Jump to content

Saeedi

رکنِ خاص
  • کل پوسٹس

    1,086
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    280

پوسٹس ںے Saeedi کیا

  1. On 9/7/2019 at 4:37 AM, ghulamahmed17 said:

    ثابت فرمائیں کہ معاویہ بن ابوسفیان کے دور میں  کریم آقاﷺ

    کی کسی سنت کو تبدیل نہیں کیا گیا اور وہ

    خلیفہِ عادل ( خلیفہ راشد) تھے

    جناب قاسم صاحب

    حضرت معاویہ خلیفہ تھے اور بارہ خلیفہ والی حدیث کے تحت علماء نے بیان کیا ہے۔

    حضرت معاویہ کے دور میں سنت وعدل تبدیل نہ ہونا حدیثوں میں ہے اور طاہرالقادری صاحب بھی عدل برقرار رہنے والی حدیث لکھ چکے ہیں جس کا عکس دیا جا چکا ہے۔

    اور خلیفہ عادل کو آپ خود ہی خلیفہ راشد مان چکے ہیں۔

    باقی آپ کی مرضی ہے ورنہ آپ کا گھر تو پورا ہوچکا ہے۔

  2. جناب قاسم صاحب

    آپ بے اصولی بات کر رہے ہیں۔

    جس ثقہ راوی  پر بدعتی عقیدےکا الزام ہے تو ایسے الزام علیہ کی ایسی روایت

    جس سے وہ اپنے مذہب کی تائید کر رہا ہو،حجت نہیں ہوتی۔

    اور ابوعبداللہ الجدلی

    پر الزام بتانے والا مولانا محمد علی رضوی نہیں

    بلکہ حافظ ابن حجر عسقلانی اور ابن سعد ہیں۔

  3. تفسیر الماوردی م۴۵۰ھ سورۃ النور:۵۵۔وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ کے تحت لکھا ہے کہ:۔

    هذه الآية في الخلفاء الأربعة: أبو بكر , وعمر , وعثمان , وعلي رضي الله عنهم وهم الأئمة المهديون , وقد قال النبي صلى الله عليه وسلم: (الخِلاَفَةُ بَعْدِي ثَلاَثونَ سَنَةً)

    امام نووی نے شرح مسلم میں لکھا:۔

    أَنَّ الْمُرَادَ فِي حَدِيثِ الخلافة ثلاثون سنة خلافة النبوة وقد جاءمفسرا فِي بَعْضِ الرِّوَايَاتِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا 

    امام ابن حجر ہیتمی نے الصواعق المحرقہ میں لکھا:۔

    أخرج أَبُو يعلى فِي مُسْنده بِسَنَد لكنه ضَعِيف عَن أبي عُبَيْدَة قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم

    لَا يزَال أَمر أمتِي قَائِما بِالْقِسْطِ حَتَّى يكون أول من يثلمه رجل من بني أُميَّة يُقَال لَهُ يزِيد

    وَأخرج الرَّوْيَانِيّ فِي مُسْنده عَن أبي ذَر قَالَ سَمِعت النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يَقُول

    أول من يُبدل سنتي رجل من بني أُميَّة يُقَال لَهُ يزِيد
     

    وَفِي هذَيْن الْحَدِيثين دَلِيل أَي دَلِيل لما قَدمته

    أَن مُعَاوِيَة كَانَت خِلَافَته لَيست كخلافة من بعده من بني أُميَّة

    فَإِنَّهُ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أخبر

    أَن أول من يثلم أَمر أمته ويبدل سنته يزِيد

    فَافْهَم أَن مُعَاوِيَة لم يثلم وَلم يُبدل

    وَهُوَ كَذَلِك

    لما مر

    أَنه مُجْتَهد

    ان حوالہ جات سے واضح ہو گیا کہ حضرت معاویہ کی خلافت یا بادشاہت پہلے والوں کی خلافت جیسی نہیں تھی بلکہ سخت گیر عادلانہ اور مجتہدانہ تھی ، اور بعد والوں کی ملوکیت جیسی بھی نہ تھی۔پہلا سنت بدلنے والا اموی یزید ہے اور پہلا عدل میں گڑبڑ کرنے ولا اموی بھی یزید ہے۔ یہ حدیث پیرنصیر اورشیخ منہاج بھی لکھ چکے ہیں۔ اسی معنی میں امیرمعاویہ کے ہدایت یافتہ و ہدایت دہندہ بننے کی دعا بھی موجود ہے۔

  4. ابوزہرہ مصری(۱۸۹۸۔۱۹۷۴ء) اورعقدالفرید والے کی باتیں بے سند ہیں۔ اُن کی سند پیش کرو۔

