Jump to content

Raza Asqalani

اراکین
  • کل پوسٹس

    362
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    54

سب کچھ Raza Asqalani نے پوسٹ کیا

  1. اس طرح کی ایک راویت کو امام ابوالقاسم الزنجانی نے اپنی کتاب المنتقى من فوائد الزنجاني رقم 58 میں روایت کیا ہے جس کی سند اس طرح ہے أحمد بن سعيد الإخميمي، حدثنا أبو الطيب عمران بن موسى العسقلاني من حفظه، أخبرنا المؤمل بن إهاب، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرني معمر، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرةقَالَ قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: من دخل الْمَقَابِر ثمَّ قَرَأَ فَاتِحَة الْكتاب، و ( قل هُوَ الله أحد )، و ( أَلْهَاكُم التكاثر )، ثمَّ: اللَّهُمَّ إِنِّي جعلت ثَوَاب مَا قَرَأت من كلامك لأهل الْمَقَابِر من الْمُؤمنِينَ وَالْمُؤْمِنَات ؛ كَانُوا شُفَعَاء لَهُ إِلَى الله تَعَالَى لیکن اس میں بھی احمد بن سعید الاخمیمی المصری ہے جو جھوٹی روایات بیان کرنے والا راوی ہے أحمد بن سعيد بن فرضخ الإخميمي المصري قال الدارقطني: روى عن القاسم بن عبد الله بن مهدي، عَن عَلِيّ بن أحمد بن سهل الأنصاري، عن عيسى بن يونس، عن مالك، عَن الزُّهْرِيّ، عن سعيد بن المُسَيَّب، عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، عن النبي صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أحاديث في ثواب المجاهدين والمرابطين والشهداء موضوعة كلها وكذب لا تحل روايتها والحمل فيها على ابن فرضخ فهو المتهم بها فإنه كان يركب الأسانيد ويضع عليها أحاديث. قلت: روى عنه أبو محمد النحاس المصري شيخ الخلعي، وَعبد الله بن يوسف بن بامويه ورأيت له تصانيف منها كتاب "الاحتراف" ذكر فيه أحاديث وآثارا في فضائل التجارة لا أصل لها لسان المیزان ج 1، ص 472 رقم 530
  2. اس قول کے مفہوم پر ملتی جلتی ایک روایت المستدرک للحاکم (ج4، 170، رقم 7258)ہے امام حاکم نے اس کی تصحیح کی لیکن امام ذہبی نے تضعیف کی ہے جس کا ثبوت یہ ہے حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ هَانِئٍ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الصَّرَّافُ، قَالَا: ثَنَا سُوَيْدٌ أَبُو حَاتِمٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عِفُّوا عَنْ نِسَاءِ النَّاسِ تَعِفَّ نِسَاؤُكُمْ وَبَرُّوا آبَاءَكُمْ تَبَرَّكُمْ أَبْنَاؤُكُمْ وَمَنْ أَتَاهُ أَخُوهُ مُتَنَصِّلًا فَلْيَقْبَلْ ذَلِكَ مِنْهُ مُحِقًّا كَانَ أَوْ مُبْطِلًا فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ لَمْ يَرِدْ عَلَيَّ الْحَوْضَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ " [التعليق - من تلخيص الذهبي] بل سويد ضعيفحضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:لوگوں کی عورتوں کو پاکدامن رکھو،(بدلے میں)تمہاری عورتوں کو پاکدامن رکھا جائے گا،تم اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو،تمہاری اولادیں تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں گی،جس شخص کے پاس اس کا بھائی لاچار ہوکر آئے،اس کو چاہئے کہ اپنے بھائی کی بات کو مانے خواہ حق پر ہویا ناحق ہو۔اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو میرے حوض کوثر پر مجھ سے نہیں مل سکےگا۔ اور امام ابن حجر عسقلانی نے بھی امام ذہبی کے قول کو برقرار رکھا۔ اتحاف المھرہ، رقم 20067 اس طرح کی اور روایات ہیں لیکن کوئی بھی ضعف سے خالی نہیں۔ واللہ اعلم
  3. اس روایت کی سند میں حماد سے مراد حماد بن سلمہ ہی ہیں اس بات کی تصریح دوسری سند سے مل گئی ہے جس کا ثبوت یہ ہے قال أخبرنا عفان بن مسلم قال أخبرنا حماد بن سلمة قال أخبرنا عطاء بن السائب عن الشعبي عن بن مسعود قال قال أبو سفيان يوم أحد قد كانت في القوم مثلة وإن كانت لعن غير ملا مني ما أمرت ولا نهيت ولا أحببت ولا كرهت ساءني ولا سرني قال ونظروا فإذا حمزة قد بقر بطنه وأخذت هند كبده فلاكتها فلم تستطيع هند أن تأكلها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أكلت منها شيئا قالوا لا قال ما كان الله ليدخل شيئا من حمزة النار الطبقات الکبری لابن سعد، ج 3، ص13
