Jump to content

NAJAMMIRANI

اراکین
  • کل پوسٹس

    23
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    2

NAJAMMIRANI last won the day on 29 مئی 2012

NAJAMMIRANI had the most liked content!

About NAJAMMIRANI

  • Birthday 20/03/1978

Profile Information

  • مقام
    LARKANA

تازہ ترین ناظرین

The recent visitors block is disabled and is not being shown to other users.

NAJAMMIRANI's Achievements

Contributor

Contributor (5/14)

  • First Post
  • Collaborator
  • Week One Done
  • One Month Later
  • One Year In

Recent Badges

8

کمیونٹی میں شہرت

  1. AHL E SUNNAT KA BERA PAR HE(INSHA ALLAH AZZAWAJAL)

  2. JAZAK ALLAH KHAIR , VERY NICE SHARING
  3. عید میلادالنبی صلی اللہ علییہ وسلم کا ثبوت قرآن و حدیث کی روشنی میں از: مفتی احمدالقادری مصباحی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہر مسرت ہر خوشی کی جان عیدمیلادالنبی عید کیا ہے عید کی بھی شان عیدمیلادالنبی ساعت اعلٰی و اکرم عید میلادالنبی لمحہء انوار پیہم عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے یہ عظیم خوشی کا دن ہے۔ اسی دن محسن انسانیت، خاتم پیغمبراں، رحمت دو جہاں، انیس بیکراں، چارہ ساز درد منداں، آقائے کائنات، فخر موجودات، نبیء اکرم، نور مجسم، سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم خاکدان گیتی پر جلوہ گر ہوئے۔ آپ کی بعثت اتنی عظیم نعمت ہے جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی نعمت اور بڑی سے بڑی حکومت بھی نہیں کر سکتی۔ آپ قاسم نعمت ہیں، ساری عطائیں آپ کے صدقے میں ملتی ہیں۔ حدیث پاک میں ہے: انما انا قاسم واللہ یعطی۔ میں بانٹتا ہوں اور اللہ دینا ہے۔ (بخاری و مسلم) اللہ تعالٰی نے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بعثت پر اپنا احسان جتایا۔ ارشاد ہوتا ہے۔ لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیھم رسولا۔ بےشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ انھیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ (کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن، سورۃ3 آیت164) انبیاء و مرسلین علیہم السلام کی ولادت کا دن سلامتی کا دن ہوتا ہے۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام فرماتے ہیں: وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا۔ (سورۃ19 آیت33) دوسری جگہ حضرت یحیٰی علیہ السلام کے لئے باری تعالٰی کا ارشاد ہے: سلامتی ہے ان پر جس دن پیدا ہوئے۔ (قرآن کریم سورہ19 آیت15) ہمارے سرکار تو امام الانبیاء و سیدالمرسلین اور ساری کائنات سے افضل نبی ہیں۔ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) پھر آپ کا یوم میلاد کیوں نہ سلامتی اور خوشی کا دن ہوگا۔ بلکہ پیر کے دن روزہ رکھ کر اپنی ولادت کی خوشی تو خود سرکار دو جہاں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے منائی اور ان کی اتباع، صحابہءکرام ، تابعین، تبع تابعین، اولیائے کاملین رضوان اللہ علیہم اجمعین کرتے آئے اور آج تک اہل محبت کرتے آ رہے ہیں۔ حدیث پاک میں ہے: نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پیر اور جمعرات کو خیال کرکے روزہ رکھتے تھے۔ (ترمذی شریف) دوسرے حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزے کا سبب پوچھا گیا، فرمایا اسی میں میری ولادت ہوئی اور اسی میں مجھ پر وحی نازل ہوئی۔ (مسلم شریف) نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے وقت ابولہب کی لونڈی حضرت ثوبیہ (رضی اللہ تعالٰی عنہا) نے آکر ابولہب کو ولادت نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خبر دی۔ ابولہب سن کر اتنا خوش ہوا کہ انگلی سے اشارہ کرکے کہنے لگا، ثوبیہ! جا آج سے تو آزاد ہے۔ ابولہب جس کی مذمت میں پوری سورہ لہب نازل ہوئی ایسے بدبخت کافر کو میلاد نبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کے موقع پر خوشی منانے کا کیا فائدہ حاصل ہوا امام بخاری کی زبانی سنئیے: جب ابولہب مرا تو اس کے گھر والوں (میں حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ) نے اس کو خواب میں بہت برے حال میں دیکھا۔ پوچھا، کیا گزری ؟ ابولہب نے کہا تم سے علیحدہ ہو کر مجھے خیر نصیب نہیں ہوئی۔ ہاں مجھے (اس کلمے کی) انگلی سے پانی ملتا ہے جس سے میرے عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے کیوں کہ میں نے (اس انگلی کے اشارے سے) ثوبیہ کو آزاد کیا تھا۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ (958ھ متوفی 1052ھ) جو اکبر اور جہانگیر بادشاہ کے زمانے کے عظیم محقق ہیں، ارشاد فرماتے ہیں: اس واقعہ میں میلادشریف کرنے والوں کے لئے روشن دلیل ہے جو سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شب ولادت خوشیاں مناتے اور مال خرچ کرتے ہیں۔ یعنی ابولہب جو کافر تھا، جب آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی اور لونڈی کے دودھ پلانے کی وجہ سے اس کو انعام دیا گیا تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں محبت سے بھر پور ہو کر مال خرچ کرتا ہے اور میلاد شریف کرتا ہے۔ (مدارج النبوۃ دوم ص26) نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالٰی کی طرف سے بہت بڑی رحمت بن کر دنیا میں تشریف لائے۔ وما ارسلناک الا رحمۃ للعلمین۔ اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔ (کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن سورۃ21، آیت107) اور رحمت الٰہی پر خوشی منانے کا حکم تو قرآن مقدس نے ہمیں دیا ہے: قل بفضل اللہ و برحمۃ فبذلک فلیفرحوا۔ تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اسی پر چاہئیے کہ خوشی کریں۔ ( کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن سورۃ10، آیت58 ) لٰہذا میلادالنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جتنی بھی جائز خوشی و مسرت اور جشن منایا جائے قرآن و حدیث کے منشا کے عین مطابق ہے بدعت سیئہ ہرگز نہیں۔ بلکہ ایسا اچھا اور عمدہ طریقہ ہے جس پر ثواب کا وعدہ ہے۔ حدیث پاک میں ہے: من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا واجر من عمل بھامن بعدہ من غیران ینقص من اجورھم شئی۔ جو اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے گا تو اسے اس کا ثواب ملے گا اور ان کا ثواب بھی اسے ملے گا جو اس کے بعد اس نئے طریقے پر عمل کریں گے، اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہ ہو گی۔ (مسلم شریف
  4. 20 MARCH IS MY BIRTH DAY

