Jump to content

Aashiq Koun

اراکین
  • کل پوسٹس

    158
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    2

سب کچھ Aashiq Koun نے پوسٹ کیا

  1. ایک غیر مقلد نے ھدایہ کا ایک حوالہ دے کر اعتراض کیا ہے کہ عورت کو دیکھنے سے انزال ہو جائے تو قضا و کفارہ واجب نہیں اور فقہ حنفی میں مشت زنی جائز ہے لیکن ہمیشہ کی طرح یہاں بھی ادھوری عبارت پیش کی اور عبارت کا ترجمہ بھی ادھورا پیش کیا۔ اس عبارت سے پہلے صاحب ھدایہ نے حدیث بیان کی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تین چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، قے،حجامت اور احتلام سے۔اس کے بعد اس کی وجہ بھی لکھی کہ اس میں جماع کی صورت نہیں پائی گئی اور جماع کا معنی نہیں پایا گیا اور وہ مباشرت کر کے شہوت سے انزال ہونا ہے۔ اس کے بعد غیر مقلدین کے اعتراض والی عبارت نقل کی کہ عورت کو دیکھا اور انزال ہوا ، اس عبارت کے بعد لکھا ''جیسا کہ ہم نے دلیل بیان کی ہے'' لیکن غیر مقلد نے یہ جملہ نقل ہی نہیں کیا۔۔ صاحب ھدایہ نے وہی دلیل بیان کی کہ عورت کو دیکھنے سے جماع کی صورت نہیں پائی گئی اس لئے روزہ نہیں ٹوٹا۔ بخاری شریف میں امام بخاریؒ نے حضرت جابر ابن زید رضی اللہ عنہ کا اثر بیان کیا ہے کہ '' عورت کو دیکھنے سے انزال ہو جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا''۔۔ اس کے بعد ھدایہ میں جو یہ قول بیان کیا ہے کہ وہ ایسا ہی ہے جیسا ہاتھ سے منی نکالنے والا اور یہ بعض مشائخ کا قول ہے لیکن غیر مقلد نے اس جملے سے احناف پر اعتراض کیا کہ فقہ حنفی میں مشت زنی جائز ہے لیکن یہ نقل ہی نہیں کیا کہ یہ بعض مشائخ کا قول ہے اور اس میں اختلاف ہے۔ احناف کے نزدیک مشت زنی سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے۔ غیر مقلد نے جو سکین لگایا ہے اسی سکین کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ یہ قول ضعف ہی مبنی ہے لیکن غیر مقلد نے اس کو نقل نہیں کیا۔ اگر اس کے باوجود غیر مقلد نہیں مانتے تو غیر مقلدین کے اکابر اور مستند علماء کے نزدیک بھی جسم سے جسم ملانے، یا مشت زنی سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ غیر مقلدین کے عمران ایوب لاہوری فقہ الحدیث میں لکھتے ہیں کہ ''بیوی کا بوسہ لینے، جسم سے جسم ملانے یا مشت زنی وغیرہ سے روزہ ٹوٹ جانے کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں اور نبی کریم ﷺ نے ان افعال کو روزہ کے لئے مفسد قرار نہیں دیا تو ان سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔آگے لکھا کہ ابن حزمؒ ، امیر صنعانی،علامہ شوکانی اور علامہ البانی اسی کے قائل ہیں اور اسی کو ترجیح دیتے ہیں''۔(فقہ الحدیث، صفحہ 723،724) اب غیر مقلدین کو چائیے کہ احناف کے ساتھ ساتھ اپنے اکابر علماء عمران ایوب لاہوری، علامہ البانی،علامہ شوکانی اور ابن حزم پہ بھی یہی فتوی لگائیں۔ غلامِ خاتم النبیینﷺ، محسن اقبال
  2. غیر مقلدین اعتراض کرتے ہیں کہ فقہ حنفی میں سورج گرہن کی نماز عام نمازوں کی طرح پڑھی جائے اور ہر رکعت میں ایک رکوع کیا جائے اور فقہ حنفی کا یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے۔ غیر مقلدین ہمیشہ کی طرح دھوکہ دیتے ہیں اور ادھوری عبارت نقل کرتے ہیں۔ ہدایہ میں اس عبار ت کے بعد آگے لکھا ہے کہ ہماری دلیل ابن عمر رضی اللہ کی روایت ہے جس کو ترجیح ہے لیکن غیر مقلدین یہ عبارت نقل نہیں کرتے۔ غیر مقلد زبیر زئی کے نزدیک ابن عمر رضی اللہ کی اس روایت کی سند حسن ہے۔ احناف کا موقف احادیث پہ مبنی ہے اور سورج گرہن کی ہر رکعت میں ایک رکوع کرنے پہ کئی احادیث موجود ہیں جن کو میں نے پیش کیا ہے۔ غیر مقلد زبیر زئی کے نزدیک ابن عمر رضی اللہ کی یہ روایت حسن ہے اور نماز کسوف کی رکعت میں ایک رکوع کرنا بھی جائز ہے۔(ابو داود بتحقیق زبیر زئی،ج1 صفحہ 836)
  3. غیر مقلد عالم سے سوال کیا گیا کہ زید کے پاس افطاری کے لئے کوئی چیز نہیں تھی تو اس نے بیوی سے جماع کیا اور بیٹی کا بوسہ لیا تو ان پہ کیا شرعی حکم ہو گا؟؟تو غیر مقلدین کے شیخ الاسلام ثنا ء اللہ امرتسری صاحب نےبغیر قرآن و حدیث کے دلائل کے جواب دیا کہ '' جماع اکل و شرب کی طرح مفطر ہے۔۔۔۔ روزہ صحیح ہو گا''(فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 657) مطلب یہ ہوا کہ بیوی سے جماع کرنے سے روزہ افطار بھی ہو گیا اور صحیح بھی ہوا۔واہ غیر مقلدو! تمہارے روزوں اور تمہارے فتووں پہ۔ کوئی غیر مقلداپنے شیخ الاسلام کے اس فتوی اور اس مسئلہ کی قرآن و حدیث سے دلیل دے گا ؟؟؟
  4. غیر مقلد عالم سے سوال کیا گیاکہ قربانی کی گائے میں بریلوی اور مرزائی کی شرکت کے بارے میں کیا خیال ہے تو غیر مقلد عالم محمد علی جانباز نے جواب دیا کہ بریلوی کی شرکت جائز ہے اور قادیانی کی شرکت بھی حرام نہیں۔(فتاوی علمائے حدیث، جلد 13 صفحہ 89)غیر مقلدین کو قادیانیوں سے اتنی محبت ہے کہ انہوں نے قادیانیوں کا قربانی میں شریک ہونا بھی حرام قرار نہیں دیا۔
  5. غیر مقلد حضرات امام ابو حنیفہؒ پہ الزام لگاتے ہیں کہ ان کے نزدیک فارسی میں نماز پڑھنا جائز ہے۔ اس بات کا جواب غیر مقلدین کے شیخ الکُل مولوی نذیر حسین دہلوی نے اپنے فتاوی میں تفصیل سے دیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ''در صورت مرقومہ معلوم کرنا چاہیے کہ اس مسئلہ میں امام اعظم اور صاحبین کا اختلاف ہے مگر صاحبین کا قول عندالحنفیہ مفتی بہ اور قابل اعتماد کے ہے اور امام اعظم کا قول غیر مفتی بہ اور لائق اعتماد کے نہیں ہے تفصیل اس کی یہ ہے کہ امام ممدوح کے نزدیک فارسی وغیرہ زبان میں قرآن پڑھنا نماز میں لاچاری اور غیر لاچاری دونوں حالت میں درست ہے اور صاحبین کے نزدیک فارسی وغیرہ زبان میں قرآن پڑھنا نماز میں جائز نہیں ہاں لاچاری کے وقت درست ہے مگر پڑھنے والا اس صورت میں گنہگار ہوگا لمخالفۃ المتوارثۃ اور امام صاحب نے اپنے اس قول سےرجوع کرکے صاحبین کے قول کو اختیار کیا ہے پس اب ائمہ ثلثہ میں سے کسی کے نزدیک غیر لاچاری کی حالت میں نماز کے اندر فارسی وغیرہ زبان میں قرآن پڑھنا درست نہیں ۔ (ترجمہ) ’’اگر کوئی فارسی میں نماز شروع کرے یا قرأت فارسی میں کرے یا ذبح کرتے وقت خدا کا نام فارسی میں لے اور وہ عربی اچھی طرح بول سکتا ہو تو پھر بھی ابو حنیفہ کے نزدیک درست ہے اور صاحبین کہتے ہیں درت نہیں ہاں ذبیحہ میں جائز ہے اور اگر عربی اچھی طرح نہ جانتا ہو تو پھر اور زبانوں میں قرأت کرسکتا ہے ۔ صاحبین کا استدلال یہ ہے قرآن ایک عربی نظم ہے جیسا کہ نص سے ثابت ہے ہاں عجز کے وقت معنی پراکتفا کرسکتا ہے جیسے جہ معذور آدمی سجدہ کی بجائے اشارہ کرلیتا ہےبرخلاف تسمیہ کے کہ خدا کا ذکر ہر زبان میں کیا جاسکتا ہے امام ابوحنیفہ کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ انہ لفی زبد الاولین (قرآن پہلی کتابوں میں تھا) اور یہ تو ظاہر ہے کہ پہلی کتابوں کی زبان عربی نہیں تھی لہٰذا عجز کے وقت دوسری زبان میں پڑھ سکتا ہے لیکن وہ گنہگار ہوگا کیونکہ اس نے سنت متواترہ کی مخالفت کی ہے اور امام صاحب کا صاحبین کے قول کی طرف رجوع بھی بیان کیا جاتا ہے اور یہی صحیح ہے اسی طرح خطبۃ اور تشہد کا حال بھی ہے اورعبارت بالا میں جس نص کا حوالہ دیا گیا ہے وہ آیت ہے قرآنا عربیا غیر ذی عوج تو فرض قرآن کی قرأت ہے اور وہ عربی زبان میں ہے تو عربی پڑھنا فرص ہوا ۔ واللہ اعلم‘‘ (سید محمد نذیر حسین) (فتاوی نذیریہ،جلد 1 صفحہ 529،530،531) غیر مقلدو! اگر تمہارے نزدیک امام اعظم ؒ نے اپنے موقف سے رجوع نہیں کیا تو پھر تسلیم کرو کہ تمہارا شیخ الکل نذیر حسین دہلوی جھوٹا تھا جس کے نزدیک امام صاحبؒ نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا۔
