Jump to content

Saeedi

رکنِ خاص
  • کل پوسٹس

    1,086
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    280

سب کچھ Saeedi نے پوسٹ کیا

  1. میرے مکرم! میں نے مروان کو بے گناہ ڈیکلیئر نہیں کیا جو آپ کا یہ مطالبہ درست ھو۔ میرا مقصد یہ تھا کہ اس بات میں دو قول ملتے ہیں کہ حضرت طلحہ کو مروان کا تیر لگا تھا یا نامعلوم شخص کا تیر لگا تھا۔ جب قول دو ھوں گے تو دونوں قول بیان کرنے والے مصنفین کو آپ ناصبی کیسے اور کیوں کہ رھے ھیں، کیا علامہ بدرالدین عینی بھی جناب کے معیار کے مطابق ناصبی ھے؟ کیا آپ کو یقین ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تک حضرت طلحہ کو مروان کے تیر مارنے کا قول پہنچا تھا اور سہم غرب (نامعلوم تیر) کا قول نہ پہنچا تھا؟
  2. آل طلحہ کی FIR کا آپ سے اس لئے کہا تھا کہ آپ آج مروان کو یقین کے ساتھ تیر انداز نامزد کر رہے ہیں مگر آل طلحہ کو یہ یقین نہیں تھا ۔ ابن کثیر نے مروان کے علاوہ نامعلوم تیر انداز کا قول لکھا تو جناب نے اسے ناصبی قرار دے دیا ۔ کیا اور جس جس نے بھی مروان کے علاوہ نامعلوم تیر انداز کا قول لکھا ھے، وہ سب بھی ناصبی ھیں؟
  3. میرے مشفق آپ بھول رھے ھیں ۔ خلافت راشدہ خاصہ کے لئے تو پیمانے اور بھی سخت ھو جاتے ہیں ۔ جو بات عادل خلیفہ کے لئے ناجائزہ ھو تو خاص خلفائے راشدین کے لئے وہ بدرجہ اولیٰ ناجائز ھو گی۔ اگر الزام علیہ مروان کو معاویہ گورنر بنائے تو اعتراض کرتے ہو، اور مولا مرتضیٰ اگر الزام علیہ محمد بن ابوبکرؓ کو گورنر بنائیں تو چپ سادھ لیتے ھو، کیا تمہارے لینے کے باٹ اور ہیں اور دینے کے باٹ اور ہیں؟
  4. آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ دونوں کے اقراری دعوے نہ ھوتے تو فیضی کی روایت میں یہ کیوں لکھا ھوتا کہ "یقول کل واحد منھما انا قتلتُہ(ان میں سے ھر ایک کہتا تھا کہ میں نے ان کو قتل کیا ہے" ۔ آپ تو فیضی پر بھی جھوٹ بول رہے ہیں ۔ آپ ایک طرف ابوالغادیہ کا دعویٰ بلا دلیل مان رہے ہیں اور دوسری طرف سکسکی کا دعویٰ بلا دلیل مسترد کر رہے ہیں ۔ بلکہ مرنے سے عین پہلے کے الفاظ اور کوئی نہ بتا سکا اور جس نے بتائے تو اس کی بات آپ بلا دلیل ٹھکرا رھے ھیں اور فیضی نے یہ روایت قبول کرتے ہوئے لکھی تھی اور اس کو مسترد نہ کر سکا تھا ۔ اور ھم ابوالغادیہ کے الفاظ اُس کے گمان پر محمول کرتے ہیں اور ابن حوی سکسکی کے دعویٰ کو مدلل ھونے کی وجہ سے حقیقت پر ۔ 1۔ سر قلم کر کے لانے والا وھی ھے۔2۔ بیان نزعیdying declaration کا گواہ وھی ھے۔ 3۔ "میرے صحابی اے عمار تجھے قتل نہ کریں گے" کی روایت کے موافق ھے۔4۔ قرآن میں سب صحابہ کے لئے الحسنیٰ اور حدیث میں سب صحابہ کے لئے طوبیٰ کی خوشخبری کا بھی یہی مقتضیٰ ھے۔ اور بھی دلائل ہیں مگر "اَینٹی صحابہ " کے لئے فی الحال یہی کافی ہیں ۔
