Jump to content

waseemazhari774

اراکین
  • کل پوسٹس

    17
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    8

waseemazhari774 last won the day on 12 اپریل 2020

waseemazhari774 had the most liked content!

About waseemazhari774

تازہ ترین ناظرین

The recent visitors block is disabled and is not being shown to other users.

waseemazhari774's Achievements

Apprentice

Apprentice (3/14)

  • First Post
  • Collaborator
  • Conversation Starter
  • Week One Done
  • One Month Later

Recent Badges

2

کمیونٹی میں شہرت

  1. وباء میں اذانیں دینے پر اعتراض کا علمی و الزامی جواب دنیا اس وقت جس عالمی وبا یعنی کورونا وائرس کی لپٹ میں ہے۔ ہر ممکن احتیاطی تدابیر اپنائی جا رہی ہیں۔ اللہ کریم ﷻ سے دعائیں مانگی جا رہی ہیں۔ اور توبہ و استغفار کی جا رہی ہے۔ کیونکہ وبا و بلا و عذاب میں اذان دینا ایک مستحب امر جو اللہ کریم ﷻ کے غضب کو دور کرتا ہے لہذا مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں اللہ کی توحید اور نبی کریم ﷺ کی رسالت کی گواہی اذان کے ذریعے بلند کر رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جو خود کو مسلمان کہتا ہے وہ اس عمل کو نہ صرف سراہتا بلکہ دعا کرتا کہ اللہ کریم ﷻ اپنے اس ذکر(یعنی اذان) کے صدقے اس وباء کو ٹال دے۔ میں ان حالات میں اس چیز پر گفتگو نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن افسوس کیساتھ کچھ لوگوں نے اذان دینے والے مسلمانوں پر فتویٰ بازی شروع کر دی اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ معاذ اللہ وباء میں اذنیں دینا جہالت ہے ، بدعت ہے اور بدعتی جہمنی ہے۔ وبا میں اذنیں دینا ثابت نہیں۔ تو آئیے ملاحظہ کیجئے۔ کہ جب وباء عذاب کی صورت میں آ جائے تو اذان دینا مستحب و جائز ہے۔ *اذان سے وبا کے عذاب کا ٹَلنا* حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے رویت ہے کہ حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: "اِذَا اَذَّنَ فِیْ قَرِیَةٍ اٰمَنَھَا اللہُ مِنْ عَذَابِهٖ فِیْ ذٰلِكَ الْیَوْمِ" جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو اللہ تعالی اس دن اسے اپنے عذاب سے امن دے دیتا ہےـ [المعجم الکبیر مرویات انس بن مالك، جلد 1، صفحہ257، حدیث:746، مطبوعہ المکتبة الفیصلیه بیروت] یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس وبائی عذاب کو ٹالنے کیلئے فرمانِ مصطفٰی ﷺ کے مطابق اذنیں دے رہے ہیں۔ *وبا کی وحشت دور کرنے کیلئے اذان* ابونعیم و ابن عساکر حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راویت کرتے ہیں کہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: نَزَلَ آدَمُ بِالْھِندِ فَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرَئِیْلُ عَلَیْه الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام فَنَادیٰ بِالْاَذَاَنِ یعنی: جب آدم علیہ الصلاۃ والسلام جنت سے ھندوستان میں اترے انہیں گھبراہٹ ہوئی تو جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے اتر کر اذان دی۔ [حلیة الاولیاء مرویات عمرو بن قیس الملائی ، جلد 2، صفحہ 107، رقم:299 ، مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت] مسند الفردوس میں حضرت جناب امیرُ المومنین مولٰی المسلمین سیدنا علی مرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے روایت ہے: قَالَ رَایٰ النَّبِیُّ صَلّٰی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْهِ وَسَلَّم حُزِیْناً فَقَالَ یَا ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ اِنِّیْ اَرَاكَ حُزِیْناً فَمُرْ بَعْضَ اَھْلِكَ یُؤَذِّنُ فِیْ اُذُنِكَ فَاِنَّهٗ دَرْءُ الْھَّمِ یعنی: مولا علی کہتے ہیں مجھے حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے غمگین دیکھا ارشاد فرمایا: اے علی! میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے۔ [مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوہ المصابیح باب الاذان ، جلد 2، صفحہ 149، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان] اذان دینے سے جہاں وبا سے امان ملتا ہے وہاں وحشت بھی دور ہوتی ہے۔ لہذا اس ثابت شدہ امر کو بدعت و جہالت کہنا بہت بڑی زیادتی ہے۔ اور مانعین اسکے ناجائز و بدعت ہونے پر ایک بھی دلیل پیش نہیں کر سکتے۔ *محدث وھابیہ کی گواہی* صاحبو ! مانعین کہتے ہیں کہ فرض نماز کے علاوہ اذان دینا کہیں سے بھی ثابت نہیں اور بدعت و جہالت ہے۔ آئیے فرض نماز وں کے علاوہ اذانوں کا ثبوت ہم انہی کے محدث سے پیش کرتے ہیں۔ وھابی مذھب کے محدث و انکے مجدد مولوی نواب صدیق حسن خان بھوپالی لکھتے ہیں کہ: ”زید بن اسلم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بعض معاون پر والی تھے۔ لوگوں نے کہا یہاں جن بہت ہیں۔ کثرت سے اذانیں (ایک ہی) وقت پر کہا کرو ، چنانچہ ایسے ہی کیا گیا اور پھر کسی جن کو وہاں نہ دیکھا“ [کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاھور] وھابیہ کے محدث نے اس بات کو تسلیم کیا کہ نمازوں کے علاوہ بھی کثرت کیساتھ اکٹھی اذانیں دینے سے بلائیں بھاگ جاتی ہیں۔ تو کیا فتویٰ لگے گا آپکے محدث بھوپالی پر ؟؟ وھابیہ کے یہی محدث بھوپالی اپنی کتاب میں ھیڈنگ دے کر لکھتے ہیں ”مشکلات سے نکلنے کیلئے“ پھر اس عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ: ”حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے مجھ کو مہموم (پریشان) دیکھ کر فرمایا کہ اپنے گھر والوں میں سے کسی کو حکم دے کہ وہ تیرے کان میں اذان کہہ دیں کہ یہ دواءِ ھم (یعنی پریشانی کی دواء) ہے چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا مجھ سے غم دور ہو گیا۔“ [کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاھور] *مشکلات ٹالنے کیلئے اذان* تو وھابیہ کے محدث نے بھی تسلیم کیا کہ اذان سے غم دور ہوتا ہے۔ اور مشکلات ٹَلتی ہیں، تو سوچو جب مسلمانوں کی اذانوں کی آواز اتنے لوگوں کے کانوں میں پڑی تو کتنا سکون ملا ہو گا۔ اگر نماز کے علاوہ اذان دینا جہالت و بدعت ہے تو کیا حکم لگے گا آپکے محدث بھوپالی صاب پر ؟؟ *مرگی کے علاج کیلئے اذان* وھابیہ کے مجدد بھوپالی نے اپنی کتاب میں عنوان قائم کیا جسکا نام ”مرگی کا علاج“ اسکے تحت وہ لکھتے ہیں کہ: ”بعض علماء نے مرگی والے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تھی ، وہ اچھا ہو گیا۔“ [کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 77، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاھور] مزید عنوان دیا ”راستہ بھول جانے کا علاج“ اسکے تحت لکھا کہ: ”بعض علماء صالحین نے کہا ہے کہ آدمی جب راستہ بھول جائے اور وہ اذان کہے تو اللہ اسکی رہنمائی فرماوے گا۔