Jump to content

Muhammad hasanraz

اراکین
  • کل پوسٹس

    10
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    1

پوسٹس ںے Muhammad hasanraz کیا

  1. (امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا 40 سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھنا اور پلمبری فرقے کا اعتراض )


    محترم قارئین كرام بیشک اللّه رب العزت نے اپنے مقریب بندوں کو بیشمار کمالات و کرامات سے نوازا ہے۔۔ لیکن کچھ لوگ اپنی جہالت سے مجبور ہیں اور آئے دن اولیا عظام و صحابہ كرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی تنقیص و توہین کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جس میں سرِ فہرست دورِ حاضر کا بدترین فتنہ نام نہاد انجینئر مرزا بھی ہے : 
    اعتراض:(انجینئر محمد علی مرزا عرف پلمبر اپنی ایک ویڈیو میں بکواس کرتے ہوے کہتا ہے کہ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی شخص مسلسل چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھے یہ تو کہانی ہے جو کہ علماء احناف نے معاذ اللہ خود سے بنائی ہے)

    °°°°°°°°°°°الجواب و باللہ التوفیق°°°°°°°°°

     پہلی عرض تو یہ ہے کہ بیشک کرامات حق ہیں جس کہ دلائل قرآن و احادیث میں بیشمار موجود ہیں اور امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عشاء کے وضو سے چالیس سال تک فجر کی نماز پڑھنا یہ بھی کرامت میں سے ہی ہے اور کرامت کہتے ہی اسی ہیں جو عقل سے بلاتر ہو 
    جس کی ایک دلیل قرآن سے ملاحظہ فرمائیں:
    ______________________________________
    ارشاد باری تعالٰی ہے: (قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ ﱎ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ-وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ(۴۰))

    ترجمہ:اُس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھاکہ میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا (چنانچہ) پھر جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو فرمایا: یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری؟ اور جو شکر کرے تو وہ اپنی ذات کے لئے ہی شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے پرواہ ہے، کرم فرمانے والا ہے۔(پ19،النمل:40)
    __________________________________________
    محترم قارئین كرام آپ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے امّتی حضرت آصف بن برخیا رحمہ اللہ کا واقعہ پڑھا جن کہ پاس کتاب کا کچھ علم تھا اور وہ اتنی بڑی کرامت دیکھا گئے پلک جھپکنے سے بھی پہلے وہ تخت جو ہزاروں میل کہ فاصلہ پر تھا اس کو اٹھا کر حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے پیش کر دیا۔۔
    تو معلوم ہوا کہ اللّه رب العزت اپنی عطا سے اولیائے عظام کو کرامات عطا فرماتا ہے 

    اب یہاں تو حضرت سلیمان علیہ السلام کہ امتی حضرت آصف تھے جن کہ کمال کا یہ عالم تھا عوام اہلسنّت ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر ایمان کی ٹھنڈک کو محسوس کرتے ہوۓ سوچیں جب حضرت سلیمان کہ امتی جن کے پاس کتاب کا کچھ علم ہو ان کہ کمالات و کرامات کا یہ عالم ہے تو پھر جو امّت تمام امّتوں میں سب سے افضل ہو یعنی امّت محمدی اِس امّت کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامات و كامالات کا عالم کیا ہوگا۔۔

    اب آتے ہیں ان مستند اور معتبر  محدثین کی طرف جنہوں نے امام اعظم کی اس کرامت کو اپنی کتب کی زینت بنایا ہے 
    _______________________________________
     امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں 

    وعن زافر بن سليمان، قال كان أبو حنيفة يحيى الليل بركعة يقرأ فيها القرآن. وعن أسد بن عمرو، قال: صلى أبو حنيفة صلاة الفجر بوضوء العشاء أربعين سنة، وكان عامة الليل يقرأ القرآن فى ركعة، وكان يسمع بكاؤه حتى ترحمه جيرانه، وحفظ عليه أنه ختم القرآن فى الموضع الذى توفى فيه سبعة آلاف مرة

    زافر بن سلیمان نے کہا ابو حنیفہ رات کو ایک رکعت پڑھتے جس میں وہ پورا قرآن پڑھتے تھے۔ اسد بن عمرو سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ابو حنیفہ نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشا کے وضو سے پڑھی، اور رات کے اکثر حصے میں ایک ہی رکعت میں پورا قرآن پڑھا کرتے تھے

    📓(لكتاب: تهذيب الأسماء واللغات جلد2 صفحہ88)
    ________________________________________
    امام شمس الدین ذھبی الشافعی لکھتے ہیں:

    وعن أسد بن عمرو: أن أبا حنيفة رحمه الله-صلى العشاء والصبح بوضوء أربعين سنة

    اسد بن عمرو سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشاء کہ وضو سے پڑھی۔

    📗(الكتاب: سير أعلام النبلاء جلد6 صفحہ 399)
    _______________________________________
    امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

    اسد بن عمرو نے روایت کی ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رات کو نماز پڑھتے تھے اور ہر شب کو قرآن پڑھتے تھے اور روتے تھے حتی کہ آپکے پڑوسیوں کو آپ پر رحم آ جا تا تھا آپ چالیس سال تک عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے رہے اور جس جگہ آپ نے وفات پائی آپ نے اس میں ستر ہزار دفعہ قرآن ختم کیا

    📓(الکتاب:تاریخ ابن کثیر جلد10 صفحہ134)
    ______________________________________
    خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی الشافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

    ابی یحییٰ حمانی امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض تلامذہ سے روایت کرتے ہیں امام صاحب عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھتے تھے اور رات میں نوافل پڑھنے کے لیے ریش مبارک میں کنگھی کر کے مزین فرماتے تھے۔
    📕(الکتاب:تبییض الصحیفة صفحہ61)

    محترم قارئین كرام یہ تمام وہ اکابرین و آئمہ حدیث ہیں جن کو مرزا صاحب اپنا مانتے ہیں اور اپنی ویڈیوز میں انھیں کتب سے حوالہ جات دیکھا رہے ہوتے ہیں۔۔
    یہی مرزا صاحب کا دجل ہے اور منافقت ہے کہ اپنے مقصد کی بات کو لے لیتے ہیں اور باقی سب ان کہ نذدیک کہانی قصہ اور معاذ اللہ بدعت ہوتی ہے 

    تو اب مرزا صاحب اور ان کہ اندھے مقلدین ذرا ہمّت کریں اور لگائیں فتویٰ امام نووی۔امام ذھبی۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر 

