Jump to content

محسن ظہیر

اراکین
  • کل پوسٹس

    1
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    1

محسن ظہیر last won the day on 3 اپریل 2018

محسن ظہیر had the most liked content!

About محسن ظہیر

Previous Fields

  • فقہ
    Hanafi

محسن ظہیر's Achievements

Newbie

Newbie (1/14)

  • First Post
  • Conversation Starter
  • Week One Done
  • One Month Later
  • One Year In

Recent Badges

1

کمیونٹی میں شہرت

  1. ترجمانی:اسعد اعظمی.بنارس ڈاکٹر موسیٰ موسوی نجف کے رہنے والے اور ایک بڑے شیعی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ۱۹۳۰ء ؁ میں پیدا ہوئے، خالص شیعی خاندان اور شیعی ماحول میں رہنے کے باوجود موجودہ شیعیت سے وہ بیزار رہتے تھے، وہ شیعہ اور حقیقی تشیع یا شیعیت کے مابین فرق اور بڑا فاصلہ مانتے تھے۔ اس لیے انہوں نے موجودہ تشیع کی اصلاح کی تحریک چلا رکھی تھی، انہوں نے ’’الشیعۃ والتصحیح: الصراع بین الشیعۃ والتشیع‘‘ کے نام سے عربی زبان میں ایک مختصر کتاب لکھی اور رائج الوقت شیعی عقائد پر نقد کرتے ہوئے ان میں اصلاح کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ ان کے دادا مشہور شیعی زعیم امام اکبرسید ابو الحسن موسوی نے ابتداء یہ تحریک شروع کی تھی، اور تمام تر مخالفت کے باوجود اسے جاری رکھا تھا، ڈاکٹر موسیٰ موسوی نے بھی اس کام کو اور منظم کیا اور اس مقصد کو آگے بڑھایا۔ اس کتاب میں ڈاکٹر موسیٰ نے ’’ضرب القامات فی یوم عاشوراء‘‘کے عنوان سے پانچ صفحات میں گفتگو کی ہے، جس میں انہوں نے تعزیہ داری اور ماتم ومرثیہ خوانی وغیرہ کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے بعد لکھاہے کہ: ہمیں تعیین کے ساتھ یہ معلوم نہیں کہ ایران وعراق کے شیعی علاقوں میں عاشوراء کے دن سینہ کوبی اور زنجیروں سے ضرب لگانے کی شروعات کب ہوئی۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دسویں محرم کو شہادت حسین کے غم میں سروں پر تلواریں مارنے اور اپنے کو لہولہان کرنے کی رسم ہندوستان سے ہی ایران وعراق میں آئی ہے، اور یہ اس وقت کی بات ہے جب انگریز ان ممالک پر حکومت کررہے تھے، انگریزوں ہی نے شیعوں کی جہالت، سادہ لوحی، اور امام حسین سے ان کی غلو آمیز محبت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو سر پھٹول کی تربیت دی۔ ماضی قریب تک تہران اور بغداد میں موجود برطانوی سفارت خانے ان حسینی جلوسوں کی مالی امداد کرتے تھے جو سڑکوں اور گلی کوچوں میں اس بھیانک منظر کے ساتھ نمودار ہوتے تھے، انگریز اپنی سامراجی سیاست کے تحت اس وحشیانہ کاروائی کو اس لیے بڑھاوا دے رہے تھے تاکہ برطانوی عوام اور سامراج مخالف اخبارات و جرائد کو ہندوستان اور دیگر اسلامی ممالک پر اپنے قبضہ کا جواز پیش کریں، اور ان ممالک کے باشندوں کو ایسی وحشی قوم کی شکل میں پیش کریں جسے ایک ایسے سرپرست کی ضرورت ہے جو اسے جہالت اور درندگی کے دلدل سے نکالے، چنانچہ عاشوراء کے دن جب سڑکوں پر ماتمی جلوس چلتے اور اس میں شامل ہزاروں لوگ زنجیروں سے اپنی پیٹھوں پر ضرب لگاتے اور خون میں لت پت ہوتے، اپنے سروں کو ڈنڈوں اور تلواروں سے لہولہان کرتے تو ان تمام مناظر کی تصویریں انگریزی او ریورپی اخبارات میں شائع کی جاتیں، اور سامراجی آقا بڑی خوبصورتی کے ساتھ یہ دلیل پیش کرتے کہ دیکھو ہم محض انسانی فریضہ کی ادائیگی کے لئے ان ممالک میں ڈیرہ ڈالے ہیں جن کے باشندوں کی یہ تہذیب ہے، ان قوموں کو تمدن اور ترقی کی راہ پر لگانے کی خاطر ہمارا قیام وہاں ضروری ہے۔ ڈاکٹر موسیٰ موسوی مزید لکھتے ہیں: بیان کیا جاتا ہے کہ عراق پر برطانوی قبضے کے زمانہ میں اس وقت کے عراقی صدر یاسین ہاشمی عراق سے برطانوی حکومت کے خاتمہ کے متعلق گفت و شنید کے لیے جب لندن گئے تو انگریزوں نے ان سے کہاکہ ہم تو عراق میں محض عراقی عوام کی مدد کے لئے ہیں تاکہ وہ ترقی سے بہرہ ور ہو اور وحشت وبربریت سے باہر نکلے۔ اس بات سے یاسین ہاشمی بھڑک اٹھے اور ناراض ہوکر مذاکرات والے کمرے سے باہر نکل آئے، مگر انگریزوں نے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے ان سے معذرت کی اور بصد احترام ان سے درخواست کی کہ عراق سے متعلق ایک دستاویزی فلم مشاہدہ کریں، ان کو جو فلم دکھائی گئی وہ نجف، کربلا اور کاظمیہ کی سڑکوں پر چلنے والے حسینی (ماتمی) جلوسوں کی تھی جن کے لاٹھیوں اور زنجیروں کی مار دھاڑ کے خوفناک اور نفرت انگیز مناظر فلمائے گئے تھے۔ گویا انگریز عراقی صدر سے یہ کہنا چاہتے تھے کہ آپ ہی بتائیں معمولی تہذیب و تمدن والی بھی کوئی قوم اپنے آپ ایسا کر سکتی ہے؟ ڈاکٹر موسیٰ موسوی نے یہ بھی لکھا ہے کہ شام کے ایک بڑے شیعہ عالم سید محسن امین عاملی نے ۱۳۵۲ ؁ھ میں اس ماتمی حرب و ضرب اور اس سے متعلقہ اعمال کو حرام ٹھہرایا اور اپنی بات کو انہوں نے بڑی صراحت اور بے مثال جرأت کے ساتھ کہا اور شیعوں سے اس طرح کے کاموں کو چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا۔ مگر علماء اور مذہب کے قائدین نے ان کی سخت مخالفت کی اور اپنے ساتھ بے لگام عوام کو بھی ملالیا۔ ان کی اصلاحی کوششیں خاک میں ملنے کے قریب تھیں، مگر ہمارے دادا سید ابوالحسن شیعہ جماعت کے اعلیٰ رہنما کی حیثیت سے ان کی اصلاحی تحریک کے مؤید ہوگئے اور ان کے فتویٰ کی مکمل طور سے تائید کا اعلان کیا۔ ان حضرات کی مخالفت ہوتی رہی مگر سید ابوالحسن کے مقام ومرتبہ اور رعب ودبدبہ کی وجہ سے مخالفت کا زور کم ہوا اور عوامی پیمانے پر سید ابوالحسن کے فتویٰ کو مقبولیت حاصل ہوئی اور دھیرے دھیرے ان رسوم میں بڑی کمی آگئی، ہمارے دادا جب ۱۳۶۵ ؁ھ میں وفات پاگئے تو بعض نئی قیادتوں نے ان کاموں پر لوگوں کو دوبارہ ابھارنا شروع کیا، اور دھیرے دھیرے اس میں تیزی آتی گئی، پھر بھی ۱۳۵۲ ؁ھ کے پہلے جیسی پوزیشن پر نہیں لوٹ سکی۔ موسوی صاحب نے اس مقام پر عبرت و موعظت سے پر ایک واقعہ بھی ذکر کیا ہے، لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ محرم کی دسویں تاریخ کو بارہ بجے دن میں میں کربلا میں امام حسین کے روضہ کے قریب کھڑا تھا، ایک مشہور بزرگ شیعہ عالم بھی میرے قریب کھڑے تھے، اتنے میں ماتم کرنے والوں کا ایک جلوس حضرت حسین پر ماتم کرتے ہوئے تلواروں سے اپنے سروں کو لہولہان کیے روضہ حسین میں داخل ہوا، اس جلوس میں شریک لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں پر خون بہے جارہے تھے، یہ بڑا ہی نفرت آمیز اور رونگٹے کھڑا کر دینے والا منظر تھا۔ پھر ایک دوسرا جلوس بھی آ پہنچا، یہ لوگ بھی زنجیروں سے اپنی پیٹھوں پر ضرب لگا لگا کر لہولہان کئے ہوئے تھے۔ یہ سب منظر دیکھ کر وہ بزرگ شیعی عالم مجھ سے پوچھتے ہیں: کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ اپنے اوپر مصائب وآلام کے پہاڑ توڑ رہے ہیں؟ میں نے کہا: آپ سن نہیں رہے ہیں؟ یہ لوگ ’’واحسیناہ‘‘ کہہ رہے ہیں، یعنی حضرت حسین کا ماتم کررہے ہیں۔ پھر بزرگ عالم نے دوبارہ فرمایا: ألیس الحسین الآن فی ’’مقعد صدق عند ملیک مقتدر‘‘؟ کیا حضرت حسین اس وقت قدرت والے بادشاہ (اللہ رب العزت) کے پاس مجلس حق (یعنی جنت) میں نہیں ہیں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں! انہوں نے دوبارہ سوال کیا: کیا حضرت حسین اس لمحہ اس جنت میں نہیں ہیں ’’التي عرضہا کعرض السماوات والأرض أعدت للمتقین‘‘ جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کے برابر ہے، اور جو متقیوں کے لئے بنائی گئی ہے؟ میں نے کہا: بالکل! ان کا اگلا سوال تھا کہ کیا جنت میں ’’حور عین کأمثال اللؤلؤ المکنون‘‘ بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں نہیں ہیں جو چھپے ہوئے (محفوظ) موتیوں کی طرح ہیں؟ میں نے کہا :کیوں نہیں! اس موقع پر وہ لمبی سانس لیتے ہیں اور انتہائی درد بھرے لہجے میں فرماتے ہیں: بربادی ہو ان نادانوں اور کم عقلوں پر، یہ لوگ ایسی حرکتیں کیوں کر رہے ہیں! کیا اس امام کے واسطے کر رہے ہیں جو اس وقت جنت اور نعمت میں محظوظ ہورہے ہیں، ان کے پاس ایسے لڑکے جو ہمیشہ (لڑکے ہی) رہیں گے آبخورے اور جگ لے کر اور ایسا جام لے کر جو بہتی ہوئی شراب سے پر ہو آمدورفت کر رہے ہیں۔ (یطوف علیہم ولدان مخلدون بأکواب وأباریق وکأس من معین)انتہی۔
×
×
  • Create New...