Jump to content

Raza Asqalani

اراکین
  • کل پوسٹس

    362
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    54

سب کچھ Raza Asqalani نے پوسٹ کیا

  1. اس مناظرہ کی سند میں محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم منفرد نہیں بلکہ اسے تو یونس بن عبدالاعلی جو ثقہ ترین راوی ہیں اس نے بھی روایت کیا ہے جس کی سند یہ ہے: أنا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ثنا أَبِي، ثنا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ، يَقُولُ: " قُلْتُ لِمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ يَوْمًا، وَذَكَرَ مَالِكًا وَأَبَا حَنِيفَةَ، فَقَالَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: مَا كَانَ يَنْبَغِي لِصَاحِبِنَا أَنْ يَسْكُتَ يَعْنِي أَبَا حَنِيفَةَ، وَلا لِصَاحِبِكُمْ أَنْ يُفْتِيَ يُرِيدُ مَالِكًا، قُلْتُ: نَشَدْتُكَ اللَّهَ، أَتَعْلَمُ أَنَّ صَاحِبَنَا يَعْنِي مَالِكًا كَانَ عَالِمًا بِكِتَابِ اللَّهِ؟ قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ ".قُلْتُ: فَنَشَدْتُكَ اللَّهَ، أَتَعْلَمُ أَنَّ صَاحِبَنَا كَانَ عَالِمًا بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ.قُلْتُ: وَكَانَ عَالِمًا بِاخْتِلافِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ. قُلْتُ: أَكَانَ عَاقِلا؟ قَالَ: لا.قُلْتُ: فَنَشَدْتُكَ اللَّهَ، أَتَعْلَمُ أَنَّ صَاحِبَكَ يَعْنِي أَبَا حَنِيفَةَ، كَانَ جَاهِلا بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ: نَعَمْ.قُلْتُ: وَكَانَ جَاهِلا بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَاهِلا بِاخْتِلافِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ ، قَالَ: نَعَمْ. قُلْتُ: أَكَانَ عَاقِلا؟ ، قَالَ: نَعَمْ.قُلْتُ: فَتَجْتَمِعُ فِي صَاحِبِنَا ثَلاثٌ لا تَصْلُحُ الْفُتْيَا إِلا بِهَا، وَيُخِلُّ وَاحِدَةً، وَيُخْطِئُ صَاحِبُكَ ثَلاثًا، وَيَكُونُ فِيهِ وَاحِدَةٌ، فَتَقُولَ: لا يَنْبَغِي لِصَاحِبِكُمْ أَنْ يَتَكَلَّمَ، وَلا لِصَاحِبِنَا أَنْ يَسْكُتَ؟ ! (آداب الشافعی ومناقبہ لابن ابی حاتم ج 1 ص154-155) اور یونس بن عبدالاعلی کی توثیق مندرجہ ذیل ہے: يونس بن عبد الأعلى ( م ، س ، ق )ابن ميسرة بن حفص بن حيان ، الإمام ، شيخ الإسلام ، أبو موسى الصدفي ، المصري المقرئ الحافظ ، وأمه فليحة بنت أبان التجيبية .لد سنة سبعين ومائة في ذي الحجة .وحدث عن : سفيان بن عيينة ، وعبد الله بن وهب ، والوليد بن مسلم ، ومعن بن عيسى ، وابن أبي فديك ، وأبي ضمرة الليثي ، وبشر بن بكر التنيسي ، وأيوب بن سويد ، وأبي عبد الله الشافعي ، وعبد الله بن نافع الصائغ ، وسلامة بن روح ، ومحمد بن عبيد الطنافسي ، ويحيى بن حسان ، وأشهب الفقيه . وينزل إلى نعيم بن حماد ، ويحيى بن بكير ، بل وإلى أن روى عن تلميذه أبي حاتم الرازي . قرأ القرآن على ورش صاحب نافع . وكان من كبار العلماء في زمانه . حدث عنه : مسلم ، والنسائي ، وابن ماجه ، وأبو حاتم ، وأبو زرعة ، وبقي بن مخلد ، وابن خزيمة ، وأبو بكر بن زياد النيسابوري ، وأبو عوانة الإسفراييني ، وعبد الرحمن بن أبي حاتم ، وعمر بن بجير ، وأبو جعفر بن سلامة الطحاوي ، وأبو الطاهر أحمد بن محمد الخامي ، وأبو بكر محمد بن سفيان بن سعيد المصري المؤذن ، وأبو الفوارس أحمد بن محمد السندي ، وخلق كثير . وقرأ عليه : مواس بن سهل المصري ، وأحمد بن محمد الواسطي ، وعبد الله بن الهيثم دلبة ، وعبد الله بن الربيع الملطي شيخ للمطوعي . وسمع منه الحروف : محمد بن عبد الرحيم الأصبهاني ، وأسامة بن أحمد ، وابن خزيمة ، وابن جرير ، ومحمد بن الربيع الجيزي ، وغيرهم . وكان كبير المعدلين والعلماء في زمانه بمصر . قال يحيى بن حسان التنيسي : يونسكم هذا ركن من أركان الإسلام . وقال النسائي : ثقة . وقال ابن أبي حاتم : سمعت أبي يوثقه ، ويرفع من شأنه . وقال أبو حاتم : سمعت أبا الطاهر بن السرح ، يحث على يونس ، ويعظم شأنه . وقال علي بن الحسن بن قديد : كان يحفظ الحديث . وقال الطحاوي : كان ذا عقل ، لقد حدثني علي بن عمرو بن خالد : سمعت أبي يقول : قال الشافعي : يا أبا الحسن ، انظر إلى هذا الباب الأول من أبواب المسجد الجامع . قال : فنظرت إليه ، فقال : ما يدخل من هذا الباب أحد أعقل من يونس بن عبد الأعلى . وقال حفيده الحافظ الكبير ، أبو سعيد عبد الرحمن بن أحمد بن يونس : دعوتهم في الصدف ، وليس هو من أنفسهم ، ولا مواليهم . توفي غداة يوم الاثنين ثاني ربيع الآخر سنة أربع وستين ومائتين . قلت : عاش أربعا وتسعين سنة . ووقع لي جملة من عالي حديثه في " الخلعيات " ، وفي أماكن مختلفة ، وبين مشايخنا وبينه خمسة أنفس . ولقد كان قرة عين ، مقدما في العلم والخير والثقة . (سیر اعلام النبلاء ج 16 ص 349) لہذا منکر کا حکم لگانا درست نہیں ۔ واللہ اعلم
  2. ارے جناب ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے اس لئے تو آپ کو رافضی لفظ اچھا لگتا ہے ۔ باقی آپ کا رافضی عالم مان چکا ہے اور وہ بھی اس کے شدید التشیع کے حوالے دے رہا باقی ہم نے امام ذہبی اور امام ابن سعد کی تصریحات دیکھا دی ہیں باقی منوانا ہمارا کام نہیں ہے جناب
  3. جی ضرور ہم انتظار میں رہیں گے۔ لیکن جواب اصولی اور تحقیقی ہو اور پوسٹرز سے نہ ہو بلکہ تحریری جواب ہو۔ ان شاء اللہ ہم ضرور آپ کی اس تحریر کا جواب دیں گے۔ باقی میری مجبوری یہ ہے چائینہ میں کبھی اسلامی محفل پر لاگ ان نہیں ہو پاتا کیونکہ میرا وی پی این اس سائٹ کو اوپن نہیں کرتا اس لئے جیسے میں آئن لائن ہوا کروں گا تو آپ کو جواب دے دیا کروں گا۔ آپ کا بھی شکریہ
