Jump to content

Syed_Muhammad_Ali

اراکین
  • کل پوسٹس

    209
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    27

سب کچھ Syed_Muhammad_Ali نے پوسٹ کیا

  1. زلفی بھائی آپ نے بنأ کسی عذر کے نماز چھوڑنے پر قضأ پڑھنے کرنے کا ثبوت صحیح حدیث سے مانگا ہے۔ آپ خود ہی بتائیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کون سا مسلمان نماز کو بنأ کسی عذر کے چھوڑتا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تو منافقین بھی نماز کی پابندی کرتے تھے۔ صحیح مسلم باب قضاء الصلاة الفائتة، واستحباب تعجيل قضائها میں ہے۔ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا رقد أحدكم عن الصلاة، أو غفل عنها، فليصلها إذا ذكرها ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی سو جائے یا نماز سے غافل ہوجائے تو یاد آنے پر اسے پڑھ لینا چاہیئے۔ اس حدیث میں لفظ ’نسیان‘ کی جگہ ’غفل‘ آیا ہے۔ یعنی نماز سے غافل رہا۔ عذر کی قید نہیں ہے۔ امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں۔ فيه وجوب قضاء الفريضة الفائتة سواء تركها بعذر كنوم ونسيان أم بغير عذر ترجمہ: جس شخص کی نماز فوت ہوجائے اس کی قضاء اس پر ضروری ہے خواہ وہ نماز کسی عذر کی وجہ سے رہ گئی ہو جیسے نیند، اور بھول یا بغیر عذر کے چھوٹ گئی ہو۔ نام نہاد اہل حدیث وھابیوں کا ایک اعتراض یہ ہے کہ قضائے عمری پر کسی صحیح حدیث سے ثبوت نہیں ملتا۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قضأ نماز پڑھی وہ اسی دن کی تھی، پوری عمر کی قضأ نمازیں پڑھنے کا کہیں جواز نہیں ہے لہذا یہ بدعت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اصول بیان فرمادیا ہے کہ جب کبھی مسلمان کوئی نماز وقت پر نہ پڑھ سکے تو اس کے ذمے لازم ہے کہ تنبہ ہونے پر اس کی قضاء کرے خواہ یہ نماز بھول سے چھوٹی ہو، سوجانے کی وجہ سے یا غفلت کی وجہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں کی تعداد مقرر نہیں فرمائی کہ اتنی تعداد میں نمازوں کی قضا واجب ہے، چنانچہ جب غزوہٴ خندق کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی نمازیں چھوٹیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کی قضاء فرمائی۔ اس موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر اس سے زیادہ نمازیں چھوٹ جائیں تو اُن کی قضاء واجب نہیں۔ اور یہ ایک مسلم اصول ہے کہ قرآن وسنت کی طرف سے جب کوئی عام حکم آتا ہے تو اس کے ہر ہر جزئیے کے لیے الگ حکم نہ دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔ لہٰذا قضائے عمری یعنی زیادہ نمازوں کی قضاء کے لیے الگ دلیل کی ضرورت نہیں اور الگ دلیل کا مطالبہ، غلط جاہلانہ اور اِس مذکورہ مسلّم اصول کے خلاف مطالبہ ہوگا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی کسی عام حکم سے استثناء کا دعویٰ کرے تو دلیل اس کے ذمّے ہے کہ قرآن وسنت کی کسی دلیل سے مستثنیٰ ہونا ثابت کرے ورنہ جب تک قرآن وسنت میں کوئی استثنا مذکور نہ ہو عام حکم اپنی جگہ قائم رہے گا۔ --------------------------------------------------
  2. وہابی دراصل نماز کے چور ہیں۔ ان کے نزدیک تو سفر میں بھی نمازیں جمع کرکے پڑھنا جائز بلکہ مسنون ہے۔ قضأ پڑھنے کے مسئلے میں بھی یہ حضرات بہانے بناتے ہیں کہ اگر جان بوجھ کر نماز قضأ کردی تو صرف توبہ کرو سب معاف۔ ان کے یہ مسائل سراسر جہالت پر مبنی ہیں۔ نمازیں اگر قضأ ہو جائیں تو ان کی توبہ بھی ضروری ہے اور قضأ پڑھنا بھی لازم ہے۔ چنانچہ غزوۂ خندق میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازیں مشرکین سے جنگ کی وجہ سے جاتی رہیں یہاں تک کہ رات کا کچہ حصہ چلا گیا تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم فرمایا، انھوں نے اقامت کہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ظھر کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی پھر عصر کی نماز پڑھی پھر اقامت کہی پھر مغرب کی نماز پڑھی اور پھر اقامت کہی تو عشأ کی نماز ادا کی۔ یہ حدیث مسند احمد، مسند الشافعی، مصنف بن ابی شیبہ اور سنن الکبری بیہقی میں بھی موجود ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ اس موقع پر نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازیں بھولے تھے اور نہ ہی سوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام نمازوں کی قضأ پڑھی۔ ایک اور حدیث جو کہ مسلم و مشکوۃ شریف میں موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز فجر قضأ ہوئی اور صحابہ بھی سوتے رھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قضأ پڑھی۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو نماز قضأ ہوئی تھی وہ غفلت کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ علمأ کرام فرماتے ہیں کہ رب تعالی کی رضا و منشأ یہ تھی کہ محبوب علیہ السلام کی امت کو یہ پتا چلے کہ قضأ نماز پڑھنے کا طریقہ کیا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رات میں اپنی طرف بہت زیادہ توجہ عطا فرمائی یہاں تک کہ سورج نکل آیا۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم غفلت کی نیند نہیں سوتے تھے جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ تو سوتی ہے لیکن دل نہیں سوتا۔ ان احادیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جان بوجھ کر قضأ کی گئی نمازیں چاھے وہ سالوں پر محیط ہوں ان کی بھی قضأ پڑھنا لازم ہے۔ صرف توبہ کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ ------------------------------------------------- -------------------------------------------------
  3. اس حدیث کو اکیلے ابن جوزی نے موضوع کہا ہے۔ ابن جوزی تضعیف حدیث کے بارے میں غایت درجہ متعنت اور متشدد ہیں - حتی کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث کو بھی موضوعات میں داخل کردیا ہے اور ان کے بعض راویوں کو بھی وضاع اور کذاب کہہ دیا ہے - اسی وجہ سے اکثر محدثین نے ان کی تنقید پر اعتماد نہیں کیا اور ان کی تنقید کو"لایعبأبہ" قرار دیا ہے - چناچہ حافظ سیوطی تعقبات علی الموضوعات میں لکھتے ہیں: قدنبہ الحافظ قدیما و حدیثا علی ان فیہ ای فی کتاب الموضوعات تساھلا کثیرا و احادیث لیست بموضوعة بل ھی من راوی الضعیف و فیہ احادیث حسان و اخری صحاح بل فیہ حدیث من صحیح مسلم بنہ علیہ الحافظ ابو الفضل ابن حجر و وجدت فیہ حدیثا من صحیح البخاری وقال ابن حجر تساھلہ و تساھل الحاکم فی المستدرك اعدم البقع بکتابیہما ترجمہ: قدیم اور جدید محدثین نے اس پر تنبیہ فرمائی ہے کہ "کتاب الموضوعات" میں بہت تساہل اور کمزوری ہے اور اس میں وہ احادیث بھی ہیں جو موضوع نہیں ہیں بلکہ ضعیف راویوں سے مروی ہیں - اور بعض حدیثیں حسن اور صحیح بھی ہیں - بلکہ ایک حدیث مسلم کی بھی ہے - حافظ ابن حجر نے بتلایا کہ میں نے ایک حدیث اس میں بخاری کی بھی دیکھی ہے۔ ابن حجر فرماتے ہیں ، ابن جوزی اور مستدرک میں حاکم کے تساہل نے دونوں کتابوں کے نفع کو کالعدم کردیا۔ پس معترضین کو چاہیے کہ پہلے بخاری و مسلم و سنن اربعہ کے راویوں کے وضاع و کذاب ہونے کا اقرار کریں۔ پھر شیطان کی نماز پڑھنے والی حدیث پر تبصرہ کریں۔ اور مسلم پاک صاحب آپ نے سعیدی بھائی کے سوال کا جواب نہیں دیا کہ آپ اعلی حضرت علیہ الرحمہ پر اعتراض کرنے سے پہلے حافظ ابن حجر عسقلانی کی الاصابہ فی معرفۃ الصحابہ پر اعتراض کیوں نہیں کرتے؟
