Jump to content

Raza Asqalani

اراکین
  • کل پوسٹس

    362
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    54

سب کچھ Raza Asqalani نے پوسٹ کیا

  1. ارے جناب آپ نے کب ماننا ہے کم ازکم لاجواب تو ہیں نا واضح ثبوت ہیں اور سب دلائل موجود ہیں۔ ارے میاں کون سے جمہور کی بات کر رہے وہ تین سلفی جس کی تحقیق کو خود سلفی نہیں مانتے اور جناب ہیں کہ ان کو جمہور بنائے جارہے ہیں؟؟ اب ہم اصول حدیث کی روشنی میں رد کیا ہے اور خود زبیر علی زئی نے بھی رد کیا ہے تو بتائیں اب اور کیا چاہیے جناب کو؟؟ اگر شعیب الارنووط یا مقبل کے مقلد ہیں تو بتائیں؟؟ ہم تو جمہور ائمہ حدیث کے اصول و قواعد سے چلتے ہیں اپنی من مانی نہیں کرتے اصولوں میں۔ پہلے بات تو یہ ہے جن کے حوالے دیے ہیں وہ ہم پر حجت نہیں دوسری بات یہ ہے ان کی تحقیق کا رد ہم نے اصول و قواعد و دلائل سے پیش کیا ہے اگر جناب کے پاس دلائل ہیں تو پیش کریں ان لوگوں کے حوالے تو نہ دیں جن کو خود ان کی جماعت کے لوگ بھی نہیں مانتے۔ جناب جتنی بھی روایات ہیں سب کی سب ضعیف ہیں ایک بھی اصول پر صحیح نہیں ہے۔ اہل علم حضرات اپنے علم ودلائل سے مقابلہ کرتے ہیں ناکہ کسی کی اندھی تقلید میں پوسٹر چپکا دیتے ہیں جناب اصول حدیث کے قواعد و اصول موجود ہیں اس اصول پر تصحیح ثابت کریں باقی سلفیوں کی تحقیقات خود اپنے پاس رکھیں کیونکہ یہ خود اپنی جماعت وہابیوں پر بھی حجت نہیں ہیں۔
  2. اگر سلفیوں کی تحقیق اتنا پیاری لگی رہی ہے تو پھر یزید کو امیر المومنین (معاذاللہ) کیوں نہیں مان لیتے کیونکہ وہ اسے تحقیق کر کے ہی امیرالمومنین مانتے ہیں۔ تو بسم اللہ کیوں نہیں کرتے اگر سلفی اتنے جناب کو پیارے لگنے لگ گے ہیں۔ ارے جناب ہمارے نزدیک شعیب الارنووط ، احمد شاکر ، مقبل وغیرہ کوئی حجت نہیں کیونکہ نہ ہم ان کے تحقیق کے مقلد ہیں اس کے ان کے حوالے دینا بند کریں اور جو بھی بات کریں اصول و قواعد سے کریں۔ کیونکہ تصحیح و تضعیف اصول کے مطابق کی جاتی ہے جو بھی تصحیح و تضعیف اصول سے ہٹ کر ہو گی اسے رد کر دیا جائے گا چاہے وہ کوئی عالم کیوں نہ ہو۔
  3. مزے کی بات یہ ہے جس روایت کو یہ جناب قاتل بنانے پر دلیل پیش کر رہے تھے خود مقبل غیر مقلد نے بھی اس کی تصحیح نہیں کی اسے ایسے چھوڑ دیا اس لئے کہتے ہیں نقل مارنے کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ باقی اس روایت پر مکمل تحقیق اوپر پیش کر آئے ہیں کہ اس کی سند میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر ایک مجہول راوی ہے اور تحقیقا یہ ضعیف راویت ہے اور یہاں قال لفظ بھی کلثوم بن جبر کا نہیں بلکہ اس مجہول راوی کا ہے جس کی تصریح امام طبرانی کے طرق میں موجود ہے جس کا ہم نے اوپر پیش کیا ہے جس کا جناب نے کوئی جواب نہیں دیا ابھی تک۔
  4. لیں میاں مقبل سلفی کا رد زبیر علی سلفی سے تاکہ جناب کو آئینہ دیکھا سکیں جو سلفیوں کو جا پکڑے ہیں۔ زئی لکھتا ہے۔ أبو حفص و كلثوم عن أبى غادية قال… . فقيل قتلت عمار بن ياسر و أخبر عمرو بن العاص فقال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : أن قاتله و سالبه فى النار“إلخ [طبقات ابن سعد 261/3 و اللفظ له، مسند احمد 198/4، الصحيحة 19/5 ]اس روایت کے بارے میں شیخ البانی نے کہا:وهٰذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال مسلم… .عر ض ہے کہ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ تک اس سند کے صحیح ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قاتله و سالبه فى النار والی روایت بھی صحیح ہے۔ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :فقيل… . إلخ پس کہا گیا کہ تو نے عمار بن یاسر کو قتل کیا اور عمرو بن العاص کو یہ خبر پہنچی ہے تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ”بے شک اس (عمار ) کا قاتل اور سامان لوٹنے والا آگ میں ہے۔ “اس سے معلوم ہوا کہ اس روایت کا راوی فقيل کا فاعل ہے جو نامعلوم (مجہول) ہے۔ راوی اگر مجہول ہو تو روایت ضعیف ہوتی ہے لہٰذا یہ في النار والی روایت بلحاظِ سند ضعیف ہے۔ ”إسنادہ صحیح“ نہیں ہے۔دوسرے یہ کہ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ سے روایت دو راوی بیان کر رہے ہیں :➊ ابوحفص : مجہول۔➋ کلثوم بن جبر : ثقہ۔امام حماد بن سلمہ رحمہ الله نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ انہوں نے کس راوی کے الفاظ بیان کئے ہیں ؟ ابوحفص (مجہول) کے یا کلثوم بن جبر (ثقہ ) کے اور اس بات کی بھی کوئی صراحت نہیں ہے کہ کیا دونوں راویوں کے الفاظ من و عن ایک ہیں یا ان میں اختلاف ہے۔خلاصہ التحقیق : یہ روایت اپنی تینوں سندوں کے ساتھ ضعیف ہے لہٰذا اسے صحیح کہنا غلط ہے۔ (الحدیث شمارہ نمبر 31 ص 26)
  5. اس روایت کو بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے مفت میں ایسے چپکا دیا ہے اس کا پوسٹر کیونکہ اس میں قاتل وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
  6. پہلے تو مقبل کا ہم رد زبیر علی زئی سے پیش کر چکے ہیں اور نہ مقبل کی تحقیق ہم پر حجت ہے کیونکہ وہ سلفی یزیدی تھا۔ اور ہم نے اوپر اس روایت کو تحقیقا منکر ثابت کر چکے آئے ہیں جس کا جناب نے کوئی جواب نہیں دیا پھر سلفیوں کو پکڑ کر لے آئے حیرت ہے۔ لیکن پھر بھی جناب نقل مارنے کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے مقبل غیر مقلد نے نیچے والی روایت کی تصحیح کی ہے اوپر والی روایت کی نہیں اور نیچے والی روایت میں قاتل ہونے کی کوئی بات نہیں۔
  7. ارے جناب مجھے کسی کا نہ کہیں کہ میں کسی سے مدد لوں کیونکہ الحمدللہ فقیر کو علم حدیث میں ان حضرات کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔اس لئے مقبل کا رد خود زبیر علی زئی سے سلفی کا رد سلفی سے۔ "ابوحفص (مجہول) کے یا کلثوم بن جبر (ثقہ ) کے اور اس بات کی بھی کوئی صراحت نہیں ہے کہ کیا دونوں راویوں کے الفاظ من و عن ایک ہیں یا ان میں اختلاف ہے۔ خلاصہ التحقیق : یہ روایت اپنی تینوں سندوں کے ساتھ ضعیف ہے لہٰذا اسے صحیح کہنا غلط ہے۔" (الحدیث شمارہ نمبر 31 ص 26) اس لئے سلفی تحقیق کا جواب سلفیوں سے دیے دیا ہے امید ہے اب سلفیوں کے حوالے ہمیں نہیں دیں گے کیونکہ سلفیوں کی تحقیق ہم پر حجت نہیں اصل تحقیق اصول کی ہوتی ہے جو ہم نے پیش کی ہے۔
  8. مقبل غیر مقلد کی تحقیق کو خود زبیر علی زئی نہیں مانتا تو یہ جناب ہیں کے ہیں مقبل غیر مقلد کے تحقیق ہمیں پیش کیے جارہے ہیں۔ لو زبیر علی زئی اس راویات کے بارے میں کیا کہتا ہے جن کی مقبل غیر مقلد نے تصحیح کی۔ زئی لکھتا ہے۔ أبو حفص و كلثوم عن أبى غادية قال… . فقيل قتلت عمار بن ياسر و أخبر عمرو بن العاص فقال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : أن قاتله و سالبه فى النار“إلخ [طبقات ابن سعد 261/3 و اللفظ له، مسند احمد 198/4، الصحيحة 19/5 ]اس روایت کے بارے میں شیخ البانی نے کہا:وهٰذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال مسلم… .عر ض ہے کہ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ تک اس سند کے صحیح ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قاتله و سالبه فى النار والی روایت بھی صحیح ہے۔ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :فقيل… . إلخ پس کہا گیا کہ تو نے عمار بن یاسر کو قتل کیا اور عمرو بن العاص کو یہ خبر پہنچی ہے تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ”بے شک اس (عمار ) کا قاتل اور سامان لوٹنے والا آگ میں ہے۔ “اس سے معلوم ہوا کہ اس روایت کا راوی فقيل کا فاعل ہے جو نامعلوم (مجہول) ہے۔ راوی اگر مجہول ہو تو روایت ضعیف ہوتی ہے لہٰذا یہ في النار والی روایت بلحاظِ سند ضعیف ہے۔ ”إسنادہ صحیح“ نہیں ہے۔دوسرے یہ کہ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ سے روایت دو راوی بیان کر رہے ہیں :➊ ابوحفص : مجہول۔➋ کلثوم بن جبر : ثقہ۔امام حماد بن سلمہ رحمہ الله نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ انہوں نے کس راوی کے الفاظ بیان کئے ہیں ؟ ابوحفص (مجہول) کے یا کلثوم بن جبر (ثقہ ) کے اور اس بات کی بھی کوئی صراحت نہیں ہے کہ کیا دونوں راویوں کے الفاظ من و عن ایک ہیں یا ان میں اختلاف ہے۔خلاصہ التحقیق : یہ روایت اپنی تینوں سندوں کے ساتھ ضعیف ہے لہٰذا اسے صحیح کہنا غلط ہے۔ (الحدیث شمارہ نمبر 31 ص 26)
  9. مقبل بن ہادی الوداعی متشدد قسم کا سلفی تھا اور یہ اہل سنت اشاعرہ اور ماتریدیہ کو گمراہ اور بدعتی کہتا تھا حتی کے یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ اس نے امام ابوحنیفہ پر سپیشل کتاب لکھی اس میں کئی تکفیری اقوال کی اسناد کی تصحیح کی۔ ارے میاں اب سلفی غیر مقلد ہی ملے تھے آپ کو اور تو کوئی حوالے نہیں ملے؟؟ اب ہم سلفیوں سے یزید کے امیر المومنین (معاذاللہ) کے الفاظوں کی تحقیق پیش کریں گے تو کیا اسے بھی مان لو گے؟؟ رافضی بھی اب سلفی یزیدیوں کے دروازے پر کب سے جانے لگے ہیں۔ حیف ہے جناب پر
  10. یہ روایت حسن نہیں ہے بلکہ ضعیف ہے کیونکہ اشعث بن سوار پر جرح مفسر موجود ہے۔ وقال ابن حبان: فاحش الخطأ كثير الوهم. (سیر اعلام النبلاء) وقال بندار ليس بثقة (تہذیب التہذیب) اور امام دارقطنی کے نزدیک یہ متروک راوی ہے۔ یہ روایت منکر ہے کیونکہ یہ اوثق کی مخالفت ہے اس لئے امام ابن حجر لکھتے ہیں:وقال البيهقي عن الحاكم رواه الحسن بن عياش عن عبدالملك بن أبجر عن الزبير بن عدي بلفظ كان يرفع يديه في أول تكبير ثم لا يعود وقد رواه الثوري عن الزبير بن عدي بلفظ كان يرفع يديه في التكبير ليس فيه ثم لا يعود وقد رواه الثوري وهو المحفوظ (الدرایۃ لابن حجر ج 1 ص 151)
  11. قاسم صاحب ہماری جناب سے درخواست ہے کہ جس پوسٹر کا جواب دیا جائے اس کو دوبارہ پوسٹ نہ کیا کریں۔ ورنہ میری طرف سے کوئی جواب نہیں دیا جائے گا کیونکہ اس طرح میرا وقت ضائع ہوتا ہے۔ اگر کوئی نئی دلیل ہو گی تو اس کا جواب ضرور دیا جائے گا۔ اس لیے ایڈمنز حضرات اور موڈریٹرز حضرات سے گزارش ہے کہ جب تک یہ وہی پرانے پوسٹرز چیکانا شروع کر یں تو وہ ڈیلیٹ کر دیں اگر کوئی نئی دلیل یا نیا پوسٹر لگائیں تو اس کو رہنے دیں تاکہ اس کا ہم جواب دے سکیں۔ آپ سب کا شکریہ اللہ عزوجل ہم سب کو صراط مستقیم پر ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔ آمین
  12. اس روایت کا اوپر تحقیقی اور اصولی جواب دیا جا چکا ہے اس کے علاوہ تصحیح کے حوالے سے خود سلفیوں کے گھر سے محدث ارشاد اثری سے بھی اوپر جواب دیا جا چکا ہے۔ ارے جناب جب علماء اہل سنت اس روایت کی تصحیح کرتے تو اس کا جواب علماء اہل سنت کے اصولوں سے دیتے اس لئے اس کی تصحیح سلفیوں نے کی اس لئے اس کا جواب بھی سلفی علماء سے دی ہے۔ باقی علامہ سندھی نے اپنی بات کی کوئی صحیح سند روایت پیش نہیں کی انہوں نے بھی تسامحات کی پیروی کی اور خود تحقیق نہیں فرمائے۔ اس لئے بے اسناد باتیں ویسے بھی مردود ہوتی ہیں اس لئے علامہ سندھی کی بات بے سند ہے اور بنا دلیل کے ہیں۔
