Jump to content

Ahmad Lahore

اراکین
  • کل پوسٹس

    103
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    14

سب کچھ Ahmad Lahore نے پوسٹ کیا

  1. مودبانہ گزارش ہے کہ بات بات پر ٹوٹنے اور تڑخنے کے بجائے اگر آپ سمجھنے پر زور دیں تو یہ زیادہ مفید ہو گا۔
  2. ایک تو گفتگو اور انداز گفتگو میں اعتدال پیدا کرنے کی کوشش کیجئے۔ دوسرے، باقی سب کو بیشک رہنے دیجئے، صرف ایک خلیل احمد رانا بھائی کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو مکرر ملاحظہ کر لیجئے اور دیکھئے کہ انہوں نے کہاں کیا شکایت یا تنقید کی ہے آپ پر۔ امید ہے مسٔلہ آپ کو سمجھ آ جائے گا۔
  3. عزت مآب جناب کشمیر خان صاحب! آپ کی خدمت میں کشمیری التجا ہے (معاف کیجئے، فی الوقت آپ کے معاملے میں یہی مناسب معلوم ہو رہا ہے) آپ کچھ دیر کے لیے تمام تر خیالات فاسدہ سے دماغ کو خالی کر کے تنہائی میں بیٹھ کر اس ساری صورتحال پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی کوشش کیجئے۔ ممکن ہے آپ کو خود اپنے طرز عمل میں خامی نظر آ جائے۔ آپ کو کس طرح یقین دلایا جائے کہ یہاں کسی کو آپ کی ذات سے کوئی پرخاش نہیں، آپ کا طریقہ کار ہے جو لوگوں کو آپ کی ذات سے متنفر کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ نام آپ کا کشمیر ہے جبکہ عملاً آپ کا معاملہ مقبوضہ کشمیر جیسا معلوم ہوتا ہے کہ نہ ادھر کے نہ ادھر کے۔ محفل کے قواعد و ضوابط میں خامی ہوتی تو آئے دن سنی بھائیوں کو شکایات ہوتیں، پھر صرف آپ ہی کیوں؟ غور فرمائیے گا۔
  4. کبھی اس بات پر بھی غور کیا ہوتا کہ آخر کیوں اتنے سارے لوگ ایسی بات سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں؟ ذاتی عناد تو یہاں کسی کو کسی سے نہیں۔ خود کو عقلمند سمجھنے پر پابندی نہیں، مگر اپنے سوا ایک زمانے کو بیوقوف جاننا بجائے خود احمقانہ سوچ ہے۔ مزید یہ کہ رونے دھونے اور دہائیاں دینے سے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل نہیں ہوا کرتیں۔ دعویٰ نہیں، انسان کی شخصیت اور اس کے کردار کا آئینہ اس کا عمل ہوا کرتا ہے۔ اور تعریف ہو یا تنقیص، حد سے بڑھی ہوئی مبالغہ آرائی سے انسان دوسروں کی نظر میں معتبر نہیں، الٹا مشکوک ٹھہرتا ہے۔ ویسے تو میری چھٹی حِس بھی اوّل دن سے کچھ اشارہ دے رہی تھی، جب اس کا اظہار کرنا چاہا تو عادت کے مطابق حسِ مزاح غالب آ گئی۔ چند بڑوں کا ادب لحاظ آڑے آیا اس لیے کچھ بھی عرض کرنے سے خود کو باز رکھا، کیونکہ وہ شاید مزید موقع دینے کے قائل تھے۔ مگر اب تو لگتا ہے سبھی تنگ آ گئے ہیں۔ چنانچہ کشمیر خان صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ اپنے طرز عمل پر غور کریں اور ہو سکے تو اسے تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ نہ تو مگرمچھ کے آنسوؤں سے کسی کا دل پسیجتا ہے نہ ہی موقع بے موقع بدمذہبوں کو گالیاں دینا آپ کی سنّیت کی دلیل بن سکتا ہے۔ بلکہ ایسا نہ ہو اسی تمام تر تبرّے بازی کی بنیاد پر کسی کو یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ جن پہ تقیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
  5. االلہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ حضرت قبلہ سعیدی صاحب کو جلد از جلد شفائے کاملہ عنایت فرمائے اور آپ کی صحت، علم، عمل میں برکتیں عطا فرمائے۔ عابد عنایت بھائی کے سوالات کے علمی و تحقیقی جوابات مع دلائل کے لیے تو ہم آپ ہی کے منتظر رہیں گے، سردست چند گزارشات اس سلسلے میں پیش خدمت ہیں۔ عابد بھائی نے لکھا کہ مدار الوہیت بمطابق عقائد اہلسنت، دو ہیں۔ اس کا ایک جواب یہ دیا گیا کہ مدار دو (2) نہیں ہیں بلکہ چار (4) ہیں۔ قدیم ہونا اور غیر مخلوق وغیرہ بھی ہیں اس پر یہ اشکال ہے کہ جب چار کے نام گنوا دیے، پھر وغیرہ سے کیا مراد ہے؟ اس عبارت کی روشنی میں تو یہ عدد چار سے متجاوز ہونا چاہئے۔ دوسری گزارش یہ کہ قدیم ہونا واجب الوجود ہونے کے لیے لازم ہے۔ مثلاً ذات اگر قدیم نہ ہو تو حادث ہو گی، اور جب قبل از حدوث وجود ہی نہیں، پھر اس کا واجب ہونا کیا معنی۔ تحقیق طلب معاملہ یہ ہے کہ قدیم ہونے کو الگ سے معیار الوہیت شمار کیا گیا ہے یا نہیں۔ مزید برآں، مخلوق وہ جو تخلیق ہو، اور جو تخلیق ہو وہ حادث ہو گی، اور حادث ضد ہے قدیم کی، تو کیا قدیم ہونے اور غیر مخلوق ہونے میں اشتراک معنی نہیں؟ کیا یہ دو علیحدہ صفات ہیں یا ایک ہی صفت کے دو نام؟ عابد بھائی کے دوسرے سوال پر کچھ معروضات استحقاقِ عبادت اور وجوبِ وجود کو معیار الوہیت قرار دینے کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ان دونوں میں نہ تو حقیقی و مجازی کی تقسیم ممکن ہے، نہ ہی ذاتی و عطائی کی۔ مثال کے طور پر ایّاک نعبدو وایّاک نستعین ہی کو لیجئے۔ یہاں عبادت حقیقی و مجازی میں منقسم نہیں، نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی عطا سے عبادت کا استحقاق عطا فرما دے۔ الغرض معبود ہونا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے اور یہ فقط اسی کا استحقاق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے، تو یہ الوہیت کے لیے معیار ہوا۔ دوسری طرف استعانت میں حقیقی و مجازی یا ذاتی و عطائی کی تقسیم مانے بغیر ہمارے مخالفین کو بھی چارہ نہیں۔ اور کچھ نہیں تو تحت الاسباب اور فوق الاسباب کی بحث تو وہ اس میں چھیڑتے ہی ہیں، لہذا خواہ کسی بھی صورت میں جب غیر اللہ سے استعانت کو جائز تسلیم کر لیا، پھر اسے معیار الوہیت قرار دینا کیونکر درست ہو گا؟ وجوبِ وجود میں بھی یہی صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ صمد ہے۔ وہ اپنی ذات یا وجود کے لیے کسی کا محتاج نہیں، جبکہ مخلوق تمام کی تمام اپنی تخلیق و بقا کے لیے اسی وحدہ لا شریک کی محتاج۔ یعنی تمام تر کائنات کا ظہور اور اس کا وجود محتاج ہے وجود باری تعالیٰ کا۔ اور یہ ایسی صفت ہے جو نہ تو مجازی طور پر کسی کو حاصل ہے، نہ ہی عطائی طور پر۔ یعنی نہ تو یہ ممکن ہے کہ کوئی مخلوق ایسی ہو جو اپنے وجود کے لیے ذات باری تعالیٰ کی محتاج نہ رہے، نہ ہی یہ کہ ایک شے اپنے وجود کے لیے ذات باری تعالیٰ کے بجائے اس کے غیر کے وجود کی محتاج ہو جائے۔ حتی کہ خود باری تعالیٰ کی عطا سے اس کے امکان کا عقیدہ رکھنا بھی جائز نہیں۔ میری رائے میں ان دونوں (واجب الوجود ہونے اور مستحق عبادت ہونے) کا معیار الوہیت ہونا ہمارے مخالفین کو بھی قبول ہے۔ اختلاف اصل میں یہ ہے کہ وہ اضافی طور پر بعض ایسی باتوں کو الوہیت کے لیے معیار قرار دے کر اہلسنت پر کفر و شرک کے فتوے لگاتے ہیں، درحقیقت جن پر الوہیت کا مدار نہیں، جیسا کہ اوپر استعانت کا تذکرہ آیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس بات کو غیر اللہ کے حق میں جائز قرار دیتے ہیں، اسی کو الوہیت کے لیے معیار مان لیتے ہیں۔ اگر کہیں کہ ہم زندہ سے مدد مانگتے ہیں، مردہ سے نہیں، تو اس پر ہم پوچھتے ہیں کہ اسی زندہ کی عبادت کو جائز کیوں نہیں سمجھتے، یا اسی زندہ کو واجب الوجود کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ یا پھر یوں کہ جب ان زندوں کو مستحق عبادت خیال نہیں کرتے نہ ہی واجب الوجود قرار دیتے ہو، پھر ان سے استعانت بھی کیوں کرتے ہو؟ ثابت ہوا کہ مستحق عبادت ہونا اور واجب الوجود ہونا ہی الوہیت کے لیے معیار ہے، نہ کہ مستعان ہونا، کہ استعانت بعض اوقات حقیقی ہوتی ہے، بعض اوقات مجازی، اور مستعان وہ بھی کہلاتا ہے جو ذاتی قدرت و طاقت سے مدد کرنے والا ہو اور وہ بھی جو کسی کی عطا کردہ طاقت سے مدد کرنے پر قادر ہو۔ واجب الوجود ہونا اور مستحق عبادت ہونا ایک دوسرے کے لوازم ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا، اس بات پر موجودہ زمانے کے تقریباً تمام اہم فرقوں کا اتفاق ہے کہ عبادت کا استحقاق صرف ذات باری تعالیٰ کے لیے ثابت ہے اور اس کے علاوہ کسی اور کو معبود ماننا شرک صریح ہے۔ چنانچہ استحقاق عبادت الوہیت کے لیے معیار ہوا۔ اس بات پر بھی یہ سب ہی متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں قدیم ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں، سب اس کے محتاج ہیں۔ اس کے وجود سے سب کا وجود ہے، کسی غیر کا وجود اس کے وجود کے لیے سبب نہیں، اس کے وجود کو فنا نہیں، باقی جو کچھ ہے ممکن الفنا ہے۔ لہذا واجب الوجود ہونے کو معیار الوہیت قرار دینے پر بھی ان میں سے کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ اب اگر ایک ذات کے لیے واجب الوجود ہونا تسلیم کیا جائے مگر مستحق عبادت نہ مانا جائے تو وہ ذات الہ نہیں ہو سکتی کہ استحقاق عبادت کی نفی سے الوہیت کا انکار لازم آئے گا۔ یونہی اگر کسی ذات کو مستحق عبادت قرار دیا جائے مگر اس کا واجب الوجود ہونا تسلیم نہ کیا جائے تب بھی وہ ہستی الہ نہیں ہو سکتی کیونکہ الہ کے لیے حدوث و فنا یا اپنے وجود کے لیے غیر کا محتاج ہونا دونوں محال۔ لہذا الوہیت ثابت ہی تب ہو گی جب ان دونوں کو لازم و ملزوم مانا جائے کہ کسی ایک کی بھی نفی خود الوہیت کی نفی کو مستلزم۔ اہل علم حضرات سے تصحیح کی درخواست اور رہنمائی کی التجا ہے۔
  6. کسی شخص یا گروہ سے غلط کی توقع رکھنا اور بات ہے، جعلسازی کے ذریعے غلط کی اس کے ساتھ نسبت قائم کرنا بالکل دوسری بات۔ اگر کسی میں دس برائیاں واقعی موجود ہوں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ دو تین خود سے وضع کر کے اس سے نتھی کر دی جائیں۔ نقصان اس کا یہ کہ ایک الزام اگر جھوٹا ثابت ہو گیا، باقی پھر سچ بھی ہوں تو بعضوں کی نظر میں مشکوک ٹھہریں گے۔ چنانچہ اس قسم کی باتوں پر یقین کرنے اور انہیں آگے بڑھانے میں احتیاط کرنی چاہئے۔
  7. علمائے حق نے یہ فرمایا ہو کہ قرآن میں خواتین کا ذکر نام لے کر نہ کرنا ان کے پردے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ہے، اگر اس بارے میں کوئی بھائی مستند حوالہ جات عنایت فرما سکیں تو عین نوازش ہو گی۔
  8. قرآن میں صرف ایک خاتون کا نام ذکر ہوا ہے، یعنی حضرت مریم سلام اللہ علیہا۔ باقی جہاں بھی خواتین کا تذکرہ آیا، ان کا نام نہیں لیا گیا۔ اس کی ایک توجیح یہ سننے میں آئی کہ اس میں عورت کے پردے کی اہمیت کی جانب اشارہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں فرمایا کہ قرآن میں عورتوں کا تذکرہ ان کے ناموں کے ذریعے فرمائے۔ اور سیدتنا مریم سلام اللہ علیہا کا نام اس لیے لیا گیا کیونکہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ کہتے تھے، تو واضح فرما دیا کہ آپ ابن مریم ہیں۔ لیکن اس توجیح کو اگر تسلیم کر لیا جائے تو سوال پیدا ہو گا کہ پھر احادیث مبارکہ میں خواتین کے اسماء کیوں ذکر ہوئے؟ یعنی جس بات کا اظہار قرآن میں اللہ کو پسند نہیں، صاحب قرآن اپنے فرامین میں اس کا اظہار کیونکر فرمائیں؟ اہل علم حضرات کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس مسٔلے کے بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ مزید یہ کہ کیا واقعی علمائے حق نے ایسا کچھ فرمایا ہے کہ قرآن میں خواتین کے اسماء ذکر نہ کرنا ان کے پردے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ہے؟
  9. ساری رونق اور برکت اہل علم کے دم سے ہے، اپنا تو نہ کہیں حساب نہ شمار۔ اللہ تعالیٰ علمائے کرام کے کفش برداروں میں کر دے، اس سے بڑھ کر کوئی فخر کی بات نہیں۔
  10. محترم بھائی دیو بندیوں کے مکتبہ رحمانیہ کے چھپے ہوئے فتاویٰ عالمگیری کی عبارت پیش خدمت ہے جس میں مذکورہ مسٔلہ بعینہ بیان ہوا ہے۔
  11. انجیکشن سے روزہ ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کا مسٔلہ مختلف فیہہ ہے۔ بعض علماء کے نزدیک اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا جبکہ بعض کے نزدیک ٹوٹ جاتا ہے۔
