاید سلفی نے اپنے حق میں پیش کرنے سے قبل ان الفاظ پر غور نہیں کیا۔ سلفیوں نے قاضی زین الدین کو شارع تسلیم کر لیا، یا پھر فتح الباری کو بخاری مان لیا، کہ زین الدین عبدالباسط کے فعل پر حافظ ابن حجر کی توصیف و توثیق ان کے نزدیک حجت شرعی ٹھہری؟ کعبہ کے غلاف پہ آیات لکھنا یہ کام میری نظر میں جائز نہیں ہے نہ اس سے دلیل پکڑتے ہیں اور نہ ہی اپنی مسجدوں میں ایسا کرتے ہیں۔ اگر اس پہ عمل ہے تو بریلوی کا۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی نابینا کی نظر کی بھلا کیا حیثیت؟ سلفی صاحب نجدیوں کے عمل سے دلیل نہیں پکڑتے، لیکن الزام صرف اہلسنت پر دھرتے ہیں۔ کیوں؟ اندھا پن ملاحظہ ہو، کہتے ہیں، اگر اس پر عمل ہے تو بریلوی کا۔ کس پر عمل ہے؟ غلاف کعبہ پر آیات لکھنے جیسے عمل پر؟ مگر وہ تو خاص ان کے مخدومین یعنی اہل نجد کا عمل ہے۔ یعنی یہ تو سیدھا نجدیوں پر حملہ ہے، جسے بیچارہ سلفی کم عقلی کی بنا پر اہلسنت پر تنقید سمجھ رہا ہے۔ انگریزی زبان میں اسے فرینڈلی فائرنگ کہا جاتا ہے۔ سیرت النبی ﷺکے جلسے کرنا دین کی نشر و اشاعت کے لئے دینی مدارس، دعوتی ادارے ، دینی پروگرام ( لکچر، سیمنار،اجتماع، کانفرنس وغیرہ) کرنا جائز ہے ۔ اس کے جواز کے بہت سے دلائل ہیں مگر ممانعت کی دلیل نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم اسے عرس و میلے کی طرح باعث ثواب سمجھ کر نہیں منعقدکرتے بلکہ یہ صرف تبلیغ دین کا ایک ذریعہ ہے ، اس لئے عرس کی طرح پہلے سے اس کی کوئی تاریخ مقرر نہیں ہوتی ۔ نبی کریم ﷺ کے فضائل، آپ ﷺ کی مدح سرائی اور معجزات کے بیان کے جواز پر کسی عقل کے اندھے کو دلائل نظر نہیں آتے تو اس میں اہلسنت کا کیا قصور؟ یہی حال اولیاء و صالحین امت کے حالات کے بیان کی خاطر منعقد کی جانے والی محافل کا ہے، پھر انہیں میلاد کا نام دیا جائے یا عرس کا۔ یہ بھی سچ ہے کہ اہلسنت اس قسم کی تمام محافل اور اجتماعات کا انعقاد حصول اجر و ثواب کی نیت ہی سے کیا کرتے ہیں۔ حیرت تو سلفیوں پر ہے جو دین کی نشر و اشاعت کے کام پر بھی ثواب کی امید نہیں رکھتے۔ یعنی ان کے دینی مدارس، دعوتی ادارے اور دینی پروگرام سب دنیا کمانے کا ذریعہ ہیں۔ کیونکہ اس پر ثواب کے تو وہ خود منکر ہیں، اگر دنیاوی نفع کا بھی انکار کریں، پھر ایسے تمام بے مقصد کاموں پر وقت اور سرمایہ ضائع کرنے کا مقصد؟ محراب مسجد کے بارے میں لکھا "افضل ترین صدیوں سے لیکر اب تک مسلمان مساجد میں محراب بناتے چلے آئے ہیں؛ کیونکہ یہ مفاد عامہ میں سے ہے، جیساکہ نمایاں ترین فائدہ یہ ہے کہ اس سے جہت قبلہ معلوم ہو جاتی ہے، اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس جگہ مسجد ہے"انتہی اور مینار کے بارے میں رہی بات مینار کی تو ہم اسے مسجد کے لئے ضروری نہیں سمجھتے لیکن مسجد کے واسطے مشروع ہے کیونکہ اس مینار سے اذان کی صدا بہت دور تک جاتی ہے اوردور سے ہی ایک مسلمان مینار دیکھ کر مسجد پہچان لیتا ہے۔ کسی سلفی کی ذاتی رائے یا کمیٹی کا فتویٰ کب سے شرعی دلیل ہونے لگے؟ اس بات کی دلیل کہاں پیش کی کہ یہ طاق نما محراب افضل ترین صدیوں میں موجود تھے؟ محض کسی فائدے کی بنیاد پر کسی شے کو ضروری نہ جانتے ہوئے بلا دلیل قطعی مشروع مان لینا سلفیوں کے نزدیک درست ہے، یہ جان کر حیرت ہوئی۔ مگر کیا سلفی اپنے اس اصول پر قائم رہ پائے گا؟ مدرسے بنانے کے بارے میں جو کچھ سلفی نے کہا، اس پر اوپر کلام ہو چکا۔ ختم بخاری کرنا بخاری شریف کا درجہ اسلام میں قرآن کے فورا بعد ہے ، اس لئے اس کے پڑھنے پڑھانے ، سننے سنانے کا بڑا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ یعنی جتنے اہتمام سے امام بخاریؒ نے اس کی تصنیف فرمائی ہے اتنے ہی تزک و احتشام سے بخاری شریف کا علم حاصل کیا جاتاہے۔ جو اس کتاب کو پڑھائے انہیں شیخ الحدیث کے لقب سے ملقب کیا جاتا ہے ۔ اور جو اسے پڑھے انہیں بخاری شریف کی احادیث بیان کرنے کی سند اجازت دی جاتی ہے اور جب بخاری شریف ختم ہوتی ہے تو آخر میں اس کتاب کے ختم ہونے کی خوشی میں ختم بخاری کے نام سے درس ہوتا ہے ۔ یہ درس بخاری ہے ، گجیڑیوں کا عرس اور درباروں میں ہونے والے بے غیرت مسلم خواتین کا ناچ گانا نہیں۔ بخاری کا مقام یا درجہ کیا ہے اور درس بخاری سے کیا مراد ہے، اس بارے میں تقریر کی کوئی حاجت نہیں تھی۔ اگر حاجت تھی، تو اس کے حق میں شرعی دلیل پیش کرنے کی، وہ تو سلفی کو مل نہیں سکی اس لیے ادھر ادھر کی باتیں کر کے فارغ ہو گیا۔ امام بخاری نے بخاری تصنیف کی، اس بات پر سلفی پھولے نہیں سماتے، ان کا کوئی مولوی اس کتاب کو رٹ لے، اس پر بھی خوب بغلیں بجاتے اور اسے شیخ الحدیث گردانتے ہیں، بخاری کی تکمیل پر درس کا انعقاد کرتے اور اسے ختم بخاری کا نام دیتے ہیں۔ مگر یہی بخاری جس عالی مرتبت کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں، اگر خود اس ذات شریف کی دنیا میں تشریف آوری کی خوشی میں کوئی محفل منعقد کی جائے اور اسے محفل میلاد کا نام دیا جائے، اس پر سلفیوں کو غش آنے لگتے ہیں۔ عجب منافقت ہے۔ ماہ مبارک ربیع الاول میں کسی شخص کے چہرے پر زردی اور مردنی نظر آئے، جو اس ماہ مبارک کے گزر جانے کے باوجود باقی رہے، سمجھ لیجئے بیچارہ یرقان کا مریض ہے، اور اگر ربیع الاول شریف کے گزرنے پر افاقہ نظر آنے لگے، سمجھ لیجئے وہابی، سلفی ہے۔ باقی رہا عرس یا کسی اجتماع میں کی جانے والی غیر شرعی حرکات و خرافات کا، اس کو خود اہلسنت حرام و ممنوع قرار دیتے ہیں۔ مگر جن لوگوں کا سارا دھندا ہی فریب کاری پر چلتا ہو، وہ جھوٹ ہانکتے اور ایسی باتوں کو اہلسنت کی جانب منسوب کرتے رہیں گے کہ شاید کوئی جال میں پھنس جائے۔ اہل الحدیث کانفرس کرنا اس کا جواب وہی ہے جو 4 نمبر میں درج ہے۔ جواب الجواب بھی اوپر ہو چکا۔ اور بیس رکعات تراویح کا جواب بھی افضل بھائی نے تفصیل سے دے دیا ہے۔
  8. میں نے وہابیوں کے فورم پر دعوی کیا تھا کہ ’’مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں کے اختیارات کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے۔ تمام اہلحدیثو کو چیلنج کہ کوئی ایک آیت یا حدیث اسکے رد پر لائیں‘‘۔ اس پر وہ سیخ پا تو بہت ہوئے مگر کوئی دلیل اسکے رد پر پیش نہیں کر سکے سوائے ایک حدیث (جسمیں مشرکین تلبیہ پڑھتے ہوئے اپنے من گھڑت خداوں کو مملوک مانتے تھے) اور یہ شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کی عبارت۔ اس پر مجھے یہ کہنا ہے کہ:۔،۔ شاہ صاحب کی عبارت سے مشرکین کا اپنے بتوں کے اختیارات کا اللہ کی عطا سے ہونے کا عقیدہ مذکور ہے۔ اگر وہابی مشرکوں کے عقیدہ عطائے اختیارات کی عبارت سے یہ کہے کہ ’’اس عبارت سے مشرکین کا اپنے بتوں کیلئے اختیارات ماننا باذن اللہ کی قید سے مقید ہے کیونکہ وہ ان کے اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید مان رہے ہیں‘‘۔ تو اب وہابی کو کیا جواب دیں اسکا؟ آپ کے مطالبے کے باوجود وہابیہ کا دلیل پیش نہ کرنا بذات خود اعتراف عجز ہے۔ رہا شاہ صاحب کی عبارت کا معاملہ، تو ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ وہابیہ مشرکین کے نظریات کی جو توضیحات پیش کر رہے ہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح ان نظریات پر قیاس کرتے ہوئے عقائد اہلسنت کا شرکیہ ہونا ثابت کیا جائے۔ مگر شاہ صاحب کی عبارت کی روشنی میں ان کی یہ مزموم کوشش کسی طرح بارآور نہیں ہو سکتی۔اس کی وجہ یہ کہ مشرکین کا اپنے بتوں کے لیے باذن اللہ کی قید سے مقید اختیارات ماننے کا دعوی عقلاً، نقلاً، شرعاً ہر طرح غلط اور جھوٹا ہے۔ سورہ الانعام آیت 108 میں فرمان ہے اور ان کو گالی نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ اللہ کی شان میں بےادبی کریں گے زیادتی اور جہالت سے۔ یونہی ہم نے ہر امت کی نگاہ میں اس کے عمل بھلے کر دیے ہیں پھر انہیں اپنے رب کی طرف پھرنا ہے اور وہ انہیں بتا دے گا جو کرتے تھے۔ قرآن شہادت دے رہا ہے کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے خالق حقیقی ہونے کا دعوی تو ضرور کرتے تھے مگر وہ اپنے دعوے میں جھوٹے تھے، اگر سچے ہوتے تو اپنے جھوٹے معبودوں سے چڑ کر خالق حقیقی کی شان میں گستاخی کرتے؟ اسی سورہ کی آیت 136 بھی ملاحظہ ہو اور اللہ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کئے ان میں اسے ایک حصہ دارٹھہرایا تو بولے یہ اللہ کا ہے ان کے خیال میں اور یہ ہمارے شریکوں کا، تو وہ جو ان کے شریکوں کا ہے وہ تو خدا کو نہیں پہنچتا اور جو خدا کا ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچتا ہے، کیا ہی برا حکم لگاتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کی معتبر تفاسیر کی روشنی میں یہ بات مکمل طور پر عیاں ہو جائے گی کہ مشرکین کی نظر میں ان کے بتوں کی اہمیت خدائے بزرگ و برتر سے کہیں بڑھ کر تھی۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ مشرکین کا عطائے الٰہی یا اذن الٰہی کا دعوی محض دکھاوا تھا، جھوٹ تھا۔ مگر وہابیہ ہیں کہ قرآن کی گواہی کو نظر انداز کر کے مشرکین کی توحید کے حق میں دلائل ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں۔ مشرکین کی توحید کے حق میں دلائل؟؟ ان سے ایسی ہی مضحکہ خیزی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ پھر مشرکین اختیارات کی فقط عطا کے نہیں، ان میں شرکت کے دعویدار تھے، جسے شاہ صاحب نے بھی بیان کیا ہے، اور شرکت اذن کی محتاج نہیں۔ شاہ صاحب کے الفاظ دوبارہ ملاحظہ فرمائیں کہ ظاہر ہے کہ بادشاہ ہر جگہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر خود توجہ نہیں دے سکتا، اس لیے وہ اپنے ماتحتوں کو اختیار دے دیتا ہے کہ وہ جس طرح مناسب سمجھیں کام کریں۔ کیا اس سے اذن الٰہی کی قید کے دعوے کا بطلان ثابت نہیں ہوتا؟ مزید یہ کہ شاہ صاحب کی نقل کردہ تحریر میں صراحت کے ساتھ مشرکین کے اس دعوے کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے فرضی معبودوں کو خلعت الوہیت عطا کر دی ہے۔ حالانکہ یہ بات قطعی ہے کہ الوہیت عطائی ہو ہی نہیں سکتی۔ کیا وہابیہ ایسا ممکن سمجھتے ہیں؟ حاصل کلام یہ کہ مشرکین نے الوہیت کی عطا کا فاسد نظریہ اختیار کیا، اور وہابیہ بنائے فاسد علی الفاسد کے ذریعے اہلسنت کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں۔ یہ ان کا اندھا پن نہیں تو اور کیا ہے؟ اسکا معنی و مفہوم یہ بھی ہے یا نہیں کہ ’’شرک اس صورت میں بھی ہوگا جب اختیار کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہ مانا جائے چاہے اس اختیار کا استعمال باذن اللہ کے ساتھ مانا جائے۔ اس صورت میں بھی شرک ہوگا اگر اختیارات کی عطا کو تو باذن اللہ کی قید سے مقید مانا جائے مگر ان اختیارات کا استعمال باذن اللہ کی قید سے مقید نہ مانا جائے‘‘۔ غیر اللہ کے اختیارات میں اذن الٰہی کی نفی سے شرک کا اثبات ہوتا ہے۔ یہ جو میں نے دعوی کیا تھا ان اہلحدیثوں کے فورم پر کہ ’’مشرکین اپنے بتوں کا اختیار باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے‘‘ اور ہے بھی ایسے ہی جیسے علامہ سیدی سعیدی صاحب نے متعلقہ ٹوپک میں کئی جگہ فرمایا ہے، تو اس حوالے سے یہ دو باتیں پوچھنی ہیں مجھے ایک اس دعوی میں کیا مراد ہے کہ کیا مشرکین ان اختیارات کی عطا کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے یا ان اختیارات کے استعمال کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے یا دونوں (عطا بھی اور استعمال بھی) کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے؟ غیر اللہ میں اختیار بے عطائے الٰہی مانا جائے، اس اختیار کا استعمال بے اذن الٰہی مانا جائے یا حصول اختیار اور اس کا استعمال دونوں بے عطائے الٰہی مانے جائیں، ہر طرح شرک ہے۔ اور مشرکین تو اختیارات کے علاوہ بتوں کے لیے الوہیت اور استحقاق عبادت کے بھی معتقد تھے۔ غرض شرک کی وہ کون سی قسم ہے جس میں وہ مبتلا نہ تھے۔ دو ہم جب کہتے ہیں کہ مشرکین کا ایک شرک یہ تھا کہ اپنے بتوں میں اختیارات کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے۔ تو ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جو اختیارات عطا کیے جانے کے قابل ہیں (یعنی غیر ذاتی یا غیر الوہی اختیارات)، انکو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے(کیونکہ اگر ذاتی اختیارات کو چاہے باذن اللہ کی قید سے مقید بھی مانتے تو بھی شرک ہی تھا۔ اور اگر عطائی اختیارات کو اپنے بتوں میں باذن اللہ کی قید سے مقید مانتے تو اس صورت میں کفر تو ہوتا مگر شرک نہیں)؟؟ مشرکین ہر طرح کے شرک میں مبتلا تھے۔ وہ اپنے بتوں کے لیے ناصرف ہر طرح کے اختیارات، بلکہ الوہیت اور استحقاق عبادت کے بھی معتقد تھے۔ اور جیسا کہ اوپر عرض کیا، وہ اپنے بتوں کو اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں شریک مانتے تھے، اور جب شرکت مان لی، شرک خود بخود ثابت ہو گیا، پھر عطا و اذن کی بحث کی اہمیت کیا رہی؟ تین اگر کوئی اپنے بتوں کو الوہیت کا عطا کیا جانا باذن اللہ کی قید سے مقید مانے (اگر چہ ایسا ماننا حقیقت میں ناممکن ہے مگر مشرکین کی جہالت سے یہ بھی بعید نہیں) تو ایسی صورت میں وہ شخص مشرک ہو جائے گا یا نہیں؟ ایسا شخص بالکل مشرک ہو جائے گا کہ اس نے غیر اللہ میں الوہیت کو تسلیم کیا جو کہ باری تعالیٰ کی وحدانیت کے عقیدے کے صریحاً خلاف ہے۔ توحید کی نفی اگر شرک نہیں تو شرک بھلا اور کسے کہا جائے گا؟ چار کیا اس دعوی کہ ’’مشرکین اپنے بتوں کے اختیارات کو باذن اللہ کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے‘‘ کو اگر اس طرح بنا دیں کہ ’’مشرکین اپنے بتوں کے اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید نہیں مانتے تھے‘‘ تو اسطرح کرنے سے کوئی فرق پڑے گا دعوی پر یا نہیں؟ بظاہر دونوں دعووں میں فرق اس طرح ہے کہ ایک میں اختیار کی عطا کا ذکر ہے تو دوسرے میں اختیار کے استعمال کا، مگر نتیجہ دونوں کا شرک کی صورت ہی برآمد ہوتا ہے، کہ اختیار بے عطائے الٰہی مانا جائے یا اس اختیار کا استعمال بے اذن الٰہی تسلیم کیا جائے، دونوں طرح شرک ہی ثابت ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے میں آپ کے کسی سوال کو درست طور پر سمجھ نہ پایا ہوں، اس پر معذرت چاہتا ہوں۔
