Jump to content

Saeedi

رکنِ خاص
  • کل پوسٹس

    1,086
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    280

پوسٹس ںے Saeedi کیا

  1. 21 hours ago, ghulamahmed17 said:

    استغفراللہ

     جھوٹی شہادتوں پر اک صحابی رسولﷺ کو قتل کرنے پر کتنے ثواب ملتے ہیں ، ایک یا دو 

     

    صحابی رسولﷺ حضرت حجر بن عدیؓ کا ظلماً قتل کا واقعہ اور شہادتیں

     

     

    --------------
    سن 51 ہجری  کے واقعات
    ------------------------
     " امیر معاویہ اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما
     معاویہ ابن ابی سفیانؓ نے 41 ہجری میں جب مغیرہ بن شعبہؓ کو والی

    کوفہ مقرر کیا تو مغیرہؓ کو بلا بھیجا ۔ حقِ تعالیٰ کی 
    حمد وثنا کے بعد کہا:
    عاقل کو بار بار متنبہ کرنے کی ضرورت نہیں ، پھر علمس کا ایک

    شعراس مضمون کا پڑھ کر کہا کہ مرد عاقل بات کو بے کہے ہوئے سمجھ لیتا ہے ۔

    میرا ارادہ تھا کہ بہت سی باتیں تم کو سمجھاؤں، مگر اس ذکر کو چھوڑ دیتا ہوں کہ

    تمہاری بصیرت و دانائی پر مجھے بھروسا ہے  کہ  تم خوب جانتے ہو

    کن باتوں میں میری خوشنودی میری حکومت کی ترقی میری
      رعیت کی بہتری ہے ۔
    ہاں ایک امر کا ذکر کیے بغیر میں نہیں رہ سکتا ، علیؓ کو گالی دینے میں اُن کی مزمت

    کرنے میں  اور عثمانؓ  کے لیے مغفرت و رحمت کرنے میں پھر اصحابِ علیؓ کی

    عیب جوئی میں اُن کو اپنے سے دور رکھنے اُن کی بات نہ سننے میں اس

    کے برخلاف شیعہ عثمانؓ کی ستائش کرنے میں اُن کے ساتھ مل کر رہنے

    میں آپن کی بات مان لینے میں تم کو تامل نہ کرنا چاہیے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    مغیرہؓ نے سات برس چند مہینے معاویہؓ کی  طرف سے حکومت کی ہے

    اور بڑے نیک سیرت امن و عافیت کے دل سے خواہش مند رہتے تھے   مگر
    علیؓ کو بُرا کہنا ، اُن کی مذمت کرنا ، قاتلانِ عثمانؓ پر لعنت اُن کی عیب جوئی

    کرنا عثمانؓ کے لیے دُعائے رحمت و مغفرت  اور اُن کے اصحاب کے

    لیے بے لوث ہونے کو ثابت کرنا انہوں نے کبھی ترک نہیں کیا ۔ "
    تاریخِ طبری ، جلد/4 ، حصہ اوّل ، ص / 82

     


    معاویہ بن ابو سفیا کا یہ جملہ:
     "  ولست تاركا إيصاءك بخصلة: لا تتحم عن شتم علي وذمه، والترحم عَلَى عُثْمَانَ والاستغفار لَهُ، 


      علیؓ  کو گالی دینا اور مذمت کرنا ، عثمانؓ کے لیے رحمت کی دُعا اور مغفرت مانگنا کبھی ترک نہیں کرنا  ۔


     جمل من أنساب الأشراف
     المؤلف: أحمد بن يحي بن جابر البلاذري
     المحقق: سهيل زكار - رياض زركلي
     سنة النشر: 1417 - 1997'
    https://archive.org/stream/FP32796/05_32800#page/n251/mode/2up
    -----------------


    مرآة الزمان في تواريخ الأعيان
     المؤلف: شمس الدين أبو المظفر يوسف بن قِزْأُوغلي بن عبد الله المعروف بـ «سبط ابن الجوزي»
    https://archive.org/stream/FP144301/07_144307#page/n222/mode/2up
     --------------


     الكتاب: الكامل في التاريخ (ط. العلمية)
     المؤلف: علي بن محمد بن محمد ابن الأثير الجزري عز الدين أبو الحسن
     الناشر: دار الكتب العلمية
    https://archive.org/stream/WAQkamilt/kamilt03#page/n326/mode/2up
    ---------------


    عنوان الكتاب: الخطابة وإعداد الخطيب
     المؤلف: عبد الجليل عبده شلبي
    link
    https://archive.org/details/FP84363/page/n251
    -------------------------------------------------
     
    ان سب کتابوں میں موجود ہے ۔

    ---------------------------------------

    یہی بات(جب مغیرہ بن شعبہؓ مولیٰ علیؓ کو گالیاں دیتا اور لعنت کرتا تھا)  حجر بن عدیؓ

    کہنے لگے تھے وہ تو نہیں بلکہ تم لوگوں کا خدا برا کرے اور لعنت کرے ۔ پھر کھڑے ہو جاتے تھے ۔ اور کہتے تھے ۔
    خدا عزووجل فرماتا ہے۔

    " خدا کی راہ میں گواہی دے کر عدل و انصاف قائم کرو "


    میں (حجر بن عدیؓ) گواہی دیتا ہوں کہ:
    جن(علیؓ) لوگوں کی تم(مغیرہ بن شعبہ) مذمت کرتے ہو ۔