  5. اس مقدمہ میں آپ کا موقف روافض والا ہے، کیا میں آپ کے مقابلے میں اُن کے حوالے پیش کروں تو وہ آپ پر حُجت ھوں گے؟ آپ کو رافضی حوالے پیش کرتے ہیں، اس لئے آپ کا اپنا مطالعہ نہیں ہے ورنہ سارا مقدمہ پڑھتے تو آپ کو پتہ چلتا کہ مولا علی مرتضیٰ چل کر عثمان رضی اللہ عنہ کے وارث سے اس کا بیان لینے آئے تھے یا نہیں؟ اور محمد بن ابوبکرؓ نے تسلیمی بیان کیا دیا؟ اور زوجہ عثمان نے اسے کتنا ذمہ دار ٹھہرایا؟ آپ آل طلحہ کی مروان کے خلاف FIR پیش کریں اور میں یہ حوالہ جناب کے حوالے کر دوں گا ۔
  6. جناب آپ نے طلحہ رضی اللہ عنہ کے کسی وارث سے مروان کو الزام علیہ بنائے بغیر اُسے گورنر بنانے کے فعل کو خلافت عادلہ کی نفی کی بنیاد بنایا تھا ۔ ۔ ۔ میں نے جناب کے بارے مسلمہ قاعدہ کلیہ کو الزاما جناب پر لوٹایا ھے ۔ ۔ ۔ میرا وہ مسلک نہیں ہے ۔ ۔ ۔ آپ کا مسلک آپ کو مبارک ہو ۔ ۔ ۔ جناب مرتضیٰ مشکل کشا کو جو FIR پیش ھوئی اُسے پڑھو۔ ۔ ۔ وارثان طلحہ کی ایف آئی آر کی سند پیش کرو تو آپ کو آپ کی مطلوبہ سند بھی پیش کر دیں گے انشاءاللہ ۔
  7. جناب والا جب ثقہ راویوں سے مروی ھے کہ دو بندے حضرت عمارؓ کے قتل کے بزعم خویش مدعی ہیں۔ (شرح خصائص علی از ظہور فیضی: رقم حدیث:159)۔ تو ثابت کریں کہ کس کے قاتلانہ حملے سے حضرت عمار کی فی الواقع موت واقع ھوئی؟ ابھی لاش کے ٹھنڈے ھو جانے والی دلیل آپ کی غلط ھو چکی ۔ آپ کے ساتھی ظہور فیضی اپنی اسی کتاب کے صفحہ888 پر ابوالغادیہ کی بجائے ابن جوی کے دعویٰ کے ثابت ھونے کی روایت پیش کر کے اُسے برقرار رکھتے ہیں ۔
  8. آپ کا اپنا نشان زدہ حصہ(میں نے اسے ایسی تلوار ماری کہ ٹھنڈے ہوگئے) آپ کی روایت کی سچائی پر بہت بڑاسوالیہ نشان(؟) ہے۔کیونکہ طب قانونی کی کتابوں میں پوسٹ مارٹم کے باب میں لکھا ہوا ملتاہے کہ( مرنے کے ساتھ ہی جسمانی درجہ حرارت 1.6 ڈگری فیرن ہائیٹ (0.89 ڈگری سینٹی گریڈ) فی گھنٹہ کی شرح سے کم ہونے لگتا ہےیہاں تک کہ وہ ارد گرد کے درجہ حرارت جتنا ہوجاتا ہے۔ )تلوار مارتے ہی ٹھنڈے ہو جانے کے الفاظ ہرگز صحیح نہیں ہو سکتے۔
  9. اس کا اصولی جواب تو میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں۔ آپ کی روایت میں قتل سے مراد قاتلانہ حملہ ہے اور ابوالغادیہ سے قتل کی کوشش تو منقول ہے۔عمار کی موت کی تصدیق کرنا ابوالغادیہ سے منقول نہیں۔اورکوئی بھی شخص مرکر گرتے ہی فوری طور پرٹھنڈا نہیں ہو جاتا۔ کیاآپ کے نزدیک ابوالغادیہ کے صحابی ہونے پر اجماع ہے؟ کیا آپ کے نزدیک ابوالغادیہ کے قاتل عمارؓ ہونے پر اجماع ہے؟ آپ اقوال رجال اور ضعیف حدیث میں اختلاف کے وقت کس کو ترجیح دیتے ہیں؟
