Jump to content

محمد افتخار الحسن

اراکین
  • کل پوسٹس

    7
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

سب کچھ محمد افتخار الحسن نے پوسٹ کیا

  1. ⚡️⚡️انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے؟؟؟⚡️⚡️ حسن اچانک زمین پر گرتا ہے اور اس کا دوست دانش اسے اٹھانے کے لیے سہارا دیتا ہے۔ دانش:کیا ہوا حسن؟چکر آگئے کیا؟تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟ حسن:بس یار!انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ہمارے ایک غیر مسلم پڑوسی کو خون کی اشد ضرورت تھی اور اتفاق سے میرا خون کا گروپ اس کے خون سے ملتا تھا لہذا کل دو بوتل خون کی عطیہ کرکے آیا ہوں۔مجھے تو اس بات کی خوشی ہے کہ میں نے ایک انسان کی جان بچائی ہے۔ دانش:اگر خون دینا تھا تو کسی مسلمان کو دیتے غیرمسلم کو دینے کی کیا ضرورت تھی؟ حسن:یار!پھر کیا ہوا؟غیر مسلم بھی تو انسان ہیں اگر میں نے ایک غیر مسلم کو خون عطیہ کردیا تو پھر کیا ہوا؟ویسے بھی انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے۔ دانش:حسن بھائی!انسانیت کوئی مذہب نہیں ہے۔مذہب اسلام سب سے بڑا مذہب ہے اور ہم تمام مسلمان اسی مذہب پر چلنے کے پابند ہیں۔یہ جملہ تو کسی بے دین کا گھڑا ہوا لگتاہے۔اگر دین اسلام میں کسی کام کی اجازت دی گئی ہے تو بے شک بڑھ چڑھ کر اسے کرنا چاہیےالبتہ جن کاموں سے منع کیا گیا ہے انہیں ایسے من گھڑت جملوں کی آڑ میں نہیں کر گزرنا چاہیے۔ حسن:یہ کیا بات ہوئی؟کیا اسلام ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ترغیب نہیں دیتا ۔نیز پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ دانش:پیارے حسن بھائی!ناراض نہ ہوں میں آپ کو سب کچھ سمجھاتا ہوں۔دیکھیں!بے شک اسلام نے ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ترغیب دی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر مسلم وغیرمسلم کے لیے فرش راہ بن جائیں بلکہ مسلمانوں کی مدد کرنی چاہیے اور بے شک اس میں بہت ثواب ہے۔ دوسری بات!پڑوسیوں کے حقوق میں سب سے پہلے یہ ہے کہ اگر پڑوسی غیرمسلم ہے تو اسے اسلام کی دعوت دی جائے اور اگر وہ نہ مانے تو اس سے قطع تعلق کر لیا جائے۔ جہاں تک تعلق ہے اس جملے کا تو اس بارے میں عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:" إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الْإِسْلاَمُ"(ترجمہ کنزالایمان:بے شک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے)نیز ایک مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:" وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ "(ترجمہ کنزالایمان:اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا) حسن بھائی!اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ارشاد فرمادیا کہ اسلام ہی دین ہے تو جو احکام اس دین میں موجود ہیں صرف اسی پر عمل پیرا ہونا چاہیے اور اسی دین کے منع کردہ کاموں سے بچنا چاہیے اور دین اسلام نے ہمیں غیر مسلم افراد سے میل جول سے منع فرمایا ہے۔ حسن:بہت بہت شکریہ دانش بھائی! آپ نے مجھے بے حد مفید باتیں بتائیں۔ آئندہ میں اس معاملے میں احتیاط کیا کروں گا اور اپنی تمام تر ہمدردیاں اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے خاص کردوں گا۔ ✍ ابوالحسن محمد افتخار الحسن عطاری المدنی 12 صفر المظفر 1439
  2. محمد افتخار الحسن

