Jump to content

Aquib Rizvi

اراکین
  • کل پوسٹس

    81
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    8

پوسٹس ںے Aquib Rizvi کیا

  1. صحابہ کرام کا ذکر ہو تو خاموش رہنا

     

     

    امام الائمہ حافظ عبدالرزاق بن ہمام صنعانی م211ھ رحمه الله فرماتے ہیں

     

    أخبرنا أبو علي إسماعيل، ثنا أحمد، ثنا عبد الرزاق، أنا معمر، عن ابن طاووس، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا ذكر أصحابي فأمسكوا، وإذا ذكر القدر فأمسكوا، وإذا ذكر النجوم فأمسكوا»

     

    ( كتاب الأمالي في آثار الصحابة لعبد الرزاق الصنعاني :- 51 )

     

    ترجمہ :- طاؤوس بن کیسان ( تابعی ) رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب میرے صحابہ کا تذکرہ ہو تو خاموش رہنا ، جب ستاروں کا ذکر ہو تو خاموش رہنا اور جب تقدیر کے مسئلے کا ذکر ہو تو خاموش رہنا ” 

     

    میں ( راقم الحروف ) کہتا ہوں یہ سند صحیح ہے ماسوائے اس کے کہ یہ روایت مرسل ہے

     

    مگر امام طاوؤس بن کیسان رحمہ اللہ کی مراسیل عند الآئمۃ الحدیث کم از کم حسن درجہ کی ہوتی ہیں

     

    ﴿ مقدمة تحقيق المراسيل ص 7 ﴾

     

    نیز یہ کہ اس حدیث کے کئی شواہد و متابعات بھی ہیں جو اس حدیث کو مزید تقویت دیتے ہیں

     

    درج ذیل کتب میں یہ حدیث مختلف اسانید سے مروی ہے

     

     

    ( كتاب حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة 4/108 )

    ( كتاب التمهيد - ابن عبد البر - ت بشار 4/62 )

    ( كتاب مساوئ الأخلاق للخرائطي ص350 )

    ( كتاب المعجم الكبير للطبراني 2/96 )

    ( كتاب شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة 1/142 )

    ( كتاب المعجم الكبير للطبراني 10/198 )

    ( كتاب القضاء والقدر - البيهقي ص291 )

    ( كتاب الإبانة الكبرى - ابن بطة 3/239 )

    ( كتاب أصول السنة لابن أبي زمنين ص266 )

    ( كتاب الترغيب والترهيب لقوام السنة 1/367 )

    ( كتاب مسند الحارث = بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث 2/748 )

    ( ثلاثة مجالس من الأمالي 2/191 )

    ( تاريخ جرجان :- 315 )

     

    اس کے علاوہ بھی دیگر کتب احادیث میں یہ حدیث مختلف اسانید سے مذکور ہے سلفیوں کے محدث اعظم شیخ محمد ناصر الدین البانی نے بھی اس حدیث کی تحسین کی ہے

     

    ( كتاب سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها 1/75 )

     

     

    ھذا ما عندی والعلم عند الله

     

    خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین

    20221023_112423.jpg

  2. امام محمد باقر ابن علی علیہما السلام اور تعویذ 

     

    امام محمد باقر علیہ السلام سے باسند صحیح ثابت ہے کہ آپ وہ تعویذ جس میں قرآن مجید لکھا ہوا ہو اسکو گلے میں لٹکانا جائز سمجھتے تھے ۔

     

    الإمام أبو بكر بن أبي شيبة م235ھ رحمه الله فرماتے ہیں :

     

    حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ حَسَنٍ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ «أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا أَنْ يَكْتُبَ الْقُرْآنَ فِي أَدِيمٍ ثُمَّ يُعَلِّقُهُ»

     

    امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے والد محترم امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اس بات میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے کہ قرآن مجید کو چمڑے میں لکھا جائے اور پھر اسکو گلے میں لٹکایا جائے .

     

    ( كتاب المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت 5/44 )

     

    میں (راقم الحروف) کہتا ہوں اس اثر کی سند_صحیح ہے

     

    سند کے رجال کی تحقیق

     

    ① پہلے راوی خود امام ابن ابی شیبہ ہیں جو بالاتفاق ثقہ حافظ صاحب تصانیف ہیں ۔

     

    ( تقريب التهذيب :- 3575 )

     

    ② عبيد الله بن موسى العبسي یہ بھی ثقہ راوی ہے ۔

     

    ( تقريب التهذيب :- 4361 )

     

    ③ الحسن بن صالح الثوري یہ بھی ثقہ فقیہ عابد راوی ہے ۔

     

    ( سير أعلام النبلاء 7/362 )

     

    ④ إمام من أئمة المسلمين وعالم جليل وعابد فاضل من ذرية الحسين بن علي بن أبي طالب جعفر بن محمد الصادق بالاتفاق ثقہ مامون اولاد علی بن ابی طالب علیہ السلام ۔

     

    ( سير أعلام النبلاء 6/255 )

     

    اس تفصیل سے ثابت ہوا یہ اثر صحیح ہے ۔ سید شہداء امام حسین علیہ السلام کے پوتے امام محمد باقر علیہ السلام قرآنی تعویذ کو جائز سمجھتے تھے ۔ والحمدللہ 

     

     محمد عاقب حسین

    musannaf ibn abi shaibah 7_0000.jpg

    20220928_153059.jpg

  3. امام ملا علی قاری الحنفی رحمہ اللہ تعالی مشہور حسن صحیح حدیث کے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے علی رضی اللہ عنہ پر سب کیا اس نے مجھ پر سب کیا کے تحت فرماتے ہیں 

    یہ حدیث اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ مولا علی رضی اللہ عنہ پر "سب" کرنا کفر ہے 

     

    20220924_215439.jpg

    content (1).png

  4. شہادت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام 

     

    امام المحدثین حافظ ابو الفرج عبدالرحمن ابن الجوزی م597ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

     

    امام حسن مجتبیٰ ابن علی المرتضیٰ علیہما السلام کی شہادت 5 ربیع الاول بمطابق 50ھ میں ہوئی .

     

    یہی تاریخ شہادت امام جلال الدین سیوطی م911ھ رحمہ اللہ نے بھی نقل کی اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں .

     

    28 صفر المظفر شیعوں کے نزدیک ہے اہلسنت کے نزدیک نہیں

     

    خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین

    00_158184_0000.jpg

    20220925_114937.jpg

    FB_IMG_1667188071940.jpg

    FB_IMG_1667188075495.jpg

  5. امام شمس الدین ابوبکر قرطبی اندلسی مالکی م671ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں

    اسرائیلیات میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اکیلے کھانا تناول نہیں فرماتے تھے، جب کھانا حاضر ہوتا تو آپ کسی کو بھیجتے جو پوچھتا کہ آپ کے ساتھ کون کھانا کھاۓ گا ؟ تو وہ ایک دن ایک آدمی کو ملا ، جب وہ

    آپ کے ساتھ کھانے پر بیٹھا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے فرمایا: بسم اللہ پڑھو، آدمی نے کہا: میں نہیں جانتا کہ اللہ کون ہے؟ آپ نے اسے فرمایا: میرے کھانے سے نکل جا، جب وہ نکل گیا تو آپ پر جبرئیل امین علیہ السلام نازل ہوۓ ، انہوں نے آپ کو کہا: الله عزوجل فرماتا ہے کہ وہ اس کو اس کی ساری عمر اس کے کفر کے باوجود رزق دیتارہا اور آپ نے ایک لقمہ کا بخل کیا ،تو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر یشان حال نکلے اس حال میں کہ اپنی چادر کوکھینچ رہے تھے اور فرمایا: لوٹ آ ، اس نے کہا: میں نہیں لوٹوں گا یہاں تک کہ تو مجھے خبر دے کہ تو مجھے بغیر کسی سبب کے کیوں واپس لوٹا رہا ہے؟ آپ نے اس کو معاملہ کے بارے میں خبر دی ۔ تو اس نے کہا: یہ کریم پروردگار ہے، میں اس پر ایمان لایا ، اور وہ داخل ہوا اور اس نے بسم اللہ پڑھی اور حالت ایمان میں کھانا کھایا۔

    20220916_094254.jpg

  6. On 5/28/2022 at 1:55 PM, Aquib Rizvi said:

    20220528_115446.thumb.jpg.69bc3fff12ffa25d5b1b0a01195722ca.jpg

     

    اس کو امام دیلمی رحمہ اللہ نے مسند الفردوس میں روایت کیا اور امام دیلمی سے اس کو باسند شیخ الاسلام حافظ ابن حجرعسقلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور امام سیوطی رحمہ اللہ نے نقل کیا

     

    قال: أنا حمد بن نصر أنا الميداني نا محمد بن يحيى العاصمي نا أحمد بن إبراهيم البعولي نا أبو علي بن الأشعث، نا سريج بن عبد الكريم، نا جعفر بن محمد بن جعفر بن محمد الحسيني أبو الفضل في كتاب "العروس" نا الوليد بن مسلم، نا محمد بن راشد، عن مكحول عن معاذ بن جبل رضي الله عنه قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "ذكر الأنبياء من العبادة وذكر الصالحين كفارة الذنوب وذكر الموت صدقة، وذكر النار من الجهاد وذكر القبر يقربكم من الجنة وذكر القيامة يباعدكم من النار، وأفضل العبادة ترك الحيل، ورأس مال العالم ترك الكبر، وثمن الجنة ترك الحسد، والندامة من الذنوب التوبة الصادقة"

     

    ( كتاب زهر الفردوس 4/538/39 )

     

    ( كتاب الزيادات على الموضوعات 2/762 )

     

    ترجمہ :- حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انبیاء کا ذکر عبادت ہے صالحین کا ذکر گناہوں کا کفارہ ہے موت کا ذکر صدقہ ہے اور جہنم کا ذکر جہاد میں سے ہے اور قبر کا ذکر تمہیں جنت کے قریب کردیتا ہے اور قیامت کا ذکر تمہیں جہنم سے دور کر دیتا ہے بہترین عبادت چالوں ( حیلے بہانوں ) کا ترک کرنا ہے، دنیا کا سرمایہ تکبر کو ترک کرنا ہے اور جنت کی قیمت حسد کا ترک کرنا ہے اور گناہوں پر ندامت سچی توبہ ہے

     

     

    ➊ : جعفر بن محمد بن جعفر بن محمد الحسيني أبو الفضل متھم بالوضع ہے

     

    اس کے بارے میں امام ابو عبداللّہ حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں

