Jump to content

mujahid islam

اراکین
  • کل پوسٹس

    28
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

سب کچھ mujahid islam نے پوسٹ کیا

  1. صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 346 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 25 متفق علیہ 15 حدثنا يحيی بن بکير قال حدثنا الليث عن يونس عن ابن شهاب عن أنس بن مالک قال کان أبو ذر يحدث أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال فرج عن سقف بيتي وأنا بمکة فنزل جبريل صلی الله عليه وسلم ففرج صدري ثم غسله بمائ زمزم ثم جائ بطست من ذهب ممتلئ حکمة وإيمانا فأفرغه في صدري ثم أطبقه ثم أخذ بيدي فعرج بي إلی السمائ الدنيا فلما جئت إلی السمائ الدنيا قال جبريل لخازن السمائ افتح قال من هذا قال هذا جبريل قال هل معک أحد قال نعم معي محمد صلی الله عليه وسلم فقال أرسل إليه قال نعم فلما فتح علونا السمائ الدنيا فإذا رجل قاعد علی يمينه أسودة وعلی يساره أسودة إذا نظر قبل يمينه ضحک وإذا نظر قبل يساره بکی فقال مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح قلت لجبريل من هذا قال هذا آدم وهذه الأسودة عن يمينه وشماله نسم بنيه فأهل اليمين منهم أهل الجنة والأسودة التي عن شماله أهل النار فإذا نظر عن يمينه ضحک وإذا نظر قبل شماله بکی حتی عرج بي إلی السمائ الثانية فقال لخازنها افتح فقال له خازنها مثل ما قال الأول ففتح قال أنس فذکر أنه وجد في السموات آدم وإدريس وموسی وعيسی وإبراهيم صلوات الله عليهم ولم يثبت کيف منازلهم غير أنه ذکر أنه وجد آدم في السمائ الدنيا وإبراهيم في السمائ السادسة قال أنس فلما مر جبريل بالنبي صلی الله عليه وسلم بإدريس قال مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح فقلت من هذا قال هذا إدريس ثم مررت بموسی فقال مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح قلت من هذا قال هذا موسیٰ ثم مررت بعيسی فقال مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح قلت من هذا قال هذا عيسی ثم مررت بإبراهيم فقال مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح قلت من هذا قال هذا إبراهيم صلی الله عليه وسلم قال ابن شهاب فأخبرني ابن حزم أن ابن عباس وأبا حبة الأنصاري کانا يقولان قال النبي صلی الله عليه وسلم ثم عرج بي حتی ظهرت لمستوی أسمع فيه صريف الأقلام قال ابن حزم وأنس بن مالک قال النبي صلی الله عليه وسلم ففرض الله عز وجل علی أمتي خمسين صلاة فرجعت بذلک حتی مررت علی موسیٰ فقال ما فرض الله لک علی أمتک قلت فرض خمسين صلاة قال فارجع إلی ربک فإن أمتک لا تطيق ذلک فراجعت فوضع شطرها فرجعت إلی موسیٰ قلت وضع شطرها فقال راجع ربک فإن أمتک لا تطيق فراجعت فوضع شطرها فرجعت إليه فقال ارجع إلی ربک فإن أمتک لا تطيق ذلک فراجعته فقال هي خمس وهي خمسون لا يبدل القول لدي فرجعت إلی موسیٰ فقال راجع ربک فقلت استحييت من ربي ثم انطلق بي حتی انتهی بي إلی سدرة المنتهی وغشيها ألوان لا أدري ما هي ثم أدخلت الجنة فإذا فيها حبايل اللؤلؤ وإذا ترابها المسک یحیی بن بکیر، لیث، یونس، ابن شہاب، انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شب میرے گھر کی چھت پھٹ گئی اور میں مکہ میں تھا، پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور انہوں نے میرے سینہ کو چاک کیا، پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا، پھر ایک طشت سونے کا حکمت وایمان سے بھرا ہوا لائے اور اسے میرے سینہ میں ڈال دیا، پھر سینہ کو بند کر دیا، اس کے بعد میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے آسمان پر چڑھا لے گئے، جب میں دنیا کے آسمان پر پہنچا، تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ (دروازہ) کھول دے، اس نے کہا کون ہے؟ وہ بولے جبرائیل علیہ السلام ہے، پھر اس نے کہا، کیا تمہارے ساتھ کوئی (اور بھی) ہے، جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہاں! میرے ہمراہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اس نے کہا وہ بلائے گئے تھے؟ جبرائیل علیہ السلام علیہ السلام نے کہا ہاں! جب دروازہ کھول دیا گیا، تو ہم آسمان دنیا کے اوپر چڑھے، یکایک ایک ایسے شخص پر نظر پڑی، جو بیٹھا ہوا تھا، اس کی داہنی جانب کچھ لوگ تھے، اور اس کی بائیں جانب (بھی) کچھ لوگ تھے، جب وہ اپنے داہنی جانب دیکھتے تو ہنس دیتے اور جب بائیں جانب دیکھتے تو رو دیتے، انہوں نے (مجھے دیکھ کر) کہا کہ مرحبا بالنبی الصالح والابن الصالح میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے یہ آدم ہیں، اور یہ لوگ ان کے دائیں اور بائیں ان کی اولاد کی روحیں ہیں، دائیں جانب جنت والے ہیں اور بائیں جانب دوزخ والے، اسی لئے جب وہ اپنی داہنی جانب نظر کرتے ہیں، تو ہنس دیتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں، تو رونے لگتے ہیں، یہاں تک کہ مجھے دوسرے آسمان تک لے گئے، اور اس کے داروغہ سے کہا کہ (دروازے) کھول دے، تو ان سے داروغہ نے اسی قسم کی گفتگو کی، جیسے پہلے نے کی تھی، پھر (دروازہ) کھول دیا گیا، انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، پھر ابوذر نے ذکر کیا کہ آپ نے آسمانوں میں آدم علیہ السلام، ادریس علیہ السلام، موسی علیہ السلام عیسیٰ علیہ السلام اور ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات کی، اور یہ نہیں بیان کیا کہ ان کے مدارج کس طرح ہیں، سوا اس کے کہ انہوں نے ذکر کیا ہے کہ آدم علیہ السلام کو آسمان دنیا میں، اور ابراہیم علیہ السلام سے چھٹے آسمان میں پایا، انس کہتے ہیں پھر جب جبرائیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر حضرت ادریس علیہ السلام کے پاس سے گذرے تو انہوں نے کہامَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ (آپ فرماتے ہیں) میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا یہ ادریس علیہ السلام ہیں، پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا، تو انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ میں نے (جبریل سے) پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں، پھر میں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گذرا تو انہوں نے کہا مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا یہ عیسیٰ علیہ السلام ہیں، پھر میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گذرا تو انہوں نے کہا مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا، یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں، ابن شہاب کہتے ہیں مجھے ابن حزم نے خبر دی کہ ابن عباس اور ابوحبہ انصاری کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر مجھے چڑھا لے گئے، یہاں تک کہ میں ایک ایسے بلند مقام میں پہنچا، جہاں (فرشتوں کے) قلموں کی کشش کی آواز میں نے سنی، ابن حزم اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، جب میں یہ فریضہ لے کر لوٹا، تو موسیٰ علیہ السلام پر گذرا، موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اللہ نے آپ کے لئے آپ کی امت پر کیا فرض کیا؟ میں نے کہا کہ پچاس نمازیں فرض کی ہیں، انہوں نے (یہ سن کر) کہا کہ اپنے اللہ کے پاس لوٹ جائیے، اس لئے کہ آپ کی امت (اس قدر عبادت کی) طاقت نہیں رکھتی، تب میں لوٹ گیا، تو اللہ نے اس کا ایک حصہ معاف کردیا، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا، اور کہا کہ اللہ نے اس کا ایک حصہ معاف کردیا ہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر وہی کہا کہ اپنے پروردگار سے رجوع کیجئے، کیونکہ آپ کی امت (اس کی بھی) طاقت نہیں رکھتی، پھر میں نے رجوع کیا تو اللہ نے ایک حصہ اس کا (اور) معاف کر دیا، پھر میں ان کے پاس لوٹ کر آیا اور بیان کیا تو وہ بولے کہ آپ اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جائیں، کیونکہ آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھتی، چنانچہ پھر میں نے اللہ سے رجوع کیا تو اللہ نے فرمایا کہ اچھا (اب) یہ پانچ (رکھی) جاتی ہیں اور یہ (در حقیقت با اعتبار ثواب کے) پچاس ہیں، میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی، پھر میں موسیٰ کے پاس لوٹ کر آیا، انہوں نے کہا پھر اپنے پرودگار سے رجوع کیجئے، میں نے کہا (اب) مجھے اپنے پروردگار سے باربار کہتے ہوئے شرم آتی ہے، پھر مجھے روانہ کیا گیا، یہاں تک کہ میں سدرۃ المنتہی پہنچایا گیا اور اس پر بہت سے رنگ چھا رہے تھے، میں نہ سمجھا کہ یہ کیا ہیں؟ پھر میں جنت میں داخل کیا گیا (تو کیا دیکھتا ہوں) کہ اس میں موتی کی لڑیاں ہیں اور ان کی مٹی مشک ہے۔ اس حدیث میں تو انبیاء کی ارواح اور باقی اولاد آدم کی ارواح کا آسمان میں ھونے کا معاملہ ھے