  5. تسمية النبي صلي الله عليه وآله وسلم الحسن و الحسين عليهما السلام(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے شہزادوں کا نام حسن و حسین علیہما السلام رکھنا)1. عن علی رضی الله عنه قال : لما ولد حسن سماه حمزة، فلما ولد حسين سماه بإسم عمه جعفر. قال : فدعاني رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و قال : إني اُمرت أن أغير إسم هٰذين. فقلت : أﷲ و رسوله أعلم، فسماهما حسنا و حسيناً. 1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 159 2. ابو يعلي، المسند، 1 : 384، رقم : 498 3. حاکم، المستدرک، 4 : 308، رقم : 7734 4. مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 352، رقم : 734 5. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 52 6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 7 : 116 7. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 3 : 247 8. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 399، رقم : 1323 ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب حسن پیدا ہوا تو اس کا نام حمزہ رکھا اور جب حسین پیدا ہوا تو اس کا نام اس کے چچا کے نام پر جعفر رکھا. (حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلا کر فرمایا : مجھے ان کے یہ نام تبدیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) میں نے عرض کیا : اﷲ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے نام حسن و حسین رکھے۔‘‘ 2. عن سلمان رضي الله عنه قال : قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : سميتهما يعني الحسن والحسين باسم ابني هارون شبرا و شبيرا. 1. طبراني، المعجم الکبير، 6 : 263، رقم : 6168 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 52 3. ديلمي، الفردوس، 2 : 339، رقم : 3533 4. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه، 2 : 563 ’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے ان دونوں یعنی حسن اور حسین کے نام ہارون (علیہ السلام) کے بیٹوں شبر اور شبیر کے نام پر رکھے ہیں۔‘‘ 3. عن سالم رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : اني سميت ابني هذين حسن و حسين بأسماء ابني هارون شبر و شبير. 1. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 774، رقم : 1367 2. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 379، رقم : 32185 3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 97، رقم : 2777 ’’حضرت سالم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے اپنے ان دونوں بیٹوں حسن اور حسین کے نام ہارون (علیہ السلام) کے بیٹوں شبر اور شبیر کے نام پر رکھے ہیں۔‘‘ 4. عن عکرمة قال : لما ولدت فاطمة الحسن بن علی جاء ت به الی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فسماه حسنا، فلما ولدت حسينا جاء ت به الي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقالت : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! هذا أحسن من هذا تعني حسينا فشق له من اسمه فسماه حسينا. 1. عبدالرزاق، المصنف، 4 : 335، رقم : 7981 2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 14 : 119 3. ذهبي، سير أعلام النبلا، 3 : 48 4. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 224 ’’حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے ہاں حسن بن علی علیہما السلام کی ولادت ہوئی تو وہ انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لائیں، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا نام حسن رکھا اور جب حسین کی ولادت ہوئی تو انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں لا کر عرض کیا! یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! یہ (حسین) اس (حسن) سے زیادہ خوبصورت ہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے نام سے اخذ کرکے اُس کا نام حسین رکھا.‘‘ 5. عن جعفر بن محمد عن ابيه أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم اشتق اسم حسين من حسن و سمي حسنا و حسينا يوم سابعهما. 1. محب طبري، ذخائر العقبیٰ، 1 : 119 2. دولابی، الذرية الطاهره، 1 : 85، رقم : 146 ’’حضرت جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین کا نام حسن سے اخذ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کے نام حسن اور حسین علیہما السلام ان کی پیدائش کے ساتویں دن رکھے۔ 6. عن علی بن ابی طالب رضی الله عنه قال : لما ولدت فاطمة الحسن جاء النبی صلی الله عليه وآله وسلم فقال : أروني ابني ما سميتموه؟ قال : قلت : سميته حربا فقال : بل هو حسن فلما ولدت الحسين جاء رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقال : أروني ابني ما سميتموه؟ قال : قلت : سميته حربا قال : بل هو حسين ثم لما ولدت الثالث جاء رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : أروني ابني ما سميتموه؟ قلت : سميته حربا. قال : بل هو محسن. ثم قال : إنما سميتهم بإسم ولد هارون شبر و شبير و مشبر. 1. حاکم، المستدرک، 3 : 180، رقم : 4773 2. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 118، رقم : 935 3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 410، رقم : 6985 4. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 96، رقم : 2773، 2774 5. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 52 6. عسقلاني، الاصابه، 6 : 243، رقم : 8296 عسقلانی نے اس کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔ 7. بخاری، الادب المفرد، 1 : 286، رقم : 823 ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب فاطمہ کے ہاں حسن کی ولادت ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں بلکہ وہ حسن ہے پھر جب حسین کی ولادت ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا : میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں بلکہ وہ حسین ہے۔ پھر جب تیسرا بیٹا پیدا ہوا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا : میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : نہیں بلکہ اس کا نام محسن ہے۔ پھر ارشاد فرمایا : میں نے ان کے نام ہارون (علیہ السلام) کے بیٹوں شبر، شبیر اور مشبر کے نام پر رکھے ہیں۔‘‘ فصل : 2 الحسن والحسين من أسماء الجنة حجبهما اﷲ (حسن اور حسین جنت کے ناموں میں سے دو نام ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ نے حجاب میں رکھا)7. عن المفضل قال : إن اﷲ حجب اسم الحسن والحسين حتي سمي بهما النبي صلي الله عليه وآله وسلم ابنيه الحسن والحسين. 1. نبهاني، الشرف المؤبد : 424 2. نووي، تهذيب الأسماء، 1 : 162، رقم : 118 3. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 2 : 13 ’’مفضل سے روایت ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حسن اور حسین کے ناموں کو حجاب میں رکھا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بیٹوں کا نام حسن اور حسین رکھا۔‘‘ 8. عن عمران بن سليمان قال : الحسن و الحسين اسمان من أسماء أهل الجنة لم يکونا في الجاهلية. 1. دولابي، الذرية الطاهره، 1 : 68، رقم : 99 2. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه : 192 3. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 2 : 25 4. مناوي، فيض القدير، 1 : 105 ’’عمران بن سليمان سے روایت ہے کہ حسن اور حسین اہل جنت کے ناموں میں سے دو نام ہیں جو کہ دورِ جاہلیت میں پہلے کبھی نہیں رکھے گئے تھے۔‘‘ فصل : 3 قال النبی صلی الله عليه وآله وسلم : الحسن والحسين هما أبناي (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسنین کریمین علیہما السلام میرے بیٹے ہیں)9. عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أخذ بيد الحسن والحسين و يقول : هذان أبناي. 1. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 3 : 284 2. ديلمي، الفردوس، 4 : 336، رقم : 6973 3. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 763 4. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 124 ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن و حسین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : یہ میرے بیٹے ہیں۔‘‘ 10. عن فاطمة سلام اﷲ عليها قالت : أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أتاها يوما. فقال : أين ابناي؟ فقالت : ذهب بهما علي، فتوجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فوجدهما يلعبان في مشربة و بين أيدهما فضل من تمر. فقال : يا علیّ! ألا تقلب ابني قبل الحر. 1. حاکم، المستدرک، 3 : 180، رقم : 4774 2. دولابي، الذرية الطاهره، 1 : 104، رقم : 193 ’’سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا فرماتی ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے اور فرمایا : میرے بیٹے کہاں ہیں؟ میں نے عرض کیا : علی رضی اللہ عنہ ان کو ساتھ لے گئے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تلاش میں متوجہ ہوئے تو انہیں پانی پینے کی جگہ پر کھیلتے ہوئے پایا اور ان کے سامنے کچھ کھجوریں بچی ہوئی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! خیال رکھنا میرے بیٹوں کو گرمی شروع ہونے سے پہلے واپس لے آنا۔‘‘ 11. عن المسيب بن نجبة قال : قال علیّ بن أبي طالب : قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : إن کل نبي اعطي سبعة نجباء أو نقباء، و أعطيت أنا أربعة عشر. قلنا : من هم؟ قال : أنا و أبناي و جعفر و حمزة و أبوبکر و عمر و مصعب بن عمير و بلال و سلمان والمقداد و حذيفة و عمار و عبد اﷲ بن مسعود. 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 123، کتاب المناقب، رقم : 3785 2. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 142، رقم : 1205 3. شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 189، رقم : 244 4. طبراني، المعجم الکبير، 6 : 215، رقم : 6047 5. ابن موسي، معتصر المختصر، 2 : 314 6. طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 1 : 225، رقم : 7، 8 7. ابن عبدالبر، الاستيعاب في معرفة الاصحاب، 3 : 1140 8. حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 390 9. ابن احمد خطيب، وسيلة الاسلام، 1 : 77 ’’مسیب بن نجبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کو سات نجیب یا نقیب عطا کئے گئے جبکہ مجھے چودہ عطا کئے گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ وہ کون ہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بتایا : میں، میرے دونوں بیٹے، جعفر، حمزہ، ابوبکر، عمر، مصعب بن عمیر، بلال، سلمان، مقداد، حذیفہ، عمار اور عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنھم۔‘‘ 12. عن علی رضی الله عنه قال : ان اﷲ جعل لکل نبی سبعة نجباء و جعل لنبينا أربعة عشر، منهم : أبوبکر و عمر و علیّ و الحسن والحسين و حمزة و جعفر و أبوذر و عبداﷲ بن مسعود و المقداد و عمار و سلمان و حذيفة و بلال. 1. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 12 : 484، رقم : 6957 2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 228، رقم : 276 3. دارقطني، العلل، 3 : 262، رقم : 395 4. ابن جوزي، العلل المتناهية، 1 : 282، رقم : 455 ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اﷲ تعالیٰ نے ہر نبی کے سات نجباء بنائے جبکہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چودہ نجیب عطا کئے۔ ان میں ابوبکر، عمر، علی، حسن، حسین، حمزہ، جعفر، ابوذر، عبداﷲ بن مسعود، مقداد، عمار، سلمان، حذیفہ اور بلال رضی اللہ عنھم شامل ہیں۔‘‘ فصل : 4 الحسن و الحسين عليهما السلام أهل البيت (حسنین کریمین علیہما السلام اہل بیت ہیں)13. عن أم سلمة رضی اﷲ عنها أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم جمع فاطمة و حسنا و حسينا ثم أدخلهم تحت ثوبه ثم قال : اللهم هؤلاء أهل بيتي. 1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 53، رقم : 2663 2. طبراني، المعجم الکبير، 23 : 308، رقم : 696 3. ابن موسیٰ، معتصر المختصر، 2 : 266 4. حاکم، المستدرک، 3 : 158، رقم : 4705 5. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 22 : 8 6. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 486 ’’ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ سلام اﷲ علیہا اور حسن و حسین علیہما السلام کو جمع فرما کر ان کو اپنی چادر میں لے لیا اور فرمایا : اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘ 14. عن سعد بن ابي وقاص رضی اﷲ عنه قال : لما نزلت هذه الاية (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَ نَا وَ أَبْنَاءَ کُمْ) دعا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : عليا و فاطمة و حسنا و حسينا فقال : اللهم هؤلاء اهلي. 1. مسلم، الصحيح، 4 : 1871، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 2404 2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 225، کتاب تفسير القرآن، رقم : 2999 3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 185، رقم : 1608 4. حاکم، المستدرک، 3 : 163، رقم : 4719 5. بيهقي، السنن الکبریٰ، 7 : 63، رقم : 13170 6. دورقي، مسند سعد، 1 : 51، رقم : 19 7. محب طبري، ذخائر العقبی في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 25 ’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ ’’آپ فرما دیں آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ‘‘ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا : یا اﷲ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔‘‘ 15. عن ابي سعيد الخدري رضی اﷲ عنه في قوله (اِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ) قال : نزلت في خمسة في رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و علي و فاطمة والحسن والحسين. (15) 1. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 80، رقم : 3456 2. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 23، رقم : 325 3. ابن حيان، طبقات المحدثين، 3 : 384 4. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 10 : 278 5. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 22 : 6 ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان ’’اے نبی کے گھر والو! اﷲ چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں : یہ آیت مبارکہ ان پانچ ہستیوں کے بارے میں نازل ہوئی : حضور نبی اکرم، علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم الصلوۃ والسلام۔‘‘ فائدہ : انہی پانچ ہستیوں کی متذکرہ تخصیص کے باعث عامۃ المسلمین میں ’’پنج تن‘‘ کی اِصطلاح مشہور ہے۔ جو شرعاً درست ہے اس میں کوئی مبالغہ یا اعتقادی غلو ہرگز نہیں۔ فصل : 5 النبي صلي الله عليه وآله وسلم هو عصبتهما و وليهما و أبوهما (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی حسنین کریمین علیہما السلام کا نسب، ولی اور باپ ہیں)16. عن عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنه قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : کل بني انثي فان عصبتهم لأبيهم ما خلا ولد فاطمة، فإني أنا عصبتهم و أنا أبوهم. 1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 44، رقم : 2631 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 224 3. شوکاني، نيل الاوطار، 6 : 139 4. صنعاني، سبل السلام، 4 : 99 اس روایت میں بشر بن مہران کو ابن حبان نے ’(الثقات، 8 : 140)‘ میں ثقہ شمار کیا ہے۔ 5. حسيني، البيان والتعريف، 2 : 144، رقم : 1314 6. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 121 ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ہر عورت کے بیٹوں کی نسبت ان کے باپ کی طرف ہوتی ہے ماسوائے فاطمہ کی اولاد کے، کہ میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا باپ ہوں۔‘‘ 17. عن عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنه قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : کل سبب و نسب منقطع يوم القيامة ما خلا سببي و نسبي کل ولد أب فان عصبتهم لأبيهم ما خلا ولد فاطمه فإني أنا ابوهم و عصبتهم. 1. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 626، رقم : 1070 2. حسيني، البيان والتعريف، 2 : 145، رقم : 1316 3. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 169 مختصراً يہ روايت درج ذيل محدثین نے روایت کی ہے : 4. عبدالرزاق، المصنف، 6 : 164، رقم : 10354 5. بيهقي، السنن الکبریٰ، 7 : 64، رقم : 13172 6. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 357، رقم : 6609 7. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 44، رقم : 2633 8. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 272 ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سواء ہر سلسلہ نسب منقطع ہو جائے گا. ہر بیٹے کی باپ کی طرف نسبت ہوتی ہے ماسوائے اولادِ فاطمہ کے کہ ان کا باپ بھی میں ہی ہوں اور ان کا نسب بھی میں ہی ہوں۔‘‘ 18. عن جابر رضی اﷲ عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لکل بني أم عصبة ينتمون اليهم إلا إبني فاطمة فأنا و ليهما و عصبتهما. 1. حاکم، المستدرک، 3 : 179، رقم : 4770 2. ابو يعلیٰ، المسند، 2 : 109، رقم : 6741 3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 44، رقم : 2632 4. سخاوي، استجلاب ارتقاء الغرف بحب اقرباء الرسول و ذوي الشرف : 130 ’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر ماں کے بیٹوں کا آبائی خاندان ہوتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتے ہیں سوائے فاطمہ کے بیٹوں کے، پس میں ہی ان کا ولی ہوں اور میں ہی ان کا نسب ہوں۔‘‘ 19. عن فاطمة الکبري سلام اﷲ عليها قالت : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : لکل بني أنثي عصبة ينتمون إليه إلا ولد فاطمة، فأنا وليهم و أنا عصبتهم. 1. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 423، رقم : 1042 2. ابويعلیٰ، المسند، 12 : 109، رقم : 6741 3. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 224 4. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 11 : 285 5. ديلمي، الفردوس، 3 : 264، رقم : 4787 6. مزي، تهذيب الکمال، 19 : 483 7. عجلوني، کشف الخفا، 2 : 157، رقم : 1968 ’’سیدہ فاطمہ الزہراء سلام اﷲ علیہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر عورت کے بیٹوں کا خاندان ہوتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتے ہیں ماسوائے فاطمہ کی اولاد کے، پس میں ہی ان کا ولی ہوں اور میں ہی ان کا نسب ہوں۔‘‘ فصل : 6إن الحسن و الحسين عليهما السلام خير الناس نسباً (حسنین کریمین علیہما السلام لوگوں میں سے سب سے بہتر نسب والے ہیں)20. عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أيها الناس! ألا أخبرکم بخير الناس جدا و جدة؟ ألا أخبرکم بخير الناس عما و عمة؟ ألا أخبرکم بخير الناس خالا و خالة؟ ألا أخبرکم بخير الناس أباً و أماً؟ هما الحسن و الحسين، جدهما رسول اﷲ، و جدتهما خديجة بنت خويلد، و أمهما فاطمة بنت رسول اﷲ، و أبوهما علي بن أبي طالب، و عمهما جعفر بن أبي طالب، و عمتهما أم هاني بنت أبي طالب، و خالهما القاسم بن رسول اﷲ، و خالاتهما زينب و رقية و أم کلثوم بنات رسول اﷲ، جدهما في الجنة و أبوهما في الجنة و أمهما في الجنة، و عمهما في الجنة و عمتهما في الجنة، و خالاتهما في الجنة، و هما في الجنة. 1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 66، رقم : 2682 2. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 298، رقم : 6462 3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 229 4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 184 5. هندي، کنز العمال، 12 : 118، رقم : 34278 6. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 130 ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے لوگو! کیا میں تمہیں ان کے بارے میں خبر نہ دوں جو (اپنے) نانا نانی کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے نہ بتاؤں جو (اپنے) چچا اور پھوپھی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو (اپنے) ماموں اور خالہ کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے میں خبر نہ دوں جو (اپنے) ماں باپ کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ وہ حسن اور حسین ہیں، ان کے نانا اﷲ کے رسول، ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد، ان کی والدہ فاطمہ بنت رسول اﷲ، ان کے والد علی بن ابی طالب، ان کے چچا جعفر بن ابی طالب، ان کی پھوپھی ام ہانی بنت ابی طالب، ان کے ماموں قاسم بن رسول اﷲ اور ان کی خالہ رسول اﷲ کی بیٹیاں زینب، رقیہ اور ام کلثوم ہیں۔ ان کے نانا، والد، والدہ، چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ (سب) جنت میں ہوں گے اور وہ دونوں (حسنین کریمین) بھی جنت میں ہوں گے۔‘‘ فصل : 7 الحسن و الحسين عليهما السلام هما ريحانتاي من الدنيا (حسنین کریمین علیہما السلام ہی میرے گلشن دُنیا کے پھول ہیں)21. عن ابن ابي نعم : سمعت عبداﷲ ابن عمر رضي اﷲ عنهما و سأله عن المحرم، قال شعبة : أحسبه بقتل الذباب، فقال : أهل العراق يسألون عن الذباب و قد قتلوا ابن ابنة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، و قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : هما ريحا نتاي من الدنيا. 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1371، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 3543 2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 85، رقم : 5568 3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 425، رقم : 6969 4. طيالسي، المسند، 1 : 260، رقم : 1927 5. ابونعيم اصبهاني، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 5 : 70 6. ابونعيم اصبهاني، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 7 : 168 7. بيهقي، المدخل، 1 : 54، رقم : 129 ’’ابن ابونعم فرماتے ہیں کہ کسی نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے حالت احرام کے متعلق دریافت کیا۔ شعبہ فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں (محرم کے) مکھی مارنے کے بارے میں پوچھا تھا۔ حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : اہل عراق مکھی مارنے کا حکم پوچھتے ہیں حالانکہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے (حسین) کو شہید کر دیا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : وہ دونوں (حسن و حسین علیہما السلام) ہی تو میرے گلشن دُنیا کے دو پھول ہیں۔‘‘ 22. عن عبدالرحمن بن ابی نعم : أن رجلا من أهل العراق سأل ابن عمر رضي اﷲ عنهما عن دم البعوض يصيب الثوب؟ فقال ابن عمر رضي اﷲ عنهما : انظروا إلي هذا يسأل عن دم البعوض و قد قتلوا ابن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، و سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : ان الحسن و الحسين هما ريحانتي من الدنيا. 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 657، ابواب المناقب، رقم : 3770 2. بخاري، الصحيح، 5 : 2234، کتاب الادب، رقم : 5648 3. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 50، رقم : 8530 4. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 93، رقم : 5675 5. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 114، رقم : 5940 6. ابو يعلیٰ، المسند، 10 : 106، رقم : 5739 7. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 127، رقم : 2884 8. حکمي، معارج القبول، 3 : 1201 ’’حضرت عبدالرحمن بن ابی نعم سے روایت ہے کہ ایک عراقی نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے پوچھا کہ کپڑے پر مچھر کا خون لگ جائے تو کیا حکم ہے؟ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : اس کی طرف دیکھو، مچھر کے خون کا مسئلہ پوچھتا ہے حالانکہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹے (حسینں) کو شہید کیا ہے اور میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : حسن اور حسین ہی تو میرے گلشن دُنیا کے دو پھول ہیں۔‘‘ 23. عن أبي أيوب الأنصاري رضی اﷲ عنه قال : دخلت علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم والحسن والحسين عليهما السلام يلعبان بين يديه أو في حجره، فقلت : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم أتحبهما؟ فقال : و کيف لا أحبهما وهما ريحانتي من الدنيا أشمهما. 1. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 155، رقم : 3990 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181 3. عسقلاني، فتح الباري، 7 : 99 4. مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 6 : 32 5. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 3 : 282 ’’حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا تو (دیکھا کہ) حسن و حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یا گود میں کھیل رہے تھے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم : کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے محبت کرتے ہیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ان سے محبت کیوں نہ کروں حالانکہ میرے گلشن دُنیا کے یہی تو دو پھول ہیں جن کی مہک کو سونگھتا رہتا ہوں (اُنہی پھولوں کی خوشبو سے کیف و سرور پاتا ہوں)۔‘‘ فصل : 8 تأذين النبي صلي الله عليه وآله وسلم في أُذن الحسن والحسين عليهما السلام (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السلام کے کانوں میں اَذان کہنا)24. عن أبي رافع رضي الله عنه : أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم أذن في أذن الحسن والحسين عليهما السلام حين ولدا. 1. روياني، المسند، 1 : 429، رقم : 708 2. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 313، رقم : 926 3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 31، رقم : 2579 4. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 60 5. ابن ملقن انصاري، خلاصة البدر المنير، 2 : 392، رقم : 2713 6. شوکاني، نيل الاوطار، 5 : 230 7. صنعاني، سبل السلام، 4 : 100 ’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حسن اور حسین پیدا ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ان کے کانوں میں اذان دی۔‘‘ 25. عن ابي رافع رضي الله عنه قال : رايت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم اذن في اذن الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة. 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 97، کتاب الاضاحي، رقم : 1514 2. ابوداؤد، السنن، 4 : 328، کتاب الادب، رقم : 5105 3. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 391 4. روياني، المسند، 1 : 455، رقم : 682 5. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 315، رقم : 931 6. عبدالرزاق، المصنف، 4 : 336، رقم : 7986 7. بيهقي، السنن الکبریٰ، 9 : 305 ’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ کے ہاں حسن بن علی کی ولادت ہونے پر ان کے کانوں میں نماز والی اذان دی۔‘‘ 26. عن ابي رافع رضي الله عنه قال : رايت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم اذن في اذن الحسين حين ولدته فاطمة. هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه. 1. حاکم، المستدرک، 3 : 197، رقم : 4827 حاکم نے اس روایت کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے جبکہ بخاری و مسلم نے اس کی تخریج نہیں کی۔ 2. عسقلاني، تلخيص الحبير، 4 : 149، رقم : 1985 3. ابن ملقن انصاري، خلاصة البدر المنير، 2 : 391، رقم : 2713 4. شوکاني، نيل الاوطار، 5 : 229 ’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ کے ہاں حسین کی ولادت پر ان کے کانوں میں اذان دی۔‘‘ فصل : 9 عقيقة النبي صلي الله عليه وآله وسلم عن الحسن و الحسين عليهما السلام (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السلام کی طرف سے عقیقہ کرنا)27. عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما : أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عق عن الحسن و الحسين کبشاً کبشاً. ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین کی طرف سے عقیقے میں ایک ایک دنبہ ذبح کیا۔‘‘ 1. ابوداؤد، السنن، 3 : 107، کتاب الصحايا، رقم : 2841 2. ابن جارود، المنتقي، 1 : 229، رقم : 12 - 911 3. بيهقي، السنن الکبري، 9 : 302 4. طبراني، المعجم الکبير، 11 : 316، رقم : 11856 5. ابن عبدالبر، التمهيد، 4 : 314 6. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 10 : 151، رقم : 5302 7. صنعاني، سبل السلام، 4 : 97 8. ابن رشد، بداية المجتهد، 1 : 339 9. ابن موسیٰ، معتصر المختصر، 1 : 276 28. عن أنس رضي اﷲ عنه : أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عق عن الحسن و الحسين بکبشين. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین کی طرف سے دو دنبے عقیقہ کے لئے ذبح کئے۔‘‘ 1. ابويعلي، المسند، 5 : 323، رقم : 2945 2. طبراني، المعجم الاوسط، 2 : 246، رقم : 1878 3. مقدسي، الاحاديث المختاره، 7 : 85، رقم : 2490 4. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 57 5. وادياشي، تحفة المحتاج، 2 : 538، رقم : 1701 29. عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال : عق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عن الحسن و الحسين بکبشين کبشين. ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین کی طرف سے عقیقے میں دو دو دنبے ذبح کئے۔‘‘ 1. نسائی، السنن، 7 : 165، کتاب العقيقه، رقم : 4219 2. نسائي، السنن الکبري، 3 : 76، رقم : 4545 3. سيوطي، تنوير الحوالک، 1 : 335، رقم : 1071 4. زرقاني، شرح الموطا، 3 : 130 5. شوکاني، نيل الاوطار، 5 : 227 6. مبارکپوري، تحفة الاحوذی، 5 : 87 7. صنعاني، سبل السلام، 4 : 98 30. عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده : أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عق عن الحسن و الحسين، عن کل واحد منهما کبشين اثنين مثلين متکافئين. ’’حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین میں سے ہر ایک کی طرف سے ایک ہی جیسے دو دو دنبے عقیقہ میں ذبح کئے۔‘‘ حاکم، المستدرک، 4 : 265، رقم : 7590 31. عن عائشة رضي اﷲ عنها أنها قالت : عق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عن حسن شاتين و عن حسين شاتين، ذبحهما يوم السابع. ’’ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین کی پیدائش کے ساتویں دن ان کی طرف سے دو دو بکریاں عقیقہ میں ذبح کیں۔‘‘ 1. عبدالرزاق، المصنف، 4 : 330، رقم : 7963 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 58 3. ابن حبان، الصحيح، 12 : 127، رقم : 5311 4. وادياشي، تحفة المحتاج، 2 : 537، رقم : 1700 5. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 260، رقم : 1056 6. دولابي، الذرية الطاهرة، 1 : 85، رقم : 148 32. عن علي رضي الله عنه أن رسول صلي الله عليه وآله وسلم عق عن الحسن و الحسين. (32) ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین کی طرف سے عقیقہ کیا۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 29، رقم : 2572 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 58 فصل : 10 الحسن والحسين عليهما السلام کانا أشبه بالنبي صلي الله عليه وآله وسلم (حسنین کریمین علیہما السلام . . . سراپا شبیہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے)33. عن علي رضي الله عنه قال : الحسن أشبه برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما بين الصدر إلي الراس، والحسين أشبه بالنبي صلي الله عليه وآله وسلم ما کان أسفل من ذلک. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حسن سینہ سے سر تک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہ تھے اور حسین سینہ سے نیچے تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہ تھے۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 660، ابواب المناقب، رقم : 5779 2. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 99، رقم : 774 3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 430 : رقم : 6974 4. طيالسي، المسند، 1 : 91، رقم : 130 5. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 774، رقم : 1366 6. مقدسي، الاحاديث المختارة، 2 : 394، رقم : 780، 781 7. هيثمي، مواردالظمآن، 1 : 553، رقم : 2235 8. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 763 9. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 3 : 250 34. عن علي رضی الله عنه، قال : من سره أن ينظر الي أشبه الناس برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما بين عنقه الي وجهه فلينظر إلي الحسن بن علي، و من سره أن ينظر إلي أشبه الناس برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما بين عنقه الي کعبه خلقا و لونا فلينظر إلي الحسين بن علي. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ وہ لوگوں میں ایسی ہستی کو دیکھے جو گردن سے چہرے تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے کامل شبیہ ہو تو وہ حسن بن علی کو دیکھ لے اور جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ وہ لوگوں میں ایسی ہستی کو دیکھے جو گردن سے ٹخنے تک رنگت اور صورت دونوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے کامل شبیہ ہو تو وہ حسین بن علی کو دیکھ لے۔‘‘ طبرانی، المعجم الکبير، 3 : 95، رقم : 2768، 2759 35. عن انس رضی الله عنه قال : کان الحسن و الحسين أشبههم برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حسن و حسین علیہما السلام دونوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔‘‘ عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 2 : 77، رقم : 1726 36. عن محمد بن الضحاک الحزامي قال : کان وجه الحسن بن علي يشبه وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و کان جسد الحسين يشبه جسد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . ’’محمد بن ضحاک حزامی روایت کرتے ہیں کہ حسن بن علی علیہما السلام کا چہرہ مبارک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کی شبیہ تھا اور حسین کا جسم مبارک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اقدس کی شبیہ تھا۔‘‘ ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 14 : 127 فصل : 11يرث الحسن والحسين عليهما السلام أوصاف النبي صلي الله عليه وآله وسلم (حسنین کریمین علیہما السلام . . . وارثان اوصافِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )37. عن فاطمة بنت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أنها أتت بالحسن والحسين أباها رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في شکوة التي مات فيها، فقالت : تورثهما يا رسول اﷲ شيئاً. فقال : أما الحسن فله هيبتي و سؤددي و أما الحسين فله جراتي و جودي. ’’سیدہ فاطمہ صلوات اﷲ علیھا سے روایت ہے کہ وہ اپنے بابا حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض الوصال کے دوران حسن اور حسین کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائیں اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حسن میری ہیبت و سرداری کا وارث ہے اور حسین میری جرات و سخاوت کا۔‘‘ 1. شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 299، رقم : 408 2. شيباني، الآحاد والمثاني، 5 : 370، رقم : 2971 3. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 423، رقم : 1041 4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 185 5. شوکاني، درالسحابه : 310 6. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي، 1 : 129 7. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه، 2 : 560 38. عن أم أيمن رضي اﷲ عنها قالت : جاءَ ت فاطمة بالحسن و الحسين إلي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فقالت : يا نبي اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! انحلهما؟ فقال : نحلت هذا الکبير المهابة والحلم، و نحلت هذا الصغير المحبة والرضي. ’’حضرت ام ایمن رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا حسنین کریمین علیہما السلام کو ساتھ لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! ان دونوں بیٹوں حسن و حسین کو کچھ عطا فرمائیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے اس بڑے بیٹے (حسن) کو ہیبت و بردباری عطا کی اور چھوٹے بیٹے (حسین) کو محبت اور رضا عطا کی۔‘‘ 1. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 4 : 280، رقم : 6829 2. هندي، کنز العمال، 13 : 760، رقم : 37710 39. عن زينب بنت أبي رافع : أتت فاطمة بابنيها إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في شکواه الذي توفي فيه، فقالت لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : هذان ابناک فورثهما شيئا. قال : أما حسن فان له هيبتي و سؤددي، و أما حسين فإن له جراتي و جودي. ’’حضرت زینب بنت ابی رافع سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض الوصال کے دوران اپنے دونوں بیٹوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لائیں اور عرض کیا : یہ آپ کے بیٹے ہیں، انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن کے لئے میری ہیبت و سرداری کی وراثت ہے اور حسین کے لئے میری جرات و سخاوت کی وراثت۔‘‘ 1. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 299، رقم : 615 2. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 7 : 674، رقم : 11232 3. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 400 40. عن أبي رافع رضي الله عنه قال : جاء ت فاطمة بنت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بحسن و حسين إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في مرضه الذي قبض فيه، فقالت : هذان ابناک فورثهما شيئا. فقال لها : أما حسن فان له ثباتي و سؤددي، و أما حسين فان له حزامتي و جودي. ’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض الوصال میں اپنے دونوں بیٹوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لائیں اور عرض پرداز ہوئیں : یہ آپ کے بیٹے ہیں انہیں کچھ وراثت میں عطا فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن کے لئے میری ثابت قدمی اور سرداری کی وراثت ہے اور حسین کے لئے میری طاقت و سخاوت کی وراثت۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 222 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 185 فصل : 12الحسن و الحسين عليهما السلام سيدا شباب أهل الجنة (حسنین کریمین علیہما السلام تمام جنتی جوانوں کے سردار ہیں)41. عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : الحسن و الحسين سيدا شباب أهل الجنة. ’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 656، ابواب المناقب، رقم : 3768 2. نسائي، السنن الکبري، 5 : 50، رقم : 8169 3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 412، رقم : 6959 4. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 3، رقم : 11012 5. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 378، رقم : 32176 6. طبراني، المعجم الاوسط، 2 : 347، رقم : 2190 7. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 10، رقم : 5644 8. حاکم، المستدرک، 3 : 182، رقم : 4778 9. هيثمي، مواردالظمآن، 1 : 551، رقم : 2228 10. ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 201)‘ میں اس کے رواۃ کو صحیح قرار دیا ہے۔ 11. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 5 : 489 12. نسائي، خصائص علي، 1 : 142، رقم : 129 13. حکمي، معارج القبول، 3 : 1200 42. عن حذيفة رضي الله عنه قال : سألتني أمي : متي عهدک تعني بالنبي صلي الله عليه وآله وسلم فقلت : ما لي به عهد منذ کذا و کذا، فنالت مني، فقلت لها : دعيني آتي النبي صلي الله عليه وآله وسلم فأصلي معه المغرب و أسأله أن يستغفرلي ولک، فأتيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فصليت معه المغرب، فصلي حتي صلي العشاء ثم أنفتل فتبعته فسمع صوتي فقال : من هذا؟ حذيفة! قلت : نعم، قال : ما حاجتک؟ غفر اﷲ لک ولأمک. قال : ان هذا ملک لم ينزل الأرض قط قبل هذه الليلة، استأذن ربه أن يسلم علي و يبشرني بأن فاطمة سيدة نساء أهل الجنة و أن الحسن و الحسين سيدا شباب أهل الجنة. ’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ نے مجھ سے پوچھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا میرا معمول کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اتنے دنوں سے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکا۔ وہ مجھ سے ناراض ہوئیں۔ میں نے کہا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں ابھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں، ان کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھوں گا اور ان سے عرض کروں گا کہ میرے اور آپ کے لئے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ پس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور ان کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نوافل ادا فرماتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کی نماز ادا فرمائی پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کی طرف روانہ ہوئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے چلنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری آواز سنی تو فرمایا یہ کون ہے؟ حذیفہ! میں نے عرض کیا : جی ہاں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا تمہاری کیا حاجت ہے؟ اﷲ تعالیٰ تمہیں اور تمہاری ماں کو بخش دے پھر فرمایا : یہ ایک فرشتہ ہے جو اس سے پہلے دنیا میں کبھی نہیں اترا۔ اس نے اپنے رب سے اجازت چاہی کہ مجھ پر سلام عرض کرے اور مجھے بشارت دے کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہے اور حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 660، ابواب المناقب، رقم : 3781 2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 413، رقم : 6960 3. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 80، رقم : 8298 4. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 391، رقم : 23377 5. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 378، رقم : 32177 6. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 37، رقم : 2606 7. حاکم، المستدرک، 3 : 439، رقم : 5630 8. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 551، رقم : 2229 9. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 183 10. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه، 2 : 560 43. عن علي رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : الحسن و الحسين سيدا شباب أهل الجنة. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین تمام جوانان جنت کے سردار ہیں۔‘‘ 1. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 378، رقم : 32179 2. بزار، المسند، 3 : 102، رقم : 885 3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 36، رقم : 3601 4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 4182 4. عن أنس بن مالک رضي الله عنه قال سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : نحن ولد عبدالمطلب سادة أهل الجنة : أنا و حمزة و علي و جعفر والحسن والحسين والمهدي. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہم عبدالمطلب کی اولاد اہل جنت کے سردار ہیں جن میں میں، حمزہ، علی، جعفر، حسن، حسین اور مہدی شامل ہیں۔‘‘ 1. ابن ماجه، السنن، 2 : 1368، کتاب الفتن، رقم : 4087 2. حاکم، المستدرک، 3 : 233، رقم : 4940 3. ابن حيان، طبقات المحدثين بأصبهان، 2 : 290، رقم : 177 4. کناني، مصباح الزجاجة، 4 : 204، رقم : 1452 5. ديلمي، الفردوس، 1 : 53، رقم : 142 6. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 7 : 283، رقم : 544 7. مزي، تهذيب الکمال، 5 : 53 45. عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة. ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین تمام جوانان جنت کے سردار ہیں۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 35، رقم : 2598 طبرانی نے ’المعجم الاوسط (5 : 243، رقم : 5208)‘ میں حضرت اُسامہ بن زید سے مروی حدیث بھی بیان کی ہے۔ 2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 14 : 132 3. هثيمي، مجمع الزوائد، 9 : 182 46. عن ابن عمر رضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة. ’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین تمام جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘ 1. ابن ماجه، السنن، 1 : 44، باب فضائل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، رقم : 118 2. حاکم، المستدرک، 3 : 182، رقم : 4780 3. ابن عساکر، تاريخِ دمشق الکبير، 14 : 133 4. کناني، مصباح الزجاجه، 1 : 20، رقم : 48 5. ذهبي، ميزان الاعتدال، 6 : 474 47. عن الحسين بن علي رضي اﷲ عنهما قال سمعت جدي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : لا تسبوا الحسن والحسين، فانهما سيدا شباب أهل الجنة من الأولين والأخرين. ’’حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے اپنے نانا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : حسن اور حسین کو گالی مت دینا کیونکہ وہ پہلی اور پچھلی تمام امتوں کے جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘ 1. ابن عساکر، تاريخِ دمشق الکبير، 14 : 131 2. ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 184)‘ میں اِسے مختصراً روایت کیا ہے۔ 3. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 118، رقم : 366 4. شوکاني، درالسحابه في مناقب القرابه والصحابه : 301 48. عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة. ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین تمام جوانان جنت کے سردار ہیں۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 182، رقم : 4779 2. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 5 : 58 3. ابن عساکر، تاريخِ دمشق الکبير، 14 : 133 49. عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : إن ملکا من السماء لم يکن زارني، فأستأذن اﷲل في زيارتي، فبشرني أن الحسن و الحسين سيدا شباب أهل الجنة. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آسمان کے ایک فرشتے نے (اس سے پہلے) میری زیارت کبھی نہیں کی تھی، اس نے میری زیارت کے لئے اﷲ تعالیٰ سے اجازت طلب کی اور مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ حسن اور حسین تمام جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 36، رقم : 2604 2. نسائي، السنن الکبري، 5 : 146، رقم : 8515 3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 183 4. مزي، تهذيب الکمال، 26 : 391 5. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 2 : 167 6. ذهبي، ميزان الاعتدال، 6 : 329 50. عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : خير شبابکم الحسن و الحسين. ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہارے جوانوں میں سے سب سے بہتر (جوان) حسن اور حسین ہیں۔‘‘ 1. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 4 : 391، رقم : 2280 2. هندي، کنز العمال، 12 : 102، رقم : 34191 3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 14 : 167 فصل : 13 الحسن و الحسين عليهما السلام طهرهما اﷲ تطهيرا (اﷲ تعالیٰ نے حسنین کریمین علیہما السلام کو کمالِ تطہیر کی شانِ عظیم سے نواز دیا)51. عن صفية بنت شيبة قالت : قالت عائشة رضي اﷲ عنها : خرج النبي صلي الله عليه وآله وسلم غداة و عليه مرط مرحل من شعر أسود. فجاء الحسن بن علي فأدخله، ثم جاء الحسين فدخل معه ثم جاء ت فاطمة فأدخلها، ثم جاء علي فأدخله، ثم قال : (إنما يريد اﷲ ليذهب عنکم الرجس أهل البيت و يطهرکم تطهيرا). ’’حضرت صفیہ بنت شیبہ سے روایت ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت باہر تشریف لائے درآں حالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی جس پر سیاہ اون سے کجاؤوں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ حسن بن علی علیہما السلام آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس چادر میں داخل کر لیا پھر حسین آئے اور آپ کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر فاطمہ سلام اﷲ علیہا آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس چادر میں داخل کر لیا، پھر علی آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی ’’اے اہل بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دور کر دے اور تم کو کمال درجہ طہارت سے نواز دے۔‘‘ 1. مسلم، الصحيح، 4 : 1883، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 2424 2. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 370، رقم : 36102 3. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 672، رقم : 149 4. ابن راهويه، المسند، 3 : 678، رقم : 1271 5. حاکم، المستدرک، 3 : 159، رقم : 4705 6. بيهقي، السنن الکبریٰ، 2 : 149 7. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 22 : 6، 7 8. بغوي، معالم التنزيل، 3 : 529 9. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 485 10. سيوطي، الدرالمنثور في التفسير بالماثور، 6 : 605 11. مبارک پوري، تحفة الأحوذي، 9 : 49 52. عن ام سلمة رضي اﷲ عنها قالت : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ألا! لا يحل هذا المسجد لجنب و لا لحائض إلا لرسول اﷲ و علي و فاطمة و الحسن و الحسين. ألا! قد بينت لکم الأسماء أن لا تضلوا. ’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خبردار! یہ مسجد کسی جنبی اور حائضہ (عورت) کے لئے حلال نہیں، سوائے رسول اﷲ، علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم الصلوۃ والسلام کے۔ ان برگزیدہ ہستیوں کے علاوہ کسی کے لئے مسجد نبوی میں آنا جائز نہیں، آگاہ ہو جاؤ! میں نے تمہیں نام بتا دیئے ہیں تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ۔‘‘ 1. بيهقي، السنن الکبري، 7 : 65، رقم : 13178، 13179 2. هندي، کنز العمال، 12 : 101، رقم : 34183 3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 14 : 166 4. ابن کثير، فصول من السيرة، 1 : 273 5. سيوطي، خصائص الکبري، 2 : 424 53. عن عمر بن أبي سلمة ربيب النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : لما نزلت هذه الآية علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم (اِنَّمَا يرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيْرًا). في بيت أم سلمة، فدعا فاطمة و حسنا و حسينا، فجللهم بکساء، و علي خلف ظهره فجلله بکساء، ثم قال : اللهم! هؤلاء أهل بيتي، فاذهب عنهم الرجس و طهرهم تطهيرا. ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردہ عمر بن ابی سلمہ فرماتے ہیں کہ جب ام سلمہ کے گھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت ’’اے اہل بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح) کی آلودگی دور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے‘‘ نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سلام اﷲ علیہم کو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا۔ علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 351، کتاب تفسير القرآن، رقم : 3205 2. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 22 : 8 3. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 2 : 17 4. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 21 54. عن ام سلمة رضي اﷲ عنها ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم ! جلل علي الحسن و الحسين و علي و فاطمة کساء ثم قال : اللهم هؤلاء اهل بيتي و خاصتي اذهب عنهم الرجس و طهرهم تطهيرا. ’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن، حسین، علی اور فاطمہ سلام اﷲ علیہم پر چادر پھیلائی اور فرمایا : اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت اور مقرب ہیں، ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں اچھی طرح پاکیزگی و طہارت سے نواز دے۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 699، کتاب المناقب، رقم : 3871 2. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 304، رقم : 26639 3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 54، رقم : 2668 4. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 22 : 8 5. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 485 6. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 297 فصل : 14قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : من أحبني فليحب هذين (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو مجھ سے محبت کرتا ہے اس پر ان دونوں سے محبت کرنا واجب ہے)55. عن عبد اﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : من أحبني فليحب هذين. ’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے مجھ سے محبت کی، اس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں سے بھی محبت کرے۔‘‘ 1. نسائي، السنن الکبري، 5 : 50، رقم : 8170 2. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 20، رقم : 67 3. ابن خزيمه، الصحيح، 2 : 48، رقم : 887 4. بزار، المسند، 5 : 226، رقم : 1834 5. شاشي، المسند، 2 : 113، رقم : 638 6. ابويعلیٰ، المسند، 9 : 250، رقم : 5368 7. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 179 8. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 2 : 17 56. عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال : لما نزلت (قُلْ لَا أَسْألُکُمْ عَلَيْهِ أجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی) قالوا : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! ومن قرابتک هؤلاء الذين و جبت علينا مودتهم؟ قال : علي و فاطمة و أبناهما. ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جب آیت مبارکہ ’’فرما دیں میں تم سے اس (تبلیغ حق اور خیرخواہی) کا کچھ صلہ نہیں چاہتا بجز اہل قرابت سے محبت کے‘‘ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ کے وہ کون سے قرابت دار ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے (حسن و حسین)۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 47، رقم : 2641 2. طبراني، المعجم الکبير، 11 : 444، رقم : 12259 3. هيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 103 57. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول في الحسن والحسين : من أحبني فليحب هذين. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حسن اور حسین علیہما السلام کے متعلق فرماتے ہوئے سنا : جو مجھ سے محبت کرتا ہے اس پر ان دونوں سے محبت کرنا واجب ہے۔‘‘ 1. طيالسي، المسند، 1 : 327، رقم : 2052 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 180 58. عن زر بن جيش قال : قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : من أحبني فليحب هذين. ’’حضرت زر بن جیش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اس پر ان دونوں سے محبت رکھنا واجب ہے۔‘‘ 1. ابن ابي شيبه، المصنف : 6 : 378، رقم : 32174 2. بيهقي، السنن الکبریٰ، 2 : 263، رقم : 3237 فصل : 15من أحب الحسن والحسين عليهما السلام فقد أحبني (جس نے حسنین علیہما السلام سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی)59. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من أحب الحسن والحسين فقد أحبني. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے حسن اور حسین علیہما السلام سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی۔‘‘ 1. ابن ماجه، السنن، باب في فضائل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 : 51، رقم : 143 2. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 49 : رقم : 8168 3. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 288، رقم : 7863 4. طبراني، المعجم الاوسط، 5 : 102، رقم : 4795 5. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 47، رقم : 2645 6. ابو يعلي، المسند، 11 : 78، رقم : 2615 7. ابويعلي، المسند، 11 : 78 : رقم : 6215 8. ابن راهويه، المسند، 1 : 248، رقم : 211 8. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 20، رقم : 65 9. کناني، مصباح الزجاجه، 1 : 21، رقم : 52 10. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 141 60. عن عبد اﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال للحسن والحسين : من أحبهما فقد أحبني. ’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن و حسین علیہما السلام کے لئے فرمایا : جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ ہی سے محبت کی۔‘‘ 1. بزار، المسند، 5 : 217، رقم : 1820 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 180 3. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 3 : 254، 284 4. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 763 ہیثمی نے اس کی اسناد کو درست قرار دیا ہے۔ 61. عن أبی حازم قال : شهدت حسينا حين مات الحسن و هو يدفع في قفا سعيد بن العاص و هو يقول : تقدم، فلولا السنة ما قدمتک، و سعيد امير علي المدينة يومئذ، قال : فلما صلوا عليه قام أبوهريرة فقال : أتنفسون علي ابن نبيکم تربة يدفنونه فيها، ثم قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : من أحبهما فقد أحبني. ’’ابوحازم بیان کرتے ہیں : میں حسن کی شہادت کے وقت حسین کے پاس حاضر تھا وہ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو گردن سے پکڑ کر آگے کرتے ہوئے کہہ رہے تھے : (نماز جنازہ پڑھانے کے لئے) آگے بڑھو، اگر سنت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتی تو میں آپ کو آگے نہ کرتا، اور سعید ان دنوں مدینہ کے امیر تھے۔ جب سب نے نمازِ جنازہ ادا کر لی تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، اُنہوں نے فرمایا : تم کس دل سے اپنے نبی کے صاحبزادے کو زمین میں دفنا کر ان پر مٹی ڈالو گے اور ساتھ انہوں نے (غم میں ڈوب کر) یہ بھی کہا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جس نے ان سے محبت کی اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی۔‘‘ 1. عبدالرزاق، المصنف، 3 : 71، رقم : 6369 2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 531 3. حاکم، المستدرک، 3 : 187، رقم : 4799 4. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 28، رقم : 6685 5. ذهبي، سيرأعلام النبلاء، 3 : 276 6. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 260 7. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 254 فصل : 16من أحب الحسن و الحسين عليهما السلام فقد أحبه اﷲ (جس نے حسنین علیہما السلام سے محبت کی اس سے اﷲ نے محبت کی)62. عن سلمان رضي الله عنه قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : من أحبهما أحبني، ومن أحبني أحبه اﷲ، ومن أحبه اﷲ أدخله الجنة. ’’سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے حسن اور حسین علیہما السلام سے محبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی اس سے اللہ نے محبت کی، اور جس سے اللہ نے محبت کی اس نے اسے جنت میں داخل کردیا۔‘‘ حاکم، المستدرک، 3 : 181، رقم : 4776 63. عن سلمان رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم للحسن و الحسين : من أحبهما أحببته، ومن أحببته أحبه اﷲ، ومن أحبه اﷲ أدخله جنات النعيم. ’’سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن و حسین علیہما السلام کے لئے فرمایا : جس نے ان سے محبت کی اس سے میں نے محبت کی، اور جس سے میں محبت کروں اس سے اللہ محبت کرتا ہے، اور جس کو اللہ محبوب رکھتا ہے اسے نعمتوں والی جنتوں میں داخل کرتا ہے۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 50، رقم : 2655 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181 3. شوکاني، در السحابه في مناقب القرابة والصحابه : 307 فصل : 17 قال النبی صلی الله عليه وآله وسلم : من أحب هذين کان معي يوم القيامة (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے ان دونوں سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہو گا)64. عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه : أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أخذ بيد حسن و حسين، فقال : من أحبني و أحب هذين و أباهما و أمهما کان معي في درجتي يوم القيامة. ’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : جس نے مجھ سے اور ان دونوں سے محبت کی اور ان کے والد سے اور ان کی والدہ سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے ہی ٹھکانہ پر ہو گا۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 641، ابواب المناقب، رقم : 3733 2. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 77، رقم : 576 3. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 693، رقم : 1185 4. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 50، رقم : 2654 5. مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 45، رقم : 421 6. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 13 : 287، رقم : 7255 7. دولابي، الذرية الطاهره، 1 : 120، رقم : 234 8. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 228 9. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 258، رقم : 528 65. عن علیّ رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : أنا و فاطمة و حسن و حسين مجتمعون، و من أحبنا يوم القيامة نأکل و نشرب حتي يفرق بين العباد. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں، فاطمہ، حسن، حسین اور جو ہم سے محبت کرتے ہیں قیامت کے دن ایک ہی مقام پر جمع ہوں گے، ہمارا کھانا پینا بھی اکٹھا ہو گا تاآنکہ لوگ (حساب و کتاب کے بعد) جدا جدا کر دیئے جائیں گے۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 41، رقم : 2623 2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 227 3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 174 66. عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما رفعه : أنا شجرة، و فاطمة حملها، و علی لقاحها، والحسن والحسين ثمرتها، والمحبون أهل البيت ورقها، من الجنة حقاً حقا. ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مرفوعاً حدیث مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں درخت ہوں، فاطمہ اس کی ٹہنی ہے، علی اس کا شگوفہ اور حسن و حسین اس کا پھل ہیں اور اہل بیت سے محبت کرنے والے اس کے پتے ہیں، یہ سب جنت میں ہوں گے، یہ حق ہے حق ہے۔‘‘ 1. ديلمي، الفرودس بمأ ثور الخطاب، 1 : 52، رقم : 135 2. سخاوي، استجلاب ارتقاء الغرف بحب اقرباء الرسول صلي الله عليه وآله وسلم و ذوي الشرف : 99 فصل : 18 قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : اللهم إني أحبهما فأحبهما (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اﷲ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر)67. عن البراء رضي الله عنه قال : أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم أبصر حسنا و حسينا، فقال : اللهم! إني أحبهما فأحبهما. ’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین علیہما السلام کی طرف دیکھ کر فرمایا : اے اﷲ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘ 1. ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 661، ابواب المناقب، رقم : 3782 2. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 3 : 252 3. شوکاني، نيل الاوطار، 6 : 140 ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔ 68. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : اللهم! اني أحبهما فأحبهما. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اﷲ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘ 1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 446، رقم : 9758 2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 775، رقم : 1371 3. ابن ابي شيبة، المصنف، 6 : 378، رقم : 32175 4. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 49، رقم : 6951 5. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 180 69. عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما : أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال للحسن و الحسين : اللهم! اني أحبهما فأحببهما. ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین علیہما السلام کے بارے میں فرمایا : اے اﷲ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘ 1. بزار، المسند، 5 : 217، رقم : 1820 2. بزار نے ’المسند (8 : 253، رقم : 3317)‘ میں اسے ابن قرہ سے بھی روایت کیا ہے۔ 3. ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 180)‘ میں بزار کی بیان کردہ دونوں روایات نقل کی ہیں۔ 4. شوکانی نے بھی ’درالسحابہ فی مناقب القرابۃ والصحابہ (ص : 305، 306)‘ میں بزار کی بیان کردہ دونوں روایات نقل کی ہیں۔ 70. عن أسامة بن زيد رضي اﷲ عنهما قال، قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : اللهم! إني أحبهما فأحبهما و أحب من يحبهما. ’’حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اﷲ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر اور ان سے محبت کرنے والے سے بھی محبت کر۔‘‘ 1. ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 656، ابواب المناقب، رقم : 3769 2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 423، رقم : 6967 3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 39، رقم : 2618 4. مقدسي، الاحاديث المختاره، 4 : 113، رقم : 1324 71. عن عبداﷲ بن عثمان بن خثيم يرويه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم اخذ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوما حسنا و حسينا فجعل هذا علي هذا الفخذ و هذا علي هذا الفخذ، ثم اقبل علي الحسن فقبله ثم اقبل علي الحسين فقلبه ثم قال : اللهم! اني أحبهما فأحبهما. ’’عبداﷲ بن عثمان بن خثیم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن حسنین کریمین علیہما السلام کو پکڑ کر اپنی رانوں پر بٹھایا پھر حسنں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں بوسہ دیا پھر حسینں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں بوسہ دیا، پھر فرمایا : اے اﷲ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘ ابن راشد، الجامع، 11 : 140 72. عن يعلي بن مرة رضي الله عنه أن حسنا و حسينا أقبلا يمشيان إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فلما جاء أحدهما جعل يده في عنقه، ثم جاء الآخر فجعل يده الأخري في عنقه، فقبّل هذا ثم قبّل هذا، ثم قال : اللهم! إني أحبهما فأحبهما. ’’یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حسنین کریمین علیہما السلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چل کر آئے، پس ان میں سے جب ایک پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا بازو اس کے گلے میں ڈالا، پھر دوسرا پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دوسرا بازو اس کے گلے میں ڈالا، بعد ازاں ایک کو چوما اور پھر دوسرے کو چوما اور فرمایا : اے اﷲ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 32، رقم : 2587 2. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 274، رقم : 703 3. قصاعي، مسند الشهاب، 1 : 50، رقم : 26 4. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 3 : 255 73. عن أنس بن مالک رضي الله عنه يقول : سئل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أي أهل بيتک أحب إليک؟ قال : الحسن و الحسين. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : آپ کو اہل بیت میں سے سب سے زیادہ کون محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 657، ابواب المناقب، رقم : 3772 2. ابويعلیٰ، المسند، 7 : 274، رقم : 4294 3. شوکاني، درالسحابه في مناقب القرابه و الصحابه : 301 فصل : 19 من أبغض الحسن و الحسين عليهما السلام فقد أبغضني (جس نے حسنین کریمین علیہما السلام سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا)74. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من أبغضهما فقد أبغضني. ’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا۔‘‘ 1. ابن ماجه، السنن، باب في فضائل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 : 51، رقم : 143 2. نسائي، السنن الکبري، 5 : 49 : رقم : 8168 3. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 288، رقم : 7863 4. طبراني، المعجم الاوسط، 5 : 102، رقم : 4795 5. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 47، رقم : 2645 6. ابويعلي، المسند، 11 : 78، رقم : 6215 7. ابن راهويه، المسند، 1 : 248، رقم : 211 8. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 20، رقم : 65 9. کناني، مصباح الزجاجه، 1 : 21، رقم : 52 10. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 141 75. عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من أبغضهما فقد أبغضني. ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا۔‘‘ ذهبي، سير اعلام النبلاء، 3 : 284 76. عن عبداﷲ بن عباس رضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من أبغضهما فقد أبغضني. ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا۔‘‘ ابن عدي، الکامل، 3 : 434 فصل : 20من أبغض الحسن و الحسين عليهما السلام أبغضه اﷲ (جس نے حسنین علیہما السلام سے بغض رکھا وہ اﷲ کے ہاں مبغوض ہو گیا)77. عن سلمان رضي الله عنه قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : من أبغضهما أبغضني، و من أبغضني أبغضه اﷲ، ومن أبغضه اﷲ أدخله النار. ’’سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے حسن و حسین علیہما السلام سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ سے بغض رکھا وہ اللہ کے ہاں مبغوض ہو گیا اور جو اﷲ کے ہاں مبغوض ہوا، اُسے اللہ نے آگ میں داخل کر دیا۔‘‘ حاکم، المستدرک، 3 : 181، رقم : 4776 78. عن سلمان ص، قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم للحسن و الحسين من أبغضهما أو بغي عليهما أبغضته، ومن أبغضته أبغضه اﷲ، ومن أبغضه اﷲ أدخله عذاب جهنم وله عذاب مقيم. ’’سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن و حسین علیہما السلام کے بارے میں فرمایا : جس نے ان سے بغض رکھا یا ان سے بغاوت کی وہ میرے ہاں مبغوض ہو گیا اور جو میرے ہاں مبغوض ہو گیا وہ اﷲ کے غضب کا شکار ہو گیا اور جو اﷲ کے ہاں غضب یافتہ ہو گیا تو اﷲ تعالیٰ اسے جہنم کے عذاب میں داخل کرے گا (جہاں) اس کے لئے ہمیشہ کا ٹھکانہ ہو گا۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 50، رقم : 2655 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181 3. شوکاني، در السحابه في مناقب القرابه والصحابه : 307 فصل : 21قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : اللهم عاد من عاداهم و وال من والاهم (حضور صلي اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اﷲ! جو ان سے عداوت رکھے تو اس سے عداوت رکھ اور جو ان کو دوست رکھے تو اسے دوست رکھ)79. عن أم سلمة رضي اﷲ عنها قالت : جاء ت فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم متورکة الحسن و الحسين، في يدها برمة للحسن فيها سخين حتي أتت بها النبي صلي الله عليه وآله وسلم فلما وضعتها قدامه، قال لها : أين أبو الحسن؟ قالت : في البيت. فدعاه، فجلس النبي صلي الله عليه وآله وسلم و علي و فاطمة و الحسن و الحسين يأکلون، قالت أم سلمة رضي اﷲ عنها : وما سامني النبي صلي الله عليه وآله وسلم وما أکل طعاما قط إلا و أنا عنده إلا سامنيه قبل ذلک اليوم، تعني سامني دعاني إليه، فلما فرغ التف عليهم بثوبه ثم قال : اللهم عاد من عاداهم و وال من والاهم. ’’اُم المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا بنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کو پہلو میں اٹھائے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ کے ہاتھ میں پتھر کی ہانڈی تھی جس میں حسن کے لئے گرم سالن تھا۔ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے جب اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے لا کے رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : ابوالحسن (علی) کہاں ہے تو سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے جواب دیا : گھر میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بلایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسنین کریمین سلام اﷲ علیہم بیٹھ کر کھانا تناول فرمانے لگے۔ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کہتی ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے نہ بلایا۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہ ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری موجودگی میں کھانا کھایا ہو اور مجھے نہ بلایا ہو۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھانے سے فارغ ہوئے تو ان سب کو اپنے کپڑے میں لے لیا اور فرمایا : اے اﷲ! جو ان سے عداوت رکھے تو اس سے عداوت رکھ اور جو ان کو دوست رکھے تو اسے دوست رکھ۔‘‘ 1. ابويعلیٰ، المسند، 12 : 383، رقم : 6915 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 166 3. حسيني، البيان والتعريف، 1 : 149، رقم : 396 فصل : 22النبي صلي الله عليه وآله وسلم حرب لمن حارب الحسن والحسين عليهما السلام (جس نے حسن و حسین علیہما السلام سے جنگ کی اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان جنگ فرما دیا)80. عن زيد بن أرقم رضي اﷲ عنه، أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال لعلي و فاطمة و الحسن و الحسين رضي اﷲ عنهم : أنا حرب لمن حاربتم، و سلم لمن سالمتم. ’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین سلام اﷲ علیہم سے فرمایا : جس سے تم لڑو گے میری بھی اس سے لڑائی ہو گی، اور جس سے تم صلح کرو گے میری بھی اس سے صلح ہو گی۔‘‘ 1. ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 699، ابواب المناقب، رقم : 3870 2. ابن ماجه، السنن، 1 : 52، رقم : 145 3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 434، رقم : 6977 4. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 378، رقم : 32181 5. حاکم، المستدرک، 3 : 161، رقم : 4714 6. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 40، رقم : 20 - 2619 7. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 184، رقم : 31 - 5030 8. طبراني، المعجم الاوسط، 5 : 182، رقم : 5015 9. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 555، رقم : 2244 10. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ : 62 11. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 2 : 125 12. مزي، تهذيب الکمال، 13 : 112 81. عن زيد بن ارقم رضي الله عنه ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال لفاطمة و الحسن و الحسين : أنا حرب لمن حاربکم و سلم لمن سالمکم. ’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین سلام اﷲ علیہم (تینوں) سے فرمایا : جو تم سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا اور جو تم سے صلح کرے گا میں اس سے صلح کروں گا۔‘‘ 1. ابن حبان، الصحيح، 15 : 434، رقم : 6977 2. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 179، رقم : 2854 3. طبراني، المعجم الصغير، 2 : 53، رقم : 767 4. ہيثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 169)‘ میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے ’الاوسط‘ میں روایت کیا ہے۔ 5. هيثمي، موارد الظمآن : 555، رقم : 2244 6. محاملي، الامالي : 447، رقم : 532 7. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 7 : 220 82. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : نظر النبي صلي الله عليه وآله وسلم إلي علي و فاطمة و الحسن و الحسين، فقال : أنا حرب لمن حاربکم و سلم لمن سالمکم. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیہما السلام کی طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا : جو تم سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا، جو تم سے صلح کرے گا میں اس سے صلح کروں گا (یعنی جو تمہارا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے اور جو تمہارا دوست ہے وہ میرا بھی دوست ہے)۔‘‘ 1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 442 2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 767، رقم : 1350 3. حاکم نے ’المستدرک (3 : 161، رقم : 4713)‘ میں اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے جبکہ ذہبی نے اس میں کوئی جرح نہیں کی۔ 4. طبرانی، المعجم الکبير، 3 : 40، رقم : 2621 5. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 7 : 137 6. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 2 : 122 7. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 3 : 58 - 257 8. ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 169)‘ میں کہا ہے کہ اسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی تلیدبن سلیمان میں اختلاف ہے جبکہ اس کے بقیہ رجال حدیث صحیح کے رجال ہیں۔ 83. عن أبی بکر الصديق رضي الله عنه قال : رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم خيم خيمة و هو متکئ علي قوس عربية و في الخيمة علي و فاطمة والحسن والحسين فقال : معشر المسلمين أنا سلم لمن سالم أهل الخيمة حرب لمن حاربهم ولي لمن والاهم لا يحبهم إلا سعيد الجد طيب المولد ولا يبغضهم إلا شقي الجد ردئ الولادة. ’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خیمہ میں قیام فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عربی کمان پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اور خیمہ میں علی، فاطمہ، حسن اور حسین بھی موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے مسلمانوں کی جماعت جو اہل خیمہ سے صلح کرے گا میری بھی اس سے صلح ہو گی جو ان سے لڑے گا میری بھی اس سے لڑائی ہو گی۔ جو ان کو دوست رکھے گا میری بھی اس سے دوستی ہو گی، ان سے صرف خوش نصیب اور برکت والا ہی دوستی رکھتا ہے اور ان سے صرف بدنصیب اور بدبخت ہی بغض رکھتا ہے۔‘‘ محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشره، 3 : 154 فصل : 23قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : بأبي و أمي أنتما (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے ماں باپ آپ پر قربان)84. عن سلمان رضي الله عنه قال : کنا حول النبي صلي الله عليه وآله وسلم فجاء ت ام ايمن فقالت : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! لقد ضل الحسن و الحسين، قال : و ذلک راد النهار يقول ارتفاع النهار. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’قوموا فاطلبوا ابني.‘‘ قال : و اخذ کل رجل تجاه وجهه و اخذت نحو النبي صلي الله عليه وآله وسلم فلم يزل حتي اتي سفح جبل و إذا الحسن و الحسين ملتزق کل واحد منهما صاحبه، و إذا شجاع قائم علي ذنبه يخرج من فيه شه النار، فاسرع اليه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فالتفت مخاطبا لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، ثم انساب فدخل بعض الأحجرة، ثم اتاهما فافرق بينهما و مسح وجههما و قال : بأبي و أمي أنتما ما أکرمکما علي اﷲ. ’’سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے۔ ام ایمن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا : حسن و حسین علیہما السلام گم ہو گئے ہیں۔ راوی کہتے ہیں دن خوب نکلا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چلو میرے بیٹوں کو تلاش کرو، راوی کہتا ہے ہر ایک نے اپنا اپنا راستہ لیا اور میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چل پڑا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل چلتے رہے حتی کہ پہاڑ کے دامن تک پہنچ گئے (دیکھا کہ) حسن و حسین علیہما السلام ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں اور ایک اژدھا اپنی دم پر کھڑا ہے اور اس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف تیزی سے بڑھے تو وہ اژدھا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر سکڑ گیا پھر کھسک کر پتھروں میں چھپ گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کے پاس تشریف لائے اور دونوں کو الگ الگ کیا اور ان کے چہروں کو پونچھا اور فرمایا : میرے ماں باپ تم پر قربان، تم اﷲ کے ہاں کتنی عزت والے ہو۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 65، رقم : 2677 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 182 3. شوکاني، درالسحابه في مناقب القرابة والصحابه : 309 85. عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يصلي و الحسن و الحسين علي ظهره، فباعدهما الناس، و قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم دعوهما بأبي هما و أمي. ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا کر رہے تھے تو حسن و حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے۔ لوگوں نے ان کو منع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کو چھوڑ دو، ان پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 47، رقم : 2644 2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 426، رقم : 6970 3. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 378، رقم : 32174 4. هيثمي، مواردالظمآن، 1 : 552، رقم : 2233 فصل : 24 فزع النبي صلي الله عليه وآله وسلم ببکاء الحسن والحسين عليهما السلام (حسنین کریمین علیہما السلام کے رونے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پریشان ہو گئے)86. عن يحيي بن أبي کثير : أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم سمع بکاء الحسن و الحسين، فقام فزعا، فقال : إن الولد لفتنة لقد قمت إليهما و ما أعقل. ’’یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن و حسین علیہما السلام کے رونے کی آواز سنی تو پریشان ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا : بے شک اولاد آزمائش ہے، میں ان کے لئے بغیر غور کئے کھڑا ہو گیا ہوں۔‘‘ ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 379، رقم : 32186 87. عن يزيد بن أبي زياد قال : خرج النبي صلي الله عليه وآله وسلم من بيت عائشة فمر علي فاطمة فسمع حسينا يبکي، فقال : ألم تعلمي أن بکاء ه يؤذيني. ’’یزید بن ابو زیاد سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے گھر سے باہر تشریف لائے اور سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے گھر کے پاس سے گزرے تو حسینں کو روتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا تجھے معلوم نہیں کہ اس کا رونا مجھے تکلیف دیتا ہے۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 116، رقم : 2847 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 201 3. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 3 : 284 فصل : 25 نزل النبی صلی الله عليه وآله وسلم من المنبر للحسن و الحسين عليهما السلام (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کی خاطر اپنے منبر شریف سے نیچے اتر آئے)88. عن أبي بريدة رضي الله عنه يقول : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يخطبنا إذ جاء الحسن و الحسين عليهما السلام، عليهما قميصان أحمران يمشيان و يعثران، فنزل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من المنبر فحملهما و وضعهما بين يديه، ثم قال : صدق اﷲ : (إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَ أَوْلَادُکُمْ فِتْنةٌ) فنظرت إلي هذين الصبيين يمشيان و يعثران، فلم أصبر حتي قطعت حديثي و رفعتهما۔ ’’حضرت ابوبریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، اتنے میں حسنین کریمین علیہما السلام تشریف لائے، انہوں نے سرخ رنگ کی قمیصیں پہنی ہوئی تھیں اور وہ (صغرسنی کی وجہ سے) لڑکھڑا کر چل رہے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (انہیں دیکھ کر) منبر سے نیچے تشریف لے آئے، دونوں (شہزادوں) کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا : اﷲ تعالیٰ کا ارشاد سچ ہے : (بیشک تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہی ہیں۔ ) میں نے ان بچوں کو لڑکھڑا کر چلتے دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا حتی کہ میں نے اپنی بات کاٹ کر انہیں اٹھا لیا۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 658، ابواب المناقب، رقم : 3774 2. نسائي، السنن، 3 : 192، کتاب صلاة العيدين، رقم : 1885 3. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 345 4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 770، رقم : 1358 5. ابن حبان، الصحيح، 13 : 403، رقم : 6039 6. بيهقي، السنن الکبري، 3 : 218، رقم : 5610 7. هيثمي، مواردالظمآن، 1 : 552، رقم : 2230 8. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 18 : 143 9. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4 : 377 10. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 403 11. ابن جوزي، التحقيق، 1 : 505، رقم : 805 فصل : 26 الحسن والحسين عليهما السلام کانا يمصّان لسان النبي صلي الله عليه وآله وسلم (حسنین کریمین علیہما السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک چوستے تھے)89. عن أبي هريرة رضي الله عنه فقال : أشهد لخرجنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حتي إذا کنا ببعض الطريق سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم صوت الحسن و الحسين، و هما يبکيان و هما مع أمهما، فأسرع السير حتي أتاهما، فسمعته يقول لها : ما شأن ابني؟ فقالت : العطش قال : فاخلف رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الي شنة يبتغي فيها ماء، و کان الماء يومئذ أغدارا، و الناس يريدون الماء، فنادي : هل أحد منکم معه مائ؟ فلم يبق أحد الا أخلف بيده الي کلابه يبتغي الماء في شنة، فلم يجد أحد منهم قطرة، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ناوليني أحدهما، فناولته اياه من تحت الخدر، فأخذه فضمه الي صدره و هو يطغو ما يکست، فأدلع له لسانه فجعل يمصه حتي هدأ أو سکن، فلم أسمع له بکاء، و الآخر يبکي کما هو ما يسکت فقال : ناوليني الآخر، فناولته اياه ففعل به کذلک، فسکتا فما أسمع لهما صوتا۔ ’’حضرت ابو ہريرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ (سفر میں) نکلے، ابھی ہم راستے میں ہی تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن و حسین علیہما السلام کی آواز سنی دونوں رو رہے تھے اور دونوں اپنی والدہ ماجدہ (سیدہ فاطمہ) کے پاس ہی تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے پاس تیزی سے پہنچے۔ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا سے یہ فرماتے ہوئے سنا : میرے بیٹوں کو کیا ہوا؟ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے بتایا انہیں سخت پیاس لگی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی لینے کے لئے مشکیزے کی طرف بڑھے۔ ان دنوں پانی کی سخت قلت تھی اور لوگوں کو پانی کی شدید ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو آواز دی : کیا کسی کے پاس پانی ہے؟ ہر ایک نے کجاؤوں سے لٹکتے ہوئے مشکیزوں میں پانی دیکھا مگر ان کو قطرہ تک نہ ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا سے فرمایا : ایک بچہ مجھے دیں اُنہوں نے ایک کو پردے کے نیچے سے دے دیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا مگر وہ سخت پیاس کی وجہ سے مسلسل رو رہا تھا اور خاموش نہیں ہو رہا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کے منہ میں اپنی زبان مبارک ڈال دی وہ اُسے چوسنے لگا حتی کہ سیرابی کی وجہ سے سکون میں آ گیا میں نے دوبارہ اُس کے رونے کی آواز نہ سنی، جب کہ دوسرا بھی اُسی طرح (مسلسل رو رہا تھا) پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دوسرا بھی مجھے دے دیں تو سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے دوسرے کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کر دیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بھی وہی معاملہ کیا (یعنی زبان مبارک اس کے منہ میں ڈالی) سو وہ دونوں ایسے خاموش ہوئے کہ میں نے دوبارہ اُن کے رونے کی آواز نہ سنی۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 50، رقم : 2656 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181 ہیثمی نے اس کے راوۃ ثقہ قرار دیئے ہیں۔ 3. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 231 4. ابن عساکر، تاريخِ دمشق، 13 : 221 5. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 298 6. شوکاني، در السحابه في مناقب القرابه و الصحابه : 306 7. سيوطي، الخصائص الکبریٰ، 1 : 106 فصل : 27 الحسن والحسين عليهما السلام کانا يلعبان علي بطن النبي صلي الله عليه وآله وسلم (حسنین کریمین علیہما السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکم مبارک پر کھیلتے تھے)90. عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه قال : دخلت علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم والحسن والحسين يلعبان علي بطنه، فقلت : يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ! أتحبهما؟ فقال : و مالي لا أحبهما و هما ريحانتاي. ’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو (دیکھا کہ) حسن اور حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکم مبارک پر کھیل رہے تھے، تو میں نے عرض کی : یا رسول اﷲ! کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ان سے محبت کیوں نہ کروں حالانکہ وہ دونوں میرے پھول ہیں۔‘‘ 1. بزار، المسند، 3 : 287، رقم : 1079 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181 3. شوکاني، درالسحابه : 307 ہیثمی نے اس کے رواۃ صحیح قرار دیئے ہیں۔ 91. عن انس بن مالک رضي الله عنه قال : دخلت أو ربما دخلت علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم والحسن والحسين يتقلبان علي بطنه، قال : و يقول : ريحانتي من هذه الأمة. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوتا یا (فرمایا) اکثر اوقات حاضر ہوتا (اور دیکھتا کہ) حسن و حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکم مبارک پر لوٹ پوٹ ہو رہے ہوتے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہوتے : یہ دونوں ہی تو میری امت کے پھول ہیں۔‘‘ 1. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 49، رقم : 8167 2. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 150، رقم : 8529 فصل : 28رکب الحسن والحسين عليهما السلام علي ظهر النبي صلي الله عليه وآله وسلم خلال الصلوة (حسنین کریمین علیہما السلام دورانِ نماز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے )92. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : کنا نصلي مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم العشاء، فإذا سجد وثب الحسن و الحسين علي ظهره، فإذا رفع رأسه أخذهما بيده من خلفه اخذاً رفيقا و يضعهما علي الأرض، فإذا عاد، عادا حتي قضي صلاته، أقعدهما علي فخذيه. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نماز عشاء ادا کر رہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں گئے تو حسن اور حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدے سے سر اٹھایا تو ان دونوں کو اپنے پیچھے سے نرمی کے ساتھ پکڑ کر زمین پر بٹھا دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ سجدے میں گئے تو شہزادگان نے دوبارہ ایسے ہی کیا (یہ سلسلہ چلتا رہا) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز مکمل کر لی اس کے بعد دونوں کو اپنی مبارک رانوں پر بٹھا لیا۔