  12. موکلین طارق جمیل کا عجیب حال ہے۔ کہتے ہیں علماء بھی انسان ہوتے ہیں اور غلطی انسان ہی سے ہوتی ہے۔ ٹھیک کہا آپ نے۔ مگر طارق جمیل سے کون سی غلطی ہوئی؟ اپنے اکابر کے فتاویٰ پر اعتماد کرنے کی غلطی؟؟؟ بطور صفائی کہتے ہیں طارق جمیل نے غلطی تسلیم کر لی۔ مگر مذکورہ اکابر نے غلطی تسلیم کی یا نہیں، اس بارے میں کچھ کہنے سے مجتنب ہیں۔ اور اگر بالفرض وہ اکابر غلطی پر نہ تھے تو پھر طارق جمیل کے رجوع کی بنیاد اور اس کا محرک کیا ہے؟ کبھی اہلسنت سے خارج نہ ہونے کے قول کو طباعت کی غلطی کہہ دیا گیا، اس پر جتنے قرینے پیش کیے، خلیل احمد رانا بھائی نے ان تمام کے جوابات نہایت قرینے سے پیش کر دیے، تب سے اس پر کفِ لسان ہے۔ عدم تکفیر کا فتویٰ دکھایا گیا تو ایک قول تکفیر کا ڈھونڈ لائے، رافضی تبرّائی سے سنی کا نکاح جائز ہونے (بغیر کراہت بیان کیے) کا فتویٰ دکھایا گیا تو ایک دوسرا قول رافضی تبرّائی سے نکاح کے درست نہ ہونے کا دکھانے لگے، مگر دونوں صورتوں میں تضاد کی وضاحت کچھ بھی نہیں کرتے۔ تو پھر فیصلہ کیونکر ہو؟ چلیے، یہ مسٔلہ ان حضرات کے سامنے ایک اور طرح سے رکھتے ہیں اور اس پر ان کی رائے مانگ لیتے ہیں۔ امداد الفتاویٰ جلد چہارم صفحہ 584 پر مولوی عبدالماجد دریا بادی نے بڑے رقت آمیز انداز میں چند سوالات پوچھے ہیں اور شیعہ کی تکفیر پر اپنے تحفظات اور خلش کا اظہار کرتے ہوئے اشرف علی تھانوی سے گزارش کی ہے کہ اس بارے میں تشفی کر دی جائے۔ جواب میں تھانوی صاحب نے یوں تو شیعہ کے کفر کا قول ہی جگہ جگہ کیا ہے، مگر اس کی جو مثال پیش کی ہے، ذرا وہ ملاحظہ ہو۔ یعنی تھانوی جی شیعہ کے خلاف اپنے فتویٰ کی توضیح حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کے منصور بن حلاج علیہ الرحمہ کے خلاف فتویٰ کے ذریعے سے دے رہے ہیں اور اس بارے میں خود کو حضرت جنید علیہ الرحمہ کا متبع کہہ رہے ہیں۔ اس توضیح کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ تھانوی صاحب کی نظر میں حضرات جنید و منصور کا باہم معاملہ اصل میں ہے کیا۔ ملاحظہ کیجئے کتاب "سیرت منصور حلاج" جو اشرف علی تھانوی کی زیر نگرانی ظفر علی عثمانی نے تالیف کی ہے۔ اس کے صفحہ 82 پر ہے عجیب بات ہے۔ یہاں تو تھانوی صاحب کے اپنے ہی قول کا ردّ لکھا ہے کہ حضرت جنید علیہ الرحمہ نے جناب منصور علیہ الرحمہ کے جواز قتل پر فتویٰ دیا تھا، کیونکہ حضرت جنید کی وفات اس واقعہ کے قریب دس بارہ برس قبل ہو چکی تھی۔ مزید برآں ظفر عثمانی کے بقول اگر جنید اس وقت حیات ہوتے بھی تو حضور غوث الاعظم علیہ الرحمہ کے فرمان کی روشنی میں منصور کا خلاف کرنے کے بجائے ان کی دستگیری فرماتے۔ چلئے ہم مان لیتے ہیں کہ عبدالماجد دریا بادی کو جواب دیتے وقت تھانوی صاحب سے غلطی ہو گئی، کہ غلطی آخر کو انسان ہی سے ہوا کرتی ہے۔ بہرکیف، حضرت جنید نہ سہی، دیگر علماء نے تو قتل منصور کا فتویٰ دیا ہی تھا، تو تھانوی صاحب کے شیعہ کے خلاف فتوے کی توضیح ان علماء کے عمل سے سمجھ لیتے ہیں۔ اسی کتاب سیرت منصور حلاج کا صفحہ 97 اور 98 ملاحظہ فرمائیے۔ یعنی بقول ظفر عثمانی (مع تائید اشرف علی تھانوی) وہ فتویٰ دھینگا دھینگی، زبردستی، جبراً مرتب کرایا گیا اور وہ فتویٰ، شرعی فتویٰ کہلانے کا مستحق نہیں بلکہ وزارت و حکومت کا فتویٰ تھا۔ گویا تھانوی صاحب نے کانپتے ہاتھوں سے شیعہ کے کفر پر جو فتویٰ دیا، وہ دھینگا دھینگی سے، زبردستی یا جبراً دیا۔ مزید برآں، کیا تکفیر شیعہ کا فتویٰ، فتویٰ شرعیہ کے بجائے فتویٰ وزارت و حکومت کہلانے کا حقدار نہیں ہے؟ حالانکہ اشرف علی تھانوی نے خود اپنے منہ سے شیعہ کے خلاف فتویٰ دینے کی توضیح منصور حلاج کے فتویٰ قتل کی مثال کے ذریعے سے پیش کی ہے۔ ہو سکتا ہے اس پر یہ کہا جائے کہ تھانوی صاحب نے تو حضرت جنید علیہ الرحمہ کے بارے میں کہا تھا، جبکہ اصل میں فتویٰ دینے والے علماء میں حضرت جنید شامل ہی نہیں۔ مگر یہ بات انہیں مفید نہیں۔ کیونکہ ظفر عثمانی نے حضور غوث پاک علیہ الرحمہ کے فرمان کے تحت یہ بھی صراحت کر دی کہ اگر بالفرض حضرت جنید اس وقت موجود ہوتے تو منصور کی دستگیری کرتے۔ ایسے میں تھانوی کا شیعہ کے خلاف فتویٰ کفر کے بارے میں خود کو حضرت جنید کا متبع قرار دینے کاکیا معنی ہے؟ دانش منداں را اشارہ کافی است۔ مؤکلین حضرات اگر چکرا نہ جائیں تو اس سارے گورکھ دھندے کی کچھ وضاحت فرما دیں۔
