Jump to content

Aquib Rizvi

اراکین
  • کل پوسٹس

    81
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    8

سب کچھ Aquib Rizvi نے پوسٹ کیا

  1. مسجد میں باتیں کرنے سے اعمال برباد یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے من تكلم بكلام الدنيا في المسجد أحبط الله أعماله أربعين سنة جو شخص مسجد میں دنیاوی باتیں کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے چالیس سال کے اعمال کو ضائع کر دے گا۔ امام صغانی٬ امام ملا علی قاری٬ محدث أبو طاہر پٹنی٬ علامہ شوکانی اور عجلونی اور علامہ محمد بن خلیل الحنفی رحمہم اللہ تعالی ان ساروں نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ( كتاب الموضوعات للصغاني ص39 ) ( كتاب تذكرة الموضوعات للفتني ص36 ) ( كتاب الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص338 ) ( كتاب الفوائد المجموعة ص24 ) ( كتاب كشف الخفاء ت هنداوي 2/285 ) ( كتاب اللؤلؤ المرصوع ص178 ) اس روایت کو امام احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ نے بھی فتویٰ رضویہ میں نقل کیا جو کہ ان کا تسامح ہے ( فتویٰ رضویہ 16/311 مسئلہ نمبر :- 149 ) نثار احمد خان مصباحی صاحب نے بھی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے مفتی حسان عطاری صاحب کی کتاب " تحقیق المعتمد في رواية الكذاب ودرجات السند " کی تقریظ میں اصل کتاب کا اسکین ساتھ دے دیا جائے گا انہوں نے ثابت کیا کہ اس پر وضع کا قرینہ ظاہر ہے جس کی وجہ سے یہ روایت موضوع ہے ... اور صاحب کتاب مفتی حسان عطاری صاحب نے بھی موافقت کی کوئی تعاقب نہیں کیا ( تحقیق المعتمد ص32/34 ) امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ وضع حدیث کے ایک قرینہ کا ذکر فرماتے ہیں وما به وعد عظيم او وعيد ... على حقير وصغيرة شديد یعنی جس میں کسی چھوٹے عمل پر عظیم بشارت ہو یا کسی چھوٹے گناہ پر شدید وعید کتاب کے محقق شیخ محمد بن علی بن آدم اثیوبی اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں وحاصل المعنى : أنه يعرف كون الحديث موضوعاً بالإفراط في الوعد العظيم على الفعل الحقير، والوعيد الشديد على الأمر الصغير، وهذا كثير في أحاديث القصاص خلاصہ کلام یہ کہ معلوم ہوا وہ حدیث موضوع ہوتی ہے جس میں حقیر ( چھوٹے ) عمل پر عظیم ( حد سے زیادہ ) بڑی وعد ( بشارت ) سنائی جائے اور اسی طرح چھوٹے ( گناہ ) پر شدید وعید سنائی جائے اور یہ قرینہ کثرت سے قصاص کی احادیث میں پایا جاتا ہے ( شرح ألفية السيوطي في الحديث ص293 ) اب یہ بات ایک عام انسان بھی بتا دے گا کہ مسجد میں کلام کرنے سے چالیس سال کے اعمال برباد ہو جانا یہ یقیناً چھوٹے گناہ پر بہت بڑی وعید ہے جو کہ وضع کی دلیل ہے. اسی وجہ سے آئمہ حدیث نے اس روایت کو بالجزم موضوع کہا اسی طرح اس روایت پر وضع حدیث کا دوسرا قرینہ بھی ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ اس روایت کا وجود کتب احادیث میں نہیں ہے علم حدیث کا مشہور قاعدہ ہے کے ہر وہ حدیث جس کا وجود کتب احادیث میں نہ ہو حفاظ کے سینوں میں نہ ہو اور وہ ایسے زمانے میں ظاہر ہو جب تدوین حدیث مکمل ہوچکی ہے تو وہ روایت موضوع کہلائے گی امام ابن الجوزی م597ھ رحمہ اللہ تعالیٰ موضوع حدیث کے قرائن بیان فرماتے ہیں إذا رأيت الحديث يباين المعقول أو يخالف المنقول أو يناقض الأصول فاعلم أنه موضوع جب تم کسی حدیث کو دیکھو کہ وہ معقول کے خلاف ہے یا منقول سے ٹکراتی ہے یا اصول سے مناقص ہے تو جان لو کہ وہ موضوع ہے امام ابن الجوزی کے اس بیانیہ کو محدثین نے قبول فرمایا لیکن فی الوقت ہمارا تعلق امام ابن الجوزی کے بیان کردہ تیسرے قرینہ سے ہے اصول سے مناقص ہونے کا مطلب امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں ومعنى مناقضته للأصول: أن يكون خارجا، عن دواوين الإسلام من المسانيد والكتب المشهورة امام سیوطی فرماتے ہیں اور مناقص اصول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ روایت اسلام کی مشہور کتب احادیث و مسانید سے خارج ہو . ( یعنی ان کتب میں موجود نہ ہو ) ( كتاب الموضوعات لابن الجوزي 1/106 ) ( كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 1/327 ) امام نور الدین ابن عراق الکنانی م963ھ رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں ما ذكره الإمام فخر الدين الرازي أن يروي الخبر في زمن قد استقرئت فيه الأخبار ودونت فيفتش عنه فلا يوجد في صدور الرجال ولا في بطون الكتب امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے جس چیز کا ذکر کیا وہ یہ ہے کہ حدیث اس زمانے میں روایت کی جائے یا ذکر کی جائے جب احادیث کا استقراء کیا جا چکا ہے اور تفتیش کے باوجود نہ محدثین کے سینوں میں ملے اور نہ کتب احادیث میں ( تو ایسی روایت موضوع ہوتی ہے ) ( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة 1/7 ) یہی اصول فی زمانہ بریلوی مکتبہ فکر ( اہلسنت و جماعت ) کے مشہور و معروف عالم مفتی محمد شریف الحق امجدی صاحب نے بھی بیان کیا ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں " اس روایت کے جھوٹے اور موضوع ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ کسی حدیث کی معتبر کتاب میں یہ روایت مذکور نہیں " ( فتویٰ شارح بخاری 1/307 ) لہذا اس اصول سے بھی یہ روایت منگھڑت ثابت ہوتی ہے والحمدللہ خلاصہ کلام یہ کہ ہم نے محدثین کا کلام بھی اس روایت کے تحت پیش کیا کہ انہوں نے اس کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا اور ہم میں وضع حدیث کے دو قرائن پر بھی اس روایت کو موضوع ثابت کیا لہذا اس روایت کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کرنا حرام ہے فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی مؤرخہ 22 ذو الحجہ 1443ھ
  2. حدیث ﴿ جب میت کو غسل دیا جاتا ہے تو قرآن مجید اس کے سرہانے کھڑا رہتا ہے اور جب میت کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو قرآن مجید منکر نکیر اور میت کے درمیان حائل ہو جاتا ہے ﴾ کی مکمل تحقیق مکمل روایت اصل متن کے ساتھ درج ذیل ہے حضرت عبادة بن الصامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم میں سے جب کوئی شخص رات كو بيدار ہو تو بلند آواز سے قرأت کرے کیونکہ وہ اپنى تلاوت سے سرکش شیاطین اور فاسق جنات بھگا رہا ہوتا ہے فضاء اور گھر میں رہنے والے فرشتے اس کی نماز کے ساتھ نماز پڑھتے اور اس کی قرأت کو غور سے سنتے ہیں اور گزرنے والى رات آئندہ آنے والى رات کو یہ کہتے ہوئے وصیت کرکے جاتى ہے کہ تو بھى اس ( قرآن پڑھنے والے ) کو رات کى اسى گھڑى میں بیدار کرنا اور اس پر ہلکى رہنا چنانچہ جب اس کی وفات کا وقت ہوتا ہے تو قرآن کریم آتا ہے اور جب تک اس کے گھر والے اسے غسل دے رہے ہوتے ہیں قرآن کریم اس شخص کے سرہانے کھڑا رہتا ہے جیسے ہی گھر والے اس کے غسل وکفن سے فارغ ہوتے ہیں تو قرآن کریم آتا ہے اور اس شخص کے کفن اور سینے كے درمیان جاگزیں ہوجاتا ہے پھرجب اسے دفن کیا جاتا ہے اور منکر نکیر ( دو خاص فرشتوں کے نام ) اس کے پاس آتے ہیں تو قرآن کریم نکل کر میت اور ان فرشتوں کے درمیان حائل ہوجاتا ہے وہ فرشتے قرآن كريم سے کہتے ہیں ہمارے سامنے سے ہٹ جاؤ تاکہ ہم اس سے سوال و جواب کر سکیں تو قرآن کریم جواب میں کہتا ہے نہیں بخدا میں اس سے اس وقت تک نہیں ہٹوں گا جب تک ميں اسے جنت میں نہ داخل کرا دوں اور اگر تمہیں اس شخص کے بارے میں اللہ تعالى کى طرف سے کوئی حکم دیا گیا ہے تو تم اس حکم کو پورا کر گزرو پھر قرآن كريم اس میت کی طرف دیکھ کر کہتا ہے کیا تم مجھے پہچانتے ہو تو وہ کہتا ہے نہیں تب وہ قرآن اس سے کہتا ہے میں وہى قرآن تو ہوں جو تجھے رات كو جگائے رکھتا تھا ( تہجد میں بیدار ہو کر تم میرى تلاوت کیا کرتے تھے ) اور تمہیں دن بھر پیاسا رکھتا تھا اور تجھے تیرى شہوت سے روکے رکھتا تھا اور تیرے کانوں اور تیری آنکھوں کو ( غلط کاموں سے ) روکتا تھا سو تو مجھے دوستوں میں سچا دوست اور بھائیوں میں سچا بھائی پائے گا تجھے خوشخبرى ہو کہ منکر نکیر کے سوال و جواب کے بعد تمہیں کوئى غم اور پریشانى نہیں ہوگى پھر قرآن کریم اوپر اللہ تعالی كى طرف جائے گا اور اللہ تعالى سے اس کے لیے بستر اور چادر مانگے گا تو الله تعالى اس کے لیے بستر چادر جنت کے نور کا ايک چراغ اور جنت کی یاسمین ( چنبیلی ) عنايت كيے جانے کا فرشتوں كو حكم فرمائیں گے چنانچہ حکم کى تعمیل میں ایک ہزار آسمانی مقرب فرشتے ان چیزوں کو اٹھا کر لائیں گے ایسے میں قرآن کریم ان فرشتوں سے پہلے اس ميت كے پاس پہنچ جائے گا اور اس سے کہے گا تجھے میرے یہاں سے جانے کے بعد كوئى گھبراہٹ تو نہیں ہوئی ( میں یہاں سے جانے کے بعد ) مسلسل اللہ تعالى سے تیرے بارے میں سفارش کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالی نے تیرے لیے بستر چادر اور جنت کے نور کا چراغ اور جنت کی یاسمین ( چنبیلی ) عنايت كيے جانے کا حکم دے دیا پھر فرشتے اس ميت کو اوپر اٹھاتے ہیں اور اس كے لیے بستر بچھاتے ہیں اور اوڑھنى ( چادر ) میت کی پاؤں کی جانب رکھ دیتے ہیں اور یاسمین ( چنبیلی ) اس کے سینے کے پاس رکھ دیتے ہیں پھر اس ميت کو دائیں کروٹ پر لٹاتے ہیں اور وہ فرشتے اس کے پاس چلے جاتے ہیں یہ مردہ ان فرشتوں کو جاتا ہوا برابر دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ آسمان میں گم ہو جاتے ہیں پھر قرآن کریم میت کے لیے اوپر جاتا ہے تو قبر کے قبلہ کى جانب کو پانچ سو سال کی مسافت کے برابر کشادہ کردیا جاتا ہے یا جتنا اللہ تعالى کشادہ فرمانا چاہیں اتنى کشادہ کر دى جاتى ہے پھر قرآن کریم اس یاسمین ( چنبیلی ) كو اٹھا کر اس میت کے ناک کے نتھنوں کے پاس رکھ دیتا ہے ( تاکہ مسلسل وہ یاسمین کى خوشبو سے محظوظ ہوتا رہے ) پھر وہ قرآن کریم اس میت کے گھر والوں کے پاس ہر روز ایک یا دو دفعہ جاتا ہے اور ان کی خیر خبر اس میت کے پاس لاتا ہے اور اس کے گھر والوں کے لیے بھلائی کی دعا کرتا رہتا ہے اگر اس میت کى اولاد میں کوئى قرآن کریم سیکھ ليتا ہے تو قرآن كريم آكر اس ميت كو اس بات کی خوشخبری سناتا ہے اور اگر اس میت کے پسماندگان برے ہوں تب بھى روزانہ ایک یا دو مرتبہ قرآن کریم ان کے پاس آکر ان کے حال پر کڑھتا اور روتا رہتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت کے صور پھونکے جانے تک جارى رہتا ہے۔ اس اثر کو باسند درج ذیل کتب میں روایت کیا گیا ❶ التهجد وقيام الليل لابن أبي الدنيا رقم الحدیث :- 30 ❷ كتاب المتفق والمفترق رقم الحدیث :- 1513 ❸ كتاب مسند الحارث رقم الحدیث :- 730 ❹ كتاب أخلاق أهل القرآن رقم الحدیث :- 90 ❺ كتاب فضائل القرآن لابن الضريس رقم الحدیث :- 115 گزشتہ کتب میں یہ روایت جن اسناد کے ساتھ نقل کی گئی ہے ان کی تحقیق ❶ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا دَاوُدُ أَبُو بَحْرٍ ، عَنْ صِهْرٍ لَهُ يُقَالُ لَهُ : مُسْلِمُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالا : " ....... یہ سند ضعیف ہے کیونکہ سند میں " أبو بحر داود بن راشد الطفاوي " لين الحدیث ہے اس سند کے بقیہ رجال ثقہ صدوق ہیں ( التقريب التهذيب :- 1789 ) ❷ أخبرنا بسر بن عبد الله الفاتني والقاضي أبو العلاء الواسطي قالا أخبرنا أحمد بن جعفر بن حمدان بن مالك القطيعي حدثنا بشر بن موسى حدثنا أبو عبد الرحمن المقرئ حدثنا رجل من أهل كرمان يقال له داود أبو بحر ح وقال أبو العلاء داود أبو يحيى والصواب أبو بحر وأخبرنا علي بن محمد بن علي الإيادي أخبرنا أحمد بن يوسف بن خلاد العطار حدثنا الحارث بن محمد التميمي حدثنا أبو عبد الرحمن المقرئ حدثنا داود أبو بحر عن صهر له يقال له مسلم بن أبي مسلم عن مورق العجلي عن عبيد ابن عمير الليثي قال قال عبادة بن الصامت رضي الله عنه ان دونوں اسناد میں بھی أبو بحر داود بن راشد الطفاوي کا ضعف موجود ہے ❸ حدثنا أبو عبد الرحمن المقرئ , ثنا داود أبو بحر , عن صهر , له يقال له مسلم بن مسلم , عن مورق العجلي , عن عبيد بن عمير الليثي قال: قال عبادة بن الصامت: " اس سند میں بھی داؤد موجود ہے لہذا یہ بھی ضعیف ہے ❹ أخبرنا أبو علي بن مسلمة , حدثكم أبو الحسن الحمامي , إملاء من لفظه , نا أبو القاسم عبد الله بن الحسن النحاس , أنا أبو بكر محمد بن القاسم بن بشار النحوي , نا محمد بن يونس الكديمي , نا يونس بن عبيد الله العنبري , نا داود بن يحيى الكرماني , عن مسلم بن شداد , عن عبيد الله بن عمير , عن عبادة بن الصامت صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: یہ سند تو ضعیف جداً ہے کسی کھاتے میں نہیں اس میں سب سے بڑا ضعف " محمد بن يونس الكديمي " ہے جس پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے . نیز سند مقلوب بھی ہے . مثلاً داؤد بن راشد کی جگہ راوی کی غلطی سے داؤد بن یحییٰ آگیا اسی طرح ایک دو اور مقامات پر بھی سند مقلوب ہے ( ميزان الاعتدال :- 8353 ) ❺ أخبرنا أحمد، قال: حدثنا محمد، قال: أخبرنا عمرو بن مرزوق، أخبرنا داود أبو بحر الكرماني، عن مسلم بن أبي مسلم، عن مورق العجلي، أنه كان يحدث عن عبيد بن عمير الليثي، أنه سمع عبادة بن الصامت، يقول: " .... اس سند میں بھی داؤد متفرد ہے جس کا ضعف بیان کیا جاچکا ہے ان تمام اسناد کی تحقیق کے بعد یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس روایت کو بیان کرنے میں " أبو بحر داود بن راشد الطفاوي " متفرد ہے اس کا کوئی متابع ہماری تحقیق میں نہیں اور راوی لین الحدیث ہے اور ایسے راوی کا تفرد آئمہ قبول نہیں کرتے جیسا کہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے فرمایا ( شرح سنن أبي داود للعيني 3/423 ) البتہ اس روایت کا ایک ضعیف مرفوع شاہد موجود ہے ملاحظہ ہو حدثنا سلمة بن شبيب، قال: أخبرنا بسطام بن خالد الحراني، قال: أخبرنا نصر بن عبد الله أبو الفتح، عن ثور بن يزيد، عن خالد بن معدان، عن معاذ بن جبل رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صلى منكم من الليل فليجهر بقراءته؛ فإن الملائكة تصلي بصلاته، وتسمع لقراءته، وإن مؤمني الجن الذين يكونون في الهواء، وجيرانه معه في مسكنه يصلون بصلاته، ويستمعون قراءته، وإنه ليطرد بجهر قراءته عن داره، وعن الدور التي حوله فساق الجن، ومردة الشياطين، وإن البيت الذي يقرأ فيه القرآن عليه خيمة من نور يقتدي بها أهل السماء كما يقتدون بالكوكب الدري في لجج البحار، وفي الأرض القفر فإذا مات صاحب القرآن رفعت تلك الخيمة فينظر الملائكة من السماء فلا يرون ذلك النور فتنعاه الملائكة من سماء إلى سماء فتصلي الملائكة على روحه في الأرواح، ثم تستقبل الملائكة الحافظين اللذين كانا معه، ثم تستغفر له الملائكة إلى يوم يبعث، وما من رجل تعلم كتاب الله، ثم صلى ساعة من الليل إلا أوصت به تلك الليلة الماضية الليلة المستقبلة أن تنبهه لساعته، وأن تكون عليه خفيفة، وإذا مات وكان أهله في جهازه يجيء القرآن في صورة حسنة جميلة واقفا عند رأسه حتى يدرج في أكفانه فيكون القرآن على صدره دون الكفن، فإذا وضع في قبره، وسوي عليه، وتفرق عنه أصحابه أتاه منكر، ونكير فيجلسانه في قبره يجيء القرآن حتى يكون بينه وبينهما فيقولان له: إليك حتى نسأله، فيقول: لا ورب الكعبة إنه لصاحبي، وخليلي ولست أخذله على حال فإن كنتما أمرتما بشيء فامضيا لما أمرتما، ودعاني مكاني فإني لست أفارقه حتى أدخله الجنة إن شاء الله، ثم ينظر القرآن إلى صاحبه، فيقول له: اسكن فإنك ستجدني من الجيران جار صدق ومن الأخلاء خليل صدق، ومن الأصحاب صاحب صدق، فيقول له: من أنت؟، فيقول: أنا القرآن الذي كنت تجهر بي، وتخفيني، وكنت تحبني فأنا حبيبك فمن أحببته أحبه الله ليس عليك بعد مسألة منكر، ونكير من غم، ولا هم، ولا حزن، فيسأله منكر، ونكير، ويصعدان، ويبقى هو والقرآن، فيقول: لأفرشنك فراشا لينا، ولأدثرنك دثارا حسنا جميلا جزاء لك بما أسهرت ليلك، وأنصبت نهارك، قال، فيصعد القرآن إلى السماء أسرع من الطرف فيسأل الله ذلك له فيعطيه الله ذلك، فينزل به ألف ألف من مقربي السماء السادسة فيجيئه القرآن، ويقول: هل استوحشت؟ ما زلت مذ فارقتك أن كلمت الله تبارك وتعالى حتى أخرجت لك منه فراشا، ودثارا، ومصباحا وقد جئتك به فقم حتى تفرشك الملائكة، قال: فتنهضه الملائكة إنهاضا لطيفا، ثم يفسح له في قبره مسيرة أربع مائة عام ثم يوضع له فراش بطانته من حرير أخضر حشوه المسك الأذخر، ويوضع له مرافق عند رجليه ورأسه من السندس، والإستبرق، ويسرج له سراجان من نور الجنة عند رأسه ورجليه يزهران إلى يوم القيامة، ثم تضجعه الملائكة على شقه الأيمن مستقبل القبلة، ثم يؤتى بياسمين من ياسمين الجنة ، ويصعد عنه، ويبقى هو والقرآن فيأخذ القرآن الياسمين فيضعه على أنفه غضا فيستنشقه حتى يبعث، ويرجع القرآن إلى أهله فيخبره بخبرهم كل يوم وليلة، ويتعاهده كما يتعاهد الوالد الشفيق ولده بالخبر فإن تعلم أحد من ولده القرآن بشره بذلك، وإن كان عقبه عقب السوء دعا لهم بالصلاح والإقبال " ترجمہ :- حضرت سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے اس گھر پر نور کا ایک خیمہ ہوتا ہے جس سے آسمان والے رہنمائی حاصل کرتے ہیں جس طرح ٹھاٹھیں مارتے سمندر اور چٹیل میدانوں میں موتی جیسے تارے سے راہنمائی کی جاتی ہے ، جب تلاوت کرنے والا فوت ہو جاتا ہے تو وہ نوری خیمہ اٹھا لیا جا تا ہے چنانچہ فرشتے آسمان سے دیکھتے ہیں تو انہیں وہ نور نظر نہیں آتا پھر فرشتے اسے ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر لے جاتے اور اس کی روح پر درود بھیجتے ہیں پھر قیامت تک اس کے لیے استغفار کرتے ہیں اور جو بھی مومن کتاب اللہ سیکھتا ہے اور پھر رات کی کسی گھڑی میں نماز پڑھتا ہے تو وہ رات اگلی رات کو وصیت کرتی ہے کہ اس مومن کو وقت مقررہ پر بیدار کر دینا اور اس کے لیے آسان ہو جانا، جب وہ فوت ہو جاتا ہے تو اس کے گھر والے اس کے کفن کی تیاری میں مشغول ہوتے ہیں جبکہ قرآن کریم انتہائی حسین صورت میں اس کے سر کے پاس آکر ٹھہر جاتا ہے پھر کفن کے نیچے اور سینے کے اوپر آ جاتا ہے اور جب اسے قبر میں رکھ کر اس پر مٹی برابر کر دی جاتی اور دوست احباب واپس چلے جاتے ہیں تو نکیرین آکر اسے قبر میں بٹھا دیتے ہیں اتنے میں قرآن مجید مؤمن اور فرشتوں کے درمیان حائل ہو جاتا ہے فرشتے کہتے ہیں ایک طرف ہو جاؤ تا کہ ہم اس سے سوال کریں وہ کہتا ہے رب کعبہ کی قسم ایسا ہر گز نہ ہو گا کیونکہ یہ میرا مصاحب اور میرا دوست ہے میں اسے کسی حال میں اکیلا نہ چھوڑوں گا البتہ اگر تمہیں کسی بات کا حکم ہے تو تم اس پر عمل کرو اور مجھے میری جگہ پر رہنے دو کیونکہ میں اسے جنت میں پہنچانے سے پہلے اس سے جدا نہیں ہوں گا پھر قرآن پاک اپنے دوست کی طرف دیکھ کر کہتا ہے میں وہی قرآن ہوں جسے تو کبھی بلند آواز سے اور کبھی آہستہ پڑھتا تھا اور مجھ سے محبت رکھتا تھا پس مجھے تجھ سے محبت ہے اور جس سے میں محبت کرتا ہوں اللہ عزوجل بھی اسے محبوب بنالیتا ہے نکیرین کے سوالات کے بعد تجھ پر کوئی خوف ہے نہ کوئی غم نکیرین سوالات کرنے کے بعد تشریف لے جاتے ہیں اب مومن ہوتا ہے اور قرآن کریم کلام مجید فرماتا ہے میں تیرے لیے نرم و آرام وہ بستر بچھاؤں گا اور حسین و جمیل چادر عطا کروں گا کیونکہ تو رات بھر میرے لیے جاگتا اور دن بھر میرے لیے مشت اٹھاتا تھا پھر قرآن پاک پلک جھپکنے سے بھی جلدی آسمان کی طرف پرواز کر جاتا ہے اور رب ذوالجلال سے بستر اور چادر کا سوال کرتا ہے تو وہ اسے عطا کر دیے جاتے ہیں پھر چھٹے آسمان کے ایک ہزار مقرب فرشتے اس کے ساتھ اترتے ہیں اور قرآن کریم مومن سے دریافت فرماتا ہے کہ تو میری عدم موجودگی میں وحشت زدہ تو نہیں ہوا میں رب ذوالجلال کے پاس تیرے لیے بستر اور چادر لینے گیا تھا اور وہ لے بھی آیا ہوں لہذا کھڑا ہوجا تاکہ فرشتے بستر بچھادیں، پھر فرشتے اسے انتہائی نرمی سے اٹھاتے ہیں اور اس کی قبر 400 سال کی مسافت تک وسیع کر دی جاتی ہے پھر اس کے لیے اذفر خوشبو لگا سبز ریشم بچھایا جاتا ہے اور اس کے سر اور پاؤں کی جانب باریک اور موٹے ریشم کے تکیے لگائے جاتے ہیں اس کے سر اور قدموں کی طرف جنتی نور کے دو چراغ جلائے جاتے ہیں جو قیامت تک جلتے رہیں گے پھر فرشتے اسے دائیں پہلو پر قبلہ رخ کرکے اور اسے جنتی یاسمین دے کر پرواز کر جاتے ہیں اور پھر قیامت تک وہ اور قرآن رہ جاتے ہیں قرآن مجید شب و روز اس کی خبر اس کے گھر والوں کو دیتا ہے اور اس کے ساتھ اس طرح رہتا ہے جس طرح مہربان باپ اپنے بچے کے ساتھ رہتا ہے اگر اس کی اولاد میں سے کسی نے قرآن پاک پڑھ لیا تو قرآن کریم اس کو خوشخبری سناتا ہے اور اگر اس کے پیچھے اس کی اولاد میں سے کوئی برا ہو تو قرآن مجید اس کی اصلاح اور بہتری کے لیے دعا کرتا ہے ( كتاب مسند البزار رقم الحدیث :- 27655 :- وسندہ ضعیف ) اس حدیث کے ضعف کی وجہ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے بیان فرمائی هذا حديث غريب في إسناده جهالة وإنقطاع یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں مجہول راوی بھی ہے اور انقطاع بھی ہے ( كتاب شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور ص132 ) شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا قلت: وفيه مع انقطاعه نصر بن عبد الله ما عرفته، وبقية رجاله ثقات میں کہتا ہوں اس کی سند میں انقطاع کے ساتھ ساتھ نصر بن عبداللہ ہے جسے میں نہیں جانتا اور باقی راوی ثقہ ہیں ( نتائج الافکار 2/20 ) امام نور الدین ہیثمی رحمہ اللہ نے فرمایا رواه البزار وقال خالد: ابن معدان لم يسمع من معاذ، ... قلت: وفيه من لم أجد من ترجمه اس کو امام بزار نے روایت کیا اور کہا خالد بن معدان نے معاذ بن جبل رضي الله عنه سے سماع نہیں کیا اور میں ( ہیثمی ) کہتا ہوں اس کی سند میں ایسا راوی ہے جس کا ترجمہ مجھے نہیں ملا ( كتاب مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 2/254 ) لہذا مکمل تحقیق کے بعد خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اثر عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ ضعیف ہے کیونکہ اس کو بیان کرنے میں " أبو بحر داود بن راشد الطفاوي " کا تفرد ہے اور یہ لین الحدیث ہے جیسا کہ پیچھے بیان کیا گیا اور اس اثر کا مرفوع شاہد جو کہ حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہے وہ بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں نصر بن عبدالله مجہول الحال ہے اور ابن معدان اور حضرت معاذ بن جبل کے درمیان انقطاع ہے لہذا یہ روایت مرفوعاً و موقوفاً ضعیف ہے اس کو دونوں طرح فضائل کے باب میں بیان کرنا درست ہے مرفوعاً و موقوفاً مگر زیادہ احتیاط اس کو موقوفاً بیان کرنے میں ہے کیونکہ اس میں نسبت نبی ﷺ کی طرف نہیں ہو رہی فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی مؤرخہ 17 ذو الحجہ 1443ھ
