Jump to content

zubair ahmed

Under Observation
  • کل پوسٹس

    37
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

سب کچھ zubair ahmed نے پوسٹ کیا

  1. ” پگڑی کے بَل پر نماز کا ثواب اللہ کے ہاں جہاد فی سبیل اللہ کے برابر ہے۔“ موضوع (من گھڑت): یہ جھوٹی اور من گھڑت روایت ہے۔ (الفوائد المجموعة: ص ۱۸۸، تذکرۃ الموضوعات: ص ۱۵۶) ٭علامہ ابن عراق رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اسے ابراہیم بن عبد اللہ بن ہمام راوی نے گھڑا ہے۔ (تنزیعہ الشریعة: ۱۴۲/۲) ٭ابن طاہر المقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابراہیم راوی منکر الحدیث ہے۔ (ذخیرۃ الحفاظ: ۳۴۰۸)
  2. حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے دیکھا کہ تین جھنڈے نصب کئے گئے، ایک مشرق میں، دوسرا مغرب میں، تیسرا کعبے کی چھت پر اور حضور اکرم ﷺ کی ولادتہوگئی۔ (دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني : ج۱، ص۶۱۰ رقم ۵۵۵) یہ سخت ضعیف (یاپھر موضوع)روایت ہے، کیونکہ؛ ۱: اس کا راوی یحییٰ بن عبد اللہ البابلتی ضعیف ہے۔ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس ضعیف قرار دیا ہے۔ (تقریب التہذیب: ۷۵۸۵) اور (تہذیب التہذیب: ج۱۱،ص۲۴۰ رقم: ۳۹۳) ۲: یحییٰ بن عبد اللہ کا استاد ابو بکر بن ابی مریم سخت ضعیف راوی ہے ۔ ٭ اسے امام احمد ، ابوداود ، ابو حاتم ، ابو زرعۃ ، یحیی بن معین، دارقطنی ، النسائی رحمھم اللہ علیھم اجمعین اور اس کے علاوہ بھی کئی دیگر محدیثین نے ضعیف و مجروح قرار دیا ہے۔ (تقریب التہذیب: ۷۹۷۴) اور دیکھئے: (تہذیب التہذیب: ج۱۲،ص۲۸ رقم: ۱۳۹) میلاد ِ نبی ﷺ پر خاص تارے کا طلوع حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : میں سات برس کا تھا ایک دن پچھلی رات کو وہ سخت آواز آئی کہ ایسی جلد پہنچتی آواز میں نے کبھی نہ سنی تھی کیا دیکھتا ہوں کہ مدینے کے ایک بلند ٹیلے پر ایک یہودی ہاتھ میں آگ کا شعلہ لئے چیخ رہا ہے لوگ اس کی آواز پر جمع ہوئے وہ بولا : یہ احمد کے ستارے نے طلوع کیا ، یہ ستارہ کسی نبی ہی کی پیدائش پر طلوع کرتا ہے اور اب انبیاء میں سوائے احمد کے کوئی باقی نہیں۔ (دلائل النبوۃ لابی نعیم ، الفصل الخامس ، و الخصائص الکبری بحوالہ ابی نعیم باب اخبار الاخیار) موضوع (من گھڑت) : حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ روایت ابونعیم کی کتاب دلائل النبوة ( ص: 75) پر موجو ہے اس روایت کی سند میں ایک راوی " واقدی (محمد بن عمر بن واقد الأسلمی)‘‘ ہے ، جو کہ کذاب متروک (جھوٹا) راوی ہے۔ حافظ الہیثمی (مجمع الزوائد : 255/3) اور ابن الملقن (البدر المنیر : 324/5) فرماتے ہیں : جمہور محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے۔ اس کے علاوہ امام شافعی نے (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 20 وسندہ صحیح) ، امام إسحاق بن راہویہ نے (الجرح والتعديل لابن أبی حاتم: 8/ 20 وسندہ صحیح) ، امام نسائی نے (أسئلۃ للنسائی فی الرجال المطبوع فی رسائل فی علوم الحديث ص: 76) ، امام ذہبی نے (سير أعلام النبلاء للذهبی: 9/ 469) ، امام عقيلی نے (الضعفاء الكبير للعقيلی: 4/ 108 ، شیخ العقیلی لم اعرفہ وباقی الرجال ثقات ، ومن طریق العقلیلی اخرجہ الخطیب فی تاريخ : 14/ 52 و ابن عساکر فی تاريخ دمشق 54/ 452 و ذکرہ المزی فی تهذيب الكمال: 26/ 187) ، علامہ البانی نے (سلسلة الأحاديث الضعيفۃ والموضوعۃ : 4/ 13) میں اس پر شدید جرح کی ہے۔ واقدی کے علاوہ اس سند میں ’’ابن ابی سبرہ‘‘ نامی راوی ہے یہ بھی کذاب اور حدیث گھڑنے والا ہے۔ امام أحمد بن حنبل رحمہ الله نے کہا:یہ جھوٹ بولتا تھا اور حدیث گھڑتا تھا (العلل ومعرفۃ الرجال 1/ 510) امام ابن عدی رحمہ الله نے کہا: یہ ان لوگوں میں سے تھا جو حدیث گھڑتے تھے۔(الكامل فی الضعفاء: 7/ 297) اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے محدثین نے اس پر جرح کی ہے دیکھئے عام کتب رجال۔ خلاصہ کلام یہ روایت سند میں دو کذاب کے ہونے سبب موضوع اور من گھڑت ہے۔ ربیع الاول کے مہینے کی مبارک باد دینے والے پر جہنم حرام کچھ لوگ ماہِ ربیع الاول کے آتے ہی ایک حدیث نشر کرنا شروع کر دیتے ہیں: "جو بھی اس فضیلت والے ماہ کی مبارک باد سب سے پہلےدے گا، اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی۔ " موضوع (من گھڑت): یہ جھوٹی اور من گھڑت روایت ہے۔ اس روایت کی سند حدیث کی کتابوں میں نہیں ملی، اور خود ساختہ اور من گھڑت ہونے کی علامات اس حدیث پر بالکل واضح ہیں، اس لئے اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ آپ کے بارے میں جھوٹ باندھنے کے زمرے میں آتا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"جس شخص نے میری طرف منسوب کوئی حدیث بیان کی، اور وہ خدشہ بھی رکھتا تھا یہ جھوٹ ہے، تو بیان کرنے والا بھی دو جھوٹوں میں سے ایک ہے) مسلم نے اسے اپنی صحیح مسلم کے مقدمہ میں بیان کیا ہے۔ امامنووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: "اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کی سنگینی بیان کی گئی ہے، اور جس شخص کو اپنے ظنِ غالب کے مطابق کوئی حدیث جھوٹی لگی لیکن پھر بھی وہ آگے بیان کر دے تو وہ بھی جھوٹا ہوگا، جھوٹا کیوں نہ ہو؟! وہ ایسی بات کہہ رہا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی" انتہی (شرح صحيح مسلم : ۱/۶۵) اور اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ ماہِ ربیع الاول کی جس شخص نے مبارکباد دی تو صرف اسی عمل سے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی، یہ بات حد سے تجاوز، اور مبالغہ آرائی پر مشتمل ہے، جو کہ اس حدیث کے باطل اور خود ساختہ ہونے کی علامت ہے۔ چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "خود ساختہ احادیث میں اندھا پن ، بے ڈھب الفاظ، اور حد سے زیادہ تجاوز ہوتا ہے، جو ببانگ دہل ان احادیث کے خود ساختہ ہونے کا اعلان کرتا ہے، کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر خود گھڑی گئی ہے" انتہی (المنار المنيف : ص۵۰)