    جن کو تم عیب لگاتے ہو وہی فضل و بزرگی کے سزا وار ہیں ۔

    اور جن کا بے لوث ہونا تم ثابت کرتے ہو۔ جن کی ستائش گری کر رہے ہو ۔

    یہی مذمت کے قابل ہیں ۔ مغیرہؓ یہ سن کر کہتے تھے  اے حجرؓ میں تمہارا حاکم ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "
    حضرت حجر بن عدیؓ نے مغیرہ کے خطبہ کی 
    مخالفت کیوں کی؟
    --------------


    یہی ہوتا رہا(یعنی مولیٰ علیؓ پر سب وشتم اسی طرح جاری رہا) یہاں تک

    مغیرہؓ نے اپنی امارت کے اخیر زمانہ میں خطبہ پرھا ۔ علیؓ و عثمانؓ کے باب

    میں جو بات ہمیشہ وہ کہا کرتے تھے ۔(یعنی حضرت علیؓ کو گالی دینے میں

    تامل نہ کرنا اور حضرت عثمانؓ کے لیے دعائے رحمت کرنا) اسی کو اس طور پر کہنے لگے ۔

    خدا وندا عثمان بن عفانؓ پر رحم کر اُن سے در گزر کر عمل نیک کی انہیں جزا دے ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
    اور اُن کے قاتلوں پر بدعا کی ، یہ سن کر حجر بن عدیؓ اُٹھ کھڑے ہوئے

    مغیرہؓ کی طرف دیکھ کر اس طرح اک نعریہ بلند کیا ۔

    کہ مسجد میں جتنے لوگ بیٹھے تھے اور جو باہر تھے سب نے سنا۔ 
    کہا کسی شخص کے دھوکے میں تم آئے ہوئے اس بات

    کو نہیں سمجھ سکتے بڑھاپے کے سبب سے عقل جاتی رہی ہے ۔۔
    اے شخص ہماری تنخواؤں اور عطیوں کے جاری جانے کا اب حکم دے دو ۔

    تم نے ہمارے رزق کو بند کر رکھا ہے ۔ اس کا تمہیں کیا اختیار ہے ۔

    تم سے بیشتر جو حکام گزرے ہیں  انہوں نے کبھی اس بات کی طمع نہیں کی ۔ 
    اس کے علاوہ تم نے  امیر المؤمنیں(حضرت سیدنا علیؓ) کی مذمت  اور مجرمین کی ستائش کا شیوہ اختیار کیا ۔
     تاریخِ طبری ، جلد / 4 ، حصہ اوّل ، ص /83
    ------------------------


    جناب حجر ابن عدی کے واقعہ کو  طبری نے یوں
     نقل کیا ہے کہ :

    قیس ابن عباد شیبانی زیاد کے پاس آیا اور کہا ہماری قوم بنی ہمام

    میں ایک شخص بنام صیفی ابن فسیل اصحاب حجر کا سر کردہ ہے اور آپ کا

    شدید ترین دشمن ہے۔ زیاد نے اسے بلایا۔ جب وہ آیا تو زیاد

    نے اس سے کہا کہ اے دشمن خدا، تو ابو تراب کے متعلق کیا کہتا ہے ؟
    اس نے کہا کہ میں ابو تراب نام کے کسی شخص کو نہیں پہنچاتا۔

    زیاد نے کہا ! کیا تو علی ابن ابی طالب کو بھی نہیں پہچانتا ؟

    صیفی نے کہا: جی ہاں میں انہیں پہچانتا ہوں۔ زیاد نے کہا ! وہی ابو تراب ہے۔

    صیفی نے کہا ! ہرگز نہیں، بلکہ وہ حسن اور حسین کے والد ہیں۔

    لشکر کے سالار نے کہا کہ امیر اسے ابو تراب کہتا ہے اور تو اسے والد حسنین کہتا ہے ؟

    صیفی نے کہا کہ تیرا کیا خیال ہے اگر امیر جھوٹ بولے تو میں بھی اسی کی طرح جھوٹ بولنا شروع کر دوں ؟

    زیاد نے کہا ! تم جرم پر جرم کر رہے ہو، میرا عصا لایا جائے۔

    جب عصا لایا گیا تو زیاد نے ان سے کہا کہ اب بتاؤ ابو تراب کے متعلق کیا نظریہ رکھتے ہو ؟

    صیفی نے دوبارہ کہا ! میں ان کے متعلق یہی کہوں

    گا کہ وہ اللہ کے صالح ترین بندوں میں سے تھے۔

    یہ سن کر زیاد نے انہیں بے تحاشہ مارا اور انہیں بد ترین

    تشدد کا نشانہ بنایا اور جب زیاد ظلم کر کے تھک گیا تو پھر

    صیفی سے پوچھا کہ تم اب علی کے متعلق کیا کہتے ہو ؟

    انہوں نے کہا ! اگر میرے وجود کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دئیے جائیں

    تو بھی میں ان کے متعلق وہی کہوں گا، جو اس سے پہلے کہہ چکا ہوں۔

    زیاد نے کہا تم باز آ جاؤ ورنہ میں تمہیں قتل کر دوں گا۔

    صیفی نے کہا کہ اس ذریعہ سے مجھے درجہ شہادت نصیب ہو گا

    اور ہمیشہ کی بد بختی تیرے نامہ اعمال میں لکھ دی جائے گی۔

    زیاد نے انہیں قید کرنے کا حکم کر دیا۔ چنانچہ انہیں زنجیر پہنا کر زندان بھیج دیا گیا۔