     

    "وضع الحديث على الثقات"

     

    یہ ثقہ راویوں پر احادیث گھڑتا ہے

     

    ( المدخل إلى الصحیح :- 31 )

     

     

    ➋ : محمد بن محمد بن الأشعث أبو الحسن الكوفي 

     

    یہ رافضی احادیث گھڑنے والا راوی ہے

     

    امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس نے کتاب العلویات کو گھڑا ہے

     

    ( سؤالات السهمي :- 52 )

     

    امام ابن عدی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں میں نے اس سے ایک نسخہ لکھا جو تقریباً ایک ہزار روایات پر مشتمل تھا اور وہ ساری مناکیر ( یعنی باطل ) ہیں پھر آگے فرماتے ہیں اور اس پر اس نسخہ کو گھڑنے کا الزام ہے پھر فرماتے ہیں مجھے اس نسخے میں موجود روایات کی کوئی اصل نہیں ملی

     

    ( الكامل لابن عدي 6/351 ) 

     

    لہذا ثابت ہوا یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے 

     

     

    اس روایت کو امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے بھی موضوع قرار دیا کیونکہ آپ اس کو اپنی کتاب الزیادات علی الموضوعات میں لائے جس کے مقدمے میں آپ نے شرط لگائی ہے کہ آپ اس میں وہ موضوع روایات لائیں گے جو ابن الجوزی رحمہ اللہ الموضوعات میں نہیں لائے 

     

    ( كتاب الزيادات على الموضوعات 2/762 و مقدمة الكتاب ص31 ) 

     

    اس روایت کو امام ابن عراق الکنانی رحمہ اللہ نے بھی موضوع قرار دیا 

     

    ( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة 2/396 )

     

     

    لہذا اس روایت کی نسبت نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف کرنا حلال نہیں 

     

     

    فقط واللہ و رسولہٗ اعلم باالصواب

     

    خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی

     

     

     

    20220820_111612.jpg

    20220816_172329.jpg

    20220820_121622.jpg

    20220820_121938.jpg

    20220820_122444.jpg

    20220820_123149.jpg

  7. On 7/18/2022 at 8:25 PM, Aquib Rizvi said:

    حدیث ﴿ جب میت کو غسل دیا جاتا ہے تو قرآن مجید اس کے سرہانے کھڑا رہتا ہے اور جب میت کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو قرآن مجید منکر نکیر اور میت کے درمیان حائل ہو جاتا ہے ﴾ کی مکمل تحقیق

     

    مکمل روایت اصل متن کے ساتھ درج ذیل ہے

     

    حضرت عبادة بن الصامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم میں سے جب کوئی شخص رات كو بيدار ہو تو بلند آواز سے قرأت کرے کیونکہ وہ اپنى تلاوت سے سرکش شیاطین اور فاسق جنات بھگا رہا ہوتا ہے فضاء اور گھر میں رہنے والے فرشتے اس کی نماز کے ساتھ نماز پڑھتے اور اس کی قرأت کو غور سے سنتے ہیں اور گزرنے والى رات آئندہ آنے والى رات کو یہ کہتے ہوئے وصیت کرکے جاتى ہے کہ تو بھى اس ( قرآن پڑھنے والے ) کو رات کى اسى گھڑى میں بیدار کرنا اور اس پر ہلکى رہنا چنانچہ جب اس کی وفات کا وقت ہوتا ہے تو قرآن کریم آتا ہے اور جب تک اس کے گھر والے اسے غسل دے رہے ہوتے ہیں قرآن کریم اس شخص کے سرہانے کھڑا رہتا ہے جیسے ہی گھر والے اس کے غسل وکفن سے فارغ ہوتے ہیں تو قرآن کریم آتا ہے اور اس شخص کے کفن اور سینے كے درمیان جاگزیں ہوجاتا ہے پھرجب اسے دفن کیا جاتا ہے اور منکر نکیر ( دو خاص فرشتوں کے نام ) اس کے پاس آتے ہیں تو قرآن کریم نکل کر میت اور ان فرشتوں کے درمیان حائل ہوجاتا ہے وہ فرشتے قرآن كريم سے کہتے ہیں ہمارے سامنے سے ہٹ جاؤ تاکہ ہم اس سے سوال و جواب کر سکیں تو قرآن کریم جواب میں کہتا ہے نہیں بخدا میں اس سے اس وقت تک نہیں ہٹوں گا جب تک ميں اسے جنت میں نہ داخل کرا دوں اور اگر تمہیں اس شخص کے بارے میں اللہ تعالى کى طرف سے کوئی حکم دیا گیا ہے تو تم اس حکم کو پورا کر گزرو پھر قرآن كريم اس میت کی طرف دیکھ کر کہتا ہے کیا تم مجھے پہچانتے ہو تو وہ کہتا ہے نہیں تب وہ قرآن اس سے کہتا ہے میں وہى قرآن تو ہوں جو تجھے رات كو جگائے رکھتا تھا ( تہجد میں بیدار ہو کر تم میرى تلاوت کیا کرتے تھے ) اور تمہیں دن بھر پیاسا رکھتا تھا اور تجھے تیرى شہوت سے روکے رکھتا تھا اور تیرے کانوں اور تیری آنکھوں کو ( غلط کاموں سے ) روکتا تھا سو تو مجھے دوستوں میں سچا دوست اور بھائیوں میں سچا بھائی پائے گا تجھے خوشخبرى ہو کہ منکر نکیر کے سوال و جواب کے بعد تمہیں کوئى غم اور پریشانى نہیں ہوگى پھر قرآن کریم اوپر اللہ تعالی كى طرف جائے گا اور اللہ تعالى سے اس کے لیے بستر اور چادر مانگے گا تو الله تعالى اس کے لیے بستر چادر جنت کے نور کا ايک چراغ اور جنت کی یاسمین ( چنبیلی ) عنايت كيے جانے کا فرشتوں كو حكم فرمائیں گے چنانچہ حکم کى تعمیل میں ایک ہزار آسمانی مقرب فرشتے ان چیزوں کو اٹھا کر لائیں گے ایسے میں قرآن کریم ان فرشتوں سے پہلے اس ميت كے پاس پہنچ جائے گا اور اس سے کہے گا تجھے میرے یہاں سے جانے کے بعد كوئى گھبراہٹ تو نہیں ہوئی ( میں یہاں سے جانے کے بعد ) مسلسل اللہ تعالى سے تیرے بارے میں سفارش کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالی نے تیرے لیے بستر چادر اور جنت کے نور کا چراغ اور جنت کی یاسمین ( چنبیلی ) عنايت كيے جانے کا حکم دے دیا پھر فرشتے اس ميت کو اوپر اٹھاتے ہیں اور اس كے لیے بستر بچھاتے ہیں اور اوڑھنى ( چادر ) میت کی پاؤں کی جانب رکھ دیتے ہیں اور یاسمین ( چنبیلی ) اس کے سینے کے پاس رکھ دیتے ہیں پھر اس ميت کو دائیں کروٹ پر لٹاتے ہیں اور وہ فرشتے اس کے پاس چلے جاتے ہیں یہ مردہ ان فرشتوں کو جاتا ہوا برابر دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ آسمان میں گم ہو جاتے ہیں پھر قرآن کریم میت کے لیے اوپر جاتا ہے تو قبر کے قبلہ کى جانب کو پانچ سو سال کی مسافت کے برابر کشادہ کردیا جاتا ہے یا جتنا اللہ تعالى کشادہ فرمانا چاہیں اتنى کشادہ کر دى جاتى ہے پھر قرآن کریم اس یاسمین ( چنبیلی ) كو اٹھا کر اس میت کے ناک کے نتھنوں کے پاس رکھ دیتا ہے ( تاکہ مسلسل وہ یاسمین کى خوشبو سے محظوظ ہوتا رہے ) پھر وہ قرآن کریم اس میت کے گھر والوں کے پاس ہر روز ایک یا دو دفعہ جاتا ہے اور ان کی خیر خبر اس میت کے پاس لاتا ہے اور اس کے گھر والوں کے لیے بھلائی کی دعا کرتا رہتا ہے اگر اس میت کى اولاد میں کوئى قرآن کریم سیکھ ليتا ہے تو قرآن كريم آكر اس ميت كو اس بات کی خوشخبری سناتا ہے اور اگر اس میت کے پسماندگان برے ہوں تب بھى روزانہ ایک یا دو مرتبہ قرآن کریم ان کے پاس آکر ان کے حال پر کڑھتا اور روتا رہتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت کے صور پھونکے جانے تک جارى رہتا ہے۔

     

    اس اثر کو باسند درج ذیل کتب میں روایت کیا گیا

     

    ❶ التهجد وقيام الليل لابن أبي الدنيا رقم الحدیث :- 30

    ❷ كتاب المتفق والمفترق رقم الحدیث :- 1513 

    ❸ كتاب مسند الحارث رقم الحدیث :- 730

    ❹ كتاب أخلاق أهل القرآن رقم الحدیث :- 90

    ❺ كتاب فضائل القرآن لابن الضريس رقم الحدیث :- 115

     

    گزشتہ کتب میں یہ روایت جن اسناد کے ساتھ نقل کی گئی ہے ان کی تحقیق

     

    ❶ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا دَاوُدُ أَبُو بَحْرٍ ، عَنْ صِهْرٍ لَهُ يُقَالُ لَهُ : مُسْلِمُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالا : " .......