  6. غیر مقلد حضرات امام ابو حنیفہؒ پہ مرجئیہ ہونے کا الزام لگاتے ہیں لیکن غیر مقلدین کے مشہور عالم ابراہیم میر سیالکوٹی امام ابو حنیفہ ؒ کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ '' بعض مصنفین نے امام ابو حنیفہؒ اور ان کے شاگردوں کو رجال مرجئیہ میں شمار کیا ہے ۔۔۔۔۔۔علماء نے اس کا جواب کئی طریقے سے دیا ہے، اول یہ کہ یہ آپ ؒ پہ بہتان ہے ، آپؒ مخصوص فرقہ مرجئیہ سے نہیں ہوسکتے'' ( تاریخ اہلحدیث، صفحہ 56،57،58) غیر مقلد عالم ابراہیم میر سیالکوٹی صاحب نے اپنی کتاب تاریخ اہلحدیث میں تفصیل سے امام ابو حنیفہؒ پہ لگائے جانیوالے تمام الزامات کا دفاع کیا ہے اور آخر میں یہ تسلیم کیا ہے کہ '' ائمہ کرام ؒ کی بے ادبی اور توہین کرنا دنیا اور آخرت دونوں جہاں کے نقصان کا باعث ہے۔ (تاریخ اہلحدیث،صفحہ 72) ان مشہور غیر مقلد عالم کا امام ابو حنیفہؒ کا دفاع کرناموجودہ دورکے ان تمام غیر مقلدین کے منہ پر طمانچہ ہےجو امام ابو حنیفہؒ کی توہین اوربے اد بی کرتے ہیں اور ان پہ کفر اور شرک کے جھوٹے فتوے لگاتے ہیں۔
  7. غیر مقلدین امام ابو حنیفہؒ کاچالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نمازپڑھنے کا واقعہ بیان کرکے احناف پہ اعتراض کرتے ہیں کہ احناف نے امام صاحبؒ کے بارے میں غُلو کیا ہے لیکن غیر مقلدین یہاں بھی ہمیشہ کی طرح دھوکہ دیتے ہیں۔ یہ واقعہ بیان کرنے والے صرف احناف نہیں بلکہ اسکو بیان کرنے میں شافعی،حنبلی اور مالکی علماء بھی شامل ہیں۔ ان اکابرین میں سے 8 علماء کے حوالے پیشِ خدمت ہیں جنہوں نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ امام نووی شافعی ؒنے تہذیب الاسماء صفحہ 704 پہ،علامہ دمیریؒ نے حیات الحیوان جلد 1 صفحہ 122 پہ،حافظ ابن حجر عسقلانی شافعیؒ نے تہذیب التہذیب جلد 10 صفحہ450 پہ،علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے تبیض الصحیفہ صفحہ 15 پہ،قاضی حسین بن محمد دیار مالکیؒ نے تاریخ الخمیس جلد 2 صفحہ 366 پہ،عبد الوہاب شعرانی حنبلیؒ نے کتاب المیزان جلد 1 صفحہ 61 پہ،ابن حجر مکی شافعیؒ نے الخیرات الحسان صفحہ 36 پہ امام صاحبؒ کا یہ واقعہ بیان کیا ہےکہ امام ابو حنیفہؒ نے چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی۔ اس کے علاوہ یہ واقعہ صرف امام ابو حنیفہؒ سے ہی نہیں بلکہ کئی اکابرین سے بھی وقوع ہوا جو کہ مختلف کتابوں میں موجود ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی حنبلیؒ کا کہنا ہے کہ چالیس تابعین سے کے متعلق منقول ہے کہ انہوں نے چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی اور اسکی سند صحیح ہے۔(غنیۃ الطالبین، صفحہ 496 بتحقیق مبشر لاہوری غیر مقلد)
  8. غیر مقلدین نے فقہ حنفی پہ ایک اعتراض کیا ہے کہ فقہ حنفی میں عورت کے لئے مرد کا آلہ تناسل منہ میں ڈالنا جائز ہے لیکن ہمیشہ کی طرح یہاں بھی غیر مقلدین نے دھوکہ دیا ہے۔ غیر مقلدین نے جو حوالہ دیا ہے فتاوی عالمگیری کا اس میں کہیں بھی اس عمل جو جائز نہیں کہا گیا بلکہ اس میں لکھا ہے کہ ''اگرمرد نے اپنی بیوی کے منہ میں اپنا آلہ تناسل داخل کیا تو بعض نے فرمایا کہ مکروہ ہے اور بعض نے اس کے برخلاف کہا ہے''( فتاوی عالمگیری،جلد 9 صفحہ 110) اس حوالہ میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ یہ عمل جائز ہےبلکہ واضح لکھا ہے کہ یہ عمل مکروہ ہے اور بعض نے اس کے برخلاف کہا ہے تو اس سے یہ کہیں بھی ثابت نہیں ہوتا کہ کسی عمل کو صرف برخلاف کہہ دینے سے وہ جائز ہو جاتا ہے۔۔ غیر مقلدین نے یہ حوالہ بیان کرتے ہوئے جھوٹ کہا ہے کہ فقہ حنفی میں یہ عمل جائز ہے۔ اصل میں یہ مسئلہ خود غیر مقلدین کا ہے۔۔ ان کے نزدیک عورت کے لئے مرد کا آلہ تناسل منہ میں ڈالنا جائز ہے۔ ان کے فتاوی کی مشہور ویب سائٹ محدث فتاوی میں اس بارے میں فتوی دیا گیا ہے۔کسی نے فتاوی میں اورل سیکس کے بارے میں فتوی پوچھا تو اس کا جواب دیا گیا کہ ''شریعت کا اصول ہے یہ کہ "ہر عمل جائز ہے سوائے اس کے جس کے بارے میں شریعت میں واضح ممانعت آگئی ہو۔" یہی اصول سیکس پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ شریعت نے میاں بیوی کے سیکس کے معاملے میں صرف دو امور کی ممانعت کی ہے: 1. ایک دوران حیض سیکس اور 2. دوسرے پیچھے کے مقام (دبر) میں سیکس۔ اس کے علاوہ باقی سب جائز ہے اورل سیکس کے بارے میں اختلاف اس وجہ سے ہے کہ قرآن و حدیث میں اس کی کوئی واضح ممانعت نہیں آئی۔ فقہاء کے سامنے جب یہ صورت آئی تو انہوں نے قرآن و حدیث کے عمومی مزاج سے استدلال کیا ہے۔ بعض کے نزدیک چونکہ ممانعت نہیں آئی، اس لیے یہ جائز ہے اور بعض کے نزدیک چونکہ اس میں گندگی ہوتی ہے، اس وجہ سے ناجائز ہے۔ اس میں جواز کے قائلین میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی صاحب کا نام آتا ہے۔ نیز جو لوگ جواز کے قائل ہیں، وہ بھی مطلق جواز کے نہیں بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو تیار کرتے ہوئے اگر منہ سے شرم گاہ وغیرہ کو چوم لیں تو اس میں حرج نہیں۔ تاہم مادہ منویہ کے منہ میں ڈسچارج کرنے کو وہ بھی غلط سمجھتے ہیں۔'' ***************************************************** ایک دوسرے فتوی میں کہا گیا ہے کہ '' میاں بیوی ایک دوسرے کے جسم کے ہر حصے کا بوسہ لے سکتے ہیں۔کیونکہ اس حوالے سے کسی نص میں کوئی ممانعت وارد نہیں ہے۔'' ***************************************************** اب ہر حصے میں شرمگاہ اور آلہ تناسل بھی آتا ہے جس کو بوسہ دینے کے لئے غیر مقلد جائز کہہ رہے ہیں۔ اصل میں یہ فتوی خود غیر مقلدین کا تھا لیکن انہوں نے احناف پہ جھوٹا الزام لگا دیا۔
  9. bahi aap k pass ''anta taliq tali taliq'' k lafz ka koi hawala mojud hay>?? kyunk uper scan mai mukaml nien hay...........