    تقریب سعید

    ??تقریب سعید?? شادی کی ایک تقریب میں مدعو تھا۔ ہمارے علاقے میں کھانا کھا چکنے کے بعد جب مہمان مختلف کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں تو کچھ خانہ بدوش بھکاری خواتین باقی ماندہ کھانے پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے چڑھ دوڑتی ہیں جو بہروں (waiters)تو کیا میزبانوں سے بھی بسااوقات الجھ پڑتی ہیں۔ اسی اثنا میں جب ہم کھانا کھا چکے تھے تو کچھ بھکاری خواتین کھانے کے پنڈال میں آگھسیں اور پلیٹوں میں بچا ہوا کھانا اپنے اپنے برتنوں میں انڈیلنے لگیں۔ اچانک حاشیہ خیال میں ایک تصور نے دستک دی اور خیالوں کے عمیق گڑھے میں گرتا چلا گیا۔ دراصل میزبانوں کے ایما پر بیسویوں افراد کے لیے کافی کھانا کچرے کونڈی کی نذر کردیا جاتا اور گناہوں بھرا طویل نامہ اعمال سیاہ کیا جاتا ہے حالانکہ اگر درست انداز میں اس کھانے کو استعمال کیا جائے تو کثیر مقدار میں کھانا کئی خاندانوں کے لیے نان شبینہ کا کام دے سکتا ہے۔ کھانے کی دعوت میں آنے والی یہ خواتین میزبان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں کہ ان کے توسط سے کھانے کے ضیاع سے ہونے والا گناہ کم ہوجاتاہے گو ان کا انداز نامناسب ہونے کی وجہ سے انہیں دھتکار دیا جاتا ہے البتہ اخلاقی اقدار کو استعمال کرتے ہوئے ان سے برتاؤ کرنا انسانیت کی اچھی مثال بن سکتاہے۔ سچ پوچھیں تو اس دن ایک بات سمجھ آگئی کہ کوئی بھی شخص حقیر نہیں کہ بسااوقات بھکاری بھی محسن کے روپ میں ہماری مدد کرجاتے ہیں لیکن ہم ان کی طرف توجہ نہیں دیتے۔اللہ تعالیٰ ہمارے بچے ہوئے کھانے سے بھی کئی افراد کو رزق فراہم کرتا ہے کیونکہ روزی اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے نیز ہماری تقریبات میں بچے ہوئے کھانے کو مناسب طریقے سے تقسیم کرکے رزق کے ضیاع سے بچا جاسکتاہے تاکہ اس سبب سے محتاجوں کی دعائیں ہمارا مقدر بن سکیں اور ہم خود رزق کی تنگی جیسی آفات سے بچ سکیں کہ میرے اور آپ کے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا تھاجس کا خلاصہ ہے: اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا!اس روٹی کا ادب کرو کہ یہ جس قوم سے جاتی ہے لوٹ کر نہیں آتی۔ آخر میں ایک درخواست ضرور کروں گا کہ اپنے حال پر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان تقریبات میں پاؤں پکڑ کر بھیک مانگنے والے بچے اور ہاتھ جوڑتی ماؤں میں ہمارے بچے اور مائیں نہیں ہوتی البتہ ان کو اپنائیت کی ضرور ت ضرور ہوتی ہے لہذا اپنے نہ سہی اپنا سمجھ کرکسی کے بچے اور مائیں تو ہیں کبھی اپنی ٹھوکروں اور جوتوں کی نذر نہ کیا جائے۔ ✍ازابو الحسن محمد افتخار الحسن عطاری المدنی 8 فروری 2018 بروز جمعرات
  3. محمد افتخار الحسن