‘‘ 1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 513، رقم : 10669 2. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 51، رقم : 2659 3. حاکم، المستدرک، 3 : 183، رقم : 4782 4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181 5. ابن عدي، الکامل، 6 : 81، رقم : 1615 6. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 3 : 256 7. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 258 8. شوکاني، نيل الاوطار، 2 : 124 9. سيوطي، الخصائص الکبري، 2 : 136 10. ابن کثير، البدايه والنهايه، 6 : 152 93. عن زر بن جيش رضي الله عنه قال : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ذات يوم يصلي بالناس فأقبل الحسن و الحسين عليهما السلام و هما غلامان، فجعلا يتوثبان علي ظهره إذا سجد فأقبل الناس عليهما ينحيانهما عن ذلک، قال : دعوهما بأبي و أمي. ’’زر بن جیش رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ حسنین کریمین علیہما السلام جو اس وقت بچے تھے آئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں گئے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہونے لگے، لوگ انہیں روکنے کے لئے آگے بڑھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے ماں باپ ان پر قربان ہوں! انہیں چھوڑ دو۔ ۔ ۔ یعنی سوار ہونے دو۔‘‘ بيهقي، السنن الکبریٰ، 2 : 263، رقم : 3237 94. عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يصلي فإذا سجد وثب الحسن و الحسين علي ظهره، فإذا أرادوا أن يمنعوهما أشار إليهم أن دعوهما، فلما صلي وضعهما في حجره. ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے، جب سجدے میں گئے تو حسنین کریمین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، جب لوگوں نے انہیں روکنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو اشارہ فرمایا کہ انہیں چھوڑ دو. یعنی سوار ہونے دو، پھر جب نماز ادا فرما چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کو اپنی گود میں لے لیا۔‘‘ 1. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 50، رقم : 8170 2. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 2 : 71 3. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 122 عن البراء بن عازب رضي الله عنه قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يصلي فجاء الحسن و الحسين عليهما السلام (أو أحدهما)، فرکب علي ظهره فکان إذا سجد رفع رأسه أخذ بيده فأمسکه أو أمسکهما، ثم قال : نعم المطية مطيتکما۔ ’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھاتے تو حسن و حسین علیہما السلام دونوں میں سے کوئی ایک آکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو جاتا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں ہوتے، سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے اگر ایک ہوتا تو اس کو یا دونوں ہوتے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو تھام لیتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : تم دو سواروں کے لئے کتنی اچھی سواری ہے۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الاوسط، 4 : 205، رقم : 3987 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 182 96. عن أنس بن مالک رضي الله عنه قال : کتب النبي صلي الله عليه وآله وسلم لرجل عهدا فدخل الرجل يسلم علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يصلي، فرأي الحسن والحسين يرکبان علي عنقه مرة و يرکبان علي ظهره مرة و يمران بين يديه و من خلفه، فلما فرغ الصلاة قال له الرجل : ما يقطعان الصلاة؟ فغضب النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقال : ناولني عهدک. فأخذه فمزقه، ثم قال : من لم يرحم صغيرنا و لم يؤقر کبيرنا فليس مناولا أنا منه. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص کو عہدنامہ لکھ کر دیا تو اس شخص نے حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حالت نماز میں سلام عرض کیا، پھر اس نے دیکھا کہ حسن اور حسین علیہما السلام کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک اور کبھی پشت مبارک پر سوار ہوتے ہیں اور حالت نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے پیچھے سے گزر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس شخص نے کہا : کیا وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز نہیں توڑتے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلال میں آ کر فرمایا : مجھے اپنا عہد نامہ دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے لے کر پھاڑ دیا اور فرمایا : جو ہمارے چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کا ادب نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں اور نہ ہی میں اس سے ہوں۔‘‘ محب طبري، ذخائر العقبیٰ، 1 : 132 97. عن بن عباس رضي اﷲ عنهما قال : صلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم صلاة العصر، فلما کان في الرابعة أقبل الحسن والحسين حتي رکبا علي ظهر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فلما سلم وضعهما بين يديه و أقبل الحسن فحمل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الحسن علي عاتقه الأيمن والحسين علي عاتقه الأيسر. ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضي اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ عصر ادا کی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چوتھی رکعت میں تھے تو حسن و حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہوگئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام پھیرا تو ان دونوں کو اپنے سامنے بٹھا لیا حسن رضی اللہ عنہ کے آگے آنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے دائیں کندھے پر اور حسین رضی اللہ عنہ کو بائیں کندھے پر اُٹھا لیا۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 298، رقم : 6462 2. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 66، رقم : 2682 3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 184 فصل : 29 قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم للحسنين : نعم الراکبان هما (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السلام سے فرمانا : یہ دونوں کیسے اچھے سوار ہیں)98. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : خرج علينا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و معه حسن و حسين هذا علي عاتقه و هذا علي عاتقه. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک کندھے پر حسنں اور دوسرے کندھے پر حسینں سوار تھے۔‘‘ 1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 440، رقم : 9671 2. حاکم، المستدرک، 3 : 182، رقم : 4777 حاکم اس کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔ 3. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 777، رقم : 1376 4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 179 5. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 228 6. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 2 : 71 7. مناوي، فيض القدير، 6 : 32 ہیثمی نے اس کے رواۃ کو ثقہ قرار دیا ہے۔ 99. عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال : رأيت الحسن والحسين عليهما السلام علي عاتقي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فقلت : نعم الفرس تحتکما۔ قال : و نعم الفارسان هما۔ ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حسن و حسین علیہما السلام کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر (سوار) دیکھا تو حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ آپ کے نیچے کتنی اچھی سواری ہے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا : ذرا یہ بھی تو دیکھو کہ سوار کتنے اچھے ہیں۔‘‘ 1.بزار، المسند، 1 : 418 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181 ہيثمی نے ابو یعلیٰ کی بیان کردہ روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ 3. حسيني، البيان والتعريف، 2 : 263، رقم : 1672 4. شوکاني، در السحابه في مناقب القرابة و الصحابه : 308 5. ابن عدي، الکامل، 2 : 362 100. عن سلمان رضي الله عنه قال : کنا حول النبي صلي الله عليه وآله وسلم فجاء ت أم أيمن فقالت : يا رسول اﷲ لقد ضل الحسن و الحسين عليهما السلام قال : و ذلک راد النهار يقول ارتفاع النهار. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : قوموا فاطلبوا ابني. قال : و أخذ کل رجل تجاه وجهه و أخذت نحو النبي صلي الله عليه وآله وسلم فلم يزل حتي أتي سفح جبل و اذا الحسن والحسين عليهما السلام ملتزق کل واحد منهما صاحبه و اذا شجاع قائم علي ذنبه يخرج من فيه شه النار، فأسرع اليه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فالتفت مخاطبا لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ثم انساب فدخل بعض الأحجرة ثم أتاهما فأفرق بينهما و مسح و جههما و قال : بأبي و أمي أنتما ما أکرمکما علي اﷲ ثم حمل أحدهما علي عاتقه الأيمن والآخر علي عاتقه الأيسر فقلت : طوباکما نعم المطية مطيتکما فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : و نعم الراکبان هما۔ ’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے۔ ام ایمن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا حسن و حسین علیہما السلام گم ہو گئے ہیں راوی کہتے ہیں، دن خوب نکلا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چلو میرے بیٹوں کو تلاش کرو، راوی کہتا ہے ہر ایک نے اپنا راستہ لیا اور میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چل پڑا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل چلتے رہے حتیٰ کہ پہاڑ کے دامن تک پہنچ گئے۔ (دیکھا کہ) حسن و حسین علیہما السلام ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے ہوئے کھڑے ہیں اور ایک اژدھا اپنی دم پر کھڑا ہے اور اُس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کی طرف تیزی سے بڑھے تو وہ اژدھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر سکڑ گیا پھر کھسک کر پتھروں میں چھپ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان (حسنین کریمین علیہما السلام) کے پاس تشریف لائے اور دونوں کو الگ الگ کیا اور اُن کے چہروں کو پونچھا اور فرمایا : میرے ماں باپ تم پر قربان، تم اللہ کے ہاں کتنی عزت والے ہو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں سے ایک کو اپنے دائیں کندھے پر اور دوسرے کو بائیں کندھے پر اُٹھا لیا۔ میں نے عرض کیا : تمہاری سواری کتنی خوب ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بھی تو دیکھو کہ دونوں سوار کتنے خوب ہیں۔‘‘ 1.طبراني، المعجم الکبير، 3 : 65، رقم : 2677 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 182 3.شوکاني، در السحابه في مناقب القرابة والصحابه : 309 101. عن أبي جعفرص قال : مر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بالحسن و الحسين عليهما السلام و هو حاملهما علي مجلس من مجالس الأنصار، فقالوا : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! نعمت المطية قال : و نعم الراکبان. ’’حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کو اٹھائے ہوئے انصار کی ایک مجلس سے گزرے تو انہوں نے کہا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کیا خوب سواری ہے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سوار بھی کیا خوب ہیں۔‘‘ ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 380، رقم : 32185 102. عن جابر رضي الله عنه قال دخلت علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم و هو يمشي علي أربعة، و علي ظهره الحسن و الحسين عليهما السلام، و هو يقول : نعم الجمل جملکما، و نعم العدلان أنتما۔ ’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضي اﷲ عنہما بيان کرتے ہيں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چار (دو ٹانگوں اور دونوں ہاتھوں کے بل) پر چل رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر حسنین کریمین علیہما السلام سوار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : تمہارا اونٹ کیا خوب ہے اور تم دونوں کیا خوب سوار ہو۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 52، رقم : 2661 2. صيداوي، معجم الشيوخ، 1 : 266، رقم : 227 3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 182 4. رامهرمزي، امثال الحديث : 128 رقم : 98 5. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 3 : 256 6. قزويني، التدوين في اخبار قزوين، 2 : 109 7. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 132 103. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : وقف رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم علي بيت فاطمة فسلم، فخرج إليه الحسن و الحسين عليهما السلام، فقال له رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ارق بأبيک أنت عين بقة و أخذ بأصبعيه فرقي علي عاتقه، ثم خرج الآخر الحسن او الحسين مرتفعة احدي عينيه، فقال له رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : مرحبا بک ارق بأبيک أنت عين البقة و أخذ بأصبعيه فاستوي علي عاتقه الآخر. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے گھر کے سامنے رکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمۃ الزھراء کو سلام کیا۔ اتنے میں حسنین کریمین علیہما السلام میں سے ایک شہزادہ گھر سے باہر آ گیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اپنے باپ کے کندھے پر سوار ہو جا تو (میری) آنکھ کا تارا ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ہاتھ سے پکڑا پس وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش مبارک پر سوار ہو گئے۔ پھر دوسرا شہزادہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف تکتا ہوا باہر آگیا تو اسے بھی فرمایا : خوش آمدید، اپنے باپ کے کندھے پر سوار ہو جا تو (میری) آنکھ کا تارا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنی انگلیوں کے ساتھ پکڑا پس وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے دوش مبارک پر سوار ہو گئے۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 49، رقم : 2652 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 180 فصل : 30 کان يُطيل النبي صلي الله عليه وآله وسلم السجود للحسن و الحسين عليهما السلام (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کی خاطر سجدوں کو لمبا کر لیتے تھے)104. عن أنس رضي الله عنه قال : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يسجد فيجئ الحسن أو الحسين فيرکب علي ظهره فيطيل السجود. فيقال : يا نبي اﷲ! أطلت السجود، فيقول : ارتحلني ابني فکرهت أن أعجله. ’’حضرت انس بن مالک رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں ہوتے تو حسن یا حسین علیہما السلام آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمر مبارک پر سوار ہو جاتے جس کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدوں کو لمبا کر لیتے۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا : اے اﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا آپ نے سجدوں کو لمبا کر دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لئے (سجدے سے اُٹھنے میں) جلدی کرنا اچھا نہ لگا۔‘‘ 1. ابو يعلیٰ، المسند، 6 : 150، رقم : 3428 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181 105. عن عبداﷲ بن شداد عن أبيه قال : خرج علينا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في احدي صلاتي العشاء و هو حامل حسناً أو حسيناً فتقدم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فوضعه ثم کبر للصلاة فصلي، فسجد بين ظهراني صلاته سجدة أطالها۔ قال أبي : فرفعت رأسي و اذا الصبي علي ظهر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهو ساجد فرجعت الي سجودي، فلما قضي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الصلاة، قال الناس : يا رسول اﷲ انک سجدت بين ظهراني صلاتک سجدة أطلتها حتي ظننا أنه قد حدث أمر أو أنه يوحي إِليک. قال : ذلک لم يکن ولکن ابني ارتحلني فکرهت أن أعجله حتي يقضي حاجته. عبداﷲ بن شداد اپنے والد حضرت شداد بن ھاد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز ادا کرنے کے لئے ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن یا حسین علیہما السلام (میں سے کسی ایک شہزادے) کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف لا کر اُنہیں زمین پر بٹھا دیا پھر نماز کے لئے تکبیر فرمائی اور نماز پڑھنا شروع کر دی، نماز کے دوران حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طویل سجدہ کیا۔ شداد نے کہا : میں نے سر اُٹھا کر دیکھا کہ شہزادے سجدے کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہیں۔ میں پھر سجدہ میں چلا گیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما چکے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ نے نماز میں اتنا سجدہ طویل کیا۔ یہانتک کہ ہم نے گمان کیا کہ کوئی امرِ اِلٰہی واقع ہو گیا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایسی کوئی بات نہ تھی مگر یہ کہ مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لئے (سجدے سے اُٹھنے میں) جلدی کرنا اچھا نہ لگا جب تک کہ اس کی خواہش پوری نہ ہو۔ 1. نسائي، السنن، 2 : 229، کتاب التطبيق، رقم : 1141 2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 493 3. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 380، رقم : 32191 4. طبراني، المعجم الکبير، 7 : 270، رقم : 7107 5. شيباني، الآحاد والمثاني، 2 : 188، رقم : 934 6. بيهقي، السنن الکبري، 2 : 263، رقم : 3236 7. حاکم، المستدرک، 3 : 181، رقم : 4775 8. ابن موسي، معتصر المختصر، 1 : 102 9. ابن حزم، المحلي، 3 : 90 10. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 299 فصل : 31 کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يضمّ الحسن والحسين عليهما السلام إليه تحت ثوبه (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں شہزادوں کو چادر کے اندر اپنے جسم اطہر سے چمٹا لیتے تھے)106. عن أسامة بن زيد رضي اﷲ عنهما قال : طرقت النبي صلي الله عليه وآله وسلم ذات ليلة في بعض الحاجة فخرج النبي صلي الله عليه وآله وسلم وهو مشتمل علي شئ لا أدري ما هو فلما فرغت ما حاجتي قلت : ما هذا الذي أنت مشتمل عليه؟ فکشفه فإذا حسن و حسين علي و رکيه فقال : هذان أبناي. ’’حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا : میں ایک رات کسی کام کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شے کو اپنے جسم سے چمٹائے ہوئے تھے جسے میں نہ جان سکا جب میں اپنے کام سے فارغ ہوا تو عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے کیا چیز اپنے جسم سے چمٹا رکھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کپڑا ہٹایا تو دیکھا کہ حسن و حسین علیہما السلام دونوں رانوں تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چمٹے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ میرے دونوں بیٹے ہیں۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 656، ابواب المناقب، رقم : 3769 2. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 149، رقم : 8524 3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 423، رقم : 6967 4. بزار، المسند، 7 : 31، رقم : 2580 5. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 378، رقم : 32182 6. مقدسي، الاحاديث المختارة، 4 : 94، رقم : 1307 7. هيثمي، مواردالظمآن، 1 : 552، رقم : 2234 8. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه، 2 : 404 107. عن أنس بن مالک رضي الله عنه يقول : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول لفاطمة : أدعي أبني فيشمهما و يضمهما إليه. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا سے فرمایا کرتے : میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ پھر آپ ان دونوں (پھولوں) کو سونگھتے اور اپنے سینۂ اقدس کے ساتھ چپکا لیتے۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 657، ابواب المناقب، رقم : 3772 2. ابويعلیٰ، المسند، 7 : 274، رقم : 4294 3. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 121 فصل : 32 أوّل من يدخل الجنة مع النبي صلي الله عليه وآله وسلم هو الحسن والحسين عليهما السلام (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جو جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے وہ حسنین کریمین علیہما السلام ہیں)108. عن علي رضي الله عنه قال : أخبرني رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ان أول من يدخل الجنة أنا و فاطمة و الحسن و الحسين. قلت : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! فمحبونا؟ قال : من ورائکم. ’’حضرت علي رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا کہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں، میں (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ خود)، فاطمہ، حسن اور حسین ہیں۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! ہم سے محبت کرنے والے کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے پیچھے۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 164، رقم : 4723 2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 14 : 173 3. هندي، کنز العمال، 12 : 98، رقم : 34166 4. ابن حجر مکی نے ’الصواعق المحرقہ (2 : 448)‘ میں کہا ہے کہ اسے ابن سعد نے بھی روایت کیا ہے۔ 5. محب طبری، ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذوی القربیٰ 1 : 123 109. عن علیّ بن أبي طالب رضي الله عنه قال : شکوت الي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حسد الناس اياي، فقال : أما ترضي أن تکون رابع أربعة أول من يدخل الجنة : أنا و أنت و الحسن و الحسين. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی کہ لوگ مجھ سے حسد کرتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چار مردوں میں چوتھے تم ہو (وہ چار) میں، تم، حسن اور حسین ہیں۔‘‘ 1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 624 2. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 319، رقم : 950 3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 41، 2624 4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 131، 174 5. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 16 : 22 6. محب طبري، ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذوی القربیٰ، 1 : 90 7. ابن حجر مکی، الصواعق المحرقه، 2 : 466 فصل : 33 تزيين اﷲ عزوجل الجنة بالحسن و الحسين عليهما السلام (اﷲ تعالیٰ کاحسنین کریمین علیہما السلام کی موجودگی کے ذریعے جنت کو آراستہ کرنا)110. عن عقبة بن عامررضي الله عنه، أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : الحسن و الحسين شنفا العرش و ليسا بمعلقين، و إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : إذا استقر أهل الجنة في الجنة، قالت الجنة : يا رب! وعدتني أن تزينني برکنين من أرکانک! قال : أولم أزينک بالحسن و الحسين؟ ’’عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین عرش کے دو ستون ہیں لیکن وہ لٹکے ہوئے نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب اہل جنت، جنت میں مقیم ہو جائیں گے تو جنت عرض کرے گی : اے پروردگار! تو نے مجھے اپنے ستونوں میں سے دو ستونوں سے مزین کرنے کا وعدہ فرمایا تھا۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں نے تجھے حسن اور حسین کی موجودگی کے ذریعے مزین نہیں کر دیا؟ (یہی تو میرے دو ستون ہیں)۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 108، رقم : 337 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 184 3. ذهبي، ميزان الاعتدال، 1 : 278 4. عسقلاني، لسان الميزان، 1 : 257، رقم : 804 5. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 2 : 239، رقم : 697 6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 228 7. مناوي، فيض القدير، 3 : 415 8. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه، 2 : 562 111. عن أنس رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : فخرت الجنة علي النار فقالت : أنا خير منک، فقالت النار : بل أنا خير منک، فقالت لها الجنة إستفهاما : و ممه؟ قالت : لأن في الجبابرة و نمرود و فرعون فأسکتت، فأوحي اﷲ اليها : لا تخضعين، لأزينن رکنيک بالحسن و الحسين، فماست کما تميس العروس في خدرها. ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک مرتبہ جنت نے دوزخ پر فخر کیا اور کہا میں تم سے بہتر ہوں، دوزخ نے کہا : میں تم سے بہتر ہوں۔ جنت نے دوزخ سے پوچھا کس وجہ سے؟ دوزخ نے کہا : اس لئے کہ مجھ میں بڑے بڑے جابر حکمران فرعون اور نمرود ہیں۔ اس پر جنت خاموش ہو گئی، اﷲ تعالیٰ نے جنت کی طرف وحی کی اور فرمایا : تو عاجز و لاجواب نہ ہو، میں تیرے دو ستونوں کو حسن اور حسین کے ذریعے مزین کر دوں گا۔ پس جنت خوشی اور سرور سے ایسے شرما گئی جیسے دلہن شرماتی ہے۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 148، رقم : 7120 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 184 اس حديث کے ایک راوی ’’عباد بن صہیب‘‘ پر بعض محدثین نے کلام کیا ہے مگر امام احمد بن حنبل، ابوداؤد، عبدان اھوازی نے اس کو صادق قرار دیا اور یحییٰ بن معین نے ابو عاصم النبیل سے اس کی روایت ثابت کی ہے۔ 1. ابن شاهين، تاريخ اسماء الثقات، 1 : 171 2. ذهبي، المغني في الضعفاء، 1 : 326 3. ابن عدي، الکامل، 4 : 347 112. عن العباس بن زريع الأزدي عن أبيه مرفوعا، قال : قالت الجنة : يا رب! حسنتني فحسن أرکاني، قال : قد حسنت أرکانک بالحسن و الحسين. ’’حضرت عباس بن زریع ازدی اپنے والد سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ جنت نے (اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں) عرض کیا : اے میرے پروردگار! تو نے مجھے حسین و جمیل بنایا ہے تو میرے ستونوں کو بھی حسین بنا۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے تیرے ستونوں کوحسن اور حسین علیہما السلام کے ذریعے حسین و جمیل بنا دیا ہے۔‘‘ 1. عسقلاني، لسان الميزان، 6 : 241، رقم : 848 2. ذهبي، ميزان الاعتدال، 7 : 157، رقم : 9458 3. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 1 : 287 فصل : 34يکون الحسن و الحسين عليهما السلام في قبة تحت العرش يوم القيامة (حسنین کریمین علیہما السلام قیامت کے دن عرش الہٰی کے گنبد کے نیچے ہوں گے)113. عن أبي موسي الأشعري رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أنا و علیّ و فاطمة و الحسن و الحسين يوم القيامة في قبة تحت العرش. ’’حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں، علی، فاطمہ، حسن اور حسین قیامت کے دن عرش کے گنبد کے نیچے ہوں گے۔‘‘ 1. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 174 2. هندي، کنز العمال، 12 : 100، رقم : 34177 3. عسقلاني، لسان الميزان، 2 : 94 4. زرقاني، شرح الموطا، 4 : 443 114. عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : إن فاطمة و عليا و الحسن و الحسين في حظيرة القدس في قبة بيضاء سقفها عرش الرحمن. ’’حضرت عمر بن خطاب رضي اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک فاطمہ، علی، حسن اور حسین جنت الفردوس میں سفید گنبد میں مقیم ہوں گے جس کی چھت عرش خداوندی ہو گا۔‘‘ 1. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 14 : 61 2. هندي، کنز العمال، 12 : 98، رقم : 34167 115. عن علیّ رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : في الجنة درجة تدعي الوسلية؟ فإذا سألتم اﷲ فسلوا لي الوسيلة؟ قالوا : يا رسول اﷲ! من يسکن معک؟ قال : علي و فاطمة و الحسن و الحسين. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جنت میں ایک مقام ہے جسے وسیلہ کہتے ہیں، پس جب تم اﷲ سے سوال کرو تو میرے لئے وسیلہ کا سوال کیا کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک و آلک وسلم! (وہاں) آپ کے ساتھ کون رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی، فاطمہ اور حسین و حسین (وہاں پر میرے ساتھ رہیں گے)۔‘‘ 1. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 45 2. هندي، کنز العمال، 12 : 103، رقم : 34195 فصل : 35يکون الحسن و الحسين عليهما السلام مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم القيامة (حسنین کریمین علیہما السلام قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہیں گے)116. عن علي رضي الله عنه قال : دخل علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و انا نائم علي المنامة فاستسقي الحسن او الحسين قال فقام النبي صلي الله عليه وآله وسلم الي شاة لنا بکي فحلبها فدرت فجاء ه الحسن فنحاه النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقالت فاطمة : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! کانه احبهما اليک قال : لا ولکنه استسقي قبله، ثم قال : إني و اياک و هذين و هذا الراقد في مکان واحد يوم القيامة. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں اپنے بستر پر سویا ہوا تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے حسن یا حسین علیہما السلام (میں سے کسی ایک) نے پانی مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری بکری کے پاس آئے جو بہت کم دودھ والی تھی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا دودھ نکالا تو اس نے بہت زیادہ دودھ دیا، پس حسنں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے فرمایا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لگتا ہے یہ آپ کو ان دونوں میں زیادہ پیارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ اس نے پہلے پانی مانگا تھا پھر فرمایا : میں، آپ، یہ دونوں اور یہ سونے والا (حضرت علی رضی اللہ عنہ کیونکہ وہ ابھی سو کر اٹھے ہی تھے) قیامت کے دن ایک ہی جگہ پر ہوں گے۔‘‘ 1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 101، رقم : 792 2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 228 3. شيباني، السنة، 2 : 598، رقم : 1322 4. بزار، المسند، 3 : 30، رقم : 779 5. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 170 6. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 692، رقم : 1183 7. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 25 117. عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم دخل علي فاطمة رضي اﷲ عنها فقال : أني و اياک و هذا النائم. . . يعني عليا. . . و هما. . . يعني الحسن و الحسين. . . لفي مکان واحد يوم القيامة. ’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے گھر تشریف لائے اور فرمایا : میں، تم اور یہ سونے والا (یعنی علی وہ ابھی سو کر اٹھے ہی تھے) اور یہ دونوں یعنی حسن اور حسین علیہما السلام قیامت کے دن ایک ہی جگہ ہوں گے۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 147، رقم : 4664 2. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 405، رقم : 1016 3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 171 حاکم نے اس روايت کي اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔ 118. عن أبي فاختة رضي الله عنه قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم و علي و فاطمة و الحسن و الحسين في بيت فاستسقي الحسن، فقام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في جوف الليل، فسقاه، فسأله الحسين فأبي أن يسقيه، فقيل : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! کأن حسنا أحب اليک من حسين؟ قال : لا ولکنه استسقاني قبله، ثم قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : يا فاطمة! أنا و انت و هذين و هذا الراقد (لعلي) في مقام واحد يوم القيامة. ’’حضرت ابو فاختہ (سعید بن علاقہ) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، علی، فاطمہ، اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم گھر پر تھے کہ حسن نے پانی مانگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آدھی رات کو اُٹھ کر اسے پانی پلایا۔ (اسی دوران جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسنں کو پانی پلانے ہی والے تھے) کہ حضرت حسین نے وہی پانی طلب کیا، جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے دینے سے انکار فرمایا (کیونکہ حسین ان سے قبل پانی مانگ چکے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی ترتیب سے دینا چاہتے تھے یہ بغرض تعلیم و تربیت تھا)۔ عرض کیا گیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! لگتا ہے کہ آپ کو حسین سے زیادہ حسن محبوب ہے؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ وجہ نہیں بلکہ حسن نے حسین سے پہلے مانگا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے فاطمہ! میں، تم، یہ دونوں (حسن و حسین) اور یہ سونے والا (یعنی علی) قیامت کے دن ایک ہی جگہ پر ہوں گے۔‘‘ ابن عساکر، تاريخ دمشق، 13 : 227، رقم : 3204 فصل : 36إستعاذة النبي صلي الله عليه وآله وسلم للحسن و الحسين عليهما السلام (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السلام کے لئے خصوصی دم فرمانا )119. عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يعوذ الحسن و الحسين، و يقول : إن أباکما کان يعوذ بها إسماعيل و إسحاق : أعوذ بکلمات اﷲ التامة من کل شيطان وهامة و من کل عين لامة. ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن و حسین علیہما السلام کے لئے (خصوصی طور پر) کلمات تعوذ کے ساتھ دم فرماتے تھے اور ارشاد فرماتے کہ تمہارے جد امجد (ابراہیم علیہ السلام بھی) اپنے دونوں صاحبزادوں اسماعیل و اسحاق (علیھما السلام) کے لئے ان کلمات کے ساتھ تعوذ کرتے تھے ’’میں اللہ تعالیٰ کے کامل کلمات کے ذریعے ہر (وسوسہ اندازی کرنے والے) شیطان اور بلا سے اور ہر نظر بد سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1233، کتاب الانبياء، رقم : 3191 2. ابن ماجه، السنن، 2 : 1164، کتاب الطب، رقم : 3525 120. عن علي رضي الله عنه قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يعوذ حسنا و حسينا، فيقول : أعيذکما بکلمات اﷲ التامات من کل شيطان و هامة و من کل عين لامة. قال : و قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : عوذوا بها أبنائکم، فإن إبراهيم کان يعوذ بها ابنيه إسماعيل و إسحاق. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن و حسین علیہما السلام کو دم کرتے ہوئے فرماتے تھے : میں تمہارے لئے اﷲ کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر وسوسہ انداز شیطان و بلا اور ہر نظر بد سے پناہ مانگتا ہوں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (امت کیلئے بھی) فرمایا : تم اپنے بیٹوں کو انہی الفاظ کے ساتھ دم کیا کرو کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بیٹوں اسماعیل اور اسحاق (علیھما السلام) کو ان کلمات سے دم کیا کرتے تھے۔‘‘ 1. عبدالرزاق، المصنف، 4 : 336، رقم : 7987 2. طبراني، المعجم الاوسط، 9 : 79 3. هيثمي، مجمع الزوائد، 5 : 113 121. عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما، قال کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يعوذ الحسن و الحسين : أعيذکما بکلمات اﷲ التامة من کل شيطان و هامة و من کل عين لامة. ثم يقول : کان أبوکم يعوذ بهما إسماعيل و إسحاق. ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضي اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن و حسین علیہما السلام کو (ان کلمات کے ساتھ) دم کیا کرتے تھے : میں تمہیں اﷲ کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر وسوسہ انداز شیطان و بلا سے اور ہر نظر بد سے اﷲ کی پناہ میں دیتا ہوں، پھر ارشاد فرماتے : تمہارے جد امجد (ابراہیم علیہ السلام بھی) انہی کلمات کے ساتھ اپنے بیٹوں اسماعیل و اسحاق (علیھما السلام) کو دم کیا کرتے تھے۔‘‘ 1. ابوداؤ، السنن، 4 : 235، کتاب السنة، رقم : 4737 2. نسائي، السنن الکبریٰ، 6 : 250، رقم : 10845 3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 236، رقم : 2112 4. ابن حبان، الصحيح، 3 : 291، رقم : 1012 5. حاکم، المستدرک، 3 : 183، رقم : 4781 6. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 47، رقم : 23577 7. ابن راهويه، المسند، 1 : 36، رقم : 4 8. طبراني، المعجم الاوسط، 5 : 101، رقم : 4793 9. طبراني، المعجم الصغير، 2 : 31، رقم : 727 10. بخاري، خلق افعال العباد، 1 : 97 11. ابن جوزي، تلبيس ابليس، 1 : 48 122. عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : کنا جلوسا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إذ مر به الحسن و الحسين و هما صبيان، فقال : هاتوا ابني أعوذ هما بما عوذ به إبراهيم إبنيه إسماعيل و إسحاق، قال : أعيذکما بکلمات اﷲ التامة من کل عين لامة و من کل شيطان و هامة. ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حسن و حسین علیہما السلام جو کہ ابھی بچے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے دونوں بیٹوں کو لاؤ، میں انہیں دم کر دوں جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) اپنے دونوں بیٹوں اسماعیل و اسحاق (علیہم السلام) کو دم کیا کرتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں تمہیں اﷲ تعالیٰ کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر نظر بد سے، ہر وسوسہ انداز شیطان و بلا سے اﷲ کی پناہ میں دیتا ہوں۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 72، رقم : 9984 2. بزار، المسند، 4 : 304، رقم : 1483 3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 224 4. هيثمي، مجمع الزوائد، 5 : 113 5. هيثمي، مجمع الزوائد، 10 : 187 123. عن زيد بن أرقم رضي الله عنه قال : إني سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : اللهم! أستودعکهما و صالح المؤمنين يعني الحسن و الحسين. ’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اﷲ! میں ان دونوں حسن و حسین کو اور نیک مومنین کو تیری حفاظت خاص میں دیتا ہوں۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 85، رقم : 5037 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 194 3. هندي، کنز العمال، 12 : 119، رقم : 34281 فصل : 37 ضوء الطريق للحسن و الحسين عليهما السلام ببرقة (آسماني بجلی کا حسنین کریمین علیہما السلام کے لئے راستہ روشن کرنا)124. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : کنا نصلي مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم العشاء، فإذا سجد وثب الحسن و الحسين علي ظهره، فإذا رفع رأسه أخذهما بيده من خلفه اخذاً رفيقاً و يضعهما علي الأرض، فإذا عاد، عادا حتي قضي صلا ته، أقعدهما علي فخذيه، قال : فقمت إليه، فقلت : يا رسول اﷲ ! أردهما فبرقت برقة، فقال : لهما : الحقا بأمکما، قال : فمکث ضوئها حتي دخلا. ’’حضرت ابوہريرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نمازِ عشاء ادا کر رہے تھے، جب آپ سجدے میں گئے تو حضرت حسن اور حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدے سے سر اٹھایا تو ان دونوں کو اپنے پیچھے سے نرمی سے پکڑ کر زمین پر بٹھا دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ سجدے میں گئے تو حسن اور حسین علیہما السلام نے دوبارہ ایسے ہی کیا حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز مکمل کرنے کے بعد دونوں کو اپنی (مبارک) رانوں پر بٹھا لیا۔ میں نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک و آلک وسلم! میں انہیں واپس چھوڑ آتا ہوں۔ پس اچانک آسمانی بجلی چمکی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (حسنین کریمین علیہما السلام) کو فرمایا کہ اپنی والدہ کے پاس چلے جاؤ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے گھر میں داخل ہونے تک وہ روشنی برقرار رہی۔‘‘ 1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 513، رقم : 10669 2. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 51، رقم : 2659 3. حاکم، المستدرک، 3 : 183، رقم : 4782 4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181 5. ابن عدي، الکامل، 6 : 81، رقم : 1615 6. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 3 : 256 7. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 258 8. شوکاني، نيل الاوطار، 2 : 124 فصل : 38 تشجيع النبي صلي الله عليه وآله وسلم و جبريل عليه السلام للحسنين عليهما السلام علي المصارعة (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیلں کا حسنین کریمین علیہما السلام کو داد دینا)125. عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : کان الحسن و الحسين عليهما السلام يصطرعان بين يدي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فکان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : هي حسن. فقالت فاطمة سلام اﷲ عليها : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! لم تقول هي حسن؟ فقال : إن جبريل يقول : هي حسين. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حسنین کریمین علیہما السلام کشتی لڑ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : حسن جلدی کرو. سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے کہا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ صرف حسن کو ہی ایسا کیوں فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا : کیونکہ جبرئیل امین حسین کو جلدی کرنے کا کہہ کر داد دے رہے تھے۔‘‘ 1. ابويعلیٰ، المعجم، 1 : 171، رقم : 196 2. عسقلاني، الاصابه، 2 : 77، رقم : 1726 3. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 2 : 26 4. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 134 5. ابن عدي، الکامل، 5 : 18، رقم : 1191 126. عن محمد بن علي رضي اﷲ عنهما قال : اصطرع الحسن و الحسين رضي اﷲ عنهما عند رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فجعل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : هي حسن. قالت له فاطمة : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! تعين الحسن کانه أحب إليک من الحسين؟ قال : إن جبريل يعين الحسين و أنا أحب أن أعين الحسن. ’’محمد بن علی رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حسنین کریمین علیہما السلام کشتی لڑ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : حسن جلدی کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیدہ فاطمہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ حسن کی مدد فرما رہے ہیں لگتا ہے وہ آپ کو حسین سے زیادہ پیارا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (نہیں) جبرئیل حسین کی مدد کر رہے تھے اسلئے میں نے چاہا کہ حسن کی مدد کروں۔‘‘ 1. هيثمي، مسند الحارث، 2 : 910، رقم 992 2. سيوطي، الخصائص الکبري، 2 : 465 3. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي، 1 : 134 127. عن بن عباس رضي اﷲ عنهما قال : اتخذ الحسن والحسين عند رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فجعل يقول : هي يا حسن! خذ يا حسن! فقالت عائشة : تعين الکبير علي الصغير. فقال : إن جبريل يقول : خذ يا حسين. ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں حسن و حسین علیہما السلام ایک دوسرے کو پکڑنے میں کوشاں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمانے لگے حسن جلدی کرو! حسن پکڑ لو تو اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ چھوٹے کے مقابلے میں بڑے کی مدد فرما رہے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اس لئے کہ) جبرئیل امین (پہلے سے ہی) حسین کو حوصلہ دلاتے ہوئے پکڑلو، پکڑلو کہہ رہے تھے۔‘‘ ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 223 فصل : 39 کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يقبل الحسن و الحسين عليهما السلام (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کا بوسہ لیتے تھے)128. عن ابی هريره رضي الله عنه قال : خرج علينا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و معه حسن و حسين، هذا علي عاتقه و هذا علي عاتقه، وهو يلثم هذا مرة و يلثم هذا مرة. ’’حضرت ابوہريرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حسنین کریمین علیہما السلام تھے ایک (شہزادہ) ایک کندھے پر سوار تھا اور دوسرا دوسرے کندھے پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کو باری باری چوم رہے تھے۔‘‘ 1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 400، رقم : 9671 2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 777، رقم : 1376 3. حاکم، المستدرک، 3 : 182، رقم : 4777 4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 179 5. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 228 6. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 2 : 71 7. مناوي، فيض القدير، 6 : 32 129. عن أبي المعدل عطية الطفاوي عن أبيه أن أم سلمة حدثته قالت : بينما رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في بيتي يوما اذ قالت الخادم أن عليا و فاطمة بالسدة، قالت : فقال لي : قومي فتنحي لي عن أهل بيتي، قالت : فقمت فتنحيت في البيت قريبا، فدخل علیّ و فاطمة و معهما الحسن و الحسين و هما صبيان صغيران، فأخذ الصبيين فوضعهما في حجره فقبلهما. ’’ابو معدل عطيہ طفاوی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہیں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا نے بیان کیا کہ ایک دن جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تشریف فرما تھے خادم نے عرض کیا : دروازے پر علی اور فاطمہ علیہما السلام آئے ہیں۔ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا : ایک طرف ہو جاؤ اور مجھے اپنے اہل بیت سے ملنے دو۔ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : میں پاس ہی گھر میں ایک طرف ہٹ کر کھڑی ہو گئی، پس علی، فاطمہ اور حسنین کریمین علیہم السلام داخل ہوئے اس وقت وہ کم سن تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں بچوں کو پکڑ کر گود میں بٹھا لیا اور دونوں کو چومنے لگے۔‘‘ 1. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 296، رقم : 26582 2. ابن کثير، تفسيرالقرآن العظيم، 3 : 485 3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 166 4. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 22 130. عن يعلي بن مرة رضي الله عنه قال : إن حسنا و حسينا أقبلا يمشيان إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فلما جاء احدهما جعل يده في عنقه، ثم جاء الآخر فجعل يده الأخري في عنقه، فقبّل هذا، ثم قبّل هذا. ’’حضرت يعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حسن و حسین علیہما السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلتے ہوئے آئے، جب ان میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک بازو سے اسے گلے لگا لیا، پھر جب دوسرا پہنچا تو دوسرے بازو سے اسے گلے لگا لیا، پھر دونوں کو باری باری چومنے لگے۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 32، رقم : 2587 2. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 274، رقم : 703 3. قضاعي، مسند الشهاب، 1 : 50، رقم : 26 4. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 122 131. عن عتبة بن غزوان رضي الله عنه قال : بينما رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم جالس إذ جاء الحسن و الحسين فرکبا ظهره، فوضعهما في حجره فجعل يقبل هذا مرة و هذا مرة. ’’عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے کہ حسن و حسین علیہما السلام آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو اپنی گود میں بٹھا لیا اور باری باری دونوں کو چومنے لگے۔‘‘ ابن قانع، معجم الصحابة، 2 : 265، رقم : 786 فصل : 40 ذهب النبي صلي الله عليه وآله وسلم للمباهلة و معه الحسن والحسين عليهما السلام (حضور صلي اللہ علیہ وآلہ وسلم مباھلہ کے وقت حسنین کریمین علیہما السلام کو اپنے ساتھ لے گئے)132. عن الشعبي رضي الله عنه قال : لما أراد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن يلا عن أهل نجران، أخذ بيد الحسن والحسين و کانت فاطمة تمشي خلفه. ’’حضرت شعبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل نجران کے ساتھ مباھلہ کا ارادہ فرمایا تو حسنین کریمین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے لیا اور سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل رہی تھیں۔‘‘ 1. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 389، رقم : 36184 2. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 426، رقم : 37014 3. عسقلاني، فتح الباري، 8 : 94، رقم : 4119 133. عن ابن زيد قال : قيل لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : لو لاعنت القوم بمن کنت تأتي حين قلت : ابناء نا و ابناء کم قال : حسن و حسين. ’’ابن زيد سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عیسائی قوم کے ساتھ مباھلہ ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے قول ’ہمارے بیٹے اور تمہارے بیٹے‘ کے مصداق کن کو اپنے ساتھ لاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین کو۔‘‘ طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 3 : 301
