Jump to content

Hanif Qureshi

اراکین
  • کل پوسٹس

    37
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

سب کچھ Hanif Qureshi نے پوسٹ کیا

  1. AAP ka poora jawab parh kay may bas yahi keh sakta ho: May nay ab sirf asal nuktay pay baat karni hay kyon kay aap nay takreeban darjan (12) ulama , muhaditheen , fuqaha , muhaqiqeen , mufasireen waghaira pay fatway laga diya hay sirf apnay Ala Hazrat ko sahi sabit karnay kay liyay.إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ Ab is say pehlay kay may zikr bil jahr pay kuch kehta , aap nay khud ki tasdeek kardi.Allah Ta'ala sab barelwio ko is ki samjh day aur agar deobandiyo may say koi yay karta hay to usay bhi samjh day.Mazeed is may bhes nahi.Ameen. Asal nukta idhr Mubah ka hay jis say aap farar honay ki koshish kar rahay hay leikin In Sha' Allah may asay honay nahi donga. Pehlay to Mubah ki tareef sunlay: Mazeed yay woh kaam kay kay jis kay karnay par na hi koi sawab hay aur chornay par na hi koi gunnah.( Al-Jawharah (2/280), Dur al-Mukhtar and Rad al-Muhtar (6/336)) Mazeed yahi definition sahib e anwar e satia nay aur apkay Hakeem ul Ummat Sahab nay bhi JaAlhaq may diya. AAP kay mufti Hanif Qureshi sahab nay to poora munazra kiya tha is baat pay kay Qabr par azaan mubah hay.Ab meray do sawal: 1. ) Mubah bhi Hukm e sharia hay to shariat may is azaan ka saboot kaha? 2. ) Doosri baat yay keh jab mubah pay koi sawab hi nahi , to phir is azaan ka kya faida?Kya aap jitni bhi biddat kartay ho , unhay baghair sawab samjh kay kartay ho?Yani us pay jaza milnay ki koi umeed nahi hoti aap kay nazdeek? Mazeed aap nay kaha kay yay ibarat wurood e shara say pehlay kay mutaliq hay:Eik dafa doobara parh lay ghor say: علامہ جلال الدین السیوطیؒ اپنی کتاب الاشباہ والنظائر ص:۶۰میں جو فروع فقہ شافیہ میں ہے ر قمطراز ہیں کہ یہ شوافع کی اصل ہے جبکہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک الأصل فی الاشیاء التحریم اشیا ء میں اصل تحریم ہے،فرماتے ہیں ۔ الاصل فی الاشیاء الاباحۃ حتی یدل الدلیل علی التحریم ھذامذہبنا وعند ابی حنیفہ الاصل فیھا التحریم حتیٰ یدل الدلیل علی الاباحۃ ویظھر أثرالخلاف فی المسکوت عنہ یعنی قاعدہ یہ ہے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے تا آنکہ حرمت کی دلیل ہو۔یہ ہمارا (شوافع کا) مذہب ہے،امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اصل تحریم ہے تاآنکہ اِباحت کی دلیل ہو اور اس اختلاف کا اثر مسکوت عنہ پر ظاہر ہوتا ہے۔ آپ بھی چونکہ ہماری طرح حنفی کہلواتے ہی اور امام جلال الدین سیوطیؒ کو آپ کے علماء مجدد مانتے ہیں اور خاتمۃ الحفاظ کہتے ہیں۔اُن کی یہ عبارت الاشباہ والنظائر کے ص۶۰ پر منقول ہے اور معتبر ہے کیونکہ انہوں نے شوافع اور حنفیہ کے درمیان مابہ النزاع اور مابہ الاختلاف قرار دیاہے وہ مسکوت عنہ اورعفو ہی ہے۔ AAP Asal nuktay par to ghor hi nahi kar rahay.Yani شوافع اور حنفیہ کے درمیان مابہ النزاع اور مابہ الاختلاف قرار دیاہے وہ مسکوت عنہ اورعفو ہی ہے۔ Yani yay ikhtilaf bhi مسکوت عنہ par hi tha.Ab batao is nuktay pay ikhtilaf kyon? aur aap kis mazhab pay ho.Shafi , Hanafi ya Ghair Muqallid (bura na manna kyon kay aap direct hadeeth say istidlal kar rahay hay) Bilkul sach kaha hay.Barelwi boltay hay magar samjhtay nahi. Mazeed علامہ سیوطیؒ آگے صفحہ۶۱ پررقمطراز ہیں الا صل فی الأبضاع التحریم شرمگاہوں میں اصل تحریم ہے ۔لہذا اصل اباحت کو مطلق رکھنا کسی مذہب میں بھی ثابت وجائز نہیں۔ دوسرا پہلو کے تحت مولف نے مسکوت عنہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ مبا ح اور جائز ہے کیونکہ الاصل فی الأشیاء الا باحۃ مولّف کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ اس سے یہ لازم آتاہے کہ شریعت میں جمیع نوازل (تمام احکامات) کا بیان نہی ہے۔ حالانکہ ہر مسلمان کاعقیدہ ہونا چاہیے کہ شریعت مطھرہ میں تمام امور خواہ دینی ہوں خواہ دنیاوی سب کا بیان موجود ہے ۚ ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَٰمَ دِينًۭا پس جو شخص اللہ تعالیٰ کاقرب اپنے ایسے عمل سے تلاش کرے جس کو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے قر ب کا ذریعہ نہیں ٹھہرایا اس کا عمل باطل و مردود ہے۔ تحریم کا مطلب واضح ہوگیا کہ ہم اپنی طرف سے کوئی عقیدہ وعمل اختیار نہیں کرسکتے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا حکم اور اجازت نہ ہو اس کی ہمارے لئے ممانعت ہے کہ ہم اس کو شرعی حیثیت دے کر کارِثواب سمجھیںاور اس پر عمل کریں۔ نعمان بن بشیر ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو سنا آپ فرماتے تھے {اِنَّ الحَلالَ بَیِّنٌ وَاِنَّ الحَرَامَ بَیِّنٌ وَبینَھمَا مُشْتَبھَاتٌ لَا یَعلَمُھُنَّ کَثِیْرٌ مِنَ النََّاسِ کَالرَّاعِی یَرعِی حَولَ الْحِمیٰ یُوشِکَ اَنْ یَّقَعَ فِیہ ِ اَلاوَاِنَّ لِکُلِّ مَلَکٍ حِمَی وَحِمَی اللّٰہِ تَعالیٰ مَحَارِمُہ وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُھَاتِ وَقَعَ فِی الحَرامِ وَمنْ اتَّقَی الشُبُھَاتِ فَقَدْ اِستبرَئَ لِدِِینِہِ وَ عِرْضِہ} (رواہ البخاریؒ) حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے ان دونوں کے مابین شبہے والی چیزیںہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے جیسے ایک چراوہا اپنے مویشی چراگاہ کے گرد چراتاہے۔قریب کہ وہ اپنے مویشی چراگاہ میں ڈال دے اور ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے۔