  10. Asalam o alikum to all muslims بھائی ! رکانہ رضی اللہ عنہ کی جو روایت غیر مقلد پیش کرتے ہیں وہ ضعیف ہے اور ان کی اصل روایت کے مطابق انہوں نے طلاق بتہ دی تھی جس میں ایک کی نیت تھی۔ غیر مقلد جو روایت بیان کرتے ہیں اس روایت کو مسند احمد بن حنبلؒ کے حاشیہ میں غیر مقلدین کے مستند محقق شعیب الارنوط نے ضعیف کہا ہے ۔انہوں نے وضاحت کی ہے کہ امام بہیقی نے بھی سنن کبری للبہیقی میں اس کو ضعیف کہا ہے۔اس کے علاوہ امام نوویؒ نے شرح مسلم میں اس پر بحث کی ہے اور ضعیف کہا ہے۔ اس کا ایک راوی محمد بن اسحاق ہے جس پہ جرح ہے اور وہ ضعیف ہے۔ امام بہیقیؒ نے کہا ہے کہ ابو داؤدؒ کے مطابق رکانہ رضی اللہ نے طلاق بتہ دی تھی جس میں ایک کی نیت تھی اور جو روایت غیر مقلد پیش کرتے ہیں کہ تین طلاق تھی وہ ضعیف ہے اور حجت کے قابل نہیں۔
  11. غیر مقلد نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ ''نبی کریم ﷺ ہر حال اور ہر آن میں مومنین کے مرکز نگاہ اور عابدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ، خصوصیات کی حالت میں انکشاف اور نورانیت ذیادہ قوی اور شدید ہوتی ہے ، بعض عارفین کا قول ہے کہ تشہد میں ایھا النبی کا یہ خطاب ممکنات اور موجودات کی ذات میں حقیقت محمدیہ کے سرایت کرنے کے اعتبار سے ہے ، چنانچہ حضور نبی کریم ﷺ نماز پڑھنے والوں کی ذات میں موجود اور حاضر ہوتے ہیں ''اس لئے نماز پڑھنے والوں کو چائیے کہ اس بات کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھیں اور آپ نبی کریم ﷺ کی اس حاضری سے غافل نہ ہوں تاکہ قرب و معیت کے انوارات اور عرفت کے اسرار حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔''' ( مسک الختام شرح بلوغ المرام، صفحہ 244)
  12. کیا فقہ حنفی میں متعہ جائز ہے؟ غیر مقلدین کا دھوکہ غیر مقلدین کا فقہ حنفی پہ ایک اعتراض یہ ہے کہ فقہ حنفی میں معین مدت تک نکاح یعنی کہ متعہ جائز ہے لیکن غیر مقلدین ہمیشہ کی طرح یہاں بھی دھوکہ دیتے ہیں۔ اصل مسئلہ طلاق کی نیت سے نکاح کرنے کا ہے جس میں فقہا کا اختلاف ہے اور اسی بات کو فتاوی عالمگیری میں ذکر کیا گیا ہے جس کو غیر مقلد دھوکہ سے متعہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ سب سے پہلی بات کہ یہ فتوی ان غیر مقلدین نے شیعہ سے چوری کیا ہے۔ شیعہ یہ الزام اہلسنت پہ لگاتے ہیں کہ اہلسنت کے نزدیک متعہ جائز ہے جس کو غیر مقلدین احناف اور فقہ حنفی کے بغض اور حسد میں آگے پھیلا رہے ہیں غیر مقلدین کی اطلاع کے لئے سعودیہ کے مشہور محدث علامہ ابن بازؒ کے نزدیک بھی طلاق کی نیت سے نکاح کرنا جائز ہے اور یہ متعہ نہیں کہلاتا۔ علامہ ابن بازؒ کا یہ فتوی ان کی کتاب ـ(مقالات و فتاوی ابن باز،ج4 صفحہ 30 اور مسائل امام ابن باز، ج1 صفحہ 185) پر واضح طور پہ دیکھا جا سکتا ہے۔ علامہ ابن بازؒ کے علاوہ کئی اکابرین کے نزدیک طلاق کی نیت سے نکاح جائز ہے۔ امام نووی الشافعی کہتے ہیں: وبه قال القاضي أبو بكر الباقلاني قال القاضي وأجمعوا على أن من نكح نكاحا مطلقا ونيته أن لا يمكث معها الا مدة نواها فنكاحه صحيح حلال وليس نكاح متعة وإنما نكاح المتعة ما وقع بالشرط المذكور اور یہ وہ ہے جو قاضی ابو بکر الباقلانی نے کہا ہے۔ قاضی کہتے ہیں:'اس بات پر اجماع" ہے کہ جو بھی مطلق نکاح(نکاح دائمی) کرتا ہے لیکن نیت یہ ہوتی ہے کہ عورت کے ساتھ صرف کچھ مدت کے لیے ہی رہے گا، تو بلاشبہ ایسا نکاح صحیح اور حلال ہے اور یہ نکاح المتعہ (کی طرح حرام) نہیں ہے کیونکہ نکاح المتعہ میں پہلے سے ہی یہ شرط مذکور ہوتی ہے (کہ ایک مدت کے بعد خود بخود طلاق ہو جائے گی)۔اور امام مالک ؒکے نزدیک یہ اخلاق میں سے نہیں ہے اور امام اوزاعیؒ کے نزدیک یہ متعہ ہی ہے۔ ( کتاب المنہاج شرح مسلم، جلد 9 صفحہ 182 ) امام اہلسنت ابن قدامہ الحنبلی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: إن تزوجها بغير شرط، إلا أن في نيته طلاقها بعد شهر، أو إذا انقضت حاجته في هذا البلد، فالنكاح صحيح في قول عامة أهل العلم إلا الأوزاعي، قال: هو نكاح متعة. والصحيح أنه لا بأس به اگر وہ عورت سے (مدت) کی کوئی شرط کیے بغیر نکاح کرتا ہے لیکن دل میں نیت ہے کہ اُسے ایک ماہ کے بعد طلاق دے دے گا یا پھر اُس علاقے یا ملک میں اپنی ضرورت پوری ہونے کے بعد طلاق دے دے گا (اور پھر آگے روانہ ہو جائے گا) تو پھر اہل علم کے مطابق بلاشبہ ایسا نکاح بالکل صحیح ہے ، سوائے الاوزاعی کے جنہوں نے اسے عقد المتعہ ہی جانا ہے لیکن صحیح یہی رائے ہے(جو اہل علم کی ہے) کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ( المغنی، جلد 7، صفحہ 573 ) سعودی ِعرب کے سابق مفتی ِاعظم شیخ ابن باز فرماتے ہیں: [شیخ ابن باز صاحب سے سوال]: آپ نے ایک فتوی جاری کیا ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ ویسٹرن [مغربی] ممالک میں اس نیت سے شادی کر لی جائے کہ کچھ عرصے کے بعد عورت کو طلاق دے دی جائے۔۔۔۔۔ تو پھر آپکے اس فتوے اور عقد متعہ میں کیا فرق ہوا؟ [شیخ ابن باز کا جواب]: جی ہاں، یہ فتوی سعودیہ کی مفتی حضرات کی مستقل کونسل کی جانب سے جاری ہوا ہے اور میں اس کونسل کا سربراہ ہوں اور یہ ہمارا مشترکہ فتوی ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ شادی کی جائے اور دل میں نیت ہو کہ کچھ عرصے کے بعد طلاق دینی ہے [ہمارا تبصرہ: یعنی لڑکی کو دھوکے میں رکھنا جائز ہے اور اسے بتانے کی ضرورت نہیں کہ دل میں نیت تو کچھ عرصے بعد طلاق کی کر رکھی ہے]۔ اور یہ (طلاق کی نیت) معاملہ ہے اللہ اور اسکے بندے کے درمیان۔ اگر کوئی شخص (سٹوڈنٹ) مغربی ملک میں اس نیت سے شادی کرتا ہے کہ اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد یا نوکری ملنے کے بعد لڑکی کو طلاق دے دے گا تو اس میں تمام علماء کی رائے کے مطابق ہرگز کوئی حرج نہیں ہے۔ نیت کا یہ معاملہ اللہ اور اسکے بندے کے درمیان ہے اور یہ نیت نکاح کی شرائط میں سے نہیں ہے۔ عقد متعہ اور مسیار میں فرق یہ ہے کہ عقد متعہ میں باقاعدہ ایک مقررہ وقت کے بعد طلاق کی شرط موجود ہے جیسے مہینے ، دو مہینے یا سال یا دو سال وغیرہ۔ عقد متعہ میں جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو خود بخود طلاق ہو جاتی ہے اور نکاح منسوخ ہو جاتا ہے، چنانچہ یہ شرط عقد متعہ کو حرام بناتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اللہ اور اسکے رسول ص کی سنت کے مطابق نکاح کرتا ہے، چاہے وہ دل میں طلاق کی نیت ہی کیوں نہ رکھتا ہو کہ جب وہ مغربی ملک کو تعلیم کے بعد چھوڑے گا تو لڑکی کو طلاق دے دے گا، تو اس چیز میں کوئی مضائقہ نہیں، اور یہ ایک طریقہ ہے جس سے انسان اپنے آپ کو برائیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور زناکاری سے بچ سکتا ہے، اور یہ اہل علم کی رائے ہے۔ (مقالات و فتاوی ابن باز،ج4 صفحہ 30 اور مسائل امام ابن باز، ج1 صفحہ 185، فتاوی اسلامیہ، جلد 3 صفحہ 264) غیر مقلدین کے مکتبہ دار السلام سے غیر مقلدین کی تصدیق شدہ کتاب ''کتاب النکاح'' میں بھی سید سابقؒ کے حوالے سے طلاق کی نیت سے نکاح کو صحیح مانا گیا ہے۔ اس کتاب کو عمران ایوب لاہوری نے لکھا ہے اور اس میں علامہ البانیؒ کی تحقیق سے استفادہ کیا گیا ہے اور غیر مقلدین کے مکتبہ دارالسلام نے اس کتاب کو چھاپا ہے۔ کیا غیر مقلدین علامہ ابن بازؒ، علامہ البانیؒ اور عمران ایوب لاہوری پہ یہ فتوی لگائیں گے کہ ان علماء کے نزدیک بھی احناف کی طرح متعہ جائز ہے؟ یہ تھی غیرمقلدین کے جاہلانہ الزام کی حقیقت اور اب غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ اگر وہ قرآن و حدیث کے ماننے والے ہیں تو احناف کے ساتھ ساتھ ان اکابرین پہ بھی متعہ کے جائز کہنے کا فتوی لگائیں ۔ شکریہ غلامِ خاتم النبیینﷺ محسن اقبال
  13. جی بھائی۔۔ دین الحق غیر مقلد داؤد ارشد نے لکھی جاء الحق کے جواب میں۔۔ دین الحق کے جواب میں نصرت الحق لکھی گئی ہے اور بہت اچھی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ سعید الحق فی تخریج جاء الحق بھی اچھی کتاب ہے۔
  14. مفتی احمد یار نعیمی صاحب نے اپنی کتاب ''جاء الحق'' میں ترک رفع یدین کی دلیل میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی تھی جس میں ایک راوی عاصم بن کلیب ہیں۔ غیر مقلد داؤد ارشد نے اس کے جواب میں عاصم بن کلیب پہ جرح نقل کی اور اس کو مرجئی قرار دیا اور کہا کہ علامہ ذہبی اور حافظ ابن حجر نے عاصم بن کلیب کو مرجیہ کہا ہے۔ـ( دین الحق، جلد 1 صفحہ 373) لیکن ان کی دوغلی پالیسی یہ ہے کہ سینہ پہ ہاتھ باندھنے کے لئے داود ارشد صاحب اسی راوی عاصم بن کلیب کی روایت کو اپنی دلیل بنا رہے ہیں۔ داؤد ارشد صاحب نے سینہ پہ ہاتھ باندھنے کے لئے وائل ابن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت صحیح ابن خزیمہ سے پیش کی لیکن اس کی سند بیان نہیں کی کیونکہ اس کی سند میں ''عاصم بن کلیب'' راوی ہیں ۔(دین الحق، جلد 1 صفحہ 216) لیکن اسی عاصم بن کلیب راوی کو ترک رفع یدین کی دلیل میں اسی کتاب میں مرجئہ کہہ کر اس پہ جرح کر رہے ہیں ۔( دین الحق، جلد 1 صفحہ 373) راوی جب ترک رفع کی دلیل میں آیا تو اس کو مرجئہ کہہ کر رد کر دیا لیکن سینہ پہ ہاتھ باندھنے کے لئے اسی راوی کی روایت کو اپنی دلیل بنا لیا۔یہ ہے غیر مقلدین کی نفس پرستی۔ غلامِ خاتم النبیین ﷺ محسن اقبال
  15. غیر مقلدین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگنے پر اپنے عالم غلام رسول پہ کیا فتوی لگائیں گے.. یہ غیر مقلدین کے مشہور عالم ہیں اور ان کی حیات پہ ایک کتاب موجودہ غیر مقلدین کے مشہور مورخ محمد اسحاق بھٹی نے بھی ''تذکرہ غلام رسول قلعوی'' کے نام سے لکھی ہے جو ابھی تک انٹر نیٹ پہ نہیں آئی. محمد اسحاق بھٹی کی کئی کتابیں آپ غیر مقلدین کی مختلف ویب سائٹ سے پڑھ سکتے ہیں. غیر مقلد کیا کہیں گے اس بارے میں.