    بعد ازاں زیاد نے حضرت حجر ابن عدی اور ان کے دوستوں کے خلاف فرد جرم

    کی تیار کی اور ان مظلوم بے گناہ افراد کے خلاف حضرت علی علیہ السلام

    کے بدترین دشمنوں کے اپنے دستخط ثبت کیے۔

     

    ابو موسی کے بیٹے ابو بردہ نے اپنی گواہی میں تحریر کیا کہ:

    میں رب العالمین کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ حجر ابن عدی اور

    اس کے ساتھیوں نے جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی اور امیر کی اطاعت سے انحراف کیا ہے

    اور لوگوں کو امیر المومنین معاویہ کی بیعت توڑنے کی دعوت دیتے ہیں

    اور انہوں نے لوگوں کو ابو تراب کی محبت کی دعوت دی ہے۔

    زیاد نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ باقی افراد بھی اسی طرح کی گواہی تحریر کریں۔

    میری کوشش ہے کہ اس خائن احمق کی زندگی کا چراغ بجھا دوں۔

    عناق ابن شرجیل ابن ابی دہم التمیمی نے کہا کہ میری گواہی بھی ثبت کرو۔

    مگر زیاد نے کہا ! نہیں ہم گواہی کے لیے قریش کے خاندان سے

    ابتدا کریں گے اور اس کے ساتھ ان معززین کی گواہی درج کریں گے جنہیں معاویہ پہچانتا ہو۔

     

    چنانچہ زیاد کے کہنے پر اسحاق ابن طلحہ ابن عبید اللہ اور موسی ابن طلحہ

    اور اسماعیل ابن طلحہ اور منذر ابن زبیر اور عمارہ ابن عقبہ ابن ابی معیط ،

    عبد الرحمن ابن ہناد ، عمر ابن سعد ابن ابی وقاص ، عامر ابن سعود ابن امیہ ،

    محرز ابن ربیعہ ابن عبد العزی ابن عبد الشمس ،

    عبید اللہ ابن مسلم حضرمی ، عناق ابن وقاص حارثی نے دستخط کیے۔

     

    ان کے علاوہ زیاد نے شریح قاضی اور شریح ابن ہانی حارثی کی گواہی بھی لکھی۔

    قاضی شریح کہتا ہے تھا کہ زیاد نے مجھ سے حجر کے

    متعلق پوچھا تو میں نے کہا تھا کہ وہ قائم اللیل اور صائم النہار ہے۔

    شریح ابن ہانی حارثی کو جب علم ہوا کہ محضر نامہ میں میری بھی

    گواہی شامل ہے تو وہ زیاد کے پاس آیا اور اسے ملامت کی اور کہا کہ

    تو نے میری اجازت اور علم کے بغیر میری گواہی تحریر کر دی ہے،

    میں دنیا و آخرت میں اس گواہی سے بری ہوں، پھر وہ قیدیوں کے

    تعاقب میں آیا اور وائل ابن حجر کو خط لکھ دیا کہ میرا یہ خط معاویہ

    تک ضرور پہچانا۔ اس نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ

    زیاد نے حجر ابن عدی کے خلاف میری گواہی بھی درج کی ہے تو معلوم ہو

    کہ حجر کے متعلق میری گواہی یہ کہ وہ نماز پڑھتا ہے ، زکات دیتا ہے ،

    حج و عمرہ بجا لاتا ہے ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہے ، اس کی جان و مال انتہائی محترم ہے۔

    قیدیوں کو دمشق کے قریب مرج عذرا میں ٹھہرایا گیا اور معاویہ

    کے حکم سے ان میں سے چھ افراد کو قتل کر دیا گیا۔ ان شہیدان راہ حق کے نام یہ ہیں:

    حجر ابن عدی،

    شریک ابن شداد حضرمی،

    صیفی ابن فسیل شیبانی،

    قبیصہ ابن ضبیعہ عبسی،

    محرز ابن شہاب السعدی،

    کدام ابن حیان الغزی رضی اللہ عنھم اجمعین۔

    اس کے علاوہ عبد الرحمن ابن حسان عنزی کو دوبارہ زیاد کے پاس بھیجا گیا

    اور معاویہ نے زیاد کو لکھا کہ اسے بد ترین موت سے ہمکنار کرو۔

    زیاد نے انہیں زندہ دفن کرا دیا۔

    تاریخ طبری ۔ج 6 ص 155

    -------------
    http://islamport.com/w/tkh/Web/2893/1483.htm
    طبری نے بھی لکھا ہے کہ:

    أن معاوية بن أبي سفيان لما ولى المغيرة بن شعبة الكوفة في جمادى سنة

    41 دعاه فحمد الله وأثنى عليه ثم قال : ...

    ولست تاركا إيصاءك بخصلة لا تتحم عن شتم على وذمه

    والترحم على عثمان والاستغفار له والعيب على

    أصحاب على والاقصاء لهم وترك الاستماع منهم ... .