    تقریب سعید

    ??تقریب سعید?? شادی کی ایک تقریب میں مدعو تھا۔ ہمارے علاقے میں کھانا کھا چکنے کے بعد جب مہمان مختلف کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں تو کچھ خانہ بدوش بھکاری خواتین باقی ماندہ کھانے پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے چڑھ دوڑتی ہیں جو بہروں (waiters)تو کیا میزبانوں سے بھی بسااوقات الجھ پڑتی ہیں۔ اسی اثنا میں جب ہم کھانا کھا چکے تھے تو کچھ بھکاری خواتین کھانے کے پنڈال میں آگھسیں اور پلیٹوں میں بچا ہوا کھانا اپنے اپنے برتنوں میں انڈیلنے لگیں۔ اچانک حاشیہ خیال میں ایک تصور نے دستک دی اور خیالوں کے عمیق گڑھے میں گرتا چلا گیا۔ دراصل میزبانوں کے ایما پر بیسویوں افراد کے لیے کافی کھانا کچرے کونڈی کی نذر کردیا جاتا اور گناہوں بھرا طویل نامہ اعمال سیاہ کیا جاتا ہے حالانکہ اگر درست انداز میں اس کھانے کو استعمال کیا جائے تو کثیر مقدار میں کھانا کئی خاندانوں کے لیے نان شبینہ کا کام دے سکتا ہے۔ کھانے کی دعوت میں آنے والی یہ خواتین میزبان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں کہ ان کے توسط سے کھانے کے ضیاع سے ہونے والا گناہ کم ہوجاتاہے گو ان کا انداز نامناسب ہونے کی وجہ سے انہیں دھتکار دیا جاتا ہے البتہ اخلاقی اقدار کو استعمال کرتے ہوئے ان سے برتاؤ کرنا انسانیت کی اچھی مثال بن سکتاہے۔ سچ پوچھیں تو اس دن ایک بات سمجھ آگئی کہ کوئی بھی شخص حقیر نہیں کہ بسااوقات بھکاری بھی محسن کے روپ میں ہماری مدد کرجاتے ہیں لیکن ہم ان کی طرف توجہ نہیں دیتے۔اللہ تعالیٰ ہمارے بچے ہوئے کھانے سے بھی کئی افراد کو رزق فراہم کرتا ہے کیونکہ روزی اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے نیز ہماری تقریبات میں بچے ہوئے کھانے کو مناسب طریقے سے تقسیم کرکے رزق کے ضیاع سے بچا جاسکتاہے تاکہ اس سبب سے محتاجوں کی دعائیں ہمارا مقدر بن سکیں اور ہم خود رزق کی تنگی جیسی آفات سے بچ سکیں کہ میرے اور آپ کے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا تھاجس کا خلاصہ ہے: اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا!اس روٹی کا ادب کرو کہ یہ جس قوم سے جاتی ہے لوٹ کر نہیں آتی۔ آخر میں ایک درخواست ضرور کروں گا کہ اپنے حال پر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان تقریبات میں پاؤں پکڑ کر بھیک مانگنے والے بچے اور ہاتھ جوڑتی ماؤں میں ہمارے بچے اور مائیں نہیں ہوتی البتہ ان کو اپنائیت کی ضرور ت ضرور ہوتی ہے لہذا اپنے نہ سہی اپنا سمجھ کرکسی کے بچے اور مائیں تو ہیں کبھی اپنی ٹھوکروں اور جوتوں کی نذر نہ کیا جائے۔ ✍ازابو الحسن محمد افتخار الحسن عطاری المدنی 8 فروری 2018 بروز جمعرات
  4. محمد افتخار الحسن