  16. غیر مقلدین امام ابو حنیفہ رح پہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کو قران نہیں آتا تھا اور مدت رضاعت میں ان کا قول قرآن کے خلاف ہے۔ امام اعظم رحمتہ اﷲ علیہ کی دو روایتیں ہیں۔ ايک ڈھائی سال کی اور ايک دو سال کی۔ ديکھئے زاد المعاد لابن القیم رحمتہ اﷲ علیہ ج2ص330 بحوالہ فتح المبین ص205 اور فتوی دو سال والی روایت پر ہے ۔ ديکھئے فتح القدیر و شامی وغیرہما۔ فقہ حنفی میں بھی مدت رضاعت 2 سال ہے جو کہ امام ابو یوسف رح اور امام محمد رح کا قول ہے۔ امام ابو حنیفہ رح کا بھی ایک قول 2 سال کا ہے جو کہ ان کا آخری قول ہے اور اس بات کہ تصدیق غیر مقلدین کے علامہ ابن قیم بھی کرتے ہیں۔ علامہ ابن قیم رح عرض کرتے ہیں کہ '' امام ابو حنیفہ رھ اور امام زفر رح کا قول اڑھائی سال کا ہے اور امام ابو حنیفہ رھ کا آخری قول امام ابو یوسف رح اور امام محمد رح کے مطابق ہے (یعنی کہ 2 سال)۔ (زاد المعاد جلد 2 صفحہ 330) امام ابو حنیفہ رح کے مسئلے کی وضاحت ابن قیم نے بھی کر دی تو غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ وہ ابن قیم رح پہ کیا فتوی لگائیں گے امام ابو حنیفہ رح کے حوالے کی وضاحت پہ؟؟؟؟ اس کے ساتھ ساتھ ابن قیم کہتے ہیں کہ امام زفر کے نزدیک بھی مدت رضاعت اڑھائی سال ہے۔۔ تو امام زفر کے بارے میں بھی کچھ عرض کریں گے یا صرف ابو حنیفہ کی ہی رٹ لگائیں گے؟؟؟ اگر امام ابو حنیفہ رح سے دو سال کا قول ثابت نہیں جیسا کہ غیر مقلدین کہتے ہیں تو وہ تسلیم کر لیں کہ ابن قیم نے جھوٹ بولا ہے جو کہا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کا آخری قول امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کے مطابق ہے۔ اعتراض تو آپ کا امام ابو حنیفہ رھ پہ ہے لیکن سعودیہ کی فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے کہ " تو يہ معلوم ہوا كہ رضاعت ميں ہى بچے كى مصلحت و حق ہے، اور اگر بچے كو دودھ چھڑانے ميں ضرر و نقصان ہو تو دو برس سے قبل اسے دودھ چھڑانا جائز نہيں ہوگا، چنانچہ اگر مصلحت ہو اور بچے كو ضرر سے دور ركھنا مقصود ہو تو ماں كے ليے دو برس كے بعد بھى بچے كو دودھ پلانا جائز ہے. ابن قيم رحمہ اللہ اپنى كتاب " تحفۃ المودود في احكام المولود " ميں كہتے ہيں: " ماں كے ليے بچے كو اڑھائى سال سے بھى زيادہ دودھ پلانا جائز ہے " انتہى ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 21 / 60 ). اور یہ فتوی علامہ ابن باز، شیخ عبدالعزیز الشیخ اور شیخ صالح الفوزان کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ علامہ ابن قیم کے نزدیک اڑھائی سال سے بھی ذیادہ دودھ پلانا جائز ہے۔ اب غیر مقلدین ذرا بتائیں کہ علامہ ابن قیم بھی اڑھائی سال کہہ رہے ہیں دودھ پلانے کے لئے تو ان پہ کیا فتوی لگے گا؟؟؟ - آگے چلو تم تو بچے کو دودھ پلانے پہ امام ابو حنیفہ رح پہ اعتراض کر رہے ہو ذرا دیکھو علامہ شوکانی اور نواب صدیق حسن خان صاحب کیا کہتے ہیں۔ نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں کہ ” ویجوز ارضاع الکبیر ولوکان ذالحیۃ لتجویز النظر“ ترجمہ: بڑے کو دودھ پلانا بھی جائز ہے اگر وہ ڈاڑھی والا ہو، تاکہ اس دودھ پانے والی عورت کی طرف ديکھنا جائزہو جائے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ علامہ ابن قیم بھی اسی طرف مائل تھے۔ (الدر البہیبۃ ص158مع الروضۃ الندیۃ) علامہ شوکانی نے ایک کتاب فقہ پہ لکھی جس کا نام ''الدر البھیہ'' ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ''فقہ الحدیث'' کے نام سے عمران ایوب لاہوری نے کیا ہے اور تحقیق علامہ البانی کی ہے۔ تصدیق موجودہ دور کے غیر مقلد اکابر عالم مبشر احمد ربانی اور عبدالجبار شاکرکی ہے۔ غیر مقلدین تو بچوں کو دودھ پلانے پہ فتوے لگا رہے ہیں لیکن ان کے علامہ شوکانی تو بڑی عمر کے آدمی کو بھی دودھ پلانے کو جائز کہتے ہیں بھلے اس کی داڑھی ہو اور اور یہ اہلحدیث علماء اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔ ( فقہ اہلحدیث ، صفحہ 236) تو ان غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ جو فتوی وہ احناف اور امام ابو حنیفہ رح پہ لگاتے ہیں وہی اپنے ان اکابر علماء پہ بھی لگا دیں۔ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
  17. حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله {غیروں کی نظر میں} مولانا داؤد غزنوی فرماتے ہیں ایک عجیب بات ہے اہلحدیث عمومآ نہایت متشددہوتے ہیں - تھوڑی سی بات پر سخت سے سخت نکتہ چینی کے خوگر ہوتے ہیں{داؤد غزنوی ص 18}یہی وہ نفسیات ہے جس پر قرآن پاک نے "ویل لکل ھمزۃ لمزۃ"فرمایا ہے اور "ولا تطع کل حلاف" {الایة}‎ مولانا داؤد غزنوی فرماتے ہیں "ائمه دین نے جو دین کی خدمت کی ہے امت قیامت تک ان کے احسان سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی ، ہمارے نزدیک ائمه دین کے لئے جو شخص سوء ظن رکھتا ہے یا زبان سے ان کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کے الفاظ استعمال کرتا ہے یہ اس کی شقاوت قلبی کی علامت ہے اور میرے نزدیک اسکے سوء خاتمہ کا خوف ہے ہمارے نزدیک ائمه دین کی ہدایت و درایت پر امت کا اجماع ہے {داؤد غزنوی ص373}‎ ‏‎ائمه ‎کرام کا ان {‏‎مولانا داؤد غزنوی} کے دل میں انتہائی احترام تھا حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کا اسم گرامی بے حد عزت سے لیتے - ایک دن میں {مولانا محمد اسحق} ‏‎ان کی خدمت میں حاضر تھا - جماعت اہلحدیث کی تنظیم کے متعلق گفتگو شروع ہوئی - بڑے دردناک لہجہ میں فرمایا - مولوی اسحاق ! جماعت اہلحدیث کو حضرت امام ابو حنیفه رحمه الله کی روحانی بددعا لے کر بیٹھ گئی ہے ہر شخص ابو حنیفه ، ابو حنیفه کہہ رہا ہے کوئی بہت ہی عزت کرتا ہے تو امام ابو حنیفه کہہ دیتا ہے - پھر ان کے بارے میں ان کی تحقیق یہ ہے کہ وہ تین {‏03}‏‎ حدیثیں جانتے تھے یا زیادہ سے زیادہ گیارہ {‏11} - ‏‎‏‎اگر کوئی بہت بڑا احسان کرے تو وہ انہیں سترہ {17} حدیثوں کا عالم گردانتے ہے - جو لوگ اتنے جلیل القدر {تابعی} امام کے بارہ میں یہ نقطۂ نظر رکھتے ہوں ان میں اتحاد و یکجہتی کیونکر پیدا ہوسکتی ہے "یا غربة العلم انما اشکوبثی و حزنی الی الله" {داؤد غزنوی ص 127} ‏‎‎حضرت مفتی حسن نے ایک بار مولانا عبدالجبار غزنوی کی ولایت کا ایک واقعہ سنایا - وہ واقعہ یوں تھا کہ امرتسر میں ایک محلہ تیلیاں تھا جس میں اہلحدیث حضرات کی اکثریت تھی - وہاں عبد العلی نامی ایک مولوی امامت و خطابت کے فرائض انجام دیتے تھے - وہ مدرسہ غزنویہ میں مولانا عبدالجبار غزنوی سے پڑھا کرتے تھے - ایک بار مولوی عبد العلی نے کہا کہ ابوحنیفه سے تو میں اچھا ہوں اور بڑا ہوں کیونکہ انہیں صرف سترہ ‏‎‏‎‏‎‏‎‏‎‏‎حدیثیں یاد تھیں اور مجھے ان سے کہیں زیادہ یاد ہیں - اس بات کی اطلاع مولانا عبد الجبار کو پہنچی ، وہ بزرگوں کا نہایت ادب و احترام کیا کرتے تھے - انہوں نے یہ بات سنی تو ان کا چہرہ مبارک غصے سے سرخ ہوگیا انہوں نے حکم دیا کہ اس نالائق {عبد العلی} کو مدرسے سے نکال دو وہ طالب علم جب مدرسے سے نکالا گیا تو مولانا عبد الجبار غزنوی نے فرمایا: مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ عنقریب مرتد ہوجاۓ گا - مفتی محمد حسن "راوی" ہیں {اس واقعہ کے} کہ ایک ہفتہ نہ گزرا تھا کہ وہ شخص مرزائی ہوگیا اور لوگوں نے اسے ذلیل کرکے مسجد سے نکال دیا - اس واقعہ کے بعد کسی نے مولانا عبد الجبار غزنوی سے سوال کیا حضرت! آپ کو یہ کیسے علم ہوگیا تھا کہ وہ عنقریب کافر ہوجائے گا - فرمانے لگے کہ جس وقت مجھے اسکی گستاخی کی اطلاع ملی اس وقت بخاری شریف کی یہ حدیث میرے سامنے آگئی کہ "من عادی لی ولیا فقد آذنته بالحرب" {حدیث قدسی} جس شخص نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی تو میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں - میری نظر میں امام ابو حنیفه رحمه الله "ولی الله" تھے - جب الله کی طرف سے اعلان جنگ ہوگیا تو جنگ میں ہر فریق دوسرے کی اعلی چیز کو چھینتا ہے اس لئے ایسے شخص کے پاس ایمان کیسے رہ سکتا تھا{داؤد غزنوی ص 191،192} نوٹ: اسی طرح امرتسر میں سب سے پہلے عمل بالحدیث شروع کرنےوالے حافظ محمد یوسف صاحب ڈپٹی کلکٹر پنشنر مرزا غلام احمد قادیانی کے موید و حامی بن گئے {اشاعة السنة ص 114 ج 21} مولانا محبوب احمد صاحب امرتسری لکھتے ہیں: جہاں تک مجھے