  4. جی ضرور ہم انتظار میں رہیں گے۔ لیکن جواب اصولی اور تحقیقی ہو اور پوسٹرز سے نہ ہو بلکہ تحریری جواب ہو۔ ان شاء اللہ ہم ضرور آپ کی اس تحریر کا جواب دیں گے۔ باقی میری مجبوری یہ ہے چائینہ میں کبھی اسلامی محفل پر لاگ ان نہیں ہو پاتا کیونکہ میرا وی پی این اس سائٹ کو اوپن نہیں کرتا اس لئے جیسے میں آئن لائن ہوا کروں گا تو آپ کو جواب دے دیا کروں گا۔ آپ کا بھی شکریہ
  5. آپ ہمیں امام ذہبی کا آخری موقف بتا دیں تاکہ حقیقت واضح ہو جائے باقی امام ذہبی کے نزدیک میزان الاعتدال والی روایت بھی ضعیف و کذب ہے۔اب ضعیف و کذب راویت پر کسی کو کیا قاتل کہا جا سکتا ہے؟؟ اگر بالفرض ایک صورت میں ایسا مان بھی لیا جائے تو امام ذہبی نے اس بارے میں کوئی صحیح روایت پیش نہیں کی۔ لیکن جس راوی کے ترجمہ میں ذکر کیا ہے خود اسے متروک قرار دے چکے ہیں ۔ لیکن آخری کتاب سیراعلام النبلاء میں انقطاع قرار دیا اور پھر وہی جملے کو نہیں لکھا جس سے واضح ہو جاتا ہے امام ذہبی نے اپنی پرانی عبارت کے تساہل سے رجوع کر لیا تھا۔ واللہ اعلم
  6. لیں میاں امام ذہبی کا دوسری کتاب میں اس راوی کے بارے میں خود انہی کا موقف امید ہے اب کچھ بچا ہی نہیں ہے جناب کے لئے
  7. امام ذہبی کا آخری موقف پیش کر چکا ہوں سیر اعلام النبلاء سے اس لیے آخری کتاب پر بات کریں۔
  8. پہلی بات یہ ہے تعجب اس وقت کیا جاتا ہے جو بات حیرت زدہ ہو اور کذاب اور متروک راویوں کی جھوٹی روایات حیرت زدہ ہوتی ہیں۔ ایک مثال آپ کو میں پیش کرتا ہوں ایک جگہ امام ذہبی یزید کو ناصبی ظالم کہتے ہیں دوسری جگہ اسے قیصر روم کے شہر کو فتح کرنے والی حدیث پر جنتی لشکر میں شمار کر دیتے ہیں تو پھر کونسی بات مانیں گے؟؟ امام ذہبی نے اگر میزان الاعتدال میں ایسا کہا ہے تو سیر اعلام النبلاء میں انقطاع کہہ کر رد کر دیا ہے تو آخری کتاب سیر اعلام النبلاء ہے اس لئے اس پر ہی فیصلہ کیا جائے گا۔ باقی یہ جناب کا جھوٹ ہے کہ امام ذہبی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے جہاں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہو اس کا حوالہ پیش کرو؟؟ لیکن ہم اس روایت کا رد امام ذہبی کی آخری کتاب سے پیش کر چکے ہیں اور جناب کا پر اب یہ قرض ہے کہ یہ ثابت کریں گے کہ امام ذہبی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ لیکن امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں اس روایت پر انقطاع کا حکم لگا کر پھر اپنے جملہ سے رجوع کرلیا ہے پھر اسے نہیں لکھا اس کا حوالہ یہ ہے: أبو الغادية الصحابي * من مزينة. وقيل: من جهينة. من وجوه العرب، وفرسان أهل الشام. يقال: شهد الحديبية. وله أحاديث مسنده. وروى له الإمام أحمد في " المسند ". حدث عنه: ابنه سعد، وكلثوم بن جبر، وحيان بن حجر، وخالد بن معدان، والقاسم أبو عبد الرحمن. قال البخاري، وغيره: له صحبة. روى حماد بن سلمة، عن كلثوم بن جبر، عن أبي غادية، قال: سمعت عمارا يشتم عثمان، فتوعدته بالقتل، فرأيته يوم صفين يحمل على الناس، فطعنته فقتلته. وأخبر عمرو بن العاص، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " قاتل عمار وسالبه في النار " إسناده فيه انقطاع (سیر اعلام النبلاء) اس لئے اب سیر اعلام النبلاء کی بات ہی امام ذہبی کا آخری موقف ہے لہذا آخری کتاب پر بات کریں ادھر ادھر کی نہ ماریں۔
  9. دیکھیں جناب کسی بات کو ثابت کرنے کے لئے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ چلیں امام ذہبی نے جس روایت پر اگر اظہار ایسا کیا ہے تو پہلے تو وہ روایت امام ذہبی کے نزدیک خود ضعیف ہے بلکہ اپنی آخری کتاب سیر اعلام النبلاء میں اس بات کا رد کر چکے ہیں کہ یہ بات ان کے نزدیک صحیح نہیں ہے کیونکہ ایک راوی متروک و کذاب ہے اور دوسری سند پر خود امام ذہبی خود انقطاع کہہ چکے ہیں تو اس لئے امام ذہبی کا آخری موقف وہی ہے جو سیر اعلام النبلاء میں کیونکہ وہی کتاب ان کی آخری کتاب ہے۔
  10. پہلی بات تو واضح ہو گی ہے جناب ایک مہرے ہیں جو رافضیوں کے اشاروں پر چل رہے ہیں ورنہ جناب کا علم تو جناب کے پوسٹرز سے پتہ چل چکا ہے۔ باقی رہی خیر طالب کی بات تو اس کا رد میں نے لکھ دیا تھا بس میرا چین میں اچانک ویزا لگنے کی وجہ سے مجھے یہاں آنا پڑا اور میں اس کی دوسری تحریر کا رد فیس بک پر پوسٹ نہ کر سکا۔ لیکن چین میں فیس بک صحیح طرح نہ چلنے کی وجہ سے ابھی تک جواب پوسٹ نہیں کر سکا۔ کیونکہ لمبی پوسٹ نہیں ہوتی اور ویسے بھی چین میں مذہبی پوسٹ کو بین کر دیتے ہیں۔ اس لیے یہاں تو میری مجبوری ہے جواب پوسٹ نہیں کر سکتا ان شاءاللہ پاکستان میں آ کر اس کا رد پوسٹ کروں گا۔ باقی ثبوت یہ ہیں خیر طالب کی دوسری تحریر کے رد میں میری تحریر جو تقریبا 244 صفحات پر مشتمل ہے وہ تحریر اب بھی میرے پاس ہے لیکن پوسٹ کا ذریعہ نہیں ہے اس لیے ان شاء اللہ پاکستان میں آ کر یہ خواہش بھی آپ کی پوری کر دیں گے۔ باقی جناب ہم نے تو امام ابن سعد اور امام ذہبی سے ثابت کر دیا ہے شدید التشیع اور بغضی شیعہ تو اب ہم سے کون سے مطالبے کی بات کیے ہوئے ہیں؟؟ حتی کہ آپ کا رافضی عالم بھی اسے بغضی شیعہ اور شدید الشیع وغیرہ کے حوالے لکھ چکا ہے اب جناب نہیں مانتے تو ہم کیا کریں۔ ہنسی تو مجھے آتی ہے خود کو سنی کہتے ہو لیکن رافضیوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے اور ان کے پوسٹرز چپکا دیتے ہو۔