    ایک پہلو

    ??ایک پہلو?? میڈیا دورجدید کا زبردست ہتھیار ہے جو اپنی مکاری اور چالاکیوں کی وجہ سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔جہاں اس کے فوائد سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا وہیں اس کے نقصانات اور ہلاکتوں سے پردہ پوشی مناسب نہیں۔خصوصا اسلامی نظریات وعقائد پر حملے کسی طرح بھی قابل برداشت نہیں۔ انہیں میں سے ایک ہمارے اسلاف کی غلط تصویر ہمیں دکھانے کی کوشش کرنا ہے۔آئے دن مختلف چینلز پر جعلی پیروں اور ملنگوں کو دکھا کر ان کے سیاہ کرتوت سے پردہ فاش کیا جاتا ہےاور کیمرے کے ذریعے منظرعام پر لاکر ایسی کالی بھیڑوں کی خوب تذلیل کی جاتی ہے جو کہ ایک لائق تحسین عمل ہےالبتہ میری رائے کے مطابق جہاں ایسے خلاف شرع کام کرنے والے جعلی پیروں کی تخریب کاریاں ہمارے سامنے لائی جاتی ہیں وہیں ہمارے قابل احترام اور نابغہ روزگار پیران عظام کے دینی کارنامے بھی دکھائے جائیں تاکہ عوام میں پیران عظام کا اصلی چہرہ برقرار رہے اور ا ن قابل قدر شخصیات سے مستفیض ہوتی رہیں۔ صرف اور صرف تصویر کا ایک رخ دکھا کر عوام کے آئینہ اعتقاد کو دھندلا کرنے کو اسلامی نظریات و عقائد پر حملہ نہیں تواور کیا کہا جائے گا۔کیا ہر جعلی عامل اورمنشیات کے عادی شخص کو "پیر"کا نام دے کر ہمیں اپنے اسلاف سے دور کرنے کی گھناؤنی سازش تو نہیں کی جارہی؟کیونکہ موجودہ حالات کے تناظر میں ایک بات تو طے ہوچکی کہ خواہ کتنا ہی مشکل وقت ہو عوام اپنے پیران عظام کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے پھر چاہے کسی یزید وقت سے مقابلہ ہو یا وقت کے فرعون سے پیچھے نہیں ہٹتے اور اگر یہ مقصد پیش نظر نہیں تو کیوں تصویر کا ایک رخ دکھاکر عوام میں اضطراب پیدا کیا جارہا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمارے وطن عزیز پاکستان میں ایسے پیران عظام کی کمی نہیں جن کے شب وروز دین کے لیے وقف ہیں اور ان کی ادائیں ہمارے لیے لائق تقلید ہیں۔انہیں کے دم قدم سے گلستان اسلام لہلہا رہا ہے۔ان مبارک ہستیوں کی سیرت پر "ٹاک شوز"کرنا اور ان کےعلمی و مذہبی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کرنا ہمارے دلوں میں موجوداسلام کی صحیح تصویر کی عکاسی کرے گا۔تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر کی سرزمین پر اسلام کے پرچم کن کےگاڑھے ہوئےہیں۔ افسوس ہے ایسے لوگوں پر جوسیدی داتا گنج بخش علی ہجویری ،خواجہ معین الدین چشتی اجمیری،بابا فرید الدین مسعود گنج شکر،شیخ بہاوالحق والدین ملتانی،سلطان باہو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جیسے پیران عظام کے ہاتھوں مسلمان ہوکرانہیں کے مبارک قدموں سے دور کرنے کے اوچھے ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں پیران عظام کے دامن سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ ✍ از ابو الحسن محمد افتخارالحسن عطاری المدنی 23 جنوری 2018بروز منگل
  5. محمد افتخار الحسن

    ایک پہلو

    ??ایک پہلو?? میڈیا دورجدید کا زبردست ہتھیار ہے جو اپنی مکاری اور چالاکیوں کی وجہ سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔جہاں اس کے فوائد سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا وہیں اس کے نقصانات اور ہلاکتوں سے پردہ پوشی مناسب نہیں۔خصوصا اسلامی نظریات وعقائد پر حملے کسی طرح بھی قابل برداشت نہیں۔ انہیں میں سے ایک ہمارے اسلاف کی غلط تصویر ہمیں دکھانے کی کوشش کرنا ہے۔آئے دن مختلف چینلز پر جعلی پیروں اور ملنگوں کو دکھا کر ان کے سیاہ کرتوت سے پردہ فاش کیا جاتا ہےاور کیمرے کے ذریعے منظرعام پر لاکر ایسی کالی بھیڑوں کی خوب تذلیل کی جاتی ہے جو کہ ایک لائق تحسین عمل ہےالبتہ میری رائے کے مطابق جہاں ایسے خلاف شرع کام کرنے والے جعلی پیروں کی تخریب کاریاں ہمارے سامنے لائی جاتی ہیں وہیں ہمارے قابل احترام اور نابغہ روزگار پیران عظام کے دینی کارنامے بھی دکھائے جائیں تاکہ عوام میں پیران عظام کا اصلی چہرہ برقرار رہے اور ا ن قابل قدر شخصیات سے مستفیض ہوتی رہیں۔ صرف اور صرف تصویر کا ایک رخ دکھا کر عوام کے آئینہ اعتقاد کو دھندلا کرنے کو اسلامی نظریات و عقائد پر حملہ نہیں تواور کیا کہا جائے گا۔کیا ہر جعلی عامل اورمنشیات کے عادی شخص کو "پیر"کا نام دے کر ہمیں اپنے اسلاف سے دور کرنے کی گھناؤنی سازش تو نہیں کی جارہی؟کیونکہ موجودہ حالات کے تناظر میں ایک بات تو طے ہوچکی کہ خواہ کتنا ہی مشکل وقت ہو عوام اپنے پیران عظام کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے پھر چاہے کسی یزید وقت سے مقابلہ ہو یا وقت کے فرعون سے پیچھے نہیں ہٹتے اور اگر یہ مقصد پیش نظر نہیں تو کیوں تصویر کا ایک رخ دکھاکر عوام میں اضطراب پیدا کیا جارہا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمارے وطن عزیز پاکستان میں ایسے پیران عظام کی کمی نہیں جن کے شب وروز دین کے لیے وقف ہیں اور ان کی ادائیں ہمارے لیے لائق تقلید ہیں۔انہیں کے دم قدم سے گلستان اسلام لہلہا رہا ہے۔ان مبارک ہستیوں کی سیرت پر "ٹاک شوز"کرنا اور ان کےعلمی و مذہبی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کرنا ہمارے دلوں میں موجوداسلام کی صحیح تصویر کی عکاسی کرے گا۔تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر کی سرزمین پر اسلام کے پرچم کن کےگاڑھے ہوئےہیں۔ افسوس ہے ایسے لوگوں پر جوسیدی داتا گنج بخش علی ہجویری ،خواجہ معین الدین چشتی اجمیری،بابا فرید الدین مسعود گنج شکر،شیخ بہاوالحق والدین ملتانی،سلطان باہو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جیسے پیران عظام کے ہاتھوں مسلمان ہوکرانہیں کے مبارک قدموں سے دور کرنے کے اوچھے ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں پیران عظام کے دامن سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ ✍ از ابو الحسن محمد افتخارالحسن عطاری المدنی 23 جنوری 2018بروز منگل
  6. محمد افتخار الحسن