  2. صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1138 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 14 متفق علیہ 9 حدثنا إسماعيل بن عبد الله قال حدثني مالک عن أبي النضر مولی عمر بن عبيد الله عن عبيد يعني ابن حنين عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه أن رسول الله صلی الله عليه وسلم جلس علی المنبر فقال إن عبدا خيره الله بين أن يؤتيه من زهرة الدنيا ما شائ وبين ما عنده فاختار ما عنده فبکی أبو بکر وقال فديناک بآبائنا وأمهاتنا فعجبنا له وقال الناس انظروا إلی هذا الشيخ يخبر رسول الله صلی الله عليه وسلم عن عبد خيره الله بين أن يؤتيه من زهرة الدنيا وبين ما عنده وهو يقول فديناک بآبائنا وأمهاتنا فکان رسول الله صلی الله عليه وسلم هو المخير وکان أبو بکر هو أعلمنا به وقال رسول الله صلی الله عليه وسلم إن من أمن الناس علي في صحبته وماله أبا بکر ولو کنت متخذا خليلا من أمتي لاتخذت أبا بکر إلا خلة الإسلام لا يبقين في المسجد خوخة إلا خوخة أبي بکر اسماعیل بن عبداللہ مالک عمر بن عبیداللہ کے آزاد کردہ غلام ابوالنصر عبید بن حنین حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض وفات میں منبر پر تشریف فرما ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندہ کو اختیار دیا کہ وہ دنیا اور اس کی تروتازگی کو اختیار کر لے یا اللہ کے پاس جو نعمتیں ہیں انہیں اختیار کرلے تو اس بندہ نے اللہ کے پاس والی نعمتوں کو اختیار کر لیا (یہ سن کر) ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رو پڑے اور عرض کیا یا رسول اللہ! ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے ماں باپ کو قربان کرتے ہیں (راوی کہتا ہے) کہ ہمیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر تعجب ہوا اور لوگوں نے کہا اس بڈھے کو تو دیکھو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بندہ کا حال بیان فرما رہے ہیں کہ اللہ نے اس کو دنیا کی تروتازگی اور اپنے پاس کے انعامات کے درمیان اختیار دیا اور یہ بڈھا کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے ماں باپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا کرتے ہیں اور رو رہا ہے لیکن چند روز کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا تو ہم یہ راز سمجھ گئے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیوں روئے تھے حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اختیار دیا گیا تھا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ تھا جسے ابوبکر سمجھ گئے تھے اور حضرت ابوبکر ہم میں سب سے بڑے عالم تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی رفاقت اور مال کے اعتبار سے مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر کا ہے اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل (دوست حقیقی) بناتا تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بناتا لیکن اسلامی دوستی (کافی) ہے (دیکھو) مسجد میں سوائے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دریچہ کے اور کوئی دریچہ (کھلا ہوا) باقی نہ رہے۔
  3. وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا﴿004:069﴾ اور جو بھی اللہ تعالٰی کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیا، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں۔