Jump to content

Raza Asqalani

اراکین
  • کل پوسٹس

    362
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    54

سب کچھ Raza Asqalani نے پوسٹ کیا

  1. جزاک اللہ افضل بھائی اللہ عزوجل آپ کو اس کا اجرعظیم عطا فرمائے امین
  2. آپ کہتے ہیں کہ کتاب جواہر خمسہ ہی آپکے ہاں مستند نہیں ہے (مثلا پوسٹ پندرہ سات اپریل میں آپ نے فرمایا) مگر اب فرماتے ہیں ناد علی کے حضرت غوث سے ثبوت کے آپ منکر نہیں ہیں On 4/14/2017 at 11:28 AM, Raza Asqalani said: میں نے کب انکار کیا ہے کہ حضرت غوث سے نادعلی ثابت نہیں بھائی جان لگتا ہے بس زیادہ بحث کرنے کا آپ کو شوق ہے ورنہ میرا موقف وہی ہے جب پہلے تھا ۔میں نے صرف یہی کہا ہے کہ یہ وظیفہ صرف جواہرخمسہ میں ہے اور اسی کتاب میں خود حضرت غوث نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا ہوا ہے جو حقیقت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔اگر ثابت ہے تو پیش کریں دلیل ۔ باقی حضرت غوث علیہ الرحمہ نے کہیں نہیں لکھا کہ یہ وظیفہ خود ان کا ہے اور انھوں نے اس کی شروعات کی ہے اگر دلیل ہے تو پیش کرو؟؟؟؟ او بھائی میرے حضرت غوث نے لکھا ہے لیکن منسوب کرکے لکھا ہے بھائی اس لیے اور کیا کہوں؟؟ چلو بھائی اگر میری بات صحیح نہیں لگ رہی تو آپ حضرت غوث سے ثابت کر دیں جس میں یہ ہو کہ یہ وظیفہ انہوں نے بنایا ہے اور اگر ثبوت ہے تو پیش کریں؟؟؟ جناب من میں مفتی نہیں ہوں، کسی ناحقدار کو مفتی کہنا سمجھ نہیں آیا، ادھر تو سند کی ضرورت بھی نہ پڑی بھئی۔،۔ آپکی دلیل اور دعوی میں ربط پر انگشت بدنداں!!۔۔، کیا دلیل ہے کہ ان پیغمبروں علیھم السلام کی جو دعائیں قرآن پاک میں مذکور ہیں، وہ انہی پیغمبروں علیھم السلام کے صحف میں موجود تھیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ کیا آپ کو کسی بھی ذریعہ سے وہ صحف ملے ہیں کہ انکے مطالعہ سے آپکو انکی زبان کا علم ہوا ہو!!۔،،۔۔ بھائی انبیاءکرام علیہم السلام کی زبان وحی خود قرآن بتا سکتا ہے اگر اورواقعی آپ کی نظر میں حضرت آدم علیہ السلام کے صحف ہندی میں تھے تو کوئی بھی قرآن سے دلیل پیش کریں جس میں عربی کے علاوہ ہندی کے الفاظ ہوں تاکہ ہم بھی دیکھ سکیں کہ ہندی زبان میں بھی وحی بھی نازل ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ آج تک کوئی بھی ہندو نے دعویٰ تک نہیں کیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے صحف ہندی میں تھے اگر ثبوت ہوتا تو ہندو پنڈت ضرور اپنی کتابوں میں حوالے کے طور پر پیش کرتے لیکن ایسا کچھ بھی ثابت نہیں۔ ہم اگر دعوی کرتے کہ ناد علی پڑھنے سے سنت کا ثواب ملتا ہے تو آپکا ایسا فرمانا بجا ہوتا، مگر ایسا بالکل بھی نہیں۔۔۔۔ بھئی جان خود سے کچھ سوچ کر ہم پر مت تھونپیں پلیز تو پھر جو صحیح ثابت وظائف ہیں جو سرکارﷺ بھی پڑھا کرتے تھے تو اس طرف کیوں لوگوں کو راغب نہیں کرتے؟؟؟؟ مستند حوالہ پیش کرنے کا کہا تھا میں نے بھئی صاحب، کسی عالم کا کلام پیش کرسکے آپ اپنے دعوی کے اثبات پر؟؟؟؟ او بھائی اسی فورم پر پوری پوسٹ بنی ہوئی کسی نے اعتراض تک نہیں کیا تو پھر اس بات کو پھر کیا سمجھا جائے یہ بھی بتا دیں آپ؟؟؟ چلیں سند جھوٹ ہوئی ناں۔۔، اس سے اور زیادہ کیا ثابت ہوگیا۔،۔۔ جو بندہ اب اسی سند کو صحیح ثابت کرے تو آپ اسے اپنی یہ بات کہیں،،۔،، ہم نے کب اس جھوٹی سند کو صحیح کہا ہے؟؟؟؟؟؟ بھئی جان آپکو بیسک مس کنسیپشن یہی ہے کہ وظیفہ کی سند کا صحیح ہونا لازم ہے۔۔۔۔،،۔ جب تک شریعت کسی بات (مثلا نفس وظیفہ) سے منع نہ کردے، کسی کی کیا مجال کہ خود سے شرطیں قائم کرے!!۔،۔،۔ مسبعات عشر کے جائز ہونے کیلئے کسی بھی خاص دلیل کی ہرگز ضرورت نہیں تھی، سونے پر سہاگہ یہ کہ جلیل القدر صوفیا کا وظیفہ یہی رہا ہے تو یہ بذات خود ایک بہت بڑی دلیل ہے۔،۔، بھئی جان میں نے اوپر اپنی پوسٹنگ میں کہا تھا کہ و قد جرب ذلک مرا مرا افصح کو ذہن میں رکھ کر کچھ کلام فرمائیے گا، نزعتک من دیوان الاولیا پر بھی کچھ نہیں کہا آپ نے بھئی تو بھائی میرے جب سند جھوٹی ہے تو اس کو حضرت خضر علیہ السلام سے کیوں منسوب کیا جاتا ہے؟؟ اور خود صوفیاء نے ہی اس وظیفے کو حضرت خضر علیہ السلام سے ہی روایت کیا ہوا ہے اب بتایئں بھائی؟؟؟
  3. خلیل بھائی اس بارے میں تو بےشمار احادیث صحیحہ موجود ہیں ۔ پتا نہیں پھر بھی وہابی اس پر کیوں یقین نہیں کرتے؟؟؟
  4. وعلیکم السلام بھائی جان۔ تفہیم المسائل کی تمام جلدوں کا پی ڈی ایف لنک یہ ہے۔ http://marfat.com/BrowsePage.aspx?title=tafheem-ul-masail&author=
  5. قبلہ عسقلانی بھئی جان۔،، کبھی تو آپ کہتے ہیں کہ کتاب جواہر خمسہ ہی آپکے ہاں مستند نہیں ہے (مثلا پوسٹ پندرہ سات اپریل میں آپ نے فرمایا) مگر اب فرماتے ہیں ناد علی کے حضرت غوث سے ثبوت کے آپ منکر نہیں ہیں۔۔۔، یہ کیسی بات کر دی جناب من؟؟ کتاب جواہر خمسہ تو مستند نہیں آپکے ہاں پھر کس کتاب سے ناد علی کو حضرت غوث سے ثابت مانتے ہیں؟؟ بھائی کشمیر میں نے کب کہا ہے کہ جواہرخمسہ مستند کتاب ہے؟؟؟؟ نادعلی صرف جواہرخمسہ کتاب میں ہے اور کتب میں اس کا ثبوت ہی نہیں ہے اور خود اسی کتاب میں اس دعا کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سےمنسوب کیا ہے حضرت غوث علیہ الرحمہ نے جو کہ ثابت نہیں بس یہی آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وظیفہ صرف جواہرخمسہ میں لکھا ہوا ہے وہ بھی بنا کسی سند کے۔ اور منسوب ہونے کا ثبوت اوپر میں دے چکا ہوں سکین پیج کی صورت میں جناب من، اس پر کوئی نص قطعی پیش کریں کہ صحف میں ہندی (اور دیگر زبانوں) میں کوئی کلام نہیں تھا۔ ورنہ سکوت فرمائیں،۔،۔ آپ نے فرمایا ہے کہ اس پر ’’نصوص صریحہ‘‘ ہیں تو وہ پیش کریں ناں بھئی قبلہ مفتی کشمیر خان بھائی خود قرآن پڑھ لو اس میں حضرت آدم، ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام کی جو بھی دعائیں ہیں سب عربی میں اور اللہ نے ان کو جو بھی وحی کی اور جس کا ثبوت قرآن میں ہے سب کی سب عربی میں ہیں اور کیا نص چاہیے جناب کو؟؟؟؟؟ بھئی جان۔۔،۔ یہ اصول صرف اسی وظیفہ کے وقت کیوں یاد آیا ہے جبکہ ہر وظیفے پر یہی اپلائی ہوتا ہے۔،۔،۔ درود شریف کا ہی باب لیجئے کہ کتنے کتنے موجود ہیں، ان میں سے کتنوں کی سند ثابت ہے۔