Jump to content

فیصل خان رضوی

اراکین
  • کل پوسٹس

    11
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    6

فیصل خان رضوی last won the day on 24 ستمبر 2021

فیصل خان رضوی had the most liked content!

2 Followers

About فیصل خان رضوی

تازہ ترین ناظرین

The recent visitors block is disabled and is not being shown to other users.

فیصل خان رضوی's Achievements

Apprentice

Apprentice (3/14)

  • First Post
  • Collaborator
  • Conversation Starter
  • Week One Done
  • One Month Later

Recent Badges

13

کمیونٹی میں شہرت

  1. قاری ظہور احمدفیضی کے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراضات اور ان کا علمی محاسبہ تحریر:علامہ مولانا ظفر القادری بکھروی (1)اسلام میں مسلم خواتین کو لونڈی بنانا اور انہیں بازار برائے فروخت کھڑا کرنا جواب:ان روایات میں موسیٰ بن عبیدۃ ضعیف ،متروک اور منکر الحدیث راوی ہےاور یہ روایت منقطع بھی ہےتفصیل کے لیے پہلے الزام کا جواب کتاب الاحادیث الراویۃ لمدح الامیر معاویۃ:ص293سے 299تک ملاحظہ کریں ۔ (2)مکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ اور یمن وغیرہ مقامات پر افعال قبیحہ کا ارتکاب جواب:اس میں محمد بن عمر الواقدی متروک وضعیف راوی ہے اس کے علاوہ دائود بن جبیرہ مجہول راوی اور اس کا سماع عطاء بن أبی مروان سے ثابت نہیں ہےاس کا تفصیلی جواب،ص300سے307پر ملاحظہ کریں (3)سیدنا ابن عباس کے نابالغ بھتیجوں کو ناحق قتل کرانا جواب:اس میں عوانہ بن الحکم بنی امیہ کے خلاف خبریں گھڑنے والاہےایوب بن جابر ضعیف راوی بھی ہےقاسم بن موسیٰ بن حسن مجہول راوی ہے تفصیل ص308 سے ص317میں ملاحظہ کریں (4)سیدنا امام حسن علیہ السلام کی شہادت فاجعہ کو مصیبت نہ سمجھنا جواب:مذکورہ روایت بقیہ بن الولید کی تدلیس التسویہ کی وجہ سے ضعیف ہےتفصیل ص318سے 327 میں ملاحظہ کریں (5)ان کی وصال کی خبر پر خوش ہونا جواب:اس روایت میں علی بن مجاہد کذاب اورمحمد بن حمید الرازی ضعیف اور ایک شیعہ راوی ہےتفصیل کے لیے ص328سے331 میں ملاحظہ کریں ۔ (6)انہیں انگارہ کہنے والے کو ڈانٹنے کی بجائے پیسے دینا جواب:یہاں قاری صاحب نے غیر مقلد عالم شمس الحق عظیم آبادی کا جو حوالہ پیش کیا ہے اس کا الزامی جواب قاضی مظہرحسین چکوالی دیوبندی ملاحظہ کریں ،کہ مولانا عظیم آبادی موصوف کی اس نکتہ آفرینی سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ کے متعلق ان کے اندر بھی کوئی بیماری تھی واللہ اعلم،تفصیل ص 332سے 335میں ملاحظہ کریں۔ (7)ممانعت نبوی ﷺ کے باوجود سونا ،ریشم اور درندوں کی کھالوں کا استعمال کرنا جواب:یہ روایت بھی ضعیف ہےاسکے لیے مزید تفصیل الزام نمبر 5کے تحت جواب میںدیکھ سکتے ہیں۔ (8)انصارjکے بارے میں نصیحت نبوی ﷺ کے باوجود ان پر دوسروں کو ترجیح دینا جواب:یہ روایت الاعمش کی تدلیس یا عن کی وجہ سے ضعیف ہےتفصیل کےلیے ص338سے341میں ملاحظہ کریں (9)میزبان مصطفیٰ ﷺ سیدنا ابوایوب انصاری پرجفا کرنا اور بے اعتنائی کرکے ان کی توہین کرنا جواب:روایت میں مجہول راوی ہیں اور سند مرسل منقطع ہےدوسری روایت میں فضیل بن مرزوق شیعہ، عطیہ العوفی،عبداللہ بن محمد ضعیف راوی ہیں تفصیل ص342سے 355 میں ملاحظہ کریں (10)حضور اکرم ﷺ کی طرف دھوکہ کی نسبت کرنے پر خاموش رہنا جواب:ایک راوی عبایہ بن رفاعہ کا حضرت معاویہhسے سماع معروف نہیں،اس کے علاوہ اور علتیں بھی ہیں تفصیل ص356 سے413میں ملاحظہ کریں (11)صحابہ کرام jکو دھمکیاں دینا جواب:اس روایت کے متن کو موڑ تور کر پیش کیا گیا تفصیل ص414سے428میں ملاحظہ کریں۔ (12)اپنے سے سابق بعض صحابہ کرام کو غصے کے ساتھ پاگل کہنا جواب:اس معاملہ میں اہل سنت کا راجح قول نہیں پیش کیا تفصیل کے لیے ص425سے430میں ملاحظہ کریں۔ (13)حدیث نبوی ﷺ ،ھنۃ،فساد کی بات کہنا جواب:عبداللہ بن دائود الواسطی ضعیف اور متن میں نکارت ہے تفصیل کے لیے ص431 سے 433ملاحظہ کریں (14) رشوت لینا دینا (مغیرہ بن شعبہ  سے تبادلہ رشوت کرنا ) جواب:اس روایت میں محمد بن عبدالعزیزبن عمر الزہری ضعیف ومتروک ہےتفصیل کے لیے ص434سے 447میں ملاحظہ فرمائیں (15)باطل طریقے سے مال کھانا جواب:روایت میں ہشام بن حسان القردوسی خشبی تھااور خشبی فرقہ رافضیوں کا ایک گروہ ہےأوس بن عبد الله بن بریدہ اورہیثم بن عدی ضعیف اور متروک راوی ہیں تفصیل کے ص448سے 472میں ملاحظہ کریں (16)ناحق قتل کرنا جواب:بعض پیش کردہ روایات میں لوط بن یحییٰ کٹر شیعہ اور رافضی ہے واقعہ کی تفصیل کے لیے ص473سے498میں ملاحظہ کریں۔ (17)بیعت یزید کے معاملہ میں کھلے بندوں جھوٹ بولنا جواب:نعمان بن راشد ضعیف،اور روایت منقطع ہے تفصیل ص499سے ص505میں ملاحظہ کریں۔ (18)شراب پینا جواب:اس روایت میں زید بن حباب کثیر الخطاء،حسین بن واقدضعیف راوی ہے اور یہ روایت منقطع ہے تفصیل ص506سے523میں ملاحظہ کریں۔ (19)عیدین سے پہلے اذان کی بدعت کا مرتکب ہونا جواب:قتادہ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہےتفصیل کے لیے ص524سے 525میں ملاحظہ کریں۔ (20)تکبیرات عیدین کی کمی کرنا جواب:یہ ایک فروعی اور فقہی مسئلہ ہے جس پر دیگ صحاب وتابعین بھی عامل ہیںتفصیل کے لیے ص526سے ص531میں ملاحظہ کریں ۔ (21)خطبہ عید کو نماز عیدین پر مقدم کرنا جواب::روایت میں ایک ابراہیم بن ابی یحییٰ الاسلمی متروک الحدیث ہےاور مسئلہ اختلافی ہے اس پر دیگر صحابہ کا بھی عمل ہے تفصیل کے لیے ص532سے ص543ملاحظہ کریں ۔ (22)مساجد کے منبروں پر سب وشتم اور لعنت کرنا کرانا جواب:ان روایات میں ہشام بن محمد الکلبی رافضی وکذاب ،اور لوط بن یحییٰ ابو مخنف الغامدی، شیعہ و کذاب ہےدیگر راوی بھی ضعیف ہیں تفصیل کے لیے ص544سے ص591میں ملاحظہ فرمائیں۔ (23)یزید کی ولی عہدی میں قرآن وسنت اور خلفاء راشدین کی خلاف ورزی کرنا جواب:روایت میں عوف بن ابی جمیلہ شیعہ،رافضی اور قدری راوی ہےتفصیل کے لیے ص592سے ص625 میں ملاحظہ کریں۔ (24)نکاح کے بعد وطی سے قبل بیوی کے پورے جسم کا معائنہ کروانا جواب:یہ منقطع روایت ہے تفصیل کے لیے ص626سے ص628 ملاحظہ کریں۔ (25)بیوی کی شرم گاہ کے نیچے تل کی وجہ سے اسے طلاق دینا جواب:یہ روایت بھی منقطع ہے تفصیل دیکھیے ص629تا630میں (26)جسم پر تل کی وجہ یزید کی ماں میسون کا غیبی خبر دینا اور موصوف کا اس پر یقین کرنا جواب:یہ روایت منقطع اور ضعیف ہے تفصیل دیکھیے ص631تاص632میں۔ (27)فقط میسون کی خبر پر اپنی تازہ منکوحہ کو طلاق دے ڈالنا جواب:یہ روایت بھی منقطع اور ضعیف ہے دیکھیےص633تا634میں۔ (28)آدمیوں کو خصی کرانا جواب:یہ ایک بے سند قول ہے دیکھیے ص635تا636میں۔ (29)قرآن مجید کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اہل کتاب کو اپنا راز دار بنانا جواب:یہ ایک فضول سا اعتراض ہے ہر دور میں حکومتیں غیر مسلم کو عہدے دیتی رہی ہیں تفصیل دیکھیے ص637تا 647میں۔ (30)نصرانی طبیب سے مسلمانوں کے سربرآورہ لوگوں کو زہر دلاکر راہ سے ہٹانا جواب:اس روایت میں واقدی کذاب ہے اور یہ منقطع روایت بھی ہے تفصیل کے لیے ص648تا657میں۔ ان تما م اعتراضات کے جوابات تفصیلًا کتاب(الاحادیث الراویۃ لمدح الامیر معاویۃ)میں مذکورہ صفحات میں دے دیے گئے ہیں وہیں ملاحظہ کیے جائیں۔ ابواسامہ ظفر القادری بکھروی
  2. شیعہ بدعتی راوی کی روایت اور اہل سنت کا اس سے احتجاج کا تحقیقی جائزہ عرب تفضیلی محقق احمد غماری صاحب فتح الملک العلی مترجم ص ۲۷۱ پر لکھتے ہیں: محدثین نے اس شرط [داعی الی بدعت]کا اعتبار نہیں کیا اور نہ ہی اپنے تصرفات میں اسے زینہ بنایا ہے بلکہ ثقہ شیعہ راویوں نے اپنے مذہب کی تائید میں جو بیان کی ہیں ان سے حجت پکڑی ہے۔حضرت امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ تعالیٰ نے شیعہ راویوں سے حضرت علی ؓ کے فضائل میں روایت نقل کیں ہیں۔ جیسے انت منی و انا منک تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہو۔(صحیح بخاری ،کتاب المغازی باب عمرۃ القضاۃ،رقم الحدیث:۴۰۰۵) اس حدیث کو امام بخاری نے عبیداللہ بن موسیٰ العبسی سے نقل کیا ہے جس کے بارے میں خود امام بخاری نے کہا ہے: انہ کان شدید التشیع کہ وہ تشیع میں سخت تھا۔(التہذیب:ترجمہ عبیداللہ بن موسیٰ العبسی : ج ۲ ص ۳۵) اسی طرح حدیث:لا یحبک الا مومن و لا یبغضک الا منافق(صحیح مسلم،کتاب الایمان باب الدلیل علی ان حب الانصار علی من الایمان الخ رقم الحدیث:۱۱۳)ترجمہ: تجھ سے مومن ہی محبت کرے گا اور تجھ سے منافق یہ بغض کرے گا۔اس حدیث کو امام مسلم نے عدی بن ثابت کی روایت سے نقل کیا ہے حالانکہ وہ ایک غالی اور اپنے مذہب کا داعی شیعہ ہے۔(التہذیب ترجمہ عدی بن ثابت ج ۴ ص ۱۰۷) غماری صاحب یہ مثالیں دینے کے بعد آگے ص ۲۷۲ پر لکھتے ہیں: یہ اس بات کی دلیل ہے کے کہ یہ شرط(لگانا کہ وہ روایت بدعتی کے مذہب کی تائید نہ کررہی ہو)باطل ہے اور روایت کی صحت اور قبول میں اس کا کوئی اعتبار نہیں۔اعتبار صرف راوی کے ضبط اور اتقان کا ہے۔ جواب: عرض یہ ہے کہ محدثین نے جو شیعہ راوی سے استدالال کے قواعد بنائے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں۔بلکہ اس کو تشیع کے ساتھ مخصوص کرنا ہی جہالت ہے کیونکہ ان کے یہ اصول بدعتی کی روایت کے بارے میں ہے نہ کہ صرف ایک فرقہ سے مختص ہیں۔اب رہی یہ بات کہ امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ نے شیعہ راویوں سے فضائل حضرت علی ؓ میں روایات لیں ہیں۔جو ان کے مذہب کو تقویت دیتی ہیں۔اس بارے میں عرض یہ ہے کہ یہ اعتراض اصول سے بے خبری اور جہالت کا نتیجہ ہے۔سطحی قسم کا مطالعہ ایسے سوالات اٹھانے میں کافی معاون ثابت ہوتا ہے۔لہذا انسا ن اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے محدثین کرام پر اعتراضات اٹھانا شروع کر دیتا ہے۔اس بارے میں چند معروضات پیش خدمت ہیں۔ بدعتی(شیعہ وغیرہ) اگر سچا اور صدوق ہو اور روایت اسکے مذہب کی داعی ہو یا اس کے مذہب کو تقویت پہنچا رہی ہو۔تو پھر اس شیعہ کا مذہب و عقیدہ دو اقسام پر مشتمل ہوگا۔ ۱۔شیعہ کا وہ عقیدہ جو مذہب اہل سنت کے خلاف نہیں۔[کیونکہ ہم اہل سنت فضائل حضرت علی ؓ کے قائل اور ماننے والے ہیں۔] ۲۔شیعہ کا وہ عقیدہ جو مذہب اہل سنت کے خلف ہے۔[یعنی فضیلت حضرت علی ؓ تو مانتے ہیں مگر ساتھ عظمت صحابہ کے بھی قائل ہیں۔] اگر شیعہ ایسی باتیں نقل کرے جو کہ شیعہ مذہب کے تائید میں ہو مگر اہل سنت کے اصولوں کے خلاف نہ وہ تو وہ قابل قبول ہوتی ہے۔اور اگر شیعہ ایس باتیں نقل کرے جس کے مخالف اہل سنت میں موجود ہو تو ایسی روایت شاذ اور نکارت ہوگی ،جس کو رد کر دیا جائے گااور احتجاج نہیں کیا جائے گا۔ اہم نکتہ:۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ بدعتی کی روایت اس کے مذہب کے موافق بظاہر نظراآتی ہے۔یہ بات سامنے آتی ہے کہ فلاں راوی شیعہ ہے اور حضرت علی المرتضیٰؓ کی فضیلت میں روایت کرتاہے۔جیسے انت منی و انا منک تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہو۔(صحیح بخاری ،کتاب المغازی باب عمرۃ القضاۃ،رقم الحدیث:۴۰۰۵)اسی طرح حدیث:لا یحبک الا مومن و لا یبغضک الا منافق(صحیح مسلم،کتاب الایمان باب الدلیل علی ان حب الانصار علی من الایمان الخ رقم الحدیث:۱۱۳)ترجمہ: تجھ سے مومن ہی محبت کرے گا اور تجھ سے منافق یہ بغض کرے گا۔جیسا کہ احمد غماری نے اعتراض کیا ہے۔ مگر عرض یہ ہے کہ ان دونو ں باتوںمیں ایک واضح فرق موجود ہوتا ہے۔اور وہ فرق یہ ہے کہ اہل سنت کی روایات میں جو حضرت علی المرتضیٰؓ کے فضائل وارد ہوئے ہیں ان میں شیخین کریمینؓ یا صحابہؓ کی شان میں تنقیص نہیں ہوتی۔اور نہ ہی اس میں غلو ہوتا ہے اورنہ ہی الفاظ رکیک ہوتے ہیں اور معانی میں ضعف نہیں ہوتا۔جیسا کہ مذکورہ بالا روایات سے ثابت ہورہا ہے۔اس لیے اس کو قبول کیا جاتا ہے۔کیونکہ محدثین سند کے ساتھ متن کا بھی جائزہ لیتے ہیں ۔ جبکہ شیعہ راویوں کی مذہب کی تقویت والی روایت میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اس میں اکثر حضرت علی المرتضیٰؓ کے شان میں غلو اور صحابہ کرامؓ کی شان میں تنقیص ہوتی ہے۔ان کے معانی بڑے ہی ضعیف ہوتے ہیں اور الفاظ رکیک ہوتے ہیں۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جب کوئی شیعہ راوی حضرت علی المرتضیٰ کی شان میں کوئی روایت بیان کرے تو اہل سنت اس کی صرف وہ روایت تسلیم کرتے ہیں جو قواعد اہل سنت کے موافق ہوں۔[ اور یہ قواعد یہ ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ ؓ کی شان بہت بلند اور اعلیٰ ہے جیسا کہ روایات سے ثابت ہیں مگر دیگر صحابہ کرام ؓ کی تنقیص اس سے ثابت نہ ہو۔] جو ان قواعد کے دائرہ کار میں ہوں تو ہم ا س شیعہ (مفسق بدعتی) کی روایت قبول کرتے ہیں اور اس کی بدعت کو نظر انداز کر دیتے ہیںکیونکہ فضائل علی المرتضیٰ ؓ کا اعتقاد بدعت ہرگز نہیں ہے اور جو شیعہ یا رافضی اس قواعد کے خلاف روایت کرے تو ہم اس کو رد کرتے ہیں اور اس کو قبو ل نہیں کیا جاتا۔( اسکی مزید تفضیل عرب محقق کی کتاب اتحاف النبیل ابی الحسن السلیمانی ص ۲۴۷ میں ملاحظہ فرمائیں) لہذا غماری صاحب نے جو مثالیں پیش کیں ہم ان روایات کو ماننا اپنا دین اور مذہب سمجھتے ہیں۔مگر ان روایات کے ذریعے جو احتمالات اور شکوک لوگوں کے ذہنوں میں ڈالنے کی کوشش کی وہ فضول ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ محدثین کرام صرف سند پر ہی نہیں بلکہ متن پر بھی کڑی شرائط عائد کر کے اس کو قبول کرتے تھے۔ اس کے برعکس یہ روایات مذکورہ بالالجو غماری صاحب نے اہل سنت کے اصولوں کے رد پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہ تو خود ان کا رد کر رہی ہیں۔کیونکہ ان روایات سے تو اہل سنت کی محبت حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ ثابت کر رہی ہے۔اور غماری صاحب کا محدثین کرام پر یہ الزام [کہ وہ بدعتی اور غیر بدعتی کے تقسیم اس لیے کرتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے فضائل کا انکار کر سکیں] بھی غلط ثابت ہوجاتا ہے۔کیونکہ محدثین نے جس شاندار طریقے سے عظمت اہل بیت اور حضرت علی کرم اللہ کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان بیان کی وہ تو قابل تحسین ہے۔اللہ تعالیٰ محدثین کرام کو جزاء خیر عطا فرمائے۔
  3. شیعہ بدعتی کی روایت کے قابل قبول کے لیے غیر داعی کی شرط کا تحقیقی جائزہ سید احمد غماری صاحب فتح الملک العلی مترجم ص۲۵۹ پر لکھتے ہیں: اسی طرح بدعتی کی روایت کے قابل قبول ہونے کے لیے محدثین نے جو یہ شرط لگائی ہے کہ وہ اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے والا نہ ہو فی نفسہ باطل ہے اور ان کے لیے اپنے تصرف کے خلاف ہے۔ پھر ص ۲۶۰ پر لکھتے ہیں:حالانکہ امام بخاری،امام مسلم اور جمہور جن کے بارے میںابن حبان او رامام حاکم نے اجماع کا دعویٰ کیا ہے ،نے ان بدعتیوں کی روایت کردہ احادیث سے حجت پکڑی ہے جو اپنی بدعت کے داعی ہیں جیسے حریز بن عثمان،عمران بن حطان،شبانہ بن سوار، عبدالحمید الحمانی اور ان جیسے بہت سارے راوی ہیں۔ مزید فتح الملک العلی مترجم ص ۲۶۱ پر اس اصول کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وہ بدعتی جو اپنی بدعت کا داعی ہے وہ دو حال سے خالی نہیں۔یا تو وہ دیندار اور متقی ہوگا یا فاسق و فاجر۔اگر وہ دیندار اور متقی ہو تو اس کی دینداری اور اسکا تقویٰ اسے جھوٹ بولنے سے منع کرے گا او ر اگر وہ فاسق و فاجر ہو تو اس کی خبر اس کے فسق و فجور کی وجہ سے مردود ہوگی نہ کہ اس کے بدعت کا داعی ہونے کی وجہ سے لہذا یہ شرط اپنے اصل کے اعتبار سے باطل ہے۔ جواب:۔ عرض یہ ہے کہ سید احمد غماری صاحب نے جو لکھا وہ اصول کے خلاف ہے۔امام بخاری اور امام مسلم کا داعی الی بدعت راویوں سے احتجاج کرنا،تو اس بارے میں امام سخاوی ؒ لکھتے ہیں: امام بخاریؒ نے عمران بن حطان السدوسی سے جو روایت کی ہے تو وہ اس کے بدعت سے قبل کی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے آکر عمر میں اپنی بدعت سے توبہ کر لی ہو اور یہ روایت اس کے رجوع کے بعد کی ہو۔پھر امام بخاریؒ نے اس سے صرف ایک ہی حدیث(کتاب التوحید میں)تخریج کی ہے اور وہ بھی متابعات میں سے ہے۔پس یہ تخریج متابعات میں مضر نہیں ہے۔(فتح المغیث للسخاوی ج۲ ص ۶۸،فتح الباری ج۱۰ ص ۲۹۰) اب احمد غماری صاحب نے جن راویان کے نا م لیے ہیں انکے بارے میں تحقیق پیش خدمت ہے۔ ۱۔حریز بن عثمان: حریز بن عثمان پر جرح یہ ہے کہ وہ ناصبی تھا [ غماری صاحب یا محشی ص ۲۶۰ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:یہ وہ ملعون شخص ہے جو سفر و حضر اور ہر نماز کے بعد مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ ؓ پر لعن طعن کرتا تھا بعض علماء نے اس کے کفر پر فتویٰ دیا ہے۔تہذیب التہذیب ج۱ ص ۴۶۵]اور ناصبیت کا داعی بھی تھا پھر بھی امام بخاری نے اس سے استدالال کیا۔ عرض یہ ہے کہ امام بخاری نے اپنے استاد ابو الیمان حکم بن نافع الحمصی[یہ حریز بن عثمان کے شاگرد بھی تھے۔] سے نقل کیا ہے کہ حریز بن عثمان نے ناصبیت سے رجوع کر لیا تھا۔(تہذیب التہذیب ج۲ ص ۲۳۸) بلکہ حافظ ابن حجر ؒ نے فرمایا: انہ رجع عن النصب یعنی حریز بن عثمان نے ناصبیت سے توبہ کر لی تھی۔(تہذیب التہذیب ج۲ ص ۲۴۰) ۲۔عمران بن حطان:احمد غماری صاحب یا محشی کتاب فتح الملک االعلی ص ۲۶۰ کے حاشہ میں لکھتے ہیں: یہ وہ بدبخت انسان ہے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے قاتل عبدالرحمن ابن ملجم کے قصیدے پڑھتا تھا۔(تہذیب التہذیب ج۴ ص ۳۹۷)اس کے باوجود بھی امام بخاری نے اس سے احتجاج کیا۔ اس بارے میں عرض یہ ہے کہ عمران بن حطان السدوسی نے خارجیت سے آخری عمر میں توبہ کر لی تھی۔حافظ ابن حجرؒ تقریب میں لکھتے ہیں: رجع عن ذلک یعنی اس نے خارجیت سے رجوع کر لیا تھا۔(تقریب التہذیب ص۴۲۹) حافظ ابن حجرؒ تہذیب التہذیب ج۸ ص ۱۱۴ لکھتے ہیں: خلاصہ یہ کہ ابو زکریا الموصلی نے اپنی تاریخ موصل میں بروایت محمد بن بشر العبدی بیان کیا ہے کہ عمران بن حطان نے اپنی آخر عمر میں موت سے قبل اس رائے سے خوارج سے رجوع کر لیا تھا۔ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: امام بخاری نے عمران بن حطان کے خارجی ہونے سے قبل روایت کیا ہو۔(ھدی الساری ص ۴۳۳) ۳۔شبابہ بن سوار :شباب بن سوار پر یہ اعتراض ہے کہ وہ ارجاء کی طرف داعی تھا یعنی بدعت کی طرف داعی تھا پھر بھی امام بخاری نے اپنے اصول لے برعکس اس سے احتجاج کیا۔ عرض یہ ہے کہ احمد بن صدیق الغماری یا تو حقیقت حال معلوم نہیں ہے یا پھر اس مسئلہ کو الجھا کر عوام الناس کے ذہن میں احتمالات ڈالنا چاہتے ہیں۔مگر ان کی یہ کوشش فضول ہے۔کیونکہ شبابہ بن سوار پر ارجاء کی داعی ہونے کا اعتراض صحیح نہیں کیونکہ شبابہ بن سوار نے ارجاء والے عقیدے سے رجوع کر لیا تھا۔ امام ابو زرعہ الرزایؒ لکھتے ہیں:رجع شبابہ عن الارجاء یعنی شبابہ نے ارجاء سے رجو ع کیا اور تائب ہوگئے تھے۔(میزان الاعتدال ج۲ ص ۲۶۱، الضعفاء لابی زرعہ ج ۲ ص ۴۰۷،ہدی الساری ص ۴۰۹) ۴۔عبدالحمید بن عبدالرحمن الحمانی: اس پر اعتراض ہے کہ یہ راوی ارجاء کی طرف دعوت دیتا تھا اور پھر بھی امام بخاری نے احتجاج کیا۔ عرض یہ ہے کہ اس راوی کے بارے میں علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں: لعلھم تابوا یعنی پس ممکن ہے کہ عبدالحمید نے بھی توبہ کر لی ہوں۔(میزان الاعتدال ج۲ ص ۵۱۵) مزید یہ کہ اس کی صرف ایک روایت صحیح بخاری :۵۰۴۸ پر موجود ہے اور یہ روایت دوسری سند کے ساتھ صحیح مسلم:۷۹۳ پر بھی موجود ہے۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ احمد بن محمد الصدیق الغماری نے العتب الجمیل نامی کتاب سے جو اعتراضات اٹھانے کی کوشش کی ہے وہ تمام کے تمام اعتراضات مردود اور خلاف تحقیق ہیں۔ العتب الجمیل کتاب جو کہ محدثین پر افتراء اور جھوٹ کا پلندہ ہے ۔ مزید یہ کہ بدعتی کی روایت کو ترک اس کے فسق کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کاوہ جذبہ ترویج بدعت ہے جس کی وجہ سے وہ بدعت کو حسین الفاظ میں بتانے کو شش میں مصروف ہوتا ہے۔کیو نکہ بدعتی اپنی بدعت کو خوشنما بنانے کا خیال اسے روایت میں تحریف کرنے اور انہیں اپنے مسلک کے مطابق بنانے کی تحریک پید اکرسکتا ہے۔لہذا غماری صاحب کا یہ کہنا کہ بدعتی کے فسق کی وجہ سے روایت رد کردی جاتی ہیں ،ایسا حقیقت میں نہیں ہوتا بلکہ بدعتی کے اندر وہ چھپا ہوا خیال ہوتا ہے جو روایت میں تحریف کرنے کا خیال پیدا کر سکتا ہے۔لہذ اہم اس کی روایت کو احتیاط کے پیش نظر چند شرائظ کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔یہ نہیں ہو سکتا کہ غماری صاحب کی خواہش پر ہم محدثین کے اصولوں سے انحراف کریں اور تمام ضوابط کو رد کردیں۔اللہ تعالیٰ کی ہزار نعمتیں اور انعامات ان جلیل القدر ہستیوں پر جنھوں نے اپنی ساری زندگی آقا دو جہاں ﷺ کی احادیث کو محفوظ کرنے کی لیے خرچ کردی۔
  4. کیا متقدمین حب اہل بیت پر تشیع کا اطلاق کرتے تھے؟ تشیع کی اصطلاحی تعریف کچھ لوگ اپنا مدعا ثابت کرنے کے لیے عوام الناس کے سامنے ایسی روایات پیش کرتے ہیں جس میں شیعہ راوی موجود ہوتے ہیں۔جب ان کو ایسے رایوں کے بارے میں مطلع کیا جاتا ہے تو انہوں نے رٹا رٹایا ہوا ایک اصول پیش کرنے کی عادت ہے کہ متقدمین تشیع سے مراد حب اہل بیت لیتےتھے۔مگر ان لوگوں کی یہ بات علی الاطلاق غلط اور خلافِ اصول ہے۔اس لیے اس بارے میں چند معروضات پیش خدمت ہیں۔ علامہ ذہبی نے تشیع کے اقسام کی ہیں۔ 1-تشیع معتدل 2- تشیع غالی علامہ ذہبی کی تحقیق: علامہ ذہبی کے مطابق سلف کے نزدیک غالی شیعہ وہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ،حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یا جنہوں نے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے لڑائی لڑی ان کو برا بھلا کہنا یا ناراضگی کا اظہار کیا۔)میزان الاعتدال1/6( فالشيعي الغالي في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارب عليا رضي الله عنه، وتعرض لسبهم. والغالي في زماننا وعرفنا هو الذي يكفر هؤلاء السادة، ويتبرأ من الشيخين أيضاً، فهذا ضال معثر۔ (میزان الاعتدال1/6( حافظ ابن حجر عسقلا نی کی تحقیق: حافظ ابن حجر عسقلانی کے نزدیک حضرات شیخین کریمین پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو تقدیم دینا ہے۔اسے بھی غالی شیعہ یعنی رافضی کیا جاتا ہے۔)ہدی الساری ص490( والتشيع محبة على وتقديمه على الصحابة فمن قدمه على أبي بكر وعمر فهو غال في تشيعه ويطلق عليه رافضي وإلا فشيعي إن فإن انضاف إلى ذلك السب أو التصريح بالبغض فغال إلا في الرفض۔ )ہدی الساری ص490( ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ غالی شیعہ دو طرح کی ہیں۔ · حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ لڑائی کرنے والے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر کلام کرنے والا۔ · حضرات شیخین کریمین پر حضرت علی کو تقدیم دینے والا۔ 3- رافضی غیر غالی وہ راوی جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو حضرات شیخین کریمین سے افضل سمجھے مگر حضرات شیخین کی تعظیم کرے اور ان کی امامت کوتسلیم کرے۔ جیسے کہ ابن بن ابی تغلب۔ 4- غالی رافضی وہ راوی جو حضرات شیخین کی تنقیص کرے۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ غالی تشیع اور غیر غالی رافضی ایک ہی حکم میں ہیں۔ تشیع کی اقسام باعتبار بدعت محدثین کرام نے تشیع کی اقسام ان کی بدعت کے اعتبار سے بھی کی ہے۔ 1-تشیع کبری۔تشیع شدید 2-تشیع صغری۔تشیع خفیف علامہ ذہبی کے نزدیک غلو فی التشیع کی ایک قسم تشیع خفیف ہے۔ شیخین کریمین سے محبت کرنے والے پر تشیع خفیف کا اطلاق کیا ہے۔ تشیع خفیف کی دو اقسام ہیں: 1-حب اہل بیت اور کسی صحابی کی تنقیص نہ کرنا ۔ طاوس بن کیسان،منصور بن معتمر،وکیع بن الجراح۔اس کو بھی تشیع خفیف کہا گیا ہے۔ 2-شیخین کریمین کی تعظیم کرنا،مگر اس کے ساتھ دیگر علتیں ہوں ۔ علت اول: · حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ جنہوں نے لڑائی لڑی ان کے بارے میں غلط خیال رکھنے والا یعنی تنقیص کرنے والا۔ محمد بن زياد [خ، عو] الالهانى الحمصي. صاحب أبي أمامة.وثقه أحمد، والناس، وما علمت فيه مقالة سوى قول الحاكم الشيعي: أخرج البخاري في الصحيح لمحمد بن زياد وحريز بن عثمان - وهما ممن قد اشتهر عنهم النصب. قلت: ما علمت هذا من محمد، بلى غالب الشاميين فيهم توقف عن أمير المؤمنين علي رضي الله عنه من يوم صفين، ويرون أنهم وسلفهم أولى الطائفتين بالحق، كما أن الكوفيين - إلا من شاء ربك - فيهم انحراف عن عثمان وموالاة لعلى، وسلفهم شيعته وأنصاره، ونحن - معشر أهل السنة - أولو محبة وموالاة للخلفاء الاربعة، ثم خلق من شيعة العراق يحبون عثمان وعليا، لكن يفضلون عليا على عثمان، ولا يحبون من حارب عليا من الاستغفار لهم.فهذا تشيع خفيف.)میزان الاعتدال 3/:552( علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں اسی تشیع خفیف پر غالی تشیع کا اطلاق کرتے ہیں۔ فالشيعي الغالي في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارب عليا رضي الله عنه، وتعرض لسبهم. والغالي في زماننا وعرفنا هو الذي يكفر هؤلاء السادة، ويتبرأ من الشيخين أيضاً، فهذا ضال معثر [ولم يكن أبان بن تغلب يعرض للشيخين أصلا، بل قد يعتقد عليا أفضل منهما]۔ )میزان الاعتدال1/6( علامہ ذہبی کے مطابق سلف کے نزدیک غالی شیعہ وہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ،حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یا جنہوں نے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے لڑائی لڑی ان کو برا بھلا کہایا ناراضگی کا اظہار کیا۔)میزان الاعتدال1/6( فالشيعي الغالي في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارب عليا رضي الله عنه، وتعرض لسبهم. والغالي في زماننا وعرفنا هو الذي يكفر هؤلاء السادة، ويتبرأ من الشيخين أيضاً، فهذا ضال معثر۔ )میزان الاعتدال1/6( علت دوم: · حضرات شیخین کریمین پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو تفضیل دینے والا۔ وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: اختلفَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ بَغْدَادَ، فَقَالَ قَوْمٌ: عُثْمَانُ أَفضلُ، وَقَالَ قَوْمٌ: عليٌّ أَفضلُ. فَتَحَاكَمُوا إِليَّ، فَأَمسكتُ، وَقُلْتُ: الإِمْسَاكُ خَيْرٌ. ثُمَّ لَمْ أَرَ لِدِيْنِي السُّكُوتَ، وَقُلْتُ لِلَّذِي اسْتَفْتَانِي: ارْجِعْ إِلَيْهِم، وَقُلْ لَهُم: أَبُو الحَسَنِ يَقُوْلُ: عُثْمَانُ أَفضَلُ مِنْ عَلِيٍّ بِاتِّفَاقِ جَمَاعَةِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، هَذَا قَولُ أَهْلِ السُّنَّةَ، وَهُوَ أَوَّلُ عَقْدٍ يَحلُّ فِي الرَّفْضِ. قُلْتُ: لَيْسَ تَفْضِيْلُ عَلِيٍّ بِرَفضٍ، وَلاَ هُوَ ببدعَةٌ، بَلْ قَدْ ذَهبَ إِلَيْهِ خَلقٌ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِيْنَ، فَكُلٌّ مِنْ عُثْمَانَ وَعلِيٍّ ذُو فضلٍ وَسَابِقَةٍ وَجِهَادٍ، وَهُمَا تَقَارِبَانِ فِي العِلْمِ وَالجَلاَلَة، وَلعلَّهُمَا فِي الآخِرَةِ مُتسَاويَانِ فِي الدَّرَجَةِ، وَهُمَا مِنْ سَادَةِ الشُّهَدَاءِ - رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا -، وَلَكِنَّ جُمُهورَ الأُمَّةِ عَلَى تَرَجيْحِ عُثْمَانَ عَلَى الإِمَامِ عَلِيٍّ، وَإِلَيْهِ نَذْهَبُ. وَالخَطْبُ فِي ذَلِكَ يسيرٌ، وَالأَفضَلُ مِنْهُمَا - بِلاَ شكٍّ - أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، مَنْ خَالفَ فِي ذَا فَهُوَ شِيعِيٌّ جَلدٌ، وَمَنْ أَبغضَ الشَّيْخَيْنِ وَاعتقدَ صِحَّةَ إِمَامَتِهِمَا فَهُوَ رَافضيٌّ مَقِيتٌ، وَمَنْ سَبَّهُمَا وَاعتقدَ أَنَّهُمَا لَيْسَا بِإِمَامَيْ هُدَى فَهُوَ مِنْ غُلاَةِ الرَّافِضَةِ - أَبعدَهُم اللهُ -. سير أعلام النبلاء16/458 اس دوسری قسم کے لوگوں پر علامہ ذہبی نے شیعی جلد یعنی غالی شیعہ کا اطلاق کیا ہے جسے بدعت خفیفہ کہا گیا ہے۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ایک راوی ابان بن تغلب کو شیعی جلد بھی کہا اور ساتھ اس کی بدعت کو خفیف بھی کہا،جس سے واضح ہوا کہ غالی شیعہ پر بدعت خفیفہ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ 2 - أبان بن تغلب [م، عو] الكوفي شيعي جلد، )میزان الاعتدال1/6( ابان بن تغلب کو شیعی جلد اور غالی کہا اور ساتھ بدعت خفیفہ سے متصف کیا اور غالی شیعہ کا اطلاق کرنے کے باوجود بدعت خفیفہ کے ساتھ متصف کرنے کی وجہ تقابل ہے جوکہ بدعت کبری یعنی رفض سے ہے۔اس لیے بدعت خفیفہ کا اطلاق تقابل کے طورپر کیا گیا نہ کہ حقیقت کے طور پر۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ بدعت خفیف سے مراد غالی تشیع کے ساتھ ہے،اور غالی تشیع پر محدثین کرام کے اقوال کے مطابق رافضی کا اطلاق ہوتا ہے۔جس سے ان لوگوں کا موقف غلط ثابت ہوتا ہے کہ جب بھی کسی راوی پر شیعہ یا تشیع کا اطلاق ہو تو فوراً جواب دیتے ہیں کہ شیعہ کا مطلب حب اہل بیت ہے۔مگر ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ حب اہل بیت تو اہل سنت کا طرہ امتیاز ہے۔لغوی تعریف اور اصطلاحی تعریف میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے تو جو اس لفظ کا غلط مطلب لیا گیا وہ اصول کے خلاف ہے۔
