Jump to content

Raza Asqalani

اراکین
  • کل پوسٹس

    362
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    54

پوسٹس ںے Raza Asqalani کیا

  1. On 11/1/2019 at 8:09 PM, اسد الطحاوی said:

     

    امید ہے جناب کو شوافع راویان  کی بیان کردہ حکایات کا علم ہو گیا ہوگا۔۔۔۔ کہ کیسے کیسے الفاظ تبدیل کر کے اپنے شیخ اور پھر انکے شیخ کی عزت بڑھا  دیتے لیکن اللہ انکو معاف کرے جب تعصب اور مقابلے بازی اور مناظرے کی بات آجائے تو دونوں طرف سے ایسا ہوتا ہے 

    ارے بھائی پہلی بات یہ ہے آپ کا  سند پرمنکر کا حکم تھا تو اس لیے میں صرف سند پر بات کی اور کسی بات پر نہیں کی لیکن سند صحیح مان چکے ہیں تو پھر اس فائدہ نہیں کہ بحث کی ہے۔

    میں پہلے بھی  شافعی حنفی جھگڑوں میں پڑ پڑ کر بہت سے علمی دوستوں سے دور ہو چکا ہوں اس لیے اب مزید اس پر پھر واپس نہیں جانا چاہتا اس لئے آپ کی پوسٹ کا جواب نہیں دے رہا ہوں  کیونکہ اس سے مزید فاصلے پیدا ہو جائیں گے۔

    اللہ عزوجل ہم سب کو ایک دوسرے کو برداشت  کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

    آمین

    • Like 1
  2. On 11/1/2019 at 9:18 AM, Syed Kamran Qadri said:

    آخر وہ جو رقم ایڈوانس میں وصول کرتے ہیں وہ کسی مد میں لیتے ہوں گے آپ سے یہی جاننا چاہ رہا ہوں کہ وہ جو پیسے شروع میں گاہک سے وصول کرتے ہیں وہ کس نام سے وصول کرتے ہیں ؟ اور جو رقم شروع میں وصول کرتے ہیں وہ سود کیسے ہے  ذرا اس پر بھی روشنی ڈالیں؟؟؟

    وہ ایڈوانس رقم گارنٹی کی مد میں لیتے ہیں کہ اگر وہ بندہ اقساط جمع کرانے میں ناکام ہو جاتا ہے تو اس کی ایڈوانس رقم پھر اسے واپس نہیں کی جاتی۔

    اور اس کے علاوہ ایڈوانس رقم کو اس چیز کی قیمت میں شمار نہیں کیا جاتا یہ ایکسٹرا چارج کیا جاتا ہے جو کہ سود کی ایک صورت ہے۔

    اگر بندہ وقت میں مکمل اقساط جمع نہ کر سکے تو اس کی جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں کی جاتی۔

    ہمارے علاقے میں ایسے ہی شرائط اور قواعد ہیں اقساط کے کاروبار کی باقی اور علاقے میں شاید اس طرح نہ ہوں۔ واللہ اعلم

    باقی بنک کا نظام تو بالکل سودی ہے وہاں تو مکمل اقساط وقت پر جمع نہ کرانے پر ایڈوانس اور دوسری رقم ضبط کر لی جاتی ہے اور اصل قیمت سے زیادہ رقم وصول کی جاتی ہے سروسز کی نام پر جب کہ یہ بات شرائط میں لکھی ہوئی نہیں ہوتی۔

    واللہ اعلم

  3. On 11/1/2019 at 9:26 AM, Syed Kamran Qadri said:

    محترم زندگی میں جو کچھ والدین اپنی اولاد کو دیں وہ بطورِ ہبہ و تحفہ ہوتا ہے نہ کہ بطورِ وراثت، وراثت تو مرنے کے بعد تقسیم ہوتی ہے۔سائلہ کا سوال وراثت سے متعلق تھا تو جس کے متعلق سائلہ کا سوال تھا اسے اسی کے متعلق جواب دیا گیا۔

    5dbb8984884a3_.thumb.jpg.b81460a4c3bd6116c562a54ab4ee18f4.jpg5dbb89959c2ff_1.thumb.jpg.42bdf6deb050d23576fc4b2622e4ee3d.jpg5dbb89a49569a_2.thumb.jpg.89c5febabbfdb98dd7def3ba18f81fe4.jpg

    بھائی لگتا ہے آپ نے میری بات سمجھی نہیں اس میں بات یہ ہے والد اپنی زندگی میں وارثت  کے حصے کر دیتا ہے اتنا حصہ فلاں کا ہے اتنا فلاں کا تو وہ لوگ اس وقت حقیقی مالک نہیں بنتے لیکن اپنی تقسیم شدہ چیز کو اپنے والد کی مالکیت میں استعمال کرتے رہتے ہیں مجازی مالک بن کر ورنہ وہ اصل مالک اس وقت بنتے ہیں جب ان کے والد کی وفات ہوتی ہے۔ اصل بات یہ تھی جیسے شاید آپ سمجھ نہیں پائے یا میں آپ کو سمجھا نہیں سکا۔

    اللہ عزوجل ہم کو علم دین سیکھنے اور سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

    آمین

  4. 10 minutes ago, ghulamahmed17 said:

    رضا عسقلانی صاحب   میں نے آپ سے تصریح  کا جواب نہیں مانگا

    مجھے فقط  اس روایت کے متلق بتائیں کہ آپ اس کو بھی قبول

    فرمائیں گے یا

     نہیں ؟

     

    Picture1DD.png

    میرا جواب اوپر موجود ہے لگتا ہے پڑھا نہیں اس لئے دوبارہ پوسٹ کر دیتا ہوں

     

    ارے جناب اس روایت میں قاتل کے نام کی تصریح کہاں ہے؟؟

    اس میں کہاں ہے حضرت ابوالغادیہ نے ہی شہید کیا ہے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو؟؟

    جب تک قاتل کے نام کی تصریح نہیں دیکھائیں گے اس  وقت تک اس روایت کو پیش کرنے کا فائدہ نہیں۔

    اس کے علاوہ ہم آپ کو اس کا ایک الزامی جواب یہ دے رہے ہیں جیسے آپ بشار عواد کو مانتے ہیں تو زبیر علی زئی کو بھی مانتے ہو ں گے۔