،۔،۔، اردو عربی انگریزی وغیرہ میں جو نعتیں موجود ہیں، ان پر کیوں نہیں کہتے کہ بہتر ہے نہ پڑھیں بلکہ صحیح یا حسن سند والی ہی پڑھی جائیں۔،۔، جن ملا علی قاری کا حوالہ جناب نے پیش کیا تھا (یہ الگ بات کہ اب تک اس پر میری بات کا جواب نہیں دیا) وہ تو نزھۃ الخاطر الفاتر میں در بارہ نماز غوثیہ تحریر فرماتے ہیں کہ و قد جرب ذلک مرا مرا افصح ۔، اب بتائیں جناب کہ ادھر کیا حکم اپلائی فرمائیں گے آپ؟؟۔،۔، رد المحتار میں حضرت احمد بن علوان سے مدد بھی مانگی گئی اور نزعتک من دیوان الاولیا بھی کہا گیا ہے، اس پر آپ کیا فرمائیں گے؟؟۔،۔،۔ واضح انداز میں حکم بیان کریں کہ آپکے نزدیک ایسے وظائف کا پڑھنا کس وجہ سے اور کیسا ہے یعنی جائز یا نہیں؟؟؟۔،۔۔، بہتر کی بحث الگ ہے، (اور یہاں ہو بھی نہیں رہی بہتر کی بحث)۔،۔،۔ او بھائی میرے میں نے کہا جو بات سرکار ﷺ سے صحیح الاسناد یا حسن الاسناد ثابت ہو اس پر کلمات کے ثواب کے ساتھ سنت کاثواب بھی ملتا ہے۔ کیا نادعلی پڑھنے سے سنت کا ثواب مل سکتا ہے کیا؟؟؟ کمال کر دیا آپ نے بھئی!!۔،۔،غوث صاحب کے ایسا لکھ دینے سے حضرت علی سے سند کے اثبات یا انکار کی طرف ذہن عود ہی نہیں کرتا ، آپ تاویل القول بما لا یرضی بہ القائل کیوں کررہے ہیں؟؟۔،۔،۔۔ اسکی مثال ایسے ہی ہے کہ نعت گو کہے کہ یہ نعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے!۔،۔ کوئی حمد گو عالم کہے کہ یہ حمد اللہ کی ہے!۔، حیرت ہے بھائی آپ پر تو!!! حضرت غوث خود کہہ رہے ہیں کہ نادعلی حضرت امیرامومنین علی کرم اللہ وجہہ کی یہ ہے پھر اس سے کیا مراد لیا جائے کیا یہ نادعلی خود حضرت غوث نے لکھی ہے جبکہ خود حضرت غوث نے کہیں بھی نہیں کہا کہ یہ وظیفہ میرا اپنا ہے؟؟؟ جب کہ وہ خود اس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں۔ باقی حمد اور نعت میں شاعر کا اپنا کلام ہوتا ہے اور خود اس کے آخر شعر میں اپنا نام بھی لکھتا ہے لہذا اس بات کو حمد اور نعت کے شعروں کے ساتھ تشبہہ دینا صحیح نہیں ہے ہاہاہاہاہاہا واہ بھائی جان واہ جب آپ نے ثبوت مانگا کہ کون نادعلی کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کرتا ہے جب اس کا ثبوت پیش کیا تو فوراً اس بات کو منانے انکار کر دیا کہ ہم نے سب کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا۔ او بھائی جب ٹھیکہ نہیں لیا ہوا تو مجھ سے ثبوت کیونکہ مانگا تھا؟؟ تو اس سے کیا ہوگیا؟؟نفس وظیفہ پر حکم دکھائیں،۔۔، اگر ایسا ہوا بھی تو عمل بزرگان بھی بذات خود ایک دلیل ہے اور ملا علی قاری کے الفاظ و قد جرب ذلک ذہن میں رکھ کے جواب دیجئے گا۔،، بھئی او بھائی میرے جن بزرگوں نے مسبعات عشر کو حضرت خضر علیہ السلام سے روایت کیا ہے جب وہ خود بے اصل ہے تو پھر نفس وظیفہ پر کیا حکم لگایا ؟؟؟؟
  6. سوفٹ وئیر کی انفارمیشن دی ہے کوئی علمی مواد کاپی نہیں کیا گیا۔ جہاں سے کوئی مفید معلومات ملے اس کو دوسروں تک پہنچایا جائے۔
  7. بھائی آپ دونوں بھائیوں کے لیے کافی مفید ہے یہ سوفٹ ویئر@Abdullah Yusuf@M Afzal Razvi
  8. علم تخریج حدیث سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے دوستوں کے لیے ایک جامع سوفٹ ویئر جو سعودی غیرمقلدین نے بنایا ہےلیکن اس میں غیرمقلدوں کی مکاریاں اور جھوٹ بھی ہو سکتے ہیں احادیث کے رواۃ اور احادیث کی تصحیح اور تضعیف کے سلسلے میں۔لہذا اس میں احتیاط کرکے فائدہ اٹھائیں۔اور جہاں اس سوفٹ ویئر میں کوئی بات صحیح نہ لگے تو علماء اہل سنت کی طرف رجوع کریں۔ یہ سوفٹ ویئر تھوڑا سا بڑا ہےتقریبا7۔1 جی بی کی رار فائل ہے اور ایکسٹریٹ کرنے کے بعد تقریبا 5 جی بی تک ہوجاتا ہے اور اس ویب سائٹ پر جاکر اس سوفٹ ویئر کی مکمل تفصیل معلوم کر سکتے ہیں۔ http://sunnah.alifta.net اس سوفٹ ویئر کو ان لنکس سے ڈونلڈ کر سکتے ہیں۔ https://mega.nz/#!2EIyjJLT!aCMw_BdvI_5d0hPL4XhGB08rt1tP0XrvRS-de904VYUhttps://archive.org/download/jama-sunh/2222.rarhttps://my.pcloud.com/publink/show?code=XZvpmuZihWNFhICgoYSh6TcAaeoh0mcGs5k
  9. بھائی ہر طرح کی احادیث ہیں ضعیف بھی ہیں اور صحیح بھی ۔اس کے علاوہ خود اس کتاب کے مؤلف پر بھی کافی جرح ہے۔
  10. کشمیر بھائی میرے پیارے بھائی اللہ عزوجل آپ کو خوش رکھے میری پوری بحث یہاں سند پر ہو رہی ہےیہاں کشف والی سند پر بات نہیں ہو رہی بلکہ ظاہری سند پر بات ہو رہی ہے ۔ میں نے کب انکار کیا ہے کہ حضرت غوث سے نادعلی ثابت نہیں بلکہ میں نے کہا ہے جو حضرت غوث نے نادعلی کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا ہے وہ ثابت نہیں ہے۔ باقی اس کے معنی پر میں نے کوئی ایسی کوئی بات نہیں کی ہے میرا مقصد صرف یہاں صرف سند کا تھا جس کا آپ نے خود اقرار کیا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ۔بس اب پوری بحث ہی ختم میرے بھائی بھائی اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام ہر زبان سے پوری طرح واقف تھےلیکن یہاں زبان کی نہیں حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحائف کی بات ہو رہی ہے کہ کس زبان میں نازل ہوئے تھے اور یہ بات نصوص صحیحہ سے ثابت ہے کہ حضرت آدم اور ابراہیم علیہماالسلام کے صحائف عربی زبان میں نازل ہوئے تھے اور ہندی زبان میں تو بلکل نازل نہیں ہوئے تھے۔ باقی بھائی ہم بھی بزرگوں کے ساتھ حسن ظن کے قائل ہیں بھائی میرے اگر انجیل کے کسی نسخے میں وہ دعا موجود ہوتی تو کوئی نہ کوئی عیسائی عالم ضرور اس کو اپنی کسی کتاب میں ذکر کرتا یا اس کا حوالہ دیتا لیکن ایسا کچھ ثابت نہیں ہے۔ باقی ہم حسن ظن کے قائل ہیں بزرگوں سے۔ باقی ان وظائف کے پڑھنے سے صرف ان کلمات کے پڑھنے کا ثواب ہو گا لیکن اگر سرکارﷺ سے صحیح الاسناد یا حسن الاسناد ثابت وظائف کو پڑھنے کا ثواب دوگنا ہے ایک کلمات کو پڑھنے کا ثواب دوسرا سنت کا ثواب اس لیے بہتر یہی ہے جو وظائف سرکار ﷺ سےصحیح الاسناد یا حسن الاسناد ثابت ہوں ان کو پڑھا جائے۔ بھائی اگر ٹائم ملا تو اس پر ضرور بات کریں گےایک الگ سے پوسٹ بنا کر لیکن بات تحقیقی ہوگی الزامی نہیں کیونکہ الزامی بات میں تحقیق نہیں ہوتی۔ بھائی خود حضرت غوث علیہ الرحمہ نے نادعلی کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا خود پڑھ لیں ان کی کتاب کے سکین پیج سے خود حضرت غوث علیہ الرحمہ لکھ رہے ہیں کہ نادعلی حضرت امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ کی یہ ہےاس سے خود واضح ہو رہا ہے کہ یہ حضرت غوث علیہ الرحمہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا ہے اب تو سند کی ضرورت لازمی پڑے گی بھائی خود سکین دیکھ لیں اگر مجھ پر یقیق نہیں ہے تو بھائی خود حضرت غوث علیہ الرحمہ نے نادعلی کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا خود پڑھ لیں ان کی کتاب کے سکین پیج سے خود حضرت غوث علیہ الرحمہ لکھ رہے ہیں کہ نادعلی حضرت امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ کی یہ ہےاس سے خود واضح ہو رہا ہے کہ یہ حضرت غوث علیہ الرحمہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا ہے اب تو سند کی ضرورت لازمی پڑے گی بھائی خود سکین دیکھ لیں بھائی اب منسوب ہو نا بھی ثابت ہو گیا اب تو سند کی ضرورت پڑ گی ہےاس لیے میرا موقف آپ نے سمجھا نہیں تھا اس لیے زیادبحث ہو گی ہے خود دیکھ لیں بھائی نادعلی کا وقت نزول بھی لوگوں نے بنا لیا ہے اب خود فیصلہ کر لیں اور یہی سکین پیج اسی فورم پر اس لنک پر موجود ہے خود چیک کر لیں اس کے علاوہ حضرت غوث نے ایک اور وظیفہ بھی لکھا ہے اپنی کتاب جواہر خمسہ میں جس کا نام مسبعات عشر ہے اس وظیفے کی سند کو علامہ اسماعیل حقی نے اپنی کتاب تفسیر روح البیان میں حضرت حضرت خضر علیہ السلام کی نسبت سے لکھا ہے یہ ہے اس کا ثبوت لیکن علامہ طاہر پٹنی علیہ الرحمہ نے لکھا کہ اس وظیفے کی سند کی کوئی اصل نہیں ہے اب بھائی خود دیکھ لیں اصل ماخوذ اور سند کا یہی فائدہ ہوتا ہے۔
  11. بھائی میرے لگتا ہے آپ نے میری بات کو صحیح طرح سے سمجھا نہیں، میرا اصل مقصد یہ تھا کہ یہ دعا یا وظیفہ جو حضرت غوث نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا ہے وہ ثابت نہیں اور اس کو نادعلی کہنا ہی صحیح نہیں کیونکہ یہ بات خود حضرت علی سے ثابت نہیں یا آپ اس کا نام تبدیل کر کے اور نام رکھ لیں تا کہ یہ گمان ہی ختم ہو جائے کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے ۔کیونکہ آج کل اس وظیفے کو اکثر لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں صرف اور صرف نام میں علی ہونے کی وجہ سے۔باقی میرا آپ کے ساتھ کوئی ذاتی اور مذہب اختلاف نہیں جو میں آپ پر کوئی تنقید کروں۔باقی آپ کی مرضی ہے آپ کو چاہیں کریں۔ویسے آپ سے بات کر کے تھوڑا الزامی حوالے سے بات کرنے میں علم میں اضافہ ہوا۔ شکریہ بھائی جان
  12. یہ دعا جو بقول صاحب جواہر خمسہ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی لیکن اس سے پہلے اس دعا کا کوئی وجود ہی نہیں یہ حضرت محمد غوث گوالیاری علیہ الرحمہ نے کہاں سے نقل کی ہے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ یہ انجیل میں بھی ہے۔ لیکن موجودہ انجیل میں اس کا کوئی وجود نہیں اس لیے جواہر خمسہ کے غیر مستند ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس میں جو بھی دعا نقل کی گی ہےوہ بنا کوئی حوالے کے اور بنا کسی سندکے۔ بھائی جب آپ کے پاس صحیح اسناد سے سرکارﷺ کی دعائیں موجود ہیں آپ کیوں بلا سند والی دعاؤں کی طرف جاتے ہیں کیا وہ دعائیں آپ کے لیے کافی نہیں؟؟؟ بھائی آپ کو تاقیامت کا وقت دیتا ہوں آپ اس وظیفے کو 900ھ سے پہلے کسی صوفی بزرگ کی روایت یا اجازت نامہ سے ثابت کر کے دیکھیں کیونکہ بقول آپ کے یہ وظیفہ سلسلہ بہ سلسلہ اجازت در اجازت چلا آرہا ہے اگر یہ واقعی سچ ہے تو 900ھ سے پہلے کسی صوفی بزرگ کی کتاب یا اجازت نامہ سے یہ وظیفہ ثابت کر کے دیکھیں؟؟؟؟ پہلے اس بات کو تو ثابت کروکہ یہ وظیفہ حضرت غوث محمد گوالیاری علیہ الرحمہ نے کس سند سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے؟؟؟ جب آپ یہ بات ثابت کردینا تو پھر آگے بات کریں گے کیونکہ خود حضرت گوالیاری علیہ الرحمہ نے اس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرفمنسوب کیا ہے جب کہ یہ بات 900ھ تک کسی بزرگ سے ثابت نہیں
  13. بھائی جان اس روایت کی سند صرف خوابی ہے اور اس بات کا ثبوت خود جواہر خمسہ میں موجود ہے اور خواب شریعت میں حجت نہیں ہوتے یہ لیں اسکا ثبوت پہلے تو جواہر خمسہ کتاب ہی مستند نہیں ہے میری تحقیق کے مطابق۔ اور اگر آپ اس کو مستند مانتے ہیں تو پھر اس بات کو شریعت کے مطابق ثابت کریں۔ کہ ایک دعا جو تورات میں بھی ہے اور حضرت آدم علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے میں بھی ہے پھر اس میں ہندی کہاں سے آ گئی ہے۔ خود جواہر خمسہ میں آدھی دعا عربی اور آدھی ہندی میں ہے لو دیکھ لیں اس بات کا ثبوت کیا آپ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جواہرخمسہ مستند کتاب ہے اور مستند تسلیم کرتے ہیں تو اوپر والے سکین کا جواب دیں کیا صحف آدم علیہ السلام ہندی میں تھےپہلے اس بات کو تو ثابت کر کے دیکھیں بقول صاحب جواہر خمسہ کے صحف آدم علیہ السلام ہندی زبان میں تھے۔ تو ثابت کریں نا کہ یہ وظیفہ کس بزرگ سے حضرت غوث گوالیاری نے لیا ہے یا اجازت لی ہے کیونکہ ان سے پہلے کسی بزرگ سے یہ وظیفہ روایت ہی نہیں ہے نہ ہی کسی سے اجازت لینے کی کوئی دلیل ہے؟؟؟؟ کیونکہ بقول آپ کے یہ وظیفہ سلسلہ بہ سلسلہ چل رہا ہے جب کہ 900 ہجری سے پہلے اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔
  14. بھائی میرے ملاعلی قاری کی اس عبارت کا ترجمہ تو کریں پھر آپ کو آپ کا جواب مل جائے گا۔ أَقُولُ وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى بُطْلَانِهِ أَنَّهُ لَوْ نُودِيَ بِهَذَا مِنَ السَّمَاءِ فِي بَدْرٍ لَسَمِعَهُ الصَّحَابَةِ الْكِرَامِ وَنَقَلَ عَنْهُمُ الْأَئِمَّةُ الْفِخَامُ وَهَذَا شَبِيهُ مَا يُنْقَلُ مِنْ ضَرْبِ النُّقَارَةِ حَوَالِيَ بَدْرٍ وَيَنْسُبُونَهُ إِلَى الْمَلَائِكَةِ عَلَى وَجْهِ الِاسْتِمْرَارِ مِنْ زَمَنِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ إِلَى يَوْمِنَا هَذَا وَهُوَ بَاطِلٌ عَقْلًا وَنَقْلًا وَإِنْ كَانَ ذَكَرَهُ ابْنُ مَرْزُوقٍ وَتَبِعَهُ الْقَسْطَلَّانِيُّ فِي مَوَاهِبِهِ وَكَذَا مِنْ مُفْتَرَيَاتِ الشِّيعَةِ الشَّنِيعَةِ حَدِيثُ نَادِ عَلِيًّا مُظْهِرَ الْعَجَائِبَ تَجِدْهُ عَوْنًا لَكَ فِي النَّوَائِبِ بِنُبُوَّتِكَ يَا مُحَمَّدُ بُوِلَايَتِكَ يَا عَلِيُّ الموضوعات الکبریٰ صفحہ 386، رقم 595 اس وظیفہ کی کوئی سند ثابت نہیں نہ ہی یہ اکابر صوفیاءکرام کی کتب میں موجود ہے جیسے حضرت غوث پاک علیہ الرحمہ، حضرت داتا علی ہجویری علیہ الرحمہ اور دوسرے بزرگ صوفیا کی کتب میں۔ اگر سند ہے تو پیش کریں؟؟؟ جب یہ دعا ثابت ہی نہیں تو پھر اس کے کس پوائنٹ پر بات کروں۔ اگر یہ دعا ثابت ہے تو کوئی سند پیش کریں؟؟؟ چلو صوفیاءکرام والی سند ہی پیش کر دیں تاکہ ہم بھی دیکھیں یہ وظیفہ ہم تک کیسے پہنچا ہے تاکہ دیکھ سکیں اس میں کوئی گھڑنے والا کوئی راوی تو موجود نہیں؟؟ابھی نادعلی کی سند ثابت کر دیں پھر جناب کی اس بات پر بھی گفتگو ہو جائے گی۔ چلو صوفیاءکرام والی سند ہی پیش کر دیں تاکہ ہم بھی دیکھیں یہ وظیفہ ہم تک کیسے پہنچا ہے تاکہ دیکھ سکیں اس میں کوئی گھڑنے والا کوئی راوی تو موجود نہیں؟؟ ایک اور بات کہ لا فتی الا علی والی حدیث پاک موضوع نہیں ہے۔ اس روایت کی تمام مرفوع اسناد موضوع ہیں۔اگر کوئی مرفوع روایت صحیح یا حسن ہے تو پیش کریں؟؟؟ شاہ ولی اللہ دہلوی علیہ الرحمہ نے نادعلی کی کوئی سند نہیں لکھی یہ شاہ صاحب کے استاد حضرت ابوطاہر کردی کوحضر ت محمد غوث گوالیاری سے ضرف عملیات کے اجازت ملی تھی اس لیے صاحب جواہر خمسہ نے بنا کوئی سند سے اس کو لکھا ہے۔لہذا اب آپ پر لازم ہو گیا ہے کہ اس کی سند پیش کریں کیونکہ آپ نے تسلیم کیا ہے کہ صوفیا ء کی سند موجود ہے ناد علی کے بارے میں۔ باقی الزامی جوابات سے گریز کریں کیونکہ الزامی جوابات میرے پاس بھی بہت ہیں لیکن میں نے آپ سے تحقیقی جواب مانگا ہے۔ میں آپ کے تحقیقی جواب کا منتظر ہوں۔ میں آپ کو نادعلی کے کچھ سکین پیجز دیتا ہوں ان میں سے آپ کس نادعلی کو مانتے ہیں کیونکہ لوگوں نے تو بہت سی نادعلی بنا لی ہیں اس لیے اتنی ساری نادعلی کہاں سے آگئی ہیں؟؟؟ شیعہ عالم کی پوری عبارت نقل نہیں کی کیونکہ آخرمیں جو اس نے لکھا وہ آپ کے لیے جواب تھا لیکن آپ نے اپنے فائدہ والی عبارت کا سکین پیج لگایا ہے۔ شیعہ عالم کا اصل موقف تو پڑھیں جناب اس نے کیا لکھا ہے صوفیاء کے بارے میں۔ شیعہ عالم نے واضح لکھ دیا ہے کہ یہ نادعلی کی سند آئمہ اہل بیت رضوان اللہ علیہم سے ثابت نہیں۔جب سند ثابت ہو گئی تو اس کے الفاظ پر بات کریں گے نا! ورنہ بنا کوئی سند کے کسی بات پر کرنا صرف وقت کا ضیاع ہے اور کچھ نہیں۔ اب آپ پر لازم ہو گیا کہ اس کی سند ثابت کریں کیونکہ آپ نے تسلیم کیا ہوا کہ اس کی سند صوفیاء سے ثابت ہے؟؟ یہ رہا شیعہ عالم کا اقرار نامہ نادعلی صرف حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری علیہ الرحمہ کی کتاب جواہر خمسہ کےعلاوہ کسی بھی اکابر صوفیاءکرام رحمۃ اللہ علیہم کی کتاب میں موجود نہیں۔ اور حضرت محمد غوث گوالیاری کی وفات15 رمضان 970 ہجری میں ہوئی اس سے ثابت ہوا کہ یہ وظیفہ 900-970ہجری کے درمیان میں ظاہر ہوا اس سے پہلے کسی بھی اکابر صوفی نے اس وظیفہ کا ذکرتک نہیں کیا۔
  15. بھائی یہ کوئی اختلافی حوالہ نہیں ہے بلکہ صحیح حوالہ ہے جو اکثر لوگوں کو اس کا پتا نہیں اس لیے اس طرح کے صحیح حوالہ لوگوں کو اختلافی لگتے ہیں کیونکہ ہم لوگوں کو صحیح بات بتانے سے ڈرتے ہیں کہیں وہ اس سے کوئی بدمذہب نہ ہو جائیں۔ اس لیے جو صحیح بات ہوا کرے وہی بتا دیا کریں ورنہ وہی بات کوئی وہابی اسے بتا دے گا تو اس کا پتا نہیں کیا حال ہو گا اور علما اہلسنت کے بارے پتا نہیں کیا سے کیا سوچے گا؟؟؟ باقی میری باتوں کا برا بھی نہیں مانیے گا کیونکہ میرا کام تھا آپ کو صحیح بات بتانا باقی اگر آپ کےاس بارے میں کوئی قوی دلائل ہیں تو پیش کریں۔ اگر وہ دلائل واقعی قوی ہوئےتو میں ضرور اس پر تحقیق کرونگا۔
  16. اگر ملاعلی قاری علیہ الرحمہ کی بات آپ کو درست نہیں لگ رہی تو کوئی سند ہی پیش کردیں اس روایت کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کیونکہ صوفیاءکرام رحمہ اللہ علیہم کی کتب میں بہت سی احادیث موضوع پائی جاتی ہیں۔ اس لیے اس کا کوئی صحیح ثبوت پیش کریں تاکہ سب کی اصلاح ہو۔ مجھے بھی اجازت ہے اس وظیفے کی لیکن میں پڑھتا نہیں ہوں کیونکہ آج تک مجھے اس کا کوئی صحیح ثبوت نہیں ملااس لیے میں نے اسے ترک کر دیا ہے۔ میں ملاعلی قاری علیہ الرحمہ کی تحقیق سے متفق ہوں اور اگر کسی نے ملاعلی قاری علیہ الرحمہ کی تحقیق سے اختلاف کیا یا اس کا رد کیا تو میں بھی اس کا رد لکھوں گا اور ملاعلی قاری علیہ الرحمہ کی اس تحقیق کو اصول حدیث کی روشنی میں صحیح ثابت کرونگا۔(انشاء اللہ ) باقی میں بھائی آپ کے تحقیقی جواب کا منتظر ہوں۔
  17. بھائی نادعلی رضی اللہ عنہ کو ملاعلی قاری علیہ الرحمہ نے رافضیوں کا جھوٹ قرار دیا۔ ملا علی قاری علیہ الرحمہ اپنی کتاب الموضوعات الکبیر میں لکھتے ہیں۔ حَدِيثُ لَا فَتَى إِلَّا عَليّ لَا سَيْفَ إِلَّا ذُو الْفِقَارِ لَا أَصْلَ لَهُ مِمَّا يُعْتَمَدُ عَلَيْهِ نَعَمْ يُرْوَى فِي أَثَرٍ وَاهٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَرَفَةَ الْعَبْدِيِّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْبَاقِرِ قَالَ نَادَى مَلَكٌ مِنَ السَّمَاءِ يَوْمَ بَدْرٍ يُقَالُ لَهُ رَضْوَانُ لَا سَيْفَ إِلَّا ذُو الْفِقَارِ لَا فَتَى إِلًا عَلَيٌّ وَذَكَرَهُ كَذَا فِي الرِّيَاضِ النَّضِرَةِ وَقَالَ ذُو الْفِقَارِ اسْمُ سَيْفِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسُمِّيَ بِذَلِكَ لِأَنَّهُ كَانَتْ فِيهِ حُفَرٌ صِغَارٌ أَقُولُ وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى بُطْلَانِهِ أَنَّهُ لَوْ نُودِيَ بِهَذَا مِنَ السَّمَاءِ فِي بَدْرٍ لَسَمِعَهُ الصَّحَابَةِ الْكِرَامِ وَنَقَلَ عَنْهُمُ الْأَئِمَّةُ الْفِخَامُ وَهَذَا شَبِيهُ مَا يُنْقَلُ مِنْ ضَرْبِ النُّقَارَةِ حَوَالِيَ بَدْرٍ وَيَنْسُبُونَهُ إِلَى الْمَلَائِكَةِ عَلَى وَجْهِ الِاسْتِمْرَارِ مِنْ زَمَنِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ إِلَى يَوْمِنَا هَذَا وَهُوَ بَاطِلٌ عَقْلًا وَنَقْلًا وَإِنْ كَانَ ذَكَرَهُ ابْنُ مَرْزُوقٍ وَتَبِعَهُ الْقَسْطَلَّانِيُّ فِي مَوَاهِبِهِ وَكَذَا مِنْ مُفْتَرَيَاتِ الشِّيعَةِ الشَّنِيعَةِ حَدِيثُ نَادِ عَلِيًّا مُظْهِرَ الْعَجَائِبَ تَجِدْهُ عَوْنًا لَكَ فِي النَّوَائِبِ بِنُبُوَّتِكَ يَا مُحَمَّدُ بُوِلَايَتِكَ يَا عَلِيُّ الموضوعات الکبریٰ صفحہ 386، رقم 595