    انوار علی والا بھی ابوزہرہ مصری کے کندھے پر بندوق چلا رہا ہے۔

    رہ گئی البانی کی روایت تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ 

    حضرت ام سلمہ ؓ   کی روایت کا مدار ابو عبداللہ الجدلی پر ہے اور

    ابن حجر عسقلانی نے اس کے متعلق لکھا : رمی بالتشیع

    محمد بن سعد نے اسے شدید التشیع قرار دیا۔

    ایسے الزام علیہ کی ایسی روایت

    جس سے وہ اپنے مذہب کی تائید کر رہا ہو،حجت نہیں ہوتی۔

     

    مجمع البحار اور نووی شرح مسلم میں سب کا مطلب تخطئہ موجود ہے۔

    اب لعنت والی روایات مع سند پیش کریں۔ 

     

  5. امام حسن علیہ السلام کے دور میں تیس سال والی خلافت ختم ھوئی جو خلافت علیٰ منہاج نبوت ھے۔ جس کا سورۃ النور میں حاضر مسلمانوں سے وعدہ ھوا تھا۔

    حضرت حسن نے جو خلافت حضرت معاویہ کو دی تھی تو وہ بھی خلافتِ حقہ تھی ، اُسے خلافت راشدہ خاصہ سے کمتر ظاھر کرنے کیلئے عامہ کہنا ایک اصطلاح ھے۔ حدیث ابن عباس میں اس کو رحمت کہا گیا ھے۔ حضرت معاویہ کے دور کے بعد سنت تبدیل کرنے والا اور نظام عدل میں رخنہ اندازی کرنے والا آیا۔ اس سے پہلے اگر کچھ بظاھر خلافِ سنت یا خلافِ عدل ملے تو اجتہادی خطا یا غلط اطلاع ھے۔

  6. سب کا لفظ احتمالات رکھتا ھے۔ یہ لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے بھی ملتا ھے جبکہ یہ ظاھر بات ھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گالی دینے سے معصوم اور پاک تھے۔ کسی کے خلاف سخت کلامی اور تغلیط کو بھی سب سے تعبیر کیا جا سکتا ھے۔ اسی لئے ھم یہ مطالبہ کر رھے ھیں کہ

    "وہ الفاظ پیش کئے جائیں جن کے ساتھ حضرت معاویہ نے مولا علی کو سب کیا ھے"۔

    ابوزھرہ مصری نے اگر معاویہ کا علی پر لعنت بھیجنا لکھا ھے تو ابوزھرہ سے معاویہ تک درمیان کی تیرہ صدیوں کی سند کون پیش کرے گا۔ یہ تحقیق کا میدان ھے ، کوئی مجلس ماتم نہیں جہاں "آواز آندا اے" والی روایت بھی چل جاتی ھے۔

    ایک سوال آپ پر اور بھی ھے کہ کسی حدیث میں ھے کہ میری سنت تبدیل کرنے والےاور نظام عدل میں رخنہ ڈالنے والے پہلے اُموی شخص کا نام معاویہ ھو گا نہ کہ یزید؟

  7. میرے محترم

    آپ نے پھر غور نہیں فرمایا۔

    اختر فتحپوری نے الصواعق المحرقہ کا ترجمہ کیا ھے۔ اس نے ترجمہ میں یہاں خطا کی۔ اسی ترجمہ میں 203 پر باب سوم پوری امت میں حضرت ابوبکر صدیق کے افضل ھونے پر موجود ھے۔ آپ نے ایک لفظی خطا پکڑ لی اور پورا باب خاطر میں نہ لائے۔ تحقیق یوں تو نہیں ھوتی۔

    آپ نے امیر علی شاہ کا حوالہ پیش کیا ھے۔ مگر یہ نہیں دیکھا کہ وہ "تمام سلاسل" کے ساتھ بھی " تقریباً " کا لفظ لگا کر اپنی بات کو مقید کر رھے ھیں۔

    آپ کے طاھرالقادری صاحب مولا کا ترجمہ آقا کرتے ہیں تو کتاب کی ابتدا میں اپنا نظریہ پہلے لکھ چکے ہیں اور ترجمہ اس کے مطابق کرتے ہیں۔

    آپ کے سوال کا جواب یہ ھے کہ حدیث میں جہاں شیخین کریمین کو سیدا کہول اھل الجنۃ فرمایا گیا ھے وہیں انبیاء و مرسلین کا استثناء بھی کیا گیا ھے۔

    ملاحظہ ھو طاھرالقادری کی کتاب منہاج السوی:حدیث نمبر 694۔

    اس سوال سے پتہ چلتا ھے کہ آپ حضرت علی کو انبیاء کرام کا مولا نہیں مانتے ،اس لئے استثناء کے متمنی و متلاشی ہیں۔ ورنہ وجہ بتائیں؟