بے شک اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیںہیں۔تو جو شخص شبہات سے بچ گیااس نے اپنے دین کو عیب سے پاک کر لیااور اپنی عزت کو تہمت سے بچالیا۔ اس حدیث پاک کی روشنی میں امام ابو حنیفہ ؒ کی تحریم کے مطابق مسکوت عنہ میں تو شریعت سازی کی قطعاًگنجائش نہیں۔ اور رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے{ من وقع فی الشبھات وقع فی الحرام}( الحدیث) جو شبہات میں پڑا وہ حرام میں پڑا۔ اب ہمارے مہربان ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں کہ وہ مسکو ت عنہ کو مشتبھات میں شامل مانتے ہیںیا نہیں؟ پھر وہ عادات وعبادات میں مسکوت عنہ کو مباح جانتے ہوئے اس پر بحث کر کے تکلف کا ارتکاب کرتے ہوئے نبی کریمﷺ کے منع فرمانے سے بھی نہیں رکتے۔ لطف یہ کہ اپنے معمولات کو سنت بھی نہیں کہتے لیکن بدعات کیلئے شریعت کے مقاصدوکلیات کو نظر انداز کرکے اہل سنت میں داخلہ پر بھی اصرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے معمولات پر حرام ہونے کا حکم کیوں لگایا جاتا ہے اور تقاضا ہے کہ بالتنصیص کوئی ایسی آیت یا حدیث بتائی جائے۔جس میں متعین طور پر ان کے معمولات پر حرام ہونے کا حکم لگایا گیاہو۔ Aur jis hadeeth ko aap nay peesh kiya to امام ابو حنیفہؒ بھی ۔اصل تحریم کو اختیار کیا ہے اور مسکوت عنہ کو عبادات میں بدعت کے دلائل کی روشنی میں مسکوت عنہ سے خارج سمجھا ہے۔ مبا ح کی بنیا د پر شریعت سازی سے پر ہیز کیا ہے اور یہی مذہب منصور ہے۔ کیونکہ مذکورہ حدیث کے علاوہ ابو ثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ کی روایت جسے امام طبری،دارقطنی، الحاکم نے تخریح کیا اور درمنثور اور جامع العلوم والحکم اور امام ابن کثیر ؒ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: { ان اللّٰہ فرض فرائض فلا تضیعوھا وحدّحدوداً فلا تعتدوھا ونھی عن اشیاء فلا تنتھکوھا وسکت عن اشیاء من غیر نسیان لھارحمۃً لکم فلا تبحثوا عنھا} (دارقطنی) یعنی اللہ تعالیٰ نے فرائض مقرر فرما دیے انہیں ضائع نہ کرو اور شرع کی حدیں مقرر کر دیں ان سے آگے نہ بڑھو اور بعض چیزوں سے منع فرما دیا ان کی حرمت کو پامال نہ کرو اور بعض سے بغیر بھولنے اور نسیان کے خاموشی اختیار فرمائی تم ان سے بحث اور کریدنہ کرو۔ ایک دوسری روایت میں ہے فلا تتکلفوھا کہ ان میں تکلّف نہ کرو ان احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہے کہ تم محکمات کو زیر عمل رکھو متشابہات سے پرہیز کرو نھی کے صیغے ہیں گویا آپ ﷺ نے ان سے ہر لحاظ سے روک دیا ہے کیونکہ ان کا حکم ہم سے پوشیدہ رکھا گیا ہے۔چہ جائے کہ ہم اس کو اصل الاصول قرار دے کر مسائل کا استنباط شروع کر دیں لہذا آپﷺکے فرمان پر غور کرنا چاہیے اور ایسے بے جا تکلف سے بچنا چاہیے کیونکہ متفق علیہ حدیث شریف جسے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: { ان الحلال بین و انّ الحرام بین وبینھما امور مشتبھات لا یعلمھن کثیر من الناس فمن اتقی الشبھات فقد استبرء لدینہ وعرضہ ومن وقع فی الشبھات وقع فی الحرام الخ الحدیث} یعنی حلال بھی واضح ہے حرام بھی واضح ہے ان دونوں کے درمیان کچھ باتیں شبہے والی ہیں کچھ کام شبہے والے ہیں توجو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین کو عیب سے اور اپنی عزت کو تہمت سے پاک کر لیا اور جو شبھات میں پڑا تو وہ حرام میں گِر گیا ۔ الی آخر الحدیث Aur jaha tak Imam Abu Hanifa Rahimahullah kay nazdeek machli ka taluq hay to pehlay to aap nay jo ayat peesh ki uski tafseer bhi parh lay apnay hi ghar say: Aur kya waqai Imam e Azam Rahimahullah kay nazdeek is ayat say machli kay ilawa baki tamam daryai janwar haram hay?Aur mazeed aap nay jo amoom ki baat ki hay towoh hadeeth to khud aap kay khilaf hay kay us may to sunnat ka zikr nahi sirf Allah Ta'ala ki kitaab ka zikr hay?To phir ab may bhi kehta hu kay jab alfaaz aam hay to phir amoom hi mano.Ab batao kya sirf wahi cheezay halal o haram hay jo Quran Shareef may bayan hay? دعابعد ازجنازہ اور فقھاء حنفیہ عدم ثبوت کی وجہ سے فقہاء حنفیہ نے نماز جنازہ کے سلام کے بعد دعا مانگنے سے منع فرمایا ہے۔ بحرالرائق جلد دوم میں ص۱۸۳ پر لکھا ہے۔دعا ء بعد الثالثۃ لانہ لایدعوبعد التسلیمیعنی جنازہ میں تیسری تکبیر کے بعد (جودعا کے لیے خاص ہے) دعا ہے اس لیے بعد سلام کے کوئی دعانہ مانگے۔ طاہر بن محمد بن عبد الرشید البخاری نے خلاصہ الفتاوی کے ص۲۲۵ میں لکھا ہے۔ولایقوم بالدعاء بعد صلوٰۃ الجنازۃ نماز جنازہ سے فراغت کے بعد کوئی دعا نہ مانگے ۔ خلاصہ الفتاوی ہی کے ص۲۲۵ میں ہے ولایقوم بالدعاء فی قرأۃ القران لأہل المیت بعد صلوٰۃ الجنازۃوقبلھا اور دعا نہ مانگے اہل میت کیلئے قرآن پڑھ کر نہ نماز جنازہ کے بعد نہ پہلے اس کے۔ ایسے ہی فتاوی سراجیہ باب الصلوٰۃعلی الجنازۃ ص۱۲۱ میں ہے نماز جنازہ کے بعد دعا نہ مانگے۔ نفع المفتی والسائل میں مولاناعبدالحی ؒ لکھتے ہیں۔نماز جنازہ کے بعد دعا مکروہ ہے۔ ملّا علی القاری مرقاۃ شرح مشکاۃ میں فرماتے ہیں ۔ولا یدعو للمیت بعد صلاۃ الجنازۃ لأنہ یشبہ الزیادۃ فی صلاۃ الجنازۃ ص۱۴۹ج۴ اورنمازجنازہ کے بعد میت کے لیے دعانہ کرے کیونکہ یہ نماز جنازہ میں ذیادتی کے مشابہ ہے عرض یہ کہ !تمام حوالہ جات پیش کرنا مقصود نہیں بلکہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان فقہاء کرام نے نہی فرماکراور مکروہ لکھ کراباحت کی اصل کی نفی فرمائی ہے اور یہ نہی تحریمی تنزیھی اور ارشادی کے قبیل سے ہے۔ موصوف سے سوال کیا یہ نفی یا نھی امام سیوطی ؒ کی الاشباہ والنظائر سے اما م ابو حنیفہؒ کے نزدیک ألاصل فی الاشیاء التحریم کی روشنی میں ہی نہیں فرمائی گئی؟ اب آپ کا فیصلہ اباحت وتحریم کے تعارض و تناقض میں ترک اولی ہوگا؟یاآپ ان فقہاء حنفیہ کے مقابلے میں احمد یار گجراتی اور محمد عمر اچھروی صاحبان کے نقش قدم پر اس کی سنیت ثابت کریں گے؟