  18. یہ لیں بھائی شاہ ولی اللہ کی طرف منسوب کتابوں کی تحقیق جو ان کی اپنی ذاتی کتب نہیں ہیں بلکہ بعد کے لوگوں نے اس کی طرف منسوب کی ہیں اس کی تفصیل ان سکین پیجز میں پڑھ لیں۔
  19. یہ لیں بھائی خود ایک شیعہ محدث نوری نے بھی تحریف قرآن پر پوری کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے فصل الخطاب في إثبات تحريف كتاب رب الأرباب للنوريالطبرسي اس کو یہاں سے ڈونلوڈ کریں Fasal-e-Khitab Lil-Noori.pdf
  20. بھائی روایت پر پوری تحقیق جلد از جلد پیش کرو نگا اور اس کا رافضیوں کو منہ تور جواب دونگا۔ انشاء اللہ
  21. اب تک تم نے میرے اور افضل بھائی کے پوچھے ہوئے سوالات کا جواب تک نہیں دیا اور خود ہی راہ فرار اختیار کرکے پتلی گلی سے نکل گے ابھی ہمارے سوالات کا جواب تم پر قرض ہیں
  22. جاہل غیرمقلد تم کو اس کا فیس بک پر جواب دے چکا ہوں لیکن تو وہاں سے فرار ہو چکا ہے ابھی تک ثابت کچھ نہیں کر پایا لے فیس بک میرا اور افضل بھائی کے کمنٹس پڑھ اور اپنے ضعیف دماغ پر زور ڈال یاد کرنے کے لیے لے دیکھ
  23. قصاص حسین رضی اللہ عنہ والی روایات کی تصحیح پر ناصبی غیرمقلد کفایت سنابلی کا تعاقب اور اس کا اصولی رد بلیغ غیرمقلد ناصبی سنابلی نے یزید پلید کو بچانے کے لیے بہت زیادہ محنت کی اورضعیف اور مردو د روایات کی تصحیح کر بہت سی قلابازیاں بھی کھاہیں صرف اور صرف عوام کو گمراہ کرنے کے لیے لیکن الحمدللہ آج بھی حسینی زندہ ہیں یزیدیوں کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے۔ یزید کے کالے کارنامے چھپانے کے لیے اسی ناصبی نے تاریخ طبری کی ایک روایت پیش کی جو قصاص کے متعلق تھی بقول سنابلی کے ۔اور اس میں ناصبی نے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی کہ عبیداللہ بن زیاد المعروف ابن مرجانہ (زنا کی پیداوار) نے اہلبیت عظام رضوان اللہ علیہم کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور اس کا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل میں ہاتھ نہیں تھا نہ یزید پلید کا ہاتھ تھا بلکہ شرپسندوں کا ہاتھ تھا۔ سنابلی غیرمقلد نے یزید کو بچانے کے لیےاس روایت کی آنکھ بند کر کےبنا سوچے سمجھے تصحیح کر ڈالی۔ ناصبی غیرمقلد کی جھوٹی تصحیح کا ردبلیغ اب ہم ناصبی سنابلی وہ روایت پر تحقیق کرتے ہیں اور اس کو اصول حدیث کی روشنی میں ضعیف اور مردود ثابت کرتے ہیں۔ سنابلی ناصبی کی پیش کردہ روایت یہ ہے۔ امام طبری تاریخ طبری (5/393) میں روایت کرتے ہیں: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ الرَّازِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ........ .........حَدَّثَنِي سعد بن عبيدة قَالَ: وجيء بنسائه وبناته وأهله، وَكَانَ أحسن شَيْء صنعه أن أمر لهن بمنزل فِي مكان معتزل، وأجرى عليهن رزقا، وأمر لهن بنفقة وكسوة قَالَ: فانطلق غلامان مِنْهُمْ لعبد اللَّه بن جَعْفَر- أو ابن ابن جَعْفَر- فأتيا رجلا من طيئ فلجأ إِلَيْهِ، فضرب أعناقهما، وجاء برءوسهما حَتَّى وضعهما بين يدي ابن زياد، قَالَ: فهم (وفى البغية فامر) بضرب عنقه، وأمر بداره فهدمت. ترجمہ بقول سنابلی: سعد بن عبیدہ کہتے ہیں کہ جب قافلہ حسین رضی اللہ عنہ کی خواتین ، حسین رضی اللہ عنہ کی بیٹیاں اور گھر والے عبیداللہ بن زیاد کے پاس پہنچائے گئے تو اس نے سب سے اچھا کام یہ کیا کہ ان کے قیام کے لیے ایک خاص اور الگ جگہ پر انتظام کیا اور ان کا کھانا پانی بھی وہیں پہنچانے کا حکم دیا اور ان کے کپڑے اور دیگر اخراجات فراہم کرنے کے بھی احکام دیے، اسی دوران ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ عبداللہ بن جعفر (رضی اللہ عنہ) کے دو بیٹوں نے بنوطے کے ایک شخص کے یہاں رکنے کا سوال کیا تو اس (ظالم ) نے انھیں قتل کردیا اور ان کے سر لے کر عبیداللہ بن زیاد کے سامنے پہنچا۔یہ دیکھ کر عبیداللہ بن زیاد نے اس کے قتل کا ارادہ کرلیا (اور "بغیۃ الطلب" کے الفاظ ہیں کہ اس کے قتل کا حکم دیا) اور اس کے گھر کو منہدم کروادیا۔" یہ روایت نقل کرنے کے بعد غیرمقلد ناصبی کفایت سنابلی لکھتا ہے: اس روایت کی سند صحیح ہے۔سعد بن عبیدہ کتب ستہ کے ثقہ راوی ہیں اور بقیہ رجال کی توثیق پیش کی جا چکی ہے۔ (یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ ص371-372) ناصبی غیر مقلد کی تاریخ طبری کی اس روایت کو صحیح کہناغلط اور مردود بلکہ اعلیٰ لیول کی جہالت ہے کیو نکہ اس روایت میں عباد بن العوام عن حصین کا طرق موجود ہے اور عباد بن العوام کا حصین بن عبدالرحمن سے سماع اس کے اختلاط ( حافظہ خراب ) ہونے کے بعد کا ہے۔ جب غیرمقلد ناصبی نے دیکھا کہ عباد بن العوام کا حصین بن عبدالرحمن سے سماع کا اعتراض ہو سکتا ہے تو ساتھ جھوٹ بول دیا کہ زیرتحقیق حصین سے عباد بن العوام نے نقل کیا ہے اور عباد بن العوام کا حصین سے قدیم سماع ہے۔ اور اس بات کا حوالہ ایک نام معلوم شخص اسماعیل رضوان کی کتاب حصین بن عبدالرحمن السلمی و روایہ فی الصحیحین کا دے دیا اب پتہ نہیں اسماعیل رضوان نے قدیم السماع ہونے کی دلیل کس امام سے لی ہے؟؟۔(دیکھئے یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، صفحہ نمبر 352) اگرچے مجھے اسماعیل رضوان کی کتاب نہ مل سکی اور نہ ہی مجھے یہ معلوم ہے کہ علم حدیث میں اس کی کیا حیثیت ہے کہ یہ کون ہے اور کہاں کا ہے ، وہابی ہے یا سنی ہے ؟؟؟ (واللہ اعلم) اس لیے ہم اعلیٰ لیول کے محدثین اور محققین سے سنابلی کی اس بات کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں کہ عباد بن العوام کا سماع حصین بن عبدالرحمن سے قدیم نہیں بلکہ اختلاط (حافظہ خراب) ہونے کے بعد کا ہے۔ اب ہم آتے ہیں حصین کے قدیم شاگردوں کی تحقیق پر کہ حصین سے اس کے حافظہ خراب ہونے سے پہلے کن کن راویوں نے ان سے حدیث سنی ہے۔ شیخ الاسلام امام زین الدین عراقی لکھتے ہیں: وقد سمع منه قديما قبل أن يتغير سليمان التيمي وسليمان الأعمش وشعبة وسفيان والله تعالى أعلم ترجمہ: اور تحقیق تغیر (حافظہ خراب ہونے )سے پہلے سلیمان تیمی، سلیمان الاعمش ، شعبہ اور سفیان (ثوری) نے اس (حصین بن عبدالرحمن) سے سنا۔ واللہ تعالیٰ اعلم التقييد والإيضاح شرح مقدمة ابن الصلاح النوع الثاني والستون: معرفة من خلط في آخر عمره من الثقات (1/458) حافظ الدنیا امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں : فَأَما شُعْبَة وَالثَّوْري وزائدة وهشيم وخَالِد فَسَمِعُوا مِنْهُ قبل تغيره ترجمہ:برحال شعبہ، سفیان (ثوری)، زائدہ ،ہشیم اور خالد نے (حصین بن عبدالرحمن سے) ان کے حافظہ کے خراب ہونے سے پہلے سنا۔ ھدی الساری مقدمة فتح الباری الْفَصْل التَّاسِع فِي سِيَاق أَسمَاء من طعن فِيهِ من رجال (1/98) امام المحدثین امام شمس الدین سخاوی لکھتے ہیں: وَفِي هَؤُلَاءِ مَنْ سَمِعَ مِنْهُ قَبْلَ الِاخْتِلَاطِ كَالْوَاسِطِيِّ وَزَائِدَةَ وَالثَّوْرِيِّ وَشُعْبَةَ، ترجمہ: اور ان میں مذکورہ (رواۃ) میں سے جنہوں نے حصین بن عبد الرحمن کے حافظہ خراب ہونے سے پہلے سنا وہ واسطی، زائدہ، سفیان (ثوری) اور شعبہ ہیں۔ فتح المغيث بشرح الفية الحديث مَعْرِفَةُ مَنِ اخْتَلَطَ مِنَ الثِّقَاتِ أمثلة لمن اختلط من الثقات (4/374) امام المحدثین والفقہاء امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں: وَمِمَّنْ سَمِعَ مِنْهُ قَدِيمًا سُلَيْمَانُ التِّيمِيُّ، وَالْأَعْمَشُ وَشُعْبَةُ وَسُفْيَانُ. ترجمہ:اور ان (رواۃ) میں سے جنہوں نے حصین بن عبدالرحمن سے (اختلاط) سے پہلے سنا وہ سلیمان تیمی، اعمش، شعبہ اور سفیان (ثوری) ہیں۔ تدريب الراوي النَّوْعُ الثَّانِي وَالسِّتُّونَ مَعْرِفَةٌ مِنْ خَلَطَ مِنَ الثِّقَاتِ (2/903) امام الجرح والتعدیل امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں: قال يزيد بن الهيثم عن يحيى بن معين: ما روى هشيم وسفيان عن حصين صحيح، ثم أنه اختلط. وقال أيضاً يزيد: قلت ليحيى بن معين: عطاء بن السائب وحصين اختلطا؟ قال: نعم. قلت: من أصحهم سماعاً؟ قال: سفيان أصحهم يعني الثوري وهشيم في حصين. ترجمہ: یزید بن الھیثم (ثقہ) نے کہا امام یحییٰ بن معین سے کہ (انہوں نے کہا) جو ہشیم اور سفیان نے حصین (بن عبدالرحمن)سے روایت کی وہ صحیح ہے، پھر ان کو اختلاط ہو گیا (یعنی حافظہ خراب ہو گیا تھا)۔ اور اسی طرح یزید بن الھیثم (ثقہ) کہا کہ میں نے امام یحییٰ بن معین سے پوچھا: عطاء بن السائب اور حصین کو اختلاط ہوگیا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ میں (یزید بن الھیثم ) نے پوچھا: ان میں زیادہ صحیح سماع کن کا ہے؟ انہوں نے( یعنی امام یحییٰ بن معین) نے کہا: سفیان ان میں زیادہ صحیح یعنی ثوری اور ہشیم ہیں حصین کی (حدیث) میں۔ شرح علل الترمذي حصين بن عبد الرحمن (2/739) امام برہان الدین ابناسی شافعی (متوفی 802 ھ) لکھتے ہیں: وقد سمع منه قديما أن يتغير سليمان التيمي وسليمان الأعمش وشعبة وسفيان ترجمہ: اورتحقیق تغیر سے پہلے سلیمان تیمی، سلیمان الاعمش ، شعبہ اور سفیان (ثوری) نے اس (حصین بن عبدالرحمن) سے سنا الشذا الفياح من علوم ابن الصلاح النوع الثاني والستون معرفة من خلط في آخر عمره من الثقات (2/765) امام ابوالبرکات ابن الکیال شافعی (متوفی 929ھ) لکھتے ہیں: وقد سمع منه قديما قبل أن يتغير سليمان التيمي وسليمان الأعمش وشعبة وسفيان ترجمہ: اورتحقیق تغیرسے پہلے سلیمان تیمی، سلیمان الاعمش ، شعبہ اور سفیان (ثوری) نے اس (حصین بن عبدالرحمن) سے سنا۔ الكواكب النيرات في معرفة من الرواة الثقات (1/136) خود غیر مقلد ارشاد الحق اثری (جس کی تحقیق اور علم کو خود سنابلی بھی مانتا ہے اور خود سنابلی نے اپنی سینے پر ہاتھ باندھنے والی کتاب میں اس کی تعریف بھی بیان کی ہے) نے اس بات کو تسلیم کیا اور امام عراقی کے قول سے دلیل لی۔ ارشاد اثری اپنی کتاب میں لکھتا ہے۔ علامہ عراقی لکھتے ہیں: وقد سمع منه قديما قبل أن يتغير سليمان التيمي وسليمان الأعمش وشعبة وسفيان والله تعالى أعلم ترجمہ بقول ارشاد اثری: یعنی حصین سےتغیر سے پہلےسلیمان تیمی ، سلیمان اعمش، شعبہ اور سفیان نے سماع کیا۔ (توضیح الکلام ص450) خود ناصبی سنابلی غیر مقلدصحیحین میں موجود مختلطین راویوں کی روایت کے بارے میں خود اپنی جماعت کے غیر مقلد گستاخ المحدثین زبیر زئی کا رد کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ "الکواکب النیرات" کے محقق لکھتے ہیں: "و ھذ الذی ذکروہ من ان کل من روی عن المختلط و اخرج بطریقه صاحبا الصحیح و احدھما فھو ممن سمع منه قبل الاختلاط خلاف الواقع و مخالف لما صرح بہ ائمة الحدیث" ترجمہ بقول سنابلی: لوگوں نے جو یہ بیان کیا ہےکہ صحیحین کے مصنفین یا ان میں سے کسی ایک نے مختلط یا ان کے طرق سے جو بھی روایت نقل کی ہے، وہ ان کے اختلاط سے پہلے سنی ہو ئی ہے۔یہ بات حقیقت کے بر عکس ہےاور آئمہ حدیث کی تصریحات کے خلاف ہے۔ یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، صفحہ نمبر244 جمہور محدثین سے بلکہ خود سنابلی کے چہیتے وہابی ارشاد اثری سے بھی ہم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حصین بن عبدالرحمٰن السلمی قدیمی شاگرد صرف سلیمان التیمی، امام اعمش ، امام شعبہ اور امام سفیان ثوری ہیں۔ کسی ایک امام نے بھی عباد بن العوام کو حصین بن عبدالرحمن کا قدیمی شاگرد نہیں لکھا۔اس سے ثابت ہوا کہ عباد بن العوام کا سماع حصین سے اس کے حافظہ خراب ہونے کے بعد کا ہے ۔اور اصول حدیث میں حافظہ خراب ہونے کے بعد کی روایت کوضعیف و مردود سمجھا جاتا ہے۔اس سے سنابلی ناصبی کی تصحیح اور اس کا دعویٰ قدیم سماع والا دونوں جھوٹ اور باطل ثابت ہوئے۔