    جب کہ آپ کے پسندیدہ اختر فتحپوری نے اُسی الصواعق المحرقہ کے صفحہ 232 پر حضرت جبریل اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا مولا مانا ھے۔ اور آپ دیگر نبیوں کے لئے بھی مولا علی کو مولا نہیں مان رھے۔ اس کی وجہ یہی ھے کہ آپ مولا کا معنی غلط کر رھے ھیں جو آپ کے لئے  مولا علی کو مولائے کائنات سمجھنے کی راہ میں رکاوٹ بن گیا ھے۔

  8. اگر کسی کی تحریر میں ایک جگہ اجمال ھو اور دوسری جگہ تفصیل ھو تو اسے تضاد یا دستبرداری کا نام نہیں دیا جاتا۔آپ کے قائد نے جو تفصیل جاری کی ھے وہ ترجمہ کے اجمال کی وضاحت کر رھی ھے۔

    آپ سے ایک سوال  کہ

    شیعہ اس روایت کا وہی ترجمہ کرتے ہیں جس ترجمہ  پر تمہیں اصرار ھے۔اور

    اس کی بنیاد پر حضرت علی کو انبیاء کرام کا آقا اور سردار مانتے ہیں۔

    اپنے اس ترجمے پر رھتے ھوئے روافض کے اس اعتراض کا آپ کے پاس کیا جواب ھے؟

  9. محترم

    آپ مفصل بات پڑھ کر بھی

    ضد کر رھے ھیں۔

    جن کے ترجمے پیش کئے وہ تفضیلی نہیں تو ان سے خطاً ایسا ھؤا۔

    مگر تفضیلی ایسا عمداً کرتا ھے اور

    اس ترجمہ پر ضد کرنے والا بھی عمداً ایسا کرتا ھے۔

    کوئی بھی فتوی ھو وہ عمداً پر لگتا ھے نہ کہ خطاً پر۔

    آپ ایک سوال کا جواب دے دیں کہ آپ کے ترجمے کی رو سے مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ انبیائے کرام کے بھی آقا بنتے ہیں یا نہیں؟اگر نہیں تو کیسے؟اور اگر ہاں تو آپ لوگ شیخین کریمین سے ھٹ کر سیدھا انبیاء کرام سے ھی حضرت علی کو افضل کیوں نہیں مانتے؟ جبکہ روافض زمانہ اس دلیل سے ان کو انبیائے کرام سے بھی افضل مانتے ہیں۔

    در کفر ھم ثابت نہ ای زنار را رسوا مکن

  10. میرے محترم

    ترجمہ کرنے والوں میں اگر کوئی حضرت علی کو انبیاء کرام سے افضل مانتے ھوئے (جس جس کا میں آقا ھوں علی بھی اس اس کا آقا ھے ) کے الفاظ سے ترجمہِ حدیث کرتا ھے تو وہ کفر کرتا ھے

    اور اگر کوئی حضرت علی کو حضرات شیخین سے افضل ماننے کے لئے یہ ترجمہ کرتا ھے تو بدعت و ضلالت کا مرتکب ھے۔

    اور اگر کوئی اوپر والے بیان کردہ دونوں عقیدے نہیں رکھتا اوراس سے یہ ترجمہ ھو گیا ھے تو یہ اس کی خطا ھے۔

    آپ اندھے کی لاٹھی نہ چلائیں۔ اور ھر شق کے الگ الگ حکم کا فرق سمجھیں۔

  11. جی محترم

    حدیثِ مولا کے سلسلے ميں محض ترجمہ کرتے ھوئے مولا بمعنی آقا لکھ جانا خطا ھے۔

    مگر اس ترجمہ کو عقیدہ کا درجہ دیتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو انبیائے کرام کا آقا ماننا کفر ھے اور شیخین کریمین کا آقا ماننا بدعت و ضلالت ھے اور حضرت علی کی نظر میں لائقِ سزا ھے۔

    جی محترم آپ کی بات کا جواب ھو گیا ۔اب آئیں میرے سوال کی طرف کہ سورۃ التحریم میں جن جن کو رسول اللہ  صلی الله عليه وسلم کا مولا قرار دیا گیا ہے تم اُن سب کو آپ صلی الله عليه وسلم کا مولا بمعنی آقا لینا کیسا سمجھتے ہو؟

     

  12. غلام احمد /قاسم علی صاحب!

    کہاں گئے کے پیچھے آپ بھاگ پڑے

    اور میرا اصل سوال چھوڑ گئے ۔

    میں نے پوچھا تھا کہ

    سورۃ التحریم میں

    رسول اللہ کے  جو جو مولا

    بتائے گئے ہیں ،

    وہاں بھی مولا کا معنی آقا لیتے ھو؟

    تمام تر حوالہ پیشی کے باوجود یہ سوال وہیں کا وہیں رہا ۔

    باقی لزومی فتوے اور التزامی فتوے میں فرق ھوتا ھے ۔ لزوم سے التزام تک پہنچنے میں کئی مراحل ہیں ۔

×
×
  • Create New...