Jump to content

Ahlehadees

Under Observation
  • کل پوسٹس

    14
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

About Ahlehadees

Previous Fields

  • فقہ
    Ghair Muqalid

تازہ ترین ناظرین

486 profile views

Ahlehadees's Achievements

Rookie

Rookie (2/14)

  • First Post
  • Collaborator
  • Week One Done
  • One Month Later
  • One Year In

Recent Badges

2

کمیونٹی میں شہرت

  1. ایک بھی صحیح بات لکھی ہو تو اسکا جواب بھی دیا جاۓ. صرف طنز استہزاء اور اسکے سوا کچھ نہیں. مجھے آپ لوگوں کی طرح گالیاں نہیں سکھائی جاتی ہیں. سو میں ان سب معاملات میں نہیں پڑتا. میرے پیسٹ کئے ہوئے دلائل کا جواب تو بن نہیں پڑا آ گئے گالی گلوچ دینے. شرم و حیا باقی ہو تو اپنے اخلاق درست کر لیں آپ سب. اسکے بعد جی بھر کر کسی سے بھی بحث کرنا. میں ان لوگوں کے منہ نہیں لگتا جو اپنے آپ کو عاشق رسول کہتے ہیں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی استیزاء کرتے ہیں. انکے فرامین کو پس پشت ڈال دیتے ہیں. پہلے بھی بولا تھا کہ اپنے اخلاق درست کر لیں. بات کرنے کا انداز بدلیں. لیکن اسکا کیا کیا جاۓ کہ آپ سب کی پرورش ہی ایسی ہوئی ہے. صرف بریلوی حضرات کا ھی نہیں بلکہ تمام مقلدین کا یہی حال ہے.
  2. بہت افسوس ہوا. ایک بھی بات جو صحیح کہی ہو. سواۓ استہزاء کے کچھ نہیں آتا. اسی لئے میں پہلے بھی کئی دن تک آفلائن تھا. ہو سکتا ہے آپ اسکا بھی غلط مطلب نکالیں. میں یہاں کوئی مناظرہ کرنے نہیں آیا. میں یہاں پورے فورم سے فائدہ اٹھانے آیا ہوں. کہیں پر بھی کمنٹ کر سکتا ہوں. براہ کرم مجھ پر سے پابندی ہٹائیں. ورنہ پوری طرح سے لگا دیں. اب اگر کوئی استہزاء یا جہالت بھرا ہوا کمنٹ کیا تو میں اسکو نظر انداز کروں گا. جناب رانا صاحب! صحابہ کا عقیدہ یہ دیکھ لیں: حدثنا بشر بن محمد، ‏‏‏‏‏‏اخبرنا عبد الله،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ اخبرني معمرويونس،‏‏‏‏ عن الزهري،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ اخبرني ابو سلمة، ‏‏‏‏‏‏ان عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته، ‏‏‏‏‏‏قالت:‏‏‏‏ "اقبل ابو بكر رضي الله عنه على فرسه من مسكنه بالسنح حتى نزل فدخل المسجد فلم يكلم الناس، ‏‏‏‏‏‏حتى نزل فدخل على عائشة رضي الله عنها فتيمم النبي صلى الله عليه وسلم وهو مسجى ببرد حبرة، ‏‏‏‏‏‏فكشف عن وجهه ثم اكب عليه فقبله، ‏‏‏‏‏‏ثم بكى،‏‏‏‏ فقال:‏‏‏‏ بابي انت يا نبي الله، ‏‏‏‏‏‏لا يجمع الله عليك موتتين، ‏‏‏‏‏‏اما الموتة التي كتبت عليك فقد متها، ‏‏‏‏‏‏قال ابو سلمة:‏‏‏‏ فاخبرني ابن عباس رضي الله عنهما، ‏‏‏‏‏‏ان ابا بكر رضي الله عنه خرج وعمر رضي الله عنه يكلم الناس،‏‏‏‏ فقال:‏‏‏‏ اجلس فابى، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ اجلس فابى، ‏‏‏‏‏‏فتشهد ابو بكر رضي الله عنه فمال إليه الناس وتركوا عمر، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ اما بعد، ‏‏‏‏‏‏فمن كان منكم يعبد محمدا صلى الله عليه وسلم فإن محمدا صلى الله عليه وسلم قد مات، ‏‏‏‏‏‏ومن كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت، ‏‏‏‏‏‏قال الله تعالى:‏‏‏‏ وما محمد إلا رسول إلى الشاكرين سورة آل عمران آية 144 والله لكان الناس لم يكونوا يعلمون ان الله انزل الآية حتى تلاها ابو بكر رضي الله عنه فتلقاها منه الناس، ‏‏‏‏‏‏فما يسمع بشر إلا يتلوها. ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ مجھے معمر بن راشد اور یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے ابوسلمہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ (جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی) ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے جو سنح میں تھا گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اور اترتے ہی مسجد میں تشریف لے گئے۔ پھر آپ کسی سے گفتگو کئے بغیر عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں آئے (جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکی نعش مبارک رکھی ہوئی تھی) اور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برد حبرہ (یمن کی بنی ہوئی دھاری دار چادر) سے ڈھانک دیا گیا تھا۔ پھر آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کھولا اور جھک کر اس کا بوسہ لیا اور رونے لگے۔ آپ نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے نبی! اللہ تعالیٰ دو موتیں آپ پر کبھی جمع نہیں کرے گا۔ سوا ایک موت کے جو آپ کے مقدر میں تھی سو آپ وفات پا چکے۔ ابوسلمہ نے کہا کہ مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ جب باہر تشریف لائے تو عمر رضی اللہ عنہ اس وقت لوگوں سے کچھ باتیں کر رہے تھے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے۔ پھر دوبارہ آپ نے بیٹھنے کے لیے کہا۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے۔ آخر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھا تو تمام مجمع آپ کی طرف متوجہ ہو گیا اور عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا امابعد! اگر کوئی شخص تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی اور اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ باقی رہنے والا ہے۔ کبھی وہ مرنے والا نہیں۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے ”اور محمد صرف اللہ کے رسول ہیں اور بہت سے رسول اس سے پہلے بھی گزر چکے ہیں“ «الشاكرين» تک (آپ نے آیت تلاوت کی) قسم اللہ کی ایسا معلوم ہوا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آیت کی تلاوت سے پہلے جیسے لوگوں کو معلوم ہی نہ تھا کہ یہ آیت بھی اللہ پاک نے قرآن مجید میں اتاری ہے۔ اب تمام صحابہ نے یہ آیت آپ سے سیکھ لی پھر تو ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی۔ (بخارى) ایک بات اور جناب رانا صاحب. یہ اسکینز وغیرہ میرے سامنے بالکل نہ لگایا کریں. بس جو دلیل ہو وہ کوٹ کر دیا کریں.
  3. الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الأمین، أما بعد: اول: اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ دنیا کی زندگی گزار کر فوت ہو گئے ہیں۔ اس موقع پر سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے ‘‘وما محمد إلا رسول قد خلت من قبلہ الرسل’’ الخ[آل عمران: ۱۴۴] والی آیت تلاوت فرمائی تھی۔ ان سے یہ آیت سن کر (تمام) صحابہ کرام نے یہ آیت پڑھنی شروع کر دی۔(البخاری: ۱۲۴۱ ، ۱۲۴۲)سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسے تسلیم کر لیا۔ دیکھئے صحیح البخاری (۴۴۵۴) معلوم ہوا کہ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہے کہ نبی ﷺ فوت ہو گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے دنیا کے بدلے آخرت کو اختیار کر لیا۔ یعنی آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی زندگی اُخروی زندگی ہے جسے بعض علماء برزخی زندگی بھی کہتے ہیں۔ تنبیہ: میر محمد کتب خانہ باغ کراچی کے مطبوعہ رسالے‘‘جمال قاسمی’’ میں غلطی سے ‘‘ارواح’’ کی بجائے‘‘ازواج’’ چھپ گیاہے۔ اس غلطی کی اصلاح کے لئے دیکھئے سرفراز خان صفدر دیوبندی کی کتاب‘‘تسکین الصدور’’ (ص ۲۱۶)محمد حسین نیلوی مماتی دیوبندی کی کتاب‘‘ندائے حق’’ (ج ۱ص۵۷۲و ص ۶۳۵) یعنی بقولِ رضوی بریلوی ، احمد رضا خان بریلوی کا وفات النبی ﷺ کے بارے میں وہ عقیدہ نہیں جو محمد قاسم نانوتوی کا ہے۔ دوم: اس میں کوئی شک نہیں کہ وفات کے بعد، نبی کریم ﷺ جنت میں زندہ ہیں۔ سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں آیا ہے کہ فرشتوں (جبریل و میکائیل علیہما السلام) نے نبی کریم ﷺ سے فرمایا:‘‘إنہ بقی لک عمر لم تستکملہ، فلو استکملت أتیت منزلک’’بے شک آپ کی عمر باقی ہے جسے آپ نے (ابھی تک) پورا نہیں کیا۔ جب آپ یہ عمر پوری کر لیں گے تو اپنے (جنتی) محل میں آ جائیں گے۔(صحیح البخاری۱؍۱۸۵ح۱۳۸۶) پھر آگے وہ یہ فلسفہ لکھتے ہیں کہ یہ زندگی نہ تو ہر لحاظ سے دنیاوی ہے اور نہ ہر لحاظ سے جنتی ہے بلکہ اصحاب کہف کی زندگی سے مشابہ ہے۔(ایضاً ص۱۶۱) حالانکہ اصحابِ کہف دنیاوی زندہ تھے جبکہ نبی کریم ﷺ پر بہ اعتراف حافظ ذہبی وفات آچکی ہے لہذا صحیح یہی ہے کہ آپ ﷺ کی زندگی ہر لحاظ سے جنتی زندگی ہے۔ یاد رہے کہ حافظ ذہبی بصراحت خود آپ ﷺ کے لئے دنیاوی زندگی کے عقیدے کے مخالف ہیں۔ معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ زندہ ہیں لیکن آپ کی زندگی اُخروی و برزخی ہے، دنیا وی نہیں ہے۔ محمد قاسم نانوتوی صاحب لکھتے ہیں کہ: ‘‘رسول اللہ ﷺ کی حیات دنیوی علی الاتصال ابتک برابر مستمر ہے اس میں انقطاع یا تبدیل و تغیر جیسے حیات دنیوی کا حیات برزخی ہو جانا واقع نہیں ہوا’’ (آب حیات ص ۶۷، اور یہی مضمون) دیوبندیوں کا یہ عقیدہ سابقہ نصوص کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ یہ عام صحیح العقیدہ آدمی کو بھی معلوم ہے کہ شہداء کی زندگی اُخروی و برزخی ہے، دنیاوی نہیں ہے۔ عقیدہ حیات النبی ﷺ پر حیاتی و مماتی دیوبندیوں کی طرف سے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں مثلاً مقام حیات، آب حیات، حیات انبیاکرام، ندائے حق اور اقامۃ البرھان علی ابطال و ساوس ھدایۃ لحیران ، وغیرہ.اس سلسلے میں بہترین کتاب مشہور اہلحدیث عالم مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی‘‘ مسئلہ حیاۃ النبی ﷺ ’’ ہے جویہاں یونیکوڈ میں موجود ہے۔ سوئم: بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ، اپنی قبر مبارک پر لوگوں کا پڑھا ہوا درود بنفسِ نفیس سنتے ہیں اور بطور ِ دلیل‘‘ من صلی علی عند قبری سمعتہ’’ والی روایت پیش کرتے ہیں۔ عرض ہے کہ یہ روایت ضعیف و مردود ہے۔ اس کی دو سندیں بیان کی جاتی ہیں۔ اول: محمد بن مروان السدی عن الأعمش عن أبی صالح عن أبی ھریرۃ۔۔۔إلخ(الضعفاء للعقیلی ۴؍۱۳۶ ، ۱۳۷ وقال : لا اصل لہ من حدیث اعمش و لیس بمحفوظ الخ و تاریخ۳؍۲۹۲ت۳۷۷و کتاب الموضوعات لا بن الجوزی ۱؍۳۰۳ وقال : ھذا حدیث لا یصح الخ) اس کا راوی محمد بن مروان السدی: متروک الحدیث(یعنی سخت مجروح) ہے۔ (کتاب الضعفاء للنسائی: ۵۳۸) اس پر شدید جروح کے لئے دیکھئے امام بخاری کی کتاب الضعفاء (۳۵۰) مع تحقیقی : تحفۃ الاقویاء (ص۱۰۲) و کتب اسماء الرجال۔حافظ ابن القیم نے اس روایت کی ایک اور سند بھی دریافت کر لی ہے۔ ‘‘عبدالرحمن بن احمد الاعرج: حد ثنا الحسن بن الصباح: حد ثنا ابو معاویۃ: حد ثنا الاعمش عن ابی صالح عن ابی ہریرہ’’ الخ(جلاء الافھام ص ۵۴بحوالہ کتاب الصلوۃ علی النبی ﷺ لابی الشیخ الاصبہانی) اس کا راوی عبدالرحمن بن احمد الاعرج غیر موثق (یعنی مجہول الحال) ہے۔ سلیمان بن مہران الاعمش مدلس ہیں۔