اِنہوںنے جو مواد فراہم کیا ہے اس میں تحریف اور تاویل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مجددالف ثانیؒ فرماتے ہیں ہر چیز دردین محدث ومبتدع گشتہ کہ درزمان خیرالبشرﷺ وخلفاء راشدینؓ نہ بودہ اگرچہ آںچیز درروشنی مثل فلق صبح بود ایں ضعیف راباجمع کہ بااو بستند گرفتار عمل محدث آں نہ گردانند(ترجمہ)بندہ عاجزی وانکساری سے دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وہ چیز جو دین میں نئی اور بدعت نکالی گئی ہے،جو خیرالبشرﷺ اور خلفاء راشدین ؓکے زمانہ میں نہ تھی اگر اس کی روشنی صبح صادق کی طرح ہو اس ضعیف کو اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کو اس نئی بات میں گرفتار نہ کرے اور اس بدعت کے فتنہ میں نہ ڈالے۔ مکتوب مفصل کے آخر میں فرماتے ہیں۔علیکم باالاقتصار علی متابعۃ سنۃ رسول اللّٰہ ﷺ والاکتفاء علی اقتداء اصحابہ الکرام پس تم رسول اللہ ﷺ کی سنت کی متابعت وپیروی پر پابندی لازم پکڑو اور آپ ﷺکے صحابہ کرامؓ کی اقتداء کو کافی سمجھو۔ مکتوبات مجدّدیہ کے مکتوب ایک سوچھیاسی۱۸۶
  2. 1. ) Pehlay baat to yeh kay aap nay jo Mishkat Shareef ki hadeeth peesh ki , to apkay akabireen to kehtay hay kay apkay Ala Hazrat ki zaban shareef aur kalam mubarak nukta barabar khata karay , to yay na mumkin hay.Khair choray is baat ko.... 2. ) Jaha tak sunan darmi hi hadeeth ka taluq hay , to ussay to apkay Sahib e Anwar e Satia walay nay bhi mana hay jis pay apkay ala hazrat ki taqreez bhi hay?Aur is hadeeth ko to beshumar fiqhi kitabo nay bhi nakal kiya hay?Ab na bolna kay un say bhi khata ho gai.Khair is hadeeth ka mazmoon Musanif Abdur Razzaq ki eik hadeeth may bhi ata hay .Mulahiza ho :- Is kay baray may kya kahay gay? 3. ) AAP nay zikr bil Jahr kay hawalay day kay , khud hi iqrar kar diya kay farz namaz kay baad buland awaz say eik sath kalma parhna jaisay har barelwi masjid may hota hay , biddat hay. 4. ) Jaha tak Hazrat Ali aur Eid wali hadeeth ka taluq hay , to may apna muakif wapis leta ho kyon meray ilm may nahi wali hadeethay nahi thee.Nishandahi ka liyay shukria. 5. ) Jaha tak Abdullah Bin Umar ki hadeeth ka taluq hay , to aap nay zabardast dhoka denay ki koshish ki hay.Dono hadeethay alag alag hay kyon kay eik may namaz may rafa yadain ka zikr hay aur doosray may dua may seenay say upar haath uthanay ka zikr hay.(Hadeeth ka zikr neechay ai ga).Mera mokif abhi bhi wohi hay: اب اس حدیث سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی سوچ متعین ہوتی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کی عدم موافقت کو بدعت شرعی سے تعبیر کرتے تھے ، حالانکہ بعض لوگوں کے خیال میں شریعت میں مباح کے ضمن میں کھلا میدان ہے او ر دعا کیلئے جتنے ہاتھ اٹھائیں بلکہ جب چاہیں اٹھائیں سنت کی موافقت ہو نہ ہو Note:Namaz e Istisqa may istasna hay (hadeeth say sabit) 6. ) AAP nay jo talbiya may zyadati ka hawala diya to us say hamay kuch farq nahi parnay wala. Mulahiza ho: صاحب نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ کے قول سے بدعت حسنہ کا جواز تو پیدا کردیا ہے، لیکن عبداللہ بن عمر رضی اللہ کے اس قول کل بدعة ضلالة وإن رأھا الناس حسنة کو پس پشت ڈال دیا ہے 6. ) Jaha tak asal shay may abahat ka taluq hay , to aap to aap to Imam Jalalluddin Syutti Rahimahullah ki poori ibarat ko pee gay. aur uska koi jawab nahi diya. علامہ جلال الدین السیوطیؒ اپنی کتاب الاشباہ والنظائر ص:۶۰میں جو فروع فقہ شافیہ میں ہے ر قمطراز ہیں کہ یہ شوافع کی اصل ہے جبکہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک الأصل فی الاشیاء التحریم اشیا ء میں اصل تحریم ہے،فرماتے ہیں ۔ الاصل فی الاشیاء الاباحۃ حتی یدل الدلیل علی التحریم ھذامذہبنا وعند ابی حنیفہ الاصل فیھا التحریم حتیٰ یدل الدلیل علی الاباحۃ ویظھر أثرالخلاف فی المسکوت عنہ یعنی قاعدہ یہ ہے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے تا آنکہ حرمت کی دلیل ہو۔یہ ہمارا (شوافع کا) مذہب ہے،امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اصل تحریم ہے تاآنکہ اِباحت کی دلیل ہو اور اس اختلاف کا اثر مسکوت عنہ پر ظاہر ہوتا ہے۔ آپ بھی چونکہ ہماری طرح حنفی کہلواتے ہی اور امام جلال الدین سیوطیؒ کو آپ کے علماء مجدد مانتے ہیں اور خاتمۃ الحفاظ کہتے ہیں۔اُن کی یہ عبارت الاشباہ والنظائر کے ص۶۰ پر منقول ہے اور معتبر ہے کیونکہ انہوں نے شوافع اور حنفیہ کے درمیان مابہ النزاع اور مابہ الاختلاف قرار دیاہے وہ مسکوت عنہ اورعفو ہی ہے۔ . Phir Eik baat to yay hay kay jamhoor ka mazhab yahi hay kay asal shay may abahat nahi hay. .Phir doosri baat hay kay is abahat ka ibadaat say koi taluq nahi Teesri baat yay keh kya aap nay kabhi socha hay kay Imam Abu Hanifa Rahimahullah kay nazdeek machli kay ilawa tamam daryai janwar haram kyon hay?Batao kya Imam e Azam Rahimahullah ko har cheez may abahat e asliya ka anmol qaida na mil saka? Jaha tak us hadeeth ka taluq hay tu woh apkay liyay bilkul mufeed nahi kyon kay woh sanand kay lehaz say saheeh nahi. Asal hadeeth yay hay: ابن ماجہ شریف میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعیننے چند ضروری چیزوں کو حلت وحرمت کے متعلق جب پوچھا تو رسول اکرمﷺ نے فرمایا: {الحلال ما احل اللّٰہ فی کتابہ والحرام ماحرم اللّٰہ فی کتابہِ وما سکت عنہ فھومما عفی عنہ}حلال ہے وہ جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیاہے اور جس کا ذکرنہیں فرمایاوہ معاف ہیں۔ (ابن ماجہ شریف : ۲۴۹) حدیث شریفہ کا تعلق کھانے پینے اور لباس سے ہے مثلاً اس حدیث میں یہ وضاحت موجود ہے کہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے الجبن و السمن اورالفراء کے متعلق سوال کیا تو رسول اللہﷺ نے مذکورہ جواب ارشاد فرمایا۔ ظاہر ہے پنیر، گھی اورکپڑوں کے بارے میں سوال کیا کیونکہ یہ چیزیں فارس سے آتی تھی اور وہ مجوسی اور کفار تھے اور بعض نے فرا کے معنی حماروحشی یعنی جنگلی گدھے کے کیے ہیں(الفراء سے مرادوہ کپڑے ہیں جو درندوں کے چمڑوںیا بالوںسے تیار کیے جاتے ہیں)تو ان کا تعبدی امور یاعبادات سے کوئی تعلق نہیں لہذا ان کے حکم میں مسکوت عنہ یعنی جہاں حلت وحرمت واضح نہیں۔ امام ابو حنیفہؒ اصل تحریم کو اختیار کیا ہے اور مسکوت عنہ کو عبادات میں بدعت کے دلائل کی روشنی میں مسکوت عنہ سے خارج سمجھا ہے۔ مبا ح کی بنیا د پر شریعت سازی سے پر ہیز کیا ہے اور یہی مذہب منصور ہے۔ 6.) Jaha tak Sahib e Hidaya aur Eid ka taluq hay , to kya aap Eid say pehlay nawafil ko sunnat e ghair muakidah kehnay chah rahay hay?Saeedi sahab zara hosh may akar baat karay.Yay bilkul bhi meray sawal ka jawab nahi.Unki ibaraat may kahi bhi tark kay alfaaz nahi.Idhr apki chalaki nahi chalay gee. ولا يتنفل في المصلى قبل صلاة العيد لأن النبي صلى الله عليه وسلم لم يفعل ذلك مع حرصه على الصلاة ، ثم قيل الكراهة في المصلى خاصة ، وقيل فيه وفي غيره عامة لأنه صلى الله عليه وسلم لم يفعله Ibarat may saaf likha hay "aisa nahi kiya".Ab batao kya unki daleel 'ad'am fail nahi? سنت ترک کی ایک اور دلیل: ابووائل بیان کرتے ہیں، ''جلست الی شیبۃ فی ھذا المسجد قال جلس الیَّ عمرؓفی مجلسک ھذافقال ھممت ان لاادع فیھا صفراء ولا بیضاء الَّا قسمتھا بین المسلمین قلت ماانت بفاعل قال لِمَ، قلت لم یفعلہ صاحباک ،قال ھما المرأان یقتدی بھما'' (صحیح بخاری) میں شیبہ کے پاس اس مسجد میںبیٹھاہواتھااس نے کہا ایک دفعہ عمرفاروق ؓتیر ی جگہ میرے پاس بیٹھے اور فرمایا کہ'' میں چاہتا ہوں کہ یہاں کعبہ میںجو سونا چاندی ہے مسلمانوں میں بانٹ دوں'' میں نے کہا '' آپ ایسا نہیں کرسکتے'' آپ نے فرمایا ''کیوں؟ '' میں نے کہا ''کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر صدیقؓ نے ایسا نہیں کیا'' توعمرؓنے فرمایا ''یہ دونوں حضرات مقتدٰی اور پیشوا ہیں '' اس اثر سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس کام کو رسول اللہ ﷺ نے باوجود داعی یعنی تقاضا اور عدم مانع کے نہیں کیا اور بعد میں کوئی سبب بھی پیدا نہیں ہوا نہ کوئی سابق معارض اٹھا ایسی صورت میں اس کااحداث منع ہے اور اسی کا نام بدعت ہے 6.) AAP nay Sunnat ki jo definition dee hay , to woh mutalqan sunnat nahi balkay sunnat e ghair muakhidah hay.Apna record drust karlay. شیخ علی القاریؒ کا استدلال: خیرالقرون میں کسی عمل کے عدم ذکر اور کفار سے مشابہ ہونے سے مکروہ اور ممنوع ہونے پر استدلال شیخ علی القاری شرح مناسک میں فرماتے ہیں۔ ''ولا یرفع یدیہ عند رویۃ البیت ای ولو حال دعائہ لعدم ذکرہ من المشاھیر وکلام الطھاوی صریح فی انہ یکرہ الرفع عندعلماء ناالثلاثۃ ونقل عن جابر انہ فعل الیھود'' بیت اللہ کو دیکھ کر ہاتھ نہیں اُٹھائے جائیں گے اگر چہ دعا کے لیے ہوں کیونکہ مشھور روایات میں اس کا ذکر نہیں۔طحاوی کی کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے تینوں علمائ(امام ابو حنیفہؒ، امام ابویوسفؒ، امام محمدؒ)کے نزدیک ہاتھ اُٹھانا مکروہ ہے اور جابرؓ سے منقول ہے کہ یہ یہود کا فعل ہے۔ اس عبارت میں ملا علی قاریؒنے منع کی وجہ یہ ذکر کی ہے کہ اس کا کہیں ذکر نہیں،پھر یہود کی مشابہت کاذکرکیاہے ،حالا نکہ یہودی بیت اللہ کا حج نہیں کرتے بلکہ مسجد اقصٰی کا احترام کرتے ہیں۔وہ اُس کو دیکھ کر ہاتھ اُٹھاتے ہوں گے پس معلوم ہواکہ تشبیہ کیلئے ہر طرح سے موافقت ضروری نہیں اور بعض سے ہاتھ اُٹھانے کا استحباب آیاہے۔ملا علی قاریؒ اس کی وجہ بیان کرکے اس کا رد کرتے ہیں،ان کی عربی عبارت کا ترجمہ یہ ہے جو ہاتھ اٹھانے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔وہ مطلق دعا کے آداب سے استدلال کرتے ہیں مگر ہر حالت میں وہاں کی مخصوص حالت کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔کیا تم کو معلوم نہیں کہ نبی ﷺ نے طواف میں دعا کی اور ہاتھ نہیں اٹھائے۔ صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کے فعل مبارک کے خاص خاص اندازکا بھی خیال رکھتے تھے۔''عن ابن عمر ؓ انہ یقول ان رفعکم ایدیکم بدعۃ مازاد رسول اللّٰہ ﷺعلی ھذہ یعنی الصدر'' (مشکوٰۃ) عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیںتمہارا (دعا کے لیے ) اتنا اونچاہاتھ اٹھانا بدعت ہے۔رسول اللہ ﷺ نے (دعا کے لیے )سینے سے اونچا ہاتھ نہیں اٹھایا۔ 7. ) Wah jee aap to Hafiz Ibn Kathir Rahimahullah say bhi mukar gay?Un ki tafseer to dunya may mani jati hay.Waqt anay par to unhi ki al bidaya wal nihaya say bohat kuch sabit karna chatay hay aap log.Akhir yay munafiqat kyon?Baki woh shafi hay isi liyay un say hamara fiqhi masail may ikhtilaf hosakta hay.Apkay akabireen nay unhay mana hay: http://sirat-e-mustaqeem.com/qasas-ul-ambia_book-1179.html 7. ) AAP nay jo Ghair Mamnoo'n ko mubah kaha hay , to yaha Mubah laghwi mainay may hay aur na kay shari'a mainay may.Yani ya to koi cheez jaiz hay ya mamoo.Leikin shariat may is kay mazeed akhamat hay.Mujhay kamazakam 3 hanafi fiqh ki kitaabo say mubah ka shari matlab dikhao , agar nahi to may aap ko batao ga.AAJ tak koi barelwi sahi say mubah ki tareef na karsaka. 