  5. انجینئر محمد علی مرزا کے مضمون" [ اندھا دھند پیروی کا انجام] "کا علمی وتحقیقی جائزہ قارئین کرام! کچھ عرصہ قبل موبائل کے ذریعے میسج ملا کہ جہلم میں ایک انجینئر محمد علی مرزا صاحب نے چند مضامین "ریسرچ پیپر" کے نام سے لکھے ہیں ۔ اور ساتھ یہ بھی دعویٰ کیا کہ مرزا صاحب کے مضمون کا جواب آج تک کوئی بڑے سے بڑا مناظر اور عالم بھی نہیں دے سکا، ۔مجھے چند دوست احباب، جن کا تعلق جہلم سے ہے، انہوں نے اس طرف توجہ مبذول کروائی کہ اہل سنت کے عوام الناس کو مرزا صاحب یہ کہہ کر بھکاتے ہیں کہ ان کا تعلق کسی مسلک سے نہیں، بلکہ ان کا اختلاف بریلوی،دیوبندی اور غیر مقلدین حضرات سےبھی ہے۔یہ بات سن کر تھوڑی حیرانی ہوئی مگر جب میں نے مرزا صاحب کےتمام مضامین کو پڑھا تو یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ مرزا صاحب کی باتیں وہی ہیں جو غیر مقلدین حضرات کی ہیں۔اور انہوں نے وہی دلائل پیش کیے جو کہ غیر مقلدین حضرات پیش کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے مرزا صاحب نے اپنے مضامین میں کسی غیرمقلد عالم کے بارے میں قلم اٹھانے کی جرات نہیں کی۔ایک صاحب نے کچھ دن قبل پھر ایک میسج بھیجا کہ مرزا صاحب کا چیلنج ہے کہ کوئی ان کے مضامین کا جواب لکھ کر بتائے۔میں نے ان صاحب سےپوچھا کہ کون سے مضمون پر وہ سب سے زیادہ فخر کرتے ہیں؟ تو انہوں نےمرزا صاحب سے پوچھ کر بتایا کہ انھیں اپنے ریسرچ پیپر نمبر:2-B پر بڑا فخر ہے۔میں نے جب اس مضمون کو پڑھا تو مجھے بہت افسوس ہوا کہ مرزا صاحب نے دجل وفریب اور یک طرفہ دلائل کا سہارا لیا اور اہل سنت و جماعت کے دلائل کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ اس مضمون میں آپ مرزا صاحب کے ایک ایک اعتراض کا جواب قرآن ،احادیث صحیحہ و حسنہ متناً ملاحظہ کریں گئے۔کیونکہ میر ا تعلق مسلک اہل سنت و جماعت( جن کو لوگ بریلوی کہتے یا سمجھتے ہیں) سے ہے، لہذا میںصرف اپنےمسلک پر کیے گئے اعتراضات کے جوابا ت دینے کا پابند ہوں۔اس مضمون میں انہوں نے ۱۹ اعتراضات پیش کیے ،جن میں ۸ مسلک اہل سنت و جماعت کے بارے میں تھے۔لہذا ان اعتراضات کے جوابات قارئین کرام کے پیش خدمت حاضر ہیں، گزارش ہے کہ تعصب سےبالا تر ہوکر ملاحظہ فرمائیے اور فیصلہ کیجئے۔ مرزا صاحب پہلے علماء کی تحریر پیش کرتےہیں اور پھر اس کے خلاف آیت یا حدیث پیش کرتےہیں۔زير نظر مضمون کا انداز کچھ یوں ہوگا کہ پہلے مرزا صاحب كا مکمل اعتراض نقل کیا جائے گا، پھر اس پر "الجواب بعون الوہاب" کےعنوان سے دیا جائے گا۔ مرزا صاحب کے اعتراضات پر کلام سے قبل چند معروضات عوام الناس کی خدمت حاضر ہیں،اور خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جو یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن كريم كا صرف اردو ترجمہ پڑھ کر ہر شخص نہ صرف اسے سمجھ سکتا ہے بلکہ دین اور شریعت کے احکام پر ملکہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ ۱۔امام نووی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: بغیر علم کے قرآن مجید کی تفسیر بیان کرنا اور اس کے معنیٰ میں کلام کرنا، ہر اس شخص پر حرام ہے جو اس کا اہل نہ ہو،اس بارےمیں بکثرت احادیث وارد ہیں اور اس پر اجماع قائم ہے۔(التبیان فی آداب حملۃ القرآن ص ۱۶۵) ۲۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ فِتَنًا يَكْثُرُ فِيهَا الْمَالُ وَيُفْتَحُ فِيهَا الْقُرْآنُ حَتَّى يَأْخُذَهُ الْمُؤْمِنُ وَالْمُنَافِقُ وَالرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ وَالصَّغِيرُ وَالْكَبِيرُ وَالْعَبْدُ وَالْحُرُّ فَيُوشِكُ قَائِلٌ أَنْ يَقُولَ مَا لِلنَّاسِ لاَ يَتَّبِعُونِى وَقَدْ قَرَأْتُ الْقُرْآنَ۔[سنن ابی داؤد،رقم الحدیث:۴۶۱۱[ ترجمہ:تمہارے بعد فتنے ہونگے،ان فتنوں میں مال کی کثرت ہوگی اور قرآن کھولا جائےگا حتی کہ اسے مومن اور منافق،مرد اور عورت،چھوٹا اور بڑا،غلام اور آزاد سبھی پڑہیں گے۔پس عن قریب کہنے والا کہےگا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ میری پیروی نہیں کرتے حالانکہ میں قرآن پڑھتا ہوں۔ اس حدیث کو پڑھ کر نتیجہ اخذ کرنا قارئین کے لئے آسان ہوگا۔اور کچھ یہ ہی حال جناب مرزا صاحب کا ہےلوگوں کو قرآن کے نام لے کر بہکا رہے ہیں۔ ابن العربی المالکی لکھتے ہیں: اور کبھی بعض لوگ بلا علم خود کو عالم گرداننے لگتے ہیں(جیسا کہ مرزا صاحب) اور یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر ایسا غیر عالم شخص تاویلاتِ فاسدہ کے ذریعے اپنی خطا (غلطی) کو لوگوں پر مسلط کرتا ہے۔[عارضۃ الاحوذی ج۶ ص ۶۸[ یہی حال کچھ مرزا صاحب ہے کہ وہ تراجم قرآن پڑھ کر، اپنی سمجھ کے مطابق آیات قرآنی کے معنی اور مطلب متعین کرتے ہیں اور انہیں تقریر اور تحریر کے ذریعے پھیلا رہےہیں،جس کے نتیجے میں ایک نئے فتنے اور فساد کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ۳۔مرزا صاحب کا دعوی تو یہ ہے کہ ان کی تحریک مسلکی تعصب اور فرقہ واریت سے پاک ہے،مگر ان کا طرز عمل قدیم خوارج اور آج کل کے غیر مقلدین جیسا ہے، جو دھوکہ دینے کے لیے بظاہر تو لوگوں کو قرآن كريم کی دعوت دیتےہیں،ليكن خوارج کی طرح ان الحکم الا للہ یعنی حکم صرف اللہ کا، کا نعرہ لگا کر، اپنی دعوت قبول کرنے والوں کے سوا باقی لوگوں کو مشرک،گمراہ یا قرآن کے مخالف کا خطاب دیتے ہیں۔مرز ا صاحب نے اہل سنت کے رد میں وہ آیات بھی نقل کیں، جو کفار اور مشرکین کی مذمت میں نازل ہوئیں، اللہ تعالیٰ ایسوں کے شر سے محفوظ فرمائے،ایسےلوگوں کے بارے میں صحابی رسولﷺ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاقول ملاحظہ فرمائیں: قَالَ أَبُو جَعْفَر الطَّبَرِيّ فِي كتاب تَهْذِيب الْآثَار لَهُ ثَنَا يُونُس ثَنَا ابْن وهب أَخْبرنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ بكيرا حَدثهُ أَنه سَأَلَ نَافِعًا كَيفَ كَانَ رَأْي ابْن عمر فِي الحرورية قَالَ يراهم شرار خلق الله انْطَلقُوا إِلَى آيَات فِي الْكفَّار فجعلوها فِي الْمُؤمنِينَ وَهَكَذَا ذكر ابْن عبد الْبر فِي الاستذكار أَن ابْن وهب رَوَاهُ فِي جَامعه وَبَين أَن بكيرا هُوَ ابْن عبد الله بن الْأَشَج وَإِسْنَاده صَحِيح۔ ]تغليق التعليق على صحيح البخاری جلد ۵ ص ۲۵۹[ ترجمہ: یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خوارج کو تمام مخلوق میں سب سے بدتر سمجھتے تھے کیونکہ وہ ان آیات کو جو کفار کے حق میں نازل ہوئیں، مومنین پر منطبق کرتے تھے[اور یوں ان پر کافر و مشرک کا فتوی لگاتے]۔ اس روایت کی سند کو حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تغلیق التعلیق ص 259 جلد 5 پر صحیح کہا ہے۔ ہم نے مرزا صاحب کے اعتراضات کے جواب میں متعدد محدثین و مجتہدین، اسلاف اُمت کے حوالے پیش کیے ہیں، کیونکہ مرزا صاحب فرماتے ہیں: "(اجماع امت) کو حجت ماننا دراَصل قرآن وحدیث کا حکم ماننے میں ہی داخل ہے"۔ آئیے! اب انجینئر مرزا علی صاحب کے ان اعتراضات کی طرف چلتے ہیں جو انہوں نے اہل سنت پر کیے اور جنہیں اپنی دانست میں وہ نا قابل رد سمجھتے ہیں۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:اللہ نے یہودیوں اور عیسائیوں کی گمراہی و بربادی کی سب سے بڑی وجہ کا ذکر یوں فرمایا ہے: اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ۔التوبة: 31 ترجمہ آیت مبارکہ: ان(یہودی اور عیسائی) لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے درویش لوگوں اور علماء کو اپنا رب بنا لیا ہے۔[وحی چھوڑ کر اپنے بزرگوں کی مانتے ہیں۔](اندھا دھند پیروی کا انجام ص: 1 ،عنوان: یہود و نصاریٰ کی گمراہی کی بڑی وجہ) الجواب بعون الوہاب:: جناب مرزا علی صاحب نے اس مقام پر نامكمل آیت نقل کر کے، خود یہودیوںوالا طریقہ اختیار کیا ہے۔مكمل آیت کچھ یوں ہے: وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ترجمہ مکمل آیت: ان(یہودی اور عیسائی) لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے درویش لوگوں اور علماء اور مسيح ابن مريم کو اپنا رب بنا لیا ہے ،حالانکہ ان کو حکم یہی ہوا تھا کہ ایک خدا کی بندگی کریں، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ پاک ہے اس سے، جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔ جناب مرزا صاحب نے اولاً تو آدھی بات بیان کی اور آدھی کھا گئے، پھر یہ کہ اس پر اپنی طرف سے جو بات بریکٹ میں لکھ کر دھوکہ دینے کی کوشش کی کہ [ وحی چھوڑ کر اپنے بزرگوں کی مانتے ہیں ]، وه ان کے دعوی کے لیے ناکافی ہے،کیونکہ اس آیت سے مرزا صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ درویش لوگوں اور علماء کے اقوال کو بالمقابل وحی کے ماننا کفر ہے۔ لیکن مرزا صاحب! ذرا یہ بھی بتائے کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بات ماننا کفر وشرک ہے اور کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کفر وشرک کا حکم کر سکتے ہیں؟!! العیاذ باللہ ۔ شاید اسی وجہ سے مرزا صاحب نے صراط یہود ہو اختیار کرتے ہوئے آدھی آیت کو چھپا دیا۔ ثانیاً: اس آیت مبارکہ سے مرزا صاحب کا مدعی کسی صورت پورا نہیں ہوسکتا کیونکہ اس آیت کے باقیہ حصہ، جسے مرزا صاحب نے چھپا لیا تھا، میں یہود ونصاری کی گمراہی کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرا لیے تھے اور درویشوں، علماء اور حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کو خدا بنالیا تھا۔ یہی ان کی گم راہی کا سبب تھاورنہ رسول خدا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بات ماننا تو عین اسلام تھا۔غور فرمائیے! کہ مرزا صاحب کی ریسرچ کی زد سےرسول خدا بھی محفوظ نہیں، اور مرزا صاحب کی اس باطل تاویل کی وجہ سے پیغمبر خدا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بات ماننا بھی گمراہی ٹھہرتی ہے۔اللہ تعالیٰ ایسی ریسرچ اور تاویلات فاسدہ سے محفوظ فرمائے۔ ''شمالی ہوا ''پر تحقیقی جائزہ انجینئر محمد علی مرزا صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں: علماء کا نظریہ:جب مجمع ہوا کفار کا مدینہ پر کہ اسلام کا قلع قمع کردیں، یہ ’غزوہ احزاب کا واقعہ ہے، رب عزوجل نے مدد فرمانی چاہی اپنے حبیب کی، شمالی ہوا کو حکم ہوا جا اور کافروں کو نیست ونابود کر دے ۔ اس نے کہا ’بیبیاں رات کو باہر نہیں نکلتیں تو اللہ تعالی نے اس کو بانجھ کر دیا ،اسی وجہ سے شمالی ہوا سے کبھی پانی نہیں برستا، پھر صبا سے فرمایا تو اس نے عرض کیا ہم نے سنا اور اطاعت کی، وہ گئی اور کفار کو برباد کرنا شروع کیا۔[بریلوی:مولانا احمد رضاخان صاحب ملفوظات حصہ چہارم ص۳۷۷ بک کارنر جہلم[ وحی کا نظریہ:إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ۔سورة يس: آية 82 ترجمہ: اس اللہ کا حکم تو ایسا نافذ ہے کہ جب کبھی کسی چیز کا اراداہ کرتا ہے تو اسے اتنا فرمادینا کافی ہے کہ ہو جا،تو وہ اسی وقت ہو جاتی ہے۔ )اندھا دھند پیروی کا انجام ص: 1رقم:2( اس مسئلہ پر غیر مقلد کے ایک دوسرے نام نہاد محقق زبیر علیزئی نے بھی اعتراض کیا ہے۔ اپنے رسالہ میں لکھتا ہے :’’احمد رضا خان بریلوی کا یہ دعوی ہے کہ شمالی ہوا نے اللہ تعالی کا حکم نہیں مانا ‘‘۔ (الحدیث شمارہ نمبر ۸۶ صفحہ ۳۰ ، الحدیث ، شمارہ نمبر ۸۶ صفحہ ۳۲) الجواب بعون الوھاب: مرزا صاحب کا یہ اعتراض بغض اہل سنت میں اپنے غیر مقلدین اکابرین کی تقلید کا ثبوت ہے ۔کیونکہ یہ بات تو متعدد روایات اور مروایات سے ثابت ہے جس کو محدثین کرام نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔ شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ابن مردویہ اپنی تفسیر میں حضرت ابن عباس سے ایک عجیب نکتہ بیان کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ احزاب والی رات میں بادصباء نے بادِ شمال سے کہا آؤ ہم دونوں رسول خدا کی مدد کریں، بادِ شمال نے جواب میں بادِصبا سے کہا: ان الحرۃ لاتسیر باللیل، حرہ یعنی اصیل و آزاد عورت رات کو نہیں چلا کرتی ۔ باد صباء نے کہا حق تعالیٰ تجھ پر غضب کرے ۔ اور اسے عقیم یعنی بانجھ بنا دیا ۔ تو جس ہوا نے اس رات رسول اللہ کی مدد کی وہ بادِ صبا تھی ۔ اسی لئے حضور نے فرمایا: میری مدد بادِ صبا سے کی گئی اورقوم عاد دبور یعنی باد شمال سے ہلاک کی گئی ۔ ) مدارج النبوۃ 301/2) امام زرقانی المالکی فرماتے ہیں : روى ابن مردويه والبزار وغيرهما برجال الصحيح، عن ابن عباس قال: لما كانت ليلة الأحزاب قال الصبا للشمال: اذهبي بنا ننصر رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: إن الحرائر لا تهب بالليل، فغضب الله عليها، فجعلها عقيما، وأرسل الصبا، فأطفأت نيرانهم، وقطعت أطنابهم، فقال صلى الله عليه وسلم: "نصرت بالصبا وأهلكت عاد بالدبور". (شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية 55/3) اس روایت کو مفسرین کرام نے اپنی اپنی تفاسیر میں ذکر کیا ہے۔ مفسر طبری نے اس روایت کو اپنی تفیسیر میں سندا نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: ثنا عَبْدُ الْأَعْلَى، قَالَ: ثنا دَاوُدُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: " قَالَتِ الْجَنُوبُ لِلشِّمَالِ لَيْلَةَ الْأَحْزَابِ: انْطَلِقِي نَنْصُرْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتٍ الشِّمَالُ: إِنَّ الْحُرَّةَ لَا تَسْرِي بِاللَّيْلِ، قَالَ: فَكَانَتِ الرِّيحُ الَّتِي أُرْسِلَتْ عَلَيْهِمُ الصَّبَا "۔ )تفسير الطبري( 25/19 · تفسیر خازن جلد 411/3 · اللباب في علوم الكتاب 510/15 · السراج المنير223/3 · تفسير القرآن العظيم344/5 · معالم التنزيل في تفسير القرآن 321/6 · الكشف والبيان عن تفسير القرآن 11/8 · تفسير القرطبي143/14 · الهداية إلى بلوغ النهاية في علم معاني القرآن وتفسيره 5791/9 محدثین کرام نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ · امام الدینوری لکھتے ہیں۔ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، نَا زَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، نَا أَبِي، عَنْ بِشْرِ بْنِ الْمُفَضَّلِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ عِكْرِمَةَ؛ قَالَ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الأَحْزَابِ قَالَتِ الْجَنُوبُ لِلشَّمَالِ: انْطَلِقِي بِنَا نمد رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَتِ الشَّمَالُ: إِنَّ الْحَرَّةَ لا تَسْرِي بِاللَّيْلِ. فَكَانَتِ الرِّيحُ الَّتِي أُرْسِلَتْ عَلَيْهِمُ الصَّبَا).المجالسة وجواهر العلم 525/3سندہ ضعیف( · علامہ ہیثمی لکھتے ہیں۔ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «أَتَتِ الصَّبَا الشَّمَالُ لَيْلَةَ الْأَحْزَابِ، فَقَالَ: مُرِّي حَتَّى نَنْصُرَ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَتِ الشَّمَالُ: إِنَّ الْحُرَّةَ لَا تَسْرِي بِاللَّيْلِ، فَكَانَتِ الرِّيحُ الَّتِي نُصِرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبَا».رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ. )مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 139/6( · علامہ ہیثمی اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، ثنا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَتَتِ الصَّبَا الشَّمَالَ لَيْلَةَ الأَحْزَابِ، فَقَالَتْ: مُرِّي حَتَّى نَنْصُرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتِ الشَّمَالُ: إِنَّ الْحُرَّةَ لا تَسْرِي بِاللَّيْلِ، وَكَانَتِ الرِّيحُ الَّتِي نُصِرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبَا. قَالَ الْبَزَّارُ: رَوَاهُ جَمَاعَةٌ عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلا، وَلا نَعْلَمُ أَحَدًا وَصَلَهُ إِلا حَفْصٌ وَرَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، وَكَانَ ثِقَةً، يُقَال لَهُ: خَلَفُ بْنُ عَمْرٍو. ) كشف الأستار عن زوائد البزار 336/2 ( · امام ابو الشیخ روایت کرتےہیں۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي حَاتِمٍ، وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَابْنُ الْجَارُودِ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: " أَتَتِ الصَّبَا الشَّمَالَ، فَقَالَتْ: مُرِي حَتَّى نَنصُرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتِ الشَّمَالُ: إِنَّ الْحُرَّةَ لَا تَسْرِي، فَكَانَتِ الرِّيحُ الَّتِي نُصِرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبَا " )العظمة 1346/4 ( · محدث بزار اپنی سند سے روایت نقل کرتے ہیں۔ حَدَّثنا عَبد الله بن سَعِيد، قَال: حَدَّثنا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَن دَاود، عَن عِكْرِمة، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَتَتِ الصَّبَا الشَّمَالَ فَقَالَتْ: مُرِّي حَتَّى نَنْصُرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم فَقَالَتْ الشَّمَالُ: إِنَّ الْحَرَّةَ لا تَسْرِي بِاللَّيْلِ فَكَانَتِ الرِّيحُ الَّتِي نُصِرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم الصَّبَا. )مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار 39/11 ( · حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں۔ حدثنا عبد الله بن سعيد، ثنا حفص بن غياث، عن داود، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: ((أتت الصبا الشمال ليلة الأحزب، فقالت: مر بى حتى ننصر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت الشمال: إن الحرة لا تسير بالليل، فكانت الريح التى نصر بها رسول الله صلى الله عليه وسلم: الصبا۔ قال: رواه جماعة عن داود، عن عكرمة مرسلاً، ولا نعلم أحداً وصله إلا حفص ورجل من أهل البصرة وكان ثقة يقال له خلف بن عمر۔و ھذا صحیح) مختصر زوائد مسند البزار37/2 ( ان مذکورہ بالا مفسرین و محدثین کرام نے یہ روایت اگر اپنی کتب میں درج کی اور روایتاً لکھی تو اعتراض اعلی حضرت عظیم البرکت پر اعتراض کیوں اور کیسا؟اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ مرزا صاحب اور انکی ہمنوا جماعت غیر مقلدین کا یہ اعتراض لغو اور باطل ہے۔ آقاﷺ کا عرش اور فرش سے افضل ہونے کے بارے میں تحقیق انجینئر محمد علی مرزا صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں: علماء کا نظریہ3:ذوالنون حضرت یونس علیہ السلام کا لقب ہے، کیونکہ آپ کچھ روز مچھلی کے پیٹ میں رہے۔۔۔علماء فرماتے ہیں کہ اس مچھلی کا پیٹ اللہ تعالیٰ کے عرش اعظم سے افضل ہے کہ ایک پیغمبر کا کچھ دن تجلی گاہ رہا۔ جب مچھلی کا پیٹ عرش اعظم سے افضل ہوگیا تو حضرت آمنہ خاتون کا شکم پاک جس میں سیدنا الانبیاء ﷺ نو ماہ تک جلوہ افروز رہے وہ تو عرش اعظم سے بھی افضل ہے۔ [بریلوی:مفتی احمد یار نعیمی صاحب شرح مشکوۃ جلد سوم ص 357[ وحی کا نظریہ3:إِنَّ رَبَّكُمُ الله الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْش [ِ۔سورۃ الاعراف،آیت نمبر54 [ ترجمہ: بے شک تمہار رب اللہ تعالیٰ ہے جس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں،پھر عرش اعظم پر جلوہ افروز ہوا(جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے) الجواب بعون الوہاب: مرزا صاحب نے اس آیت میں "استواء علی العرش" سے کیا مراد لیا ہے؟یہ انہوں نے بظاہر صاف الفاظ میں بیان نہیں کیا، لیکن سیاق کلام سے واضح ہوتا ہے کہ وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ معاذ اللہ، اللہ کریم، عرش عظیم پر بیٹھا ہوا ہے اور چونکہ عرش اس سے مَس شدہ ہے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مس شدہ اشیاء کی بجائے عرش اعظم کو سب سے افضل ماننا چاہیے۔مزید مرزا صاحب کے اس دعوی سے معلوم ہو کہ وہ اللہ تعالی کی پاک اور منزہ عن العیوب ذات کو "مجسم" مانتے ہیں۔العیاذباللہ۔ اولا: یہ آیت، آیات متشابہات میں سے ہے، لہذا اس آیت میں کلام کرنا ممنوع ہے، چہ جائیکہ ایسی آیات کا کوئی معنی متعین کرکے اسے اپنے فاسد عقیدہ کے حق میں دلیل کے طور پر بیان کیا جائے۔ جبکہ قرآن کریم تو ایسوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ ان لوگوں کے دلوںمیں مرض ہے، جو آیات متشابہات کے ذریعے فساد کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی عقل کے مطابق مطلب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ھو الذی انزل علیک الکتٰب منہ اٰیت محکمٰت ھن ام الکتٰب و اٰخرمتشٰبھٰت فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ oومایعلم تاویلہ الا اﷲ م و الراسخون فی العلم یقولون اٰمنّا بہ کل من عند ربنا وما یذکرالا اولوالالباب ۔ وہی ہے جس نے اتاری تجھ پر کتاب اس میں بعض آیتیں پکی ہیں سو جڑ ہیں کتاب کی، اور دوسری ہیں کئی طرف ملتی، سوجن کے دل ہیں پھرے ہوئے وہ لگتے ہیں ان کے ڈھب والیوں سے ، تلاش کرتے ہیں گمراہی اور تلاش کرتے ہیں اُن کی کل بیٹھانی ، اور ان کی کل کوئی نہیں جانتا سوائے اﷲ کے، اور جو مضبوط علم والے ہیں سوکہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے، اور سمجھائے وہی سمجھے ہیں جن کو عقل ہے۔ (القرآن الکریم۳/ ۷، موضح القرآنترجمہ و تفسیر شاہ عبدالقادر۱۲۱ تاج کمپنی لاہورص ۶۲) مرزا صاحب کے مقلدین کو توجہ کرنی چاہیے کہ یہ سمجھنا کہ ہر وہ شخص جو اپنی بات کے ثبوت کے لیے اپنی دانست کے مطابق قرآن وحدیث کا حوالہ پیش کر رہا ہے، اس کی وہ بات صحیح ہے، درست نہیں، کیونکہ اگر قرآن کریم کو سمجھنا اس قدر معمولی بات ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی کیا حاجت تھی؟یونہی کلام رسول کے معانی ومطالب کو سمجھنا اور ان کے نتیجہ ومآل تک پہنچنا اس قدر آسان ہوتا توخود صحابہ کرام اپنے دینی معاملات کے حل کے لیے، فقیہ صحابہ کی طرف کیوں رجوع فرمایا کرتے؟ اور بشمول صحیح بخاری اور صحیح مسلم، کتب احادیث کی ان شروح کی کیا حاجت تھی؟مزید یہ کہ یہاں کتنے ہی ایسے ہیں جو قرآنی آیت کا ترجمہ تک خود نہیں کر سکتے، بلکہ ترجمہ شدہ قرآن کریم کی مدد لیتے ہیں، کیا آپ گمان کرتے ہیں کہ وہ آیات واحادیث کے درست نتیجے تک صرف اپنی عقل کے بل بوتے پر پہنچ سکتے ہیں؟! ہرگز ہرگز نہیں، جبکہ ان کا نتیجہ اسلاف کی رائے کے خلاف ہو۔ اگرچہ اس بات کو مرزا صاحب نے اپنے اس ریسرچ پیپر کے آخر میں نوٹ کے طور پر لکھا تو صحیح لیکن شاید اس پر غور نہیں کیا، کیونکہ اگر وہ اس بات پر غور کرتے تو ہرگز "استواء علی العرش" کا وہ خبیث مطلب نہ کرتے جو اُوپر بیان ہوا۔ آئیے! ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ آیات متشابہات کے بارے میں اسلاف کیا فرماتے ہیں، اور پھر ہم "استواء علی العرش" کے بارے میں اسلاف کا مذہب بیان کريں گے: اہلسنت کے دو مسلک آیاتِ متشابہات میں ہیں: اول: اکثر نے فرمایا کہ جب یہ ظاہری معنی قطعاً مقصود نہیں، اور تاویلی مطلب متعین و محدود نہیں، تو ہم اپنی طرف سے کیا کہیں؟! یہی بہتر کہ اس کا علم اﷲ پر چھوڑیں ہمیں ہمارے رب نے آیاتِ متشابہات کے پیچھے پڑنے سے منع فرمایا اور ان کی تعیین مراد میں خوض کرنے کو گمراہی بتایا، تو ہم حد سے باہر کیوں قدم دھریں؟! اسی قرآن کے بتائے حصے پر قناعت کریں کہ آمنا بہ کل من عند ربنا ۔ (؎ القرآن الکریم ۳/ ۷)جو کچھ ہمارے مولی کی مراد ہے ہم اس پر ایمان لائے محکم متشابہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے۔ یہ مذہب جمہور آئمہ سلف کا ہے اور یہی اَسلم واَولی ہے، اسے مسلک تفویض و تسلیم کہتے ہیں۔ ان ائمہ نے فرمایا: استواء معلوم ہے کہ ضرور اللہ تعالی کی ایک صفت ہے، لیکن کیف مجہول ہے کہ اس کے معنی ہماری سمجھ سے وراء ہیں، اور ایمان اس پر واجب ہے کہ نص قطعی قرآن سے ثابت ہے ۔ دوم: بعض نے خیال کیا کہ جب اﷲ عزوجل نے محکم اور متشابہ دو قسمیں فرما کر محکمات کوھنّ ام الکتب( ؎ القرآن الکریم ۳/ ۷)فرمایا کہ وہ کتاب کی جڑ ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ہر فرع اپنی اصل کی طرف پلٹتی ہے، توآیہ کریمہ نے تاویل متشا بہات کی راہ خود بتادی اور ان کی ٹھیک معیار ہمیں سمجھا دی کہ ان میں وہ درست وپاکیز ہ احتمالات پیدا کرو جن سے یہ اپنی اصل یعنی محکمات کے مطابق آجائیں اور فتنہ و ضلال و باطل و محال راہ نہ پائیں۔ یہ ضرور ہے کہ اپنے نکالے ہوئے معنی پر یقین نہیں کرسکتے کہ اللہ عزوجل کی یہی مراد ہے مگر جب معنی صاف و پاکیزہ ہیں اور مخالفت محکمات سے بری و منزہ ہیں اور محاورات عرب کے لحاظ سے بن بھی سکتے ہیں تو احتمالی طور پر بیان کرنے میں کیا حرج ۔ اب آئیے متذکرہ بالا آیت کی تشریح کے بارے میں، دیکھئے اسلاف اس بارے میں کیا فرماتے ہیں: ۱۔معالم التنزیل میں ہے: اما اھل السنۃ یقولون الاستواء علی العرش صفۃ ﷲ تعالٰی بلا کیف یجب علی الرجل الایمان بہ ویکل العلم فیہ الی اﷲ عزوجل ۔(معالم التنزیل تحت الآیۃ ۷/ ۵۴ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲/ ۱۳۷) یعنی رہے اہلسنت ،وہ یہ فرماتےہیں کہ عرش پر استواء اﷲ عزوجل کی ایک صفت بے چونی و چگونگی ہے، مسلمان پر فرض ہے کہ اُس پر ایمان لائے اور اس کے معنی کا علم خدا کو سونپے ۔ ۲۔امام بیہقی کتاب الاسماء والصفات میں فرماتے ہیں: الاستواء فالمتقدمون من اصحابنا رضی اللہ تعالٰی عنہم کانو الا یفسرونہ ولا یتکلمون فیہ کنحومذھبہم فی امثال ذٰلک ۔ ( کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش استوٰی ۲/ ۱۵۰) ہمارے اصحاب متقدمین رضی اللہ تعالٰی عنہم استواء کے کچھ معنی نہ کہتے تھے نہ اس میں اصلاً زبان کھولتے جس طرح تمام صفات متشابہات میں اُن کا یہی مذہب ہے۔ ۳۔یحٰیی بن یحیٰی سے روایت کی: کنا عند مالک بن انس فجاء رجل فقال یا ابا عبدا ﷲ الرحمن علی العرش استوی فکیف استوٰی ؟ قال فاطرق مالک راسہ حتی علاہ الرحضاء ثم قال الاستواء غیر مجہول والکیف غیر معقول والایمان بہ واجب، والمسؤل عنہ بد عۃ ، وما اراک الامبتدعا فامربہ ان یخرج ۔ ( کتاب الاسماء والصفات باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش الخ ۲/ ۱۵۰ و ا۱۵) ہم امام مالک رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر تھے ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کی اے ابوعبداللہ! رحمن نے عرش پر استواء فرمایا یہ استواء کس طرح ہے؟ اس کے سنتے ہی امام نے سر مبارک جھکالیا یہاں تک کہ بدن مقدس پسینہ پسینہ ہوگیا، پھر فرمایا : استواء مجہول نہیں اور کیفیت معقول نہیں اور اس پر ایمان فرض اور اس سے استفسار بدعت اور میرے خیال میں تو ضرور بدمذہب ہے، پھر حکم دیا کہ اسے نکال دو۔ ۴۔ عبداللہ بن صالح بن مسلم سے روایت کی: سئل ربیعۃ الرأی عن قول اﷲ تبارک وتعالٰی الرحمن علی العرش استوٰی کیف استوٰی ؟قال الکیف غیر معقول والا ستواء غیر مجہول ویجب علیّ وعلیک الایمان بذلک کلہ ۔ (کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش استوٰی۲/ ۱۵۱) یعنی امام ربیعہ بن ابی عبدالرحمن استاذ امام مالک سے جنہیں بوجہ قوت عقل و کثرت قیاس ربیعۃ الرائے لکھا جاتا یہی سوال ہوا، فرمایا کیفیت غیر معقول ہے اور اﷲ تعالٰی کا استواء مجہول نہیں اور مجھ پر اور تجھ پر ان سب باتوں پر ایمان لانا واجب ہے۔ ۵۔ امام احمد بن ابی الحواری امام سفٰین بن عیینہ سے روایت کی کہ فرماتے: ماوصف اﷲ تعالٰی من نفسہ فی کتابہ فتفسیرہ تلاوتہ والسکوت علیہ ۔ (کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش ۲/ ۱۵۱ ) یعنی اس قسم کی جتنی صفات اﷲ عزوجل نے قرآن عظیم میں اپنے لیے بیان فرمائی ہیں ان کی تفسیر یہی ہے کہ تلاوت کیجئے اور خاموش رہیے۔ ۶۔ اسحق بن موسٰی انصاری نے کہا کہ: لیس لاحدان یفسرہ بالعربیۃ و لابالفارسیۃ ۔ ( کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی اثبات العین / ۴۲) کسی کو جائز نہیں کہ عربی میں خواہ فارسی کسی زبان میں اس کے معنی کہے۔ ۷۔ حاکم سے روایت کی انہوں نے امام ابوبکر احمد بن اسحق بن ایوب کا عقائد نامہ دکھایا جس میں مذہب اہلسنت مندرجہ تھا اس میں لکھا ہے: الرحمن علی العرش استوی بلاکیف (کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش استوٰ ۲/ ۱۵۲) رحمن کا استواء بیچون و بیچگون ہے۔ ۸۔ امام شافعی رحمة الله عليه، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه کے بارے میں لکھا ہے : والاثار عن السلف فی مثل ھذاکثیرۃ وعلٰی ھذہ الطریقۃ یدل مذہب الشافعی رضی اللہ تعالی عنہ والیہاذھب احمد بن حنبل والحسین بن الفضل البلخی ومن المتاخرین ابوسلیمن الخطابی ۔ ( کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش ۲/ ۱۵۲) یعنی اس باب میں سلف صالح سے روایات بکثرت ہیں اور اس طریقہ سکوت پر ایمان شافعی کا مذہب دلالت کرتا ہے اور یہی مسلک امام احمد بن حنبل و امام حسین بن فضل بلخی اور متاخرین سے امام ابوسلیمن خطابی کا ہے۔ الحمدﷲ امام اعظم سے روایت عنقریب آتی ہے ، ائمہ ثلٰثہ سے یہ موجود ہیں، ثابت ہوا کہ چاروں اماموں کا اجماع ہے کہ استواء کے معنی کچھ نہ کہے جائیں اس پر ایمان واجب ہے اور معنی کی تفتیش حرام یہی طریقہ جملہ سلف صالحین کا ہے۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب میں امام خطابی سے نقل کرتے ہیں ۔ ونحن احری بان لانتقدم فیما تأخر عنہ من ھو اکثر علما و اقدم زمانا وسنا، ولکن الزمان الذی نحن فیہ قد صاراھلہ حزبین منکرلما یروی من نوع ھٰذہ الاحادیث راسا ومکذب بہ اصلا، وفی ذلک تکذیب العلماء الذین ردوا ھٰذہ الاحادیث وھم ائمۃ الدین ونقلۃ السنن و الواسطۃ بیننا و بین رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، والطائفۃ الاخرٰی مسلمۃ للروایۃ فیہا ذاھبۃ فی تحقیق منہا مذھبا یکاد یفضی بھم الی القول بالتشبیہ و نحن نرغب عن الامرین معاً ، ولا نرضی بواحد منھما مذہبا، فیحق علینا ان نطلب لما یرد من ھٰذہ الاحادیث اذا صحت من طریق فالنقل والسند ، تاویلا یخرج علی معانی اصول الدین ومذاہب العلماء و لاتبطل الروایۃ فیہا اصلا، اذا کانت طرقہا مرضیۃ ونقلتہا عدولا۔ (کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماذکر فی القدم ۲/ ۸۶( یعنی جب اُن ائمہ کرام نے، جو ہم سے علم میں زائد اور زمانے میں مقدّم اور عمر میں بڑے تھے، متشا بہات میں سکوت فرمایا تو ہمیں بھی ساکت ہی رہنا چاہیے اور ہمارے زیادہ لائق یہی ہے کہ ہم ان کے معانی کے بارے میں کچھ نہ بولیں ۔مگر ہمارے زمانے میں دو گروہ پیدا ہوئے، ایک تو اس قسم کی حدیثوں کو سرے سے رَد کرتا اور جھوٹ بتاتا ہے، اس میں علمائے رواۃ احادیث کی تکذیب لازم آتی ہے، حالانکہ وہ دین کے امام ہیں اور سنتوں کے ناقل اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تک ہمارے وسائط و رسائل۔ اور دوسرا گر وہ ان روایتوں کو مان کر ان کے ظاہری معنی کی طرف ایسا جاتا ہے کہ اس کا کلام اﷲ عزوجل کو خلق سے مشابہ کردینے تک پہنچانا چاہتا ہے اور ہمیں یہ دونوں باتیں ناپسند ہیں، ہم ان میں سے کسی کو مذہب بنانے پر راضی نہیں، تو ہمیں ضرور ہوا کہ اس بات میں جو صحیح حدیثیں آئیں اُن کی وہ تاویل کردیں جس سے ان کے معنی اصول عقائد وآیات محکمات کے مطابق ہوجائیں اور صحیح روایتیں کہ علماء ثقات کی سند سے آئیں باطل نہ ہونے پائیں۔ یوں مرزا صاحب کے دعوی کی وہ دیوار جس کی بنیاد انہوں نے اپنی عقل کے مطابق ایک آیت سے غلط استدلال پر رکھی تھی، دھڑام سے زمین بوس جاتی ہے۔ لہذا مرزا صاحب کوچاہیے کہ آئندہ کچھ کہنے سے پہلے اسلاف رحمہ اللہ المبین کے کلام کا مطالعہ کر لیا کریں، کہ اہل سنت سے عناد کی بنا پر کچھ ایسا نہ لکھ دیں جس سے سابقہ امت اور ائمہ ومحدثین کو گم راہ ٹھہرنا لزم آئے۔ دوم: ہم اس مسئلہ کی مزید وضاحت اور مرزا صاحب کے دجل وفریب کے رد کے لیے اسلاف میں سے علماء ومحدثین کے اقوال نقل کرتے ہیں تاکہ قارئین کو اندازہ ہو سکے کہ جو بات سیدی امام احمد رضا خان اور حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہما نے فرمائی اور ان کی اپنی اختراع ہرگز نہیں، بلکہ سلف سے یہ عقیدہ امت میں متوارث ہے، لیکن مرزا صاحب کا صرف ان دو حضرات کو مورد الزام ٹھہرنا، یا تو مرزا صاحب کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے، یا ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔ آئیے ملاحظہ فرمائیے: · امام فخر الدين رازی علیہ رحمۃ اللہ الہادی ، تفسیر کبیر میں درج ذیل آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: وما ارسلنٰک الا رحمۃ للعٰلمین۔ اے محبوب ! ہم نے تجھے نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے ۔ (القرآن الکریم ۲۱ /۱۰۷) تفسیر: لماکان رحمۃ للعالمین لزم ان یکون افضل من کل العٰلمین ۔قلت وادعاء التخصیص خروج عن الظاھر بلادلیل وھو لایجوز عند عاقل فضلا عن فاضل واللہ الھادی۔جب حضور تمام عالم کے لیے رحمت ہیں واجب ہوا کہ تمام ماسوائے اللہ سے افضل ہوں ۔میں کہتاہوں تخصیص کا دعوٰی کرنا ظاہر سے بلادلیل خروج ہے اوروہ کسی عاقل کے نزدیک جائز نہیں چہ جائیکہ کسی فاضل کے نزدیک ۔ اوراللہ تعالی ہی ہدایت دینے والا ہے ۔ (مفاتیح الغیب [التفسیر الکبیر]تحت الآیۃ ۲ /۲۵۳ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶ /۱۶۵) · محدث ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: · وقع الاجماع علی تفضیل ما ضم الاعضاء الشریفۃ حتی علی الکعبہ۔ ترجمہ:اس بات پر اجماع ہے کہ جو حصہ جسم کے ساتھ ملا ہوا ہے، وہ ہر چیز سے افضل ہے حتیٰ کہ کعبہ معظمہ سے بھی افضل ہے۔ [سبل الھدی و الرشاد ج۲ ص ۳۱۵] · محدث خفاجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بل ھی افضل من السموات و العرش و الکعبۃ ۔ بلکہ یہ(زمین کا حصہ جو نبی کریمﷺ کے جسم کے ساتھ مس کیا ہوا ہے) آسمانوں، عرش اور کعبہ سے بھی افضل ہے۔ [نسیم الریاض شرح الشفاء ج۳ ص ۵۳۱] ماننے والوں کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے لیکن کیا کریں مرزا صاحب جیسے لوگ اس وقت تک نہیں مانتے جب تک ان کے اپنے کسی کا حوالہ نہ دیکھ لیں، ویسے مانتے تو پھر بھی نہیں البتہ وقتی طور پر خاموش ہو جاتے ہیں ، مرزا صاحب ! کے اطمنان نفس کے لیے ان کے اپنے گھر کا حوالہ ملاحظہ کیجئے، شايد یہ مان ہی جائیں، · ابن قیم، ابن عقیل کے حوالے سے نقل کرتے ہیں: إن أردت مجرد الحجرة فالكعبة أفضل وإن أردت وهو فيها فلا والله ولا العرش وحملته ولا جنة عدن ولا الأفلاك الدائرة لأن بالحجرة جسدا لو وزن بالكونين لرجح ۔ ترجمہ:اگر تمہاری مراد محض حجرہ نبویﷺ سے ہے تو کعبہ افضل ہے ،اور اگر تمہاری مراد بشمول جسد اطہر ہے، تو خدا کی قسم! نہ ہی عرش، نہ حاملین عرش اور نہ ہی گردش کرنے والے افلاک، کوئی بھی چیز اس سے افضل نہیں ہے؛ کیونکہ روضہ مبارکہ میں ایک ایسا جسد اطہر ہے کہ اگر دونوں جہانوں کے ساتھ بھی اسے تولا جائے(وزن کیا جائے) تو وہ بھاری رہے۔(بدائع الفوائد ج۳ ص ۱۰۶۵( · اس بات کو غیر مقلد عالم جناب داود غزنوی نے بھی بیان ہے، ملاحظہ کریں سوانح داود غزنوی ص ۳۴۶۔ جناب والا ! اب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ غیر مقلد عالم جناب داود غزنوی کے نام بھی گستاخوں میں شامل کرتےہیں یا پھر آپ کی دشمنی صرف اہل سنت کے ساتھ ہے۔ ''یا جنید یا جنید ''کاتحقیق جائزہ انجینئر محمد علی مرزا صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں۔ علماء کا نظریہ: ایک مرتبہ حضرت سید الطائفہ جنید بغدای رحمۃ اللہ علیہ دجلہ پر تشریف لائے اور یا اللہ کہتے ہوئے اس پر زمین کی مثل چلنے لگے ، بعد کو ایک شخص آیا ، اسے پار جانے کی ضرورت تھی ، کوئی کشتی اس وقت موجود نہ تھی ۔ جب اس نے حضرت کو جاتے دیکھا ۔ عرض کی: میں کس طرح آؤں فرمایا: یا جنید یا جنید کہتا چلا آ۔ اس نے یہی کہا اور دریا پر زمین کی طرح چلنے لگا ۔ جب بیچ دریا میں پہنچا ۔ شیطان لعین نے دل میں وسوسہ ڈالا ، کہ حضرت خود تو یا اللہ کہیں اور مجھ سے یا جنید کہلواتے ہیں ۔ میں بھی یا اللہ کیوں نہ کہوں ۔ اس نے یا اللہ کہا اور ساتھ ہی غوطہ کھایا ۔ پکارا: حضرت میں چلا ، فرمایا وہی کہہ یا جنید یا جنید جب کہا دریا سے پار ہوا ۔ عرض کی حضرت یہ کیا بات تھی ۔ آپ اللہ کہیں تو پار ہوں اورمیں کہوں تو غوطہ کھاؤں ۔ فرمایا: ارے نادان ابھی تو جنید تک تو پہنچا نہیں اللہ تک رسائی کی ہوس ہے ۔ [بریلوی:مولانا احمد رضا خان صاحب ملفوظات حصہ اول ص ۹۷ بک کارنر جہلم[ وحی کا فیصلہ:سیدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اے بیٹے تو اللہ کے احکام کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت فرمائے گا۔اللہ کے حقوق کا خیال رکھا تو اسے اپنے سامنے پائے گا۔ اذا سالت فا سال اللہ و اذا استعنت فاستعن باللہ۔( ترجمہ:جب تو سوال کرے تو صرف اللہ سے کرنااور جب تو مددطلب کرے تو اللہ ہی سے مدد طلب کرنا)اور جان لے کہ اگر پوری امت بھی جمع ہو کر تجھے کوئی فائدہ پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکے گی مگر جو اللہ چاہے۔اور اگر پوری امت بھی جمع ہو کر تجھے نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سے گی مگر جو اللہ چاہے (تقدیر لکھنے کے بعد) قلم اٹھ گئے اور صحیفے خشک ہوگئے۔[نوٹ امام ترمذی نے اس کی سند کو حسن صحیح کہا ہے].[جامع ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ حدیث نمبر:2516[ الجواب بعون الوھاب: عرض یہ ہے کہ مرزا صاحب نے جو ملفوظات پر اعتراض کیا ہے وہ تحقیق کے خلاف ہے۔کیونکہ فتاوٰ ی رضویہ کے مقابل میں ملفوظات کے عبارت قابل قبول نہیں ہے۔خود مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان نے ملفوظات میں اغلاط اور کاتب کے غلطیوں پر اظہار برہمی اور ناپسندیگی کا اظہار کیا ہے۔کیونکہ ناشرین ملفوظات چھاپ رہے ہیں مگر اس کی تصحیح کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔لہذا فتویٰ رضویہ جو کہ مدون ہے اس کے مقابلے میں ملفوظات کو وہ مقام حاصل نہیں جو کہ ایک مصنف کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب ہوتی ہے۔اور یہ یاد رہے کہ ملفوظات اعلیٰ حضرت ان کی اپنی تصنیف نہیں بلکہ ان سے سنے ہوئے مسائل کو علماء نے وقتاً فوقتاً لکھا جس میں تغیر اور تبدیلی کے امکانات ہمیشہ رہتے ہیں۔لہذا اگر کوئی مسئلہ فتاویٰ رضویہ کے خلاف ملفوظات میں آجائے تو وه مرجوع ہوگا۔لہذا ملفوظات پر اعتراض کرنا کوئی تحقیقی کام نہیں۔ · جبکہ اسی عبارت کے برعکس اعلیٰ حضرت اپنے ملفوظات میں اس سوال کا جواب کچھ یوں دیتے ہیں۔ مسئلہ ۲۴۵: [ازشفاخانہ فریدپورڈاکخانہ خاص اسٹیشن پتمبرپور مسئولہ عظیم اﷲ کمپونڈر ۷رمضان ۱۳۳۹ھ[ کیافرماتے ہیں علمائے دین کہ جنید ایک بزرگ کامل تھے انہوں نے سفرکیا، راستے میں ایک دریاپڑااس کوپارکرتے وقت ایک آدمی نے کہاکہ مجھ کوبھی دریاکے پارکردیجئے، تب ان بزرگ کامل نے کہاتم میرے پیچھے یاجنید یاجنیدکہتے چلو اور میں اﷲ اﷲ کہتاچلوں گا، درمیان میں وہ آدمی بھی اﷲ اﷲ کہنے لگا تب وہ ڈوبنے لگا، اس وقت ان بزرگ نے کہا کہ تو اﷲ اﷲ مت کہہ یاجنیدیاجنیدکہہ، تب اس آدمی نے یاجنیدیاجنیدکہاجب وہ نہیں ڈوبا۔ یہ درست ہے یانہیں؟ اوربزرگ کامل کے لئے کیاحکم ہے اورآدمی کے لئے کیاحکم ہے؟بیّنواتوجروا۔ الجواب : یہ غلط ہے کہ سفرمیں دریا ملابلکہ دجلہ ہی کے پارجاناتھا، اوریہ بھی زیادہ ہے کہ میں اﷲ اﷲ کہتاچلوں گا، اوریہ محض افتراہے کہ انہوں نے فرمایا تواﷲ اﷲ مت کہہ۔ یاجنیدکہنا خصوصاً حیات دنیاوی میں خصوصاً جبکہ پیش نظرموجودہیں اسے کون منع کرسکتاہے کہ آدمی کاحکم پوچھاجائے اورحضرت سیدالطائفہ جنیدبغدادی رضی اﷲ تعالی عنہ کے لئے حکم پوچھنا کمال بے ادبی وگستاخی ودریدہ دہنی ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔[فتاوی رضویہ جلد ۲۶ صفحہ۴۳۵۔۴۳۶] جب اعلیٰ حضرت کا اس بات کی تردید میں فتویٰ موجود ہے تو پھر ان پر الزام جہالت کے سواء اور کچھ بھی نہیں۔ مزید یہ کہ اگربالفرض یہ واقعہ ملفوظات میں مان بھی لیا جاءے تو کیا اس واقعہ کو نقل کرنے سے اعلیٰ حضرت قرآن و سنت کی مخالفت کرتے ہیں تو پھر جن بزرگ ہستی[حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ] کا یہ قول ہے ان کے بارے میں آپ کا کیا فتویٰ ہوگا۔ذرا ہوش سنبھال کر جواب دینا جناب۔ہو سکتا ہے کہ مرزا صاحب اپنی غصہ نکالنے کے لیے اس عزیم اور با برکت ہستی پرکوءی اعتراض نہ کر دے۔اس لیے محدثین سے ان کے بارے چند اقوال پیش خدمت ہیں۔ ۱۔محد ث ابی شھبہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ الاِمَام الْعلم فِي طَريقَة التصوف وَإِلَيْهِ الْمرجع فِي السلوك فِي زَمَانه وَبعده ۔ [طبقات الشافعیہ ج۱ ص ۷۶[ ۲۔ محدث سبکی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: سيد الطَّائِفَة ومقدم الْجَمَاعَة وَإِمَام أهل الْخِرْقَة وَشَيخ طَريقَة التصوف وَعلم الْأَوْلِيَاء فى زَمَانه وبهلوان العارفين [طبقات الکبریٰ الشافعیہ ج۲ ص ۲۶۰] ۳۔محدث ابن کثیر فرماتے ہیں: وهو الامام العالم في طريقة التصوف، وإليه المرجع في السلوك في زمانه وبعده، رحمه الله۔ [طبقات الشافعین ج۱ ص ۱۶۸] ۴۔محدث ابن المنادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ سَمِعَ الكَثِيْرَ، وَشَاهَدَ الصَّالِحِيْنَ وَأَهْلَ المَعْرِفَةِ، وَرُزِقَ الذَّكَاءَ وَصَوَابَ الجَوَابِ.لَمْ يُرَ فِي زَمَانِهِ مِثْلُهُ فِي عِفَّةٍ وَعُزُوفٍ عَنِ الدُّنْيَا. [تاریخ بغداد:۳۷۳۹] ۵۔محدث خطیب بغدادی فرماتے ہیں: وصار شيخ وقته، وفريد عصره فِي علم الأحوال والكلام عَلَى لسان الصوفية، وطريقة الوعظ، وله أخبار مشهورة وكرامات مأثورة.[تاریخ بغداد ج۷ ص ۲۴۹] ۶۔علامہ الدوودی المالکی فرماتے ہیں: وكان شيخ وقته، وفريد عصره، وكلا مه في الحقيقة مدون مشهور۔[تاریخ المفسرین ج۱ ص ۱۲۹] ۷۔محدث علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ كان شيخ العارفين وقُدْوة السّائرين، وعَلَم الأولياء في زمانه، رحمه الله عليه.[تاریخ الاسلام ج۶ ص۹۲۴] ۸۔علامہ خلدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لم نر في شيوخنا مَن اجتمع له علمٌ وحالٌ غير الْجُنَيْد، كانت له حالٌ خطيرة وعلمٌ غزير۔[تاریخ الاسلام ج۶ ص۹۲۶] ۹۔محدث سمعانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ وصار شيخ وقته، وفريد عصره، في علم الاحوال، والكلام على لسان الصوفية، وطريقة الوعظ۔[الانساب ج۴ ص۵۵۶] ۱۰۔علامہ ابن قنفذ(۸۰۹ھ) لکھتے ہیں۔ إمام الطائفة الصوفية أبو القاسم الجنيد البغدادي نفعنا الله تعالى ببركاته۔[الوفیات لابن قنفذ ج۱ ص ۱۹۶] ۱۱۔محدث سمعانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ وصار شيخ وقته، وفريد عصره، في علم الاحوال، والكلام على لسان الصوفية، وطريقة الوعظ۔[الانساب ج۴ ص۵۵۶] ۱۲۔ایک غیر مقلد عالم غلام رسول قلعوی صاحب لکھتے ہیں کہ میرے عقیدے کے رو سے وہ[غیر مقلد عالم عبداللہ غزنوی] جنید کے مثل اور حضرت بایزید کی مانند ہیں ۔ [تذکرہ مولانا غلام رسول قلعوی ص ۴۵۱۔۴۵۲] ان حوالہ جات کے بعد اگر کسی میں اعتراض کی جرات ہے تو کر کے دیکھ لے۔ان شاء اللہ اس کا بھی جواب دیا جائے گا۔اگر اس کے بعد بھی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ پر کوئی اعتراض کرے تو اس کو شرم و حیا سے کوئی واسطہ نہیں ۔کیونکہ محدثین نے تو حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی زبردست توثیق یا تعریف کی ہے اگر اعتراض کرنا ہے تو پھر ان محدثین کرام پر کیجئے۔ الزامی جواب: مزید عرض یہ ہے کہ مرزا صاحب کو صرف اکابر اہل سنت ہی ملے ہیں اعتراض کرنے کے لیے اور اس کے برعکس وہ یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ وہ تمام مکاتب فکر سے اختلاف رکھتے ہیں ۔مگر انھوں نے اپنے پورے پوسٹر میں ایک جگہ بھی غیر مقلدین کے خلاف نہیں لکھا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب غیر مقلدین حضرات کے بغل بچے ہیں۔اگر مرزا صاحب میں دم خم ہے تو پھر گمراہی کا فتویٰ ذرا غیر مقلدین کے جیدعالم جناب مولانا غلام رسول قلعہ میاں سنگھ پر بھی لاگو کر کے بتائیں۔ قارئین کرام! اب ذرا مولانا غلام رسول قلعہ میاں سنگھ صاحب غیر مقلد کی ایک کرامت ملاحظہ کریں۔ ایک دفعہ صدر الدین و سرفراز مالکان سدہ کمبوہ بمع حافظ غلام محمد صاحب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے زمیں کا بہت سا حصہ دریا نے لے لیا ہے اور قریب ہے کہ ہماری تمام زمین دریا برد ہو جائے۔دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس مصیبت سے نجات دے۔تینوں صاحب دو روز قلعہ میاں سنگھ میں رہے۔وقت رخصت مولوی صاحب نے فرمایا کہ دریا کے کنارے پر کھڑے ہوکر باواز بلند کہنا۔یا ملائکۃ اللہ السلام علیکم من غلام رسول قلعہ والا اور سورہ یسین تین روز پڑھنا،تینوں شخص کا بیان ہے کہ جب ہم نے دریا کے کنارے پر کھڑے ہو کر حسب فرمان مولانا صاحب کا سلام پہنچایا ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دریا ہٹنا شروع ہوگیا اور طغیانی بالکل جاتی رہی۔ہم حیرانی سے دیکھتے رہے دریا کا یک لخت ہٹنا شروع ہونا بڑا تعجب خیز امر تھا۔سورہ یسین پڑھنے سے دریا بالکل ہٹ گیا اور اپنی اصلی حالت پر آگیا۔[سوانح حیات غلام رسول ص ۱۱۵] میرے خیال میں اس واقعے کو لکھنے کے بعد مجھے کسی قسم کی تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔کیونکہ ان کے حالات لکھنے والے خود غیر مقلد جناب اسحا ق بھٹی صاحب ہیں۔ لفظ ''شب باشی ''کا تحقیق جائزہ انجینئر محمد علی مرزا صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں۔ علماء کا نظریہ: بلکہ سیدی محمد بن عبدالباقی زرقانی فرماتے ہیں : ’’کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی قبور مطہرہ میں ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں ۔ وہ ان کے ساتھ شب باشی فرماتے ہیں ‘‘۔[ اندھا دھند پیروی کا انجام ص4 رقم:16[ وحی کا فیصلہ : النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ۔[سورۃ الاحزاب آیت:۶[ الجواب بعون الوہاب: امام مجدّد اعلیٰ حضرت کے علمی جواہرات اور عقائد ونظریات کی حقانیت اس طرح روشن ہیں کہ مخالفین بھی آپ کے سامنے سر جھکاے اور ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوئے ہیں۔ اکابر دیوبند بھی آپ کے نظریات اور اور عقائد کے مقلد نظر آرہے ہیں۔ مگر کچھ ایسے دیوبندی حضرات بھی ہیں جو اپنے ا کابر کے باغی ہوکر ان نظریات اور عقائد کو جھٹلا کر اپنے ہی اکابر کو کٹہرے میں لاکر ان پر گمراہی کے فتوے دینے لگے ہیں۔ یعنی علماء دیوبند کے بعض فیض یافتہ حضرات اہلسنت حنفی مکتبہ فکر پر ایک الزام لگاتے آرہے ہیں کہ امام اعلیٰ حضرت مجدد احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ نے اپنے ملفوظات میں حضور ﷺ کیلئے روضہ اطہر میں ’’ شب باشی‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں جو صحیح نہیں ہیں۔ یہ اعتراض کئی حضرات اپنے تصانیف میں کرچکے ہیں۔ اور علماء اہلسنت نے کئی بار اس کا جواب دیا ہے ۔یہاں فقیر )فاروقی(مخالفین کے ہی مصدقہ تصانیف و تراجم سے شب باشی پر تحقیق پیش کرتاہے جو مخالفین کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔ اس وقت میرے سامنے جامعہ عربیہ احسن العلوم کراچی کے شیخ مفتی زرولی خان صاحب کا کتابچہ بنام ’’ تعارف بریلویت‘‘ موجود ہے ۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ وا لسلام کی قبور مطہرہ میں ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں وہ ان کے ساتھ شب باشی فرماتے ہیں )ملفوظات حصہ سوم سطر ۴۱،۵۱(۔ غور فرمایئے کہ اللہ تعالیٰ کے پاک پیغمبروں پر اور ان کی پاک بیبیوں پر کیسی ناروا تہمت باندھی گئی ، جب کہ نبی کریم ﷺ نے تو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ’’الانبیاء احیاء فی قبور ھم یصلون‘‘یعنی انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں۔ مگر بریلوی مذہب میں نماز کے بجائے جماع کرتے ہیں‘‘۔)تعارف بریلویت، ص ۴۱( اس اعتراض کے جواب سے پہلے آیئے امام مجدد اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے ملفوظ کو پڑھتے ہیں۔ امام مجدّد اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں۔ ’’ انبیاء کرام علیہ السلام کی حیات حقیقی حسی و دنیاوی ہے ۔ان پر تصدیق وعدہ الٰہیہ کیلئے محض ایک آن کی موت طاری ہوتی ہے ۔پھر فورا ان کو ویسے ہی حیات عطا فرما دی جاتی ہے ۔اس حیات پر وہی احکام دنیویہ ہیں ان کا ترکہ بانٹا نہ جائے گا۔ ان کی ازواج کو نکاح حرام نیز ازواج مطہرات پر عدت نہیں وہ اپنی قبور مین کھاتے ہیں نماز پڑھتے ہیں۔ بلکہ سیدی محمد بن عبدالباقی زرقانی فرماتے ہیں کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی قبور میں ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں وہ ان کے ساتھ شب باشی فرماتے ہیں۔ حضور اقدس ﷺ نے تو ان کو حج کرتے ہوئے لبیک پکارتے ہوئے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا‘‘۔)ملفوظات اعلیٰ حضرت حصہ سوم ، ص۷۰۳( امام مجدد اعلیٰ حضرت نے حیات انبیاء پر دلائل پیش کرکے انبیاء کرام کے خصائص کا تذکرہ کیا ہے ۔کہ نہ ترکہ بانٹا جائے گا۔ ازواج مطہرات نکاح میں ہیں ان پر عدت نہیں۔ او ر علامہ زرقانی کا قول پیش کر کے فرمایا کہ ’’ ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں وہ ان کے ساتھ شب باشی فرماتے ہیں ۔یعنی رات گزارتے ہیں۔اس میں کونسی بات معیوب اور تہمت والی ہے ۔ یہ تو خصائص انبیاء سے ہیں۔ مفتی زرولی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ بریلوی مذہب میں نماز کے بجائے جماع کرتے ہیں‘‘نماز کے بجائے لکھ کراپنی بد دیانتی اور خیانت کا ثبوت دیا ہے ۔حالانکہ عبارت میں صریح ذکرِ نماز موجود ہے ۔’’ اپنی قبور میں کھاتے پیتے ہیں اور نماز پرھتے ہیں‘‘ بلکہ دوسری بار بھی نماز کا ذکر موجود ہے ’’ حج کرتے ہوئے اور لبیک پکارتے ہوئے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا‘‘ اسکے بعد بھی مفتی زرولی خان صاحب کا یہ کہنا کہ ’’نماز کے بجائے ‘‘ قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اور اپنی خیانت اور تحریف کا اعتراف کرنا ہے ۔ زرولی خان صاحب کا حوالہ آپ ملاحظہ کرچکے ہیںکہ’’ شب باشی ‘‘ کے معنی جماع سے کر کے اس سے تہمت ثابت کررہے ہیں۔ پہلے تو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ ’’ شب باشی‘‘ کے معنی کیا ہیں۔ ’’ شب باشی ‘‘ کے معنی: · چنانچہ آیئے فرہنگ آصفیہ کو اٹھا کردیکھتے ہیں کہ شب باشی کاکیا معنی و مفہوم ہیں۔ ) ’’ شب باش: (ف) اسم مذکر (۔مقیم، رات کا قیام ، بسرام، شب گزاری، منزل گزینی ، فروکش‘‘(۔ )فرہنگ آصفیہ ، ج ۳، ص ۶۶۱ ،س تا ے ،مرتبہ ۔ مولوی سید احمد دہلوی۔ اردو سائنس بورڈ ۰۰۲ اپر مال لاہور۔ طبع چہارم ۳۰۰۲ء( · اب فیروزالغات میں شب باشی کا معنی دیکھ لیتے ہیں ۔ ’’ شب باش : رات رہنے والا۔ ۔‘‘ )فیروز الغات۴۱۰( شب باشی باہمی میلاپ کو مستلزم نہیں ہیں۔شب باشی کا مطلب و معنی جماع کے ہے ہی نہیں۔ شب باشی کا مطلب رات گزارنا ہے ۔ اگر علماء و اکابر دیوبند کے تصانیف پر نظر کی جائے تو ہمیں اس میں ’’شب باشی‘‘ کے متعلق کافی حوالے مل جائیں گے ۔ پھر وہاں کیا تاویل ہوگی؟ v آیئے چند حوالے ملاحظہ کرتے ہیں۔ ’’ مدینہ منورہ میں روضہ مبارک کے پاس مسجد نبوی میں آپ نے )انور شاہ صاحب( درس حدیث دیا ہے ۔اہل مدینہ خصوصا علماء بہت متوجہ ہوئے اکثر مسائل کا جواب آپ نے ان کو رسالوں کی شکل میں دیا ۔جو علماء دیوبند ان دنوں وہاں رہتے تھے ۔انہوں نے کوشش کیں کہ شب باشی آپ کی مسجد نبوی میں ہو‘‘ )ملفوظات کشمیری، ص ۵۷۲ ( v تھانوی صاحب لکھتے ہیں۔ ’’محمد الحضرمی مجذوب چلانے والے عجیب و غریب حالات و کرامات و مناقب والے تھے کبھی کبھی چلاتے ہوئے عجیب عجیب علوم و معارف پر کلام کر جاتے ۔ اور کبھی کبھی استغراق کی حالت میں زمین و آسمان کے اکابر کی شان پر ایسی گفتگو فرماتے کہ اس کے سننے کی تاب نہ ہوتی تھی۔آپ ابدال مین سے تھے آپ کی کرامتوں میں سے یہ ہے کہ آپ نے ایک دفعہ تیس (30) شہروں میں خطبہ اور نماز جمعہ بیک وقت پڑھا ہے اور کئی کئی شہروں میں ایک ہی شب میں شب باش ہوتے تھے ‘‘َ )جمال الاولیاء ، ص ۳۵۲( ایک وقت میں کئی کئی شہروں میں شب باشی کا کیا مطلب ہو گا جسے دیوبندی حکیم الامت بیان فرما رہے ہیں۔ v چلو اب دارالعلوم دیوبندکے بانی قاسم نانوتوی صاحب کی شب باشی بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ’’ )قاسم نانوتوی صاحب (صبح کو اڑ اتار کر باہر چلے جاتے تھے اور پھر کواڑ کو درست کر دیتے تھے ؛ اس مقفل مکان میں تنہا شب باشی، و شب گزاری کہ یہ عجیب و غریب صورت حال کب تک پیش آتی رہی ، صحیح طور پر تو اس کا بتانا دشوار ہے ، لیکن مصنف امام نے آگے جو یہ ارقام فرمایا ہے ’’ چند ماہ اس ہو کے مکان میں گزرگئے ‘‘۔ )سوانح قاسمی ، جلد اول ص۳۰۵ ( کیا مفتی زرولی خان صاحب اس مقفل مکان میں شب باشی کی اس عجیب و غریب صورتحال کی تشریح کر سکیں گے ؟یایہی فرمائیں گے کہ ’’ صحیح طور پر اس کا بتانا دشوار ہے ‘‘یا شب باشی سے شب گزاری مراد لیں گے ۔ یہاں ان چند حوالوں پر اکتفا کرتا ہوں ورنہ اگر علماء دیوبند کے تصانیف میںسے شب باشی کے واقعات نقل کی جائیں تو ایک الگ کتاب بن جائے گی۔لغت کے کتب اور علماء دیوبند کے تصانیف سے شب باشی کے معنی و مطلب کو آپ ملاحظہ کر چکے ۔ اس کے بعد بھی محض شب باشی کے الفاظ سے کوئی جماع تعبیر کرے تو وہ لغت کی کتابوں اور اپنے اسلاف کے تصانیف سے باالکل ناواقف ہے ۔یہ تو عام زندگی میں ’’شب باشی ‘‘کے الفاظ کا استعمال تھا اب اگر عالم برزخ کی بات ہو تو عالم برزخ میں ارواح کاآپس میں ملاقات کرنا علماء دیوبند کے کتب سے بھی ثابت ہے ۔ v جیسا کہ دیوبندکی علماء نور محمد تونسوی صاحب، مولوی محمد عیسیٰ صاحب الہ آبادی خلیفہ اجل تھانوی صاحب، اور انیس احمد مظاہری صاحب لکھتے ہیں۔ ’’ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا اپنے مردوں کو اچھے کپڑوں میں کفن دیا کرو بے شک اس پر وہ فخر کرتے ہیں اور اپنی قبروں میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں‘‘۔ )قبر کی زندگی، ۶۲۳، ۷۲۳۔ نورالصدور، ص۱۰۰۔ اصلاح مفاہیم مترجم، ص ۳۰۳( ’’اصلاح مفاہیم‘‘ پر محمد مالک کاندھلوی صاحب، حامد میاں ، محمد عبداللہ مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور، عبدالرحمٰن جامعہ اشرفیہ، محمد بن یوسف بنوری، عزیز الرّحمٰن ہزاروی صاحب، عبدالقادر آزاد، سیدنفیس الحسینی صاحب ، عبدالقادر رائے پوری، جیسے اکابر دیوبند کے تقاریظ موجود ہیں۔ · نور محمد تونسوی صاحب لکھتے ہیں۔ ’’ حضرت قیس ابن قبیضہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص بغیر وصیت کے مر گیا اس کو موتیٰ کے ساتھ کلام کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی۔آپ سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ کیا موتیٰ کلام کرتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ہاں ایک دوسرے کی زیارت بھی کرتے ہیں‘‘۔ )قبر کی زندگی، ص ۴۳۳(’’ محمد بن منکدر روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس گیا جب کہ ان کا آخری وقت تھا یعنی وہ دنیا سے کوچ فرمانے والے تھے ۔ میں نے کہا کہ میری طرف سے حضور اکرم ﷺ کو سلام دینا۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم برزخ و قبر میں مردے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اور ان کی دعا سلام بھی ہوتی ہے ‘‘۔ )قبر کی زندگی ، ص۳۰۸ ( · انورشاہ صاحب کشمیری کی تحقیقاتجمع کرتے ہوئے ان کے داماد لکھتے ہیں۔ ’’ منکرین توسل و طلب شفاعت جو مقبورین کو معطل و محبوس یا ان کی حیات کو بے حیثیت سمجھتے ہیں، ان کے لئے حضرت شاہ عبدالعزیز کا مندرجہ ذیل ارشاد لائق مطالعہ ہے ، آپ نے فرمایا کہ مقبور صالح کی قبر کو تنگ قید کی طرح نہ سمجھنا چاہئے ،کیونکہ اس کیلئے وہاں فرش و لباس اور رزق سب اسباب راحت میسر ہوتے ہیں، وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جا کر سیر بھی کرتا ہے اور اپنے پیشتر والے عزیزوں سے ملاقاتیں بھی کرتا ہے ۔اور وہ اس کو کبھی بطور ضیافت اور کبھی تفریح و مونست و تہنیت وغیرہ کیلئے اپنے مکانوں پر بھی لے جاتے ہیں۔اس طرح ہر روز وہاں اس کی دل بستگی کا سامان مہیا کرتے ہیں تاکہ اس دار فانی کی یاد اس کے دل سے بھلا دیں‘‘۔)انوار الباری ۱۸، ج ،ص۲۵۰( عالم برزخ میں شہداء کے پاس حوروں کی تشریف آوری کا ذکرتو احادیث کی کتابوں سے ثابت ہے ۔ آیئے علماء دیوبند کے کتابوں سے اس کے حوالے پڑھتے ہیں۔ v تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں۔ ’’ اسود راعی جہاد خیبر میں شریک ہوئے ، جنگ کے بعد جب شہداء آنحضرت ﷺ کے سامنے لائے گئے تو ان میں اسود راعی کی لاش بھی تھی ، آنحضرت ﷺ نے انہیں دیکھ کر تھوڑی دیر کیلئے منہ پھیر لیا ، صحابہ کرام نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ یہ اس وقت جنّت کی دو حوروں کے ساتھ ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کے چہرے کو حسین بنا دیا ہے ، اور جسم کو خوشبو سے مہکا دیا ہے ۔ ‘‘ )جہانِ دیدہ ص۱۷۵( v نور محمد تونسوی صاحب دیوبندی لکھتے ہیں۔ ’’ حضور اکرم ﷺ بچشم خود دیکھ رہے ہیں کہ شہید کے پاس جنت کی دو حوریں بیٹھی ہوئی ہیں اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ شہید کے اندر کسی قسم کی حیات نہیں ہے اور نہ ہی علم و شعور ہے اور نہ ہی کسی قسم کا ادراک و فہم ہے تو ایسے شخص کے پاس سپیشل دو حوریں بھیج دینے کا کیا فائدہ دلہا کو علم و خبر ہی نہیں اور دلہنیں اس کے پاس بیٹھی ہیں پس ثابت ہوا کہ شہید کے ساتھ جو حسن سلوک ہوتا ہے اور اس کی جو تعظیم و تکریم ہوتی ہے وہ اس سے باخبر ہوتا ہے ۔ان چیزوں کا اس کو پورا پورا ادراک و شعور ہوتا ہے ۔ ‘‘ )قبر کی زندگی ، ۳۰۰( نور محمد صاحب نے تو یہاں شہید کیلئے دولہا اور حوروں کیلئے دلہن کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ کیا زرولی خان صاحب دولہے اور دلہن کے رشتے اور تعلق کی تشریح کرسیکں گے ؟ v یہی نہیں بلکہ بجنوری صاحب نے شب باشی کے خاص مکان کا بھی ذکر ان الفاظ میں کیا ہے ۔ ’’ پھر اہل نجات کیلئے وہاں چار قسم کے مکانات ہوتے ہیں۔ ایک تو اپنے رہنے اور شب باشی کا خاص مکان دوسرا اپنے وابستگان و عقیدت مندوں سے ملاقات کا درباری دیوان ،تیسرے سیر و تماشا و تفریح کے مقامات جیسے آب زمزم مساجد متبرکہ اور دوسری دنیا و عالم برزخ کی نزہت گاہیں۔ چوتھے دوستوں اور ہمسایوں سے ملاقات کرنے کے دیوان خانے اور لان وغیرہ ۔اور جب تک کسی کیلئے اس کی بود و باش کا مکان مہیا نہیں کرادیا جاتا ، اس کو دنیا سے نہیں لے جاتے ، یعنی یہ سب مکانات اس کی آکری عمر میں تیار کرائے جاتے ہیں ،اس پوری تفصیل کے بعد یہ خیال صحیح نہ ہو گا کہ یہ سب مکانات اس تنگ قبر کے اندر ہیں ۔ بلکہ یہ تو ان مکانات کیلئے داخل ہونے کا دروازہ ہے ۔ جبکہ بعض ان مکانوں میں سے آسمان و زمین کی درمیانی فضا میں ہیں، بعض آسمان دوم و سوم میں ہیں، اور شہید وں کیلئے عرش کے ساتھ لٹکے ہوئے بڑے پر نور قندیلوں میں ہیں‘‘۔)انوار الباری ۱۸، ج ،ص۲۵۰( v بجنوری صاحب نے یہ بھی لکھاہے کہ وہاں قوم کے بزرگ یہاں سے گئے ہوئے کنواروں کے رشتے بھی کرواتے ہیں جیسا کہ لکھتے ہیں۔ ’’لوگ وہاں عالم برزخ میں ذکر وتلاوت ، نماز و زیارت مکانات متبرکہ میں مشغول رہتے ہیں، اور قوم کے بزرگ یہاں سے گئے ہوئے کنوارے بچوں کی نسبتیں اور رشتے طے کرتے ہیں تا کہ یوم آخرت میں ان کی شادیاں کی جائیںوہاں (عالم برزخ میں) بجز لذت جماعت کے سارے لذتیں موجود ہیں اور سوائے روزہ کے سب قسم کی عبادتیں ہیں،وہ لوگ اوقات متبرکہ کی مانند شب قدر شب جمعہ میں آکر اپنے دنیا ئے خاص عزیزوں کے ساتھ وقت بھی گزارتے ہیں۔اور ان کو زندہ عزیزوں کے احوال بھی فرشتوں کے ذریعہ معلوم ہوتے رہتے ہیں؛ وغیرہ ’’فتاویٰ عزیزی ص۱۱۰ ‘‘۔)انوار الباری ۱۸، ج ،ص۲۵۰( v اس کے بعد صاحب انوارالباری کا تبصرہ بھی سنئے ۔ ’’ غور کیا جائے کہ جب یہ سہولتیں اور راحتیںعالم برزخ میں عام مؤمنوں کیلئے ہیں،تو اولیاء و انبیاء کے واسطے پھر خاص طور پر سرور انبیاء اول الخلق و افضل الخلق ﷺ کیلئے کیا کچھ نہ ہوں گی ‘‘۔)انوار الباری ۱۸، ج ،ص۲۵۰( خواہ مخواہ اپنی رائے سے الفاظ کے معنی بدل کر بے ادبی والے الفاظ خود جوڑ کر اپنے تنگ نظرئے اور تنقیدانہ سوچ سے کسی پر الزام لگانا کسی مفتری کام تو ہو سکتا ہے مفتی کا ہر گز نہیں ۔ تنقید برائے اصلاح اچھی کاوش ہے مگر تنقید اگر بے علمی یا کم فہمی میں ہو تو یہ اپنے عقل اور نفس کی تابعداری ہے ۔ اور اپنے عقل اور نفس کی خواہش کی تکمیل کیلئے اپنے خیالات کو کسی کے اوپر لاگوکرنا اور حقیقت سے منہ چرانا یقینا تحریف ہے ۔ اور اسی بے بنیاد تنقید کی ذدّ میں اپنے اکابر کو ہی چوراہے میں کھڑا کرنا ہے ۔ جیسا کہ اوپر انوار الباری کے حوالے میں گزرچکا ہے ۔یعنی انور شاہ صاحب کشمیری کی تحقیق کہ ’’ پھر اہل نجات کیلئے وہاں چار قسم کے مکان ہوتے ہیں ،ایک تو اپنے رہنے اور شب باشی کا خاص مکان‘‘ اگر شب باشی کا مطلب و معنی جیسا کہ خالد محمود صاحب اور مفتی زرولی صاحب نے جماع مراد لیا ہے کے ہی کے معنی لی جائیں تو کیا قبر میں جماع کیلئے خاص مکان ہوتا ہے ؟ اس کا جواب ضروور دیں تاکہ وہ اشکال اور الجھن ہی ختم ہو جائے جسے مفتی صاحب تہمت سے تعبیر کرتے ہیں۔یقینا مفتی صاحب یہی جواب دیں گے کہ شاہ صاحب کی تحقیق بزبان بجنوری صاحب یہی ہے کہ وہاں عالم برزخ میں بجز جماع کے ساری لذتیں موجود ہوتے ہیں۔ تو شب باشی کا مطلب جماع نہیں ہے کیونکہ شاہ صاحب کے تحقیق کے مطابق تو یہ لذت وہا ں میسر ہی نہیں۔تو جب شب باشی کا مکان قابل اعتراض نہیں تو پھر ملفوظات میں علامہ زرقانی کے قول پر کیوں اعتراض؟ حالانکہ امام مجدّد اعلی حضرت قدس سرہ نے امام زرقانی کا قول پیش کیا ہے اور شب باشی کے الفاظ استعمال کرئے ہیں جس کا معنی و مفہوم لغت کی کتابوں سے واضح ہے کہ رات گزارنا۔ یعنی اعلیٰ حضرت کے نزدیک حضور ﷺ کی پاک بیبیاں اور ہماری مائیں حضور ﷺ سے ملاقات فرماتے ہیں اور ساتھ رات گزارتے ہیں۔ جیسا کہ اکابر دیوبند کے کتب سے ثابت ہوا کہ عام مؤمنین کو بھی یہ سہولت میّسر ہے کہ وہ آپس میں ملاقات کرتے ہیں۔ اور شہداء کے پاس حوروں کا آنا ثابت ہے ۔اب اگرزرولی خان صاحب اس کو جماع سے تعبیر کرے تو بھی زرولی خان صاحب کا پاک بیبیوں پر تہمت کا گمان غلط ہے ۔ حالانکہ امہات المؤمنین ہماری مائیں ہیں جو اب بھی انبیاء کرام کی ازواج مطہرات ہیں اورانبیاء کرام کی نکاح میں ہیں۔ قبر مبارک میں ساتھ ہونا ، جنت میں ساتھ ہونا، اسی طرح ہی ہیں جس طرح اس دنیا میں ساتھ تھے ۔ کیا اس دنیا میں ساتھ رہنا ان کے لئے معیوب اور تہمت والی بات تھی؟ فقیر فاروقی نے ساتھ رہنے والے الفاظ اس لئے استعمال کئے ہیں کہ ’’شب باشی‘‘ کے معنی رات گزارنے کے ہیں۔ جب اس دنیا میں ساتھ رہنا کوئی معیوب اور تہمت والی بات نہیں اور جنت میں بھی ساتھ رہنا کوئی معیوب اور تہمت والی بات نہیں تو مرقد انور مبارک میں ملاقات اور ساتھ رہنا کیسے معیوب اور تہمت والی بات ہو گئی؟۔کیا قبور انبیاء روضۃ من ریاض الجنۃ نہیں ہیں؟یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ شب باشی کے الفاظ سے ہٹ کر اگراکابرِ دیوبند کے تصانیف سے تحقیق کی جائے کہ آیا قبر میں انبیاء علیہم السلام کو لذّت جماع میّسر ہییا نہیں تو اس میں اختلاف ضرور ہے ۔بعض علماء جواز کے قائل ہیں اور بعض علماء نے اختلاف کیا ہے ۔جن علماء نے اختلاف کیا ہے وہ اختلاف اس وجہ سے نہیں کہ یہ تہمت کا باعث ہے ۔ بلکہ اسے دنیا کی حد تک لذّت مانا ہے ۔اور دونوں طرف کے علماء نے اپنے اپنے دلائل دیئے ہیں۔آئیے علماء دیوبند کے تصدیق شدہ تصنیف سے اس کے جواز اور اختلاف کو نقل کرتے ہیں۔ ’’انبیاء کے نکاح کے سلسلے میں جو اختلاف ہے وہ اس بنیاد پر ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفات کے بعد انبیاء نکاح ہم بستری نہیں کرتے ۔ یعنی اس ارشاد کی جو حکمت بیان کی گئی ہے اس سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ انبیاء اس لذت سے لطف اندوز نہیں ہوتے ۔ وہ ارشاد یہ ہے کہ آپ نے فرمایا۔’’ تمہاری دنیا میں سے مجھے جو چیزیں محبوب اور پسندیدہ ہیں وہ عورتیں اور خوشبو ہیں‘‘ اس ارشاد میں آپ نے نہ تو یہ فرمایا کہ اپنی دنیا میں سے اور نہ یہ فرمایا کہ اس دنیا میں سے ۔کیونکہ آپ نے اس لفظ تمہاری سے یہ ارشاد فرمایا کہ عورتیں اور خوشبو لوگوں کی دنیا میں سے ہیں کیونکہ وہ ان دونوں چیزوں کو اپنے لطف و عیش اور سر مستی کیلئے حاصل کرتے ہیں ۔جبکہ رسول اللہ ﷺ لطف و عیش کی تمنا سے پاک اور بری ہیں۔آپ عورتوں کو اس لئے پسند فرماتے تھے کہ وہ ہر وقت کی شرک حیات ہونے کی وجہ سے آپ کی خوبیوں آپ کے باطنی معجزات اور پوشیدہ احکام کو امت تک پہنچا سکیں۔ کیونکہ عام حالات میں ان صفات اور خوبیوں سے بیویوں کے علاوہ دوسرے لوگ واقف نہیں ہو سکتے تھے ۔ اسی طرح بیویوں کے ذریعے دوسرے دینی فائدے بھی لوگوں کو حاصل ہوتے تھے ۔اور خوشبو اس لئے پسند یدہ تھی کہ آپ فرشتوں سے ملاقات فرماتے تھے اور فرشتے خوشبو کو پسند کرتے ہیں اور بد بو سے نفرت کرتے ہیں‘‘۔ )سیرت حلبیہ اردو، جلد ۴ ،ص۴۰( یہی وہ وجہ اختلاف ہے جس کی وجہ سے بعض علماء نے اس لذّت کے میّسر ہونے پر اختلاف کیا ہے ۔ اس کا جواب جواز کے علماء نے یوں دیا ہے ۔ ’’ اب وہ علماء کہتے ہیں کہ حقیقی اکرام اور اعزاز کا تقاضا یہی ہے کہ آپ کو برزخ میں وہی لذتیں اور خوشیاں حاصل ہوں جو دنیا میں حاصل تھیں تاکہ برزخ میں بھی آپ کے حالات وہی رہیں جو دنیا میں تھیں‘‘۔ )سیرت حلبیہ اردو ،جلد ۴ ،ص۴۰( اختلاف رکھنے والوں کا ردّ کرتے ہوئے جواز کے علماء نے یہ جواب دیا ہے ۔ ’’ ادھر ایک اشکال یہ ہے کہ یہ حکمت آپ کے اس قول کے مطابق نہیں رہتی جس میں ہے کہ مجھے چار چیزوں میں لوگوں پر فوقیت حاصل ہے ۔ ان چار چیزوں میں آپ نے کثرت جماع کا بھی ذکر فرمایا ہے ‘‘۔)سیرت حلبیہ اردو، جلد ۴ ،ص۴۰( · امام شیخ رملی کا فتویٰ کہ اس میں اختلاف ہے کہ لذّت جماع میّسر ہے یا نہیں یعنی بعض جواز کے قائل ہیں اور بعض جواز کے قائل نہیں۔ آیئے علماء دیوبند کے مستند سیرت سے دیوبندی عالم کا ترجمہ ملاحظہ کرتے ہیں۔ ’’ پھر میں نے اس سلسلے میں شیخ شمس رملی کا فتویٰ دیکھا کہ انبیاء علیہم السلام اور شہدا ء اپنی قبروں میں کھاتے پیتے ہیں نمازیں پڑھتے ہیں ۔روزے رکھتے ہیں اور حج کرتے ہیں۔البتہ اس بارہ میں اختلاف ہے آیا یہ حضرات نکاح یعنی ہم بستری بھی کرتے ہیں یا نہیں ۔ اس بارے میں ایک قول یہ ہے کہ کرتے ہیں۔اور ایک قول یہ ہے کہ نہیں کرتے ۔ نیز یہ کہ ان حضرات کو ان کے نماز، روزے اور حج کا ثواب اور جزاء بھی ملتی ہے ۔اگر چہ وہ اب ان فرائض کے مکلف نہیں ہیں۔ یعنی ان پراس کی پابندی اور ضرورت نہیں ہے ۔کیونکہ موت نے ان پر سے یہ پابندی ختم کردی ہے ۔لیکن ان کی ان عبادتوں کا ثواب ان کے اعزاز اوردرجات کی بلندی کیلئے ملتا ہے ۔یہاں تک شیخ رملی کا فتویٰ ہے ۔‘‘ )سیرت حلبیہ اردو، جلد ۴ ،ص۳۹( جو لذّت جماع کے قائل نہیں وہ ظاہری معنی میں تاویل کرتے ہیں اور ظاہری معنی کو چھوڑ کر ایک دوسرے اور دراز کارمعنی پیدا کر رہے ہیں اس کا اظہار علماء دیوبند کے مستند سیرت نگار ان الفاظ میں کر رہا ہے۔ · آئیے قاری طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبندکے زیرِ نگرانی ہونے والا ترجمہ پڑھتے ہیں۔ ’’ حق تعالیٰ نے شہیدوں کے متعلق بتلایا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور کھاتے پیتے ہیں۔ علماء نے اس بات کو حقیقت پر محمول کرتے ہوئے یعنی اسی زندگی کو حقیقی زندگی تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حقیقت میں کھاتے پیتے ہیں اور نکاح کرتے ہیں اور جو شخص اس کے خلاف معنی لیتاہے ۔ یعنی کہتا ہے کہ کھانے پینے اور نکاح سے حقیقت میں کھانا پینا اور ہم بستری کرنا مراد نہیں بلکہ اس وہ لذت مراد ہے جو کھانے پینے اور ہم بستری کرنے سے حاصل ہوتی ہے تو وہ شخص بلا وجہ آیت کے ظاہری معنی کو چھوڑ کر ایک دوسرے اور دور از کار معنی پیدا کر رہا ہے ۔ جبکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔)سیرت حلبیہ اردو، جلد ۴ ،ص۳۹( · اس عبارت میں لذّت جماع کی تصریح موجود ہے ۔چنانچہ سرفراز صفدر صاحب بھی تمام لذّتوں کے جواز کے قائل ہیں چنانچہ لکھتے ہیں۔ ’’ آپ ﷺ تمام لذتوں اور عبادتوں سے متمتع ہیں ‘‘ )تسکین الصدور ، ۸۴۲( ان تمام لذتوں سے کون کون سی لذتیں مراد ہیں ؟ صفدر صاحب اس کی تشریح کرسکیں گے ؟کیونکہ یہاں لفظ ’’تمام‘‘ کا استعمال ہوا ہے ۔ صفدر صاحب کے پاس کسی لذّت کی انکار کی گنجائش نہیں کیونکہ کسی ایک لذّت کے انکار سے اپنے ہی عبارت میں ترمیم کرنی پڑے گی اور لفظ ’’تمام ‘‘ کو ہٹانا پڑے گا۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ محض خیال و سوچ میں لذّت نہیں ہوگی بلکہ حقیقی لذت دنیا نصیب ہوگی ۔شہداء کو عالم برزخ میںلذّت جماع میّسر ہوتی ہے ۔ چنانچہ محمد اسلم قاسمی صاحب سیرت حلبیہ کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’ واضح رہے کہ شہداء کو رزق پہنچائے جانے یعنی انکے کھانے پینے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہم بستری بھی کرتے ہیں کیونکہ ہم بستری سے بھی لذت حاصل ہوتی ہے جیسے کھانے اور پینے سے لذت ملتی ہے ‘‘۔)سیرت حلبیہ اردو ،جلد ۴ ،ص ۹۳( یہ حوالے خالد محمود مانچسٹروی اور مفتی زرولی صاحب اور دوسرے ان حضرات کیلئے لمحہ فکریہ ہے جو اعلیٰ حضرت امام مجدد قدس سرہ کے ملفوظ پر تہمت کا الزام لگا رہے ہیں۔یہ حضرات یا تو سلف و صالحین اور اپنے اکابرکے کتب سے ناواقف ہیں یا عداوت میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ سلف و صالحین و علماء اہلسنت حتیٰ کہ اپنے اکابر کے بھی باغی ہو گئے ہیں۔سیرت حلبیہ کا ترجمہ بانی دارلعلوم دیوبند قاسم نانوتوی صاحب کے پوتے قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند کی زیر سرپرستی میں قاری طیب صاحب کے صاحبزادے محمد اسلم قاسمی فاضل دیوبند نے ہی کیا ہے ۔جس عبارت پر مفتی زرولی صاحب تہمت کا الزام لگا کر امام مجدد اعلیٰ حضرت قدس سرہ کو قصور وار ٹہرا رہے ہیں۔ ملفوظِ اعلیٰ حضرت کے عبارت میں تو صرف شب باشی کے الفاظ ہیں جن کا مطلب و معنی ہیںہم بستری کے ہے ہی نہیں ۔علماء دیوبند اور لغت کی کتابوں سے واضح کردیا گیاہے ۔ مگر قاری طیب صاحب کے صاحبزادے نے تو صریحاََہم بستری کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ اس پر زرولی خان صاحب کیوں خاموش ہیں اور قاری طیب صاحب کو کیوں کٹہرے میں نہیں لاتے جوان عبارات کی سرپرستی فرمارہے ہیں۔??? وہ لوگ جو اس شب باشی کو غلط رنگ دیکر لوگوں میں افتراق و انتشار پیدا کرنے کی مذموم سعی میں لگے رہتے ہیں ان کو پہلے اپنے گھروں کی خبر لینی چاہئے کہ ان کے اپنے علماء نے یہی لفظ کہاں کہاں استعمال کئے ہیں ۔ v سب سے پہلے غیر مقلدقاضی اسلم سیف فیروز پوری کی ایک تحریر جس میں اس نے ’’پاکستان میں عرب شیوخ کی تشریف آوری ‘‘ کو اپنا موضوع سخن بناتے ہوئے ان کی مختلف مقامات پر مختلف غیر مقلدین سے ملاقاتوں کا تذکرہ کیا ہے ،اس میں وہ لکھتا ہے کہ : ’’نماز عشاء کے بعد عرب شیوخ کا یہ وفد مولانا ثناء اللہ اور مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی کی قیادت میں منصورہ میں میاں طفیل محمد ،امیر جماعت اسلامی پاکستان کے پاس پہنچا اور میاں صاحب سے ان کے دفتر میں ایک لمبی نشت میں خوب تبادلۂ خیالات ہوا ،مختلف مسائل پر شرح و بسط سے میاں صاحب سے گفتگو ہوئی ترجمانی کے فرائض جناب فیض الرحمن صاحب سر انجام دے رہے تھے تقریبا ساڑھے گیارہ بجے وہاں سے فارغ ہو کر وفد ماڈل ٹاؤن پہنچا ۔عرب شیوخ کی شب باشی کا انتظام ۔۱۱۱۔ملتان روڈ پر کیا گیا تھا۔ ( ہفت روزہ الاسلام لاہور ،۲۳ربیع الاول ۱۴۰۴ھ ) اگر شب باشی کا ایک ہی معنی ہے جو وہ مصنفین و واعظین مراد لیکر واویلا کرتے ہیں تو انہیں پہلے اپنے بزرگوں سے سوال کرنا چاہئے تھا کہ ہم تو اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ پر اس کی وجہ سے اعتراض کر رہے ہیں ،آپ بتائیں کہ آپ نے ان نجدی عرب شیوخ کی شب باشی کے لئے کیا کچھ انتظام کیا تھا؟۔ اوریہ بھی سوال کریں کہ ان کے نظریئے کے مطابق جو شب باشی کا معنی وہ مراد لے رہے ہیں اس کا انتظام کرنے والے ہمارے علاقائی پیشے کے مطابق کیا بنتے ہیں ؟ v اسی طرح غیر مقلد فیض عالم صدیقی نے اپنی کتاب ’’صدیقۂ کائنات ‘‘ میں دو مقامات پر یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے لکھاہے کہ : ’’آپ (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) اس خیال سے قافلہ کی شب باشی کے مقام پر بیٹھ جاتی ہیں کہ مجھے کوئی تلاش کرنے کیلئے ضرور آئے گا ‘‘۔ (صدیقہ کائنات ،ص۱۱۷) دوسرے مقام پر لکھا ہے کہ : ’’ سب سے پہلے قابل ِتوجہ بات یہ ہے کہ ازواجِ مطہرا تl کے حجرات ساتھ ساتھ تھے اور پھر مسجد نبوی سے فارغ ہو کر نبی d کا اکثر یہ معمول تھا کہ چند لمحات کیلئے ہر زوجہ مطہرہl کے ہاں تشریف لے جاتے ۔اور جہاں آپ a کی شب باشی کی باری ہوتی وہاں کچھ وقت کیلئے سب جمع ہو جاتیں ۔ ( صدیقہ کائنات ،ص ۱۵۰) v اسماعیل سلفی نے خود اپنے ’’فتاوی ‘‘میں یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : ’’چنانچہ رات کے دھندلکے میں اسعد بن زرارہ تشریف لائے انہوں نے اپنا منہ لپیٹا ہوا تھا حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا:’’ تم رات کو آئے ہو حالانکہ اپنے ہمسایہ قبیلہ کیساتھ تمہارے تعلقات کافی ناخوشگوار ہیں‘‘ ۔اسعد نیعرض کیا کہ:’’حضرت جناب کی آمد کی خبر پا کر صورت حال کچھ بھی ہو مجھے خدمت گرامی میں پہنچنا تھا ۔چنانچہ حضرت اسعد بن زرارہh وہیں شب باش ہوئے اور صبح واپس چلے گئے ۔( فتاوی سلفیہ ص۹۴ ) از رشحات قلم ابوالھمام محمد اشتیاق فاروقی مجدّدی غوث بغیر زمین و آسمان کا تحقیق جائزہ انجینئر محمد علی مرزا صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں۔ علماء کا نظریہ:عرض:غوث ہر زمانہ میں ہوتا ہے ۔ ارشاد:بغیر غوث کے زمین وآسمان قائم نہیں رہ سکتے۔ ( بریلوی : مولانا احمد رضا خان صاحب ملفوظات صفحہ۱۰۶ بک کارنر جہلم( وحی کا فیصلہ:إنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولَا وَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا. ترجمہ آیت مبارکہ: بے شک اللہ ہی نے آسمانوں اور زمین کو تھام رکھا ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ٹل نہ جائیں۔ اور اگر وہ ٹل جائیں تو پھر اللہ کےسواء کوئی بھی ایسا نہیں کہ ان کو تھام سکے۔ بے وہ برداشت کرنے والا معاف کرنے والا ہے۔[سورۃالفاطر،آیت نمبر 41] الجواب بعون الوھاب: عرض یہ ہے کہ ہم اس آیت کو دل و جان سے قبول کرتے اور مانتے ہیں۔اور اس کے مضمون میں کسی کو ،رتی بھر شک نہیں۔مگر اختلاف یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اس دنیا اور آسمان کا نظم و ضبط کسی سبب کے تحت کیا ہے یا بغیر سبب کے؟اور کیا یہ آیت عام ہے یا اس میں کسی ذات اور شخصیت کی تخصیص بھی ہے کہ نہیں؟ اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا . یعنی قسم ان فرشتوں کی کہ تمام کاروباردنیا ان کی تدبیر سے ہے۔[سورۃ النزعات،آیت:۵] اس آیت کے تحت مفسر صاحب کتاب معالم التنزیل لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ یہ مدابرات الامر ملاءکہ ہیں کہ ان کاموںپر مقرر ہیں جن کی کاروائی انہیں اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے۔[معالم التنزیل ج۴ ص ۴۴۲] مزید یہ کہ اگر اس دنیا اور عالم میں ہر کابغیر سبب ہو رہا ہے تو قرآن اور سنت ایسے تمام عقائدکا رد کرتا ہے۔ خود آقاﷺ کی قدرت کاملہ کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری ؓ فرماتے ہیں۔ ان النبیﷺ امر الشمس فتاخرت ساعۃ النھار ۔یعنی سید عالمﷺ نے سورج کو حکم دیا کہ کچھ دیر نہ چلےتو سورج یکدم ٹھر گیا۔ [معجم الاوسط ج۴ ص ۴۰۲ ،علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد ۸ ص ۲۹۷ پر اس حدیث کی سند کو حسن کہا ہے۔] یہ یار رہے کہ یہ واقعہ حضرت علیؓ کے لیے سورج کے لوٹنے کے علاوہ اور جدا ہے۔ اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہکے ارشاد کا مطلب واضح ہے کہ قیامت تک غوث (اولیاء کاملین کا ایک منصب) رہیں گے ۔ انہیں کے وجود مسعود کی برکت سے زمین و آسمان قائم ہیں ۔ بوقت قیامت ان کا وصال ہو جائے گا ۔ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان تو عین حدیث سے ثابت ہے۔اگر اعتراض کرنا ہے تو پھر محدثین پر کریں جنھوں نے ایسی روایات نقل کیں۔حیرت کی بات ہے کہ احادیث محدثین نقل کریں اور اعتراض اعلیٰ حضرت پر کیا جائے؟ دراصل مرزا صاحب جیسے لوگ محدثین پر اعتراض کرنے کی ہمت تو نہیں رکھتے مگر اپنے جھوٹے مسلک کو ثابت کرنے کے لیے امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی پر اعتراض کے سواء ان کے پلے کچھ بھی نہیں۔مرزا صاحب اگر ہمت ہے تو درج ذیل احادیث ملاحظہ کریں اور پھر محدثین پر بھی اعتراض کرکے اپنے دعویٰ کو ثابت کریں۔ · حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، حَدَّثَنِي شُرَيْحٌ يَعْنِي ابْنَ عُبَيْدٍ، قَالَ: ذُكِرَ أَهْلُ الشَّامِ عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَهُوَ بِالْعِرَاقِ، فَقَالُوا: الْعَنْهُمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ. قَالَ: لَا، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الْأَبْدَالُ يَكُونُونَ بِالشَّامِ، وَهُمْ أَرْبَعُونَ رَجُلًا، كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللهُ مَكَانَهُ رَجُلًا، يُسْقَى بِهِمُ الْغَيْثُ، وَيُنْتَصَرُ بِهِمْ عَلَى الْأَعْدَاءِ، وَيُصْرَفُ عَنْ أَهْلِ الشَّامِ بِهِمِ الْعَذَابُ ۔ (مسند امام احمد ج۱ ص ۱۱۲ رقم:۸۹۶، مجمع الزوائد ج ۱۰ ص۶۲،الضیاء المختارہ ج۲ ص۱۱۰ رقم:۴۸۴) ترجمہ :نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ابدال شام میں ہیں اور وہ چالیس ہیں جب ایک مرتا ہے اللہ تعالٰی اس کے بدلے دوسرا قائم کرتاہے ۔انہی کے سبب مینہ دیا جاتاہے ، انہیں سے دشمنوں پر مدد ملتی ہے ، انہیں کے باعث شام والوں سے عذاب پھیرا جاتاہے ۔ اسکا ایک قوی متابع خود الضیاء المختارہ رقم: ۴۸۶ پر بھی موجود ہے۔ · أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْمُؤَيَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقْرِي الطُّوسِيُّ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَنَحْنُ نَسْمَعُ بنيسابور أَن أَبَا الْفتُوح عبد الْوَهَّاب بْنَ شَاهِ بْنِ أَحْمَدَ الشَّاذيَاخِيَّ أَخْبَرَهُمْ قِرَاءَةً عَلَيْهِ أَنَا الشَّيْخُ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُكْرَمٍ أَنَا السَّيِّدُ أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ دَاوُدَ أَنَا أَبُو حَامِدِ بْنُ الشَّرْقِيِّ ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الذُّهْلِيُّ ثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ عبد الله بْنِ صَفْوَانَ أَنَّ عَلِيًّا قَامَ بِصِفِّينَ وَأَهْلُ الْعِرَاقِ يَسُبُّونَ أَهْلَ الشَّامِ فَقَالَ يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ لَا تَسُبُّوا أَهْلَ الشَّامِ جَمًّا غَفِيرًا فَإِنَّ فِيهِمْ رِجَالا كَارِهِينَ لِمَا تَرَوْنَ وَإِنَّهُ بِالشَّام يكون الأبدال ۔(إِسْنَاده صَحِيح( · حدیث: فرماتے ہیں: صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :الابدال فی امتی ثلٰثون بھم تقوم الارض وبھم تمطرون وبہم تنصرون۔ ۔ ابدال میری امت میں تیس ہیں انہیں سے زمین قائم ہے انہیں کے سبب تم پر مینہ اترتا ہے ۔ انہیں کے باعث تمہیں مدد ملتی ہے ۔ [مجمع الزوائد ، باب ماجاء فی الابدال الخ دارالکتب بیروت ۱۰ /۶۳،الجامع الصغیر بحوالہ الطبرانی عن عبادۃ بن الصامت حدیث ۳۰۳۳دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۸۲, امام مناوی نے فیض القدیر"1/168" پر اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔] · حدیث :[حدثنا سليمان بن أحمد ، ثنا أحمد بن داود المكي ، ثنا ثابت بن عياش الأحدب ، ثنا أبو رجاء الكليبي ، ثنا الأعمش ، عن زيد بن وهب ، عن ابن مسعود ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « لا يزال أربعون رجلا من أمتي قلوبهم على قلب إبراهيم ، يدفع الله بهم عن أهل الأرض ، يقال لهم الأبدال۔ [معرفتہ ا لصحابہ لابی نعیم الاصبہانی ،رقم الحدیث:۱۷۳المعجم الكبير ج ۱۰ ص۱۸۱ رقم الحدیث:۱۰۳۹۰مكتبة ابن تيمية - القاهرة،حلیۃ الاولیاء ترجمہ زید بن وہب ۲۶۳دارالکتاب العربی بیروت ۴ /[ ،۴۰۱۳ ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:چالیس مرد قیامت تک ہوا کریں گے جن سے اللہ تعالی زمین کی حفاظت لے گا جب ان میں کا ایک انتقال کرے گا اللہ تعالٰی اسکے بدلے دوسرا قائم فرمائیگا ، اوروہ ساری زمین میں ہیں ۔ اس روایت کو بھی محدثین کرام نے حسن قرار دیا ہے۔ان روایات کے علاوہ بہت ساری اسانیدصحیح ہو حسنہ موجود ہیں جس سے ابدال یا اللہ کے ولی کے وجود مسعود کی وجہ سے اللہ تعالیٰ زمیں والوں پر بارش اور رزق کی فراوانی کرتے ہیں۔اگر مرزا صاحب میں دم خم ہے تو اس پر اعتراضات کریں ان شاء اللہ ان کو وہ جواب دیا جائے گا کہ ان کو آیندہ ایسی حرکت سے توبہ کرنی پڑے گی۔کیونکہ ان کا اسماء الرجال کے فن پر تمام تر انحصار غالی غیر مقلد زبیر علی زئی پر ہے۔اور ہمیں ان کے تمام اعتراضات معلوم ہیں۔کیونکہ اس تحریر کی گنجائش نہیں ہے وگرنہ ابدال کی احادیث پر مستقلاً ایک کتاب لکھنی پڑے گی۔لہذا مرزا صاحب راویوں پر اعتراض کرنے سے پہلے تمام اقوال کو دوبارہ سے پڑھ لیں۔مزید یہ کہ ابدال اور اللہ کے نیک لوگوں کے ذریعے رزق اور بارش کی روایات کا مفہوم تو متواتر احادیث سے منقول ہے۔ شاید مرزا صاحب علم حدیث سے نابلد ہیں کیونکہ ابدال کے علاوہ جمع کثیر ایسی روایات کی ہیں جن میں یہ صراحت موجود ہے کہ ضعیف لوگوں کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ کی مدد اور رزق ملتا ہے۔ · حدیث: حضرت سعد بن ابی وقاص نے فرمایاکہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ھل تنصرون و ترزقون الا بضعفاءکم یعنی کیا تمھیں مدد اور رزق اپنے ضعیفوں کے علاوہ کسی اور سے ملتا ہے؟(صحیح بخاری ج۲ ص ۴۰۵ کتاب الجھاد) جناب مرزا صاحب! جب اللہ کی ضعیف مخلوق کی بدولت اوروسیلہ سے اللہ کی مخلوق کو رزق اور مدد ملتی ہے تو پھر تو اللہ کے اولیاء کے توسل اور واسطہ سے کیا کچھ نہیں ملتا ہوگا۔مرزا صاحب جن ہستیوں کے توسل سے کھاتے ہیں انھی کا انکار بھی کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ایسی ناشکری سے بچائے۔ ٭ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ محدث محاملی بغدادی (م ۳۳۰ ھ) کے حالات میں لکھتے ہیں : ’’محمد بن الحسین نے جو اس عہد کے بزرگ شخص ہیں ۔ یہ بیان کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہتا ہے حق تعالیٰ اہل بغداد پر سے بطفیل و ببرکت محاملی رحمۃ اللہ علیہ بلا دفع کرتا ہے ‘‘۔ )بستان المحدثین (اردو)صفحہ نمبر۱۲۲ مطبوعہ کراچی ( ٭ حضرت انس ص کی مرفوع حدیث ہے: لاتقوم الساعۃ حتی لایقال فی الارض اﷲ اﷲ ‘‘۔ (صیح ابن حبان:۶۸۴۹، مستخرج ابی عوانہ:۲۹۴،مسند امام احمد بن حنبل:۱۲۰۴۳،صحیح مسلم:۱۴۸( رسول اکرم ا نے فرمایا کہ نہ قائم ہوگی قیامت حتیٰ کہ زمین میں اللہ اللہ نہ کہا جاوے گا۔ ٭ حضرت ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : ’’ان بقاء العالم ببرکۃ العلماء العاملین والعباد الصالحین وعموم المؤمنین ۔ الخ ‘‘۔ (مرقات شرح مشکوٰۃ صفحہ نمبر۲۳۷ جلد ۱۰ ( اس سے معلوم ہوا کہ عامل علماء و صالح بندوں اور عام مومنوں کی برکت سے جہاں باقی ہے ۔ عرض یہ ہے کہ یہ یاد رہے کہ حدیث میں زمین کے قائم رہنے کی شرط کو اللہ اللہ کہنے سے مشروط کیا ہے اور اللہ اللہ کا ورد ایک نیک شخص یا ولی اللہ ہی کرتا ہے ۔اور جب نیک بندے کے اللہ اللہ کہنے کی وجہ سے زمیں قائم ہے تو پھر ابدال اور اولیاء کے وجود کی وجہ سے زمین اور آسمان کے قائم رہنے کا قول کیسے غلط ہو سکتا ہے۔امید ہے کہ مرزا صاحب اپنی اس جہالت سے رجوع کرکے اللہ تعالیٰ کے دربار میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔ مزید یہ ہے کہ غوث اعظم محبوب سبحانی رحمۃ اللہ علیہ سے جو قول صادر ہے اگر ہمت ہے تو محدثین کرام اور علماء کرام سے اس پر فتویٰ ثابت کریں۔جو بات محدثین کرام کو غیر شرعی نظر نہ آئی آج کل کے ایک لونڈے کو یہ اعتراض نظر آتا ہے۔جناب والا! ابن تیمیہ اور ابن قیم جیسے وہابیوں کے اکابرین میں یہ ہمت نہ ہوسکی کہ غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں کچھ بے ادبی کر سکیں۔خود ابن تیمیہ غوث اعظم کی کتاب کی شرح کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے۔ابن تیمیہ جیسا ولیوں کا مخالف بھی غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہکے سلسلہ سے بیعت ہے۔ · کتاب مستطاب بہجۃ الاسرار شریف میں خود غوث اعظم ؓ روایت فرماتے ہیں: اخبرنا ابو محمد عبدالسلام بن ابی عبداللہ محمد بن عبدالسلام بن ابراہیم بن عبدالسلام البصری الاصل البغدادی المؤلد والداربالقاھرۃ سنۃ احدٰی وسبعین وستمائۃ قال اخبرنا الشیخ ابوالحسن علی بن سلیمان البغدادی الخباز ببغداد سنۃ ثلٰث وثلٰثین وستّمائۃ قال اخبرنا الشیخان الشیخ ابو حفص عمر الکمیماتی ببغداد وسنۃ احدٰی وتسعین وخمسمائۃ قالا کان شیخنا الشیخ عبدالقادر رضی اللہ تعالٰی عنہ یمشی فی الھواء علی رؤوس الاشھاد فی مجلسہ ویقول ماتطلع الشمس حتی تسلم علی وتجئی السنۃ الی وتسلم علی وتخبرنی ما یجری فیھا ویجیء الشھر ویسلم علی ویخبرنی بما یجری فیہ، ویجیئ الاسبوع ویسلم علی ویخبرنی بما یجری فیہ ویجیئ الیوم ویسلم علی ویخبرنی بما یجری فیہ وعزۃ ربی ان السعداء والاشقیاء لیعرضون علی عینی فی اللوح المحفوظ انا غائص فی بحار علم اللہ ومشاھد تہ انا حجۃ اللہ علیکم جمیعکم انا نائب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ووارثہ فی الارض۔ (بہجۃ الاسرار ذکر کلما اخبربہا عن نفسہ الخ دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۵۰) صدقت یا سید ی واللہ فانما انت کلمت عن یقین لاشک فیہ ولاوھم یعتریہ انما تنطق فتنطق وتعطی فتفرق وتؤمر فتفعل والحمدللہ رب العالمین۔ ترجمہ:۔ یعنی امام اجل حضرت ابوالقاسم عمر بن مسعود وبزاراورحضرت ابو حفص عمرکمیماتی رحمہم اللہ تعالٰی فرماتے ہیں ہمارے شیخ حضور سیدنا عبدالقادر رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی مجلس میں برملا زمین سےبلند کرہ ہوا پر مشی فرماتے اور ارشاد کرتے آفتاب طلوع نہیں کرتا یہاں تک کہ مجھ پر سلام کرلے نیا سال جب آتا ہے مجھ پرسلام کرتا اورمجھے خبر دیتاہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے نیا ہفتہ جب آتاہے مجھ پرسلام کرتا اورمجھے خبر دیتا ہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے ، نیا دن جوآتا ہے مجھ پر سلام کرتا ہے اورمجھے خبر دیتاہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے ، مجھے اپنے رب کی عزت کی قسم !کہ تمام سعید وشقی مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں میری آنکھ لوح محفوظ پرلگی ہے یعنی لوح محفوظ میرے پیش نظر ہے ، میں اللہ عزوجل کے علم ومشاہدہ کے دریاؤں میں غوطہ زن ہوں ،میں تم سب پرحجت الہٰی ہوں ، میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نائب اورزمین میں حضور( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )کا وارث ہوں ۔ سچ فرمایا ہے آپ نے اے میرے آقا ، بخدا آپ یقین پر مبنی کلام فرماتے ہیں جس میں کوئی شک اوروہم راہ نہیں پاتا۔ بے شک آپ سے کوئی با ت کہی جاتی ہے تو آپ کہتے ہیں اورآپ کو عطا ہوتاہے توآپ تقسیم فرماتے ہیں ۔ آپ کوامر کیا جاتاہے تو آ پ عمل کرتے ہیں ۔ اورسب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ۔(ت) شکاری جانوروں کی سی آواز کا تحقیق جائزہ انجینئر محمد علی مرزا صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں۔ علماء کا نظریہ: سورۃ الکھف آیت نمبر ۱۱۰ قل انما انا بشرمثلکم،اے محبوب فرمادو کہ میں تم جیسا بشر ہوں۔۔۔۔اس آیت میں کفار سے خطاب ہے چونکہ ہر چیز اپنی غیر جنس سے نفرت کرتی ہے لہذا فرمایا گیا کہ اےکفار تم مجھ سے گھبراو نہیں ،میں تمہاری جنس سے ہوں یعنی بشر ہو ں(جیسا کہ )شکاری جانوروں کی سی آواز نکال کرشکار کرتا ہے اس سے کفار کو اپنی طرف مائل کرنا مقصود ہے۔[بریلوی:مولانا مفتی احمدنعیمی صاحب جاء الحق صفحہ ۱۴۵[ وحی کا نظریہ:انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا۔[سورۃ بنی اسرائیل،آیت نمبر ۴۸،سورۃ الفرقان،آیت نمبر ۹[ ترجمہ:(اے محبوبﷺ)ذرا دیکھو تو یہ(گستاخ)لوگآپﷺ کے متعلق کیسی کیسی مثالیں بیان کرتے ہیں،سو وہ گمراہ ہوگئے پس ہو راستہ ہدایت نہیں پا سکتے۔ الجواب بعون الوہاب: عرض یہ ہے کہ مرزا صاحب نے مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب کی عبارت پر کچھ اعتراض نقل نہیں کیا اور جواب میں قرآن کی ایک آیت نقل کر دی۔اس آیت کو نقل کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کو آقاﷺ کے متعلق مثال بیان کرنے پراعتراض ہے۔ان کو شاید مفتی صاحب کی عبارت سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ مفتی صاحب نے نبی کریمﷺ کو شکاری سے تشبیہ دی۔اس بابت چند معروضات عرض ہیں۔ ۱۔مرزا صاحب نے دجل و فریب سے کام لیتے ہوئے مفتی صاحب کی عبارت میں [] بریکٹ میں جو الفاظ [جیسا کہ] خود اضافۃً لکھے ہیں۔حالانکہ جاء الحق میں [جیسا کہ] الفاظ موجود نہیں ہیں۔قارئین کرام خود جاء الحق کی مذکورہ عبارت دیکھ کر تسلی کر سکتے ہیں۔ ۲۔مرزا جی نے پھر دجل و فریب سے قارئین پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ مفتی صاحب نے نبی کریمﷺ کو شکاری سے تشبیہ دی ہے۔مگر مفتی صاحب کی عبارت میں ایسے تشبیہ کی تو کوئی صراحت تک نہیں ہے۔کیونکہ مفتی صاحب کی جو عبارت مرزا جی نے نقل کی ہے وہ ایک جملہ نہیں بلکہ اس میں متعدد جملے ہیں۔ · اول:س آیت میں کفار سے خطاب ہے چونکہ ہر چیز اپنی غیر جنس سے نفرت کرتی ہے لہذا فرمایا گیا کہ اےکفار تم مجھ سے گھبراو نہیں ،میں تمہاری جنس سے ہوں یعنی بشر ہو ں. · دوم:شکاری جانوروں کی سی آواز نکال کرشکار کرتا ہے۔ · سوم: اس سے کفار کو اپنی طرف مائل کرنا مقصود ہے۔ اب مرزا جی نے ان تین جملوں کے نقل کرتے ہوئے ایک جملہ بنادیا۔اور مفہوم عبارت کچھ کا کچھ کر دیا۔ان جملوں میں کسی مقام پر بھی نبی کریمﷺ کو شکاری سے تشبیہ نہیں دی گئ۔ بالفرض اگر یہ مان لیا جائے کہ مفتی صاحب نے اس عبارت میںشکاری سے تشبیہ دی بھی ہے تو پھر بھی گستاخی کا احتمال نہیں ہے۔کیونکہ اہل علم پر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ مثال میں صرف وجہ تمثیل کا لحاظ ہوتا ہے تمام چیزوں میں اشتراک ہونا لازم نہیں۔مثال کے طور پرجیسے ہم تمام مکاتب فکر کے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے لقب شیر خدا ہے۔اور اگر اب کوئی معترض یہ کہ دے دیکھو حضرت علیؓ کو ایک شیر سے تشبیہ دی اور شیر تو بڑا خون خوار ہوتا ہے ۔اور کمزور جانوروں پر ظلم کرتا ہے۔تو کیا نعوذ باللہ ایسا اعتراض درست ہو سکتا ہے ،ہر گز نہیں۔حالانکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو شیر سے تشبیہ صرف ایک وجہ سے دی جاتی ہے اور وہ ہے بہادری۔اسی طرح مفتی صاحب کی عبارت میں بھی [بالفرض اگر اس اعتراض کو تسلیم کیا جائے] شکاری کی مثال صرف اور صرف مانوس ہونے کی علت کو بیان کرنے کے لیے ہے۔ اور جناب عالی! ذرا آپ اس عبارت سے آگے چند سطروں کے بعد یہ بھی مفتی صاحب کی یہ عبارت پڑھ لیتے کہ وہ کیا فرماتے ہیں۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں: حیوان اور انسان میں صرف ایک درجہ کا فرق ہے مگر بشریت اور شان مصطفویﷺ میں ۲۷درجہ کا فرق ہے۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ہماری بشریت اور محبوبﷺ کی بشریت میں کوئی نسبت نہیں،مولانا [روم]مثنوی میں فرماتے ہیں۔۔۔۔حضورﷺ کی بشریت ہزار ہا جبریلی حیثیت سے اعلیٰ ہے۔[جاء الحق ص ۳۹۵] جناب عالی! مفتی صاحب تو نبی کریم ﷺ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے چہ جائیکہ کہ ان کو ایک شکاری کے برابر ٹھہرایں۔لہذا مرزا جی کا دجل و فریب نہ ان کے کام آسکا ۔اللہ تعالیٰ ایسے فراڈ سے محفوظ فرمائے۔ کشف المحجوب میں نبی کریمﷺ پر حالت سکر کا بیان کا تحقیقی جائزہ انجینئر محمد علی مرزا صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں۔ علماء کا نظریہ:حضرت داودؑ کی ایک نظرجب وہاں پڑی جہاں نہ پڑنی چائیے تھی یعنی اوریا کی بیوی پر، توآپﷺ کو حق تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ کا سامنا کرناپڑا۔۔۔۔ہمارے پیغمبرﷺ کی ایک اس طرح کی نگاہ حضرت زیدؓکی بیوی پر پڑی توحضرت زیدؓ پران کی بیوی حرام ہوگی(انھی کے بعد میں نبی کریمﷺ نے نکاح فرمایا یعنی اُم المومنین سیدہ زینب ؓ)اسلئے کہ حضرت داؤدؑ کی نظر حالت حالت صحو(یعنی حالت ہوش)میں تھی اور ہمارے پیغمبرﷺ کی نظر حالت سکر(یعنی مدہوشی کی حالت) میں تھی۔[کشف المعجوب باب ۱۴ سکر اور صحو کابیان:دیوبندی ترجمہ:مولانا عبدا لروف فاروقی صفحہ۲۹۱ بریلوی ترجمہ: مولان فضل الدین گوھر صفحہ۲۶۷[ وحی کا فیصلہ:وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى * مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى * وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى * إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى۔ ترجمہ آیت مبارکہ:قسم ہے ستارے کی جب وہ اترے۔تمہارے صاحب(محمدﷺ) نہ تو کبھی بہکے ہیں اور نہ ہی کبھی ٹیڑی راہ پر چلے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی خواہش نفس سے کوئی بات کہتے ہیں بلکہ وہ تو نہیں مگر وحی جو(اللہ تعالیٰ کی طرف سے)انھیں کی جاتی ہے۔[سورۃ النجم۔آیت نمبر ۱ تا ۴[ الجواب بعون الوہاب: عرض یہ ہے کہ انجینئر محمد علی مرزا صاحب نے جھوٹ بولنے کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔کیونکہ ان کی اپنے ذاتی کوئی تحقیق نہیں لحاظہ غیر مقلدین کے تمام اعتراضات نقل کر کے اپنے آپ کو محقق سمجھنے لگے ہیں۔ · اول:اس بارے میں عرض یہ ہے کہ مرزا جی نے جو اس عبارے میں حالت صحو کے معنی ہوش اور سکر کے معنیٰ مدہوشی کے کیے ہیں وہ سیاق و سباق سے ہٹ کر اور دجل و فریب سے کیا ہے۔کیونکہ جب حضور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس عبارت میں کسی بھی جگہ حالت صحو اور حالت سکر کے معنی نہیں کیے جبکہ بریکیٹ() میں اس کے دیے ہوئے معنی بالکل غلط ہیںاور مرزا جی کی تحریف اور اضافہ جات ہیں۔ · دوم:حضرت داؤد ؑ کی عبار ت نقل کرنے سے قبل خود حضور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ حالت صحو اور حالت سکر کی تعریف حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے کچھ یوں کرتے ہیں۔ اور جن لوگوں نے سکر کو صحو سے افضل سمجھا ہے ان میں سے حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے متبعین ہیں۔ وہ(حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ) کہتے ہیںکہ صحو،صفیت آدمیت پر تمکین و اعتدال کی صورت پیدا کرتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ سے حجاب اعظم ہے اور سکر،آفت کے زائل ہونے،صفات بشریت میں نقص آنے،بندے کے اختیار و تدبیر کے چلے جانے،معنوی بقا کے ساتھ حق تعالیٰ میں بندے کے تصرفات کے فناء ہونے اور اس کے قوت کے فنا ہونے سے جو بندے میں اس کی جنس کے خلاف ہے ،سے حاصل ہوتی ہےاور یہ حالت صحو سے زیادہ بلیغ،زیادہ تام اور زیادہ کامل ہوتی ہے۔ چناچہ حضرت داؤودﷺ حالت صحو میں تھے تو ان سے ایک فعل صادر ہوا جس حق تعالیٰ نے ان سے منسوب کر دیا اور فرمایا۔ و قتل داؤد جالوت(سورۃ البقرۃ آیت ۲۵۱)اور داؤد نے جالوت کو قتل کیا۔اور مصطفیﷺ حالت سکر میں تھے۔چناچہ ایک فعل آپﷺ سے صادر ہوا تو حق تعالیٰ نے وہ فعل اپنی طرف منسوب فرما لیا۔قولہ تعالیٰ و ما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمیٰ۔(سورہ الانفال ،آیت ۱۷)اور آپﷺ نے کنکریاں نہیں پھینکی جبآپﷺ نے پھینکی لیکن وہ تو اللہ تعالیٰ نے پھینکیں۔پس دیکھئے کہ بندے (نبی کریمﷺ)کا بندے (حضرت داؤدؑ)کے درمیان کتنا فرق ہے۔ایک بندہ (حضرت داؤدؑ)جو اپنے وجود میں قائم تھا اور اپنی صفات سے ثابت اس کے متعلق ارشاد ہوا کہ تم نے قتل کیا یہ اس کی کرامت کا اظہار تھا۔اور ایک وہ بندہ(نبی کریمﷺ)ہے جو حق تعالیٰ کے ساتھ قائم رہتا تھا اور اپنی صفات سے فانی ہوچکا تھا۔اس فعل کو(اللہ تعالیٰ نے )اپنا فعل فرمایا اور کہا کہ جو کچھ(آپﷺ نے)کیا ہم نے کیا۔پس بندے کے فعل کی نسبت خدا تعالیٰ کے ساتھ ہونا ،اُس نسبت سے بہتر ہے جو حق تعالیٰ کے فعل کی نسبت ہو ،اور بندے سے کی جائے۔جب حق کے فعل کی نسبت بندے کے ساتھ ہو تو بندہ اپنے وجود کے ساتھ قائم ہوتا ہےاور جب بندے کے فعل کی نسبت حق تعالیٰ سے ہو تو وہ حق تعالیٰ سے قائم ہوتا ہے۔جب بندہ اپنے وجود کے ساتھ قائم ہوتا ہے تو اس کی حالت وہی ہوتی ہے جو داؤد علیہ السلام کی تھی۔ان کی نظر اس جگہ پڑی۔۔۔۔۔۔۔ (کشف المحجوب صفحہ ۲۳۰۔۲۳۱ ،کرمانوالہ بک شاپ( قارئین کرام! اس عبارت میں کسی جگہ صحو کی تعریف میں حالت ہوش اور سکر کی تعریف میں مدہوشی نہیں لکھا ۔مگر جناب مرزا جی نے اس عبارت میں اپنا ترجمہ گھسیڑنے کے جو ہمت کی ہے اللہ سے وہ اس تحریف کی معافی مانگیں اور اس عبارت پر اعتراض کرنے سے رجوع کریں۔ · سوم:حضور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کشف المحجوب میں سکر و صحو کے باب کے بالکل شروع میں جو لکھا ہے اگر مرزا صاحب اس عبارت کو ہی پڑھ لیتے تو ایسا اعتراض کرنے کی جسارت نہ کرتے۔ حضور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جان لے اللہ تعالیٰ تجھے سعادت دے کہ سکر و غلبہ کو ارباب معانی نے اللہ تعالیٰ کے غلبہ محبت سے عبارت کیا ہے اور صحو حصول مرادسے عبارت ہے۔اہل معانی نے ان کے بارے میں خاصی سخن زنی کی ہے۔(کشف المحجوب ص ۲۳۰ کرمانوالہ بک شاپ( اس باب کے اختتام پر داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے پھر صحو اور سکر کی اقسام بھی بیان کیں ہیں۔اگر مرزا صاحب ان اقسام کی بحث ہی دیکھ لیتے تو حضور داتا صاحب کی عبارت میں صحو کا معانی حالت ہوش اور سکر کا معانی حالت مدہوشی کرنے کی ہمت نہ کرتے۔مزید یہ کہ اگر اس مسئلہ پر جناب رحمت اللہ کیرانوی صاحب کے عیسائیوں کے رد میں کتابیں پڑھ لیں تو ان کو مزید تسلی ملے گئی کہ یہ اعتراضات تو عیسائیوں کے ہیں نہ کسی صحیح العقیدہ شخص نے یہ اعتراض کیا ہے۔اور اگر کچھ لحاظ نہیں تو یہ ہی واقعہ ابن قیم نے اپنی کتاب الشافی میں لکھ کر استدلال کیا ہے،پہلے ابن قیم کی ذات پر کچھ لکھیں پھر اہل سنت پر اعتراض کرنے کی ہمت کریں۔اللہ تعالیٰ ہمیں پڑھے لکھے جہالوں سے محفوظ فرمائے۔ چشتی رسول اللہ کے کلمہ پر تحقیقی جائزہ انجینئر محمد علی مرزا صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتےہیں۔ علماء کا نظریہ: خواجہ قطب الدین بختیار کاکی صاحب(جو خلیفہ تھے خواجہ معین الدین چشتی صاحب کے)ایک دفعہ انکے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ میں مرید ہونے آیا ہوں۔خواجہ صاحب نے فرمایا:جو کچھ ہم کہیں گے کرے گا اگر یہ شرط منظور ہے تو مرید کروں گا۔اُس نے کہا جو کچھ آپ کہیں گے وہی کروں گا۔خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے فرمایا:تو کلمہ اسطرح پڑھتا ہے۔[لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ]تو اب ایک بار اس طرح پڑھ[لا الہ الا اللہ چشتی رسول اللہ]چونکہ راسخ العقیدہ تھا اس نے فوراً پڑھ دیا۔خواجہ صاحب نے اس سے بیعت لی اور بہت کچھ خلعت و نعمت عطا فرمایا اور کہا:میں نے فقط تیرا امتحان لیا تھا کہ تجھ کو مجھ سے کس قدر عقیدت ہے ورنہ میر امقصود نہ تھا کہ تجھ سے اس طرح کلمہ پڑھواں۔[بزرگ(بریلوی+ دیوبندی)خواجہ فرید الدین گنج شکر صاحب،ہشت بہشت(فوائد السالکین)صفحہ ۱۹ شبیر برادرز] وحی کا فیصلہ:ترجمہ صحیح حدیث:سیدنا عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:اسلام کی بنیاد ۵ چیزوں پر رکھی گئی ہے:۱ گواہی دینا(لا الہ الا اللہ) اور یہ کہ (محمد رسول اللہﷺ) اور ۲۔نماز قائم کرنا ،اور ۳ زکوٰۃ ادا کرنا،اور ۴ حج کرنا اور ۵ رمضان کے روزے رکھنا۔[صحیح بخاری کتاب الایمان حدیث نمبر ۸،صحیح مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر ۱۱۳] الجواب بعون الوہاب: عرض یہ ہے کہ جناب مرزا صاحب نے فوائد السالکین کا حوالہ دے کر کون سا اہم کام کردیا ہے۔اس حوالہ کی بابت چند معروضات پیش خدمت ہیں۔ · اول:یہ کہ کسی بھی اعتراض کے جواب کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک : تحقیقی، دوسرا: الزامی اور تیسرا:کسی بھی اعتراض کو فرضاً مان کر جواب · دوم:چشتی رسول اللہ کا کلمہ پڑھوانا کسی بھی سند صحیحہ کے ساتھ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت نہیں۔اگر اعتراض کرنا ہے تو یہ بات با سند صحیح ثابت کریں۔کیونکہ یہ فوائد السالکین نامی کتاب تو حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی نہیں ہے۔ · سوم: اگر کوئی یہ جواب دے کہ فوائد السالکین تو حضرت خواجہ قطب الدین کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات ہیں جو انکے مرید اور خلیفہ حضور فرید الدین گنج شکر علیہ الرحمہ نے جمع کیے ہیں ۔تو اس بارے میں جواباً عرض یہ ہے کہ فوائد السالکین نامی کتاب کا حضرت قطب الدین کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے طرف انتساب اورحضرت گنج شکر علیہ الرحمہ کا ان ملفوظات کو جمع کرنا بھی مشکوک ہے غیر معتبر ہے۔کیونکہ اس کتاب کے جتنے بھی نسخے ابھی تک دریافت ہوئے یا جن لوگوں نے فوائد السالکین کا انتساب ان لوگوں کی طرف کیا ہے وہ سنداً ثابت نہیں۔فوائد الساکین میں درج تمام مجلسیں ۵۸۴ھ کی ہیں۔اور کسی نسخہ کے سند نہ تو متصل ہے اور نہ ہی اس دور کا لکھا یا مدون ہونا ثابت ہوسکا۔لہذا جو کتاب سنداً بھی ثابت نہ ہو تو ایک جید عالم دین اور عالم باصفا صوفی کی طرف اس عبارت کا انتساب انتہائی جرات مندی ہوگئ۔ · چہارم:اگرچہ فوائد السالکین کا انتساب بحیثیت ملفوظاتِ حضرت خوابہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف چند شخصیات نے کیا ہے۔مگر اس بارے میں عرض یہ کہ اگر یہ احتمال درست مان بھی لیا جائے توموجود ہ فوائد السالکین میں موجود کلمہ چشتی رسول اللہ کا اس کتاب میں ہونا تحریف اور گڑھ بڑھ کے علاؤہ کچھ بھی نہیں۔کیونکہ موجود دستیاب فوائد السالکین میں بہت ساری باتیں نہ تاریخی طور پر ثابت ہیں اور نہ تحقیقاً۔اور بہت سارے واقعات تو گھڑے ہوئے لگتے ہیں۔فوائد السالکین نامی موجودہ کتاب میں ایسے واقعات لکھے ہیں جو اس کتاب کے مدون کے بہت عرصےبعد رونما ہوئے تو یہ کیسے ہوگیا کہ ۵۰ یا ۱۰۰ سال بعد کے واقعے اس کتاب میں بیان کر دیے جائیں۔جس سے موجود ہ فوائد السالکین نامی کتاب غیر معتبر اور نا قابل اعتبار ٹھہرتی ہے۔ لہذا تحقیقی طور پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس کتاب کا انتساب ان بزرگ ہستیوں کے طرف انتساب جعلی اور موضوع ہے۔فوائد السالکین نہ تو خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات ہیں اور نہ انکے جامع حضرت بابا گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ہو سکتےہیں۔بلکہ یہ ہی کتاب نہیں بلکہ صوفیاء کرام کے دیگر ملفوظات مثلاً فوائد الفوائد ،اسرار الاولیاء وغیرہ بھی کافی مشکوک اور سنداً غیر ثابت ہیں۔ قارئین کرام! یہ بات کوئی اچنبے کی بات نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے اہل سنت و جماعت اور صوفیاء کرام کی کتابوں میں تحریف اور تدسیس ہوتی رہی ہے۔ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوںکےساتھ بھی یہ ہوا۔جبکہ علامہ شعرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کا بر ملا اظہار کیا کہ ان کی حیات میں ان کی کتابوں میں تحریف ہوئی۔شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اورشاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں کے ساتھ ان کی حیات میں جو ہوا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔لہذا جب تک کوئی بات سندا ً ثابت نہ ہو اس پر کسی قسم کا کلام اور اعتراض اصول اور انصاف کے منافی اور جہالت ہے۔ · پنجم:اہل سنت و جماعت نے چشتی رسول اللہ کے کلمہ کا جو جواب دیا ہے [کہ یہ واقعہ شطیحات کے قبیل میں سے ہے لہذا س پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے ]ان جوابات سے یہ اخذ کرنا کہ یہ عالم اس بات کوصحیح ثابت سمجھتے ہیں۔تو ایسی بات کرنا بھی جہالت ہے کیونکہ ان علماء کرام نے ایسی عبارتوں کو ہرگز صحیح نہیں مانا بلکہ ان کو بالفرض محال صحیح مان کر اس کے جوابات دیے ہیں جو اپنی جگہ پر درست ہیں۔مگر یہ بات اپنی جگہ قائم ہے کہ ان بزرگوں سے ایسے اقوال ثابت کرنے کے لئے قطعی ثبوت کی ضرورت ہے۔جبکہ دوسری طرف ایسی کتابوں کا انتساب کرنا بھی غلط ہے۔دوسری طرف ناشرین حضرات ایسی مشکوک طبع کرواتےہیں ان کا الزام علماء کرام پر ڈالنا غلط اور لغو ہے۔علماء اور مشائخ ایسی کتابوں کے مندرجات سے بری الذمہ ہیں جن کا انتساب صحیح ثابت نہ ہوسکے۔اور ان کتابوں سے بری الذمہ ہونے کا اقرار خود اعلیٰ حضرت نے متعدد مقامات پر فتاویٰ رضویہ میں کیا ہے۔اور محدث کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی کتابوں کا انتساب ان بزرگان دین کی طرف کرنے پر بڑی شدد سے رد کیا ہے۔لہذا اہل سنت و جماعت کے علماء پر ایسے اعتراض کرنا جہالت ہے۔ v الزامی جواب: اہل سنت و جماعت پر اگر مخالفین اعتراض کرتے ہیں تو پھر غیر مقلد عالم قاضی سلیمان پوری پر اعتراض کر کے دکھائیں۔ · جنھوں نے خواجہ قطب الدین کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ایک شعر لکھا ہے۔ مرشد کامل است سال وفات سر تسلیم تاج رفعت یافت · اورحضرت بابا گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھا ہے۔ آل شیخ فرید دین و دنیا گنج شکرو خازنئی اصفیا · اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ الله عليه کے بارے میں لکھا ہے۔ معین الدین حسن آں سید پاک کہ از سنجر سوئے اجمیر آمد ز شرع پاک مفتاح بقا یافت زہیر باغ فانی اُو بقایافت مجھے اُمید ہے کہ قارئین کرام! اس تحقیق کو بغور مطالعہ کرکے حق اور سچائی کا ساتھ دیں گئے اور مسلک حقہ کے طرف اپنی توجہ ضرور مبذول کریں گئے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان فتوں سے محفوظ فرمائے۔(آمین) مولف:"خادم اہل سنت و جماعت" فیصل خان رضوی