  13. صحابہ کرام علیہم الرضوان کو کافر کہنے والے کی عدم تکفیر کا قول جب طارق جمیل سے ثابت ہوا، تو آپ کے ساتھی نے بطور صفائی دعوی کر دیا کہ طارق جمیل نے اس عقیدے سے رجوع کر لیا ہے اور بزعم خوش "اہلسنت" کے مطابق ایسے شخص کو کافر بھی قرار دیا ہے۔ جب سوال کیا کہ جن اکابر کے فتاویٰ سے طارق جمیل نے اپنا گزشتہ عقیدہ کشید کیا تھا، ان کا رجوع بھی ثابت ہے یا نہیں؟ اس کا جواب نہ آپ دیتے ہو نہ آپ کے ساتھی۔ اس کی وجہ؟ آپ کے حکیم الامت کا فتویٰ (امداد الفتاویٰ) سے پیش کیا گیا جس میں رافضی تبرّائی مرد کے ساتھ سنیہ کے نکاح کو جائز رکھتے ہوئے عدم فسخ کا حکم لگایا گیا تھا۔ آپ نہ جانے کیا سوچ کر بغیر حوالہ کوئی ٹکڑا کاٹ لائے جس میں نظر آتا ہے کہ انہی تھانوی صاحب نے عالمگیری اور ردّالمختار کے حوالے سے سنی لڑکی کے شیعہ سے نکاح کو غیر درست لکھا اور شیعہ کے عقائد کو کفر کہا ہے۔ یہ تو چھپانے کی بات تھی، آپ اس کی تشہیر فرما رہے ہیں؟ جس واضح تضاد پر آپ کو شرمندہ ہونا چاہئے، اسے بطور فخر مخالفین کے سامنے پیش فرما رہے ہیں؟ کمال کرتے ہیں آپ بھی۔ صحابہ کرام کی بےادبی اور ان کے ایمان کا انکار کرنے والے کو فتاویٰ رشیدیہ میں فاسق کہا گیا اور فتاویٰ رحیمیہ والے نے بھی صحابہ کو برا کہنے والے کو فاسق کہا، اور فسق کی تعریف میں نماز چھوڑنے یا موخر کرنے کے ساتھ چغل خوری کرنے، بطور تکبر ٹخنوں سے اونچی لنگی باندھنے، رشوت خوری وغیرہ کو شامل کیا۔ کیا تبرّائی رافضی اسی قسم کے فاسق ہیں؟ امداد الفتاویٰ، فتاویٰ رشیدیہ اور فتاویٰ رحیمیہ والے سب اسی قول پر اکٹھے ہیں؟ فتاویٰ رضویہ کا جو ٹکڑا آپ نے نقل کیا اس میں تبرّائی رافضیوں کو مذہب فقہا پر کافر و مرتد لکھا ہے، جبکہ مسلک محقق قول متکلمین کے مطابق بدعتی، ناری، جہنمی، کلاب النار کہا، مگر کہا کہ کافر نہیں۔ یہاں جو مسالک فقہا و متکلمین کا فرق بیان کیا اس پر آپ کو کیا اعتراض ہے؟ پھر فاضل بریلوی نے سنی مرد کے شیعہ عورت سے نکاح کو مذہب متکلمین کے تحت سخت شدید مکروہ لکھا، جبکہ امداد الفتاویٰ والے نے سنی عورت کے رافضی تبرّائی مرد کے ساتھ نکاح پر کراہت کا قول مطلقاً نہ کیا۔ ان دونوں میں فرق سمجھتے ہیں آپ؟
  14. لیجیے جناب، طارق جمیل کی وکالت کا ردّ تو محترم خلیل احمد رانا صاحب نے خوب کر دیا اور تمام تر تاویلات کے تار و پود بھی بکھیر کر رکھ دیے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ آپ کے طارق جمیل صاحب کا مبلغ علم اتنا ہی ہے کہ انہوں نے اپنے ایک بڑے کے فتوے (وہ بھی بقول آپ کے غلط چھپا ہوا) کو دیکھ کر صحابہ کرام علیہم الرضوان کو کافر کہنے والے شخص کے عدم کفر کا عقیدہ قائم کر لیا؟ کیا انہیں یہ سارے قرینے نظر نہ آئے جو آپ کی عقابی نگاہ نے دیکھ لیے۔ یہ جو جابجا، بلکہ بےجا حوالے آپ نے اپنے رشید احمد گنگوہی کے حوالے سے رافضیوں کے کفر پر دیے، ان میں سے بھی طارق جمیل کو کوئی ایک بھی نظر نہ آیا؟ کیا طارق جمیل کے عقیدے کی بنیاد فقط یہی ایک غلط چھپا ہوا فتویٰ تھا؟ ویسے تو آپ کے اشرف علی تھانوی کا شمار بھی انہی اکابرین میں ہوتا ہے۔ امداد الفتاویٰ جلد دوم کے صفحہ ۲۵۲ پر اشرف تھانوی نے شیخین پر تبرّا و سبّ و شتم کرنے والے کا سنّی عورت کے ساتھ نکاح محض غیر کفو سے نکاح قرار دیتے ہوئے قائم رکھا اور عدم فسخ کا حکم لگایا ہے۔ اسے کیا کہیں گے آپ؟ اب اس میں کون سی طباعت کی غلطی ہے؟ اگرچہ خلیل رانا بھائی نے تمامی تاویلات کے شافی جواب پیش کر دیے ہیں، بس ایک آدھ نکتہ رہ گیا تھا، اس کا حال بھی ملاحظہ فرما لیں۔ فتاویٰ رشیدیہ صفحہ۱۰۸ پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے رشید گنگوہی نے ایسے شخص کے بارے میں جو حضرت عکرمہ و حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں بکواس کرے اور ان کے ایمان کا انکار کرے، لکھا کہ جو شخص حضرات صحابہ کی بےادبی کرے وہ فاسق ہے۔ غالباً اسی بارے میں آپ نے بطور تاویل فسق اعتقادی اور فسق عملی کے ذریعے دفاع کی کوشش کی ہے۔ مگر آپ کی یہ کوشش بھی رائیگاں ہے کیونکہ آپ کے گھر کے مفتی نے اس کا فاسد ہونا بیان کر دیا۔ دیکھئے آپ کے فتاویٰ رحیمیہ والے نے اس بارے میں کیا لکھا ہے؟ فتاویٰ رحیمیہ جلد اول کے صفحہ 161 پر ہے سوال (۲۰) فاسق کی کیا تعریف ہے؟ اور شریعت میں اس کے لیے کیا حکم ہے؟ کن گناہوں کے مرتکب کو فاسق کہیں گے؟ بینو توجروا۔ (الجواب) جو شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو یا گناہ صغیرہ پر اصرار کرتا ہو ایسا شخص فاسق ہے، اور فاسق مردود الشہادت ہوتا ہے یعنی اس کی گواہی قبول نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعض گناہ کبیرہ یہ ہیں، نماز چھوڑنا، نماز کو اپنے وقت سے مقدم یا مؤخر کرنا، زکوٰۃ نہ دینا، چوری کرنا، لوگوں کو گانے سنانا، لوگوں کے سامنے ستر کھولنا، ازراہ تکبر لنگی یا پاجامہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانا، غیبت کرنا، چغل خوری کرنا، جھوٹی گواہی دینا، جھوٹی قسم کھانا، کسی کا مال غصب کرنا، سود کھانا، رشوت لینا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، یتیم کا مال کھانا، قطع رحمی کرنا، کسی صحابی کو برا کہنا (جیسے روافض اور خوارج فرق ضالہ کا طریقہ ہے اور جس پر آج کی مودودی جماعت گامزن ہے) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں جناب؟ اس مفتی سے غلطی کی کون سی قسم سرزد ہوئی؟ یا اس نے کب اور کن الفاظ میں رجوع کیا؟ یا پھر نہیں کیا؟
  15. کون سی تقریر سن لوں جناب؟ بغیر سوچے اگر خوامخواہ کی حمایت کا بیڑا اٹھا ہی لیا تھا تو کچھ کارکردگی بھی دکھائی ہوتی۔ سارے اشکالات کی بات بعد کی ہے، پوچھے گئے اس ایک سوال کا جواب ہی عنایت کر دیتے۔ تقریر سن لو، مگر اس کا لنک نہیں دے رہا کیونکہ ڈیلیٹ کر دیا جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت خوب کیا اس تقریر میں پوچھے گئے سوال کا جواب موجود ہے؟ اگر موجود ہے تو اسے یہاں لکھ دو، تردد کس بات کا ہے؟
  16. ماشاءاللہ کشمیر خان صاحب۔ داد دینی پڑے گی آپ کے ذوق مطالعہ اور سرعت رفتار کی۔ ابھی دو ہی ہفتے ہوئے آپ کو اس فورم کا رکن بنے، اور کئی پرانے ارکان کی مکمل تاریخ پڑھ ڈالی آپ نے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ابھی چند دن پہلے تک نہ آپ کو وہابی اور بریلوی کا فرق معلوم تھا، نہ ہی یہ پتہ تھا کہ یہ بریلوی، دیوبندی، شیعہ، اہلحدیث کیا ہوتے ہیں۔ جبکہ اس قدر جلد آپ یہ بھی جان گئے کہ مناظرہ بریلی میں باوجود محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ کے سمجھانے کے، منظور سنبھلی اپنے اکابرین کی گستاخانہ عبارات کا دفاع کر کے التزام کفر کا مرکتب ٹھہرا۔ اسی طرح طالب الرحمٰن نے بھی مفتی حنیف قریشی صاحب کے ساتھ مناظرے میں ایسی ہی حرکت کر کے التزام کفر کا ثبوت مہیا کر دیا۔ بہت خوب جناب، بہت خوب۔
  17. طارق جمیل نے ایک تقریر میں اپنی بات سے رجوع کر لیا؟ اور طارق جمیل نے جو مذکورہ موقف کے بارے میں کہا تھا کہ یہ میں نے اپنے ہی اکابر کے فتاویٰ میں پڑھا ہے کیا ان اکابر نے بھی اپنے فتاویٰ سے رجوع کیا تھا یا ان کی موت اسی کفریہ عقیدے پر ہوئی جسے پڑھ کر طارق جمیل نے یہ کفر بولا؟