    اللّه تعالیٰ حق پات سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین بجاہ النبی الامین
    ______________________________________
    ازقلم:خادم اھلسنّةوالجماعة محمد حسن رضا قادری رضوی الحنفی البریلوی

    20220306_185957.jpg

    20220306_194437.jpg

    20220306_162500.jpg

    20220306_164306.jpg

    20220306_170255.jpg

  2. (مزار بنانے کا ثبوت وہابیہ کی کتب سے)

    بسم الله الرحمن الرحيم
    _________________________________
    محترم قارئین کرام پچھلی پوسٹ میں ہم نے صحلحین کے مزارات تعمیر کرنے کا ثبوت صحابیِ رسول ﷺ حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللّه تعالیٰ سے ثابت کیا تھا آج ان شاءاللہ وہابیوں کے گھر سے یہ ثابت کریں گے کے مزارات تعمیر کرنا انبیاء کرام علیہ السلام کی سنّت ہے
    غیر مقلدین حضرات کی معتبر کتاب اٙطلسُ القرآن  میں لکھا ہے👇🏻
    ____________________________________

    معجم البلدان میں لکھا ہے کہ یہاں ایک غار میں حضرت ابراھیمؑ حضرت اسحٰقؑ حضرت یعقوبؑ حضرت یوسفؑ کی قبریں ہیں کہا جاتا ہے کے حضرت آدمؑ کی قبر بھی اسی غار میں ہے
    حضرت سلیمانؑ نے وحی الہی کے مطابق ان انبیاء کی قبور پر قبہ نما چھت بنادی۔حضرت سارہ زوجہ حضرت ابراھیمؑ ربقہ زوجہ اسحٰقؑ ایليا زوجہ یعقوبؑ کی قبریں بھی اسی غار میں ہیں

    (اطلس القرآن صفحہ 37تا 38 تصنیف دکتور شوق ابو خلیل مکتبہ دارالسلام)
    ____________________________________
    محترم قارئین کرام دیکھا آپ نے خود وہابیوں کی کتاب سے یہ بات ثابت ہو گئی کے انبیاء و اولیاء کرام کے مزارات کی تعمیر کرنا خود انبیاء کرام اور صحابہ کرام کی سنّت ہے اور اللّه کے حکم سے حضرت سلیمان نے انبیاءکرام کے مزار بناۓ
    اور جن روایت میں قبروں کو ڈھانے کا حکم ہے تو وہ قبریں مشرکین کی تھی نہ کہ مومینن کی بکے ہم نے یہ ثابت کر دیا کے صحلحین کے مزار بنانا جائز ہے

    اللّه پاک ہم سب کو حق بات سمجھنے کی عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین
    ________________________________
    دعاگو:خادم اہلسنّت محمد حسن رضا قادری رضوی

    FB_IMG_1637183975691.jpg

    FB_IMG_1637183977747.jpg

    FB_IMG_1637183979683.jpg

  3. (حدیث: من كنت مولاه فعلي مولاه کا صحیح مفہوم اور معنی)

    _بسم اللہ الرحمن الرحیم __________________________________
    محترم قارئین کرام اکثر اہل تشیع حضرات حدیث: من كنت مولاه فعلي مولاه سے غلط استدلال اور استنباط کر کے عوام الناس کو دھوکہ دیتے ہیں کہ معاذ اللہ مولا علی رضی اللّه عنہ  انبیاء کے بھی مولا ہیں اور انبیاء سے بھی افضل ہیں معاذ اللہ

    آج کی اس پوسٹ میں ان شاءاللہ شیعہ کے اس باطل عتراض کا منہ توڑ جواب دیں گے
    ___________________________________
    پہلا الزمی جواب:نبی کریم نے حضرت علی کو مولا فقط نہیں کہا بلکہ حضرت زید کو بھی مولا فرمایا ہے۔ 
    تو اس حساب سے حضرت زید بھی تمام انبیاء کے مولا بن جائیں گے👇🏻

    وَقَالَ لِعَلِيٍّ : أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ ، وَقَالَ لِجَعْفَرٍ : أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي ، وَقَالَ لِزَيْدٍ : أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا   

    رسول اللّهﷺ نے فرمایا:علی رضی اللّه عنہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم صورت اور عادات و اخلاق سب میں مجھ سے مشابہ ہو۔ زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے مولا بھی

    (بخاری شریف کتاب الصلح حدیث نمبر 2699)
    ___________________________________
    محترم قارئین کرام دیکھا آپ نے خود رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے زید رضی اللہ تعالی عنہ بھی مولا ہیں اب شیعہ حضرات کیا کہیں گے
    اب آتے ہیں تحقیق جواب کی طرف👇🏻
    ___________________________________
    تحقیقی جواب نبی کریم نے مولا حضرت علی کو بمعنی دوست اور رفیق قرار دیا تھا نہ کہ مددگار  کیونکہ متقدمین میں مجتہدین نے  حدیث کی شرح بتا دی ہے جیسا کہ امام شافعی رضی اللّه عنہ سے اس حدیث کی شرح ثابت ہے

    امام بیھقی نے اس روایت کی شرح امام شافعی علیہ رحمہ سے نقل کی ہے

    أخبرنا أبو عبد الله السلمي، ثنا محمد بن محمد بن يعقوب الحجاجي، ثنا العباس بن يوسف الشكلي قال: سمعت الربيع بن سليمان يقول: سمعت الشافعي رحمه الله يقول في معنى قول النبي صلى الله عليه وسلم لعلي بن أبي طالب رضي الله عنه: من كنت مولاه فعلي مولاه، يعني بذلك ولاء الإسلام

    امام ربیع بن سلیمان فرماتے ہیں میں نے امام شافعی سے سنا کہ نبی اکرمﷺ کے اس قول کا معنی جو انہوں نے مولا علی سے کہا جسکا میں مولا علیؓ اسکا مولا اسے مولا سے مراد اسلامی بھائی چارہ ہے
    سند صحیح

    (الاعتقادللبيهقي صفحہ 499)
    ____________________________________
    محترم قارئین کرام دیکھا آپ نے شیعہ کے دجل و فریب  کے کس طرح پرخچے اڑ گئے اور معلوم ہوا کہ اس حدیث سے کا مطلب دوست اور رفیق کے ہیں نہ کے مولا علی رضی اللّه عنہ کو انبیاء کے مولا اور افضل کہنے کے تو جو شخص اب یہ کہیں کے دیکھو مولا علی انبیاء سے افضل ہیں معاذ اللہ اور انبیاءکرام کے مولا ہیں تو ایسا شخص جاہل اور علمی یتیم ہے
      ________________________________ تحقیق ازقلم:محمد حسن رضا قادری رضوی