‏ صحیح بخاری:کتاب المغازی حدیث نمبر 4437 حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري قال أخبرني عروة بن الزبير إن عائشة قالت کان رسول الله صلی الله عليه وسلم وهو صحيح يقول إنه لم يقبض نبي قط حتی يری مقعده من الجنة ثم يحيا أو يخير فلما اشتکی وحضره القبض ورأسه علی فخذ عائشة غشي عليه فلما أفاق شخص بصره نحو سقف البيت ثم قال اللهم في الرفيق الأعلی فقلت إذا لا يجاورنا فعرفت أنه حديثه الذي کان يحدثنا وهو صحيح ابو الیمان شعیب زہری عروہ بن زبیر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ تندرستی کی حالت میں فرمایا تھا کہ کوئی نبی اس وقت تک انتقال نہیں کرتا جب تک کہ جنت میں اس کی جگہ اسے نہیں دکھائی جاتی پھر اس کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ چاہے تو دنیا میں رہے اور چاہے تو آخرت کو پسند فرمائے آنحضرت جب بیمار ہوئے اور وقت قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غش آ گیا اور فرمایا اللَّهُمَّ فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَی میں کہنے لگی اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں رہنا گوارا نہیں فرما رہے ہیں اور معلوم ہوگیا کہ آپ نے جو بات تندرستی کے زمانہ میں فرمائی تھی وہ پوری ہو رہی ہے۔
  4. صحیح بخاری کتاب المغازی حدثنا سليمان بن حرب حدثنا حماد عن ثابت عن أنس قال لما ثقل النبي صلی الله عليه وسلم جعل يتغشاه فقالت فاطمة عليها السلام وا کرب أباه فقال لها ليس علی أبيک کرب بعد اليوم فلما مات قالت يا أبتاه أجاب ربا دعاه يا أبتاه من جنة الفردوس مأواه يا أبتاه إلی جبريل ننعاه فلما دفن قالت فاطمة عليها السلام يا أنس أطابت أنفسکم أن تحثوا علی رسول الله صلی الله عليه وسلم التراب سلیمان بن حرب، حماد، ثابت، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض کی زیادتی سے بیہوش ہو گئے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روتے ہوئے کہا افسوس میرے والد کو بہت تکلیف ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج کے بعد پھر نہیں ہوگی، پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہ کہہ کر روئیں کہ اے میرے والد، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے قبول کرلیا ہے، اے میرے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام جنت الفردوس ہے، ہائے میرے ابا جان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر جبرائیل کو سناتی ہوں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کیا جا چکا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا تم لوگوں نے کیسے گوارہ کرلیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹی میں چھپا دو
  5. اِمام حَمّاد بن زید بن درھم البصری رحمہ اللَّہ (تبع تابعی::: وفات 179 ہجری) سلیمان بن حرب رحمہُ اللہ (تبع تابعی ::: تاریخ وفات 224 ہجری)کہتے ہیں کہ میں نے حماد بن زید کو یہ کہتے ہوئے سُنا {{{تابعین اور سُنّت کے اِماموں بلکہ صحابہ ، اور اللہ اور اُس کے رسول اور تمام اِیمان والوں کا کہنا یہ ہی ہے کہ ، اللہ عز وجل آسمان پر ہے اور اپنے عرش کے اُوپر ہے ، اور اللہ اپنے تمام آسمانوں سے اُوپر اور بلند ہے ، اور وہ دُنیا کے آسمان کی طرف اُترتا ہے ، اور اُن کا یہ کہنا قُرآن و حدیث کے دلائل کی بُنیاد پر ہے :::: جبکہ فرقہ جھمیہ والے یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کے اِس باطل قول سے پاک ہے بلکہ اُس کا عِلم ہر وقت ہمارے ساتھ ہے }}}،العَلو للعلي الغفار، اِمام شمس الدین الذہبی ۔
  6. جبکہ اللہ کو ہر جگہ ماننے والا عقیدہ تو جھمیہ کا تھا جناب ایڈمن اِمام حَمّاد بن زید بن درھم البصری رحمہ اللَّہ (تبع تابعی::: وفات 179 ہجری) سلیمان بن حرب رحمہُ اللہ (تبع تابعی ::: تاریخ وفات 224 ہجری)کہتے ہیں کہ میں نے حماد بن زید کو یہ کہتے ہوئے سُنا {{{تابعین اور سُنّت کے اِماموں بلکہ صحابہ ، اور اللہ اور اُس کے رسول اور تمام اِیمان والوں کا کہنا یہ ہی ہے کہ ، اللہ عز وجل آسمان پر ہے اور اپنے عرش کے اُوپر ہے ، اور اللہ اپنے تمام آسمانوں سے اُوپر اور بلند ہے ، اور وہ دُنیا کے آسمان کی طرف اُترتا ہے ، اور اُن کا یہ کہنا قُرآن و حدیث کے دلائل کی بُنیاد پر ہے :::: جبکہ فرقہ جھمیہ والے یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کے اِس باطل قول سے پاک ہے بلکہ اُس کا عِلم ہر وقت ہمارے ساتھ ہے }}}،العَلو للعلي الغفار، اِمام شمس الدین الذہبی ۔
  7. واضح دلیل ھے کہ اللہ اپنے عرش پہ مستوی ھے۔ اور آپ اللہ کو ہر جگہ مان رہے ھیں اپنے دیے ھوۓ لنک کے مطابق تو یہ تو کچھ الگ ہی بات کر رہے ھیں ایڈمن