(الحمدللہ) ناصبی سنابلی کی پیش کردہ دوسری روایت: وَقَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ دَخَلْنَا الْكُوفَةَ، فَلَقِيَنَا رَجُلٌ، فَدَخَلْنَا مَنْزِلَهُ فَأَلْحَفْنَا، فَنِمْتُ، فَلَمْ أَسْتَيْقِظْ إِلَّا بِحِسِّ الْخَيْلِ فِي الْأَزِقَّةِ، فَحَمَلْنَا إِلَى يَزِيدَ، فَدَمَعَتْ عَيْنُهُ حِينَ رآنا، وأعطانا ما شئنا، وقال لي: إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي قَوْمِكَ أُمُورٌ، فَلَا تَدْخُلَ مَعَهُمْ فِي شَيْءٍ، فَلَمَّا كَانَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَا كَانَ، كَتَبَ مَعَ مُسْلِمِ بْنِ عُقْبَةَ كِتَابًا فِيهِ أَمَانِي، فَلَمَّا فَرَغَ مُسْلِمٌ مِنَ الْحَرَّةِ بَعَثَ إِلَيَّ، فَجِئْتُهُ وَقَدْ كَتَبْتُ وَصِيَّتِي، فَرَمَى إِلَيَّ بِالْكِتَابِ، فَإِذَا فِيهِ: اسْتَوْصِ بِعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ خَيْرًا، وَإِنْ دَخَلَ مَعَهُمْ فِي أَمْرِهِمْ فَأَمِّنْهُ وَاعْفُ عَنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ فَقَدْ أَصَابَ وَأَحْسَنَ. ترجمہ بقول سنابلی: علی بن حسین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب حسین رضی اللہ عنہ قتل کر دیے گئے تو ہم کوفے میں پہنچے۔ ہم سے ایک آدمی نے ملاقات کی اور ہم اس کے گھر داخل ہوئے، اس نے ہمارے سونے کا بندوبست کیا اور میں سو گیا۔پھر گلیوں میں گھوڑوں کی آواز سے میری نیند کھلی، پھر ہم یزید بن معاویہ کے پاس پہنچائے گئے تو جب یزید نے ہمیں دیکھا تو ان کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں ،یعنی وہ رو پڑے، پھر انھوں نے ہمیں وہ سب کچھ دیا، جو ہم نے چاہا اور مجھ سے کہا: آپ کے یہاں کچھ معاملات پیش آئیں گے، آپ ان لوگوں کے کسی معاملے میں شرکت مت کیجئے گا۔پھر جب اہل مدینہ کی طرف سے یزید کی مخالفت ہوئی تو مسلم بن عقبہ کو یزید بن معاویہ نے خط لکھا، جس میں انہوں نے مجھے امان دی اور جب مسلم حرہ کے واقعے سے فارغ ہوئے تو مجھے بلوایا تو میں ان پاس حاضر ہوا اور میں اپنی وصیت لکھ چکا تھا تو انھوں نے مجھے وہ خط دیا جس میں لکھا ہوا تھا: علی بن حسین کے ساتھ خیر کا معاملہ کرنا۔ اگر وہ اہل مدینہ کے معاملے میں شریک ہوجائیں تو بھی انہیں امان دینا اور انھیں معاف کر دینا اور اگر وہ ان کے ساتھ شریک نہ ہوئے تو یہ انھوں نے بہت اچھا اور بہترکیا۔" ناصبی سنابلی غیرمقلد نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے: تاریخ الاسلام ط بشار(2/583) نقلا عن المدائنی ، و اسنادہ صحیح یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، صفحہ نمبر338-339 ناصبی سنابلی کا رد بلیغ: پہلے تو سنابلی کو شرم آنی چاہیے جو اس طرح کی سند کی تصحیح کر ڈالی وہ بھی بنا اصل کتاب کو دیکھے بنا۔ امام ذہبی کی پیدائش 673 ہجری کو ہوئی اور علامہ مدائنی کی وفات پر کئی قول موجود ہیں 215ھ، 224ھ، 225ھ 228ھ ، 234ھ سن وفات ذکر کتب رجال میں موجود ہے۔ لیکن سنابلی نے بنا کوئی مضبوط دلیل کے 215 ھ کو امام مدائنی کی وفات والے قول کو راجح قرار دے دیا۔ یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، صفحہ نمبر771 پھر بھی سند منقطع ہے کیونکہ امام ذہبی سے لے کر علامہ مدائنی تک سند کا کوئی اتا پتا نہیں۔ پھر سنابلی نے ایک نے نئی کہانی رچائی کہ امام ذہبی نے علامہ مدائنی کی کتاب سے نقل کرکے لکھا ہے لہذا امام ذہبی تک سند کا اعتراض ختم ہوا۔ اور علامہ مدائنی کی ایک کتاب الحرہ بھی ہے جس کا ذکر امام ابن جوزی نے کیا ہے یزید کی مذمت والی کتاب میں۔ اور امام بن عساکر نے بھی اس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔ ملاحظہ ہو یزید پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، ص 711-712)) الجواب: سچ کہتے ہیں جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے امام ذہبی نے روایت کو لکھتے وقت علامہ مدائنی کی کوئی کتاب کو ذکر نہیں کیا صرف یہی لکھا وَقَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ: تاریخ الاسلام ط بشار(2/583) امام ابن جوزی نے منقطع سند کے ساتھ اس کتاب کا نام لیا امام ابن الجوزی لکھتے ہیں: ذکر المدائنی فی کتاب (الحرۃ) عن الزھری۔۔۔الخ (الرد علی المتعصب العنید، ص 67) امام ابن جوزی نے بنا سند کے الحرہ کتاب کو علامہ مدائنی کی طرف منسوب کیا اور پتا نہیں یہ (بریکٹ) میں الحرۃ لفظ امام جوزی کا ہے یا اس کتاب کے محقق نے اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے؟؟؟ اور علامہ مدائنی کی اس کتاب کو روایت کرنے والا کون ہے ثقہ ہے غیر ثقہ ہے اس بات کا کچھ پتہ نہیں۔ امام ابن عساکر نے بغیر کوئی سند کے الحرۃ کتاب کو علامہ مدائنی کی طرف منسوب کیا ہے لہذا امام ابن عساکر تک بھی اس کتاب کی صحیح یا حسن سند ثابت نہیں۔ مخارق الكلبي له ذكر في كتاب الحرة كان في من وجهه يزيد إلى أهل المدينة مع مسرف بن عقبة المري واستعمله مشرف على ميسرة جيشه وقد تقدم ذكر ذلك في ترجمة طريف بن الخشخاش (تاریخ دمشق لابن عساکر 57/132، رقم 7268) وافد الألهاني استعمله مسلم بن عقبة أمير جيش الحرة على خيله له ذكر في كتاب الحرة وقد سقت ذكره في ترجمة طريف بن الخشخاش " (تاریخ دمشق لابن عساکر 62/382، رقم 7955) لہذا سنابلی کا امام ذہبی امام جوزی اور ابن کثیر سے دلیل پکڑنا باطل ہے خود سنابلی کی اس دلیل کا رد خود سنابلی سے سنابلی نے جو نیا اصول بنایا تھا یزید پلید کے دفاع میں پھر اسی اصول کو اپنی دوسری کتاب انوار البدر فی وضع الیدین علی الصدر میں توڑ دیا ہے کیونکہ اسی کا خود کا بنایا ہوا اصول خود اسی کے رد میں آ گیا تھا اس لیے اسی اصول کو اپنی دوسری کتاب میں ماننے سے انکار کردیا ہے جو اس سنابلی کی منافقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سنابلی سماک بن حرب کا دفاع کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ امام ابن معین ناقل ہیں کہ امام شعبہ نے کہا کان شعبۃ یضعفۃ امام شعبہ انہیں ضعیف کہتے تھے۔(الکامل لابن عدی 4/541) عرض ہے کہ یہ تضعیف ثابت نہیں ہے کیونکہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے امام شعبہ سے اس قول کی سند بیان نہیں کیا ہے لہذا امام شعبہ سے اس قول کو نقل کرنے والا نامعلوم ہے۔ ( انوار البدر ، ص 132) ایک اور جگہ سنابلی لکھتا ہے۔ امام مزی رحمہ اللہ (742 المتوفی) نے کہا: قال علی بن المدینی ، والنسائی مجھول علی بن المدینی اور امام نسائی نے کہا یہ مجہول ہے۔ (تہذیب الکمال للمزی 23/493) عرض ہے کہ امام علی بن المدینی اور امام نسائی سے یہ قول ثابت ہی نہیں امام مزی نے ان اقوال کے لیے کوئی حوالہ نہیں دیا اور دیگر محدثین نے امام مزی کی اسی کتاب سے یہ بات نقل کی ہے۔ (انوارالبدر،ص 84) اور جگہ لکھتا ہے ابن الجوزی رحمہ اللہ (المتوفی 597) نے کہا قال ابن المدینی لا یحتج بہ اذا انفرد ابن المدینی نے کہا جب یہ منفرد ہوں تو ان سے حجت نہیں لی جائے گی ( الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی 2/70) ابن الجوزی کی اسی بات کو امام ذہبی اور ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی نقل کیا ہے۔ (میزان الاعتدال للذہبی 2/356، فتح الباری لابن حجر(1/457) عرض ہے کہ ابن الجوزی نے کوئی حوالہ نہیں دیا اور نہ ہی کہیں پر اس قول کی سند موجود ہے بلکہ ابن الجوزی سے قبل کسی نے بھی ابن المدینی سے یہ بات نقل نہیں کی ہے۔ (انوارالبدر، ص 61) دیکھا آپ نے اس سنابلی یزیدی کی منافقت جب امام ذہبی نے بنا کوئی سند سے امام مدائنی سے یزید والی بات نقل کر دی تو ایک نیا اصول بنا لیا کہ امام ذہبی ثقہ محدث ہیں اور جو انہوں نے بنا سند کے امام مدائنی سے جو نقل کیا ہے وہ صحیح ہے چاہے امام ابن المدئنی کی کتاب دنیا موجود ہی نہ ہو۔ اور جب وہی امام ذہبی نے سنابلی کے پسندیدہ راوی پر کسی امام سے بنا سند کے جرح نقل کی تو اسی سنابلی نے امام ذہبی کی اس جرح کو اس لیے ماننے سے انکار کر دیا کہ کہ امام ذہبی نے کوسند ذکر نہیں کی اور نہ ہی کوئی حوالہ دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سنابلی خود اس اصول میں پھنس چکا ہے اور خود اپنے بنائے ہوئے اصول کا منکر ہو چکا ہے لہذا اس کا امام ذہبی اور امام ابن جوزی سے دلیل پکڑنا اصولاً مردود ہے۔اور یہ روایت مردود ہے جب تک اس روایت کی سند یا وہ کتاب جس میں یہ روایت موجود ہے مل نہیں جاتی اس وقت اس روایت سے استدلال پکڑنا مردود ہے سنابلی کو رد خود اس کے پسندیدہ غیرمقلد ناصرالبانی سے: سنابلی اپنی جماعت کے غیرمقلد گستاخ المحدثین والفقہاء زبیر زئی کا کتاب کی صحت پر ناصر البانی کے حوالے سے رد لکھتا ہے کہ ناصرالبانی سے کتاب کی سند اور صحت کے بارے میں سوال کیا گیا تو ناصرالبانی نے جواب دیا: الجواب: رایی یختلف من کتاب الی آخر، فاذا کان کتاباً مشھوراً متواولاً بین ایدی العلماء و وثقوا بہ، فلا یشترط ، اما اذا کان غیر ذلک فانہ یشترط۔ میری رائے الگ الگ کتاب کے اعتبار سے الگ الگ ہے، چناں چہ اگر کوئی کتاب مشہور ہو، علما کے ہاتھوں میں عام ہو اور اہل علم نے اس پر اعتماد کیا ہو تو اس طرح کے نسخوں کی بابت ایسی کوئی شرط نہیں لگائی جائے گی، لیکن جب یہ معاملہ نہ ہو تو پھر یہ شرط لگائی جائے گی۔( سلسلۃ الھدیٰ والنور، 13/85، بحوالہ یزید پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، 363) ناصر البانی سے ثابت ہو گیا کہ جو کتاب مشہور نہ اور نہ ہی وہ کتاب علماء کے ہاتھوں میں ہو تو اس پر سند کی شرط لگے گی اور علامہ مدائنی کی کتاب الحرۃ نہ تو یہ مشہور ہے اور نہ ہی یہ علماء کے ساتھوں میں دستیاب ہے اب تو اس کتاب کا میرے علم کے مطابق وجود ہی نہیں ہے تو پھر اس کو کیسے قبول کر لیا جائے بنا کوئی متصل سند کے؟؟ خود سنابلی کا اعتراف حقیقت سنابلی خود اپنے وہابی محدث فورم پر ایک غیرمقلد کے کمنٹس کے جواب میں لکھتا ہے ہمارے نزدیک یہ اصول صد فی صد درست ہے کہ اگر کتاب مشہور ہو اہل علم نے اس پر اعتماد کیا ہو تو کتاب کی سند کی تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں وہ کتاب ثابت شدہ مانی جائے گا۔ اور اگر کسی کتاب کی یہ خوبی نہ ہو تو اس کتاب کی سند دیکھی جائے گی۔ یہی بات علامہ البانی نے بھی کہی ملاحظہ ہو۔ (محدث فورم، کفایت اللہ ،کتاب کی سند شرط نہیں ،اکتوبر14، 2013) خود سنابلی نے یہ کمنٹس دے کر خود اپنے پیر پر کلہاڑی مار دی ہے کیونکہ علامہ مدائنی کی کتاب الحرۃ نہ تو مشہور ہے اور نہ ہی علما اور محدثین نے اس پر کوئی اعتماد ثابت ہے اور نہ ہی اب اس کتاب کا کوئی وجود باقی ہے پھر کس منہ سے سنابلی بنا کسی سند کے اس کتاب کی روایت کو تسلیم کیے ہوئے ہے جب کے امام ذہبی تک کوئی سند بھی ثابت ہی نہیں ہے؟؟؟؟ سنابلی یزیدی کا رد خود غیرمقلد زبیر زئی گستاخ المحدثین سے گستاخ المحدثین زبیر زئی نے کتاب کی صحت پر تین اصول لکھے ہیں جس میں دوسرا اصول یہ ہے کہ ان کتابوں کا مصنفین تک انتساب بالتواتر یا باسند صحیح ہو۔ کتاب کے دیگر نسخوں کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ (نورالعینین ، ص 62) سنابلی غیر یزیدی کی ایک اور قلابازی اور اس کا رد بلیغ سنابلی یزیدی لکھتا ہے۔ دریں صورت اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ امام ذہبی اور امام ابن کثیر نے اس روایت کو امام مدائنی کی کتاب سے نقل نہیں کیا ہے تو بھی کم ازکم اتنی بات کا کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہاامام ذہبی اور ابن کثیر نے مدائنی سے اوپر پوری سند نقل کی ہے۔پھر جب مدائنی کی اسی روایت کو ابن عساکر نے بھی نقل کیا ہے جن کے پاس مدائنی کی کتاب موجود تھی تو اب یہ روایت ثابت ہو گئی اور مدائنی سے اوپر سند صحیح ہے ، لہذا یہ روایت بھی بلاشک و شبہہ صحیح ہے۔ (یزید پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، ص 712) الرد: سنابلی کے پاس پتا نہیں عقل نام کی کوئی چیز ہے کہ نہیں جب امام ذہبی اور ابن کثیر کے پاس علامہ مدائنی کی کتاب نہیں تھی تو پورا واقعہ اور علامہ مدائنی کے اوپر والی سند کیسے اور کہاں سے نقل کی؟؟؟ اور اگر ابن عساکر نے یہ روایت نقل کی ہے تو اس کی سند کہاں ہے اور مطبوع تاریخ دمشق میں یہ روایت موجود ہی نہیں ہے ؟؟؟ اگر امام ابن عساکر کے پاس امام مدائنی کی کتاب تھی تو اس کی سند پیش کی جائے کہ امام ابن عساکر تک یہ کتاب کتنے رواۃ کے وسط کے بعد پہنچی ہے تاکہ اس سند میں رواۃ کی جرح اور تعدیل کا پتا لگایا جاسکے؟؟؟؟ جب کتاب کی صحیح سند ثابت ہی نہیں ہے پھر روایت کیسے صحیح ہو گی ہے سنابلی صاحب حیرت ہے تمہاری عقل پر۔ لہذا سنابلی کی یہ دو رواتیں یزید پلید کی تعدیل میں غیرثابت ضعیف اور مردود ہیں سنابلی یزیدی کا رد خود سنابلی سے زبیر زئی سے اور اس کے پیارے غیرمقلد ناصرالبانی سے ثابت کر دیا ہے۔سنابلی یزیدی کے تمام دلائل کا رد بلیغ ثابت ہو گیا ہے۔(الحمدللہ) خادم اہل بیت و صحابہ رضوان اللہ علیہم رضاالحسینی العسقلانی
×
×
  • Create New...