Jump to content

yousaf

اراکین
  • کل پوسٹس

    15
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    2

yousaf last won the day on 8 فروری 2016

yousaf had the most liked content!

About yousaf

Previous Fields

  • فقہ
    Shia

yousaf's Achievements

Apprentice

Apprentice (3/14)

  • First Post
  • Collaborator
  • Conversation Starter
  • Week One Done
  • One Month Later

Recent Badges

2

کمیونٹی میں شہرت

  1. اسلام علیکم (مجھے یہ تحریر انٹرنیٹ پر ملی جو ایک دیو بندی کی لکھی ہوئی لگتی ہے ( فرقہ جديد نام نہاد اہل حدیث کے چھ نمبر پوچھنا یہ ہے کہ اس میں کتنی صداقت ہے کیا واقعہ ہی غیر مقلدین اپنے طلبا کو ایسی تربیت دیتے ہیں ؟ اور اگر یہ صیح ہے تو اس کا سکین مل سکتا ہے؟ فرقہ جديد نام نہاد اہل حدیث کے چھ نمبر حضرت علامۃ فہامۃ محقق المدقق فقیہ المحدث النظار شيخ الشیوخ وعمدة اهل التحقيق والرسوخ صاحب التصانيف الكثیرة المفیدة القیمۃ الشیخ محمد امین صفدر الاوكاڑوی رحمہ الله رحمۃ واسعۃ کی پوری زندگی دین اسلام اورمذہب احناف اورمسلک حق مسلک علماء دیوبند کی نصرت وحمایت ونشرواشاعت سے عبارت ہے ، اور رد فرق باطلہ وضالہ ومُبتدعہ میں آپ کی خدمات جلیلہ ایک روشن باب ہے ، اور بالخصوص فرقہ جديد نام نہاد اہل حدیث کے وساوس واکاذیب وافترآت کی تردید میں آپ کی تالیفات وتصانیف ایک نسخہ کیمیا ہیں ،حضرت کے افادات میں کئی مرتبہ فرقہ جديد نام نہاد اہل حدیث کے چھ نمبر میں نے پڑھے ، جو بعینہ اس فرقہ نومولود کی حقیقی مشن کی سچی تصویر ہے ۔ لہذا بغرض فائده وعبرت اس کا تذکره کرتا ہوں ، اور یہ بھی یاد رہے حضرت اوکاڑوی رحمہ الله ایک عرصہ تک عملی طور پر فرقہ جديد نام نہاد اہل حدیث میں ره چکے ہیں اوران کے تمام وساوس واکاذیب وافترآت کوخوب جانتے تھے ، اور عربى کے مشہور مقولہ (صَاحبُ البيتِ أدرى بمَا فِيه ) کے مصداق تھے ۔ اس سلسلے میں حضرت فرماتے تھے کہ ہمارے استاذ جی ( غیرمُقلد ) فرماتے تھے کہ حنفیوں کو زچ کرنے کے لئے قرآن ، حدیث ، فقہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ، ہران پڑھ ان کو تنگ کرکے سو ( 100 ) شہید کا ثواب لے سکتا ہے ۔ چھ نمبر یا چھ وساوس 1. جب کسی حنفی سے ملوتو پہلے ہی اس پرسوال کردو کہ آپ نے جو گھڑی باندهی ہے ، اس کا ثبوت کس حدیث میں ہے ؟؟ اس قسم کے سوال کے لئے کسی علم کی ضرورت نہیں ، آپ ایک چھ سالہ بچے کومیڈیکل سٹورمیں بھیج دیں وه ہر دوائی پرہاتھ رکھ کریہ سوال کرسکتا ہے کہ اس دوا کا نام کس حدیث میں ہے ؟؟ اس سوال کے بعد آکرمسجد میں بتانا ہے کہ میں نے فلاں حنفی مولوی صاحب سے حدیث پوچھی وه نہیں بتا سکے ، پھر ہرغیرمقلد بچے اوربوڑھے ( اورجوان ) کا فرض ہوتا ہے کہ وه ہرہرگلی (ہروقت ہرجگہ ) میں پروپیگنڈه کرے کہ فلاں حنفی مولوی صاحب کو ایک حدیث بھی نہیں آئی۔ 2. دوسرا نمبر یہ ہے کہ خدانخواستہ اگرتم کہیں پھنس جاؤ اور تمہیں (جوابا)کوئی کہے کہ تم نے جو جیب میں پین ( قلم ) لگا رکھا ہے ، اس کا نام حدیث میں دکھاو تو گھبرانا نہیں ” فورا ” ان سے پوچھو کہ کس حدیث میں یہ منع ہے ؟؟