    IMG-20211105-WA0150.jpg

    IMG-20211105-WA0151.jpg

    IMG-20211105-WA0152.jpg

    IMG-20211105-WA0153.jpg

  4. (حدیث: من كنت مولاه فعلي مولاه کا صحیح( مفہوم اور معنی

    _بسم اللہ الرحمن الرحیم __________________________________
    محترم قارئین کرام اکثر اہل تشیع حضرات حدیث: من كنت مولاه فعلي مولاه سے غلط استدلال اور استنباط کر کے عوام الناس کو دھوکہ دیتے ہیں کہ معاذ اللہ مولا علی رضی اللّه عنہ  انبیاء کے بھی مولا ہیں اور انبیاء سے بھی افضل ہیں معاذ اللہ

    آج کی اس پوسٹ میں ان شاءاللہ شیعہ کے اس باطل عتراض کا منہ توڑ جواب دیں گے
    ___________________________________
    پہلا الزمی جواب:نبی کریم نے حضرت علی کو مولا فقط نہیں کہا بلکہ حضرت زید کو بھی مولا فرمایا ہے۔ 
    تو اس حساب سے حضرت زید بھی تمام انبیاء کے مولا بن جائیں گے👇🏻

    وَقَالَ لِعَلِيٍّ : أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ ، وَقَالَ لِجَعْفَرٍ : أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي ، وَقَالَ لِزَيْدٍ : أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا   

    رسول اللّهﷺ نے فرمایا:علی رضی اللّه عنہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم صورت اور عادات و اخلاق سب میں مجھ سے مشابہ ہو۔ زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے مولا بھی

    (بخاری شریف کتاب الصلح حدیث نمبر 2699)
    ___________________________________
    محترم قارئین کرام دیکھا آپ نے خود رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے زید رضی اللہ تعالی عنہ بھی مولا ہیں اب شیعہ حضرات کیا کہیں گے 
    اب آتے ہیں تحقیق جواب کی طرف👇🏻
    ___________________________________
    تحقیقی جواب نبی کریم نے مولا حضرت علی کو بمعنی دوست اور رفیق قرار دیا تھا نہ کہ مددگار  کیونکہ متقدمین میں مجتہدین نے  حدیث کی شرح بتا دی ہے جیسا کہ امام شافعی رضی اللّه عنہ سے اس حدیث کی شرح ثابت ہے

    امام بیھقی نے اس روایت کی شرح امام شافعی علیہ رحمہ سے نقل کی ہے

    أخبرنا أبو عبد الله السلمي، ثنا محمد بن محمد بن يعقوب الحجاجي، ثنا العباس بن يوسف الشكلي قال: سمعت الربيع بن سليمان يقول: سمعت الشافعي رحمه الله يقول في معنى قول النبي صلى الله عليه وسلم لعلي بن أبي طالب رضي الله عنه: من كنت مولاه فعلي مولاه، يعني بذلك ولاء الإسلام

    امام ربیع بن سلیمان فرماتے ہیں میں نے امام شافعی سے سنا کہ نبی اکرمﷺ کے اس قول کا معنی جو انہوں نے مولا علی سے کہا جسکا میں مولا علیؓ اسکا مولا اسے مولا سے مراد اسلامی بھائی چارہ ہے
    سند صحیح

    (الاعتقادللبيهقي صفحہ 499)
    ____________________________________

    محترم قارئین کرام دیکھا آپ نے شیعہ کے دجل و فریب  کے کس طرح پرخچے اڑ گئے اور معلوم ہوا کہ اس حدیث سے کا مطلب دوست اور رفیق کے ہیں نہ کے مولا علی رضی اللّه عنہ کو انبیاء کے مولا اور افضل کہنے کے تو جو شخص اب یہ کہیں کے دیکھو مولا علی انبیاء سے افضل ہیں معاذ اللہ اور انبیاءکرام کے مولا ہیں تو ایسا شخص جاہل اور علمی یتیم ہے
    _________________________________
    تحقیق ازقلم:محمد حسن رضا قادری رضوی

    IMG-20211105-WA0150.jpg

    IMG-20211105-WA0151.jpg

    IMG-20211105-WA0152.jpg

    IMG-20211105-WA0153.jpg

  5. (مزار بنانا سنّتِ صحابہ کرام رضی اللّه تعالیٰ عنہما ہے)

    بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم

    ____________________________________

    محترم قارئین کرام اکثر اہل باطلہ وہابیہ نجدیہ اپنی جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوۓ پلاسٹک کا فتویٰ دیتے ہیں کے مزاراتِ اولیاء تعمیر کرنا حرام ہے نعوذ بالله من ذلك

    آج کی اس پوسٹ میں وہابی کہ اس باطل اعترض کا دلائل سے رد کر کے یہ ثابت کریں گے کے مزار بنانا سنّت صحابہ ہے

    دلیل امام ابي زيد عمر بن شبةمعتبر کتاب تاریخ المدینة المنورة میں روایت نقل کرتے ہیں

    ____________________________________

    بر أم حبيبة زوج النبي ﷺ رضي الله عنها

    ٣٥٩ - حدثنا محمد بن يحيى قال، أخبرني عبد العزيز بن عمران، عن يزيد بن السائب قال، أخبرني جدي قال: لما حفر عقيل بن أبي طالب في داره بئرا وقع على حجر جدې د منقوش مكتوب فيه : قبر أم حبيبة بنت صخر بن حرب، فدفن عقيل البئر، وبنى عليه بيتا. قال يزيد بن السائب : فدخلت ذلك البيت فرأيت فيه ذلك القبر (4).

     

    *359 - ہم سے محمد بن یحییٰ نے بیان کیا ، اس نے کہا ، مجھ سے عبدالعزیز بن عمران نے ، یزید بن الصائب کے اختیار پر ، اس نے کہا ، میرے دادا نے مجھے بتایا ، اس نے کہا: جب عقیل بن ابی طالب نے ایک کنواں کھودا اپنے گھر میں ، کھودتے کھودتے ایک پھتر نکال آیا جس پر نقش بنا ہوا تھا اور اس پھتر پر لکھا تھا : ام حبیبہ بنت صخر بن حرب کی قبر۔ہے عقیل نے کنویں کو دفن کیا اور اس پر ایک گھر بنایا۔ یزید بن الصائب نے کہا: میں اس گھر میں داخل ہوا اور اس قبر کو اس میں دیکھا (4)*۔

