Jump to content

Rana Asad Farhan

اراکین
  • کل پوسٹس

    73
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    24

سب کچھ Rana Asad Farhan نے پوسٹ کیا

  1. جناب مقصد بتانے کا تھا کہ سند میں اختلاف ہے نسخوں کی وجہ سے اور متن میں اضطراب ہے ایک جگہ کان شعبہ ہے اور دوسری جگہ سمعت شعبہ ہے... دوسری بات منصور کا شیخ امام شعبہ اگر ہوتے تو کوئی ایک محدث انکا بام لکھ دیتا کیونکہ عام طور پر کتب رجال میں راوی کے ان شیوخ کا نام لکھا جاتا ہے یا تو جس سے روایات زیادہ ہوں یا کوئی مشہور حستی جسکے شیوخ میں ہو... اور امام جیسی ہستی کسی کی شیخ ہو اور ماہر رجال سب انکا نام نظر انداز کر دیں ایسا ہو نہیں سکتا
  2. حدیث :من زار قبري، وجبت له شفاعتي: پر غیر مقلدین کے اعتراضات کا رد بے شمار محدثین بشمول امام دارقطنی ، امام بیھقی ، امام نورالدين الهيثمي، امام خطیب بغدادی ، قاضی عیاض اور بہت سے محدثین نے اس رویت کو مختلف اسناد سے نقل کیا ہے ۔ ہم اسکی ایک سند یہاں بیان کرتے ہیں جو کہ بالکل حسن درجے کی سند ہے اسکو روایت کیا ہے امام ابو طاہر السلفی الاصبھانی ؒ (المتوفی 576ھ) وہ برقم ۔9 روایت نقل کرتے ہیں اپنی سند سے حدثنا عبيد الله بن أحمد، نا أحمد بن محمد بن عبد الخالق، نا عبيد بن محمد الوراق، نا موسى بن هلال، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من زار قبري، وجبت له شفاعتي» ] الكتاب: الجزء الخامس من المشيخة البغدادية المؤلف: صدر الدين، أبو طاهر السِّلَفي أحمد بن محمد بن أحمد بن محمد بن إبراهيم سِلَفَه الأصبهاني (المتوفى: 576هـ)[ اس روایت کے سارے راوی قوی ہیں اور یہ روایت حسن درجے کی ہے محدثین کی نظر میں ۔۔۔ غیر مقلدین اس روایت کے ایک راوی موسیٰ بن ھلال کومجہول کہہ کر اس رویت کو ضعیف قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ راوی حسن الحدیث درجے کا راوی ہے ۔ غیر مقلدین دو اماموں سے جرح پیش کرکے سادہ لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے اور نبی پاکؐ کی قبر کی زیارت کرنے کا حکم کسی صحیح یا حسن حدیث سے ثابت نہیں (معاذ اللہ) غیر مقلدین جو اعتراض پیش کرتے ہیں ان میں سے ایک امام ابو حاتم کا ہے اور دوسرا امام عقیلی کا ہے جو کہ مندرجہ زیل ہیں !! ابو حاتم موسیٰ بن ھلال کے بارے کہتے ہیں : مجھول اور امام عقیلی کہتے ہیں کہ : لَا يَصِحُّ حَدِيثُ مُوسَى وَلَا يُتَابَعُ عَلَيْهِ کہ یہ حدیث صحیح نہیں اور موسیٰ کا کوئی متابع نہیں۔ غیر مقلدین کے پاس موسیٰ بن ھلال پر ان دو اماموں سے جرح مبھم ہیں جبکہ تحقیقی بات یہ ہے کہ یہ راوی حسن الحدیث درجے کا ہے اور اس کی توثیق ثابت ہے ۔ امام ابن عدیؒ انکے بر عکس کہتے ہیں ارجو انہ لا باس بہ۔۔ یعنی ان سے حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں اور امام ذھبی ؒنے کہا کہ یہ صالح الحدیث ہیں (میزان الاعتدال برقم8937) امام ابن حجر عسقلانیؒ اپنی تصنیف التلخيص الحبير میں امام عقیلی کی یہ جرح نقل کرکے اسکا رد رد موسیٰ بن ھلال کی متابعت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وَفِي قَوْلِهِ لَا يُتَابَعُ عَلَيْهِ نَظَرٌ فَقَدْ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ مِنْ طَرِيقِ مَسْلَمَةَ بْنِ سَالِمِ الْجُهَنِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بِلَفْظِ "مَنْ جَاءَنِي زَائِرًا لَا تُعْمِلُهُ حَاجَةٌ إلَّا زِيَارَتِي كَانَ حَقًّا عَلَيَّ أَنْ أَكُونَ لَهُ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ (: التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير ج ۲ ص ۵۶۹) کہ امام عقیلی کا یہ قول :لا یتابع علیہ: یہ محل تامل ہے ۔ جبکہ امام طبرانی نے مسلمہ بن سالم سے اسکی مثل روایت بیان کی ہے ابن عمر سے ان الفاظ سے کہ جو میری قبر کی زیارت کی نیت سے آیا تو میرا حق ہے اس پر کہ میں روز قیامت کے دن اسکی شفاعت کرو تو جب امام ابن حجر عسقلانی نے انکی بات کو رد ثبوت سے کر دیا تو امام عقیلی کی جرح خود بخود ساقط ہو گئی اسی طرح امام ذھبی نے میزان الاعتدال ج ۴ ص ۶۶۴ پر موسیٰ بن ھلال کے ترجمے میں اما م ابو حاتم اور عقیلی کی جرح نقل کر کے انکا رد فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ قلت : میں کہتا ہوں کہ موسی بن ھلال صالح الحدیث ہے ۔ اسی طرح امام ابن المقلن سراج الدین الشافعی المصری (المتوفی 804ھ) اس روایت کو نقل کرنے کے بعد بسند جید کا حکم لگاتے ہیں (البدر المنير في تخريج الأحاديث ج۶ ص ۲۹۶) عرب کے محقق علامہ شعیب الارنووط جو کہ متفقہ محقق ہیں غیر مقلدین کے نزدیک بھی وہ مسند احمد کی ایک روایت جس کو امام احمد بن حنبلؒ اپنے شیخ یعنی مسیٰ بن ھلال سے روایت کرتے ہیں تو اس روایت پر حکم لگاتے ہوئے علامہ شعیب الارنووط لکھتے ہیں : حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن، موسى بن هلال -وهو العبدي شيخ المصنف- حسن الحديث، فقد روى عنه جمع، وقال ابن عدي: أرجو أنه لا بأس به، وقال الذهبي: صالح الحديث. (مسند احمد بن حنبل برقم : 12031) تو امام ابو حاتم کا مجھول کہنا مردود ہوا اور اسی طرح امام عقیلی کی جرح بھی مبھم و مردود ثابت ہوئی کیونکہ یہ مسلمہ اصول ہے کہ جب کوئی کسی کو مجھول کہے اور دوسرا امام اسکی توثیق کرے تو اس راوی کی جہالت خود بن خود ختم ہو جاتی ہے اور جب کچھ محدثین ایک راوی کی توثیق کریں اور اس پر جرح مبھم ہو تو اس پر تعدیل مقدم ہوتی ہے ۔ یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے۔ اور یہ سند حسن ہے ۔ موسیٰ بن ھلال جو العبدی ہے اور وہ شیخ یعنی استاز ہیں مصنف (امام احمد بن حنبلؒ) کے یہ حسن الحدیث ہیں ۔ امام ابن عدی نے کہا ان سے روایت لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ اور امام ذھبیؒ نے کہا یہ صالح الحدیث ہیں تو موسیٰ بن ھلال حسن الحدیث درجے کا راوی ہے اور اس پر کوئی جرح مفسر ثابت نہیں ہے ۔ اور یہ روایت حسن ہے۔ (دعا گو۔ا سد الطحاوی خادم الحدیث ۶ ستمبر 2018) تمام اسکین نیچے موجود ہیں
  3. امام طبرانی ؒ اپنی کتاب المعجم الکبیر میں با سند ایک روایت نقل کرتے ہیں جسکی سند و متن یوں ہے 1052 - حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التُّسْتَرِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ نَضْلَةَ الْمَدِينِيُّ، ثنا عَمِّي مُحَمَّدُ بْنُ نَضْلَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي مَيْمُونَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَاتَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا، ثُمَّ قَامَ يَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاةِ فَسَمِعَتْهُ يَقُولُ فِي مُتَوَضَّئِهِ: «لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ» ، ثَلَاثًا، «وَنُصِرْتُ وَنُصِرْتُ» ، ثَلَاثًا، قَالَتْ: فَلَمَّا خَرَجَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ بِأَبِي أَنْتَ سَمِعْتُكَ تَقُولُ فِي مُتَوَضَّئِكَ «لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ» ، ثَلَاثًا، «وَنُصِرْتُ نُصِرْتُ» ، ثَلَاثًا، كَأَنَّكَ تُكَلِّمُ إِنْسَانًا فَهَلْ [ص:434] كَانَ مَعَكَ أَحَدٌ؟ قَالَ: «هَذَا رَاجِزُ بَنِي كَعْبٍ يَسْتَصْرِخُنُي، وَيَزْعُمُ أَنَّ قُرَيْشًا أَعَانَتْ عَلَيْهِمْ بَنِي بَكْرٍ» ، ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَ عَائِشَةَ أَنْ تُجَهِّزَهُ وَلَا تُعْلِمُ أَحَدًا، قَالَتْ: فَدَخَلَ عَلَيْهَا أَبُوهَا فَقَالَ: يَا بُنَيَّةُ مَا هَذَا الْجِهَازُ؟ قَالَتْ: وَاللهِ مَا أَدْرِي، قَالَ: مَا هَذَا بِزَمَانِ غَزْوِ بَنِي الْأَصْفَرِ فَأَيْنَ يُرِيدُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: لَا عِلْمَ لِي، قَالَتْ: فَأَقَمْنَا ثَلَاثًا، ثُمَّ صَلَّى الصُّبْحَ بِالنَّاسِ فَسَمِعْتُ الرَّاجِزَ يَنْشُدُهُ: [البحر الرجز] يَا رَبِّ إِنِّي نَاشِدٌ مُحَمَّدًا ... حِلْفَ أَبِينَا وَأَبِيهِ الْأَتْلُدَا إِنَّا وَلَدْنَاكَ فَكُنْتَ وَلَدًا ... ثَمَّةَ أَسْلَمْنَا فَلَمْ تَنْزَعْ يَدًا إِنَّ قُرَيْشًا أَخْلَفُوكَ الْمَوْعِدَ ... وَنَقَضُوا مِيثَاقَكَ الْمُؤَكَّدَا وَزَعَمَتْ أَنْ لَسْتَ تَدْعُو أَحَدًا ... فَانْصُرْ هَدَاكَ اللهُ نَصْرًا أَلْبَدَا وَادْعُ عَبَادَ اللهِ يَأْتُوا مَدَدًا ... فِيهِمْ رَسُولُ اللهِ قَدْ تَجَرَّدَا أَبْيَضُ مِثْلُ الْبَدْرِ يُنَحِّي صُعُدًا ... لَوْ سِيمَ خَسَفَا وَجْهِهِ تَرَبَّدَا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نُصِرْتُ، ثَلَاثًا، أَوْ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ، ثَلَاثًا،» ثُمَّ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا كَانَ بِالرَّوْحَاءِ نَظَرَ إِلَى سَحَابٍ مُنْتَصِبٍ فَقَالَ: «إِنَّ هَذَا السَّحَابَ لَيَنْتَصِبُ بِنَصْرِ بَنِي كَعْبٍ» ، فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي نَصْرِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ عَمْرٍو أَخُو بَنِي كَعْبِ بْنِ عَمْرٍو فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ وَنُصِرَ بَنِي عَدِيٍّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَرِبَ خَدُّكَ وَهَلْ عَدِيٌّ إِلَّا كَعْبٌ وَكَعْبٌ إِلَّا عَدِيٌّ، فَاسْتُشْهِدَ ذَلِكَ الرَّجُلُ فِي ذَاكَ السَّفَرِ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ عَمِّ عَلَيْهِمْ خَبَرَنَا حَتَّى نَأْخُذَهُمْ بَغْتَةً» ، ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى نَزَلَ مَرْوَ وَكَانَ أَبُو سُفْيَانَ وَحَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ وَبُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ قَدْ خَرَجُوا تِلْكَ اللَّيْلَةَ فَأَشْرَفُوا عَلَى مَرْوِ فَنَظَرَ أَبُو سُفْيَانَ إِلَى النِّيرَانِ فَقَالَ: يَا بُدَيْلُ لَقَدْ أَمْسَكَتْ بَنُو كَعْبٍ أَهْلَهُ فَقَالَ: حَاشَتْهَا إِلَيْكَ الْحَرْبُ، ثُمَّ هَبَطُوا فَأَخَذَتْهُمْ مُزَيْنَةُ وَكَانَتْ عَلَيْهِمُ الْحِرَاسَةُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ فَسَأَلُوهُمْ أَنْ يَذْهَبُوا بِهِمْ إِلَى الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَذَهَبُوا بِهِمْ فَسَأَلَهُ أَبُو سُفْيَانَ أَنْ يَسْتَأْمِنَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ بِهِمُ الْعَبَّاسُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ خَرَجَ بِهِمْ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: إِنَّا نُرِيدُ أَنْ نَذْهَبَ فَقَالَ: أَسْفِرُوا فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ، فَابْتَدَرَ الْمُسْلِمُونَ وُضُوءَهُ يَنْضَحُونَهُ فِي وُجُوهِهِمْ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: يَا أَبَا الْفَضْلِ لَقَدْ أَصْبَحَ مُلْكُ ابْنِ أَخِيكَ عَظِيمًا، فَقَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ بِمُلْكٍ وَلَكِنَّهَا النُّبُوَّةُ وَفِي ذَلِكَ يَرْغَبُونَ حضرت اُمّ المؤمنین میمونہؓ فرماتی ہیں انہوں نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کرتے ہوئے تین مرتبہ لبیک لبیک لبیک کہی اور تین مرتبہ نصرت نصرت نصرت (تمہاری امداد کی گئی) فرمایا۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! میں نے آپؐ کو تین مرتبہ لبیک اور تین مرتبہ نصرت فرماتے ہوئے سنا جیسے آپ کسی انسان سے گفتگو فرما رہے ہوں۔ کیا وضو خانے میں کوئی آپ کے ساتھ تھا؟ آپؐ نے فرمایا: یہ بنو کعب کا رِجز خواں مجھے مدد کے لئے پکار رہا تھا اور اس کا کہنا ہے کہ قریش نے ان کے خلاف بنوبکر کی امداد کی ہے۔ تین دن کے بعد آپ ؐ نے صحابہ کو صبح کی نمازپڑھائی تو میں نے سنا کہ رِجز خواں اشعار پیش کررہاتھا حالانکہ وہ (عمر بن سالم راجز) اس وقت مکہ میں تھا اور قریش کی عہد شکنی پر اس نے حضور علیہ السلام سے فریاد کی۔بنو خزاعہ جو کہ حضور علیہ السلام کے صلح حدیبیہ کے بعد حلیف بنے اور بنو قریش کے حلیف بنے اور معاہدہ ہوا کہ دس سال تک جنگ نہ کریں گے قریش نے بد عہدی کی اور بنو بکر کے ساتھ مل کر بنو خزاعہ کا قتل عام کیا اس وقت جناب راجز نے مکے میں ہی حضور علیہ السلام کو مدد کے لئے پکارا بعد ازاں حضور نے قریش پر چڑھائی کی اور مکہ فتح ہو گیا اور طرح ظاہری و باطنی امداد کا ظہور ہوا اس یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ نبی پاک سے تین دن کی دوری پر بھی مدد کے امداد مانگنے کے لیے نبی پاک کو پکارتے اور نبی پاک بھی اللہ کی عطا و طاقت سے انکی پکار سنتے بھی اور امداد بھی کرتے ۔۔ جس کو آج کل غیر مقلدین نے شرک سمجھ لیا ہے ۔ صحابہ کرام نے اسکو شرک نہ سمجھا اور نہ ہی نبی پاک نے انکو یہ عمل کرنے سے روکا بلکہ انکی امداد فرمائی !!! اس روایت کو امام طبرانی کے علاوہ ایک اور محدث نے بھی نقل کیا ہے ۔ جن کا نام ہے امام محمد بن عبد الرحمن بن العباس بن عبد الرحمن بن زكريا البغدادي المخَلِّص (المتوفى: 393هـ) وہ اس روایت کو اپنی سند سے نقل کرتے ہیں جسکی سند و متن کچھ ایسے ہے 19 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَاعِدٍ , قثنا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ نَضْلَةَ , عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , عَنْ مَيْمُوَنَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ , زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , بَاتَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا ثُمَّ قَامَ فَتَوَضَّأَ لِلصَّلاةِ فَسَمِعَتْهُ , يَقُولُ: " لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ ثَلاثًا , أَوْ نُصِرْتَ نُصِرْتَ ثَلاثًا.بلخ۔۔۔۔۔۔ (الكتاب: العاشر من الفوائد من حديث المخلص برقم الحدیث 19) اس سند کے سارے راوی ثقہ ہیں اور اس سند میں کوئی ضعف نہیں ہے ۔ لیکن غیر مقلدین کے عقائد کے خلاف جو بھی روایت انکو نظر آئے تو یہ اسکو ضعیف یا موضوع بنانے سے بعض نہیں آتے ایسا ہی کچھ وہ اپنی ویب سائٹ پر اس روایت پر کیے ہوئے ہیں ۔ خیر میں انکی ایک ایک جرح یا علت جسکو وہ بیان کر کے اپنے مسلک کے سادہ لوگوں کو پاگل بناتے ہیں تحقیق کے نام پر ۔۔ اور وہ لوگ انکی کاپی پیسٹ تحقیق کو اٹھا کر اہلسنت پر ہنستے ہیں ۔۔۔ غیر مقلدین کے اعتراضات کا رد بلیغ ۱۔امام ہیثمیؒ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں کہ ''رواہ الطبراني في الصغير والكبير وفيه يحي سليمان بن نضلة وھو ضعيف'' (مجمع الزوائد :۶؍۱۶۴) ''اسے امام طبرانی نے المعجم الکبیر اور المعجم الصغیر میں روایت کیا ہے اور اس کی سند میں یحییٰ بن سلیمان نامی راوی ضعیف ہے۔'' امام ذہبیؒ اور حافظ ابن حجرؒ نے بھی اس راوی پر کلام کیا ہے۔ ملاحظہ ہو میزان الاعتدال : ۳؍۲۹۲ اور لسان المیزان :۶؍۲۶۱ ۲۔اس کی سند میں محمد بن عبداللہ نامی راوی کے بارے میں امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ لایعرف(میزان الاعتدال :۳؍۸۳) یعنی یہ راوی مجہول ہے اور مجہول راوی کی روایت ضعیف کہلاتی ہے۔ ۳۔اس کی سند میں محمد بن نضلہ نامی راوی کے حالات کتب ِرجال سے نہیں ملتے لہٰذا یہ بھی کوئی مجہول راوی ہے۔ غیر مقلدین کی طرف سے پیش کیے گئے پہلے اعتراض کا جواب۔۔۔۔۔ امام ہیثمی نے یہاں سلیمان بن نضلة کو ضعیف کہہ دیا لیکن انکی حسب عادت کے خلاف انہوں نے یہاں کسی امام کا حوالہ نہ لکھا بلکہ بغیر کسی امام کی جرح لکھی انکو ضعیف کہہ دیا ۔ جبکہ کتب رجال میں جب آپ سلیمان بن نضلة کے بارے میں پڑھتے ہیں تو امام ابن صاعد انکے بارے میں فرماتے ہیں کہ انکا رتبہ بہت بلند و اعلیٰ تھا ۔ امام ابن حبان انکو الثقات میں درج کرتے ہیں اور لکھتے ہیں وھم بھی کر جاتا تھا ۔ (یہ کوئی جرح مفسر نہیں اور نہ ہی اس سے راوی ضعیف ہوتا ہے یہ بالکل ہلکی پھلکی بات ہے جس سے راوی حسن الحدیث درجے کا تو ضرور رہتا ہے ۔) اس راوی پر آ جا کر جرح ملتی ہے تو فقط ایک بندے سے جسکا نام ابن خراش ہے وہ کہتا ہے کہ یہ (سلیمان بن نضلة ) کسی ٹکے کا نہیں ہے پہلی بات یہ جرح کس بنیاد پر کی گئی اسکی وجہ معلوم نہیں اور یہ جرح کے کس درجے کی جرح ہے یہ بھی نہین لکھا غیر مقلدین نے۔ دوسری بات یہ جرح کرنے والا ابن خراش خود شیعہ رافضی اور کذاب ہے امام ذھبی سیر اعلام النبلاء میں اسکے ترجمہ یوں بیان کرتے ہیں ابن خراش الحافظ ، الناقد ، البارع أبو محمد ، عبد الرحمن بن يوسف بن سعيد بن خراش ، المروزي ثم البغدادي وقال ابن عدي : قد ذكر بشيء من التشيع ، وأرجو أنه لا يتعمد الكذب وقال أبو زرعة محمد بن يوسف الحافظ : خرج ابن خراش مثالب الشيخين ، وكان رافضيا امام ذھبی اس پر امام ابن عدی اور ابو زرعہ کی طرف سے رافضی شیعہ اور کذب کی جرح لکھنے کے بعد اپنا فیصلہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں قلت : هذا معثر مخذول ، كان علمه وبالا ، وسعيه ضلالا ، نعوذ بالله من الشقاء (امام ذھبی کہتے ہیں )میں کہتا ہوں یہ بے یار و مددگار گروہ ہے انکا علم ایک وبال مصیبت ہے اور انکی کوشش گمراہی ہے ہم اللہ سے انکی بد بختی سے پناہ مانگتے ہیں ایسے شخص جو خود رافضی کذب بیانی کرنے والا ہو اسکی طرف سے کی گئی جرح سے ایک حسن الحدیث درجے کے راوی کو ضعیف مان لینا غیر مقلدین کا ہی مذہب ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرا عتراض غیر مقلدین سے یہ ہے کہ اسکی سند میں محمد بن عبداللہ نامی راوی مجہول ہے ۔ الجواب: اس راوی کی متابعت دوسرے راوی امام یحییٰ بن محمد بن صاعد نے کر رکھی ہے اور یہ راوی سلیمان بن نضلہ سے سماع کرنے والے ہیں او رحفاظ الحدیث میں سے ہیں ۔ امام خطیب بغدادی انکے ترجمے میں فرماتے ہیں 7489- يَحْيَى بْن مُحَمَّد بْن صاعد بْن كاتب أَبُو مُحَمَّد مولى أبي جَعْفَر المنصور كَانَ أحد حفاظ الحديث، وممن عُني بِهِ، ورحل فِي طلبه، وسمع: الْحَسَن بْن عيسى بْن ماسرجس، وَمُحَمَّد بْن سُلَيْمَان لوينًا، ويحيى بْن سُلَيْمَان بْن نضلة الخزاعي، (ج 16 ص 341) تو یہ اعتراض بھی باطل ہوا ۔۔۔۔ تیسرا اعتراض: کہ اسکی سند میں محمد بن نضلہ کے حالات کتب رجال میں نہیں ملے لہذا یہ مجہول ہے الجواب: اس روایت کا ایک اور حوالہ امام محمد بن عبد الرحمن بن العباس بن عبد الرحمن بن زكريا البغدادي المخَلِّص (المتوفى: 393هـ) کی کتاب کا دیا ہے جس میں یہ راوی موجود ہی نہیں تو غیر مقلدین کا اس راوی کی توثیق کا مطالبہ کرنا ہی بیکار ہوا تیسری اہم بات غیر مقلدین سلیمان بن نضلة کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے فقط امام الہیثمی کا قول نقل کرتے ہیں ۔ اگر اس سند میں انکے علاوہ کوئی مجہول راوی ہوتا تو امام ہیثمی اسکا زکر پہلے کرتے پھر اس راوی کا ضعف بتاتے لیکن امام ہیثمی نے صرف ان کی ضعف کی طرف اشارہ کیا اور کسی راوی پر جرح نہیں کی یعنی انکے نزدیک طبرانی کی سند میں صرف ایک ضعف انکے نزدیک تھا کہ سلیمان بن نضلہ ضعیف ہے اور جبکہ اس پر جرح ہی مبھم ہے اور جرح کرنے والا خود رافضی ہے اور دوسرے راوی پر مجہو ل کا الزام لگایا جبکہ وہ صحابہ میں سے ہے اور اسکی دوسری سند میں یہ راوی ہی نہیں تو یہ اعتراض بھی باطل ہوا اور یہ سند کم از کم حسن الحدیث درجے کی سند ہے ۔۔۔ وہابیہ کی ایک ویب سائٹ اسلامی ویب پر بھی اس سند کو حسن قرار دیا گیا ہے جس کا عکس تمام ثبوت کے اسکین کے ساتھ نیچے موجود ہے (((((((( دعا گو۔ رانا اسد فرحان الطحاوی الحنفی ✍️ 28 اگست 2018)))))