    زئی صاحب اس روایت کی سند کے بارے میں کہتے ہیں۔

     المعتمر بن سليمان التيمي عن أبيه عن مجاهد عن عبدالله بن عمرو رضى الله عنه … إلخ [المستدرك للحاكم 387/3 ح 5661 وقال الذهبي فى التلخيص : عليٰ شرط البخاري و مسلم ]
    یہ سند سلیمان بن طرخان التیمی کے عن کی وجہ سے ضعیف ہے۔ سلیمان التیمی مدلس تھے، دیکھئے جامع التحصیل [ ص106] کتاب المدلسین لا بی زرعۃ ابن العراقی [ 24] اسماء من عرف بالتدلیس للسیوطی [ 20] التبیین لأسماء المدلسین للحلبی [ ص29] قصیدۃ المقدسی و طبقات المدلسین للعسقلانی [ 2/52]
     امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا :

    كان سليمان التيمي يدلس ” سلیمان التیمی یدلیس کرتے تھے۔“ [ تاريخ ابن معين، رواية الدوري : 3600 ]
    امام ابن معین کی اس تصریح کے بعد سلیمان التیمی کو طبقۂ ثانیہ یا اولیٰ میں ذکر کرنا غلط ہے بلکہ حق یہ ہے کہ طبقۂ ثالثہ کے مدلس ہیں لہٰذا اس روایت کو ”صحیح علیٰ شرط الشیخین“ نہیں کہا جا سکتا۔انتھی

    یہ میرا الزامی جواب تھا بشار عواد کے حوالے کے لئے باقی میرے نزدیک  بشار عواد اور زئی ایک ہی کھاتے میں ہیں میرے لیے دونوں حجت نہیں۔

    باقی امام ذہبی نے اپنے میزان الاعتدال کے قول سے رجوع کر لیا تھا سیر اعلام النبلاء میں اور امام دراقطنی کا قول جس روایت کی بنیاد پر امام ذہبی نے تاریخ الاسلام میں درج کیا تھا لیکن آخری کتاب سیر اعلام النبلاء میں اس روایت کو رد کر کے پھر امام دارقطنی کا قول بھی درج نہیں کیا جس سے واضح ہو گیا کہ اس قول کی بنیاد ضعیف روایت پر تھی۔۔

    واللہ اعلم

     

    خلاصہ تحقیق :

    ابھی تک ایک بھی صحیح سند سے کوئی روایت نہیں پیش کر سکے جس میں ہو کہ حضرت ابوالغادیہ نے ہی حضرت عمار کو شہید کیا ہے۔!!

    اور جو روایت پیش کی اس میں نام کی کہیں بھی تصریح نہیں کہ قاتل کون ہے؟؟

    اس لیے حضرت ابوالغادیہ کو جس نے بھی اگر قاتل لکھا ہے وہ سب ضعیف روایت سے تسامح ہونے کی وجہ سے لکھا ہے ورنہ تحقیقا اس کی کوئی بھی صحیح موجود نہیں جس میں ہو کہ حضرت ابوالغادیہ ہی قاتل ہیں؟؟؟

    اس لیے قرآن کی آیت بیعت رضوان والی حق ہے کہ بیعت رضوان کا ہر صحابی سے اللہ راضی  ہے بلکہ ہر ایمان پر فوت ہونے والے صحابی سے اللہ راضی ہے اور وہ سب جنتی ہیں الحمدللہ یہی اہل سنت کا عقیدہ ہے۔

    اللہ عزوجل ہم سب کو صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم کے صدقے بخش دے۔

    آمین

    واللہ اعلم

  5. 6 hours ago, Syed Kamran Qadri said:

    جب تک کوئی شخص زندہ ہو،اس وقت تک اس کےمال میں کسی کا ازروئے ترکہ کوئی حق نہیں ہوتا کہ وراثت کا معاملہ بعدِ وفات ہوتا ہے نہ کہ حیات میں۔

    واللہ اعلم بالصواب

    لازمی نہیں ہے وارثت تقسیم وفات کے بعد ہو بلکہ والد خود بھی اپنی اولاد میں اپنی حیات میں  وارثت  تقسیم کر سکتا ہے۔

    واللہ اعلم

  6. 6 hours ago, Syed Kamran Qadri said:

    سائلہ سے وضاحت لے لیں کہ بینک سے گاڑی قسطوں پر لینی ہے یا عام کسی سے لینی ہے۔صورت متعین کروا لیں کیوںکہ قسطوں پر کاروبار کرنا مطلقا ناجائز نہیں ہے۔ناجائز ہونے کی کچھ صورتیں ہیں اگر وہ صورتیں نہ پائی جائیں تو قسطوں پر کاروبار کرنا اور چیزیں خریدنا جائز ہے۔

    یہاں قسطوں پر کاروبار کرنا نہیں ہے بلکہ قسطوں پرکار لینے کی بات ہے اور عام شو رومز پر قسطوں پر جو ایڈوانس رقم دیتے ہیں وہ  اصل کار کی قیمت شمار نہیں کی جاتی بلکہ ایڈوانس کے بعد ہی اس کی رقم شمار کی جاتی ہے اس لیے یہ تو بالکل سود کی صورت ہے کیونکہ اصل قیمت سے زیادہ دے رہے ہیں ۔

    باقی دوسری صورت بنک ہیں جو قسطوں پر کار دیتے ہیں اس میں اوپر والی صورت موجود ہوتی اور بنک کے  سب کام تقریبا قسطوں والے سود کے ہیں۔

    واللہ اعلم

  7. 14 hours ago, ghulamahmed17 said:

     

     یہ لیں امام ذہبی کی طرف سے تحفہِ خاص قبول فرمائیں 

    لکھتے ہیں کہ یہ روایت بخاری و مسلم کی شراط پر صحیح ہے ۔

    کیا ہے ؟

    مسلم و بخاری کی شرائط پر صحیح ۔

     

    Picture1DD.thumb.png.d9a326d35269ea7e58732b6cd0a2bc01.png

     

    اگر اس کے بعد بھی  آپ بضد ہوں کہ میں ابھی بھی نہیں

    مانوں گا تو پھر محترم رضا عسقلانی صاحب آپ پر لازم ہے کہ آپ

    امام ذہبی کا اپنا قول

    ابوالغادیہ ہی عمارؓ کا قاتل ہے ۔

    اور

    امام دارقطبی کا قول

    کہ ابوالغادیہ عمارؓ کا قاتل ہے ۔

     

    ان دونوں اقوال کو ضیف ثابت فرمائیں گے

    جب تک ان دونوں اماموں کے اقوال کو آپ ضیف ثابت

    نہیں کریں گے تب تک اور اعتراض آپ نہیں کر سکتے ۔

     

    شکریہ 

     

    ارے جناب اس روایت میں قاتل کے نام کی تصریح کہاں ہے؟؟

    اس میں کہاں ہے حضرت ابوالغادیہ نے ہی شہید کیا ہے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو؟؟