  10. قتلِ عثمان کی ایف آئی آر ہوچکی اور قاتلوں کا شریکِ کار بھی تسلیمی بیان دے چکا۔ اب حضرت علی مرتضیٰ نے عثمان کے خون کاقصاص کیوں نہ لیا؟ اگر یہ خود ہی قصاص لے لیتے تو جمل وصفین کی جنگوں کا موقع ہی پیش نہ آتا۔ آپ جن جنگوں کو دھوکہ پر مبنی قرار دے رہے ہیں،نبی کریم ﷺ نے ان جنگوں کو تاویلِ قرآن پر مبنی بتایا ہے۔اور ظاہر ہے کہ یہ اجتہادی جنگیں ہیں اوران کو دھوکہ پر مبنی بتانا حدیث کے خلاف ہے۔ اور نواب صدیق حسن بھوپالی کا حوالہ کسی غیرمقلد کے سامنے پیش کرنا ،میں اس کو کچھ نہیں جانتا۔
  11. بات یہ ہے کہ تاریخ الخلفاء کے عربی الفاظ (وتسمى بالخلافة)کا ترجمہ مترجم نے درست نہ کیا تھا، (اورخلافت سے موسوم کیا گیا )کی بجائے (اپنے آپ کو خلیفہ سے موسوم کیا) کے ترجمہ سے جو غلط فہمی پیدا ہو رہی تھی وہ میں نے طبری کی روایت سے کلیئر کی اگرچہ آپ کے اوپر سے گزر گئی ہے۔ ابن کثیر نے دوسرا قول لکھا ہے کہ مروان کے علاوہ حضرت طلحہ کوکسی اور کا تیر لگاتھا۔اور ابن کثیر نے اُسی دوسرے قول کو ترجیح دی ہے۔اگر معاملہ اتنا واضح ہوتا تو حضرت طلحہ کے وارث کسی کو قصاص کے لئے نامزدکرتے۔ اگر حضرت معاویہ کے سامنے حضرت طلحہ کے کسی وارث نے مروان کو قصاص کے لئے نامزد کیا ہو اور حضرت معاویہ نے اس کے بعد مروان کو گورنر بنایا ہوتو ثبوت پیش کرو۔ حضرت علی نے محمد بن ابوبکر کو مصر کا گورنر بنا کر بھیجا حالانکہ حضرت نائلہ نے حضرت علی کے سامنےاُسے قاتلانِ عثمان کا شریکِ کار نامزد کیا تھا۔اس کلیہ کے ہوتے ہوئے آپ حضرت علی کو خلیفہ راشد کس منہ سے ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں؟
  12. مکرمی جناب قاسم صاحب! آپ کا یہ مطالبہ غلط ہے کیونکہ حضرت عمار کے قاتل کا صحابی نہ ہونا حضرت عمار کے لئے بھی فضیلت ہے اور صحابہ کرام کے لئے بھی فضیلت ہے۔اور فضیلت کے لئے روایت کا صحیح ہونا لازمی نہیں بلکہ ضعیف روایت بھی کافی ہے۔ اگرچہ اس سے ارادہ قتل یا قاتلانہ حملہ کی نفی نہیں ہوتی۔