  4. اس روایت کی مکمل سند تاریخ بغداد ( ج 15، ص 484) میں ہے جو کہ یہ ہے أَخْبَرَنَا علي بن المحسن المعدل، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بكر أَحْمَد بن مُحَمَّد بن يَعْقُوب الكاغدي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّد عبد الله بن مُحَمَّد بن يَعْقُوب بن الحارث الحارثي البخاري ببخارى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن الحسين البلخي، قَالَ: حَدَّثَنَا حماد بن قريش، قال: سمعت أسد بن عمرو، يقول: صلى أَبُو حنيفة فيما حفظ عليه صلاة الفجر بوضوء صلاة العشاء أربعين سنة، فكان عامة الليل يقرأ جميع القرآن في ركعة واحدة، وكان يسمع بكاؤه بالليل حتى يرحمه جيرانه، وحفظ عليه أنه ختم القرآن في الموضع الذي توفي فيه سبعة آلاف مرة اور یہ سند ابوبکر احمد بن محمد بن یعقوب الکاغدی اور ابومحمد بن یعقوب بن الحارث الحارثی البخاری کی وجہ سے سخت ترین ضعیف اور موضوع ہے۔ واللہ اعلم أحمد بن محمد بن يعقوب أبو بكر الفارسي الوراق الكاغذي عن البغوي، وَغيرہقال ابن أبي الفوارس: ضعيف جدا فيما يدعي عن ابن منيع وكان رديء المذهب أيضًا لسان المیزان رقم 825 وَأَمَّا حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوبَ فَإِنَّهُ كَذَّاب، لَا يُحْتَجُّ بِهِ أخبرنا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أَحْمَدَ الْحَافِظَ يَقُولُ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ الْأُسْتَاذُ يَنْسِجُ الْحَدِيثَ (الخلافيات للبيهقي، ج 2، ص 482)
  5. ارے میاں ہم نے محققین اہل سنت کے طریقے پر جناب کی ہر بات کو علمی اور تحقیقی رد کیا ہے جس کا جناب نے ایک بھی جواب نہیں دیا اور جس کا جناب نے دعوی کیا تھا کہ یہ صحیح یا حسن سند ہے جب ہم نے اس کا اصولی اور تحقیقی رد کیا اس کا بھی جناب سے جواب نہ بن پایا۔ ارے میاں تم ہی اپنے غیر تحقیقی پوسٹرز سے عوام کو گمراہ کرتے ہو الحمدللہ ہم نے تیرے ایک ایک پوسٹر کا علمی اور تحقیقی جواب دیا ہے جس کا جواب تم ابھی تک بن نہیں پایا۔ افسوس یہ ہے تم گمراہ ہو گے ساتھ اوروں کو کرو گے لیکن ہماری ان باتوں سے اہل سنت کے ہر اہل علم کو فائدہ ہو گا تاکہ آئیندہ تم جیسے پوسٹری حضرات کا علمی اور تحقیقی رد کر سکیں۔ جناب کو علم حدیث کی الف بے کا پتہ تک نہیں اور کہہ رہے ہیں جناب ہی عوام کے مفید ہیں اللہ بچائے نیم حکیم لوگوں سے۔ میاں تم پوسٹر بنانے والے فوٹو گرافر ہو تو فوٹو گرافر رہو کیونکہ علم حدیث میں علمی اور تحقیقی بات کرنے جناب کے بس کی بات نہیں۔ اس لئے جس کا کام اسی کو ساجے۔ ہم تیری طرح فوٹو گرافر نہیں ہیں اس لیے ہمیں تمہاری فوٹو بنانے نہیں آتے لیکن علم حدیث تمہارا نہ میدان ہے نہ ہی تم اس کے لائق ہو ورنہ تمہارا بیان بھی بعد میں دیوبندی مفتی کفایت اللہ کی طرح آئیں گے یا مفتی قوی کی طرح آئیں گے۔ الحمدللہ ہم نے اس جناب کی تمام باتوں کو علمی اور تحقیقی رد کیا ہے جس کا جناب سے ایک بھی تسلی بخش جواب نہیں بن پایا۔ اب ہم یہ تمام بحث قارئین حضرات پر چھوڑ رہے ہیں۔ ایڈمنز اور موڈریٹرز حضرات سے گزارش ہے اس موضوع کو یہاں کلوز کر دیں کیونکہ سب دلائل اور حوالہ جات دیکھے جا چکے ہیں کوئی بھی نئی بات نہیں ہوتی بس وہی پرانی باتیں پھر شروع ہو جاتی ہیں۔ اس لئے اہل علم حضرات اس پوری بحث کو پڑھ کر ہی فیصلہ کر پائیں گے دلائل کی مضبوطی کس طرف ہے۔ شکریہ اور جزاک اللہ خیرا
  6. اہاہاہاہاہا ضرور کریں ہم تو انتظار میں تاکہ جناب کی علمی قابلیت کا پتہ چل سکے ہیں ہماری ہی بات کو ثابت کیا ہے پھر ہمیں ہی کہہ رہے ہیں آپ نے صحیح نہیں کہا۔ جن کو بھی مینشن کریں گے وہی کہہ گا کہ جناب پہلے پاگل خانے سے اپنا علاج کروا پھر ہمیں مینشن کرنا کیونکہ رضاءالعسقلانی نے وہی بات کی تھی جسے تم نے اپنے پوسٹرز میں دیکھا ہے تو پھر غلطی کس کی ہے تمہارے سمجھنے کی یا کسی اور کی۔ حقیقت تو یہ ہے جناب علم حدیث سے فارغ ہیں کیونکہ جناب کو ہماری بات کی سمجھ ہی نہیں آئی اگر سمجھ آتی تو ہمارے حق میں پوسٹرز نہ لگاتا بلکہ اسے چھپانے کی کوشش کرتا۔