  9. مختصراً کچھ گزارشات پیش خدمت ہیں۔ 1 شاہ ولی اللہ نے ایسا کیوں کہا ہے اور انکی مراد و مطلب اگر یہ نہیں ہے جو وہابی نے الزام لگایا ہے تو بھی سچ بات بتائیں۔۔،۔،۔ مذکورہ الزام یا تو وہابی کا مکر ہے، یا محض جہالت۔ شاہ ولی اللہ کی نقل کردہ عبارت میں ایسا کچھ نہیں جس سے اہلسنت پر کوئی اعتراض وارد ہوتا ہو۔ اس عبارت میں موجود ان جملوں پر غور فرمائیں ظاہر ہے کہ بادشاہ ہر جگہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر خود توجہ نہیں دے سکتا، اس لیے وہ اپنے ماتحتوں کو اختیار دے دیتا ہے کہ وہ جس طرح مناسب سمجھیں کام کریں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو خدائی صفات اور اختیارات عطا فرماتے ہیں جن کی خوشنودی اور ناراضی کا اثر عام لوگوں پر پڑتا ہے۔ ان کو خدائی اختیارات میں شریک مانتے تھے، انہوں نے خاص بندوں کی پوجا کے لیے پتھر، لکڑی، لوہے اور بعض دھاتوں کے بت بنا رکھے تھے۔ ملاحظہ فرمائیے، مشرکین خدا کو چھوٹے چھوٹے معاملات پر توجہ دینے سے عاجز جانتے تھے۔ جبکہ اہلسنت ذات و صفات باری تعالیٰ کو ہر قسم کے نقص و عیب اور عجز سے پاک و منزّیٰ مانتے ہیں۔ تو حق کو باطل پر قیاس کرتے ہوئے وہابی کے لگائے الزام کی کیا حیثیت؟ اسی طرح مشرکین بندوں کے لیے خدائی صفات اور اختیارات کی عطا کا عقیدہ رکھتے تھے، جبکہ اہلسنت کے نزدیک خدائی صفات عطائی ہو ہی نہیں سکتیں۔ وہابی صاحب بتائیں، انہیں خدائی صفات اور خداداد صفات کے مابین فرق معلوم ہے؟ اگر نہیں معلوم تو کس قابلیت کے زعم میں دوسروں پر الزام دھرتے ہیں؟ یونہی، مشرکین ناصرف غیر اللہ کو خدائی اختیارات میں شریک مانتے تھے، بلکہ ان کی عبادت بھی کرتے تھے۔ جبکہ اہلسنت کا قطعی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں شرکت سے مکمل طور پر پاک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ان دونوں باتوں میں وہابی کو کون سی یکسانیت نظر آئی کہ اہلسنت پر الزام دھر دیا؟ کیا بصیرت سے محروم وہابی کی بصارت بھی سلامت نہیں؟ 2 وہابی باذن اللہ کا لفظ نہیں دکھا سکا اس عبارت میں، کیا اس میں موجود اللہ کی عطا کا اور باذن اللہ کا ایک ہی معنی و مفہوم و حکم ہے۔ وہابی مجنون کو اتنی بھی تمیز نہیں کہ نقل کردہ عبارت میں مشرکین کا نظریہ بیان ہو رہا ہے نہ کہ اسلامی عقیدہ۔ فرض کیجئے، اگر اس میں باذن اللہ کا لفظ دکھا بھی دیتا تو کیا فرق پڑتا؟ زیادہ سے زیادہ اس کا مفاد یہ ہوتا کہ بقول مشرکین، اللہ تعالیٰ نے بتو ں وغیرہ کو خدائی صفات و اختیارات عطا کر دیے ہیں جن کا استعمال وہ باذن اللہ کرتے ہیں۔ حالانکہ اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ خدائی صفات کا عطا ہونا ممکن ہی نہیں، بلکہ ایسا محال قطعی ہے کہ اذن الٰہی اس سے متعلق ہو ہی نہیں سکتا۔ اور جو عطا ہو جائے، وہ صفت خاصہ خدا نہیں۔ تو مشرکین کا فساد عقیدہ یہیں سے عیاں ہو گیا، اور اس فاسد عقیدے پر قیاس کرتے ہوئے اہلسنت کے اعتقاد پر الزام دھرنے سے وہابیہ کی جہالت بھی واضح ہو گئی۔ 3 وہابی کا کہنا ہے کہ الفوز الکبیر میں لا یثبتون لاحد قدرۃ الممانعۃ اذ ابرم اللہ تعالی امرا مشرکین مکہ کسی کیلئے بھی ایسی قدرت کو ثابت نہیں کرتے تھے کہ اگر اللہ ایک فیصلہ کر لےتو وہ اللہ سے اختلاف اور جھگڑا کر سکتا ہےیوہابی کا کہنا ہے کہ مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے فیصلے کے بعد ان کے بتوں کو کوئی اختیار نہیں تو معلوم ہوا کہ فیصلے سے پہلے بھی وہ بتوں کا اختیار اللہ کی عطا سے ہی مانتے تھے، ورنہ اگر اللہ کی عطا سے نہیں مانتے تھے تو بعد از فیصلہ بھی بتوں کا اختیار مان جاتے۔ کمال ہے۔ بقول شاہ صاحب، مشرکین تو خود اللہ تعالیٰ کو (معاذ اللہ) عاجز مانتے تھے، جو چھوٹے چھوٹے معاملات پر خود توجہ نہیں دے سکتا، جبکہ وہابی صاحب ان کی وکالت میں جتے ہیں۔ پھر ایک طرف کہتے ہیں کہ مشرکین کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے ان کے جھوٹے معبودوں کو خدائی صفات اور اختیارات دے دیے ہیں، تو دوسری طرف ان کی صفائی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے بقول اللہ کے فیصلے کے بعد ان بتوں کو کوئی اختیار نہیں۔ کیا وہابیہ کے نزدیک خدائی اختیار اسی کو کہتے ہیں جو کسی غیر کے فیصلے کے تحت یا اس کا محتاج ہو؟ اگر نہیں، تو پھر دوسروں پر الزام تراشی سے قبل مشرکین کے نظریات بارے خود تو کسی حتمی نتیجے پر پہنچ جائیں۔ 4 وہابی کہتا ہے کہ ’’ شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ جیسے بادشاہ اپنے نائب کو بااختیار بنا کر بھیجتا ہے‘‘ تو ثابت ہوا کہ مشرکین اپنے خداوں میں باذن اللہ اور بعطا اللہ کی قید سے ہی اختارات مانتے تھے۔ شاہ صاحب نے لکھا کہ بادشاہ ہر جگہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر توجہ نہیں دے سکتا، اس بنا پر وہ اپنے ماتحتوں کو اختیار دے دیتا ہے کہ وہ جس طرح مناسب سمجھیں کام کریں۔ اس میں ایک طرف تو ذات باری تعالیٰ کے حق میں عجز کا اظہار ہے، مزید برآں جس طرح مناسب سمجھیں کے الفاظ میں اذن الٰہی کی پابندی کی بھی نفی ہو رہی ہے۔ مگر وہابی صاحب کی موٹی عقل میں اتنی واضح اور صریح بات نہیں سما سکی۔ اس عبارت کی روشنی میں وہابیہ کس طرح یہ استدلال کر سکتے ہیں کہ مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں کے اختیارات کے تحت اذن الٰہی ہونے کے قائل تھے۔ حیرت ہے۔ 5 وہابی کا کہنا ہے کہ ’’شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ مشرک مانتے تھے کہا اللہ اپنے بعض بندوں کو خدائی صفات اور اختیارات عطا فرمائے ہے‘‘ تو ثابت ہوا کہ مشرکین اللہ کی عطا اور اللہ کے اذن سے ہی اپنے معبودوں کے خدائی اختیارات مانتے تھے۔ آفرین ہے وہابی کی لیاقت پر۔ شاہ صاحب نے لکھا کہ مشرک مانتے تھے کہ اللہ نے اپنے بعض بندوں کو خدائی صفات اور اختیارات عطا فرمائے ہیں۔ بس، وہابی کے نزدیک ثابت ہو گیا کہ مشرکین اللہ کی عطا اور اس کے اذن سے ہی اپنے معبودوں کے خدائی اختیارات مانتے تھے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس سے وہابی کو حاصل کیا ہوا؟ وہابیہ کے نزدیک اسلامی نظریات معتبر ہیں یا پھر مشرکین کے جھوٹے دعوے؟ ہم پھر پوچھتے ہیں، وہابیہ کے نزدیک خدائی اختیارات کیا عطائی ہو سکتے ہیں؟ کیا اہلسنت نے کبھی کہیں یہ دعوی کیا کہ وہ انبیاء و اولیاء کے لیے خدائی صفات کی عطا کا نظریہ رکھتے ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر وہابیہ دن کو رات پر قیاس کرتے ہوئے کیا ثابت کرنے چلے ہیں؟ 6 وہابی کا کہنا ہے کہ ’’شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ مشرکین کا ماننا تھا کہ تاکہ بادشاہ حقیقی کے دربار میں پذیرائی ہو‘‘ تو ثابت ہوا کہ مشرکین اپنے معبودوں کو حقیقی خدا بھی نہیں مانتے تھے اور اللہ کو ہی حقیقی خدا مانتے تھے۔ اگر اپنے معبودوں کو کے الفاظ وہابی کے ہیں، تو ایک مرتبہ پھر اس کی فہم و فراست پر چار حرف۔ ایک شخص مٹی کے کسی ڈھیلے کو حقیقی خدا نہ سمجھے مگر اس کی عبادت کو جائز مانے تو کیا یہ شرک نہیں؟ یہاں اصل وجہ شرک اس مٹی کے ڈھیلے کو مستحق عبادت سمجھنا ہے، حقیقی خدا نہ سمجھنا اس شرک سے بچا نہیں سکتا۔ مگر وہابی کی اوندھی عقل اسے غیر متعلق بات کی طرف ہی رہنمائی کرے گی۔ 7 کیا سیدی سعیدی مد ظلہ العالی کی اس پوسٹ کی ایک لائن میں میرے سوال کا جواب ہے؟؟ http://www.islamimeh...ge-4#entry97775 وہ لائن یہ ہے:۔ جوچیزآپ نے پیش کی ہے۔وہ الوہیت اورالوہی اختیارات کی عطاکاقول ہے۔اُن میں باذن اللہ کی قیدکہیں بھی نہیں ہے جوآپ اُن پرجھوٹ کے طورپرتھوپ رہے ہیں۔ مسلمان جب نبی یاولی کے لئے خداداداختیارمانتاہے تووہ اُس کے ساتھ یہ بھی مانتاہے کہ یہ اختیار اللہ کے اذن کے بغیر،اللہ کے امرکے بغیر،اللہ کے حکم بغیر استعمال نہیں ہوسکتا،اُس کے امرکے بغیرپرندہ بھی پرنہیں مارسکتا۔ حضرت قبلہ سعیدی صاحب کا کلام بالکل واضح ہے۔ اس میں اختیارات کی عطا اور اس کے استعمال دونوں میں اذن باری تعالیٰ کی قید ذکر کی گئی ہے، اور یہی حق اور اہلسنت کا عقیدہ ہے۔ 8 میرے سید سعیدی صاحب نے اسی اوپری ٹوپک میں فرمایا ایک پوسٹ میں کہ:۔۔،۔ مشرکین کااپنے معبودوں کے لئے اُلوہیت اوراُلوہی اختیارماننا اسے استقلال مانناہی توہے۔ آپ اگر مشرکین کی بے دام وکالت اورنمائندگی کا شوق پورا کرنےکے لئے رانا صاحب کی تحریرسے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ مشرکین اپنے معبودوں کے لئے ایسااختیارمانتے تھے جو اللہ کاعطاکردہ ہونے کے ساتھ باذن اللہ کی قیدسے مقید ہوتا۔ تو پیش کرو ورنہ اپنی غلط فہمی دور کرو۔ ۔مجھے یہ جاننا ہے کہ اگر کوئی بندہ کسی بت میں اختیارات کو اللہ کی عطا سے مانے مگر اللہ کے اذن سے نہ مانے تو کیا اب یہ شرک ہوگا؟؟؟ جی بالکل یہ شرک ہو گا۔ ایک بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ جو صفت ذاتی ہو گی، وہی مستقل ہو گی کہ اس کا فنا ہونا اور کسی غیر کے اذن کے تحت ہونا محال۔ اور جو عطائی ہو گی، وہ ہمیشہ غیر مستقل ہو گی، ممکن الفنا اور محتاج اذن۔ کسی صفت کو اذن الٰہی کے تحت نہ ماننا اسے مستقل ماننا ہے، اللہ کی عطا کا قول محض دھوکہ و فریب یا پھر خود فریبی ہے۔ 9 مشرکین اپنے جھوٹے خداوں میں اختیارات اللہ کی عطا سے مقید مانتے تھے یا نہیں؟ اگر کوئی شخص اپنے جھوٹے معبودوں میں اختیارات اللہ کے اذن سے ماننے کا یقین رکھے مگر اللہ کی عطا سے نہیں تو اب یہ شرک ہوگا؟؟ اللہ کی عطا کے بغیر مانا جائے تو ایسا اختیار ذاتی ہو گا جو صریح شرک ہے، اذن کے تحت ماننے کا دعوی کچھ مفید نہیں۔ بلکہ ایسا دعوی سرے سے لغو ہے، کہ جس اختیار کے حصول میں غیر کی احتیاج نہیں اس کے استعمال میں اذن کی پابندی چہ معنی؟ ان کا بھی بتا دیں اسی حوالےسے کو اوپر پوچھا گیا۔۔ 10 اگر بت کے اختیار اذن الہی سے مانے کوئی شخص تو کافر ہوگا یا مشرک یا دونوں؟ شرک ہمیشہ کفر بھی ہوتا ہے مگر ہر کفر کا شرک ہونا ضروری نہیں۔ کسی بت میں اختیار اگر اللہ کی عطا سے مانا اور اس کے استعمال کو بھی اذن الٰہی کے تحت مانا تو اگرچہ یہ شرک نہ ہو، نصوص قطعیہ کی روشنی میں کفر ضرور ہے۔ استحقاق جہنم ازراہ کفر ہو یا شرک، دونوں طرح قطعاً ثابت ہے۔ 11 اس کتاب کی ایک دو انڈر لائنڈ سطروں سے تو وہابی ہم پر اعتراض کر سکتا ہے کہ دیکھو مشرکین نے اپنے جھوٹے معبودوں کیلئے یہ مانا کہ ’’اللہ نے انکو الوہیت دے دی‘‘۔ اس عبارت کا کیا مفاد ہے (کہ الوہیت اللہ کی عطا سے مانتے تھے وہ لوگ یا اللہ کے اذن سے) اور لعینوں وہابیوں کو کیا جواب دیں اسکا؟؟ وہابی کو اگر اپنی جہالت کی تشہیر کا شوق ہو تو ضرور اعتراض کرے۔ جواب میں اسے بتائیں کہ الوہیت کی عطا کا عقیدہ مشرکین کا تھا اور یہ دعوی باطل محض تھا۔ اہلسنت جب عطائے الوہیت ہی کو محال قطعی مانتے ہیں تو پھر ان پر اعتراض کس بنا پر؟ اور وہ بھی مشرکین کے باطل دعوے پر قیاس کرتے ہوئے، اہلسنت جس کے صریح مخالف ہیں؟ 