     

    یہ سند ضعیف ہے کیونکہ سند میں " أبو بحر داود بن راشد الطفاوي " لين الحدیث ہے اس سند کے بقیہ رجال ثقہ صدوق ہیں

    ( التقريب التهذيب :- 1789 )

     

    ❷ أخبرنا بسر بن عبد الله الفاتني والقاضي أبو العلاء الواسطي قالا أخبرنا أحمد بن جعفر بن حمدان بن مالك القطيعي حدثنا بشر بن موسى حدثنا أبو عبد الرحمن المقرئ حدثنا رجل من أهل كرمان يقال له داود أبو بحر ح وقال أبو العلاء داود أبو يحيى والصواب أبو بحر وأخبرنا علي بن محمد بن علي الإيادي أخبرنا أحمد بن يوسف بن خلاد العطار حدثنا الحارث بن محمد التميمي حدثنا أبو عبد الرحمن المقرئ حدثنا داود أبو بحر عن صهر له يقال له مسلم بن أبي مسلم عن مورق العجلي عن عبيد ابن عمير الليثي قال قال عبادة بن الصامت رضي الله عنه

    ان دونوں اسناد میں بھی أبو بحر داود بن راشد الطفاوي کا ضعف موجود ہے

     

    ❸ حدثنا أبو عبد الرحمن المقرئ , ثنا داود أبو بحر , عن صهر , له يقال له مسلم بن مسلم , عن مورق العجلي , عن عبيد بن عمير الليثي قال: قال عبادة بن الصامت: "

    اس سند میں بھی داؤد موجود ہے لہذا یہ بھی ضعیف ہے

     

    ❹ أخبرنا أبو علي بن مسلمة , حدثكم أبو الحسن الحمامي , إملاء من لفظه , نا أبو القاسم عبد الله بن الحسن النحاس , أنا أبو بكر محمد بن القاسم بن بشار النحوي , نا محمد بن يونس الكديمي , نا يونس بن عبيد الله العنبري , نا داود بن يحيى الكرماني , عن مسلم بن شداد , عن عبيد الله بن عمير , عن عبادة بن الصامت صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:

    یہ سند تو ضعیف جداً ہے کسی کھاتے میں نہیں اس میں سب سے بڑا ضعف " محمد بن يونس الكديمي " ہے جس پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے . نیز سند مقلوب بھی ہے . مثلاً داؤد بن راشد کی جگہ راوی کی غلطی سے داؤد بن یحییٰ آگیا اسی طرح ایک دو اور مقامات پر بھی سند مقلوب ہے

    ( ميزان الاعتدال :- 8353 )

     

    ❺ أخبرنا أحمد، قال: حدثنا محمد، قال: أخبرنا عمرو بن مرزوق، أخبرنا داود أبو بحر الكرماني، عن مسلم بن أبي مسلم، عن مورق العجلي، أنه كان يحدث عن عبيد بن عمير الليثي، أنه سمع عبادة بن الصامت، يقول: " ....

    اس سند میں بھی داؤد متفرد ہے جس کا ضعف بیان کیا جاچکا ہے

     

    ان تمام اسناد کی تحقیق کے بعد یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس روایت کو بیان کرنے میں " أبو بحر داود بن راشد الطفاوي " متفرد ہے اس کا کوئی متابع ہماری تحقیق میں نہیں اور راوی لین الحدیث ہے اور ایسے راوی کا تفرد آئمہ قبول نہیں کرتے جیسا کہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے فرمایا

    ( شرح سنن أبي داود للعيني 3/423 )

     

    البتہ اس روایت کا ایک ضعیف مرفوع شاہد موجود ہے ملاحظہ ہو

     

    حدثنا سلمة بن شبيب، قال: أخبرنا بسطام بن خالد الحراني، قال: أخبرنا نصر بن عبد الله أبو الفتح، عن ثور بن يزيد، عن خالد بن معدان، عن معاذ بن جبل رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صلى منكم من الليل فليجهر بقراءته؛ فإن الملائكة تصلي بصلاته، وتسمع لقراءته، وإن مؤمني الجن الذين يكونون في الهواء، وجيرانه معه في مسكنه يصلون بصلاته، ويستمعون قراءته، وإنه ليطرد بجهر قراءته عن داره، وعن الدور التي حوله فساق الجن، ومردة الشياطين، وإن البيت الذي يقرأ فيه القرآن عليه خيمة من نور يقتدي بها أهل السماء كما يقتدون بالكوكب الدري في لجج البحار، وفي الأرض القفر فإذا مات صاحب القرآن رفعت تلك الخيمة فينظر الملائكة من السماء فلا يرون ذلك النور فتنعاه الملائكة من سماء إلى سماء فتصلي الملائكة على روحه في الأرواح، ثم تستقبل الملائكة الحافظين اللذين كانا معه، ثم تستغفر له الملائكة إلى يوم يبعث، وما من رجل تعلم كتاب الله، ثم صلى ساعة من الليل إلا أوصت به تلك الليلة الماضية الليلة المستقبلة أن تنبهه لساعته، وأن تكون عليه خفيفة، وإذا مات وكان أهله في جهازه يجيء القرآن في صورة حسنة جميلة واقفا عند رأسه حتى يدرج في أكفانه فيكون القرآن على صدره دون الكفن، فإذا وضع في قبره، وسوي عليه، وتفرق عنه أصحابه أتاه منكر، ونكير فيجلسانه في قبره يجيء القرآن حتى يكون بينه وبينهما فيقولان له: إليك حتى نسأله، فيقول: لا ورب الكعبة إنه لصاحبي، وخليلي ولست أخذله على حال فإن كنتما أمرتما بشيء فامضيا لما أمرتما، ودعاني مكاني فإني لست أفارقه حتى أدخله الجنة إن شاء الله، ثم ينظر القرآن إلى صاحبه، فيقول له: اسكن فإنك ستجدني من الجيران جار صدق ومن الأخلاء خليل صدق، ومن الأصحاب صاحب صدق، فيقول له: من أنت؟، فيقول: أنا القرآن الذي كنت تجهر بي، وتخفيني، وكنت تحبني فأنا حبيبك فمن أحببته أحبه الله ليس عليك بعد مسألة منكر، ونكير من غم، ولا هم، ولا حزن، فيسأله منكر، ونكير، ويصعدان، ويبقى هو والقرآن، فيقول: لأفرشنك فراشا لينا، ولأدثرنك دثارا حسنا جميلا جزاء لك بما أسهرت ليلك، وأنصبت نهارك، قال، فيصعد القرآن إلى السماء أسرع من الطرف فيسأل الله ذلك له فيعطيه الله ذلك، فينزل به ألف ألف من مقربي السماء السادسة فيجيئه القرآن، ويقول: هل استوحشت؟ ما زلت مذ فارقتك أن كلمت الله تبارك وتعالى حتى أخرجت لك منه فراشا، ودثارا، ومصباحا وقد جئتك به فقم حتى تفرشك الملائكة، قال: فتنهضه الملائكة إنهاضا لطيفا، ثم يفسح له في قبره مسيرة أربع مائة عام ثم يوضع له فراش بطانته من حرير أخضر حشوه المسك الأذخر، ويوضع له مرافق عند رجليه ورأسه من السندس، والإستبرق، ويسرج له سراجان من نور الجنة عند رأسه ورجليه يزهران إلى يوم القيامة، ثم تضجعه الملائكة على شقه الأيمن مستقبل القبلة، ثم يؤتى بياسمين من ياسمين الجنة ، ويصعد عنه، ويبقى هو والقرآن فيأخذ القرآن الياسمين فيضعه على أنفه غضا فيستنشقه حتى يبعث، ويرجع القرآن إلى أهله فيخبره بخبرهم كل يوم وليلة، ويتعاهده كما يتعاهد الوالد الشفيق ولده بالخبر فإن تعلم أحد من ولده القرآن بشره بذلك، وإن كان عقبه عقب السوء دعا لهم بالصلاح والإقبال "

    ترجمہ :- حضرت سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے اس گھر پر نور کا ایک خیمہ ہوتا ہے جس سے آسمان والے رہنمائی حاصل کرتے ہیں جس طرح ٹھاٹھیں مارتے سمندر اور چٹیل میدانوں میں موتی جیسے تارے سے راہنمائی کی جاتی ہے ، جب تلاوت کرنے والا فوت ہو جاتا ہے تو وہ نوری خیمہ اٹھا لیا جا تا ہے چنانچہ فرشتے آسمان سے دیکھتے ہیں تو انہیں وہ نور نظر نہیں آتا پھر فرشتے اسے ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر لے جاتے اور اس کی روح پر درود بھیجتے ہیں پھر قیامت تک اس کے لیے استغفار کرتے ہیں اور جو بھی مومن کتاب اللہ سیکھتا ہے اور پھر رات کی کسی گھڑی میں نماز پڑھتا ہے تو وہ رات اگلی رات کو وصیت کرتی ہے کہ اس مومن کو وقت مقررہ پر بیدار کر دینا اور اس کے لیے آسان ہو جانا، جب وہ فوت ہو جاتا ہے تو اس کے

    گھر والے اس کے کفن کی تیاری میں مشغول ہوتے ہیں جبکہ قرآن کریم انتہائی حسین صورت میں اس کے سر کے پاس آکر ٹھہر جاتا ہے پھر کفن کے نیچے اور سینے کے اوپر آ جاتا ہے اور جب اسے قبر میں رکھ کر اس پر مٹی برابر کر دی جاتی اور دوست احباب واپس چلے جاتے ہیں تو نکیرین آکر اسے قبر میں بٹھا دیتے ہیں اتنے میں قرآن مجید مؤمن اور فرشتوں کے درمیان حائل ہو جاتا ہے فرشتے کہتے ہیں ایک طرف ہو جاؤ تا کہ ہم اس سے سوال کریں وہ کہتا ہے رب کعبہ کی قسم ایسا ہر گز نہ ہو گا کیونکہ یہ میرا مصاحب اور میرا دوست ہے میں اسے کسی حال میں اکیلا نہ چھوڑوں گا البتہ اگر تمہیں کسی بات کا حکم ہے تو تم اس پر عمل کرو اور مجھے میری جگہ پر رہنے دو کیونکہ میں اسے جنت میں پہنچانے سے پہلے اس سے جدا نہیں ہوں گا پھر قرآن پاک اپنے دوست کی طرف دیکھ کر کہتا ہے میں وہی قرآن ہوں جسے تو کبھی بلند آواز سے اور کبھی آہستہ پڑھتا تھا اور مجھ سے محبت رکھتا تھا پس مجھے تجھ سے محبت ہے اور جس سے میں محبت کرتا ہوں اللہ عزوجل بھی اسے محبوب بنالیتا ہے نکیرین کے سوالات کے بعد تجھ پر کوئی خوف ہے نہ کوئی غم نکیرین سوالات کرنے کے بعد تشریف لے جاتے ہیں اب مومن ہوتا ہے اور قرآن کریم کلام مجید فرماتا ہے میں تیرے لیے نرم و آرام وہ بستر بچھاؤں گا اور حسین و جمیل چادر عطا کروں گا کیونکہ تو رات بھر میرے لیے جاگتا اور دن بھر میرے لیے مشت اٹھاتا تھا پھر قرآن پاک پلک جھپکنے سے بھی جلدی آسمان کی طرف پرواز کر جاتا ہے اور رب ذوالجلال سے بستر اور چادر کا سوال کرتا ہے تو وہ اسے عطا کر دیے جاتے ہیں پھر چھٹے آسمان کے ایک ہزار مقرب فرشتے اس کے ساتھ اترتے ہیں اور قرآن کریم مومن سے دریافت فرماتا ہے کہ تو میری عدم موجودگی میں وحشت زدہ تو نہیں ہوا میں رب ذوالجلال کے پاس تیرے لیے بستر اور چادر لینے گیا تھا اور وہ لے بھی آیا ہوں لہذا کھڑا ہوجا تاکہ فرشتے بستر بچھادیں، پھر فرشتے اسے انتہائی نرمی سے اٹھاتے ہیں اور اس کی قبر 400 سال کی مسافت تک وسیع کر دی جاتی ہے پھر اس کے لیے اذفر خوشبو لگا سبز ریشم بچھایا جاتا ہے اور اس کے سر اور پاؤں کی جانب باریک اور موٹے ریشم کے تکیے لگائے جاتے ہیں اس کے سر اور قدموں کی طرف جنتی نور کے دو چراغ جلائے جاتے ہیں جو قیامت تک جلتے رہیں گے پھر فرشتے اسے دائیں پہلو پر قبلہ رخ کرکے اور اسے جنتی یاسمین دے کر پرواز کر جاتے ہیں اور پھر قیامت تک وہ اور قرآن رہ جاتے ہیں قرآن مجید شب و روز اس کی خبر اس کے گھر والوں کو دیتا ہے اور اس کے ساتھ اس طرح رہتا ہے جس طرح مہربان باپ اپنے بچے کے ساتھ رہتا ہے اگر اس کی اولاد میں سے کسی نے قرآن پاک پڑھ لیا تو قرآن کریم اس کو خوشخبری سناتا ہے اور اگر اس کے پیچھے اس کی اولاد میں سے کوئی برا ہو تو قرآن مجید اس کی اصلاح اور بہتری کے لیے دعا کرتا ہے

