Jump to content

Best Frind

اراکین
  • کل پوسٹس

    3
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

About Best Frind

Previous Fields

  • فقہ
    Shia

Best Frind's Achievements

Newbie

Newbie (1/14)

  • First Post
  • Conversation Starter
  • Week One Done
  • One Month Later
  • One Year In

Recent Badges

0

کمیونٹی میں شہرت

  1. اگر ہم نے حقائق کو اصلی شکل ممیں پیش کرنا ہے اور دلوں کو مطمن کرنا ہے تو ہیمں تحقیق و تنقید کے اصول مدلل طریقے سے معین کرنے ہوں گئے۔۔۔ ہر راویت کے بارے میں معقول دلائل کے ساتھ یہ بتانا ہوگا کے ہم نے مخالف راویت کو کیوں چھوڑ کر اس کو اختیار کیا۔۔ جیسے کے اُوپر کی کسی راویت کا آپ نے زکر نہیں کیا جو اعتبار سے تنقید سے عاری ہے۔۔۔ اور جس ایت کی آپ بات کر رے اُس پر میں اُپ کو ابن کسیر کی تفسیر پیش کرتا ہون اور اُس کا صھیع ترجمہ بھی غور سے پڑھیں،، اس آیت کا وہ ترجمہ جو آپ کرتے ہیں وہ نہیں ہے کہ وہ وسیلہ پکڑتے تھے ۔۔۔اگر یہ ترجمہ بھی مان لیا جائے تو پھر بھی یہ اس بات پر دلیل نہیں کے ہم بھی وسیلہ پکڑ سکتے ہیں یہ تو اللہ ہم سے یہود و نصرا کا طرز عمل بتا رہے ویسے ہی جیسے حدیث میں عمرؓ کے دور میں ْمسلمانوں نے عباس ؓ کو وسیلہ بنا کر دُعا کی ۔۔۔اب یہ اُپ پر منصر ہے کے آپ کسی کی پیروی کرتے ہیں ۔۔۔
  2. ﴿ اَلَیْسَ اللهُ بِکَافٍ عَبْدَہ ﴾​ "کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟"(الزمر:36) یہ کہ نبی ﷺ کے جاہ و منصب یا اس کے حق یاذات کو وسیلہ بنانا جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ اے اللہ !میں تجھ سے تیرے نبی کے وسیلے یا تیرے نبی کے جاہ و منصب کے ذریعےیا تیرے نبی کے حق یا انبیاء کے جاہ و حق یا اولیاء کے جاہ و حق کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں تو یہ بدعت ہے اور شرک کے وسائل ہے اور ایسا کرنا نبی ﷺ کے ساتھ جائز ہےاور نہ ہی ان کے علاوہ کسی دوسرے کے ساتھ ۔ اس لئے کہ اللہ تعالی نے اسے جائز قرار نہیں دیا محمد ﷺکا وسیلہ​ نبی ﷺ کا وسیلہ اختیار کرنا کہاں تک جائز ہے ؟ اگر کوئی شخص رسول کی پیروی اس کی محبت،اس کے بتائے گئے راستے پر عمل اورا س کےمنع کئے گئے کاموں سے اجتناب اور عبادت میں اخلاص کے ذریعہ رسول کو وسیلہ بناتا ہے تو یہ عین اسلام ہے اور یہی اللہ کا دین ہے جس کے ساتھ انبیاء کرام مبعوث کئےگئے۔ لیکن رسول سے دعا کے زریعےاور مدد طلب کر کےوسیلہ پکڑنا اور اس سے دشمنوں پر فتح یابی اور بیماروں کی شفایابی کی دعا کرنا تو یہ شرک اکبر ہے اور یہ ابو جہل اور اس کے جیسے دوسرے اصنام پرستوں کا دین ہے ،اسی طرح نبیﷺ کے علاوہ کسی نبی ،ولی،جنو ںملائکہ،شجروحجر اور اصنام سے مدد مانگنا یا مرادیں مانگنا بھی شرک اکبر ہے۔ عبادت کی وہی قسم جائز ہے جس کی دلیل شریعت مطہرہ میں موجود ہو۔ محمد ﷺ کی سفارش کی دلیل میں ایک اندھےآدمی کی مثال دی جاتی ہے کہ اس آدمی نے آپﷺ کو وسیلہ بنایا تو اس توسل کا معنی یہ ہے کہ نبیﷺ اس کے لئے دعا فرمادیں اور اس کی بصارت لوٹا دینے کی سفارش اللہ سے کر دیں یہ نبی کی جاہ یا حق یا ذات کا وسیلہ پکڑنا نہیں ہے ۔ فوت شدگان کےعلاوہ زندوں کا وسیلہ جائز ہے جیسے آپ کسی بھی نیک شخص سے کہیں کہ آپ اللہ سے دعاکریں کہ اللہ مجھے میری بیماری سے شفا دے یا میری بینائی لوٹا دے یا مجھے اللہ صالح اولاد عطا کر دے یا اسی طرح کی دوسری دعائیں کرائیں تو یہ صحیح ہے ۔