    جب تک قاتل کے نام کی تصریح نہیں دیکھائیں گے اس  وقت تک اس روایت کو پیش کرنے کا فائدہ نہیں۔

    اس کے علاوہ ہم آپ کو اس کا ایک الزامی جواب یہ دے رہے ہیں جیسے آپ بشار عواد کو مانتے ہیں تو زبیر علی زئی کو بھی مانتے ہو ں گے۔

    زئی صاحب اس روایت کی سند کے بارے میں کہتے ہیں۔

     المعتمر بن سليمان التيمي عن أبيه عن مجاهد عن عبدالله بن عمرو رضى الله عنه … إلخ [المستدرك للحاكم 387/3 ح 5661 وقال الذهبي فى التلخيص : عليٰ شرط البخاري و مسلم ]
    یہ سند سلیمان بن طرخان التیمی کے عن کی وجہ سے ضعیف ہے۔ سلیمان التیمی مدلس تھے، دیکھئے جامع التحصیل [ ص106] کتاب المدلسین لا بی زرعۃ ابن العراقی [ 24] اسماء من عرف بالتدلیس للسیوطی [ 20] التبیین لأسماء المدلسین للحلبی [ ص29] قصیدۃ المقدسی و طبقات المدلسین للعسقلانی [ 2/52]
     امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا :
    كان سليمان التيمي يدلس ” سلیمان التیمی یدلیس کرتے تھے۔“ [ تاريخ ابن معين، رواية الدوري : 3600 ]
    امام ابن معین کی اس تصریح کے بعد سلیمان التیمی کو طبقۂ ثانیہ یا اولیٰ میں ذکر کرنا غلط ہے بلکہ حق یہ ہے کہ طبقۂ ثالثہ کے مدلس ہیں لہٰذا اس روایت کو ”صحیح علیٰ شرط الشیخین“ نہیں کہا جا سکتا۔انتھی

    یہ میرا الزامی جواب تھا بشار عواد کے حوالے کے لئے باقی میرے نزدیک  بشار عواد اور زئی ایک ہی کھاتے میں ہیں میرے لیے دونوں حجت نہیں۔

    باقی امام ذہبی نے اپنے میزان الاعتدال کے قول سے رجوع کر لیا تھا سیر اعلام النبلاء میں اور امام دراقطنی کا قول جس روایت کی بنیاد پر امام ذہبی نے تاریخ الاسلام میں درج کیا تھا لیکن آخری کتاب سیر اعلام النبلاء میں اس روایت کو رد کر کے پھر امام دارقطنی کا قول بھی درج نہیں کیا جس سے واضح ہو گیا کہ اس قول کی بنیاد ضعیف روایت پر تھی۔۔

    واللہ اعلم

     

    خلاصہ تحقیق :

    ابھی تک ایک بھی صحیح سند سے کوئی روایت نہیں پیش کر سکے جس میں ہو کہ حضرت ابوالغادیہ نے ہی حضرت عمار کو شہید کیا ہے۔!!

    اور جو روایت پیش کی اس میں نام کی کہیں بھی تصریح نہیں کہ قاتل کون ہے؟؟

    اس لیے حضرت ابوالغادیہ کو جس نے بھی اگر قاتل لکھا ہے وہ سب ضعیف روایت سے تسامح ہونے کی وجہ سے لکھا ہے ورنہ تحقیقا اس کی کوئی بھی صحیح موجود نہیں جس میں ہو کہ حضرت ابوالغادیہ ہی قاتل ہیں؟؟؟

    اس لیے قرآن کی آیت بیعت رضوان والی حق ہے کہ بیعت رضوان کا ہر صحابی سے اللہ راضی  ہے بلکہ ہر ایمان پر فوت ہونے والے صحابی سے اللہ راضی ہے اور وہ سب جنتی ہیں الحمدللہ یہی اہل سنت کا عقیدہ ہے۔

    اللہ عزوجل ہم سب کو صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم کے صدقے بخش دے۔

    آمین

    واللہ اعلم

  8. 14 hours ago, ghulamahmed17 said:

     ---------------

    جناب رضا عسقلانی صاحب یہ قبول فرما لیں یہ بھی امام ذہبی کے نزدیک

    روایتِ صحیح ہے ۔

     

    Picture145.thumb.png.2d87dbb81fa0624e41605da432a06855.png

     

    جناب رضا عسقلانی صاحب محض حوالہ جات پر کاٹے لگا دینے سے بات نہیں بنا کرتی

    حکم ثابت کرنا پڑتا ہے کہ محدثین اور  محققین نے اس روایت پر کیا حکم لگایا ہے  صرف

    نعرہ بازی اور اپنے ہی علم کا چرچا کرنے سے لوگ نہیں مانتے لوگوں کو دیکھانا پڑتا ہے تب بات

    بنا کرتی ہے ۔

    جناب جھوٹ تو نہ بولیں امام ذہبی نے کہاں اس روایت کو صحیح   کہا ہے؟؟

    باقی اس روایت میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر مجہول راوی ہے اس کا نام کتب  رجال میں ہے لیکن اس کی توثیق ثابت نہیں لہذا یہ پوسٹر آپ کے کسی کام نہیں ہے۔

    جناب ہم  تحقیقا جواب دیتے ہیں پوسٹرز نہیں لگاتے جب کہ جناب کے پوسٹر میں ہی جناب کا رد موجود ہوتا ہے تو نشان دہی کرنا ہمارا حق بنتا ہے تاکہ عوام کے سامنے حقیقت واضح ہو جائے اس لئے ہم جناب کے پوسڑز کو کراس کر دیتے ہیں۔

    لیں اپنے اس پوسٹر کی حقیقت بھی دیکھ لیں پھر ہم سے شکوہ نہ کریں۔

    امید ہے آئندہ تحقیق کے ساتھ پوسٹر چپکائیں  گے۔

    Untitled.thumb.jpg.72ee696365b9af8badd87bde172e66e4.jpg

  9. 14 hours ago, ghulamahmed17 said:

    ناب رضا عسقلانی صاحب لگتا ہے آپ نے شدید غصے کی حالت میں یہ سب لکھ دیا ۔ او اللہ کے بندے آپ کی کیا حیثت ہے کہ آپ امام دار قطنی کے قول کو ضعیف قرار دیں  رہے ہیں اگر امام ذہبی کے نزدیک امام دارقطنی کا قول ضعیف قول تھا تو انہیں اپنے قول کے ساتھ کہ ابوالغادیہ ہی قاتلِ عمار ہے پیش کرنے کی ضرورت کیا تھا ؟ بتائیں ؟
    اب آپ  امام دارقطنی کے قول کو
    ضعیف لکھنے بعد اس کو ثابت فرمائیں گے کہ یہ قول واقعی ضیف قول ہے ؟