  11. ارے بھائی میں نے مکمل جوابات کیا دینے ہیں آپ کی جو میں نے غلطیوں کی نشان دہی کی کیا آپ نے ان سے رجوع کیا ہے؟؟ پہلے بات تو یہ ہے آپ کو علم حدیث کا پتہ نہیں آپ صرف پوسٹرز بنا کے چپکا سکتے ہیں خود اپنی طرف سے کچھ تحریر نہیں کر سکتے ہیں۔ اس لئے آگے بھی آپ نے پوسٹر ہی چپکانے ہیں اور کچھ نہیں کرنا اس لئے جب بندہ علمی بات کسی سے کرے تو دوسرا بندہ بھی علمی بات کرے تاکہ علم میں اضافہ ہو اور جہاں تک مجھے علم ہے آپ ان فیلڈ میں صرف ایک مہرے کے طور پر کام کر رہے ہیں باقی یہ پوسٹرز کے صفحات آپ کو کسی اور ذریعوں سے مل رہے ہیں لیکن صرف آپ کا نام ہوتا ہے پوسڑز پر اور کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا کیونکہ میں آپ کی علمی گہرائی جان چکا ہوں۔ اللہ عزوجل آپ کو ہدایت دے۔ آمین
  12. بھائی جان میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا اللہ کا خوف کریں اور یہ پوسٹر نہ چپکایا کریں خود بھی آگے پیچھے پڑھ لیا کریں۔ لیکن آپ کے پوسڑز کی حقیقت یہ ہے۔ آپ نے اپنے پہلے پوسٹر میں صرف اپنے مطلب کی بات ہائی لائٹ کر دی اور نیچے والی باتوں پر توجہ نہ دی یا چھپانے کی کوشش کی۔ امام ذہبی نے اس روایت کو "الحسن بن دينار أبو سعيد التميمي، وقيل: الحسن بن واصل" کے ترجمہ میں لکھا اور یہ روایت اسی سے روایت ہے اور یہ راوی متروک و کذاب ہے جس کی امام ذہبی نے خود نیچے تصریح کر دی تھی لیکن آپ نے توجہ نہ کی یا جان بوجھ کر چھپایا ہے۔ اپنا پوسٹر دیکھیں اور اس پر میرا گرین کلر میں ہائی لائٹ دیکھیں۔ امام ذہبی نے واضح لکھا ہوا ہے کہ امام وکیع اور امام ابن مبارک وغیرہ نے اسے متروک قرار دیا ۔ لیکن آپ نے کمال پوسٹر بازی کی اور اصل بات کی طرف گے ہی نہیں۔ دوسرا پوسٹر بھی دیکھیں اس میں آپ نے کمال چالاکی سے نیچے والی عبارت ہی چھپا دی۔ لیکن راوی کا نام اور سند رہنے دی لیکن اہل علم حضرات ایسی باتوں سے دھوکہ نہیں کھاتے بچارے عام آدمی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ لیں اپنے دوسرے پوسٹر کی حقیقت اور راوی کی نشان دہی کہ وہ راوی خود متروک سے روایت ہے۔ لیں جناب میزان الاعتدال کی وہ عبارت جن کو آپ نے چھپا دیا تھا ۔ هشام بن عمار، حَدَّثَنَا سعيد بن يحيى، حَدَّثَنَا الحسن بن دينار عن كلثوم بن جبر، عَن أبي الغادية سمعت رسول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول: قاتل عمار في النار وهذا شيء عجيب فإن عمارا قتله أبو الغادية.وقد بالغ ابن عَدِي في طول هذه الترجمة.وقال ابن حبان: تركه وكيع، وَابن المبارك فأما أحمد ويحيى فكانا يكذبانه.غسان بن عُبَيد، حَدَّثَنَا الحسن بن دينار عن جعفر بن الزبير عن القاسم، عَن أبي أمامة مرفوعا: الملائكة الذين حول العرش يتكلمون بالفارسية... الحديث. وقال العقيلي: حَدَّثَنَا عبد الله بن سعدويه المروزي، حَدَّثَنَا أحمد بن عبد الله بن بشير المروزي، حَدَّثَنَا سفيان بن عبد الملك سَمِعتُ ابن المبارك يقول: أما الحسن بن دينار فكان يرى رأي القدر وكان يحمل كتبه إلى بيوت الناس ويخرجها من يده ثم يحدث منها وكان لا يحفظ. قال عباس: سمعت يحيى يقول: الحسن بن دينار ليس بشيء (میزان الاعتدال) اس کے علاوہ امام عسقلانی کی مزید تحقیق اس راوی پر یہ لیں: وقال الفلاس: أجمع أهل العلم بالحديث أنه لا يروى عن الحسن بن دينار.وقال أبو حاتم: متروك الحديث كذاب.وقال ابن عَدِي: وقد أجمع من تكلم في الرجال على ضعفه.وقال أبو خيثمة: كذاب.وقال أبُو داود: ليس بشيء.وقال النَّسَائي: ليس بثقة، وَلا يكتب حديثه.وقال الجُوزْجَاني: ذاهب.وقال السَّاجِي: كان يتهم ويكثر الغلط تركه وكيع، وَابن حنبل.وقال أحمد: كان وكيع إذا أتى على حديث الحسن بن دينار قال: أجز عليه أي اتركه.وقال حجاج بن محمد: رآني شعبة عند الحسن بن دينار فقال: أما على ذلك لقد جالس الأشياخ. وذكره ابن سعد فقال: ضعيف في الحديث ليس بشيء.وذكره في الضعفاء كل من ألف فيهم (لسان المیزان رقم 2269) اس کے علاوہ امام ذہبی نے اسی روایت کو اپنی آخری کتاب سیر اعلام النبلاء میں انقطاع کی نشان دہی کر کے رد کر دیا روى حماد بن سلمة، عن كلثوم بن جبر، عن أبي غادية، قال: سمعت عمارا يشتم عثمان، فتوعدته بالقتل، فرأيته يوم صفين يحمل على الناس، فطعنته فقتلته. وأخبر عمرو بن العاص، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " قاتل عمار وسالبه في النار " إسناده فيه انقطاع (سیر اعلام النبلاء) اب امید ہے اپنے ان پوسٹروں سے رجوع کریں گے اور آئندہ ان کو پوسٹ نہیں کریں گے جب حق بات واضح ہو گی۔ کسی اہل علم کے سامنے بیٹھ کر ان کو اپنے ان مسائل کا حل پوچھیں ورنہ مجھے ڈر ہے کہیں غیر مسلموں کی کتب پڑھ کر انبیاء کرام علیہم السلام کے خلاف بھی ایسے پوسٹر بازی شروع نہ کر دو۔ اللہ عزوجل ہمیں ان باتوں سے محفوظ رکھے۔ آمین
  13. اصل میں بھائی میں چائینہ آ گیا ہوں اس لیے میرے پاس نہ کوئی کتاب ہے اور نہ مکتبۃ الشاملۃ کیونکہ وہ سب ایئرپورٹ پر ڈیلیٹ کروایا گیا ان کی کوئی سکیورٹی کی وجہ سے۔ اس لیے مکتبۃ الشاملۃ کا آفیشل لنک تلاش کر رہا ہوں ورنہ میرے پاس پاکستان میں سی ڈی موجود ہے مکتبۃ الشاملۃ کی۔
  14. صحیح کہا ہے آپ نے بھائی جان کیونکہ علم حدیث ایک وسیع علم ہے اس میں صرف پختہ علم و حافظے والا بندہ بات کر سکتا ہے۔ اللہ عزوجل اس بھائی کو ہدایت دے۔ آمین