اور بذات خود بھی اپنے لئے دعا کرے ۔ میرے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی اور وسیلہ بالذات نہیں۔ زندہ بزرگوں سے دعا کروانا دعا دوسرے سے کروانی بھی اسی صورت میں مفید ہو سکتی ہے جب آپ خود بھی دعا کریں اور اللہ کا اذن ہوجائے۔ جو بزرگ فوت ہو جائیں ان کے لیے تو ہم زندوں کو دعا کرنی چاہیے۔ خود دعاکرنے اور'زندہ بزرگ'سےدعا کروانے کا عقیدہ درست ہے۔ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی تھا۔ دلیل سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب قحط پڑتا، عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور کہتے: (( اَللّٰھُمَّ اِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِیْنَا وَاِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیَّنَا فَاسْقِنَا، قَالَ: فَیُسْقَوْنَ )) (صحیح البخاري، الأستسقاء، باب سوال الناس الأمام الأستسقاء اذا قحطوا، ح: 1010) " اے ہمارے اللہ! ہم تیری طرف اپنے نبی ﷺکا وسیلہ اختیار کرتے تھے(یعنی اُن کی زند گی میں اُن سے دعا کرواتے تھے)۔ اور تو ہمیں سیراب کرتا تھا۔ اب (آپ ﷺکی وفات کے بعد) تیری طرف اپنے نبیﷺ کے چچا کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں(یعنی اُن سے دعا کرواتے ہیں) پس تو ہم کو پانی پلا۔"انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:" پس وہ سیراب کیے جاتے تھے ۔ " I. نبی اکرم ﷺکی قبر وہاں موجود تھی۔ ان کی قبر پر ان کے وسیلہ سے دعا مانگنے کا عقیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اگر ہوتا تو قبر پر حاضر ہو جاتے۔ عباس رضی اللہ عنہ کو ساتھ تکلیف دے کر جنگل میں لے جانے کا کو ئی مقصد ہی نہ تھا۔ II. اگر کسی کی ذات اور جاہ کا وسیلہ جائز ہوتا تو حضرت عمر ؓ رسول اللہﷺ ( جو تمام مخلوقات سے افضل اور اعلی ہیں) کی ذات سے وسیلے کو چھوڑ کر حضرت عباس( جو فضیلت میں نبیﷺ سے کہیں گنا کم ہیں) کی ذا ت سے وسیلہ تلاش نہ کرتے ، کیونکہ انکو معلوم تھا کہ نبی ﷺ کی" دعا "کا وسیلہ انکی زندگی میں تھا۔کیونکہ نبی ﷺ اللہ سے دعا مانگتے تو اللہ انکی جس دعا کوچاہتا قبول کرتا تھا۔III. انسان طبعا جس وقت اسکو سخت حاجت پیش آتی ہے کسی بڑے وسیلے ( جو اس کو مقصود تک پہنچادے ) کو تلاش کرتا ہے۔IV. اگر "ذات" کا وسیلہ جائز ہوتا تو حضرت عمر ؓ نبی کریم ﷺ کا وسیلہ انکی موت کے بعدچھوڑتے ؟؟؟ حالانکہ وہ خشک سالی اور قحط کی حالت میں تھے ، یہاں تک کہ اس سال کا نام قحط اور خشک سالی رکھا گیا۔ اب ہم غور کرتے ہیں کہ اس حدیث کو مخالفین کس طرح دلیل بناتے ہیں، کیا یہاں پر مضاف جاہ (ذات) ہے یا دعا؟ I. حضرت عمر ؓ اور صحابہ اکرام اپنے اپنے گھروں میں نہیں بیٹھے اور گھروں میں بیٹھ کر یوں کہا ہو کہ ہم اپنے نبیﷺ کے چچا کے ذریعے وسیلہ تلاش کرتے ہیں ۔ بلکہ اصحابہ اکرام عید گاہ کی طرف تشریف لائے اور اپنے ساتھ حضرت عباسؓ کو لائے اور ان سے اپنے لئے دعا کروائی ۔ اس سے واضح اور روشن ہو گیا کہ یہاں مقام دعا کا مقام ہے اگر مقام ذات اور جاہ کے وسیلے کا ہوتا تو اصحابہ اکرام کے لئے یہ زیادہ لائق ہوتا کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر نبیﷺ کی ذات اور جاہ سے وسیلہ پکڑتے ۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ کی ذات اپنے رفیق اعلی کی طرف منتقل ہونے سے تغیر نہیں ہوئی ۔ یہ سب ادلہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صحابہ اکرام نے نبی اکرم ﷺ کا وسیلہ آپ کی وفات کے بعد تلاش نہیں کیا ، بلکہ وہ تو نیک، صالح ، "زندہ " اور دعا پر قادر شخص کو تلاش کرتے تھے اورا س سے اپنے لئے دعا کرواتے تھے ۔ سیدناحسین رضی اللہ عنہ ایک مقصد لے کر اٹھے تھے۔ مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کوفہ کی طرف چل پڑے۔ راستے ہی میں کربلا کے مقام پر المناک حادثہ پیش آگیا۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ فوت شدہ صاحبِ قبر کے طفیل اور واسطہ سے دعا مانگنے کا عقیدہ ہمارے رہبر و رہنما پیرِ کامل امامِ اعظم ﷺنے مسلمانوں کو دیا ہی نہیں۔ ورنہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنے گھرانے کی دنیا کو یوں داوٴ پر نہ لگاتے۔ بلکہ مدینہ میں اس قبر سے چمٹے رہتے جس میں ان کے نانا بزرگ، امام الانبیاء، فخرِ بنی آدم، سردارِ دو جہان ﷺ آرام فرما ہیں۔ قبر پرستی کی بیماری مسلمانوں میں وبا کی طرح پھیل گئی ہے اللہ کا اِذن کس طرح حاصل ہو سکتا ہے؟ وہی عملِ صالح اللہ کے ہاں قابلِ قبول ہے جو خاص اللہ کی خوشنودی کے لیے اللہ کے خوف سے نبی اکرم ﷺکے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کیا جائے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ (اٰل عمران:31) "(اے میرے پیغمبر ) ان کو فرما دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت چاہتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔ اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ " گویا پیغمبر ﷺ کی پیروی ایک وسیلہ ہے۔ اسی سے اللہ کا اِذن حاصل ہو سکتا ہے۔ کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا؟ لوح و قلم تیرے ہیں حضرت آدم،حضرت یونس ،حضرت زکریا،حضرت ابراھیم،حضرت ایوب،حضرت موسیٰ،حضرت لوط علیھم السلام اور سیدنا محمد ﷺ کی دعا ئیں قرآن ہمیں سنارہا ہے ،جوبنا کسی وسیلے کے خاص اللہ پر یقین اور اللہ سے امید کو ظاہر کرتی ہیں ۔ پھر اللہ کہتا ہے مفہوم ہم نے ابراھیم،اسمعیل ،اسحق ویعقوب (علیھم السلام) کو پورے عالم میں بزرگی عطا فرمائی۔ تو پھر کیوں محمد ﷺ نے ان بزرگ ہستیوں کو بطور وسیلہ اپنی دعا میں شامل نہ کیا ؟ہے کوئی مسنون دعا آپ کے علم میں ؟ اور محمد ﷺ ۔۔۔انکی وفات کے بعد کیوں اصحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین نے ان کو بطور وسیلہ نہ لیا؟ کیوں کہ اللہ کے دین میں "اس" وسیلے کی کوئی موجودگی ہی نہیں۔ اور اتنی بڑی مثال ہے سورہ مجادلہ کی پہلی آیت۔۔۔سیدہ خولہ بنت ثعلبہ ؓ اللہ کے رسول کی زندگی میں اللہ کے رسول کے سامنے بیٹھے بیٹھے۔۔۔ اللہ کے رسول ﷺ کے حکم نافذ کردینے کے بعد ۔۔۔اللہ سے اپنی بات منواتی ہیں ۔۔۔کہ جب تک وحی نہیں آتی وہ عورت وہیں بیٹھی ہے ۔۔۔ اور سورہ مجادلہ کی آیات نازل ہوتی ہیں ۔اور اللہ اپنے نبی کی بجائے اس عورت کی بات مان لیتا ہے۔۔۔ کون ہے پھر؟؟؟​ اور کس کا وسیلہ ؟​ وہ جس کی چاہے سنتا ہے۔​ اللھم ارنا الحق َ حقا وّارزقنا اتّباعہ و ارنا الباطل َ باطلا وّارزقنا اجتنابہ۔ اللھّم اتمم لنا نورنا واغفرلنا ذنوبنا انک علی کل شئی قدیر۔ آمین یارب
  3. Best Frind