  13. پہلے آپ نے قصاص عثمان کے مطالبہ کے غلط ھونے کی وجہ بتائی تھی : حضرت علی کو حضرت عثمان کے قتل میں شریک جاننا۔ اب آپ مطالبہ قصاص عثمان کے غلط ھونے کی پہلی وجہ کو باطل کرتے ہیں اور وجہ بتاتے ہیں وارثوں کا ایف آئی آر درج نہ کرانا۔ اس سلسلے ميں عرض ھے کہ مدینہ شریف میں دشمنانِ عثمان رضی اللہ عنہ دندناتے پھر رھے تھے اور پسرانِ عثمان اپنی جان بچاتے اور چھپتے پھررہے تھے ۔ سترہ بندوں نے رات کو نماز جنازہ ادا کی ۔ F. I. R درج کرانے والے کا کیا حشر ھوتا۔ بہرحال جنابِ عدالت مآب حضرتِ اقضیٰ مولا علی مرتضیٰ خود ھی حضرت نائلہ زوجہ عثمان کا بیان لینے تشریف لے آئے اور پوچھا کہ عثمان کو کس نے قتل کیا؟ جواب آیا کہ میں نہیں جانتی وہ دو شخص تھے اُن کے ساتھ محمد بن ابوبکرؓ تھا ۔ ۔ ۔ حضرت علی نے محمد بن ابوبکرؓ کو بلایا، اس نے تصدیق کی ۔ پھر حضرت نائلہ نے کہا کہ قاتلوں کو یہی اندر لایا تھا ۔ اب فرمایا جائے کہ وارث کی طرف سے FIR بھی ھو گئی اور گواہ بھی گزر چکا تو اب تو عثمان کے خون کا قصاص دلوانے کا مطالبہ کرنے میں ھر شہری حق بجانب تھا۔
  14. 1 مستدرک حاکم اور طبقات کبریٰ میں حضرت عمارؓ کے بیک وقت تین قاتل ہونے کی روایت موجود ہے۔(عَمَّارٌ وَهُوَ ابْنُ إِحْدَى وَتِسْعِينَ سَنَةً، وَكَانَ أَقْدَمَ فِي الْبِلَادِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ أَقْبَلَ إِلَيْهِ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ: عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ الْجُهَنِيُّ، وَعُمَرُ بْنُ الْحَارِثِ الْخَوْلَانِيُّ، وَشَرِيكُ بْنُ سَلَمَةَ فَانْتَهُوا إِلَيْهِ جَمِيعًا وَهُوَ، يَقُولُ: «وَاللَّهِ لَوْ ضَرَبْتُمُونَا حَتَّى تَبْلُغُوا بِنَا سَعَفَاتِ هَجَرَ لَعَلِمْنَا أَنَّا عَلَى الْحَقِّ وَأَنْتُمْ عَلَى الْبَاطِلِ» ، فَحَمَلُوا عَلَيْهِ جَمِيعًا فَقَتَلُوهُ)۔تینوں نے عمار ؓ پر بیک وقت حملہ کرکے اُسے قتل کر دیا۔ ان تین میں ابوالغادیہ کا نام نہیں ہے۔ 2 البدایہ والنہایہ ابن کثیر میں پہلے یہ لکھا ہے:۔فَأَمَّا أَبُو الْغَادِيَةِ فَطَعَنَهُ، وأما ابن جوى فَاحْتَزَّ رَأْسَهُ۔ ابوالغادیہ نے نیزہ مارا،ابن حوی نے سر قلم کیا۔ البدایہ والنہایہ ابن کثیر میں بعد میں یہ بھی لکھا ہے۔(وَكَانَ لَا يَزَالُ يَجِيءُ رَجُلٌ فَيَقُولُ لِمُعَاوِيَةَ وَعَمْرٍو: أَنَا قَتَلْتُ عَمَّارًا. فَيَقُولُ لَهُ عَمْرٌو: فَمَا سَمِعْتَهُ يَقُولُ؟ فَيَخْلِطُونَ فِيمَا يُخْبِرُونَ، حَتَّى جَاءَ ابْنُ جَوْی فَقَالَ: أَنَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ: الْيَوْمَ أَلْقَى الْأَحِبَّةْ ... مُحَمَّدًا وَحِزْبَهْ ۔فَقَالَ لَهُ عَمْرٌو: صَدَقْتَ أَنْتَ، إِنَّكَ صَاحِبُهُ)۔یعنی جو بھی معاویہ اور عمرو کے پاس آکرکہتا کہ میں نے عمارؓ کو قتل کیا ہے تو عمرو اُس سے پوچھتا کہ جب تونے اُسے قتل کیا تو تُو نے اُسے کیا کہتے سنا؟تو وہ خلط ملط کرنے لگتے(بوکھلا جاتے) ،یہاں تک کہ ابن حوی (سکسکی) آیا تو اُس نے کہا۔ اُسوقت میں نے اُسے یہ کہتے سنا کہ:۔ آج ہم اپنے پیاروں سے ملیں گے۔احمد سے اور آپ کے یاروں سے ملیں گے۔ پس عمرو نے اُس کو کہا: تو سچ کہہ رہا ہے اورتو ہی اُس کا قتل کرنے والا صاحب ہے۔ اس روایت سے پتہ چلا کہ ابوالغادیہ کاقاتل ِ عمار ؓہونے کا دعویٰ ابوالغادیہ کا اندازہ تھا اور عمارؓ تو ابھی زندہ تھے اور کلامِ محبت فرما رہے تھے کہ ابن حوی سکسکی نے سرکاٹ کراُنہیں قتل کیا۔ 3 حافظ ابن حجر عسقلانی نے ابویعلیٰ کے حوالہ سے روایت لکھی ہے کہ ابوالغادیہ اور ابن حوی دونوں اپنے بیان سے منحرف ہوگئے تھے۔الاتحاف الخیرہ اور المطالب العالیہ میں ابن حجرعسقلانی نے ابوالغادیہ کی زبان سےروایت یوں نقل فرمائی ہے کہ(7386 / 5 - وَرَوَاهُ أَبُو يَعْلَى الْمَوْصِلِيُّ وَلَفْظُهُ: عَنْ أَبِي غَادِيَةَ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: "حَمَلْتُ عَلَى عَمَّارِ بْنِ ياسر يوم صفين، فَأَلْقَيْتُهُ عَنْ فَرَسِهِ وَسَبَقَنِي إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ أهل الشام فاجتز رَأْسَهُ، فَاخْتَصَمْنَا إِلَى مُعَاوِيَةَ فِي الرَّأْسِ، وَوَضَعْنَاهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، كِلَانَا يَدَّعِي قَتْلَهُ، وَكِلَانَا يَطْلُبُ الْجَائِزَةَ عَلَى رَأْسِهِ، وَعِنْدَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٌو: سَمِعْتُ رسولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَقُولُ لِعَمَّارٍ: تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ، بَشِّرْ قاتل عمار بالنار. فتركته مِنْ يَدَي، فَقُلْتُ: لَمْ أَقْتُلْهُ، وَتَرَكَهُ صَاحِبِي مِنْ يَدِهِ، فَقَالَ: لَمْ أَقْتُلْهُ)۔ اب ابوالغادیہ کے قاتلانہ حملہ کے بعد عمارؓ کے زندہ ہونے اور کلام کرنے کا ثبوت سننے کے بعد ابوالغادیہ کا یہ کہنا کہ (میں نے اسے قتل نہیں کیا) درست ہو گیا مگر ابن حوی سکسکی کا اپنے بیان سے منحرف ہونا جھوٹ کہا جا سکتا ہے۔
  15. منہاج القرآن کی جتنی مسجدیں ہیں سب میں عیسائیوں کو بلاکرہرسال کرسمس مناؤ اور اُن کی مشرکانہ عبادت کراؤ تاکہ تمہاری منہاجی سنت کا مسلمانوں کو پتہ چلے اور اُن کو بتاؤ کہ یہودونصاریٰ کوبھی کافروں میں شمار نہ کرو۔ یہ بھی بیلیورزہیں اور یہ نان بیلیورز نہیں۔