     

    ارے جناب اگر قول ہے تو اس کی دلیل پیش کریں؟؟

    اگر دلیل ضعیف روایت پر ہے جس کو امام ذہبی منقطع کہہ چکے ہیں تو وہ خود بخود ضعیف ہے مزے کی بات یہ ہے امام ذہبی نے ضعیف روایت کی بنا پر امام دارقطنی کا قول نقل  کیا تاریخ الاسلام میں لیکن آخری کتاب سیر اعلام النبلاء میں راویت کا رد کر دیا ساتھ امام دارقطنی کے قول کو بھی درج نہیں کیا اس لیے امام ذہبی کے سامنے حقیقت کھل چکی تھی اس بات کی۔

    ضعیف قول اس لیے ہے کہ قاتل ہونے کی کوئی صحیح روایت موجود نہیں اگر موجود ہے جس میں قاتل کے نام کی تصریح ہو تو پیش کریں ہم انتظار میں ہیں جناب کے!!

  10. 13 hours ago, ghulamahmed17 said:

     

    پھر میں نےامام ذہبی  کا دوسرا حوالہ لگایا

    جس میں امام ذہبی نے اپنے اس قول کہ ابوالغادیہ ہی

    عمارؓ کا قاتل ہے  میں ساتھ امام الدار قطنی کا قول بھی پیش کیا

    جو کہ یہ تھا ۔

     

    Picture7233.thumb.png.51f72f895e1656defaed16b970c8427b.png

     

     

    جس روایت کی بنیاد پر امام ذہبی نے امام دارقطنی نے قول کا نقل کیا لیکن اسی روایت کو اپنی آخری کتاب میں انقطاع کر کے رد کر دیا ساتھ امام دارقطنی کے قول کو بھی درج نہیں کیا اس سے واضح ہو گیا کہ امام دارقطنی کا قول  اس ضعیف روایت پر بنا ہوا تھا جس کو امام ذہبی نے اپنی آخری کتاب  سیر اعلام النبلاء میں رد کر دیا ہے۔

    اس لیے مزید بحث کی گنجائش بچی ہی نہیں جب آخری موقف آ گیا ہے امام ذہبی کا۔

    darqutani.thumb.jpg.bcd0a2c7ed2882e21b1f410254e1c9f1.jpg

  11. 14 hours ago, ghulamahmed17 said:

    Picture6ddf.thumb.png.df4e71f043a30dfe11c1697afbede234.png

     

    اس کا آپ نے باطل کا حاکم لگا دیا کیوں ؟

    آپ نے  محقق ہیں ہے کیا ؟ محدث ہیں ؟ آپ  نے انتہائی غلط کام کیا جس

    پر سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کہوں گا ۔

    اس کا تحقیقا اوپر جواب دے چکا ہوں اس پر بشار عواد نے حسن کا حکم غلط لگایا ہے اس لئے اس کے حکم کو باطل کہا ہے کیونکہ  ایک تو اس میں اضافہ منکر ہے اور دوسرا امام ذہبی نے اس پر انقطاع کا حکم لگایا ہے اس لیے  میں نے یہ کام میں درست کیا ہے کیونکہ جناب ایسے پوسڑ سے عام عوام کو گمراہ نہیں کر سکتے۔

    بہتر تو یہی تھا کہ اسے دوبارا پوسٹ نہ کرتے اس لیے جوابا ہم اپنا پوسٹر پوسٹ کر دیتے تاکہ جناب کے پوسٹر کا پول کھلے۔

    shoaib.thumb.jpg.4e549c966ef8b3edc8afbc4dcde93829.jpg

    darqutani.thumb.jpg.977c8fb46de2b135110f3403d2ca34ba.jpg

  12. 14 hours ago, ghulamahmed17 said:


    اپنے پوسٹر کی حالت دیکھ لو میں نے کیا کر دیا ہے جناب کے پوسٹ کا حال "
    جناب رضا عسقلانی صاحب کتابوں پر ، پوسٹر پر یوں  کاٹے لگانا چھوٹے اور نادان بچے کرتے ہیں اھل علم کا ہرگز ایسا شیوہ نہیں ۔
    جناب رضا عسقلانی صاحب میں میں اس  روایت کے ساتھ امام ذہبی کا مزید اضافہ کر رہا ہوں وہ پڑھیں اور اس کو قبول فرما لیں اور بچوں کی سی حرکات  سے گریز کریں ۔
    رضا عسقلانی صاحب آپ جانتے ہوں گے کہ  ابوالغادیہ جس گروہ میں پہلے ہی سے شامل تھا اس گروہ کے بارے کریم آقاﷺ نے فرمایا ہے کہ یہ گروہ عمارؓ کو آگ کی طرف بلائے گا  اور عمارؓ اس گروہ کو اللہ کی اطاعت یعنی جنت کی طرف بلائیں گے ۔ مختصراً صحیح بخاری کی یہ روایت ہے ۔


     

    ارے جناب میں نے آپ کے پوسڑ کو اس لئے کراس کیا کیوں وہ بات غلط  پوسٹ کی ہوئی تھی اس لیے ہم نے اسے کاٹ کر حقیقت بھی واضح کر دی اس لئے تاکہ عام عوام کو حقیقت پتہ سکے۔

    پہلے بات یہ ہے جناب اس پر لگے ہیں کہ حضرت ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ قاتل ہیں لیکن قاتل ہونے کی ایک روایت صحیح سند سے ثابت نہیں کر پائے۔

    جس لشکر کا نبی علیہ السلام نے ایسا کہا تو اسی لشکر کی صلح کے لئے بھی آپ علیہ السلام کی حدیث ہے اور  اس کے علاوہ قرآن کی آیت سے واضح ثابت ہے بیعت رضوان کے صحابہ سے اللہ راضی ہے  اس لئے اب قرآن کی آیت آنے پر بات ختم ہو جاتی ہے مزید بحث کرنے میں اور حضرت ابوالغادیہ بیعت رضوان کے صحابی ہیں۔

    قرآن کی آیت دیکھیں جناب:

    لَّقَدۡ رَضِیَ ٱللَّهُ عَنِ ٱلۡمُؤۡمِنِینَ إِذۡ یُبَایِعُونَکَ تَحۡتَ ٱلشَّجَرَهِ فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِهِمۡ فَأَنزَلَ ٱلسَّکِینَهَ عَلَیۡهِمۡ وَأَثَٰبَهُمۡ فَتۡحٗا قَرِیبٗا