  4. توسل النبیِﷺ بعد از وصال حضرت عثمان بن حنیفؓ کی روایت پر غیر مقلدین کا رد بلیغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام طبرانی اپنی معجم الصغیر میں ایک روایت نقل کرتے ہیں جسکی سند و متن یوں ہے ، 508 - حَدَّثَنَا طَاهِرُ بْنُ عِيسَى بْنِ قَيْرَسَ المُقْرِي الْمِصْرِيُّ التَّمِيمِيُّ، حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ الْمَدَنِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ " أَنَّ رَجُلًا كَانَ يَخْتَلِفُ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي حَاجَةٍ لَهُ , فَكَانَ عُثْمَانُ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ , وَلَا يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ , فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حَنِيفٍ , فَشَكَا ذَلِكَ إِلَيْهِ , فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حَنِيفٍ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ قُلِ: اللَّهُمَّ , إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّكَ عَزَّ وَجَلَّ فَيَقْضِي لِي حَاجَتِي , وَتَذْكُرُ حَاجَتَكَ , وَرُحْ إِلَيَّ حَتَّى أَرُوحَ مَعَكَ , فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ , فَصَنَعَ مَا قَالَ لَهُ عُثْمَانُ , ثُمَّ أَتَى بَابَ عُثْمَانَ , فَجَاءَ الْبَوَّابُ حَتَّى أَخَذَ بِيَدِهِ , فَأَدْخَلَهُ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ , فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَى الطِّنْفِسَةِ , وَقَالَ: حَاجَتُكَ؟ فَذَكَرَ حَاجَتَهُ , فَقَضَاهَا لَهُ , ثُمَّ قَالَ لَهُ: مَا ذَكَرْتَ حَاجَتَكَ حَتَّى كَانَتْ هَذِهِ السَّاعَةُ , وَقَالَ: مَا كَانَتْ لَكَ مِنْ حَاجَةٍ , فَأْتِنَا , ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ , فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَيْفٍ , فَقَالَ: لَهُ جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا , مَا كَانَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِي , وَلَا يَلْتَفِتُ إِلَيَّ حَتَّى كَلَّمْتَهُ فِي , فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: وَاللَّهِ , مَا كَلَّمْتُهُ وَلَكِنْ شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَأَتَاهُ ضَرِيرٌ , فَشَكَا عَلَيْهِ ذَهَابَ بَصَرِهِ , فَقَالَ: لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «أَفَتَصْبِرُ؟» , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ , وَقَدْ شَقَّ عَلَيَّ , فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «ائْتِ الْمِيضَأَةَ , فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ صَلِّ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ ادْعُ بِهَذِهِ الدَّعَوَاتِ» قَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: فَوَاللَّهِ , مَا تَفَرَّقْنَا وَطَالَ بِنَا الْحَدِيثُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْنَا الرَّجُلُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِهِ ضَرَرٌ قَطُّ " لَمْ يَرْوِهِ عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ إِلَّا شَبِيبُ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو سَعِيدٍ الْمَكِّيُّ وَهُوَ ثِقَةٌ وَهُوَ الَّذِي يُحَدِّثُ عَنِ أَحْمَدَ بْنِ شَبِيبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ الْأُبُلِّيِّ , وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ شُعْبَةُ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ وَاسْمُهُ عُمَيْرُ بْنُ يَزِيدَ , وَهُوَ ثِقَةٌ تَفَرَّدَ بِهِ عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ بْنِ فَارِسِ عْنِ شُعْبَةَ، **وَالْحَدِيثُ صَحِيحٌ** وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَوْنُ بْنُ عُمَارَةَ , عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ , عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهِمَ فِيهِ عَوْنُ بْنُ عُمَارَةَ وَالصَّوَابُ: حَدِيثُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ ایک شخص سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی ضرورت میں آیا کرتا تھا اور عثمان رضی اللہ عنہ (مشغولیت کی وجہ سے ) اس کی طرف متوجہ نہ ہوتے اور اس کی ضرورت میں غور نہ فرماتے۔ وہ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے شکایت کی۔ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : لوٹا لاؤ، وضو کرو، پھر مسجد جا کر دو رکعت نماز پڑھو، پھر کہو : اللھم ! إني أسئلك، وأتوجه إليك بنبينا محمد صلي الله عليه وسلم نبي الرحمة، يامحمد ! إني أتوجه إلي ربي، فيقضي حاجتي . (یا اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور اپنے نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تیری طرف متوجہ کرتا ہوں۔ یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں آپ کو اپنے رب کی طرف (دعا کے لیے) متوجہ کرتا ہوں کہ وہ میری ضرورت کو پورا کر دے۔ ) پھر اپنی ضرورت کو اللہ کے سامنے رکھ دو، پھر میرے پاس آ جاؤ تاکہ میں تمہارے ساتھ چلوں۔ اس شخص کی ضرورت پوری ہوئی۔ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہی دعا ایک نابینا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی تو اس کی بینائی لوٹ آئی امام طبرانی یہ روایت نقل کر کے اسکے مختلف طرق بھی نقل کرتے ہیں جن میں یہ روایت مختصر ہے اور امام طبرانی طرق نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں والحدیث صحیح ۔ (التاريخ الكبير للبخاري : 210/6، العلل لابن أبي حاتم الرازي : 190/2، المعجم الكبير للطبراني : 31، 30/9، ح : 8311، المعجم الصغير للطبراني : 184، 183/1، الدعاء للطبراني : 1287/2، 1288، ح : 1050، معرفة الصحابة لأبي نعيم لأصبھاني : 1959/4، 1960، ح : 4928) ********سب سے پہلے اس روایت پر غیر مقلدین کے اعتراض نقل کرکے اسکا رد بلیغ پیش کرتے ہیں************ اعتراض: اس کی سند ’’ضعیف“ ہے، کیونکہ عبداللہ بن وہب مصری یہ روایت اپنے استاذ شبیب بن سعید حبطي (ثقہ ) سے کر رہے ہیں اور خود شبیب بن سعید اپنے استاذ روح بن القاسم سے روایت کر رہے ہیں۔ امام الجرح والتعدیل ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ولشبيب بن سعيد، نسخة الزھري عنده، عن يونس عن الزھري، وھي أحاديث مستقيمة، وحدث عنه ابن وھب بأحاديث مناكير . ”شبیب کے پاس امام زہری رحمہ اللہ کی روایات پر مشتمل ایک نسخہ ہے جو وہ یونس کے واسطے سے زہری سے بیان کرتے ہیں اور وہ مستقیم احادیث ہیں۔ تاہم ابن وہب نے اس سے منکر احادیث بیان کی ہیں۔“ (الكامل لابن عدي : 31/4) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا باس بحديثه من رواية ابنه أحمد عنه، لا من رواية ابن وھب . ’’اس کی جو روایات اس کے بیٹے سے مروی ہیں، ان میں کوئی خرابی نہیں، البتہ ابن وہب سے اس کی جو روایات مروی ہیں، ان میں خرابی ہے۔“ (تقريب التھذيب : 2739) نیز فرماتے ہیں : وروي عنه ابن وھب أحاديث مناكير، فكأنه لما قدم مصر، حدث من حفظه، فغلط . ’’اس سے ابن وہب نے منکر احادیث بیان کی ہیں، گویا کہ جب یہ مصر آیا تو اس نے اپنے حافظے سے روایات بیان کیں اور غلطیاں کیں۔“ (ھدي الساري، ص : 409) یہ روایت بھی شبیب بن سعید سے عبداللہ بن وہب مصری بیان کر رہے ہیں۔ یہ جرح مفسر ہے، لہٰذا یہ روایت ’’ضعیف“ اور ’’منکر“ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ شبیب بن سعید جب مصر میں گیا تو وہاں اس نے اپنے حافظہ سے احادیث بیان کیں، جن میں سے وہ غلطی اور وہم کا شکار ہو گیا۔ شبیب بن سعید ابوسعید البصری کی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔ جواب : حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۷۷۳۔ ۸۵۲ھ) لکھتے ہیں : أخرج البخاري من رواية ابنه (أحمد) عن يونس (بن يزيد الأيلي) أحاديث، لم يخرج من روايته عن غير يونس، ولا من رواية ابن وھب عنه شيئا … ”امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے بیٹے سے وہ روایات لی ہیں جو وہ اپنے والد سے یونس بن یزید ایلی کے واسطے سے بیان کرتا ہے۔ امام صاحب نے شبیب کی وہ روایات بیان نہیں کیں جو وہ یونس کے علاوہ کسی اور سے بیان کرتا ہے، نہ ہی ابن وہب سے ان کی کوئی روایت بخاری میں ہے۔“ (ھدي الساري، ص : 409) حاصل کلام یہ ہے کہ شبیب بن سعید سے ان کے شاگرد عبداللہ بن وہب مصری بیان کریں تو روایت ’’منکر“ اور ’’ضعیف“ ہوتی ہے۔ زیر بحث روایت بھی عبداللہ بن وہب المصری بیان کر رہے ہیں، اس لیے یہ ”منکر“ اور ’’ضعیف“ ہے، لہٰذا امام طبرانی رحمہ اللہ کا اس کو ”صحیح“ کہنا صحیح نہ ہوا۔ ****غیر مقلدین کے اعتراض کا رد **** غیر مقلدین ھدی الساری سے امام ابن حجر کی عبارت نقل کرتے ہیں جو انہوں نےامام ابن عدی کے حوالے سے نقل کے اسکے جواب میں لکھتے ہیں سب سے پہلے ہم وہ عبارت مکمل پیش کرتے ہیں ۔۔۔ شبیب بن سعید ابوالحبطی ابو سعید البصری وثقہ ابن المدینی و ابو زرعہ ، و ابو حاتم و نسائی و الدارقطنی و الذھلی، وقال ابن عدی: عندہ لنسختہ عن یونس عن الزھری مستقیمتہ ، وروی عنہ ابن وہب احادیث مناکیر فکانہ للا قدم مصر حدث من حفظہ فغلط و اذا حدث عنہ ابنہ احمد فکانہ شبیب آخر لانہ یجود عنہ، قلت: اخرج البخاری من روایہ ابنہ عن یونس احادیث ، ولم یخرج من روایہ عن غیر یونس ولا من روایہ ابن وہب عنہ شئیا۔۔۔ امام ابن حجر عسقلانیؒ نے پہلے امام نسائی ، امام علی بن مدینی ، امام دارقطنی ، امام ابو زرعہ، امام ابو حاتم اور امام الذھلی سے شبیب بن سعید کی صریح توثیق بیان کی ہے کہ شبیب بن سعید کو مندرجہ اماموں نے ثقہ قرار دیا ہے ۔ پھر اسکے ساتھ امام ابن حجرعسقلانیؒ امام ابن عدی کا قول نقل کر کے اسکا بخاری کی صیحت پر اسکے اثر کو ختم کرتے ہیں ۔ چناچہ وہ لکھتتے ہیں کہ امام ابن عدی نے کہا کہ (شبیب بن سعید) کے پاس نسخہ تھا جو وہ یونس کے حوالے سے زھری سے روایت کرتے تھے وہ مستقیم یعنی محفوظ تھا اور ابن وہب نے اس سے احادیث مناکیر بیان کی ہیں کیونکہ جب وہ مصر گئے تو اپنے حافظے سے غلط بیان کر دیا اور ان سے انکا بیٹااحمد بھی روایت کرتا ہے۔ میں(ابن حجر) کہتا ہوں کہ بخاری نے کوئی بھی روایت شبیب کی اپنی صحیح میں درج نہیں کی جو بغیر یونس سے روایت کرے یا جس میں اس سے ابن وہب بیان کرتاہو۔ اس پوری عبارت کو شروع سے نقل کرنے سے یہ معلوم ہو گیا کہ امام ابن حجر نے جمہور محدثین سے پہلے اسکی صریح توثیق بیان کی پھر ایک امام ابن عدی کا قول نقل کیا جو کہ خاص امام زھری کے نسخے کے حوالے سے ہے کہ شبیب جب زھری کا نسخہ یونس کے حوالے سے بیان کرتا تھا تو ابن وہب نے اس سے مناکیر بیان کیں ۔ اس یہ بات ثابت ہو گئی کہ شبیب صحیح بخاری کا راوی ہونے کے ساتھ ثقہ ہے اور زھری کے نسخے والی روایات بیان کرنے سے اسکے حافظے سے غلطی و وھم ہوا جس کی وجہ سے ابن وہب نے ان سے مناکیر بیان کر دیں۔ تو محدثین نے شبیب کی روایات میں سے مناکیر کی نشاندہی کرنے کے لیے یہ شرط لگائی جب شبیب بن سعید سے ابن وہب زھری کے نسخے والی روایت بیان کرےگا تو وہ ضعیف ہوگی۔ تقریب التہذیب میں امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں لا باس بحديثه من رواية ابنه أحمد عنه، لا من رواية ابن وھب . ’’اس کی جو روایات اس کے بیٹے سے مروی ہیں، ان میں کوئی خرابی نہیں، البتہ ابن وہب سے اس کی جو روایات مروی ہیں، ان میں خرابی ہے۔“ (تقريب التھذيب : 2739) امام ابن حجر عسقلانی نے شبیب بن سعید کے بارے اپنا موقف واضع بیان کر دیا کہ شبیب بن سعید کی حدیث مٰیں کوئی حرج نہیں جب اس سے اسکا بیٹا روایت کرے لیکن جب ابن وہب بیان کرے گا تو اس میں خرابی ہوگی ۔ ۔ امام ابن حجر عسقلانی کے اس واضع ترجمے سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ شبیب بن سعید جب کوئی ایسی روایت بیان کرے جس میں اسکا بیٹا اس سے روایت کر رہا ہو اور اس سند میں ابن وہب موجود نہ ہو تو وہ روایت بقول ابن حجر عسقلانیؒ اور دیگر محدثین کرام کے اصول کے مطابق صحیح قرار پائے گی ۔ تو اس طرح امام ابو جعفر دستوریہ مشیخہ سفیان الفسوی میں اس روایت اپنی سند سے یوں بیان کرتے ہیں 113- حَدَّثَنَا عَبْدُ الله بن جعفر، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَديني، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ , عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ: أَنَّ رَجُلاً كَانَ يَخْتَلِفُ إِلَى عثمان بن عفان في حاجة , فَكَانَ عُثْمَانُ لاَ يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ , وَلاَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ , فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حَنِيفٍ , فَشَكَا ذَلِكَ إِلَيْهِ , فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حَنِيفٍ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ قُلِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّي مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي تقضي حَاجَتِي , تَذْكُرُ حَاجَتَكَ , ثم رح حَتَّى أَرُوحَ , فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ , فَصَنَعَ ذلك , ثُمَّ أَتَى بَابَ عُثْمَانَ بن عفان، فجاء البواب، فأخذ بيده فأدخله على عثمان , فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَى الطِّنْفِسَةِ , فقَالَ له: حَاجَتُكَ؟ [7/أ] فَذَكَرَ له حَاجَتَهُ , فَقَضَاهَا، ثم قَالَ ما فهمت حَاجَتَكَ حَتَّى كَانَ السَّاعَة، وقال انظر مَا كَان لَكَ مِنْ حَاجَةٍ ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ فَلَقِي عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ، فقال له: جزاك الله خيرًا، ما كان ينظر في حاجتي، ولا يلتفت إلي حتى كلمته، فقال عثمان بن حنيف: ما كلمته ولكني سَمِعْتُ رَسُول الله صَلَّىَ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَاءَه ضَرِيرٌ فَشَكَى إِلَيْهِ ذَهَابَ بَصَرِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّىَ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَتَصْبِر؟ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ وَقَدْ شَقَّ عَلَيَّ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ صَلِّ رَكْعَتَيْنِ، ثم قل اللَّهُمَّ أَسْأَلُكَ، وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّي مُحَمَّدٍ، نَبِيَّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي، فَيجْلِي لي بَصَرِي، اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ وَشَفِّعْنِي فِي نَفْسِي، فقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: فَوَاللَّهِ مَا تَفَرَّقْنَا وَطَالَ بِنَا الْحَدِيثُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْنَا الرَّجُلُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِهِ ضرر قَطُّ. (مشیخہ الفسوی) اس سند کے سارے رجال ثقہ ہیں اور اس سند میں شبیب بن سعید سے انکا بیٹا روایت بیان کر رہا ہے اور اس میں ابن وہب بھی نہیں ہے تو یہ روایت جمہور محدثین کے اصول کے مطابق صحیح قرار پائے گی اعتراض: شبیب بن سعید کے بارے میں تو ابن حجر نے کہا کہ بخاری نے اپنی صحیح مٰیں شبیب بن سعید کی بغیر یونس سے کوئی روایت نہیں لی اسکا مطلب شبیب بن سعید کی روایت کے صحیح ہونے کے لیے یہ لازم ہوگا کہ یونس سے جب شبیب روایت کرے اور ابن وہب ان سے بیان نہ کرے تو تب روایت صحیح ہوگی الجواب: یہ اعتراض غیر مقلدین کی جہالت یا دھوکےبازی ہے کیونکہ اوپر ثابت کر چکے کہ امام ابن عدی نے یہ اعتراض صرف زھرے کے نسخے کے تحت کیا کہ شبیب کے پاس جو نسخہ تھا وہ تو محفوظ تھا لیکن ابن وہب نے اس سے مناکیر روایت کی ہیں ۔ تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ امام ابن عدی نے زھری کے نسخے کے حوالے سے ابن وہب کا شبیب بن سعید سے روایت کرنے پر یہ جرح کی ہے ۔ یہ جرح زہری کے نسخے والی روایت کے ساتھ ہے نہ کہ شبیب بن سعید کے مطلق روایت پر یہ جرح ہے بس جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی نے فیصلہ دیا کہ شبیب بن سعید کی روایت جو اسکا بیٹا اس سے روایت کرے گا اس مٰں کوئی حرج نہیں ۔ (اس میں یونس سے روایت کرنے کی کوئی شرط نہیں ہے) البتہ ابن وہب جب بیان کرتا ہے شبیب بن سعید سے تو تب روایت ضعیف قرار پائے گی خرابی کی وجہ سے ۔ لیکن غیر مقلدین کیونکہ ضدی ہوتے ہیں جب تک انکو ثبوت سے چپ نہ کرایا جائے بات سمجھ آنے کے باوجود بھی یہ ضد جاری رکھتے ہیں تو امام الحاکم نے مستدرک الصحیحین میں شبیب بن سعدکی اس روایت کے مختصر متن جو کہ اسکا بیٹااس سے روایت کررہا ہے اس میں ابن وہب نہیں ہے اس روایت کے مطلق لکھا ھذا حدیث صحیح علی شرط بخاری (المستدرک الحاکم برقم1930) اور تعلخیص میں امام ذھبیؒ نے بھی شبیب بن سعید سے اسکے بیٹے سے مروی روایت جو بغیر یونس اور بغیر ابن وہب کے ہے اسکو بخاری کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔ امام بیھقی نے دلائل نبوہ میں حضرت عثمان بن حنف سے بعد از وصال والی روایت روایت کو نقل کر کے اسکے بعد اسکی تین اسناد لکھی ہیں جو یہ ہیں ۱۔أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ الزَّاهِدُ، رَحِمَهُ اللهُ، أَنْبَأَنَا الْإِمَامُ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيِّ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الشَّاشِيُّ الْقَفَّالُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو عَرُوبَةَ، حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَدِينِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ بلخ۔۔۔ ۲۔