  3. آگ أنبیاء علیہم السلام کے ہاتھ سے چھوئی ہوئی چیز کو نہیں جلاتی روایت کی تحقیق امام خطیب البغدادی م463ھ رحمہ اللہ نے فرمایا وأخبرنا الحسن، قال: حدثنا عبد الرحمن، قال: حدثنا أبو عمير الأنسي بمصر، قال: حدثنا دينار مولى أنس، قال: صنع أنس لأصحابه طعاما فلما طعموا، قال: يا جارية هاتي المنديل، " فجاءت بمنديل درن، فقال اسجري التنور واطرحيه فيه، ففعلت فابيض، فسألناه عنه، فقال: إن هذا كان للنبي صلى الله عليه وسلم وإن النار لا تحرق شيئا مسته أيدي الأنبياء " ( كتاب تاريخ بغداد ت بشار 11/589 ) دینار مولی انس بیان کرتا ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام کے لیے کھانے کا انتظام فرمایا جب وہ لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنی لونڈی کو آواز دے کر فرمایا رومال لے آؤ . وہ جب رومال لائی تو وہ میلا تھا حضرت انس بن مالک نے فرمایا تندور کو ہلکا کر کے اس رومال کو تندور میں ڈال دو جب رومال تندور سے باہر نکالا گیا تو وہ سفید ہو گیا تھا صحابہ کرام نے پوچھا یہ کیسے تو حضرت انس بن مالک نے فرمایا یہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا رومال ہے اور انبیاء علیہم السلام جس چیز کو چھو لیں آگ اسے نہیں جلاتی یہ روایت موضوع ہے أبو مكيس دينار بن عبد الله الحبشي متھم بالوضع راوی ہے اور اس پر خاص جرح یہ بھی ہے کہ اس نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے 100 کے قریب موضوع روایات بیان کیں لہذا اس کی حضرت انس بن مالک سے روایت موضوع قرار دی جائے گی امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں وقال الحاكم: روى، عَن أَنس قريبا من مِئَة حديث موضوعة اس نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے تقریباً 100 موضوع روایات بیان کیں ہیں امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی امام حاکم کی موافقت کی چنانچہ فرماتے ہیں قال ابن حبان: يروي، عَن أَنس أشياء موضوعة یہ انس بن مالک سے موضوع روایات بیان کرتا ہے ( لسان الميزان :- 3077 ) امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اندازاً فرمایا کہ أن يروي عنه عشرين ألفا كلها كذب اس نے تقریباً بیس ہزار روایتیں بیان کیں جو سب کی سب جھوٹ ہیں ( ميزان الاعتدال 2/31 ) نیز سند میں " أبو عمير الأنسي " بھی مجہول ہے امام احمد بن علی المقریزی م845ھ رحمہ اللہ نے حافظ ابونعیم اصفہانی رحمہ اللہ کے طریق سے اس کو اپنی کتاب میں نقل کیا فخرج أبو نعيم من حديث محمد بن رميح، قال: حدثنا عبد الله بن محمد بن المغيرة، حدثنا أبو معمر عباد بن عبد الصمد، قال: أتينا أنس بن مالك نسلم عليه، فقال: يا جارية، هلمي المائدة نتغدى، فأتته بها فتغدينا، ثم قال: يا جارية هلمي المنديل، فأتته بمنديل وسخ، فقال: يا جارية أسجرى التنور، فأوقدته، فأمر بالمنديل، فطرح فيه، فخرج أبيض كأنه اللبن. فقلت: يا أبا حمزة! ما هذا؟ قال: هذا منديل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح به وجهه، وإذا اتسخ صنعنا به هكذا، لأن النار لا تأكل شيئا مر على وجوه الأنبياء- عليهم السلام عباد بن عبدالصمد کہتے ہیں کہ ہم انس بن مالک کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنی لونڈی سے کہا کہ دسترخوان لے آؤ ہم دوپہر کا کھانا کھائیں گے چنانچہ وہ اسے لے کر آئی اور ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا پھر آپ نے فرمایا اے لونڈی رومال لے آؤ تو پھر وہ ایک گندا رومال لے کر آئی پھر آپ نے لونڈی سے کہا کہ تندور کو روشن کرو اسے روشن کیا گیا اور وہ رومال تندور میں ڈالنے کا حکم دیا وہ جیسے ہی تندور میں ڈالا گیا دودھ کی طرح سفید ہو گیا . میں نے کہا: اے ابو حمزہ! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ وہ رومال ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا چہرہ انور پونچھتے تھے ، اور جب یہ میلا ہو جاتا تو ہم ایسا ہی کرتے کیونکہ آگ اس شے پر اثر نہیں کرتی جو انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کے چہرہ مبارک پر سے گذری ہو ( كتاب إمتاع الأسماع 11/254 ) یہ بھی موضوع ہے 1 : محمد بن رميح العامري مجہول ہے 2 : عبد الله بن محمد بن المغيرة متھم بالوضع راوی ہے یعنی اس پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے امام ابن عراق الکنانی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ سفیان ثوری اور مالک بن مغول سے موضوع روایات بیان کرتا ہے ( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة 1/75 ) امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ایسی روایتیں بیان کرتا ہے جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی امام ابن یونس نے اس کو منکر الحدیث قرار دیا ( كتاب الزهر النضر في حال الخضر ص76 ) امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اس کو متروک قرار دیا اور اس کی مرویات کو نقل کرکے انہیں موضوع قرار دیا ( كتاب تاريخ الإسلام - ت تدمري 14/219 ) ( كتاب ميزان الاعتدال 2/487 ) 3 : أبو معمر عباد بن عبد الصمد بھی متھم بالوضع راوی ہے امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ یہ سخت ضعیف راوی ہے امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ غالی شیعہ ہے امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اس کو " واہ " قرار دیا اور یہ جرح متروک درجے کے راویان پر کی جاتی ہے ( كتاب ميزان الاعتدال 2/369 ) ( فتح المغيث للسخاوي 2/128 ) شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے نقل کیا کہ عباد بن عبدالصمد نے سیدنا انس بن مالک سے ایک پورا نسخہ روایت کیا جو کہ اکثر موضوع من گھڑت روایات پر مشتمل ہے ( كتاب لسان الميزان ت أبي غدة 4/393 ) اس مکمل تحقیق کے بعد خلاصہ کلام یہ ہوا کہ یہ اثر اپنی دونوں اسناد کے ساتھ موضوع من گھڑت ہے اس کو بیان کرنا جائز نہیں اسی طرح ایک من گھڑت قصہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا نے روٹیاں لگائیں اور نبی علیہ السلام نے بھی ایک روٹی لگائی باقی روٹیاں پک گئیں لیکن نبی علیہ السلام نے جو روٹی لگائی وہ نہیں پکی وغیرہ وغیرہ اس قصہ کا وجود بھی کسی حدیث٬ تاریخ٬ سیرت کی معتبر کتاب میں نہیں اللہ جانے صاحب خطبات فقیر نے اس ہوا ہوائی قصہ کو کہاں سے نکل کر لیا اپنی خطبات فقیر جلد دوم صفحہ 92/93 پر فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی مؤرخہ 15 ذو الحجہ 1443ھ
  4. میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا مجھے اچھا لگا کہ پہچانا جاؤں لہذا میں نے مخلوق کی تخلیق کی اس کو حدیث قدسی کے طور پر شیئر کیا جاتا ہے مگر یہ حدیث نہیں ہیں بلکہ باطل اور بے اصل ہے اس روایت کے بارے میں جلیل القدر آئمہ محدثین کا کلام درج ذیل ہے روایت کا مکمل متن كُنْتُ كَنْزًا لَا أُعْرَفُ فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ خَلْقًا فَعَرَّفْتُهُمْ بِي فَعَرَفُونِي میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا مجھے کوئی نہیں جانتا تھا مجھے اچھا لگا کہ میں جانا جاؤں تو میں نے مخلوق کی تخلیق کی اور انہیں اپنا تعارف کروایا تو انہوں نے مجھے پہچان لیا ❶ حافظ الدنیا حجۃ اللہ فی الارض شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بے اصل قرار دیا حديث: كنت كنزا لا أعرف، فأحببت أن أعرف فخلقت خلقا، فعرفتهم بي فعرفوني، قال ابن تيمية: إنه ليس من كلام النبي صلى الله عليه وسلم، ولا يعرف له سند صحيح ولا ضعيف، وتبعه الزركشي وشيخنا حافظ شمس الدین سخاوی نے کہا کہ اس روایت کے بارے میں حافظ تقی الدین ابن تیمیہ نے کہا کہ یہ کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہم اس کی کوئی بھی صحیح یا ضعیف سند کو نہیں جانتے اور تقی الدین ابن تیمیہ کے کلام کی موافقت کی حافظ شمس الدین زرکشی نے اور ہمارے شیخ ابن حجر عسقلانی نے ( كتاب المقاصد الحسنة :- 838 ) ( كتاب أحاديث القصاص ص55 ) ( كتاب التذكرة في الأحاديث المشتهرة ص136 ) ❷ امام ملا علی قاری الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں حديث كنت كنزا لا أعرف فأحببت أن أعرف فخلقت خلقا فعرفتهم بي فعرفوني نص الحفاظ كابن تيمية والزركشي والسخاوي على أنه لا أصل له اس روایت پر ابن تیمیہ زرکشی اور سخاوی جیسے حفاظ کرام کی نص موجود ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں . ( اور دوسری کتاب میں حافظ ابن حجر عسقلانی کا بھی نام لیا ) ( كتاب المصنوع في معرفة الحديث الموضوع :- 232 ) ( كتاب الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة :- 353 ) ❸ امام المحدثین حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو بے اصل قرار دیا كنت كنزا لا أعرف فأحببت أن أعرف، فخلقت خلقا فعرفتهم بي فعرفوني" لا أصل له ( كتاب الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة :- 330 ) درج ذیل محدثین کی اس روایت کے بے اصل اور باطل ہونے پر تصریحات موجود ہیں ➊ امام ابن عراق الکنانی رحمہ اللہ ( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة 1/148 ) ➋ امام عجلونی رحمہ اللہ ( كتاب كشف الخفاء ط القدسي 2/132 ) ➌ علامہ ابو طاہر پٹنی رحمہ اللہ ( كتاب تذكرة الموضوعات للفتني ص11 ) ➍ علامہ ابن المبرد رحمہ اللہ ( كتاب التخريج الصغير والتحبير الكبير :- 696 ) ➎ علامہ امیر مالکی رحمہ اللہ ( كتاب النخبة البهية في الأحاديث المكذوبة على خير البرية ص95 ) ➏ علامہ محمد بن خلیل الطرابلسی رحمہ اللہ ( كتاب اللؤلؤ المرصوع ص143 ) ان تمام محدثین کرام نے اس روایت کو بے اصل و باطل قرار دیا ہے کل ملا کر 12 محدثین کرام بنتے ہیں جنہوں نے اس روایت کے بے اصل و باطل ہونے پر تصریح فرمائی اصول حدیث کا بڑا مشہور قاعدہ ہے جس کا ہم پہلے بھی کئی بار ذکر کر چکے ہیں کہ ہر وہ روایت جس کے بارے میں محدثین کرام فرمائے ( لا أصل له ) ( لم أقف عليه ) ( لم أجده ) ( لا أعرفه ) اور کوئی دوسرا ناقد حدیث ان محدثین کا تعاقب نہ کرے تو اس روایت کی نفی کی جائے گی وہ روایت موضوع اور بے اصل قرار دی جائے گی ملاحظہ ہو امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ اپنی اصول حدیث کی کتاب التدریب الراوی میں نقل کرتے ہیں إذ قال الحافظ المطلع الناقد في حديث: لا أعرفه، اعتمد ذلك في نفيه، كما ذكر شيخ الإسلام جب حافظ باخبر ناقد کسی حدیث کے بارے میں کہے ( لا أعرفه ٬ لا أصل له ٬ لم اقف عليه) وغیرہ وغیرہ تو اس کی نفی پر اعتماد کیا جائے گا جیسا کہ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے ذکر کیا پھر خود آگے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں وأما بعد التدوين والرجوع إلى الكتب المصنفة، فيبعد عدم الإطلاع من الحافظ الجهبذ على ما يورده غيره، فالظاهر عدمه مگر تدوین حدیث کے بعد اور کتب مصنفہ کی مراجعت کے بعد کسی ناقد حافظ کا کسی ذکر کردہ روایت پر مطلع نہ ہونا بعید ہے پس ظاہر یہی ہے کہ اس روایت کا وجود نہیں ہے ( كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 1/349 ) ہم اوپر محدثین کرام کا کلام اس روایت کے تحت نقل کر آئے جنہوں نے اس روایت پر یہی کلام کیا ہے . ( لا أصل له ) اور کسی دوسرے محدث نے کسی محدث کے کلام پر تعاقب نہیں کیا لہذا اس اصول کی روشنی میں یہ روایت بے اصل و باطل ہے اسی طرح علم حدیث کا ایک اور مشہور قاعدہ بھی ہے کے ہر وہ حدیث جس کا وجود کتب احادیث میں نہ ہو حفاظ کے سینوں میں نہ ہو اور وہ ایسے زمانے میں ظاہر ہو جب تدوین حدیث مکمل ہوچکی ہے تو وہ روایت موضوع کہلائے گی امام نور الدین ابن عراق الکنانی م963ھ رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں ما ذكره الإمام فخر الدين الرازي أن يروي الخبر في زمن قد استقرئت فيه الأخبار ودونت فيفتش عنه فلا يوجد في صدور الرجال ولا في بطون الكتب امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے جس چیز کا ذکر کیا وہ یہ ہے کہ حدیث اس زمانے میں روایت کی جائے یا ذکر کی جائے جب احادیث کا استقراء کیا جا چکا ہے اور تفتیش کے باوجود نہ محدثین کے سینوں میں ملے اور نہ کتب احادیث میں ( تو ایسی روایت موضوع ہوتی ہے ) ( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة 1/7 ) زیر بحث روایت کا بھی کتب احادیث میں وجود نہیں اور جلیل القدر حفاظ کرام محدثین نے اس کے بے اصل ہونے پر صراحت کی ہے لہذا اس اصول سے بھی یہ روایت موضوع ثابت ہوتی ہے یہی اصول فی زمانہ بریلوی مکتبہ فکر ( اہلسنت و جماعت ) کے مشہور و معروف عالم مفتی محمد شریف الحق امجدی صاحب نے بھی بیان کیا ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں " اس روایت کے جھوٹے اور موضوع ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ کسی حدیث کی معتبر کتاب میں یہ روایت مذکور نہیں " ( فتویٰ شارح بخاری 1/307 ) خلاصہ کلام یہ کہ یہ حدیث قدسی نہیں ہے اسکی نسبت نہ ہی اللہ ﷻ کی طرف کی جائے اور نہ ہی نبی ﷺ کی طرف فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی مؤرخہ 6 ذو الحجہ 1443ھ