“ [کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاھور] مزید اسی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ: ”جسکو شیطان خبطی کر دے یا اسکو آسیب کا سایہ ہو.... تو اسکے کان میں سات بار اذان کہےـ“ [کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76،105، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاھور] تو ان دلائل سے ثابت ہوا کہ مصیبت و پریشانی کے وقت اذانیں دینے سے مصیبت وبائیں اور پریشانیاں دور ہوتی ہیں۔ بس اسی جذبے تحت مسلمانوں نے کراؤنا وائرس جیسی وباء سے جھٹکارے کیلئے اللہ کے ذکر یعنی اذان کی تدبیر کی تاکہ اللہ کریم ﷻ اپنے ذکر کی برکت سے اس آفت کو ٹال سے اور مسلمانوں کو خوف وہراس سے نکال دے۔ لیکن کچھ لوگ برا مان گئے نہ صرف برا مانے بلکہ اذانوں کا یہ سلسلہ دیکھ کر مسلمانوں کو نہ صرف بدعتی بلکہ جاھل کہنا شروع کر دیا۔ الحمد للہ ہم نے اتمام حجت کیلئے نہ صرف احادیث سے اسکے جواز کے شوھد پیش کیئے بلکہ انکے اس محدث کے حوالے بھی پیش کیئے جنکے بارے میں انہوں نے لکھا کہ وہ رب سے ہمکلام ہوا کرتے تھے۔ یقیناً اذان سن کر شیطان ہی کو تکلیف ہوتی اور مسلمانوں کو جاھل کہتا ہے کیونکہ اذان سن کر کرشیطان 36 میل دور بھاگ جاتا ہے۔ امام مسلم رحمۃ اللّٰہ علیہ روایت کرتے ہیں: عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ ذَهَبَ حَتَّى يَكُونَ مَكَانَ الرَّوْحَاءِ» قَالَ سُلَيْمَانُ: فَسَأَلْتُهُ عَنِ الرَّوْحَاءِ فَقَالَ: «هِيَ مِنَ الْمَدِينَةِ سِتَّةٌ وَثَلَاثُونَ مِيلًا» یعنی: حضرت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : بلاشبہ شیطان جب اذان سنتا ہے تو ( بھاگ کر ) چلا جاتا ہے یہاں تک کہ روحاء کے مقام پر پہنچ جاتا ہے ۔ ‘ سلیمان ( اعمش ) نے کہا : میں نے ان ( اپنے استاد ابو سفیان طلحہ بن نافع ) سے روحاء کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : یہ مدینہ سے چھتیس میل ( کے فاصلے ) پر ہے ۔ [صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل الأذان... إلخ، الحدیث:854، مطبوعہ دار السلام ریاض سعودیہ] لہذا کم از کم مسلمان کو اذان سن کر خوش ہونا چاہئے اور آفت ٹلنے کی دعا کرنی چاہئے نہ کہ پڑھنے والوں کو جاھل و بدعتی کہہ اپنا رشتہ شیطان سے ظاھر کرنا چاہئے۔ اللہ کریم ﷻ سے دعا ہے کہ امت کو اس وبا سے نجات عطا فرمائے اور حق کو سمجھنے کہ توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الکریم الامین ﷺ مدینے پاک کا بھکاری محمداویس رضاعطاری Sent from my Redmi Note 5 using Tapatalk
  2. ائمہ کرام کو بُرا کہنے والا مردود ہے اور اہلحدیث سے خارج ہے۔غیرمقلد شاہجہاں پوری کا فتوی مشہور غیر مقلد عالم شاہ جہاں پوری ائمہ کرامؒ کی شان بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں کہ ”وہ بڑے پاکیزہ نفوس تھے اور جو عیب گیری کریں وہ اس سے پاک تھے۔۔۔یہ ان کی خدمتوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم دین کو آسانی کے ساتھ منقح اور مرتب پا رہے ہیں اس سب کے بعد بڑا مردود ہو گا جو ان کو بُرا کہے۔۔غیر مقلدوں سے اگر کوئی اس قسم کا پایا جائے تو وہ قابل اعتبار افراد سے ہی خارج ہے ۔۔اور ذیادہ مستحق ہے کہ اہلحدیث سے ہی خارج ٹھہرایا جائے” (الارشاد ،صفحہ 34،35) تو مولانا کے اس فتوے سے ثابت ہوا کہ جو غیر مقلد ائمہ کرامؒ (امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ ، امام شافعیؒ) کو بُرا کہے وہ مردود ہے اور اہلحدیث سے خارج ہے۔ Sent from my Redmi Note 5 using Tapatalk