  8. فتاویٰ قاضی خان اور بہار شرعیت سے حوالے دینا کون سا کام ھے جناب إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ يُغْشِى ٱلَّيْلَ ٱلنَّهَارَ يَطْلُبُهُۥ حَثِيثًۭا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ وَٱلنُّجُومَ مُسَخَّرَٰتٍۭ بِأَمْرِهِۦٓ ۗ أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ﴿54﴾ ترجمہ: بے شک تمہارا رب الله ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھرعرش پہ مستوی ھوا پکڑا رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے وہ اس کے پیچھے دوڑتا ہوا آتا ہے اور سورج اورچاند اور ستارے اپنے حکم کے تابعدار بنا کر پیدا کیے اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا الله بڑی برکت والا ہے جو سارے جہان کا رب ہے (سورۃ الاعراف ،آیت 54)
  9. اسکا مطلب ھے آپ کے نزدیک اللہ ہر جگہ ھے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ يُغْشِى ٱلَّيْلَ ٱلنَّهَارَ يَطْلُبُهُۥ حَثِيثًۭا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ وَٱلنُّجُومَ مُسَخَّرَٰتٍۭ بِأَمْرِهِۦٓ ۗ أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ﴿54﴾ ترجمہ: بے شک تمہارا رب الله ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھرعرش پر مستوی ھوا رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے وہ اس کے پیچھے دوڑتا ہوا آتا ہے اور سورج اورچاند اور ستارے اپنے حکم کے تابعدار بنا کر پیدا کیے اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا الله بڑی برکت والا ہے جو سارے جہان کا رب ہے (سورۃ الاعراف ،آیت 54) اس آیت میں تو اللہ کے استویٰ علیٰ عرش ھونے کی بات ھے اور آپ کچھ الگ بات کر رہے ھیں
  10. وہاں تو پھر تاویلیں ہی پیش کر سکے جناب ایڈمن مگر میرا سوال ابھی تک وہیں کا وہیں ھے ۔ کہ اللہ کہاں ھے۔ اپنے عرش پہ مستوی ھے یاشھداء کے ساتھ قبر میں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
  11. پوسٹ نمبر 6 پر بیان کی ھوئی پہلی ہی روایت ابن ابی شیبہ کے حوالے سے جو کسی مولوی صاحب کی کتاب سے جناب نے لگائی ھے۔ اس میں آزادی کی بات ھے نہ کہ مقید کرنے کی جو جناب کا عقیدہ ھے۔ دوسری بات اس روایت کے پہلے الفاظ لگانے سے خوف ذدہ تھے شاید آپ کے وہ مولوی صاحب اس روایت میں واضح طور پر لکھا ھوا ھے الدنیا سجن المومن و جنۃ الکافر۔ اور آپ نبی پاکﷺ کو دوبارہ دنیا میں لا رہے ھیں ۔ یعنی مقید کرنے کی کوشش کر رہے ھیں
  12. صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1555 حدیث مرفوع مکررات 6 متفق علیہ 5 حدثني زهير بن حرب حدثنا جرير عن عمارة بن القعقاع عن أبي زرعة عن أبي هريرة رضي الله عنه قال لا أزال أحب بني تميم بعد ثلاث سمعته من رسول الله صلی الله عليه وسلم يقولها فيهم هم أشد أمتي علی الدجال وکانت فيهم سبية عند عائشة فقال أعتقيها فإنها من ولد إسماعيل وجائت صدقاتهم فقال هذه صدقات قوم أو قومي زہیر بن حرب، جریر، عمارہ بن قعقاع ، ابوزرعہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بنو تمیم کے حق میں تین باتیں سنی ہیں انہیں برابر دوست رکھتا ہوں بنو تمیم میری امت میں دجال کے مقابلہ میں سب سے زیادہ سخت ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس اس قوم کی ایک باندی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے آزاد کردو کیونکہ یہ اولاد اسماعیل میں سے ہے جب ان کے صدقات کا مال آیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ میری قوم یا فرمایا قوم کا صدقہ ہے۔
  13. اب ایڈمن سب سے پہلے اس بات پر اپنا موقف واضح کرے کہ اللہ کہاں ھے اپنے عرش پہ مستویٰ ھے جیسی اسکی شان ھے یا ہر جگہ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو بات آگے بڑھے گی
  14. جن صاحب نے بھی یہ پوسٹ لگائی ھے کاش کہ خود ہی ایک دفع پڑھ لیا ھوتا ایک پیج پر ایک دعویٰ کرتے ھیں دوسرے پر دوسرا، ایک پر کہتے ھیں قبر میں ذندہ ھیں دوسری جگہ خود ہی رد کے کے جنت میں ذندہ ھونے کی بات کر دیتے ھیں ، پہلے خود تو ایک جگہ رک کر فیصلہ کر لیں جنت کی ذندگی مانتے ھیں یا قبوری