  4. ​------------------------------------------------------- ​-------------------------------------------------------
  5. مناقب کے اعتبار سے یہ حدیث بالکل قابل قبول ہے کیونکہ اس کی تائید میں مزید احادیث بھی موجود ہیں۔ صحیح مسلم میں ہے۔ لو كان الدين عند الثريا، لذهب به رجل من فارس ترجمہ: اگر دین ثریا تارے کے پاس بھی ہوتا تو فارس کا ایک آدمی اسے حاصل کرلیتا۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب تبييض الصحيفة في مناقب أبي حنيفة میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں: وقد بشر بالإمام ابي حنيفة فى الحديث۔ یعنی یہ حدیث امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے لیے بشارت ہے۔ آگے مزید لکھتے ہیں۔ فهذا أصل صحيح يعتمد عليه في البشارة والفضيلة نظير الحدیثين ويستغنى به عن الخبر الموضوع۔ یعنی یہ صحیح حدیث اس سلسلے میں تمام موضوع احادیث میں تقسیم کرتی ہے۔ اس حدیث میں جس آدمی کی طرف اشارہ دیا گیا فارس میں اس شان کا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے سوا کوئی پیدا نہیں ہوا۔ یہ حدیث صحیح البخاری، مسند احمد، طبرانی وغیرہ میں بھی موجود ہے۔ علامہ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم میں ایک حدیث نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ترفع زینت الدنیا سنۃ خمسین مائۃ ترجمہ سنہ ڈیڑھ سو میں دنیا کی زینت اٹھالی جائے گی۔ سنہ ڈیڑھ سو میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی وفات شریف ہے۔ امام کردری نے فرمایا کہ اس حدیث سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ہی اشارہ ہے۔
  6. Internet Explorer ALLAH na kre !!! Attar bhai main Chrome User hun. Jb chhota tha tb Internet Explorer use krta tha modem card scratch kr k Khair pehle notification aur messenger k buttons hi show nai horhe the, ab show horhe hain. Aur ye skin mujhe ziada better lgi us se jo aap ne dopehar mein lagai thi.
  7. السلام عليكم و رحمۃ اللہ۔۔۔ Sag e Attar bhai notifications aur Personal Messenger show nai horhe. Plz solve this problem
  8. دیوبندی نے تشریح میں صحیح کہا یا غلط یہ تو آپ باطل فورم پہ جا کر ان سے پوچھیں۔ یہاں جو اسکین لگائے گئے ہیں ان میں اس حدیث کو حسن نہیں کہا گیا۔
  9. برھان بھائی ابھی فی الحال ایک حوالہ ہی ملا ہے۔ باقی کتب کی تلاش جاری ہے۔ حوالہ نمبر ۱۰
  10. بہت خوب برھان بھائی۔ اللہ آپ کو خوش رکھے بہت اچھا مضمون تیار کیا ہے۔ اللہ آپ سے اسی طرح دین کی خدمت کا کام لیتا رہ۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا
  11. آپ نے جو اعتراض کیا ہے اس کا اجمالی جواب تو خود صاحبِ درمختار نے دے دیا ہے۔ امام ابوللیث القرمانی نے کتاب التوضیح شرح مقدمہ ابو للیث میں ان احادیث کو لکھا ہے۔ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے الموضوعات میں اس حدیث کو مختلف طرق سے روایت کیا ہے اور تمام احادیث کو موضوع قرار دیا ہے۔ اس کا رد الضیأ المعنوی کے مصنف نے کیا ہے، یعنی جو حدیث تعدد طرق سے مروی ہو اسے موضوع کہنا درست نہیں۔ امام اعظم رحمۃ اللہ کا نام احادیث میں متعدد جگہ آیا ہے۔ ---------------------------------------------------------- ---------------------------------------------------------- ---------------------------------------------------------- ----------------------------------------------------------
  12. بحجۃ الاسرار حضور غوث پاک سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے حالات اور مناقب پر صحیح اور مستند کتاب ہے۔ Download PDF Urdu (61 mb)
