Jump to content

Brailvi Haq

اراکین
  • کل پوسٹس

    205
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    5

پوسٹس ںے Brailvi Haq کیا

  1. محترم_____ امتاع الاسماع میرے پاس موجود ہے اور میں یہ سند پہلے ہی دے چکا ہوں...وہابی کا اعتراض یہ ہے کہ اس سند میں محمد بن سائب المکی نامی راوی نہیں بلکہ محمد بن سائب الکلبی نامی راوی ہیں جو کہ ضعیف ہیں.........

    میں نے اصل میں یہی بات پوچھی تھی کہ محمد بن سائب المکی نامی راوی کا پورا نام سند میں مل.جائے تاکہ یہ روایت صحیح ثابت ہو........

  2. حضرت...........

     

    فیس بک پہ وہابی کافی دن بعد آیا ہے. اور یہی رٹ لگارکھی ہے کہ اللہ نے کہاں حکم دیا کچھ علوم چھپانے کا......

    قرآن یا حدیث میں.....

     

    post-17574-0-98143000-1476014821_thumb.jpg

     

    اس کے کمنٹس چیک کریں......

     

    علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے آئمہ کا قیامت کے متعلق علم رکھنے کا حوالہ.دیا تو اس کا جواب

     

    post-17574-0-19449500-1476014924_thumb.jpg

     

    کہتا ہے کہ ائمہ کا کوئی قول قبول نہیں اور قرآن و حدیث کے مقابلے پہ رد کردیا جائے گا اور علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ پہ شرک کا فتوی بھی لگا چکا ہے کہ اگر یہی عقیدہ وصال کے وقت تک تھا تو شرک پہ مرے (نعوذباللہ)

     

    post-17574-0-28406000-1476015093_thumb.jpg

  3. محترم.......سگ مدینہ

     

    آپ نے جو سند دی......

    اور اس کی تخریج نقل کی.....کیا اس کا سکین پیج مل جائے گا....سند کی توثیق کا....

     

    جس میں محمد بن سائب بن برکۃ المکی کا پورا نام شامل.ہو

     

    وہابی نے محمد بن السائب کلبی نامی راوی کو چونکہ محمد بن سائب بن برکۃ المکی بنا کر پیش کیا ہے سس لئے سند کا سکین چاہئے.....

    ..

    آپ نے الوفاہ جلد 1 کا حوالہ دیا مجھے اس میں سے نہیں ملا.....

  4. یہ ایک وہابی پوسٹ ہے

     

    کیا امام شافعی امام ابوحنیفہؒ کی قبر پر گئے تھے؟

     

    سوال: ایک روایت میں آیا ہے کہ امام شافعیؒ نے فرمایا:

    “إني لأتبرک بأبي حنیفۃ و أجي إلیٰ قبرہ في کل یوم۔ یعني زائراً۔ فإذا عرضت لي حاجۃ صلیت رکعتین و جئت إلیٰ قبرہ و سألت اللہ تعالیٰ الحاجۃ عندہ فما تبعد عني حتیٰ تقضی”

    میں ابوحنیفہ کے ساتھ برکت حاصل کرتا اور روزانہ ان کی قبر پر زیارت کے لئے آتا ۔ جب مجھے کوئی ضرورت ہوتی تو دو رکعتیں پڑھتا اور ان کی قبر پر جاتا اور وہاں اللہ سے اپنی ضرورت کا سوال کرتا تو جلد ہی میری ضرورت پوری ہوجاتی۔(بحوالہ تاریخ بغداد) کیا یہ روایت صحیح ہے ؟ (ایک سائل)

    الجواب:

    یہ روایت تاریخ بغداد (۱۲۳/۱) و اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ للصیمری (ص ۸۹) میں “مکرم بن أحمد قال: نبأنا عمر بن إسحاق بن إبراھیم قال: نبأنا علي بن میمون قال: سمعت الشافعي….“ کی سند سے مذکور ہے۔

    اس روایت میں “عمر بن اسحاق بن ابراہیم” نامی راوی کے حالات کسی کتاب میں نہیں ملے۔

    شیخ البانیؒ فرماتے ہیں:”غیر معروف….” یہ غیر معروف راوی ہے …. (السلسلۃ الضعیفہ ۳۱/۱ ح ۲۲)