    ( كتاب مسند البزار رقم الحدیث :- 27655 :- وسندہ ضعیف )

     

    اس حدیث کے ضعف کی وجہ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے بیان فرمائی

     

    هذا حديث غريب في إسناده جهالة وإنقطاع

    یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں مجہول راوی بھی ہے اور انقطاع بھی ہے

    ( كتاب شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور ص132 )

     

    شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا

     

    قلت: وفيه مع انقطاعه نصر بن عبد الله ما عرفته، وبقية رجاله ثقات

    میں کہتا ہوں اس کی سند میں انقطاع کے ساتھ ساتھ نصر بن عبداللہ ہے جسے میں نہیں جانتا اور باقی راوی ثقہ ہیں

    ( نتائج الافکار 2/20 )

     

    امام نور الدین ہیثمی رحمہ اللہ نے فرمایا

     

    رواه البزار وقال خالد: ابن معدان لم يسمع من معاذ، ... قلت: وفيه من لم أجد من ترجمه

    اس کو امام بزار نے روایت کیا اور کہا خالد بن معدان نے معاذ بن جبل رضي الله عنه سے سماع نہیں کیا اور میں ( ہیثمی ) کہتا ہوں اس کی سند میں ایسا راوی ہے جس کا ترجمہ مجھے نہیں ملا

    ( كتاب مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 2/254 )

     

    لہذا مکمل تحقیق کے بعد خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اثر عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ ضعیف ہے کیونکہ اس کو بیان کرنے میں " أبو بحر داود بن راشد الطفاوي " کا تفرد ہے اور یہ لین الحدیث ہے جیسا کہ پیچھے بیان کیا گیا اور اس اثر کا مرفوع شاہد جو کہ حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہے وہ بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں نصر بن عبدالله مجہول الحال ہے اور ابن معدان اور حضرت معاذ بن جبل کے درمیان انقطاع ہے

     

    لہذا یہ روایت مرفوعاً و موقوفاً ضعیف ہے اس کو دونوں طرح فضائل کے باب میں بیان کرنا درست ہے مرفوعاً و موقوفاً مگر زیادہ احتیاط اس کو موقوفاً بیان کرنے میں ہے کیونکہ اس میں نسبت نبی ﷺ کی طرف نہیں ہو رہی

     

    فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب

     

    خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی

     

     

    مؤرخہ 17 ذو الحجہ 1443ھ

    فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا درج ذیل شرائط کے ساتھ

     

     

    ❶ أَنْ يَكُونَ الضَّعْفُ غَيْرَ شَدِيدٍ، فَيَخْرُجُ مَنِ انْفَرَدَ مِنَ الْكَذَّابِينَ وَالْمُتَّهَمِينَ بِالْكَذِبِ، وَمَنْ فَحُشَ غَلَطُهُ، نَقَلَ الْعَلَائِيُّ الِاتِّفَاقَ عَلَيْهِ

    اس حدیث کا ضعف شدید نہ ہو یعنی اس میں منفرد کاذبین متھم بالکذب (متروک) اور فحش غلطیاں کرنے والے (منکر الحدیث) راوی نہ ہوں امام صلاح الدین علائی رحمہ اللہ نے اس شرط پر محدثیں کا اتفاق لکھا ہے

     

    ❷ أَنْ يَنْدَرِجَ تَحْتَ أَصْلٍ مَعْمُولٍ بِهِ

     

    اس حدیث کی اصل شریعت میں موجود ہو

     

    ❸ أَنْ لَا يُعْتَقَدَ عِنْدَ الْعَمَلِ بِهِ ثُبُوتُهُ، بَلْ يُعْتَقَدُ الِاحْتِيَاطُ 

     

    اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اس حدیث کے ثابت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے بلکہ احتیاطاً عمل کیا جائے۔

    یہ تینوں شرائط امام جلال الدین سیوطی نے شیخ الاسلام و المسلمین امیر المؤمنین فی الحدیث حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانی رضی اللہ عنہ سے نقل کرکے لکھیں ہیں یہی مذہب ہے علامہ علاؤ الدین حصکفی٬ ابن عابدین شامی٬ ابن دقیق العید٬ امام جلال الدین سیوطی٬ امام ابن ھمام٬ علامہ عبد الحئی لکھنوی رحمهم الله وغیرہ کا

     

    ( كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ص351 )

    ( كتاب الجواهر والدرر في ترجمة شيخ الإسلام ابن حجر 2/954 )

     

    اور شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے شرائط مقررہ کی رعایت کرتے ہوئے ضعیف حدیث پر عمل کرنے والے کے لئے ایک نہایت اہم اور قابلِ لحاظ بات یہ بھی بیان کی

     

    وأن لا يشهر بذلك، لئلا يعمل المرء بحديث ضعيف، فيشرع ما ليس بشرع، أو يراه بعض الجهال فيظن أنه سنة صحيحة

    ضعیف حدیث پر عمل کرنے والا شخص اس ضعیف حدیث کی تشہیر نہ کرتا پھرے تاکہ کوئی دوسرا انسان ضعیف حدیث پر عمل نہ کرے یا اس چیز کو شریعت سمجھ نہ بیٹھے جو فی الواقع شریعت نہیں ہے یا اس طرح اس کو عمل کرتا دیکھ کر بعض جاہل لوگ یہ نہ گمان کر لیں کہ وہ صحیح سنت ہے

    ( تبيين العجب بما ورد في فضل رجب ص23 )

     

     نوٹ :- ضعیف حدیث کو فضائل کے باب میں قبول کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں آئمہ کرام کے 4 مختلف بڑے مذاہب ہیں ہمیں ان چاروں میں سے جو أصح معلوم ہوا ہم نے اس کو اختیار کیا کسی کو بھی دلائل کے ساتھ ہمارے مؤقف سے اختلاف کرنے کا حق حاصل ہے

     

    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

     

    ضعیف حدیث کو بیان کرنے کی شرط

     

    امام ابو عمرو تقی الدین ابن صلاح م643ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں

     

    إذا أردْتَ رِوَايةَ الحديثِ الضعيفِ بغَيْرِ إسْنادٍ فَلاَ تَقُلْ فيهِ: ((قَالَ رسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - كَذا وكَذا))، وما أشْبَهَ هَذا مِنَ الألفَاظِ الجازِمةِ بأنَّهُ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ ذَلِكَ ، وإنَّمَا تَقُولُ فيهِ: ((رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - كَذَا وكَذَا، أوْ بَلَغَنا عَنْهُ كَذا وكَذا، أوْ وَرَدَ عَنهُ، أوْ جَاءَ عَنهُ، أوْ رَوَى بَعْضُهُمْ))، ومَا أشْبَهَ ذَلِكَ وهَكَذا الْحُكْمُ فيما تَشُكُّ في صِحَّتِهِ وضَعْفِهِ، وإنَّمَا تَقُولُ: ((قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -))، فيما ظَهَرَ لَكَ صِحَّتُهُ بطريقِهِ الذي أوْضَحْنَاهُ أوَّلاً، واللهُ أعلمُ

    جب تم کوئی ضعیف حدیث بغیر سند کے بیان کرنا چاہو تو اس میں یوں مت کہو “قال رسول اللہ ﷺ كذا وكذا“ (کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ایسا فرمایا ہے) یا اس کے مشابہ ایسی تعبیر جس میں اس بات کا جزم ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو فرمایا ہے اور تم تو اس میں صرف یہ کہو گے کہ ”روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم كذا وكذا“ (کہ رسول اللہ ﷺ سے یوں یوں منقول ہے) یا “بلغنا عنه كذا وكذا“ (کہ رسول اللہ ﷺ سے ہمیں اس اس طرح کی بات پہونچی ہے) یا ”ورد عنه” يا ”جاء عنه” (کہ آپ ﷺ سے یہ بات وارد ہے ) یا ”روی بعضھم” (کہ بعض لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات روایت کی ہے) اور اس کے مشابہ الفاظ اور یہی حکم ہے ان احادیث کے متعلق کہ جن کی صحت وضعف میں آپ کو شک ہو اور ”قال رسول اللہ ﷺ” ( جیسی جزم کی تعبیر ) تو صرف اس صورت میں آپ کہیں گے جب کہ حدیث کی صحت آپ پر اس طریقے سے واضح ہو جاۓ جس کو ہم نے پہلے بیان کیا ہے، واللہ اعلم ۔

     

    ( كتاب مقدمة ابن الصلاح معرفة أنواع علم الحديث ت الفحل والهميم ص211 )

    ( كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ص350 )

     

    اس اصول کو امام نووی٬ امام جلال الدین سیوطی٬ امام سراج الدین بلقینی٬ امام زین الدین عراقی٬ امام ابن کثیر٬ امام ابن ملقن٬ امام بدرالدین زرکشی رحمهم الله جیسے جلیل القدر محدثین کرام نے بھی بیان کیا ہے