    معاویہ نے جب سن 41 ہجری میں مغیرہ ابن شعبہ

    کو کوفہ کا والی و حاکم بنایا تو اسے حکم دیتے ہوئے کہا:

    ایک کام کو بالکل بھولنا نہیں ہے اور اسے زیادہ تاکید کے ساتھ انجام دینا ہے،

    اور وہ کام، علی پر لعنت کرنا اور اسے گالیاں دینا ہے

    اور اسکے مقابلے پر عثمان کا ذکر احترام سے کرنا اور ہمیشہ اسکے

    لیے مغفرت کی دعا کرنا اور علی کے اصحاب کی برائیوں کو بیان کرو

    اور انکو جلا وطن کرنا اور انکی کوئی بھی بات نہ سننا۔

    تاريخ طبري‌ ،‌ ج4 ، ص188 .
    ------------------------

    معاویہ بن ابوسفیا نے مغیرہ کو کیا حکم دیا کہ حضرت حجر بن عدی ان کو ٹوکتے اور احتجاج کرتے

     

    1.thumb.png.e4015b98969e9ac348cfa8544f0898b4.png

     

    03.thumb.png.d78b176dc29c1ebc05d0479490e8f74f.png

     

    2.thumb.png.d098dea9fe88d30717d8bfaeb8560f14.png

     

    05.thumb.png.d9a3d87a8451e2987f605a9289c0bf6f.png

     

    06.thumb.png.a4a0567cd88f91d8a59ca26b146a6a1e.png

    04.png

     

    واقعہ اور شہادتیں


    5d7b96ccb1329_HIJER1.thumb.png.4a68ddd803910ddda5f906b5091841d1.png

     

    5d7b96d91b38e_HIJER2.thumb.png.d9a804cd09eb304345b06e6a5507725e.png

    روسائے ارباع( حکومتی نمائندوں) کی گواہی
    زیادہ نے اس شہادت کو دیکھ کر کہا اس طرح کی شہادت تم سب لوگ دو ۔

    سنو واللہ میں اس اجل رسیدہ احمق کی گردن کے قطع ہونے میں جہد بلیغ کروں گا ۔

     باقی روسائے ارباع نے بھی ابوبردہ کی شہادت کے مثل گواہی دی ۔

    اس کے بعد زیاد نے سب لوگوں کو بلایا اور اُن سے کہا کہ وہ روسائے ارباع کے مثل تم بھی شہادت دو ۔

     

    باقی شہادتیں بعد میں پوسٹ میں لگائی جائیں گی ان شاء اللہ
     

    ----------------------------------------------

     

    آپ نے خود ہی لکھا ہے کہ:۔

    ابو موسی کے بیٹے ابو بردہ نے اپنی گواہی میں تحریر کیا کہ:

    میں رب العالمین کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ حجر ابن عدی اور

    اس کے ساتھیوں نے جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی اور امیر کی اطاعت سے انحراف کیا ہے

    اور لوگوں کو امیر المومنین معاویہ کی بیعت توڑنے کی دعوت دیتے ہیں

    آپ نے خود ہی لکھا ہے کہ:۔

    کہنے لگے ۔

    خدا وندا عثمان بن عفانؓ پر رحم کر اُن سے در گزر کر عمل نیک کی انہیں جزا دے 
    اور اُن کے قاتلوں پر بدعا کی 

    یہ سن کر حجر بن عدیؓ اُٹھ کھڑے ہوئے

    مغیرہؓ کی طرف دیکھ کر اس طرح اک نعریہ بلند کیا ۔

    کہ مسجد میں جتنے لوگ بیٹھے تھے اور جو باہر تھے سب نے سنا۔

    آپ کی نقل کردہ تحریر سے پتہ چلا کہ حجر بن عدی حضرت عثمان کے قاتلوں کے خلاف بددعا

    برداشت نہیں کرتا تھا۔ اور اسی کو حبِ علی کا تقاضا سمجھتا تھا۔ظاہر ہے کہ جوشخص حضرت عثمان

    کے قاتلوں کے لئے بددعا برداشت نہیں کرتا وہ امیرمعاویہ کی حکومت کیونکر تسلیم کر سکتا ہے؟

    آپ نے خود ہی نقل کیا ہے کہ حجر بن عدی حکمرانی کا حق صرف آل ابوطالب کیلئے مانتا تھا،اس سے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ خلفاء ثلاثہ سے بھی بغاوت رکھتا تھا۔

    شیعہ مؤرخ دینوری لکھتا ہے کہ اس نے صلح حسن پر امام حسن کو شرم دلائی تھی ،پھر امام حسین کے پاس گیا وہاں سے بھی جواب ملا۔پس وہ حسنین کریمین کی صلح کا بھی باغی تھا۔

    علی کی شتم و ذم نہ چھوڑنا کی روایت آپ نے جہاں سے لی ہے وہیں لوط بن یحییٰ کی شخصیت بطورراوی جلوہ گرہے،اور وہ جلا بھنا شیعہ ہے۔

    آپ نے ام المومنین کا قول پیش کیا مگر سند صحیح نہ بتا سکے ۔ فتنے ختم ہونے کے بعد ام المومنین عائشہ صدیقہ نے فرمایا

    میں لوگوں کا معاملہ فتنے کے دور میں دیکھتی رہی یہاں تک کہ میری تمنا یہ ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ میری عمر بھی معاویہ کو دے ۔(طبقات ابن عروبہ)۔