    ننھی پری

    آج کچھ تصاویر دیکھ کر انتہائی قلق ہوا کہ ننھی پری زینب کوجس طرح درندگی کا نشانہ بنا کر قتل کیاگیا اس کے والد ین اور عزیز واقارب کے لیے اس سے بڑی اذیت کیا ہوگی لیکن تف ہے میڈیا کی گندی ذہنیت اور گھناؤنے مقاصد پر کہ اس ننھی پری کے پوسٹ مارٹم کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر لگادی گئیں جس میں انسانی خاکہ بناکر مقتولہ کے متاثرہ اعضا کی طرف اشارہ کیا گیا تھاجو ہمارے معاشرے کے جذباتی افراد کو مشتعل کرکے اپنی ریٹنگ بڑھانے والے میڈیا کے سیاہ کرتوتوں کی ایک کڑی تھی۔مظلوموں کو انصاف دلانے اور عوام کی آواز سیاسی شخصیات تک پہنچانے کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں نے ایک ننھی پری کی روح اور اس کے لواحقین کے جذبات سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ لوگ تو اپنے آنگن کے پھولوں کا تذکرہ کرنا بھی عوام میں گوارا نہیں کرتے اوریہ بھیڑیا صفت انسان اپنے ایمان و کردار کی پرواہ کیے بغیر لوگوں کی عزتیں اچھالنے سےدریغ نہیں کرتے۔ کون سا باپ چاہتا ہے کہ میری بیٹی کی لاش کوڑے کے ڈھیر پر پڑی دکھائی دیتی رہے۔کون سی مامتا گوارا کرسکتی ہے کہ اس کی شہزادی کے نازنیں جسم پر خراشوں کے نشان ہوں اور ساری دنیا اسے دیکھتی رہے۔انصاف دلانے کے بہانے اپنے چینل یا پیج کی ریٹنگ بڑھانے کے ذرائع ڈھونڈنے والے یہ خارشی کتے اپنی بیٹی کی ایسی تصاویر لگانا پسند کریں گے؟ اپنے پیج کی ریٹنگ بڑھانے والے کیا یہ پوچھنا پسند کریں گے کہ زینب کے قاتل کو پھانسی ہونی چاہیے یا نہیں ؟ معذرت کے ساتھ!اپنے چینل اور پیج کی مقبولیت کے لیے یوں گلی گلی جرائم کی بو سونگھتے پھرناکوئی آج کا کام نہیں۔برما،سانحہ دیپالپوراورفیض آباد دھرنا اس کی زندہ مثالیں ہیں۔لوگوں کے عیوب کو دنیا کے سامنے لانا ان کا اولین مقصد ہے۔جب کسی اور جگہ زیادہ ریٹنگ ملے گی یا کوئی اور مسئلہ عوام کے لیے زیادہ قابل توجہ ہوگا تو ان تمام افراد کو ننھی زینب کے انصاف کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی اور اس کے والدین کے لیے ہمدردی ختم ہو جائے گی۔ لہذا ان کی چالوں سے باخبر ہوکر ان کے جذباتی اور سیاسی بیانات پر کان دھرنے سے گریز کرنا چاہیےاور ان کے مذموم عزائم کو خاک میں ملادینا چاہیے۔ ابو الحسن محمد افتخار الحسن عطاری المدنی 12 جنوری 2018
  7. محمد افتخار الحسن