    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    خلاصہ کلام یہ کہ ضعیف حدیث پر عمل کرتے وقت اوپر بیان کردہ شرائط کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور ضعیف حدیث کو بیان کرتے وقت بھی اوپر بیان کردہ شرط کو ملحوظ خاطر رکھا جائے

     

     

    فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب

     

    خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی

    20220731_141959.jpg

    20220731_142603.jpg

    20220731_143055.jpg

    20220731_134703.jpg

    20220731_140033.jpg

    20220731_141250.jpg

    20220731_140547.jpg

    IMG-20220727-WA0127.jpg

  8. IMG-20220730-WA0051.thumb.jpg.e11ab18486f0b4349fea24d9cb3f5c4c.jpg

     

    اگــر تمـام لـوگــ محـبـت علـی رضـی اللہ تعـالـیٰ عنـہٗ پـر جمـع ہـوجـاتے تـو اللہ ﷻ جہنـم کـی تخـلـیـق ہــی نـہ کـرتـا

     

     

    یہ روایت اکثر روافض کی طرف سے پیش کی جاتی ہے اور بعض اہلسنت کے لبادے میں چھپے ہوئے نیم رافضی بھی بیان کرتے ہیں مولا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کی فضیلت میں جو غُلُو پر مبنی ہے آج ہم اس روایت کی اپنی تحریر میں تحقیق پیش کریں گے

     

    امام ابو شجاع دیلمی (م 509ھ) رحمہ اللہ نے فرمایا

     

    5135 - عن ابْن عَبَّاس لَو اجْتمع النَّاس على حب عَليّ بن أبي طَالب لما خلق الله تَعَالَى النَّار

    [ الفردوس بمأثور الخطاب 3/373 ]

     

    الفردوس بمأثور الخطاب کے نسخہ میں اسناد حذف ہیں اس کو امام ابو منصور دیلمی (م 558ھ) سے باسند امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا

     

    293 - الديلمي أخبرنا أبي أخبرنا أبو طالب الحسيني حدثنا أحمد بن محمد بن عمر الفقيه الطبري حدثنا *أبو المفضل محمد بن عبد الله الشيباني* حدثنا ناصر بن الحسن بن علي حدثنا محمد بن منصور عن عيسى بن طاهر اليربوعي حدثنا أبو معاوية عن ليث عن طاوس عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لو اجتمع الناس على حب علي بن أبي طالب لما خلق الله النار

    ترجمہ :- ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر لوگ علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی محبت پر جمع ہوجاتے تو اللہ تعالیٰ جہنم کو پیدا نہ کرتا

    [ الزيادات على الموضوعات 1/260 ]

     

     

    اس طرح علامہ الموفق بن أحمد الخوارزمی (م 584ھ) نے بھی اپنی کتاب میں اس کو باسند نقل کیا

     

    وأخبرني شهردار هذا اجازة ، أخبرنا أبي ، حدثنا أبو طالب الحسيني ، حدثنا أحمد بن محمد بن عمر الفقيه الطبري ، حدثني *أبو الفضل محمد بن عبد الله الشيباني ،* حدثنا ناصر بن الحسين بن علي ، حدثنا محمد بن منصور ، عن يحيى بن طاهر اليربوعي ، حدثنا أبو معاوية ، عن ليث بن أبي سليم ، عن طاوس ، عن ابن عباس قال : قال رسول الله 9 : لو اجتمع الناس على حب علي بن أبي طالب لما خلق الله النار

    ( مناقب أمير المؤمنين علي بن أبي طالب 1/68 رقم 39 )

     

    یہ روایت عندالتحقیق منگھڑت ہے دونوں اسناد میں علت ایک ہی ہے اور امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ روایت منگھڑت ہے کیونکہ آپ نے اس کو "زیادات علی الموضوعات" میں نقل کیا ہے جو کہ موضوع احادیث پر مشتمل کتاب ہے جیسا کہ خود امام سیوطی رحمہ اللہ نے مقدمے میں فرمایا :- 1/31

     

    امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اس روایت کو موضوع قرار دیا حضرت مولائے کائنات اور اہلبیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کی فضیلت میں گھڑی گئی موضوع روایات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں

     

    وكذلك قوله لو اجتمع الناس على حب علي لم تخلق النار

    اور اسی طرح ( یہ روایت بھی موضوع ) کہ اگر لوگ حب علی رضی اللہ عنہ پر جمع ہوجاتے تو جہنم کی تخلیق نہ ہوتی

    ( كتاب المنتقى من منهاج الاعتدال ص318 )

    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

     

    اس کـی سنـد میـں درج ذیـل عـلـتـیـں ہیـں

     

    ➊ أبو طالب الحسيني المحسن بن الحسين بن أبي عبد الله محمد المعروف بابن النصيبي یہ مجہول الحال ہے

    ➋ أبو المفضل محمد بن عبد الله الشيباني یہ احادیث گھڑنے والا راوی ہے اور اس سند میں آفت یہی راوی ہے 

     

     

    اســں راوی کـے حـوالـے سـے ائـمـہ کا کـلام

     

     

    ① امام جرح و تعدیل حافظ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا کلام اس کے حوالے سے نقل کرتے ہیں

     

    قال الخطيب: كتبوا عنه بانتخاب الدارقطني، ثم بأن كذبه فمزقوا حديثه، وكان يعد يضع الأحاديث للرافضة

    محدثین نے امام الدارقطنی رحمہ اللہ کو منتخب کرکے اس کی روایات کو لکھا پھر جب اسکا جھوٹا ہونا واضح ہوگیا تو انہوں نے اس کی روایات کو پھاڑ دیا اور ان کو باطل کرار دیا اور کہا کہ یہ روافض کے لیے احادیث گھڑتا ہے 

    [ ميزان الاعتدال رقم :- 7802 ]

     

     

    ② شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے عبيد الله بن أحمد الأزهري کا قول اس کے حوالے سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا یہ دجال اور کذاب راوی ہے

    اور حمزة بن محمد بن طاهر کا قول نقل کیا کہ انہوں نے کہا یہ احادیث گھڑنے والا ہے

    [ لسان الميزان 5/231 ]

     

     

    ③ امام ابن عراق رحمہ اللہ اس کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ یہ احادیث گھڑنے والا دجال ہے

    محمد بن عبد الله بن المطلب أبو الفضل الشيباني الكوفي عن البغوي وابن جرير دجال يضع الحديث

    [ تنزيه الشريعة المرفوعة رقم :- 166 ]

     

    کیونکہ یہ واضح ہو گیا کہ اس راوی نے اس روایت کو گھڑا ہے لہذا اور علتیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ورنہ اور علتیں بھی ہیں سند میں باقی شیعہ حضرات کی کتب میں یہ روایت کثرت سے موجود ہے ہم نے ثابت کیا کہ یہ روایت اہلسنت کے نزدیک من گھڑت ہے مولا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کے فضائل میں احادیث متواترہ وارد ہوئی ہیں اور کثرت سے احادیث صحیحہ آپ کے فضائل میں ہیں لہذا من گھڑت روایات بیان کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں

    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

     

    مولا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم جتنے فضائل کسی صحابی کے احادیث میں وارد نہیں ہوئے

     

    امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری م405ھ رحمہ اللہ اپنی سند صحیح کے ساتھ روایت کرتے ہیں

     

    سَمِعْتُ الْقَاضِيَ أَبَا الْحَسَنِ عَلِيَّ بْنَ الْحَسَنِ الْجَرَّاحِيَّ، وَأَبَا الْحُسَيْنِ مُحَمَّدَ بْنَ الْمُظَفَّرِ الْحَافِظِ، يَقُولَانِ: سَمِعْنَا أَبَا حَامِدٍ مُحَمَّدَ بْنَ هَارُونَ الْحَضْرَمِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ مَنْصُورٍ الطُّوسِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ: «مَا جَاءَ لِأَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْفَضَائِلِ مَا جَاءَ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ» 

     

    إمام الدنيا ثقة ثبت في الحديث احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نبی ﷺ کے کسی صحابی کے احادیث میں اتنے فضائل وارد نہیں ہوئے جتنے حضرت مولائے کائنات اسد اللہ الغالب امیر المؤمنین امام المتقین علی المرتضٰی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کے بارے میں ہوئے ہیں

    ( كتاب المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية - 4572 :- وسندہ صحیح )

     

     

     

    حسن صحیح اسانید کے ساتھ جتنے فضائل مولا کائنات علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے مروی ہیں اور کسی صحابی کے مروی نہیں

     

     

    خاتم الحفاظ امام الفقہاء والمحدثین حافظ جلال الدین سیوطی م911ھ رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں

     

    قال أحمد والنسائي وغيرهما : لم يرد في حق أحد من الصحابة بالأسانيد الجياد أكثر مما جاء في على؛ وكـأن السبب في ذلك أنه تأخر ، ووقع الاختلاف في زمانه، وكـثر محاربوه والخارجون عليه، فكان ذلك سببًا لانتشار مناقبه؛ لكثرة من كان يرويها من الصحابة ردا على من خـالفـه، وإلا فالثلاثة قبله لهم من المناقب ما يوازيه ويزيد عليه

    امام احمد بن حنبل اور امام احمد بن شعیب النسائی رحمهما الله اور دیگر آئمہ نے فرمایا کسی بھی صحابی کے جید اسانید کے ساتھ اتنے فضائل مذکور نہیں جتنے مولا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کے ہیں گویا اس کا سبب یہ ہے کہ ( مولا علی خلفاء ثلاثہ کے بعد تک حیات رہے ) آپکا زمانہ متاخر تھا اور اس زمانہ میں ( مسلمانوں کے درمیان ) اختلاف واقع ہوا اور آپ کے خلاف بغاوت کرنے والے اور جنگ کرنے والوں کی کثرت ہو گئی تھی آپکے مناقب کے پھیلنے کا یہی سبب تھا . کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کثرت سے آپ کی مخالفت کرنے والوں کے جواب میں آپ کے مناقب روایت کیا کرتے تھے ورنہ جہاں تک خلفاء ثلاثہ کے مناقب کا تعلق ہے تو وہ حضرت علی کے مناقب کے موازی بلکہ ان سے بھی زیادہ ہیں

    ( التوشيح على الجامع الصحيح 3/435 )

     

     

    حجۃ اللہ فی الارضین شیخ الاسلام والمسلمین امیر المؤمنین فی الحدیث حافظ ابن حجر عسقلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

     

    وكان سبب ذلك بغض بني أمية له، فكان كل من كان عنده علم من شيء من مناقبه من الصحابة يثبته