8. ) Chalo agar eid ki namaz kay liyay azaan nahi , phir iqamat bhi nahi?Kya uski mumaniyat ki hadeeth hay?Namaz e Jannaza , istisqa kay liyay mumaniyat ki hadeeth?Aur Hazrat Muawiya ki azaan e eid sahi sanad kay sath peesh karo warna aap ki apni ibarat may hi tazad ajai ga.Yo hi hawa may teer na maray. 9. ) Afsoos hay aap logo pay jo Khulafai Rashideen ko bhi biddati(Ma'az Allah) kehtay ho.Hadeeth parho: عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي AAP nay saaf alfaaz may irshad farma diya kay unki sunnat pay chalo Mazeed Hazrat Usman kay dor may doosri azaan ki zaroorat apko muhaditheen ki zabani hi bata dunga agar aap nay farmaish ki to. 10. ) Shabash aap to salat ul raghib wali ibarrat ko hi pee gay.Mera sawal tha kay fuqaha isay najaiz , makrooh aur biddat kyon kehtay hay?Mazeed apkay Hakeem ul Ummat kehtay hay kay namaz e raghib to jaiz hay leikin ihtimam kay sath iski jammat jaiz nahi?Kabhi kehtay ko kay nawafil ki jammat mashroo nahi to kabhi teen ki jammat may aslan harj nahi?Imam Nawawi nay is namaz ko hi siray say najaiz aur biddat kaha?Akhir kyon?Kya namaz to acha kaam nahi?Batao saeedi sahab , yay namaz az khud mustahab kyon nahi? 11. ) Jaha tak Meelad ka taluq hay , to apkay Hakeem ul Ummat kehtay hay kay hamaray nazdeek Shafi hujjat nahi.To itni lambi taqreer ka kya faida? Faisla kun hawalay: وصف هذا الكتاب الشيخ عبد العزيز العمري الدهلوي المتوفي سنة 1239 بهذا النص الشريف قال: " كتاب مجالس الابرار ..يتضمن فوائد كثيرة من باب أسرار الشرائع ومن أبواب الفقه ومن أبواب السلوك ومن أبواب رد البدع ومن العادات الشنيعة لا علم لنا بحال مصنفه الا ما يكشف عنه هذا التصنيف من تدينه وتورعه وتفقهه في العلوم الشرعية " Imam Abdul Hay Lukhnawi [Rahimahullah] writes regarding Majalis al-Abrar: قال الإمام اللكنوي عنه: هو كتاب نفيس معتمد عليه ((إقامة الحجة))(ص19). Tahreef ki raat lagany say kuch nahi hoga. Sabit karo tahreef. Aur Al-Shatibi ka hawal 10 baar parho kay woh kis cheez ko biddat keh rahay hay.Batao ab , kya yay sab bhi wahabi hay? 12. ) Jaha tak durood ka taluq hay to eik hadeeth may ata hay: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم هَؤُلاَءِ الْكَلِمَاتِ فِي الْوَتْرِ قَالَ ‏ "‏ اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلاَ يُقْضَى عَلَيْكَ وَإِنَّهُ لاَ يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ ‏"‏ 13. ) Radiallaho Anho Quran shareef may bhi hay , isay biddat kehna apki zid hay. 14. ) Apka akhri iteraz to bay tuka hay.Is tarha to Arabi ka ilawa dunya ki tamam zabanay aur naam biddat huway?Mazeed kya agar koi hazrat aur huzoor ki jaga "His holiness" , "his majesty" , "his highness", Dear , Sir , Master , Lord , Leader waghaira kay alfaaz istimal karay to sahi hay? Jaha tak "sayyidna" ka taluq hay , to is may ulama ka ikhtilaaf hay. http://seekersguidance.org/ans-blog/2011/05/31/is-it-proper-to-add-sayyidina-before-the-names-of-our-prophets-muhammad-and-ibrahim-in-the-tashahhud/ Agar phir bhi tasali nahi huwi to ao apkay Ala Hazrat ki zabani hi sun letay hay: Saeedi Sahab ab batao.Kya yay Tark mutlaqan tark hay ya ba mainay kisi fail say rukna?Yakeenan idhr muraad mutlaqan tark hi yani tark ba mainay عدم ثبوت اور عدم نقل Ab agar apkay usool ko mana jai to phir ghair arabi may khutba ya khutba may urdu kay alfaaz biddat hasana ya mubah/mustahab huway aur agar apkay ala hazrat ka usool mana jai to phir upar walay teeno amaal makrooh huway.Faisla aap ka Sach kaha hay.Barelwi boltay hay magar samajhtay nahi. May kisi aur kay liyay jawab day nahi.
  3. Yay sawal may nay nahi balkay apkay apnay hi eik barelwi bhai nay kiya hay : Mulahiza ho upar wali link. علامہ غزالیء زماں کا فتوی مدنظر رکھ کر قادری صاحب کی اقتداء کرنے پر گمراہی کا فتوی دینے والے مفتیان کرام اور نام نہاد سنیت کے ٹھیکے داروں کی بارگاہ میں عرض ہے کہ اب وہ فتوی غزالیء زماں کی شہزادے پر بھی لاگو کر کے دکھائيں۔۔۔
  4. Yay mujhay eik website pay mila hay.Lagao ab fatwa , barelwio. Yahi to kaam hay aap logo. https://www.facebook.com/video.php?v=758042457586259 جگر گوشہ حضرت غزالی زماں، رازیء دوراں، علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ، حضرت سید سجاد سعید کاظمی دامت برکاتھم انقلاب مارچ میں، ڈاکٹر قادری کو اپنا قائد بھی تسلیم کر لیا۔ علامہ غزالیء زماں کا فتوی مدنظر رکھ کر قادری صاحب کی اقتداء کرنے پر گمراہی کا فتوی دینے والے مفتیان کرام اور نام نہاد سنیت کے ٹھیکے داروں کی بارگاہ میں عرض ہے کہ اب وہ فتوی غزالیء زماں کی شہزادے پر بھی لاگو کر کے دکھائيں۔۔۔ حضرت کے بڑے بھائي شیخ الحدیث جامعہ انوارالعلوم ملتان شریف علامہ ارشد سعید کاظمی بھی قادری صاحب کو شیخ الاسلام قرار دے چکے ہیں۔(ویڈیو میرے پاس موجود ہے) لیکن مفتیان کے فتوے کا انتظار ہے۔۔۔۔
  5. Barelwio nay apnay hi akabireen pay fatway laga diyay.Nusratulhaq sahab , jo sawal aap nay mujh say kiyay hay , wohi sawal apnay akabireen say karo agar zara barabar bhi ghairat hay to.Bolo apkay Ala hazrat aur Hakeem ul Ummat apnay peer o murshid Hajji Imdadullah muhajir Makki Rahimahullah pay kya fatwa lagai gay?Jo jawab apka , wahi hamari taraf say samjho.