    تاریخ المدینة المنورة جلد اول صفحہ 70 مصنف امام ابي زيد عمر بن شبة_

    _________________________________ 

     محترم قارئین کرام دیکھا آپ نے جب صحابی رسول ﷺ حضرت عقیل بن ابی طالب کو معلوم ہوا کے یہ قبر حضرت امی حبیبہ رضی اللّه تعالیٰ عنہا کی ہے تو صحابی رسول ﷺ نے اس قبر پر مزار بنا دیا اب یہاں ہم ایک سوال کرتے ہیں وہابیو کیا حضور ﷺ کہ صحابہ کو معلوم نہیں تھا کہ رسول اللّهﷺ نے ہمیں قبر ڈھانے کا حکم دیا ہے وہابی جواب دیں 

    ارے حضور ﷺ کا یہ فرمانا مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کے جو اونچی قبر دیکھو اس كو ڈھا دو وہ حکم مشرکین کی قبروں کے لیے تھا مومینن کی قبروں کو تو خود صحابہ تعمیر کیا کرتے تھے اور وہابیو اپنی عقل کو ہاتھ مارو اور عوام کو احادیث کا غلط مفہوم بتا کر گمراہ نہ کرو

     اللّه رب العزت ہم سب کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطاء فرماۓ آمین

    دعاگو:خادم اہلسنّت محمد حسن رضا قادری 

    • Thanks 1
  6. (مزار بنانا سنّتِ صحابہ کرام رضی اللّه تعالیٰ عنہما ہے)

    بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم 

    ____________________________________

    محترم قارئین کرام اکثر اہل باطلہ وہابیہ نجدیہ اپنی جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوۓ پلاسٹک کا فتویٰ دیتے ہیں کے مزاراتِ اولیاء تعمیر کرنا  حرام ہے نعوذ بالله من ذلك
    آج کی اس پوسٹ میں وہابی کہ اس باطل اعترض کا دلائل سے رد کر کے یہ ثابت کریں گے کے مزار بنانا سنّت صحابہ ہے

    1دلیل امام ابي زيد عمر بن شبةمعتبر کتاب تاریخ المدینة المنورة میں روایت نقل کرتے ہیں
    ____________________________________

    قبر أم حبيبة زوج النبي ﷺ رضي الله عنها

    ٣٥٩ - حدثنا محمد بن يحيى قال، أخبرني عبد العزيز بن عمران، عن يزيد بن السائب قال، أخبرني جدي قال: لما حفر عقيل بن أبي طالب في داره بئرا وقع على حجر جدې د منقوش مكتوب فيه : قبر أم حبيبة بنت صخر بن حرب، فدفن عقيل البئر، وبنى عليه بيتا. قال يزيد بن السائب : فدخلت ذلك البيت فرأيت فيه ذلك القبر (4).

    *359 - ہم سے محمد بن یحییٰ نے بیان کیا ، اس نے کہا ، مجھ سے عبدالعزیز بن عمران نے ، یزید بن الصائب کے اختیار پر ، اس نے کہا ، میرے دادا نے مجھے بتایا ، اس نے کہا: جب عقیل بن ابی طالب نے ایک کنواں کھودا اپنے گھر میں ، کھودتے کھودتے ایک پھتر نکال آیا جس پر نقش  بنا ہوا تھا اور اس پھتر پر لکھا تھا : ام حبیبہ بنت صخر بن حرب کی قبر۔ہے عقیل نے کنویں کو دفن کیا اور اس پر ایک گھر بنایا۔ یزید بن الصائب نے کہا: میں اس گھر میں داخل ہوا اور اس قبر کو اس میں دیکھا (4)*۔
     
    *تاریخ المدینة المنورة جلد اول صفحہ 70 مصنف امام ابي زيد عمر بن شبة

    __________________________________ 
     محترم قارئین کرام دیکھا آپ نے جب صحابی رسول ﷺ حضرت عقیل بن ابی طالب کو معلوم ہوا کے یہ قبر حضرت امی حبیبہ رضی اللّه تعالیٰ عنہا کی ہے تو صحابی رسول ﷺ نے اس قبر پر مزار بنا دیا اب یہاں ہم ایک سوال کرتے ہیں وہابیو کیا حضور ﷺ کہ صحابہ کو معلوم نہیں تھا کہ رسول اللّهﷺ نے  ہمیں قبر ڈھانے کا حکم دیا ہے وہابی جواب دیں 
    ارے حضور ﷺ کا یہ فرمانا مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کے جو اونچی قبر دیکھو اس كو ڈھا دو وہ حکم مشرکین کی قبروں  کے لیے تھا مومینن کی قبروں  کو تو خود صحابہ تعمیر کیا کرتے تھے اور وہابیو اپنی عقل کو ہاتھ مارو اور عوام کو احادیث کا غلط مفہوم بتا کر گمراہ نہ کرو

     اللّه رب العزت  ہم سب کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطاء فرماۓ آمین

     

    دعاگو:خادم اہلسنّت محمد حسن رضا قادری رضوی

    FB_IMG_16358588913977208.jpg

    FB_IMG_16358588807564198.jpg

  7. On 9/28/2021 at 2:00 PM, Aquib Rizvi said:

    ★ تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال ★ 

     

    جـبــرائــیــل عـلیــہ الســـلام کــی جہـنــم کــے حوالــے ســے ایـکـــ روایـتـــــ کـــی تحــقیـــق

     

    اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہ

     اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہ 

    ◉◎➻═•━══→←⁩══•━═➻◎◉ 

    آج کل سوشل میڈیا پر ایک تحریر وائرل ہورہی ہے جس کے حوالے سے سوال بھی کیا گیا ہے ایک دوست کی طرف سے کہ اس میں ایک روایت جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف اور نبی ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کی جارہی ہے جہنم کے حوالے سے

    وہ مکمل روایت جس طرح بیان کی جاتی ہے اگر یہاں نقل کروں تحریر بہت طویل ہو جائے گی لہذا میں اس روایت کا مختصر سے مختصر مفہوم یہاں عرض کر دیتا ہوں 

    مــفہــوم روایـتـــــ مشـہـور 

    ایک بار جبرائیل علیہ سلام نبی کریم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جبرائیل کچھ پریشان ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا جبرائیل کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپ کو غم زدہ دیکھ رہا ہوں؟ جبرائیل نے عرض کی: اے محبوبِ قل، میں اللہ پاک کے حکم سے جہنم کا نظارہ کرکے آیا ہوں اس کو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوئے ہیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جبرائیل مجھے بھی جہنم کے حالات بتاؤ! جبرائیل نے عرض کی: جہنم کے قل سات درجے ہیں، ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا، اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈلیں گے، اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے، چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے، تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے، دوسرے درجے میں اللہ تعالی عیسائیوں کو ڈالیں کے۔ یہ کہہ کر جبرائیل علیہ السلام خاموش ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: جبرائیل آپ خاموش کیوں ہوگئے مجھے بتاؤ کہ پہلے درجے میں کون ہوگا؟ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول پہلے درجے میں اللہ پاک آپ کی امت کے گناہ گاروں کو ڈالیں گے الخ

    ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ 

    مـکمــل تــحــقیـــق حــدیــثــــــ 

    یہ مشہور روایت انہی الفاظ کے ساتھ حدیث و تاریخ کی کسی کتاب میں نہیں البتہ ایک حنفی فقیہ ابو اللیث سمرقندی (أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم السمرقندي (المتوفى: 373 ھ) نے اپنی کتاب تنبیہ الغافلین میں نقل کی ہے

    امام الذہبی تاريخ الإسلام میں فقیہ ابو اللیث سمر قندی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

    وفي كتاب تنبيه الغافلين موضوعات كثيرة

    یعنی انکی کتاب تنبیہ الغافلین میں بہت ساری موضوع (یعنی من گھڑت روایات ) پائی جاتی ہیں 

    كتاب تاريخ الإسلام 26/583📓

    اور انہوں نے اپنی کتاب تنبیہ الغافلین میں بے سند اس کو روایت کیا ہے ملاحظہ ہو 

     وروى يزيد الرقاشي ، عن أنس بن مالك، قال: جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه وسلم في ساعة ما كان يأتيه فيها متغير اللون، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: الخ 

    تنبیہ الغافلین للسمرقندی ص70📒

    اس روایت کی باقی سند تو امام سمرقندی نے نقل نہیں کی لیکن جس ایک راوی کا ذکر کردیا یہ ضعیف راوی ہے

     لہذا اس روایت کا کوئی بھروسا نہیں میری رائے تو یہی ہے کہ اس کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کر کے نہ بیان کیا جائے 

    ❖◉➻════════════════➻◉❖ 

    اس سے ملتے جھلتے الفاظ کی ایک روایت معجم الاوسط٬ شعب الایمان٬ البدایہ والنہایہ٬ وغیرہ میں موجود ہے 

    اصل کتاب سے سکین اس تحریر کے ساتھ اس کا لگا دوں گا 

    مگر عرض یہ ہے کہ وہ روایت بھی ضعیف ہے امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کو ضعیف کہا 

    اس کی سند میں ایک راوی ہے سلام بن سلم ابو عبداللہ الطویل اس کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کے چند اقوال درج ذیل ہیں

    محمد بن إسماعيل البخاري :- يتكلمون فيه، ومرة: تركوه

    أحمد بن شعيب النسائي :- متروك، ومرة: ليس بثقة ولا يكتب حديثه

    أحمد بن حنبل :- روى أحاديث منكرة، منكر الحديث

    الدارقطني :- ضعيف الحديث

    يحيى بن معين :- له احاديث منكرة

    ابن حجر العسقلاني :- متروك الحديث

    أبو بكر البيهقي :- ضعيف 

    روایـــــت کـــــے حوالــــــہ جات ملاحـــــظہ ہــــوں 

    معجم الاوسط للطبرانی 3/89📕

    البدایہ و النہایہ ابن کثیر 20/124📙

    شعب الایمان للبیہقی 9/508📒

    مجمع الزوائد للہیثمی 10/387📓

    جامع الاحادیث للسیوطی 27/106📗

    ✧✧✧ـــــــــــــــــ{🌹}ـــــــــــــــــــــ✧✧✧ 

    خــــــــــــلاصــــــــــــــہ کــــــــــــــلام 

    جن الفاظ کے ساتھ روایت مشہور ہے ان الفاظ کے ساتھ کسی معتبر کتاب میں بسند ثابت نہیں تنبیہ الغافلین کتاب کے بارے میں امام جرح و تعدیل شمس الدین الذھبی کا موقف آپ کو پیش کیا

    ملتے جھلتے الفاظ کی روایت ملتی ہے وہ بھی ضعیف ہے

    مگر امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے 

    البدایہ والنہایہ میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد الامام الحافظ إسماعيل بن محمد بن الفضل کا قول اس دوسری والی روایت کے حوالے سے نقل کرتے ہیں 

    قال الحافظ أبو القاسم يعني إسماعيل بن محمد بن الفضل: هذا حديث حسن، وإسناده جيد 

    البدایہ والنہایہ 20/125 طبعه دار اله‍جر📔

    اس دوسری والی روایت کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں لوگوں کو جہنم کا خوف دلانے کے لئے اور حضور ﷺ کی شفقت اور اللہ کی رحمت سے آراستہ کرنے کے لیے

    ❖◉➻════════════════➻◉❖ 

    فقـــــط واللہ ورسولــــــہٗ اعلـــم بـالـصــواب

    🏻 شــــــــــــــــــــــرف قلــــــــــــــــــم 

     

    خادم اہلسنت و جماعت محمد عاقب حسین رضوی

     

     

     

     

     

    IMG-20210807-WA0356.jpg

    20210928_135705.jpg

    20210928_135715.jpg

    20210928_135742.jpg

    20210928_135929.jpg

    20210928_135724.jpgماشااللہ 

     

  8. *(ظالم فاسق حاکم کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کا حکم)* 

     

    *بسم اللہ الرحمن الرحیم*

    *________________________________*

    *محترم قارئین کرام جب ناموس رسالت اور ختم نبوت کی خاطر عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومت وقت کو للکارا اور ان کے سامنے کلمہ حق بلند کیا تو حکومت کے کچھ پٹھوں نے قرآن کریم سے غلط استدلال اور استنباط کر کے عوام کے ذہن میں ایک فتنہ برپا کرنا چاہا کے حاکم وقت کیسا بھی ہو کافرہو فاجر ہو فاسق ہو اس کی اطاعت کرنا واجب ہے جبکہ یہ نظریہ جہالت پر مبنی اور بالکل باطل ہے*

    *جس پر چند دلائل پیش نظر ہیں*👇🏻  

    *_______________________________*

    *حدثنا قتيبة بن سعيد : حدثنا ليث عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر عن النبي و أنه قال : «على المرء المسلم السمع والطاعة، فيما أحب وكره، إلا أن يؤمر بمعصية، فإن أمر بمغصبة، فلا سمع ولا طاعة»* .