    (سورہ فتح آیت 18)

    اب ترجمہ خود کر لینا   ورنہ کہو گے میں فلاں ترجمہ نہیں مانتا۔۔

  13. 12 hours ago, ghulamahmed17 said:

    اس پر عرب و عجم کے اک مانے ہوئے محقق نے 
    اس کی صحت پر " حسن" کا حکم لگایا ۔
    آپ نے لکھا ہے۔

    " لہذا بشار عواد کا اسے حسن کہنا باطل ہے اور نہ ہی بشار عواد میرے نزدیک حجت ہے اس لئے ایسے حوالے ہمیں نہ دیا کریں۔"
    جس محقق کی تحقیق کو عرب و عجم مان رہا ہوں آپ لکھتے ہیں کہ اس کا حکم باطل ہے اس کے حوالے نہ پیش کریں

    ہم بشار عواد کے مقلد تھوڑی ہیں جو ایسے ہی اس کی ہر بات مان لیں گے ہم نے تحقیقا اس روایت کے اضافے کو منکر ثابت کیا ہے اور ساتھ امام ذہبی کا حوالہ دیا ہے  کہ یہ روایت منقطع ہے۔ پھر بشار عواد کا حسن کہنا تو باطل بنتا ہی ہے ۔

    باقی بشاد عواد عقیدتا سلفی ہے جو آج کے غیر مقلد ہیں تو پھر ہم اسے کیوں تسلیم کریں  ایسے بندے ہمارے لئے کب سے حجت بن گے ہیں؟

    اس لئے ایسے بندے آپ کے لیے حجت ہوں گے ہمارے لیے نہیں۔

  14. 14 hours ago, ghulamahmed17 said:

    وئی بھی اھل علم ایسی حرکت ایسی نہیں کرتا جیسی آپ نے کی ہے ۔ آپ کا ماننا یا نہ ماننا اک اور بات تھی مگر آپ نے صحیح روایت پر اس طرح کاٹے لا کر جس جہالت کا انداز اپنایا ہے انتہائی افسوس ناک ہے ۔
    پہلی بات تو اس روایت پر امام ذہبی کا کوئی اعتراض نہ کرنا اور خاموشی اختیار کرنا آپخود جانتے ہوں گے کہ کیا حیثیت رکھتا ہے پھر اس پر عرب و عجم کے اک مانے ہوئے محقق نے 

    میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی جناب آپ کے پوسڑ کی حقیقت بتائی ہے اس لئے کہا ہے پوسٹر نہ چپکاؤ تحریر کر کے پوسٹ کرو اگر پوسٹر لگاؤ گے تو ہم بھی تمہارے پوسٹرز کا یہی حال کریں گے۔

    جناب لگتا ہے بھول گے کہ امام ذہبی نے اپنی آخری کتاب سیر اعلام النبلاء  میں اس پر انقطاع کا حکم لگایا ہے اس کا اوپر حوالہ دے چکا ہوں  اس لئے اب میزان الاعتدال کی بات نہیں چلے گی بلکہ آخری موقف  چلے گا امام ذہبی کا۔

    باقی بشاد عواد محقق ہیں تو میں کیا کروں جب اس نے غلط حکم لگایا ہے تو رد کرنا تو ہمارا حق بنتا ہے نا اس میں کون سی بری بات ہے جناب؟

  15. 12 hours ago, ghulamahmed17 said:

     

    جناب رضا عسقلانی صاحب
    آپ نے آتے ہی  اپنے علم کے بڑے بڑے دعوئے کیے ۔ مگر پہلا حوالہ لگاتے ہی آپ نے غصے میں اک حسن درجہ کی صحیح روایت کا جس طرح انکار کیا اور اس پر جس طرح کاٹے لگائے میں آپ کی ذہنی کرب اور تکلیف کو سمجھ سکتا ہوں

    ارے جناب میں نے کون سے دعوی کیے ہیں میرا کوئی ایسادعویٰ تو دیکھائیں ذرا؟؟

    میں نے کون سے حسن و صحیح درجہ کی روایت کا انکار کیا ہے ذرا وہ پیش کرنا؟؟

    لیکن جس آپ حسن سمجھ رہے ہیں وہ حسن نہیں ہے کیونکہ خود امام ذہبی نے آخری کتاب سیر اعلام النبلاء میں اس کا رد کیا ہوا ہے اس لئے کاٹا لگانا تو بنتا تھا تاکہ عام لوگ اس سے گمراہ نہ ہو۔

    یہ ذہنی کرب و اور تکلیف کے لئے نہیں کیا بس آپ کے پوسڑ کی حقیقت بتائی تھی تاکہ عام عوام حقیقت جانے جناب کے پوسڑ کی۔

  16. 20 hours ago, اسد الطحاوی said:

    345 - حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَتَّابٍ الْأَعْيَنَ، ثنا مَنْصُورُ بْنُ سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ، «يَلْعَنُ أَبَا حَنِيفَةَ» ، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَكَانَ شُعْبَةُ " يَلْعَنُ أَبَا حَنِيفَةَ

     

    صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ یہاں عبداللہ بن احمد سے حدثنی سے ابو بکر الاعین ہے اور وہ منصور سے اور وہ حماد بن سلمہ سے منصور کا سننا بیان کر رہے ہیں کہ حماد بن سلمہ ابی حنیفہ پر طعن کرتے تھے اور آگے ہے کہ ابو سلمہ نے کہا کہ شعبہ بھی ابی حنیفہ پر طعن کرتے 

    20 hours ago, اسد الطحاوی said:

    لیکن مسلہ یہ ہے کہ الضعفاء کے نسخوں میں اختلاف ہے سند میں بھی اور متن میں بھی  جیسا کہ الضعفا الکبیر کے ایک نسخے میں سند کچھ یوں ہے 

     

    حدثنا محمد بن ابراہیم بن جناد ، قال حدثنا ابو بکر الاعین قال: حدثنا  منصور بن سلمة ابو سلمة الخزاعی  ، قال:سمعت  حماد بن سلمة یلعن ابا حنیفة و سمعت شعبة یلعن ابا حنیفة

     

    یعنی ایک نسخے میں سند عبداللہ بن احمد سے شروع ہو رہی ہے  اور وہ ابو بکر الاعین سے بیان کر رہے ہیں 

    جبکہ دوسرے نسخے میں سند محمد بن ابراہیم جناد سے شروع ہو رہی ہے اور وہ ابو بکر الاعین سے بیان کر رہے ہیں 