  7. اس پوسٹر میں بھی عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر مجہول راوی ہے جس کی ہم نے پہلے وضاحت کی تھی۔ ارے پاگل ہم نے تو تمام اسناد جمع کر کے کہا تھا اس کے سند میں ایک راوی ساقط ہے اور وہ ہے عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر ہے جب کہ اور اسناد میں یہی راوی موجود ہے۔ جس کتاب کا پوسٹر دیا ہے اس کا حوالہ اور سند مع متن پہلے ہی پیش کر چکا ہوں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر کے ثبوت کے لئے پیچھے جا کر پھر پڑھو۔ جب ہماری بات ثابت ہو گی ہے کہ اس کی سند میں واقعی عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر موجود ہے تو پھر میری تحقیق جعلی اور من گھڑت کیسے ہوئی؟؟ اس لئے علم حدیث میں ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کا کام نہیں ہے۔ میری پیچھے بات پڑھو پھر بات کرو کہ میں نے کیا تھا اور جناب نے اپنی علمی جہالت کی وجہ سے کیا سمجھ لیا۔ ہمارا رد کرنے آئے تھے اور ہماری ہی بات ہی ثابت کر دی ۔پھر بھی ہماری تحقیق کا جعلی اور من گھڑت کہہ رہا ہے۔ لگتا ہے ن لیگ میں رہے ہیں یا پی ٹی آئی کی طرح یوٹرن لے لیے ہیں ۔اہاہاہاہا
  8. ارے میاں ہماری یہ من گھڑت تحقیق نہیں ہے جناب کی جہالت ہے کیونکہ ہم نے جو کہا تھا وہ تو جناب کو سمجھ ہی نہیں آئی ہم نے کہا تھا کہ اس سند میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر کا نام ساقط ہے لیکن اور سند میں موجود ہے اور اس کے ثبوت کے لیے ہم نے بھی اس کتاب کا حوالہ دیا جس کا جناب نے پوسٹر بنایا ہوا ہے۔ جب جناب تسلیم کر چکے ہیں امام بخاری کی سند میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر راوی ہے تو پھر اعتراض بنتا ہی نہیں ہے کیونکہ ہمارا بھی یہ استدلال تھا کہ اس ایک سند میں ساقط ہے دوسری سند میں موجود ہے تو اس سے واضح ہوتا ہے کتابت یا پرنٹنگ کی غلطی ہے لیکن جناب نے یہ حوالے دے کر ہماری بات کو ثابت کر دیا اور اپنی علم حدیث میں جہالت بھی واضح کر دی۔ اسے کہتے ہیں آیا چوہاپہاڑ کے نیچے۔۔ہاہاہا
  9. ہاہاہاہاہا یہ بات میرے خلاف نہیں ہے ہم تو پہلے کہا تھا کہ اس سند میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر ساقط ہے لیکن جناب نہیں مان رہے تھے جب خود ہی پوسٹر لگا رہے ہیں اور عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر کا ثبوت پیش کر رہے ہیں ۔ اسے کہتے ہیں چور کی داڑھی میں تنکا۔ جناب خود مان چکے ہیں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر اس میں موجود ہے ہماری بات تحقیقا درست ثابت ہوئی الحمدللہ۔ لیکن میں حیران ہوں جناب کی لاعلمی پر کہ ہمارے خلاف بات کر رہے لیکن ثابت ہماری ہی بات کررہے ہیں ۔ہاہاہا قربان جائیں ایسے محکک پر۔
  10. اس روایت کی مکمل اسنادی تحقیق پیش کی تھی جس کا جناب نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ جناب اپنی لاعلمی کی وجہ سے ہماری بات کے ثبوت کے لئے پوسٹر لگا دیے ۔اس کی نشان دہی نیچے جا کر کروں گا پہلے اس پوسٹر کا جواب سن لو۔ یہی راویت امام بخاری نے اور سند سے بیان کی ہے اس میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر ہے جو اوپر اولی سند میں ساقط ہو گیا تھا جس کا ثبوت یہ ہے حدثنا عبد الله حدثنا محمد حدثنا قتيبة ثنا مرثد بن عامر العنائي حدثني كلثوم بن جبر قال «كنت بواسط القصب في منزل عنبسة بن سعد القرشي وفينا عبد الأعلى بن عبد الأعلى بن عبد الله بن عامر القرشي فدخل أبوغادية قاتل عمار بصفين» (تاریخ الاوسط للبخاری ج 1 ص 38) اس کے علاوہ یہی روایت المعجم الکبیر لطبرانی میں ہے جس میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر کا نام موجود ہے جس سے واضح ہو گیا ہے تاریخ الاوسط سے راوی کا نام ساقط ہے۔ حدثنا علي بن عبد العزيز وأبومسلم الكشي قالا ثنا مسلم بن إبراهيم ثنا ربيعة بن كلثوم ثنا أبي قال كنت بواسط القصب عندعبد الأعلى بن عبد الله بن عامر فقال: «الآذان هذا أبوغادية الجهني فقال عبد الأعلى أدخلوه فدخل وعليه مقطعات له رجل طول ضرب من الرجال كأنه ليس من هذه الأمة فلما أن قعد قال بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت يمينك قال نعم خطبنا يوم العقبة فقال «يأيها الناس ألا إن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا ألا هل بلغت؟ قالوا نعم قال: اللهم اشهد. قال «لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض قال: وكنا نعد عمار بن ياسر من خيارنا قال فلما كان يوم صفين أقبل يمشي أول الكتيبة راجلا حتى إذا كان من الصفين طعن رجلا في ركبته بالرمح فعثر فانكفأ المغفر عنه فضربه فإذا هورأس عمار قال يقول مولى لنا أي كفتاه قال فلم أر رجلا أبين ضلالة عندي منه إنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم ما سمع ثم قتل عمارا (المعجم الکبیر للطبرانی ج 22 ص 363 رقم 912) اتنے واضح ثبوت دیکھانے کے باوجود مانتے ہی نہیں ہیں لو اپنے پوسٹرز کا حال ہم اس کے اندر نشان دہی کر دی ہے۔
  11. اس بات میں میں نے واضح لکھا ہوا ہے کہ اس میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر راوی ساقط اور کے ثبوت کے لیے خود امام بخاری اور دوسری کتب سے حوالے دیے کہ ان میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر موجود ہے ان حقائق کی بنیاد پر ہی میں نے فیصلہ کیا کہ لگتا ہے اس میں کتابت یا پرنٹنگ کی غلطی ہے لیکن جناب نے میری بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے ثبوت کے طور پر کچھ نہیں دیا بلکہ جو بھی پوسٹرز لگائے ان سب میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر راوی موجود ہے۔ ہم جناب کے نیچے پوسٹرز کے اندر نشان دہی کر دیتے ہیں تاکہ جناب کی علمی قابلیت سب کے سامنے آ جائے۔
  12. پہلے تو لیٹ جواب دینے کے لئے معذرت کیونکہ میرا وی پی این ایکپائر ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اسلامی محفل کی ویب سائٹ اوپن نہیں ہورہی تھی۔ ہمارا اب جواب اس طرح ہے: ارے جناب جب آپ کو کتب کی تحقیقات کا پتہ نہیں چلتا تو کیوں مفٹ میں اس میں ٹانگیں آڑاتے ہیں۔ ہم نے تمام اسناد جمع کر کے واضح طور پر بتاتا تھا کہ اس میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر کا نام ساقط ہے کیونکہ یہی روایت اور کتب میں ہے تو اس میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر کا نام موجود ہے اس لئے ہم نے تحقیقا کہا تھا اس روایت میں ایک راوی کا نام رہ گیا ہے اور ہم نے اس کے اوپر حوالہ جات بھی دیے اپنی بات کے ثبوت کے لئے لیکن جناب نے دیکھے تک نہیں مفت میں ایسے اعتراض کر ڈالا۔ لیکن جناب نے اپنی لاعلمی کی وجہ سے جو سکین دئیے ان سب میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر راوی موجود ہے جس سے ہماری بات واضح صحیح ثابت ہوتی ہے لیکن جناب کو اپنی بات کا پتہ نہیں چلااور اپنی لا علمی کی وجہ سے ہماری بات کو ثابت کر دیا۔۔۔ہاہاہا ہم جناب کے پوسٹرز میں نشاندہی کر دیتے ہیں اپنی بات کی۔
  13. جناب بے سند اور بے دلیل اقوال کو بڑا پیش کرتے ہیں اب ہم جناب کو الزامی طور پر ایسے بے سند اور بے دلیل اقوال پیش کرتے ہیں اب جناب یہاں مانتے ہیں یا نہیں ؟؟ پہلا قول امام ابوحاتم کا سمعت ابی یقول: حسین بن ابی طالب رضوان اللہ علیھما لیست لہ صحبۃ (المراسیل لابن ابی حاتم ص 27 رقم 43) (جناب اس قول کو اپنے اصول کے مطابق مانیں اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی معاذاللہ صحابیت کا انکار کریں۔) دوسری بات: عبد المغیث بن زہیر علوی حربی نے یزید ملعون کے فضائل میں پوری کتاب لکھی جس کے بارے میں امام ذہبی تذکرہ کرتے ہیں: صنف جزءا فی فضائل یزید ، اتی فیہ بالموضوعات اس (عبدالغیث) نے یزید کے فضائل پر ایک جز لکھا جس میں موضوع روایات درج کیں۔ (العبر فی خبر من غبر ج 4 ص 249) اور اس خود یزیدی کے بارے میں امام ذہبی کہتے ہیں: وکان ثقۃ سنیا مفتیا صاحب طریقۃ حمیدۃ اور (عبدالمغیث) ثقہ ، سنی اور بہترین راستے پر چلنے والا تھا۔ (العبر فی خبر من غبر ج4 ص 249) (اب یہاں جناب امام ذہبی کی بے دلیل مانیں کہ یزید کے فضائل لکھنے ولا سنی اور بہترین راستے پر چلنے والا ہوتا ہے؟؟) تیسری بات: امام ذہبی امام ابن عساکر سے لکھا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے ساتھ مل کر جہاد کیا و قال ابن عساکر: و قد الحسین علی معاویۃ، و غزا لقسطنطینیۃ مع یزید اور امام ابن عساکر نے کہا: حیسن رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور یزید کے ساتھ قسطنطنیہ میں جہاد کیا۔ (تاریخ الاسلام ج 2 ص 636) (اب جناب اپنے اصول سے امام ابن عساکر کی بے سند بات مانیں کہ معاذاللہ سیدناحسین رضی اللہ عنہ یزید کے ساتھی تھے فوج میں) چوتھی بات: امام لیث بن سعد نے کہا: توفی امیر المومنین یزید فی سنۃ اربع و ستین امیر المومنین یزید کی وفات س 64 ہجری میں ہوئی۔ (تاریخ خلیفۃ بن خیاط ص 253) (اب جناب اپنے اصول کے مطابق امام لیث بن سعد کی بے دلیل اور بے سند بات کو مانیں اور یزید کو معاذاللہ امیرالمومنین تسلیم کریں؟؟) پانچویں بات: امام عبدالغنی مقدسی نے یزید کے بارے میں کہا: خلافیہ صحیحۃ، و قال بعض العلماء: بایعہ ستون من اصحاب النبی ﷺ منھم ابن عمر۔ یزید کی خلافت صحیح ہے اور بعض علماء نے کہا ساٹھ صحابہ نے اس کی بیعت کی تھی جس میں ابن عمر بھی ہے۔ (ذیل طبقات الحنابلۃ ج 2 ص 34) (اب جناب اپنے اصول کے مطابق امام مقدسی کی بے دلیل اور بے سند بات کو تسلیم کریں؟؟) چھٹی بات حافظ ابن کثیر نے یزید کو امیر المومنین لکھا: ھو یزید بن معاویۃ بن ابی سفیان بن صخر بن حرب بن امیۃ بن عبد شمس ، امیر المومنین ابوالخالد الاموی (البدایۃ والنھایۃ ج 8 ص 226) آگے ور جگہ لکھا: و قد کان عبداللہ بن عمر بن الخطاب و جماعات اھل بیت النبوۃ ممن لم ینقض العھد و لا بایع احدا بعد بیعہ لیزید۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور نبی ﷺ کے اہل بیت کی جماعتوں نے یزید کی بیعت نہیں توڑی اور نہ یزید کی بیعت کے بعد کسی اور سے بیعت کی۔ (البدایۃ والنہایۃ ج8 ص 238) (اب جناب حافظ ابن کثیر کی بے دلیل اور بے سند باتوں کو تسلیم کریں اپنے اصولوں سے کیونکہ جناب ہی ہیں جو بے سند اور بے دلیل قول کو ایسے ہی مانے جارہے ہیں اس لئے ہم بھی جناب کو کچھ اقوال پیش کر دیے اب دیکھتے ہیں یہاں جناب کا کیا رنگ نکلتا ہے۔) نوٹ: میرے نزدیک یہ سارے اقوال بے دلیل اور بے سند ہیں باقی جن علماء نے یہ بات لکھی ہے یہ ان کا تسامح ہے ۔ باقی جمہور ائمہ اہل سنت کا یہ موقف نہیں ہے واللہ اعلم
  14. ارے جناب ہم نے جو اقوال لگائے تھے ان کا جواب نے جناب دیا نہیں اور جناب خوش ہو رہے ہیں یہ جناب کے فائدہ کے لیے ہیں جب کے یہ جناب کے رد کے لئے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ کی صلح اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا بیعت کرنا ہی کافی ہے اگر حضرت امیر معاویہ صلح کے بعد معاذاللہ شرعی باغی بنتے ہیں تو سیدنا امام حسن بھی معاذاللہ باغی کی رعایہ بنتے ہے اس لئے سوچ سمجھ کر بات کرو۔ رافضی و ناصبیوں کو جہنم کا کتا کہنا یہ قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ کا ذاتی قول ہے اور انہوں نے یہاں اپنے سے پہلے سو یا دو سو سال گزرے لوگوں کے بارے میں اپنی بات نہیں کی جس کی سند کی تحقیق کی جائے۔ اور قاضی عیاض علیہ الرحمہ کے قول کی بہت سی صحیح احادیث گواہ ہیں اس لئے ہماری چھوڑیے اپنی فکر کیجیے۔
  15. ارے جناب امام عسقلانی کہاں کلثوم بن جبر والی قاتل والی روایت کی تصدیق کی ہے؟؟ ذرا تصدیق دیکھنا تصحیح و تحسین کی صورت میں؟؟ باقی امام عسقلانی نے احادیث کے اطراف جمع کیے مسانید کے اگر اطراف جمع کرنا تصدیق ہے تو اس میں تو کئی ضعیف اور موضوع روایات ہیں تو کسی امام نے اس بات کی تصریح نہیں کہ یہ تمام اطراف امام عسقلانی کے نزدیک صحیح الاسناد ہیں؟؟ اطراف جمع کرنا اور ہوتا ہے تصحیح و تحسین کرنا اور ہوتا ہے میاں ذرا اصول حدیث پڑھو۔
  16. ارے میاں پوسٹ چپکانے سے پہلے غور سے پڑھ لیا کرو۔ اس کتاب میں امام عسقلانی نے کوئی قاتل نہیں لکھا بلکہ یہ حاشیہ بھی کسی اور کا ہے امام عسقلانی کا نہیں ہے اور اس کے علاوہ اس میں تو امام عسقلانی نے احادیث اطراف جمع کیے ہیں۔ اس لئے قاتل والی بات کو امام عسقلانی کی کتاب إتحاف المهرة بالفوائد المبتكرة من أطراف العشرة کی طرف منسوب کرنا باطل ہے۔ اس لئے تحقیق سے کام لیا کرو اندھا دھند پوسٹ نہ چپکایا کرو۔ ہاہاہاہا ارے میاں میں کلثوم بن جبر کو ضعیف پہلے کہاں کہا ہے پہلے یہ تو ثابت کرو پھر ایسی بات کرنا میں نے جو بات کی تھی جو یہ کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے کلثوم بن جبر کا سماع ثابت نہیں ہے ۔ لیکن جناب نے اس بات کو ثابت نہیں کیا اور مجھ پر ایسے الزام لگا دیا کہ میں کلثوم بن جبر کو ضعیف سمجھتا ہوں حیرت کا مقام ہے یار آپ پر تو؟؟