12 ہم جب کہتے ہیں کہ ’’مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں میں اختیارات کو اللہ کے اذن کی قید کے بغیر مانتے تھے‘‘ تو اسمیں اختیارات سے مراد کونسے اختیارات ہیں؟ ذاتی یا عطائی؟؟ جیسا کہ پہلے عرض کیا، جو اختیار محتاج اذن نہ ہو وہ درحقیقت ذاتی ہوتا ہے، اگرچہ کوئی اسے عطائی کے نام سے موسوم کرتا پھرے۔ تو جس نے کسی غیر اللہ کے لیے مستقل اختیار کا دعوی کیا، اس نے درحقیقت شرک کیا، پھر چاہے اس کا حصول اللہ کی عطا سے بتائے۔ سفید کو سیاہ کہہ دینے سے اس کی حقیقت نہیں بدل جاتی۔ 13 اگر کوئی بندہ کسی بت میں ذاتی اختیارات کو اللہ کے اذن کی قید سے مقید مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟ جب ذاتی مانا، پھر اذن کی قید محض لغو ہے۔ یہ یقیناً شرک ہو گا۔ 14 اگر کوئی بندہ کسی بت میں ذاتی اختیارات کو اللہ کے اذن کی قید سے مقید نہ مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟ اس کے شرک ہونے میں کسے شبہ ہو سکتا ہے؟ 15 اگر کوئی بندہ کسی بت میں ذاتی اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟ یہ تو اجتماع نقیضین ہوا۔ اگر ذاتی مانا تو پھر عطا کی قید کہاں سے آ گئی، اور اگر عطائی مانا تو پھر ذاتی کیونکر کہہ سکتے ہیں؟ 16 اگر کوئی بندہ کسی بت میں ذاتی اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید نہ مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ جب ذاتی مانا تو عطا کی قید سے مقید نہ ماننا ہی لازم آتا ہے، اور اس کا شرک ہونا ظاہر تر۔ 17 اگر کوئی بندہ کسی بت میں عطائی اختیارات کو اللہ کے اذن کی قید سے مقید مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟ عطائی بھی کہے اور تحت اذن بھی، تو اسے شرک نہیں کہیں گے، مگر بت میں اختیار ماننا کفر سے کیونکر بچائے گا کہ نصوص قطعیہ سے اس کا کفر ہونا ثابت۔ اور یہ بھی تب ہے کہ صرف اختیار عطائی غیر مستقل مانے، بت کے لیے استحقاق عبادت وغیرہ کا قائل نہ ہو۔ 18 اگر کوئی بندہ کسی بت میں عطائی اختیارات کو اللہ کے اذن کی قید سے مقید نہ مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟ شرک ہو گا کہ یہ اختیار کا مستقل ماننا ہے، اور استقلال ہمیشہ ذاتی اختیار میں ہوتا ہے۔ اسے عطائی کہنا لغو ہے۔ 19 اگر کوئی بندہ کسی بت میں عطائی اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟ عطائی مانا تو شرک نہیں، مگر کفر پھر بھی ہے کہ قطعی نصوص کی مخالفت ہے۔ 20 اگر کوئی بندہ کسی بت میں عطائی اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید نہ مانے تو اب یہ شرک ہوگا یا نہیں؟ یہ بھی عقلاً محال ہے۔ اگر عطائی ہے تو عطا کی قید سے مقید نہ ماننے کا کچھ مطلب نہیں بنتا۔
  10. محترم کشمیر خان صاحب اس تمام تر مواد کے بعد اگر آپ اپنے سوالات علیحدہ سے نمبر وار لکھ دیں تو ان پر کلام کرنے میں آسانی ہو گی۔
  11. تبصرہ کر تو ضرور سکتا ہوں، مگر نہیں کر رہا۔ ایک تو اس سے حاصل کچھ نہیں ہو گا، دوسرے، کچھ پاسِ احترامِ دوستاں بھی ہے۔
  12. میرے سوال کے جواب میں پہلے تو فتوے کے ایک خاص حصے کی جانب نشاندہی کی، جب سوال دہرا کر پوچھا کہ مذکورہ الفاظ میں جواب کہاں ہے، تو اب کہتے ہیں کہ تفصیلات منعم عطاری بھائی بتائیں گے۔ اگر ایسا تھا تو پھر منعم عطاری بھائی کا ہی انتظار کیا ہوتا، بےچینی کس بات کی تھی؟
  13. ان الفاظ سے پاکستان کا بننا غلطی کس طرح ثابت ہو گیا؟
  14. کیا اس فتوے سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ پاکستان بنانا ایک غلطی تھی؟
×
×
  • Create New...