  5. جس نے کسی متقی عالم دین کے پیچھے نماز پڑھی گویا اس نے نبی کے پیچھے نماز پڑھی کی تحقیق ان الفاظ کے ساتھ اس کو بطور حدیث درج ذیل کتابوں میں روایت کیا گیا ➊ صاحب ہدایہ علامہ مرغینانی حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں لقوله عليه الصلاة والسلام " من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی عالم دین کے پیچھے نماز پڑھی گویا اس نے نبی کے پیچھے نماز پڑھی۔ ( كتاب الهداية في شرح بداية المبتدي 1/57 ) ➋ صاحب المبسوط علامہ رضی الدین سرخسی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں لقوله - صلى الله عليه وسلم -: «من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي» ( كتاب المبسوط للسرخسي 1/42 ) اسی طرح احناف کی درج ذیل کتب میں بھی یہ روایت موجود ہے ( كتاب حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي 1/562 ) ( كتاب فتح القدير للكمال ابن الهمام وتكملته ط الحلبي 1/349 ) ( كتاب المحيط البرهاني في الفقه النعماني 1/407 ) ( كتاب حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ص300 ) ( كتاب البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري 1/370 ) مگر عرض یہ ہے کہ یہ حدیث رسول نہیں بلکہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام پر جھوٹ اور افتراء ہے ❶ امیر المؤمنین فی الحدیث شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حديث من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي لم أجده ( كتاب الدراية في تخريج أحاديث الهداية 1/68 ) ❷ ابو محمد امام بدرالدین عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں هذا الحديث غريب ليس في كتب الحديث ( كتاب البناية شرح الهداية 2/331 ) ❸ امام شمس الدین سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں فلم أقف عليه بهذا اللفظ ( كتاب المقاصد الحسنة :- 764 ) ❹ امام ملا علی قاری الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں حديث من صلى خلف تقي فكأنما صلى خلف نبي لا أصل له ( كتاب المصنوع في معرفة الحديث الموضوع :- 344 ) اسی طرح درج ذیل کتب میں بھی محدثین نے اس روایت کے بے اصل ہونے پر کتب احادیث میں وجود نہ ہونے پر اور ان کو اس حدیث کے نہ ملنے پر تصریح کی ہے ( كتاب تذكرة الموضوعات للفتني ص40 ) ( كتاب الفوائد المجموعة ص32 ) ( كتاب كشف الخفاء ت هنداوي 2/109 ) ( كتاب نصب الراية 2/26 ) ( كتاب الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة :- 499 ) ( كتاب التنبيه على مشكلات الهداية 2/607 ) اصول حدیث کا بڑا مشہور قاعدہ ہے کہ ہر وہ روایت جس کے بارے میں محدثین کرام فرمائیں ( لا أصل له ) ( لم أقف عليه ) ( لم أجده ) ( لا أعرفه ) اور کوئی دوسرا ناقد حدیث ان محدثین کا تعاقب نہ کرے تو اس روایت کی نفی کی جائے گی وہ روایت موضوع اور بے اصل قرار دی جائے گی ملاحظہ ہو امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ اپنی اصول حدیث کی کتاب التدریب الراوی میں نقل کرتے ہیں إذ قال الحافظ المطلع الناقد في حديث: لا أعرفه، اعتمد ذلك في نفيه، كما ذكر شيخ الإسلام جب حافظ باخبر ناقد کسی حدیث کے بارے میں کہے ( لا أعرفه ٬ لا أصل له ٬ لم اقف عليه) وغیرہ وغیرہ تو اس کی نفی پر اعتماد کیا جائے گا جیسا کہ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے ذکر کیا پھر خود آگے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں وأما بعد التدوين والرجوع إلى الكتب المصنفة، فيبعد عدم الإطلاع من الحافظ الجهبذ على ما يورده غيره، فالظاهر عدمه مگر تدوین حدیث کے بعد اور کتب مصنفہ کی مراجعت کے بعد کسی ناقد حافظ کا کسی ذکر کردہ روایت پر مطلع نہ ہونا بعید ہے پس ظاہر یہی ہے کہ اس روایت کا وجود نہیں ہے ( كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 1/349 ) ہم اوپر درجنوں محدثین کا کلام اس روایت کے تحت نقل کر آئے جنہوں نے اس روایت پر یہی کلام کیا ہے . ( لا أصل له ) ( لم أقف عليه ) ( لم أجده ) اور کسی دوسرے محدث نے کسی محدث کے کلام پر تعاقب نہیں کیا لہذا اس اصول کی روشنی میں یہ روایت بے اصل و باطل ہے اسی طرح علم حدیث کا ایک اور مشہور قاعدہ بھی ہے کے ہر وہ حدیث جس کا وجود کتب احادیث میں نہ ہو حفاظ کے سینوں میں نہ ہو اور وہ ایسے زمانے میں ظاہر ہو جب تدوین حدیث مکمل ہوچکی ہے تو وہ روایت موضوع کہلائے گی امام نور الدین ابن عراق الکنانی م963ھ رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں : ما ذكره الإمام فخر الدين الرازي أن يروي الخبر في زمن قد استقرئت فيه الأخبار ودونت فيفتش عنه فلا يوجد في صدور الرجال ولا في بطون الكتب امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے جس چیز کا ذکر کیا وہ یہ ہے کہ حدیث اس زمانے میں روایت کی جائے یا ذکر کی جائے جب احادیث کا استقراء کیا جا چکا ہے اور تفتیش کے باوجود نہ محدثین کے سینوں میں ملے اور نہ کتب احادیث میں ( تو ایسی روایت موضوع ہوتی ہے ) ( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة 1/7 ) زیر بحث روایت کے بارے میں بھی آئمہ کا اوپر واضح کلام نکل کر آئے " لیس فی کتب الحدیث " کہ یہ روایت کتب احادیث میں نہیں اور اسی طرح محدثین کے سینوں میں بھی یہ روایت نہیں جیسا کہ محدثین نے اس روایت کے بے اصل ہونے پر صراحت کی لہذا اس اصول سے بھی یہ روایت موضوع ثابت ہوتی ہے یہی اصول فی زمانہ بریلوی مکتبہ فکر ( اہلسنت و جماعت ) کے مشہور و معروف عالم مفتی محمد شریف الحق امجدی صاحب نے بھی بیان کیا ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں " اس روایت کے جھوٹے اور موضوع ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ کسی حدیث کی معتبر کتاب میں یہ روایت مذکور نہیں " ( فتویٰ شارح بخاری 1/307 ) خلاصہ کلام یہ ہوا کہ علم حدیث کے دو مشہور و معروف اصولوں کے تحت یہ روایت بے اصل و باطل ہے اس کی نسبت نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف کرنا حرام ہے فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی مؤرخہ 6 ذو الحجہ 1443ھ
  6. عالم یا طالب علم کے کسی بستی سے گزرنے پر اللہ تعالیٰ اس بستی کے قبرستان سے چالیس دن تک کے لئے عذاب اٹھا لیتا ہے کی تحقیق یہ من گھڑت حدیث اکثر علماء اور طلباء کی فضیلت میں بیان کی جاتی ہے اس کے بارے میں آئمہ محدثین کا کلام درج ذیل ہے ❶ امام الفقہاء والمحدثین حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اس روایت کو بے اصل قرار دیا : حديث إن العالم والمتعلم إذا مرا على قرية فإن الله تعالى يرفع العذاب عن مقبرة تلك القرية أربعين يوما لا أصل له حدیث کہ جب عالم یا طالب علم کسی بستی گزرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس بستی کے قبرستان پر سے چالیس دن تک کے لئے عذاب دور فرما دیتا ہے ( امام سیوطی فرماتے ہیں ) اس روایت کی کوئی اصل نہیں . ( تخريج أحاديث شرح العقائد للسعد التفتازاني :- 64 ) ❷ سلطان المحدثین ملا علی قاری الحنفی رحمہ اللہ نے بھی اس بات کا اقرار کیا کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں . حديث إن العالم والمتعلم إذا مرا على قرية فإن الله تعالى يرفع العذاب عن مقبرة تلك القرية أربعين يوما قال الحافظ الجلال لا أصل له ( كتاب المصنوع في معرفة الحديث الموضوع :- 57 ) ( كتاب الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة :- 80 ) ( فرائد القلائد على أحاديث شرح العقائد ص64 ) ❸ اس بات کا اقرار علامہ عجلونی اور مرعی کرمی اور محمد بن خليل الحنفي رحمہمُ اللہ نے بھی کیا کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں . ( كتاب كشف الخفاء ت هنداوي 1/251 ) ( كتاب الفوائد الموضوعة في الأحاديث الموضوعة ص131 ) ( كتاب اللؤلؤ المرصوع ص53 ) ❹ امام ابن حجر المکی الہیتمی الشافعی رحمہ اللہ سے اس روایت کے بارے میں سوال کیا گیا : (وسئل) ذكر التفتازاني في شرح العقائد عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «إن العالم والمتعلم إذا مرا على قرية فإن الله يدفع العذاب عن مقبرة تلك القرية أربعين يوما» هل لهذا الحديث أصل وهل رواه أحد من أصحاب السنن أو لا؟ اور سوال پوچھا گیا کہ علامہ سعد الدین تفتازانی نے شرح العقائد میں ذکر کیا کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا جب عالم یا طالب علم کسی بستی گزرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس بستی کے قبرستان پر سے چالیس دن تک کے لئے عذاب ٹال دیتا ہے کیا اس حدیث کی کوئی اصل موجود ہے ؟؟ اور کیا اصحاب کتب سنن میں سے کسی نے اسے روایت کیا ہے یا نہیں ؟؟ (فأجاب) بقوله لم أر لهذا الحديث وجودا في كتب الحديث الجامعة المبسوطة ولا في غيرها ثم رأيت الكمال بن أبي شريف صاحب الإسعاد قال إن الحديث لا أصل له وهو موافق لما ذكرته. تو امام ابن حجر المکی رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ میں نے یہ حدیث کتب احادیث جامع المبسوطہ میں نہیں دیکھی اور نہ ہی کسی دوسری کی کتاب میں . پھر میں نے کمال الدین بن ابی شریف صاحب " الإسعاد بشرح الإرشاد " کو دیکھا تو انہوں نے فرمایا اس روایت کی کوئی اصل نہیں ( امام ہیتمی فرماتے ہیں ) یہ اس بات کے موافق ہے جو میں نے ذکر کی . اصول حدیث کا بڑا مشہور قاعدہ ہے کہ ہر وہ روایت جس کے بارے میں محدثین کرام فرمائے ( لا أصل له ) ( لم أقف عليه ) ( لم أجده ) ( لا أعرفه ) اور کوئی دوسرا ناقد حدیث ان محدثین کا تعاقب نہ کرے تو اس روایت کی نفی کی جائے گی وہ روایت موضوع اور بے اصل قرار دی جائے گی ملاحظہ ہو امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ اپنی اصول حدیث کی کتاب التدریب الراوی میں نقل کرتے ہیں إذ قال الحافظ المطلع الناقد في حديث: لا أعرفه، اعتمد ذلك في نفيه، كما ذكر شيخ الإسلام جب حافظ باخبر ناقد کسی حدیث کے بارے میں کہے ( لا أعرفه ٬ لا أصل له ٬ لم اقف عليه) وغیرہ وغیرہ تو اس کی نفی پر اعتماد کیا جائے گا جیسا کہ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے ذکر کیا پھر خود آگے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں وأما بعد التدوين والرجوع إلى الكتب المصنفة، فيبعد عدم الإطلاع من الحافظ الجهبذ على ما يورده غيره، فالظاهر عدمه. مگر تدوین حدیث کے بعد اور کتب مصنفہ کی مراجعت کے بعد کسی ناقد حافظ کا کسی ذکر کردہ روایت پر مطلع نہ ہونا بعید ہے پس ظاہر یہی ہے کہ اس روایت کا وجود نہیں ہے . ( كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 1/349 ) ہم اوپر محدثین کا کلام اس روایت کے تحت نقل کر آئے جنہوں نے اس روایت پر یہی کلام کیا ہے . ( لا أصل له ) اور کسی دوسرے محدث نے کسی محدث کے کلام پر تعاقب نہیں کیا لہذا اس اصول کی روشنی میں یہ روایت بے اصل و باطل ہے اس کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کرنا حرام ہے امام اسماعیل بن محمد العجلونی نے اس روایت کے ضمن میں اس مفہوم کی ایک ملتی جلتی روایت کا ذکر کیا جس کو امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں باسند نقل کیا سوچا کہ اس کی بھی تحقیق آپ حضرات کے پیش نظر کی جائے