  6. سید زاہد حسین شاہ صاحب صفحہ کتاب غایۃ التبجیل مصنفہ شیخ سعید محمود ممدوح مترجم کے ابتداء ص۲۱ پر لکھتے ہیں: ’’امام اہلِ سنت، مجددِ دین و ملت، الشاہ امام احمد رضا خانؒ سید کی تعظیم و توقیرکے متعلق ارشاد فرماتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ سید تفضیلی ہو، تب بھی اس کی تکریم و احترام لازمی اور ضروری ہے۔‘‘ سید زاہد حسین شاہ صاحب صفحہ ۲۲ پر مزید اعلیٰ حضرتؒ کا فتویٰ نقل کرتے ہیں: ’’سید سنی المذہب کی تعظیم لازم ہے اگرچہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں، اُن اعمال کے سبب اُس سے تنفر نہ کیا جائے نفس اعمال سے تنفر ہو بلکہ اس کے مذہب میں بھی قلیل فرق ہو کہ حدِ کفر تک نہ پہنچے جیسے تفضیل تو اُس حالت میں بھی اُس کی تعظیم سیادت نہ جائے گی، ہاں اگر اس کی بدمذہبی حدِّ کفر تک پہنچے جیسے رافضی، وہابی، قادیانی، نیچری وغیرہ تو اب اس کی تعظیم حرام ہے کہ جو وجہ تعظیم تھی سیادت وہی نہ رہی۔‘‘ اعلی حضرت یہ مذکورہ پیش کردہ فتوی مشہور زمانہ تفضیلی قاری ظہور احمد فیضی صاحب نے اپنی کتاب مناقب الزھراءؓ ص ۲۲۴۔۲۲۵ پر بھی نقل کیا ہے۔ جواب:۔ عرض یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت بریلویؒ کے اس فتویٰ پر اپنی رائے دینے سے بہتر ہے کہ اعلیٰ حضرتؒ کی اپنی تصریح پیش کر دی جائے تاکہ معاملہ واضح ہو جائے اور پڑھنے والے بآسانی فیصلہ کر سکیں۔ اعلیٰ حضرتؒ کا ایک دوسرا بھی فتویٰ ملاحظہ کریں: ’’مسئلہ ۸۰۹: اہلِ سنت و جماعت کا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ سیدنا ابوبکر الصدیق ؓ بعد الانبیاء علیہ السلام افضل البشر ہیں۔ زید و خالد دونوں اہلِ سادات ہیں، زید کہتا ہے کہ جو شخص حضرت علیؓ کو حضرت ابوبکر صدیقؓ پر فضیلت دیتا ہے اُس کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے۔ خالد کہتا ہے کہ میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ پر حضرت علیؓ کو فضیلت ہے اور ہر سید تفضیلیہ ہے اور تفضیلیہ کے پیچھے نماز مکروہ نہیں ہوتی بلکہ جو تفضیلیہ کے پیچھے نماز مکروہ بتائے خود اس کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے۔ الجواب: تمام اہلِ سنت کا عقیدہ اجماعیہ ہے کہ صدیق اکبرؓ و فاروق اعظمؓ مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے افضل ہیں۔ ائمہ دین کی تصریح ہے کہ جو مولیٰ علیؓ کو اُن پر فضیلت دے مبتدع بدمذہب ہے۔ اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔ فتاویٰ خلاصہ، و فتح القدیر و بحرالرائق و فتویٰ عالمگیری وغیرہ یا کتب کثیرہ میں ہے۔ اگر کوئی حضرت علیؓ کو صدیق و فاروقؓ پر فضیلت دیتا ہے تو وہ بدعتی ہے۔ غنیہ و رد المختار میں ہے۔ بدمذہب کے پیچھے نماز ہرحال میں مکروہ ہے۔ ارکانِ اربعہ میں ہے۔ ان یعنی تفضیلی شیعہ کی اقتداء میں نماز شدید مکروہ ہے۔ تفضیلیوں کے پیچھے نماز سخت مکروہ یعنی مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ جلد۶ صفحہ۶۲۲) یہ نکتہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اس فتویٰ کی تاریخ ۱۴ محرم الحرام ۱۳۳۹ھ ہے۔جو کہ علامہ سیدزاہد حسین شاہ صاحب کے پیش کردہ فتویٰ سے متاخر ہے۔ قارئین کرام! آپ اعلیٰ حضرتؓ کے دونوں فتویٰ ملاحظہ کریں اور دونوں میں فرق ملاحظہ کریں اور نتیجہ پڑھنے والے پر ہے۔ مگر سید زاہد شاہ صاحب کو کم از کم اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ کے دونوں فتویٰ عوام الناس کے سامنے پیش کر دینے چاہئیں تھے تاکہ ساری بات واضح ہو سکے کہ حقیقت کیا ہے؟
  7. مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ علیہ پر حدیث " لحمک لحمی،دمک دمی،انت مثلی" کے متعلق غلط الفاظ استعمال کرنے کا الزام اعتراض:ایک صاحب نے مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب پرمعترض ہو کر کہا کہ دیکھو ان کی تفسیر نعیمی ص772 سورۃ الانعام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو بکواس کہا ہے۔ مفتی صاحب کی کتاب سے جو عبارت پیش کی وہ ملاحظہ کریں۔ تم نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مثل ناممکن ہے مگر حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا جسمک جسمی،لحمک لحمی،دمک دمی،انت مثلی ۔۔۔۔۔۔۔تم بالکل میری مثل ہو۔معلوم ہوا کہ حضرت علی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مثل ہیں۔ [مفتی صاحب کا ]جواب: یہ حدیث نہیں کسی نے بکواس کی ہے۔نعوذ باللہ ایسا ہوتا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا نکاح حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا سے درست نہ ہوتا یہ عقل کے بھی خلاف ہے۔ معترض نے مزید کہا: ??1۔مطلع القمرین کے محقین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ہے۔ اور مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں معاذاللہ ثم معاذاللہ یہ--------ہے۔یہ کیا تضاد ہے؟ کیا مفتی صاحب کو حدیث کے متعلق (چاہے وہ جس درجے کی بھی) ہو یہ لفظ زیب دیتا تھا؟ اگر کوئی دیوبندی یہ بات کرتا تو ہم اس کے پیچھے پڑجاتے۔ 2۔اگرچہ ضعیف بھی ہے لیکن مفتی احمدیارخان صاحب علیہ الرحمہ کا یہ لفظ استعمال کرنا ان کی شدید ترین غلطی ہے۔ 3۔جس درجے کی بھی ہے مسئلہ تو اختلافی ہوگیا نا کہ حدیث ہوبھی سکتی ہے تو پھر قول رسول کے متعلق ایسا بازاری لفظ؟اگرچہ شاعری میں ہرقسم کی روایات چل جاتی ہیں لیکن سب کو پتا ہے کہ حضرت قبلہ پیرمہر علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ ایسے عالم نے بھی اسے حدیث قرار دیتے ہوئے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ جواب: گذارش ہے کہ مفتی صاحب سے جو سوال ہوا وہ قابل غورہے۔پہلے مفتی صاحب سے پوچھے گئے استفسار پرغور کریں۔ اعتراض: تم نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مثل ناممکن ہے مگر حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا جسمک جسمی،لحمک لحمی،دمک دمی،انت مثلی ۔۔۔۔۔۔۔تم بالکل میری مثل ہو۔معلوم ہوا کہ حضرت علی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مثل ہیں۔ اب اس پر مفتی صاحب کا جواب ملاحظہ کریں۔ [مفتی صاحب کا ]جواب: یہ حدیث نہیں کسی نے بکواس کی ہے۔نعوذ باللہ ایسا ہوتا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا نکاح حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا سے درست نہ ہوتا یہ عقل کے بھی خلاف ہے۔ عرض یہ ہے کہ 1۔مفتی صاحب سےسوال" لحمہ من لحمی "کے بارے میں نہیں بلکہ مثل]تم نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مثل ناممکن ہے[ کے بارے میں تھا۔اس لیے جواب بھی "انت مثلی "کے بارے میں دیا گیا۔اور جو روایت ان کے سامنے پیش کی گئی،اس کی تو سند ہی کسی کتاب میں نہیں ملتی ،اس کا ضعیف ہونا بھی ثابت نہیں بلکہ موضوع درجے کی روایت ہے۔ ۲۔مفتی صاحب کے سامنے جو روایت پیش کی گئی اس کا مکمل متن تو کسی روایت میں نہیں ملتا۔ کیونکہ چند معترضین نے مفتی احمدیار نعیمی صاحب کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گستاخ ثابت کرنا تھا،اس لیے انہوں نے عوام الناس کے سامنے ایک الگ روش اختیار کی۔ · ان معترضین نے معجم الکبیر اور تاریخ دمشق کی روایات پیش کیں ۔اس روایت کو قاری ظہور احمد فیضی نے اپنی کتاب شرح اسنی المطالب میں بھی نقل کیا اور معجم الکبیر کی روایت کا ذکر مطلع القمرین کے محقق نے بھی حاشیہ میں کیا،جس میں ص 144 پر لکھا کہ یہ حدیث مبارکہ۔۔۔۔ کے متن کے ساتھ سخت مجروح ہے لیکن مندرجہ ذیل متن کے ساتھ امام طبرانی نے اسے المعجم الکبیر میں نقل فرمایا ہے۔۔۔۔امام ہیثمی مجمع الزوائد میں مندرجہ بالا حدیث مبارکہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ " رواہ الطبرانی و فیہ الحسن بن الحسین العربی فھو ضعیف"۔ ان مذکورہ حوالہ جات کو پیش کرنا کا مقصد عوام الناس کو یہ دھوکا دینا تھا کہ المعجم الکبیر کی روایت ضعیف ہےاور ضعیف حدیث کو حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کیا جاسکتا ہے۔لہذا ضعیف حدیث کو لفظ بکواس سے تعبیر کرنا ایمان کوخطرہ میں ڈالنےکے مترادف ہے۔ 2- اس بارے میں گذارش ہے کہ قاری ظہور احمد فیضی نے جو المعجم الکبیر اور تاریخ دمشق کے حوالہ سے جو روایات پیش کیں۔اس کی اسنادی حیثیت ملاحظہ کریں تو حقیقت حال واضح ہو جائے گی۔ المعجم الکبیر کی روایت کا تحقیقی جائزہ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْعَبَّاسِ الْبَجَلِيُّ الْكُوفِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ تَسْنِيمٍ، ثنا حَسَنُ بْنُ حُسَيْنٍ الْعَرَبِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ عِيسَى الرَّمْلِيُّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمِّ سَلَمَةَ: «هَذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ لَحْمُهُ لَحْمِي، وَدَمُهُ دَمِي، هُوَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي»۔ (المعجم الكبير 12/18،رقم12341) جواب: عرض یہ کہ مذکورہ روایت کی سند میں ضعیف اور مجروح قسم کی راوی موجود ہیں جن کا مختصر تذکرہ ملاحظہ کریں۔ 1۔یحیی بن عیسی الرملی اس روای کا مختصر ا جائزہ ملاحظہ کریں۔ محدث ابن حبان لکھتےہیں۔ وَكَانَ مِمَّن سَاءَ حفظه وَكثر وهمه حَتَّى جعل يُخَالف الْأَثْبَات فِيمَا يروي عَن الثِّقَات فَلَمَّا كثر ذَلِك فِي رِوَايَته بَطل الِاحْتِجَاج بِهِ۔ )المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين3/126( محدث ابن عدی لکھتے ہیں۔ وهذا عن الأعمش يرويه يحيى بن عيسى وليحيى بن عيسى غير ما ذكرت وعامة رواياته مما لا يتابع عليه۔ )الكامل في ضعفاء الرجال 7/218( محدث ابن معین لکھتے ہیں۔ يحيى بن عيسى الرملي ليس بشيء۔ ) تاريخ ابن معين - رواية الدوري 3/285( مذکورہ حوالہ جات سے اس راوی کا ضعیف ہونا ثابت ہوا۔ 2۔ حَسَنُ بْنُ حُسَيْنٍ الْعَرَبِيُّ، اس راوی کا مختصر جائزہ ملاحظہ کریں۔ ۱۔ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتےہیں۔ الحسن" بن الحسين العرني الكوفي عن شريك وجرير۔ قال أبو حاتم لم يكن بصدوق عندهم وكان من رؤساء الشيعة وقال ابن عدي لا يشبه حديثه حديث الثقات۔ وقال ابن حبان يأتي عن الأثبات بالملزقات ويروي المقلوبات۔ [لسان الميزان3/33،رقم 904] ۲۔امام ابو حاتم لکھتے ہیں۔ لم يكن بصدوق عندهم كان من رؤساء الشيعة۔ (الجرح والتعديل3/6) ۳۔امام دارقطنی لکھتے ہیں۔ هُوَ العرني كُوفِي، من شُيُوخ الشِّيعَة عِنْدهم. ( تعليقات الدارقطني على المجروحين لابن حبان 1/72) ۴۔امام زیلعی حنفی لکھتے ہیں۔ وَأَعَلَّهُ عَبْدُ الْحَقِّ فِي "أَحْكَامِهِ" بِالْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ، وَقَالَ: كَانَ مِنْ رُؤَسَاءِ الشِّيعَةِ، وَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُمْ بِصَدُوقٍ، وَوَافَقَهُ ابْنُ الْقَطَّانِ، قَالَ: وَحُسَيْنُ بْنُ زَيْدٍ لَا يُعْرَفُ لَهُ حَالٌ، انْتَهَى. وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: رَوَى أَحَادِيثَ مَنَاكِيرَ، وَلَا يُشْبِهُ حَدِيثُهُ حَدِيثَ الثِّقَاتِ، وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ: يَرْوِي الْمَقْلُوبَاتِ، وَيَأْتِي عَنْ الْأَثْبَاتِ بِالْمَرْوِيَّاتِ، انْتَهَى۔ ( نصب الراية لأحاديث الهداية2/176) ۵۔حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں۔ الْحَسَنُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْعُرَنِيُّ وَهُوَ مَتْرُوكٌ۔ (التلخيص الحبير1/554) ۶۔امام ابن قطان فرماتے ہیں۔ في إسناده الحسن بن الحسين العرني ، ولم يكن عندهم بصدوق ، وكان من رؤساء الشيعة۔ (بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 3/157) ۷۔امام ابن عبدالھادی لکھتے ہیں۔ الحسن بن الحسين العرني قال أبو حاتم الرازي : لم يكن بصدوق عندهم كان من رؤساء الشيعة . وقال ابن عدي : روى أحاديث مناكير ولا يشبه حديثه حديث الثقات . وقال ابن حبان : يأتي عن الأثبات بالملزقات ويروي المقلوبات۔ (تنقيح تحقيق أحاديث التعليق 1/320) اس مذکورہ تحقیق سے پیش کردہ روایت کے راوی کے بارے میں چند اہم نکات واضح ہوتے ہیں۔ ۱۔ضعیف ۲۔متروک ۳۔احادیث کو الٹ پلٹ کر دیتا [مقلوب] ۴۔شیعہ کا سردار الزام: اس روایت کے ۲ راوی کے ضعف اور متروک ہونے میں کوئی شک نہیں،اور العرنی کا شیعہ کا سردار ہونا بھی ثابت ہے۔چند لوگوں نے ظاہری جروحات کی بنیاد پر یہ ضد کرنا شروع کر دی کہ ضعیف اور متروک راوی کی روایت ضعیف ہوتی ہے اس کو موضوع کیسے کہا جاسکتا ہے؟ ان احباب کے لیے عرض ہے کہ بعض اوقات راوی کی ظاہری جرح کی وجہ سے حدیث پر تو ضعف کا اطلاق ہو جاتا ہے مگر علت قادعہ کی وجہ سے اس روایت کا موضوع ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔جیسا کہ مذکورہ روایت میں علت قادعہ العرنی کا شیعہ کا سردار ہونا ہے،جس سے یہ حدیث موضوع ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ عند المحدثین روایت میں کوئی بدعتی راوی ہوجیسے کہ شیعہ اور رافضی ،اس روایت کے موضوع ہونے پر محدثین کرام کی وضاحت ملاحظہ کریں۔ ۱۔علامہ سیوطی حدیث موضوع کی معرفت کے بارے میں لکھتے ہیں۔ قلت ومن القرائن كون الراوي رافضيا والحديث في فضائل أهل البيت۔ [ تدريب الراوي - السيوطي 276] ۲۔دکتور محمود الطحان لکھتے ہیں۔ أو قرينة في الراوي:مثل أن يكون الراوي رافضيا والحديث في فضائل أهل البيت. ( تيسير مصطلح الحديث 47) ۳۔علامہ نور الدین عتر لکھتے ہیں۔ قال السيوطي: "ومن القرائن كون الراوي رافضيا والحديث في فضائل أهل البيت". (منهج النقد في علوم الحديث ص 311) ۴۔اعلی حضرت امام احمد رضا محقق بریلوی علیہ الرحمہ موضوع حدیث کی شناخت کے طریقے کو بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :?افادہ دہم: ----ناقل رافضی حضرات اہلبیت کرام علٰی سیدہم وعلیہم الصلاۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اُس کے غیر سے ثابت نہ ہوں، جیسے حدیث:لحمک لحمی ودمک دمی(تیرا گوشت میرا گوشت، تیرا خُون میرا خُون۔ ت)?فتاوی رضویہ.107/5( اعلی حضرت فتوی رضویہ میں دوسری جگہ رقم طراز ہیں :? اور خبرشدید الضعف وقوی الجرح :لحمک لحمی ودمک دمی. ?فتاوی رضویہ. 160/29 پیش کردہ حدیث کے موضوع ہونے پر محدثین کرام کی تصریحات پیش کردی گئی ہیں۔جس سے روایت کو موضوع ہونا ثابت ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ بدعتی راوی کی وہ روایت جو اس کے مذہب کو تقویت میں ہو اس کے عدم قبول ہونے میں تو کسی کو اعتراض بھی نہیں اس لیے اس نکتہ پر بحث نہیں کی گئ،اگر کسی صاحب نے اعتراض کیا تو پھر حوالہ جات موجود ہیں۔ تارِیخ دمشق کی روایت کا تحقیقی جائزہ: تاریخ دمشق اور محدث عقیلی نے اپنی کتاب میں اس روایت کی سند بیان کی ہے وہ ملاحظہ کریں۔ أنا أبو القاسم بن مسعدة أنا أبو عمرو عبد الرحمن بن محمد الفارسي أنا أبو أحمد بن عدي نا علي بن سعيد بن بشير الرازي نا عبد الله بن داهر الرازي حدثني أبي داهر بن يحيى عن الأعمش عن عباية الأسدي عن ابن عباس عن النبي ( صلى الله عليه وسلم ) أنه قال لأم سلمة يا أم سلمة إن عليا لحمه من لحمي ودمه من دمي وهو مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي۔(تاريخ دمشق 42/169) محدث عقیلی نے اس روایت کو سند سے نقل کیاہے۔ حدثنا علي بن سعيد قال حدثني عبد الله بن داهر بن يحيى التازى قال حدثني أبي عن الاعمش عن عباية الاسدي عن بن عباس عن النبي عليه السلام انه قال لام سلمة يا أم سلمة ان عليا لحمه من لحمى ودمه من دمى وهو منى بمنزلة هارون من موسى غير أنه لا نبي بعدي. (الضعفاء الكبير"47/2) جواب: عرض یہ کہ تاریخ دمشق اور محدث عقیلی کے سند کے راوی ایک جیسے ہیں۔ ۱۔تاریخ دمشق کی روایت نقل کرنے کے بعد محدث ابن عساکر اس حدیث کے وضع کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں۔ قال ابن عدي عامة ما يرويه يعني ابن داهر في فضائل علي وهو فيه متهم۔( تاريخ دمشق 42/169) ۲۔ علامہ ذہبی لکھتےہیں۔ فهذا باطل،۔ ميزان الاعتدال في نقد الرجال 2/3 ۳۔حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں۔ فهذا باطل۔ ( لسان الميزان - ابن حجر 2/413) ۲۔تاریخ دمشق اور عقیلی کی سندوں میں ۲ راوی رافضی اور وضع روایت کرتے ہیں۔ 1۔ عبد الله بن داهر بن يحيى بن داهر الرازي 2۔داهر بن يحيى الرازي اس تحقیق سے پیش کردہ روایت کی سند کا بھی موضوع اور کذب ہونا ثابت ہوا۔اس لیے مفتی احمد یار نعیمی رحمہ اللہ پر اعتراض کرنا مناسب نہیں ۔ علامہ سیوطی اور علامہ مناوی نے اس حدیث کو عقیلی کی ہی سند سے نقل کیا ہے،اور ان اسانید پر محدثین کرام کا حکم موضوع کا ہی ہے۔ علامہ سیوطی نے اپنی کتابوں میں روایت نقل کی ہے۔اس لیے اس کو نقل کرنے سے اس پر اعتماد کا قول کرنا تحقیق کی روشنی میں صحیح نہیں۔ علامہ سیوطی نے اس روایت کو یوں نقل کیا ہے۔ 25629- يا أم سليم إن عليا لحمه من لحمى ودمه من دمى وهو منى بمنزلة هارون من موسى (العقيلى عن ابن عباس) اس حدیث کے حاشیہ میں محشی لکھتا ہے۔ تخریج:أخرجه العقيلى (2/47 ، ترجمة 477 داهر بن يحيى) وقال : كان ممن يغلو فى الرفض لا يتابع على حديثه . وأخرجه أيضًا : ابن عدى (4/228 ، ترجمة 1046 عبد الله بن داهر بن يحيى بن داهر) ، وقال : عامة ما يرويه فى فضائل على وهو فيه متهم . كلاهما بطرف : يا أم سلمة . (جامع الأحاديث 23/90) علامہ سیوطی نے اپنی کتاب جمع الجوامع میں اس روایت کو بھی نقل کیا ہے۔ 558) يا أم سليم إن عليا لحمه من لحمى ودمه من دمى وهو منى بمنزلة هارون من موسى (العقيلى عن ابن عباس). (جمع الجوامع أو الجامع الكبير للسيوطي 1/26667) محشی لکھتا ہے۔ أخرجه العقيلى (2/47 ، ترجمة 477 داهر بن يحيى) وقال : كان ممن يغلو فى الرفض لا يتابع على حديثه . وأخرجه أيضًا : ابن عدى (4/228 ، ترجمة 1046 عبد الله بن داهر بن يحيى بن داهر) ، وقال : عامة ما يرويه فى فضائل على وهو فيه متهم . كلاهما بطرف : يا أم سلمة . اس لیے امام سیوطی کا مطلقا کسی راویات کو اپنی کتاب میں نقل کردینا اس کی تصحیح یا تضعیف کو مسلتزم نہیں۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ پیش کردہ روایت موضوع و باطل ہے اور مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ پر اعتراض غلط اور مردود ہے۔
  8. بَابُ مَا جَاءَ فِي مِزْوَدِ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وما ظَهْرَ فِيهِ بِبَرَكَةِ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ آثَارِ النُّبُوَّةِ. أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْمَعْرُوفِ الإسفرائيني الفقيه، أنبأنا بشر ابن أَحْمَدَ بْنِ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ نَصْرٍ الْحَذَّاءُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْمُهَاجِرُ مَوْلَى آلِ أَبِي بَكَرَةَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمَرَاتٍ فَقُلْتُ ادْعُ لِي فِيهِنَّ بِالْبَرَكَةِ، قَالَ: فَقَبَضَهُنَّ ثُمَّ دَعَا فِيهِنَّ بِالْبَرَكَةَ، ثُمَّ قَالَ: خُذْهُنَّ فَاجْعَلْهُنَّ فِي مِزْوَدٍ أَوْ قَالَ: فِي مِزْوَدِكَ، فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُنَّ فَأَدْخِلْ يَدَكَ فَخُذْ وَلَا تَنْثِرْهُنَّ نَثْرًا، قَالَ: فَحَمَلَتُ مِنْ ذَلِكَ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا وَسْقًا فِي سَبِيلِ اللهِ، وَكُنَّا نَأْكُلُ وَنُطْعِمُ، وَكَانَ الْمِزْوَدُ مُعَلَّقًا بِحَقْوِيَّ لَا يُفَارِقُ حَقْوَيَّ، فَلَمَّا قُتِلَ عُثْمَانُ انْقَطَعَ . أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَتْحِ هِلَالُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحَفَّارُ، أَنْبَأَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عباس الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ زياد ابو زِيَادٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ، فَأَصَابَهُمْ عَوَزٌ مِنَ الطَّعَامِ، فَقَالَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ! عِنْدَكَ شَيْءٌ؟ قَالَ: قُلْتُ: شَيْءٌ مِنْ تَمْرٍ فِي مِزْوَدٍ لِي، قَالَ جيء بِهِ. قَالَ: فَجِئْتُ بِالْمِزْوَدِ، قَالَ: هَاتِ نِطْعًا، فَجِئْتُ بِالنِّطْعِ فَبَسَطْتُهُ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فَقَبَضَ عَلَى التَّمْرِ فَإِذَا هُوَ إِحْدَى وَعِشْرُونَ تَمْرَةً، ثُمَّ قَالَ: بِسْمِ اللهِ، فَجَعَلَ يَضَعُ كُلَّ تَمْرَةٍ وَيُسَمِّي، حَتَّى أَتَى عَلَى التَّمْرِ، فَقَالَ بِهِ هَكَذَا، فَجَمَعَهُ، فَقَالَ: ادْعُ فُلَانًا وَأَصْحَابَهُ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا وَخَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ ادْعُ فُلَانًا وَأَصْحَابَهُ، فَأَكَلُوا وَشَبِعُوا وَخَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: ادْعُ فُلَانًا وَأَصْحَابَهُ، فَأَكَلُوا وَشَبِعُوا وَخَرَجُوا، وَفَضَلَ تَمْرٌ، قَالَ: فَقَالَ لِي اقْعُدْ فَقَعَدْتُ، فَأَكَلَ وَأَكَلْتُ، قَالَ: وَفَضَلَ تَمْرٌ، فَأَخَذَهُ فَأَدْخَلَهُ فِي الْمِزْوَدِ، فَقَالَ لِي: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ إِذَا أَرَدْتَ شَيْئًا فَأَدْخِلْ يَدَكَ فَخُذْ وَلَا تَكْفَأْ فَيُكْفَأَ عَلَيْكَ، قَالَ: فَمَا كُنْتُ أُرِيدُ تَمْرًا إِلَّا أَدْخَلْتُ يَدِي فَأَخَذْتُ مِنْهُ خَمْسِينَ وَسْقًا فِي سَبِيلِ اللهِ، وَكَانَ مُعَلَّقًا خَلْفَ رِجْلَيَّ فَوَقَعَ فِي زَمَانِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَذَهَبَز۔ دلائل النبوة109/6 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ رسول اللہ ﷺ ایک غزوہ میں تھے توصحابہ کوکھانے کی حاجت ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابوہریرہ !تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرے زاد راہ تھیلے میں کچھ کھجوریں ہیں ،فرمایا:لائو ،میں نے وہ تھیلا پیش کیا ،فرمایا :چمڑے کادسترخوان بچھائو میں وہ چمڑا لایا تو آپ ﷺ نے اسے پھیلا دیا تو آپ ﷺ نے دست اقدس داخل کیا اور کھجور کی مٹھ بھری تووہ اکیس کھجوریں تھیں ،پھرپڑھا : ’’بسم اللّٰہ‘‘اور پھر آپ نے ہر کھجور کو رکھنا شروع کیااور اللہ کانام لیا۔ تو آپ نے انہیں جمع کیا توفرمایا:فلاں اور اس کے اصحاب کوبلائو انہوں نے کھایا حتی کہ وہ سیر ہو گئے اور نکلے اور فرمایاکہ فلاں اور اس کے اصحاب کو بلائو انہوں نے تناول کیا اور سیر ہو کر نکلے ،پھر فرمایا:فلاں اور اس کے اصحاب کو بلائو انہوں نے کھایااور سیر ہو کر نکلے لیکن کھجوریں بچ گئیں ،پھر مجھے فرمایا:تم بیٹھو میں نے بیٹھ کر کھایا تو کھجوریں بچ گئیں پھر آپ ﷺ نے انہیں لیا اور میرے تھیلے میں داخل کیا ، توفرمایا:اے ابوہریرہ ! جب تم کوئی چیز چاہو تو اس میں ہاتھ داخل کرلو اور لے لو اُنڈیلو نہ ورنہ یہ اُنڈیل دیئے جائیں گے اور اس کی برکت ختم ہوجائے گی ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :میں جب بھی کھجور حاصل کرناچاہتا تو اس میں ہاتھ داخل کرتا اس میں سے میں نے پچاس وسق اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیے اور یہ میرے کجاوے کی پچھلی طرف معلق رہتا ۔توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت وہ گم ہو گیا ۔ ،امام بیہقی نے’’دلائل النبوۃ‘‘(۶۔۱۰۹،۱۱۱)پر اسے نقل کیا اور کہایہ صحیح ہے ۔ امام احمد نے (۲۔۳۲۴)پر حضرت ابوہریرہ سے نقل کیا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے کچھ کھجوریں دیں میں نے اسے تھیلے میں ڈال کر اسے گھر کی چھت سے معلق کر دیا تو ہمیشہ ہم اس سے کھاتے رہتے حتی کہ اس کا اختتام اہل شام کے آنے پر ہوا جب انہوں نے شہر مدینہ پر حملہ کیا ۔