    ( مولا علی کے مناقب کا کثرت سے مروی ہونے ) کا سبب بنو امیہ کا آپ سے بغض رکھنا ہے تو جس بھی صحابی کو مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے مناقب میں سے جو معلوم ہوتا وہ اس کو ظاہر کرتے ( تاکہ لوگ بغض چھوڑدیں )

    ( كتاب الإصابة في تمييز الصحابة 4/465 )

     

     

     

    جس نے مولا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے محبت کی اس نے رسول اللہ ﷺ سے محبت کی جس نے مولا علی سے بغض رکھا اس نے رسول اللہ ﷺ سے بغض رکھا

     

    عن أمِّ سلمةَ قالتْ: أَشهدُ أنِّي سمعتُ رسولَ اللهِ يقولُ: «من أحبَّ علياً فقد أحبَّني، ومَن أحبَّني فقد أحبَّ اللهَ عزَّ وجلَّ، ومَن أَبغضَ علياً فقد أَبغَضَني، ومن أَبغَضَني فقد أَبغضَ اللهَ»

    ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں گواہی دیتی ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی۔ اور جس نے علی سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔“

     

    ( كتاب المعجم الكبير للطبراني 23/380 وسندہ حسن )

    ( كتاب المخلصيات 3/150 )

    ( كتاب مسند البزار = البحر الزخار 9/323 )

     

    [ حکم الحدیث :- حسن صحیح ]

     

     

    مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے محبت مؤمن کرے گا اور بغض منافق رکھے گا

     

    قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَيَّ أَنْ " لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِق "

    سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قسم ہے اس کی جس نے دانہ چیرا (پھر اس نے گھاس اگائی) اور جان بنائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عہد کیا تھا کہ ”نہیں محبت رکھے گا مجھ سے مگر مؤمن اور نہیں بغض رکھے گا مجھ سے مگر منافق۔“

     

    ( صحیح مسلم :- رقم الحدیث 240 )

    ( كتاب المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت :- رقم الحدیث 32064 )

    ( كتاب السنن الكبرى - النسائي - ط الرسالة :- رقم الحدیث :- 8431 )

     

    [ حکم الحدیث :- صحیح ]

     

     

     

                         خــلاصــہ کــــلام

                    

    پوری تحقیق کا حاصل کلام یہ ہوا کہ مولا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کے فضائل میں بے شمار صحیح اور حسن احادیث موجود ہیں لہذا آپ کے فضائل میں اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل میں صحیح اور حسن احادیث بیان کی جائیں تاکہ رافضیوں اور ناصبیوں کو ان عظیم ہستیوں کی ذات بابرکات پر طعن و تبراء کرنے کا موقع نہ ملے

     

    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

     

    فقــط واللہ ورسولــہٗ اعلـم بـالصـواب

     

    خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی

     

     

    ( مؤرخہ 16 ربیع الثانی 1442ھ ) 

     

    20220730_144119.jpg

    20220730_144639.jpg

    20220730_145234.jpg

    20220730_145707.jpg

    20220730_150155.jpg

    20220730_151116.jpg

    20220730_143036.jpg

    20220730_152807.jpg

    20220730_154244.jpg

    20220730_153849.jpg

    20220730_153319.jpg

  9. IMG-20220727-WA0132.thumb.jpg.ad3841b7e59d7e80f5686af6d1147d02.jpg

     

    آدمــی جب مـاں بـاپ کـے لیـے دعـا چـھـوڑ دیتـا ہے تـو اس کا رزق قطـع ہـو جـاتا ہے

     

     

    امام ابنِ جوزی رحمہ اللہ (م597ھ) نے فرمایا

     

    أَنْبَأَنَا زَاهِرُ بْنُ طَاهِرٍ أَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْبَيْهَقِيُّ أَنْبَأَنَا أَبُو عبد الله مُحَمَّد ابْن عبد الله الْحَاكِمُ أَنْبَأَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا *أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الشَّيْبَانِيُّ* حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَرِّيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عُتْبَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ النَوْفَلِيُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " 

    إِذَا تَرَكَ الْعَبْدُ الدُّعَاءَ لِلْوَالِدَيْنِ فَإِنَّهُ يَنْقَطِعُ عَلَى الْوَالِدِ الرِّزْقُ فِي الدُّنْيَا

     

    ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی بندہ اپنے والدین کے لئے دعا کرنا چھوڑ دے تو اس کا رزق دنیا میں اس سے منقطع ہو جائے گا

    [ كتاب الموضوعات لابن الجوزي 3/86 ]

     

     

    امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے امام حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ کی سند سے اس کو روایت کیا جو کہ امام حاکم کی تاریخ میں موجود ہے

     

    اسی طرح امام دیلمی رحمہ اللہ نے بھی اس کو امام حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ کی سند سے روایت کیا

    ( كتاب زهر الفردوس 1/621 )

     

    اسی طرح امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے بھی امام حاکم کی سند سے اس کو نقل کیا

    ( كتاب اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة 2/250 )

     

     

    [ موضوع مسلسل بخمس علل ]

     

     

    ① امام حاکم نیشاپوری کا شیخ أبو جعفر محمد بن أحمد الرازي ضعیف الحدیث ہے

    [ لسان الميزان :- 6380 ]

     

     

    ② العباس بن حمزة النيسابوري مجہول الحال ہے

     

    ③ احمد بن خالد الشيباني الجويباري یہ روایات گھڑنے والا کذاب خبیث راوی ہے اس کے بارے میں محدثین کا کلام ملاحظہ ہو

     

    ◉ امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے کہا جھوٹا ہے بلکہ جھوٹ گھڑنے میں اس کی مثال دی جاتی ہے

    [ ميزان الاعتدال 1/107 ]

    [ المغني في الضعفاء :- 322 ]

     

    ◉ امام بیہقی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں اس أحمد بن عبد الله الجويباري کو رسول اللہ ﷺ پر حدیث گھڑنے کے حوالے سے بہت اچھے سے جانتا ہوں اس نے نبی ﷺ پر ایک ہزار سے زائد احادیث گھڑی ہیں

    [ مسائل عبد الله بن سلام للبيهقي ص215 ]

     

    ◉ امام ابو نعیم اصفہانی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ گڑھتا ہے اس کی روایت ترک کردی جائیں

    [ المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم الأصفهاني 1/60 ]

     

    ◉ امام دارقطنی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں یہ جھوٹا ہے دجال ہے خبیث ہے یہ حدیث گڑھنے والا ہے اس کی روایت نہ لکھی جائے اور نہ انہیں بیان کیا جائے

    [ موسوعة أقوال الدارقطني ص69 ]

     

    ◉ صاحب مستدرک امام حاکم رحمہ اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں فرماتے ہیں یہ خبیث اور کذاب ہے اس نے کثیر روایات کو فضائل اعمال میں گڑھا ہے

    [ المدخل إلى معرفة الصحيح ص125 رقم :- 15 ]

     

    ◉ امام ابو حاتم بن حبان رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں یہ دجالوں میں سے دجال ہے اس کا ذکر کتابوں میں نہ کیا جائے سوائے اس پر جروحات نقل کرنے کے

    [ المجروحين لابن حبان 1/154 ]

     

    ◉ خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ان مشہور راویوں میں سے ایک ہے جو احادیث گھڑتے ہیں 

    [ الزيادات على الموضوعات 1/125 ]

     

    ◉ امام نسائی٬ امام ابن عدی٬ امام ابو یعلیٰ الخلیلی رحمہمُ اللہ تعالی علیہم اجمعین نے اسے جھوٹا اور روایات گھڑنے والا کہا

    [ لسان الميزان 1/299 ]

     

    ④ الحسن بن محمد البري مجہول ہے

    ⑤ يزيد بن عتبة بن المغيرة النوفلي بھی مجہول ہے 

     

    نیز یہ کہ امام ابن الجوزی٬ حافظ جلال الدین سیوطی٬ علامہ طاہر پٹنی٬ امام ابن عراق الکنانی٬ علامہ شوکانی رحمهم الله ان تمام نے اس روایت کو اپنی اپنی کتاب الموضوعات ( جھوٹی روایات پر مشتمل کتاب ) میں درج کیا اور کوئی تعاقب یا روایت کا دفاع نہیں کیا یعنی ان آئمہ کے نزدیک یہ روایت موضوع ہے

     

    ( كتاب الموضوعات لابن الجوزي 3/86 )

    ( كتاب اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة 2/250 )

    ( كتاب تذكرة الموضوعات للفتني ص202 )

    ( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة 2/282 )

    ( كتاب الفوائد المجموعة ص231 )

     

     

                   خــلاصـــــــہ کــــــــلام

                

     

    ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اس روایت سے استدلال کرنا قطعاً جائز نہیں کیونکہ یہ روایت موضوع ہے اس میں نسبت نبی ﷺ کی طرف جوڑی جا رہی ہے جو کہ حرام ہے مگر والدین کے لیے دعا کرنا یہ نصوص قطعیہ سے ثابت ہے یعنی قرآن میں حکم آیا ہے

     

    وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا ۚ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَـرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّـهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْـهَرْهُمَا وَقُلْ لَّـهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا ( سورۃ الاسراء :- 23 )

    اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو۔

     

    وَاخْفِضْ لَـهُمَا جَنَاحَ الـذُّلِّ مِنَ الرَّحْـمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَـمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِىْ صَغِيْـرًا (سورۃ الاسراء 24)

    اور ان کے سامنے شفقت سے عاجزی کے ساتھ جھکے رہو اور کہو اے میرے رب جس طرح انہوں نے مجھے بچپن سے پالا ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما۔

     

     

    اسی طرح ایک اور مقام پر ہے

     

    رَبَّنَا اغْفِرْ لِىْ وَلِوَالِـدَىَّ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ ( سورۃ ابراھیم :- 41 )

    اے ہمارے رب! مجھے اور میرے ماں باپ کو اور ایمانداروں کو حساب قائم ہونے کے دن بخش دے۔

     

     

    نبی ﷺ کا فرمان عالیشان ہے

     

    حدثنا يحيى بن ايوب ، وقتيبة يعني ابن سعيد وابن حجر ، قالوا: حدثنا إسماعيل وهو ابن جعفر ، عن العلاء ، عن ابيه ، عن ابي هريرة : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة، إلا من صدقة جارية، او علم ينتفع به، او ولد صالح يدعو له "

     

    ‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مر جاتا ہے آدمی تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ کا دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ تیسرے نیک بخت بچے کا جو دعا کرے اس کے لیے