علمہے وہ یہ ہے کہ امرتسر و گرد و نواح میں جس قدر مرتد عیسائی ہیں یہ پہلےغیرمقلد ہی تھے {الکتاب المجید ‎ص 8}‎ مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کے دل میں بھی امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کے بارہ می ایک دفعہ کچھ غبار آگیا تھا ، خود لکھتے ہیں: {میں نے} حضرت امام صاحب رحمه الله کے متعلق تحقیقات شروع کیں تو مختلف کتب کی ورق گردانی سے میرے دل پر کچھ غبار آگیا جس کا اثر بیرونی طور پر یہ ہوا کہ دن دوپہر کے وقت جب سورج پوری طرح روشن تھا یکایک میرے سامنے گھپ اندھیرا چھاگیا - گویا "ظلمات بعضها قوق بعض" کا نظارہ ہوگیا معآ خدا تعالی نے میرے دل میں ڈالا کہ یہ حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله سے بدظنی کا نتیجہ ہے اس سے استغفار کروں میں نے کلمات دھرانے شروع کئے وہ اندھیرے فورآ کافور ہوگئے اور ان کے بجائے ایسا نور چمکا کہ اس نے دوپہر کی روشنی کو مات کردیا - اس وقت سے میری حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله سے حسن عقیدت اور زیادہ بڑھ گئی اور میں ان شخصوں سے جن کو حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله سے حسن عقیدت نہیں ہے کہا کرتا ہوں کہ میری اور آپ کی مثال اس آیت کی مثال ہے کہ حق تعالی منکرین معارج قدسیہ آنحضرت صلی الله علیه وسلم سے خطاب کرکے فرماتا ہے "أفتما رونه علی مایری" میں نے جو کچھ عالم بیداری اور ہوشیاری میں دیکھ لیا اس میں مجھ سے جھگڑا کرنا بے سود ہے "ھذا والله ولی الهدايث خاتمة الکلام" اب میں اس مضمون کو ان کلمات پر ختم کرتا ہوں اور اپنے ناظرین سے امید رکھتا ہوں کہ وه بزرگان دین سے خصوصا ائمه متبوعین سے حسن ظن رکھیں اور گستاخی اور بے ادبی سے پرہیز کریں کیونکہ اس کا نتیجہ ہر دو جہاں میں مؤجب خسران و نقصان ہے "نسئل الله الکریم حسن الظن والتادب مع الصالحین ونعوذ بالله العظیم من سوءالظن بهم فانه عرق الرفض والخروج و علامة المعاقین و لنعم ماقیل" از خدا خواہیم توفیق ادب بے ادب محروم شد از لطف ر {تاریخ اہلحدیث صفحہ 79}‏‎ مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی نے فرمایا مولانا ثناء الله مرحوم امرتسری نے مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں ، میں کانپور میں مولانا احمد حسن صاحب کانپوری سے علم منطق کی تحصیل کرتا تھا اختلاف مذاق و مشرب کے سبب سے احناف سے میری گفتگو رہتی تھی - ان لوگوں نے مجھ پر یہ الزام تھوپا تھا کہ تم عرفی اہلحدیث لوگ ائمه دین کے حق میں بے ادبی کرتے ہو میں نے اس کے متعلق حضرت میاں صاحب مرحوم دہلوی یعنی شیخ الکل حضرت سید نذیر حسین صاحب مرحوم سے دریافت کیا تو آپ نے جواب میں کہا کہ ہم ایسے شخص کو جو ائمه دین کے حق میں بے ادبی کرے چھوٹا رافضی جانتے ہیں ، علاوہ بریں میاں صاحب مرحوم {معیار الحق} میں امام صاحب رحمه الله کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں - ملاحظہ فرمائے "إمامنا و سیدنا أبوحنیفة النعمان أفاض الله علیه شابیب العفو والغفران" نیز فرماتے ہیں ان {امام صاحب} کا مجتہد ہونا اور متبع سنت اور متقی اور پرہیزگار ہونا کافی ہے - ان کے فضائل میں آیت کریمه "ان اکرمکم عند الله اتقاکم" زینت بخش مراتب ان کے لئے ہیں {حاشیہ تاریخ اہلحدیث ص 80} مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی فرماتے - ہیں ، ہر چند کہ میں سخت گنہگار ہوں ، لیکن یہ ایمان رکھتا ہوں اور اپنے صالح اساتذہ جناب مولانا ابو عبد الله غلام حسن صاحب مرحوم سیالکوٹی اور جناب مولانا حافظ عبدالمنان صاحب مرحوم محدث وزیر آباد کی صحبت و تلقین سے یہ بات یقین کے رتبے تک پہنچ چکی ہے کہ بزرگان دین خصوصآ حضرات ائمه متبوعین سے حسن عقیدت نزول برکات کا ذریعہ ہی {تاریخ الحدیث ‎ص 79} ‏‎مولانا محمد ابراہیم صاحب حافظ عبد المنان صاحب وزیر آبادی کے متعلق لکھتے ہیں آپ ائمه دین کا بہت ادب کرتے تھے - چناچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ائمه دین اور خصوصآ امام ابو حنیفه رحمه الله کی بے ادبی کرتا ہے ، اسکا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا {تاریخ اہلحدیث ص 428} نعیم بن حماد خزاعی حضرت امام بخاری رحمه الله کے اساتذہ میں ہیں"وضع کتبا فی الرد علی الحنفیه" جس نے حنفیوں کے رد میں کئی کتابیں تصنیف کیں - یہ شخص امام صاحب کے حسد میں یہاں تک بڑھ گیا تھا کہ جھوٹی حدیثیں بھی گھڑلیا کرتا تھا اور امام صاحب کی عیب گوئی میں جھوٹی حکایتیں بھی گھڑلیتا جو سب کی سب جھوٹ ہیں {میزان الاعتدال ص 536 ج 2 ، تہذیب التهذيب صفحہ 463 ج 2 ،نهاية السئول فی رواة السنة الاصول بحوالہ تاریخ اہلحدیث ص70 {داؤد غزنوی ص 378} مولانا سیالکوٹی نے مکمل بحث کے بعد لکھا کہ نعیم کی شخصیت ایسی نہیں کہ اسکی روایت کہ بناء پر حضرت امام اعظم ابوحنیفه رحمه الله جیسے بزرگ "امام" کے حق میں بدگوئی کریں جن کو حافظ شمس الدین ذہبی رحمه الله جیسے ناقد الرجال "امام اعظم" کے معزز لقب سے یاد کرتے ہیں - حافظ ابن کثیر "البدایہ" میں آپکی نہایت تعریف کرتے ہیں ، آپکے حق میں لکھتے ہیں "احد ائمة الإسلام و السادة الأعلام وأحد أرکان العلما وأحد الائمة الأربعة أصحاب المذاھب المتبوعة الخ - نیز امام یحیی بن معین رحمه الله سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ آپ {ابو حنیفه رحمه الله} ثقہ تھے ، اہل الصدق سے تھے کذب سے مہتم نہ تھے ، نیز عبد الله بن داؤد الخریبی رحمه الله سے نقل کرتے ہیں انہوں نے کہا لوگوں کو مناسب ہے کہ اپنی نمازوں میں حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کے لئے دعا کیا کریں کیونکہ انہوں نے ان پر فقہ اور سنن {نبویہ} کو محفوظ رکھا {البدایہ صفحہ ص 107 ، تاریخ اہلحدیث} یہ شخص {نعیم بن حماد} گرفتار ہوا اور وہیں فوت ہوا "فجر باقیادة" {ہتھکڑیوں سمیت}"فالقی فی حضرة ولم یکفن ولم یصل علیه فعل ذالك به صاحب ابن داؤد" {تاریخ بغداد ص 314} دیکھئے گستاخ امام ، نمازہ جنازہ اور کفن اور قبر تک سے محروم رہا نمبر {11} عالم باعمل فاضل اکمل حضرت مولانا سید تجمل حسین رحمه الله بہاری لکھتے ہیں: ایک غیرمقلد مولوی محمد ابراہیم صاحب آروری مکہ مکرمہ گئے اور حضرت قبلہ عالم مولانا سید شاہ محمد علی صاحب رحمه الله مونگیری بھی وہیں تھے - مولانا محمد ابراہیم صاحب نے کہا کہ آنحضرت صلی الله علیه وسلم کی مجلس خواب میں میری حاضری ہوئی اور مجلس مبارک میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمه الله بھی تشریف فرما تھے جناب رسالت مآب صلی الله علیه وسلم‎ ‎نے‎ ‎مجھے ‏‎فرمایا کہ تم ان یعنی حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله سے بدظن ہو قصور معاف کراؤ - میں نے حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کے قدموں پر گرکر معاف کرایا {کمالات صفحہ 17} نمبر {12} ایک غیرمقلد طالب علم مدرسہ دیوبند میں پڑھتا تھا - اس نے حضرتامام محمد رحمه الله کی شان میں گستاخی کی اس پر اور طالب علموں نے اسے پیٹ ڈالا - اس واقعہ کی مولانا نذیر حسین سے شکایت بھی کی حضرت والا نے فرمایا کہ اس نے امام محمد رحمه الله کی شان میں گستاخانہ کلمات استعمال کئے تھے ، اس پر طلباء کو غصہ آگیا یہ سن کر مولوی صاحب نے فرمایا کہ واقعی یہ اس کی بڑی بے جا حرکت تھی {داؤد غزنوی صفحہ 380} نمبر {13} آرہ میں بیٹھے ہوئے ایک غیرمقلد نے دوران گفتگو حضرت ابن ہمامرحمه الله کی کچھ تنقیص کی - مولانا نذیر حسین صاحب نے اسے ڈانٹا کہ یہ بڑے لوگ تھے ہمارا منہ نہیں کہ ان کی شان میں کچھ کہہ سکیں {داؤد غزنوی صفحہ 380} "الناس فی ابی حنیفة حاسد او جاھل" یعنی حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کے حق میں بری رائے رکھنے والے کچھ لوگ تو حاسد ہیں اور کچھ انکے مقام سے بے خبر ہیں {داؤد غزنوی صفحہ 378} انتخاب : تجلیات صفدر جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 211 سے 217 تک