  9. تحقیق مسئلہ: اولیا ءکرام کا پانی پر چلنا مرزا محمد علی جہلمی صاحب کا اولیاء کرام کی کرامات پر ٹھٹھہ بازی تحریر:خادم اہل سنت و جماعت فیصل خان رضوی بسم اللہ الرحمن الرحیم اولیاء کرام کی عظمت و شان کی وجہ تقوی اورشریعت پر پابندی ہوتی ہے۔اہل سنت و جماعت اللہ کا ولیوں سے محبت ان کی کرامات کی وجہ سے نہیں بلکہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ شریعت پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ہے۔اولیاء سے محبت صرف اللہ او ر اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہوتی ہے ۔اور اسی کا شریعت مطاہرہ نے درس بھی دیا۔ Ø ایک دوست نے جناب مرزا محمد علی صاحب کی ایک ویڈیو بھیجی ،جس میں جناب کے دیگر عقلی دلائل کے ساتھ جب اولیاء کرام کے بارے میں نہایت عامیانہ لفظ "بابے "سنا تو بہت حیرانگی ہوئی اور جب وہ اپنی اس تقریر میں اپنے جذبات میں بہتے ہوئے ایک کرکٹ کے کھلاڑی کو 6 چھکے لگانے پر کرامات کا سرٹیفیکیٹ دیا تو سوچا کہ کیا جناب مرزا صاحب کے چاہنے والے ایسی باتوں پر یقین کرتے ہیں اور وہ پڑھے لکھے ہونے کی باوجود کسی کھلاڑی کی کرامت مان سکتے ہیں؟ بہرحال ایسی باتیں ہمیشہ اپنے متبعین یا چاہنے والوں کو اپنے ساتھ لگائے رکھنے کی لیے جناب مرزا محمد علی صاحب کرتے رہتے ہیں،بلکہ ان کی ایک تقریر میں جناب مرزا صاحب تو یہ بھی کہتے سنے گئے کہ" سائنسدانوں نے تو موبائل بنا دیا ہے اگر تہمارے بابے میں طاقت ہے تو اسے کہو کہ ایک موبائل ہی بنا کر دکھا دیں۔" جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب کو شاید یہ نہیں معلوم کہ ایک طرف جہاں ان کی دلیل میں نہ استدلالی وزن ہے اور نہ عقلی ۔ بالفرض جناب کی اس عقلی دلیل کو معتبر مان لیا جائے تو اسی طرح کے اعتراض تو دہریے خدا کی ذات پر کرتے ہیں۔آپ ان کی کتابیں خود پڑھ کر دیکھ لیں۔دہریے جب بھی خدا کی ذات پر اعتراض کرتے ہیں تو کچھ اسی قسم کا اعتراض کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔بہرحال جناب محمد علی مرزا صاحب کے اعتراضات میں ایک نکتہ کی طرف کچھ تحریر کرنے کی جسارت ضرور کرتے ہیں تاکہ عوام الناس کو ان دلائل کی حقیقت اور اصلیت واضح ہوسکے۔ Ø جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب اور ان کے چند شاگردوں کی تحریروں اور تقریروں سے یہ بات سامنے واضح ہوتی ہے کہ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ولی کی شان اس کی کرامت کے ساتھ ہوتی ہے،اوروہ یہ اعتراض ہم اہل سنت پر اولیاء پر اعتراضات کے ضمن میں کرتے ہیں۔مگر اس بابت کچھ عرض یہ ہے کہ اہل سنت و جماعت کا اس معاملہ پر موقف واضح ہے کہ اولیاء کی عظمت و شان ان کا شریعت کی پابندی کی وجہ سے ہی ہوتی ہے نہ کہ ان کی کرامات کی وجہ سے ان کی شان کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔مگر اس سلسلہ میں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ایک ولی اللہ سے اگر شریعت کی پابندی کی وجہ سے کوئی کرامت ظاہر ہوں تو اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ عوام الناس کو یہ نکتہ سمجھنا چاہیے کہ اہل سنت وجماعت اولیاء کی عزت و قدر ان کی کرامات کی وجہ سے نہیں بلکہ دین و شریعت کی پابندی کی وجہ سے کرتے ہیں۔اس نکتہ کو شیخ الصوفیاء حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ بھی بیان کرتے ہیں۔ · محدث علامہ ذہبی اپنی کتاب میں حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ کا قول نقل کرتے ہیں : وَقَالَ: للهِ خَلْقٌ كَثِيْرٌ يَمْشُوْنَ عَلَى المَاءِ، لاَ قِيْمَةَ لَهُمْ عِنْدَ الله، وَلَوْ نَظَرْتُم إِلَى مَنْ أُعْطِيَ مِنَ الكَرَامَاتِ حَتَّى يَطِيْرَ، فَلاَ تَغْتَرُّوا بِهِ حَتَّى تَرَوا كَيْفَ هُوَ عِنْدَ الأَمْرِ وَالنَّهْي، وَحِفْظِ الحُدُوْدِ وَالشَّرْعِ۔ سير أعلام النبلاء13/88 ترجمہ : حضرت با یزید بسطامی علیہ الرحمہ کا فرمان ہے کہ: اللہ تعالیٰ کی بہت ساری مخلوق ایسی ہے جو پانی پر چلتی ہے ، اور اس کے باوجود اللہ کے نزدیک اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ، اور تم کسی ایسےشخص کو دیکھو جسےمتعدد کرامات حاصل ہیں ،حتی کہ وہ ہوا میں اڑتا ہے تو اس کی کرامات سے ہرگز دھوکا نہ کھانا ۔ اس وقت تک جب تک یہ نہ جان لو کہ وہ امر ونواہی اور شریعت کا پابند ہے "۔ حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ کے اس قول کو کچھ اضافہ کے ساتھ محدث ابونعیم نے اپن کتاب حلية الأولياء10/39 پر سنداً نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ قَالَ: سَمِعْتُ مَنْصُورَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا عِمْرَانَ مُوسَى يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ الْبِسْطَامِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: قَالَ أَبُو يَزِيدَ:۔۔۔ تو حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ کے اس قول سے واضح ہوا کسی ولی اللہ نے اگر شریعت کی پابندی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر ثابت ہو تو اس کی کرامات پر اعتماد ہوتا ہے ۔ اس حوالہ سے یہ نکتہ تو واضح ہوا کہ اہل سنت کے نزدیک شرف و منزلت کا دارومدار شریعت کی پابندی ہے ۔اس لیے جو لوگ صوفیاء کرام کی کرامت پر اعتراضات کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی کرامات پر اعتراضات کریں گے تو ان کی شرف ومنزلت یا ان کی بزرگی پر اعتراض ثابت ہوجائے گا ،ایسا بلکل غلط اور باطل ہے۔اس لیے کرامات سے انکار کرنے سے یہ لازم نہیں کہ اس ولی اللہ کی شان میں کوئی حرف آئے گا۔اس کے برعکس اہل سنت و جماعت اولیاء صالحین کی شریعت کی پابندی اور اللہ کے نیک بندے ہونے کی وجہ سے اگر کوئی کرامات ظاہر ہو تو اس کا انکار بھی نہیں کرتے۔اولیاء صالحین کی کرامات کے منکر معتزلہ ہیں اور صوفیاء کرام کی کرامات پر یقین رکھنااہل سنت و جماعت کے عقائد میں سے ہے۔ · جب ان لوگوں کے پاس دلائل نہیں ہوتے تو ایک بات الزامی طور پر کہتے ہیں ہیں کہ صوفیاء کرام کی کرامت نہ ماننے پر کون سے شریعت کے قانون کا انکار لازم آتا ہے؟ان لوگوں سے گذارش ہے کہ اگر وہ اپنا مطالعہ وسیع کر لیں تو ان کو یہ معلوم ہوگا کہ اولیاء کرام کی کرامات کا اقرار کرنا عقائد اہل سنت کے قبیل سے ہے ۔اس پر شرعی حکم اگر کسی مفتی صاحب ہی سے پوچھ لیں تو بہتر ہوگا۔ جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب سے جب اولیاء کرام کی شان کے خلاف کوئی دلیل نہ ملی تو اولیاء کرام پر اعتراض کرنے کے لیے عقلی دلیل پیش کی کہ اگر کوئی ولی پانی پر چل سکتا ہے تو آج کل کوئی ایسا شخص ہے جو پانی پر چل کر دکھا سکے۔ جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب کی اس بات کا مقصد یہ عوام الناس کے ذہن میں یہ نکتہ راسخ کر دیا جائے کہ کیونکہ آج کوئی ولی اگر پانی پر چل نہیں سکتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی تمام کرامات جو کتب میں موجود ہیں وہ جھوٹی ہیں۔اور اگر ان اولیاء کرام کی کرامات جھوٹی ثابت ہوئیں تو ان کی شان و منزلت پر یقین کرنا بھی صحیح نہیں۔ مرزا محمد علی صاحب کی خدمت میں گذارش ہے کہ آپ کی دلیل عقلی و نقلی طور پر غلط ہے ،وہ اس لیے کہ 1-موجودہ کسی نیک شخص اور متقدمین اولیاء کا تقابل میں قیاس مع الفارق ہے،کیونکہ اہل سنت و جماعت نے یہ موقف واضح کیا ہے کہ ولی اللہ کے لیے کرامت کا ظہور ضرور ی نہیں،اس پر بے شمار عقائد کی کتب میں تصریحات موجود ہیں۔ 2-ولی اللہ کے لیے یہ بھی شرط نہیں کہ جب کوئی اعتراض کرے تو وہ اس کرامات کو ظہور پذیر کرنے کا پابند بھی ہو۔ 3-امت کے ولیوں میں صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین کا بھی شمار ہوتا ہے،ان صحابہ کرام سے ظہور پذیر کرامات کا [جو کہ صحاح ستہ اور دیگر کتب احادیث میں مروی ہیں]اگر کوئی اس دلیل کے ساتھ رد کرے کہ ہم ان جیل القدر شخصیات کی کرامات کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ اگر ایسی کرامت ہوسکتی ہے تو پھر آج کا کوئی ولی ہمارے سامنے ایسی کرامات کا ظہور کر کے دکھائے۔ شاید مرزا محمد علی صاحب کو قران مجید کی ان آیات کا بغور مطالعہ کیا ہو جس میں بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام سے خدا کو ماننے کی شرائط رکھیں تھیں۔مرزا محمد علی جہلمی صاحب کے ان استدلال پر اتنی بات ہی بہت ہے کیونکہ قارئین کرام عقل بھی رکھتے ہیں اور شعور بھی۔ 4-جناب ایسے استدلال سے تو آپ کو صحیحین اور صحاح ستہ کی بے شمار احادیث کو غلط اور جھوٹ کہنا پڑجائے گا کیونکہ کثیر روایات میں صحابہ کرام اور تابعین و تبع تبعین کی کرامات ثابت ہیں۔ 5- اگر ان حادث صحیحہ کی کرامات کو آپ یہ کہہ کر تسلیم کرتے ہیں کہ ہم صرف اُن کرامات کو مناتے ہیں جو صحیح روایات میں منقول و ثابت ہے تو جوابا ًعرض ہے کہ پھر تو آپ کی وہ عقلی دلیل[کہ اگر پانی پر چلنا یا ہوا میں اڑنا کسی ولی سے ہو سکتا ہے تو کوئی ہمارے سامنے کر دکھائے]بھی ہبا منشور ہوجاتی ہے ،کیونکہ آپ نے کرامات کو جانچنے کا طریقہ یہ رکھا ہے کہ اگر کوئی آج کل ایسی ہی کرامت کر کے دکھا دے تو آپ اس کو مان لیں گے۔جناب مرزا صاحب،پھر تو صحابہ کرام کی ہر کرامت کو آپ کو اس وقت ماننا چاہیے جب ایسی کرامت آج کوئی آپ کے سامنے ظہور پذیر کرسکے۔ اب جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب خود فیصلہ کریں کہ کون سی دلیل معتبر ہے اور کون سی قابل رد۔کیونکہ آپ کے اصولوں کے مطابق اگر آپ کے سامنےظہور پذیر کرامات کو دلیل لیا جائے تو پھر کوئی بھی کرامت کیا ثابت ہو سکتی ہے؟اگر احادیث و مروایات صحیحہ کی کرامات آپ کو قبول ہیں تو دیگر اولیاء کرام کی کرامات پر انکار کیوں؟اس کا فیصلہ آپ کے چاہنے والے خود کریں تو بہتر ہوگا۔ موصوف محمد علی مرزا جہلمی صاحب کی ہر دلیل ا و رقیاس ان کے اپنے ہی خلاف جاتا ہے۔ اولیاء کرام کی کرامات تو اس تواتر سے ثابت ہیں کہ اس کا انکار کوئی ضدی یا ہٹ دھرم شخص ہی کرسکتا ہے کوئی عقل و شعور رکھنے والا ایسی بات نہیں کرسکتا۔ان کرامات کو تواتر کے ساتھ نہ صرف صوفیاء نے اپنی کتب میں بیان کیا ہے بلکہ محدثین کرام نے اولیاء کرام کی کرامات پر کتب لکھیں ہیں جن میں محدث ابن خلال اور محدث لالکائی علیہ الرحمہ کی کرامات اولیاء مشہور و معروف کتب ہیں۔ اس مقام پر مناسب ہے کہ اس امت کے اولیاء میں سے ایک ولی اللہ حضرت ابو مسلم الخولانی علیہ الرحمہ کی کرامت کا بیان کیا جائے کہ ان سے پانی پر چلنا معتبر کتب و اسانید سے محدثین کرام نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔ حضرت ابو مسلم الخولانی کا پانی پر چلنا 1. امام عبداللہ سے مروی امام احمد بن حنبل نے اپنی کتاب میں حضرت ابو مسلم الخولانی کا پانی پر چلنے کا واقعہ صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، أَوْ غَيْرِهِ أَنَّ أَبَا مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيَّ، مَرَّ بِدِجْلَةَ وَهِيَ تَرْمِي بِالْخَشَبِ مِنْ مَدِّهَا فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: «هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ مَتَاعِكُمْ شَيْئًا فَتَدْعُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ»۔(الزهد أحمد بن محمد بن حنبل 1/310،رقم:2253) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ 2. محدث ابو نعیم اسی روایت کو سند سے بیان کرتے ہیں۔ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ مَالِكٍ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، ثنا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، أَوْ غَيْرِهِ، أَنَّ أَبَا مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيَّ، مَرَّ بِدِجْلَةَ وَهِيَ تَرْمِي بِالْخَشَبِ مِنْ مَدِّهَا، فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ مَتَاعِكُمْ شَيْئًا فَنَدْعُو اللهَ؟۔( حلية الأولياء وطبقات الأصفياء5/120) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ 3. محدث لالکائی روایت نقل کرتے ہیں۔ أَخْبَرَنَا عَلِيٌّ، أنا الْحُسَيْنُ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: ثنا أَبُو مُوسَى هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: ثنا أَبُو النَّضْرِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ: انْتَهَى أَبُو مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ إِلَى دِجْلَةَ وَهِيَ تَرْمِي بِالْخَشَبِ مِنْ مَدِّهَا فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ شَيْئًا فَنَدْعُو اللَّهَ تَعَالَى؟ (كرامات الأولياء للالكائي: ص188،رقم149) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ 4. امام ابن الدنیا اس روایت کو اپنی سندسے بیان کرتے ہیں۔ حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ: " انْتَهَى أَبُو مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ إِلَى دِجْلَةَ وَهِيَ تَرْمِي بِالْخَشَبِ مِنْ مَدِّهَا، فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ شَيْئًا؟ فَتَدْعُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ "۔ (مجابو الدعوة1/68،رقم86) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ 5. امام بیھقی اپنی کتاب میں روایت نقل کرکے تحریر کرتے ہیں۔ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ، أَنْبَأَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّمُرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ السَّرَّاجُ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، أَنَّ أَبَا مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيَّ جَاءَ إِلَى الدِّجْلَةِ وَهِيَ تَرْمِي الْخَشَبَ مِنْ مَدِّهَا، فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ وَالْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، وَقَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ مَتَاعِكُمْ شَيْئًا فَنَدْعُوَ اللهَ. هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ۔ (دلائل النبوة6/54) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔امام بیھقی نے فرمایا کہ اس کی اسناد صحیح ہیں۔ صوفیاء پر سب سے زیادہ نقل کرنے والے محدث ابن الجوزی کو جب اپنی تحریر کے بارے میں احساس ہوا تو انہوں نے اپنے موقف سے رجوع کرتے ہوئے صوفیاء کرام کی کرامات کا اقرار بھی کیا اور اسے بیان بھی کیا اورصوفیاء کے حالات پر ایک تفصیلی کتاب صفوۃ الصفوۃ بھی لکھی۔ 6. محدث ابن الجوزی حضرت ابو مسلم الخولانی کے بارے میں لکھتے ہیں۔ سليمان بن المغيرة قال: جاء مسلم بن يسار إلى دجلة وهي تقذف بالزبد، فمشى على الماء ثم التفت إلى أصحابه فقال: هل تفقدون شيئاً؟. (صفة الصفوة 2/142) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ کیا تم اپنے سامان کے بارے میں فکر مند ہو۔ 7. امام نووی جنہوں نے مسلم شریف کی شرح لکھی جو شرح نووی کے نام سے مشہور و معروف ہے،انہوں نے اپنی کتاب میں بھی حضرت ابو مسلم الخولانی کی کرامت کو بیان کر کے اس کو تسلیم کیا ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں۔ ومن نفائس كراماته ما رواه الامام أحمد بن حنبل في كتاب الزهد له أن أبا مسلم الخولاني مر بدجلة وهي ترمي الخشب من برها فمشي على الماء ثم التفت إلى الصحابة فقال هل تفقدون من متاعكم شيئا فتدعوا الله عز وجل. (بستان العارفين1/71) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ مذکورہ بالا تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت ابو مسلم الخولانی سے یہ کرامت صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے اور محدثین کرام نے اس کرامت کو اپنی کتب میں بیان کر کے کرامت پر دلیل بھی پیش کی ہے۔ محدثین کرام کی نظر میں - اولیاء کا پانی پر چلنا صحابہ کرام و اولیاء امت سےاسانید صحیحہ سے ایسی کرامات ثابت ہی جس میں دریا کا پھٹنا،ان کا ہٹنا اور پانی پر چلنا۔دریا کا پھٹنا اور دریا کا راستہ دینا تو مرویات صحیحہ میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت العلاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔اس کے بارے میں تفصیل کے ساتھ کتب احادیث میں روایات موجود ہیں۔ محدث علامہ سبکی کی تحقیق: · محدث علامہ سبکی علیہ الرحمہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔ النَّوْع الثَّالِث انفلاق الْبَحْر وجفافه والمشى على المَاء وكل ذَلِك كثير وَقد اتّفق مثله لشيخ الْإِسْلَام وَسيد الْمُتَأَخِّرين تقى الدّين بن دَقِيق العَبْد۔ (طبقات الشافعية الكبرى2/339) ترجمہ: دریا کا پھٹ جانا،دریا کے پانی کا کم ہوجانا اور پانی پر چلنا ،ایسی کرامات بھی لاتعداد ہیں۔شیخ الاسلام سید المتاخرین حضرت تقی الدین دقیق العید سے بھی ایسی کرامات کا ظہور ہوا ہے۔ قارئین کرام کو یہ بخوبی علم ہوگا کہ علامہ سبکی ایک جلیل القدر شافعی محدث تھے،جنہوں نے ایسی کرامات کے ظہور کا نہ صرف اقرار کیا بلکہ محدث ابن دقیق العید جو کہ علامہ ذہبی کے شیخ تھےان سے بھی ایسی کرامات کے ظہور کا لکھا ہے۔ اب ہم جناب محمد علی مرزا جہلمی صاحب سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ جناب آپ تو اہل سنت و جماعت کے اکابرین کا تمسخر اڑاتے ہیں کہ" دیکھو جی ان کی کتب میں لکھا ہے کہ فلاں ولی پانی پر چلتے تھے"،ی"ہ دیکھو جی ان کے بابے"۔ان جیسے الفاظ سے جو آپ نے اولیاء امت کا ٹھٹہ اڑایا،اب آپ کا ان محدثین کرام کے بارے میں کیا رائے ہے؟پانی پر چلنے والی کرامت کا اقرار ایک عظم محدث علامہ سبکی نے کی اور اس کا ثبوت محدث ابن دقیق العید سے دیا۔ابن دونوں جیل القدر محدثین کرام کا تمسخر بھی اسی طرح اڑائیں گے یا پھر علمی روش کو اپناتے ہوئے اپنے موقف پر کوئی نظر ثانی بھی کریں گےیا نہیں؟ جناب محمد علی مرزا صاحب نے اولیا امت کی ایسی کرامات کو نقل کرنے پر نہ صرف علماء اہل سنت کو ہدف تنقید بنایا بلکہ ان ہستیوں کے ذکر کرنے پر بہت لعن طعن بھی کیا اور ان اکابرین کو اہل سنت کے "بابے" جیسے الفاظ بھی استعمال کیے۔لفظ بابے پر جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب یہ موقف پیش کرسکتے ہیں کہ" بابے "پنچابی کالفظ ہے اور اس کا مطلب بزرگ ہوتا ہے۔عرض یہ ہے کہ ہر لفظ کے استعمال کا جہاں موقع محل ہوتا ہے وہاں سیاق و سباق بھی لفظ کے معنی متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔مرزا صاحب کی یہ تاویل قابل سماع ہر گز نہیں کیونکہ تقریر وہ اردو میں کرتے ہیں اور درمیان میں مطعون کرنے کے لیے ایسے لفظ کا استعمال یہ واضح کرتے ہیں کہ اکابرین اہل سنت اور اولیاء امت پر طعن و تشنیع مقصد ہے۔بہرحال ہو جس انداز میں گفتگو کرنا چاہیں مگر اب یہ بھی غور کریں کہ اولیاء امت کی کرامات کو ذکر کر کے محدثین کرام کو جناب محمد علی مرزا صاحب کن الفاظ سےپکاریں گے؟ قارئین کرام کی خدمت میں پہلے تو روایت صحیحہ پیش کردی گئی ہے کہ پانی پر چلنا تابعین کرام سےبھی ثابت ہے۔اب جناب محمد علی مرزا جہلمی صاحب کی خدمت میں محدثین کرام کے بے شمار حوالہ جات میں سے چند حوالے پیش خدمت ہیں۔ محدث ابن رجب حنبلی کی تحقیق: · محدث ابن رجب حنبلی اپنی کتاب میں علامہ ذہبی کے حوالہ سے فقیہ ابو الموفق ابن قدامہ کا پانی پر چلنا کا اثبات کرتے ہیں۔ وقرأت بخط الحافظ الذهبي: سمعت رفيقنا أبا طاهر أَحْمَد الدريبي سمعت الشيخ إِبْرَاهِيم بْن أَحْمَد بْن حاتم - وزرت مَعَهُ قبر الشيخ الموفق - فَقَالَ: سمعت الفقيه مُحَمَّد اليونيني شيخنا يَقُول: رأيت الشيخ الموفق يمشي عَلَى الماء. ذيل طبقات الحنابلة 3/291 ترجمہ: اپنے شیخ الفقیہ محمد الیونینی سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ الموفق کو پانی پر چلتے دیکھا۔ محدث ابن ملقن شافعی کا حوالہ: · محدث ابن ملقن شافعی ،یہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی شیخ اور استاد ہیں ،اصول حدیث المقنع اور حدیث پر البدر المنیراور صحیح بخاری کی شرح مشہور و معروف ہیں،اپنی کتاب طبقات الاولیا میں امام ابراھیم بن سعد العلوی کے ترجمہ میں ان کا پانی پر نماز پڑھنے کا واقعہ نقل کیا ہے ۔ حكى عنه أبو الحارث، قال: " كنت معه فى البحر، فبسط كساءه على الماء وصلى عليه ". طبقات الأولياء 1/24 ترجمہ:حضرت ابو الحارث فرماتے ہیں کہ میں ایک بار سمندرمیں ان کے ساتھ تھا،آپ نے اپنا مصلی پانی پر بچھایا اور اس کے اوپر آپ نے نماز ادا کی۔ حضرت ابراھیم بن سعد العلوی کا سمندر میں پانی پرنماز پڑھنے کا واقعہ صرف محدث ابن ملقن نے ہی نہیں لکھا،بلکہ اس واقعہ کو سند کے ساتھ خطیب بغدای اور محدث ابن عساکر نے بھی روایت کیا ہے۔محدث خطیب بغدادی کا حوالہ: · محدث خطیب بغدادی لکھتے ہیں: عنه أَبُو الحارث.قَالَ: كنت معه فِي البحر فبسط كساءه عَلَى الماء وصلى عَلَيْهِ۔. تاريخ بغداد وذيوله 6/84 ترجمہ:حضرت ابو الحارث فرماتے ہیں کہ میں ایک بار سمندر میں ان کے ساتھ تھا،آپ نے اپنا مصلی پانی پر بچھایا اور اس کے اوپر آپ نے نماز ادا کی۔ محث حافظ بن عساکر کا حوالہ:· حافظ ابن عساکر لکھتے ہیں: عنه أبو الحارث قال كنت معه في البحر فبسط كساءه على الماء وصلى عليه۔( تاريخ دمشق6/401) ترجمہ:حضرت ابو الحارث فرماتے ہیں کہ میں ایک بار سمندرمیں ان کے ساتھ تھا،آپ نے اپنا مصلی پانی پر بچھایا اور اس کے اوپر آپ نے نماز ادا کی۔ مذکورہ بالا حوالہ جات محدثین کرام کی کتاب سے ہیں،کسی سنی بریلوی کی متاخر کتب سے کوئی حوالہ موجود نہیں،اب ان حوالہ جات کو پڑھ کر جناب محمد علی مرزا جہلمی صاحب کوئی نظر ثانی کا پروگرام رکھتے ہیں؟ یا پھر اہل سنت و جماعت سے ہی کوئی خاص دلی لگاو ہے۔ اس مضمون میں اگر کوئی خطاء یا غلطی ہو تو آگاہ کریں،اگر تحریر مسلک یا تعصب سے پاک لگے تو اس پر عمل کریں۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں حق بات کرنے اور اکابرین اہل سنت کا ادب و احترام کی توفیق عطا فرما۔
  10. 20 رکعت تراویح پرحضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کا تحقیقی جائزہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی روایت أخبرنَا أَبُو عبد الله مَحْمُود بن أَحْمد بن عبد الرَّحْمَن الثَّقَفِيُّ بِأَصْبَهَانَ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي الرَّجَاءِ الصَّيْرَفِي أخْبرهُم قِرَاءَة عَلَيْهِ أَنا عبد الْوَاحِد بن أَحْمد الْبَقَّال أَنا عبيد الله بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ أَنا جَدِّي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جَمِيلٍ أَنا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ أَنا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى نَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ عُمَرَ أَمَرَ أُبَيًّا أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ فَقَالَ إِنَّ النَّاسَ يَصُومُونَ النَّهَار وَلَا يحسنون أَن (يقرؤا) فَلَوْ قَرَأْتَ الْقُرْآنَ عَلَيْهِمْ بِاللَّيْلِ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَذَا (شَيْءٌ) لَمْ يَكُنْ فَقَالَ قَدْ عَلِمْتُ وَلَكِنَّهُ أَحْسَنُ فَصَلَّى بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَة (إِسْنَاده حسن) ( الأحاديث المختارة للضياء المقدسي 3/367رقم الحدیث 1161) ترجمہ:حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میںمجھے رات کو تراویح پڑھانے کاحکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ دن میں روزہ رکھ لیتے ہیں مگر تراویح نہیں پڑھ سکتے، اس لئے لوگوں کو تراویح پڑھاؤ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یاامیرالمومنین! یہ ایسی چیز کا حکم ہے جس پر عمل نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں جانتا ہوں لیکن یہی بہتر ہے، پس حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیس20 رکعات تراویح پڑھائی۔ اعتراض: کفایت اللہ سنابلی صاحب غیر مقلد اپنی کتاب انوار التوضیح ص348 پر لکھتے ہیں۔ یہ رویات ضعیف ہے ، سند میں موجود ابو جعفرالرازی سی الحفظ ہے ۔ امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا: شيخ يهم كثيرا۔[الضعفاء لابي زرعه الرازي: 2/ 443]۔ امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا: كان ممن ينفرد بالمناكير عن المشاهير لا يعجبني الاحتجاج بخبره إلا فيما وافق الثقات۔ [المجروحين لابن حبان: 2/ 120]۔ یہ مشہور لوگوں سے منکر روایت کے بیان میں منفرد ہوتا تھا،اس کی حدیث سے حجت پکڑنا مجھے پسند نہیں الاکہ یہ ثقہ رواۃ سے اس کی تائید مل جائے۔ امام ابن حبان نے یہ بھی فرمایا: والناس يتقون حديثه ما كان من رواية أبى جعفر عنه لأن فيها اضطراب كثير لوگ الربیع بن انس سے ابوجعفر کی روایات سے بچتے ہیں،کیوں کہ ان بہت اضطراب ہوتا ہے۔( الثقات - ابن حبان ص4/228) اور زیر بحث حدیث اسی طریق سے ہے،لہذا ضعیف ہے۔یاد رہے کہ متعدد حنفی حضرات نے بھی اس راوی کو ضعیف تسلیم کیا ہے۔ جواب: گذارش ہے کہ کفایت اللہ سنابلی صاحب نے ابو جعفر الرزی پر چند محدثین کرام نے جرح نقل کی ہے مگر اکثر علماء نے اس کی توثیق کی ہوئی ہے۔ہم مسلکی حمایت سے ہٹ کر اس راوی پر محدثین کرام کے آراء کو پیش کرتے ہیں تاکہ حقیقت واضح ہوسکے۔ ابو جعفر الزای پر جرح کرنے والے محدثین کرام کے حوالہ جات ملاحظہ کریں۔ الفلاس : فيه ضعف ، وهو من أهل الصدق سيء الحفظ ۔ ( تاريخ بغداد 11/146.) العجلي : ضعيف الحديث ۔(ترتيب معرفة الثقات 2/391.) أبو زرعة : شيخ يهم كثيراً ۔( سؤالات البرذعي 1/443.) امام نسائی : ليس بالقوي. (سنن النَّسَائي: 3 / 258.) ابن حبان کا مکمل قول: کفایت اللہ سنابلی صاحب نے ابن حبان کی جرح مکمل نقل نہیں کی۔ كان ممن ينفرد بالمناكير عن المشاهير لا يعجبني الاحتجاج بخبره إلا فيما وافق الثقات۔۔۔۔ یہ مشہور لوگوں سے منکر روایت کے بیان میں منفرد ہوتا تھا،اس کی حدیث سے حجت پکڑنا مجھے پسند نہیں الاکہ یہ ثقہ رواۃ سے اس کی تائید مل جائے۔۔۔۔ اس جرح کے بعد ابن حبان نے متصل جو بات کہی وہ بھی ملاحظہ کریں، ابن حبان لکھتےہیں۔ ولايجوز الاعتبار بروايته إلا فيما لم يخالف الاثبات. اور نہ اس کی روایت پر اعتبار کیا جاسکتا ہےالا یہ کہ اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے مخالفت نہ ہو۔ یعنی کہ جس روایت میں اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی مخالفت نہ ہو تو اس پر اعتبار اور اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ اما م ابن حبان کے اس مکمل قول سے واضح ہوا کہ ابو جعفر الرازی کی منفرد روایت سے احتجاج کرنا محدث ابن حبان کو پسند نہ تھا مگر وہ روایت جس میں ابو جعفر الرازی اپنے سے ثقات راوی کی مخالفت نہ کرے اس پر اعتبار اور استدلال کیا جاسکتا ہے۔جبکہ پیش کردہ ضیاء المختارہ کی روایت میں کسی ثقہ راوی کی مخالفت ثابت نہیں بلکہ دیگر ثقہ راویوں نے20رکعت کے بیان میں ابو جعفر الرزای کی موافقت بھی کی ہے جس سے محدث ابن حبان کا ابو جعفر الرزی کا ربیع بن انس سے مرویات پر مضطرب کا اعتراض بھی رفع ہوجاتا ہے۔اس لیے یہ حدیث تو ابن حبان کے اصول کے مطابق بھی قابل حجت اور صحیح روایات ہے۔ ابو جعفر الرازی کی توثیق کرنے والے محدثین کرام کے حوالہ جات پیش خدمت ہیں۔ إمام ابن معين : ثقة ۔(تاريخ بغداد 11/146.) ، ایک دوسرے مقام پر کہا : ثقة ، وهو يغلط فيما يروي عن مغيرة ۔( الدوري4772 .) ایک دوسرے شاگرد نے رویات کیا کہ : ليس به بأس ۔ ( من كلام أبي زكريا في الرجال 82.) ایک دوسرے مقام پر کہا : صالح ۔( الجرح والتعديل 6/280.) ، ایک مقام پر کہا : يُكتب حديثه إلا أنه يخطئ۔(تاريخ بغداد 11/146.) ابن المديني: ثقة ۔(سؤالات ابن أبي شيبة 148) الساجي : صدوق ليس بمتقن ۔(تاريخ بغداد 11/146) امام ابن عمار : ثقة ۔(تاريخ بغداد 11/146) امام أبو حاتم : ثقة صدوق صالح الحديث ۔( الجرح والتعديل 6/280) . حافظ ابن حجر : صدوق سيء الحفظ خصوصاً عن مغيرة ۔(تقريب التهذيب 8019 ) حافظ ابن حجر ایک دوسرے مقام پر ابو جعفر کی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں۔ الإسناد حسن۔( مختصر البزار 2/ 265) علامہ ذہبی۔صالح الحديث۔ (میزان الاعتدال3/320رقم6595) ابْن سعد : وكان ثقة۔(طبقات ابن سعد 7 / 380) حاكم: ثقة. (تهذيب: 12 / 57) امام ضیاء المقدسی: وَثَّقَهُ عَليّ بن الْمَدِينِيّ وَيحيى بن معِين۔( الأحاديث المختارة6/97) ضیاء المختارہ میں 13 روایات اس سند سے ہیں۔ محدث ابْن شاهين۔ ثقاته۔(البدر المنیر3/623) علامہ حازمی ۔ ثِقَة.( البدر المنیر3/623) مذکورہ بالاپیش کردہ حوالہ جات سے رابو جعفر الرزای کے بارے میں نتیجہ اخذ کرنا قارئین کرام کے علمی استعداد پر ہے۔مذکورہ بالاتحقیق سے معلوم کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی 20 رکعت والی روایت حسن اور قابل احتجاج ہے۔اس پر کفایت اللہ سنابلی صاحب کے اعتراضات باطل و مردود ہیں۔