    اور یہاں تعین نہیں ہو سکتا ہے کہ اصل اور صحیح سند کونسی والی ہے ؟ 

    یہاں کان کا لفظ ہے

    سمعت کا نہیں 

    امام عقیلی نے اسے دو بندوں سے روایت کیا ہے اس لیے کوئی فرق نہیں کوئی بھی راوی ہو اور یہاں سمعت کا صیغہ نہ بھی تو کوئی فرق نہیں کیونکہ اس میں کو مدلس راوی تو موجود نہیں ہے جو اعتراض ہو۔

    اور اس سند میں دونوں راوی ثقہ ہیں امام عبداللہ بن احمد بن حنبل تو ثقہ ترین ہیں اور  محمد بن ابراہیم بن جناد بھی ثقہ ہے لہذا اختلاف بھی ہو جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا سند پر 

    باقی محمد بن ابراہیم بن جناد کی توثیق یہ ہے۔

    تاریخ الاسلام ج 26 ص 427

     

     

    siqa.jpg

  17. 20 hours ago, اسد الطحاوی said:

    8- "خ م مد س - منصور" بن سلمة بن عبد العزيز بن صالح أبو سلمة الخزاعي الحافظ البغدادي روى عن عبد الله بن عمر العمري ويعقوب بن عبد الله العمي وعبد الرحمن بن أبي الموال ومالك وسليمان بن بلال والوليد بن المغيرة المعافري وحماد بن سلمة وعبد العزيز بن عبد الله بن أبي سلمة الماجشون وعبد الله بن جعفر المخرمي وخلاد بن سليمان وبكر بن مضر وغيرهم روى عنه أحمد بن حنبل ومحمد بن أحمد بن أبي خلف وحجاج بن الشاعر ومحمد بن إسحاق الصغاني ومحمد بن عبد الرحيم البزاز ومحمد بن عامر الأنطاكي أبو بكر بن أبي خيثمة وأبو أمية الطرسوسي وعباس بن محمد الدوري وغيرهم قال أبو بكر الأعين عن أحمد أبو سلمة الخزاعي من مثبتي أهل بغداد

    (تہذیب التہذیب)

    اس میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ کہیں بھی شعبہ کا ذکر نہیں ہے 

    امام یحییٰ بن معین کا سماع نہیں ہے جو منصور بن سلمہ کی توثیق کرتے ہیں تو منصور بن سلمہ کا سماع امام شعبہ سے کیسے ثابت ہے 

    جبکہ یہ اتنے بڑے اور مشہور امام ہیں کہ محدثین انکا نام منصور کے شیوخ میں لکھنے سے بالکل نہ چوکتے

    یار ہر شیخ کا نام ہونا ضروری نہیں ہوتا اس لئے جب شیوخ کثیر ہوں تو محدثین وغیرہم کہہ دیتے ہیں اس میں بھی امام عسقلانی نے وغیرہم کا لفظ لکھا ہوا ہے اس لیے اب نام نہ ہونے کا اعتراض ختم ہو جاتا ہے خود دیکھ لیں اپنی پوسٹ کردہ تحریر میں میں نشان دہی کر دیتا ہوں۔

     

    "خ م مد س - منصور" بن سلمة بن عبد العزيز بن صالح أبو سلمة الخزاعي الحافظ البغدادي

    روى عن عبد الله بن عمر العمري ويعقوب بن عبد الله العمي وعبد الرحمن بن أبي الموال ومالك وسليمان بن بلال والوليد بن المغيرة المعافري وحماد بن سلمة وعبد العزيز بن عبد الله بن أبي سلمة الماجشون وعبد الله بن جعفر المخرمي وخلاد بن سليمان وبكر بن مضر وغيرهم

    روى عنه أحمد بن حنبل ومحمد بن أحمد بن أبي خلف وحجاج بن الشاعر ومحمد بن إسحاق الصغاني ومحمد بن عبد الرحيم البزاز ومحمد بن عامر الأنطاكي أبو بكر بن أبي خيثمة وأبو أمية الطرسوسي وعباس بن محمد الدوري وغيرهم قال أبو بكر الأعين عن أحمد أبو سلمة الخزاعي من مثبتي أهل بغداد

    (تہذیب التہذیب)

    لہذا امام شعبہ کا نام وغیرہم میں شامل ہو جائے گا خود بخود۔

  18. 14 hours ago, ghulamahmed17 said:

     

    Picture6ddf.thumb.png.df4e71f043a30dfe11c1697afbede234.png

     

    جناب محترم رضا عسقلانی صاحب مین نے مختلف جگہوں پر حوالہ جات اور کتابیں دیکھانا ہوتی ہیں

    اس لیے میں وہ کتاب پہلے ہی بصورت فیس بک کی پوسٹ کے تیار کرتا ہوں تاکہ بار بار بنانے کی بجائے اپنا وقت بچاؤں

    پلیز آپ سمجھدار ہیں یہ پوسٹر پوسٹر کی بات کو نظر انداز فرمائیں ۔ 

    --------------------------------------

     

     

    پہلی بات یہ کہ روایت میں جو اضافہ ہے وہ منکر ہے کیونکہ امام احمد نے اس اضافہ کو روایت نہیں کیا

    مسند احمد کی روایت یہ ہے:

    حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَفْصٍ، وَكُلْثُومُ بْنُ جَبْرٍ، عَنْ أَبِي غَادِيَةَ، قَالَ: قُتِلَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ فَأُخْبِرَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ قَاتِلَهُ، وَسَالِبَهُ فِي النَّارِ»، فَقِيلَ لِعَمْرٍو: فَإِنَّكَ هُوَ ذَا تُقَاتِلُهُ، قَالَ: إِنَّمَا قَالَ: قَاتِلَهُ، وَسَالِبَه.

    (مسند احمد ج4 ص 198)

    اور اسی روایت کو امام ابن سعد نے روایت کیا ہے لیکن اس میں اضافہ ہو گیا ہے وہ اضافہ یہ ہے:

     حدثنا عفان قال حدثنا حماد بن سلمة قال أنبأنا أبو حفص وكلثوم بن جبر عن أبي غادية قال« سمعت عمار بن ياسر يقع في عثمان يشتمه بالمدينة قال: فتوعدته بالقتل قلت: لئن أمكنني الله منك لأفعلن.. فلما كان يوم صفين جعل عمار يحمل على الناس فقيل هذا عمار فرأيت فرجة بين الرئتين وبين الساقين، قال فحملتُ عليه فطعنته في ركبته قال سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم: يقول إن قاتله وسالبه في النار فقيل لعمرو بن العاص هو ذا أنت تقاتله فقال: إنما قال قاتله وسالبه».