وَقَدْ رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ أَيْضًا بِطُولِهِ . أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ شَاذَانَ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ دُرُسْتَوَيْهِ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ، فَذَكَرَهُ بِطُولِهِ . وَهَذِهِ زِيَادَةٌ أَلْحَقْتُهَا بِهِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَأَرْبَعِينَ اور تیسری سند یوں بیان کی ، وَرَوَاهُ أَيْضًا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ عَمِّهِ وَهُوَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ امام بیھقی کی دلائل نبوہ میں اسکی تین اسناد بیان کی ہیں ہم نمبر ۲ پر جو سند بیان کی ہےامام بیھقی نے اسکے رجال کی تحقیق پیش کرتے ہیں پہلا راوی ابْنُ شَاذَانَ الحَسَنُ بنُ أَحْمَدَ بنِ إِبْرَاهِيْمَ البَغْدَادِيُّ امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں الإِمَامُ، الفَاضِلُ، الصَّدُوْقُ، مُسْنِدُ العِرَاق، أَبُو عَلِيٍّ الحَسَنُ بنُ أَبِي (سیر اعلام النبلاء جلد 17، ص 445) دوسرا راوی ابْنُ دَرَسْتَوَيْه عَبْدُ اللهِ بنُ جَعْفَرٍ الفَارِسِيُّ امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں الإِمَامُ، العَلاَّمَةُ، شَيْخُ النَّحْوِ، أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللهِ بنُ جَعْفَرِ بنَ دَرَسْتَوَيْه بنِ المَرْزُبَانِ الفَارِسِيُّ، النَّحْوِيُّ، تِلْمِيْذُ المُبَرِّدِ. سَمِعَ: يَعْقُوْبَ الفَسَوِيَّ فَأَكْثَرَ، لَهُ عَنْهُ (تَاريخُهُ) وَ (مَشيخَتُه) . وَسَمِعَ بِبَغْدَادَ مِنْ: عَبَّاسِ بنِ مُحَمَّدٍ الدُّوْرِيِّ، وَيَحْيَى بنِ أَبِي طَالِبٍ، وَأَبِي مُحَمَّدٍ بنِ قُتَيْبَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ مُحَمَّدٍ كُرْبَزَان، وَمُحَمَّد بنِ الحُسَيْنِ الحُنَيْنِيّ. قدم مِنْ مدينَة فَسَا (1) فِي صباهُ إِلَى بَغْدَادَ، وَاسْتوطنهَا، وَبَرَعَ فِي العَرَبِيَّة، وَصَنَّفَ التَّصَانِيْفَ، وَرُزِق الإِسْنَاد العَالِي. وَكَانَ ثِقَةً. (سیر اعلام النبلاء جلد 15، ص 581) تیسرا راوی امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں الفَسَوِيُّ يَعْقُوْبُ بنُ سُفْيَانَ بنِ جُوَانَ الإِمَامُ، الحَافِظُ، الحُجَّةُ، الرَّحَّالُ، مُحُدِّثُ إِقْلِيْم فَارِسَ، أَبُو يُوْسُفَ يَعْقُوْبُ بنُ سُفْيَانَ بنِ جُوَانَ الفَارِسِيُّ، مِنْ أَهْلِ مَدِيْنَةِ فَسَا، وَيُقَالُ لَهُ: يَعْقُوْبُ بنُ أَبِي مُعَاوِيَةَ. مَوْلِدُهُ: فِي حُدُوْدِ عَامِ تِسْعِيْنَ وَمائَةٍ، فِي دَوْلَةِ الرَّشِيْدِ. وَلَهُ (تَارِيْخٌ) كَبِيْرٌ (2) جَمُّ الفوَائِدِ، وَ (مَشْيَخَتُهُ) فِي مُجَلَّدٍ، رَوَيْنَاهَا. (سیر اعلام النبلاء جلد 13، ص 180) چوتھاراوی امام یعقوب بن سفیان نے اس سے روایت لی ہے تو انکی توثیق بھی شامل ہو گئی کیوں کہ وہ صرف اپنے نزدیک ثقہ راویوں سے روایت لیتے ہیں امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں 234 - أَحْمَدُ بنُ شَبِيْبِ بنِ سَعِيْدٍ الحَبَطِيُّ * (خَ، س) الإِمَامُ، أَبُو عَبْدِ اللهِ البَصْرِيُّ، المُجَاوِرُ بِمَكَّةَ. حَدَّثَ عَنْ: أَبِيْهِ، وَيَزِيْدَ بنِ زُرَيْعٍ، وَمَرْوَانَ بنِ مُعَاوِيَةَ. وَعَنْهُ: البُخَارِيُّ، وَابْنُ المَدِيْنِيِّ، وَالفَلاَّسُ، وَأَبُو حَاتِمٍ، وَإِبْرَاهِيْمُ الحَرْبِيُّ، وَأَبُو زُرْعَةَ، وَالفَسَوِيُّ، وَخَلْقٌ. قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: ثِقَةٌ، صَدُوْقٌ (1) . وَقَالَ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ: مَاتَ سَنَةَ تِسْعٍ وَعِشْرِيْنَ وَمائَتَيْنِ (2) (سیر اعلام النبلاء جلد 10 ، س، 653) اس روایت کی ایک سند امام بیھقی نے دلائل النبوہ میں صحیح رجال سے پیش کی ہے اور دوسری صحیح سند مشیخہ الفسوی میں سے پیش کر دی گئی ہے جو اپر بیان کر دی گئی ہے ۔ اور ان دو اسناد کی وجہ سے امام طبرانی کی المعجم الکبیر میں موجود ابن وہب سے مروی روایت بھی صحیح قرار پائے گی کیونکہ بغیر ابن وہب سے یہ روایت شبیب کے بیٹے نے بیان کی ہے توامام بطرانی کا اس روایت کو صحیح کہنا بالکل صحیح قرار پائے گا خلاصہ تحقیق یہ ہے کہ شبیب بن سعید بخاری کا راوی ہے اور ثقہ ہے اور اسک روایت صرف وہ ضعیف ہوگی جس میں ابن وہب ان سے بیان کررہا ہو۔ اور شبیب بن سعید کا بیٹا موجود نہ ہو۔ جبکہ ہماری دی گئی روایت میں شبیب بن سعید سے انکا بیٹا احمد بن شبیب روایت اپنے والد شبیب بن سعید سے بیان کر رہا ہے اور اس میں ابن وہب نہیں پش اعتراض باطل ہوئے اور یہ روایت محدثین کے مطابق صحیح ہے جیسا کہ درج زیل محدثین نے اس روایت کی توثیق کی ہے ۱۔امام طبرانی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے ۲۔امام الصالح الشامی الشافعی نے سبل الحدی میں اس روایت کو بروایت متصل ثقات کہہ کر توثیق کی ہے ۳۔امام ابو بکر الہیثمی نے اس روایت کق مجمع الزوائد میں نقل کر کے امام بطرانی کی توثیق کو بر قرار رکھا ہے نقل کر کے ۴۔امام مندیری نے بھی اس روایت کو ترتیب التہذیب مٰیں امام طبرانی کی توثیق نقل کر کے موافقت کی ہے **** تمام حوالاجات کے اسکین نیچے موجود ہیں *** ّ(((( دعا گو، رانا اسد فرحان الطحاوی خادم الحدیث ✍️جمعہ ۲۷ جولائی)))
  5. أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ بِعَرَفَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا لِي لَا أَسْمَعُ النَّاسَ يُلَبُّونَ ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَخَافُونَ مِنْ مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ مِنْ فُسْطَاطِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، ‏‏‏‏‏‏لَبَّيْكَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُمْ قَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ مِنْ بُغْضِ عَلِيٍّ . میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ عرفات میں تھا تو وہ کہنے لگے: کیا بات ہے، میں لوگوں کو تلبیہ پکارتے ہوئے نہیں سنتا۔ میں نے کہا: لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ سے ڈر رہے ہیں، ( انہوں نے لبیک کہنے سے منع کر رکھا ہے ) تو ابن عباس رضی اللہ عنہما ( یہ سن کر ) اپنے خیمے سے باہر نکلے، اور کہا: «لبيك اللہم لبيك لبيك» ( افسوس کی بات ہے ) علی رضی اللہ عنہ کی عداوت میں لوگوں نے سنت چھوڑ دی ہے۔ سنن النسائی اس گروپ میں ایک بھائی نے یہ روایت پوسٹ کی اور اسکے بارے میں معلومات دینے کی درخواست کی تو میری نظر اس روایت پر پڑی اس روایت کی توثیق البانی گھڑی باز نے کر رکھی ہے جبکہ یہ روایت میری نظر میں منکر اور مردود ہے اور وہ اس روایت کی سند میں موجود ایک راوی خالد بن مخلد کی وجہ ہے ۔ ویسے تو یہ راوی خالد بن مخلد امام بخاریؒ کا شیخ ہے امام بخاری اور امام مسلم نے اسکو صحیحین میں لیا ہے اور یہ ثقہ بھی ہے ۔ لیکن یہ راوی شیعہ تھا اور شیعت میں کافی مظبوط تھا امام ابن عجلی نے اسکو الثقات میں درج کیا اور اسکے ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ اس میں تشیع کا عنصر تھا ۔ امام ابن جوزی نے اسکو الضعفا میں درج کر کے لکھا کہ امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا کہ اس سے منکر روایات مروی ہیں امام ذھبیؒ نے الکاشف میں اسکے ترجمے میں بیان کیا کہ امام ابن ابی داود نے کہا کہ صدوق (سچا) تھا شیعہ تھا اور امام احمد بن حنبلؒ نے اسکے بارے کہا کہ اس سے مناکیر روایات مروی ہیں امام ابن حجر عسقلانی نے تھذیب التھذیب میں اسکے ترجمے میں امام ابن سعد کے حوالے سے نقل کیا کہ یہ شعیہ تھا منکر الحدیث تھا اور شعیت میں مظبوط تھا یعنی کہ شعیہ قدری بدعتی راویوں کے بارے میں محدثین کا اصول ہے کہ اگر وہ ثقہ ہے توانکی روایت قبول کی جائیں گی لیکن ایسی کوئی روایت قبول نہیں کی جائے گی جو اسکے مذہب کی تائید میں ہو اور یہ روایت بھی شعیت کی تائید میں ہے جس سے حضرت امیر معاویہ اور صحابہ کی شان میں کمی ہوتو خلد بن مخلد تشیع منکر الحدیث ثقہ راوی کے ہوتے ہوئے امیر معاویہ کے خلاف روایت کو ہر گز قبول نہیں کیا جا سکتا اور یہ اسکی ان مناکیر روایت میں ہے جس کا زکر امام احمد بن حنبل اور امام ابن ابی سعد نے کیا واللہ عالم (دعاگو۔اسد فرحان الطحاوی ✍️ ۲۶ جون ، ۲۰۱۸)
  6. غیر مقلدین کے لیے اس پر ایک الزامی سوا ل ہے کہ حجر یا عمرہ کے موقع پر عورتیں لَبَّیْکَ اللّهُمَّ لَبَّیْک پکارتی ہیں لیکن مرد اونچی آواز میں پکارتے ہیں جبکہ عورتیں پست آواز میں تو کونسی قرآن کی آیت یا نبی کی کسی حدیث میں یہ حکم ہے اسکا ثبوت دے دیں تاکہ معلوم ہو کہ وہابیہ کا ہر کام قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے اور جو حکم کی صراحت قرآن و حدیث میں نہ ہو بقول انکے تو وہ مرد اور عورت کے لیے ایک جیسا ہوتا ہے
  7. وہابیہ اثار صحابہ سے عورتوں اور مردوں کی نماز میں فرق کو کیوں نظر انداز کرتے ہیں ؟ اگر عورت اور مرد کی نماز میں کوئی بھی فرق نہیں تو اما م ابن ابی شیبہ جو کہ امام بخاری کے دادا استاد ہیں انکو کیا ضرورت پڑی تھی عورتوں کے لے نماز مین سجدے کے لیے علیحدہ باب قائم کرنے کی ؟ امام ابی ابی شیبہ نے عورتوں کے متعدد علیحدہ ابواب قائم کیے نماز کےارکان کے۔۔۔۔