  3. ماں کی پکار پر نماز توڑ دینا کیا یہ حدیث صحیح ہے : کاش میری ماں زندہ ہوتی ، اور میں عشاء کی نماز کے لئے مصلی پر کھڑا ہوتا ، اور سورہ فاتحہ شروع کرچکا ہوتا ، ادھر سے میرے گھر کا دروازہ کھلتا اور میری ماں پکارتی : محمد، تو میں ان کے لئے نماز توڑ دیتا اور میں کہتا : لبیک اے ماں ۔ الجواب : یہ حدیث دو طرح کے الفاظ سے وارد ہے : 1-عن طلق بن علي، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَوْ أَدْرَكْتُ وَالِدَيَّ أَوْ أَحَدَهُمَا وَأَنَا فِي صَلاةِ الْعِشَاءِ، وَقَدْ قَرَأْتُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ يُنَادِينِي: يَا مُحَمَّدُ؛ لأَجْبُتُه لَبَّيْكَ . شعب الإيمان (10/ 284) ، مصنفات أبي جعفر ابن البختري (ص: 210) ، الموضوعات لابن الجوزي (3/ 85) . 2-عن طَلْقَ بْن عَلِيٍّ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَوْ أَدْرَكْتُ وَالِدَيَّ أَوْ أَحَدَهُمَا ، وَقَدِ افْتَتَحْتُ صَلَاةَ الْعِشَاءِ ، فَقَرَأْتُ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ فَدَعَتْنِي أُمِّي تَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ ، لَقُلْتُ لَبَّيْكِ . البر والصلة لابن الجوزي (ص: 57) ، كنز العمال (16/ 470) . حدیث کا ترجمہ : اگر میں میرے والدین، یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو پاتا ، جبکہ میں عشاء کی نمازشروع کرکے سورہ فاتحہ پڑچکا ہوتا ، اور وہ مجھے پکارتے (یا ماں پکارتی ) : اے محمد ، تو میں جوابا : لبیک کہتا ۔ اوپر سوال میں بعض الفاظ اصل حدیث پر زائد ہیں ، جو روایت میں وارد نہیں ہیں ۔ اس حدیث کی اسانید کا مدار : یاسین بن معاذ الزیات ہے ، وہ عبد اللہ بن قُرَیر سے ، اور وہ طلق بن علی سے روایت کرتے ہیں ۔ عبد اللہ بن قریر کے والد کا نام کتابوں میں محرف آتاہے ( مرثد ، قرین ، قوید ) یہ سب تحریف ہے ، صحیح ( قُرَیر ) ہے ، دیکھو ( الاکمال لابن ماکولا (7/ 84) ۔ ابن الجوزی اور ابو الشیخ کی روایت میں ( فدعَتنی اُمی ) ہے ، اسی سے ہمارے یہاں : اور میری ماں پکارتی ، کے الفاظ مشہور ہیں ۔ حدیث کا حال : یہ حدیث سند کے لحاظ سے نا قابل اعتبار ہے ، چونکہ اس میں مدار سند : یاسین الزیات ہے ، جو ناقدین کے نزدیک بہت سخت مجروح ہے ، اس کی روایات نکارت سے خالی نہیں ہے ، اس لئے اس روایت کی نسبت حضور ﷺ کی طرف کرنا درست نہیں ہے ۔ البتہ اس مضمون کی دوسری احادیث منقول ہیں ، لیکن وہ بھی ضعف وانقطاع سے خالی نہیں ہیں ، مثلا : 1- ... عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا دَعَتْكَ أُمُّكَ فِي الصَّلَاةِ فَأَجِبْهَا، وَإِذَا دَعَاكَ أَبُوكَ فَلَا تُجِبْهُ» . مصنف ابن أبي شيبة (2/ 191 حديث 8013 ) مرسل . 2- ... الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ: قَالَ مَكْحُولٌ: " إِذَا دَعَتْكَ وَالِدَتُكَ وَأَنْتَ فِي الصَّلَاةِ فَأَجِبْهَا، وَإِذَا دَعَاكَ أَبُوكَ فَلَا تُجِبْهُ حَتَّى تَفْرُغَ مِنْ صَلَاتِكَ " . شعب الإيمان (10/ 285) . قال ابن الملقن في التوضيح لشرح الجامع الصحيح (9/ 286) : فأما مرسل ابن المنكدر فالفقهاء على خلافه ولا أعلم به قائلًا غير مكحول . وفي فتح الباري لابن حجر (6/ 483) : وَحَكَى الْقَاضِي أَبُو الْوَلِيدِ أَنَّ ذَلِكَ يَخْتَصُّ بِالْأُمِّ دون الْأَب ، وَعند ابن أَبِي شَيْبَةَ مِنْ مُرْسَلِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ مَا يَشْهَدُ لَهُ ، وَقَالَ بِهِ مَكْحُولٌ ، وَقِيلَ : إِنَّهُ لَمْ يَقُلْ بِهِ مِنَ السَّلَفِ غَيْرُهُ . 3- ... الْحَكَمُ بْنُ الرَّيَّانِ، ثنا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ حَوْشَبٍ الْفِهْرِيُّ، عَنِ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَوْ كَانَ جُرَيْجٌ الرَّاهِبُ فَقِيهًا عَالِمًا لَعَلِمَ أَنَّ إِجَابَتَهُ أُمَّهُ أَوْلَى مِنْ عِبَادَةِ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ». رواه الحسن بن سفيان في مسنده، والترمذي في النوادر، وأبو نُعيم في المعرفة، والبيهقي في الشعب . كما في المقاصد الحسنة (ص: 551) . قال ابن مندة : "غريب تفرد به الحكم بن الريان عن الليث" . ومن هذا الطريق أخرجه أبو نعيم في "الصحابة" (2283) وقال : "حوشب أبو يزيد الفهري مجهول" . وكذا يزيد ولده مجهول . وَفِي سنده أيضا : مُحَمَّد بن مُوسَى السامي الْقرشِي مُتَّهم بالوضع . متن کےمذکورہ شواہد بھی اتنے مضبوط نہیں ہیں جو اصل روایت کی تقویت کے قابل ہوں ، اس لئے اس حدیث کی نسبت حضور ﷺ کی طرف کرنے میں احتیاط کرنا چاہئے ۔ Sent from my Redmi Note 5 using Tapatalk
  4. ماں کی پکار پر نماز توڑ دینا کیا یہ حدیث صحیح ہے : کاش میری ماں زندہ ہوتی ، اور میں عشاء کی نماز کے لئے مصلی پر کھڑا ہوتا ، اور سورہ فاتحہ شروع کرچکا ہوتا ، ادھر سے میرے گھر کا دروازہ کھلتا اور میری ماں پکارتی : محمد، تو میں ان کے لئے نماز توڑ دیتا اور میں کہتا : لبیک اے ماں ۔ الجواب : یہ حدیث دو طرح کے الفاظ سے وارد ہے : 1-عن طلق بن علي، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَوْ أَدْرَكْتُ وَالِدَيَّ أَوْ أَحَدَهُمَا وَأَنَا فِي صَلاةِ الْعِشَاءِ، وَقَدْ قَرَأْتُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ يُنَادِينِي: يَا مُحَمَّدُ؛ لأَجْبُتُه لَبَّيْكَ . شعب الإيمان (10/ 284) ، مصنفات أبي جعفر ابن البختري (ص: 210) ، الموضوعات لابن الجوزي (3/ 85) . 2-عن طَلْقَ بْن عَلِيٍّ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَوْ أَدْرَكْتُ وَالِدَيَّ أَوْ أَحَدَهُمَا ، وَقَدِ افْتَتَحْتُ صَلَاةَ الْعِشَاءِ ، فَقَرَأْتُ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ فَدَعَتْنِي أُمِّي تَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ ، لَقُلْتُ لَبَّيْكِ . البر والصلة لابن الجوزي (ص: 57) ، كنز العمال (16/ 470) . حدیث کا ترجمہ : اگر میں میرے والدین، یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو پاتا ، جبکہ میں عشاء کی نمازشروع کرکے سورہ فاتحہ پڑچکا ہوتا ، اور وہ مجھے پکارتے (یا ماں پکارتی ) : اے محمد ، تو میں جوابا : لبیک کہتا ۔ اوپر سوال میں بعض الفاظ اصل حدیث پر زائد ہیں ، جو روایت میں وارد نہیں ہیں ۔ اس حدیث کی اسانید کا مدار : یاسین بن معاذ الزیات ہے ، وہ عبد اللہ بن قُرَیر سے ، اور وہ طلق بن علی سے روایت کرتے ہیں ۔ عبد اللہ بن قریر کے والد کا نام کتابوں میں محرف آتاہے ( مرثد ، قرین ، قوید ) یہ سب تحریف ہے ، صحیح ( قُرَیر ) ہے ، دیکھو ( الاکمال لابن ماکولا (7/ 84) ۔ ابن الجوزی اور ابو الشیخ کی روایت میں ( فدعَتنی اُمی ) ہے ، اسی سے ہمارے یہاں : اور میری ماں پکارتی ، کے الفاظ مشہور ہیں ۔ حدیث کا حال : یہ حدیث سند کے لحاظ سے نا قابل اعتبار ہے ، چونکہ اس میں مدار سند : یاسین الزیات ہے ، جو ناقدین کے نزدیک بہت سخت مجروح ہے ، اس کی روایات نکارت سے خالی نہیں ہے ، اس لئے اس روایت کی نسبت حضور ﷺ کی طرف کرنا درست نہیں ہے ۔ البتہ اس مضمون کی دوسری احادیث منقول ہیں ، لیکن وہ بھی ضعف وانقطاع سے خالی نہیں ہیں ، مثلا : 1- ... عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا دَعَتْكَ أُمُّكَ فِي الصَّلَاةِ فَأَجِبْهَا، وَإِذَا دَعَاكَ أَبُوكَ فَلَا تُجِبْهُ» . مصنف ابن أبي شيبة (2/ 191 حديث 8013 ) مرسل . 2- ... الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ: قَالَ مَكْحُولٌ: " إِذَا دَعَتْكَ وَالِدَتُكَ وَأَنْتَ فِي الصَّلَاةِ فَأَجِبْهَا، وَإِذَا دَعَاكَ أَبُوكَ فَلَا تُجِبْهُ حَتَّى تَفْرُغَ مِنْ صَلَاتِكَ " . شعب الإيمان (10/ 285) . قال ابن الملقن في التوضيح لشرح الجامع الصحيح (9/ 286) : فأما مرسل ابن المنكدر فالفقهاء على خلافه ولا أعلم به قائلًا غير مكحول . وفي فتح الباري لابن حجر (6/ 483) : وَحَكَى الْقَاضِي أَبُو الْوَلِيدِ أَنَّ ذَلِكَ يَخْتَصُّ بِالْأُمِّ دون الْأَب ، وَعند ابن أَبِي شَيْبَةَ مِنْ مُرْسَلِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ مَا يَشْهَدُ لَهُ ، وَقَالَ بِهِ مَكْحُولٌ ، وَقِيلَ : إِنَّهُ لَمْ يَقُلْ بِهِ مِنَ السَّلَفِ غَيْرُهُ . 3- ... الْحَكَمُ بْنُ الرَّيَّانِ، ثنا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ حَوْشَبٍ الْفِهْرِيُّ، عَنِ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَوْ كَانَ جُرَيْجٌ الرَّاهِبُ فَقِيهًا عَالِمًا لَعَلِمَ أَنَّ إِجَابَتَهُ أُمَّهُ أَوْلَى مِنْ عِبَادَةِ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ». رواه الحسن بن سفيان في مسنده، والترمذي في النوادر، وأبو نُعيم في المعرفة، والبيهقي في الشعب . كما في المقاصد الحسنة (ص: 551) . قال ابن مندة : "غريب تفرد به الحكم بن الريان عن الليث" . ومن هذا الطريق أخرجه أبو نعيم في "الصحابة" (2283) وقال : "حوشب أبو يزيد الفهري مجهول" . وكذا يزيد ولده مجهول . وَفِي سنده أيضا : مُحَمَّد بن مُوسَى السامي الْقرشِي مُتَّهم بالوضع . متن کےمذکورہ شواہد بھی اتنے مضبوط نہیں ہیں جو اصل روایت کی تقویت کے قابل ہوں ، اس لئے اس حدیث کی نسبت حضور ﷺ کی طرف کرنے میں احتیاط کرنا چاہئے ۔ Sent from my Redmi Note 5 using Tapatalk
  5. #Abdul Mannan Bhai Mere Mene aapka Sawal Pad Liya Tha Lekin Apke Sawal K Jawab Ka Mujhe Sahi Ilm Nhi Tha Isliye Mene Koi Jawab Na De Kr Bs Apni Choti Si Baat Rakh Di Bhai Agr Galat Kiya To Maafi Chahta Hu Sent from my Redmi Note 5 using Tapatalk
  6. Qudsiya Husoor Tajjushariya Allam Akhter Raza Khan Alehrehma Ki Ladki Ka Naam Hai Sent from my Redmi Note 5 using Tapatalk Wailekum Assalam Mubarak Ho Sent from my Redmi Note 5 using Tapatalk
  7. Sahi Kaha Sent from my Redmi Note 5 using Tapatalk
×
×
  • Create New...