  17. اس روایت کی امام ابن حجر نے تصحیح نہیں کی ہے امام ابن حجر نے بس روایت نقل کر دی ہے۔ باقی یہ حاشیہ امام ابن حجر کا نہیں ہے لہذا امام ابن حجر سے اسے منسوب کرنا باطل ہے۔ باقی یہ وہی پرانی روایت ہے جس میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر ایک مجہول راوی ہے جس کی نشان دہی ہم کئی بار کر چکے ہیں لیکن جناب اسے کتب بدل بدل کر پوسٹ کرتے رہتے ہیں جب کہ روایت ایک ہی ہے۔ اس کی پہلی سند میں وہی عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر مجہول راوی ہے جس کا جناب نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دوسری سند کو امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں منقطع قرار چکے ہیں اس کا حوالہ بھی ہم پہلے دے چکے ہیں جس کا جناب نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ارے جناب جب ہمارے رد کا کوئی جواب نہین دیتے پھر وہی پرانی روایات کو کتب بدل بدل کر کیونکہ پوسٹ کرتے رہتے ہو؟؟ ارے میاں ہزار کتب بدل لو سند ایک ہی رہتی ہے اس لئے کتابیں بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
  18. کسی کو قاتل ثابت کرنے کے لئے شریعت میں عینی گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ دو سو سال بعد یا تین سال بعد کے بے سند قول یا بے دلائل اقوال سے کچھ ثابت نہیں ہوتا ورنہ تو ایسے قول تو معاذاللہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی ہیں کہ وہ یزید کی بیعت اور امیرالمومنین کہنے کو تیار تھے یہی باتیں بھی امام ذہبی وغیرہ نے لکھی ہیں۔ کوئی بات کو درج کرنے سے وہ بات ان کے نزدیک حجت نہیں ہوتی جب تک وہ ان قول کی تصحیح نہ کر دیں ورنہ امام ذہبی اور امام بن حجر نے بے شمار بے سند باتیں اور ضعیف روایات کو اپنی کتب میں درج کر دی ہیں جو خود ان کے اصول کے مطابق صحیح نہیں ہیں۔ اصل بات اصول کی ہوتی ہے ورنہ رطب وبابس کتب میں موجود رہتا ہے جب کوئی مسئلہ ہو گا تو اصول کے مطابق ہی بات کی جایئے گی نہ کہ درج کرنے اسے حجت مانا جائے گا ورنہ تو بہت سے محدثین نے موضوع روایات درج کر دی ہیں تو کیا وہ ان کے نزدیک حجت ہیں؟؟ نہیں ہرگز نہیں ان کا کام ہے ہر وہ بات جو انہیں ملے وہ درج کر دیتے ہیں بعد میں وہ خود یا بعد کے علماء اس کی تحقیق کرتے ہیں جیسے امام ذہبی نے مستدرک کی روایات کی تحقیق کی ہے۔
  19. ارے میاں پہلے بھی سمجھایا ہے امام ابن معین جنگ صفین میں نہیں تھے اور جب جنگ صفین میں نہیں تھے تو یہ بات کن سے سنی ہے اس کی کوئی سند ہے یا نہیں جناب کے پاس؟؟ اگر صرف اقوال مان لینا ہے تو ایسے بے دلیل اقوال کافی زیادہ ہیں ان میں ایک جناب کو ہم پیش کر دیتے ہیں امام ابوحاتم الرازی کا: سمعت ابی یقول: حسین بن ابی طالب رضوان اللہ علیھما لیست لہ صحبۃ (المراسیل لابن ابی حاتم ص 27 رقم 43) چلو اب یہاں اپنے اصول کے مطابق امام ابوحاتم الرازی کا قول بھی مانو بنا کسی چاں چوں کیے کیونکہ تم بھی امام ابن معین کا قول بھی بنا تحقیق کے مان رہے ؟ اگر اس قول کو ماننے سے انکار کرتے ہو تو پھر امام ابن معین کا بے سند اور بے دلیل قول سے استدلال کیوں کیے ہوئے؟ اب تمہارے اصول سے تم نے یہ دونوں قول ماننے ہیں اگر نہیں مانتے تو یہ دوغلا پالیسی ہے اپنی مرضی کا قول ماتے ہو اور اپنی مرضی کے خلاف قول چھوڑ دیتے ہو۔