  6. Mujhay Ya Mohammad kehnay pay iteraz hay. AAP ko naam lay kar pukarna haram hay.Is pay sab mutafiq hay.
  7. AAP ko naam lay kar pukarna (yani Ya Mohammad ) bay adabi hay aur aap log is pay kush ho rahay ho. Afsoos.
  8. http://tune.pk/video/2872470/ya-muhammad-noor-mujassam-muhammad-owais-raza-qadri-sb-2014-mehfil-in-uk-manchester-4th-jan-2014 Ya Mohammad kehna jaiz nahi.
  9. Mughal Sahab say guzarish hay kay in dono ko thread say bahir nikal day kyon kay jawab in say ban nahi raha aur out of topic baatay kar rahay hay.
  10. Sharam tum ko magar ati nahi Woh eik saal purany totkay. AAP nay sirf ilzami jawab diyay hay na kay asal mozo ka jawab.(upar wali post).Apkay munazir nay kaha tha kay pehlay asal ibarat ka jawab dena zaroori hay us kay baad Ilzami jawab. www.youtube.com/watch?v=9iirrnoc_wo
  11. Sharam tum ko magar ati nahi Woh eik saal purany totkay. AAP nay sirf ilzami jawab diyay hay na kay asal mozo ka jawab.(upar wali post)
  12. بسم اللہ Saeedi Sahab ki boklahat Saeedi Sahab , mujhay pehlay hi pata tha kay aap nay zaroor Molvi Ghulam Rasool Saeedi pay ilzam lagana hay.Kya aap ka sheikh ul hadeeth say khata ho sakti hay aur aap say nahi?Ghulam Rasool sahab nay kahi jaga yay qaida bayan kiya hay. Kya in may say kisi ko bhi Saeedi Sahab ki khata nazar nahi ayi?Kya aap in sab say bohat baray alim ho?Agar himmat hay to lagao biddat ka fatwa in sab pay, kyon kay aap nay issay "biddati qaida" kaha hay , aur jo yay qaida rakhay woh biddati huwa(woh to agay araha hay).Kyon jee , himmat hay aap may? Doosri baat yay keh Ahmed Raza Khan Sahab ki jo pehli ibarat hay , uska namaz e jannaza kay masla say koi taluq nahi tha.Woh kisi aur maslay kay mutaliq likhi gai thee. Ab atay hay asal maslay ki taraf.aap nay ghaliban eik aur jaga bhi yehi asool likha tha"Mulahiza ho: Is Ka Mo Tor Jawab: سیدنا عبد اللہ بن مسعود اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما اجلہ صحابہ مسجد میں اسوہ نبی سے ہٹ کر ذکر الہی کرنے والوں کی سرزنش فرماتے ہیں اور اسے بدعت اور گمراہی سے تعبیر کرتے ہیں بلکہ ذا کرین کو فرماتے ہیں کہ اپنی خطائیں شمار کرو نیکیوں کے ہم ضامن ہیں ، اور کیا تمہار ا طریقہ رسول اللہ ﷺکےطریقہ سے اچھا ہے ؟اوریہ حدیث صحیح ہے جس کی تفصیل کتب سنن میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عید گاہ میں نمازِعید سے پہلے ایک شخص کو نما ز پڑ ھتے ہوئے دیکھا توا سے منع فرمایا اس نے کہا :میں نماز ہی تو پڑ ھ رہا ہوں تو فرمایا: جوعبادت رسول اللہ ﷺ نے نہیں کی اس میں تم آپ ﷺ کی مخالفت کر رہے ہو بجائے ثواب کے عذاب پاؤ گے اور تیرا یہ نماز پڑ ھنا بھی عبث ہے اور عبث حرام ہے یہاں اس شخص نے یہ نہیں کہا کہ آپ ﷺ نے منع تو نہیں فرمایا ،یا کثرت عبادت عبث اورحرام کیسے ہو گی ؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تیرا یہ نماز پڑ ھنا شاید رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کی وجہ سے عذاب الہٰی کا سبب بنے ۔ معلوم ہوا کہ عبادت کے کاموں میں اگر کوئی عمل بدون اذن شرع اور شارع علیہ الصلاۃ والسلام کے کیا جائے تو وہ مردودہو گا ۔ بعض لوگوں نے اہل اسلام کا مسلم اصول یہ پیش کیا ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت اور مباح کو یہ مقام حاصل ہے کہ جتنا چاہیں کریں خواہ عبادت قولی ، فعلی یا مالی ہو اور جس وقت چاہیں کریں اگر سنت ہونے کا استفسار کرے تو بڑ ی ڈھٹائی سے کہو کہ تم منع دکھاؤ ۔اس جوابی نکتے کی تکرار کی تلقین کی جاتی ہے ۔ کتاب وسنت تو یہ تقاضا کرتی ہے کہ شریعت کی اتباع کی تلقین کریں اور من مرضی کے اضافوں کو بدعت سے تعبیر کریں لیکن یہاں اسلام کی ہمہ گیری اور وسعت کے تقاضے ہیں کہ ہر شخص مباح میں آزاد ہے اور امت مسلمہ کو مباح کی ڈھیل میں بدعت کی دلدل میں دھکیلا جارہا ہے ۔ مباح کی کیا حیثیت ہے ، اصول فقہ میں تواس کا فعل وترک برابر لکھا گیا ہے یعنی کرے تو ثواب ، نہ کرے تو گناہ نہیں ۔ (اصول فقہ کی کتابوں کا حوالہ) یہ اس کی قانونی حیثیت ہے لیکن لوگ اسے تشریعی حکم کا درجہ دے رہے ہیں حالانکہ شارع علیہ السلام نے اسے نظرا نداز کر دیا ہے۔ لہذا سنت کا مطالبہ کرنے والوں کے مقابلہ میں اس موقف سے مذکور عمل کی تشریع کا وہم پڑ تا ہے چنانچہ یہ عدم ثبوت اس کی ممانعت کی دلیل ہو گا پھر یہ اصول متفقہ نہیں ہے، امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اصل تحریم ہے ، یہ ملحوظ رہے کہ اہل سنت کے ائمہ اس با ت پر متفق ہیں کہ عبادت میں اصل یہ ہے کہ کوئی عبادت تب تک مشروع نہ کہلائے گی جب تک شرع شریف سے اس کا اذن واجازت نہ ہو یعنی عبادات میں اصل تحریم ہے جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’فروع فقہ شافعیہ ‘‘ میں جو کہ ’’الاشباہ والنظائر‘‘ کے نام سے مشہورہے میں ص:۶۰ پر ذکر کیا ہے ۔ جب عبادات میں بدون اذن شرع اضافہ خواہ اصلی شکل میں یعنی مشروع عبادت کی شکل میں تبدیل حرام ہے اور آپ کے مباح پر جو فعلاً وترکاً برابر ہے ۔ حرام کا فتویٰ علی رضی اللہ عنہ نے لگایا ہے ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی اصل تحریم کا مورد بھی ہے اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی اس پر بدعت کا حکم لگایا ہے ۔ ہمارے لیے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ آئینہ ہیں اگر کوئی ہمیں دکھائے تو سعادت مندی ہے ان سے ہماری غلطیوں کی اصلاح ہو سکتی ہے ۔ جملہ عبادات میں اصل ممانعت ہے الّا یہ کہ شرع اجازت دے ،ہم اپنی طرف سے اختراع نہیں کرسکتے۔ اس لیے ائمہ محدثین نے رسول اللہ ﷺ کی اتباع کو جہاں فرض قرار دیا ہے وہاں کسی کام کے آپ سے عدم ثبوت کی بناپر ترک کرنے کو بھی ضروری قراردیا ہے ۔ چنانچہ اس کی تفصیل علامہ ملّا علی القاری اور الشیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بیان کی ہے اور بالصراحت یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے افعال مبارکہ کی فعلا وترکا اتباع ضروری ہے، چنانچہ آپ ﷺسےکسی عمل کے منقول نہ ہونے یعنی عدم ثبوت اور عدم نقل پر اس کے مکروہ وربدعت ہونے کا حکم لگایا گیا ہے جیسا کہ فجر کی سنتوں کے بعد مزید نوافل ادا کرنے کے بارے میں مذکور ہے ۔ قاضی ابراہیم حنفی فرماتے ہیں کہ جس فعل کا سبب رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں موجود ہو اور کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو اور باوجود اس کی اقتضیٰ کے رسول اللہ ﷺ نے اسے نہ کیا ہو تو ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے دین کو بدلنا ہے کیونکہ اس کام میں کوئی مصلحت ہوتی تو رسول اللہ ﷺاس کام کوضرورکرتےیاترغیب فرماتےاورجب آپﷺنےنہ خود کیا اور نہ کسی کو ترغیب دی تو معلوم ہوا کہ اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے بلکہ وہ بدعت قبیحہ سیئہ ہے ۔ (نقائص الاظہار ، ترجمہ مجالس الابرار ص:۱۲۷) مسکوت عنہ کے ترک پر صاحبِ ھدایہ کی رائے ملاحظہ کریں فرماتے ہیں : ’’ لا یتنفل فی المصلی قبل صلوۃ العید لان النبی ﷺ لم یفعل ذالک مع حرصہ علی الصلوۃ‘‘ (ھدایۃ ۔ج:۱، ص:۱۵۳) ترجمہ:’’ اور عید گاہ میں نماز سے پہلے نوافل نہ پڑ ھے کیونکہ نبی ﷺ نےباوجودنمازکی حرص کےایسانہیں کیا ‘‘ ’’لایتنفّل‘‘ نہی اور ممانعت کا صیغہ ہے ،یہ کونسی نہی ہے آپ فیصلہ کریں تحریمی ہے ، تنزیہی ہے یا ارشادی کہ جس میں ترک ہر صور ت ہے۔ اگر نفی کا صیغہ ہو تو یہ اس سے بھی ابلغ ہے اور عید گاہ میں نماز عید سے پہلے نفل نماز پڑ ھنے والے کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نہ صرف روکا بلکہ اس فعل کو جو بظاہر نیکی ہے اور رسول اللہ ﷺ سےاس کی ممانعت کاذکربھی نہیں آیا،اسےعبث اور حرام ٹھہرایا اور اس کو رسول اللہ ﷺکےعدم فعل اور عدم ثبوت کی وجہ سے اسے آپ ﷺ کی مخالفت تعبیرفرماکراس کوعذاب کا مستحق ٹھہرایا ہے ۔ مگر بعض لوگ مسکوت عنہ یعنی وہ مسائل جن میں خاموشی اختیار کی گئی ہے اس پر خاموش رہنے کی تلقین کے باوجود خود اس پر کاربند ہونے کا اظہار واعلان ہی نہیں بلکہ اس پر سنت کے حوالہ کے طلبگاروں کو فروعی مسائل میں الجھانے کا الزام بھی دیتے ہیں ۔ مذکورہ حوالہ جات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سنت کی موافقت کے مطالبہ کی سوچ درست بھی ہے اور مفید بھی ، اور اس سے بڑ ھ کر پیارے پیغمبر ﷺ کی نافرمانی اور مخالفت سے بچنے کا ذریعہ بھی۔ اس لیے اگر آپ ﷺ کی اتباع میں ساری دنیاسے اختلافات ہو جائیں تو کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہیے ۔ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور اس کے باہمی معاملات کے درجہ سے رب تعالیٰ کا حق مقدم ہے اس کی ادائیگی میں اصل اور وصف کے لحاظ سے بدون اذن شرع کے ہم عبادت کا ایجاد واختراع نہیں کر سکتے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جوروایت حدیث ، درایت اور ہدایت میں کامل تھے انہوں نے تو عبادات میں رسول اللہ ﷺ کی ایک ایک ادا اور نوا اپنائی اوراس کی مخالفت تو کُجا اس سے سرِمُو انحراف بھی برداشت نہیں کیا جیسے کہ آدابِ دعا میں بعض صحابہ نے آپ ﷺ کےلیےہاتھ اٹھانےکی بلندی کے موافق ہاتھ نہ اٹھانے کو بدعت قرار دیا ہے ۔ بقول سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ : ’’تمہارا دعا کے لیے اوپر ہاتھ اٹھانا بدعت ہے ، رسول اللہ ﷺنےسینےسےاوپرہاتھ نہیں اٹھائے ‘‘ (مشکوٰۃ کتاب الدعوات) اب اس حدیث سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی سوچ متعین ہوتی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کی عدم موافقت کو بدعت شرعی سے تعبیر کرتے تھے ، حالانکہ بعض لوگوں کے خیال میں شریعت میں مباح کے ضمن میں کھلا میدان ہے او ر دعا کیلئے جتنے ہاتھ اٹھائیں بلکہ جب چاہیں اٹھائیں سنت کی موافقت ہو نہ ہو شیخ ملاعلی القاری شرح مشکوۃ میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع جس طرح آپ کے اعمال مبارکہ میں واجب ہے اسی طرح آپ ﷺکےچھوڑ ےہوئے کاموں میں بھی ضروری ہے سو جو شخص ایسے کام پر ہمیشگی اختیار کرے جسے شارع علیہ السلام نے کیا ہی نہیں تو وہ مبتدع اور بدعتی ہے اور بدعت کے مرد ود اور ضلالت وگمراہی ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں کیونکہ وہ فعلاً رسول اللہ ﷺ کی مخالف ہوتی ہے ۔ تنبیہ: بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ بدعات کو روکنے والے ہر نئے کام کو بدعت قبیحہ کہتے ہیں خواہ دین کا ہو یا دنیا کا ، یہ سراسر بہتان وافتراء ہے ۔ مانعین صرف اس بات کو بدعت قبیحہ کہتے ہیں جو دین میں بدون اذن شرع کے ایجاد کیا گیا ہو حالانکہ اس کا تقاضا رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بدون معارض موجود ہو اور نیا متقاضی بدون معصیت عباد پیدا نہ ہوا ہو۔ مثال: جیسے عیدین کی اذان نہیں کہی جاتی تقاضا بلانے اور جمع کرنے کا موجود تھا کوئی مانع بھی نہ تھا اس کے باوجود اس کو دعوت الی اللہ کے دلائل سے ثابت کر کے جاری کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا نہ کرنا آپ ﷺ کی سنت ترکیہ کی اتباع ہے اور اب اگر کوئی اس کے لیے علت ومصلحت بیان کرے تو وہ معتبر نہ ہو گی کیونکہ شارع علیہ السلام نے اس علت کو نظرا نداز کر دیا ہے ۔ لہذا یہاں ممانعت کی دلیل نہ ہونے کے باوجود اذان نہ کہی جائیگی۔ اور عام ادلّہ سے استدلال درست نہ ہو گا اگر مباح کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا جائے اور ممانعت کی شریعت پاک سے دلیل طلب کی جائے تو اس سے شریعت محمدی ﷺ بازیچہ اطفال بن جائیگی قال الإمام ابن كثير رحمه الله-في صفة أهل السنة والجماعة(وأما أهل السنة والجماعة فيقولون في كل فعل وقول لم يثبت عن الصحابة –رضي الله عنهم-هو بدعة,لأنه لو كان خيرا لسبقونا إليه ,لأنهم لم يتركوا خصلة من خصال الخير إلا وقد بادروا إليها)تفسير ابن كثير سورة الأحقاف,عند قوله تعالى وقال الذين كفروا للذين آمنوا لوكان خيرا لسبقونا إليه) Mazeed aap kay Bahar e Shariat walay kehtay hay: Ab batao kis hadeeth may mana hay?Imam Nawawi Rahimahullah nay to is namaz ko hi biddat aur najaiz kaha hay?Kyon?Kis hadeeth may mana hay? Jaha tak Eid Meelad un Nabi ka taluq hay to Imam Hafiz Ibn Hajar Asqalani Rahimahullah kehtay hay: أصل عمل المولد بدعة لم تُنقَل عن أحد من السلف الصالح من القرون الثلاثة، Jaha tak Durood ka taluq hay , to shayd aap nay Muwatta Imam Malik ko bhool gay.Us may unho nay baqaida do baab banday hay jis may yay durood hay aur beshumar hadeeth may bhi.Kya woh Taba Tabeein may say nahi?Mazeed Durood Ummi aur Sunan An-Nisai ki Dua e Qunoot walay hadeeth kay akhir may yay durood bhi hay::sallallaho allaho...kay alfaz hay. Radiallaho to khud Quran Shareef say sabit. Raha huzoor ya Hazrat , to na hi isko koi sawab samjhta hay , na hi deen ka lazmi hissa.Ha agar koi is pay iltezam karay aur sawab samjhay aur tark karnay walay par malamat, to phir to biddat ko hoga.