  15. وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ﴿003:169﴾ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو ہرگز مردہ نہ سمجھیں، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دیئے جاتے ہیں۔ اس آیت میں عند ربھم کا لفظ آ رہا ھے یہ میرا سوال ھے ایڈمن سے اللہ کہاں ھے اپنے عرش پر یا قبر میں۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اگر قران سے ہی دیکھیں تو قران واجح طور پر اس بات کو اس طرح بیان کرتا ھے وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿سورة التّحْریم:011 [ اور اللہ تعالٰی نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی (١) جبکہ اس نے دعا کی اے میرے رب! میرے لئے اپنے پاس جنت میں گھر بنا اور مجھے فرعوں سے اور اس کے عمل سے بچا اور مجھے ظالم لوگوں سے خلاصی دے۔
  16. یہ استثنائی صورت کو مطلق پر قیاس کر کے بیٹھے ھیں ویسے کیسی مزے کی بات ھے کہ ان کی پکار تو مردے سنتے ھیں۔ مگر عذاب قبر کے دوران جو مردے کو گرز اور ہتھوڑے مارے جاتے ھیں اور وہ چیختا ھے اس کی آواز یہ نہیں سنتے ۔ اس بات پر بندہ ہنس ہی سکتا ھے
  17. وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ ﴿002:154﴾ اور اللہ تعالٰی کی راہ میں قتل ھونے والوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں، لیکن تم نہیں رکھتے شعور ۔ اس آیت میں کہا گی اشعور نہیں رکھتے مگر آپ لوگ ت وشعور رکھتے ھیں ان کی ذندگیوں کا شاید۔ اور کسی جگہ یہ نہیں لکھا قبر میں ذندہ ھین مگر آپ قبر میں ذندہ کیے بیٹھے ھیں
  18. مسلم کی ایک روایت تو بڑی نظر آتی ھے آپ لوگوں کو یہ حدیث بھی حدیث ہی ھے یہ کیوں نہیں دیکھتے تم لوگ صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 965 حدیث مرفوع مکررات 9 متفق علیہ 2 حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة قال حدثنا وکيع عن مسعر ح و حدثنا أبو کريب واللفظ له قال أخبرنا ابن أبي زادة عن مسعر حدثني عبيد الله بن القبطية عن جابر بن سمرة قال کنا إذا صلينا مع رسول الله صلی الله عليه وسلم قلنا السلام عليکم ورحمة الله السلام عليکم ورحمة الله وأشار بيده إلی الجانبين فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم علام تومون بأيديکم کأنها أذناب خيل شمس إنما يکفي أحدکم أن يضع يده علی فخذه ثم يسلم علی أخيه من علی يمينه وشماله ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، مسعر، ابوکریب، ابن ابی زائدہ، مسعر، عبیداللہ بن قبطیہ، جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے ہم السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ اور السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ کہتے اور اپنے ہاتھوں سے دونوں طرف اشارہ کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسا کہ سرکش گھوڑے کی دم تم میں سے ہر ایک کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنی ران پر ہاتھ رکھے پھر اپنے بھائی پر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کرے یہ حدیث تو معاملہ پوری طرح بیان کر رہی ھے مگر اس پر نظر نہیں جاتی کہ مطلب کی جو نہیں ھے
  19. سیدنا عیسیٰ مردوں کو ذندہ کرتے تھے مگر نبی پاکﷺ کے پاس کیا ایسا کوئی معجزہ تھا۔ سیدنا عیسیٰ کا باپ نہیں تھا صرف ماں تھی تو نبی پاکﷺ کے ماں اور باپ دونوں تھے۔ سیدنا عیسیٰ کو اللہ نے ذندہ اٹھا لیا جبکہ چلو تمہاری بات مان ہی لیتے ھیں آن کی آن موت آئی تو کون ھوا بڑا جس کو ذندہ اٹھ الیا یا جس پر آن کی آن موت آئی۔
  20. یہ جن صاحب نے پوسٹ لگائی ھے وہ اگر اسے لگانے سے پہلے اگر غور سے خود ہی پڑھ لیتے تو شاید نہ لگاتے، کہ ایک جگہ لکھا ھے قبر میں ذندہ ھیں دوسری جگہ لکھا ھے اللہ کے پاس ذندہ ھیں ۔ باقی رہ گئی بات تو موسیٰ ؑ والی کہ معراج کی رات نماز پڑھ رہے تھے تو معراج کی رات پوری کی پوری ہی ایک معجزہ تھی اور اگر معجزات سے دلیل پکڑنی ھے تو کافی بڑا مسئلہ کھڑا ھو سکتا ھے سیدنا عیسیٰؑ کے پاس ایسے معجزات تھے کہ وہ نبی پاکﷺ کے پاس بھی نہ تھے تو کیا اب معجزات کو بنیاد بنا کر ھم سیدنا عیسیٰ کا درجہ نبی پاکﷺ سے بڑھا دیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ دوسرا پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ روح مبارک کہاں ھے قبر میں یا اللہ کے پاس یعنی جنت میں