  13. برھان بھائی انشأاللہ ان کتابوں کے اسکین ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا۔ تھوڑا انتظار فرمائیے گا۔
  14. بھائی آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا۔ ان شأاللہ آئندہ خیال رکھوں گا۔ برھان بھائی حوالہ نمبر ۱۰ کوشش کے باوجود نہیں مل سکا۔ باقی حوالہ جات الحمدللہ مل گئے ھیں۔ یہاں تمام اسکین پوسٹ کر رہا ہوں تاکہ فورم کے ممبران بھی ان سے مستفید ہو سکیں۔ آپ کو ای میل بھی کر دیئے ہیں۔ ---------------------------------------------------------------------- حوالہ نمبر 1 ---------------------------------------------------------------------- حوالہ نمبر 2 ---------------------------------------------------------------------- حوالہ نمبر 3 ---------------------------------------------------------------------- حوالہ نمبر 4 ---------------------------------------------------------------------- حوالہ نمبر 5 ---------------------------------------------------------------------- حوالہ نمبر 6 ---------------------------------------------------------------------- حوالہ نمبر 7 ---------------------------------------------------------------------- حوالہ نمبر 8 ---------------------------------------------------------------------- حوالہ نمبر 9 ---------------------------------------------------------------------- حوالہ نمبر 11 ---------------------------------------------------------------------- حوالہ نمبر 12 ----------------------------------------------------------------------
  15. آپ نے اس حدیث پاک کا ریفرنس مانگا تھا سو وہ میں نے دے دیا۔ اقامت میں کھڑے ھونے کے متعلق احادیث کے لیے یہ پوسٹ پڑھ لیں۔ http://www.islamimehfil.com/topic/7926-namaz-key-liye-kab-kharey-hon/
  16. برھان بھائی حوالہ نمبر ۱ مجھے کوشش کے باوجود نہیں مل سکا۔ باقی حوالہ جات الحمد للہ مل گئے ھیں۔ -------------------------------------------------- -------------------------------------------------- -------------------------------------------------- -------------------------------------------------- -------------------------------------------------- -------------------------------------------------- --------------------------------------------------
  17. نجم بھائی لا تقوموا حتی تروني والی حدیث جو میں نے اوپر بتائی ھے یہ اقامت کے موضوع سے ہی تعلق رکھتی ھے۔ امام السراج الثقفی نے مسند السراج میں اس حدیث پر پورا ایک باب باندھا ھے۔ آپ کی تسلی کے لیے اس باب کے اسکین بھی لگا دیے ھیں۔ ------------------------------------------------
  18. Sybarite bhai puri ibarat ka mafhoom to koi arbi-daan hi bta skta hai. Shayad Translating Team wale members help kr sken. Uper quote ki hui ibarat isi topic se ta'luq rakhti hai jis ka kam o besh mafhoom ye banta hai: وہ ھندوستان میں مر گیا میں وہاں گیا تو راستے میں دیکھا شیطان پہاڑ پر نماز پڑھتا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب
  19. ------------------------------------------ ​------------------------------------------ ​------------------------------------------ ​------------------------------------------ ​------------------------------------------
  20. آپ پہلے یہ بتائیں کہ آپ کو اس ارشاد میں حدیث کا لفظ کہاں نظر آیا جو آپ اسے حدیث کہہ رہے ہیں؟
×
×
  • Create New...