    (الطبقات الکبریٰ لابن سعد ج 4 ص 198)

    لہذا  جو سرخ الفاظوں سے الطبقات الکبری کے اضافے کی طرف نشان دہی کی ہے یہ منکر ہے کیونکہ یہ اوثق امام کی مخالفت ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل امام ابن سعد سے بہت زیادہ اوثق اور فقیہ ہیں۔

    اور امام ابن حجر نے امام احمد کے بارے میں تقریب التہذیب میں لکھا:

     أحد الأئمة ثقة حافظ فقيه حجة

    اور امام ابن سعد کے بارے میں لکھا:

    صدوق فاضل

    لہذا امام احمد کے اوثق ترین ہونے کی وجہ سے امام ابن سعد کا اضافہ منکر ہے۔

    اس کے علاوہ امام ذہبی نے اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:

     إسناده فيه انقطاع

    (سیر اعلام النبلاء ج 2 ص 544)

    6.jpg.8d50d09b95d8d3fdfca264d06b463de7.jpg

    لہذا بشار عواد کا اسے حسن کہنا باطل ہے اور نہ ہی بشار عواد میرے نزدیک حجت ہے اس لئے ایسے حوالے ہمیں نہ دیا کریں۔

    آپ کے کے پوسڑ میں جو نشان دہی کی ہے وہ یہ ہے 

    shoaib.thumb.jpg.b16ad1ba52c2a4224a514e32e822fcb9.jpg

    اس لیے تو کہتا ہوں پوسڑ نہ لگایا کرو کیونکہ پوسٹر میں جناب کی علمی قابلیت سامنے آ جاتی ہے جب ہم اس پر تبصرہ کرتے ہیں۔

    مجھے اور بات جناب پسند نہیں ایک بات پسند ہے وہ یہ کہ فوٹو شاپ کے ماہر لگاتے ہو اس لیے کہتا ہوں اپنی فوٹو شاپ کی دوکان لگاؤ یہ کام تمہارا نہیں ہے اور نہ تیرے بس کی بات ہے۔

    اللہ تمہیں ہدایت دے اور ہمیں صراط مستقیم پر ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔

    آمین

     

  19. 14 hours ago, ghulamahmed17 said:

     

    5db63e90bba44_RazaAsqalani01.png.8e49b3596c9812c7b1c5e9b1ff815205.png

     

    Picture7233.thumb.png.47d9f8db3f42e41f54541a1b5ccbd0b2.png

    ارےجناب جو روایت پیش کی ہے اس میں ویسے قاتل کے نام کی تصریح نہیں ہے لیکن یہ بات امام ذہبی کی کتاب تاریخ الاسلام سے پیش کی ہے اس لیے ہم اس کا جواب بھی امام ذہبی کی آخری کتاب سے پیش کر دیتے ہیں۔

    امام ذہبی نے اپنی آخری کتاب سیر اعلام النبلاء میں اس روایت پر تبصرہ کر کے اس کو رد کر دیا اس لیے اب تاریخ الاسلام اور میزان الاعتدال   کی آخری کتب میں شمار نہیں ہے اس لیے امام ذہبی نے آخری کتاب میں اپنا آخری موقف بیان کیا ہے اس لیے اب آخری موقف آنے کے بعد پرانے موقف کو رجوع سمجھا جاتا ہے۔

    مزے کی بات یہ ہے امام ذہبی نے تاریخ الاسلام میں امام دارقطنی کی وجہ سے ساتھ روایت بیان کی لیکن آخری کتاب سیر اعلام النبلاء میں نہ امام دارقطنی کے قول کی طرف توجہ کی بلکہ خود راویت کا بھی رد کر دیا اس کا مطلب ہے امام ذہبی کے نزدیک بھی امام دارقطنی کا قول بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کی بنیاد ضعیف راویت پر تھا اس لئے امام ذہبی نے اس کو پھر نہیں لکھا اپنی آخری کتاب سیر اعلام النبلاء میں۔

    اپنے پوسٹر کی حالت دیکھ لو میں نے کیا کر دیا ہے جناب کے پوسٹ کا حال

    darqutani.thumb.jpg.46141bc1a709fe105bdf723b01ec5bb2.jpg

    امام ذہبی نے اپنی روایت کے تبصرہ کی روایت کو خود آخری کتاب میں رد کر دیا باقی جناب امام دارقطنی کا قول کی دلیل پیش کریں کہ کس روایت کی بنیاد پر قاتل کہا ہے؟

    اگر یہی روایت ہے تو اس کا خود امام ذہبی نے رد کر دیا ہے تو امام دارقطنی کا قول خود امام ذہبی کے نزدیک ضعیف قرار دیا جائے گا۔

    واللہ اعلم

  20. 13 hours ago, ghulamahmed17 said:

     

    تیسری بات اگر میں مان لوں کہ وہ روایت امام ذہبی کے نزدیک بھی ضعیف روایت ہے پھر بھی آپ کا ذہبی کے قول کا حوالہ رد کر دینا اک عجب بات تھی کہ وہ روایت جہنم میں جانے کی ہے جسے آپ ضعیف قرار دے رہے ہیں اور امام ذہبی کا قول ابو الغادیہ کے قاتل کا تھا ۔
    اب محترم آپ کے نزدیک تو جہنم میں جانے والی روایت ضعیف تھی مگر آپ اس روایت سے قاتل ہونے کو کس بات پر رد فرما رہے ہیں ؟

     

    ارے بھائی امام ذہبی اپنے قول کو خود رد کر رہے ہیں اپنی آخری کتاب میں تو ہمیں ضرورت ہی نہیں پر رہی کہ ہم رد کریں باقی میزان الاعتدال کی سند بھی امام ذہبی کے نزدیک بھی متروک و کذب ہے باقی وہ انسان تھے کوئی معصوم نہ تھے  کہ ان سے تسامح نہ ہو۔

    اس لیے ان کو تسامح ہو جو متروک و کذب سند پر تبصرہ کر بیٹھے لیکن اپنی آخری کتاب سیر اعلام النبلاء میں اپنے اس تسامح کو دور کیا بلکہ اس روایت کا بھی رد کیا اس لیے ان کا آخری موقف یہی ہے یہ روایت ان کے نزدیک درست نہیں حوالہ کے یہ امام ذہبی کی آخری کتاب کی یہ عبارت موجود ہے۔
    روى حماد بن سلمة، عن كلثوم بن جبر، عن أبي غادية، قال:
    سمعت عمارا يشتم عثمان، فتوعدته بالقتل، فرأيته يوم صفين يحمل على الناس، فطعنته فقتلته. وأخبر عمرو بن العاص، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " قاتل عمار وسالبه في النارإسناده فيه انقطاع