  21. یہ جو صوفی حضرات نے اللہ بننے کے دعویٰ جات کیے ان کے بارے بھی کچھ اظہار خیال کریں یہ جذب کی کیفیت جسے اتنا بڑھا چڑھا کہ پیش کیا گیا ھے ایسی کوئی کیفیت نبی پاکﷺ پر یا صحابہ کرام پر ذندگی میں کسی وقت آئی اگر کوئی مثال ھے تو با حوالہ بتا دیں
  22. عَنْ أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ قَالَ هَلْ أُرِيكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَكَبَّرَوَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ لِلرُّكُوعِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ هَكَذَا فَاصْنَعُوا وَلاَ يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ. سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ذکر التکبیر و رفع الیدین عند الافتتاح و الرکوع، اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 609 “ابو موسٰی الاشعری رضی اللہ عنہ نے (ایک دن) کہا "کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نماز (جیسی نماز پڑھ کر) نہ دکھاؤں؟ پھر انہوں نے تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع میں جاتے وقت ہاتھ اٹھائے، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا اور ہاتھ اٹھائے۔ پھر کہنے لگے "تم بھی اسی طرح کیا کرو"۔ اور دو سجدوں کےد رمیان انہوں نے ہاتھ نہیں اٹھائے تھے"۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُوَيَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ وَحِينَ يَرْكَعُ وَحِينَ يَسْجُدُ مسند احمد مسند المکثرین من الصحابہ مسند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، اصل صفۃ صلاۃ جلد 1 ص 193 “ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز شروع کرتے وقت جب تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع اور سجدے میں بھی ایسا کرتے" عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال :صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلوة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع السنن الکبریٰ للبیہقی جلد 2 ص 73۔ اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 610 ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتےتھے"
  23. جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 246 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 59 متفق علیہ 11 حدثنا قتيبة وابن أبي عمر قالا حدثنا سفيان بن عيينة عن الزهري عن سالم عن أبيه قال رأيت رسول الله صلی الله عليه وسلم إذا افتتح الصلاة يرفع يديه حتی يحاذي منکبيه وإذا رکع وإذا رفع رأسه من الرکوع وزاد ابن أبي عمر في حديثه وکان لا يرفع بين السجدتين قال أبو عيسی حدثنا الفضل بن الصباح البغدادي حدثنا سفيان بن عيينة حدثنا الزهري بهذا الإسناد نحو حديث ابن أبي عمر قال وفي الباب عن عمر وعلي ووال بن حجر ومالک بن الحويرث وأنس وأبي هريرة وأبي حميد وأبي أسيد وسهل بن سعد ومحمد بن مسلمة وأبي قتادة وأبي موسی الأشعري وجابر وعمير الليثي قال أبو عيسی حديث ابن عمر حديث حسن صحيح وبهذا يقول بعض أهل العلم من أصحاب النبي صلی الله عليه وسلم منهم ابن عمر وجابر بن عبد الله وأبو هريرة وأنس وابن عباس وعبد الله بن الزبير وغيرهم ومن التابعين الحسن البصري وعطا وطاوس ومجاهد ونافع وسالم بن عبد الله وسعيد بن جبير وغيرهم وبه يقول مالک ومعمر والأوزاعي وابن عيينة وعبد الله بن المبارک والشافعي وأحمد وإسحق و قال عبد الله بن المبارک قد ثبت حديث من يرفع يديه وذکر حديث الزهري عن سالم عن أبيه ولم يثبت حديث ابن مسعود أن النبي صلی الله عليه وسلم لم يرفع يديه إلا في أول مرة قتیبہ، ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، زہری، سالم، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے پھر رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے بھی اسی طرح کرتے ابن عمر نے اپنی حدیث میں (وَکَانَ لَا يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ) کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں فضل