(طبقات المدلسین:۵۵؍۲والتلخیصالحبیر ۳؍۴۸ح۱۱۸۱و صحیح ابن حبان، الاحسان طبعہ جدیدہ ۱؍۱۶۱و عام کتب اسماء الرجال) اگر کوئی کہے کہ حافظ ذہبی نے یہ لکھا ہے کہ اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت سماع پر محمول ہے۔(دیکھئے میزان الاعتدال ۲؍۲۲۴)تو عرض ہے کہ یہ قول صحیح نہیں ہے۔ امام احمد نے اعمش کی ابو صالح سے (معنعن) روایت پر جرح کی ہے۔ دیکھئے سنن الترمذی (۲۰۷بتحقیقی) اس مسئلے میں ہمارے شیخ ابو القاسم محب اللہ شاہ الراشدی رحمہ اللہ کو بھی وہم ہوا تھا۔ صحیح یہی ہے کہ اعمش طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں اور غیر صحیحین میں اُن کی معنعن روایات ، عدمِ تصریح و عدمِ متابعت کی صورت میں ، ضعیف ہیں، لہذا ابو الشیخ والی یہ سند بھی ضعیف و مردود ہے۔ یہ روایت‘‘من صلی علی عند قبری سمعتہ’’ اس صحیح حدیث کے خلاف ہے جس میں آیا ہے کہ: ‘‘إن للہ فی الارض ملائکۃ سیاحین یبلغونی من أمتی السلام’’ بے شک زمین میں اللہ ے فرشتے سیر کرتے رہتے ہیں۔ وہ مجھے میری امت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں۔(کتاب فضل الصلوۃ علی النبی ﷺ للإمام إسماعیل بن إسحاق القاضی: ۲۱ و سندہ صحیح ، والنسائی ۳؍۴۳ح ۱۲۸۳، الثوری صرح بالسماع) اس حدیث کو ابن حبان(موارد:۲۳۹۲)و ابن القیم (جلاء الافہام ص ۶۰) و غیر ہما نےصحیح قرار دیا ہے۔ خلاصۃ التحقیق: اس ساری تحقیق کا یہ خلاصہ ہے کہ نبی کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں، وفات کے بعد آپ جنت میں زندہ ہیں۔ آپ کی یہ زندگی اُخروی ہے جسے برزخی زندگی بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ زندگی دنیاوی زندگی نہیں ہے۔
  4. محترم سب سے پہلے تو یہ کہ مجھپر لگی بیکار کی پابندی ہٹائیں. دوسری بات یہ کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر نص صریح پیش کی ہے. جسکے آپ خود منکر ہیں. رہی بات برزخی زندگی کی تو اللہ کے بندے برزخی زندگی غیبیات سے تعلق رکھتی ہے.
  5. کیا میری پیش کردہ حدیث بالکل واضح نہیں؟؟؟ جب اس میں صراحت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو موت آۓ گی تو کس شک کی گنجائش ہے؟؟؟ اچھا مسند ابو یعلی والی روایت کیا کہتی ہے؟؟؟؟ کیا وہ نعوذبااللہ قرآن کے مخالف ہے؟؟؟ مسند ابو یعلی والی روایت برزخی زندگی سے متعلق ہے. نہ کہ دنیوی. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قائل تھے.
  6. حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَاعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ زَبْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ بُسْرَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا إِدْرِيسَ قَالَ : سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍقَالَ : أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، وَهُوَ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَقَالَ : " اعْدُدْ سِتًّا بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ : مَوْتِي،ثُمَّ فَتْحُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، ثُمَّ مُوتَانٌ يَأْخُذُ فِيكُمْ كَقُعَاصِ الْغَنَمِ، ثُمَّ اسْتِفَاضَةُ الْمَالِ حَتَّى يُعْطَى الرَّجُلُ مِائَةَ دِينَارٍ فَيَظَلُّ سَاخِطًا، ثُمَّ فِتْنَةٌ لَا يَبْقَى بَيْتٌ مِنَ الْعَرَبِ إِلَّا دَخَلَتْهُ، ثُمَّ هُدْنَةٌ تَكُونُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي الْأَصْفَرِ، فَيَغْدِرُونَ فَيَأْتُونَكُمْ تَحْتَ ثَمَانِينَ غَايَةً ، تَحْتَ كُلِّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا ". مجھ سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن علاء بن زبیر نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے بسر بن عبیداللہ سے سنا، انہوں نے ابوادریس سے سنا، کہا کہ میں نے عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ میں غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اس وقت چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ قیامت کی چھ نشانیاں شمار کر لو، میری موت، پھر بیت المقدس کی فتح، پھر ایک وبا جو تم میں شدت سے پھیلے گی جیسے بکریوں میں طاعون پھیل جاتا ہے۔ پھر مال کی کثرت اس درجہ میں ہو گی کہ ایک شخص سو دینار بھی اگر کسی کو دے گا تو اس پر بھی وہ ناراض ہو گا۔ پھر فتنہ اتنا تباہ کن عام ہو گا کہ عرب کا کوئی گھر باقی نہ رہے گا جو اس کی لپیٹ میں نہ آ گیا ہو گا۔ پھر صلح جو تمہارے اور بنی الاصفر (نصارائے روم) کے درمیان ہو گی، لیکن وہ دغا کریں گے اور ایک عظیم لشکر کے ساتھ تم پر چڑھائی کریں گے۔ اس میں اسی جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ماتحت بارہ ہزار فوج ہو گی (یعنی نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج سے وہ تم پر حملہ آور ہوں گے)۔
  7. جناب عالی! اسکا عقیدہ یقینا اہلحدیث جیسا نہیں. صحابہ کو گالیاں ہم قطعا نہیں دیتے مرزا کذاب کے عقائد شیخ رحمہ اللہ کے جیسے قطعا نہیں. خیر آپ لوگ اس بات کو نہیں مانیں گے. میرا کام تھا بتانا سو بتا دیا.
  8. یہ شخص صحابہ کو گالی دیتا ہے. ان پر سب وشتم کرتا ہے. اسکا مسلک اہلحدیث سے کوئی واسطہ نہیں.
  9. مشرک سے نیچے بات بالکل ہوتی ہے. لیکن تعصب کی وجہ سے لوگوں کو نظر نہیں آتا. شرک کرنے والے کو مشرک کہنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے. لہذا اعتراض ہم پر کرنے کے بجائے قرآن و حدیث پر کرو
  10. حد ہے یار. میں تو کچھ سیکھنے آیا تھا. لیکن آپ ہیں کہ عالم الغیب بنے بیٹھے ہیں. آپ کو اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بتاؤ تو آپکو مرچی لگتی ہے. اور طعن وتشنیع شروع. .لہذا مجھے معاف کریں کہ میں نے کمنٹ کیا. کیونکہ علمی بات اگر سب وشتم اور طعن و تشنیع ہے تو ایسے علم سے اللہ کی پناہ
  11. مولانا صفدر صاحب لکھتے ہیں:- ’’ محدثین کا اتفاق ہے کہ مدلس راوی کی تدلیس صحیحین میں کسی طرح بھی مضر نہیں ۔ چنانچہ امام نووی ؒ لکھتے ہیں کہ صحیح بخاری و مسلم میں جو تدلیس واقع ہو ۔ وہ دوسرے دلائل سے سماعت پر محمول ہے ‘‘ الخ ( الحسن الکلام جلد ۱ ‘ ص ۲۰۰‘ ط ۲) اسی صفحہ کے حاشیہ میں مزید لکھتے ہیں۔ ’’ صحیحین کی تدلیس کے مضرنہ ہونے کا یہ قاعدہ امام نووی ؒ و ثطلانی ؒ کے علاوہ علامہ سخاوی ؒ نے فتح المغیث میں امام سیوطی ؒ نے تدریب الراوی میں اور محدث عبدالقادر القرشی نے الجو اہر المضیئہ ‘جلد ۲ ‘ ص ۴۲۹‘‘میں اور نواب صاحب نے ہدایۃ السائل میں پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے ‘‘۔ امام نوویؒ لکھتے ہیں: ''جو کچھ صحیحین میں مدلسین سے معنعن مذکور ہے وہ دوسری اسانید میں مصرح بالسماع موجود ہے۔'' [تقریب النووی مع تدریب الراوی:ج١ص٢٣٠] یعنی صحیحین کے مدلس راویوں کی عن والی روایات میں سماع کی تصریح یا متابعت صحیحین میں ہی یا دوسری کتب حدیث میں ثابت ہے۔ نیز دیکھئے النکت علی ابن الصلاح للحافط ابن حجر عسقلانی(ج٢ص٦٣٦)
  12. علمی جواب؟؟؟اللہ اکبر! کیا یہی آپ کی علمیت ہے؟؟؟ بات بات پر طعن وتشنیع؟؟؟ ستم بالائے ستم تو یہ کہ صحیحین کی معنعن روایات پر اعتراض ؟؟؟ حالانکہ یہ ایک عام فہم مسئلہ ہے
  13. استہزاء ، تحقیر اور طعن وتشنیع. اسکے علاوہ کیا ہے؟
×
×
  • Create New...