    (سیر اعلام النبلاء)

    6.jpg.a305080c30a217e7230996bb302a4caa.jpg

    لہذا امام ذہبی کا آخری موقف سامنے آنے کے بعد اب میزان الاعتدال کی طرف جانے کی  تک نہیں بنتی۔

  21. 13 hours ago, ghulamahmed17 said:
    Quote

     

    جناب محترم رضا عسقلانی صاحب کل میں نے بہت دفعہ باربار عرض کیا کہ آپ میری بات کو سمجنے کی کوشش کریں کہ امام ذہبی میزان کی روایت  لکھنے کہ بعد یہ جملہ لکھ رہے  کہ تعجب اور حیرانگی ہے کہ ابوالغادیہ یہ روایت خود بیان کرتا ہے کہ عمار کا قاتل جہنم جائے گا  اور خود حضرت عمار کا قاتل ہے میرے بھائی اگر امام ذہبی اس روایت کو ضعیف سمجھتے تو جہنم جانے کی بات پر یہ بات ہرگز نہ دھراتے کہ قاتل بھی وہی خود ہے ۔


    مگر آپ نے بالکل میری بات پر توجہ نہیں دی ۔ پھر سب سے اہم بات جو آپ باربار نظرانداز فرماتے رہے وہ یہ تھی کہ جرح و تعدیل میں محقق سب باتیں لکھتا ہے  آپ نے تعدیل چھوڑ دی اور صرف امام ذہبی کا کسی دوسرے کا قول لکھنا پکڑ لیا کہ متروک قرار دے دیا ۔

     

    میرے بھائی آپ نے میری بات سمجھی ہے یا نہیں امام ذہبی نے ایک متروک و کذاب راوی کی روایت پر اگر تعجب کیا ہے تو اس میں کون سی بات ہے لیکن جس راوی سے وہ روایت روایت اس پر تو جرح نقل کر دی ہے کیا کذاب و متروک راوی کی روایت پر کسی کو قاتل کہہ سکتے ہو کیا۔

    لیکن امام ذہبی نے اپنی آخری کتاب سیر اعلام النبلاء میں نہ وہ جملہ لکھا بلکہ اس روایت کا بھی رد کر دیا انقطاع کا حکم لگا کر اب بتائیں امام ذہبی کا آخری موقف  تو یہ ہے یہ روایت ان کے نزدیک درست نہیں۔

    بعض اوقات ائمہ سے تسامح ہو جاتے ہیں جیسے امام ذہبی میں تلخیص المستدرک میں ہوئے کئی رواۃ کی احادیث کی تصحیح کر دی لیکن آخری کتاب سیر اعلام النبلاء میں ان روایت کو ضعیف قرار دیا۔

    اس لئے امام ذہبی کا آخری موقف ہی راجح سمجھا جائے گا اور یہی اصول ہے۔

  22. On 7/12/2019 at 4:53 AM, اسد الطحاوی said:

     

    ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻴﻢ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﻌﻤﺮ، ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﻮﻟﻴﺪ ن مسلم

    ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻷﻋﻴﻦ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ ﺃﺑﻮ ﺳﻠﻤﺔ اﻟﺨﺰاﻋﻲ ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ , ﻭﺳﻤﻌﺖ ﺷﻌﺒﺔ ﻳﻠﻌﻦ ﺃﺑﺎ ﺣﻨﻴﻔﺔ

     

     

    امام عقیلی اپنی سند سے روایت کرتے ہیں  کہ    حماد بن سلمہ اور اما م شعبہؒ  امام ابو حنیفہ پر طعن کرتے تھے

     

    یہ بالکل امام شعبہؒ پر بہتان ہے  کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی الولید بن مسلم جو کہ ویسے تو صدوق درجے کا راوی ہے

    لیکن  یہ صاحب مناکیر تھے اور یہ تدلیس تسویہ بھی کرتا تھا جسکی وجہ سے یہ کذاب راویوں سے جھوٹی روایتیں بیان کر دیتا تھا

    اور اس پر یہ بھی جرح ہے کہ اس نے امام مالک سے ۱۰ احادیث بیان کی جسکی کوئی اصل ہی نہیں

     اور منکر اور جھوٹی روایاتیں بیان کرنے میں مشہور تھا

    آپ  کی یہ بات تو درست ہے کہ ولید بن مسلم تدلیس تسویہ کرتا ہے لیکن آپ کی پیش کردہ سند میں اس نے سماع مسلسل کیا ہوا ہے اس لئے تدلیس تسویہ کا یہاں اعتراض کرنا درست نہیں۔

    آپ نے جو سند لکھی ہوئی وہ یہ ہے:

    ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﻗﺎﻝﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻴﻢ، ﺣﺪﺛﻨﺎﺃﺑﻮ ﻣﻌﻤﺮ،ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﻮﻟﻴﺪ ﺑن مسلم 

    ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻷﻋﻴﻦ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ ﺃﺑﻮ ﺳﻠﻤﺔ اﻟﺨﺰاﻋﻲ ﻗﺎﻝﺳﻤﻌﺖ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ , ﺳﻤﻌﺖ ﺷﻌﺒﺔ۔۔۔۔الخ

    میں نے نشان دہی کر دی سرخ کلر سے کہ ولید بن مسلم کا اس سند میں سماع مسلسل ہے لہذا تدلیس تسویہ کا اعتراض باطل ہے۔

    باقی آپ نے خود اس راوی کو صدوق مانا ہے تو پھر اس پر جروحات نقل کرنا عجیب تر ہے!!!

     باقی اس راوی کی توثیق راجح ہے۔

    امام عسقلانی نے اس کی توثیق پر اتفاق نقل کر دیا ہے مزید اقوال میں پیش نہیں کر ر ہا ہوں ورنہ بہت اقوال ہیں اس کی اعلی ترین توثیق پر۔

    امام عسقلانی  ہدی الساری  میں اس راوی کے بارے میں لکھتے ہیں:

     مشهور متفق على توثيقه في نفسه وإنما عابوا عليه كثرة التدليس والتسوية

    (ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری ص 1208)

    walid.thumb.jpg.1415455a0a0d14ba9e54e6f220f9b140.jpg

    لہذا تحقیقا دونوں اعتراض درست نہیں ۔

    واللہ اعلم 

×
×
  • Create New...