    Masla E Noor O Bashar

    mian ne aj he is topic ko read kia lakin wo clos ho chuka hai ... iz main kisi ne last page per fatway ki pic share ki thi lakin afsos wo mukamal nhy thi ....kisi bi bat ko adhora post nhy karty ...sab se pehle mian os fatway k bare mian bat karta hon is mian saf saf likha hai k noor hadiyat ko kehty hian lakin afsos hum in ko kahan le jaty hian ...isi taran surah maidah ki ayat 15 main b hadiya ko noor kaha gaya jis ki tafseer ibne kaseer ki kitab se shere kar raha hon ... shaid k ap noor ka matlab samj jain .....jab hum kisi k liye yeh elfaz istimal karty hian dehkho is shaks k chehry per kesa noor hai tu is ka hargiz yeh matlab nhy k wo shaks noor se peda howa ..matlab k sidhe rasty per hai gunahon se door hai ,, or jo hadees ap pesh karty hain k sab se pehle nabi (s.a) ko peda kiya gaya tu bahi os hades ki sehat ka ap ko b andaza hai jab k ak bukahri ki saf or wasiya hadees hai.. جلد دوم صحیح بخاری مخلوقات کی ابتداء کا بیان صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ مخلوقات کی ابتداء کا بیان ۔ حدیث 451 اللہ تعالیٰ کے قول”اور وہی ہے جو اول بار پیدا کرتا ہے‘ پھر دوبارہ زندہ کرے گا“ کا بیان ربیع بن خثیم اور حسن نے فرمایا‘ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے لئے آسان ہے ھَین اور رَھِین ‘لَین اور لَیِن اور مَیت اور مَیِّت ‘ ضَیق اور ضَیِّق کی طرح ہیں (یعنی مشدد اور مخفف میں کوئی فرق نہیں) افعیینا کے معنی ہیں کیا ہمارے لئے دشوار ہے‘ جب تمہیں اور تمہاری خلقت کو پیدا کیا لُغُوب‘ کے معنی تکان ہیں‘ اطواراً کبھی ایک حالت میں کبھی دوسری میں رکھا‘ عدا طورہ‘ وہ اپنے مرتبہ اور قدر سے گزر گیا۔ راوی: عمر بن حفص بن غیاث ان کے ولد اعمش جامع بن شداد صفوان بن محرز عمران بن حصین ما حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ شَدَّادٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ دَخَلْتُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَقَلْتُ نَاقَتِي بِالْبَابِ فَأَتَاهُ نَاسٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ فَقَالَ اقْبَلُوا الْبُشْرَی يَا بَنِي تَمِيمٍ قَالُوا قَدْ بَشَّرْتَنَا فَأَعْطِنَا مَرَّتَيْنِ ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْهِ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ فَقَالَ اقْبَلُوا الْبُشْرَی يَا أَهْلَ الْيَمَنِ إِذْ لَمْ يَقْبَلْهَا بَنُو تَمِيمٍ قَالُوا قَدْ قَبِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالُوا جِئْنَاکَ نَسْأَلُکَ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ قَالَ کَانَ اللَّهُ وَلَمْ يَکُنْ شَيْئٌ غَيْرُهُ وَکَانَ عَرْشُهُ عَلَی الْمَائِ وَکَتَبَ فِي الذِّکْرِ کُلَّ شَيْئٍ وَخَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَنَادَی مُنَادٍ ذَهَبَتْ نَاقَتُکَ يَا ابْنَ الْحُصَيْنِ فَانْطَلَقْتُ فَإِذَا هِيَ يَقْطَعُ دُونَهَا السَّرَابُ فَوَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي کُنْتُ تَرَکْتُهَا وَرَوَی عِيسَی عَنْ رَقَبَةَ عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَامَ فِينَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَامًا فَأَخْبَرَنَا عَنْ بَدْئِ الْخَلْقِ حَتَّی دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنَازِلَهُمْ وَأَهْلُ النَّارِ مَنَازِلَهُمْ حَفِظَ ذَلِکَ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ عمر بن حفص بن غیاث ان کے ولد اعمش جامع بن شداد صفوان بن محرز عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اپنی اونٹنی کو دروازہ پر باندھ کر حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنوتمیم کے کچھ لوگ آئے آپ نے فرمایا بشارت قبول کرو اے بنوتمیم! انہوں نے دو مرتبہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بشارت تو دی ہے اب کچھ عطا بھی تو فرمائیے پھر یمن کے کچھ لوگ حاضر خدمت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اہل یمن بشارت قبول کرو کیونکہ بنی تمیم نے تو اسے رد کردیا ہے انہوں نے کہا یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے قبول کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس امر (دین) کے بارے میں کچھ دریافت کرنے کیلئے حاضر ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (ابتد اء میں) اللہ تعالیٰ کا وجود تھا اور کوئی چیز موجود نہیں تھی اس کا عرش پانی پر تھا اور اس نے ہر ہونے ولی چیز کو لوح محفوظ میں لکھ لیا تھا اور اس نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے اتنی ہی بات سنی) کہ ایک منادی نے آواز دی کہ اے ابن حصین! تیری اونٹنی بھاگ گئی میں (اٹھ کر) چلا تو وہ اتنی دور چلی گئی تھی کہ سراب بیچ میں حائل ہوگیا بس اللہ کی قسم! میں نے تمنا کی کہ میں اسے چھوڑ دیتا عیسیٰ، رقبہ، قیس بن مسلم، طارق بن شہاب سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان ایک مقام پر کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے آفرینش کی بابت ہمیں بتلایا حتیٰ کہ (یہ بھی بتلایا کہ) جنتی اپنی منزلوں اور دوزخی اپنی جگہوں میں داخل ہو گئے اس بات کو یاد رکھا جس نے یاد رکھا اور بھول گیا جو بھول گیا۔ ak sahe haeds jo chor kar ap kese ak gahir wasiya rawayat ko qabool kar sakty hian ..
×
×
  • Create New...