    یعنی یہ راوی مجہول ہے لہٰذا یہ روایت مردود ہے۔

    اس موضوع و مردود روایت کو محمد بن یوسف الصالحی الشافعی (عقود الجمان عربی ص ۳۶۳ و مترجم اردو ص ۴۴۰) ابن حجر ہیثمی/مبتدع (الخیراب الحسان فی مناقب النعمان عربی ص ۹۴ و مترجم ص ۲۵۵]سرتاجِ محدثین[) وغیرہما نے اپنی اپنی کتابوں میں بطورِ استدلال و بطور ِ حجت نقل کیا ہے مگر عمر بن اسحاق بن ابراہیم کی توثیق سے خاموشی ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔ اسی ایک مثال سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تحقیق و انصاف سے دور بھاگنے والے حضرات نے کتبِ مناقب وغیرہ میں کیا کیا گل کھلا رکھے ہیں۔ یہ حضرات دن رات سیاہ کو سفید اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں حالانکہ تحقیقی میدان میں ان کے سارے دھوکے اور سازشیں ظاہر ہوجاتی ہیں پھر باطل پرست لوگوں کو منہ چھپانے کے لئے کوئی جگہ نہیں ملتی ۔ مردود روایات کی ترویج کرنے والے ایک اور روایت پیش کرتے ہیں کہ شہاب الدین الابشیطی (۸۱۰؁ھ وفات ۸۸۳؁ھ) نامی شخص نے (بغیر کسی سند کے ) نقل کیا ہے :

    امام شافعیؒ نے صبح کی نماز امام ابوحنیفہؒ کی قبر کے پاس ادا کی تو اس میں دعائے قنوت نہیں پڑھی۔ جب ان سے عرض کیا گیا تو فرمایا :اس قبر والے کے ادب کی وجہ سے دعائے قنوت نہیں پڑھی۔ (عقود الجمان ص ۳۶۳، الخیرات الحسان ص ۹۴ تذکرۃ النعمان ص ۴۴۱،۴۴۰ سرتاج محدثین ص ۲۵۵)

    یہ سارا قصہ بے سند، باطل اور موضوع ہے۔اسی طرح محی الدین القرشی کا طبقات میں بعض (مجہول) تاریخوں سے عدمِ جہر بالبسملہ کا ذکر کرنا بھی بے سند ہونے کی وجہ سے موضوع اور باطل ہے ۔

    شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے امام شافعیؒ کے امام ابوحنیفہؒ کی قبر پر جانے والے قصے کا موضوع اور بے اصل ہونا حدیثی اور عقلی دلائل سے ثابت کیا ہے۔ دیکھئے “اقتضاء الصراط المستقیم” (ص ۳۴۴،۳۴۳ دوسرا نسخہ ص ۳۸۶،۳۸۵) جو شخص ایسا کوئی قصہ ثابت سمجھتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے پیش کردہ قصے کی صحیح متصل سند پیش کرے۔ مجرّد کسی کتاب کا حوالہ کافی نہیں ہوتا۔

    تنبیہ بلیغ: امام محمد بن ادریس شافعیؒ سے امام ابوحنیفہؒ کی تعریف و ثنا قطعاً ثابت نہیں ہے بلکہ اس کے سراسر برعکس امام شافعیؒ سے امام ابوحنیفہؒ پر جرح باسند صحیح ثابت ہے دیکھئے آداب الشافعی و مناقبہ لابن ابی حاتم (ص ۱۷۱، ۱۷۲ و سندہ صحیح، ۲۰۲،۲۰۱ و سندہ صحیح) تاریخ بغداد (۴۳۷/۱۳ و سندہ صحیح، ۱۷۷،۱۷۸/۲ و سندہ صحیح) لہٰذا اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ امام شافعیؒ کبھی امام ابوحنیفہؒ کی قبر کی زیارت کے لئے گئے ہوں۔ وما علینا إلا البلاغ (۱۰ربیع الثانی ۱۴۲۷؁ھ)

  5. عثمانی وغیرہ کو تو چھوڑیں......میں نے کہا کہ آپ سرفراز صفدر کی کتاب سےاعتراضات پیش کررہے ہیں تو کہتا ہے...واللہ,ہم نے نام ہی پہلی بار سنا ہے...کون ہیں یہ صاحب......کہتا ہے میں حنفی ہوں ,دیوبندی یا بریلوی نہیں... ......اب ایسی صورتحال میں کیا کہا جائے ورنہ دیوبندیوں کے بڑے خود اپنے دھرم کے لئے اجتماعی خودجشی کا بندوبست کرگئے ہیں

  6. حضرت خضر علیہ السلام پہ علم غیب کے اطلاق کا قول تفسیر ابن کثیر سے دکھانے پہ وہابی پوسٹ

     