  18. کشمیر خان صاحب آپ کی اب تک کی گفتگو سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں آپ نے اپنی پہلی پوسٹ میں لکھا آج کل اگر کوئی وہابی عالم (جو اپنے اکابرین کی گستاخیوں کو اچھے سے جانتا ہو مثلا تقویۃ الایمان کی ان عبارات کو جانتا ہو جن میں رسول اللہ ﷺ کی گستاخیاں ہیں) توبہ کر کے سنی بننا چاہتا ہے تو ہمارے علما اسکی توبہ کو مقبول کیسے مان لیتے ہیں اور اس وہابی عالم کے سنی بننے کو قبول کیسے کر لیتے ہیں؟ (حالانکہ پہلے وہ وہابی عالم خود ان کفریات و گستاخیوں کا قائل رہ چکا تھا اور دوسرے لفظوں میں صریح گستاخِ رسول تھا اور گستاخِ رسول کی توبہ ویسے ہی نامقبول ہے)۔ پھر اپنی ساتویں پوسٹ میں لکھتے ہیں یہ تو مجھے بھی پتہ ہے کہ گستاخِ رسول سخت ترین مرتد ہے۔ اسکی توبہ قبول نہ ہونے کا مطلب بھی یہ ہے کہ بغیر قتل کے اسکا جرم معاف نہیں ہوگا۔ اور شاتم مرتد کی سزا قتل کے سوا کچھ بھی نہیں ہے آگے چل کر لکھتے ہیں جب کوئی وہابی عالم توبہ کرنا چاہے (جو قطعا گستاخِ رسول ہو اور اسکی تحریر و تقریر اس کا بیّن ثبوت ہو) تو ہمیں یہ کرنا چاہئیے کہ اس کو پھانسی کیلئے پیش کریں تاکہ اس کے ذمے رہنے والا حق العبد ادا ہو جائے اور پھر پھانسی کے بعد اسکی توبہ مکمل طور پرمقبول مانی جانی چاہئے اور اس طرح دوسرے لوگوں کو بھی مرتد گستاخ کا انجام پتہ چلے اور اگر حکومت اسے پھانسی نہیں دیتی یا لگتا ہے کہ اسے پھانسی نہیں ملے گی تو بجائے اسے سنی مان لینے کے ویسا کا ویسا احتجاج ہونا چاہئے اس وقت تک کہ جب تک حکومت سے پھانسی نہ دے دے پھر اپنی نویں پوسٹ میں لکھتے ہیں میں جان اور مان چکا ہوں کہ شاتم مرتد کی سزا کے دو پہلو ہیں ۔ ایک دنیاوی اور دوسرا آخرت کا۔ اگر وہ شاتم مرتد خلوص دل سے توبہ کر لے شرعی تو آخرت کا معاملہ معافی کا ہو سکتا ہے لیکن دنیاوی سزا معاف ہرگز نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے ذمے حق العبد پھر بھی باقی رہے گا۔ اس کے متعلق مزید کچھ نہ کہا جائے۔ میرا اصل سوال بس اسی ایک پوائنٹ پر ہی تھا اور اب بھی بدستور باقی ہے کہ ہمیں کس نے اختیار دیا کہ شاتم مرتد کی دنیاوی سزا کا مطالبہ نہ کریں یا اگر حکومت وقت یا دیگر مجبوریاں آڑے ہوں تو بغیر دنیاوی سزا کے اسکے سُنی بننے کو قبول کر لیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ یہاں تک کی گفتگو میں آپ نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ آپ کے نزدیک شاتم رسول کے لیے دنیاوی سزا کی کسی صورت معافی نہیں۔ مگر پھر اچانک ہی اپنی تیرہویں پوسٹ میں یوں لکھ دیا کہ آپ لوگ شاید یہ سمجھے کہ میں فقہا کے صرف اس ایک مذہب کو مان رہا ہوں کہ گستاخِ رسول کی دنیاوی توبہ بغیر قتل کے قبول نہ ہوگی۔ میں شروع سے صرف اتنا جانتا چاہتا ہوں کہ علمائ کرام کس دلیل شرعی کی رو سے حق العبد کو معاف مان لیتے ہیں۔ آگے مزید لکھتے ہیں مجھے اس سے کوئی اختلاف نہیں کہ اگر شاتم مرتد خلوص دل سے توبہ کرے تو اسکی دنیاوی توبہ بلا قتل قبول ہے کیونکہ علما کا یہی عمل ہے اور بہت سے فقہا کا بھی یہی مذہب ہے ، مگر جو بات مجھے سمجھ نہیں آئی وہ میں نے پوچھ لی کہ حق العبد کے باقی رہتے کس دلیل شرعی سے ایسا کیا گیا ، تاکہ مجھے اصل وجہ پتہ چلے۔ گزارش یہ ہے کہ دلیل کا علم ہونا یا نہ ہونا، یا پھر اس کا سمجھ میں آنا نہ آنا تو بعد کی بات ہے، پہلے آپ یہ فیصلہ کیجئے کہ آپ کا موقف اصل میں ہے کیا؟ کیونکہ اوپر نقل کیے گئے اقتباسات میں واضح تضاد ہے۔ ایسے میں دوسروں کو الزام دینے یا شکوے شکایات کرنے کے بجائے آپ کو اپنے احوال پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
  19. کشمیر خان صاحب! آپ نے نیچے دیے ہوئے لنک پر کچھ یوں لکھا ہے Main ny ASMAT_E_AMBIYA k hwalay sey nichy walay link par kuch aitrzaat post kiy hein. kia kisi mein himmat nahi k reply kr saky aor Sunniyoo ka difa kary....... http://www.islamimeh...ویوں-کا-اختلاف/ وہ لنک یہ ہے http://www.islamimehfil.com/topic/23350-brelviyoo-ka-asmat-e-ambiya-k-aqidy-main-ikhtlaf/ یہ کیا انداز تخاطب ہے جناب؟ آپ سائل ہیں یا معترض؟ اہل علم سے سوال کرنے کا کچھ سلیقہ ہونا چاہئے۔