  15. بھائی جان خدا را تحقیق کر لیا کر یں ایسے ہی پوسٹر نہ بنا دیا کریں۔ آپ نے سنن النسائی الکبری کی جو یہ روایت پوسٹ کی ہے جو یہ ہے: پہلے تو اس کی سند میں ایک غلطی ہے اس کی سند میں ایک راوی ابواسحاق ساقط ہے اس کی مکمل سند اس طرح ہے۔ أخبرنَا الْعَبَّاس بن مُحَمَّد الدوري قَالَ حَدثنَا يحيى بن أبي بكير قَالَ حَدثنَا إِسْرَائِيل عَن أبي إِسْحَاق عَن أبي عبد الله الجدلي قَالَ دخلت أم سَلمَة فَقَالَت أيسب رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِيكُم فَقلت سُبْحَانَ الله أَو معَاذ الله قَالَت سَمِعت رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يَقُول من سبّ عليا فقد سبني (خصائص علی للنسائی رقم الحدیث 91 ) اور یہی روایت اسی سند کے ساتھ مستدرک للحاکم میں بھی ہے جو یہ ہے: أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ كَامِلٍ الْقَاضِي، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الْعَوْفِيُّ، ثنا يَحْيَي بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَي أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ لِي: أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ؟ فَقُلْتُ: مُعَاذَ اللَّهِ، أَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، فَقَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي". هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ، وَقَدْ رَوَاهُ بُكَيْرُ بْنُ عُثْمَانَ الْبَجَلِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ بِزِيَادَةِ أَلْفَاظٍ. (المستدرك علي الصحيحين ج 3 ص 130) اور یہی روایت اسی سند کے ساتھ مسند احمد میں بھی ہے جو یہ ہے: حدثنا عبد الله، حدثني أبي، ثنا يحيى بن أبي بكير، قال: ثنا إسرائيل، عن أبي إسحاق، عن أبي عبد الله الجدلي، قال: دخلت على أم سلمة، فقالت لي: أيسب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيكم؟ قلت: معاذ الله: أو سبحان الله أو كلمة نحوها، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من سب عليا فقد سبني " (مسند احمد ج 6 ص 323) لہذا اصولی تحقیق سے واضح ہو گیا کہ آپ کے پیش کردہ پوسٹر میں سند کی غلطی ہے اس لیے ہم نے ثبوت کے طور پر اصل کتب سے صفحات لگا دیے ہیں تاکہ غلطی واضح ہو جائے۔ باقی اصول حدیث کی تحقیق کے مطابق یہ روایت سندا ضعیف ہے کیونکہ ابواسحاق عمرو بن عبداللہ السبیعی الکوفی طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں اور یہ انہوں نے کوئی سماع کی تصریح نہیں کی۔ ابواسحاق کے طبقہ ثالثہ کے مدلس ہونے کے ثبوت یہ ہیں: باقی رہا ابو عبداللہ الجدلی کے شدید التشیع کا ثبوت وہ یہ ہے: امام ابن سعد لکھتے ہیں: أبو عبد الله الجدلي واسمه عبدة بن عبد بن عبد الله بن أبي يعمر بن حبيب بن عائذ بن مالك بن وائلة بن عمرو بن ناخ بن يشكر بن عدوان واسمه الحارث بن عمرو بن قيس بن عيلان بن مضر وسمي الحارث عدوان لأنه عدا على أخيه فهم بن عمرو فقتله وأم عدوان وفهم جديلة بنت مر بن طابخة أخت تميم بن مر فنسبوا إليها ويستضعف في حديثه وكان شديد التشيع ويزعمون أنه كان على شرطة المختار فوجهه إلى عبد الله بن الزبير في ثماني مائة من أهل الكوفة ليوقع بهم ويمنع محمد بن الحنفية مما أراد به بن الزبير‏.‏ (الطبقات الکبری لابن سعد ج 8 ص 347) اور امام ذہبی اس راوی کے بارے میں فرماتے ہیں: شيعي بغيض (میزان الاعتدال ج 4 ص 544 رقم 10357) لہذا اس شدید رفض ثابت ہے امام ابن حجر نے بھی تہذیب التہذیب میں امام ابن سعد کا قول نقل کیا ہے۔ واللہ اعلم ویسے خود شیعہ عالم نے بھی اسی راوی کو شدید رافضیوں لکھا ہے ثبوت یہ ہے۔ اب شیعہ عالم خود مان چکا ہے اب آپ نہیں مانتے تو ہم کوئی آپ پر زبردستی نہیں کر سکتے کہ آپ بھی مانیں لیکن آپ کے نا ماننے سے حقیقت تبدیل نہیں ہو جائے گی۔ اللہ عزوجل ہم کو صحیح راہ پر چلائے۔ آمین
  16. ارے جناب آپ نے سب سے پہلے امام ذہبی علیہ الرحمہ پر الزام لگایا ہم نے اس کا جواب دیا اب اصولایہ بنتا تھا کہ آپ امام ذہبی سے اسے صحابی ثابت کرتے پھر ہماری بات کا رد کرتے جب کہ آپ نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا اور جناب پھر ابن حزم کو لے آئے۔ ایسے تو شمر ذی الجوشن کو شیعہ علماء نے اصحاب علی رضی اللہ عنہ میں لکھا ہے تو پھر اسے بھی آپ تسلیم کرتے ہیں؟؟ باقی رہی ابن حزم کی بات ارے بھائی ابن حزم کو ہم کب سے صحیح سمجھتے ہیں؟؟ ابن حزم تو صحابہ کو مجہول کہہ دیتا ہے کبھی ان شیعہ و رافضی بنا دیتا ہے اس لیے ابن حزم ہمارے نزدیک گمراہ ہے اور اس کے نظریات بھی بہت خراب تھے۔ اس لئے ابن حزم کے حوالہ جات ہمارے لیے حجت نہیں اگرچہ وہابیوں کے لئے حجت ہیں۔ باقی میں معذرت کرتا ہوں آپ لوگوں کی بحث میں بنا تسلسل سے آ گیا لیکن آپ کو چاہیے تحقیق سے کام لیا ایسے ہی پوسٹر نہ چپکایا کریں۔ شکریہ
  17. جنابِ محترم رضا عسقلانی صاحب آپ یہاں اس فورم پر تشریف لائے میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔ میری جناب سعیدی صاحب کافی سالوں سے گفتگو ہوتی رہتی ہے ۔ آپ سے ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب آپ خیر طالب سے دورانِ گفتگو یہ کہہ کر گئے تھے کہ میں آپ کا جواب امتحان کے بعد دوں گا ، تب سے اب آپ نظر آئے ہیں ۔ جواب لکھنے کا شکریہ مگر میں آپ کی خدمت میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ، امید ہے آپ اس پر نظرِ کرم فرمائیں گے ۔ ابوالغادیہ کے جہنم جانے یا نہ جانے والی روایت سے پہلے میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اب ان تمام ٹاپکس پر آپ ہی جواب لکھا کریں گے ۔ یا سعیدی صاحب تشریف لائیں گے ؟ اور وہی اپنا اصل جواب لکھا کریں گے ۔ امید ہے آپ اس کی وضاحت فرما دیں گے ۔ ۔۔۔ الجواب: آپ کا شکریہ جو میرا خیر مقدم کیا۔ میں نے آپ کی اور سعیدی بھائی کی مکمل گفتگو نہیں دیکھی میں نے صرف ایک روایت دیکھی جس پر آپ نے بہت زیادہ فوکس کیا ہوا تھا تو بس اس پر اپنا تبصرہ لکھ دیا۔ باقی آپ نے ملاقات کا حوالہ دیا وہ آپ کی بات درست ہے اصل میں میں نے امتحانات کے دورن ہی فارن پی ایچ ڈی پر اپلائی شروع کر دیا تھا۔ خیر طالب صاحب کی پہلی تحریر کا جواب پوسٹ کر دیا تھا پھر ان کی دوسری تحریر آئی اس کا جواب بھی تحریر کر لیا تھا ۔ اسی دوران مجھے چائینہ سے پی ایچ ڈی کے انٹرویو کی ای میل آئی تو پھر میں اس کی تیاری میں لگا گیا تو تحریر کو فیس بک پر پوسٹ کرنا بھول گیا۔ پھر مجھے ایک ماہ یاد آیا کہ وہ جواب پوسٹ کرنا ہے تو جیسے فیس بک پر لوگ ان ہوا تو آئی ڈی اوپن نہیں ہو رہی تھی پتہ نہیں کیوں لگتا ہے شاید کسی نے کوئی رپورٹ کی ہوگی۔ اسی دوران میرا چائینہ میں پی ایچ ڈی میں ایڈمشن ہو گیا اور میں وہ تحریر بھی اپنے ساتھ لے آیا کہ جیسے ہی میرا آئی ڈی اوپن ہوگا تو اسے پوسٹ کر دوں گا۔ جب کچھ عرصہ بعد آئی ڈی اوپن ہوئی تو اس وقت چائینہ پہنچ چکا تھا۔ لیکن جب چائینہ آیا تو یہاں فیس بک پر پابندی تھی اور گوگل پر بھی پابندی تھی تو اور زیادہ مسئلہ ہو گیا۔ پھر ایک دوست نے پروکسی سوفٹ وئیر کا کہا تو اب وہی استعمال کرتا ہوں تو کبھی کبھی فیس بک اور گوگل چل جاتی ہے لیکن صحیح طرح سے نہیں چلتی بس چھوٹی موٹی پوسٹ ہو جاتی ہے لیکن کوئی بڑی تحریر پوسٹ نہیں ہو پاتی اسی وجہ خیر طالب کی دوسری تحریر کا جواب ابھی تک پوسٹ نہیں کر پایا۔ ان شاءاللہ جنوری میں جب پاکستان آؤں گا تو جواب پوسٹ کر دوں گا۔ باقی سعیدی صاحب ہی اس کا جواب دیں گے کیونکہ میں تو کل اچانک آئن لائن ہوا تھا کیونکہ میں صرف اس فورم پر چیک کرنے آیا تھا کہ میرا آئی ڈی ابھی تک چل رہا ہے یا نہیں۔ باقی یہ فورم کی ویب سائٹ میں چائنیز سرچ انجن بیدو سے چلا رہا ہوں وہ سرچ انجن سب چائینز میں بس تھوڑی چائینز سیکھ لی ہے باقی سیکھ رہا ہوں تو اسی وجہ اسے فائدہ اٹھا رہا ہوں۔ ۔۔۔۔ دوسرے جناب سعیدی صاحب نے اوپر جس روایت کو پیش فرمایا ہے اور اس کی سند کا میں نے مطالبہ کر رکھا ہے وہ روایت سعیدی صاحب نے اس وقت دوسری مرتبہ پیش فرمائی ہے لہذا ان کی نظر میں اس روایت کی بہت اہمیت ہے جو کچھ ان الفاظ میں ہے " قال لعمار: "لا يقتلك أصحابي، ولكن تقتلك الفئة الباغية " جناب سعیدی صاحب کا نظریہ یا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عمارؓ کو اس فرمان کے مطابق باغی گروہ قتل کرے گا ۔ صحابی قتل نہیں کریں گے ۔ یعنی جناب سعیدی صاحب کے بقول حضرت عمارؓ کو قتل کرنے والے گروہ میں کوئی صحابی نہیں تھا جبکہ کریم آقاﷺ کے فرمان کی روشنی میں یہ ثابت ہے کہ یہ گروہ امیر معاویہ کا باغی گروہ تھا ، اور ابوالغادیہ اسی گروہ کا اک صحابی رسولﷺ تھا جس نے حضرت عمارؓ کو قتل کیا ۔ پھر جنابِ سعیدی صاحب کا یہ نظریہ بھی ہے کہ ابوالغادیہ اگر قاتل ہے تو صحابی نہیں ہے اور اگر صحابی ہے تو قاتل نہیں ہے ۔ اس پر آپ کیا فرمائیں گے ؟ ۔۔۔ الجواب اس پر سعیدی صاحب ہی بہتر جواب دے سکتے ہیں کیونکہ میں نے اس ٹاپک پر مکمل بحث نہیں دیکھی اس لیے بنا مکمل بحث پڑھے تبصرہ کرنا درست نہیں۔ باقی یہ روایت عقدالفرید میں موجود ہے اس کی سند بھی موجود ہے آپ نیچے دیکھ سکتے ہیں ۔ أبو ذرّ عن محمد بن يحيى عن محمد بن عبد الرحمن عن أبيه عن جدته أم سلمة زوج النبي صلّى الله عليه وسلم قالت: لما بني رسول الله صلّى الله عليه وسلم مسجده بالمدينة أمر باللبن يضرب وما يحتاج إليه؛ ثم قام رسول الله صلّى الله عليه وسلم، فوضع رداءه؛ فلما رأى ذلك المهاجرون والأنصار وضعوا أرديتهم وأكسيتهم يعملون ويرتجزون ويقولون: لئن قعدنا والنّبيّ يعمل ... ذاك إذا لعمل مضلّل قالت: وكان عثمان بن عفان رجلا نظيفا متنظفا، فكان يحمل اللبنة ويجافي بها عن ثوبه، فإذا وضعها نفض كفيه ونظر إلى ثوبه، فإذا أصابه شيء من التراب نفضه؛ فنظر إليه عليّ رضي الله عنه فأنشده: لا يستوي من يعمر المساجدا ... يدأب فيها راكعا وساجدا وقائما طورا وطورا قاعدا ... ومن يرى عن التراب حائدا فسمعها عمار بن ياسر، فجعل يرتجزها وهو لا يدري من يعني؛ فسمعه عثمان فقال: يا بن سمية، ما أعرفني بمن تعرّض. ومعه جريدة، فقال: لتكفّنّ أو لأعترضنّ بها وجهك! فسمعه النبي صلّى الله عليه وسلم وهو جالس في ظل حائط، فقال: عمّار جلدة ما بين عينيّ وأنفي، فمن بلغ ذلك منه؟ وأشار بيده فوضعها بين عينيه، فكف الناس عن ذلك، وقالوا لعمار: إن رسول الله صلّى الله عليه وسلم قد غضب فيك، ونخاف أن ينزل فينا قرآن. فقال أنا أرضيه كما غضب. فأقبل عليه فقال يا رسول الله، مالي ولأصحابك؟ قال: ومالك ولهم؟ قال: يريدون قتلي،. يحملون لبنة [لبنة] ويحملون عليّ لبنتين. فأخذ به وطاف به في المسجد وجعل يمسح وجهه من التراب ويقول: يا ابن سمية، لا يقتلك أصحابي؛ ولكن تقتلك الفئة الباغية. (العقد الفرید ) آپ نے جو جواب تحریر فرمایا ہے اس میں مجھے یہ خیال ہو رہا ہے کہ آپ ابوالغادیہ کو قاتل مان کر جہنم والی پوسٹ پر اعتراض کر رہے ہیں کہ قاتل تو ہے مگر جہنم والی روایت درست نہیں ۔ الجواب: ارے بھائی میں نے کب کہا ہے کہ وہ قاتل ہیں ذرا میرا کوئی کمنٹ تو پیش کریں اس پر؟؟ میرے نزدیک تو دونوں باتیں سندا صحیح ثابت نہیں ہیں۔ واللہ اعلم ۔۔۔۔۔ جناب رضا عسقلانی صاحب آپ سے گزارش فقط اتنی ہے کہ پہلے تو اس روایت پر روشنی ڈالیں جس کی سند کا مطالبہ میں نے جناب سعیدی صاحب سے کر رکھا ہے " قال لعمار: "لا يقتلك أصحابي، ولكن تقتلك الفئة الباغية " پھر بتائیں کہ کیا آپ مانتے ہیں کہ قاتل ابوالغادیہ ہی ہے جو کہ صحابی رسولﷺ ہے ، اور اسی باغی گروہ کا صحابی بندہ ہے جو کہ امیر معاویہ کا باغی گروہ ہے ؟ اور جس کی یہ روایت بھی ہے کہ تمہارے خون اور مال تم پر حرام ہیں اور میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں مار کر گمراہ یا کافر نہ ہو جانا ۔ آپ کے ان چند سوالوں کے بعد پھر دیکھتے کہ اگر ابوالغادیہ قاتل ہے اور وہ روایت جس پر آپ نے اعتراض اُٹھایا ہے کمزور یا ضعیف ہے یا نہیں ، اور اس روایت کے بارے محدثین و محقیین نے اس کی صحت پر کیا حکم لگایا ہے ؟ ۔۔۔۔ الجواب: ارے جناب اس روایت پر جو بحث ہے وہ سعیدی صاحب اور آپ کی ہے میری نہیں ہے اور نہ میں نے اس روایت کو پیش کیا ہے اگرچہ اس روایت کی سند اوپر پیش کر چکا ہوں باقی اس روایت کی سند کمزور لگتی ہے میری نزدیک۔ باقی رہی اس روایت پر نقد کی بات اس کا جواب میں دے چکا ہوں ایک تو اس میں اضافہ منکر ہے دوسرا امام ذہبی نے اس کو منقطع قرار دیا ہے۔ اس کا حوالہ یہ ہے: أبو الغادية الصحابي * من مزينة. وقيل: من جهينة. من وجوه العرب، وفرسان أهل الشام. يقال: شهد الحديبية. وله أحاديث مسنده. وروى له الإمام أحمد في " المسند ". حدث عنه: ابنه سعد، وكلثوم بن جبر، وحيان بن حجر، وخالد بن معدان، والقاسم أبو عبد الرحمن. قال البخاري، وغيره: له صحبة. روى حماد بن سلمة، عن كلثوم بن جبر، عن أبي غادية، قال: سمعت عمارا يشتم عثمان، فتوعدته بالقتل، فرأيته يوم صفين يحمل على الناس، فطعنته فقتلته. وأخبر عمرو بن العاص، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " قاتل عمار وسالبه في النار " إسناده فيه انقطاع (سیر اعلام النبلاء) کیا آبوالغادیہ قاتل ثابت ہونے کے بعد صرف اسی روایت سے جہنم جائے گا یا اس کے جہنم جانے کے لیے قرآن پاک کی کوئی آیت یا کوئی اور روایت بھی پیش کی جا سکتی ہے ؟ ۔۔۔ الجواب: بیعت رضوان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ راضی ہےقرآن کی آیت ہے اور قرآن متواتر ہے ویسے تو یہ روایت صحیح نہیں ہے اور اگر بالفرض صحیح بھی مان لیں تو خبر واحد روایت قرآن کی آیت کا کیسے مقابلہ کر سکتی ہے؟؟ کیا خبر واحد متواتر خبر کا مقابلہ کر سکتی ہے؟؟ جب خبر واحد اور متواتر میں اختلاف ہو جائے تو کس کو ائمہ تسلیم کرتے ہیں اور جس کو چھوڑ دیتے ہیں ذرا یہ تو بتا دیں؟؟ قرآن کی آیت بیعت رضوان کے صحابہ کے لئے دیکھ لیں باقی میں ترجمہ نہیں کر رہا ترجمہ خود کر لینا۔ لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا (سورہ فتح آیت 18) ۔۔۔۔ مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ اوپر موجود چند سوالوں کے جوابات لکھیں گے ۔ تاکہ بات یہی کلئیر ہو جائے اور بعد میں بات سمجھنے اور سمجھانے میں آسانی ہو ، شکریہ ۔۔۔۔۔ الجواب میں نے آپ کے جوابات اصولا دیئے ہیں امید ہے آپ بھی جواب اصولا دیں گے اور کوشش کریں گے یہ پوسٹر نہیں لگائیں گے ٹائپ کریں گے تاکہ آپ کے علم کی گہرائی کا پتہ چلے۔ اور ہاں باقی رہا اسناد کی بحث ایسی کئی باتیں کتب میں ہیں جو آپ کے اصول و منہج سے صحیح بنتی ہیں کہ جیسے معاذاللہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ یزید کو اچھا اور امیرالمومنین سمجھتے تھے اور حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ معاذاللہ خود کو یزیدیوں کا غلام کہتے تھے کیونکہ ناصبی وہ روایات آپ لوگوں کے اصولوں سے پیش کرتے ہیں یزید ملعون کے دفاع میں اس لیے پوسٹر نہ چپکائیں بلکہ اصولی بات کریں اللہ عزوجل ہمیں صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم کے صدقے رافضیت و ناصبیت سے دور رکھے آمین۔
  18. السلام علیکم ! مجھے مکتبۃ الشاملۃ کا ڈونلوڈنگ کے لئے اس کا آفیشل لنک کی ضرورت ہے موبائل اور لیپ ٹاپ کے لیے۔ اور آج کل گوگل وغیرہ پر بھی مکتبۃ الشاملۃ اوپن نہیں ہوتا اس کی کیا وجہ ہے؟؟ اس کو اوپن کرنے کا کوئی طریقہ ہو تو عنایت فرمائیں۔ شکریہ
  19. ارے جناب کچھ کہنے سے پہلے بندہ ائمہ حدیث کا منہج اور اسلوب بھی دیکھ لیتا ہے۔ امام ذہبی نے جناب نے کہا کہ امام ذہبی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب میں ابن ملجم لعنتی کو صحابی لکھا ہے جب کہ یہ بات ایک بہتان ہے امام ذہبی نے کہیں بھی اسے صحابی نہیں لکھا۔ اگرصرف کتاب کے نام "تجرید اسماء الصحابۃ" سے استدلال کر رہے ہیں تو یہ جناب کی کم فہمی ہے اس میں امام ذہبی نے بہت سے تابعین اور غیر تابعین کا ذکر بھی کیا ہے۔ اسی صفحہ میں چند افراد کے نام ہیں جن کی امام ذہبی نے خود تصریح کی ہے کہ ان صحبت ثابت نہیں ہے وہ یہ ہیں۔ عبد الرحمن بن معاذ بن جبل توفي مع ابيه في طاعون عمواس لا صحبة له. عبد الرحمن بن معاوية لا تصح له صحبة نزل مصر وروي عنه سويد بن قيس * مرسل * تو جناب دیکھ سکتے ہیں کہ امام ذہبی نے غیر صحابہ کا ذکر بھی کیا ہے اور خود تصریح کی ہے جب کہ ابن ملجم کا کہیں بھی نہیں لکھا کہ وہ صحابی ہے اگر صحابی والی امام ذہبی کی عبارت جناب کے پاس ہے تو پیش کریں ورنہ اس بات سے رجوع کریں۔ امام ذہبی تو ابن ملجم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اہل ہی نہیں کہ اس سے حدیث لی جائے لیں امام ذہبی کا موقف: عبد الرحمن بن ملجم المرادي، ذاك المعثر الخارجي.ليس بأهل أن يروي عنه، وما أظن له رواية، وكان عابدا قانتا لله، لكنه ختم بشر، فقتل أمير المؤمنين عليا متقربا إلى الله بدمه بزعمه، فقطعت أربعته ولسانه، وسملت عيناه، ثم أحرق.نسأل الله العفو والعافية (میزان الاعتدال ج 4 ص 592) امید ہے اب امام ذہبی کے حوالے سے ایسی بات نہیں کریں گے۔ باقی ر ہا جناب کا یہ اعتراض: " ابن ملجم بھی مجتہد ہی تھا ۔ سیدنا عمر نے عمروبن العاص کو خط لکھا " عبدالرحمان بن ملجم کا گھر مسجد کے قریب کر دو تا کہ وہ لوگوں کو قرآن مجید اور فقہ کی تعلیم دے" تاريخ الإسلام - الإمام الذهبي جلد3 ، ص / 653 یہ اعتراض بھی باطل ہے کیونکہ امام ذہبی نے اس واقعہ کی سند نہیں لکھی بلکہ اسے امام ابن یونس کے حوالے سے لکھا ہے جو یہ ہے: وقيل: إنّ عُمَر كتب إِلَى عَمْرو بْن العاص: أنْ قَرّبْ دار عَبْد الرَّحْمَن بْن مُلْجم من المسجد ليُعَلِّم النّاس القرآن والفقه[تاریخ الاسلام (ت بشار) ج 2 ص 273]اور یہی عبارت امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں بھی نقل کی ہے جس کا ثبوت یہ ہے:وقيل: إن عمر كتب إلى عمرو بن العاص: أن قرب دار عبد الرحمن بن ملجم من المسجد ليعلم الناس القرآن والفقه،[سیر اعلام النبلاء (ط الرسالۃ) ج 2 ص 539]اس میں بندہ دیکھ سکتا ہے کہ امام ذہبی نے و قیل کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور قیل مجہول کےصیغے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ یہ بات امام ذہبی کی خود کی نہیں ہے بلکہ انہوں نے علامہ ابن یونس مصری کی تاریخ سے یہ بات نقل کی ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے:علامہ ابن یونس لکھتے ہیں:وقيل: إن عمر كتب إلى عمرو: أن قرّب دار «عبد الرحمن بن ملجم» من المسجد؛ ليعلّم الناس القرآن والفقه.(تاریخ ابن یونس المصری ج 1 ص 315) اور امام ابن حجر عسقلانی نے بھی اس بات کو بلا سند نقل کیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے:وقيل أن عمر كتب إلى عمر وإن قرب دار عبد الرحمن بن ملجم من المسجد ليعلم الناس والقرآن والفقه(لسان المیزان ج 3 ص 440) اس بات کی کوئی سند موجود نہیں ہے یہ سب بے سند بات ہے۔ اس لیے بے سند بات کے لیے اپنے محقق فیضی صاحب کی باتیں سن لیں فیضی امام مرتضی زبیدی علیہ الرحمہ کی عبارت سے استدلال کرتے ہوئے ان کی عبارت کا ترجمہ اس طرح کرتا ہے:اور اسی طرح جب امام بخاری اپنے تمام راویوں کو گرا دیں تو ایسی حدیث کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ صحیح بخاری میں ہو تو اور امام بخاری اسے قال یا روی سے لائے ہوں تو یہ انداز اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ حدیث ان کے نزدیک ثابت ہے اور اگر یذکر یا یقال سے لائے ہوں تو پھر اس میں کلام کی گنجائش ہے اور صحیح بخاری کے علاوہ ان کی کسی دوسری کتاب میں بلا سند حدیث ہو تو وہ مردود ہے اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔آگے لکھتا ہے:لہذا سوچئے کہ التاریخ الکبیر میں درج شدہ ایک ایسی روایت کیونکر قابل قبول ہو سکتی ہے جس میں دو راویوں کے درمیان 68 یا 83 سال کا فرق ہے؟؟[الاحادیث الموضوعۃ ص 98] اپنی دوسری کتاب میں لکھتا ہے:اگرچہ ہر حدیث کا صحاح ستہ میں مذکور ہونا اس کی صحت کے لیے شرط نہیں ہے تاہم یہ تو لازمی شرط ہے کہ ہر حدیث سے پہلے سند ہو۔[شرح خصائص علی رضی اللہ عنہ ص 352] آگے لکھتا ہے: ہمارے معاصر نے بلاسند حدیث نقل کر کے یقینا بے پر کی اڑائی ہے اس لیے اس کی نقل کردہ روایت بے بنیاد مردود اور باطل ہے۔ پھرکہتا ہے:اگر یقال یا یذکر (کہا جاتا ہے، ذکر کیا جاتا ہے) یعنی صیغہ مجہول استعمال کیا ہو تو اس میں اعتراض کی گنجائش ہے۔[شرح خصائص علی رضی اللہ عنہ ص 354] اور آگے فیضی اپنی تمام بحث کا نتیجہ نکال کر کہتا ہے:خیال رہے کہ بلاسند حدیث بیان کرنے کی تردید میں ائمہ حدیث نے ضوابط و قواعد بیان کرنے میں اس عاجز نے جو محنت کی ہے اس کا باعث فقط یہ ہے کہ مجھ ایسے قارئین بھی ایسے قواعد سے آشنا ہوں ورنہ میری کوشش حکیم ظفر وغیرہ ایسے بے اصول لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ کیونکہ عقل مند کے لئے ایسے بے اصول لوگ بالکل اسی طرح غیر اہم ہیں جس طرح بلا سند روایت۔(شرح خصائص علی رضی اللہ عنہ ص 355) امید ہے جناب ہماری بات تو مانیں گے نہیں اس لیے فیضی صاحب کی بات مان لیں کہ یہ بے سند اقوال باطل ہے اور مردود ہے اور امام ذہبی پر جو الزام لگایا ہے وہ الحمدللہ باطل ہے۔
  20. یہ روایت میں جو اضافہ ہے وہ منکر ہے کیونکہ امام احمد نے اس اضافہ کو روایت نہیں کیا مسند احمد کی روایت یہ ہے: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَفْصٍ، وَكُلْثُومُ بْنُ جَبْرٍ، عَنْ أَبِي غَادِيَةَ، قَالَ: قُتِلَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ فَأُخْبِرَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ قَاتِلَهُ، وَسَالِبَهُ فِي النَّارِ»، فَقِيلَ لِعَمْرٍو: فَإِنَّكَ هُوَ ذَا تُقَاتِلُهُ، قَالَ: إِنَّمَا قَالَ: قَاتِلَهُ، وَسَالِبَه. (مسند احمد ج4 ص 198) اور اسی روایت کو امام ابن سعد نے روایت کیا ہے لیکن اس میں اضافہ ہو گیا ہے وہ اضافہ یہ ہے: حدثنا عفان قال حدثنا حماد بن سلمة قال أنبأنا أبو حفص وكلثوم بن جبر عن أبي غادية قال« سمعت عمار بن ياسر يقع في عثمان يشتمه بالمدينة قال: فتوعدته بالقتل قلت: لئن أمكنني الله منك لأفعلن.. فلما كان يوم صفين جعل عمار يحمل على الناس فقيل هذا عمار فرأيت فرجة بين الرئتين وبين الساقين، قال فحملتُ عليه فطعنته في ركبته قال سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم: يقول إن قاتله وسالبه في النار فقيل لعمرو بن العاص هو ذا أنت تقاتله فقال: إنما قال قاتله وسالبه». (الطبقات الکبریٰ لابن سعد ج 4 ص 198) لہذا جو سرخ الفاظوں سے الطبقات الکبری کے اضافے کی طرف نشان دہی کی ہے یہ منکر ہے کیونکہ یہ اوثق امام کی مخالفت ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل امام ابن سعد سے بہت زیادہ اوثق اور فقیہ ہیں۔ اور امام ابن حجر نے امام احمد کے بارے میں تقریب التہذیب میں لکھا: أحد الأئمة ثقة حافظ فقيه حجة اور امام ابن سعد کے بارے میں لکھا: صدوق فاضل لہذا امام احمد کے اوثق ترین ہونے کی وجہ سے امام ابن سعد کا اضافہ منکر ہے۔ اس کے علاوہ امام ذہبی نے اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: إسناده فيه انقطاع (سیر اعلام النبلاء ج 2 ص 544) مجھے لگتا ہے شاید امام ذہبی اس روایت کو منقطع اس لئے قرار دیا ہے کیونکہ کلثوم بن جبر کی وفات 130 ہجری میں ہوئی اور یہ واقعہ مدینہ اور صفین کا بیان کر رہا ہے جب کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت 35 ہجری میں ہوئی اور جنگ صفین میں 38 ہجری میں ہوئی ہے تو اس کے سماع پر اشکال ہے۔ واللہ اعلم اس کے علاوہ امام ابن حجر نے لسان المیزان (ج 2ص 257) میں ایک روایت الحسن بن دينار کےطرق سے نقل کی ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ، لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ یہی متروک راوی ہے۔ طبقات الکبری لابن سعد میں بھی ایک اور روایت بھی ہے کہ ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ نے عمار رضی اللہ عنہ کا قتل کیا لیکن اس کی سند میں واقدی ہے لہذا روایت ضعیف ہے۔ لہذا اس میں کوئی روایت درجہ تحسین یا درجہ تصحیح پر نہیں پہنچتی ۔ واللہ اعلم
  21. قرآن پاک کی وہ آیات جوذکروثناء اوردعاء پرمشتمل ہوں ان کوبنیت ذکرودعاحالت ناپاکی میں پڑھناجائزہے اسی طرح اسماء الٰہی، وظائف، 6کلمے پڑھنا اور مسنون ماثور دعائیں پڑھنا جائزہے لیکن بہتر یہ ہے کہ با وضو یا کلی کر کے پڑھے جائیں۔ امام اہل سنت امام احمد رضا خا ن رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں: " قرآن عظیم کی وہ آیات جو ذکر وثناء ومناجات ودعا ہوں اگرچہ پوری آیت ہو جیسے" آیۃ الکرسی" متعدد آیات کاملہ جیسے سورۃحشرکی آخیر کی تین آیتیں " هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ" سے آخرسورت تک بلکہ پوری سورت جیسے الحمدشریف بہ نیت ذکر ودعا نہ بنیت تلاوت پڑھنا جنبی وحائضہ ونفاس والی سب کو جائز ہے اسی لئے کھانے یا سبق کی ابتداء میں " بسم اللہ" کہہ سکتے ہیں اگرچہ یہ آیت مستقلہ ہے اس سے مقصود تبرک واستفتاح ہوتا ہے نہ کہ تلاوت"۔ [فتاوی رضویۃ ،جلد:1، صفحہ:795, رضا فاوندیشن لاہور]۔ صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: " قرآن پاک کے علاوہ اور تمام اذکار کلمہ شریف درودشریف وغیرہ پڑھنا بلا کراہت جائز بلکہ مستحب ہے اور ان چیزوں کو وضو یا کلی کرکے پڑھنا بہتر اور ویسے بھی پڑھ لیا تب بھی حرج نہیں ایسی عورت کو اذان کا جواب دینا جائز ہے"۔[بہار شریعت ،جلد :1، حصہ دوم، صفحہ:379، مکتبہ المدينہ کراچی ]
  22. ایک اور روایت پیش کی جاتی ہے علامہ ابن عدی کی کتاب سے حدثنا علي بن سعيد حدثنا الحسين ابن عيسى الرازي حدثنا سلمة بن الفضل ثنا حدثنا محمد بن إسحاق عن محمد بن إبراهيم التيمي عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : ((إذا رأيتم فلاناً على المنبر فاقتلوه). (الکامل لابن عدی 6/112) اس روایت میں محمد بن اسحاق بن یسار تیسرے طبقہ کا مدلس راوی ہے اور اس روایت میں اس نے سماع کی تصریح نہیں کی عن سے روایت کر رہا ہے لہذا یہ روایت بھی ضعیف ہے۔اور اس روایت میں فلانا کا لفظ ہے نام کی تصریح موجود نہیں۔ اس کے علاوہ محمدبن اسحاق کا شاگرد سلمہ بن الفضل الأبرش بھی کثیر الغلط راوی ہے۔ ایک اور روایت بھی پیش کی جاتی ہے حديث جابر بن عبدالله روى سفيان بن محمد الفزاري عن منصور بن سلمة (ولا بأس بمنصور) عن سليمان بن بلال (ثقة) عن جعفر بن محمد (وهو ثقة) عن أبيه (ثقة) عن جابر بن عبدالله رضي الله عنه مرفوعاً (إذا رأيتم فلاناً اس روایت میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام نہیں فلانا کا لفظ ہے ۔اس کے علاوہ سفیان بن محمد الفزاری سخت ضعیف ہے حدثني إبراهيم بن العلاف البصري قال، سمعت سلاماً أبا المنذر يقول: قال عاصم بن بهدلة حدثني زر بن حبيش عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "إذا رأيتم معاوية بن أبي سفيان يخطب على المنبر فاضربوا عنقه أنساب الأشراف (5/130) برقم (378) اس روایت میں ابراہیم بن العلاف بصری مجہول ہے اس کی توثیق امام ابن حبان کے علاوہ کسی امام نے نہیں کی۔اور امام بن حبان کی توثیق کرنے میں متساہل ہیں۔ حدثنا يوسف بن موسى وأبو موسى إسحاق الفروي ، قالا : حدثنا جرير بن عبد الحميد ، حدثنا إسماعيل والأعمش ، عن الحسن ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "إذا رأيتم معاوية على منبري فاقتلوه"، فتركوا أمره فلم يفلحوا ولم ينجحوا. أنساب الأشراف (5/128) اس راویت میں اسماعیل بن ابی خالد اور امام اعمش کا سماع امام حسن بصری سے محل نظر ہے۔اس کے علاوہ یہ روایت مرسل ہے کیونکہ امام حسن بصری کا سما ع آپ علیہ السلام سے نہیں ہے۔ حدثنا الساجي قال : ثنا بندار قال : ثنا سليمان قال : ثنا حماد بن زيد قال : قيل لأيوب إن عمراً روى عن الحسن عن النبي صلى الله عليه وسلم قال [ إذا رأيتم معاوية على المنبر فاقتلوه ] قال أيوب كذب الكامل (5/103) اس راویت میں عمرو بن عبید بن باب کذاب ہے خود اسی راویت میں امام ایوب کیسان السختیانی نے جرح کی۔
  23. یہ تو کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ اگر نبوت کا سلسلہ ختم نہ ہوتا تو اللہ عزوجل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نبی بناتا اور ساتھ ان کو نبوت والے تمام فضائل و احوال بھی مہیا کرتا لیکن جب نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے تو پھر ایسا اعتراض کرنا بھی فضول ہے ۔ یہی اعتراض شیعہ پر تو ہو سکتا ہے کہ ان کے بارہ امام ان کے نزدیک اگرمعصوم ہیں پھر وہ نبی کیوں نہیں ہیں؟؟؟ شیعہ مر تو جائے گا لیکن اس کا جواب نہیں دے پائے گا۔(ان شاء اللہ)
×
×
  • Create New...