  8. رد الشمس والی روایت پر غیر مقلدین کے اعتراضات کا مدلل جواب ردالشمس والی مشہور روایت جس میں نبی پاک کے معجزے کا زکر ہے کہ انہوں نے حضرت علیؓ کی عصر کی نماز کی ادائیگی کے لیے سورج کو واپس پلٹایا اس روایت کی توثیق میں نے جمہور محدثین بشمول امام ابن حجرعسقلانی ، امام بدرالدین عینی، امام طحاوی ، امام قاضی عیاض ، امام جلال الدین سیوطی ، امام مغلطائی الحنفی ، امام ابن حجر مکی ، امام ابو بکر الہیثمی امام شامی ، امام شاہ ولی اللہ محدث ، امام زرقانی سمیت اور کئی محدثین کی توثیق دیکھائی تو ابن تیمیہ اینڈ کمپنی اور دیوبنہ کے پیٹ میں ایسے مروڑ پیدا ہوئے کہ ہر جگہ اسکو ضعیف ثابت کرنے کی کوشیش میں لگے ہیں جبکہ پہلے ابن تییمیہ کی اندھی تقلید میں موضوع سے کم اس پر حکم ہی نہ لگاتے تھے جبکہ یہ روایت بالکل صحیح اور پختہ دلیل ہے نبیؐ کے معجزے کی ۔ جمہور محدثین کی توثیق یہ ہے امام ابن حجرعسقلانی الشافعی شارح بخاری کا ابن تیمیہ اور ابن جوزی کا رد کرنا :۔ الحافظ شیخ الالسلام امام بن حجر عسقلانی الشافعی نے اس روایت کو حسن قرار دیا اور ایک دوسرے طرق کو دلیل قرار دیا کہ یہ روایت نبی کی نبوت کی دلیل ہے اور اس روایت ابن جوزی نے موضوع کہہ کر غلطی کی اور ایسے ابن تیمیہ نے بھی غلطی کی اس کو موضوع قرار دے کر۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری) امام بدرالدین عینی جو شارح بخاری ہیں اور اعظیم محدث کا رد الشمس کو صحیح قرار دینا:۔ امام بدرالدین کہتے ہیں کہ یہ روایت متصل ہے اور ثقات سے مروی ہے اور ابن جوزی کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں جس نے اس میں نقص نکالنے کی کوشیش کی ۔ (عمدتہ القاری شرح صحیح بخاری) امام الحافظ مغلطائی الحنفی:۔ امام مغلطائی فرماتے ہیں کہ ردالشمس والی روایت کو ثقات نے روایت کیا ہے (السرت المصطفیٰ) امام المحدث جلال الدین سیوطی الشافعی :۔ امام جلال الدین سیوطی ؒ فرماتے ہیں کہ اس روایت کو امام طبرانی ، امام ابن مندہ اور امام طحاوی نے روایت کیا ہے اور اسکے بعض طرق صحیح کی شرط پر ہیں (الخصائص الکبریٰ) امام ابو جعفرالطحاوی (امام طحاوی نے رد الشمس کا باب قائم کیا اور اس باب میں دو مختلف طرق سے روایت نقل کی اور توثیق فرمائی ) (شرح مشکل الاثار) امام قاضی عیاض المالکی :۔ز ل، امام قاضی عیاض اس روایت کو دو طرق سے لکھ کر فرماتے ہیں کہ یہ دونوں روایات صحیح ہیں اور ثقات سے مروی ہیں اور امام طحاوی سے مروی امام احمد بن صالح کا قول نقل کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص کے لائق نہیں جو علم حاصل کرنا چاہتا ہو اور وہ اسماء بنت عمیس والی روایت کو حفظ نہ کرے جبکہ اس میں نبوت کی نشانی ہے (الشفاء قاضی عیاض) امام ابو بکر الہیثمی امام ابو بکر الھیثمیؒ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس کے سارے رجال ثقہ ہیں سوائے ابراہیم بن الحسن کے اور وہ بھی ثقہ ہیں ابن حبان نے انکو ثقہ کہا ہے اور فاطمہ بنت علی بن ابی طالب کو میں نہیں جانتا (مجمع الزائد) امام ابن حجر مکی شافعیؒ امام ابن حجر مکی لکھتے ہیں کہ اس روایت کو امام ابو زرعہ نے حسن قرار دیا ہے اور دوسرے محدثین نے بھی انکی تائید کی ہے اور رد کیا ہے انکا جو اسکو موضوع کہتے ہیں (الصوائق المحرقہ) اس کے علاوہ امام زرقانی نے بھی اس روایت کو توثیق کی اور ابن تیمیہ کا رد کیا ۔ ماضی قریب کے اعظیم شیخ و محقق الکوثریؒ نے بھی اس روایت کی توثیق کی اور ابن تیمیہ کے مکڑی کے کمزور دلائل کا مدلل رد فرمایا ، علامہ ابن عابدین الشامی نے بھی اس روایت کی توثیق فرمائی علامہ شاہ عبدالعزیز نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب میں جمہور محدثین اہلسنت کی طرف سے توثیق بیان کی ہے (تحفہ اثنا عشریہ ص 436) اسکے علاوہ اہلسنت کے دو اعظیم محدثین امام جلال الدین سیوطی اور امام ابن یوسف الصالحی نے اس موضوع پر پوری کتاب لکھ کر ردالشمس والی روایت کو صحیح قرار دیا اور ابن تیمیہ کا رد کیا ان دو کتب کے نام یہ ہیں ۔کشف البس فی حدیث رد الشمس ۔مزیل البس فی رد الشمس امام ابو زرعہ اور امام احمد بن صالح نے اس روایت کو صحیح قرار دیا بقول امام قاضی عیاض اسکے علاوہ اور کثیر محققین نے اس روایت کو حسن و صحیح قرار دیا اب بھی کوئی متعصب جو ابن تیمیہ ناصبی کی اندھی تقلید کرتے ہوئے اس ضیعف یا موضوع قرار دیتا ہے تو وہ اس روایت پر متکلمین کی توثیق کے مقابلے متکلمین ہی سے اس روایت پر جرح مفسر پیش کرے کیونکہ متاخرین میں ابن تیمیہ اینڈ کمپنی نے اس میں نقص نکالے جبکہ اس سے پہلے متکلمین اور بعد والے متاخرین نے اس روایت کی توثیق کی ہے اب آتے ہیں معجم الکیر والی سند پر غیر مقلدین کے اعتراضات کی طرف وہابیہ نجدیہ کی طرف سے اس روایت پر دو راوی جو بشمول جمہور محدثین اور وہابیہ کے نزدیک بھی ثقہ ہیں لیکن کیونکہ بغض اہل بیت اور نبی کے مجعزہ کو ماننے سے انکے پیٹ کے کیڑے ایکٹوو ہو جاتے ہیں تو ان راویوں کو جھوٹا اور معاذاللہ کذاب تک ثابت کرنے کی جھوٹی کوشیش کرنے لگ گئے امام طبرانی نے اپنی معجم الکبیر میں اپنی سند سے اسکو بیان کیا جو کہ یہ ہے حدثنا جعفر ن احمد بن سنان الواسطی ثنا علی بن المنذر ثنا ممد بن فضیل بن مرزوق عن ابراھیم بن الحسن عن فاطمہ بنت علی عن اسماء بنت عمیس بلخ۔۔۔۔۔ اس سند میں ایک راوی فضیل بن مرزوق ہے جو کہ تشیع تھا لیکن ثقہ ، ثبت اور صالح تھا جس کی توثیق ان مندرجہ زیل محدثین نے کی ہے ۱۔ متشدد امام ابن حبان نے اسکو ثقات میں زکر کیا اور کہا کہ غلطی بھی کر جاتا اور عطیہ سے موضوع روایت مروی ہیں ۲۔امام ذھبیؒ نے اسکو الکاشف میں ثقہ لکھا ہے ۳۔امام ذھبیؒ نے میزان الااعتدال میں فضیل بن مرزوق پر جمہور کی توثیق نقل کر کے آخر میں ابن حبانؒ کی جو ہلکی پھلکی جرح ہے اسکا تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابن حبان نے جو کہا کہ عطیہ سے موضوع روایت مروی ہے اس سے تو امام ذھبی کہتے ہیں قلت (میں کہتا ہوں )ٌ عطیہ تو خود ضعیف ہے اس سے یعنی عطیہ کی روایات کی وجہ سے فضیل بن مرزوق پر کوئی اعتراض نہیں آتا ۴۔امام عجلیؒ نے فضیل بن مرزوق کوالثقات میں درج کیا اور کہ یہ ثقہ جائز الحدیث اور سچا تھا اور تشیع تھا ۔ ۵۔امام ابن معین الحنفیؒ نے بھی فضیل بن مرزوق کی توثیق کرتے ہوئے اسکو ثقہ گردانہ ہے ۔ یاد رہے کہ وہابیہ ابن معین سے اسکو ضعیف ثابت کرتے ہیں جبکہ امام ابن معین سے اسکی توثیق بھی ثابت ہے لہذا جرح ساقط ہوئی ۶۔امام ابن شاھینؒ نے فضیل بن مرزوق کو تاریخ الثقات میں زکر کرتے ہوئے ثقہ کہا ہے ۷۔امام ابن حجر عسقلانی نے تو جمہور محدثین سے اسکو ثقہ ثابت کرتے ہئے مندرجہ زیل محدثین سے توثیق لکھی جن کے نام یہ ہیں امام شافعی ، امام ابن ابی حاتم امام ابن عینہ امام امام احمد بن حبنل امام ابن عدی امام ابن شاھین امام ابن حبان وغیرہ ہیں اور اس پر جرح کی ہے امام نسائی نے اور وہ متشدد ہیں اب آتے ہیں اس میں تشیع ہونے والے مسلے پر اصول جرح و تعدیل کے اہل علم لوگوں کو معلوم ہے کہ متقدمین میں تشیع سے مراد وہ لوگ ہوتے تھے جہ اہل بیت کا زکر زیادہ کرتے اور حضرت علی کو شیخین پر فضیلت دیتے اور ہر جنگ کے معاملے میں حضرت علی کو حق مانتے تھے اور بس تبھی امام ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں لکھا کہ متقدمین میں تشیع سے مراد ایسے لوگ جو محض شیخین کے ساتھ حضرت علی کو عثمان بن عفان پر ٖفضیلت دیتے اور بعض حضرت علی ؓ کو نبی پاک کے بعد سب پر فضیلت دیتے وہ بہت نیک ، صالح اور متقی پرہیزگزار تھے اور ایسا عقیدہ تو تابیعن اور تبع تابعین میں بہت سے لوگوں کا تھا تو فقط اسکی وجہ سے انکی روایت کو ترک نہیں کیا جا سکتا البتہ جب تک وہ اپنے عقائد کا داعی نہ ہو اور متکلمین سے تشیع سے مراد رافضی ہے جو کہ آج کے شعیہ ہیں انکی روایت کسی بھی حال میں منظور نہیں تو فضیل بن مرزوق خیر القرون کا راوی ہے اور اس کو تشیع متقدمین نے کہا ہے جیسا کہ ابن معین ، امام نسائی وغیر نے اور تبھی اسکو سچا جائز الحدیث اور ثقہ حجت قرار دیا وہابیہ کا دوسرا اعتراض کہ شیعہ کی روایت قبول نہیں ہوگی یہ والی کیونکہ اس میٰں حضرت علی کی شان بڑھ رہی ہے اور تشیع علی کی شان میں روایتیں گھڑہتے تھے الجواب : ان علمی یتیموں کو یہ بھی معلوم نے کہ ایک راوی جب تمام محدثین کے اتفاق سے ثقہ ہے تو تب اسکی روایت کیوں نہ قبول کی جائے گی ؟؟ جبکہ روایت گھڑہنے والا راوی کذاب ہوتا ہے اور اس روایت میں حضرت علی کی شان معاذاللہ نہ خلفائے راشدین سے افضل ثابت ہو رہی ہے نہ ہی نبی پاک سے ، بلکہ اس میں تو حضرت محمدؐ کا معجزہ ثابت ہو رہا ہے جو کہ انکی شان کو بڑھا رہا ہے اور نبوت کی نشانی ثابت کر رکا ہے تبھی امام ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں ابن تیمہ و جوزی کا رد کرتے ہوئے لکھا کہ اسکی اسناد حسن ہیں اور ابن تیمیہ نے غلطی کی خطائی کھائی اور ایسے ابن جوزی نے اسکو موضوع کہہ کر دوسرا راوی جس کو تشیع ثابت کر کے سادہ لوگوں کو یہ دھوکہ دیا جاتا ہے کہ رافضی کی روایت قبول نہیں جبکہ اوپر امام ذھبی اور امام ابن حجر سے متقکلمین اور متقدمین سے تشیع کی تشریح ثابت کر دی اور اگر اس پیمانے کو رکھ لیا جائے کہ ہر تشیع کی روایت قبول نہیں ہوگی تو پھر بخاری میں ۴۵ سے زیادہ راوی تشیع بیٹھے ہیں اور امام حاکم تشیع تھے اور امام عبدالرزاق امام بخاری کے دادا استاد بھی تشیع تھے لیکن اتنے برے کبیر محدث تھے وہابیہ کو چاہیے کہ انکی ساری کتب کو رد کر دیں خیر دوسرا راوی جس کا نام علی بن المنذر ہے اسکی توثیق ۔امام ابن حبان نے الثقات میں درج کیا ۲۔امام ابن حجر عسقلانی نے بھی اسکی توثیق کی اور مندرجہ زیل محدثین سے اسکی توثیق نقل کی ہے ا امام نسائی نے کہا ثقہ حجت ہے تشیع ہے امام دارقطنی نے کہا اس میں کوئی حرج نے ہے امام ابن ماجہ نے کہا کہ اکثر کے نزدیک حجت ہے امام ابن ابی حاتم نے کہا کہ ثقہ یعنی حجت ہے اس راوی پر تو کسی ایک امام نے بھی جرح نہیں کی بلکہ بالاتفاق یہ ثقہ حجت راوی ہے تو پھر اس وہابیہ نجدیہ کا اسکو تشیع سے حدیث گھڑنے والا راوی بنانا انکی جہالت اور بغض نبی ہی ہو سکتاہے (نوٹ ان تمام حوالاجات کے اسکین نیچے موجود ہیں ) دعا گو رانا اسد فرحان الطحاوی خادم حدیث ۱۴ جون ۲۰۱۸
  9. جس کتاب سے تم جرح مبھم پیش کر رہی تھی ۔ زرہ امام ذھبی کا موقف پڑھ لو امام الحسن بن زیاد کے ترجمے کے بارے میں امام ذھبی نے کیا کہا ہے تاریخ بغداد کے مطلق امام ذھبی کہتے ہیں کہ خطیب بغدادی نے الحسن بن زیاد اللولوی حنفی فقیہ ہیں انکے ترجمے میں ایسی باتیں لکھی جو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ۔ ۔ اس وہابین کی ساری جرح جو بے تکی تھی اسکا رد کر دیا امام زھبی نے ۔