اور شورمچادو کہ منع کی حدیث نہیں دکھا سکے ، اب سب ( نام نہاد ) غیرمقلد یہ پروپیگنڈه کریں گے جی کہاں سے ( حنفی ) بے چارے حدیث لائیں ، فقہ ہی تو ساری عمر پڑھتے پڑھاتے ہیں ۔ 3. اگر کسی جگہ پھنس جاو کہ ( مثلا ) کوئی صاحب کوئی حدیث کی کتاب لے کرآئیں کہ تم اہل حدیث ہو دیکھو کتنی احادیث ہیں جن پرتمہارا عمل نہیں ؟؟توگھبرانے کی ضرورت نہیں ” فورا ” ایک قہقہ لگا کر کہا کرو لو جی یہ حدیث کی پتہ نہیں کون سی کتاب لے آئے ، ہم تو صرف بخاری مسلم اور زیاده مجبوری ہوتو صحاح ستہ کومانتے ہیں ، باقی حدیث کی سب کتابوں کا پوری ڈھٹائی سے نہ صرف انکارکرو بلکہ استہزاء بھی کرو اور اتنا مذاق اڑاو کہ پیش کرنے والا ہی بے چاره شرمنده ہوکر حدیث کی کتاب چھپالے اورآپ کی جان چھوٹ جائے۔ 4. اگربالفرض کوئی ( حنفی ) ان چھ کتابوں ( بخاری ، مسلم ، ابوداو ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، ) میں سے کوئی حدیث دکھا دے جوتمہارے خلاف ہو تو ” فورا ” کوئی شرط اپنی طرف سے لگا دو کہ فلاں لفظ دکھاو توایک لاکھ روپیہ انعام ، جیسے مرزائی کہتے ہیں کہ ان الفاظ میں حدیث دکھاو کہ مسیح ابن مریم علیہ السلام اسی جسد عنصری ( اصلی ) کے ساتھ زنده آسمان پراٹھائے گئے اور حدیث صحیح صریح مرفوع غیرمرجوح ہو ، یا ( نام نہاد ) غیرمقلد کہتے ہیں کہ رفع یدین کے ساتھ منسوخ کا لفظ ( حدیث ) میں دکھاؤ اور اس اپنے لفظ پراتنا شور مچاؤ کہ وه خود ہی خاموش ہوکر ره جائے ۔ 5. اگربالفرض وه لفظ ہی مل جائے اور مخالف ( حنفی ) دکھا دے کہ دیکھو جس لفظ کا تم نے مطالبہ کیا تھا ، توپورے زور سے تین مرتبہ اعلان کردو ضعيف ہے ضعيف ہے ضعيف ہے اب حدیث بھی نہ ماننی پڑے اور رعب بھی قائم ہوگیا کہ دیکھو ( حنفی ) مولوی صاحبان کو تحقیق ہی نہیں تھی ، اس ان پڑھ ( نام نہاد ) غیرمقلد کو پتہ چل گیا کہ حدیث ضعيف ہے ۔ 6. چھٹا اور آخری نمبر استاذجی تاکید فرماتے تھے کہ جو نماز نہیں پڑھتا اس کو نہیں کہنا کہ نماز پڑھو ، ہاں جو نماز پڑھ رہا ہو اس کو ضرور کہنا کہ تیری نماز نہیں ہوئی۔ بس یہ چھ نمبر ہمارے علم کلام کا محور ( دارو ومدار ) تھے ، والد صاحب رحمہ الله پابند صوم وصلوة تہجد گزار اور عابد زاہد آدمی تھے ،روز ان سے جھگڑا ہوتا کہ نہ تمہاری نماز ہے نہ تمہارا دین ہے نہ تمہاری تہجد مقبول ہے نہ کوئی اور عبادت ، والد صاحب رحمہ الله فرماتے لڑا نہیں کرتے تیری نماز بھی ہوجاتی ہے اور ہماری بھی ، میں کہتا کتنا بڑا دھوکہ ہے کیا خدا نے دو نمازیں اتاری ہیں ، ایک مدینہ میں ، ایک کُوفہ میں ، ہماری نماز نبی ﷺ والی ہے جو ہمیں جنت لے کرجائے گی ، تمہاری نماز کوفہ والی نمازہے یہ تمہیں سیدھا جہنم لے جائے گی ( والعياذ بالله ) الخ۔