    صحیح مسلم :- 4223 

     

    قرآن مجید کی آیات اور صحیح حدیث سے ثابت ہوا کے والدین کے لیے دعا کرنا حکم الٰہی ہے مگر اس قسم کی موضوع روایات کو بیان کرنا قطعاً جائز نہیں کیونکہ یہ نبی ﷺ پر جھوٹ ہے حضور ﷺ نے فرمایا حدیث متواتر میں ہے جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے

    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

     

    فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب

    خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی 

     

    🏻 پرانی تحریر ( مؤرخہ یکم ربیع الاوّل 1442ھ ) 

    20220729_115759.jpg

    20220729_120430.jpg

    20220729_120939.jpg

    20220729_121757.jpg

    20220729_122251.jpg

    20220729_122731.jpg

    20220729_123222.jpg

    20220729_123846.jpg

    20220729_124912.jpg

    20220729_144742.jpg

    20220729_145212.jpg

    20220729_171842.jpg

  10. IMG-20220727-WA0130.thumb.jpg.0e4f07fd607f350b38787cd6bce64767.jpg

     

     

     

    امام حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ نے فرمایا

     

    أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوبَ الْحَافِظُ، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الثَّقَفِيُّ، ثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَتْ لِي عَائِشَةُ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: «إِنِّي رَأَيْتُنِي عَلَى تَلٍّ وَحَوْلِي بَقَرٌ تُنْحَرُ» فَقُلْتُ لَهَا: لَئِنْ صَدَقَتْ رُؤْيَاكِ لَتَكُونَنَّ حَوْلَكَ مَلْحَمَةٌ، قَالَتْ: «أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّكَ، بِئْسَ مَا قُلْتَ» ، فَقُلْتُ لَهَا: فَلَعَلَّهُ إِنْ كَانَ أَمْرًا سَيَسُوءُكِ، فَقَالَتْ: «وَاللَّهِ لَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَفْعَلَ ذَلِكَ» ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدُ ذُكِرَ عِنْدَهَا أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَتَلَ ذَا الثُّدَيَّةِ، فَقَالَتْ لِي: «إِذَا أَنْتَ قَدِمْتَ الْكُوفَةَ فَاكْتُبْ لِي نَاسًا مِمَّنْ شَهِدَ ذَلِكَ مِمَّنْ تَعْرِفُ مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ» ، فَلَمَّا قَدِمْتُ وَجَدْتُ النَّاسَ أَشْيَاعًا فَكَتَبْتُ لَهَا مِنْ كُلِّ شِيَعٍ عَشَرَةً مِمَّنْ شَهِدَ ذَلِكَ قَالَ: فَأَتَيْتُهَا بِشَهَادَتِهِمْ فَقَالَتْ: «لَعَنَ اللَّهُ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ، فَإِنَّهُ زَعَمَ لِي أَنَّهُ قَتَلَهُ بِمِصْرَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "

    [التعليق - من تلخيص الذهبي] - على شرط البخاري ومسلم

    ترجمہ :- مسروق فرماتے ہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے مجھ سے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک ٹیلے پر ہوں اور میرے اردگرد گائے ذبح کی جا رہی ہیں میں نے کہا اگر آپ کا خواب سچا ہوا تو آپ کے ارد گرد خون ریزی ہو گی ام المومنین نے کہا تم نے جو تعبیر بتائی ہے میں اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں میں نے کہا ہو سکتا ہے کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے جو آپ کے لئے تکلیف دہ ہو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میری وجہ سے کوئی فتنہ برپا ہو اس سے مجھے یہ زیادہ عزیز ہے کہ مجھے آسمان سے زمین پر پھینک دیا جائے کچھ عرصے بعد ام المؤمنین کے پاس یہ تذکرہ ہوا کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے " ذوالثدیہ " کو قتل کر دیا آپ نے مجھے حکم دیا کہ جب تم کوفہ آؤ تو شہر کے جتنے لوگ اس معاملے میں شریک ہوئے جن کو تم پہچانتے ہو ان سب کے بارے میں مجھے مطلع کرنا جب میں کوفہ میں آیا تو میں نے لوگوں کو جماعت در جماعت پایا میں نے ام المؤمنین کی جانب خط لکھا کہ ہر جماعت میں سے دس آدمی اس میں شریک ہوئے ہیں آپ فرماتے ہیں میں ان کی گواہی بھی ام المؤمنین کے پاس لایا ام المؤمنین نے فرمایا اللہ کی لعنت ہو عمرو بن عاص پر اس نے مجھ سے دعوی کیا تھا کہ اس نے اسے ( ذوالثدیہ کو ) مصر میں قتل کیا ہے 

     

    امام حاکم فرماتے ہیں یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن شیخین نے اسکی تخریج نہیں کی تلخیص میں امام ذھبی نے بھی شیخین کی شرط پر صحیح کہا 

    ( المستدرك على الصحيحين للحاكم :- 6744 )

     

     

    شیعہ کا اس روایت سے استدلال

     

     

    ➊ صحابی رسول ﷺ عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ام المؤمنین سے جھوٹ بولا 

     

    ➋ ام المؤمنین نے صحابی رسول ﷺ پر لعنت کی 

     

    ➌ اگر صحابہ پر لعنت کرنا حرام٬ فسق٬ کفر اور گناہ ہے تو کیا یہ فتوی ام المؤمنین پر لگے گا یا فتویٰ غلط ہے ؟؟

     

     

                   الجواب وباللہ التوفیق

     

     

    ◉ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ پر لعنت کرنا اور حضرت عمرو بن عاص کا جھوٹ بولنا ثابت نہیں

     

    اسی روایت کو امام ابوبکر بن ابی شیبہ نے اپنی " المصنف " میں عالی سند سے روایت کیا

     

     

    حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ٬ عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: «رَأَيْتنِي عَلَى تَلٍّ كَأَنَّ حَوْلِي بَقَرًا يُنْحَرْنَ»، فَقَالَ مَسْرُوقٌ: إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ لَا تَكُونِي أَنْتَ هِيَ فَافْعَلِي، قَالَ: «فَابْتُلِيتُ بِذَلِكَ رَحِمَهَا اللَّهُ»

    ( كتاب المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت :- 30513 إسنادہ صحیح )

    ترجمہ :- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں میں نے اپنے آپ کو خواب میں ایک ٹیلے پر دیکھا اور میرے ارد گرد بہت سی گاۓ ذبح کی جارہی تھیں مسروق نے کہا اگر آپ کے اندر طاقت ہے کہ آپ وہ نہ ہوں تو ایسا ضرور کریں لیکن حضرت عائشہ اس میں مبتلا ہو گئی اللہ ان پر رحم فرمائے

     

    آپ دیکھ سکتے ہیں نہ تو اس روایت میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر ہے اور نہ ہی ان کا جھوٹ بولنے کا اور نہ ہی ان پر لعنت کا

     

    اعمش سے یہ روایت دو لوگ بیان کر رہے ہیں

     

    ➊ جرير بن عبد الحميد

    ➋ أبو معاوية الضرير

     

    اور محدثین کرام اور ناقدین حدیث و رجال نے اعمش سے روایت کرنے میں ابو معاویہ کو جریر پر مقدم اور ابو معاویہ کو جریر سے اعمش کی روایت میں اوثق قرار دیا ہے

     

    ① ایوب بن اسحاق کہتے ہیں میں نے امام یحیی بن معین اور احمد بن حنبل رحمهما الله سے ابو معاویہ اور جریر کے بارے میں پوچھا تو ان دونوں نے جواب دیا کہ ہمیں ابو معاویہ زیادہ محبوب ہیں اعمش کی روایت میں ( بنسبت جریر کے )

    قال أيوب بن إسحاق بن سافري سألت أحمد ويحيى عن أبي معاوية وجرير، قالا: أبو معاوية أحب إلينا يعنيان في الأعمش

     

    امام یحیی بن معین سے دوسرا قول بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا ابو معاویہ اعمش کی حدیث میں جریر سے زیادہ مضبوط ہے

    يحيى بن معين يقول: أبو معاوية أثبت من جرير في الأعمش

    ( كتاب تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية 2/305/6 )

     

     

    ② امیر المؤمنین فی الحدیث حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں ابومعاویہ اعمش کی حدیث میں میزان ہیں

    لأن أبا معاوية هو الميزان في حديث الأعمش

    ( كتاب فتح الباري لابن حجر 12/286 )

     

     

    ③ امام ذہبی فرماتے ہیں امام احمد سے امام اعمش سے روایت کرنے میں ابو معاویہ اور جریر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ابو معاویہ کو جریر پر مقدم کیا

    سئل أحمد عن أبي معاوية وجرير في الأعمش ، فقدم أبا معاوية

    ( سير أعلام النبلاء 9/74 )

     

     

    ان تمام تصریحات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جریر بن عبدالحمید کی روایت جس میں جھوٹ بولنے اور لعنت کرنے کا ذکر ہے وہ متن شاذ ہے اوثق کی مخالفت کی وجہ سے جب کہ ابو معاویہ کی روایت جس میں دونوں باتوں کا ذکر نہیں وہی محفوظ اور صحیح متن ہے

     

    شاذ حدیث کی تعریف اور اسکا ضعیف کی اقسام میں سے ہونا

     

    شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رضی اللہ عنہ شاذ حدیث کی تعریف فرماتے ہیں

     

    فإن خولف بأرجح منه: لمزيد ضبط، أو كثرة عدد، أو غير ذلك من وجوه الترجيحات، فالراجح يقال له: "المحفوظ" ومقابله، وهو المرجوح، يقال له: "الشاذ"

    پس اگر ثقہ راوی کی طرف سے کسی ایسے ارجح کی مخالفت کی جائے جو ضبط٬ یا کثرت عدد٬ یا اس کے علاوہ کسی اور وجوہ ترجیح میں اس سے راجح ہو تو راجح کی حدیث کو محفوظ اور اس کے مقابل یعنی مرجوح کی حدیث کو شاذ کہا جائے گا

     

    ( كتاب نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر - ت عتر ص71 )

     

    شاذ حدیث خبر مردود کی اقسام میں سے ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی اس کو خبر مردود کی اقسام میں ذکر کیا

     

     

    اصول حدیث کی ایک اور " كتاب تيسير مصطلح الحديث " میں محمود طحان فرماتے ہیں

     