     

    • Like 1
  2. 12 hours ago, ghulamahmed17 said:

     

    جناب سعیدی صاحب بڑے افسوس کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ

    مجھے آپ کی کسی بھی بات پر یقین نہیں جب تک آپ 

     ابن حجر عسقلانیؒ کے یہ الفاظ

    (کان شدید التشیع)

    ثابت نہیں کر دیتے کہ ابن حجر نے یہ الفاظ  

    ابو عبداللہ الجدلی

    کے بارے میں کہے ہیں ۔

     آپ کتاب  لگا کر ابن حجر کے وہ الفاظ ثابت کریں

    ورنہ میں آپ کو جھٹلانے پر مجبور ہوں ۔

     کیا وجہ ہے کہ آپ  تہذیب التہذیب نہیں دیکھا رہے ؟

    ------------

    مجھے جھٹلانے کے لئے

    اب تہذیب التہذیب کے متعلقہ مقام

    کا عکس آپ کے ذمہ پڑ چکا ھے۔

    آپ عکس دیں اور دکھائیں کہ

    ابن حجر نے کان شدید التشیع کے الفاظ نہیں لکھے اور سعیدی جھوٹ بول رہا ھے۔

  3. مجھے جھٹلانے سے آپ اپنے جھوٹ میں اضافہ کریں گے۔ اگر مجھے جھوٹا کہنےکا شوق ھے تو تہذیب التہذیب سے ابو عبداللہ الجدلی کی بحث  پڑھ لیں۔ میری بات نہ ملے تو مجھے جھٹلائیں۔ ورنہ آپ خود ھی جھوٹے بنیں گے۔

    شاباش ھمت ھے تو مجھے جھوٹا ثابت کرو۔

  4. 4 hours ago, ghulamahmed17 said:

    محترم سعیدی صاحب  چلیں 

     

    مجھے ابن حجر عسقلانیؒ کے یہ الفاظ کتاب سے دیکھا دیں ۔ 

    " ( تہذیب میں(کان شدید التشیع
    باقی بات حافظؒ کے یہ الفاظ دیکھ کر کرتے ہیں ۔
    ------------
    -

    جناب والا

    ابوعبداللہ الجدلی کو طبقات ابن سعد میں

    پھر تہذیب التہذیب عسقلانی میں " کان شدید التشیع" لکھا ھے۔

    پھر تقریب التہذیب عسقلانی میں " رمی بالتشیع" لکھا گیا ھے۔

    حافظ ذھبی نے میزان الاعتدال میں اسے بغض رکھنے والا شیعہ(شیعی بغیض) کہا ھے۔

    ابن قتیبہ نے المعارف میں اس کا شمار غالی رافضیوں میں کیا ھے۔

    ایسے شخص کی "شیعہ پرور روایت" کا کیا بھروسہ؟

    پھر سب کی یہاں تفصیل آپ نے لعنت بھیجنے کی تھی، اس کے متعلق کوئی ثبوت؟

  5. 1 hour ago, ghulamahmed17 said:

    اچھا چلیں میں شہادتیں بھی ڈھونڈ لوں گا ، آپ فکر مند نہ ہوں مجھے پتہ ہےجو غلطی آپ کر چکے ہیں

    اس کو مذید نہیں  بڑھانا چاہتے ۔

    صرف یہ بتائیں کہ کیا شہادتوں کے ہوتے ہوئے

    اجہتاد کا دعویٰ درست تھا ؟

    یہاں سے بھی پسپا ہوگئے ؟

    محترم آپ کو شاید یہ علم ہی نہیں کہ فردِ جرم اور شہادتوں کے بعد فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور وہ اجتہاد ہے۔

    کیا سمجھے؟؟

    • Like 1
  6. 1 hour ago, ghulamahmed17 said:

    جناب سعیدی صاحب

    کیا معاویہ بن ابوسفیان

    عادل و راشد

    خلیفہ تھا ؟

    آپ کو اتنا پڑھنے کے باوجود ابھی تک  میرےموقف کا ہی  پتہ نہیں  چلا تو آپ نے جواب کیا دینا ہے!!۔

  7. منہاجی صاحب

    اللہ و رسول جس کے مولا ہیں ،تو علی بھی اُس کا مولا ہے۔

    یہاںمولا کا معنی حبیب وناصر ہے،یارومددگار ہے۔

    اور اگر مولا کا معنی سیدو آقا اور سردار لیتے ہو تو پھر

    حضرت علی کو باقی انبیاء کرام کا  سید وآقا وسردار ماننا لازم آئے گااور یہ کفر ہے۔

    حضور ﷺ عالمین کے مولا ہیں اور عالمین کے سید ہیں۔ مگر

    حضرت علی ؓ عالمین کے مولا ہیں مگر عالمین کے سید نہیں۔

    کیا آپ لوگ  اپنے موقف کے مطابق حضرت علیؓ کو عالمین کا مولا یعنی مولائے کائنات(آقائے کائنات) مانتے ہو یا نہیں؟

    • Like 1
  8. 59 minutes ago, ghulamahmed17 said:

