Jump to content

ZeeshanRaza

اراکین
  • کل پوسٹس

    2
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

سب کچھ ZeeshanRaza نے پوسٹ کیا

  1. اس پوسٹ پر دیئے گئے اسکین پیجس شو نہیں ہو رہے ہیں برائے مہربانی اسے دوبارہ اپلوڈ کیا کیا جائے
  2. اتباع اور تقلید میں فرق !!! ابوالاسجدصدیق رضا۔کراچی اس مضمون میں اتباع اور تقلید میں جوبنیادی فرق ہے وہ واضح کیا گیا ہے۔سردست اس مضمون کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالی کے مقرر کردہ آخری امام محمد رسول اللہﷺ کی اطاعت اور لوگوں کے اپنے بنائے ہوئے اماموں کی تقلید میں کیا فرق ہے؟مضمون میں مختلف پہلو سے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ پہلا فرق: اطاعت رسول ﷺ کا حکم الہی: اللہ تعالی فرماتا ہے : ’’واطيعوا الله واطيعوا الرسول واحذروا فان توليتم فاعلموا انما علي رسولنا البلغ المبين‘‘( المائدہ:92) اور تم اللہ کی اطاعت کرتے رہو اور رسول ﷺ کی اطاعت کرتے رہو اور احتیاط رکھو، اگر تم (ان کی اطاعت سے) روگردانی کروگے تو جان لو کہ ہمارے رسول ﷺ کی ذمہ داری تو بس صاف صاف پہنچادینا ہے۔ دوسرا فرق:اللہ تعالی کی محبت اور مغفرت کی ضمانت: اللہ تعالی فرماتا ہے : ’’قل ان كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله ويغفرلكم ذنوبكم والله غفوررحيم‘‘(آل عمران:31) اے نبی ﷺ آپ کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا،بےشک اللہ تعالی معاف کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔ کس قدر فضیلت ہے،اتباع رسولﷺ کی کہ آپ ﷺ کی اتباع کے بغیر اللہ تعالی کی محبت کا دعوی قابل قبول نہیں ۔اس دعویٰ کے صدق کےلیے جس دلیل کی ضرورت ہے وہ دلیل رسو ل اللہ ﷺ کی اتباع ہے۔ تیسرا فرق: اطاعت رسول ﷺ اللہ تعالی کی اطاعت ہے : اللہ تعالی فرماتا ہے : ’’من يطع الرسول فقد اطاع الله‘‘(النساء:80) جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی پس اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ یہ ایک عظیم فضیلت ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کو اپنی ہی اطاعت وفرمانبرداری قرار دیا ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یا احادیث مبارکہ میں لوگوں کے مقرر کردہ امام کی تقلید کو اپنی اطاعت وفرمانبرداری نہیں کہا۔ معلوم ہوا کہ اللہ کی اطاعت کا بس صرف ایک ہی ذریعہ ہے ،ایک ہی راستہ ہے،ایک ہی طریقہ ہے کہ رسولﷺ کی اطاعت کی جائے۔ چوتھا فرق: قبولیت عمل کی یقین دہانی : اللہ تعالی فرماتا ہے : يايها اللذي امنوا اطيعوا الله واطيعوا الرسول ولا تبطلوا عمالكم (محمد33) اے ایمان والو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسولﷺ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال برباد مت کرو۔ جو عمل اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کے مطابق نہ ہو وہ عمل باطل ہے،اس کی کوئی فضیلت ہے نہ کوئی ثواب ،ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’من عمل عملاً ليس عليه امرنا فهو رد‘‘ (صحیح مسلم) جس کسی نے کوئی ایسا عمل یا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ عمل مردود ہے،یعنی نامقبول ہے اسے رد کر دیا جائے گا۔ پانچواں فرق: فیصلۂ رسول اللہ ﷺ کا حتمی و ابدی ہونا : اللہ تعالی فرماتا ہے : ’’وما كان لمومن ولا مومنة اذا قضي الله ورسوله امراً ان يكون لهم الخيرة من امرهم ومن يعص الله ورسوله فقد ضل ضللا مبينا‘‘ (الاحزاب36) کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسولﷺ کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اپنے معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کےر سولﷺ کی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑگیا۔ اس آیت سے واضح ہوا کہ کسی مومن کے پاس اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ’’فیصلے‘‘ کے آجانے کے بعد کوئی اختیار باقی نہیں رہتا اس کے پاس ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ وہ اسے صدق دل سے تسلیم کرلے،ورنہ وہ گمراہی میں مبتلا ہوجائے گا۔یہ شان ہے اللہ کے مقررک ردہ ’’امام ‘‘ کی اور حق کی یہی شان ہوتی ہے۔اس کے برعکس ’’خود ساختہ امام‘‘ کے فیصلوں کی نہ تو یہ شان ہے نہ ہی اہمیت۔اور خود ان کے مقلدین کو بھی اس کا اعتراف ہے۔ چھٹا فرق: درد عذاب کی وعید : اللہ تعالی فرماتا ہے : ’’فليحذر اللذين بخالفون عن امره ان تصيبهم فتنة او يصيبهم عذاب اليم‘‘ (النور،63) پس (رسول اللہ ﷺ) کے امر کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہوجائیں یا ان پردرد ناک عذاب نہ آجائے اس آیت میں اللہ کے مقرر کردہ امام محمدﷺ کے امر یعنی حکم یا فعل کی مخالفت کرنے والے یا اس سے پہلو تہی کرنے والے کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔یہ شان صرف آپﷺ کے حکم یا فعل کی ہے ،لوگوں کے مقرر کردہ امام کی تقلید کی یہ شان نہیں بلکہ وہاں بلاخوف وخطران کے امرونواہی کی مخالفت نہ صرف کی جاسکتی ہے بلکہ اعلانیہ طور پر کی گئی ہے۔جس کی بہت سی مثالیں آپ فقہ کی کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ ساتواں فرق: ایمان کا دارومدار : اللہ تعالی فرماتا ہے : ’’فلا وربک لایؤمنون حتی یحکموک فیما شخر بینہم ثم لایجدوا فی انفسہم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما‘‘ (النساء:65)(اے رسولﷺ) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے (تمام) باہمی اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو بھی فیصلہ آپ کریں اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سربسرتسلیم کرلیں یہ صرف رسول اللہ ﷺ کی ہی خصوصیت ہے آپ کے علاوہ کسی اور شخص کی بات کا انکار کفر نہیں آٹھواں فرق: شرعی حجت : قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بار بار رسول اللہ ﷺ کی اطاعت واتباع یعنی فرمانبرداری وپیروی کا حکم دیا ۔گزشتہ پوسٹس میں اس کی کئی دلیلیں گزری ہیں ،کوئی مسلم اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ نواں فرق: حکم اطاعت وفرمانبرداری : اللہ تعالی فرماتا ہے : ’’وان هذا صراطي مستقيما فاتبعوه‘‘ (الانعام) (اے نبی ﷺ) بےشک یہی میرا سیدھا راستہ ہے پس تم اس کی اتباع کرو اس کے علاوہ قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر نبی کریم ﷺ سے فرمایا گیا کہ آپ لوگوں کو اپنی اطاعت واتباع ،فرمانبرداری و پیروی کا حکم دیں۔ اس سلسلے میں احادیث بھی کافی وارد ہوئی ہیں۔ دسواں فرق: مکمل اطاعت : اللہ تعالی فرماتا ہے : ’’وما اتكم الرسول فخذوه وما نهكم عنه فانتهوا واتقواالله ان الله شديد العقاب‘‘ (الحشر:7) اور جو تمہیں رسول ﷺ دیں اسے لے لو اور جس چیزز سے منع فرمائیں اس سے باز رہو اور تم اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ اس آیت مبارکہ کا حکم عام ہے کہ جو حکم بہی رسول اللہ ﷺ دیں اس پر عمل کرنا ہے اور جس چیز سے بھی منع فرمائیں اس سے رک جانا ہے۔