  6. بَابٌ فِيْ کَوْنِهِ رضي الله عنه أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَ صَلَّي (قبولِ اسلام میں اوّل اور نماز پڑھنے میں اوّل)1. عَنْ أَبِيْ حَمْزَةَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ : سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ يَقُوْلُ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. ’’ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 1 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی، 5 / 642، الحديث رقم : 3735، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 406، الحديث رقم : 12151، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102. 2. فِي رِوَايَةٍ عَنْهُ أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيٌّ رضي الله عنه رَوَاهُ أَحْمَدُ. حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ ’’ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 2 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 367، و الحاکم في المستدرک، 3 / 447، الحديث رقم : 4663، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 371، الحديث رقم : 32106، و الطبراني في المعجم اکبير، 22 / 452، الحديث رقم : 1102. 3. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ بُعِثَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ وَصَلَّي عَلِيٌّ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیر کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی اور منگل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 3 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 640، الحديث رقم : 3728، و الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 121، الحديث رقم : 4587، و المناوي في فيض القدير، 4 / 355. . 4. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : أَوَّلُ مَنْ صَلَّي عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ قَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيْ هَذَا فَقَالَ بَعْضُهُمْ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ أَبُوْ بَکْرٍ الصِّدِّيْقُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الرِّجَالِ أَبُوْبَکْرٍ، وَأَسْلَمَ عَلِيٌّ وَهُوَ غُلَامٌ ابْنُ ثَمَانِ سِنِيْنَ، وَأَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النِّسَّاءِ خَدِيْجَةُ. ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض نے کہا : سب سے پہلے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے اور بعض نے کہا : سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ اسلام لائے جبکہ بعض محدثین کا کہنا ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں کیونکہ وہ آٹھ برس کی عمر میں اسلام لائے اور عورتوں میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہونے والی حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا ہیں۔‘‘ الحديث رقم 4 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 642، الحديث رقم : 3734. 5. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ مِنْهَا عَنْهُ قَالَ : وَ کَانَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النَّاسِ بَعْدَ خَدِيْجَةَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا : حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 5 : أخرجه احمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 603، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 119، وابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 3 / 21. 6. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : أَوَّلُ مَنْ صَلَّی مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، بَعْدَ خَدِيْجَةَ، عَلِيٌّ، وَ قَالَ مَرَّةً : أَسْلَمَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد جس شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں اور ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد سب سے پہلے جو شخص اسلام لایا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 6 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 373، الحديث رقم : 3542، و الطيالسي في المسند، 1 / 360، الحديث رقم : 2753. 7. عَنْ إِسْمَاعِيْلَ بْنِ إِيَاسِ بْنِ عَفِيْفٍ الْکِنْدِيِّ عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جَدِّه، قَالَ : کُنْتُ امْرَءً ا تَاجِرًا، فَقَدِمْتُ الْحَجَّ فَأَتَيْتُ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ِلأَبْتَاعَ مِنْهُ بَعْضَ التِّجَارَةِ وَ کَانَ امْرَءً ا تَاجِرًا، فَوَاﷲِ إِنِّيْ لَعِنْدَهُ بِمِنًی، إِذْ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ خِبَاءٍ قَرِيْبٍ مِْنهُ فَنَظَرَ إِلَی الشَّمْسِ، فَلَمَّا رَهَا مَالَتْ، يَعْنِي قَامَ يُصَلِّي قَالَ : ثُمَّ خَرَجَتِ امْرَأَةٌ مِنْ ذَلِکَ الْخِبَاءِ الَّذِيْ خَرَجَ مِنْهُ ذَلِکَ الرَّجُلُ، فَقَامَتْ خَلْفَهُ تُصَلِّي، ثُمَّ خَرَجَ غُلَامٌ حِيْنَ رَهَقَ الْحُلُمَ مِنْ ذَلِکَ الْخِبَاءِ، فَقَامَ مَعَهُ يُصَلِّي. قَالَ : فَقُلْتُ لِلْعَبَّاسِ : مَنْ هَذَا يَا عَبَّاسُ؟ قَالَ : هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ابْنُ أَخِيْ قَالَ : فَقُلْتُ : مَنِ الْمَرْأَةُ؟ قَالَ : هَذِهِ امْرَأَتُهُ خَدِيْجَةُ ابْنَةُ خُوَيْلَدٍ قَالَ : قُلْتُ : مَنْ هَذَا الْفَتَی؟ قَالَ : هذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ابْنُ عَمِّهِ قَالَ : فَقُلْتُ : فَمَا هذَا الَّذِيْ يَصْنَعُ؟ قَالَ : يُصَلِّيْ وَ هُوَ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَ لَمْ يَتْبَعْهُ عَلَی أَمْرِهِ إِلاَّ امْرَأْتُهُ وَ ابْنُ عَمِّهِ هَذَا الْفَتٰی وَ هُوَ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَيُفْتَحُ عَلَيْهِ کُنُوْزُ کِسْرَی وَ قَيْصَرَ قَالَ : فَکَانَ عَفِيْفٌ وَ هُوَ ابْنُ عَمِّ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ يَقُوْلُ : وَ أَسْلَمَ بَعْدَ ذَلِکَ فَحَسُنَ إِسْلَامُهُ لَوْ کَانَ اﷲُ رَزَقَنِيَ اْلإِسْلَامَ يَوْمَئِذٍ، فَأَکُوْنَ ثَالِثًا مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت اسماعیل بن ایاس بن عفیف کندی صاپ نے والد سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک تاجر تھا، میں حج کی غرض سے مکہ آیا تو حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے ملنے گیا تاکہ آپ سے کچھ مال تجارت خرید لوں اور آپ رضی اللہ عنہ بھی ایک تاجر تھے۔ بخدا میں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس منی میں تھا کہ اچانک ایک آدمی اپنے قریبی خیمہ سے نکلا اس نے سورج کی طرف دیکھا، پس جب اس نے سورج کو ڈھلتے ہوئے دیکھا تو کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے لگا۔ راوی بیان کرتے ہیں : پھر اسی خیمہ سے جس سے وہ آدمی نکلا تھا ایک عورت نکلی اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے کھڑی ہوگئی پھر اسی خیمہ میں سے ایک لڑکا جو قریب البلوغ تھا نکلا اور اس شخص کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا اے عباس! یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا : یہ میرابھتیجا محمد بن عبداﷲ بن عبدالمطلب ہے۔ میں نے پوچھا : یہ عورت کون ہے؟ انہوں نے کہا : یہ ان کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہے۔ میں نے پوچھا : یہ نوجوان کون ہے؟ تو انہوں نے کہا : یہ ان کے چچا کا بیٹا علی بن ابی طالب ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر میں نے پوچھا کہ یہ کیا کام کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا یہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ نبی ہیں حالانکہ ان کی اتباع سوائے ان کی بیوی اور چچا زاد اس نوجوان کے کوئی نہیں کرتا اور وہ یہ بھی گمان کرتے ہیں کہ عنقریب قیصر و کسری کے خزانے ان کے لئے کھول دیئے جائیں گے۔ راوی بیان کرتے ہیں : عفیف جو کہ اشعث بن قیس کے بیٹے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ اس کے بعد اسلام لائے، پس اس کا اسلام لانا اچھا ہے مگر کاش اﷲ تبارک و تعالیٰ اس دن مجھے اسلام کی دولت عطا فرما دیتا تو میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تیسرا اسلام قبول کرنے والا شخص ہو جاتا۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 7 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 209 و الحديث رقم : 1787، و ابن عبد البر في الإستيعاب، 3 / 1096، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 388، الحديث رقم : 6479. 8. عَنْ حَبَّةَ الْعُرَنِيِّ قَالَ : سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُوْلُ : أَنَا أَوَّلُ رَجُلٍ صَلَّی مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت حبہ عرنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا : میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 8 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 141، الحديث رقم : 1191، وابن ابي شيبة في المصنف، 6 / 368، الحديث رقم : 32085، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 1 / 149، الحديث رقم : 179. 9. عَنْ حَبَّةَ الْعُرَنِيِّ قَالَ : رَأَيْتُ عَلِيًّا ضَحِکَ عَلَی الْمِنْبَرِ، لَمْ أَرَهُ ضَحِکَ ضِحْکًا أَکْثَرَ مِنْهُ حَتَّی بَدَتْ نَوَاجِذُهُ ثُمَّ قَالَ : ذَکَرْتُ قَوْلَ أَبِيْ طَالِبٍ ظَهَرَ عَلَيْنَا أَبُوْطَالِبٍ وَ أنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ نَحْنُ نُصَلِّيْ بِبَطْنِ نَخْلَةَ، فَقَالَ : مَا تَصْنَعَانِ يَا بْنَ أَخِيْ؟ فَدَعَاهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی الْإِسْلَامِ، فَقَالَ : مَا بِالَّذِيْ تَصْنَعَانِ بَأْسٌ أَوْ بِالَّذِيْ تَقُوْلَانِ بَأْسٌ وَ لَکِنْ وَاﷲِ! لَا تَعْلُوْنِيْ سِنِّيْ أَبَدًا! وَضَحِکَ تَعَجُّبًا لِقَوْلِ أَبِيْهِ ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ! لَا أَعْتَرِفُ أَنَّ عَبْدًا لَکَ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ عَبَدَکَ قَبْلِيْ، غَيْرَ نَبِيِّکَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ لَقَدْ صَلَّيْتُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ النَّاسُ سَبْعًا. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت حبہ عرنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر ہنستے ہوئے دیکھا اور میں نے کبھی بھی آپ رضی اللہ عنہ کو اس سے زیادہ ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کے دانت نظر آنے لگے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے اپنے والد ابو طالب کا قول یاد آگیا تھا۔ ایک دن وہ ہمارے پاس آئے جبکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا اور ہم وادیء نخلہ میں نماز ادا کر رہے تھے، پس انہوں نے کہا : اے میرے بھتیجے! آپ کیا کر رہے ہیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا : جو کچھ آپ کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں لیکن آپ کبھی بھی (تجربہ میں) میری عمر سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے والد کی اس بات پر ہنس دئیے پھر فرمایا : اے اﷲ! میں نہیں جانتا کہ مجھ سے پہلے اس امت کے کسی اور فرد نے تیری عبادت کی ہو سوائے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، یہ تین مرتبہ دہرایا پھر فرمایا : تحقیق میں نے عامۃ الناس کے نماز پڑھنے سے سات سال پہلے نماز ادا کی۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 9 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 99، الحديث رقم : 776، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102، و الطيالسي في المسند، 1 / 36، الحديث رقم : 188. 10. عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ : أَوَّلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ وَرُوْدًا عَلَي نَبِيِّهَا صلی الله عليه وآله وسلم أَوَّلُهَا إِسْلَامًا، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه. رَوَاهُ ابْنُ أَبِيْ شَيْبَه وَ الطَّبَرَانِيٌّ وَالْهَيْثَمِيُّ. ’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : وہ بیان کرتے ہیں کہ امت میں سے سب سے پہلے حوض کوثر پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے اسلام لانے میں سب سے اول علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، امام طبرانی اور امام ہیثمی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 10 : أخرجه ابن أبي شيبه في المصنف، 7 / 267، الحديث رقم : 35954، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 265، الحديث رقم : 6174، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 149، الحديث رقم : 179 11. عَنْ مُجَاهِدٍ أَوَّلُ مَنْ صَلَّی عَلِيٌّ، وَ هُوَ ابْنُ عَشْرِ سِنِيْنَ وَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ زُرَارَةَ قَالَ : أَسْلَمَ عَلِيٌّ وَ هُوَ ابْنُ تِسْعِ سِنِيْنَ وَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ، حِيْنَ دَعَاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی الْإِسْلَامِ کَانَ ابْنَ تِسْعِ سِنِيْنَ قَالَ الْحَسَنُ بْنُ زَيْدٍ وَ يُقَالُ : دُوْنَ تِسْعِ سِنِيْنَ وَ لَمْ يَعْبُدِ الْأَوْثَانَ قَطُّ لِصِغَرِهِ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَی. ’’حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز ادا کی اور وہ اس وقت دس سال کے تھے اور حضرت محمد بن عبد الرحمٰن بن زرارہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا جب آپ رضی اللہ عنہ کی عمر نو سال تھی اور حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر نو سال تھی اور حسن بن زید بیان کرتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نو سال سے بھی کم عمر میں اسلام لائے لیکن آپ نے اپنے بچپن میں بھی کبھی بتوں کی پوجا نہیں کی تھی۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبری‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 11 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 3 / 21 (2) بَابٌ فِي إِخْتِصَاصِ زِوَاجِهِ رضی الله عنه بِسَيِّدَةِ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ رضی اﷲ عنها (سیدۂ کائنات فاطمۃ الزھراء رضی اﷲ عنہا سے شادی کا اعزاز پانے والے)12. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اﷲ عنهما، عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، قَالَ : إِنَّ اﷲَ أَمَرَنِيْ أَنْ أُزَوِّجَ فَاطِمَةَ مِنْ عَلِيٍّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کردوں۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 12 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 156، رقم؛ 10305، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 204، والمناوي في فيض القدير، 2 / 215، و الحسيني في البيان و التعريف، 1 / 174. 13. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ عَنْ أُمِّ أَيْمَنَ قَالَتْ : زَوَّجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ابْنَتَهُ فَاطِمَةَ مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ وَأَمَرَهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَی فَاطِمَةَ حَتَّی يَجِيْئَهُ. وَکَانَ الْيَهُوْدُ يُؤَخِّرُوْنَ الرَّّجُلَ عَنْ أَهْلِهِ. فَجَاءَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتَّی وَقَفَ بِالْبَابِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ، فَقَالَ : أَثَمَّ أَخِيْ؟ فَقَالَتْ أُمُّ أَيْمَنَ : بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَارَسُوْلَ اﷲِ! مَنْ أَخُوْکَ؟ قَالَ : عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، قَالَتْ : وَکَيْفَ يَکُوْنُ أَخَاکَ وَقَدْ زَوَّجْتَهُ ابْنَتَکَ؟ قَالَ : هُوَ ذَاکَ يَا أُمَّ أَيْمًنَ، فَدَعَا بِمَاءِ إِنَاءٍ فَغَسَلَ فِيْهِ يَدَيْهِ ثُمَّ دَعَا عَلِيًّا فَجَلَسَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَنَضَخَ عَلَی صَدْرِهِ مِنْ ذَلِکَ الْمَاءِ وَبَيْنَ کَتِفَيْهِ، ثُمَّ دَعَا فَاطِمَةَ فَجَاءَتْ بِغَيْرِ خِمَارٍ تَعْثُرُ فِي ثَوْبِهَا ثُمَّ نَضَخَ عَلَيْهَا مِنْ ذَلِکَ الْمَاءِ، ثُمَّ قَالَ : واﷲِ مَا أَلَوْتُ أَنْ زَوَّجْتُکِ خَيْرَ أَهْلِيْ وَ قَالَتْ أُمُّ أَيْمَنَ : وُلِيْتُ جِهَازَهَا فَکَانَ فِيْمَا جَهَزْتُهَا بِهِ مِرْفَقَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيْفٌ، وَبَطْحَاءُ مَفْرُوشٌ فِي بَيْتِهَا. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَیٰ ’’حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ حضرت اُم ایمن رضی اﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی شادی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ فاطمہ کے پاس جائیں یہاں تک کہ وہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس آگئے (یہ حکم اس لیے فرمایا گیا کہ یہودیوں کی مخالفت ہو کیونکہ یہودیوں کی یہ عادت تھی کہ وہ شوہر کی اپنی بیوی سے پہلی ملاقات کرانے میں تاخیر کرتے تھے)۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دروازے پر کھڑے ہوگئے اور سلام کیا اور اندر آنے کی اجازت طلب فرمائی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت دی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا یہاں میرا بھائی ہے؟ تو ام ایمن نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں. آپ کا بھائی کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرا بھائی علی بن ابی طالب ہے پھر انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! وہ آپ کے بھائی کیسے ہو سکتے ہیں؟ حالانکہ آپ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح ان کے ساتھ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ام ایمن ! وہ اسی طرح ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک برتن منگوایا اور اس میں اپنے ہاتھ مبارک دھوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پانی میں سے کچھ آپ رضی اللہ عنہ کے سینہ پر اور کچھ آپ رضی اللہ عنہ کے کندھوں کے درمیان چھڑکا۔ پھر حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو بلایا پس آپ اپنے کپڑوں میں لپٹی ہوئی آئیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ پانی آپ رضی اﷲ عنہا پر بھی چھڑکا پھر فرمایا : خدا کی قسم! اے فاطمہ! میں نے تمہاری شادی اپنے خاندان میں سے بہترین شخص کے ساتھ کر دی ہے اور تمہارے حق میں کوئی تقصیر نہیں کی۔ حضرت ام ایمن فرماتی ہیں کہ مجھے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے جہیز کی ذمہ داری سونپی گئی پس جو چیزیں آپ رضی اﷲ عنہا کے جہیز میں تیار کی گئیں ان میں ایک چمڑے کا تکیہ تھا جو کھجور کی چھال سے بھرا ہوا تھا اور ایک بچھونا تھا جو آپ رضی اﷲ عنہا کے گھر بچھایا گیا۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبری‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 13 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 8 / 24. 14. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، قَالَ : بَيْنَمَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي الْمَسْجِدِ، إِذْ قَالَ صلی الله عليه وآله وسلم لِعَلِيٍّ : هَذَا جِبْرِيْلُ يُخْبِرُنِيْ أَنَّ اﷲَ عزوجل زَوَّجَکَ فَاطِمَةَ، وَ أَشْهَدَ عَلَی تَزْوِيْجِکَ أَرْبَعِيْنَ أَلْفَ مَلَکٍ، وَ أَوْحٰی إِليَ شَجَرَةِ طُوْبٰی أَنِ انْثُرِيْ عَلَيْهِمُ الدُّرَّ وَاليَاقُوْتَ، فَنَثَرَتْ عَلَيْهِمُ الدُّرَّ وَ اليَاقُوْتَ، فَابْتَدَرَتْ إِلَيْهِ الْحُوْرُ الْعِيْنُ يَلْتَقِطْنَ مِنْ أَطْبَاقِ الدُّرِّ وَ اليَاقُوْتِ، فَهُمْ يَتَهَادُوْنَهُ بَيْنَهُمْ إِليَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبْرِيُّ فِي الرِّيَاضِ النَّضِرَةِ. ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : یہ جبرئیل امین علیہ السلام ہیں جو مجھے خبر دے رہے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے فاطمہ سے تمہاری شادی کر دی ہے۔ اور تمہارے نکاح پر (ملاء اعلیٰ میں) چالیس ہزار فرشتوں کو گواہ کے طور پر مجلس نکاح میں شریک کیا، اور شجر ہائے طوبی سے فرمایا : ان پر موتی اور یاقوت نچھاور کرو، پھردلکش آنکھوں والی حوریں اُن موتیوں اور یاقوتوں سے تھال بھرنے لگیں۔ جنہیں (تقریب نکاح میں شرکت کرنے والے) فرشتے قیامت تک ایک دوسرے کو بطور تحائف دیتے رہیں گے۔ اس کو امام محب الدین احمد الطبری نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 14 : أخرجه محب الدين أحمد الطبري في الرياض النضره في مناقب العشره، 3 / 146 و في ذخائر العقبي في مناقب ذَوِي القربي : 72 15. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَتَانِي مَلَکٌ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ! إِنَّ اﷲَ تَعَالٰي يَقْرَأُ عَلَيْکَ السَّلَامَ، وَ يَقُوْلُ لَکَ : إِنِّيْ قَدْ زَوَّجْتُ فَاطِمَةَ ابْنَتَکَ مِنْ عَلِيِّّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ فِيْ المَلَأِ الْأَعْلَي، فَزَوِّجْهَا مِنْهُ فِي الْأَرْضِ. رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبْرِيُّ فِي ذَخَائِرِ الْعُقْبَي. ’’حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس ایک فرشتے نے آ کر کہا ہے اے محمد! اﷲ تعالیٰ نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے : میں نے آپ کی صاحبزادی فاطمہ کا نکاح ملاء اعلیٰ میں علی بن ابی طالب سے کر دیا ہے، پس آپ زمین پر بھی فاطمہ کا نکاح علی سے کر دیں۔ اس کو امام محب الدین احمد الطبری نے روایت کیا۔‘‘ الحديث رقم 15 : أخرجه محب الدين أحمد الطبري في ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 73 (3) بَابٌ فِيْ کَوْنِهِ رضي الله عنه مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ (علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اہلِ بیت میں سے ہیں)16. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِيْ وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَآءَ نَا وَ أَبْنَآءَ کُمْ) آل عمران : 61، دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا وَ فَاطِمَةَ وَ حَسَنًا وَ حُسَيْنًا فَقَالَ : اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِيْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ ’’آپ فرما دیں آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ‘‘ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا : یا اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔ الحديث رقم 16 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضی الله عنه، 4 / 1871، الحديث رقم : 2404، والترمذي في الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، باب : و من سورة آل عمران، 5 / 225، الحديث رقم : 2999، وفي کتاب المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، باب : (21)، 5 / 638، الحديث رقم : 3724، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الحديث رقم : 1608، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 63، الحديث رقم : (13169 - 13170)، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 107، الحديث رقم : 8399، و الحاکم في المستدرک، 3 / 163، الحديث رقم : 4719. 17. عَنْ صَفِيَةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، قَالَتْ : قَالَتْ عَائِشَةُ رضي اﷲ عنها : خَرَجَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم غَدَاةً وَ عَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ. فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضی اﷲ عنهما فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ رضی الله عنه فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَ تْ فَاطِمَةُ رضی اﷲ عنها فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ رضی الله عنه فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا). رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’حضرت صفیہ بنت شیبہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے : حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی جس پر سیاہ اُون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ساتھ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اے اہلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تمہیں خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ الحديث رقم 17 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل أهل بيت النبي، 4 / 1883، الحديث رقم : 2424، و إبن أبي شيبه في المصنف، 6 / 370، الحديث رقم : 36102، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 2 / 672، الحديث رقم : 1149، و إبن راهويه في المسند، 3 / 678، الحديث رقم : 1271، و الحاکم في المستدرک، 3 / 159، الحديث رقم : 4707، و البيهقي في السنن الکبري، 2 / 149. 18. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ يَمُرُّ بِبَابِ فَاطِمَةَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ إِذَا خَرَجَ إِليَ صَلَاةِ الْفَجْرِ، يَقُوْلُ : اَلصَّلَاةَ! يَا أَهْلَ الْبَيْتِ (إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا) رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چھ (6) ماہ تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول رہا کہ جب نمازِ فجر کے لئے نکلتے تو حضرت فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے دروازہ کے پاس سے گزرتے ہوئے فرماتے : اے اہل بیت! نماز قائم کرو (اور پھر یہ آیتِ مبارکہ پڑھتے : )۔ . . اے اہلِ بیت! اﷲ چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔ الحديث رقم 18 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب التفسير، باب ومن سورة الأحزاب، 5 / 352، الحديث رقم : 3206، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 259، 285، و الحاکم في المستدرک، 3 / 172، الحديث رقم : 4748، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 2 / 761، الحديث رقم : 1340، 1341، و إبن أبي شيبه في المصنف، 6 / 388، الحديث رقم : 32272، و الشيباني في الآحادو المثاني، 5 / 360، الحديث رقم : 2953، و عبد بن حميد في المسند : 367، الحديث رقم : 12223. 19. عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِيْ سَلَمَةَ رَبِيْبِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا) فِيْ بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، فَدَعَا فَاطِمَةَ وَ حَسَنًا وَ حُسَيْنًا رضي الله عنهم فَجَلَّلَهُمْ بِکِسَاءٍ، وَ عَلِيٌّ رضي الله عنه خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِکِسَاءٍ، ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ! هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِيْ، فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهِرْهُمْ تَطْهِيْرًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’پروردہء نبی حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر میں یہ آیت مبارکہ. . . اے اہلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے۔ . . نازل ہوئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم کو بلایا اور ایک چادر میں ڈھانپ لیا. حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اِلٰہی! یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے ہر آلودگی کو دور کردے اور انہیں خوب پاک و صاف فرما دے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ الحديث رقم 19 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب التفسير، باب و من سورة الأحزاب، 5 / 351، الحديث رقم : 3205، و في کتاب المناقب، باب مناقب أهل بيت النبي، 5 / 663، الحديث رقم : 3787، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 292، و الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 2 / 451، الحديث رقم : 3558، و فيه أيضاً، 3 / 158، الحديث رقم : 4705، و الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 54، الحديث رقم : 2668، و أحمد بن حنبل أيضاً في فضائل الصحابة، 2 / 587، الحديث رقم : 994. 20. عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه فِيْ قَوْلِهِ تَعَالٰي : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ) قَالَ : نَزَلَتْ فِيْ خَمْسَةٍ : فِيْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ عَلِيٍّ، وَ فاَطِمَةَ، وَالْحَسَنِ، وَ الْحُسَيْنِ رضی الله عنهم. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ ’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمانِ خداوندی : ’’اے اہلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے‘‘ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ آیت مبارکہ پانچ تن کے حق میں نازل ہوئی؛ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم کے حق میں، اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔ الحديث رقم 20 : أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 3 / 380، الحديث رقم : 3456، و الطبراني في المعجم الصغير، 1 / 231، الحديث رقم : 375، و إبن حيان في طبقات المحدثين باصبهان، 3 / 384، و خطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 10 / 278. 21. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما. قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ : (قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمًوَدَّةَ فِيْ القُرْبیٰ) قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ! مَنْ قَرَابَتُکَ هَؤُلَاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ : عَلِيٌّ وَ فَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ ’’ اے محبوب! فرما دیجئے کہ میں تم سے صرف اپنی قرابت کے ساتھ محبت کا سوال کرتا ہوں‘‘ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ کی قرابت والے کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی، فاطمہ، اور ان کے دونوں بیٹے(حسن اور حسین)۔ اس حدیث کو طبرانی نے’’ المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 21 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 47، الحديث رقم : 2641، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168. 22. عَنْ أَبِيْ بَرْزَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لاَ يَنْعَقِدُ قَدَمَا عَبْدٍ حَتَّي يُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعَةٍ عَنْ جَسَدِهِ فِيْمَا أَبْلَاهُ، وَعُمْرِهِ فِيْمَا أَفْنَاهُ، وَ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اکْتَسَبَهُ وَ فِيْمَا أَنْفَقَهُ، وَ عَنْ حُبِّ أَهْلِ الْبَيْتِ فَقِيْلَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ! فَمَا عَلَامَةُ حُبِّکُمْ فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَی مَنْکَبِ عَلِيٍّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوسَطِ. ’’حضرت ابو برزۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آدمی کے دونوں قدم اس وقت تک اگلے جہان میں نہیں پڑتے جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے سوال نہ کر لیا جائے، اس کے جسم کے بارے میں کہ اس نے اسے کس طرح کے اعمال میں بوسیدہ کیا؟ اور اس کی عمر کے بارے میں کہ کس حال میں اسے ختم کیا؟ اور اس کے مال کے بارے میں کہ اس نے یہ کہاں سے کمایا اورکہاں کہاں خرچ کیا؟ اور اہل بیت کی محبت کے بارے میں؟ عرض کیا گیا : یا رسول اﷲ! آپ کی (یعنی اہل بیت کی) محبت کی کیا علامت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شانے پر مارا (کہ یہ محبت کی علامت ہے) اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 22 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 348، الحديث رقم : 2191، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 346. (4) بَابٌ فِيْ قَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ (فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے)23. عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْ سَرِيْحَةَ . . . أَوْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، (شَکَّ شُعْبَةُ). . . عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. (قَالَ : ) وَ قَدْ رَوَی شُعْبَةُ هَذَا الحديث عَنْ مَيْمُوْنٍ أبِيْ عَبْدِ اﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم. ’’حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ . . . یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما۔ . . سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہاکہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ الحديث رقم 23 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 5 / 633، الحديث رقم : 3713، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الحديث رقم : 5071، 5096. وَ قَدْ رُوِيَ هَذَا الحديث عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَةْ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4652، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 78، الحديث رقم : 12593، ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1359، وحسام الدين الهندی فی کنزالعمال، 11 / 608، رقم : 32946، وابن عساکرفی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، و خطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 12 / 343، و ابن کثير فی البدايه و النهايه، 5 / 451، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 108. وَ قَد رُوِيَ هَذَا الحديث أيضا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ. أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1355، وابن ابی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32072 وَقَدْ رُوِيَ هَذَ الحديث عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَةِ. أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1354، والطبرانی فی المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، والطبرانی فی المعجم الاوسط، 1 / 229، الحديث رقم : 348. وَقَدَرُوِيِّ هَذَالحديث عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ. أخرجه عبدالرزاق فی المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و الطبرانی فی المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143، وابن ابی عاصم فی السنه : 601، الحديث رقم : 1353، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفی البدايه و النهايه، 5 / 457، وحسام الدين هندی فی کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904. وَقَدْ رُوِيَ هَذَالحديث عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 19 / 252، الحديث رقم : 646، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 106. 24. عَنْ سَعْدِ بْنِ أبِي وَقَّاصٍ، قَالَ فِي رِوَايَةٍ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعِليٌّ مَوْلَاهُ، وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزَلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی، إِلاَّ أنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِيْ، وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : لَأعْطِيَنَّ الرَّأيَةَ الْيَوْمَ رَجُلاً يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ. رَوَاهُ ابْنُ ماَجَةَ وَالنَّسَائِيّ. ’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (حضرت علی رضی اللہ عنہ سے) یہ فرماتے ہوئے سنا : تم میرے لیے اسی طرح ہو جیسے ہارون علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں، اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (غزوۂ خبیر کے موقع پر) یہ بھی فرماتے ہوئے سنا : میں آج اس شخص کو جھنڈا عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 24 : أخرجه ابن ماجة فی السنن، المقدمه، باب فی فضائل أصحاب رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 45، الحديث رقم : 121، و النسائي في الخصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي الله عنه، : 32، 33، الحديث رقم : 91. 25. عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ : أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي حَجَّتِهِ الَّتِي حَجَّ، فَنَزَلَ فِي بَعْضِ الطَّرِيْقِ، فَأَمَرَ الصَّلاَةَ جَامِعَةً، فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رضي الله عنه ، فَقَالَ : أَلَسْتُ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، قَالَ : أَلَسْتُ أوْلٰی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟ قَالَوْا : بَلَی، قَالَ : فَهَذَا وَلِيُّ مَنْ أَنَا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، اللَّهُمَّ! عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ. ’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج ادا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستے میں ایک جگہ قیام فرمایا اور نماز باجماعت (قائم کرنے) کا حکم دیا، اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا میں مومنوں کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں ہر مومن کی جان سے قریب تر نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس یہ (علی) ہر اس شخص کا ولی ہے جس کا میں مولا ہوں۔ اے اللہ! جو اسے دوست رکھے اسے تو بھی دوست رکھ (اور) جو اس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔‘‘ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ الحديث رقم 25 : أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمه، باب فضائل أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 / 88، الحديث رقم : 116. 26. عَنْ بُرَيْدَةَ، قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ عَلِيٍّ الْيَمَنَ فَرَأَيْتُ مِنْهُ جَفْوَةً، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ذَکَرْتُ عَلِيًّا، فَتَنَقَّصْتُهُ، فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَتَغَيَرُ، فَقَالَ : يَا بُرَيْدَةُ! أَلَسْتُ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِْن أَنْفُسِهِمْ؟ قُلْتُ : بَلَی، يَارَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ : مَنْ کُنْتُ مُوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ فِي السُّنَنِ الْکُبْریٰ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ. وَ قَالَ الْحَاکِمُ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ. ’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کے غزوہ میں شرکت کی جس میں مجھے آپ سے کچھ شکوہ ہوا۔ جب میںحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں واپس آیا تو میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کے بارے میں تنقیص کی۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے بریدہ! کیا میں مومنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ تو میں نے عرض کیا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمدنے اپنی مسند میں، امام نسائی نے ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں اور امام حاکم اور ابن ابی شيبہ نے روایت کیا ہے اور امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 26 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 347، الحديث رقم : 22995، والنسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 130، الحديث رقم : 8465، والحاکم في المستدرک، 3 / 110، الحديث رقم : 4578، وابن ابي شيبه في المصنف، 12 / 84، الحديث رقم : 12181. 27. عَنْ مَيْمُوْنٍ أَبِيْ عَبْدِ اﷲِ، قَالَ : قَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ رضی الله عنه وَ أَناَ أَسْمَعُ : نَزَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِوَادٍ يُقَالَ لَهُ وَادِی خُمٍ، فَأمَرَ بِالصَّلَاةِ، فَصَلاَّهَا بِهَجِيْرٍ، قَالَ : فَخَطَبَنَا وَ ظُلِّلَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِثَوْبٍ عَلَی شَجَرَةِ سَمْرَةَ مِنَ الشَّمْسِ، فَقَالَ : أَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَوْ لَسْتُمْ تَشْهَدُوْنَ أَنِّيْ أَوْلٰٰی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنَ نَفْسِهِ؟ قَالُوَا : بَلَی، قَالَ : فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَإِنَّ عَلِيًّا مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَ وَالِ مَنْ وَالَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي السُّنُنِ الْکُبْرَی وَالطَّبَرَانِيُّ فِی الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت میمون ابو عبد اﷲ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک وادی۔ . . جسے وادئ خم کہا جاتا تھا۔ . . میں اُترے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کا حکم دیا اور سخت گرمی میں جماعت کروائی۔ پھر ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا درآنحالیکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سورج کی گرمی سے بچانے کے لئے درخت پر کپڑا لٹکا کر سایہ کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا تم نہیں جانتے یا (اس بات کی) گواہی نہیں دیتے کہ میں ہر مومن کی جان سے قریب تر ہوں؟‘‘ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’پس جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ ! تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے اور اُسے دوست رکھ جواِسے دوست رکھے۔ اس حدیث کو امام احمد نے اپنی’’ مسند ‘‘میں اور بیہقی نے ’’السنن الکبریٰ ‘‘میں اور طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 27 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 372، والبيهقي في السنن الکبریٰ، 5 / 131، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 195، الحديث رقم : 5068، بسنده. 28. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه أنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ. (خود) حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے، اور طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 28 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 152، و الطبرانی في المعجم الاوسط، 7 / 448، الحديث رقم : 6878، و الهيثم عَنْ أبِي الطُّفَيْلِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، قَالَ : نَشَدَ عَلِيٌّ النَّاسَ : مَنْ سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ : ألَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أنِي أوْلَی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أنْفُسْهِمْ؟ قَالُوْا : بَلٰی، قَالَ : فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. فَقَامَ إِثْنَا عَشَرَ رَجُلاً فَشَهِدُوْا بِذَلِکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ. ’’ابو طفیل حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے حلفاً پوچھا کہ تم میں سے کون ہے جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا ہو : ’’کیا تم نہیں جانتے کہ میں مؤمنوں کی جانوں سے قریب تر ہوں؟ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو بھی اُسے دوست رکھ، اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔‘‘ (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس گفتگو پر) بارہ (12) آدمی کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے اس واقعہ کی شہادت دی۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 40 : أخرجه الطبرانی في المعجم الاوسط، 2 / 576، الحديث رقم : 1987، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 106، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 157، 158، و محب الدين طبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 127، و حسام الدين الهندی في کنز العمال، 13 / 157، الحديث رقم : 36485. 41. عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أُسَيْدٍ الْغَفَّارِيِّ. . . فَقَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ نَبَّأْنِي اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ أَنَّهُ لَنْ يُعَمَّرَ نَبِيٌ إِلَّا نِصْفَ عُمْرِ الَّذِيْ يَلِيْهِ مِنْ قَبْلِهِ، وَ إِنِّي لَأَظُنُّ أَنِّي يُوْشِکُ أَنْ أُدْعَی فَأُجِيْبُ، وَ إِنِّي مَسْؤُوْلٌ، وَ إِنَّکُمْ مَسْؤُوْلُوْنَ، فَمَاذَا أَنْتُمْ قَائِلُوْنَ؟ قَالُوْا : نَشْهَدُ أَنَّکَ قَدْ بَلَغْتَ وَ جَهَدْتَ وَ نَصَحْتَ، فَجَزَاکَ اﷲُ خَيْرًا، فَقَالَ : أَلَيْسَ تَشْهَدُوْنَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ، وَ أَنَّ جَنَّتَهُ حَقٌ وَ نَارَهُ حَقٌ، وَ أَنَّ الْمَوْتَ حَقٌّ، وَ أَنَّ الْبَعْثَ بَعْدَ الْمَوْتِ حَقٌ، وَ أَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيْهَا وَ أَنَّ اﷲَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُوْرِ؟ قَالُوْا : بَلَی، نَشْهَدُ بِذَالِکَ، قَالَ : اللَّهُمَّ! إشْهَدْ، ثُمَّ قَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ! إِنَّ اﷲَ مَوْلَايَ وَ أَنَا مَوْلَی الْمُؤْمِنِيْنَ وَ أَنَا أَوْلَی بِهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا مَوْلَاهُ يَعْنِي عَلِيًّا رضی الله عنه . . . أَللَّهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. ثُمَّ قَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ إِنِّي فَرَطُکُمْ وَ إِنَّکُمْ وَارِدُوْنَ عَلَی الْحَوْضِ، حَوْضٌ أُعْرَضُ مَا بَيْنَ بُصْرَی وَ صَنْعَاءَ، فِيْهِ عَدَدَ النَّجُوْمِ قَدْحَانٌ مِنْ فِضَّةٍ، وَ إِنِّي سَائِلُکُمْ حِيْنَ تَرِدُوْنَ عَلَيَّ عَنِ الثَّقَلَيْنِ، فَانْظُرُوْا کَيْفَ تُخَلِّفُوْنِي فِيْهِمَا، الثَّقَلُ الْأَکْبَرُ کِتَابُ اﷲِل سَبَبٌ طَرَفُهُ بِيَدِ اﷲِ وَ طَرَفُهُ بِأَيْدِيْکُمْ فَاسْتَمْسِکُوْا بِهِ لَا تَضِلُّوا وَ لَا تُبْدَلُوْا، وَ عِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي، فَإِنَّهُ قَدْ نَبَّأَنِي اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ أَنَّمَا لَنْ يَنْقَضِيَا حَتَّی يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت حذیفہ بن اُسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! مجھے لطیف و خبیر ذات نے خبر دی ہے کہ اللہ نے ہر نبی کو اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر عطا فرمائی اور مجھے گمان ہے مجھے (عنقریب) بلاوا آئے گا اور میں اُسے قبول کر لوں گا، اور مجھ سے (میری ذمہ داریوں کے متعلق) پوچھا جائے گا اور تم سے بھی (میرے متعلق) پوچھا جائے گا، (اس بابت) تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے ہمیں انتہائی جدوجہد کے ساتھ دین پہنچایا اور بھلائی کی باتیں ارشاد فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، جنت و دوزخ حق ہیں اور موت اور موت کے بعد کی زندگی حق ہے، اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں، اور اللہ تعالیٰ اہل قبور کو دوبارہ اٹھائے گا؟ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں! ہم ان سب کی گواہی دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! تو گواہ بن جا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! بیشک اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں تمام مؤمنین کا مولا ہوں اور میں ان کی جانوں سے قریب تر ہوں۔ جس کا میں مولا ہوں یہ اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔ اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ ’’اے لوگو! میں تم سے پہلے جانے والا ہوں اور تم مجھے حوض پر ملو گے، یہ حوض بصرہ اور صنعاء کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ چوڑا ہے۔ اس میں ستاروں کے برابر چاندی کے پیالے ہیں، جب تم میرے پاس آؤ گے میں تم سے دو انتہائی اہم چیزوں کے متعلق پوچھوں گا، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ تم میرے پیچھے ان دونوں سے کیا سلوک کرتے ہو! پہلی اہم چیز اللہ کی کتاب ہے، جو ایک حیثیت سے اللہ سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری حیثیت سے بندوں سے تعلق رکھتی ہے۔ تم اسے مضبوطی سے تھام لو تو گمراہ ہو گے نہ (حق سے) منحرف، اور (دوسری اہم چیز) میری عترت یعنی اہلِ بیت ہیں (اُن کا دامن تھام لینا)۔ مجھے لطیف و خبیر ذات نے خبر دی ہے کہ بیشک یہ دونوں حق سے نہیں ہٹیں گی یہاں تک کہ مجھے حوض پر ملیں گی۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 41 : أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 3 / 180، 181، الحديث رقم : 3052، و في 3 / 67، الحديث رقم : 2683، و في 5 / 166، 167، الحديث رقم : 4971، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 164، 165، و حسام الدين الهندی في کنزالعمال، 1 / 188، 189، الحديث رقم : 957، 958، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 166، 167، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 5 / 463. 42. عَنْ جَرِيْرٍ قَالَ : شَهِدْنَا الْمَوْسِمَ فِي حَجَّةٍ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ هِيَ حَجَّةُ الْوَدَاعِ، فَبَلَغْنَا مَکَانًا يُقَالُ لَهُ غَدِيْرُ خُمٍّ، فَنَادَی : الصَّلَاةَ جَامِعَةٌ، فَاجْتَمَعْنَا الْمُهَاجِرُوْنَ وَالْأَنْصَارُ، فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَسْطَنَا، فَقَالَ : أَيُهَا النَّاسُ! بِمَ تَشْهَدُوْنَ؟ قَالُوْا : نَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ؟ قَالَ : ثُمَّ مَهْ؟ قَالُوْا : وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ، قَالَ : فَمَنْ وَلِيُکُمْ؟ قَالُوْا : اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ مَوْلَانَا، قَالَ : مَنْ وَلِيُکُمْ؟ ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ إِلَی عَضْدِ عَلِيٍّ رضی الله عنه، فَأَقَامَهُ فَنَزَعَ عَضْدَهُ فَأَخَذَ بِذِرَاعَيْهِ، فَقَالَ : مَنْ يَکُنِ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ مَوْلَيَاهُ فَإِنَّ هَذَا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ، اللَّهُمَّ! مَنْ أَحَبَّهُ مِنَ النَّاسِ فَکُنْ لَهُ حَبِيْبًا، وَمَنْ أَبْغَضَهُ فَکُنْ لَهُ مُبْغِضًا۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پرحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جسے غدیر خم کہتے ہیں۔ نماز باجماعت ہونے کی ندا آئی تو سارے مہاجرین و انصار جمع ہو گئے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطاب فرمایا : اے لوگو! تم کس چیز کی گواہی دیتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر کس کی؟ انہوں نے کہا : بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا ولی کون ہے؟ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر فرمایا : تمہارا ولی اور کون ہے؟ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا اور (حضرت علی رضی اللہ عنہ کے) دونوں بازو تھام کر فرمایا : ’’اللہ اور اُس کا رسول جس کے مولا ہیں اُس کا یہ (علی) مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ (اور) جو اِس (علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، اے اللہ! جو اِسے محبوب رکھے تو اُسے محبوب رکھ اور جو اِس سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 42 : أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 2 / 357، الحديث رقم : 2505، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 106، و حسام الدين الهندی في کنزالعمال، 13 / 138، 139، الحديث رقم : 36437، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 179. 43. عَنْ عَمَرٍو ذِيْ مُرٍّ وَ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ قَالَا : خَطَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ، فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَهُ، اللَّهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ، وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَ أعِنْ مَنْ أعَانَهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’عمرو ذی مر اور زید بن ارقم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر خطاب فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، اور جو اِس کی نصرت کرے اُس کی تو نصرت فرما، اور جو اِس کی اِعانت کرے تو اُس کی اِعانت فرما۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے المعجم الکبير میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 43 : أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 5 / 192، الحديث رقم : 5059، و النسائی في ’خصائص امير المؤمنين علی بن ابی طالب رضی الله عنه، : 100، 101، الحديث رقم : 96، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 104، 106، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 4 / 170، وحسام الدين الهندی في کنزالعمال، 11 / 609، الحديث رقم : 32946. 44. عَنْ عُمَيْرِ بْنِ سَعْدٍ أنَّ عَلِيًّا جَمَعَ النَّاسَ فِي الرَّحْبَةِ وَ أنَا شَاهِدٌ، فَقَالَ : أنْشُدُ اﷲَ رَجُلًا سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، فَقَامَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ رَجُلًا فَشَهِدُوا أنَّهُمْ سَمِعُوْا النَبِيٌّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : ذَالِکَ. رَوَاهُ الهيثمي. ’’حضرت عمیر بن سعد سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کھلے میدان میں یہ قسم دیتے ہوئے سنا کہ کس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے؟ تو اٹھارہ (18) افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔ اس حدیث کو ہیثمی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 44 : أخرجه الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 108، و قال رواه الطبراني و أسناده حسن، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 158، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 4 / 171، و فيه 5 / 461، و حسام الدين الهندی في کنز العمال، 13 / 154، 155، الحديث رقم : 36480. 45. عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا رَجَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ حَجَّةِ الْوِدَاعِ وَ نَزَلَ غَدِيْرَ خُمٍّ، أمَرَ بِدَوْحَاتٍ، فَقُمْنَ، فَقَالَ : کَأنِّي قَدْ دُعِيْتُ فَأجَبْتُ، إِنِّيْ قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمُ الثَّقَلَيْنِ، أحَدُهُمَا أکْبَرُ مِنَ الْآخَرِ : کِتَابُ اﷲِ تَعَالٰی، وَعِتْرَتِيْ، فَانْظُرُوْا کَيْفَ تُخْلِفُوْنِيْ فِيْهِمَا، فَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّی يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ. ثُمَّ قَالَ : إِنَّ اﷲَ عزوجل مَوْلَايَ وَ أنَا مَوْلَی کَلِّ مُؤْمِنٍ. ثُمَّ أخَذَ بِيَدِ عَلِيٍَّ، فَقَالَ : مَْن کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا وَلِيُهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. ’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے اور غدیر خم پر قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا، وہ لگا دیئے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے، جسے میں قبول کر لوں گا۔ تحقیق میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں : ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے سامنے آئیں گی۔‘‘ پھر فرمایا : ’’بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔‘‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 45 : أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 109، الحديث رقم : 4576، والنسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 45، 130، الحديث رقم : 8148، 8464، والطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 166، الحديث رقم : 4969. 46. عنِ ابْنِ وَاثِلَةَ أنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ أرْقَمَ، يَقُوْلُ : نَزَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَ مَکَّةَ وَ الْمَدِيْنَةِ عِنْدَ شَجَرَاتٍ خَمْسٍ دَوْحَاتٍ عِظَامٍ، فَکَنَّسَ النَّاسُ مَا تَحْتَ الشَّجَرَاتِ، ثُمَّ رَاحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَشِيَةً، فَصَلَّی، ثُمَّ قَامَ خَطِيْباً فَحَمِدَ اﷲَ وَ أثْنَی عَلَيْهِ وَ ذَکَرَ وَ وَعَظَ، فَقَالَ : مَا شَاءَ اﷲُ أنْ يَقُوْلَ : ثُمَّ قَالَ : أيُهَا النَّاسُ! إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُمْ أمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوْا إِنِ اتَّبَعْتَمُوْهُمَا، وَ هُمَا کِتَابُ اﷲِ وَ أهْلُ بَيْتِي عِتْرَتِي، ثُمَّ قَالَ : أتَعْلَمُوْنَ أنِّي أوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أنْفُسِهُمْ؟ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، قَالُوْا : نَعَمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَقَالَ حَدِيثُ بُرَيْدَةَ الْأسْلَمِيِّ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. ’’حضرت ابن واثلہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ اُنہوں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے درمیان پانچ بڑے گھنے درختوں کے قریب پڑاؤ کیا۔ لوگوں نے درختوں کے نیچے صفائی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ دیر آرام فرمایا، نماز ادا فرمائی، پھر خطاب فرمانے کیلئے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور وعظ و نصیحت فرمائی، پھر جو اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم ان کی پیروی کرو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ (دو چیزیں) اللہ کی کتاب اور میرے اہلِ بیت و عترت ہیں۔‘‘ اس کے بعد فرمایا : ’’کیا تمہیں علم نہیں کہ میں مومنوں کی جانوں سے قریب تر ہوں؟‘‘ ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ سب نے کہا : جی ہاں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا : بریدہ اسلمی کی روایت کردہ حدیث امام بخاری ومسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 46 : أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 109، 110، الحديث رقم : 4577 47. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضی الله عنه، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتَّی انْتَهَيْنَا إِلَی غَدِيْر خُمٍّ، فَأَمَرَ بِرَوْحٍِ فَکَسَحَ فِي يَوْمٍ مَا أَتَی عَلَيْنَا يَوْمٌ کَانَ أَشَدُّ حَرًا مِنْهُ، فَحَمِدَ اﷲَ وَ أَثْنيَ عَلَيْهِ، وَ قَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ! أَنَّهُ لَمْ يُبْعَثْ نَبِيٌّ قَطُّ إِلَّا مَا عَاشَ نِصْفَ مَا عَاشَ الَّذِيْ کَانَ قَبْلَهُ وَ إِنِّيْ أوْشِکُ أَنْ أدْعٰی فَأجِيْبَ، وَ إِنِّيْ تَارِکٌ فِيْکُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَهُ کِتَابُ اﷲِ عزوجل. ثُمَّ قَامَ وَ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رضی الله عنه ، فَقَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ! مَنْ أَوْليَ بِکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ؟ قَالُوْا : اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، ألَسْتُ أوْلَی بِکُمْ مِنْ أنْفُسِکُمْ؟ قَالَوْا : بَلَی، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ اْلإِسْنَادِ. ’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ غدیر خم پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دن تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے اور ہمارے اوپر اس دن سے زیادہ گرم دن اس سے پہلے نہ گزرا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا : ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے جتنے نبی بھیجے ہر نبی نے اپنے سے پہلے نبی سے نصف زندگی پائی، اور مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے جسے میں قبول کر لوں گا۔ میں تمہارے اندر وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اُس کے ہوتے ہوئے تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، وہ کتاب اﷲ ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام کر فرمایا : ’’اے لوگو! کون ہے جو تمہاری جانوں سے زیادہ قریب ہے؟‘‘ سب نے کہا : اللہ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ (پھر) فرمایا : ’’کیا میں تمہاری جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور کہا : یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 47 : أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 533، الحديث رقم : 6272، والطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 171، 172، الحديث رقم : 4986. 48. عَنْ رَفَاعَةَ بْنِ إِيَاسٍ الضَّبِّيِّ، عَنْ أبِيْهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ : کُنَّا مَعَ عَلِيٍّ رضی الله عنه يَوْمَ الْجَمَلِ، فَبَعَثَ إِلَی طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اﷲِ أنْ إِلْقَنِيْ، فَأتَاهُ طَلْحَةُ، فَقَالَ : نَشَدْتُکَ اﷲَ، هَلْ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : فَلِمَ تُقَاتِلُنِيْ؟ قَالَ : لَمْ أذْکُرْ، قَالَ : فَانْصَرَفَ طَلْحَةُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. ’’حضرت رفاعہ بن ایاس ضبی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ہم جمل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے طلحہ بن عبید اللہ رضی اﷲ عنہما کی طرف ملاقات کا پیغام بھیجا۔ پس طلحہ اُن کے پاس آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جواُس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ؟‘‘ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’تو پھر میرے ساتھ کیوں جنگ کرتے ہو؟‘‘ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : مجھے یہ بات یاد نہیں تھی۔ راوی نے کہا : (اُس کے بعد) طلحہ رضی اللہ عنہ واپس لوٹ گئے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے‘‘ الحديث رقم 48 : أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 371، الحديث رقم : 5594 49. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی اﷲ عنهما قَالَ : کَنَّا بِالْجَحْفَةِ بِغَدِيْرِ خُمٍّ إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَأخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رضی الله عنه فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ. ’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ ہم جحفہ میں غدیر خم کے مقام پر تھے، جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر ہمارے پاس تشریف لائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اس حدیث کو ابن ابی شيبہ نے روایت کیا ہے‘‘ الحديث رقم 49 : أخرجه ابن ابی شيبه فی المصنف، 12 / 59، الحديث رقم : 12121 50. عَنْ أبِي يَزِيْدَ الْأوْدِيِّ عَنْ أبِيْهِ، قَالَ : دَخَلَ أبُوْهُرَيْرَةَ الْمَسْجِدَ فَاجْتَمَع إِلَيْهِ النَّاسُ، فَقَامَ إِلَيْهِ شَابٌ، فَقَالَ : أنْشُدُکَ بِاﷲِ، أسَمِعْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ. فَقَالَ : أشْهَدُ أنْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ أَبُوْيَعْلَی فِي مُسْنَدِهِ. ’’ابو یزید اودی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دفعہ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے اردگرد جمع ہو گئے۔ اُن میں سے ایک جوان نے کھڑے ہو کر کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کویہ فرماتے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ؟ اِس پر انہوں نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ۔ اس حدیث کو ابويعلی نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 50 : أخرجه أبو يعلی في المسند، 11 / 307، الحديث رقم : 6423، و ابن ابی شيبه في المصنف، 12 / 68، الحديث رقم : 12141، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 175، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 105، 106، و ابن کثير في البدايه و النهايه، 4 / 174. 51. عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ : قَالَ سَعْدٌ : أَمَا وَاﷲِ إِنِّيْ لَأَعْرِفُ عَلِيًّا وَمَا قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَشْهَدُ لَقَالَ لِعَلِيٍّ يَوْمَ غَدِيْرِخُمٍّ وَ نَحْنُ قُعُوْدٌ مَعَهُ فَأَخَذَ بِضُبْعِهِ ثُمَّ قَامَ بِهِ ثُمَّ قَالَ أَيُهَاالنَّاسُ مَنْ مَوْلَاکُمْ قَالُوْا : اﷲُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَوَالِ مَنْ وَالَاهُ. رَوَاهُ الشَّاشِيُّ فِي الْمُسْنَدِ. ’’حضرت عامر بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا : خدا کی قسم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے متعلق جو کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو غدیر خم والے دن فرمایا : اس وقت جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر کا کونہ پکڑا اور کھڑے ہوئے پھر فرمایا : اے لوگو! تمہارا مولا کون ہے؟ تو صحابہ نے عرض کیا اﷲ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں تو علی اس کا مولا ہے۔ اے اﷲ تو اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھتا ہے اور اس کو دوست بنا جو علی کو دوست بناتا ہے۔ اس حدیث کو شاشی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 51 : أخرجه الشاشی فی المسند، 1 / 165، 166، الحديث رقم : 106. 52. عَنْ يَزِيْدَ بْنِ عُمَرَ بْنِ مُوْرِقٍ قَالَ : کُنْتُ بِالشَّامِ وَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيْزِ يُعْطِيْ النَّاسَ، فَتَقَدَّمْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ لِي : مِمَّنْ أنْتَ؟ قُلْتُ : مِنْ قُرَيْشٍ، قَالَ : مِنْ أيِّ قُرَيْشٍ؟ قُلْتُ : مِنْ بَنِي هَاشِمٍ، قَالَ : مِنْ أيِّ بَنِي هَاشِمٍ؟ قَالَ : فَسَکَتُّ. فَقَالَ : مِنْ أَيِّ بَنِي هَاشِمٍ؟ قُلْتُ : مَوْلَی عَلِيٍّ، قَالَ : مَنْ عَلِيٌّ؟ فَسَکَتُّ، قَالَ : فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَی صَدْرِيْ وَ قَالَ : وَ أنَا وَاﷲِ مَوْلَی عَلِيِّ بْنِ أبِي طَالِبٍ، ثُمَّ قَالَ : حَدِّثْني عِدَّةً أنَّهُمْ سَمِعُوْا النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، ثُمَّ قَالَ : يَا مَزَاحِمُ! کَمْ تُعْطِي أمْثَالَهُ؟ قَالَ : مِائَةً أوْ مِائَتَي دِرْهَمٍ، قَالَ : أَعْطِهِ خَمْسِيْنَ دِيْنَارًا، وَقَالَ ابْنُ أبِي دَاؤُدَ : سِتِّيْنَ دِيْنَارًا لِوِلَايَتِهِ عَلِيَّ بْنَ أبِي طالب رضی الله عنه، ثُمَّ قَالَ : ألْحَقُ بِبَلِدِکَ فَسَيَأتِيْکَ مِثْلُ مَا يَأتِي نُظَرَاءَ کَ. رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ. ’’حضرت یزید بن عمر بن مورق روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر میں شام میں تھا جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ لوگوں کو نواز رہے تھے۔ پس میں ان کے پاس آیا، اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کس قبیلے سے ہیں؟ میں نے کہا : قریش سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ قریش کی کس (شاخ) سے؟ میں نے کہا : بنی ہاشم سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ راوی کہتے ہیں کہ میں خاموش رہا۔ اُنہوں نے (پھر) پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ میں نے کہا : مولا علی (کے خاندان سے)۔ اُنہوں نے پوچھا کہ علی کون ہے؟ میں خاموش رہا۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہا : ’’بخدا! میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا غلام ہوں۔‘‘ اور پھر کہا کہ مجھے بے شمار لوگوں نے بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ پھر مزاحم سے پوچھا کہ اِس قبیلہ کے لوگوں کو کتنا دے رہے ہو؟ تو اُس نے جواب دیا : سو (100) یا دو سو (200) درہم. اِس پر اُنہوں نے کہا : ’’علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی قرابت کی وجہ سے اُسے پچاس (50) دینار دے دو، اور ابنِ ابی داؤد کی روایت کے مطابق ساٹھ (60) دینار دینے کی ہدایت کی، اور (اُن سے مخاطب ہو کر) فرمایا : آپ اپنے شہر تشریف لے جائیں، آپ کے پاس آپ کے قبیلہ کے لوگوں کے برابر حصہ پہنچ جائے گا۔ اس حدیث کو ابونعيم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 52 : أخرجه أبو نعيم في حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 5 / 364، و ابن عساکر في التاريخ الدمشق الکبير، 48 / 233، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 69 / 127، ابن اثير في اسد الغابه فی معرفة الصحابه، 6 / 427، 428 53. عَنْ سَعْدِ بْنِ أبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه، قَالَ : لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ فِي عَلِيٍّ ثَلاَثَ خِصَالٍ، لِأَنْ يَکُوْنَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ. سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : إِنَّهُ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ، وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّأيَةَ غَدًا رَجُلاً يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ، وَ يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَ الشَّاشِيُّ فِي الْمُسْنَدِ. ’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تین خصلتیں ایسی بتائی ہیں کہ اگر میں اُن میں سے ایک کا بھی حامل ہوتا تو وہ مجھے سُرخ اُونٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ایک موقع پر) ارشاد فرمایا : ’’علی میرے لیے اسی طرح ہے جیسے ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھے، (وہ نبی تھے) مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اور فرمایا : ’’میں آج اس شخص کو علم عطا کروں گا جو اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ (راوی کہتے ہیں کہ) میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (اس موقع پر) یہ فرماتے ہوئے بھی سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اس حدیث کو امام نسائی اور شاشی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 53 : أخرجه النسائی في خصائص امير المومنين علی بن ابی طالب رضی الله عنه : 33، 34، 88، الحديث رقم : 10، 80، و الشاشی في المسند، 1 / 165، 166، الحديث رقم : 106، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 88، وحسام الدين هندی في ’کنز العمال، 15 / 163، الحديث رقم : 36496. 54. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه، أنَّ النَّبِيَ صلی الله عليه وآله وسلم قَامَ بِحَفْرَةِ الشَّجَرَةِ بِخُمٍّ، وَ هُوَ آخِذٌ بِيَدِ عَلِيٍّ رضی الله عنه فَقَالَ : أيُهَا النَّاسُ! ألَسْتُمْ تَشْهَدُوْنَ أنَّ اﷲَ رَبُّکُمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، قَالَ : ألَسْتُمْ تَشْهَدُوْنَ أنَّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ أوْلَی بِکُمْ مِنْ أنْفُسِکُمْ. قَالُوْا : بَلَی، وَ أنَّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ مُوْلَاکُمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، قَالَ : فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَإِنَّ هَذَا مَوْلَاهُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَ ابْنُ عَسَاکِرَ وَحُسَامُ الدِّيْنِ الْهِنْدِيُّّ. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ خم پر ایک درخت کے نیچے کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کاہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے لوگو! کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ تمہارا رب ہے؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ اور اس کا رسول تمہاری جانوں سے بھی قریب تر ہیں؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔ اس حدیث کو ابن ابی عاصم، ابن عساکر اور حسام الدين ھندی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 54 : أخرجه ابن ابی عاصم في کتاب السنه : 603، الحديث رقم : 1360، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 161، 162، وحسام الدين هندی في ’کنزالعمال، 13 / 140، الحديث رقم : 36441. 55. قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : ألَا! إِنَّ اﷲَ وَلِيِّي وَ أنَا وَلِيُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ، مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ حُسَامُ الدِّيْنِ الْهِنْدِيُّ. ’’ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) آگاہ رہو! بے شک اللہ میرا ولی ہے اور میں ہر مؤمن کا ولی ہوں، پس جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اس حدیث کو حسام الدين ھندی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 55 : أخرجه حسام الدين هندی في ’کنزالعمال، 11 / 608، الحديث رقم : 32945، و ابن حجر عسقلانی في الإصابه فی تمييز الصحابه، 4 / 328 56. عَنْ عَمَرِو بْنِ ذِيْ مُرٍّ وَ سَعِيْدِ بْنِ وَهْبٍ وَ عَنْ زَيْدِ بْنِ يَثِيْعَ قَالُوْا : سَمِعْنَا عَلِيًّا يَقُوْلُ نَشَدْتُ اﷲَ رَجُلاً سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ، لَمَّا قَامَ، فَقَامَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا فَشَهِدُوْا أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : ألَسْتُ أوْلَی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أنْفُسِهِمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، يَا رَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ : فَأخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ، فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ، وَ أحِبَّ مَنْ أحَبَّهُ، وَ أبْغِضْ مَنْ يُبْغِضُهُ، وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ، وَ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ. رَوَاهُ الْبَزَّارُ. ’’عمرو بن ذی مر، سعید بن وہب اور زید بن یثیع سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں ہر اس آدمی سے حلفاً پوچھتا ہوں جس نے غدیر خم کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہو، اس پر تیرہ آدمی کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ! راوی کہتا ہے : تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس (علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس (علی) سے محبت کرے تو اُس سے محبت کر، جو اِس (علی) سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ، جو اِس (علی) کی نصرت کرے تو اُس کی نصرت فرما اور جو اِسے رسوا (کرنے کی کوشش) کرے تو اُسے رسوا کر۔ اس کو بزار نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 56 : أخرجه البزار في المسند، 3 / 35، الحديث رقم : 786، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 104، 105، و الطحاوی في مشکل الآثار، 2 / 308، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 159، 160، و حسام الدين الهندی في کنز العمال، 13 / 158، الحديث رقم : 36487، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 4 / 169، و في5 / 462. 57. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أبِي لَيْلٰی، قَالَ : خَطَبَ عَلِيٌّ رضی الله عنه فَقَالَ : أَنْشُدُ اﷲَ امْرَءً نَشْدَةَ الْإِسْلَامِ سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ أخَذَ بِيَدِي، يَقُوْلُ : ألَسْتُ أوْلَی بِکُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ أنْفُسِکُمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ، وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ، وَ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ، إِلَّا قَامَ فَشَهِدَ، فَقَامَ بِضْعَةَ عَشَرَ رَجُلاً فَشَهِدُوا، وَکَتَمَ فَمَا فَنَوْا مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا عَمُّوْا وَ بَرَصُوْا۔ رَوَاهُ حُسَامُ الدِّيْنِ الهِنْدِيُّ. ’’عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا : میں اس آدمی کو اللہ اور اسلام کی قسم دیتا ہوں، جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن میرا ہاتھ پکڑے ہوئے یہ فرماتے سنا ہو : ’’اے مسلمانو! کیا میں تمہاری جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس (علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس (علی) کی مدد کرے تو اُس کی مدد فرما، جو اِس کی رسوائی چاہے تو اُسے رسوا کر؟‘‘ اس پر تیرہ (13) سے زائد افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی اور جن لوگوں نے یہ باتیں چھپائیں وہ دُنیا میں اندھے ہو کر یا برص کی حالت میں مر گئے۔ اس کو حسام دین ھندی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 57 : أخرجه حسام الدين هندی في کنز العمال، 13 / 131، الحديث رقم : 36417، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 158. (5) بَابٌ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : عَلِيٌّ وَلِيُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِيْ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان : میرے بعد علی ہر مومن کا ولی ہے) 58. عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ مِنْهَا إِنَّ عَلِيًّا مِّنِّيْ وَأَنَا مِنْهُ وَهُوَ وَلِيُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِيْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور میرے بعد وہ ہر مسلمان کا ولی ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 58 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب، 5 / 632، الحديث رقم : 3712، وابن حبان في الصحيح، 15 / 373، الحديث رقم : 6929، و الحاکم في المستدرک، 3 / 119، الحديث رقم : 4579، و النسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 132، الحديث رقم : 8474، و ابن ابي شيبة في المصنف، 6 / 373، 372، الحديث رقم : 32121، وأبويعلی في المسند، 1 / 293، الحديث رقم : 355، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 128، الحديث رقم : 265. 59. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ فِيْهَا عَنْهُ قَالَ : قَالَ : وَ قَالَ لِبَنِي عَمِّهِ أَيُکُمْ يُوَالِيْنِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؟ قَالَ : وَ عَلِيٌّ مَعَهُ جَالِسٌ. فَأَبَوْا فَقَالَ عَلِيٌّ : أَنَا أوَالِيْکَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ : أَنْتَ وَلِيِّيْ فِيْ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ، فَتَرَکَهُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلٰی رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَقَالَ : أَيُکُمْ يُوَالِيْنِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؟ فَأَبَوْا قَالَ، فَقَالَ عَلِيٌّ : أَنَا أُوَالِيْکَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. فَقَالَ : أَنْتَ وَلِيِّ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. رَوَاهُ أحْمَدُ. ’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا کے بیٹوں سے کہا تم میں سے کون دنیا و آخرت میں میرے ساتھ دوستی کرے گا؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے انکار کردیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دنیا و آخرت میں دوستی کروں گا، اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے علی تو دنیا وآخرت میں میرا دوست ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اللہ عنہ سے آگے ان میں سے ایک اور آدمی کی طرف بڑھے اور فرمایا : تم میں سے دنیا و آخرت میں میرے ساتھ کون دوستی کرے گا؟ تو انہوں نے بھی انکار کردیا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس پر پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : یارسول اﷲ! میں آپ کے ساتھ دنیا و آخرت میں دوستی کروں گا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! تو دنیا و آخرت میں میرا دوست ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 59 : أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062، والحاکم في المستدرک، 3 / 143، الحديث رقم : 4652، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 119، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 603. 60. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا عَنْهُ قَالَ : وَ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْتَ وَلِيِّيْ فِيْ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِيْ. رَوَاهُ أحْمَدُ. ’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! تو میرے بعد ہر مومن کے لئے میرا ولی ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 60 : أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062. 61. عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أبِيْهِ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ کُنْتُ وَلِيَهُ فَعَلِيٌّ وَلِيُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنَّبَلٍ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ وَ الْأَوْسَطِ. ’’حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں ولی ہوں، اُس کا علی ولی ہے۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے اور طبرانی نے ’’المعجم الکبير،، اور ’’ المعجم الاوسط،، میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 61 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 361، الحديث رقم : 23107، و الحاکم في المستدرک، 2 / 141، الحديث رقم : 2589، و الطبرانی في المعجم الکبير، 5 / 166، الحديث رقم : 4968، و الطبرانی في المعجم الاوسط، 3 / 100، 101، الحديث رقم : 2204، و ابن ابی شيبه في المصنف، 12 / 57، الحديث رقم : 12114، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 108، و ابن ابی عاصم في کتاب السنه : 601، 603، الحديث رقم : 1351، 1366، و أحمد بن حنبل أيضا في فضائل الصحابه، 2 / 563، الحديث رقم : 947. 62. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ کُنْتُ وَلِيَهُ فَإِنَّ عَلِيًّا وَلِيُهُ. وَ فِي رِوَايَةٍ عَنْهُ : مَنْ کُنْتُ وَلِيَهُ فَعَلِيٌّ وَلِيُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَ الْحَاکِمُ وَ عَبْدُالرَّزَّاقُ وَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. ’’حضرت عبد اﷲ بن بریدہ اسلمی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں ولی ہوں تحقیق اُس کا علی ولی ہے۔‘‘ اُنہی سے ایک اور روایت میں ہے (کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) ’’جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے۔ اس حدیث کوامام احمد بن حنبل، حاکم، عبدالرزاق اور ابن ابی شيبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 62 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 358، الحديث رقم : 23080، و الحاکم في المستدرک، 2 / 129، الحديث رقم : 2589، و عبدالرزاق في المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و ابن ابی شيبه في المصنف، 12 / 84، الحديث رقم : 12181، و الهيثمی في ’مجمع الزوائد، 9 / 108، و النسائی في الخصائص امير المؤمنين علی بن ابی طالب رضی الله عنه : 85، 86، الحديث رقم : 77، وحسام الدين الهندی في’کنزالعمال، 11 / 602، الحديث رقم : 32905، وأبو نعيم في حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 4 / 23، وابن عساکر في تاريخ الدمشق الکبير، 45 / 76. 63. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضی الله عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أوْصِي مَنْ آمَنَ بِي وَ صَدَّقَنِيْ بِوِلَايَةِ عَلِيِّ بْنِ أبِي طَالِبٍ، مَنْ تَوَلَّاهُ فَقَدْ تَوَلَّانِي وَ مَنْ تَوَلَّانِي فَقَدْ تَوَلَّی اﷲَ عزوجل وَ مَنْ أحَبَّهُ فَقَدْ أحَبَّنِي، وَ مَنْ أحَبَّنِي فَقَدْ أحَبَّ اﷲَ عزوجل وَ مَنْ أبْغَضَهُ فَقَدْ أبْغَضَنِيْ وَ مَنْ أبْغَضَنِي فَقَدْ أبْغَضَ اﷲَ عزوجل. رَوَاهُ الهيثمي فِي مَجْمَعِ الزَّوَائِدِ. ’’حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی اُسے میں ولایتِ علی کی وصیت کرتا ہوں، جس نے اُسے ولی جانا اُس نے مجھے ولی جانا اور جس نے مجھے ولی جانا اُس نے اللہ کو ولی جانا، اور جس نے علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی اُس نے اللہ سے محبت کی، اور جس نے علی سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اُس نے اللہ سے بغض رکھا۔ اس حدیث کو ہیثمی نے مجمع الزوائد میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 63 : أخرجه الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 108، 109، و ابن عساکر في التاريخ الدمشق الکبير، 45 : 181، 182، وحسام الدين الهندی في کنز العمال، 11 / 611، الحديث رقم : 32958. 84. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا عَنْهُ قَالَ : وَ خَرَجَ بِالنَّاسِ فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ. قَالَ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ : أَخْرُجُ مَعَکَ؟ قَالَ : فَقَالَ لَهُ نَبِيُّ اﷲِ لَا فَبَکَي عَلِيٌّ فَقَالَ لَهُ أَمَا تَرْضٰي أَنْ تَکُونَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هٰرُوْنَ مِنْ مُوسٰي؟ إِلَّا أَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ. إِنَّهُ لَا يَنْبَغِيْ أَنْ أَذْهَبَ إِلَّا وَ أَنْتَ خَلِيْفَتِيْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے ساتھ غزوہ تبوک کے لئے نکلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : کیا میں بھی آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے ساتھ چلوں؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ رو پڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تو میرے لئے ایسے ہے جیسے ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے لئے تھے؟ مگر یہ کہ تو نبی نہیں۔ تجھے اپنا نائب بنائے بغیر میرا کوچ کرنا مناسب نہیں۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ (9) بَابٌ فِيْ قُرْبِهِ وَ مَکَانَتِهِ رضي الله عنه عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم (علی المرتضیٰ کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں قرب اور مقام و مرتبہ)85. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمَرِو بْنِ هِنْدٍ الْجَمَلِيِّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : کُنْتُ إِذَا سَأَلْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَعْطَانِيْ، وَ إِذَا سَکَتُّ ابْتَدَأَنِيْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ . ’’حضرت عبداﷲ بن عمر و بن ہند جملی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی چیز مانگتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے عطا فرماتے اور اگر خاموش رہتا تو بھی پہلے مجھے ہی دیتے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا : یہ حدیث حسن ہے‘‘ الحديث رقم 85 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 637، الحديث رقم : 3722، وفيابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 640، الحديث رقم : 3729، و الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 135، الحديث رقم : 4630، والمقدسي في الأحاديث المختاره، 2 / 235، الحديث رقم : 614، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 142، الحديث رقم : 8504. 