    حافظ حجر عسقلانیؒ کا 

    ابو عبداللہ الجدلی پر مکمل اعتراض پیش فرمائیں ۔

    امید ہے کہ آپ کتاب پیش فرما دیں گے َ

    جناب پہلے تو جناب کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ حافظ حجر عسقلانی نہیں بلکہ حافظ ابن حجر عسقلانی کے قول کی بات ہو رہی ہے،پہلے میں نے سمجھا کہ (ابن) کا لفظ سہوا چُوک گیا ہے۔ مگر ہر بار تو نہیں چوک سکتا ۔ اس سے آپ کی علمی حیثیت واضح ہو رہی ہے۔ جس بیچارے کو مصنف کا نام نہیں آتا،اُس نے اعتراض کیا خاک سمجھنا ہے!!۔

     

    حافظ ابن حجر عسقلانی نے راوی مذکور کا ثقہ ہونا ذکر کرنے کے باوجود ساتھ ساتھ

    تقریب میں (رمی بالتشیع) اور تہذیب میں(کان شدید التشیع)کے الفاظ بھی اس کے متعلق لکھے ہیں۔سکین کا مطالبہ سرِ دست پورا نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم یہ متداول کتابیں ہیں، کوئی نایاب نہیں۔ حوالہ نہ ملے تو میں ذمہ دار ہوں۔

     

    • Like 1
  9. 4 hours ago, ghulamahmed17 said:

     

     

    پلیز محترم سعیدی صاحب

    وہ شہادتیں پیش فرمائیں جو آپ نے لکھی ۔ بقول آپ کے میں نے شہادتیں چھپائی 

    تو ظاہر ہیں اگر میں نے چھپائی تو ان میں یقینا! بہت سچائی ہو گی ۔

    اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ وہ  شہادتیں جو میں نے چھپائی تھیں 

    آپ فورم پر پیش کر کے  مجھے  بے نقاب کر دیں ۔

    اور فورم والوں کو بھی پتہ چلے کہ میں نے شہادتیں چھپائی تھیں اور آپ 

    کے علم تھا کہ اس قتل پر شہادتیں ہوئیں تھیں تو جناب سعیدی صاحب پھر معاویہ بن ابوسفیان

    کے اجتہاد کا نعرہ کیوں لگایا تھا  ؟ جس قتل پر شہادتیں موجود ہوں اور ان شہادتوں پر

    صحابی رسولﷺ کو  قتل کر دیا جائے تو کیا

    اسے اجتہاد بھی کہتے ہیں ؟

    امید ہے جہاں آپ وہ شہادتیں پیش فرمائیں گے وہی اجتہاد کا بلنڈر بھی واضح فرما دینا ۔

    لیکن ہر حال میں شہادتیں آپ کو پیش فرمانا ہوں گی اب  ان شہادتوں بغیر یہ مسئلہ

    کبھی حل نہیں ہو گا ۔

    اور اسے حل ہونا ہے ، ان شاء اللہ 

    ------------------------------------

    جی محترم

    میں تو جناب کے محولہ بالا ریفرنسز سے ہی شہادتیں پیش کروں گا، مگر

    آپ تو بتائیں ناں کہ

    آپ نے حجر بن عدی کا مقدمہ امیرمعاویہ پر طعن کے لئے اٹھایا تھا

    تو صرف شہ سرخیوں پر اکتفاء کیوں کیا؟

    امیرمعاویہ کی زیادتی اور حجر بن عدی کی مظلومی پیش کرنے کے لئے

    آپ نے فردِ جُرم اور شہادتوں کا تذکرہ کیوں ہضم کر لیا۔

    ان کو پیش کئے بغیر آپ کا اعتراض ناتمام رہتا ہے۔

    اپنے اعتراض کی تقریب تام کریں۔

    یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔اورآپ یہ ذمہ داری پوری کریں۔

    یا تسلیم کریں کہ یہ آپ کے بس کا روگ نہیں اور آپ صرف

    مانگے تانگے کے حوالوں کو میک اپ کرکے پیش کرنے سے زیادہ

    حیثیت نہیں رکھتے۔

    پھر  میں آپ کی محولہ بالا کتابوں سے یہ فردِ جرم اور شہادتیں

    پیش کروں گا۔اور تفصیل سے پیش کروں گا۔

    وہ باقی آٹھ پوائنٹس پر خاموشی؟ 

    • Like 1
  10. 1 hour ago, ghulamahmed17 said:

    جناب سعیدی صاحب آپ نے سارا سلسلہ شہادتوں

     

    پر ڈال دیا کہ حضرت حجر بن عدیؓ کا قتل شہادتوں پر 

    ہوا ،  پلیز شہادتیں پیش فرمائیں ۔ 

    جب قتل ہی شہادتوں پر ہوا تو سارا قصہ ہی ختم ہو گیا ، اب دیکھتے ہیں کہ

    شہادت کیا کیا تھی ؟

    میں نے 9 پوائنٹس سامنے رکھے تھے ،آپ نے تیسرے کے علاوہ کسی کو ہاتھ نہ لگایا۔ باقی آٹھ پوائنٹس کا جواب کون دے گا؟

    باقی جہاں آپ کو حجر بن عدی کی داستان لکھی ملی ھے وہیں شہادتیں بھی مل جائیں گی، آپ اپنے مآخذ کو دوبارہ پڑھیں۔

  11. ۱۔حجر بن عدی کی وصیت سے  آپ کاکیا استدلال ہے؟

    ۲۔مقام عذراء کے مقتولین بشمول حجر بن عدی کے قتل سے اللہ پاک کے نارض ہونے کی روایت کا دارومدار ابن لہیعہ راوی پر ہے اور وہ ضعیف ہے۔اس کی کوئی صحیح سند پیش کرو۔پھر