  16. ۔۱۔ فضائل بشمول معجزات وکرامات کے لئے ضعیف یا مجروح ومطعون راوی کی روایت مقبول ہوتی ہے مگر مطاعن یا افضلیت کے اثبات کے لئے نہیں ہوتی۔اور اگر فضائل کے باب میں ایسی روایت آ جائے جس میں طعن کی بات نظر آئے تو طعن والے مقام میں علماء تاویل کرتے ہیں۔ شیعہ کا لفظ کئی معنوں میں آیا ہے مگر جب اسے الزام کا نام دیں تو معنی کوئی اچھا تو نہیں لیا جائے گا ورنہ خوبی کو تو کوئی الزام نہیں کہتا۔ باقی ایسے الزام علیہ کی وہ روایات جو الزام پروری کریں وہ کیونکر معتبر مانی جا سکتی ہیں؟ ۔۲۔ سلیمان علیہ السلام کے صحابہ کرام تو چیونٹی پر بھی جان بوجھ کر ظلم نہیں کرتے تھے۔سورۃ النمل:۱۸۔قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ۔(بڑی چیونٹی بولی: اے چیونٹیو! اپنے گھروں میں چلی جاؤ،سلیمان اور ان کے لشکر بے خبری میں تمہیں کچل نہ ڈالیں) کیا ہمارے نبی ﷺ اپنے صحابہ کرام کی تربیت اُتنی بھی نہ کر سکے جتنی سلیمان علیہ السلام نے اپنے صحابہ کرام کی تربیت کی تھی؟صحابہ کرام سے لاشعوری طور پر ،اجتہادی وتاویلی طور پر سرزد ہونے والے افعال میں بھی زیادتی کی صورت نظر آئے گی ۔ ۔۳۔ کیا آپ نے بحوالہ قرطبی یہ تسلیم نہیں کیا کہ حضرت عثمان کا بیٹا ابان جنگ جمل میں حضرت عائشہ وطلحہ وزبیر کے ساتھ تھا۔اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ طلحہ وزبیر نے حضرت علی کی بیعت کی تھی۔ اب بیعتِ علی کے بعد وہ دونوں پسرِ عثمان کے ساتھ قصاصِ عثمان کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آپ کی بیان کردہ دونوں باتیں(بیعت علی کریں، عثمان کا بیٹا قصاص کا طالب ہو) یہاں پائی جاتی ہیں ،اب آپ بتائیں کہ قصاص عثمان کا مطالبہ اب کیونکر ناجائز ہوگا؟
  17. جناب ابوالغادیہ کے علاوہ اور لوگ بھی آپ کے پیش کردہ حوالہ میں موجود تھے،وہ سب کہاں چلےگئے؟ پھر ابوالغادیہ سے قاتلانہ حملہ کرکے زخم پہنچنا اور گرنا آپ کے حوالہ میں تھا، سر قلم کرکے موت کے گھاٹ اتارنا دوسرے بندے کا کام لکھا تھا۔ آپ کا پیش کردہ مفصل حوالہ موجود ہے جو اجمالی حوالوں کی تٖفصیل کرے گا اور (لا یقتلک اصحابی) کی ضعیف روایت کی تائید کرتا رہے گا۔ قاتلانہ حملہ کرنا اور سر قلم کرکے موت کے گھاٹ اتارنا میں بہرحال فرق ہے۔
  18. جناب والا! یہ درست بات نہیں کہ معاویہ نے خود حکمین کے فیصلہ کے بعد کوخود کو خلیفہ سے موسوم کیا ۔ہاں ! یہ درست ہے کہ تاریخ طبری وغیرہ میں لکھا ہے کہ عمرو اوراہل شام حکمین کےفیصلے سے واپس معاویہ کے پاس پہنچے تو(سَلَّمُوا عَلَيْهِ بالخلافة) اُنہوں نے اُس کو خلیفہ کہہ کر سلام کیا۔تاہم طبری نے اس سند یوں(قَالَ أَبُو مخنف: حَدَّثَنِي أَبُو جناب الكلبي أن عمرا وأبا مُوسَى) بیان کی۔اور ابومخنف کی بات پر ہمیں کتنا بھروسہ ہے، وہ آپ جانتے ہی ہیں۔ پھر ہماری گفتگو مطلق لفظِ خلیفہ میں نہیں تھی(جو بمعنی حاکم ہے) بلکہ عادل وراشد خلیفہ ہونے کے متعلق تھی ۔ رہا صلحِ حسن سے پہلے کا معاملہ تو وہ تاویل(اجتہاد) کی خطا ہے،اور اُس وقت جناب معاویہ اپنے اجتہاد وتاویل میں خطا کے باعث بغاوت کے مرتکب تھے۔