     

    *4763 لیث نے عبیداللہ سے، انھوں نے نافع سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر بچن سے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان شخص پر حاکم کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے، وہ بات اس کو پسند ہو یا ناپسند ، سوائے اس کے کہ اسے گناہ کا حکم دیا جاۓ ، اگر اسے گناہ کا حکم دیا جائے تو اس میں سننا ( روا) ہے نہ ماننا*۔

     

    *📗(صحیح مسلم جلد نمبر 3 حدیث نمبر4763)*

     

    *محترم قارئین کرام اس روایت سے یہ بات واضح ثابت ہوتی ہے کہ اگر حاکم وقت کسی گناہ کا کام کرنے کا حکم دے تو اس کی مخالفت کرنی ہے اس کی اطاعت نہیں کرنی یہ حکم واضع ہے جب گناہ کے کام میں حاکم کی اطاعت نہیں کر سکتے تو ناموس رسالت کے معاملے میں مسلمان ان گستاخ حکمرانو کا ساتھ دیں یہ ہو سکتا نہیں* 

    دوسری دلیل👇🏻 

    *___________________________________*

    *حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَادَةَ الْوَاسِطِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ أَوْ أَمِيرٍ جَائِرٍ* .

     

    *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ یا ظالم حاکم کے پاس انصاف کی بات کہنی ہے* ۔ 

     

    📙 *(سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4344)*

     

    *اس روایت میں تو واضح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا جہاد کرنے کا ایسے فاسق فاجر اور ظالم حکمران کے خلاف* تيسری دلیل👇🏻

    *______________________________________*

     

    *حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ ، يُحَدِّثُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : سِباب الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ ، تَابَعَهُ غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ* .

     

    *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے۔“ غندر نے شعبہ سے روایت کرنے میں سلیمان کی متابعت کی ہے*

     

    📙 *(صحیح البخاری جلد 3حدیث نمبر6044)*

     

    *ہمارے حکمران تو عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر رہے ہیں تو ان کی اطاعت کرنا کیسے واجب ہو سکتی ہے* 

    تیسری دلیل👇🏻

    *____________________________________*

    *عَنْ جَابِر رَضِي اللّه عَنْه، عَنِ النَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌قَالَ : سَيِّد الشُّهَدَاء حَمْزة بْن عَبْد الْمُطَّلِب ، وَرَجُل قَامَ إِلَى إِمَام جَائِر فَأَمَرَه وَنَهَاه فَقَتَلَه*  

     

    *جابر‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سید الشہداء حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ہیں، اور وہ شخص بھی ہے جو ظالم حکمران کے سامنے کھڑا ہوا اس نے اسے (اچھائی کا) حکم دیا اور (برائی سے) منع کیا۔ تو اس حکمران نے اسے قتل کر دیا۔*

     

    *📕(السلسلہ الصحیحہ حدیث نمبر 3506)*

     

    *یہاں اللہ کے نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے ظالم حاکم کے خلاف جہاد اور کلمہ حق بلند کرنے کی تعلیم عطا فرمائی*

    *____________________________________*

    *محترم قارئین کرام واقعہ کربلا تو روز روشن کی طرح واضح دلیل ہے کے ظالم حکمران کی اطاعت نہیں بلکہ اس کے خلاف جہاد کیا جاتا ہے چنانچہ فخر المحدثین امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں👇🏻*

    *_________________________________*

    *وعن محمد بن أحمد بن مسمع قال : سكر يزيد، فقام يرقص، فسقط*

     

    *افتتح دولته بمقتل الشهيد الحسين، واختتمها بواقعة الحرة، فمقته الناس . ولم يبارك في عمره. وخرج عليه غير واحد بعد الحسين. كأهل المدينة قاموا(۱) الله ، وكمرداس بن أدية الحنظلي البصري*

     

    *محمد بن احمد بن مسماء سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: یزید نشے میں تھا تو وہ ناچتا ہوا اٹھا اور گر پڑا۔*

     

    *اس (یزید) نے اپنی ریاست کا آغاز حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل سے کیا اور اس کا خاتمہ الحرۃ کے واقعہ سے کیا تو لوگ اس سے نفرت کرنے لگے۔ اس کی عمر میں برکت نہیں تھی۔ اور امام حسین کے بعد ایک سے بڑھ کر لوگ اس کے کے خلاف نکلے مدینہ والوں کی طرح*

     

    *📕(سیراعلام النبلاء جلد 4صفحہ 37تا38)*

     

    *محترم قارئین کرام امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے امت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیغام دے دیا کے ظالم فاسق فاجر حکمرانو کے ساتھ جہاد کیا جاتا ہے انکی اطاعت نہیں کی جاتی*

     

    *اسی طرح ائمہ مجتہدین نے بھی ظالم حکمرانوں کے باطل نظریات کا رد کیا اطاعت نہیں کی سب سے پہلے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا عمل اور ان کی تعلیم آپ کے سامنے پیش ہے*👇🏻

    *_________________________________*

     

    *نقله أبو جعفر المنصور من الكوفة إلى بغداد، فأقام بها حتى مات، ودفن بالجانب الشرقي منها في مقبرة الخيزران، وقبره هناك ظاهر معروف.*

     

    *وقد كلم ابن هبيرة أبا حنيفة أن يلي له قضاء الكوفة، فأبى عليه، فضربه مائة سوط وعشرة أسواط، في كل يوم عشرة أسواط، وهو على الامتناع فلما رأى ذلك خلى سبيله، وكان ابن هبيرة عاملا على العراق في زمن بني أمية.*

     

    *حاکم وقت عباسی خلیفہ ابوجعفر المنصور نے امام ابو حنیفہ کو کوفہ سے بغداد قید کر کے منتقل کیا، جہاں وہ مرتے دم تک رہے، اور اس کے مشرقی جانب الخیزران قبرستان میں دفن کیا گیا، اور وہاں ان کی قبر معروف ہے۔عہد عباسی کے وزیر ابن ہبیرہ، نے امام ابوحنیفہ سے ضلع کوفہ پر قبضہ کرنے کے لیے بات کی، لیکن امام ابو حنیفہ نے انکار کر دیا، تو انہی کوڑے مارے اور دس کوڑے مارے گئے، ہر روز دس کوڑے مارے جاتے لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حق بات پر قائم رہے*

     

    *📙(الحاوى الكبیرا فی فقہ مذهب الامام الشافعي رضي الله عنه وهو شرح مختصر المزني صفحہ 110)*

     

    *📗(تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 328)*

    *_________________________________*

    *محترم قارئین کرام اسی طرح امام ابن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے حکومت کے باطل عقائد و نظریات رد کیا*👇🏻 

    *________________________________*

    وأما أحمد بن حنبل، فكلامه في مثل هذا مشهور متواتر، وهو الذي اشتهر بمحنة هؤلاء الجهمية؛ فإنهم أظهروا القول بإنكار صفات الله - تعالى - وحقائق أسمائه، وأن القرآن مخلوق،حتى صار حقيقة قولهم تعطيل الخالق - سبحانه وتعالى - ودعوا الناس إلى ذلك، وعاقبوا من لم يجبهم، إما بالقتل، وإما بقطع الرزق، وإما بالعزل عن الولاية، وإما بالحبس أو بالضرب، وكفروا من خالفهم، فثبت الله - تعالى - الإمام أحمد حتى أخمد الله به باطلهم، ونصر أهل الإيمان والسنة عليهم، وأذلهم بعد العز، وأخملهم بعد الشهرة، واشتهر عند خواص الأمة وعوامها أن القرآن كلام / الله غير مخلوق، وإطلاق القول أن من قال: إنه مخلوق، فقد كفر.