  10. یہ اما م ذھبی کے بقول اسکو کذاب ثابت کرنے آئی تھی۔ اور مان بھی رہی ہے کہ امام ذھبی نے انکار زکر امام کے لفظ سے کیا اور اسکو کذاب ثابت بھی ساتھ کر رہی ہے ۔ اور عبارت بھی آدھی لکھی ۔امام ذھبی نے اس پر کتاب ستہ میں روایت نہ لینے کی وجہ اسکا ضعف دوسروں کی طرف نسبت کرتے ہوئے بتائی ۔ لیکن امام ذھبی نے خود انکو ضعیف نہیں کہا ۔ بلکہ کہا وہ تو فقہ کے سردار تھے ۔ اور امام کے ساتھ زکر کیا۔ کذاب راوی کو امام نہیں کہا جاتا ۔۔۔۔۔ جرح نقل کرنے سے بالکل یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اسکے نزدیک ضعیف ہے ۔ کیوں کہ جرح و تعدیل میں امام بعض کتب میں جرح و تعدیل دونوں زکر کرتےہیں مقدمے میں مقصد لکھ دیا جاتا ہے۔ لیکن بعض کتب میں صرف تعدیل نقل کر کے اپنا موقف بیان کر دیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ امام ذھبی نے سیر اعلام النبلاء میں صرف تعدیل نقل کر کے اپنا موقف بیان کیاامام الحسن کے ترجمے میں ۔ اور یہ اندھی مشین کہہ رہی ہیں کہ اس راوی پر تعدیل تو ہے نہیں ۔ ۔ اب جس کو تعدیل نظر ہی نہ آئے اپنے مولویوں کی اندھی عینک اتار کر دیکھو تو نہ۔۔۔ جس کا منہ چاہے اندھی کاپی پیسٹ اٹھا کر اسماءالرجال پر بات کرنے آجاتا ہے ۔ ۔ ۔جبکہ بنیادی اصولوں کا بھی پتہ نہیں ہوتا۔ مانتا ہوں کہ میں بھی کوئی عالم یا فاضل نہیں لیکن کم از کم بنیادی اصول تو پتہ ہونا چاہئے بندے کو جرح و تعدیل پر بات کرنے کے لیے ۔ ۔ یہاں کاپی پیسٹ سے گزارا نہیں کیا جا سکتا بی بی
  11. ارے کم عقل کم فہم جاہل کفایت اللہ سنابلی یزیدی کی ساری کاپی پیسٹ کا ٹھیکا اٹھا رکھا ہے. . .جاہل سیر اعلامالنبلاء کا مقدمہ یہاں پوسٹ کر کہ امام ذھبی نے اس کتاب کو لکھنے کا مقصد اور اس میں کن کو شامل کیا. . . وہ مقدمہ بھیج. اس جاہل کو الضعفا کا حوالہ دیا کہ امام ذھبی نے اس میں امام بخاری کو شامل کیا اور مقدمہ بھی. چل ویسے اب تم سیر اعلان النبلا کا مقدمہ بھیجو. . . کوئی کاپی پیسٹ پھر ماری تو تم کوجواب دینا وقت کا ضیاع ہوگا امام ذھبی نے سیر اعلام نبلاء میں امام ذھبی نے الحسن بن زیاد پر صرف تعدیل کیوں لکھی ؟ جرح کیوں نہ لکھی ؟ جیسے تم نے اوپر کاپی پیسٹ ماری ہے
  12. یہ تعصب بھرے غلیض خارجی اس قابل نہیں کے ان سے بات کی جائے ۔ ۔ انکے چیلے چپاٹے یہاں سے زلیل ہو کہ جاتے ہیں اور پھر انکے نئے چیلے شیطان یہاں آجاتے ہیں انکے زبیر کزاب زئی کی اندھی تقلید میں منہ اٹھا کر۔ اس چاہل النسل کو یہ نہیں پتہ کہ جرح کا سبب اور سند بیان کیے بغیر کسی پر کوئی ضعف نہیں ہوتا۔ جیسا کہ میں نے صحیح اسناد سے الحنس بن زیاد کی توثیق پیش کی ۔ اس جاہلہ کو با سند جرح اور سبب پیش کرنا چاہیے کہ کزاب کی جرح کیوں ہے ثبوت پیش کرے ۔ ۔ یہ لے اپنے ماموں کی کتاب سے جرح و تعدیل کے بنیادی اصول پڑھ
  13. اتنی تعدیل انکھیں کھول کے پڑھو۔ ۔ ۔جاہل زبیر زئی کی کاپی پر کاپی ماری جا رہی ہے نہ سند پیش کر رہی ہے نہ جرح کا سبب پیش کر رہی ہے ارے جاہل المغنی کا مقدمہ مجھے معلوم ہے ۔ تم جا کی سیر اعلام النبلا کامقدہ مجھے پڑھ کے سنانا۔ ۔۔ المغنی کا الزامی جواب تجھے دیا تھا ۔ ۔ اب ہضم نہیں ہوا تا بیوہ عورتوں کی طرح رونے لگ گئی ۔ ۔ جاکہ دیکھ سیر اعلام النبلا میں امام زھبی نے کیوں الحسن بن زیاد کی صرف تعدیل نقل کی اور کوئی جرح نقل کیوں نہ کی ؟چل اب جا کہ سیر اعلام النبلاء کا مقدمہ بھیج ترجمے کے ساتھ کہ اس کتاب کو لکھنے کا کیا مقصد تھا اور اس میں کس قسم کے راوی ہیں امام ذھبی کے نزدیک
  14. ارے جاہل ایسی جرح تو محمد بن اسحاق پر بھی ہے کزاب ، کی ضعیف کی ۔ ۔، ۔ لیکن وجہ کزب بیان نہیں اور نہ ہی تم نے کسی ایک جرح کی سند بیان کی ہے ؟؟؟؟ کاپی پیسٹ کی اولاد۔ ۔ ۔ تم کو میں نے کہا تھا کہ امام زھبی نے امام بخاری کو الضعفا المغنی میں درج کیا ہے اور ان کو مدلس بھی قرار دیا دیا ۔ ۔ تو کیا ضفا کتاب میں درج کردینا اور جرح نقل کر دینا امام کا موقف ہوتا ہے جاہل بچی؟ چل جو جو تم نے جرح پیش کی ہے سب کی اسناد لکھو ۔ ۔ اور جرح کا سبب ساتھ ہو ۔بغیر سند کے ساری جرح مردود ہوگی شابش بھجو۔ سند کے ساتھ جرح ہر ایک
  15. جرح مبھم یا مفسر کا پتہ بھی ہے تم کو؟ ایسی جرح نعیم بن حماد پر بھی ہے جو امام بخاری کا استاد تھا. اور محمد بن اسحاق بن یسار پر بھی ہے. اور اس سے زیادہ غلیظ جرح ہے. لیکن یہ دونوں ثقہ یا کم سے کم حسن الحدیث درجے کے ہیں. تو اسی طرح تم جاہل جاو اپنے چیلوں کے پاس ان سے ابو مطیع پر جرمفسر لے آو جس میں ضعف کی وجہ یا کزب کا ثبوت ہو امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب ایک تحریف شدہ قول اور اس کی حقیقت کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہm سے پوچھا گیا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ اللہ آسمان میں ہے یا زمین میں تو امام صاحب نے فرمایا وہ شخص کافر ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اللہ عرش پر مستوی ہوا۔۔۔۔ الخ حالانکہ امام ابو حنیفہ mکی طرف منسوب یہ قول تحریف شدہ ہے اور صریح طور پر ان پر جھوٹ ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اصل قول یہ ہے کہ : [قال ابو حنيفة من قال لا اعرف ربي في السماء او في الأرض فقد كفر وكذا من قال إنه على العرش ولا ادري العرش أفي السماء او في الأرض] ترجمہ:ابومطيع بلخی کہتے ہیں کہ امام ابوحنيفہ رحمہ اللہ نے فرمايا جس نے کہا کہ مجھے يہ معلوم نہيں کہ ميرا رب آسمان پر ہے يا زمين پر تو اس نے کفر کيا، اسی طرح جو کہتا ہے کہ اللہ عرش پر ہے ليکن مجھے پتہ نہیں ہے کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين پر تو يہ بھی کافر ہے۔ ( الشرح الميسر علی الفقہين الأبسط والاکبر المنسوبين لأبی حنيفۃ:ص135بتحقیق محمد بن عبدالرحمن خميس) ابومطيع کی کتاب کے يہ الفاظ امام بياضی الحنفی رحمہ اللہ کے نسخے ميں صرف اس قدر ہيں اور امام فقيہ ابوالليث سمرقندی کے نسخے ميں يہ الفاظ ہيں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے الرحمن علی العرش استوی، پھر اگر وہ شخص کہے ميں اس آيت کو مانتا ہوں ليکن مجھے پتہ نہيں کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين پرتو اس بات سے بھی اس نے کفر کيا،، اور دونوں نسخوں کے متنوں ميں وجہ کفر بيان نہيں کيا گيا کہ ايسا شخص کيوں کافر ہے،تو امام بياضی اور فقيہ ابوالليث سمرقندی رحمھم اللہ دونوں نے اس کا بيان کرديا کہ دراصل اس دوسری بات کا مرجع بھی پہلی بات کی طرف ہے کيونکہ جب وہ اللہ کو عرش پر مان کر کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہيں کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين پر تو اس کا بھی وہی مطلب ہوا جو پہلی عبارت کا ہے کہ اللہ آسمان پر ہے يا زمين پر تب ايسے شخص نے اللہ کے ليے مکان کا عقيدہ رکھا اور اللہ کو مکان سے پاک قرار نہیں ديا،اور ايسا کہنے والااللہ کو اگرآسمان پر مانتا ہے تو زمين پر نفی کرتا ہے اور زمين پر مانتا ہے تو آسمان پر نفی کرتا ہے اور يہ بات اللہ کے ليے حد کو بھی مستلزم ہے اور اسی طرح فقيہ ابوالليث سمرقندی اور بحوالہ ملا علی قاری رحمہ اللہ حل الرموز ميں ملک العلماءشيخ عزالدين بن عبدالسلام الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ يہ قول اللہ جل جلالہ کے ليے مکان ثابت کرنے کا وہم ديتا ہے تو اس بات سے يہ شخص مشرک ہوگيايعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ تو ازل سے ہے اگر اللہ کے وجود کے ليےمکان لازم ہے تو يقينا يہ مکان ازل سے ماننا پڑے گا اور اس طرح ايک سے زائد قديم ذات ماننا پڑیں گے جو کہ اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ اور امام ابو حنیفہ m کا جو قول تھا اس سے کچھ آگے چل کے وہ خود ہی اس بات کا جواب دیتے ہیں: امام ابوحنیفہ mفرماتے ہیں کہ: [قلت أرأيت لو قيل أين الله تعالى فقال يقال له كان الله تعالى ولا مكان قبل ان يخلق الخلق وكان الله تعالى ولم يكن أين ولا خلق كل شيء] ترجمہ:” جب تم سے کوئی پوچھے کہ اللہ (کی ذات )کہاں ہے تو اسے کہو کہ (اللہ وہیں ہے جہاں) مخلوق کی تخلیق سے پہلے جب کوئی جگہ و مکان نہیں تھا صرف اللہ موجود تھا۔ اوروہی اس وقت موجود تھا جب مکان مخلوق نا م کی کوئی شے ہی نہیں تھی“ (1)الشرح الميسر علی الفقہين الأبسط والاکبر المنسوبين لأبی حنيفۃ :ص161 (2)العالم والمتعالم :ص57 لہذا آج کل جو غيرمقلدین امام صاحب کے اس قول ميں الفاظ کے ملاوٹ کے ساتھ معنی ميں بھی تحریف کرکے اس کا مطلب اپنی طرف موڑتے ہیںوہ بالکل غلط اور امام صاحب کی اپنی تصريحات کے خلاف ہےاور جس ملاوٹ اور لفظی تحريف کی بات ہم نے کی اس کی تفصيل يہاں ذکر کرتے ہیں اوپر امام صاحب کا قول ابومطيع کی روایت سے ہم نے بيان کرديا کہ وہ کس قدر الفاظ کے ساتھ مروی ہے اور اس کی تشريح فقيہ ابوالليث اور امام عزالدين بن عبدالسلام کے ارشادات کے مطابق بلا غبار واضح نظر آتی ہے ليکن غيرمقلدين ميں ايک شخص جن کو يہ لوگ شيخ الاسلام ابواسماعيل الھروی الانصار ی صاحب الفاروق کے نام سے جانتے ہيں اور ان کی کتابوں ميں الفاروق فی الصفات اور ذم الکلام شامل ہيں جن ميں يہ جناب اشاعرہ کومسلم بلکہ اہل کتاب بھی نہيں سمجھتے اور ان کے ذبيحے حرام اور ان سے نکاح بھی حرام کہتے ہيں اور يہ فقيہ ابوالليث سمرقندی رحمہ اللہ کے وفات سنہ 373ھ کے سو سال بعد آئے ہيں اور انہوں نےاسی روايت ميں اپنی طرف جو الفاظ چاہے اپنی طرف سے بڑھاديے حتیٰ کہ ساری بات کا مفہوم ہی بگاڑديا اور کلام کا رخ اپنے مطلب کی طرف پھيرديا چنانچہ ان جناب نے اس عبارت کو اس طرح روايت کيا [قَالَ سَأَلت أَبَا حنيفَة عَمَّن يَقُول لَا أعرف رَبِّي فِي