  20. ارے میاں ہم تو ائمہ حدیث کے اصولوں پر بات کرتے ہیں ورنہ جناب کی طرح ایسی باتوں سے استدلا ل شروع کر دیں تو فساد برپا ہو جائے گا کیونکہ ثقہ محدثین سے ایسے عجیب و غریب قول ہیں جیسے امام ابوحاتم نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کر دیا ہے امام ابن ابی حاتم اپنے والد سے لکھتے ہیں: سمعت ابی یقول: حسین بن ابی طالب رضوان اللہ علیھما لیست لہ صحبۃ (المراسیل لابن ابی حاتم ص 27 رقم 43) لو جیسے امام ابن معین کا قول بنا دلیل کے مان رہے تو اب یہاں بھی امام ابوحاتم الرازی کا قول بھی بنا دلیل کے مان لو کیونکہ یہی جناب کی واردات چل رہی ہے اس قول کو مان کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کر دو۔ معاذاللہ اس لئے کہا ہے ہم ان ائمہ کا ادب ضرور کرتے ہیں لیکن ہر بات کو ایسے نہیں مان لیتے جیسے جناب نے استدلال کیے ہوئے ہیں۔۔ ارے جناب ضرور لگائیں پوسٹ ہم تو کب کا انتظار میں ہیں کہ کب ہماری باتوں کا جواب دو گے ابھی تک ہماری ایک بات کو جواب نہیں دیا روزانہ وہی پرانی باتیں جن کا ہم کئی بار تحقیقی اور اصولی جواب دے چکے ہیں۔
  21. بے شک ان ائمہ نے صحابہ کرام کے حالات پر کتب لکھیں تو کوئی نہ کوئی دلائل سے لکھا ہو گا نا یا خود سے ایسے لکھی دی کیا یہ ائمہ صحابہ کے زمانے میں تھے؟؟ اگر نہیں تھے تو سند بیان کی ہوگی اور ان ائمہ نے خود سند سے بیان نہیں کیا تو اور ائمہ نے سند سے بیان کیا ہو گا کیونکہ یہ ائمہ خود ناقل ہیں یہ خود روایت نہیں کرتے اس لیے جو انہوں اس بات کی سند لکھی ہے تو جناب پر فرض ہے وہ پیش کریں ورنہ امام شعبہ کا قول صحیح سند کے ساتھ قول دیکھ لیں: کل حدیث لیس فیہ حدثنا او اخبرنا فھو خل و بقلہر ایسی حدیث جس میں حدثنا یا اخبرنا ( یعنی ہمیں فلاں نے حدیث بیان کی یا خبر دی) نہ ہو تو وہ کچرے ہوئے گھاس کی طرح بیکار ہے۔ (ادب الاملاء والاستملاء ص13، المدخل فی اصول الحدیث للحاکم، ص17،الکامل فی ضعفاءالرجال ج 1 ص 107) یہ ہم نہیں خود محدثین کا اصول اس کو رد کر رہا ہے میاں اس لئے اصول محدثین پر بات کرو ہم پر الزام نہ لگاو کیونکہ ہم تو اصول پر چلنے والے ہیں۔
  22. ارے جناب تعجب تو جناب پر ہے ایک ہی ضعیف روایت کو 8 کتابوں سے دیکھایا تو کون سا تیر مار دیا ہے روایت تو ایک ہی ہے سند بھی ایک ہی تو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کا فائدہ؟؟ باقی جناب نے جو دعوی کیا صحیح و حسن اسناد کا ہم اوپر ان کا کی اسناد کا پوسٹ مارٹم کر آئے ہیں ان میں ایک کا بھی جواب نہیں دیا ۔ یزیدی مان چکے ہیں ہم تو ان کو تحقیقی طور پر ضعیف ثابت کر چکے ہیں اگر یزیدی سلفی ہی جناب کے نزدیک محدث اور محقق ہیں تو جناب کو مبارک ہوں ورنہ ہم تو ایسے لوگوں کی باتیں نہیں مانتے۔
  23. وہی پرانے اقوال پھر پوسٹ کر دیے جن کا ہم کئی بار اصول حدیث کے قوانین سے جواب دے چکے ہیں حیرت کا مقام ہے جناب پر۔ ارے میاں ایسے بے سند اقوال تو معاذ اللہ انبیاء کرام علیہم السلام اور اہل بیت عظام رضی اللہ عنہم کی شان اقدس کے خلاف بھی موجود ہیں تو کیا کوئی خبیث ایسے اقوال سے انبیاء کرام اور اہل بیت عظام کی شان مجروح کر سکتا ہے کیا؟؟ ہرگز نہیں اگر کرے گا تو اصول حدیث کی روشنی میں اس کا منہ توڑ دیا جائے گا۔ اس لئے یہ ائمہ بے شک اہل سنت کے ائمہ میں سے ہیں لیکن انہی ائمہ کا خود کا بنایا ہوا اصول ہے کہ کوئی بھی بات بنا سند اور بنا دلیل تسلیم نہیں کرنی ۔ اس لئے ہم ان ائمہ کا احترام کے ساتھ ان کے اصول کی روشنی میں ہی ان کی بات کی تردید کی ہے کیونکہ یہ ائمہ رواۃ کی جرح و تعدیل کے بارے میں اجتہاد کر سکتے ہیں لیکن کسی کو قاتل ثابت کرنے کے لئے اجتہاد نہیں کر سکتے کیونکہ اسلام میں قتل کے بدلے قتل ہے اور قاتل ثابت کرنے کے لئے شریعت میں عینی گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے اجتہاد کی نہیں۔ اجتہاد کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب کوئی بات قرآن، احادیث صحیحہ اور اجماع صحابہ سے نہ مل رہی ہو تو پھر مجتہد اجتہاد کرتا ہے اور مجتہد کو اجتہاد درست بھی ہو سکتا ہے اور غیر درست بھی۔ اس لئے کسی بات کو ثابت کرنے کے لئے ائمہ نے سند کا اہتمام کیا ہے جیسے امام ثوری فرماتے ہیں: الاسناد سلاح المومن اذا لم یکن معہ سلاح فبای شیء یقاتل اسناد مومن کا اسلحہ ہے اگر اس کے پاس اسلحہ نہیں ہوگا تو وہ کس چیز کے ساتھ قتال (مقابلہ وجنگ) کرے گا۔ (الکفایۃ فی علم الروایۃللخطیب البغدادی، ص392) اور امام ابن مبارک فرماتے ہیں: لولا الاسناد لقال من شاء ما شاء اگر اسناد نہ ہوتیں تو جو شخص جو چاہتا کہتا پھرتا۔ امام حاکم امام عبداللہ بن مبارک کے اس قول کی توضیح میں لکھتے ہیں: فان الاخبار اذا تعرت عن وجود الاسناد فیھا کانت بترا۔ جب روایات سند کے وجود سے خالی ہو ں تو وہ دم بریدہ ہیں (یعنی جس کی دم کٹی ہوئی ہو)۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص6) اور جگہ امام ابن مبارک فرماتے ہیں: مثل الذی یطلب امر دینہ بلا اسناد کمثل الذی یرتقی السطح بلاسلم اس شخص کی مثال جو اپنے دینی معاملہ کو بغیر سند کے طلب کرتا ہے اس شخص کی طرح ہےجو بغیر سیڑھی کےچھت پر چڑھنا چاہتاہے۔ (ادب الاملاء والاستملاء ص12) اور امام سمعانی اس طرح کا ایک واقعہ اپنی سند سے بیان کرتے ہیں: امام زہری کی مجلس میں ابن ابی فروہ کہنے لگا " قال رسول اللہ، قال رسول اللہ (رسول اللہﷺ نے فرمایا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا) اس پر امام زہری نے اسے ٹوکتے ہوئے فرمایا قاتلک اللہ یا بن ابی فروۃ ! ما اجراک علی اللہ؟ لا تسند حدیثک! تحدثنا باحادیث لیس لھا خطم ولا ازمۃ، یعنی الاسناد۔ اے ابن ابی فروہ! اللہ تجھے ہلاک کرے تو اللہ کی بارگاہ میں کس قدر بے باک ہے؟ ہمیں تو اپنی حدیث مت بیان کر، ہمیں تو ایسی احادیث سنانے لگا ہے جن کی لگام ہے اور نہ رسی؟ یعنی سند نہیں۔ (ادب الاملاء والاستملا، ص12) اس بارے میں امام شعبہ بن الحجاج فرماتے ہیں: کل حدیث لیس فیہ حدثنا او اخبرنا فھو خل و بقل ہر ایسی حدیث جس میں حدثنا یا اخبرنا ( یعنی ہمیں فلاں نے حدیث بیان کی یا خبر دی) نہ ہو تو وہ کچرے ہوئے گھاس کی طرح بیکار ہے۔ (ادب الاملاء والاستملاء ص13، المدخل فی اصول الحدیث للحاکم، ص17،الکامل فی ضعفاءالرجال ج 1 ص 107) امام اصمعی نے ذکر کیا کہ ایک شخص نے ہمارے سامنے احادیث بیان کیں اور ہم ایک جماعت تھے، جب وہ بیان حدیث سے فارغ ہوا تو ایک اعرابی نے کہا آپ نے ہمیں کیا ہی اچھی احادیث بیان کیں لو ان لھا سلاسل تقادبھا، قال ابوالحسن یعنی الاسناد اگر ان کی کوئی سند ہوتی تو انہیں آگے چلایا جاتا، حضرت ابوالحسن فرماتے ہیں: یعنی سلسلہ سند ہوتا تو انہیں قبول کیا جاتا۔ (ادب الاملاء والاستملاء ص13، شرف اصحاب الحدیث، ص87) امام سفیان بن عینیہ علیہ الرحمہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن امام زہری علیہ الرحمہ کوئی حدیث پیش کرنے لگے تو میں نے عرض کیا: ھاتہ بلا اسناد بغیر سند ہی پیش فرما دیجئے! اس پر امام زہری نے فرمایا: اترقی السطح بلا سلم؟ کیا تم سیڑھی کے بغیر چھت پر چڑھنا چاہتے ہو؟ (الاسناد من الدین لابی غدۃ، ص20) حافظ بقیہ بن ولید حمصی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد بن زید علیہ الرحمہ کے سامنے چند احادیث بیان کیں تو انہوں نے فرمایا: ما اجودھا لو کان لھا اجنحۃ ، یعنی اسنادا۔ یہ کیا ہی عمدہ احادیث ہیں اگر ان کے پر ہوتے یعنی سندیں۔ (الاسناد من الدین، ص20) اور بھی کافی اقوال ہیں جناب لیکن اتنا کافی ہے جناب کے لئے اب ان ائمہ نے بے سند اقوال اور بے دلائل اقوال پر توجہ نہ کی تو جناب کو چاہیے ان ائمہ کے بارے میں کچھ کہیں جب کہ یہ سب ائمہ تابعین اور تبع تابعین سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے ویسے بھی اصول حدیث کی رو سے بے سند اقوال اور بے دلیل بات کی کوئی اہمیت نہیں ۔ اس لیے جتنے بھی بے سند اور بے دلیل اقوال پیش کریں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا جو بات جناب اصول حدیث کے قوانین سے اور اصول شریعت کے مطابق پیش کریں ان کی تحقیق کی جائے گی اگر وہ واقعی اصول پر پورا اترے گی تو اسے قبول کر لیا جائے گا اور اگر اصول پر نہیں اترے نہیں تو اسے رد کر دیا جائے گا۔ اور ابھی تک جناب نہ اصول حدیث کے قوانین کے مطابق کوئی بات ثابت کر پائے ہیں اور نہ ہی اصول شریعت کے مطابق عینی گواہ اور قاتل ثابت کر پائے ہیں۔ یہ کوئی پی ٹی آئی یا ن لیگ کی بات نہیں ہے جس نے جو کچھ کہہ دیا وہی مان لیا گیا اسلامی شریعت میں ہر بات ہر چیز کی تحقیق ہوتی ہے اور بنا دلائل کے ثابت کیے اسلام میں کچھ ثابت نہیں ہوتا باقی آپ پر ضد پر اڑے ہیں تو ان میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے میاں ہم تو شریعت کے اصول کے پابند ہیں جناب کی باتوں کے نہیں۔
×
×
  • Create New...