بن صباح بغدادی سفیان بن عیینہ سے اور وہ زہری سے اسی سند سے ابن عمر کی روایت کے مثل روایت کرتے ہیں اس باب میں حضرت عمر علی وائل بن حجر مالک بن حویرث انس ابوہریرہ ابوحمید ابواسید سہل بن سعید محمد بن سلمہ ابوقتادہ ابوموسی اشعری جابر اور عمیر لیثی سے بھی روایت ہے امام ابوعیسی ترمذی کہتے ہیں حدیث ابن عمر حسن صحیح ہے اور صحابہ میں سے اہل علم جن میں ابن عمر جابر بن عبداللہ ابوہریرہ انس ابن عباس عبداللہ بن زبیر اور تابعین میں سے حسن بصری عطاء طاؤس مجاہد نافع سالم بن عبداللہ سعید بن جبیر اور آئمہ کرام میں سے عبداللہ بن مبارک امام شافعی امام احمد امام اسحاق ان سب کا یہی قول ہے اور عبداللہ بن مبارک کا کہنا ہے کہ جو شخص ہاتھ اٹھاتا ہے اس کی حدیث ثابت ہے جسے زہری نے بواسطہ سالم ان کے والد سے روایت کیا اور ابن مسعود کی یہ حدیث ثابت نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف پہلی مرتبہ رفع یدین کیا
  24. عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَمَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولی مع الافتتاح سواء، “عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک بلند کیا کرتے تھے، اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی انہیں اسی طرح اٹھاتے تھے" عَنْ أَبِي قِلَابَةَ أَنَّهُ رَأَى مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ إِذَا صَلَّى كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ هَكَذَا صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین اذا کبر و اذا رکع و اذا رفع، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام ابو قلابہ کہتے ہیں کہ میں نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے نماز پڑھتے وقت تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع کرتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی ہاتھ اٹھائے اور بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بھی (نماز میں) ایسا ہی کیا تھا"۔ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍأَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَصَفَ هَمَّامٌ حِيَالَ أُذُنَيْهِ ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِهِ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنْ الثَّوْبِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ فَلَمَّا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَ يَدَيْهِ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وضع یدہ الیمنٰی علی الیسرٰی بعد تکبیرۃ الاحرام “وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے نماز شروع کرتے وقت ہاتھ اٹھائے اور تکبیر کہی، ۔ ۔ ۔ ۔پھر رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھ چادر سے نکالے اور انہیں بلند کیا اور تکبیر کہی اور رکوع کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے وقت بھی دونوں ہاتھ اٹھائے"۔ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَيَصْنَعُ مِثْلَ ذَلِكَ إِذَا قَضَى قِرَاءَتَهُ وَأَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَيَصْنَعُهُ إِذَا رَفَعَ مِنْ الرُّكُوعِ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من ذکر انہ یرفع یدیہ اذا قام من الثنتین، سنن ابی داؤد حدیث نمبر 744 “علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک بلند کرتے، اور جب قراءت سے فارغ ہو کر رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تب اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے تھے" عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَإِذَا رَكَعَ سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 866 “انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نمازشروع کرتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتے تھے"۔ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَيَقُولُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 868 “جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے"۔
×
×
  • Create New...