    غیب سے متعلق زبردست علمی پوسٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    علم غیب کا لفظ صرف اللہ کے لئے بولا جاتا ہے کسی مخلوق کے لئے نہیں

    غیب کی تعریف بریلوی کتب جاء الحق، علم الرسول وغیرہ میں ہے کہ غیب سے مراد وہ پوشیدہ باتیں ہیں جس سے حواس انسانی نہ پاسکیں اور نہ بداھت عقل اسے ثابت کرے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علم کو علمِ غیب کہیں گے جو حواسِ ظاہرہ اور باطنہ سے نہ آ سکے۔ تو سرکارِ طیبہ صلی اللہ علیہ و سلم کا علم تو حواسِ ظاہرہ و باطنہ سے ہوا ہے اسے علمِ غیب نہیں کہا جا سکتا۔

    آپ دیکھیں انبیاء علیہم السلام کی طرف جو علم القاء کیا گیا ہے اسے قرآن یوں کہتا ہے:

    ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ•

    (یوسف:102)

    ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ•

    (آل عمران:24)

    تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ•

    (ھود:49)

    ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْقُرَى نَقُصُّهُ عَلَيْكَ•

    (ھود:100)

    نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَ@Z@Zpp\ِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ كُنتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنْ الْغَافِلِينَ•

    (یوسف:3)

    وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ•

    (آل عمران:179)

    وغیرہا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو جو علم دیا گیا ہے وہ علم وحی ہے یااخبار غیب، اطلاع غیب اور انباء غیب۔ اس کو پورے قرآن میں علم غیب کہیں بھی نہیں کہاگیا اور قرآن مقدس نے جگہ جگہ خدا تعالیٰ کے لیے عالم الغیب کا لفظ استعمال کیا ہے :

    1: عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ

    (الحشر:22)

    2: عَالِمُ غَيْبِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ•

    (فاطر: 38)

    3: قُلْ لا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ الْغَيْبَ إِلاَّ اللَّهُ•

    (النمل: 65)

    4: إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ•

    (الحجرات: 18)

    وغیرہا آیات دلالت کر رہی ہیں کہ علم غیب اور عالم الغیب کے الفاظ اللہ ہی کےلیے اداکیے جاسکتے ہیں۔ یہی بات کئی محققین کے قلم سے زیب قرطاس ہوتی ہے جیساکہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

    الوجدان الصریح یحکم بان العبد عبد وان ترقی وان الرب رب وان تنزل وان العبد قط لا یتصف بالوجوب اوبا الصفات الازمۃ للوجوب ولا یعلم الغیب ینطبع شیئ فی لوح صدرہ ولیس ذالک علماء بالغیب انما ذلک یکون من ذاتہ ( یعنی علم غیب ازخود ہوتاہے نہ کہ کسی کا عطاکردہ ) فالانبیاء والاولیاء یعلمون لا محالۃ بعض مایغیب عن العامۃ•

    (تفہیمات الہیہ ج1ص245)

    اور علامہ شامی فرماتے ہیں:

    فعلم اللہ المذکور ہو الذی یمدح بہ و اخبر فی الآیتین المذکورتین بانہ لا یشارکہ فیہ احد فلا یعلم الغیب الا ہو و ما سواہ ان علم جزئیات منہ فہو باعلامہ و اطلاعہ لہم و حینئذ لا یطلق انہم یعلمون الغیب اذ لا صفۃ لہم یقتدرون بہا علی الاستقلال بعلمہ (یعنی یہ ان کی کوئی ایسی صفت نہیں ہے کہ جس سے وہ مستقل طور پر کسی چیز کو جان سکیں) ایضاً ہم ما علموا و انما علّموا•

    (رسائل ابن عابدین ج2ص313)

    علامہ عبدالعزیز پرھاروی لکھتے ہیں:

    و اما علم بحاستہ او ضرورۃ (بداہۃ عقل) او دلیل فلیس بغیب و لا کفر فی دعواہ و لا فی تصدیقہ علی الجزم فی الیقینی و الظن عند المحققین و بہذا التحقیق اندفع الاشکال فی الامور التی یزعم انہا الغیب و لیست منہ لکونہا مدرک بالسمع او البصر او الدلیل فاحدہما اخبار الانبیاء لانہا مستفادۃ من الوحی و من خلق العلم الضروری فیہم او من انکشاف الکوائن علی حواسہم•

    (نبراس علی شرح القائد ص 343)

    اب معلوم ہو گیا کہ انبیاء علیہم السلام کی باتوں کو اور خبروں کو علم غیب نہیں کہاجائےگا

×
×
  • Create New...