     

    *امام احمد بن حنبل کے دور میں خلقِ قرآن کا فتنہ تھا۔ یہ فتنہ برپا کرنے والا شخص قاضی احمد بن ابودائود تھا۔ یہ بڑا عالم فاضل تھا۔ معتزلی عقیدہ کا مالک تھا۔ خلیفہ مامون کے بہت قریب تھا۔ اس نے خلیفہ مامون کو پٹی پڑھائی کہ قرآن مخلوق ہے۔*

    *تو اس دور میں امام ابن حنبل نے اس طرح کے باطل عقائد اور لوگوں کے حوالہ سے حوالے سے فتوی جاری کیا کے قرآن کو مخلوق کہنے والا کافر ہے کیوں کہ قرآن اللہ رب العزت کا کلام ہے اسے تخلیق نہیں کیا گیا*

     *📕(الفتاویٰ الکبری جلد5 صفحہ 32)* 

    *_______________________________*

    *محترم قارئین کرام بحمدللہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ فاسق فاجر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا آواز اٹھانا رسول اللہ کا بھی حکم ہے صحابہ کا بھی عمل ہے اور ہمارے علماء و محدثین بھی اس طرح کے ظالم حکمرانوں کو للکارتے ہوئے آئے ہیں اور ان کا رد کرتے ہوئے ہیں* 

     

    *اور ہمیں بھی یہ چاہیے کہ اس طرح کے ملعون اور ظالم حکمرانوں کے خلاف سراپا احتجاج ہو*

    *________________________________*

    *تحقیق ازقلم:شیخ محترم سید عاقب حسین رضوی مدظلہ العالی*

    *تحریر ازقلم:خادم اہلسنت محمد حسن رضا قادری رضوی*

     
    • Thanks 1
  9. *(ظالم فاسق حاکم کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کا حکم)* 

     

    *بسم اللہ الرحمن الرحیم*

    *________________________________*

    *محترم قارئین کرام جب ناموس رسالت اور ختم نبوت کی خاطر عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومت وقت کو للکارا اور ان کے سامنے کلمہ حق بلند کیا تو حکومت کے کچھ پٹھوں نے قرآن کریم سے غلط استدلال اور استنباط کر کے عوام کے ذہن میں ایک فتنہ برپا کرنا چاہا کے حاکم وقت کیسا بھی ہو کافرہو فاجر ہو فاسق ہو اس کی اطاعت کرنا واجب ہے جبکہ یہ نظریہ جہالت پر مبنی اور بالکل باطل ہے*

    *جس پر چند دلائل پیش نظر ہیں*👇🏻  

    *_______________________________*

    *حدثنا قتيبة بن سعيد : حدثنا ليث عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر عن النبي و أنه قال : «على المرء المسلم السمع والطاعة، فيما أحب وكره، إلا أن يؤمر بمعصية، فإن أمر بمغصبة، فلا سمع ولا طاعة»* .

     

    *4763 لیث نے عبیداللہ سے، انھوں نے نافع سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر بچن سے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان شخص پر حاکم کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے، وہ بات اس کو پسند ہو یا ناپسند ، سوائے اس کے کہ اسے گناہ کا حکم دیا جاۓ ، اگر اسے گناہ کا حکم دیا جائے تو اس میں سننا ( روا) ہے نہ ماننا*۔

     

    *📗(صحیح مسلم جلد نمبر 3 حدیث نمبر4763)*

     

    *محترم قارئین کرام اس روایت سے یہ بات واضح ثابت ہوتی ہے کہ اگر حاکم وقت کسی گناہ کا کام کرنے کا حکم دے تو اس کی مخالفت کرنی ہے اس کی اطاعت نہیں کرنی یہ حکم واضع ہے جب گناہ کے کام میں حاکم کی اطاعت نہیں کر سکتے تو ناموس رسالت کے معاملے میں مسلمان ان گستاخ حکمرانو کا ساتھ دیں یہ ہو سکتا نہیں* 

    دوسری دلیل👇🏻 

    *___________________________________*

    *حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَادَةَ الْوَاسِطِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ أَوْ أَمِيرٍ جَائِرٍ* .

     

    *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ یا ظالم حاکم کے پاس انصاف کی بات کہنی ہے* ۔ 

     

    📙 *(سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4344)*

     

    *اس روایت میں تو واضح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا جہاد کرنے کا ایسے فاسق فاجر اور ظالم حکمران کے خلاف* تيسری دلیل👇🏻

    *______________________________________*

     

    *حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ ، يُحَدِّثُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : سِباب الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ ، تَابَعَهُ غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ* .

     

    *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے۔“ غندر نے شعبہ سے روایت کرنے میں سلیمان کی متابعت کی ہے*

     

    📙 *(صحیح البخاری جلد 3حدیث نمبر6044)*

     

    *ہمارے حکمران تو عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر رہے ہیں تو ان کی اطاعت کرنا کیسے واجب ہو سکتی ہے* 

    تیسری دلیل👇🏻

    *____________________________________*

    *عَنْ جَابِر رَضِي اللّه عَنْه، عَنِ النَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌قَالَ : سَيِّد الشُّهَدَاء حَمْزة بْن عَبْد الْمُطَّلِب ، وَرَجُل قَامَ إِلَى إِمَام جَائِر فَأَمَرَه وَنَهَاه فَقَتَلَه*  

     

    *جابر‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سید الشہداء حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ہیں، اور وہ شخص بھی ہے جو ظالم حکمران کے سامنے کھڑا ہوا اس نے اسے (اچھائی کا) حکم دیا اور (برائی سے) منع کیا۔ تو اس حکمران نے اسے قتل کر دیا۔*

     

    *📕(السلسلہ الصحیحہ حدیث نمبر 3506)*

     