  18. میں ایک غیر مقلد عالم عبدالرحمان کیلانی کی ایک کتاب پڑھ رہا تھا سماع موتی کے بارے میں. علامہ صاحب کیا فرماتے ہیں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے بارے میں ذرا غور سے پڑھئیے. ابن قیم اور ان کے استاد ابن تیمیہ دونوں بزرگ نہ صرف یہ کہ سماع موتٰی کے قائل تھے بلکہ ایسی طبقہ صوفیاء سے تعلق رکھتے تھے جنھوں نے اس مسئلہ کو اچھالا اور ضیعف اور موضوع احادیث کا سہارا لیکر اس مسئلہ کو علی الاطلاق ثابت کرنا چاھا ابن تیمیہ اور ابن قیم دونوں صاحب کشف و کرامات بھی تھے اور دونوں بزروگوں نے تصوف و سلوک پر مستقل کتابیں بھی لکھی (روح عذاب قبر اور سماع موتٰی ،عبدالرحمٰن کیلانی، صفحہ 55،56) (ماہنامہ محدث، جلد 14 ، صفحہ 95،96 میرا سوال ہے غیر مقلدین سے کہ اگر کوئی حنفی تصوف پہ کتاب لکھے یا احناف کا عقیدہ سماع موتیٰ کا ہو تو وہ تمہارے نزدیک مشرک اور گمراہ ہو جاتا ہے لیکن علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ یہی عقیدہ رکھنے کے باوجود مشرک اور گمراہ کیوں نہیں ہوتے؟؟؟؟. کہاں ہیں قران اور حدیث کے نام پہ احناف پہ فتوی لگانے والے نام نہاد اہلحدیث؟؟؟
  19. تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم ان نام نہاد اہلحدیث نے علماء احناف کا حوالہ آدھا نقل کیا ہے اور اگلی بات نقل ہی نہیں کی جس سے مسئلہ کی وضاحت ہوتی ہے۔ وَيُكْرَهُ صَوْمُ سِتَّةٍ من شَوَّالٍ عِنْدَ أبي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى مُتَفَرِّقًا كان أو مُتَتَابِعًا وَعَنْ أبي يُوسُفَ كَرَاهَتُهُ مُتَتَابِعًا لَا مُتَفَرِّقًا لَكِنْ عَامَّةُ الْمُتَأَخِّرِينَ لم يَرَوْا بِهِ بَأْسًا هَكَذَا في الْبَحْرِ الرَّائِقِ وَالْأَصَحُّ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ كَذَا في مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ وَتُسْتَحَبُّ السِّتَّةُ مُتَفَرِّقَةً كُلَّ أُسْبُوعٍ يَوْمَانِ فتاوی عالمگیری میں ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک شوال کے روزے مکروہ ہیں خواہ جدا رکھے یا اکھٹے رکھے اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے روایت یہ ہے کہ پے درپے رکھا مکروہ ہے متفرق رکھنا مکروہ نہیں۔لیکن عامہ متاخرین کا یہ قول ہے کہ پے درپے رکھنے میں بھی مضائقہ نہیں ہے۔ یہ بحر الرائق میں لکھا ہے اور اصح یہ ہے کہ اس میں مضائقہ نہیں اوریہ ہی مخیط سرخسی میں لکھا ہے۔ اور احناف کے متاخرین علماء ان روزوں کو مستحب سمجھتے ہیں۔ اور یہ مزہب صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا نہیں بلکہ امام مالک رحمہ اللہ کا بھی ہے۔ یحییٰ کہتے ہیں: کہ میں نے عید الفطر کے بعد چھ روزوں کے بارے میں امام مالک کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: ”میں نے اہل علم وفقہ (اور اہل اجتہاد) میں سے کسی کو یہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے اور نہ ہی سلف میں سے (جن حضرات کو میں نے نہیں پایا‘ جیسے صحابہ اور کبار تابعین) کسی سے کوئی روایت پہنچی‘ چنانچہ اہل علم اس کو پسند نہیں کرتے تھے‘ اور ان کو اس کے بدعت بن جانے اور بے علم لوگوں کا رمضان کے ساتھ غیر رمضان کو ملانے کا اندیشہ تھا۔ ( مغنی مع شرح الکبیر جلد 3 صفحہ 102،103)“ اب ان غیر مقلدین نام نہاد اہلحدیثوں کو چاہیے کہ جو اعتراض امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بغض اور حسد میں یہ کرتے ہیں وہی اعتراض امام مالک رحمہ اللہ پہ بھی کریں کیونکہ وہ بھی ان روزوں کو مکروہ کہتے ہیں۔ اور کتابیں چھاپیں امام مالک رحمہ اللہ کے خلاف کہ انہوں نے حدیث کے خلاف عمل کیا۔ میرا سوال ہے تمام نام نہاد اہلحدیثوں سے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا فتوی حدیث کے خلاف ہے یا نہیں۔ اور ان جاہلوں نے اب تک کتنی کتابیں اور مضامین اس مسئلہ پہ امام مالک رحمہ اللہ کے خلاف لکھے ہیں۔ جو فتوی یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پہ لگاتے ہیں وہی امام مالک رحمہ اللہ پہ بھی لگائیں
  20. Asalam o alikum to all muslims ان غیر مقلدین نے تو یہ قول بنا تحقیق کاپی پیسٹ کر دیا کہ (((یعنی اس شخص پر ریت کے زروں کے برابر لعنتیں ہو جو ابو حنیفہ کے قول کو رد کرتا ہے۔))))) اور ساتھ سکین بھی لگا دیا لیکن خود پڑھنا بھول گئے۔ ان نام نہاد محققین کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ یہ قول کس کا ہے۔ چلیں میں بتا دیتا ہوں۔ یہ قول حضرت عبداللہ ابن مبارک رح کا ہے اور ان کا رتبہ غیر مقلد اپنے سے بڑے محققین سے پوچھ سکتے ہیں۔ تو ان غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ احناف پہ اعتراض کرنے سے پہلے ذرا ابن مبارک رح پہ فتوی لگا دینا جو یہ قول ارشاد فرما رہے ہیں۔ کہ ''یعنی اس شخص پر ریت کے زروں کے برابر لعنتیں ہو جو ابو حنیفہ کے قول کو رد کرتا ہے۔''۔
  21. ان بیچاروں کا اور کام کیا ہے۔ یوسف جے پوری اور زیر زئی جیسے جاہلوں کی کتابوں سے بس کاپی پیسٹ کرنا ہی ان کا کام ہے۔ اس جاہل نے جو اعتراض کئے ہیں ان کا جواب دے رہا ہوں اور اس غیر مقلد سے گزارش ہے کہ ساتھ ساتھ ذرا اپنے اکابر کی تحریروں کو بھی پڑھ لو تب پتہ چلے کہ کیا لکھا یے ان کے بڑوں نے۔ علامہ صدیق الحسن خان نے لکھا ہے کہ خنزیر کے حرام ہونے سے اس کا ناپاک ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ ماں حرام ہے مگر ناپاک نہیں [بدور الاہلہ ص 16] کتے کے گوشت ، ہڈی ، خون ، بال ، پسینہ میں سے کسی کی نجاست ثابت نہیں [بدور الاہلہ ص 16]
  22. وقد ذكر عن جماعة من السلف أنهم أوصوا أن يقرأ عند قبورهم وقت الدفن قال عبد الحق يروى أن عبد الله بن عمر أمر أن يقرأ عند قبره سورة البقرة وممن رأى ذلك المعلى بن عبد الرحمن وكان الامام أحمد ينكر ذلك أولا حيث لم يبلغه فيه أثر ثم رجع عن ذلك وقال الخلال في الجامع كتاب القراءة عند القبور اخبرنا العباس بن محمد الدورى حدثنا يحيى بن معين حدثنا مبشر الحلبى حدثني عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج عن أبيه قال قال أبى إذا أنامت فضعنى في اللحد وقل بسم الله وعلى سنة رسول الله وسن على التراب سنا واقرأ عند رأسى بفاتحة البقرة فإنى سمعت عبد الله بن عمر يقول ذلك قال عباس الدورى سألت أحمد بن حنبل قلت تحفظ في القراءة على القبر شيئا فقال لا وسألت يحيى ابن معين فحدثنى بهذا الحديث قال الخلال وأخبرني الحسن بن أحمد الوراق حدثنى على بن موسى الحداد وكان صدوقا قال كنت مع أحمد بن حنبل ومحمد بن قدامة الجوهرى في جنازة فلما دفن الميت جلس رجل ضرير يقرأ عند القبر فقال له أحمد يا هذا إن القراءة عند القبر بدعة فلما خرجنا من المقابر قال محمد بن قدامة لأحمد بن حنبل يا أبا عبد الله ما تقول في مبشر الحلبي قال ثقة قال كتبت عنه شيئا قال نعم فأخبرني مبشر عن عبد الرحمن بن العلاء اللجلاج عن أبيه أنه أوصى إذا دفن أن يقرأ عند رأسه بفاتحة البقرة وخاتمتها وقال سمعت ابن عمر يوصي بذلك فقال له أحمد فارجع وقل للرجل يقرأ وقال الحسن بن الصباح الزعفراني سألت الشافعي عن القراءة عند القبر فقال لا بأس بها Translation: It is narrated from a group of Islaaf that they advised to recite (Quran) on their graves at the time of burying them. Abdul Haq has narrated that "Ibn Umar ordered (others) to recite Surah Baqarah on his grave" A'la bin Abdur Rahman also holds the same opinion. Imam Ahmed (rah) did not agree to this in the beginning because proof had not reached him then, "however later he agreed" Ala’ bin Lajlaaj (Radhi Allaho anho) has narrated that his father advised that when he is to be buried you should recite بسم الله وعلى سنة رسول الله and then add dust, after this stand on the side and recite the beginning of Surah al Baqarah, because he heard Ibn Umar saying this. (Note: The Hadith is traced as Marfu i.e. from Prophet salallaho alaihi wasalam in Al-Kabir of Imam Tabrani, Imam Haythami called all its narrators to be Thiqa in Majma az Zawaid 3:44)... Abbas Ad-Dori (rah) narrates that he asked Imam Ahmed bin Hanbal if there is any tradition about reciting (Quran) on the graves? (Imam Ahmed) said No! However when Yahya bin Moin (rah) was asked he narrated that he along with Imam Ahmed (rah) and Ibn Quduma (rah) took part in a funeral procession. After burial a blind person started to recite (Quran) on the Qabr, Imam Ahmed said: It is Bidah to recite (Quran) near the grave, however when we left the graveyard ibn Qudama (rah) asked Imam Ahmed (rah) what his stance was on Mubashar al Halbi (rah)? Imam