  19. جی قاسم علی صاحب! اِتنی دھاندلی نہ کریں۔آپ نے خود ہی جو ریفرنس دیا ہے،وہ بھی دیکھ لیں۔ پھر آپ کا حوالہ اُنہیں زخمی کنندہ بتا رہا ہے ، سر کو بدن سے جدا کرکے قتل کرنے والا کسی اور بتا رہا ہے۔ پھر اگر اسی ملزم کو ہی مجرم قرار دینے کی ضد ہےتو جان لو کہ اس کے صحابی ہونے میں بھی اختلاف ہے چنانچہ ابن عساکر نے لکھا ہے کہ:۔ [10113] يسار بن سبع أبو الغادية- بالغين المعجمة- المزني، ويقال: الجهني:۔ .له صحبة، وقيل: لا صحبة له اورآپ جانتے ہی ہوں گے کہ احتمال آ جائے تو استدلال کا کیا بنتا ہے؟
  20. حضرت ابن عباس ؓ نے مولا علی علیہ السلام سے کہا کہ قسم بخدا ابوسفیان کا بیٹا معاویہ تم پر غالب آ جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو ناحق (ظلما) مارا جائے تو بے شک ہم نے اس (مظلوم مقتول)کے وارث کو قابو دیا۔ یہ مظلوم مقتول کے وارث کو قابو دینا :اگر مطالبہ قصاص سے متعلقہ نہیں تو آپ ہی عقدہ کشائی فرمائیں کہ قابو دینے سے کیا مراد ہے؟ حضرت علی علیہ السلام (بحیثیت حاکم )سے قتلِ عثمان کے قصاص کا ہی نہیں بلکہ ہر مقتول مظلوم کے قصاص کا حق دلانے کا مطالبہ کیا جا سکتا تھا۔اس مطالبہ کو غلط کہنا ہی غلط ہے۔ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کو حضرت علی کے نمائندے جناب قعقاع نے (بلوائیوں کا زور ٹوٹنے تک) تعجیلِ قصاص کی بجائے تاخیرِ قصاص کے لئے قائل کر لیا تھا۔ جس روایت میں حضرت زبیر کو حضرت علی کے متعلق(تقاتلہ و انت لہ ظالم) فرمایا گیا،اُس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عبدالملک الرقاشی ہے۔جو جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔پھراس کا استاد عبدالملک بن اعین کوفی ہے وہ بھی شیعی ہے۔ ضعیف روایت ہے تو اس سے کیا ثابت کرو گے؟ ضعیف روایت ہے ،نیزخون ناحق کے قصاص دِلوانے کے مطالبہ کو ظلم کہنا ہرگز درست نہیں۔ مشکل الآثارمیں امام طحاوی نے حدیث شریف لکھی جس میں ہے کہ: ان رسول اللہ ﷺ لما بلغہ ان عثمان قد قتل، فکانت بیعۃ الرضوان۔یعنی جب رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر پہنچی کہ تحقیق عثمان شہید ہوگئے تو پھر بیعتِ رضوان منعقد ہوئی۔ جس عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے ڈیڑھ ہزار صحابہ کرام سے لڑنے مرنے کی بیعت لی اور اللہ نے رضامندی کا پروانہ دیا،آج کے کلمہ گو کے نزدیک اُس عثمان کے خون کے قصاص کا مطالبہ ہی غلط ہو،کیا یہی اسلام ہے؟!!