    ابن لہیعہ عن ابی الاسود ۔ ابی الاسود (م۱۳۱ھ)اور حضرت عائشہ کے درمیان روایت میں انقطاع پایا  جاتا ہے۔

    ۳۔امیرمعاویہ نے فرمایا کہ حجر بن عدی کے قتل کی ذمہ داری اُن پر ہے جنہوں نے اُس کے خلاف شہادتیں گزاریں۔ اُن شہادتوں کو وہ مسترد کیسے کردیتے؟

    ۴۔ابن ملجم خارجی ہوگیا تھا اور خوارج کے متعلق فتاویٰ رضویہ میں ہے: یجب اکفارالخوارج۔خوارج کو کافر کہنا واجب ہے۔ صحابی وہ نہیں رہتا جو بے ایمان ہوجاے۔ تو اس امت کے شقی کی صحابیت بھی بے ایمان ہوتے ہی ختم ہوگئی۔کتبِ اہل سنت میں جمہور کے نزدیک صحابی کی تعریف کیا ہے؟

    ۵۔کیا تمہارے نزدیک لوگوں کو قرآن و فقہ پڑھانے والے سارے لوگ مجتہد ہیں؟اگر نہیں تو ابن ملجم کو کس برتے پر مجتہد کہنے کا الزام حضرت عمر پر دھرڈالا ہے؟

    ۶۔ ذہبی نے ابن ملجم کا نام تجریدالصحابہ میں لکھا تو ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ میں اس کی تردید کی وہ اس کا اہل نہیں کہ ان لوگوں کے ساتھ اس کا ذکر کیا جائے۔

    ۷۔  تمام مسلمانوں بالخصوص صحابہ کرام کے مطاعن سے کف لسان کا امر کیا گیاہے نہ کہ محاسن سے۔

    عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ:

    اذْكُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمْ وَكُفُّوا عَنْ مَسَاوِيهِمْ.

    أَخْرَجَهُ أبو داود (4900. والترمذي (1019)

     مگر آپ لوگ اُلٹی گنگا  کیوں بہا رہے ہیں؟

    ۸۔ طٰہٰ حسین متوفی ۱۹۷۳ء سے لے کر حضرت معاویہ تک کی درمیانی سند کا ذمی دار کون بنے گا؟

    ۹۔ طاہرالقادری نے اپنی اکیلی رائے نہیں دی تھی اُس نے جمیع ائمہ اہل سنت سے امیرمعاویہ کا مجتہد ہونا مانتے ہوئے خطائے اجتہادی کا قول کیا تھا، تو حجر بن عدی کے سلسلہ میں غیرمجتہد کیسے ہوگیا؟

  12. طاھر القادری کے زیرِبحث حوالہ سے ظاھر ھے کہ

    اہل سنت کے تمام امام

    امیر معاویہ کو مجتہد مانتے ھوئے

    ان کی اجتہادی خطاؤں کے قائل ہیں۔

    باقی وصیت کرنے والا اپنے آپ کو حق پر سمجھے تو اس سے ھادی مہدی بننے کی دعائے مستجاب اور سنت و عدل برقرار رھنے کی پیشگوئی کو نظر انداز تو نہیں کیا جا سکتا۔

    Screenshot_2019-09-09-21-11-28.png

  13. جناب علامہ ابن حجر عسقلانی کی

    ایک کتاب سے رمی بالتشیع اور

    دوسری کتاب سے کان شدید التشیع کے حوالے

    دے چکا ہوں۔

    اور

    یہاں عدالتِ صحابہ کے برعکس مطاعنِ صحابہ ہیں تو

    اہلِ مطاعن کی ایسی طعن والی بات قبول نہیں ہو سکتی۔

    اور

    سب کے الفاظ کی تفصیل آپ نے لعنت سے کی تھی، وہ پیش کریں۔

  14. 18 hours ago, ghulamahmed17 said:

    جن محدثین  نے یہ اصول  کتابوں میں لکھا ہے پلیز وہ پیش فرما دیں ۔

     حافظ حجر عقسلانیؒ کا مقام  حدیث میں بہت اہم ہے لہذا ان کا مکمل اعتراض کتاب سے پیش فرمائیں ۔

      یہ بدعت ایسی نہیں ہے کہ اہل تشیع نے گھڑ لی ہے اہل سنت کے بڑے بڑے اماموں اور

      محدثین نے معاویہ کی گالیوں کے کارنامے ذکر کیے ہیں َ کیا وہ بھی بھی اہل تشیع ہیں ؟

    جناب قاسم صاحب !۔

    مقدمہ ابن الصلاح فی علوم الحدیث میں مبتدع کی روایت کے متعلق لکھا ہے کہ:۔

    تُقْبَلُ رِوَايَتُهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ دَاعِيَةً، وَلَا تُقْبَلُ إِذَا كَانَ دَاعِيَةً  وَهَذَا مَذْهَبُ الْكَثِيرِ أَوِ الْأَكْثَرِ مِنَ الْعُلَمَاءِ.