[نقلامن افادات الشيخ الأوكاروي المسماة بـــمجموعه رسائل ، والعبارات بين القوسين من صنيع الراقم ] یقینا حضرت کے بیان کرده ان چھ نمبروں میں اس فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی سچی تصویر نمایاں ہے ، اور وه لوگ جو ان کے وساوس میں مبتلا ہیں ان کے لئے اس میں بڑی عبرت ہے ، اور یہ بھی یاد رہے کہ الحمد لله ہمارا اور ہمارے اکابر ومشائخ کا اس فرقہ جدید یا دیگر فرق باطلہ کے ساتھ کوئی ذاتی جھگڑا وتعصب نہیں ہے ، بلکہ ہمارا مقصد وحید تو یہ ہے کہ از اول تا آخر فرقہ ناجیہ اہل سنت والجماعت کے ساتھ تمام اصول وفروع میں سختی کے ساتھ پابند وقائم رہنا ہے ، اورجوشخص یا جماعت اہل سنت والجماعت سے کسی بھی اعتبارسےانحراف کرے یا عوام کو مختلف وساوس اور حیلوں بہانوں سے گمراه کرے اور ائمہ اسلام سے متنفر کرے تو دلیل وبرهان کےساتھ اس کا رد وتعاقب کرنا ہمارا اور جمیع اہل سنت اور بالخصوص علماء حق علماء دیوبند کا شیوه ہے ، باقی حق بات قبول کروانا اور منوانا توہم اس کے مکلف نہیں ہیں ۔ إن أريدُ إلا الإصْــلاحَ مـَا استطعتُ وَمَاتوفـِيـقـي إلابالله ۰
  2. jazakAllah syed kamran bahi Allah pak ap ke elam main mazeed barktein ata farmae (aameen)
  3. اسلام علیکم میں نے شائد پڑھا تھا اس کے متعلق اس فارم میں مجے مل نہیں رہا اپ سے گزارش ہے کچھ رہنمائی فرما دیں اکثر محا لفین اس کو علم غیب کی نفی میں دلیل کے تور پر پیش کرتے ہیں Umm-ul-Mu’mineen Hazrat A’isha Siddiqah (may Allah be please with her) ka irshaad hai k jo shakhs yeh kahay k Rasool (sallallahu ‘alaihe wasallam) ghaib jaantay thay uss nay Allah per buhtaan baandha. [sahih Bukhari, Kitaab-ul-Tafseer (Surah wa-Najam), Hadith#4855]
  4. اسلام علیکم ویسے تو اس فورم کی جتنی بھی تعریف کی جاۓ کم ہے اور یہاں کے علما کرم جس انداز سے دین کو سہی معنوں میں بتا اور سمجا رہے ہیں الله پاک ان کو جزا عطا فرماۓ اور ان کے علم میں عمر میں مزید برکتیں عطا فرماۓ (آمین (اور کامران بھائی نے جو لڑی شروع کی ہے(عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اعتراضات کے جوابات وہ بھی ایک صدقہ جاریہ ہے تا کے لوگوں کو حقیققت کا پتا چل جاۓ الله پاک اپ کو بھی اس کی جزا عطا فرماۓ (آمین ) اور اس لڑی کی جو پوسٹ ہیں اس کو جتنا ہو سکتا ہے شئیر کرتا ہوں تا کے لوگوں تک حقیقت پہنچ سکے آج ایسے ہی اِدھر اُدھر پیج دیکھ رہا تھا تو اس میں مجھے محا لفین کا یہ اعتراض ملا .اور اس کا جواب چاہے(سکین بھی ہوں تو بہت بہتر ہو کا ) تا کے ان کو اصل حقیقت دکھائی جاۓ وسلام https://www.facebook.com/profile.php?id=100002200689333 ریلوی رضاخانیوں نے جشن میلاد کو ثابت کرنے کی غرض سے یہودیوں کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے نبی کریمﷺ کی حدیثِ مبارکہ میں بھیانک تحریف کر ڈالی۔ مسند احمد وغیرہ میں موجود ایک حدیث کو توڑ مروڑ کر کچھ اس طرح پیش کیا کہ حضرت امیر معاویہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن صحابہ کرام جلسے کی صورت میں جمع تھے اور محفل منا رہے تھے جس میں وہ اللہ پاک کی حمد و ثنا اور نبی پاک ﷺ کی آ مد کا تذکرہ کر رہے تھے تو سرکارﷺ جب اس محفل میں تشریف لائے تو اس کو بہت پسند فرمایا اور بشارت دی کہ اس محفل کے بارے میں مجھے حضرت جبرئیلؑ نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالی تماری اس محفل پر فرشتوں میں فخر فرما رہا ہے۔ جبکہ اصل حقیقت کیا ہے ہم آپ کے سامنے مکمل حدیث مع صحیح ترجمہ کے رکھتے ہیں اور آپ خود فیصلہ کیجیے کہ ان ایمان کے ڈاکؤں نے کس طرح نبی کریمﷺ کی حدیث کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا فقط اپنے باطل تہورا کو سند فراہم کرنے کی غرض کیلئے۔ حدیث ملاحظہ ہو۔!!! حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو نَعَامَةَ السَّعْدِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: خَرَجَ مُعَاوِيَةُ، عَلَى حَلْقَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: مَا أَجْلَسَكُمْ ؟ قَالُوا: جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: اللَّهِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلَّا ذَاكَ؟ قَالُوا: اللَّهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَاكَ، قَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْكُمْ تُهْمَةً لَكُمْ، وَمَا كَانَ أَحَدٌ بِمَنْزِلَتِي مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَلَّ عَنْهُ حَدِيثًا مِنِّي، وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَى حَلْقَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: " مَا أَجْلَسَكُمْ؟ " قَالُوا: جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَنَحْمَدُهُ عَلَى مَا هَدَانَا لِلْإِسْلَامِ وَمَنَّ عَلَيْنَا بِكَ، قَالَ: " آللَّهِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلَّا ذَلِكَ؟ " قَالُوا: آللَّهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَلِكَ، قَالَ: " أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْكُمْ تُهْمَةً لَكُمْ، وَإِنَّهُ أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَأَخْبَرَنِي أَنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبَاهِي بِكُمُ الْمَلَائِكَةَ۔ (مسند احمد، ۱٦٨٣٥، مسلم، ٢٧٠١، نسائی، ٥٤٢٦) ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں ایک دفعہ مسجد میں صحابہ کرام حلقہ بنا کے بیٹھے ہوئے تھے تو سیدنا معاویہؓ انکے پاس گئے اور کہا تمھیں کس چیز نے یہاں بٹھا رکھا ہے؟ انھوں نے جواب دیا ہم لوگ اللہ کا ذکر کرنے کی غرض سے بیٹھے ہیں۔ تو سیدنا معاویہؓ نے ان سے کہا تم قسم اٹھاؤ کہ تمھیں اسی چیز نے یہاں بٹھا رکھا ہے؟ تو انھوں نے قسم کھا کر کہا ہم اسی مقصد کے لیئے یہاں بیٹھے ہیں۔ سیدنا معاویہؓ نے کہا میں تم پر کوئی تہمت نہیں لگا رہا (یعنی تم کو جھوٹا سمجھ کر قسم نہیں کھلائی) اصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس میرے جیسا مقام ومنزلت رکھنے والا کوئی شخص مجھ سے کم (ادب واحتیاط کے سبب) آپ سے حدیثیں بیان کرنے والا نہیں ہے۔ (پھر بھی میں تمہیں یہ حدیث سنا رہاہوں) رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے پاس گئے وہ سب دائرہ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، ان سے فرمایا کس لیے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا ہم یہاں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں، اللہ نے ہمیں اسلام کی طرف ھدایت سے نوازا ہے اور مسلمان بنا کر ہم پر جو احسان فرمایا ہے ہم اس پر اس کا شکریہ اداکرتے ہیں، اوراس کی حمد بیان کرتے ہیں، آپ ﷺنے فرمایا کیا واقعی قسم ہے تمہیں اسی چیز نے یہاں بٹھا رکھا ہے؟ انہوں نے کہا قسم اللہ کی، ہمیں اسی مقصد نے یہاں بٹھا یا ہے، آپ نے فرمایا میں نے تمہیں قسم اس لیے نہیں دلائی ہے کہ میں نے تمھیں جھوٹا سمجھوں بات یہ ہے کہ جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے بتایا اور خبردی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ فرشتوں پر فخر کرتا ہے۔ (مسند احمد، ۱٦٨٣٥، مسلم، ٢٧٠١، نسائی، ٥٤٢٦) یہ ہے اصل حقیقت مختصر یہ کہ جس محفل میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جا رہا ہو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر رشک فرماتے ہیں جسکی تصدیق خود نبی کریمﷺ نے فرمائی۔ لیکن بریلویوں کے ترجمہ پر غور کریں تو وہاں پورا نقشہ ہی تبدیل نظر آتا ہے۔ بریلوی لومڑی کی طرح چالاکی کا مظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ "صحابہ کرام جلسے کی صورت میں جمع تھے" "محفل منا رہے تھے" "اور نبی پاک ﷺ کی آ مد کا تذکرہ کر رہے تھے" کس طرح ہوشیاری کے ساتھ میلاد کو ثابت کرنے کیلئے جھوٹ کی کڑیاں ملائی گئیں حدیث میں یہ ذکر کہیں بھی نہیں ملتا کہ صحابہ کرام نے ایک جلسہ کی شکل میں محفل کا اہتمام کیا ہوا تھا جس طرح بریلوی جلسے جلوس نکالتے ہیں دوسرا یہ کہنا کہ "محفل منا رہے تھے" یہ بھی جھوٹ ہے کیونکہ ذکر الہٰی ایک عبادت ہے اور عبادت منائی نہیں جاتی عبادت کی جاتی ہے لیکن یہاں پر محفل کے ساتھ لفظ "منانا" لکھ کر یہ تصور دیا جا رہا ہے کہ جس طرح صحابہ کرام نے محفل منائی اسی طرح ہم بھی مناتے ہیں، اس کے بعد ایک اور عظیم جھوٹ بولا گیا کہ اس محفل میں صحابہ کرام "نبی پاک ﷺ کی آ مد کا تذکرہ کر رہے تھے" جبکہ حدیث آپکے سامنے ہے جس میں نبی کریمﷺ کی آمد یا ولادت کا کوئی ذکر ہی نہیں ملتا اتنا بڑا جھوٹ بولتے ہوئے ان ظالموں کو رب تعالیٰ کا خوف بھی نہ ہوا یہ سارا کچھ اس لیئے کیا گیا کہ ایک عام آدمی جب ان باتوں پر غور کرے گا صحابہ کا جلسہ منعقد کرنا، محفل منانا، نبی کریم ﷺ کی آمد کا ذکر کرنا وغیرہ تو یہ چیزیں اسے کچھ محفل میلاد کا نقشہ کھینچتے ہوئے دکھائی دیں گی (جبکہ بریلویوں کا یہ خیال بھی باطل ہے بالفرض یوں بھی ہوتا تو میلادیوں کا کنجر خانہ پھر بھی ثابت نہیں ہوتا) لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے نہ ہی صحابہ نے جلسہ کیا، نہ کوئی محفل منائی اور نہ ہی اپنی محفل میں نبی کریم ﷺ کی آمد کا ذکر خیر کیا بلکہ انھوں نے ذکرِالہٰی کیا اور شرک کے اندھیروں سے نکل کر توحید کی روشنی کی طرف آنے پر رب تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اسلام جیسی نعمت اور مسلمان ہونے پر اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی۔ بریلویوں کی بھیانک تحریف کے بعد یہ بات ایک بار پھر ثابت ہو گئی کہ شریعت محمدی میں میلاد نبوی ﷺ کی کوئی دلیل نہیں ملتی جسکی وجہ سے بریلویوں نے گھناؤنا جرم کیا اور جو حدیث ذکرِ الہٰی کا درس دیتی ہے اسے وہاں سے ہٹا کر جشن میلاد کی بدعت پر فٹ کر دیا۔ (اللہ تعالیٰ ہی ھدایت عطا کرنے والا ہے ہمارا کام فقط پہنچا دینا ہے) —
  5. سبحان الله الله پاک اپ سب کی عمر میں علم میں مزید برکتیں عطا فرماۓ (آمین
  6. میلاد کی دلیل نہیں ملی تو ہمارے اوپر اعتراض کرنے لگے مقبول احمد سلفی (1) حجاز پہ قبضے کا دن منانا: یہ تو حماقت در حماقت ہے کہ سعودی عرب کی حکومت کو حجاز پہ قبضہ سے موسوم کرے ۔ اگر ان بریلوی کو یہ حکومت ملتی تو رضاخوانی والی حکومت کو خلافت کا نام دیتے ۔ ؎جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے (2) ہرسال كعبہ شریف کو غسل دینا: کعبۃ اللہ کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ہردور میں اس پر بہتر سے بہتر غلاف چڑھایا گیا ۔ اہل علم نے اس پر نکیر نہیں فرمائی ۔ بالخصوص سلف صالحین جن کے افعال و اقوال کو منارہ ہدایت سمجھا جاتا ہے بلکہ فعل ہذا کو بہ نظر استحسان دیکھا گیا ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، قاضی زین الدین عبدالباسط کے بارے میں فرماتے ہیں :فبالغ فی تحیتھا بحیث یعجز الواصف عن صفۃ حسنہا جزاہ اللہ علی ذلک افضل المجازاۃ . ( فتح الباری: 460/3 ) ترجمہ:اس نے غلاف کی بے انتہا تحسین و تزیین کی کہ بیان کرنے والا اس کے بیان اور توصیف سے قاصر ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس عمل پر ان کو بہترین بدلہ سے نوازے ۔ اسی طرح غسل کعبۃ اللہ بھی عملی تواتر سے ثابت ہے ۔ بعض روایات میں تصریح موجود ہے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتوں کو توڑنے اور تصاویر کو مٹانے کے بعد کعبۃ اللہ کو غسل دینے کا حکم دیا تھا ۔ دليل: ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم امر بغسل الکعبۃ بعد ما کسر الاصنام وطمس التصاویر .( تاریخ الکعبۃ المعظمہ ص 327 بحوالہ حسین عبداللہ باسلامہ ۔ بخاری ، الطحاوی ( 283/4 ) معانی الآثار ) ایک حدیث ترمذی شریف میں موجودہے ۔ وسترتم بیوتکم کما تستر الکعبۃ . ( الترمذی ابواب صفۃ القیامۃ باب 35 ) ترجمه: قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ تم اپنے گھروں کو ایسے ڈھانکو گے جیسے کعبہ ڈھانکا جاتا ہے ۔ (3) کعبہ کے غلاف پہ آیات لکھنا: یہ کام میری نظر میں جائز نہیں ہے .نہ اس سے دلیل پکڑتے ہیں اور نہ ہی اپنی مسجدوں میں ایسا کرتے ہیں ۔ اگر اس پہ عمل ہے تو بریلوی کا ۔ کوئی مسجد ایسی نہ ہوگی جس پہ نقش ، ذیزائن ، قرآنی آیات ، لفظ جلالہ بلکہ 786 جیسالفط بھی لکھا رہتا ہے جو ہندؤں کے بگھوان ہری کرشنا کا کوڈ نمبر ہے ۔ (معاذاللہ ) (4) سیرت النبی ﷺکے جلسے کرنا: دین کی نشر و اشاعت کے لئے دینی مدارس، دعوتی ادارے ، دینی پروگرام ( لکچر، سیمنار،اجتماع، کانفرنس وغیرہ ) کرنا جائز ہے ۔ اس کے جواز کے بہت سے دلائل ہیں مگر ممانعت کی دلیل نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم اسے عرس و میلے کی طرح باعث ثواب سمجھ کر نہیں منعقدکرتے بلکہ یہ صرف تبلیغ دین کا ایک ذریعہ ہے ، اس لئے عرس کی طرح پہلے سے اس کی کوئی تاریخ مقرر نہیں ہوتی ۔ (5) مسجد میں محراب و مینار بنانا: دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا: مسجد میں موجود محراب کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں موجود تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا: "افضل ترین صدیوں سے لیکر اب تک مسلمان مساجد میں محراب بناتے چلے آئے ہیں؛ کیونکہ یہ مفاد عامہ میں سے ہے، جیساکہ نمایاں ترین فائدہ یہ ہے کہ اس سے جہت قبلہ معلوم ہو جاتی ہے، اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس جگہ مسجد ہے"انتہی " فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء " ( 6 / 252 ، 253 ) رہی بات مینار کی تو ہم اسے مسجد کے لئے ضروری نہیں سمجھتے لیکن مسجد کے واسطے مشروع ہے کیونکہ اس مینار سے اذان کی صدا بہت دور تک جاتی ہے اوردور سے ہی ایک مسلمان مینار دیکھ کر مسجد پہچان لیتا ہے ۔ (6) مدرسے بنانا: دین کا سیکھنا سکھانا اسلام میں فرض ہے ، چاہے انفرادی طورپر سیکھے سکھائے یا اجتماعی طور پر ۔ مدرسہ دین سیکھنے سکھانے کی اجتماعی شکل ہے ۔ نبی ﷺ بھی اپنے اصحاب کو کبھی انفرادی تو کبھی اجتماعی شکل میں دین سکھاتے تھے ۔ اصحاب صفہ دین سیکھنے کی اجتماعی شکل اور صحابہ کرام کا مدرسہ تھا۔ (7) مدرسوں کے لئے چندہ لینا: اسلام میں زکوۃ کے آٹھ مصارف ہیں ، ان مصارف کی روشنی میں دینی اور فلاحی اداروں پہ زکوۃ کی رقم صرف کرنا جائز ہے ، اس لئے ہم مدارس کے لئے چندہ وصول کرتے ہیں ۔ زکوۃ کے علاوہ بھی لوگ عطیات دیتے ہیں جن کا لینا اسلام میں جائز ہے ۔ (8) تہجد کی اذان دینا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں فجر کی دو اذانیں ہوتی تھیں ، ایک طلوعِ فجر سے پہلے اور دوسری طلوع فجر کے بعدچا نچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’الجامع الصحیح‘ میں دو ہی باب باندھے ہیں۔ پہلا باب ہے بَابُ الْاَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ اور دوسرا باب ہے ۔بَابُ الْاَذَانِ بَعْدَ الْفَجْرِ اور دوہی حدیثیں بھی ذکر فرمائی ہیں. پہلی حدیث ہے: عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ : «لَا یَمْنَعَنَّ اَحَدَکُمْ اَوْ اَحَدًا مِّنْکُمْ۔ اَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سَحُوْرِہٖ فَإِنَّہُ یُؤَذِّنُ اَوْ یُنَادِیْ بِلَیْلٍ لِیَرْجِعَ قَائِمَکُمْ ، وَلِیُنَبِّہَ نَائِمکُمْ… الخ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی بلال رضی الله عنہ کی اذان سن کر سحری کھانا ترک نہ کرے کیونکہ وہ رات کو اذان کہہ دیتا ہے تاکہ تہجد پڑھنے والا(آرام کے لیے ) لوٹ جائے اورجو ابھی سویا ہوا ہے اسے بیدار کر دے۔ اور دوسری حدیث ہے: عَنْ عَائِشَة وَابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ : اِنَّ بِلَالًا یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُؤَذِّنَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات کو اذان دیتے ہیں اس لیے تم (روزہ کے لیے ) کھاتے پیتے رہو تاآنکہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دیں۔ نوٹ : یاد رہے ہم اسے اذان تہجد نہیں کہتے بلکہ فجر کی پہلی اذان کہتے ہیں اس لئے اپنی اصلاح فرمالیں ۔ (9) ختم بخاری کرنا: بخاری شریف کا درجہ اسلام میں قرآن کے فورا بعد ہے ، اس لئے اس کے پڑھنے پڑھانے ، سننے سنانے کا بڑا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ یعنی جتنے اہتمام سے امام بخاریؒ نے اس کی تصنیف فرمائی ہے اتنے ہی تزک و احتشام سے بخاری شریف کا علم حاصل کیا جاتاہے۔ جو اس کتاب کو پڑھائے انہیں شیخ الحدیث کے لقب سے ملقب کیا جاتا ہے ۔ اور جو اسے پڑھے انہیں بخاری شریف کی احادیث بیان کرنے کی سند اجازت دی جاتی ہے اور جب بخاری شریف ختم ہوتی ہے تو آخر میں اس کتاب کے ختم ہونے کی خوشی میں ختم بخاری کے نام سے درس ہوتا ہے ۔ یہ درس بخاری ہے ، گجیڑیوں کا عرس اور درباروں میں ہونے والے بے غیرت مسلم خواتین کا ناچ گانا نہیں ۔ (10) اہل الحدیث کانفرس کرنا : اس کا جواب وہی ہے جو 4 نمبر میں درج ہے ۔ اور اہل الحدیث کا مطلب سمجھنا ہے تو تاریخ اہل حدیث پڑھ لو سمجھ آجائے گی ۔ (11) تراویح آٹھ رکعت پڑھنا: تراویح آٹھ رکعت ہی سنت ہے ، اس سے زیادہ سنتِ رسولﷺ سے ثابت نہیں۔ دلیل ملاحظہ ہو۔ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا کَيْفَ کَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا کَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَی إِحْدَی عَشْرَةَ رَکْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا(متفق علیہ صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1887) ترجمہ : ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (ابوسلمہ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز رمضان میں کیسی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ رمضان میں اور اس کے علاوہ دونوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ بڑھتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ ان کے طول و حسن کو نہ پوچھو۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے جن کے طول و حسن کا کیا کہنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔
  7. جزاک الله الله پاک اپ سب کے علم میں مزید برکتیں عطا فرماۓ آمین
×
×
  • Create New...