السَّمَاء أَوفِي الأَرْض فَقَالَ قد كفر لِأَن الله تَعَالٰی يَقُول {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} وعرشه فَوق سمواته :فَقلت إِنَّه يَقُول أَقُول على الْعَرْش اسْتَوَى وَلَكِن قَالَ لَا يدْرِي الْعَرْش فِي السَّمَاء أَو فِي الأَرْض قَالَ إِذا أنكر أَنه فِي السَّمَاء فقد كفر] کيا،،، اس عبارت ميں انہوں نے لان اللہ يقول الرحمن علی العرش استوی وعرشہ فوق سموتہ کی تعليل [یعنی چونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہيں کہ رحمن نے عرش پر استواء کرليا، اور اس کا عرش آسمانوں کے اوپر ہے] اور يہ الفاظ فاذا انکر انہ في السماء فقد کفر کي تعليل [يعنی جب اس شخص نے انکار کرليا کہ وہ آسمان پر ہے تو اس نے کفر کيا] يہ دونوں باتوں کو انہوں نے اس عبارت ميں اپنی طرف سے بڑھاديں جس کی وجہ سے مفھوم بظاہر تجسمی معنی کی طرف مائل ہوتا نظر آرہا ہے حالانکہ اصلی عبارت اور امام صاحب کی ديگر تصريحات سے امام صاحب کا مسلک اہل سنت کا ہي مسلک ہونے ميں واضح ہے، تو يہاں پر کفر کي وجہ يہ نہيں ہے کہ اس شخص نے اللہ کو آسمان پر ماننے سے انکار کرديا اس ليے کافر ہے،،بلکہ يہ الفاظ تو الھروی نے اپنی طرف سے بڑھادیے اور ان الفاظ کا کوئی وجود ہی نہيں ہے اصل عبارت ميں، اور کفر کی وجہ وہی ہے جو امام ابوالليث نے الھروی سے سو سال پہلے بيان کيا اور امام عزالدين بن عبدالسلام نے بھی بيان کيا کہ دراصل يہ بات اللہ کے ليے مکان و جگہ ثابت کررہا ہے اس ليے يہ کفر ہے اور تعجب يہ ہے کہ يہ شخص ابواسماعيل الھروی ان حضرات کے ہاں بہت بڑے پائے کے ہيں جبکہ ان کے اپنے ہی شيخ الاسلام ابن تيميہ ان کا مسلک اپنے مجموع الفتاوی ميں کلام الٰہی کے بارے ميں يہ نقل کرتے ہيں کہ ان کے ہاں اللہ کا کلام نازل ہوکر مصحف ميں حلول ہوگيا والعياذباللہ اور ساتھ ميں جناب کی يہ عجيب منطق بھی نقل فرمائی ہے کہ يہ وہ والی حلول نہيں جو ممنوع و مضر ہے [وَطَائِفَةٌ أَطْلَقَتْ الْقَوْلَ بِأَنَّ كَلَامَ اللّهِ حَالٌّ فِي الْمُصْحَفِ كَأَبِي إسْمَاعِيلَ الْأَنْصَارِيِّ الهروي الْمُلَقَّبِ بِشَيْخِ الْإِسْلَامِ وَغَيْرِهِ وَقَالُوا: لَيْسَ هٰذَا هُوَ الْحُلُولُ الْمَحْذُورُ الَّذِي نَفَيْنَاهُ. بَلْ نُطْلِقُ الْقَوْلَ بِأَنَّ الْكَلَامَ فِي الصَّحِيفَةِ وَلَا يُقَالُ بِأَنَّ اللّهَ فِي الصَّحِيفَةِ أَوْ فِي صَدْرِ الْإِنْسَانِ كَذَالِكَ نُطْلِقُ الْقَوْلَ بِأَنَّ كَلَامَهُ حَالٌّ فِي ذَالِكَ دُونَ حُلُولِ ذَاتِهٖ] ترجمہ: ابن تیميہ کہتے ہيں کہ ايک گروہ نے يہ بات بھی کہی ہے کہ اللہ کا کلام مصحف ميں حلول ہوگيا ہے جيسا کہ ابواسماعيل الھروی جو کہ شيخ الاسلام کے لقب سے جانے جاتے ہیں وغيرہ، يہ لوگ کہتے ہيں کہ يہ وہ حلول نہیں ہے جو محذور ہے اور جسے ہم نے نفی کيا ہے بلکہ ہم يہ کہتے ہيں کہ اللہ کا کلام صحيفہ ميں ہے اور يہ نہيں کہا جائے گا کہ اللہ صحيفہ ميں ہے يا انسان کے سينے ميں ہے اسی طرح ہم کہتے ہيں کہ اس کا کلام اس ميں [يعنی مصحف يا صحيفے ميں] حلول ہوگيا ہے ليکن اللہ کی ذات حلول نہيں ہوئی (مجموع الفتاوٰی: 12/ 294) سبحان اللہ اگر يہی کلام کوئی بھی اہل سنت کا معتقد خدانخواستہ کہ دیتا تو کيا اس کو کوئی شيخ الاسلام کے لقب سے ملقب کرتا؟ تو خلاصہ کلام يہ ہوا کہ ابومطيع سے امام صاحب کی اس بات کی روایت کو اگر ابواسماعيل الھروی کی من گھڑت زيادتی کے بغیر نقل کيا جائے تو اس ميں کوئی خرابی نہیں اور کلام کا مفہوم مکان کی نفی ميں واضح ہے خصوصًاجب امام صاحب کے باقی ارشادات کی روشنی ميں اس کو قوی قرائن مل جاتے ہيں اور اسی کلام کو ابن قیم نے ان الفاظ کی زيادتی سے نقل کيا ہے[لانہ انکر ان يکون في السماء لانہ تعالٰي في اعلي عليين]يعنی يہ شخص اس ليے کافر ہے کہ اس نے اللہ کو آسمان پر ماننے سے انکار کرديا، کيونکہ اللہ اعلیٰ عليين ميں ہے حالانکہ قرآن وسنت ميں کہیں بھی اللہ کو اعلیٰ عليين ميں نہیں کہا گيا تو يہ سب تصرفات جناب ابواسماعيل الھروی کی تحریف کرد ہ ہیں اور ان سے امام ذہبی رحمہ اللہ نے [العلو] ميں اور امام ابن قيم نے[ اجتماع الجيوش الاسلاميہ:ص267] ميں ان کو اسی طرح نقل کر لیااسی طرح اسماعیل الہروی کے بعد آنے لوگوں نے اسی کا حوالہ دے کر اسی قول کو نقل کیا ہے جب بنیاد ہی اس قول کی درست نہیں تو اس من گھڑت قول کی بناء پر کسی کو مطعون کرنا درست نہیں ،حالانکہ یہ اسماعیل الہروی خود اللہ تعالیٰ کے کلام کے حوالے مطعون ہے جیسا کہ اوپر ہم نے حوالے کے ساتھ بتایا اس تما م بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس من گھڑت بات کی بنا پر ابو مطیع کو مطعون کرنا صرف تعصب ہے اور تعصب کی جرح مردود ہےاسی طرح محدثین بلا تحقیق اس بات کو نقل کرتے رہے اور ابو مطیع کو ضعیف قرار دیتے رہے ہم نے اس حقیقت کو واضح کردیا ہے ایک انصاف پسند آدمی کے لئے بات واضح ہوگئی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ حق واضح ہوجانے کے بعد اس کو قبول کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین عراق کے حفاظ الحدیث ان سے ناراض تھے. ناراضگی کے سبب جرح مفسر نہیں مبھم ہو جاتی ہے.... تم کو یہ بات بتانے کامقصد ہی یہی تھا. .. مبھم جرح کاپی پیسٹ کر رہی ہو اور جو الزام ان پر فقہ الکبر والی عبارت کا لگایا اسکا منہ توڑ جواب مل گیا امام ذھبی نے لفظ امام سے تعدیل بھی ثسبت کی ہے. . جیسا کہ ابو داود سے اماما کے لفظ سے ابی حنیفہ کی تعدیل پیش کی. اسی طرح ہر امام کا اپنا اپنا منھاج ہوتا ہے تعدیل اور جرح کا. تو ایک امام کے منھاج کو لیکر دوسرے امام کے لفظ پر استدلال کرنا جہالت ہے
  16. قُلْتُ: لَيَّنَهُ ابْنُ المَدِيْنِيِّ، وَطَوَّلَ تَرْجَمَتَه الخَطِيْبُ (1) .مَاتَ: سَنَةَ أَرْبَعٍ وَمائَتَيْنِ -رَحِمَهُ اللهُ-. ایک تو تم بچی ہے کاپی پیسٹ والی. باقی جو اسکین ہیں یہ ابو حمزہ وہابی جو میرے ساتھ مناظرے سے بھاگا ہوا ہے. . .. اسکے لیے آئی . . الضعفا المغنی میں جرح لکھنےسے اگر کوئی واقعی ضعیف ثابت ہوتا ہے تو بچی یہ لو امام بخاری کا نام اسی کتاب میں ہے. اور امام بخاری کو امام ذھبی نے مدلس بھی ثابت کیا ہے اپنی کتاب میں.
  17. اور الحسن بن زیاد اللؤلؤی پر امام ذھبی کی تحقیق انہوں نے اسکو سیر اعلا البلاء میں انکا شمار طبقہ عشرہ میں کیا.... الحسن بن زياد العلامة فقيه العراق ، أبو علي الأنصاري ، مولاهم الكوفي اللؤلؤي ، صاحب أبي حنيفة . نزل بغداد ، وصنف وتصدر للفقه . الحسن بن زياد [ ص: 544 ] أخذ عنه محمد بن شجاع الثلجي ، وشعيب بن أيوب الصيريفيني . وكان أحد الأذكياء البارعين في الرأي ، ولي القضاء بعد حفص بن غياث ، ثم عزل نفسه . قال محمد بن سماعة : سمعته يقول : كتبت عن ابن جريج اثني عشر ألف حديث ، كلها يحتاج إليها الفقيه . وقال أحمد بن عبد الحميد الحارثي : ما رأيت أحسن خلقا منالحسن اللؤلؤي ، وكان يكسو مماليكه كما يكسو نفسه . قُلْتُ: لَيَّنَهُ ابْنُ المَدِيْنِيِّ، وَطَوَّلَ تَرْجَمَتَه الخَطِيْبُ (1) .مَاتَ: سَنَةَ أَرْبَعٍ وَمائَتَيْنِ -رَحِمَهُ اللهُ-.
  18. یہ ابو مطع البلخی پر مبھم جرح کا جواب ۔ ۔ ۔ اور اب جب آنا اسکین پیجیز کے ساتھ آنا ۔ ۔ کاپی پیسٹ میں تمہاری اکثر باتوں کی سند ہی نہیں ۔ اور جس کی بیان کی وہ کتاب السنہ سے ہے اور وہ خود مجھول راویوں سے ہے ۔ جتنے بھی قول با سند پیش کیے تم نے اسکا جواب دے رہا ہوں باقی اور اسلامی بھائی جواب دینگے امام ابن مبارک سے مزید توثیق امام ابی حنیفہ کی یہ شبلی نعمانی کے بقول کا جواب تم ہم سے لینے آگئی ؟ دیوبندیوں کے پاس جاو۔ یا ہماری متعبر کتاب سے حوالہ دو کمیٹی والی بات کا ۔
  19. کتاب السنة لعبد الله بن احمد بن حنبل یہ جس کتاب سے آپ نے حوالہ دیا ہے پہلے اسکی صحیح سند ثابت کرو بی بی ۔ ۔ ایسے منہ اٹھا کے مجھول راویوں والی کتاب جو صحیح سند سے ثابت نہیں وہاں سے امام اعظم کو مرجئ ثابت کرنے آگئی ہو؟ پھر کتاب السنہ کاحوالہ اسکو اپنے گھر پر رکھو سنبھال کر عبداللہ بن مبارک جو امام ابی حنیفہ کے شاگرد اور اما م بخاری کے دادا استاد ہیں ان سے مجھول سند کتاب سے تم نے جرح ثابت کرنے کی ناکام کوشیش کی چلو تم کو امام ابن مبارک سے ہی امام ابی حنیفہ کی تعدیل دیکھاتا ہوں امام ابن مبارک کی نظر میں انکے استاد کا مقام یہ لیں ابن مبارک سے اور تعدیل اور ماتم کریں کاپی پیسٹ تو مار لی اسکا ترجمہ بھی زرہ کر لیتی کہ امام ذھبی نے پورا کیا لکھا ہے ؟
  20. جو مسند احمد کی روایت پیش کی گئی ہے اس کی سند میں سمیہ مجھولہ راوی موجود ہے ۔ ۔ جس کا ترجمہ اسماءالرجال کی کتب میں نہیں لہذا ایسی مجھول راویوں کی روایت سے دلیل پکڑنا باطل ہے دوسری روایت جو مستدرک الحاکم سے پیش کی گئی ہے اسکی سند منقطع ہے ۔ ۔ اس میں زربن حبیش کا سماع حضرت انس سے ثابت نہین تو ایسی روایت سے دلیل پکڑنا مردود ہے
  21. جناب اس کی سند واقعی ضعیف ہے اس میں موجود محمد بن سائب الکبی ہی ہے کیوں کہ اس پر جرح ہے کہ اسکی روایت ابو صالح سے جھوٹی ہیں. یہی امام بخاری سے جرح ہے. اس یہ تعین ہو گیا الکلبی کا ابو صالح سے روایت کرتا ہے. جبکہ جس کا ترجمہ آپنے دیا اس میں برکتی کا مجھے کہیں ترجمہ نہیں ملا کہ اس نے ابو صالح سے روایت کی ہو... یہ حدیث اصول کے لحاظ سے اس سند سے موضوع ہوگی. لیکن جیسا کہ مصنف میں موجود ہے تب وہ صحیح اور اس سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح کہلائے گی مگر سند اسکی صحیھ نہیں جس میں سائب ہہے.. اگر کسی بھائی کے پاس یہ ثبوت ہو کہ سائب برکتی بھی ابو صالح سے روایت کرتا ہے تو مدینہ مدینہ ہو جائے
×
×
  • Create New...