  20. جناب نے کیا سمجھا، میں نے بغیر وجہ کے سوال کیا تھا؟ نہیں، بلکہ سوچ سمجھ کر ہی پوچھا تھا۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام جلیل القدر نبی ہیں۔ ان کی مثال دینے کی بھی ایک وجہ تھی، جو تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ اور جب آئے گی، تب تک دیر ہو چکی ہو گی۔ جی ہاں، جانوروں کی بولیاں سمجھنا سیدنا سلیمان علیہ السلام کے معجزات میں شمار ہوتا ہے۔ مگر جناب کو معلوم نہیں کہ دعویٰ محال عقلی و محال شرعی و محال عادی کا کیا تھا۔ تو کیا معجزات کو باوجود وقوع کے محال کہتے ہو؟ کیا تمہارے فرقے میں اور بھی کسی نے معجزے یا کرامت کو محال کہا یا تم ہی وہ پہلے فاضل ہو جس نے یہ دعویٰ کیا؟ کچھ کچھ سمجھ تو گئے ہو گے کہ اگر عقل ہوتی تو محال عقلی کا اور شریعت سے کچھ تعلق ہوتا تو محال شرعی کا دعویٰ نہ کرتے۔ تو کہاں گیا اب وہ دعویٰ؟ یا پھر محال عقلی و محال شرعی کا مطلب ہی نہیں جانتے؟ اور سیدنا سلیمان علیہ السلام کے خادم کے تخت حاضر کر دینے کا معاملہ کیوں گول کر گئے؟ وہ تو نبی بھی نہیں تھے نہ ہی ان کا یہ عمل ان کا معجزہ تھا۔ اس بارے میں بھی کچھ لب کشائی کی ہوتی۔
  21. یعنی عقلاً، شرعاً، عادتاً ہر طرح محال۔ اور فاصلہ بھی ہزاروں میل سے گھٹا کر محض چند میٹر کر دیا؟ لگتا ہے جذبات کی رَو میں کچھ زیادہ ہی بہک گئے۔ اب ذرا سورہ النمل کی آیت 18 اور 19 کو ملاحظہ کرو۔ ترجمہ: حتی کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا، اے چیونٹیو! اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ، کہیں سلیمان اور ان کا لشکر بےخبری میں تمہیں روند نہ ڈالے۔ اس کی بات سے سلیمان مسکرا کر ہنس دیے۔الخ اس کے بعد اسی سورہ النمل کی آیت 38 تا 41 ملاحظہ کرو۔ ترجمہ: سلیمان نے کہا اے سردارو! تم میں کون ان کے اطاعت گزار ہو کر آنے سے پہلے اس کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے؟ ایک بہت بڑے جن نے کہا میں آپ کے مجلس برخواست کرنے سے پہلے اس تخت کو اس کے پاس حاضر کر دوں گا اور میں اس پر ضرور قادر اور امین ہوں۔ جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اس تخت کو آپ کے پاس حاضر کر دوں گا، سو جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے۔ الخ کیوں جناب؟ قرآن حکیم نے تمہارے محال عقلی و شرعی و عادی کا کیا حال کیا؟ ایک طرف سیدنا سلیمان علیہ السلام نے انسان کجا، ایک چیونٹی کی بات نہ صرف سن لی بلکہ سمجھ بھی لی۔ کتنے میٹر یا کلومیٹر سے سنی اور سمجھی، یہ اپنے کسی مولوی سے پوچھ لو اگرچہ وہ خود کسی چیونٹی کی بات کان لگا کر بھی سننے کے قابل نہ ہو، سمجھنا تو دور کی بات ہے۔ دوسری طرف سیدنا سلیمان علیہ السلام کے ایک درباری کی قوت اور تصرف ملاحظہ کرو کہ آنکھ جھپکنے کی دیر میں ملکہ بلقیس کا تخت خدمت میں حاضر کر دیا جو ہزاروں میل کے فاصلے پر سخت پہروں میں رکھا تھا، جسے لانے کے لیے ایک عفریت جن نے بھی مجلس کے خاتمے تک کی مہلت مانگی تھی۔ تو کیا ہوا تمہارے محال عقلی، محال شرعی و محال عادی کا؟
  22. محال عقلی ہے؟ محال شرعی؟ یا محال عادی؟ مزید برآں، فاصلہ اگر ہزاروں میل کے بجائے سینکڑوں میل یا اس سے کم ہو، مثلاً دس، بیس یا پچاس میل، تب بھی محال ہی ہو گا؟
  23. اللہ کی عطا سے ہزاروں میل دور کی آواز سننا اور مدد پر قادر ہونا آپ کے نزدیک ممکن ہے یا نہیں؟ یا پھر سننا ممکن، مگر مدد پر قادر ہونا محال؟ یا اس کے برعکس؟ یا پھر ایسا سننا اور مدد پر قادر ہونا دونوں محال؟ کچھ ارشاد فرمائیے تاکہ آپ کے اس سادہ سے مطالبے کی وضاحت ہو سکے اور پتہ چلے وہ کون سی بےچینی ہے جس نے اس مطالبے پر مجبور کیا۔
×
×
  • Create New...