    *یہاں اللہ کے نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے ظالم حاکم کے خلاف جہاد اور کلمہ حق بلند کرنے کی تعلیم عطا فرمائی*

    *____________________________________*

    *محترم قارئین کرام واقعہ کربلا تو روز روشن کی طرح واضح دلیل ہے کے ظالم حکمران کی اطاعت نہیں بلکہ اس کے خلاف جہاد کیا جاتا ہے چنانچہ فخر المحدثین امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں👇🏻*

    *_________________________________*

    *وعن محمد بن أحمد بن مسمع قال : سكر يزيد، فقام يرقص، فسقط*

     

    *افتتح دولته بمقتل الشهيد الحسين، واختتمها بواقعة الحرة، فمقته الناس . ولم يبارك في عمره. وخرج عليه غير واحد بعد الحسين. كأهل المدينة قاموا(۱) الله ، وكمرداس بن أدية الحنظلي البصري*

     

    *محمد بن احمد بن مسماء سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: یزید نشے میں تھا تو وہ ناچتا ہوا اٹھا اور گر پڑا۔*

     

    *اس (یزید) نے اپنی ریاست کا آغاز حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل سے کیا اور اس کا خاتمہ الحرۃ کے واقعہ سے کیا تو لوگ اس سے نفرت کرنے لگے۔ اس کی عمر میں برکت نہیں تھی۔ اور امام حسین کے بعد ایک سے بڑھ کر لوگ اس کے کے خلاف نکلے مدینہ والوں کی طرح*

     

    *📕(سیراعلام النبلاء جلد 4صفحہ 37تا38)*

     

    *محترم قارئین کرام امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے امت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیغام دے دیا کے ظالم فاسق فاجر حکمرانو کے ساتھ جہاد کیا جاتا ہے انکی اطاعت نہیں کی جاتی*

     

    *اسی طرح ائمہ مجتہدین نے بھی ظالم حکمرانوں کے باطل نظریات کا رد کیا اطاعت نہیں کی سب سے پہلے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا عمل اور ان کی تعلیم آپ کے سامنے پیش ہے*👇🏻

    *_________________________________*

     

    *نقله أبو جعفر المنصور من الكوفة إلى بغداد، فأقام بها حتى مات، ودفن بالجانب الشرقي منها في مقبرة الخيزران، وقبره هناك ظاهر معروف.*

     

    *وقد كلم ابن هبيرة أبا حنيفة أن يلي له قضاء الكوفة، فأبى عليه، فضربه مائة سوط وعشرة أسواط، في كل يوم عشرة أسواط، وهو على الامتناع فلما رأى ذلك خلى سبيله، وكان ابن هبيرة عاملا على العراق في زمن بني أمية.*

     

    *حاکم وقت عباسی خلیفہ ابوجعفر المنصور نے امام ابو حنیفہ کو کوفہ سے بغداد قید کر کے منتقل کیا، جہاں وہ مرتے دم تک رہے، اور اس کے مشرقی جانب الخیزران قبرستان میں دفن کیا گیا، اور وہاں ان کی قبر معروف ہے۔عہد عباسی کے وزیر ابن ہبیرہ، نے امام ابوحنیفہ سے ضلع کوفہ پر قبضہ کرنے کے لیے بات کی، لیکن امام ابو حنیفہ نے انکار کر دیا، تو انہی کوڑے مارے اور دس کوڑے مارے گئے، ہر روز دس کوڑے مارے جاتے لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حق بات پر قائم رہے*

     

    *📙(الحاوى الكبیرا فی فقہ مذهب الامام الشافعي رضي الله عنه وهو شرح مختصر المزني صفحہ 110)*

     

    *📗(تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 328)*

    *_________________________________*

    *محترم قارئین کرام اسی طرح امام ابن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے حکومت کے باطل عقائد و نظریات رد کیا*👇🏻 

    *________________________________*

    وأما أحمد بن حنبل، فكلامه في مثل هذا مشهور متواتر، وهو الذي اشتهر بمحنة هؤلاء الجهمية؛ فإنهم أظهروا القول بإنكار صفات الله - تعالى - وحقائق أسمائه، وأن القرآن مخلوق،حتى صار حقيقة قولهم تعطيل الخالق - سبحانه وتعالى - ودعوا الناس إلى ذلك، وعاقبوا من لم يجبهم، إما بالقتل، وإما بقطع الرزق، وإما بالعزل عن الولاية، وإما بالحبس أو بالضرب، وكفروا من خالفهم، فثبت الله - تعالى - الإمام أحمد حتى أخمد الله به باطلهم، ونصر أهل الإيمان والسنة عليهم، وأذلهم بعد العز، وأخملهم بعد الشهرة، واشتهر عند خواص الأمة وعوامها أن القرآن كلام / الله غير مخلوق، وإطلاق القول أن من قال: إنه مخلوق، فقد كفر.

     

    *امام احمد بن حنبل کے دور میں خلقِ قرآن کا فتنہ تھا۔ یہ فتنہ برپا کرنے والا شخص قاضی احمد بن ابودائود تھا۔ یہ بڑا عالم فاضل تھا۔ معتزلی عقیدہ کا مالک تھا۔ خلیفہ مامون کے بہت قریب تھا۔ اس نے خلیفہ مامون کو پٹی پڑھائی کہ قرآن مخلوق ہے۔*

    *تو اس دور میں امام ابن حنبل نے اس طرح کے باطل عقائد اور لوگوں کے حوالہ سے حوالے سے فتوی جاری کیا کے قرآن کو مخلوق کہنے والا کافر ہے کیوں کہ قرآن اللہ رب العزت کا کلام ہے اسے تخلیق نہیں کیا گیا*

     *📕(الفتاویٰ الکبری جلد5 صفحہ 32)* 

    *_______________________________*

    *محترم قارئین کرام بحمدللہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ فاسق فاجر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا آواز اٹھانا رسول اللہ کا بھی حکم ہے صحابہ کا بھی عمل ہے اور ہمارے علماء و محدثین بھی اس طرح کے ظالم حکمرانوں کو للکارتے ہوئے آئے ہیں اور ان کا رد کرتے ہوئے ہیں* 

     

    *اور ہمیں بھی یہ چاہیے کہ اس طرح کے ملعون اور ظالم حکمرانوں کے خلاف سراپا احتجاج ہو*

    *________________________________*

    *تحقیق ازقلم:شیخ محترم سید عاقب حسین رضوی مدظلہ العالی*

    *تحریر ازقلم:خادم اہلسنت محمد حسن رضا قادری رضوی*

    • Thanks 1
×
×
  • Create New...