اس تسلسل میں تقوی کا حکم دینا ظاہر کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری کرنا اور آپ کی نافرمانی نہ کرنا تقوی کا لازمی تقاضا ہے۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرنا ، آپ کے حکم کو قبول نہ کرنا اور آپ ﷺ کی نہی اور ممنوعہ امور کی خلاف ورزی کرنا اللہ رب العزت کے عذاب کا موجب ہے گیارہواں فرق: ترک اطاعت ہلاک و بربادی : سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ’’قد تركتكم علي البيضاء ليلها كنهارها لايزيغ عنها بعدي الا هالك‘‘(سنن ابن ماجہ) (لوگو) ! میں تمہیں ایسے دین پر چھوڑے جارہا ہوں جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے میرے بعد اس سے صرف وہ شخص گریز کرے گا جسے ہلاک ہونا ہے۔ یہ حدیث وضاحت کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسے دین پر چھوڑا ہے جس کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہیں اس میں کہیں اندھیرا نہیں روشنی ہی روشنی ہے۔روشنی میں ہر چیز واضح نظر آتی ہے کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی کہ جس کا دیکھنا مشکل ہو اس طرح آپ ﷺ نے اپنی امت کو جس دین پر چھوڑا اس دین کی ہر ہر بات انتہاہی روشن ہے واضح ہے، اس میں کہیں پیچیدگیاں،موشگافیاں اور الجھنیں نہیں ہیں،نہہی یہ بہت زیادہ مشکل اور کانٹوں بھری وادی ہے،جیساکہ بعض لوگ کہتے اور سمجھتے ہیں بارہواں فرق:اللہ تعالی کی خاص حفاظت اللہ تعالی فرماتا ہے : ’’ولو تقول علينا بعض الاقاويل لاخذنا منه ياليمين ثم لقطعنا منه الوتين فما منك من احد عنه حجزين‘‘ (الحاقۃ،44 تا 47) اور اگر (ہمارے نبی ﷺ) بعض باتیں گھڑ کر ہماری طرف منسوب کردیتے ہیں تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے پھر ہم ان کی شہہ رگ کاٹ ڈالتے پھر تم میں سے کوئی ہمیں اس (کام) سے روکنے والا نہ ہوتا آج کوئی کوتاہ فہم نادان یہ ہر گز نہ سمجھے کہ یہرب الکریم کی اپنے منتخب آخری رسول ﷺ کو ڈانٹ ڈپٹ ہے (نعوبالله من سوء الفهم) ہرگز نہیں۔یہ ڈانٹ ڈپٹ نہیں یہ تو رب الکریم کی اپنےر سولﷺ کو حق وصدق کی نازل کردہ ٹھوس ،واضح اور مضبوط برہان ودلیل ہے آپ کے مخالفین کے الزام کا ایک دندان شکن جواب ہے ۔جو بدبخت آپ پر بہتان طرازی کرتے تھے کہ آپ ﷺ یہ قرآن اپنی طرف سے گھڑ لائےہیں،ان کی ناپاک زبانیں بند کرنے کےلیے ایک مسکت ولاجواب دلیل ہے۔جس کے سامنے وہ بالکل عاجز وبےبس ہوچکےہیں۔ واللہ الحمد تیرہواں فرق:خطا پر باقی رہنا : اللہ تعالی فرماتا ہے : ’’وما ينطق عن الهوي ان هو الا وحي يوحي‘‘(النجم،:3 و4) اور یہ (بنی ﷺ) اپنی طرف سےنہیں بولتے وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبیﷺ اپنی مرضی و خواہش سے نہیں بولتے بلکہ دین کے سلسلے میں آپ ﷺ نے صرف وہی تعلیمات ارشاد فرمائیں جن کا اللہ سبحانہ وتعالی نے آپﷺ کو بذریعہ وحی حکم دیا اور اگر زندگی میں چند ایک بار بتقاضائے بشریت ایسی کوئی بات سامنے آئی بھی تو اللہ رب العالمین نے فوراً وضاحت کلےیے وحی نازل فرمائی ۔ چودہواں فرق: ہر ہر بات حق : سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے جو بات سنا کرتا اسے ،یاد کرلینے کے ارادے سے لکھ لیا کرتا تھا۔قریش کے بعض لوگوں نے مجھے اس عمل سے روکا اور کہا کہ تم رسول اللہ ﷺ سےسنی ہوئی ہر بات نہ لکھا کرو جبکہ رسول اللہ ﷺ بشر ہیں (بتقاضائے بشریت) آپ کبھی خوشی میں ہوتے ہیں اور کبھی ناراضی یا غصے میں ۔عبداللہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ فرماتے ہیں میں نے لکھنا چھوڑ دیا اوررسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے اپنی بابرکت انگلی سے اپنے مبارک منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’اكتب فواللذي نفسي بيده مايخرج منه الا حق‘‘ (سنن ابودادؤ) لکھو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرے منہ سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا ہے۔
×
×
  • Create New...