    اُس کی  روایت قبول کی جاتی ہے جب وہ اُس کا داعیہ (مدعیٰ) نہ ہو اور اُس کی روایت مقبول نہیں جب اُس کا داعیہ ہو۔ اور کثیر واکثر علماء کا یہی مذہب ہے۔

    علامہ ابن حجر عسقلانی نے تقریب التہذیب:۸۲۰۷ میں رمی بالتشیع لکھا اور

    تہذیب التہذیب:۷۰۵ میں کان شدید التشیع لکھا ہے۔

     

  15. 19 hours ago, ghulamahmed17 said:

    گویا کہ آپ  امام احمد رضا خان بریلوی کے دو حوالہ جات اور کتاب

    " حضرت امیر معاویہ خلیفہِ راشد " کی تصدیق فرما رہے ہیں کہ وہ  بارہ خلفائے عادل

    میں سے ایک خلیفہِ عادل تھے ۔

    بارہ خلفاء والی حدیث کے متعلق ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ قیامت تک بارہ پورے ہونے ہیں اور اُن کا یکے بعد دیگرے ہونا لازمی نہیں۔وہ عادل خلفاء ہوں گے۔ الصواعق المحرقہ اور تاریخ الخلفاء میں یہ قول موجود ہے۔اور عینی و عسقلانی وغیرہ نے بھی یہ قول دیا ہے۔ ابن حجر ہیتمی کی الصواعق المحرقہ سے پیش کرتا ہوں:۔

    وَقيل المُرَاد

    وجود اثْنَي عشر خَليفَة فِي جَمِيع مُدَّة الْإِسْلَام إِلَى الْقِيَامَة

    يعْملُونَ بِالْحَقِّ وَإِن لم يتوالوا

    وَيُؤَيِّدهُ قَول أبي الْجلد

    كلهم يعْمل بِالْهدى وَدين الْحق

    مِنْهُم رجلَانِ من أهل بَيت مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم

    فَعَلَيهِ المُرَاد

    بالهرج الْفِتَن الْكِبَار كالدجال وَمَا بعده

    وبالاثني عشر

    الْخُلَفَاء الْأَرْبَعَة وَالْحسن وَمُعَاوِيَة وَابْن الزبير وَعمر بن عبد الْعَزِيز قيل وَيحْتَمل أَن يضم إِلَيْهِم الْمهْدي العباسي لِأَنَّهُ فِي العباسيين كعمر بن عبد الْعَزِيز فِي الأمويين والطاهر العباسي أَيْضا لما أوتيه من الْعدْل وَيبقى الِاثْنَان المنتظران أَحدهمَا الْمهْدي لِأَنَّهُ من آل بَيت مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم

  16. 19 hours ago, ghulamahmed17 said:

    اگر اللہ پاک آپ کے ہوش و حواس قائم رکھتا تو نیچے سیدنا امام حسین علیہ السلام کا نام بھی لکھا ہوا ہے

    میرے ہوش وحواس کی بات نہ کرو۔آپ نے اپنے تبصرہ میں امام حسن کا نام لکھا تھا کہ انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم حجر حجت قائم کر گیا۔اب جب میں متوجہ کیا کہ امام حسن تو اس واقعہ سے کافی پہلے دنیا سے رخصت ہوچکے تھے تو آپ مجھے نیچے والی عبارت پڑھنے کا کہہ رہے ہیں جو محض ایک احتمال کے طور پر لکھی گئی تھی۔ چلئے آپ یہی ثبوت سندمعتبر کے ساتھ  دے دیں کہ یہ الفاظ امام حسین نے کہے تھے۔

    یہ حجر بن عدی وہی ہے جو

    حسنین کریمین کی صلح  معاویہ کی وجہ سے ان پر راضی نہ تھا۔

  17. حدیث پاک (من کنت مولاہ) کے لفظ (مولا) کا ترجمہ (آقا )سے کرنا 

    یا تومحض خطا ہے یا پھر کفروضلالت ہے۔

    اس پرایک ہی حکم نہیں لگتا 

    جس طرح روزہ کی حالت میں

    بھول کر (خطاء ) کھانا اور حکم رکھتا ہے اور عمدا ایسا کرنا اور حکم رکھتا ہے۔

    حضرت علی مرتضیٰ اور سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے مولا ہونے کا دائرہ کار ایک ہے مگر آقا ہونے (سیادت) کا دائرہ کار ایک نہیں ۔ جو اُن کا آقا ہونے میں ایک ہی دائرہ کار مانتا ہے ،وہ حضرت  علی کا آقا ہونے کا دائرہ بڑھاتا ہے یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آقا ہونے کا دائرہ کم کرتا ہے اور یہ دونوں باتیں کفر ہیں۔

  18. On 8/25/2019 at 2:12 PM, ghulamahmed17 said:

    57540171_2161934797175634_79980075550894

     

    یہ حوالہ دیتے وقت اتنا تو سوچ لیتے کہ

    واقعہ ۵۱ھجری کا ہے اور

    امام حسن علیہ السلام ۴۹ھجری میں وفات پا چکے تھے

    On 8/25/2019 at 2:12 PM, ghulamahmed17 said:

    57544649_2161726280529819_10619068354574

    اس حوالہ میں یہ بھی تو لکھا ہے کہ

    حجر بن عدی

    حضرت عثمان غنی کے خلاف گستاخی کرتے تھے اور اُن کو جائر(ظالم)کہتے تھے۔

     

     

×
×
  • Create New...