    علم چونی

    علم چَوَنّی علمِ لَدُنّی کے بارے میں تو آپ نے سنا یا پڑھا ہوگا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ وہ علم ہے کہ جس کے حصول میں نفس اور حق تعالیٰ کے درمیان کوئی واسطہ نہ ہو۔آج میں آپ کو ایک ایسے علم کے بارے میں بتانے جارہا ہوں جس کاتذکرہ تو بہت سنا ہوگا مگر اس انداز سے نہیں ۔وہ علم علم چَوَنّی ہےجس کا تعلق تقریبا زندگی کے تمام شعبہ جات سے ہے۔جی ہاں!بچے سے لے کر بوڑھے تک اس علم سے مستفیض ہورے ہیں خاص طور پر کاروباری حضرات اس علم کے بہت بڑے سکالر اور پی۔ایچ۔ڈی ہولڈر ہوتے ہیں ۔ اگر آپ بھی اس فانی دنیا کے باسی ہیں تو علم چونی سیکھنا ہوگا ورنہ آے روز اس علم سے جہالت کی بنا پر ماتم کرتے نظر آئیں گے۔آپ کسی غرض سے بازار جائیں تو کم وبیش ہر دکاندارآپ کو ایسی نظروں سے دیکھ رہا ہوگا جیسے قصاب بکرے کودیکھتا ہے اور شاید آپ کی حالت ایسی ہو جیسے بکرا چھری کو دیکھتا ہے۔بازاروں،مارکیٹوں،شاپنگ مالزوغیرہ ہرجگہ ایسی نفاست سے گاہک کو دھوکہ دیا جارہا ہے کہ گاہک کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔کسٹمر اگرچہ پروفیسر ،ڈاکٹر یا انجنئیر ہو ،اگر علم چونی کا ماہر نہیں ہے تو کبھی بھی گھر میں درست راشن درست ریٹ پر لے جانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ مثال کے طور پرآم فروخت کرنے والے نے اچھے آم سامنے سجاے ہیں جبکہ گلے سڑے اپنی طرف ہوں گے۔جوں ہی گاہک نے خریداری کی حامی بھری تو ایک سامنے سے اور دو نیچے سے اٹھا کر دھڑام سے ترازو پر مارے اورگرہ لگاکر گاہک کے ہاتھ میں تھما دیے۔گھر جاکر آنکھ کھلی تو پتہ چلا کہ موصوف آم کے نام پر کوڑا خرید لاے ہیں اور وہ بھی کلو کی بجاے تین پاو ہے۔ایک چھابڑی والے سے لے کر شاپنگ مال تک ہر جگہ یہی صورت حال ہے۔میرا خیال ہے اس دور میں کمانے اور گھر چلانے کے لیے اتنے علم کی ضرورت نہیں جتنا علم لوگوں کے دھوکے سے بچنے کے لیے چاہیے۔گھر چلانا اتنا مشکل نہیں جتنا گھر بچانا مشکل ہے۔مہنگائی،غربت کے نام پر لوٹ مار جاری ہے اور شاید ہر شخص مزے سے لٹ رہا ہے کیونکہ آج مجھے دھوکہ ہواہےتو کوئی بات نہیں ،کل مجھ سے بھی سامان لینے آے گا پھر میں بھی بتاوں گا۔ اگرمان لیا جاے کہ تعلقات کی بنیاد پر درست اشیادرست ریٹ پر مل جاتی ہیں تو شاید ایسےشخص کو خوش فہمی کا ڈساہوا کہا جاے۔موجودہ نام نہاد ترقی یافتہ دور میں اگر تعلقات کی بنیاد پر ایسا ہوتا تو کوئی بھی دھوکہ کا شکار نہ ہوتابلکہ کمانے کی بجاے تعلقات ہی بنا لیے جاتے۔ بدقسمتی سے ہم بچپن سے سنتے آے ہیں کہ گوشت خریدو تو شام کے وقت اور سبزی خریدنا ہوتو صبح کے وقت خریدنی چاہیے کیونکہ قصاب اچھے گوشت کو اس وقت تک چھپا کر رکھتا ہے جب تک باسی یا ناکارہ گوشت فروخت نہ ہوجاے۔اسی طرح بازار جانے سے قبل بے شمار نصیحتوں کا بوجھ اٹھاے اور انہیں یاد کرتے ہوے بازار کا رخ کیا جاتا تھا مگر واپسی پر ان دکانداروں سے شکار ہوکر گھر سے ڈانٹ کھانا پڑتی تھی۔ ہم لوگوں کو اس لیے دھوکہ دیتے ہیں کہ ہمارا مال بک جاے اور ہمیں زیادہ سے زیادہ نفع ہوتاکہ اپنے بچوں کا پیٹ پالا جاسکے لیکن یادرکھیں کہ شریعت نے تو کافر کو بھی دھوکہ دینے سے منع فرمایا ہے ہم اپنے مسلمان بھائی کو دھوکہ دے کر کیسے اپنی کمائی میں برکت لاسکتے ہیں۔دھوکہ دے کر کماے گئے روپے ظاہرا تو زیادہ نظر آتے ہوں گے مگر حقیقت میں وہ زیادہ نہیں کیونکہ پیسے کم ہوں یا زیادہ ان میں برکت دینے والی ذات اللہ تعالی کی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بارہ سے پندرہ ہزار روپے کمانے والا اگر مزید پیسوں کا متمنی ہے تو پچاس ہزار والا بھی ایک لاکھ کمانے کا خواہشمند ہوگا۔اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ لاکھوں روپے کمانے والےکے گھر کا چولہا نہیں بجھنے دیتا تو چند ہزار روپے کی نوکری کرنے والا بھی پیٹ بھر کرسوتا ہے۔ہمارے اسلاف کا یہ طریقہ کار نہیں رہا۔آئیے آپ کی خدمت میں ایک واقعہ پیش کرتا ہوں کہ پہلے کے لوگ کیسے کمائی کرتے تھے۔چنانچہ حضرت سیدنا شیخ ابوعبداللہ خیاط علیہ الرحمۃ کے پاس ایک آتش پرست کپڑے سلواتا اور ہربار اجرت میں کھوٹا سکہ دے جاتا۔آپ علیہ الرحمۃ چپ چاپ لے لیتے۔ایک بار آپ علیہ الرحمۃ کی غیر موجودگی میں شاگرد نے آتش پرست سے کھوٹا سکہ نہ لیا۔جب واپس تشریف لاے تو معلوم ہوا تو شاگرد سے فرمایا ،"تو نے کھوٹا درہم کیوں نہیں لیا؟کئی سال سے وہ مجھے کھوٹا سکہ ہی دیتا رہا ہے اور میں بھی جان بوجھ کر لیتا ہوں تاکہ یہ وہی سکہ کسی دوسرے مسلمان کو نہ دے آے۔" حدیث مبارکہ ہے،"من غش فلیس منا"یعنی جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں یعنی ہمارے طریقے پر نہیں۔ممکن ہے کہ اگر ہم ایمانداری کے ساتھ اپنا کاروبار کریں تو اللہ تعالیٰ ہمارے ان چند روپوں میں ایسی برکت ڈال دے جو لاکھوں روپے ناجائز کمانے والوں کے مال میں نہ ہو۔اللہ تعالیٰ ہمیں امت مسلمہ کی خیرخواہی نصیب فرماے اور درست ریٹ پر درست اشیا کو فروخت کرنے کی توفیق رفیق مرحمت فرماے۔آمین بجاہ النبی الامین ﷺ از ابوالحسن مدنی 22رمضان 1437
×
×
  • Create New...