Ahmed said that "HE IS THIQA" (Ibn Qudama) said: Have you taken his narrations? Imam Ahmed said "Yes" at this Ibn Qudama said: Mubashar narrated from Abdur Rahman bin Ala’ bin Lajlaj … (and he mentioned the same narration as mentioned above), hearing this "IMAM AHMED ASKED TO CALL THE BLIND MAN BACK FOR RECITING (ON THE GRAVE)" References ►Ibn Qayyim in Kitab ar Ruh, Page Nos. 64-65 Shawkani in Tuhfat al-dhakirin (p. 229) cited al-Jazari's instruction in al-Hisn al-hasin: "Let one recite over the grave, after burial, the beginning of Surat al-Baqara and its end." This is based on Ibn `Umar's words narrated by Bayhaqi in his Sunan (4:56): "I like that it be read over the grave the beginning of Surat al-Baqara and its end." Shawkani comments: "Nawawi declared its chain fair (hassana isnadahu), and even if it is only Ibn `Umar's saying, such as this is not uttered on the basis of mere opinion. It is possible that because of what he learned of the benefit of such recitation generally speaking, he then deemed it desirable that it be read over the grave due to its merit, in the hope that the deceased benefit from its recitation." بها وذكر الخلال عن الشعبي قال كانت الأنصار إذا مات لهم الميت اختلفوا إلى قبره يقرءون عنده القرآن قال وأخبرني أبو يحيى الناقد قال سمعت الحسن بن الجروى يقول مررت على قبر أخت لي فقرأت عندها تبارك لما يذكر فيها فجاءني رجل فقال إنى رأيت أختك في المنام تقول جزى الله أبا على خيرا فقد انتفعت بما قرأ أخبرني الحسن بن الهيثم قال سمعت أبا بكر بن الأطروش ابن بنت أبي نصر بن التمار يقول كان رجل يجيء إلى قبر أمه يوم الجمعة فيقرأ سورة يس فجاء في بعض أيامه فقرأ سورة يس ثم قال اللهم إن كنت قسمت لهذه السورة ثوابا فاجعله في أهل هذه المقابر فلما كان يوم الجمعة التي تليها جاءت امرأة فقالت أنت فلان ابن فلانة قال نعم قالت إن بنتا لي ماتت فرأيتها في النوم جالسة على شفير قبرها فقلت ما أجلسك ها هنا فقالت إن فلان ابن فلانة جاء إلى قبر أمه فقرأ سورة يس وجعل ثوابها لأهل المقابر فأصابنا من روح ذلك أو غفر لنا أو نحو ذلك Translation: Hassan bin Jarvi (rah) has narrated that he recited Surah al-Mulk at the grave of his sister. A person came to him and said that he saw his sister in dream who said: May Allah give Jaza (to my brother) because his Qir’at has been of benefit to me. One person used to recite Surah Yasin at the grave of his mother every Friday. Once he recited Surah Yasin and made a dua: O Allah If in your sight this Surah is a source of Thawaab to others then grant Thawaab to all those buried in this graveyard. Next Friday a woman came to him and asked: Are you son of so and so, at which he said Yes. She replied: One of my daughters has recently passed away, I saw her in dream that she is sitting at the corner of her grave, I asked why she was sitting there? She took your name and said that you had came to recite Surah Yasi after which you denoted Thawaab to all of those who are buried, out of this we received thawaab too. Reference: Ibn Qayyim in Kitab ar Ruh page 17,18 علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ایک قول اس بارے میں علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب التذکرۃ میں ذکر کیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ ” مسلمین کی موت پہ ان کو مالی اور بدنی عبادات کا ثواب پہنچانا امام احمد رحمہ اللہ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اور امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے کچھ اصحاب کے نزدیک جائز ہے“ ( کتاب التذکرۃ جلد 1 صفحہ 278)
  23. واستدل العلماء على قراءة القرآن عند القبر أيضًا بحديث ابن عباس رضي الله عنهما قال : مَرَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَى قَبْرَيْنِ فَقَالَ : « إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ مِنْ كَبِيرٍ » ثُمَّ قَالَ : « بَلَى ؛ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ يَسْعَى بِالنَّمِيمَةِ ، وَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لاَ يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ » قَالَ : ثُمَّ أَخَذَ عُودًا رَطْبًا فَكَسَرَهُ بِاثْنَتَيْنِ ، ثُمَّ غَرَزَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى قَبْرٍ ، ثُمَّ قَالَ : « لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا » متفق عليه . قال الخطّابي : " فيه دليل على استحباب تلاوة الكتاب العزيز على القبور ؛ لأنه إذا كان يُرْجَى عن الميت التخفيفُ بتسبيح الشجر ، فتلاوة القرآن العظيم أكبرُ رجاءً وبركة " ا هـ . وقال القرطبي في " التذكرة " : " وقد استدل بعض علمائنا على قراءة القرآن على القبر بحديث العسيب الرطب الذي شقّه النبي صلى الله عليه وآله وسلم باثنين ... قالوا : ويُستفاد من هذا غرس الأشجار وقراءة القرآن على القبور ، وإذا خُفِّفَ عنهم بالأشجار فكيف بقراءة الرجل المؤمن القرآن "، قال : " ولهذا استحب العلماء زيارة القبور ؛ لأن القراءة تُحْفَةُ الميت من زائره " ا هـ . شیخ قرطبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : ہمارے بعض علماء نے میت کو ثواب پہنچنے پر حدیث عسیب سے استدلال کیا ہے اور وہ یہ کہ حضور سید عالمین صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ملاخطہ فرمایا کہ دو قبروں کو عذاب ہو رہا ہے تو آپ نے ایک تر شاخ منگائی اور اس کے دو ٹکڑے کیے اور ہر ایک قبر پر ٹکڑا لگا دیا اور فرمایا کہ جب تک یہ تر رہیں گی قبر والوں سے عذاب میں تخفیف ہوگی ـ صحیح بخاری ج 3 ص 222 ، صحیح مسلم ج 3 ص 200 ، نسائی ج 4 ص 106 ، ترمذی رقم الحدیث : 70 ، ابن ماجہ رقم الحدیث : 347 - 349 ، مسند احمد ج 1 ص 35 ، صحیح ابن حبان ج 5 ص 52 ، مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : 6753 ، مصنف ابن ابی شیبہ ج 3 ص 375 ، البیہقی ج 1 ص 104 ـ اور مسند ابی داؤد طیالسی میں ہے کہ آپ نے شاخ کا ایک ایک ٹکڑا ہر ایک قبر پر رکھ دیا اور فرمایا کہ جب تک یہ شاخ تر رہے گی ان کا عذاب ہاکا ہو جائے گا ـ معالم السنن ج 1 ص 27 ، ترمذی ج 1 ص 103 ، صحیح مسلم ج 8 ص 231 - 236 ـ علماء کہتے ہیں : یہ حدیث قبر کے پاس درخت وغیرہ لگانے کی اصل ہے اور یہ کہ جب اللہ تعالی درختوں اور شاخوں وغیرہ کی تسبیح سے عذاب میں تخفیف فرماتا ہے تو کو‏ئی مومن قبر کے پاس اگر قرآن مجید پڑھے گا تو کیا عالم ہو گا ؟؟ ( کتاب التذکرۃ صفحہ 275، 276 وقال النووي في " شرح مسلم " : " واستحب العلماء قراءة القرآن عند القبر لهذا الحديث ؛ لأنه إذا كان يُرجى التخفيفُ بتسبيح الجريد فتلاوة القرآن أولى ، والله أعلم " ا هـ . اس حدیث کی بناء پہ علماء نے قبر پہ قرآن مجید پڑھنے کو مستحب کہا ہے کہ جب کھجور کی شاخ کی تسبیح سے عذاب میں تخفیف کی امید ہے تو قران مجید کی تلاوت سے بدرجہ اولیٰ امید ہے. ( شرح مسلم علامہ نووی، باب کتاب الطھارۃ حدّثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ . حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ وَلَيْسَ بِالنَّهْدِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: «اِقْرَؤُوهَا عِنْدَ مَوْتَاكُمْ» يَعْنِي يَس. ‏ The Prophet of Allah Said: Recite It (Iqarahu) on ('Inda) the deceased/dying that means Surah Yaseen. (Sunan Ibn Majah, Kitab Al Janaiz #1448) The commentator of Sunan Ibn Majah further states: قوله ( عند موتاكم ) ‏ His saying : On the deceased/dying -- That is to say on the dying or (Aw) after (Ba'ad) death Also. (Sharh Sunan Ibn Majah Al Sanadi , Ibid) The Prophet said: iqra'u `ala mawtakum ya seen "Read Ya Seen over those of you who are dying/deceased." It is narrated by Abu Dawud in his Sunan (Jana'iz), al-Nasa'i in his Sunan (`Amal al-yawm wal-layla), Ibn Majah in his Sunan (Jana'iz), and Ibn Hibban in his Sahih (Ihsan), and he declared it sound (sahih). `Abd al-Haqq ibn al-Kharrat al-Ishbili (d. 582) in his book al-`Aqiba (p. 255 #576) said: "The meaning of this hadith may be that the recitation is done over the person at the time the person is dying; or that it be done at his grave." al-Qurtubi said the same according to Suyuti who adds: "I say: the vast majority of the scholars take the former meaning, while Ibn `Abd al-Wahid al-Maqdisi al-Hanbali [and others] take the latter in the monograph he compiled on the topic. Both apply." Sharh al-sudur p. 312. Ibn Qayyim al-Jawziyya in Kitab al-ruh (Madani ed. p. 18-19) also prefers the former meaning ("dying"). Imam Suyuti states in Sharh al-sudur bi sharh hal al-mawta wa al-qubur (p. 310): There is disagreement as to the reward of recitation reaching to the dead. The vast majority of the Salaf as well as the Three Imams consider that it does reach them, while our Imam, al-Shafi`i, differs. His basis was the verse: wa an laysa li al-insani illa ma sa`a: "Man can have nothing but what he strives for" (53:39). However, the former replied to this objection in several ways: (a) The verse is abrogated by Allah's saying: wa al-ladhina amanu wa ittaba`athum dhurriyyatuhum: And those who believe and whose families follow them in Faith, -- to them We shall join their families: nor shall We deprive them of the fruit of anything of their works: yet each individual is in pledge for his deeds (52:21). This verse enters the children into Paradise because of the righteousness of the parents. ( The verse "Man can have nothing but what he strives for" is specific to Ibrahim's and Musa's nations. As for this Community which has been granted mercy, then it has both what it strove for and what was striven for on its behalf. This is the saying of `Ikrima (Ibn `Abbas's freedman and the transmitter of his Tafsir. Bukhari included 139 of his narrations in his Sahih. He died in Madina in 104). © What is meant by "man" in that verse is the disbeliever. As for the believer, then he has both what he strove for and what was striven for on his behalf. This is the saying of (the Tabi`i) al-Rabi` ibn Anas (d. 139). (d) Man can have nothing but what he strives for according to divine justice (`adl); as for what comes through divine munificence (fadl), then it is permissible for him that Allah increase him in anything whatsoever. This is the saying of al-Husayn ibn al-Fadl (al-Bajali, one of Bayhaqi's (d. 458) shaykhs. Qurtubi often cites him in his Tafsir). (e) The meaning of the verse is: "Man will have nothing counted against him except what he strove for." They used as proof of the reward of recitation reaching to the dead, the analogy of all that is sent in the way of supplication (du`a), charity (sadaqa), fasting (sawm), pilgrimage (hajj), and manumission (`itq): since there is no difference in the transfer of reward whether it is for pilgrimage, charity, endowment (waqf), supplication, or recitation. They have also used the hadiths that will be mentioned, and even if these are weak, yet their collected import is that the donation of reward has a basis in the Law. Another proof they have used is the fact that the Muslims never ceased at any time in history to gather and recite (the Qur'an) for their dead without anyone objecting, and this constitutes consensus (ijma`). All the above was mentioned by the hadith master (hafiz) Shams al-Din ibn `Abd al-Wahid al-Maqdisi al-Hanbali in a monograph he compiled on the topic. End of Suyuti's words. It is narrated in Sunnan Baihaqi with "HASSAN CHAIN" that Ibn Umar considered it Mustahab to recite Beginning and ending Ayahs of Surah Baqarah at the grave after burying [Kitab ul Adhkaar, Page No. 278] `Ata' ibn Abi Rabah said: I heard Ibn `Umar say: I heard the Prophet say: "When one of you dies do not tarry, but make haste and take him to his grave, and let someone read at his head the opening of Surat al-Baqara, and at his feet its closure when he lies in the grave." al-Tabarani narrates it in al-Mu`jam al-kabir, but Haythami said in Majma` al-zawa'id (3:44) that the latter's chain contains Yahya ibn `Abd Allah al-Dahhak al-Babalti who is weak. However, the hadith is confirmed by the practice of `Abd Allah ibn `Umar as narrated through sound chains (see below). al-Khallal also narrates the hadith in his al-Amr bi al-ma`ruf (p. 122 #239). It is related that al-`Ala' ibn al-Lajlaj said to his children: "When you bury me, say as you place me in the side-opening (lahd) of the grave: Bismillah wa `ala millati rasulillah -- In the name of Allah and according to the way of Allah's Messenger -- then flatten the earth over me, and read at the head of my grave the beginning of Surat al-Baqara and its end, for I have seen that Ibn `Umar liked it." Narrated by Bayhaqi in al-Sunan al-Kubra (4:56), Ibn Qudama in al-Mughni (2:474, 2:567, 1994 ed. 2:355), al-Tabarani in al-Kabir, and Haythami said in Majma` al-zawa'id (3:44) that the latter's narrators were all declared trustworthy. Abu Bakr al-Khallal (d. 311) in al-Amr bi al-ma`ruf (p. 121 #237) relates the above with the following wording: "flatten the earth over me, then read at the head of my grave the Opening of the Book, the beginning of Surat al-Baqara, and its end, for I have heard Ibn `Umar instruct it." Ibn Qayyim al-Jawziyya cites it in Kitab al-ruh (Madani ed. p. 17) from Khallal's narration in al-Jami` but without mention of the Fatiha.
  24. تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم زبیر علی زئی آجکل کے غیر مقلدوں کا بہت بڑا اور مستند عالم ہے اور آجکل کے تمام نام نہاد غیر مقلد محقق زبیر زئی کے حوالاجات کے بغیر ایک قدم نہیں چل سکتے۔ میں آپ کے سامنے زبیر زئی کا ایک تضاد یش کر رہا ہوں اور غیر مقلدین سے سوال ہے کہ ان دونوں باتوں میں سے زبیر زئی کی کون سی بات صحیح ہے اور کونسی بات غلط ہے؟ زبیر علی زئی نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے '' اہلحدیث ایک صفاتی نام اور لقب''۔ اس کتاب کے شروع میں ہی زبیر علی زئی غیر مقلد لکھتا ہے کہ '' طائفہ منصورہ، فرقہ ناجیہ اور اہلحق کا صفاتی نام اہلحدیث ہے۔'' ( اہلحدیث ایک صفاتی نام ، صفحہ 5 زبیر علی زئی کے کہنے کا مطلب ہے کہ جنتی فرقہ صرف اہلحدیث ہے اور وہی اہلحق ہیں۔ لیکن زبیر علی زئی اپنی دوسری کتاب میں لکھتا ہے کہ تمام جماعتیں اور فرقے باطل ہیں اور قرآنی حکم کے خلاف ہیں۔ '' موجودہ تمام جماعتیں باطل ہیں اور ''ولا تفرقو'' اور فرقے فرقے نہ بنو کے قرآنی حکم کے سراسر خلاف ہیں۔'' ( فتاوی علمیہ، صفحہ 175) زبیر زئی کے اس حوالے سے ثابت ہوا کہ تمام فرقے اور جماعتیں باطل اور قرآن کے حکم کے خلاف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب تمام فرقے اور جماعتیں باطل ہیں تو فرقہ اہلحدیث کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟؟ ایک طرف زبیر زئی کا دعوی ہے کہ صرف فرقہ اہلحدیث ہی حق ہے اور دوسری طرف کہتا ہے کہ تمام جماعتیں باطل ہیں۔۔ میرا غیر مقلدین سے سوال ہے کہ ان میں سے زبیر زئی کی کون سی بات صحیح ہے؟؟؟ اگر فرقہ اہلحدیث والی بات صحیح ہے تو پھر زبیر علی زئی نے تمام جماعتوں کو باطل کیوں کہا؟؟؟
×
×
  • Create New...