امام احمد بن ابراہیم الثعلبی م427ھ رحمہ اللہ نے فرمایا وأخبرنا أبو الحسن محمد بن القاسم بن أحمد قال: أنا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن أيوب قال: نا أبو عبد الله محمد بن صاحب قال: نا المأمون بن أحمد قال: نا أحمد بن عبد الله قال: نا أبو معاوية الضرير، عن أبي مالك الأشجعي، عن ربعي ابن حراش، عن حذيفة بن اليمان - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "إن القوم ليبعث الله عز وجل عليهم العذاب حتما مقضيا، فيقرأ صبي من صبيانهم في الكتاب: {الحمد لله رب العالمين}، فيسمعه الله عز وجل ويرفع عنهم بذلك العذاب أربعين سنة" حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا خدائے بزرگ و برتر نے جن لوگوں کو پیدا فرمایا ہے ان پر عذاب یقیناً مقرر ہوگا . لیکن جب ان لوگوں کے بچوں میں سے ایک بچہ کلام پاک میں پڑھتا ہے {الحمد لله رب العالمين} اللہ عزوجل اسے سماعت فرماتا ہے اور پھر اس قوم کو چالیس سال تک کے لیے عذاب سے نجات عطا فرماتا ہے ( كتاب تفسير الثعلبي 2/267 :- 143 ) حالانکہ اس روایت کا اس روایت سے دور دور تک کا بھی کوئی تعلق نہیں اس روایت میں عالم اور طالب علم کی فضیلت مذکور تھی جبکہ یہاں قرآن پاک پڑھنے کی فضیلت بیان کی جا رہی ہے اور امام ثعلبی اس روایت کو لائے بھی سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں ہیں لیکن بہرحال پھر بھی ہم اس کی تحقیق پیش کرتے ہیں کہ یہ روایت بھی موضوع منگھڑت ہے . جلیل القدر آئمہ محدثین کا کلام اس روایت کے تحت ❶ امام الفقہاء والمحدثین امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اس کو من گھڑت قرار دیا چنانچہ فرماتے ہیں : أخرجه الثعلبي في " تفسيره "، وهو موضوع قال الشيخ ولي الدين العراقي: في سنده أحمد بن عبد الله الجويباري ومأمون بن أحمد الهروي، كذابان، وهو من وضع أحدهما اس روایت کو امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں نقل کیا اور یہ موضوع ہے امام شیخ ولی الدین عراقی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی سند میں احمد بن عبداللہ الجویباری اور مامون بن احمد الھروی ہیں اور یہ دونوں کذاب ہیں اور اس روایت کو ان دونوں میں سے کسی ایک نے گڑھا ہے ( كتاب نواهد الأبكار وشوارد الأفكار 1/253 ) ❷ علامہ عبدالرؤف مناوی رحمہ اللہ نے بھی اس کو موضوع قرار دیا أخرجه الثعلبي في تفسيره وهو موضوع ( كتاب الفتح السماوي 1/119 ) جیسا کہ امام ولی الدین عراقی نے اس روایت کے موضوع من گھڑت ہونے کی وجہ بتا دی کہ اس کی سند میں دو کذاب احادیث گھڑنے والے راوی ہیں ➀ أحمد بن عبد الله الجويباري یہ وہ لعنتی شخص ہے جس نے نبی ﷺ پر ایک ہزار سے زائد احادیث کو گڑھا ہے . ◉ امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے کہا جھوٹا ہے بلکہ جھوٹ گھڑنے میں اس کی مثال دی جاتی ہے [ ميزان الاعتدال 1/107 ] ◉ امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ امام بیہقی رحمہما اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس نے نبی ﷺ پر ایک ہزار سے زیادہ احادیث گڑھی ہیں [ لسان الميزان 1/194 ] ◉ امام ابو نعیم اصفہانی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ گڑھتا ہے اس کی روایت ترک کردی جائیں اور یہ ان میں سے ایک ہے جو روایات گڑھتے ہیں [ المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم الأصفهاني 1/60 ] ◉ امام دارقطنی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں یہ جھوٹا ہے دجال ہے خبیث ہے یہ حدیث گڑھنے والا ہے اس کی روایت نہ لکھی جائے اور نہ انہیں بیان کیا جائے [ موسوعة أقوال الدارقطني ص69 ] ◉ امام ابن حجر عسقلانی صاحب مستدرک امام حاکم رحمہما اللہ تعالیٰ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا یہ خبیث اور کذاب ہے اس نے کثیر روایات کو فضائل اعمال میں گڑھا ہے [ لسان المیزان 1/194 ] ◉ امام ابو حاتم بن حبان رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں یہ دجال ہے اس کا ذکر کتابوں میں نہ کیا جائے [ المجروحين لابن حبان 1/154 ] ◉ خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ان مشہور راویوں میں سے ایک ہے جو احادیث گھڑتے ہیں [ الزيادات على الموضوعات 1/124 ] ◉ امام نسائی اور ابو الحسن بن سفیان اور امام ابن عدی رحمہمُ اللہ تعالی علیہم اجمعین نے اسے جھوٹا اور روایات گھڑنے والا کہا [ لسان الميزان 1/193 ] [ ميزان الاعتدال 1/106 ] ➁ مأمون بن أحمد الهروي یہ شخص بھی دجال احادیث گھڑنے والا ہے . ◉ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس کے حوالے سے فرمایا کہ یہ دجالوں میں سے ایک دجال ہے اور یہ ایسے لوگوں سے روایت کرتا ہے جنہیں اس نے دیکھا تک نہیں اور یہ ثقہ راویوں پر احادیث گھڑتا ہے . ( كتاب المجروحين لابن حبان ت حمدي 2/383 ) ◉ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نہ ہی اس کا کوئی دین ہے اور نہ ہی اس میں کوئی خیر والی بات ہے بلکہ یہ احادیث گھڑنے والا ہے ( كتاب الموضوعات لابن الجوزي 2/48 ) ◉ حجۃ اللہ فی الارضین شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا یہ کذاب راویوں میں سے ایک ہے ( كتاب الدراية في تخريج أحاديث الهداية 1/152 ) ◉ امام ابن عراق الکنانی رحمہ اللہ نے فرمایا یہ کذاب خبیث احادیث گھڑنے والا راوی ہے ( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة 1/98 ) ◉ امام ابن حجر عسقلانی نقل کرتے ہیں کہ امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ نے اس کی مرویات کو نقل کرکے فرمایا کہ جسے اللہ تعالی نے زرہ برابر بھی علم سے نوازا ہے وہ اس کی مرویات کو دیکھ کر یہ گواہی دے گا کہ یہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام پر جھوٹ اور افتراء ہیں ( كتاب لسان الميزان 5/8 ) ◉ اسی طرح امام ابو نعیم اصفہانی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا یہ کذاب خبیث احادیث گھڑنے والا راوی ہے اور یہ ثقہ راویوں سے جھوٹی روایات بیان کرتا ہے ( كتاب لسان الميزان 5/8 ) ◉ امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اس کو کذاب قرار دیا ( كتاب تنقيح التحقيق للذهبي 1/137 ) ◉ امام ابو عبد اللہ الجوزقانی رحمہ اللہ نے اس کو کذاب خبیث احادیث گھڑنے والا قرار دیا ( كتاب الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير 1/445 ) ◉ امام ابن قیسرانی رحمہ اللہ نے اس کو دجال احادیث گھڑنے والا قرار دیا ( كتاب معرفة التذكرة ص214 ) اس تمام تفصیل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ تفسیر ثعلبی کی روایت بھی بلاشک و شبہ موضوع منگھڑت ہے اس کی نسبت بھی نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف کرنا حرام ہے شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی اس روایت کا ایک شاہد کا ذکر کرتے ہیں " الكاف الشاف في تخريج أحاديث الكشاف ص3 " پر جو کہ مسند الدارمی میں ضعیف سند سے منقول ہے . حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا رِفْدَةُ الْغَسَّانِيُّ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ عَجْلَانَ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: " كَانَ يُقَالُ: إِنَّ اللَّهَ لَيُرِيدُ الْعَذَابَ بِأَهْلِ الْأَرْضِ، فَإِذَا سَمِعَ تَعْلِيمَ الصِّبْيَانِ الْحِكْمَةَ، صَرَفَ ذَلِكَ عَنْهُمْ " قَالَ مَرْوَانُ: يَعْنِي بِالْحِكْمَةِ: الْقُرْآنَ ( كتاب مسند الدارمي - ت حسين أسد :- 3388 إسناده ضعيف لضعف رفدة بن قضاعة وهو موقوف على ثابث ) ( كتاب مسند الشاميين للطبراني 3/293 :- ھو ضعيف أيضاً كما ذكر السابق ) ثابت بن عجلان انصاری نے کہا: یہ کہا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ زمین کو عذاب کا ارادہ کرتا ہے لیکن جب بچوں کو حکمت کی تعلیم لیتے سنتا ہے تو ارادہ بدل دیتا ہے۔ مروان نے کہا: حکمت سے مراد قرآن کی تعلیم ہے۔ یہ ایک ضعیف قول ہے اور حضرت ثابت بن عجلان کا قول ہے اور اگر یہ ثابت بن عجلان ( ثابت بن عجلان حمصي أبو عبد الله الْأنصاري السلمي ) ہیں تو بقول ابو نصر احمد بن محمد کلاباذی یہ تابعی ہیں اور روایت حدیث مقطوع ہے اس کو بطور فضیلت بیان کیا جا سکتا ہے ۔ ( الهداية المعروف برجال صحيح البخاري ص131 ) لیکن گزشتہ دو روایتوں کو نبی علیہ السلام کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا حرام ہے کیونکہ وہ دونوں موضوع من گھڑت ہیں جیسا کہ ہم ثابت کر آئے . فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی مؤرخہ 14 ذو الحجہ 1443ھ
  7. امام ابوالقاسم طبرانی م360ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں حدثنا بكر بن سهل، ثنا عبد الله بن يوسف، ثنا الهيثم بن حميد، عن رجل، عن مكحول، عن أبي أمامة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «اتقوا البول، فإنه أول ما يحاسب به العبد في القبر» ( كتاب المعجم الكبير للطبراني :- 7605 ) ترجمہ :- نبی علیہ السلام نے فرمایا پیشاب ( کی چھینٹوں ) سے بچو کیونکہ قبر میں سب سے پہلے اس کے بارے میں حساب لیا جائے گا اس سند میں امام مکحول سے روایت کرنے والا شخص مبھم ہے اور مبہم راوی کو پہچاننے کا طریقہ اصول حدیث کی کتاب تیسیر شرح مصطلح الحدیث میں یہ لکھا ہے بوروده مسمى في بعض الروايات الأخرى یعنی دوسری روایات میں اس کے نام کا ذکر ہوا ہو ( كتاب تيسير مصطلح الحديث ص260 ) اسی روایت کو امام طبرانی دوسری سند سے لائیں ہیں اور وہاں مکحول سے روایت کرنے والے راوی کا نام موجود ہے ملاحظہ ہو حدثنا محمد بن عبد الله بن بكر السراج، ثنا إسماعيل بن إبراهيم، ثنا أيوب، عن مكحول، عن أبي أمامة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اتقوا البول، فإنه أول ما يحاسب به العبد في القبر» ( كتاب المعجم الكبير للطبراني :- 7607 ) بلکل وہی روایت ہے ایک لفظ کا بھی فرق نہیں اور راوی کا نام بھی واضح ہے *" أيوب بن مدرك الحنفي "* یہ راوی متھم بالکذب و وضع ہے مگر اس پر خاص جرح بھی ہے کہ اس کی امام مکحول شامی رحمہ اللہ سے روایات موضوع ہوتی ہیں اس راوی کو امام نسائی امام دارقطنی امام ابو حاتم رازی امام يحيى بن بطريق الطرسوسي رحمہمُ اللہ نے متروک الحدیث قرار دیا اور اسی راوی کو امام ابن معین رحمہ اللہ نے کذاب قرار دیا ( لسان الميزان :- 1382 ) امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں يروي المناكير عن المشاهير ويدعي شيوخا لم يرهم ويزعم أنه سمع منهم، روى عن مكحول نسخة موضوعة ولم يره یہ مشہور راویوں سے منکر ( بمعنی باطل ) روایتیں بیان کرتا ہے اور ایسے شیوخ ( الحدیث ) سے احادیث سننے کا ( جھوٹا ) دعویٰ کرتا ہے جنہیں اس نے نہیں دیکھا اس نے امام مکحول شامی رحمہ اللہ سے من گھڑت روایات کا نسخہ روایت کیا حالانکہ اس نے امام مکحول کو نہیں دیکھا ( كتاب المجروحين لابن حبان ت حمدي :- 99 ) لہذا ثابت ہوا یہ روایت موضوع ہے اس کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کرنا حلال نہیں فقط واللہ و رسولہٗ اعلم باالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین
  8. اس روایت کو امام دیلمی رحمہ اللہ نے مولا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کرکے بیان کیا مسند الفردوس میں حافظ ابن حجر عسقلانی رضی اللہ عنہ نے امام دیلمی سے اس کی سند بیان کی قال أبو عبد الرحمن السلمي حدثنا محمد بن مالك التميمي بمرو حدثنا أبو منصور الرباطي حدثنا محمد بن نهشل بن حميد حدثنا عبد الله بن رجاء عن إسرائيل عن أبي إسحاق عن الحارثعن علي رفعه "يأتي على الناس زمان همتهم بطونهم، وشرفهم متاعهم، وقبلتهم نساؤهم، ودينهم دارهم ودنانيرهم، أولئك شر الخلق، لا خلاق لهم عند الله" ( كتاب زهر الفردوس 8/335 ) ترجمہ :- لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ ان کا مقصد ان کا پیٹ ہوگا اور دولت ان کی عزت ھوگی عورت انکا قبلہ ھوگا روپیہ انکا دین ہوگا وہ بدترین لوگ ہوں گے آخرت میں اللہ کے نزدیک ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا یہ روایت شدید ضعیف و ساقط ہے اور ظلمات میں سے ہے اس کو فضائل کے باب میں بھی بیان نہیں کیا جاسکتا اس کی سند میں *"الحارث بن عبد الله الأعور"* متھم بالکذب ہے ( كتاب تهذيب التهذيب 2/145 ) اسی طرح سند میں *"أبو عبد الرحمن السلمي"* بھی متھم ہے ( كتاب سير أعلام النبلاء - ط الرسالة 17/252 ) باقی سند میں عبد الله بن رجاء تک سارے مجھول ہیں ہمیں یہ روایت کسی دوسری سند سے نہیں ملی فقط واللہ و رسولہٗ اعلم باالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین
  9. اس کو امام دیلمی رحمہ اللہ نے مسند الفردوس میں روایت کیا اور امام دیلمی سے اس کو باسند شیخ الاسلام حافظ ابن حجرعسقلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور امام سیوطی رحمہ اللہ نے نقل کیا قال: أنا حمد بن نصر أنا الميداني نا محمد بن يحيى العاصمي نا أحمد بن إبراهيم البعولي نا أبو علي بن الأشعث، نا سريج بن عبد الكريم، نا جعفر بن محمد بن جعفر بن محمد الحسيني أبو الفضل في كتاب "العروس" نا الوليد بن مسلم، نا محمد بن راشد، عن مكحول عن معاذ بن جبل رضي الله عنه قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "ذكر الأنبياء من العبادة وذكر الصالحين كفارة الذنوب وذكر الموت صدقة، وذكر النار من الجهاد وذكر القبر يقربكم من الجنة وذكر القيامة يباعدكم من النار، وأفضل العبادة ترك الحيل، ورأس مال العالم ترك الكبر، وثمن الجنة ترك الحسد، والندامة من الذنوب التوبة الصادقة" ( كتاب زهر الفردوس 4/538/39 ) ( كتاب الزيادات على الموضوعات 2/762 ) ترجمہ :- حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انبیاء کا ذکر عبادت ہے صالحین کا ذکر گناہوں کا کفارہ ہے موت کا ذکر صدقہ ہے اور جہنم کا ذکر جہاد میں سے ہے اور قبر کا ذکر تمہیں جنت کے قریب کردیتا ہے اور قیامت کا ذکر تمہیں جہنم سے دور کر دیتا ہے بہترین عبادت چالوں ( حیلے بہانوں ) کا ترک کرنا ہے، دنیا کا سرمایہ تکبر کو ترک کرنا ہے اور جنت کی قیمت حسد کا ترک کرنا ہے اور گناہوں پر ندامت سچی توبہ ہے ➊ : جعفر بن محمد بن جعفر بن محمد الحسيني أبو الفضل متھم بالوضع ہے اس کے بارے میں امام ابو عبداللّہ حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں "وضع الحديث على الثقات" یہ ثقہ راویوں پر احادیث گھڑتا ہے ( المدخل إلى الصحیح :- 31 ) ➋ : محمد بن محمد بن الأشعث أبو الحسن الكوفي یہ رافضی احادیث گھڑنے والا راوی ہے امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس نے کتاب العلویات کو گھڑا ہے ( سؤالات السهمي :- 52 ) امام ابن عدی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں میں نے اس سے ایک نسخہ لکھا جو تقریباً ایک ہزار روایات پر مشتمل تھا اور وہ ساری مناکیر ( یعنی باطل ) ہیں پھر آگے فرماتے ہیں اور اس پر اس نسخہ کو گھڑنے کا الزام ہے پھر فرماتے ہیں مجھے اس نسخے میں موجود روایات کی کوئی اصل نہیں ملی ( الكامل لابن عدي 6/351 ) لہذا ثابت ہوا یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے اس روایت کو امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے بھی موضوع قرار دیا کیونکہ آپ اس کو اپنی کتاب الزیادات علی الموضوعات میں لائے جس کے مقدمے میں آپ نے شرط لگائی ہے کہ آپ اس میں وہ موضوع روایات لائیں گے جو ابن الجوزی رحمہ اللہ الموضوعات میں نہیں لائے ( كتاب الزيادات على الموضوعات 2/762 و مقدمة الكتاب ص31 ) اس روایت کو امام ابن عراق الکنانی رحمہ اللہ نے بھی موضوع قرار دیا ( كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة 2/396 ) لہذا اس روایت کی نسبت نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف کرنا حلال نہیں فقط واللہ و رسولہٗ اعلم باالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
  10. اس کو احیاء العلوم میں ابو حامد غزالی رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کرکے نقل کیا پوسٹر میں بھی تخریج احیاءالعلوم مرتضی زبیدی کا حوالہ ہے فقد روي عن ابن عباس وأبي هريرة رضي الله عنهما إن من قرأ سورة الكهف ليلة الجمعة أو ليلة الجمعة أو يوم الجمعة أعطي نورا من حيث يقرؤها إلى مكة وغفر له إلى يوم الجمعة الأخرى وفضل ثلاثة أيام وصلى عليه سبعون ألف ملك حتى يصح وعوفي من الداء والدبيلة وذات الجنب والبرص والجذام وفتنة الدجال ابن عباس اور ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جو شخص شب جمعہ یا جمعہ کے روز سورہ کہف کی تلاوت کرتا ہے اسے ایک نور عطا کیا جاتا ہے جہاں سے وہ پڑھتا ہے وہاں سے لے کر مکہ مکرمہ تک اگلے جمعہ تک کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں بلکہ تین دن زائد کے بھی ستر ہزار فرشتے اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں اور اسے پیٹ کے پھوڑے برص پہلو کے درد کوڑھ کے مرض اور دجال کے فتنے سے محفوظ کر دیا جاتا ( كتاب إحياء علوم الدين 1/187 ) اس کو انہی الفاظ کے ساتھ باسند امام سیوطی نے الزیادات علی الموضوعات میں اور المستغفری نے فضائل القرآن میں روایت کیا دونوں کی سند ایک ہی ہے الديلمي: أخبرنا حمد بن نصر أخبرنا أبو طالب بن الصباح أخبرنا محمد بن عمر أخبرنا إبراهيم بن محمد حدثنا الحسين بن القاسم حدثنا إسماعيل بن أبي زياد عن ابن جريج عن عطاء عن أبي هريرة وعن ابن عباس مرفوعا: من قرأ سورة الكهف ليلة الجمعة أعطي نورا من حيث قرأها إلى مكة، وغفر له إلى الجمعة الأخرى وفضل ثلاثة أيام، وصلى عليه سبعون ألف ملك حتى يصبح، وعوفي من الداء والدبيلة وذات الجنب والبرص والجذام والجنون وفتنة الدجال امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ اس کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں إسماعيل كذاب، والحسين وإبراهيم مجروحان اس کی سند میں اسماعیل بن ابی زیاد جھوٹا راوی ہے اور حسین بن قاسم اور ابراہیم بن محمد دونوں مجروح ہیں ( كتاب الزيادات على الموضوعات 1/131 ) ( كتاب فضائل القرآن للمستغفري 2/562 ) نوٹ :- امام سیوطی کا اس روایت کو " زیادات " میں لانا ان کے نزدیک اس کے موضوع ہونے کی دلیل ہے جیسا کہ انہوں نے کتاب کے مقدمہ میں تصریح کی ہے . سند میں "إسماعيل بن زياد السكوني" کذاب یضع الحدیث ہے اس کے بارے میں آئمہ کا کلام درج ذیل ہے 1 : امام ابن حبان رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں شيخ دجال، یہ دجال ( جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے والا ) شیخ تھا ( كتاب المجروحين لابن حبان ت حمدي 1/138 ) 2 : امام دارقطنی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں يضع كذاب متروك ( كتاب الضعفاء والمتروكون للدارقطني 1/256 ) 3 : امام ذہبی رحمہ اللہ امام یحیی بن معین رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں قال ابن معين: كذاب متروك يضع ( كتاب تاريخ الإسلام - ت بشار 4/581 ) 4 : امام سبط ابن العجمی نے اس کو دجال قرار دیا امام ابن حجر نے متروک و کذبوہ اور امام ابو طاہر پٹنی نے کذاب رحمہمُ اللہ تعالیٰ ( الكشف الحثيث ص69 ) ( تقريب التهذيب :- 450 ) ( كتاب تذكرة ص78 ) لہذا خلاصہ یہ کہ ثابت ہوا یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ موضوع ہے علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اس کو موضوع قرار دیا ( كتاب الفوائد المجموعة :- 43 ) البتہ صحیح مسلم شریف میں صحیح حدیث ہے : من حفِظ عشرَ آياتٍ من أولِ سورةِ الكهفِ ، عُصِمَ من الدَّجَّالِ جو شخص سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرے گا وہ دجال کے فتنہ سے بچا لیا جائے گا صحیح مسلم :- 809 اسی طرح عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه؛ أنَّ النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قال: "مَن قرأ سورةَ {الكهف} في يومِ الجمعةِ؛ أضاء له من النور ما بين الجمعتين" رواه النسائي، والبيهقي مرفوعاً، والحاكم مرفوعاً وموقوفاً أيضاً، وقال: "صحيح الإسناد" حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو جمعہ کے دن سورة الکہف پڑھے اس کیلئے دونوں جمعوں (یعنی اگلے جمعے تک) کے درمیان ایک نور روشن کردیا جائے گا اسے امام نسائی اور امام بیہقی نے مرفوعاً روایت کیا ہے اور امام حاکم نے مرفوعاً و موقوفاً دونوں طریقے سے اور امام حاکم نے صحیح الاسناد قرار دیا شیخ ناصر الدین البانی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا ( كتاب صحيح الترغيب والترهيب 1/455 ) ایسے ہی ایک اور صحیح روایت میں آیا ہے «مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ الْعَتِيقِ» حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے جس نے جمعہ کی رات سورۃ الکھف پڑھی اس کے اور بیت اللہ کے درمیان نور کی روشنی ہو جاتی ہے كتاب مسند الدارمي - ت حسين أسد :- 3450 اسی طرح درجنوں صحیح احادیث اور روایات موجود ہیں لہذا موضوع اور شدید ضعیف روایات کے بجائے صحیح احادیث کی اشاعت بھی کی جائے اور ان پر عمل بھی کیا جائے فقط واللہ و رسولہٗ اعلم باالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
  11. یہ ایک موضوع ( منگھڑت ) روایت ہے اس کو امام الحسن الخلال نے فضائل سورہ اخلاص میں اپنی سند کے ساتھ روایت کیا حدثنا أحمد بن إبراهيم بن شاذان، ثنا عبد الله بن عامر الطائي، حدثني أبي، ثنا علي بن موسى، عن أبيه، موسى، عن أبيه، جعفر، عن أبيه، محمد، عن أبيه، علي، عن أبيه الحسين، عن أبيه علي بن أبي طالب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «من مر على المقابر وقرأ قل هو الله أحد إحدى عشرة مرة، ثم وهب أجره للأموات أعطي من الأجر بعدد الأموات» كتاب فضائل سورة الإخلاص للحسن الخلال :- 54 ترجمہ :- علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا جو شخص قبرستان سے گزرے اور گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ کے اس کا ثواب مردوں کو ایصال کرے تو اس کو ان مردوں کی تعداد کے برابر ثواب عطا کیا جائے گا اس سند عبد الله بن عامر الطائي ہے یہ خود تو متھم بالوضع ہے یعنی اس پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے لیکن اس پر خاص جرح بھی ہے وہ یہ کہ اس نے اپنے والد کے واسطہ سے امام علی رضا رضی اللہ عنہ پر ایک جھوٹا نسخہ بیان کیا ہے چناچہ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں عبد الله بن أحمد بن عامر، عن أبيه، عن علي الرضا، عن آبائه بتلك النسخة الموضوعة الباطلة، ما تنفك عن وضعه أو وضع أبيه ( كتاب ميزان الاعتدال :- 4200 ) یعنی عبداللہ نے اپنے والد کے واسطے سے امام علی رضا اور انکے آباؤ اجداد یعنی اہل بیت سے ایک جھوٹا نسخہ باطل نسخہ روایت کیا ہے امام ذہبی فرماتے ہیں یا تو اس نے اس نسخے کو گھڑا ہے یا اس کے باپ نے اس روایت کو امام جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب الزیادات علی الموضوعات میں نقل کیا جو ان کے نزدیک اس روایت کے جھوٹے ہونے پر دلالت کرتا ہے ( كتاب الزيادات على الموضوعات 2/577 ) اس کو دوسری سند کے ساتھ امام الرافعی رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں روایت کیا ( كتاب التدوين في أخبار قزوين 2/297 ) لیکن اس سند میں بھی داؤد بن سليمان الغازي ہے یہ راوی بھی کذاب ہے اور اس نے بھی ایک گڑھا ہوا نسخہ بیان کیا ہے امام علی رضا رضی اللہ عنہ سے اس کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمہ اللہ دونوں نے کذاب قرار دیا كذبه يحيى بن معين، ولم يعرفه أبو حاتم، وبكل حال فهو شيخ كذاب له نسخة موضوعة على الرضا امام ذہبی فرماتے ہیں اسے یحییٰ بن معین نے کذاب قرار دیا امام ابوحاتم نے کہا میں اسے نہیں جانتا اور امام ذہبی فرماتے ہیں کہ یہ ایک جھوٹا شخص ہے جس کے پاس امام علی رضا رضی اللہ عنہ پر گھڑا ہوا نسخہ تھا ( كتاب ميزان الاعتدال 2/8 ) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی موافقت کی ( كتاب لسان الميزان ت أبي غدة 3/397 ) خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ ایک جھوٹی روایت ہے جس کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کرنا حلال نہیں فقط واللہ و رسولہٗ اعلم باالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