  11. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رمضان میں 8 رکعت والی روایت کا تحقیقی جائزہ کفایت اللہ سنابلی کی پیش کردہ پہلی حدیث کفایت اللہ سنابلی اپنی کتاب انوار التوضیح ص21 تا 106 پہلی حدیث پیش کر کے بحث کرتےہیں۔ امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: «مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا» ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کی بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔(صحیح البخاری( 3/ 45) :کتاب صلاة التراویح: باب فضل من قام رمضان ، رقم 2013)۔ اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ تراویح کی مسنون رکعات آٹھ ہیں۔ بعض لوگ اس حدیث پرعمل نہ کرنے کا یہ بہانا بناتے ہیں کہ اس حدیث میں تہجد کی رکعات کاذکر ہے نہ کہ تراویح کی رکعات کا۔ جواب: گذارش ہے تراویح کے موضوع پر صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایت پر بحث خلط مبحث ہے،تراویح کے موضوع پر وضاحت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں نماز تراویح پڑھی جانے والی روایات سے ہوتی ہے۔اس لیے مخالفین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ والی احادیث پیش کر کے تحقیق کو دوسری طرف لاجانے کی کوشش کرتے ہیں۔سنابلی صاحب نے لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے اپنی کتاب انوار التوضیح ص21 تا 106اس حدیث کے بارے میں طویل بحث کرنی کی ناکام کوشش کی ہے اور وہ بھی اس لیے کہ عوام الناس کا دھیان اصل موضوع اور بحث سے ہٹ کر اسی طرف لگا رہے۔غیر مقلدین حضرات ایک طرف تو 8اور 11 کو مسنون کہنے پر زور لگاتے ہیں مگر خود اس کے برعکس جب روایات پیش کی جاتی ہیں تو بوکھلاہٹ کو شکار ہو کر11 سے کم رکعت کو بھی مسننون کہنی کی نفی نہیں کرتے یعنی 11 سے کم تراویح 2،3،5،6،7،8 جتنی بھی پڑھ لیں اس پر پر موصوف کفایت اللہ سنابلی صاحب انکار نہیں کرتے اس کو مسنون ہی کہتے ہیں۔مگر 11 رکعت سے زیادہ تعداد پر ان کو مسلکی تعصب یاد آجاتا ہے۔11 سے زیادہ تعداد کسی روایت میں ثابت ہو تو اسے نوافل پر محمول کرتے ہیں ۔عجب تحقیق ہے کہ 11 سے کم مسنون اور 11سے زائد تراویح پر نفل کا اطلاق؟کفایت اللہ سنابلی صاحب کادعوی پیش خدمت ہے۔ کفایت اللہ سنابلی صاحب کا دعوی: کفایت اللہ سنابلی صاحب کے نزدیک تراویح کی حد11 رکعت ہے ،ان کے نزدیک 11 رکعت سے زیادہ پڑھی نہیں جاسکتی اور 11 سے کم پر ان کو کوئی اعتراض نہیں۔ کفایت اللہ سنابلی صاحب نے اپنی کتاب انوار التوضیح ص149 پر لکھتے ہیں۔ "ہمارا موقف یہی ہے کہ گیارہ سے زائد رکعات پڑھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے نہ رمضان میں نہ غیر رمضان میں ، البتہ گیارہ سے کم رکعات کی ہم نفی کرتے ہی نہیں ، لہٰذا اگرکسی روایت میں ملتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی روایت گیارہ سے کم تعداد میں رات کی نماز پڑھی تو یہ بات نہ تو حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف ہے اور نہ ہی حدیث جابر رضی اللہ عنہ کے خلاف ہے ۔" اس حوالہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ غیر مقلد کفایت اللہ سنابلی صاحب کے نزدیک تراویح 11 رکعت سے کم تو مسنون ہوسکتی ہے مگر11 رکعت سے زیادہ تراویح مسنون نہیں ۔جبکہ عوام الناس میں یہ دھوکا دیتے ہیں کہ تراویح پر کسی پر کوئی طعن نہیں ہے کیونکہ یہ نفلی نماز ہے اس میں کوئی عدد متعین نہیں ہے۔موصوف کا دھوکا ملاحظہ کریں کہ عوام الناس میں تراویح کو نفل نماز کہہ کر اس کی عدد پر اختلاف نہ کرنے کو کہتے ہیں جبکہ خود زیادہ سے زیادہ 11 رکعت تراویح پر بضد ہیں۔ وضاحت: مگر اس مقام پر مختصرا چند امور جاننے کی بہت اہمیت ہے۔ اول:غیر مقلدین حضرات اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے کسی بھی غیر علمی بات یا تاویل تک جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔قیام اللیل،نفل،تراویح،تہجد،اور وتر کو ویسے الگ الگ بیان کرتے ہیں مگر جس روایت میں 8 رکعت سے زیادہ تراویح ثابت ہو،اس کو تہجد،وتر ،نقل اور قیام اللیل کہہ کر رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔قارئین کرام یہ سمجھ لیں کہ محدثین کرام کے نزدیک اعمال کی بنیادی طو ر پر 2 اقسام پیش کرتے ہیں۔ 1-فرض 2-نفل جو اعمال فرائض میں سے نہ ہو ان کو نفل کانام دیا جاتا ہے،اور غیر فرائض میں واجب،سنت موکدہ،سنت غیر موکدہ اور مستحب شامل ہوتے ہیں۔ رات کی نماز کی متعدد رکعات احادیث کی روشنی میں: آقا کریمﷺ کا رات کی نماز میں مختلف رکعات ادا کرنا ثابت ہیں جس پر کچھ دلائل ملاحظہ کریں،یہ بھی نوٹ کریں کہ پیش کردہ روایات کے تراجم انہی غیر مقلدین کے علماء کے کیے ہوئے ہیں تاکہ مخالفین یہ بھی اعتراض نہ کرسکے کہ تراجم میں گڑھ بڑھ کی ہے۔ 13رکعات نفل ہر دو رکعت کے بعد سلام اور آخر میں وتر۔ حضرت عبداللہ بن عباسhفرماتےہیں کہ 764 حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة حدثنا غندر عن شعبة ح وحدثنا بن المثنى وبن بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن أبي جمرة قال سمعت بن عباس يقول * كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة۔ مفہوم :نبی کریم ﷺ نے رات کو 13 رکعات نماز پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم1803) حضرت عبداللہ بن عباس hنے ان 13 رکعات کی تفصیل بھی بتائی ہے۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ كُرَيْبٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ وَهِيَ خَالَتُهُ فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ وِسَادَةٍ وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا فَنَامَ حَتَّى انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَرِيبًا مِنْهُ فَاسْتَيْقَظَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ آلِ عِمْرَانَ ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ فَتَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي فَصَنَعْتُ مِثْلَهُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبهِ فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي وَأَخَذَ بِأُذُنِي يَفْتِلُهَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ أَوْتَرَ ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ۔ ) صحیح بخاری992صحیح مسلم1788) ترجمہ :حضرت عبداللہ بن عباسh فرماتے ہیں کہ پھر میں آپﷺ کی بائیں جناب کھڑا ہوگیا ،آپﷺ نے اپنا دائیاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرے کان سے پکڑتے ہوئے مجھے دائیں طرف کھڑا کرد یا،پھر آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں،پھر دو رکعتیں پڑھیں،پھر دو رکعتین پڑھیں،،پھر دو رکعتین پڑھیں،پھر دو رکعتین پڑھیں،پھر دو رکعتین پڑھیں، پھر اسے وتر کرکے نماز پڑھی،اس کے بعد آپ نے آرام فرمایا،یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاس موذن آگیا،پھرآپﷺ کھڑے ہوئے اور ہلکلی سی دو رکعتین ادا کیں پھر مسجد تشریف لے گئے اور نماز فجر پڑھائی۔ کفایت اللہ سنابلی صاحب ی موشگافیاں: اس حدیث میں کیونکہ 13 رکعت کا اثبات تھا اس لیے کفایت اللہ سنابلی صاحب نے ایک دوسری روایت کا کچھ متن لیا،پھر تیسری روایت کا متن لیا اور پھر قیاس کرتے ہوئے اپنی ہی ایک تطبیق پر مطمئن ہونے کی کوشش کی ۔نہ ہی وہ تطبیق بنتی ہے اور نہ اس پر زیادہ کلام کرنے کی ضرورت ہے۔ اول: صحیح بخاری رقم الحدیث 992 میں تیرہ رکعت رات کی نماز ثابت ہے۔اب اس تیرہ رکعت نماز کے بارے میں کفایت اللہ سنابلی نے انوار التوضیح ص63 پر صحیح بخاری رقم الحدیث 117 بیان کی کہ اس میں عشاء کی رکعت کا بھی ذکر ہے۔ حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثنا الحكم، قال: سمعت سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال:" بت في بيت خالتي ميمونة بنت الحارث زوج النبي صلى الله عليه وسلم، وكان النبي صلى الله عليه وسلم عندها في ليلتها، فصلى النبي صلى الله عليه وسلم العشاء، ثم جاء إلى منزله فصلى اربع ركعات، ثم نام، ثم قام، ثم قال: نام الغليم او كلمة تشبهها، ثم قام، فقمت عن يساره فجعلني عن يمينه، فصلى خمس ركعات، ثم صلى ركعتين، ثم نام حتى سمعت غطيطه او خطيطه، ثم خرج إلى الصلاة". )صحیح بخاری رقم الحدیث117) ترجمہ :ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی، ان کو حکم نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزاری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اس دن) ان کی رات میں ان ہی کے گھر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز مسجد میں پڑھی۔ پھر گھر تشریف لائے اور چار رکعت پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر اٹھے اور فرمایا کہ (ابھی تک یہ) لڑکا سو رہا ہے یا اسی جیسا لفظ فرمایا۔ پھر آپ (نماز پڑھنے) کھڑے ہو گئے اور میں (بھی وضو کر کے) آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دائیں جانب (کھڑا) کر لیا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعت پڑھیں۔ پھر دو پڑھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹے کی آواز سنی، پھر آپ کھڑے ہو کر نماز کے لیے (باہر) تشریف لے آئے۔ صحیح بخاری رقم الحدیث 117 میں نماز کی رکعات کا بیان 4 رکعت ،5رکعت اور 2 رکعت کا ہوا۔ ز4 رکعت عشاء کی سنت 8] رکعت کا ذکر نہیں۔بقول سنابلی صاحب راوی کا ختصار ہے۔] ز5 رکعت وتر ز2 رکعت نفل یہ نوٹ کریں کہ موصوف کفایت اللہ سنابلی صاحب5 عدد رکعات وتر تسلیم کیا ہے مگر 8 رکعت تراویح کا کہیں ثبوت نہیں۔سنابلی صاحب یہ سمجھانا چارہے ہیں کہ اس روایت میں 8 رکعت تراویح ذکر نہیں کیونکہ راوی نے اختصار سے کام لیا ہے۔ نوٹ: قارئین کرام آپ اس بحث میں 5رکعت وتر کو ذہن نشین کرلیں کیونکہ یہ نکتہ اس لیے اہم ہے کہ موصوف کفایت اللہ سنابلی صاحب اپنے کتاب انوار التوضیح ص16 پر مقدمہ میں یہ بات ترجیح دیوتے ہوئے تسلیم کرتے ہیں کہ تراویح 8 مع وتر 3،کل 11رکعات کو ہی مسنون کہتے ہیں۔اب وتر کو1 یا 5 کہنا کس طرح مسنون ہوگا؟ دوم: اب جناب کفایت اللہ سنابلی صاحب نے اس اعتراض کو رفع کرنے کے لیے الزام روایت کے راوی سعید بن جبیر یا ان کے شاگرد پر ڈال دیا کہ انہوں نے روایت میں اختصار کیا ہے اور 4 رکعت عشاء کی سند کے بعد 4 رکعت نفل بعد ذکر نہیں کیا۔ [اس مقام پر بھی قارئین کرام غور کریں کہ 5 رکعت وتر پر کوئی تبصرہ نہیں] اب موصوف نے اس 4 رکعت نفل کے ذخر نہ ہونے کو رفع کرنے کے لیے سنن نسائی الکبری رقم 1342 پیش کی{ FR 11026 } اور اس میں دو دو رکعات کی کل 8 رکعات اور 5 رکعات وتر پڑھنے کا اقرار کیا۔اس بارے میں کفایت اللہ سنابلی صاحب نے لکھا کہ حضرت عبداللہ بن عباس نےان آٹھ میں 4 ابتدائی عشاء کی رکعات کا شمار کیا۔ ز8رکعت نفل[2،2رکعت نماز] ز5 رکعت وتر کفایت اللہ سنابلی صاحب نے سنن نسائی الکبری رقم 1342 کی یہ حدیث اس لیے پیش کی کہ اس میں اگرچہ 4رکعت عشاء کی سنتوں کا ذکر نہیں ہے مگر 8 رکعت کا ذکر ہے اور یہ وہ 8 رکعت ہیں جس کو صحیح بخاری میں کسی راوی نے بیان نہیں کیا۔ اب کفایت اللہ سنابلی صاحب کے اس نکتہ سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ دن رات صرف صحیح بخاری وصحیح مسلم کی بات کرنے والوں کا اپنا موقف ثابت نہ ہوا تو سنن الکبری النسائی کا حوالہ پیش کیا۔بالفرض کفایت اللہ سنابلی صاحب کا یہ موقف مان بھی لیں تو ادھر بھی وہی نکتہ ابھی قائم ہے کہ موصوف تو 3 وترمسنون کے قائل ہیں اور ادھر 5 وتر کا اثبات ہے۔مزید یہ کہ سنن نسائی الکبری میں بھی یہ ثابت نہیں کہ وہ 8 رکعت کس نوعیت کی تھیں؟کیا ان8 میں 4 رکعت عشاء کی سنت کے نہیں ہوسکتے؟اور یہ یاد رہے کہ خود کفایت اللہ سنابلی سونے کے بعد عشاء کی رکعات کے پڑھنے کو اپنی کتاب میں تسلیم کرتا ہے۔اب احتمالات اور ممکنات پر موصوف اپنا موقف ثابت کرتے ہیں۔جناب اہل سنت کو قیاس کرنے پر مطعون کر کے خود قیاس تو کیا احتمال کی بنیاد پر اپنا دعوی ثابت کررہے ہیں؟مگر اس قیاس باطل کے باوجود بھی آپ کا موقف ثابت نہیں ہوتا کیونکہ سنن نسائی الکبری 1342 کے متن سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ 8 رکعات بطور نفل تھے؟یا بطور عشاء کی سنت ؟ اس لیے ایسے دلائل سے اپنے حوارین کو خوش کرسکتے ہیں مگر ان کا تحقیق میدان میں کوئی حیثیت نہیں۔ حضرت زید بن خالد الجھنی رضی اللہ عنہ کی روایت: حضرت زید بن خالد الجھنیh نے بھی اسی طرح 13 رکعت بغیربغیر عشاء کی نماز اور علاوہ فجر کی سنت کی حدیث بیان کی ہے۔ وحدثنا قتيبة بن سعيد عن مالك بن أنس عن عبد الله بن أبي بكر عن أبيه أن عبد الله بن قيس بن مخرمة أخبره عن زيد بن خالد الجهني أنه قال * لأرمقن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم الليلة فصلى ركعتين خفيفتين ثم صلى ركعتين طويلتين طويلتين طويلتين ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم أوتر فذلك ثلاث عشرة ركعة۔ ترجمہ:‏ سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز دیکھوں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت ہلکی پڑھیں پھر دو رکعت پڑھیں اور لمبی سے لمبی اور لمبی سے لمبی پھر دو رکعت اور کہ وہ ان سے کم تھیں پھر دو اور کہ وہ ان سے بھی کم تھیں پھر دو اور کہ وہ ان سے بھی کم تھیں پھر دو اور کہ وہ ان سے بھی کم تھیں پھر وتر پڑھا یہ سب تیرہ رکعات ہوئیں۔ )صحیح مسلم1804) کفایت اللہ سنابلی صاحب کی موشگافیاں کفایت اللہ سنابلی صاحب سے اس حدیث کو کوئی جواب نہیں ہوا،اس لیے ا اپنی کتاب انوار التوضیح ص69پر لکھتے ہیں۔ اس حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ یہ تیرہ رکعات،سنت عشاء کے علاوہ تھیں۔ جواب: گذار ش ہے کہ علمی وتحقیق میدان میں دلائل سے بات کی جاتی ہے،ایسی باتوں دعوی کا ثبوت اور مخالفین کی دلیل کا رد نہیں ہوسکتا ہے۔ویسے بھی آپ نے پوری کتاب لکھی ہی اپنی فہم سے ممکنات اور قیاس کی وجہ سے۔پوری کتاب میں آپ نے کوئی صریح دلیل پیش نہیں کی اور اب اس روایت کو صرف اپنے قیاس کی وجہ سے رد کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔جناب پیش کردہ روایت کا جواب ہے تو عوام الناس کے سامنے پیش کریں۔ایسا ہے یا ویسا ہے، سے دعوی ہرگز ثابت نہیں ہوگا۔ سنابلی صاحب کا تطبیق دینا: کفایت اللہ سنابلی صاحب انوار التوضیح ص76 پر لکھتے ہیں۔ ہمارےنزدیک راجح اور اقرب علی الصواب بات یہی ہے کہ گیار ہ اور تیرہ رکعات سے متعلق جملہ روایات میں تطبیق کی صورت یہی ہے کہ تیرہ والی روایت میں یا تو سنت عشاء یا سنت فجر کی دو رکعات بھی شمار کی گئی ہیں۔ جواب: گذارش ہے کہ آپ نے دراصل 11 کا عدد کا ثبوت دینا ہے اس لیے 13 رکعت میں اضافی دو رکعت کے بارے میں یہ تطبیق یا وضاحت دینا چاہتے ہیں کہ یہ دو رکعت یا تو فرض عشاء کے بعد کی 2 سنتیں ہیں یا پھر فرض فجر سے پہلے 2 رکعت سنت۔مگر شاید موصوف بھول گئے کہ اگر 13 رکعت میں سے 11 کو تراویح یا قیام اللیل کو مان لیا جائے توموصوف نے خود جو روایات پیش کیں ہیں اس میں وتر کی تعداد 5 ہے۔اس طرح تو تراویح کی رکعات 6 بنتی ہیں۔جبکہ آپ مسنون 8 تراویح اور 3 وتر کے قائل ہیں۔ایک ہی دعوی کے ایک حصہ کو آپ اپنی ہی پیش کردہ روایات سے غلط ثابت کررہے ہیں۔اور اگر دعوی کے دوسرے حصہ یعنی 5 رکعت وتر کو مان لیا جائے تو پھر تراویح کی 6 رکعات مسنون تسلیم کریں گے؟حالانکہ آپ کا دعوی8رکعت تراویح اور 3 رکعت وتر مسنون کا ہے۔اس لیے ایسی دلیل اپنے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ضرور پیش کریں مگر یاد رہے کہ ایسی دلیل کی علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں۔ جب کفایت اللہ سنابلی صاحب کی پیش کردوہ روایت سے ان کی دعوی ہی ثابت نہیں ہوتا تو اس پر مزید بحث کہ مذکورہ روایت کا تعلق تہجد سے ہے یا تراویح سے؟ یا تراویح اور تہجد الگ الگ ہیں یا ایک نماز؟کوئی ضروری نہیں۔البتہ رات کی نماز کے بارے میں چند مزید روایات پیش خدمت ہیں ،جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رات کی نماز میںاعمال اور وتر کی تعداد غیر مقلدین حضرات کے دعوی کے برعکس ہے۔ 13 رکعات،ہر دو رکعات کے بعد سلام، آخری پانچ رکعتیں ایک ہی تشہد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ ہر دو رکعات کے بعد سلام،اور آخری پانچ رکعتین ایک ہی تشہد کے ساتھ۔ وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، قالا: حدثنا عبد الله بن نمير . ح، وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، " يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة، يوتر من ذلك بخمس، لا يجلس في شيء إلا في آخرها ". ترجمہ:‏‏ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعت پڑھتے پانچ ان میں سے وتر ہوتیں کہ بیٹھتے مگر ان کے آخر میں۔ )صحیح مسلم1720) اس روایت سے وتر کی تعداد5 ثابت ہوتی ہے جبکہ کفایت اللہ سنابلی صاحب نے مسنون تراویح 8 رکعت اور5 رکعت وتر کا موقف لکھا ہے۔ مزید یہ کہ موصوف پیش کردہ روایت 8رکعت،5 وتر رکعات میں کس کے بارے میں یہ کہیں گے کہ اس میں عشاء کے دوسنتیں یا فجر سے قبل کی 2 سنتیں ہیں؟اور یہ یاد رہے کہ 5 رکعت وتر میں تو کوئی تخصیص اس لیے بھی نہیں ہوسکتی کہ اس میں 5 رکعات کو ایک تشہد کے ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے۔اس لیے یہ دلیل بھی کفایت اللہ سنابلی صاحب کے خلاف ثابت ہوئی۔ 9 رکعات،تشہد صرف آخری رکعت میں پھر ایک سے وتر بنایا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں روایت ہے کہ ۔۔قال قلت يا أم المؤمنين أنبئيني عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت كنا نعد له سواكه وطهوره فيبعثه الله ما شاء أن يبعثه من الليل فيتسوك ويتوضأ ويصلي تسع ركعات لا يجلس فيها إلا في الثامنة فيذكر الله ويحمده ويدعوه ثم ينهض ولا يسلم ثم يقوم فيصلي التاسعة ثم يقعد فيذكر الله ويحمده ويدعوه ثم يسلم تسليما يسمعنا ثم يصلي ركعتين بعد ما يسلم وهو قاعد فتلك إحدى عشرة ركعة يا بني فلما سن نبي الله صلى الله عليه وسلم وأخذه اللحم أوتر بسبع وصنع في الركعتين مثل صنيعه الأول۔ ترجمہ:۔۔۔ اے ام المؤمنین! خبر دیجئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کی۔ تب انہوں نے فرمایا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چاہتا اٹھا دیتا تھا رات کو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے تھے اور وضو، پھر نو رکعت پڑھتے تھے نہ بیٹھتے اس میں مگر آٹھویں رکعت کے بعد اور یاد کرتے اللہ تعالیٰ کو اور اس کی حمد کرتے اور دعا کرتے (یعنی تشہد پڑھتے) پھر کھڑے ہو جاتے اور سلام نہ پھیرتے اور نویں رکعت پڑھتے پھر بیٹھتے اور اللہ کو یاد کرتے اور اس کی تعریف کرتے اور اس سے دعا کرتے اور اس طرح سلام پھیرتے کہ ہم کو سنا دیتے (تاکہ سوتے جاگ اٹھیں) پھر دو رکعت پڑھتے اس کے بعد، بیٹھے بیٹھے بعد سلام کے۔ غرض یہ گیارہ رکعات ہوئیں اے میرے بیٹے! پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر زیادہ ہو گئی اور بعد میں گوشت آ گیا، سات رکعات وتر پڑھنے لگے اور دو رکعتیں ویسی ہی پڑھتے جیسے اوپر ہم نے بیان کیں۔ غرض یہ سب نو رکعتیں ہوئیں۔ اے میرے بیٹے! (یعنی سات وتر و تہجد کی اور دو بعد وتر کے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب کوئی نماز پڑھتے اس پر ہمیشگی کرتے۔(صحیح مسلم1739) 7رکعات وتر،تشہد آخر رکعت میں حضرت عائشہ روایت بیان کرتی ہیں۔ حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، عن زرارة بن اوفى ، عن سعد بن هشام ، قال: سالت عائشة ، قلت: يا ام المؤمنين، افتيني عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت:" كنا نعد له سواكه وطهوره، فيبعثه الله فيما شاء ان يبعثه من الليل، فيتسوك ويتوضا، ثم يصلي تسع ركعات لا يجلس فيها إلا عند الثامنة، فيدعو ربه فيذكر الله ويحمده ويدعوه، ثم ينهض ولا يسلم، ثم يقوم فيصلي التاسعة، ثم يقعد فيذكر الله ويحمده ويدعو ربه ويصلي على نبيه، ثم يسلم تسليما يسمعنا، ثم يصلي ركعتين بعد ما يسلم وهو قاعد، فتلك إحدى عشرة ركعة، فلما اسن رسول الله صلى الله عليه وسلم، واخذ اللحم اوتر بسبع، وصلى ركعتين بعد ما سلم". ترجمہ :سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں بتائیے، تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہتا رات میں آپ کو بیدار کر دیتا، آپ مسواک اور وضو کرتے، پھر نو رکعتیں پڑھتے، بیچ میں کسی بھی رکعت پر نہ بیٹھتے، ہاں آٹھویں رکعت پر بیٹھتے، اپنے رب سے دعا کرتے، اس کا ذکر کرتے اور حمد کرتے ہوئے اسے پکارتے، پھر اٹھ جاتے، سلام نہ پھیرتے اور کھڑے ہو کر نویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے اور اللہ کا ذکر اور اس کی حمد و ثنا کرتے، اور اپنے رب سے دعا کرتے، اور اس کے نبی پر درود (صلاۃ) پڑھتے، پھر اتنی آواز سے سلام پھیرتے کہ ہم سن لیتے، سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعت پڑھتے، یہ سب گیارہ رکعتیں ہوئیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر زیادہ ہو گئی، اور آپ کا جسم مبارک بھاری ہو گیا، تو آپ سات رکعتیں وتر پڑھتے اور سلام پھیرنے کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے۔صحیح ابن ماجہ1191 7 رکعت اور چھٹی رکعت میں تشہد۔ حضرت عائشہ رضی اللہ فرماتی ہیں۔ أَنَّ عَائِشَةَ سُئِلَتْ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: «كُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ، فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ لِمَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَيَتَسَوَّكُ وَيَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يُصَلِّي سَبْعَ رَكَعَاتٍ، وَلَا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلَّا عِنْدَ السَّادِسَةِ، فَيَجْلِسُ وَيَذْكُرُ اللَّهَ وَيَدْعُو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے وتر کے بارے میہں پوچھا گیا ہے تو انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ سات رکعت وتر پڑھتے مگر چھٹی رکعت پر تشہد فرماتے تھے۔(صحیح ابن حبان2441) 5 رکعات،ان میں تشہد آخری رکعت پر حضرت عائشہ رضی اللہ بیان فرماتی ہیں۔ وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، قالا: حدثنا عبد الله بن نمير . ح، وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، " يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة، يوتر من ذلك بخمس، لا يجلس في شيء إلا في آخرها ". ‏‏‏‏ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعت پڑھتے پانچ ان میں سے وتر ہوتیں کہ بیٹھتے مگر ان کے آخر میں۔ )صحیح مسلم1720) اعتراض: اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ وتر پر بھی صلاۃ الیل کا اطلاق ہوا ہے کیونکہ چند روایات اس پر پیش کی جاتی ہیں۔ کچھ احادیث ملاحظہ ہوں جن سے ثابت ہوتاہے کہ پوری صلاۃ الیل پربھی وتر کا اطلاق ہواہے۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلاَةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: «صَلاَةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى» [صحيح البخاري 2/ 24] [امام مسلم روایت کرتے ہیں] عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ، وَمَنْ طَمِعَ أَنْ يَقُومَ آخِرَهُ فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ، فَإِنَّ صَلَاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ، وَذَلِكَ أَفْضَلُ»[صحيح مسلم 2/ 520] ان دونوں احادیث میں پوری صلاۃ اللیل پر وترکااطلاق ہواہے۔ جواب: گذارش ہے کہ غیر مقلدین نے 11 کا عدد ثابت کرنے کے لیے ہر اصول کی نفی ضرور کرنی ہے۔جس روایات سے وتر کا5،7،یا9 عدد ثابت ہوتا ہے۔اس کو یہ لوگ قیام الیل کے ضمن میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔بالفرض اگر وتر پر قیام الیل یا قیام الیل پر وتر کا اطلاق مان لیا جائے تو پھر ہماری پیش کردہ روایت میں 5،7،9 وتر پڑھنے کا طریقہ کار ہے وہ آپ کے وضع کردہ اصول کو غلط ثابت کرتا ہے۔ان روایت میں یہ ثابت ہے کہ 9 رکعات میں آخری رکعت میں تشہد کیا،7رکعات وترمیںتشہد آخر رکعت میں،7 رکعات میں چھٹی رکعت میں تشہد،5 رکعات میں تشہد آخری رکعت پر ۔ اب پیش کردہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات تو آپ کے اعتراض اور دعوی دونوں کے برخلاف ہیں۔مزید یہ بھی کہ ان روایات میں تو جس طرح 9،یا7یا6یا5 عدد وتر اور اس کا طریقہ کار ہے وہ بھی موصوف کے موقف کے خلاف ہے کیونکہ اول تو موصوف کا دعوی ہے کہ مسنون تراویح 8 اور 3رکعت ہے۔جبکہ ان روایت میں تو وتر کی تعداد 5،6،7،9 ایک ہی سلام کے ساتھ ثابت ہے اور اگر ان وتر والی رکعات سے قیام الیل کی دلیل لینی ہے تو پھر ان رکعات کے پڑھنے کا طریقہ کار ہی آپ کے خلاف ہے۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ کفایت اللہ سنابلی کی پیش کردہ روایت سے 11 رکعت تراویح مسنون ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ رات کی نماز کی تعداد؟ یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ نبی کریمﷺ کی رات کی نماز چاہے رمضان ہو یا غیر رمضان وہ کتنی ہوتی تھی؟ تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کفایت اللہ سنابلی کی پیش کردہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو 11 رکعت سے زیادہ نہ پڑھنے کی روایت ہے اس پر دیگر صحابہ کرام نے مختلف روایات بیان کی ہیں۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں 13 رکعت کی نماز ثابت ہے جس میں نہ تو عشاء کی نماز شامل ہے اور نہ ہی فجر سے قبل 2 رکعات سنت۔اس پر روایت پر گمان کے طور پر کوئی حکم لگانا یا قیاس کرنا غیر مقلدین حضرات کے اپنے ہی منہج کے خلاف ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں روایت ہے کہ جس میں آقا کریمﷺ سے کوئی معین تعداد کی نماز کی نفی ہوتی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرسے مروی ہے۔ حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت عقبة بن حريث ، قال: سمعت ابن عمر يحدث، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا رايت ان الصبح يدركك فاوتر بواحدة "، فقيل لابن عمر: ما مثنى مثنى؟ قال: ان تسلم في كل ركعتين. ‏‏‏ترجمہ:‏ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو دو رکعت ہے پھر جب تجھے معلوم ہو کہ صبح آ پہنچی تو ایک رکعت وتر پڑھ لے۔“ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ دو دو رکعت کے کیا معنی ہیں؟ انہوں نے کہا: ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتا جائے۔صحیح مسلم1763 اس مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ رات سے لے کر صبح تک قیام الیل میں نبی کریم ﷺکو جتنا وقت بھی میسر ہوتا اس میں 2،2 رکعات کر کےنماز پڑھتے،اور ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرتے۔اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ وقت میسر کے تحت قیام اللیل کی ادائیگی میں رکعات کا اضافہ ہوتا رہتا،جن صحابہ نے جو دیکھا اس کو بیان کر دیا۔مگر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ سے علی الاطلاق8یا 11 کا تعین کرنا اور پھر اس تعداد کو اپنے مسلکی حمایت میں ہی مسنون کہنے پر بضد ہونا مناسب عمل نہیں۔ [صحیح مسلم رقم الحدیث 1763 میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کا یہ حصہ کہ " فإذا رايت ان الصبح يدركك فاوتر بواحدة پھر جب تجھے معلوم ہو کہ صبح آ پہنچی تو ایک رکعت وتر پڑھ لے"بھی بہت اہم ہے کیونکہ یہ روایت اس بات کی بھی وضاحت کر رہی ہے کہ ایک رکعت وتر پڑھنا کن معنوں اور کس پس منظر میں ہے،اس کی مزید تفصیل علامہ فقیر محمد جہلمی صاحب کی 3رکعات وتر والی کتاب کی تحقیق میں پیش کی جائیگی۔ان شاء اللہ۔] یہ بات یاد رہے کہ مسنون تراویح کی تعداد کا تعیین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوتا ہے کیونکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیل القدر صحابی ہونے کی حیثیت سے ان افعال کا زیادہ مشاہدہ رکھتے تھے اور انہی کے فیصلہ پر دیگر صحابہ کرام نے اتفاق کیا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے صحیح اسانید سے 20 رکعت تراویح ثابت ہے۔ پھر جس تابعی یا تبع تابعی نے رات کےنوافل میں اضافہ کیا ،انہوں نے 20 رکعت کو مسنون مان کر ہی اس پر نوافل زائدہ کی ادائیگی کی جس کہ وجہ علامہ عینی نے البنایہ اور دیگر علماء نے پیش کی ہے۔ اس تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ ایک تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ایک طرق کو پیش کر کے دیگر روایات کو نظر انداز کرنا علمی خیانت ہے۔پھر دیگر روایات سے جو رکعات اور افعال ثابت ہوئے اس پر غیر مقلدین حضرات کا بالکل ہی عمل نہیں ہے۔کفایت اللہ سنابلی صاحب نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ والی حدیث پر پیش کیے جانے والے احتمالات کے جوابات میں بہت زور لگایا مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
×
×
  • Create New...