  13. شعیب الارنووط عقیدتا سلفی تھا اور آج کل کے زمانے سے تھا تو اس کا رد بھی سلفی اور آج کے زمانے پیش کر دیتے ہیں ۔ ارشاد الحق کی یہ عبارت جناب کے لئے قابل عبرت ہے جس میں اس نے مثالیں دیں ہیں کہ کسی روایت کی تصحیح کرنے سے اگر اس میں کوئی ضعیف راوی ہے تو وہ روایت صحیح نہیں ہو جاتیں۔ اس لئے شعیب الارنووط اور احمد شاکر کی تحسین سے روایت حقیقت میں حسن نہیں بن جاتی کیونکہ اس میں ایک مجہول راوی ہے اس لئے وہ ضعیف ہے۔ اس روایت کی مکمل تحقیق اوپر موجود ہے جس میں واضح موجود ہے کہ اس میں ایک مجہول راوی ہے اس لیے اب مزید جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے یہاں۔ اس لئے جناب دوبارہ دوبارہ پوسٹر لگا کر ہمارا وقت ضائع نہ کریں اگر جواب دینا ہے تو ہمارے اوپر کی پیش کردہ اسناد کا جواب دیں ورنہ آپ کے دوبارہ سے پوسٹر چپکانے کے ہم جواب دہ نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کے پاس کوئی دلائل رہ نہیں اس لئے دوبارہ پھر وہی پوسٹر چیکا رہے ہیں جس کا اوپر جواب دے گیا ہے پہلے سے۔
  14. ارے مزے کی بات یہ ہے اس ضعیف روایت میں خود حضرت ابوالغادیہ کے قصد قتل کا روایت میں ذکر ہی نہیں ہے بلکہ افسوس کا ذکر ہے۔ اور جو قتل خطاء میں ہو جاتے ہیں ان کے بارے میں قرآن فرماتا ہے۔ ﴿وَما كانَ لِمُؤمِنٍ أَن يَقتُلَ مُؤمِنًا إِلّا خَطَـًٔا وَمَن قَتَلَ مُؤمِنًا خَطَـًٔا فَتَحريرُ رَقَبَةٍ مُؤمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلىٰ أَهلِهِ إِلّا أَن يَصَّدَّقوا فَإِن كانَ مِن قَومٍ عَدُوٍّ لَكُم وَهُوَ مُؤمِنٌ فَتَحريرُ رَقَبَةٍ مُؤمِنَةٍ وَإِن كانَ مِن قَومٍ بَينَكُم وَبَينَهُم ميثـٰقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلىٰ أَهلِهِ وَتَحريرُ رَقَبَةٍ مُؤمِنَةٍ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ شَهرَينِ مُتَتابِعَينِ تَوبَةً مِنَ اللَّهِ وَكانَ اللَّهُ عَليمًا حَكيمًا ﴿٩٢﴾ وَمَن يَقتُل مُؤمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خـٰلِدًا فيها وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذابًا عَظيمًا ﴿٩٣﴾... سورة النساء "کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کر دینا زیبا نہیں مگر غلطی سے ہو جائے (تو اور بات ہے)، جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالے، اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وه لوگ بطور صدقہ معاف کر دیں اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم کا ہو اور ہو وه مسلمان، تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرنی لازمی ہے۔ اور اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد و پیماں ہے تو خون بہا لازم ہے، جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی (ضروری ہے)، پس جو نہ پائے اس کے ذمے دو مہینے کے لگاتار روزے ہیں، اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کے لئےاور اللہ تعالیٰ بخوبی جاننے والا اور حکمت والا ہے" اب جناب بتائیں جناب کی ضعیف روایت سے بھی حضرت ابوالغادیہ (معاذاللہ ) جہنمی نہیں بنتے کیونکہ روایت میں قصدا قتل کا ذکر ہی نہیں اور قصدا قتل نہ کرنے بارے میں اوپر قرآن کی آیت موجود ہے۔ اس کے علاوہ بیعت رضوان کے صحابہ سے اللہ پہلے سے راضی ہے تو پھر کچھ بچا ہی نہیں ہے بحث پر۔ لَقَدْ رَضِیَ اللَّہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوبِہِمْ فَأَنزَلَ السَّکِیْنَةَ عَلَیْہِمْ وَأَثَابَہُمْ فَتْحاً قَرِیْباً (الفتح : ۱۸) اور حضرت ابوالغادیہ بیعت رضوان کے صحابہ میں سے ہیں اس لئے ان کی جنت پکی ہے۔ اس کے علاوہ ضعیف روایت میں حضرت ابوالغادیہ کے افسوس کے الفاظ ہیں اور احادیث میں افسوس و ندامت کو بھی توبہ میں شمار کیا گیا ہے اب کچھ بچا ہی نہیں ہے۔ اس لئے صحابہ کو چھوڑ تم اپنی آخرت کی فکر کرو۔