  12. یہ ایک موضوع روایت ہے جو کئی کتب احادیث میں موجود ہے درج ذیل سند کے ساتھ ..... يحيى بن زهدم، عن أبيه، حدثني أبي عن أنس بن مالك قال قال رسول الله ...... ( كتاب شعب الإيمان - ط الرشد 11/426 ) ( كتاب الطب النبوي لأبي نعيم الأصفهاني 1/369 ) ( كتاب المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي - مخطوط 3/106 ) ( كتاب الموضوعات لابن الجوزي 3/204 ) روایت کا متن اس طرح ہے لا تكرهوا أربعة فإنها لأربعة لا تكرهوا الرمد فإنه يقطع عروق العمى ولا تكرهوا الزكام فإنه يقطع عروق الجذام ولا تكرهوا السعال فإنه يقطع عروق الفالج ولا تكرهوا الدماميل فإنها تقطع عروق البرص چار چیزوں کو چار وجہ سے برا مت جانو آشوب چشم کو برا مت جانو کیوں کہ وہ بینائی کی جڑ کاٹتی ہے زکام کو برا مت جانو کیوں کہ وہ جذام کی جڑ کاٹتا ہے کھانسی کو برا مت کہو کیونکہ وہ فالج کی جڑ کاٹتی ہے چہرے کے دانوں کو برا مت جانو کیوں کے وہ برس کی جڑ کاٹتے ہیں امام ابن الجوزی رحمہ اللہ اپنی الموضوعات میں اسے نقل کرکے فرماتے ہیں : هذا حديث موضوع قال ابن حبان: يحيى عن أبيه نسخة موضوعة لا يحل كتبها إلا على التعجب یہ حدیث موضوع منگھڑت ہے امام ابن حبان نے فرمایا یحیی بن زھدم نے اپنے باپ سے جھوٹی روایات کا نسخہ روایت کیا اس کی روایت کتابوں میں لکھنا جائز نہیں ما سوائے تعجب کہ شیخ الاسلام امیر المؤمنین فی الحدیث حافظ ابن حجر عسقلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں هذا باطل یہ ایک جھوٹی روایت ہے ( كتاب لسان الميزان 6/255 ) دراصل مسئلہ یہ ہے کہ یحیی بن زھدم فی نفسہ تو صدوق ہے لیکن اس نے اپنے باپ سے زهدم بن الحارث سے موضوع روایات کا ایک نسخہ روایت کیا لہذا اس کے باپ سے اس کی روایات جھوٹی شمار ہوں گی جیسا کہ حافظ ابن حجر اور امام ابن الجوزی کا حکم واضح ہے جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس کا تذکرہ کیا : يحيى بن زهدم الغفاري له نسخة موضوعة عن أبيه عن جده عن أنس ( تلخيص كتاب الموضوعات :- 895 ) لہذا اس جھوٹی روایت کی نسبت نبی علیہ الصلاۃ و السلام کی طرف کرنا حلال نہیں فقط واللہ و رسولہ اعلم باالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
  13. یہ ان الفاظ کے ساتھ مشہور ہے إن الزنا دين إذا أقرضته ... كان الوفا من أهل بيتك فاعلم بلاشبہ زنا ایک قرض ہے، اگر تم اس قرض میں مبتلا ہوئے ہو، تو یاد رکھو! اس قرض کی ادائیگی بھی تمہارے گھر ہی سے ہوگی نہ تو یہ حدیث ہے اور نہ ہی کسی بزرگ کا قول بلکہ یہ اصول شریعت کے بھی خلاف ہے کوئی کسی کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھاتا قرآن کی نص ہے وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۚ اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی سورۃ فاطر :- 18 یہ اشعار ناصر الحدیث امام محمد بن ادریس الشافعی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب دیوان الشافعی میں موجود ہیں اسی بنیاد پر بعض لوگ اسے امام شافعی کا قول کہتے ہیں لیکن امام شافعی کی ذات مبارکہ اس سے بری ہے والحمدللہ دیوان شافعی امام شافعی سے ثابت نہیں فقط واللہ و رسولہ اعلم باالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
  14. حضرت ہندہ بنت عتبہ کا سید الشہداء اسداللہ واسدالرسول حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما کا کلیجہ چبانا ثابت ہے اسے سند صحیح کے ساتھ امام احمد بن حنبل نے مسند میں روایت کیا جس میں جناب سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب کا جگر چبانے کے واضح الفاظ ہے حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ .......... فَنَظَرُوا فَإِذَا حَمْزَةُ قَدْ بُقِرَ بَطْنُهُ، وَأَخَذَتْ هِنْدُ كَبِدَهُ فَلَاكَتْهَا، فَلَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَأْكُلَهَا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَأَكَلَتْ مِنْهُ شَيْئًا " قَالُوا: لَا. قَالَ: " مَا كَانَ اللهُ لِيُدْخِلَ شَيْئًا مِنْ حَمْزَةَ النَّارَ ..... الخ چنانچہ صحابہ کرام نے دیکھا کہ حضرت حمزہ کا پیٹ چاک کردیا گیا تھا اور ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے انکا جگر نکال کر اسے چبایا تھا لیکن اسے کھا نہیں سکی تھی. تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی لاش دیکھ کر پوچھا کیا اس نے اس میں سے کچھ کھایا بھی ہے ؟؟ تو صحابہ نے عرض کیا نہیں تو نبی علیہ السلام نے فرمایا اللہ حمزہ کے جسم کے کسی بھی حصے کو جہنم میں داخل نہیں کرنا چاہتا ...... الخ ( كتاب مسند أحمد - ط الرسالة 7/419 ) بعض وہابی حضرات نے اس کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے انقطاع کا ڈھونگ رچایا اور یہ اعتراض کیا کہ امام شعبی کا ابن مسعود سے سماع نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ امام شعبی کا ابن مسعود سے سماع نہیں لیکن امام شعبی کی مراسیل عندالمحدثین صحیح اور متصل ہوتی ہیں امام عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مرسل الشعبي صحيح، لا يرسل إلا صحيحًا صحيحًا. امام شعبی کی مرسل صحیح ہوتی ہے ان کی کوئی مرسل نہیں ہوتی سوائے صحیح کے صحیح کے ( كتاب الثقات للعجلي ت قلعجي ص244 ) فقط واللہ و رسولہ اعلم باالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
  15. امام حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ نے فرمایا أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوبَ الْحَافِظُ، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الثَّقَفِيُّ، ثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَتْ لِي عَائِشَةُ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: «إِنِّي رَأَيْتُنِي عَلَى تَلٍّ وَحَوْلِي بَقَرٌ تُنْحَرُ» فَقُلْتُ لَهَا: لَئِنْ صَدَقَتْ رُؤْيَاكِ لَتَكُونَنَّ حَوْلَكَ مَلْحَمَةٌ، قَالَتْ: «أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّكَ، بِئْسَ مَا قُلْتَ» ، فَقُلْتُ لَهَا: فَلَعَلَّهُ إِنْ كَانَ أَمْرًا سَيَسُوءُكِ، فَقَالَتْ: «وَاللَّهِ لَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَفْعَلَ ذَلِكَ» ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدُ ذُكِرَ عِنْدَهَا أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَتَلَ ذَا الثُّدَيَّةِ، فَقَالَتْ لِي: «إِذَا أَنْتَ قَدِمْتَ الْكُوفَةَ فَاكْتُبْ لِي نَاسًا مِمَّنْ شَهِدَ ذَلِكَ مِمَّنْ تَعْرِفُ مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ» ، فَلَمَّا قَدِمْتُ وَجَدْتُ النَّاسَ أَشْيَاعًا فَكَتَبْتُ لَهَا مِنْ كُلِّ شِيَعٍ عَشَرَةً مِمَّنْ شَهِدَ ذَلِكَ قَالَ: فَأَتَيْتُهَا بِشَهَادَتِهِمْ فَقَالَتْ: «لَعَنَ اللَّهُ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ، فَإِنَّهُ زَعَمَ لِي أَنَّهُ قَتَلَهُ بِمِصْرَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ " [التعليق - من تلخيص الذهبي] - على شرط البخاري ومسلم ترجمہ :- مسروق فرماتے ہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے مجھ سے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک ٹیلے پر ہوں اور میرے اردگرد گائے ذبح کی جا رہی ہیں میں نے کہا اگر آپ کا خواب سچا ہوا تو آپ کے ارد گرد خون ریزی ہو گی ام المومنین نے کہا تم نے جو تعبیر بتائی ہے میں اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں میں نے کہا ہو سکتا ہے کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے جو آپ کے لئے تکلیف دہ ہو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میری وجہ سے کوئی فتنہ برپا ہو اس سے مجھے یہ زیادہ عزیز ہے کہ مجھے آسمان سے زمین پر پھینک دیا جائے کچھ عرصے بعد ام المؤمنین کے پاس یہ تذکرہ ہوا کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے " ذوالثدیہ " کو قتل کر دیا آپ نے مجھے حکم دیا کہ جب تم کوفہ آؤ تو شہر کے جتنے لوگ اس معاملے میں شریک ہوئے جن کو تم پہچانتے ہو ان سب کے بارے میں مجھے مطلع کرنا جب میں کوفہ میں آیا تو میں نے لوگوں کو جماعت در جماعت پایا میں نے ام المؤمنین کی جانب خط لکھا کہ ہر جماعت میں سے دس آدمی اس میں شریک ہوئے ہیں آپ فرماتے ہیں میں ان کی گواہی بھی ام المؤمنین کے پاس لایا ام المؤمنین نے فرمایا اللہ کی لعنت ہو عمرو بن عاص پر اس نے مجھ سے دعوی کیا تھا کہ اس نے اسے ( ذوالثدیہ کو ) مصر میں قتل کیا ہے امام حاکم فرماتے ہیں یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن شیخین نے اسکی تخریج نہیں کی تلخیص میں امام ذھبی نے بھی شیخین کی شرط پر صحیح کہا ( المستدرك على الصحيحين للحاكم :- 6744 ) شیعہ کا اس روایت سے استدلال ➊ صحابی رسول ﷺ عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ام المؤمنین سے جھوٹ بولا ➋ ام المؤمنین نے صحابی رسول ﷺ پر لعنت کی ➌ اگر صحابہ پر لعنت کرنا حرام٬ فسق٬ کفر اور گناہ ہے تو کیا یہ فتوی ام المؤمنین پر لگے گا یا فتویٰ غلط ہے ؟؟ الجواب وباللہ التوفیق۔ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ پر لعنت کرنا اور حضرت عمرو بن عاص کا جھوٹ بولنا ثابت نہیں اسی روایت کو امام ابوبکر بن ابی شیبہ نے اپنی " المصنف " میں عالی سند سے روایت کیا : حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: «رَأَيْتنِي عَلَى تَلٍّ كَأَنَّ حَوْلِي بَقَرًا يُنْحَرْنَ»، فَقَالَ مَسْرُوقٌ: إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ لَا تَكُونِي أَنْتَ هِيَ فَافْعَلِي، قَالَ: «فَابْتُلِيتُ بِذَلِكَ رَحِمَهَا اللَّهُ» ( كتاب المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت :- 30513 إسنادہ صحیح ) ترجمہ :- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں میں نے اپنے آپ کو خواب میں ایک ٹیلے پر دیکھا اور میرے ارد گرد بہت سی گاۓ ذبح کی جارہی تھیں مسروق نے کہا اگر آپ کے اندر طاقت ہے کہ آپ وہ نہ ہوں تو ایسا ضرور کریں لیکن حضرت عائشہ اس میں مبتلا ہو گئی اللہ ان پر رحم فرمائے آپ دیکھ سکتے ہیں نہ تو اس روایت میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر ہے اور نہ ہی ان کا جھوٹ بولنے کا اور نہ ہی ان پر لعنت کا اعمش سے یہ روایت دو لوگ بیان کر رہے ہیں : ➊ جرير بن عبد الحميد ➋ أبو معاوية الضرير اور محدثین کرام اور ناقدین حدیث و رجال نے اعمش سے روایت کرنے میں ابو معاویہ کو جریر پر مقدم اور ابو معاویہ کو جریر سے اعمش کی روایت میں اوثق قرار دیا ہے . جب امام یحیی بن معین اور احمد بن حنبل سے ابو معاویہ اور جریر کے بارے میں پوچھا گیا تو ان دونوں نے جواب دیا کہ ہمیں ابومعاویہ زیادہ محبوب ہیں اعمش کی روایت میں سألت أحمد بن حنبل ويحيى عن أبي معاوية وجرير فقالا أبو معاوية أحب إلينا يعنيان في الأعمش ( كتاب طبقات الحنابلة 1/118 ) امیر المؤمنین فی الحدیث حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں ابومعاویہ اعمش کی حدیث میں میزان ہیں . لأن أبا معاوية هو الميزان في حديث الأعمش ( كتاب فتح الباري لابن حجر 12/286 ) امام ذہبی فرماتے ہیں امام احمد سے امام اعمش سے روایت کرنے میں ابو معاویہ اور جریر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ابو معاویہ کو جریر پر مقدم کیا . سئل أحمد عن أبي معاوية وجرير في الأعمش ، فقدم أبا معاوية ( سير أعلام النبلاء 9/74 ) ان تمام تصریحات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جریر بن عبدالحمید کی روایت جس میں جھوٹ بولنے اور لعنت کرنے کا ذکر ہے وہ متن منکر ہے اوثق کی مخالفت کی وجہ سے جب کہ ابو معاویہ کی روایت جس میں دونوں باتوں کا ذکر نہیں وہی محفوظ اور صحیح متن ہے اس روایت کو اپنے طریق سے بیہقی نے نقل کیا اس میں لعنت کے الفاظ تو ہیں لیکن شخص کا نام نہیں یعنی صراحت نہیں کہ کس پر لعنت کی نیز یہ کہ وہ سند بھی ضعیف ہے أخبرنا أبو عبد الله الحافظ أخبرنا الحسين بن الحسن بن عامر الكندي بالكوفة من أصل سماعه حدثنا أحمد بن محمد بن صدقة الكاتب قال: حدثنا عمر بن عبد الله بن عمر بن محمد بن أبان بن صالح قال: هذا كتاب جدي: محمد بن أبان فقرأت فيه حدثنا الحسن بن الحر قال: حدثنا الحكم بن عتيبة وعبد الله بن أبي السفر، عن عامر الشعبي، عن مسروق، قال: قالت عائشة: عندك علم من ذي الثدية الذي أصابه علي رضي الله عنه في الحرورية قلت لا قالت فاكتب لي بشهادة من شهدهم فرجعت إلى الكوفة وبها يومئذ أسباع فكتبت شهادة عشرة من كل سبع ثم أتيتها بشهادتهم فقرأتها عليها قالت: أكل هؤلاء عاينوه؟ قلت: لقد سألتهم فأخبروني أن كلهم قد عاينه قالت: لعن الله فلانا فإنه كتب إلي أنه أصابهم بنيل مصر ثم أرخت عينيها فبكت فلما سكتت عبرتها. قالت: رحم الله عليا لقد كان على الحق وما كان بيني وبينه إلا كما يكون بين المرأة وأحمائها ( كتاب دلائل النبوة للبيهقي 6/434/35 ) سند میں موجود راوی " محمد بن أبان بن صالح " ضعیف الحدیث ہے اس کے ضعف پر محدثین کا اجماع ہے ( لسان الميزان :- 6354 ) نیز یہ کہ جس شخص پر لعنت کی جا رہی ہے اس کا نام بھی مبھم ہے لہذا اس روایت سے کسی طرح بھی استدلال نہیں کیا جاسکتا . خلاصہ کلام یہ ہوا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ پر لعنت کرنا اور ان کا سیدہ سے جھوٹ بولنا ثابت نہیں لہذا شیعہ کا اس روایت سے استدلال کرنا ان کے مذہب کی طرح باطل ہے . اللہ رحم فرمائے امام ذہبی پر کہ انہوں نے ظاہری سند کو دیکھتے ہوئے صحت کا حکم لگا دیا متن پر توجہ نہیں دی جب کہ ہم اوپر خود ان کی آخری کتاب " سیر اعلام نبلاء " سے ثابت کر آئے کہ انہوں نے ابو معاویہ کا جریر پر مقدم ہونا امام احمد سے نقل کیا ہے فقط واللہ رسولہٗ اعلم باالصواب محمد عاقب حسین رضوی 10 شعبان المعظم 1443ھ
  16. امام خطیب البغدادی رحمہ اللہ نے فرمایا : حدثنا أبو العلاء إسحاق بن محمد التمار في سنة ثمان وأربع مائة، قال: حدثنا أبو الحسن هبة الله بن موسى بن الحسن بن محمد المزني المعروف بابن قتيل بالموصل، قال: حدثنا أبو يعلى أحمد بن علي بن المثنى التميمي، قال: حدثنا شيبان بن فروخ الأبلي، قال: حدثنا سعيد بن سليم الضبي، قال: حدثنا أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كثرت ذنوبك فاسق الماء على الماء تتناثر كما يتناثر الورق من الشجر في الريح العاصف " ( كتاب تاريخ بغداد ت بشار :- 2199 ) انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تمہارے گناہ بہت ہو گئے ہیں تو لوگوں کو پانی پلاؤ تمہارے گناہ اس طرح جھڑ جائیں گے جس طرح طوفانی ہواؤں سے درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں یہ حدیث ضعیف ہے اسکی سند میں موجود راوی 1 : ابن قتيل المزني مجھول العین ہے 2 : سعيد بن سليم الضبي ضعیف الحدیث ہے . ( تقريب التهذيب :- 2337 ) ہمارے علم و تحقیق کے مطابق اسے کسی دوسری سند سے روایت نہیں کیا گیا. فقط واللہ و رسولہ اعلم خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
  17. یہ ایک طویل روایت کا حصہ ہے مکمل روایت درج ذیل ہے : عن ابن عباس -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم: "أرحم أمتي بأمتي أبو بكر, وأقواهم في دين الله عمر, وأشدهم حياءً عثمان, وأقضاهم علي بن أبي طالب, ولكل نبي حواري وحواريي طلحة والزبير وحيثما كان سعد بن أبي وقاص كان الحق معه, وسعيد بن زيد من أحباء الرحمن, وعبد الرحمن بن زيد من تجار الرحمن, وأبو عبيدة بن الجراح أمين الله وأمين رسوله, ولكل نبي صاحب سر وصاحب سري معاوية بن أبي سفيان, فمن أحبهم فقد نجا ومن أبغضهم فقد هلك" أخرجه الملاء في سيرته. ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا میری امت میں سب سے زیادہ رحیم ابوبکر صدیق اور دین کی باتوں میں سب سے زیادہ قوی عمر اور حیا میں سب سے زیادہ عثمان اور علم قضاء میں سب سے زیادہ علی اور ہر نبی کے کچھ حواری ہوتے ہیں میرے حواری طلحہ اور زبیر اور جہاں کہیں سعد بن ابی وقاص ہوں تو حق انہی کی طرف ہوگا اور سعید بن زید ان دس آدمیوں میں سے ہیں جو الرحمٰن کے محبوب ہیں اور عبدالرحمن بن عوف الرحمٰن کے تاجروں میں سے ہیں اور ابو عبیدہ ابن جراح اللہ اور رسول اللہ کے امین ہیں ہر نبی کا ایک راز دار ہوتا ہے اور میرے راز دار معاویہ بن ابی سفیان ہیں جو شخص ان سب سے محبت رکھے گا نجات پائے گا جو شخص ان سے بغض رکھے گا ہلاک ہوگا رضی اللہ عنھم محب الدین طبری اسے نقل کرنے کے بعد کہتے ہے أخرجه الملاء في سيرته یعنی اسے أبو حفص عمر بن محمد الموصلي،المعروف بالملاء (المتوفی570) نے وسيلة المتعبدين في سيرة سيد المرسلين میں روایت کیا ہے ۔ اس کتاب کے بارے میں حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَلَمْ نَذْكُرْ مَنْ لَا يَرْوِي بِإِسْنَادِ - مِثْلَ كِتَابِ وَسِيلَةِ الْمُتَعَبِّدِينَ لِعُمَرِ الملا الموصلي وَكِتَابِ الْفِرْدَوْسِ لِشَهْرَيَارَ الديلمي وَأَمْثَالِ ذَلِكَ - فَإِنَّ هَؤُلَاءِ دُونَ هَؤُلَاءِ الطَّبَقَاتِ ؛ وَفِيمَا يَذْكُرُونَهُ مِنْ الْأَكَاذِيبِ أَمْرٌ كَبِيرٌ [مجموع الفتاوى:1/ 261] یعنی اس کتاب میں بے سند روایات ہیں اور اس کتاب میں اکثر من گھڑت اور جھوٹی روایات ہیں نوٹ :- اس حدیث کو کئی محدثین نے اپنی اپنی کتب میں مختلف الفاظ کے ساتھ اضافے اور کمی کے ساتھ نقل کیا حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے اس کو پانچ سندوں سے نقل کیا ( كتاب تاريخ دمشق لابن عساكر 39/95 ) ( كتاب تاريخ دمشق لابن عساكر 58/401 ) امام ابو یعلی موصلی رحمہ اللہ نے اس کو اپنی سند سے نقل کیا ( كتاب مسند أبي يعلى - ت السناري 8/62 ) امام بزار رحمہ اللہ نے اپنی سند سے نقل کیا ( كتاب مسند البزار = البحر الزخار 13/259 ) امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی سند سے نقل کیا ( كتاب صحيح ابن حبان: التقاسيم والأنواع 4/306 ) امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اپنی سند صحیح کے ساتھ نقل کیا : ( كتاب سنن ابن ماجه - ت الأرنؤوط 1/107 ) اسی طرح امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اپنی سند صحیح کے ساتھ ( كتاب سنن الترمذي - ت شاكر 5/644 ) اور اسی طرح درجنوں محدثین نے مگر کسی نے بھی حضرت امیر معاویہ کی فضیلت کا اضافہ نہیں کیا کہ معاویہ میرے رازداں ہیں حالانکہ امام ابن ماجہ نے حضرت معاذ بن جبل ابی بن کعب بن زید بن ثابت کی فضیلت کا بھی اضافہ کیا لیکن حضرت امیر معاویہ کی فضیلت کا اضافہ کسی محدث نے باسند یا بے سند نہیں کیا حضرت معاویہ کی فضیلت کا اضافہ اس کتاب میں موجود ہے جو کتاب موضوع من گھڑت روایات کی اکثریت پر مشتمل ہے اور بے سند روایات پر مشتمل ہے لہذا حضرت امیر معاویہ کی فضیلت کا اضافہ باطل ہے . عدم متابعت و شواہد و سند و معتبر مآخذ کی بنا پر جن تین صحابہ کی فضیلت کا اضافہ سند صحیح سے ثابت ہے وہ درج ذیل ہے سنن ابن ماجہ :- 154 صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي دِينِ اللَّهِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ، وَأَقْضَاهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَأَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينًا، وَأَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ"، انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں، اللہ کے دین میں سب سے زیادہ سخت اور مضبوط عمر ہیں، حیاء میں سب سے زیادہ حیاء والے عثمان ہیں، سب سے بہتر قاضی علی بن ابی طالب ہیں، سب سے بہتر قاری ابی بن کعب ہیں، سب سے زیادہ حلال و حرام کے جاننے والے معاذ بن جبل ہیں، اور سب سے زیادہ فرائض (میراث تقسیم) کے جاننے والے زید بن ثابت ہیں، سنو! ہر امت کا ایک امین ہوا کرتا ہے، اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں“ فقط واللہ و رسولہ اعلم خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
  18. امام الحافظ ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ نے فرمایا: حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا يحيى بن نصر الخولاني، ثنا عبد الله بن وهب، أخبرني يحيى بن أيوب، عن زبان بن فائد، عن سهل بن معاذ، عن أبيه، رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من بر والديه طوبى له زاد الله في عمره» هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه " [التعليق - من تلخيص الذهبي]٧٢٥٧ - صحيح ( كتاب المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية :- 7257 ) ترجمہ :- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اپنے والدین کی عزت کی، اللہ اس کی عمر میں برکت عطا فرمائے"۔ اگرچہ امام حاکم اور امام ذہبی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے مگر اس کی سند میں علت قادحہ موجود ہے سند میں زبان بن فائد اور سهل بن معاذ دونوں ضعیف الحدیث ہیں . اور تعجب کی بات ہے کہ دونوں کو خود امام ذھبی نے بھی ضعیف قرار دیا ہے . زبان بن فائد المصري عن سهل بن معاذ وعنه الليث وابن لهيعة فاضل خير ضعيف ( كتاب الكاشف للذہبی :- 1610 ) شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی اس کو ضعیف قرار دیا ( تقريب التهذيب 1/213 ) اسی طرح سهل بن معاذ کو امام ذہبی اور یحیی بن معین نے ضعیف قرار دیا اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس سے روایت کرنے میں خاص زبان بن فائد کی روایت پر کلام کیا . ہمارے علم کے مطابق کسی دوسرے محدث نے اس کو کسی دوسری سند سے بیان نہیں کیا لہذا یہ حدیث ضعیف ہے ۔ لیکن والدین کے ساتھ حسن سلوک اختیار کرنا اور ان کی عزت کرنا یہ دیگر درجنوں صحیح احادیث سے ثابت ہے جس کی بڑی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہیں : امیر المومنین فی الحدیث سید المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب الادب المفرد میں پہلی حدیث لائے ہیں الادب المفرد :- 01 صحیح عمرو بن شیبانی، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ہمیں اس گھر والے نے بتایا کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔“ میں نے کہا: اس کے بعد کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔“ میں نے کہا: اس کے بعد کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اللہ کے رستے میں جہاد کرنا۔“ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے انہی سوالوں پر اکتفا کیا، اگر میں مزید درخواست کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزید چیزیں بتا دیتے۔ فقط واللہ و رسولہ اعلم خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
×
×
  • Create New...