  3. سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق مسند الفردوس از دیلمی میں روایت ہے: ”جب آپ رضی اللہ عنہ نے مؤذن کو أشھد أنّ محمّدا رسول اللہ کہتے سنا تو یہی الفاظ کہے اور دونوں انگشتِ شہادت کے پورے جانبِ زیریں سے چوم کر آنکھوں سے لگائے۔ اس پر نبیٔ اکرم ﷺ نے فرمایا، جو ایسا کرے، جیسا کہ میرے پیارے نے کیا ہے، اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوجائے۔“ (المقاصد الحسنة للسخاوی: ص 384) یہ روایت بے سند ہونے کی وجہ سے مردود وباطل ہے۔ ٭ اس کے "صحیح" ہونے کے مدعی پر سند پیش کرنا ضروری ہے۔ ساتھ ساتھ راویوں کی توثیق اور اتصالِ سند بھی ضروری ہے۔ یہ بدعتیوں کی شان ہے کہ وہ سندوں سے گریزاں ہیں۔ ٭پھر مزے کی بات یہ ہے کہ حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے اس روایت کے متعلق لکھا ہے کہ: لا یصح "یہ روایت صحیح نہیں ہے۔" بعض بدعتی کہتے ہیں کہ لا یصح "یہ روایت صحیح نہیں ہے۔" سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ "حسن " بھی نہیں ہے، یہ ان کے اپنے منہ کی بات ہے، ہمیں اس روایت کی سند درکار ہے، جسے پیش کرنے سے بدعتی لوگ قاصر رہتے ہیں۔ احمد یار خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں: "اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، پھر بھی فضائل اعمال میں حدیث ضعیف معتبر ہوتی ہے۔" (جاء الحق: 401/1) ہمارا مطالبہ سند کا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اس مسئلہ کا تعلق فضائل اعمال سے نہیں، بلکہ شرعی احکام سے ہے کہ اذان میں نبیٔ اکرم ﷺ کا نامِ مبارک سن کر انگوٹھے چومنے چاہئیں یا نہیں، فضائل کی بات تو بعد میں ہے۔ قارئین کرام خوب یاد رکھیں کہ دین "صحیح" روایات کا نام ہے، فضائل کا تعلق بھی دین سے ہے۔ ٭ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ولا فرق فی العمل بالحدیث فی الأحکام أو فی الفضائل، أذا لکلّ شرع "احکام یا فضائل میں حدیث پر عمل کرنے میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ دونوں (فضائل اور احکام) شریعت ہی تو ہیں۔" (تبیین العجب بما ورد فی شھر رجب لابن حجر: ص 2)
  4. میں بھی میلاد کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں امید ہے میری بحث کو علمی بحث سمجھا جائے گا ناکہ مناظرے پر قیاس کیا جائے گا،میرا ارادہ کسی کی دل آزاری نہیں ہے بلکہ پر خلوص بحث ہے اگر میری بات سے کسی کی دل آزاری ہو تو میں پیشگی معافی کا طلبگار ہوں۔لوگ میلاد کے متعلق سورہ مائدہ آیت 3 حوالہ دے کر میلاد کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں تو ذرا اسکا ترجمہ بھی دیکھ لیں سورة المَائدة تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہ پاسوں سے قسمت معلوم کرو یہ سب گناہ (کے کام) ہیں آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے (۳) قارعین اگر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ یہاں میلاد کے متعلق کہاں لکھا ہوا ہےیہاں تو جانور کے حلال اور حرام ہونے کا بتایا جارہا ہےاور دین کے اکمل ہونے کی نوید سنائ جارہی ہے سنن ترمذی کی اس متعلق ایک روایت بھی ہے جسمیں ایک یہودی ابن عباس رض کو اس دن عید کا دن(خوشی کا دن) قرار دیتا ہے جبکہ ابن عباس رض انہیں یوم العرفہ اور جمعہ قرار دیتے ہیں عرفہ کے متعلق ذرا سنیے کہ عرفہ کیا ہے۔ عرفہ ایک مخصوص جگہ کا نام ہے اور عرفات اس کی جمع ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً پچیس کلومیٹر اور منٰی سے تقریباً چھ میل کے فاصلہ پر ہے۔ یہ ایک وسیع و عریض میدان ہے جو اپنے تین اطراف سے پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔ درمیان میں اس کے شمالی جانب جبل الرحمتہ ہے۔ نویں ذی الحجہ کو بھی عرفہ کہتے ہیں۔ یوم عرفہ یعنی میدان عرفات میں نویں ذی الحجہ کی دوپہر سے دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق تک کچھ دیر کا قیام حج کا رکن اعظم ہے۔ جس کے بغیر حج نہیں ہوتا۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”ایسا کوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالٰی بندہ کو عرفہ سے زیادہ آگ سے آزاد کرتا ہو (یعنی اس عرفہ کے دن عرفات میں اللہ تعالٰی سال کے تمام دنوں کے مقابلہ میں سب سے بڑے اور وسیع پیمانے پر گناہگار بندوں کی مغفرت اور جہنم سے آزادی کا پروانہ عطا فرماتا ہے) اور (بلاشبہ اس دن) ( اپنی رحمت و مغفرت کے ساتھ) بندوں کے قریب ہوتا ہے۔ پھر فرشتوں کے سامنے حج کرنے والوں پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ (یہ جو کچھ بھی چاہتے ہیں میں انہیں دوں گا)”۔ تو عرفہ کے دن کی حقیقت مندرجہ بالا میں واضح ہوگئ جسے کسی طور میلاد کے معنی میں لینا غلط ہوگا۔خوشی کا دن الگ بات ہے اسے منانے کی بات اور ہے۔اسکے علاوہ مشہور اہلسنت عالم علامہ غلام رسول سعیدی صاحب رقم طراز ہیں کہ مولانا غلام رسول سعیدی صاحب حنفی بریلوی شیخ الحدیث جامعہ نعیمیہ فرماتے ہیں: �سلف صالحین یعنی صحابہ اور تابعین نے محافل میلاد نہیں منعقد کیں ، بجاہے۔� [شرح صحیح مسلم صفحہ ١٧٩ جلد ٣۔۔۔ مولانا غلام رسول سعیدی صاحب کے مطابق جو عبادت صحابہ کرام اور رسول ص سے ثابت نہیں بدعت سئیہ ہے۔(تبیان القرآن جلد1 ،صفحہ751 ) تو خود علامہ صاحب بھی مانتے ہیں کہ صحابہ اور رسول ص سے میلاد ثابت نہیں ہے اور خود اپنی مشہور کتاب تبیان القرآن میں فرماتے ہیں کہ جو عبادت صحابہ کرام اور رسول ص سے ثابت نہیں بدعت سئیہ ہے۔ سورہ مائدہ کی آیت 114 کی آیت کا پورا ترجمہ حاضر خدمت ہے سورة المَائدة (تب) عیسیٰ بن مریم نے دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لیے (وہ دن) عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں (سب) کے لیے اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے تو بہتر رزق دینے والا ہے (۱۱۴) اسمیں خوشی کا دن منقول ہے ویسے پچھلے نبیوں کی سنت ہمارے لیے حجت نہیں ہے پھر بھی یہاں خوشی کا دن معنی ہوا نہ کہ خوشی منانا(میلاد کرنا)خوشی کا دن منانا اور بات ہے اور خوشی کا دن اور بات ہے ان دونوں کو ایک معنی میں پرو دینا درست عمل نہیں ہے۔ اب ذرا دیکھتے ہیں کہ مشہور بریلوی عالم مفتی احمد یا خان بریلوی کیا فرماتے ہیں مفتی احمد یار خان نعیمی بریلوی گجراتی فرماتے ہیں کہ اس کی ابتداءچھٹی صدی ہجری میں ہوئی اور اس کا موجد مظفر الدین ابو سعید کوکبری (المتوفی ٦٣٠ ہجری) تھا۔ چنانچہ مفتی صاحب فرماتے ہیں: �جس بادشاہ نے پہلے اس کو ایجاد کیا وہ شاہ اربل ہے� [جاءالحق صفحہ٢٣٧ مفتی صاحب بھی میلاد کو شریعت کا حصہ نہیں قرار دیتے ہیں اور کسی کو اسے سنت نبوی ص قرار نہیں دینا چاہیے۔ سورہ آل عمران کی آیت 103 کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے اسکا پورا ترجمہ ذرا پڑھیں غلط فہمی دور ہوجائگی اور سب مل کر خدا کی (ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح خدا تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (۱۰۳)(surah ale imran 103) یہاں کہیں بھی آپ کو میلاد کا ذکر نہیں ملتا البتہ اللہ کا اسکی نعمت پر شکر کا ذکر ہے میلاد اسکا ذریعہ نہیں شکر کا طریقہ وہی بہتر ہے جو محمد ص نے کیا اس آیت میں اسکی صراحت کی گئ ہے۔ سورہ ضحی کی 11 آیت کو بھی اس سلسلے میں ایک دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ذرہ اسکی آیات 7 سے 11 تک کا مطالعہ کیجیے اور رستے سے ناواقف دیکھا تو رستہ دکھایا (۷) اور تنگ دست پایا تو غنی کر دیا (۸) تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرنا (۹) اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دینا (۱۰) اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہنا (۱۱)surah saha ayat 7-11 آیت میں نعمتوں کا شکر کرکے نیکیوں کا درس دیا گیا ہے اور اوپر نعمتوں کے شکر پر ایک مختصر دیباچہ میں نے کھینچ دیا ہے۔ سورہ یونس آیت 58 کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے کہ یہ میلاد کی دلیل ہے تو ذرا اس آیت کا بھی حقیقی ترجمہ ذرا ملاحظہ کیجئے کہہ دو کہ (یہ کتاب) خدا کے فضل اور اس کی مہربانی سے (نازل ہوئی ہے) تو چاہیئے کہ لوگ اس سے خوش ہوں۔ یہ اس سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں (۵۸)surah younus 58 یہاں پر یہ کتاب یعنی قرآن پر خوش ہونے کا کہا گیا ہے نہ میلاد منانے کا اور میں پہلے عرض برداز ہوچکا ہوں کہ خوش ہونا اور خوشی کا دن ہونا اور بات ہے اور اسے منانا اور بات ہے۔ سورہ انبیا آیت 107 پر اگر غور کیا جائے تو اس میں خدا نے حضورص کی آمد کو دنیا کے لیے رحمت قرار دیا اور رحمت پر شکر ادا کیا جاتا ہے جیسا کہ قرآن کی دوسری آیتوں میں موجود ہے شکر کا انداز وہی قابل قبول ہے جو سنت سے ثابت ہے ورنہ باقی بدعت ہے۔ سورہ آل عمران کو دیکھیں خدا نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیجے۔ جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور ان کو پاک کرتے اور (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے (۱۶۴)ale imran 164 اس آیت میں خدا مسلمانوں کو نبی کی آمد ان کے لیے صریح منبع ہدایت قرار دیا اور اسکا شکر سنت کی پیروی میں ہے بدعت گھڑنا گمراہی ہے۔ سورة إبراهیم اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ۔ اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ اس میں ان لوگوں کے لیے جو صابر وشاکر ہیں (قدرت خدا کی) نشانیاں ہیں (۵) مندرجہ بالا آیت کو بھی میلاد کی دلیل کہا جاتا ہے جبکہ مگر اسمیں موسی ع کی قوم کو خدا کے دن یاد دلانے کو کہا گیا ہے اور صبر شکر کا حکم ہے نہ میلاد کی تصریح ہے۔ آخر میں طوالت کے پیش نظر یہاں کچھ مختصر علما اہلسنت کا میلاد کے متعلق قول درج ہے شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ اکابر بھی میلاد کو سنت کا حصہ نہیں گردانتے تھے اس سلسلے میں انہوں نے اپنی کتاب اشاعت الموت ص125 ج1 میں بدعات پر صراحت کی ہے۔ ابو لہب والی حدیث پر بھی ایک مختصر تبصرہ کرلیتے ہیں۔ یہ بات صحیح البُخاری ، کتاب النکاح کے باب نمبر ٢٠ کی تیسری حدیث کے ساتھ بیان کی گئی ہے ، اور یہ حدیث نہیں بلکہ عروہ بن الزبیر کا قول ہے کہ ”’ و ثُویبَۃٌ لِابی لھبٍ و کان ابو لھبٍ اعتقھا فارضعت النبيّ صلی اللَّہ عَلیہِ وَسلم ، فلما مات ابو لھب اُرِیَہُ بعضُ اھلہِ بِشرِّ حِیبۃٍ ، قال لہ ُ : ما ذا لّقَیت َ ؟ قال ابو لھب : لم القَ بعدَکُم ، غیرَ انی سُقِیتُ فی ھذہ بعتاقتی ثُویبَۃَ ”’ اور اِس بات کو اِمام البیہقی نے سُنن الکبریٰ میں ، کتاب النکاح کے باب ”’ ما جاء فی قول اللّہ تعالیٰ و اَن تجمعوا بین الاختین ”’ میں اِلفاظ کے معمولی سے فرق سے نقل کِیا ہے اُن کے نقل کردہ اِلفاظ یہ ہیں ”’ لم القَ بعدَکُم رخاءَ ، غیرَ انی سُقِیتُ فی ھذہ مِنی بعتاقتی ثُویبَۃَ و اشارَ اِلیِ النقیرۃ التی بین الابھام و التی تلیھا مِن الاصابع ”’ اور اِمام ابو عوانہ نے اپنی مسند میں ” مبتداء کتاب النکاح و ما یشاکلہُ ”’ کے باب ”’ تحریم الجمع بین الاختین و تحریم نکاح الربیبۃ التی ہی تربیۃ الرجل و تحریم الجمع بین المراۃ و ابنتھا ”’ میں اِن اِلفاظ کے ساتھ یہ واقعہ نقل کیا ”’ لم القَ بعدَکُم راحۃ ، غیرَ انی سُقِیتُ فی ھذہ النقیرۃ التی بین الابھام والتی تلیھا بعتقی ثُویبَۃَ ”’ سب سے پہلی اور بُنیادی بات یہ ہے کہ یہ بات حدیث نہیں ، بلکہ ایک تابعی کی بات ہے جو اِمام بُخاری نے بلا سند بیان کی ہے ، ذرا غور فرمائیے کہ اِس بات میں سے زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ اخذ کِیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابو لہب کے عذاب میں اپنی باندی آزاد کرنے کی نیکی کی وجہ سے کچھ نرمی کر دی ، جیسا کہ ابو طالب کے عذاب میں کمی کر دی گئی ، اِس بات سے کوئی بھی اِنکار نہیں کر سکتا کہ ابو لہب کافر تھا ، اور کفر کی حالت میں ہی مرا ، اور جب اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی خوشخبری دینے والی اپنی باندی ثویبہ کو آزاد کِیا تھا تو اِس لیے نہیں کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے ہیں ، بلکہ اِس خوشی میں کِیا تھا اُس کے فوت شُدہ بھائی عبداللہ بن عبدالمطلب کا بیٹا پیدا ہوا ہے ، اگر اُسے اپنے بھتیجے کے رسول اللہ ہونے کی خوشی ہوتی تو اُن صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت کے بعد یہ ابو لہب پہلے اِیمان لانے والوں میں ہوتا نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے مخالفین میں ، اِمام ابن حجر العسقلانی نے اِس بات کی شرح کرتے ہوئے ”’ فتح الباری شرح صحیح البُخاری ”’ میں لکھا ”’ السہیلی نے لکھا کہ یہ خواب عباس بن عبدالمطلب ( رضی اللہ عنہُ ) نے دیکھا تھا ”’ پھر چند سطر کے بعد لکھا ”’ یہ خبر مرُسل ہے یعنی عروہ بن الزبیر نے یہ بیان نہیں کِیا کہ اُنہوں نے یہ بات کِس سے سُنی ، اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ خبر مُرسل نہیں ، پھر بھی اِس میں بیان کِیا گیا واقعہ ایک خواب ہے اور جِس نے یہ خواب دیکھا ، خواب دیکھنے کے وقت وہ کافر تھا۔ اسکے علاوہ بھی میلاد کے لیے دلائل دیے جاتے ہیں جو طوالت پیش نظر بیان نہیں کیا گیا مختصر یہ کہ اصحاب سے لے کر سلف صالحین تک کسی نے بھی میلاد نہیں منایا ہے اور اس بات کو علما اہلسنت بھی صراحت سے بیان کرتے ہیں لہزہ اسے سنت قرار دینا غلطی ہے،اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
×
×
  • Create New...