  15. اس روایت کا مکمل اسنادی جواب اوپر مکمل چکا ہے باقی جناب کی یہاں ایک ترجمہ کی غلطی دیکھانی تھی وہ یہ کہ یہاں قال کلثوم بن جبر کا نہیں بلکہ عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر کا ہے جو کہ مجہول ہے اور امام طبرانی کی سند میں اس بات کی تصریح ہے۔ حدثنا علي بن عبد العزيز وأبو مسلم الكشي قالا ثنا مسلم بن إبراهيم ثنا ربيعة بن كلثوم ثنا أبي قال كنت بواسط القصب عند عبد الأعلى بن عبد الله بن عامر فقال: « الآذان هذا أبو غادية الجهني فقال عبد الأعلى أدخلوه فدخل وعليه مقطعات له رجل طول ضرب من الرجال كأنه ليس من هذه الأمة فلما أن قعد قال بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت يمينك قال نعم خطبنا يوم العقبة فقال « يأيها الناس ألا إن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا ألا هل بلغت؟ قالوا نعم قال: اللهم اشهد. قال « لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض قال: وكنا نعد عمار بن ياسر من خيارنا قال فلما كان يوم صفين أقبل يمشي أول الكتيبة راجلا حتى إذا كان من الصفين طعن رجلا في ركبته بالرمح فعثر فانكفأ المغفر عنه فضربه فإذا هو رأس عمار قال يقول مولى لنا أي كفتاه قال فلم أر رجلا أبين ضلالة عندي منه إنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم ما سمع ثم قتل عماراً" )المعجم الکبیر للطبرانی ج 22 ص 363 رقم 912)
  16. اس روایت کا مکمل اسنادی جواب اوپر مکمل چکا ہے باقی جناب کی یہاں ایک ترجمہ کی غلطی دیکھانی تھی وہ یہ کہ یہاں قال کلثوم بن جبر کا نہیں بلکہ عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر کا ہے جو کہ مجہول ہے اور امام طبرانی کی سند میں اس بات کی تصریح ہے۔ حدثنا علي بن عبد العزيز وأبو مسلم الكشي قالا ثنا مسلم بن إبراهيم ثنا ربيعة بن كلثوم ثنا أبي قال كنت بواسط القصب عند عبد الأعلى بن عبد الله بن عامر فقال: « الآذان هذا أبو غادية الجهني فقال عبد الأعلى أدخلوه فدخل وعليه مقطعات له رجل طول ضرب من الرجال كأنه ليس من هذه الأمة فلما أن قعد قال بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت يمينك قال نعم خطبنا يوم العقبة فقال « يأيها الناس ألا إن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا ألا هل بلغت؟ قالوا نعم قال: اللهم اشهد. قال « لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض قال: وكنا نعد عمار بن ياسر من خيارنا قال فلما كان يوم صفين أقبل يمشي أول الكتيبة راجلا حتى إذا كان من الصفين طعن رجلا في ركبته بالرمح فعثر فانكفأ المغفر عنه فضربه فإذا هو رأس عمار قال يقول مولى لنا أي كفتاه قال فلم أر رجلا أبين ضلالة عندي منه إنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم ما سمع ثم قتل عماراً" )المعجم الکبیر للطبرانی ج 22 ص 363 رقم 912)
  17. ارے جناب محدثین کا اسلوب بھی یہ دیکھ لیا کرو کیونکہ بعض محدثین حدیث کو مختصر اور بعض مفصل بیان کرتے ہیں۔ لیکن مسنداحمد کی روایت میں متن میں لفظ "قال" ہے جس کا نہ ترجمہ کیا گیا اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ یہ "قال" کس نے کہا ہے؟؟ آیا یہ کلثوم بن جبر نے کہا ہے یا عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر نے کہا ہے؟؟ اس بات کی مسنداحمد میں تصریح نہیں اس لیے ہم نے اس کی مکمل اسناد جمع کر کے پتہ چلایا کہ یہ "قال" عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر نے کہا ہے یہ کلثوم بن جبر نے نہیں کہااس لئے ترجمہ کرنے والے نے غلط ترجمہ کیا اور اس "قال" کو کلثوم بن جبر کی طرف منسوب کر دیا جو کہ درست نہیں۔ جب کہ امام طبرانی کی روایت میں قال کہنے والے بندے کی تصریح موجود ہے اس لئے واضح ہو گیا کہ اس بات کو بیان کرنے والا عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر ہے جو کہ مجہول ہے۔ امام طبرانی کی روایت کی ہے: حدثنا علي بن عبد العزيز وأبو مسلم الكشي قالا ثنا مسلم بن إبراهيم ثنا ربيعة بن كلثوم ثنا أبي قال كنت بواسط القصب عند عبد الأعلى بن عبد الله بن عامر فقال: « الآذان هذا أبو غادية الجهني فقال عبد الأعلى أدخلوه فدخل وعليه مقطعات له رجل طول ضرب من الرجال كأنه ليس من هذه الأمة فلما أن قعد قال بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت يمينك قال نعم خطبنا يوم العقبة فقال « يأيها الناس ألا إن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا ألا هل بلغت؟ قالوا نعم قال: اللهم اشهد. قال « لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض قال: وكنا نعد عمار بن ياسر من خيارنا قال فلما كان يوم صفين أقبل يمشي أول الكتيبة راجلا حتى إذا كان من الصفين طعن رجلا في ركبته بالرمح فعثر فانكفأ المغفر عنه فضربه فإذا هو رأس عمار قال يقول مولى لنا أي كفتاه قال فلم أر رجلا أبين ضلالة عندي منه إنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم ما سمع ثم قتل عماراً" )المعجم الکبیر للطبرانی ج 22 ص 363 رقم 912)
  18. ارے جناب حیرت ہوتی ہے جس کا جواب ہم پہلے دے آتے ہیں پھر وہی پوسٹ کر دیتے ہیں۔ خیر چلیں اس روایت کی حقیقت بتاتے ہیں۔ (اول) شعیب الارنووط نے جس حدیث کو صحیح کہا وہ اس کے روایت کے علاوہ ہے کیونکہ وہ اور طرق سے ثابت ہے اور وہ حدیث یہ ہے: إن دماءكم وأموالكم وأعراضكم حرام عليكم.۔۔الخ (صحیح بخاری رقم 467 ، صحیح مسلم ج5 ص 108) اس لئے یہ حدیث تو ثابت ہے باقی جو اس نے اور متن کی روایت پر "اسنادہ حسن" کا حکم لگایا ہے وہ تحقیقا درست نہیں کیونکہ اس روایت کی مکمل اسناد جمع کی جائے تو اس کی سند میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر ایک مجہول راوی ہے جو یہ قصہ بیان کرتا ہے۔ تفصیل یہ ہے: حدثنا عبد الله قال حدثني أبو موسى العنزي محمد بن المثنى قال حدثنا محمد بن أبي عدي عن ابن عون عن كلثوم بن جبر قال كنا بواسط القصب عند عبد الأعلى بن عبد الله بن عامر قال فإذا عنده رجل يقال له أبو الغادية استسقى ماء فأتي بإناء مفضض فأبى أن يشرب وذكر النبي صلى الله عليه وسلم فذكر هذا الحديث لا ترجعوا بعدي كفارا أو ضلالا شك ابن أبي عدي يضرب بعضكم رقاب بعض فإذا رجل يسب فلانا فقلت والله لئن أمكنني الله منك في كتيبة فلما كان يوم صفين إذا أنا به وعليه درع قال ففطنت إلى الفرجة في جربان الدرع فطعنته فقتلته فإذا هو عمار بن ياسر قال قلت وأي يد كفتاه يكره أن يشرب في إناء مفضض وقد قتل عمار بن ياسر (زوائد المسند احمد رقم 16257) حَدَّثَنَا إبراهيم بن حجاج حَدَّثَنَا مرثد بن عامر الهنائي حَدَّثَنَا كلثوم بن جبر قال كنا بواسط القصب في منزل عنبسة بن سَعِيد القرشي وفينا عَبْد الأعلى بن عَبْد الله بن عامر في أناس إذ جاء إذن القوم فقال إن قاتل عمار بالباب قال فكره بعض القوم فقال أدخلوه فدخل فإذا شيخ طوال يجر مقطعات له فسلم ثم قال لقد أدركت النبي صلى الله عليه وسلم وإني لأنفع أهلي وأرد عليهم الغنم قال فقال بعض القوم يا أبا غادية كيف كان أمر عمار قال كنا نعد عمارا فينا حنانا حتى إذا كان يوم صفين استقبلني يقود الكتيبة رجلا فاختلف أنا وهو ضربتين فبدرته ضربة فكب لوجهه ثم اتبعته بالسيف فقتلته قال أَبُو بكر واسم أبي غادية ياسر بن سبع مدني (الاحاد والمثانی للشیبانی رقم 275) حدثنا علي بن عبد العزيز وأبو مسلم الكشي قالا ثنا مسلم بن إبراهيم ثنا ربيعة بن كلثوم ثنا أبي قال كنت بواسط القصب عند عبد الأعلى بن عبد الله بن عامر فقال: « الآذان هذا أبو غادية الجهني فقال عبد الأعلى أدخلوه فدخل وعليه مقطعات له رجل طول ضرب من الرجال كأنه ليس من هذه الأمة فلما أن قعد قال بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت يمينك قال نعم خطبنا يوم العقبة فقال « يأيها الناس ألا إن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا ألا هل بلغت؟ قالوا نعم قال: اللهم اشهد. قال « لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض قال: وكنا نعد عمار بن ياسر من خيارنا قال فلما كان يوم صفين أقبل يمشي أول الكتيبة راجلا حتى إذا كان من الصفين طعن رجلا في ركبته بالرمح فعثر فانكفأ المغفر عنه فضربه فإذا هو رأس عمار قال يقول مولى لنا أي كفتاه قال فلم أر رجلا أبين ضلالة عندي منه إنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم ما سمع ثم قتل عماراً" )المعجم الکبیر للطبرانی ج 22 ص 363 رقم 912) قال ثنا أحمد بن داود المكي ثنا يحيى بن عمر الليثي ثنا عبد الله بن كلثوم بن جبر قال سمعت أبي قال كنا عند عنبسة بن سعيد فركبت يوما إلى الحجاج فأتاه رجل يقال له أبو غادية الجهني يقول وشهدت خطبته يوم العقبة « إن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا ألا لا ترجعوا بعدي كفاراً يضرب بعضكم رقاب بعض حتى إذا كان يوم أحيط بعثمان سمعت رجلا وهو يقول « ألا لا تقتل هذا فنظرت إليه فإذا هو عمار فلولا من كان من خلفه من أصحابه لوطنت بطنه فقلت: اللهم إن تشاء أن يلقينيه فلما كان يوم صفين إذا أنا برجل شر يقود كتيبة راجلا فنظرت إلى الدرع فانكسف عن ركبته فأطعنه فإذا هو عمار» (المعجم الکبیر للطبرانی ج 22 ص 363 رقم 913) وقال يعقوب بن شيبة في مسند عمار : حدثنا : مسلم بن إبراهيم ، حدثنا : ربيعة بن كلثوم بن جبر ، حدثنا : أبي قال : كنت بواسط القصب عند عبد الأعلي بن عبد الله بن عامر فقال : الإذن هذا أبو الغادية الجهني فقال : أدخلوه فدخل رجل عليه مقطعات فإذا رجل ضرب من الرجال كأنه ليس من رجال هذه الأمة ، فلما إن قعد قال : بايعت رسول الله (ص) قلت : بيمينك ، قال : نعم . قال : وخطبنا يوم العقبة فقال : يا أيها الناس إن دماءكم وأموالكم عليكم حرام الحديث ، وقال في خبره : وكنا نعد عمار بن ياسر فينا حنانا فوالله إني لفي مسجد قباء إذ هو يقول : إن معقلاً فعل كذا يعني عثمان ، قال : فوالله لو وجدت عليه أعواناً وطئته حتى أقتله ، فلما إن كان يوم صفين أقبل يمشي أول الكتيبة راجلاً حتى إذا كان بين الصفين طعن الرجل في ركبته بالرمح وعثر فانكفأ المغفر عنه فضربه فإذا رأسه قال : فكانوا يتعجبون منه أنه سمع إن دماءكم وأموالكم حرام ثم يقتل عماراً. (الاصابۃ لابن حجر ج7 ص 258) وحدثني : عمرو بن محمد الناقد ، حدثني : عفان بن مسلم ، حدثنا : ربيعة بن كلثوم بن جبر : أخبرني : أبي قال : كنت بواسط القصب عند عبد الأعلي بن عبد الله بن عامر بن كريز ، فقال : الإذن : أبو الغادية بالباب. فأذن له ، فدخل رجل ضرب من الرجال كأنه ليس من هذه الأمة ، فلما قعد قال : بايعت رسول الله (ص). قلت : بيمينك هذه ؟ ، قال : نعم ، وذكر حديثاً، عن النبي (ص) وقال : كنا نعد عمار بن ياسر فينا حناناً فبينا أنا في مسجد قباء إذا هو يقول : إن نعثل هذا فعل وفعل ، فقلت : لو أجد عليه أعواناً لوطئته حتى أقتله وقلت : اللهم إن تشأ تمكنني من عمار ، فلما كان يوم صفين أقبل في أول الكتيبة حتى إذا كان بين الصفين طعنه رجل في ركبته بالرمح فعثر فإنكشف المغفر عنه فضربته فإذا راس عمار بالأرض أو كما قال : فلم أر رجلاً أبين ضلالة من أبي غادية إنه سمع من النبي (ص) في عمار ما سمع ثم قتله ، قال : ودعا بماء فأتي به في كوز زجاج فلم يشربه فأتي بماء في خزف فشربه. (انساب الاشراف للبلاذری) ساری تخریج اسناد پیش کر دی ہے اور ساتھ سرخ کلر سے نشان دہی کر دی ہے اس لئے شعیب الارنووط صاحب کا اس روایت کو اسنادہ حسن کہنا اصول درست نہیں۔ اور عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر کی توثیق سوائے امام ابن حبان کے کسی نے نہیں کی اور امام ابن حبان مجہولین کی توثیق میں متساہل ہیں اس لئے ان کا منفرد ہونا قبول نہیں۔ اس کے علاوہ امام بخاری نے اس کا ذکر کیا ہے لیکن توثیق نہیں کی۔ عبد الأعلى بن عبد الله بن عامر بن كريز القرشي عن عبد الله بن الحارث روى عنه خالد الحذاء نسبه عمرو بن الأصبغ هو البصري (تاریخ الکبیر للبخاری رقم 1742) امام ابن ابی حاتم نے اسکا ذکر تو کیا ہے لیکن اس کی توثیق نہیں کی ہے۔ (الجرح والتعدیل ج6 ص 276) اس کے علاوہ اس روایت کا متن بھی منکر ہے کیونکہ کسی کا قتل کرنا کفر نہیں ہے اور اس روایت میں کفر بتایا ہے اور یہ بات کئی صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ اور اس کے علاوہ یہ قرآن کی آیت کے بھی خلاف ہے کیونکہ بیعت رضوان کے صحابہ پر اللہ راضی ہو چکا ہے لَقَدْ رَضِیَ اللَّہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوبِہِمْ فَأَنزَلَ السَّکِیْنَةَ عَلَیْہِمْ وَأَثَابَہُمْ فَتْحاً قَرِیْباً (الفتح : ۱۸) اس لئے قرآن آیت حق ہے کیونکہ جس سے اللہ راضی ہو جاتا ہے اسے جہنم چھو نہیں سکتی ہے اور قرآن کی آیت نص قطعی ہے جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔
  19. جناب نے اصول کے مطابق کوئی بھی صحیح سند ایسی روایت پیش نہیں کی جس سے واضح ہو کہ قاتل حضرت ابوالغادیہ ہے۔ باقی جو بھی قاتل ہونے کی باتیں ہیں سب ضعیف و موضوع روایت کی بنیاد پر بنے ہوئے ہیں اس لئے جن ائمہ نے بنا کسی تحقیق سے حضرت ابوالغادیہ کو قاتل کہا یہ ان کا تسامح ہے ورنہ تحقیق کے میدان میں ایسی کوئی بات صحیح سند سے ثابت نہیں۔ اللہ عزوجل ائمہ حدیث کی مغفرت فرمائے۔ آمین
  20. امام دارقطنی کا قول اس وقت صحیح ہو گا جب اس کی کوئی دلیل ہو گی ورنہ 271 سال کے فاصلے بعد کسی کے بارے میں بنا کسی دلیل کے قاتل کہہ دینے سے کوئی قاتل نہیں ہو جاتا نہ ہی وہ شرعی طور پر قاتل ثابت ہوتا ہے ورنہ ایسے بے اسناد اقوال صحابہ اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے خلاف کتب میں بھرے پڑے ہیں اس لیے بنا دلیل کے ایسے اقوال کو ماننا بھی اصول حدیث کی روشنی میں درست نہیں۔ جب ثقہ تابعین کی مرسل روایات امام دارقطنی کے اصول سے ماننا درست نہیں تو خود امام دارقطنی کا بے سند قول جنگ صفین کے بارے میں ماننا کیسے درست ہو سکتا ہے؟؟ اس لئے اس قول کی دلیل چاہیے صحیح سند کے ساتھ ۔ ان تمام باتوں کا رد میں پہلے کر چکا ہوں جن کا جناب نے جواب نہیں دیا بس وہی پرانے پوسٹر چپکائے جارہے ہیں اور کچھ نہیں ہے جناب کے پاس۔ اس لیے ہم بھی جناب کے اصول سے وہی پوسڑ چپکا دیتے ہیں
  21. سب اقوال امام دارقطنی سے ہیں تو ایک ہی مستقل جواب دیتا ہوں۔ ارے یار نقل مارنے کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے خود لکھ رہے ہو امام دارقطنی 306 ہجری میں پیدا ہوئے ہیں پھر بنا کسی دلیل سے ان سے حضرت ابوالغادیہ کو قاتل ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہو جب جنگ صفین 37 ہجری میں ہوئی یعنی امام دارقطنی کی پیدائش سے 271 سال پہلے جنگ صفین ہوگی تھی تو امام دارقطنی نے جس دلیل پر قاتل کہا؟ اگر اجتہاد سے کہا ہے تو یہ ان کا تسامح ہے کیونکہ اسلام میں اجتہاد سے قاتل ثابت نہیں کیے جاتے بلکہ دو مردوں یا چار عورتوں کی شرعی گواہی پیش کی جاتی ہے پھر جا کر فیصلہ ہوتا ہے قتل ہونے کا؟؟ دوسری بات یہ ہے کہ امام دارقطنی نے اس بارے میں کوئی دلیل یا روایت پیش نہیں کی اس لیے بنا دلیل کے ہم کیسے مان لیں؟ اگر سند سے دیکھا جائے تو 271 سال کا فاصلہ ہے تو ان کو کیسے پتہ چلا کیونکہ وہ خود جنگ صفین کے عینی شاہد تو نہیں تھے پھر کیسے قاتل کہا؟؟ امید ہے جناب اس بارے میں ضرور جواب دیں گے کہ اسلام میں قتل کے ثبوت کے لیے کیا پیش کرنا پڑتا اور کیا بنا سند کے کسی کو قاتل ثابت کیا جا سکتا ہے اسلامی شرعی عدالت میں؟؟
  22. ارے جناب میرے اس جملہ پر غور کرتے تو یہ سکرین شارٹ نہ دیتے میں نے تو کہا ہے قاتل ہونے کی کوئی صحیح روایت موجود نہیں اگر موجود ہیں جس میں قاتل کے نام کی تصریح ہو تو پیش کریں ۔ اور جناب نے ابھی تک ایک بھی صحیح روایت پیش نہیں کی جس میں قاتل کے نام کی تصریح ہو۔
×
×
  • Create New...