  21. یسار بن سبع کو قاتل عمار کا ثبوت تو پہلے دیں پھر آگے چلتے ھیں۔ صحیح روایت میں ھے کہ دو بندے جھگڑ رھے تھے اور دونوں میں سے ھر ایک یہ دعویٰ کرتا تھا کہ عمار کو میں نے قتل کیا ہے ۔ تو آپ نے یسار بن سبع کو کیسے متعین کیا؟ لا یقتلک اصحابی (اے عمار تجھے میرے اصحاب قتل نہیں کریں گے)کے الفاظ کو العقدالفرید میں کمزور سند کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ۔ مگر یسار بن سبع کو قاتل عمار متعین کرنا تو اُس صحیح و اِس ضعیف دونوں کے خلاف ھے۔
  22. حضرت علی سے قاتلین عثمان کو الگ کرکے برائے قصاص سپرد کرنے کے مطالبے سے اُلٹا نتیجہ مت نکالو۔ کیا امیرمعاویہ نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اے علی! ہم نے تمہیں قصاص عثمان میں قتل کرنا ہے، اپنے آپ کو ہمارے سپرد کر دو۔ جب حضرت علی نے فرمایا کہ میرا عثمان کے قتل میں کوئی ہاتھ نہیں تو حضرت معاویہ نے فرمایا کہ ہم علی کی بات کی تردید نہیں کرتے۔ آپ جس کے مطالبہ کو 100%غلط سمجھتے ہیں۔حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ:۔ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ قَالَ: قُلْتُ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَايْمُ اللَّهِ لَيَظْهَرَنَّ عَلَيْكُم ُ ابْنُ أَبِي سُفْيَانَ، لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً تفسیر کبیر میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے مولا علی علیہ السلام سے کہا کہ قسم بخدا ابوسفیان کا بیٹا معاویہ تم پر غالب آ جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو ناحق (ظلما) مارا جائے تو بے شک ہم نے اس کے وارث کو قابو دیا۔(سورۃ الاسراء:۳۳)۔ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ توحضرت عثمان کے قتل کو ظلم بھی مان رہے ہیں،معاویہ کو آپ کا ولی بھی مان رہے ہیں،اور معاویہ کو اللہ کی طرف سے قوت وغلبہ ملنا بھی مان رہے ہیں۔ یہ روایت جامع معمر بن راشد میں موجود ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔عن ایوب عن ابی قلابہ عن زہدم۔
  23. کیا منہاج القرآن والے اپنی مساجد کی تطہیر کے لئے کرسمس مناتے اور پادریوں کو بلا کر اپنی مساجد میں نمازِ خاص پڑھواتے ہیں۔یہ تطہیر شیخ منہاج کا تجدیدی کارنامہ ہے۔
  24. میں نے حضرت علی کی خلافت کے دوران یا حضرت حسن کی خلافت کبھی بھی امیرمعاویہ کو خلیفہ نہیں بتلایا تو مجھ سے آپ کا یہ سوال کرنے کا جواز ہی نہیں بنتا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ یا تو میرا جواب ہی نہیں پڑھتے یا دھوکہ دہی کے لئےجان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں ۔
  25. ابن تیمیہ نے وضع احادیث کے فتنہ کا ذکر کیا ہے اور اس حد تک ہم اس سے متفق ہیں اور ناصبیوں نے امویوں کے فضائل میں اور رافضیوں نے اہل بیت کے فضائل میں روایات گھڑی ہیں۔ ابن تیمیہ کے شاگرد ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا کہ فضائل معاویہ کے لئے میں نے صحیح و حسن حدیثیں بیان کر دی ہیں اور ہمیں موضوع روایات کی حاجت ہی نہیں ہے۔ وَاكْتَفَيْنَا بِمَا أَوْرَدْنَاهُ مِنَ الْأَحَادِيثِ الصحاح والحسان والمستجادات عما سواها من الموضوعات وَالْمُنْكَرَاتِ. رہ گیا بعض صحابہ سے لغزش یا گناہ ہونا تو وہ ممکن بلکہ واقع ہے اور ہم ان کو معصوم نہیں مانتے۔ عبدالرحمٰن بن عُدَیس البلوی مخالفین عثمان ؓ میں تھا،دنیا میں ہی بدلہ دے گیا۔ یسار بن سبع حضرت عمار کا قاتل تھاتو صحابی نہ ہوگا اور اگرصحابی تھا تو عمار کا قاتل کیونکر ہوسکتا ہے جب کہ حدیث منقول ہے کہ عمار تجھے میرے صحابی قتل نہیں کریں گے بلکہ باغی گروہ قتل کرے گا۔
×
×
  • Create New...