  13. Saeedi Sahab nay eik forum pay yay post likhi thee: Idhr saaf alfaaz may Saeedi Sahab nay iss Qaiday ko "biddati qaida" aur "deobandio ka qaida" likha hay: Ab ao zar dekhay kay AAP kay apnay Ala Hazrat nay bhi yahi qaida apni fatawa Razawiya may eik maslay kay akhir may likha hay:Mulahiza ho Aur eik aur jaga bhi yahi qaida likha hay: Idhr tak hi nahi balkay aap kay apnay Ghulam Rasool Saeedi nay bhi yahi aqeeda likha: Ab poori barelwi zuriyat ko challenge hay kay issi qaiday kay teht Qabr par azaan aur 12 rabi ul awal kay Jashan e Eid Meelad ul Nabi ko jaiz sabit karo.
  14. ۴… اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں: اور وہابیہ گمراہ نہ ہوں گے تو ابلیس بھی گمراہ نہ ہو گا کہ اس کی گمراہی ان سے ہلکی ہے وہ کذب کو اپنے لیے بھی پسند نہیں کرتا۔ اس نے اِلاَّ عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ استثناء کر دیا تھا یہ اﷲ عز وجل پر جھوٹ کی تہمت رکھتے ہیں۔ (احکام شریعت ج۲ ص۱۳۴ مسئلہ نمبر۳۹، نعیمی کتب خانہ گجرات) تنقید: شیطان کو سچا کہنا شیطان کے ساتھ محبت کی دلیل ہے حالانکہ شیطان بہت بڑا جھوٹا تھا۔ چنانچہ قرآن مجید میں آتا ہے۔ ’’وَقَاسَمَھُمَا اِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَ فَدَلّٰہُمَا بِغُرُوْرٍاور ان سے قسم کھائی کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں تو اتار لایا انہیں فریب سے۔‘‘ (ترجمہ رضویہ) (پ۸ سورۃ الاعراف) صدر الافاضل مولانا نعیم الدین صاحب مراد آبادی حاشیہ میں لکھتے ہیں: ’’معنی یہ ہیں کہ ابلیس ملعون نے جھوٹی قسم کھا کر حضرت آدمؑ کو دھوکہ دیا۔ اور پہلی جھوٹی قسم کھانے والا ابلیس ہی ہے۔ حضرت آدمؑ کو گمان بھی نہ تھا۔ کہ کوئی اﷲ کی قسم کھا کر جھوٹ بول سکتا ہے اس لیے آپ نے اس کی بات کا اعتبار کیا۔‘‘ بخاری شریف و مشکوٰۃ وغیرہ میں حدیث ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ کو رسول اﷲﷺ نے دانوں کے ڈھیر پر مقرر فرمایا تو شیطان آیا اور دانے اٹھانے لگا حضرت ابوہریرہؓ نے پکڑ کر چھوڑ دیا۔ اور رسول اﷲکو رسول اﷲﷺکی خدمت میں واقعہ بیان کیا۔ تو رسول اندازہ کریں کہـ اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ یہ بڑا جھوٹا ہے پھر آئے گا اس کا خیال رکھنا۔ (ملخصاً) قارئین کرام! اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ شیطان کو جھوٹا کہتے ہیں مگراعلیٰ حضرت لکھتے ہیں: اور وہابیہ گمراہ نہ ہوں گے تو ابلیس بھی گمراہ نہ ہو گا کہ اس کی گمراہی ان سے ہلکی ہے وہ کذب کو اپنے لیے بھی پسند نہیں کرتا۔ اس نے اِلاَّ عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ استثناء کر دیا تھا یہ اﷲ عز وجل پر جھوٹ کی تہمت رکھتے ہیں۔ ( مگر اعلیٰ حضرت بریلوی شیطان کو سچ بولنے والا کہتے ہیں اب بریلوی حضرات کی مرضی کہ وہ خدا تعالیٰ اور رسول اکرمﷺ پر ایمان لائیں یا اعلیٰ حضرت بریلوی پر ایمان لائیں۔ اعلیٰ حضرت بریلوی فرماتے ہیں اس سے اکذب کون جن کی تکذیب کرے قرآن۔ (ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۴ ص۷۴)
  15. Shukar hay Allah Ta'ala ka kay may Ahle Sunnat Wal Jammat Hanafi ho.May nay sirf upaar walay teen sawalo ka jawab manga hay Fiqha Hanafi ki roshni may.Unhay may yaha doobara likh deta hu. ۱۔ حدیث شریف میں ڈاڑھی منڈانے والے پر غضب و ارادہ قتل کی وعید نہیں ہے اگر ہے تو بریلوی حضرات اس کا ثبوت پیش کریں۔ 2۔ قرآن شریف میں بھی ڈاڑھی منڈانے والے پر لعنت نہیں ہے اگر ہو تو ثبوت پیش کریں۔ 3.قرآن مجید کی پانچ آیتیں کون سی ہیں جس میں داڑھی رکھنے کا حکم ہو Eik guzarish hay kay agar jawab na ban saka to maan lena kay jawab nahi hay bajai thread ko lock karnay kay aur mujhay munafiq kehnay kay.
  16. May nay kaha Hanafi Fiqha ki kitaabo say Mustahab ka matlab batao.Apna khud sakta matlab nahi. Doosri baat aap log to qabr par azaan ko bhi sawab samajhtay ho.
  17. Agar mehz eik do muhaditheen kay inkaar say kitaab mashkook ban jati hay , to phir is tarha to jitni bhi kitaabay aap logo nay sheikh rahimahullah ki taraf mansoob ki hay , wo sab mashkook hay phir.
×
×
  • Create New...