    من المعلوم أن الشاذ حديث مردود، أما المحفوظ فهو حديث مقبول

    معلوم ہوا کہ شاذ حدیث مردود ( ضعیف ) ہے اور محفوظ حدیث مقبول ( صحیح ) ہے

    ( كتاب تيسير مصطلح الحديث ص124 )

     

     

    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ " جریر بن عبدالحمید " جوکہ ثقہ ہے اس نے اعمش سے روایت کرنے میں " ابو معاویہ " جو کہ اوثق ہے اعمش کی حدیث میں جریر سے اس کی مخالفت کی جس کی بنا پر " جریر بن عبدالحمید " کی روایت شاذ ( ضعیف ) ہوئی اور " ابو معاویہ " کی روایت محفوظ ( صحیح )

     

    ◉ اس روایت کو اپنے طریق سے امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی نقل کیا اس میں لعنت کے الفاظ تو ہیں لیکن شخص کا نام نہیں یعنی صراحت نہیں کہ کس پر لعنت کی نیز یہ کہ وہ سند بھی ضعیف ہے

     

    أخبرنا أبو عبد الله الحافظ أخبرنا الحسين بن الحسن بن عامر الكندي بالكوفة من أصل سماعه حدثنا أحمد بن محمد بن صدقة الكاتب قال: حدثنا عمر بن عبد الله بن عمر بن *محمد بن أبان بن صالح* قال: هذا كتاب جدي: محمد بن أبان فقرأت فيه حدثنا الحسن بن الحر قال: حدثنا الحكم بن عتيبة وعبد الله بن أبي السفر، عن عامر الشعبي، عن مسروق، قال: قالت عائشة: عندك علم من ذي الثدية الذي أصابه علي رضي الله عنه في الحرورية قلت لا قالت فاكتب لي بشهادة من شهدهم فرجعت إلى الكوفة وبها يومئذ أسباع فكتبت شهادة عشرة من كل سبع ثم أتيتها بشهادتهم فقرأتها عليها قالت: أكل هؤلاء عاينوه؟ قلت: لقد سألتهم فأخبروني أن كلهم قد عاينه قالت: *لعن الله فلانا فإنه كتب إلي أنه أصابهم بنيل مصر* ثم أرخت عينيها فبكت فلما سكتت عبرتها. قالت: رحم الله عليا لقد كان على الحق وما كان بيني وبينه إلا كما يكون بين المرأة وأحمائها

    ( كتاب دلائل النبوة للبيهقي 6/434/35 )

     

    سند میں موجود راوی " محمد بن أبان بن صالح " ضعیف الحدیث ہے اس کے ضعف پر محدثین کا اجماع ہے

    ( لسان الميزان :- 6354 )

     

    نیز یہ کہ جس شخص پر لعنت کی جا رہی ہے اس کا نام بھی مبھم ہے لہذا اس روایت سے کسی طرح بھی استدلال نہیں کیا جاسکتا

     

     

    خلاصہ کلام یہ ہوا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ پر لعنت کرنا اور ان کا سیدہ سے جھوٹ بولنا ثابت نہیں لہذا شیعہ کا اس روایت سے استدلال کرنا باطل ہے . اللہ رحم فرمائے امام ذہبی پر کہ انہوں نے ظاہری سند کو دیکھتے ہوئے صحت کا حکم لگا دیا متن پر توجہ نہیں دی جب کہ ہم اوپر خود ان کی آخری کتاب " سیر اعلام نبلاء " سے ثابت کر آئے کہ انہوں نے ابو معاویہ کا جریر پر مقدم ہونا امام احمد سے نقل کیا ہے

     

     

    فقط واللہ رسولہٗ اعلم باالصواب

     

    خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی

     

    مؤرخہ 10 شعبان المعظم 1443ھ

    20220728_093209.jpg

    20220728_093857.jpg

    20220728_094340.jpg

    20220728_095324.jpg

    20220728_100407.jpg

    20220728_095729.jpg

  11. IMG-20220727-WA0129.thumb.jpg.314031bb58b1f38907fbf52c603fab02.jpg

    ایکــ عـورت اپنـے سـاتـھ چـار لـوگـوں کـو جہنـم میـں لـے کـر جـائـے گــی

     

    یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بیان کی جاتی ہے

     

    إذا دخلت امرأة إلى النار أدخلت معها أربعة، أباها وأخاها وزوجها وولدها

    جب عورت جہنم میں داخل ہوگی تو اپنے ساتھ چار لوگوں کو جہنم میں لے کر جائے گی اپنے باپ کو اپنے بھائی کو اپنے شوہر کو اور اپنے بیٹے کو

     

    اسی طرح

     

    أربعة يُسألون عن حجاب المرأة: أبوها، وأخوها، وزوجها، وابنها

    چار لوگوں سے عورت کے حجاب کے متعلق سوال کیا جائے گا اس کے باپ سے اس کے بھائی سے اس کے شوہر سے اور اس کے بیٹے سے

    [ موضوع ]

     

    اس روایت کا کسی بھی معتبر یا مستند کتاب میں وجود نہیں یہی اس کے موضوع من گھڑت ہونے کے لئے کافی تھا مگر یہ نص قطعی اور صحیح احادیث کے بھی خلاف ہے

    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    یہ روایت نص قطعی اور شریعت کے اس اصول کے خلاف ہے کہ کوئی شخص دوسروں کے گناہوں کے عوض جہنم میں داخل ہو

     

    وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَيْـهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۚ

    اور جو شخص کوئی گناہ کرے گا تو وہ اسی کے ذمہ ہے، اور ایک شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ( سورۃ الانعام :- 164 )

     

    اسی طرح فرمان رسول ﷺ بھی ہے

     

              سنن ابن ماجه حدیث :- 2669

             

    حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو الاحوص ، عن شبيب بن غرقدة ، عن سليمان بن عمرو بن الاحوص ، عن ابيه ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في حجة الوداع:" الا لا يجني جان إلا على نفسه، لا يجني والد على ولده ولا مولود على والده"

    عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”خبردار! مجرم اپنے جرم پر خود پکڑا جائے گا، (یعنی جو قصور کرے گا وہ اپنی ذات ہی پر کرے گا اور اس کا مواخذہ اسی سے ہو گا) باپ کے جرم میں بیٹا نہ پکڑا جائے گا، اور نہ بیٹے کے جرم میں باپ“

    [ صحیح ]

     

    مذکور روایت کی تردید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ نوح اور لوط علیہما السلام کی بیویاں کافرہ تھی تو کیا ان کی وجہ سے نوح اور لوط علیہما السلام کو گناہ ملے گا ؟ نعوذ باللہ

    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

     

                         متفقـہ اصــول

                         

    آئمہ اور محدثین کا یہ متفقہ اصول ہے کہ جو بھی روایت اصول شریعت یا نص قطعی کے خلاف ہو اور تاویل کی گنجائش نہ ہو تو وہ موضوع ہے

     

    ① شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں

     

    ومِنها ما يُؤخَذُ مِن حالِ المروي كأنْ يكون مناقضاً لنصِّ القرآن أَو السُّنَّةِ المُتواتِرَةِ أَو الإِجماعِ القطعيِّ أَو صريحِ العَقْلِ حيثُ لا يَقْبلُ شيءٌ مِن ذلك التأويلَ

    موضوع حدیث کو اس کی حالت سے بھی پہچان لیا جاتا ہے جیسا کہ وہ قرآن کی نص یا سنت متواترہ یا اجماع قطعی یا صریح عقل کے اس طور پر خلاف ہو کہ وہ تاویل کو بلکل قبول نہ کرے

    [ نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر ص66 ]

     

     

    ② خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں

     

    أَنَّ مِنْ جُمْلَةِ دَلَائِلِ الْوَضْعِ أَنْ يَكُونَ مُخَالِفًا لِلْعَقْلِ بِحَيْثُ لَا يَقْبَلُ التَّأْوِيلَ وَيَلْتَحِقَ بِهِ مَا يَدْفَعُهُ الْحِسُّ وَالْمُشَاهَدَةُ أَوْ يَكُونُ مُنَافِيًا لِدَلَالَةِ الْكِتَابِ الْقَطْعِيَّةِ أَوِالسُّنَّةِ الْمُتَوَاتِرَةِ أَوِ الْإِجْمَاعِ الْقَطْعِيِّ أَمَّا الْمُعَارَضَةُ مَعَ إِمْكَانِ الْجَمْعِ فَلَا

    حدیث کے موضوع ہونے کے دلائل میں سے یہ بات شامل ہے کہ یہ عقل کے اس طرح خلاف ہو کہ اس کی توجیہ ممکن ہی نہ ہو اسی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ حدیث میں کوئی ایسی بات کہی گئی ہو جو حس و مشاہدے کے خلاف ہو اسی طرح حدیث اگر قرآن مجید کی قطعی دلالت یا سنت متواترہ یا اجماع قطعی کے منافی ہو تو وہ بھی موضوع حدیث ہو گی اور اگر تضاد کو دور کرنا ممکن ہو تو پھر ایسا نہ ہوگا

    [ تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 3/204 ]

     

     

    یہی بات امام احمد رضا خان فاضل بریلی رحمہ اللہ نے بھی فرمائی 

    [ فتویٰ رضویہ 5/460 ]

    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

     

                      خــلاصــــہ کـــــلام

                      

    اپنے اہل و عیال کو جہنم سے بچانا ہر انسان پر واجب ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے

    يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا قُـوٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا

    اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ ( سورۃ تحریم :- 6 )

     

     

    نبی ﷺ کا بھی فرمان عالیشان ہے

     

                سنن ابی داؤد حدیث :- 495 

            

    حدثنا مؤمل بن هشام يعني اليشكري، حدثنا إسماعيل، عن سوار ابي حمزة، قال ابو داود: وهو سوار بن داود ابو حمزة المزني الصيرفي، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مروا اولادكم بالصلاة وهم ابناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم ابناء عشر سنين، وفرقوا بينهم في المضاجع"

    عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو“

    [ صحیح ]

    لہذا اہل وعیال کو جہنم سے بچانے کے لئے اور شریعت کا پابند بنانے کے لیے بے اصل اور باطل روایات بیان کرنے کی کوئی حاجت نہیں نص قطعی اور احادیث صحیحہ موجود ہے 

     

    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

     

    فقـــــط واللہ ورسولــــــہٗ اعلـــم بـالـصــواب

     

    خـادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمـد عـاقـب حسیـن رضـوی

     

    🏻 پرانی تحریر ( مؤرخہ یکم محرم الحرام 1442ھ )

     

     

    20220727_130050.jpg

    20220727_125746.jpg

    20220727_125318.jpg

×
×
  • Create New...