86. عَنْ جَابِرٍ، قَالَ : دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا يَوْمَ الطَّائِفِ فَانْتَجَاهُ، فَقَالَ النَّاسُ : لَقَدْ طَالَ نَجْوَاهُ مَعَ ابْنِ عَمِّهِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَا انْتَجَيْتُهُ وَلَکِنَّ اﷲَ انْتَجَاهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ طائف کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے سرگوشی کی، لوگ کہنے لگے آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ کافی دیر تک سرگوشی کی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے نہیں کی بلکہ اﷲ نے خود ان سے سرگوشی کی ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ ’’اس قول کا معنی کہ ’’بلکہ اﷲ نے ان سے سرگوشی کی‘‘ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ ان کے کان میں کچھ کہوں۔‘‘ الحديث رقم 86 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 639، الحديث رقم : 3726، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 598، الحديث رقم : 1321، والطبراني في العمجم الکبير، 2 / 186، الحديث رقم : 1756. 87. عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِعَلِيٍّ يَاعَلِيُّ لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ يُجْنَبُ فِيْ هَذَا المَسْجِدِ غَيْرِيْ وَ غَيْرُکَ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ المُنْذِرِ : قُلْتُ لِضَرَارِ بْنِ صُرَدَ : مَا مَعْنَي هَذَا الحديث؟ قَالَ : لاَ يَحِلُّ لِأَحَدٍ يَسْتَطْرِقُهُ جُنُباً غَيْرِيْ وَغَيْرُکَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ حالت جنابت میں اس مسجد میں رہے۔ علی بن منذر کہتے ہیں کہ میں نے ضرار بن صرد سے اس کے معنی پوچھے تو انہوں نے فرمایا : اس سے مراد مسجد کو بطور راستہ استعمال کرنا ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 87 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 639، الحديث رقم : 3727، والبزار في المسند، 4 / 36، الحديث رقم : 1197، و أبو يعلي في المسند، 2 / 311، الحديث رقم : 1042، و البيهقي في السنن الکبري، 7 / 65، الحديث رقم : 13181. 88. عَنْ أُمِّ عَطِيَةَ قَالَتْ : بَعَثَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم جَيْشًا فِيْهِمْ عَلِيٌّ قَالَتْ : فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَقُوْلُ : اللّٰهُمَّ لَا تُمِتْنِيْ حَتَّي تُرِيَنِيْ عَلِيًّا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت امِ عطیہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہے تھے کہ یا اﷲ مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک میں علی کو (واپس بخیرو عافیت) نہ دیکھ لوں، اس حدیث کو امام ترمذی نے بیان کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 88 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 643، الحديث رقم : 3737، و الطبراني في المعجم الکبير، 25 / 68، الحديث رقم : 168، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 48، الحديث رقم : 2432، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 609، الحديث رقم : 1039. 89. عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلي الله عليه وآله وسلم : رَحِمَ اﷲُ أَبَا بَکْرٍ زَوَّجَنِيَ ابْنَتَهُ، وَ حَمَلَنِيْ إِلٰي دَارِ الْهِجْرَةِ، وَ أَعْتَقَ بِلَالًا مِنْ مَالِهِ، رَحِمَ اﷲُ عُمَرَ، يَقُوْلُ الْحَقَّ وَ إِنْ کَانَ مُرًّا، تَرَکَهُ الْحَقُّ وَمَا لَهُ صَدِيْقٌ، رَحِمَ اﷲُ عُثْمَانَ، تَسْتَحِيْهِ الْمَلَائِکَةُ، رَحِمَ اﷲُ عَلِيًّا، اللَّهُمَّ أَدِرِ الْحَقَّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے اس نے اپنی بیٹی میرے نکاح میں دی اور مجھے دار الہجرۃ لے کر آئے اور بلال کو بھی انہوں نے اپنے مال سے آزاد کرایا۔ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے یہ ہمیشہ حق بات کرتے ہیں اگرچہ وہ کڑوی ہو اسی لئے وہ اس حال میں ہیں کہ ان کا کوئی دوست نہیں۔ اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمائے۔ اس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ علی پر رحم فرمائے۔ اے اللہ یہ جہاں کہیں بھی ہو حق اس کے ساتھ رہے۔ اس حدیث کو امام ترمذي نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 89 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 633، الحديث رقم : 3714، و الحاکم في المستدرک علي الصحييحين، 3 / 134، الحديث رقم : 4629، و الطبراني في المعجم الاوسط، 6 / 95، الحديث رقم : 5906، و البزار في المسند، 3 / 52، الحديث رقم : 806، و أبويعلي في المسند، 1 : 418، الحديث رقم : 550. 90. عَنْ حَنَشٍ قَالَ : رَأَيْتُ عَلِيًّا رضي الله عنه يُضَحِّيْ بِکَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ : مَا هَذَا؟ فَقَالَ : أَوْصَانِيْ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّيَ عَنْهُ. رَوَاهُ أَبُوْدَاؤْدَ. ’’حضرت حنش رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھوں کی قربانی کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں ان کی طرف سے بھی قربانی کروں لہٰذا میں ان کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔ اس حدیث کو امام ابوداود نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 90 : أخرجه أبوداؤد في السنن، کتاب الضحايا، باب الأضحية عن الميت، 3 / 94، الحديث رقم : 2790، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 150، الحديث رقم : 1285. 91. عَنِ ابْنِ نُجَيٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : کَانَ لِي مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَدْخَلاَنِ : مَدْخَلٌ بِاللَّيْلِ وَمَدْخَلٌ بِالنَّهَارِ، فَکُنْتُ إِذَا دَخَلْتُ بِاللَّيْلِ تَنَحْنَحَ لِي. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ. ’’حضرت عبداللہ بن نجی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ میں دن رات میں دو دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتا۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں رات کے وقت حاضر ہوتا (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے ہوتے )تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اجازت عنایت فرمانے کے لئے کھانستے۔ اس حدیث کو نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 91 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب السهو، باب التنحنح في الصلاة، 3 / 12، الحديث رقم : 1212، و ابن ماجة في السنن، کتاب الأدب، باب الإستئذان، 2 / 1222، الحديث رقم : 3708، و النسائي في السنن الکبري، 1 / 360، الحديث رقم : 1136، و ابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 242، الحديث رقم : 25676. 92. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ اِذَا غَضِبَ لَمْ يَجْتَرِيئْ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ يُکَلِّمَهُ إِلاَّ عَلِيٌّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِيْ الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ وَالْحَاکِمُ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ. ’’حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ناراضگی کے عالم میں ہوتے تو ہم میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کسی کو کلام کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں اور حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 92 : أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 4 / 318، الحديث رقم : 4314، والحاکم في المستدرک، 3 / 141، الحديث رقم : 4647، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 116. 93. عَنْ أَبِيْ رَافِعٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ لِعَلِيٍّ : أَمَا تَرْضَي إِنَّکَ أَخِيْ وَ أَنَا أَخُوْکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے فرمایا : تم اس پر راضی نہیں کہ تو میرا بھائی اور میں تیرا بھائی ہوں۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 93 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 1 / 319، الحديث رقم : 949، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131. 94. عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ نُجَيٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : کَانَتْ لِيْ سَاعَةٌ مِنَ السَّحَرِ أَدْخُلُ فِيْهَا عَلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَإِنْ کَانَ قَائِمًا يُصَلِّيْ سَبَّحَ بِيْ فَکَانَ ذَاکَ إِذْنُهُ لِيْ. وَ إِنْ لَمْ يَکُنْ يُصَلِّيْ أَذِنَ لِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عبداللہ بن نجی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : سحری کے وقت ایک ساعت ایسی تھی کہ جس میں مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہونا نصیب ہوتا۔ پس اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے تو مجھے بتانے کے لیے تسبیح فرماتے پس یہ میرے لئے اجازت ہوتی اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز نہ پڑھ رہے ہوتے تو مجھے اجازت عنایت فرما دیتے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 94 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 77، الحديث رقم : 570 95. عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ نُجَيِّ الْحَضْرَمِِيِّ عَنْ أَبِيْهِ فِيْ رِوَايةٍ طَوِيْلَةٍ وَ فِيْهَا عَنْهُ قَالَ : قَالَ لِيْ عَلِيٌّ : کَانَتْ لِيْ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَنْزِلَةٌ لَمْ تَکُنْ لِأَحَدٍ مِنَ الخَلَائِقِ، ..... رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عبداللہ بن نجی الحضرمی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں میرا ایک خاص مقام و مرتبہ تھا جو مخلوقات میں سے کسی اور کا نہیں تھا۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 95 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 85، الحديث رقم : 647، و البزار في المسند، 3 / 98، الحديث رقم : 879، و المقدسي في الأحاديث المختاره، 2 / 374، الحديث رقم : 757. 96. عَنْ جَابِرٍ قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عِنْدَ امْرَأَةِ مِنَ الأَنْصَارِ، صَنَعَتْ لَهُ طَعَامًا فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : يَدْخُلُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهلِ الْجَنَّةِ فَدَخَلَ أَبُوبَکْرٍ رضي الله عنه فَهَنَّيْنَاهُ ثُمَّ قَالَ : يَدْخُلُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَدَخَلَ عُمَرُ رضي الله عنه فَهَنَّيْنَاهُ ثُمَّ قَالَ : يَدْخُلُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم، يُدْخِلُ رَأْسَهُ تَحْتَ الْوَدِيِّ فَيَقُوْلُ : اللَّهُمَّ! إِنْ شِئْتَ جَعَلْتَهُ عَلِيًّا فَدَخَلَ عَلِيٌّ رضي الله عنه فَهَنَّيْنَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری عورت کے گھر میں تھے جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے کھانا تیار کیا تھا۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا پس ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو ہم نے انہیں مبارک باد دی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو ہم نے انہیں مبارک باد دی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا۔ راوی بیان کرتے ہیں : میں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا سر انور چھوٹی کھجور کی شاخوں میں سے نکالے ہوئے فرما رہے تھے اے اللہ اگر تو چاہتا ہے تو اس آنے والے کو علی بنا دے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو ہم نے انہیں مبارک باد دی۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 96 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 331، الحديث رقم : 14590، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 209، الحديث رقم : 233. 97. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ : وَالَّذِي أَحْلِفُ بِهِ إنْ کَانَ عَلِيٌّ لَأَقْرَبَ النَّاسِ عَهْدًا بِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَتْ : عُدْنَا رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم غَدَاةً بَعْدَ غَدَاةٍ يَقُوْلُ : جَاءَ عَلِيٌّ مِرَارًا. قَالَتْ : وًأَظُنُّهُ کَانَ بَعَثَهُ فِي حَاجَةٍ. قَالَتْ فَجَاءَ بَعْدُ فَظَنَنْتُ أَنَّ لَهُ إِلَيْهِ حَاجَةً فَخَرَجْنَا مِنَ الْبَيْتِ فَقَعَدْنَا عِنْدَ الْبَابِ فَکُنْتُ مِنْ أَدْنَاهُمْ إِلَي الْبَابِ، فَأَکَبَّ عَلَيْهِ عَلِيٌّ فَجَعَلَ يُسَارُّهُ وَيُنَاجِيْهِ، ثُمَّ قُبِضَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ يَوْمِهِ ذَلِکَ، فَکَانَ أَقْرَبَ النَّاسِ بِهِ عَهْدًا. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں اس ذات کی قسم جس کا میں حلف اٹھاتی ہوں حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عہد کے اعتبار سے سب سے زیادہ قریب تھے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ ہم نے آئے روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عیادت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ علی (میری عیادت کے لئے) بہت مرتبہ آیا ہے۔ آپ بیان کرتی ہیں : میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی ضروری کام سے بھیجا تھا۔ آپ فرماتی ہیں : اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے سمجھا آپ کو شاید حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کوئی کام ہو گا پس ہم باہر آ گئے اور دروازے کے قریب بیٹھ گئے اور میں ان سب سے زیادہ دروازے کے قریب تھی پس حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرگوشی کرنے لگے پھر اس دن کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے پس حضرت علی رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے زیادہ عہد کے اعتبار سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب تھے۔اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 97 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 300، الحديث رقم : 26607، و الحاکم في المستدرک، 3 / 149، الحديث رقم : 4671، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 112. 98. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : لَمَّا خَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي الْمَدِيْنَةِ فِي الْهِجْرَةِ، أَمَرَنِي أَنْ أُقِيْمَ بَعْدَه حَتَّي أُؤَدِّيَ وَدَائِعَ کَانَتْ عِنْدَهُ لِلنَّاسِ، وِلِذَا کَانَ يُسَمَّي الأَمِيْنُ. فَأَقَمْتُ ثَلاَ ثًا، فَکُنْتُ أَظْهَرُ، مَا تَغَيَبْتُ يَوْمًا وَاحِدًا ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَعَلْتُ أَتْبَعُ طَرِيْقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حَتَّي قَدِمْتُ بَنِيْ عَمَرِو بْنِ عَوْفٍ وَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مُقِيْمٌ، فَنَزَلْتُ عَلَي کُلْثُوْمِ بْنِ الْهِدْمِ، وَهُنَالِکَ مَنْزِلُ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَی. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کی غرض سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو مجھے حکم دیا کہ میں ابھی مکہ میں ہی رکوں تاآنکہ میں لوگوں کی امانتیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھیں وہ انہیں لوٹا دوں۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا پس میں نے تین دن مکہ میں قیام کیا، میں مکہ میں لوگوں کے سامنے رہا، ایک دن بھی نہیں چھپا۔ پھر میں وہاں سے نکلا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے چلا یہاں تک کہ بنو عمرو بن عوف کے ہاں پہنچا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں مقیم تھے۔ پس میں کلثوم بن ھدم کے ہاں مہمان ٹھہرا اور وہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام تھا۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 98 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبري، 3 / 22. 99. عَنْ جَعْفَرٍ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : عَلِيٌّ رضي الله عنه : بِتْنَا لَيْلَةً بِغَيْرِ عَشَاءٍ، فَأَصبَحْتُ فَخَرَجْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَي فَاطِمَةَ عليها السلام. وَهِيَ مَحْزُوْنَةٌ فَقُلْتُ : مَا لَکِ؟ فَقَالَتْ : لَمْ نَتَعَشَّ البَارِحًةَ وَلَمْ نَتَغَدَّ الْيَوْمَ، وَلَيْسَ عِنْدَنَا عَشَاءٌ، فَخَرَجْتُ فَالْتَمَسْتُ فَأَصَبْتُ مَا اشْتَرَيْتُ طَعَامًا وَلَحْمًا بِدِرْهَمٍ، ثُمَّ أَتَيْتُهَا بِهِ فَخَبَزَتْ وَطَبَخَتْ، فَلَمَّا فَرَغَتْ مِنْ إِنْضَاجِ الْقِدْرِ قَالَتْ : لَوْ أَتَيْتَ أَبِيْ فَدَعَوْتَهُ، فَأَتَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ مُضْطَجِعٌ فِي الْمَسْجِدِ وَهُوَ يَقُوْلُ : أَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الْجُوْعِ ضَجِيْعًا، فَقُلْتُ : بِأَبِيْ أَنْتَ وَأُمِّيْ يَارَسُوْلَ اﷲِ، عِنْدَنَا طَعَامٌ فَهَلُمَّ، فَتَوَکَّأَ عَلَيَّ حَتَّي دَخَلَ وَالْقِدْرُ تَفُوْرُ فَقَالَ : اغْرِفِيْ لِعَائِشَةَ فَغَرَفَتْ فِي صَحْفَةٍ، ثُمَّ قَالَ : اغْرِفِي لِحَفْصَةَ فَغَرَفَتْ فِي صَحْفَةٍ، حَتَّي غَرَفَتْ لِجَمِيْعِ نِسَائِهِ التِِّسْعِ، ثُمَّ قَالَ : اغْرِفِي لِأَبِيْکِ وَ زَوْجِکِ فَغَرَفَتْ فَقَالَ : اغْرِفِي فَکُلِيْ فَغَرَفَتْ، ثُمَّ رَفَعَتِ الْقِدْرَ وَإِنَّهَا لَتَفِيْضُ، فَأَکَلْنَا مِنْهَا مَاشَاءَ اﷲُ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَی. ’’امام جعفر بن محمد الباقر رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ ہم نے ایک رات بغیر شام کے کھانے کے گزاری پس میں صبح کے وقت گھر سے نکل گیا پھر میں فاطمہ کی طرف لوٹا تو وہ بہت زیادہ پریشان تھی میں نے کہا اے فاطمہ کیا بات ہے؟ تو اس نے کہا کہ ہم نے گذشتہ رات کھانا نہیں کھایا اور آج دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا اور آج پھر رات کے کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے پس میں باہر نکلا اور کھانے کے لئے کوئی چیز تلاش کرنے لگا پس میں نے وہ چیز پالی جس سے میں کچھ طعام اور ایک درہم کے بدلے گوشت خرید سکوں پھر میں یہ چیزیں لے کر فاطمہ کے پاس آیا، اس نے آٹا گوندھا اور کھانا پکایا اور جب ہنڈیا پکانے سے فارغ ہو گئی تو کہنے لگی اگر آپ میرے والد ماجد کو بھی بلا لائیں؟ پس میں گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں لیٹے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے کہ اے اﷲ! میں بھوکے لیٹنے سے پناہ مانگتا ہوں پھر میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ہمارے پاس کھانا موجود ہے آپ تشریف لائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا سہارا لے کر اٹھے اور ہم گھر میں داخل ہو گئے۔اس وقت ہنڈیا ابل رہی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا : اے فاطمہ! عائشہ کے لئے کچھ سالن رکھ لو۔ پس فاطمہ نے ایک پلیٹ میں ان کے لئے سالن نکال دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حفصہ کے لئے بھی کچھ سالن نکال لو پس انہوں نے ایک پلیٹ میں ان کے لئے بھی سالن رکھ دیا یہاں تک کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نو ازواج کے لئے سالن رکھ دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے والد اور خاوند کے لئے سالن نکالو پس انہوں نے نکالا پھر فرمایا : اپنے لئے سالن نکالو اور کھاؤ۔ انہوں نے ایسا ہی کیا پھر انہوں نے ہنڈیا کو اٹھا کر دیکھا تو وہ بھری ہوئی تھی پس ہم نے اس میں سے کھایا جتنا اللہ نے چاہا۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ (سبحان اﷲ) الحديث رقم 99 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 1 / 187. (10) بَابٌ فِي کَوْنِهِ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَي اﷲِوَ رَسُوْلِهِ صلي الله عليه وآله وسلم (لوگوں میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے زیادہ محبوب)100. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ : کَانَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم طَيْرٌ فَقَالَ : اللَّهُمَّ ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِکَ إِلَيْکَ يَأْکُلُ مَعِيَ هَذَا الطَّيْرَ، فَجَاءَ عَلِيٌّ فَأَکَلَ مَعَهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک پرندے کا گوشت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی یااﷲ! اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین شخص میرے پاس بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہ گوشت تناول کیا۔ اس حدیث کو امام ترمذي نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 100 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 636، الحديث رقم : 3721، و الطبراني في المعجم الاوسط، 9 / 146، الحديث رقم : 9372، وابن حيان في الطبقات المحدثين بأصبهان، 3 / 454 . 101. عَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ : کَانَ أَحَبَّ النِّسَاءِ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَاطِمَةُ وَمِنَ الرِّجَالِ عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا تھیں اور مردوں میں سے سب سے زیادہ محبوب حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 101 : أخرجه الترمذي في ابواب المناقب باب فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 698، الحديث رقم : 3868، والطبراني في المعجم الاوسط، 8 / 130، الحديث رقم : 7258، والحاکم في المستدرک، 3 : 168، رقم : 4735. 102. عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرِ التَّمِيْمِيِّ قَالَ دَخَلْتُ مَعَ عَمَّتِيْ عَلَي عَائِشَةَ فَسَئَلْتُ أَيُّ النَّاسِ کَانَ أَحَبَّ إِلٰي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَتْ فَاطِمَةُ، فَقِيْلَ مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَتْ زَوْجُهَا، إِنْ کَانَ مَا عَلِمْتُ صَوَّاماً قَوَّاما. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت جمیع بن عمیر تمیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں اپنی خالہ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی خدمت میں حاضر ہوا پھر میں نے ان سے پوچھا لوگوں میں کون حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھے؟ انہوں نے فرمایا : حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا پھر عرض کیا گیا اور مردوں میں سے کون سب سے زیادہ محبوب تھا؟ فرمایا : اس کا خاوند اگرچہ مجھے ان کا زیادہ روزے رکھنا اور زیادہ قیام کرنا معلوم نہیں۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 102 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، أبواب المناقب، باب فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 701، الحديث رقم : 3874، والحاکم في المستدرک، 3 / 171. 103. عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ اُمِّيْ عَلَي عَائِشَةَ فَسَمِعْتُهَا مِنْ وَرَائِ الْحِجَابِ وَهِيَ تَسْأَلُهَا عَنْ عَلِيٍّ فَقَالَتْ : تَسْأَلُنِيْ عَنْ رَجُلٍ وَاﷲِ مَا أَعْلَمُ رَجُلًا کَانَ أَحَبَّ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ عَلِيٍّ وَلَا فِيْ الْأَرْضِ إِمْرأَةٌ کَانَتْ أَحَبَّ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ إِمْرَأَتِهِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْأَسْنَادِ. ’’حضرت جمیع ابن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنی والدہ کے ہمراہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس حاضر ہوا، میں نے پردہ کے پیچھے سے آواز سنی ام المومنین میری والدہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھ رہی تھیں۔ انہوں نے فرمایا : آپ مجھ سے اس شخص کے بارے میں پوچھ رہی ہیں بخدا میرے علم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کوئی شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ محبوب نہ تھا اور نہ روئے زمین پر ان کی بیوی (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا) سے بڑھ کر کوئی عورت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں محبوب تھی۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 103 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 167، الحديث رقم : 4731، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 140، الحديث رقم : 8497. 104. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : کُنْتُ أَخْدِمُ رَسُوْلَ صلي الله عليه وآله وسلم فَقُدِّمَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَرْخٌ مَشْوِيٌ فَقَالَ : اللَّهُمَّ ائْتِنِيْ بِأَحَبِّ خَلْقِکَ إِلَيْکَ يَأْکُلُ مَعِيَ مِنْ هَذَا الطَّيْرِ قَالَ : فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ رَجُلاً مِنَ الْأَنْصَارِ فَجَاءَ عَلِيٌّ رضي الله عنه فَقُلْتُ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَليَ حَاجَّةٍ ثُمَّ جَاءَ فَقُلْتُ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلَي حاجَةٍ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : افْتَحْ فَدَخَلَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَا حَبَسَکَ عَلَيَّ فَقَالَ : إِنَّ هَذِهِ آخِرُ ثَلاَثِ کَرَّاتٍ يَرَدُّنِيْ أَنَسٌ يَزْعَمُ إِنَّکَ عَلَي حَاجَةٍ فَقَالَ : مَا حَمَلَکَ عَلَيَّ مَا صَنَعْتَ؟ فَقُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ سَمِعْتُ دُعَاءَ کَ فَأَحْبَبْتُ أَنْ يَکُوْنَ رَجُلاً مِنْ قَوْمِيْ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ : إنَّ الرَّجُلَ قَدْ يُحِبُّ قَوْمَهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَي شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک بھنا ہوا پرندہ پیش کیا گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! میرے پاس اسے بھیج جو مخلوق میں تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دعا کی یا اﷲ! کسی انصاری کو اس دعا کا مصداق بنا دے، اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے کہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشغول ہیں۔ وہ واپس چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر تشریف لائے اور دروازہ کھٹکھٹایا، پھر میں نے کہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشغول ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ پھر آئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انس! اس کیلئے دروازہ کھول دو، وہ اندر داخل ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : تجھے کس نے میرے پاس آنے سے روکا؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ تین میں سے آخری بار ہے کہ انس مجھے یہ کہہ کر واپس کرتے رہے کہ آپ کسی کام میں مشغول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے میرے اس عمل کی وجہ دریافت کی تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے آپ کو دعا کرتے سن لیا تھا۔ پس میری خواہش تھی کہ یہ (خوش نصیب) شخص انصار میں سے ہو۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر آدمی اپنی قوم سے پیار کرتا ہے۔ اس حدیث کوامام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث شیخین کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 104 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 141، الحديث رقم : 4650، و الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 267، الحديث رقم : 7466، والطبراني في المعجم الکبير، 1 / 253، الحديث رقم : 730، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 126. 105. عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : إِشْتَکَي عَلِيًّا النَّاسُ، قَالَ : فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِيْنَا خَطِيْبًا، فَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : أُيُهَا النَّاسُ! لاَ تَشْکُوْا عَلِيًّا، فَوَاﷲِ! إِنَّهُ لَأَخْشَنُ فِيْ ذَاتِ اﷲِ، أَوْ فِي سَبِيْلِ اﷲِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الْحَاکِمُ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ . ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی شکایت کی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو! علی کی شکایت نہ کرو، اللہ کی قسم وہ اللہ کی ذات میں یا اللہ کے راستہ میں بہت سخت ہے۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہایہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 105 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 86، الحديث رقم : 11835، و الحاکم في المستدرک، 3 / 144، الحديث رقم : 4654، و ابن هشام في السيرة النبوية، 6 / 8. 106. عَنْ أَبِيْ رَافِعٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَعَثَ عَلِيًّا مَبْعَثًا فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهُ وَ جِبْرِيْلُ عَنْکَ رَاضُوْنَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک جگہ بھیجا، جب وہ واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اللہ تعالیٰ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیل آپ سے راضی ہیں۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 106 : أخرجه الطبراني في المجعم الکبير، 1 / 319، الحديث رقم؛ 946، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131. (11) بَابٌ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ أَحَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ أَحَبَّنِيْ وَمَنْ أَبْغَضَ عَلِيًّا رضي الله عنه فَقَدْ أَبْغَضَنِيْ (حبِ علی رضی اللہ عنہ حبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور بغضِ علی رضی اللہ عنہ بغضِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے)107. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَخَذَ بِيَدِ حَسَنٍ وَ حُسَيْنٍ فَقَالَ : مَنْ أَحَبَّنِيْ وَأَحَبَّ هَذَيْنِ وَ أَبَاهُمَا وَ أُمَّهُمَا کَانَ مَعِيَ فِي دَرَجَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پکڑے اور فرمایا : جو مجھ سے محبت کرے گا اور ان دونوں سے اور ان دونوں کے والد (یعنی علی رضی اللہ عنہ) اور دونوں کی والدہ (یعنی فاطمہ رضی اﷲ عنہا) سے محبت کرے گا وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں ہو گا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 107 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي، 5 / 641، الحديث رقم : 3733، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 77، الحديث رقم : 576، و الطبراني في المعجم الکبير، 2 / 77، الحديث رقم : 576، و ايضاً في 2 / 163، الحديث رقم : 960، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 45، الحديث رقم : 421. 108. عَنْ عَمْرِو بْنِ شَأْسِ نالأَسْلَمِيِّ قَالَ (وَ کَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْحُدَيْبِيَةِ) قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ عَلِيٍّّ إِلَي الْيَمَنِ، فَجَفَانِي فِي سَفَرِي ذَلِکَ، حَتَّي وَجَدْتُ فِي نَفْسِيْ عَلَيْهِ، فَلَمَّا قَدِمْتُ أَظْهَرْتُ شَکَايَتَهُ فِي الْمَسْجِدِ حَتّي بَلَغَ ذَلِکَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ ذَاتَ غُدَاةٍ، وَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا رَانِي أَبَدَّنِي عَيْنَيْهِ يَقُوْلُ : حَدَّدَ إِلَيَّ النَّظَرَ حَتّي إِذَا جَلَسْتُ قَالَ يَا عَمَرُو! وَاﷲِ! لَقَدْ آذَيْتَنِي قُلْتُ : أَعُوْذُ بِاﷲِ أَنْ أُؤْذِيَکَ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ بَلَي، مَنْ آذَي عَلِيًّا فَقَدْ آذَانِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عمرو بن شاس اسلمی رضی اللہ عنہ جو کہ اصحاب حدیبیہ میں سے تھے بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ یمن کی طرف روانہ ہوا۔ سفر کے دوران انہوں نے میرے ساتھ سختی کی یہاں تک کہ میں اپنے دل میں ان کے خلاف کچھ محسوس کرنے لگا، پس جب میں (یمن سے) واپس آیا تو میں نے ان کے خلاف مسجد میں شکایت کا اظہار کر دیا یہاں تک کہ یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ گئی پھر ایک دن میں مسجد میں داخل ہوا جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مجمع میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بڑے غور سے دیکھا یہاں تک کہ جب میں بیٹھ گیا توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمرو! خدا کی قسم تونے مجھے اذیت دی ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کو اذیت دینے سے میں اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں جو علی کو اذیت دیتا ہے وہ مجھے اذیت دیتا ہے۔اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 108 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 483، و الحاکم في المستدرک، 3 / 131، الحديث رقم : 4619، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 129، و أحمد بن حنبل أيضاً في فضائل الصحابة، 2 / 579، الحديث رقم : 981. والبخاري في التاريخ الکبير، 2 / 3060.307. 109. عَنْ عَبْدِ اﷲِ الْجَدَلِيِّ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَي أُمِّ سَلَمَةَ رضي اﷲ عنها فَقَالَتْ لِيْ : أَيُسَبُّ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِيْکُمْ؟ قُلْتُ : مَعَاذَ اﷲِ! أَوْ سُبْحَانَ اﷲِ أَوْ کَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِيْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ. ’’حضرت عبداﷲ جدلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے کہا : کیا تمہارے اندر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دی جاتی ہے؟ میں نے کہا اﷲ کی پناہ یا میں نے کہا اﷲ کی ذات پاک ہے یا اسی طرح کا کوئی اور کلمہ کہا تو انہوں نے کہا میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو علی کو گالی دیتا ہے وہ مجھے گالی دیتا ہے۔اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور امام حاکم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 109 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 323، الحديث رقم : 26791، والحاکم في المستدرک، 3 / 130، الحديث رقم : 4615، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 133، الحديث رقم : 8476، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 130. 110. عَنِ ابِْن أَبِيِ مَلِيْکَةَ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ فَسَبََّ عَلِيّاً عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَحَصَبَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ فَقَالَ : يَا عَدُوَّاﷲِ آذَيْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : (إِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ لَعَنَهُمُ اﷲُ فِي الدُّنْيَا وَالْأَخِرَةِ وَأَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا) لَوْکَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حَيّاً لَآذَيْتَهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَ قَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ. ’’حضرت ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل شام سے ایک شخص آیا اور اس نے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا، حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے اس کو ایسا کہنے سے منع کیا اور فرمایا : اے اﷲ کے دشمن تو نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف دی ہے۔ (پھر یہ آیت پڑھی) ’’بے شک وہ لوگ جو اﷲ اور اس کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں اﷲ تبارک و تعالیٰ دنیا و آخرت میں ان پر لعنت بھیجتا ہے اور اﷲ نے ان کے لئے ایک ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے پھر فرمایا : اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہوتے تو یقیناً (تو اس بات کے ذریعے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت کا باعث بنتا۔ اس حدیث کو امام حاکم نے المستدرک میں روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 110 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 121، 122، الحديث رقم : 4618. 111. عَنْ أَبِيْ عَبْدِاﷲِ الْجَدَلِيِّ قَالَ : حَجَجْتُ وَ أَنَا غُلاَمٌ فَمَرَرْتُ بِالْمَدِيْنَةِ وَ إِذَا النَّاسَ عُنُقٌ وَاحِدًٌ فَاتَّبَعْتُهُمْ، فَدَخَلُوْا عَلٰي أُمِّ سَلْمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَسَمِعْتُهَا تَقُوْلُ : يَا شَبِيْبَ بْنَ رَبْعِيٍ، فَأَجَابَهَا رَجُلٌ جَلْفٌ جَافٌ : لَبَّيْکَ يَا أَمَّتَاهُ، قَالَتْ : أَيُسَبُّ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي نَادِيْکُمْ؟ قَالَ : وَ أَنّٰي ذٰلِکَ! قَالَتْ : فَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ؟ قَالَ : إِنَّا لَنَقُوْلْ شَيْئاً نُرِيْدُ عَرَضَ هَذِهِ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا، قَالَتْ : فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ مَنْ سَبَّ عَلِيّاً فَقَدْ سَبَّنِي، وَمَنْ سَبَّنِي فَقَدْ سَبَّ اﷲ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ فِي الْمُسْتَدْرَکِ. ’’حضرت ابو عبداﷲ جدلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک غلام کے ساتھ حج کیا پس میں مدینہ کے پاس سے گزرا تو میں نے لوگوں کو اکھٹا (کہیں جاتے ہوئے)دیکھا، میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ وہ سارے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے پس میں نے ان کوآواز دیتے ہوئے سنا کہ اے شبیب بن ربعی! ایک روکھے اور سخت مزاج آدمی نے جواب دیا ہاں میری ماں! تو آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : کیا تمہارے قبیلہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دی جاتی ہیں؟ اس آدمی نے عرض کیا : یہ کیسے ہوسکتا ہے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا حضرت علی بن ابی طالب کو گالی دی جاتی ہے؟ تو اس نے کہا ہم جو بھی کہتے ہیں اس سے ہماری مراد دنیاوی غرض ہوتی ہے۔ پس آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی اور جس نے مجھے گالی دی اس نے اﷲ کو گالی دی۔ اس حدیث کو حاکم نے المستدرک میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 111 : أخرجه الحاکم فيالمستدرک، 3 / 121، الحديث رقم : 4616، وقال الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 130 : رجاله رجال الصحيح، و ابن عساکر في تاريخه، 42 / 533. 42 / 266، 266، 267. 268، 533. 112. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنه قَالَ نَظَرَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَيّ فَقَالَ : يَا عَلِيُّ أَنْتَ سَيِدٌ فِي الدُّنْيَا سَيِدٌ فِي الْآخِرَةِ حَبِيْبُکَ حَبِيْبِيْ وَ حَبِيْبِيْ حَبِيْبُ اﷲِ وَعَدُوُّکَ عَدُوِّيْ وَ عَدُوِّيْ عَدُوُّ اﷲِ وَ الْوَيْلُ لِمَنْ أَبْغَضَکَ بَعْدِيَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَقَالَ صَحِيْحٌ عَلٰي شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. ’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کی روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری (یعنی علی کی) طرف دیکھ کر فرمایا اے علی! تو دنیا و آخرت میں سردار ہے۔ تیرا محبوب میرا محبوب ہے اور میرا محبوب اللہ کا محبوب ہے اور تیرا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن اللہ کا دشمن ہے اور اس کیلئے بربادی ہے جو میرے بعد تمہارے ساتھ بغض رکھے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے‘‘ الحديث رقم 112 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 138، الحديث رقم : 4640، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 5 / 325، الحديث رقم : 8325. 113. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ لِعَلِيٍّ : طَوْبٰي لِمَنْ أَحَبَّکَ وَصَدَّقَ فِيْکَ، وَوَيْلٌ لَمَنْ أَبْغَضَکَ وَکَذَّبَ فِيْکَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ أَبُوْيَعْلَی. وَ قَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْاِسْنَادِ. ’’حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے فرماتے ہوئے سنا (اے علی) مبارکباد ہو اسے جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور تیری تصدیق کرتا ہے اور ہلاکت ہو اس کے لئے جو تجھ سے بغض رکھتا ہے اور تجھے جھٹلاتا ہے۔ اس حدیث کو حاکم اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 113 : أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 145، الحديث رقم : 4657 وأبو يعلي في المسند، 3 / 178.179، الحديث رقم : 1602، و الطبراني في المعجم الاوسط، 2 / 337، الحديث رقم : 2157. 114. عَنْ سَلْمَانَ أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ لِعَلِيٍّ : مُحِبُّکَ مُحِبِّيْ وَ مُبْغِضُکَ مُبْغِضِيْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : تجھ سے محبت کرنے والا مجھ سے محبت کرنے والا ہے اور تجھ سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔ (12) بَابٌ فِي کَوْنِ حُبِّهِ عَلَامَةَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ بُغْضِهِ رضي الله عنه عَلَامَةَ الْمُنَافِقِيْنَ (حبِ علی رضی اللہ عنہ علامتِ ایمان ہے اور بغضِ علی رضی اللہ عنہ علامتِ نفاق ہے)117. عَنْ زِرٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِيْ فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَأَ النَّسْمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَيَّ أَنْ لَا يُحِبَّنِيْ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَّ لَا يُبْغِضَنِيْ إِلَّا مُنَافِقٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’ حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا (اور اس سے اناج اور نباتات اگائے) اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا، حضور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجھ سے عہد ہے کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی مجھ سے بغض رکھے گا۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 117 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علي أن حب الأنصار و علي من الإيمان، 1 / 86، الحديث رقم : 78، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 367، الحديث رقم : 6924، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 47، الحديث رقم : 8153، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 365، الحديث رقم : 32064، وأبويعلي في المسند، 1 / 250، الحديث رقم : 291، و البزار في المسند، 2 / 182، الحديث رقم : 560، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 598، الحديث رقم : 1325. 118. عَنْ عَلِيٍّ : قَالَ لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ صلي الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ لَا يُحِبُّکَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُکَ إِلاَّ مُنَافِقٌ. قَالَ عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ أَنَا مِنَ الْقَرْنِ الَّذِيْنَ دَعَالَهُمُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد فرمایا کہ مومن ہی تجھ سے محبت کرے گا اور کوئی منافق ہی تجھ سے بغض رکھے گا۔ عدی بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس زمانے کے لوگوں میں سے ہوں جن کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 118 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب 5 / 643، الحديث رقم : 3736. 119. عَنْ بُرَيْدَةَ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إنَّ اﷲ أَمَرَنِيْ بِحُبِّ أَرْبَعَةٍ، وَأخْبَرَنِيْ أنَّهُ يُحِبُّهُمْ. قِيْلَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ سَمِّهُمْ لَنَا، قَالَ : عَلِيٌّ مِنْهُمْ، يَقُوْلُ ذَلِکَ ثَلَاثاً وَ أَبُوْذَرٍّ، وَالْمِقْدَادُ، وَ سَلْمَانُ وَ أَمًرَنِيْ بِحُبِّهِمْ، وَ أَخْبَرَنِيْ أَنَّّهُ يُحِبُّهُمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے مجھے چار آدمیوں سے محبت کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اﷲ بھی ان سے محبت کرتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا یا رسول اﷲ! ہمیں ان کے نام بتا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا کہ علی بھی انہی میں سے ہے، اور باقی تین ابو ذر، مقداد اور سلمان ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ان سے محبت کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 119 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، 5 / 636، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، الحديث رقم : 3718، وابن ماجة في السنن، مقدمه، فضل سلمان وأبي ذرومقداد، الحديث رقم : 149، وأبونعيم في حلية الاولياء، 1 / 172. 120. عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ إِنَّا کُنَّا لَنَعْرِفُ الْمُنَافِقِيْنَ نَحْنُ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم انصار لوگ، منافقین کو ان کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض کی وجہ سے پہچانتے تھے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 120 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 635، الحديث رقم : 3717، و أبو نعيم في حلية الاولياء، 6 / 295. 121. عَنِ أُمِّ سَلَمَةَ تَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَا يُحِبُّ عَلِيًّا مُنَافِقٌ وَلَا يُبْغِضُهُ مُؤْمِنٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہیں کرسکتا اور کوئی مومن اس سے بغض نہیں رکھ سکتا۔‘‘ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔ الحديث رقم 121 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 635، الحديث رقم : 3717، و أبويعلي في المسند، 12 / 362، الحديث رقم : 6931 و الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 375، الحديث رقم : 886. 122. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ قَالَ : وَاللّٰهِ مَاکُنَّا نَعْرِفُ مُنَافِقِيْنَا عَلٰي عَهْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَّا بِبُغْضِهِمْ عَلِيًّا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ. ’’ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اپنے اندر منافقین کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض کی وجہ سے ہی پہچانتے تھے۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 122 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 264، الحديث رقم : 4151، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 132. 123. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : إِنَّمَا دَفَعَ اﷲُ الْقُطْرَ عَنْ بَنِيْ إِسْرَئِيْلَ بِسُوْءِ رَأْيِهِمْ فِي أَنْبِيَائِهِمْ وَ إِنَّ اﷲَ يَدْفَعُ الْقُطْرَ عَنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ الدَّيْلِمِيُّ. ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اﷲ تعالی نے بنی اسرائیل سے ان کی بادشاہت انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ ان کے برے سلوک کی وجہ سے چھین لی اور بے شک اﷲ تبارک و تعالیٰ اس امت سے اس کی بادشاہت کو علی کے ساتھ بغض کی وجہ سے چھین لے گا۔ اس حدیث کو دیلمی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 123 : أخرجه الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 1 / 344، الحديث رقم : 1384، والذهبي في ميزان الاعتدال في نقد الرجال، 2 / 251. (13) بَابٌ فِي تَلْقِيْبِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم إِيَاهُ بِأَبِيْ تُرَابٍ وَ سَيِّدِ الْعَرَبِ (ابو تراب اور سید العرب کے مصطفوی القاب)124. عَنْ أَبِيْ حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ : مَا کَانَ لِعَلِيٍّ إِِسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ وَ إِنْ کَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا۔ فَقَالَ لَهُ : أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ. لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ؟ قَالَ : جَاءَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَيْتَ فَاطِمَةَ، فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ. فَقَالَ أَيْنَ ابْنُ عَمِّکِ؟ فَقَالَتْ : کَانَ بَيْنِيْ وَ بَيْنَهُ شَيْيئٌ. فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِيْ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِإِنْسَانٍ : انْظُرْ أَيْنَ هُوَ؟ فَجَاءَ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ. فَجَاءَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَآؤُهُ عَنْ شِقِّهِ فَأَصَابَهُ تُرَابٌ. فَجَعَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَ يَقُوْلُ : قُمْ أَبَا التُّرَابِ. قُمْ أَبَاالتُّرَابِ! مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ. ’’حضرت ابو حازم حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابو تراب سے بڑھ کر کوئی نام محبوب نہ تھا، جب ان کو ابو تراب کے نام سے بلایا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ راوی نے ان سے کہا ہمیں وہ واقعہ سنائیے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا نام ابو تراب کیسے رکھا گیا؟ انہوں نے کہا ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر میں نہیں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا چچازاد کہاں ہے؟ عرض کیا میرے اور ان کے درمیان کچھ بات ہوگئی جس پر وہ خفا ہو کر باہر چلے گئے اور گھر پر قیلولہ بھی نہیں کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص سے فرمایا : جاؤ تلاش کرو وہ کہاں ہیں؟ اس شخص نے آ کر خبر دی کہ وہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ وہ لیٹے ہوئے ہیں جبکہ ان کی چادر ان کے پہلو سے نیچے گر گئی تھی اور ان کے جسم پر مٹی لگ گئی تھی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہاتھ مبارک سے وہ مٹی جھاڑتے جاتے اور فرماتے جاتے : اے ابو تراب (مٹی والے)! اٹھو، اے ابو تراب اٹھو۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘ الحديث رقم 124 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المساجد، باب نوم الرجال في المسجد، 1 / 169، الحديث رقم : 430، و البخاري في الصحيح، کتاب الاستئذان، باب القائلة في المسجد، 5 / 2316، الحديث رقم : 5924، و مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب، 4 / 1874، الحديث رقم : 2409، و البيهقي في السنن الکبري، 2 / 446، الحديث رقم : 4137، و الحاکم في معرفة علوم الحديث، 1 / 211. 125. عَنْ عَبْدِ الْعَزِيْزِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيْهِ : أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَي سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ فَقَالَ : هَذَا فُلانٌ، لِأَمِيْرِ المَدِيْنَةِ، يَدْعُوْ عَلِيًّا عِنْدَ المِنْبَرِ، قَالَ : فَيَقُوْلُ مَاذَا؟ قَالَ : يَقُوْلُ لَهُ : أَبُوْتُرَابٍ، فَضَحِکَ. قَالَ : وَاﷲِ مَا سَمَّاهُ إِلَّا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم، وَمَا کَانَ وَاﷲِ لَهُ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْهُ، فَاسْتَطْعَمْتُ الْحَدِيْثَ سَهْلًا، وَ قُلْتُ : يَا أَبَا عَبَّاسٍ، کَيْفَ ذٰلِکَ؟ قَالَ : دَخَلَ عَلِيٌّ عَلَي فَاطِمَةَ ثُمَّ خَرَجَ، فَاضْطَجَعَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : أَيْنَ ابْنُ عَمِّکِ؟ قَالَتْ : فِي الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ، فَوَجَدَ رِدَاءَهُ قَدْ سَقَطَ عَنْ ظَهْرِهِ، وَ خَلَصَ التُّرَابُ إِلَي ظَهْرِهِ، فَجَعَلَ يَمْسَحُ التُّرَابَ عَنْ ظَهْرِهِ فَيَقُوْلُ : اجْلِسْ أَبَاتُرَابٍ. مَرَّتَيْنِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. ’’حضرت ابو حازم بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے اس وقت کے حاکم مدینہ کی شکایت کی کہ وہ برسرِ منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا ہے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے پوچھا : وہ کیا کہتا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ وہ ان کو ابو تراب کہتا ہے۔ اس پر حضرت سہل رضی اللہ عنہ ہنس دیئے اور فرمایا، خدا کی قسم! ان کا یہ نام تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا تھا اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی کوئی نام اس سے بڑھ کر محبوب نہ تھا۔ میں نے حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے کی پوری حدیث سننے کی خواہش کی، میں نے عرض کیا : اے ابو عباس! واقعہ کیا تھا؟ انہوں نے فرمایا : ایک روز حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عہنا کے پاس گھر تشریف لے گئے اور پھر مسجد میں آ کر لیٹ گئے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عہنا سے پوچھا : تمہارا چچازاد کہاں ہے؟ انہوں نے عرض کیا : مسجد میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں ان کے پاس تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ چادر ان کے پہلو سے سرک گئی تھی اور ان کے جسم پر دھول لگ گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی پشت سے دھول جھاڑتے جاتے اور فرماتے جاتے اٹھو، اے ابو تراب! اٹھو، اے ابو تراب۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 125 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب علي بن أبي طالب، 3 / 1358، الحديث رقم : 3500، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 368، الحديث رقم : 6925، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 167، الحديث رقم : 5879، و الروياني في المسند، 2 / 188، الحديث رقم : 1015، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 1 / 150، الحديث رقم : 183، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 296، الحديث رقم : 852، و المبارکفوري في تحفة الأحوذي، 10 / 144. 126. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَ عَلِيٌّ سَيِّدُ الْعَرَبِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ. ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمام اولادِ آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کے سردار ہیں۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 126 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 133، الحديث رقم : 4625، و الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 127، الحديث رقم : 1468، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 116. 127. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أُدْعُوْا لِيْ سَيِّدَ الْعَرَبِ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ أَلَسْتَ سَيِّدَ الْعَرَبِ؟ قَالَ : أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَعَلِيٌّ سَيِّدُ الْعَرَبِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس سردارِ عرب کو بلاؤ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک و سلم! کیا آپ عرب کے سردار نہیں؟ فرمایا : میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کے سردار ہیں۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 127 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4626، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131، و أبونعيم في حلية الأولياء، 1 / 63. 128. عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : يَا أَنَسُ إِنْطَلِقْ فَادْعُ لِي سَيِّدَ الْعَرَبِ يَعْنِيْ عَلِيًّا فَقَالَتْ عَائِشَةُ : أَلَسْتَ سَيِّدَ الْعَرَبِ؟ قَالَ : أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَعَلِيٌّ سَيِّدُ الْعَرَبِ، فَلَمَّا جَاءَ عَلِيٌّ رضي الله عنه أَرْسَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي الْأَنْصَارِ فَأَتَوْهُ فَقَالَ لَهُمْ : يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ! أَلاَ أَدُلُّکُمْ عَلَي مَا اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِه لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَهُ؟ قَالُوْا : بَلَي يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! قَالَ : هَذَا عَلِيٌّ فَأَحِبُّوْهُ بِحُبِّيْ وَکَرِّمُوْهُ لِکَرَامَتِيْ فَإِنَّ جِبْرَئِيْلَ أَمَرَنِيْ بِالَّذِيْ قُلْتُ لَکُمْ عَنِ اﷲِ عزوجل. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِيالْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’امام حسن بن علی رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے انس! میرے پاس عرب کے سردار کو بلاؤ۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا، کیا آپ عرب کے سردار نہیں؟ فرمایا : میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کے سردار ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کے ذریعے انصار کو بلا بھیجا جب وہ آ گئے تو فرمایا : اے گروہِ انصار! میں تمہیں وہ امر نہ بتاؤں کہ اگر اسے مضبوطی سے تھام لو تو میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ لوگوں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! ضرور ارشاد فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ علی ہے تم میری محبت کی بنا پر اس سے محبت کرو اور میری عزت وتکریم کی بنا پر اس کی عزت کرو، جو میں نے تم سے کہا اس کا حکم مجھے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جبرائیل علیہ السلام نے دیا ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 128 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 88، الحديث رقم، 2749، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 132، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 63. 129. عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ : جَاءَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم وَ عَلِيٌّ رضي الله عنه نَائِمٌ فِيْ التُّرَابِ، فَقَالَ : إِنَّ أَحَقَّ أَسْمَائِکَ أَبُوْ تُرَابٍ، أَنْتَ أَبُوْ تُرَابٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ. ’’حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ مٹی پر سو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو سب ناموں میں سے ابو تراب کا زیادہ حق دار ہے تو ابو تراب ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 129 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 237، الحديث رقم : 775، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 101. 130. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم کَنَّي عَلِيًّا رضي الله عنه بِأَبِي تُرَابٍ، فَکَانَتْ مِنْ أَحَبِّ کُنَاهُ إِلَيْهِ. رَوَاهُ الْبَزَّارُ. ’’حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابو تراب کی کنیت سے نوازا۔ پس یہ کنیت انہیں سب کنییتوں سے زیادہ محبوب تھی۔ اس حدیث کو بزار نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 130 : أخرجه البزار في المسند، 4 / 248، الحديث رقم : 1417، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 101. (14) بَابٌ فِي کَوْنِهِ رضي الله عنه فَاتِحاً لِخَيْبَرَ وَ صَاحِبَ لِوَاءِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم (آپ کا فاتحِ خیبراور علمبردارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا)131. عَنْ سَلَمَةَ قَالَ : کَانَ عَلِيٌّ قَدْ تَخَلَّفَ عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فِي خَيْبَرَ، وَکَانَ بِهِ رَمَدٌ، فَقَال : أَنَا أَتَخَلَّفُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَخَرَجَ عَليٌّ فَلَحِقَ بِالنَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم، فَلَمَّا کَانَ مَسَاءُ اللَّيْلَةِ الَّتِي فَتَحَهَا اﷲُ فِي صَبَاحِهَا، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ أَوْ لَيَأْخُذَنَّ الرَّايَةَ غَداً رَجُلاً يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ، أَوْ قَالَ : يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ، يَفْتَحُ اﷲُ عَلَيهِ. فَإِذَا نَحْنُ بِعَلِيٍّ، وَمَا نَرْجُوْهُ، فَقَالُوْا : هَذَا عَلِيٌّ، فَأَعْطَاهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَفَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. ’’حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آشوب چشم کی تکلیف کے باعث معرکۂ خیبر کے لیے (بوقت روانگی) مصطفوی لشکر میں شامل نہ ہوسکے۔ پس انہوں نے سوچا کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیچھے رہ گیا ہوں، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نکلے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملے۔ جب وہ شب آئی جس کی صبح کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا یا کل جھنڈا وہ شخص پکڑے گا جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں یا یہ فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں خیبر کی فتح سے نوازے گا۔ پھر اچانک ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا، حالانکہ ہمیں ان کے آنے کی توقع نہ تھی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھنڈا انہیں عطا فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں فتح نصیب فرمائی۔ یہ حدیث متفق علیہ۔‘‘ الحديث رقم 131 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب علي بن أبي طالب، 3 / 1357، الحديث رقم : 3499، و في کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، 4 / 1542، الحديث رقم : 3972، و في کتاب الجهاد و السير، باب ما قيل في لواء النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 1086، الحديث رقم : 2812، و مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 4 / 1872، الحديث رقم : 2407، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 6 / 362، الحديث رقم : 12837. 132. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ : لَأُعْطِيَنَّ هٰذِهِ الرَّايَةَ رَجُلًا يَفْتَحُ اﷲُ عَلٰي يَدَيْهِ. يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ. وَ يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ، قَالَ : فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوْکُوْنَ لَيْلَتَهُمْ أَيُهُمْ يُعْطَاهَا. قَالَ : فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلٰي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم. کُلُّهُمْ يَرْجُوْ أَنْ يُعْطَاهَا. فَقَالَ : أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ؟ فَقَالُوا : هُوَ يَا رَسُولَ اﷲِ! يَشْتَکِي عَيْنَيْهِ. قَالَ : فَأَرْسِلُوْا إِلَيْهِ. فَأُتِيَ بِه فَبَصَقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي عَيْنَيْهِ. وَ دَعَا لَهُ، فَبَرَأَ. حَتَّي کَأَنْ لَمْ يَکُنْ بِهِ وَجَعٌ. فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ. فَقَالَ عَلِيٌّ : يَارَسُوْلَ اﷲِ! أُقَاتِلُهُمْ حَتَّي يَکُوْنُوْا مِثْلَنَا؟ فَقَالَ : أُنْفُذْ عَلَي رِسْلِکَ. حَتَّي تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ. ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَي الْإِسْلَامِ. وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اﷲِ فِيْهِ. فَوَاﷲِ! لَأَنْ يَهْدِيَ اﷲُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا، خَيْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ يَکُونَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. ’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن فرمایا کل میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا، وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے کہا پھر صحابہ نے اس اضطراب کی کیفیت میں رات گزاری کہ دیکھئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس کو جھنڈا عطا فرماتے ہیں، جب صبح ہوئی تو صحابہ کرام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے ان میں سے ہر شخص کو یہ توقع تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو جھنڈا عطا فرمائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی ابن ابی طالب کہاں ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کو بلاؤ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور ان کے حق میں دعا کی تو ان کی آنکھیں اس طرح ٹھیک ہو گئیں گویا کبھی تکلیف ہی نہ تھی، پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں ان سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں گا جب تک وہ ہماری طرح نہ ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نرمی سے روانہ ہونا، جب تم ان کے پاس میدان جنگ میں پہنچ جاؤ تو ان کو اسلام کی دعوت دینا اور ان کو یہ بتانا کہ ان پر اللہ کے کیا حقوق واجب ہیں، بخدا اگر تمہاری وجہ سے ایک شخص بھی ہدایت پا جاتا ہے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘ الحديث رقم 132 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، 4 / 1542، الحديث رقم : 3973، و في کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب علي بن أبي طالب، 3 / 1357، الحديث رقم : 3498، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب، 4 / 1872، الحديث رقم : 2406، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 333، الحديث رقم : 22872، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 377، الحديث رقم : 6932، و أبو يعلي في المسند، 13 / 531، الحديث رقم : 7537. 133. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَ : يَوْمَ خَيْبَرَ لَأُعْطِيَنَّ هٰذِهِ الرَّايَةَ رَجُلاً يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُولَهُ. يَفْتَحُ اﷲُ عَلَي يَدَيْهِ. قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : مَا أَحْبَبْتُ الْإِمَارَةَ إِلَّا يَوْمَئِذٍ. قَالَ فَتَسَاوَرْتُ لَهَا رَجَاءَ أَنْ أُدْعَي لَهَا. قَالَ فَدَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ. فَأَعْطَاهُ إِيَاهَا. وَقَالَ امْشِ. وَلَا تَلْتَفِتْ. حَتَّي يَفْتَحَ اﷲُ عَلَيْکَ. قَالَ فَسَارَ عَلِيٌّ شَيْئًا ثُمَّ وَقَفَ وَلَمْ يَلْتَفِتْ. فَصَرَخَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! عَلَي مَاذَا أُقَاتِلُ النَّاسَ؟ قَالَ قَاتِلْهُمْ حَتَّي يَشْهَدُوْا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ. فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ فَقَدْ مَنَعُوْا مِنْکَ دِمَاءَ هُمْ وَ أَمْوَالَهُمْ. إِلَّا بِحَقِّهَا. وَ حِسَابُهُمْ عَلَي اﷲِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ خیبر کے دن فرمایا : کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اللہ اس کے ہاتھوں پر فتح عطا فرمائے گا، حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اس دن کے علاوہ میں نے کبھی امارت کی تمنا نہیں کی، اس دن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس امید سے آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اس کیلئے بلائیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو جھنڈا عطا کیا اور فرمایا جاؤ اور ادھر ادھر التفات نہ کرنا، حتی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں فتح عطا فرمائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کچھ دور گئے پھر ٹھہر گئے اور ادھر ادھر التفات نہیں کیا، پھر انہوں نے زور سے آواز دی یا رسول اللہ! میں لوگوں سے کس بنیاد پر جنگ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ان سے اس وقت تک جنگ کرو جب تک کہ وہ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کی شہادت نہ دیں اور جب وہ یہ گواہی دے دیں تو پھر انہوں نے تم سے اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کر لیا الّا یہ کہ ان پر کسی کا حق ہو اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 133 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب، 4 / 1871، 1872، الحديث رقم : 2405، وابن حبان في الصحيح، 15 / 379، الحديث رقم : 6934، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 179، الحديث رقم : 8603، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 88، الحديث رقم : 78، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 110. 134. عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَکْوَعِ، فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا عَنْهُ : ثُمَّ أَرْسَلَنِي إِلَي عَلِيٍّ، وَهُوَ أَرْمَدُ، فَقَالَ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُولَهُ، أَوْ يَحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُولُهُ. قَالَ : فأَتَيْتُ عَلِيًّا، فَجِئْتُ بِهِ أَقُوْدُهُ، وَهُوَ أَرْمَدُ، حَتَّي أَتَيْتُ بِهِ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَبَصَقَ فِيْ عَيْنَيْهِ فَبَرَأَ، وَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ وَخَرَجَ مَرْحَبٌ فَقَالَ : قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ شَاکِي السِّلاَحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَبُ فَقَالَ عَلِيٌّ : أَنَا الَّذِي سَمَّتْنِي أُمِّي حَيْدَرَهْ کَلَيْثِ غَابَاتٍ کَرِيهِ الْمَنْظَرَهْ أُو فِيهِمُ بِالصَّاعِ کَيْلَ السَّنْدَرَهْ قَالَ : فَضَرَبَ رَأْسَ مَرْحَبٍ فَقَتَلَهُ، ثُمَّ کَانَ الفَتْحُ عَلَي يَدَيْهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلانے کے لئے بھیجا اور ان کو آشوب چشم تھا پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ضرور بالضرور جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہو گا یا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے محبت کرتے ہوں گے۔ راوی بیان کرتے ہیں پھر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آیا اس حال میں کہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں ڈالا تو وہ ٹھیک ہوگئے۔ اور پھر اُنھیں جھنڈا عطا کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں مرحب نکلا اور کہنے لگا۔‘‘ (تحقیق خیبر جانتا ہے کہ بے شک میں مرحب ہوں اور یہ کہ میں ہر وقت ہتھیار بند ہوتا ہوں اور ایک تجربہ کار جنگجو ہوں اور جب جنگیں ہوتی ہیں تو وہ بھڑک اٹھتا ہے) پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (میں وہ شخص ہوں جس کا نام اس کی ماں نے حیدر رکھا ہے اور میں جنگل کے اس شیر کی مانند ہوں جو ایک ہیبت ناک منظر کا حامل ہو یا ان کے درمیان ایک پیمانوں میں ایک بڑا پیمانہ) راوی بیان کرتے ہیں پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مرحب کے سر پر ضرب لگائی اور اس کو قتل کر دیا پھر فتح آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ہوئی۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 134 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجهاد و السير، باب غزوة الأحزاب و هي الخندق، 3 / ، 1441، الحديث رقم : 1807، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 382، الحديث رقم : 6935، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 51، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 393، الحديث رقم : 36874، و الطبراني في المعجم الکبير، 7 / 17، الحديث رقم : 6243. 135. عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ بُرَيْدَةَ الأَسْلَمِيِّ، : فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَمِنْهَا عَنْهُ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يُوْمَ خَيْبَرَ : لَأُعْطِيَنَّ اللِّوَاءَ غَدًا رَجُلاً يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ وَيُحِبُّهُ اﷲُ وَرَسُوْلُهُ. فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ، دَعَا عَلِيًّا، وَهُوَ أَرْمَدُ، فَتَفَلَ فِيْ عَيْنَيْه وَأَعْطَاهُ اللِّوَاءَ، وَنَهَضَ النَّاسُ مَعَهُ، فَلَقِيَ أَهْلَ خَيْبَرَ، وإِذَا مَرْحَبٌ يَرْتَجِزُ بَيْنَ أَيْدِيْهِمْ وَ هُوَ يَقُوْلُ : قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ شَاکِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ أَطْعَنُ أَحْيَانًا وَحِينًا أَضْرِبُ إِذَا اللُّيُوثُ أَقْبَلَتْ تَلَهَبُ قَالَ : فَاخْتَلَفَ هُوَ وَ عَلِيٌّ ضَرْبَتَيْنِ، فَضَرَبَهُ عَليَ هَامَتِهِ حَتَّي عَضَّ السَّيْفُ مِنْهَا بِأَضْرَاسِهِ، وَسَمِعَ أَهْلُ الْعَسْکَرِ صَوْتَ ضَرْبَتِهِ. قَالَ : وَمَا تَتَامَّ آخِرُ النَّاسِ مَعَ عَلِيٍّ حَتَّي فُتِحَ لَهُ وَلَهُمْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل خبیر کے قلعہ میں اترے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کل میں ضرور بالضرور اس آدمی کو جھنڈا عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے محبت کرتے ہیں، پس جب اگلا دن آیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا، وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور ان کو جھنڈا عطا کیا اور لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے معیت میں قتال کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ چنانچہ آپ کا سامنا اہل خیبر کے ساتھ ہوا اور اچانک مرحب نے آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے آ کر یہ رجزیہ اشعار کہے : (تحقیق خیبر نے یہ جان لیا ہے کہ بے شک میں مرحب ہوں اور یہ کہ میں ہر وقت ہتھیار بند ہوتا ہوں اور میں ایک تجربہ کار جنگجو ہوں۔ میں کبھی نیزے اور کبھی تلوار سے وار کرتا ہوں اور جب یہ شیر آگے بڑھتے ہیں تو بھڑک اٹھتے ہیں) راوی بیان کرتے ہیں دونوں نے تلواروں کے واروں کا آپس میں تبادلہ کیا پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی کھوپڑی پر وار کیا یہاں تک کہ تلوار اس کی کھوپڑی کو چیرتی ہوئی اس کے دانتوں تک آپہنچی اور تمام اہل لشکر نے اس ضرب کی آواز سنی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد ان لوگوں میں سے کسی اور نے آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقابلہ کا ارادہ نہ کیا۔ یہاں تک کہ فتح مسلمانوں کا مقدر ٹھہری۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 135 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 358، الحديث رقم : 23081، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 109، الحديث رقم : 8403، و الحاکم في المستدرک، 3 / 494، الحديث رقم : 5844، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 150، و الطبري في التاريخ الطبري، 2 / 136. 136. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَعَثَ إِلَيَّ وَأَنَا أَرْمَدُ الْعَيْنِ، يَوْمَ خَيْبَرَ، فَقُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ! إِنِّيْ أَرْمَدُ الْعَيْنِ، قَالَ : فَتَفَلَ فِي عَيْنِي وَقَالَ : اللَّهُمَّ! أَذْهِبْ عَنْهُ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ فَمَا وَجَدْتُ حَرًّا وَلاَ بَرْدًا مُنْذُ يَوْمَئِذٍ. وَقَالَ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ، وَ يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ، لَيْسَ بِفَرَّارٍ فَتَشَرَّفَ لَهَا أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَعْطَانِيْهَا. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ خیبر کے دوران مجھے بلا بھیجا اور مجھے آشوب چشم تھا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے آشوب چشم ہے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور فرمایا : اے اللہ! اس سے گرمی و سردی کو دور کر دے۔ پس اس دن کے بعد میں نے نہ تو گرمی اور نہ ہی سردی محسوس کی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : میں ضرور بالضرور یہ جھنڈا اس آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے محبت کرتے ہوں گے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 136 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 99، الحديث رقم : 778، و في 1 / 133، الحديث رقم : 1117، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 564، الحديث رقم : 950. 137. عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِيْ طَالِبٍ بِالرَّحَبَةِ، قَالَ : لَمَّا کَانَ يَوْمُ الْحُدَيْبِيَةِ خَرَجَ إلَيْنَا نَاسٌ مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ فِيْهِمْ سُهَيْلُ بْنُ عَمَرٍو وَ أُنَاسٌ مِن رُؤَسَاءِ الْمُشْرِکِيْنَ، فَقَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ خَرَجَ إِلَيْکَ نَاسٌ مِنْ أَبْنَائِنَا وَ إِخْوَانِنَا وَ أَرِقَّائِنَا وَ لَيْسَ لَهُمْ فِقْهٌ فِي الدِّيْنِ، وَ إِنَّمَا خَرَجُوْا فِرَارًا مِن أَمْوَالِنَا وَ ضِيَاعِنَا فَارْدُدْهُمْ إِلَيْنَا. فَإِنْ لَمْ يَکُنْ لَهُمْ فِقْهٌ فِي الدِّيْنِ سَنُفَقِّهُهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ لَتَنْتَهُنَّ أَوْ لَيَبْعَثُنَّ اﷲُ عَلَيْکُمْ مَنْ يَضْرِبُ رِقَابَکُمْ بِالسَّيْفِ عَلَي الدِّيْنِ، قَدْ إِمْتَحَنَ اﷲُ قُلُوْبَهُمْ عَلَي الْإِيْمَانِ. قَالُوْا : مَنْ هُوَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ فَقَالَ لَهُ أَبُوبَکْرٍ : مَنْ هُوَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ وَ قَالَ عُمَرُ : مَنْ هُوَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ هُوَ خَاصِفُ النَّعْلِ، وَ کَانَ أَعْطَي عَلِيًّا نَعْلَهُ يَخْصِفُهَا. قَالَ : ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا عَلِيٌّ فَقَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ کَذِبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّا مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. ’’حضرت ربعی بن حراش سے روایت ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے رحبہ کے مقام پر فرمایا : صلح حدیبیہ کے موقع پر کئی مشرکین ہماری طرف آئے جن میں سہیل بن عمرو اور مشرکین کے کئی دیگر سردار تھے پس انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری اولاد، بھائیوں اور غلاموں میں سے بہت سے ایسے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس چلے آئے ہیں جنہیں دین کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں۔ یہ لوگ ہمارے اموال اور جائیدادوں سے فرار ہوئے ہیں۔ لہٰذا آپ یہ لوگ ہمیں واپس کر دیجئے اگر انہیں دین کی سمجھ نہیں تو ہم انہیں سمجھا دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے قریش! تم لوگ اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہاری طرف ایسے شخص کو بھیجے گا جو دین اسلام کی خاطر تلوار کے ساتھ تمہاری گردنیں اڑا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کے ایمان کو آزما لیا ہے۔ حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اﷲ عنہما اور دیگر لوگوں نے پوچھا : یا رسول اللہ! وہ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ جوتیوں میں پیوند لگانے والا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس وقت اپنی نعلین مبارک مرمت کے لئے دی تھیں۔ حضرت ربعی بن حراش فرماتے ہیں کہ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے گا۔ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تلاش کر لے۔ اس حدیث کوامام ترمذي نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 137 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 634، الحديث رقم : 3715، و الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 158، الحديث رقم : 3862، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 649، الحديث رقم : 1105. 138. عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ : بَعَثَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم جَيْشَيْنِ وَ أَمَّرَ عَلٰي أَحَدِهِمَا عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ وَعَلٰي الآخَرِ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيْدِ، وَقَالَ : إِذَا کَانَ الْقِتَالُ فَعَلِيٌّ قَالَ : فَافْتَتَحَ عَلِيٌّ حِصْناً فَأَخَذَ مِنْهُ جَارِيَةً، فَکَتَبَ مَعِيَ خَالِدٌ کِتَاباً إِلٰي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم يَشِيْ بِهِ، قَالَ : فَقَدِمْتُ عَلٰي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَرَأَ الْکِتَابَ، فَتَغَيَرَ لَوْنُهُ، ثُمَّ قَالَ : مَا تَرَي فِي رَجُلٍ يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ وَيُحِبُّهُ اﷲُ وَرَسُولُهُ؟ قَالَ : قُلْتُ : أَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ غَضَبِ اﷲِ وَ مِنْ غَضَبِ رَسُولِه، وَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلٌ، فَسَکَتَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دولشکر ایک ساتھ روانہ کیے۔ ایک کا امیر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اور دوسرے کا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا اور فرمایا : جب جنگ ہوگی تو دونوں لشکروں کے امیر علی ہوں گے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک قلعہ فتح کیا اور مال غنیمت میں سے ایک باندی لے لی۔ اس پرحضرت خالد رضی اللہ عنہ نے میرے ہاتھ ایک خط حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پڑھا تو چہرہ انور کا رنگ متغیر ہوگیا۔ فرمایا : تم اس شخص سے کیا چاہتے ہو جو اﷲ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اﷲ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا کہ میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غصے سے اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں۔ میں تو صرف قاصد ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے۔ اس کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 138 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 638، الحديث رقم : 3725، و في کتاب الجهاد : باب ما جاء من يستعمل علي الحرب، 4 / 207، الحديث رقم : 1704، و ابن أبي شيبه في المصنف، 6 / 372، الحديث رقم : 32119. 139. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا قَالَ : وَقَعُوْا فِي رَجُلٍ لَهُ عَشْرٌ وَقَعُوْا فِي رَجُلٍ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : لَأَبْعَثَنَّ رَجُلًا لَا يُخْزِيْهِ اﷲُ أَبَدًا، يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ قَالَ، فَاسْتَشْرَفَ لَهَا مَنِ اسْتَشْرَفَ. قَالَ أَيْنَ عَلِيٌّ؟ قَالُوْا : هُوَ فِي الرَّحٰي يَطْحَنُ قَالَ وَمَا کَانَ أَحَدُکُمْ لِيَطْحَنَ؟ قَالَ، فَجَاءَ وَ هُوَ أَرْمَدُ لَا يَکَادُ يُبْصِرُ. قَالَ؟ فَنَفَثَ فِي عَيْنَيْهِ، ثُمَّ هَزَّ الرَّايَةَ ثَلاَ ثًا فَأَعْطَاهَا إِيَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ وہ اس آدمی میں جھگڑا کر رہے تھے جو عشرہ مبشرہ میں سے ہے وہ اس آدمی میں جھگڑا کر رہے تھے جس کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں (فلاں غزوہ کے لئے) اس آدمی کو بھیجوں گا جس کو اﷲ تبارک و تعالیٰ کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ وہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔ پس (اس جھنڈے) کے حصول کی سعادت کے لئے ہر کسی نے خواہش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علی کہاں ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ چکی میں آٹا پیس رہا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی آٹا کیوں نہیں پیس رہا؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کو آشوب چشم تھا اور اتنا سخت تھا کہ آپ دیکھ نہیں سکتے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں پھونکا پھر جھنڈے کو تین دفعہ ہلایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عطاء کر دیا۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 139 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062، و الحاکم في المستدرک، 3 / 143، الحديث رقم : 4652، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 113، الحديث رقم : 8409، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 603، الحديث رقم : 1351. 140. عَنْ هُبَيْرَةَ : خَطَبَنَا الَْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضی الله عنه فَقَالَ : لَقَدْ فَارَقَکُمْ رَجُلٌ بِالْأَمْسِ لَمْ يَسْبِقْهُ الْأَوَّلُوْنَ بِعِلْمٍ، وَلاَ يُدْرِکْهُ الآخِرُوْنَ، کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَبْعَثُهُ بَالرَّايَةِ، جِبْرِيْلُ عَنْ يَمِينِهِ، وَمِيکَائِيْلُ عَنْ شِمَالِهِ، لاَ يَنْصَرِفُ حَتَّي يُفْتَحَ لَهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الأَوْسَطِ. ’’حضرت ہبیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امام حسن بن علی ر ضی اللہ عنھما نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ گزشتہ کل تم سے وہ ہستی جدا ہو گئی ہے جن سے نہ تو گذشتہ لوگ علم میں سبقت لے سکے اور نہ ہی بعد میں آنے والے ان کے مرتبہ علمی کو پا سکیں گے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو اپنا جھنڈا دے کر بھیجتے تھے اور جبرائیل آپ کی دائیں طرف اور میکائیل آپ کی بائیں طرف ہوتے تھے اورآپ رضی اللہ عنہ کو فتح عطا ہونے تک وہ آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے اور طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 140 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 199، الحديث رقم : 1719، و الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 336، الحديث رقم : 2155. 141. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَخَذَ الرَّايَةَ فَهَزَّهَا ثُمَّ قَالَ : مَنْ يَأْخُذُهَا بِحَقِّهَا؟ فَجَاءَ فُلاَنٌ فَقَالَ : أَنَا، قَالَ : أَمِطْ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ : أَمِطْ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : وَالَّذِي کَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ لَأُعْطِيَنَّهَا رَجُلاً لاَ يَفِرُّ، هَاکَ يَا عَلِيُّ فَانْطَلَقَ حَتَّي فَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِ خَيْبَرَ وَ فَدَکَ وَجَاءَ بِعَجْوَتِهِمَا وَقَدِيْدِهِمَا. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ أَبُوْيَعْلَی فِي مُسْنَدِهِ. ’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھنڈا پکڑا اور اس کو لہرایا پھر فرمایا : کون اس جھنڈے کو اس کے حق کے ساتھ لے گا پس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا میں اس جھنڈے کو لیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم پیچھے ہو جاؤ پھر ایک اور آدمی آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو بھی فرمایا پیچھے ہو جاؤ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس نے محمد کے چہرے کو عزت و تکریم بخشی میں یہ جھنڈا ضرور بالضرور اس آدمی کو دوں گا جو بھاگے گا نہیں۔ اے علی! یہ جھنڈا اٹھا لو پس وہ چلے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں خیبر اور فدک کی فتح نصیب فرمائی اور آپ ان دونوں (خیبر و فدک) کی کھجوریں اور خشک گوشت لے کر آئے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل اور ابویعلی نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 141 : أخرجه أحمد في المسند، 3 / 16، الحديث رقم : 11138، و أبويعلي في المسند، 2 / 499، الحديث رقم : 1346، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 151، و أحمد بن حنبل أيضاً في فضائل الصحابة، 2 / 583، الحديث رقم : 987. 142. عَنْ أَبِي رَافِعٍ رضي الله عنه مَولَي رَسُوْلِ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ عَلِيٍّ رضي الله عنه حِيْنَ بَعَثَهُ رَسُولُ اﷲِ بِرَأْيَتِهِ، فَلَمَّا دًنَا مِنَ الحِصْنِ، خَرَجَ إِلَيْهِ أَهْلُهُ فقَاتَلَهُمْ، فَضَرَبَهُ رَجُلٌ مِنْ يَهُوْدَ فَطَرَحَ تُرْسَهُ مِنْ يَدِهِ، فَتَنَاولَ عَلِيٌّ رضي الله عنه بَابًا کَانَ عِنْدَ الحِصْنِ، فَتَرَّسَ بِهِ نَفْسَهُ، فَلَمْ يَزِلْ فِي يَدِهِ وَهُوَ يُقَاتِلُ حَتَّي فَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَلْقَاهُ مِنْ يَدَيْهِ حِيْنَ فَرَغَ فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي نَفَرٍ مَعِي سَبْعَةٌ أَنَا ثَامِنُهُمْ، نَجْهَدُ عَلَي أَنْ نَقْلِبَ ذَلِکَ البَابَ فَمَا نَقْلِبُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْهَيْثَمِيُّ. ’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا جھنڈا دے کر خیبر کی طرف روانہ کیا تو ہم بھی ان کے ساتھ تھے۔ جب ہم قلعہ خیبر کے پاس پہنچے جو مدینہ منورہ کے قریب ہے تو خیبر والے آپ پر ٹوٹ پڑے۔ آپ بے مثال بہادری کا مظاہرہ کر رہے تھے کہ اچانک آپ پر ایک یہودی نے وار کرکے آپ کے ہاتھ سے ڈھال گرا دی۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قلعہ کا ایک دروازہ اکھیڑ کر اسے اپنی ڈھال بنالیا اور اسے ڈھال کی حیثیت سے اپنے ہاتھ میں لئے جنگ میں شریک رہے۔ بالآخر دشمنوں پر فتح حاصل ہوجانے کے بعد اس ڈھال نما دروازہ کو اپنے ہاتھ سے پھینک دیا۔ اس سفر میں میرے ساتھ سات آدمی اور بھی تھے، ہم آٹھ کے آٹھ مل کر اس دروازے کو الٹنے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ دروازہ (جسے حضرت علی نے تنہا اکھیڑا تھا) نہ الٹایا جا سکا۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ہیثمی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 142 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند،، 6 / 8، الحديث رقم : 23909، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 152. 143. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه : أَنَّ عَلِيًّا رضي الله عنه حَمَلَ البَابَ يَوْمَ خَيْبَرَ حَتَّي صَعِدَ المُسْلِمُوْنَ فَفَتَحُوْهَا وَأَنَّهُ جُرِّبَ فَلَمْ يَحْمِلْهُ إِلاَّ أَرْبَعُونَ رَجُلا. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. ’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے روز حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قلعہ خیبر کا دروازہ اٹھا لیا یہاں تک کہ مسلمان قلعہ پر چڑھ گئے اور اسے فتح کرلیا اور یہ آزمودہ بات ہے کہ اس دروازے کو چالیس آدمی مل کر اٹھاتے تھے۔ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 143 : أخرجه ابن أبي أبي شيبة في المصنف، 6 / 374، الحديث رقم : 32139، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 478، والعجلوني في کشف الخفاء، 1 / 438، الحديث رقم : 1168، وَقَالَ العجلونِي : رَواهُ الحَاکِمُ وَالبَيْهَقِيُّ عَنْ جَابِرٍ، والطبراني في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 137، وابن هشام في السيرة النبوية، 4 / 306. 144. عَنْ قَتَادَةَ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ کَانَ صَاحِبَ لِوَاءِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، يَوْمَ بَدْرٍ وَ فِي کُلِّ مَشْهَدٍ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ. ’’حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ غزوہ بدر سمیت ہر معرکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم بردار تھے۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 144 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 3 / 23. (15) بَابٌ فِيأَمْرِالنَّبِيِّ بِسَدِّ الْأَبْوَابِ إِلاَّ بَابَ عَلِيٍّ رضي الله عنه (مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں باب علی رضی اللہ عنہ کے سوا باقی سب دروازوں کا بند کروا دیا جانا)145. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَمَرَ بِسَدِّ الْأَبْوَابِ إِلاَّ بَابَ عَلِيٍّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت عبد اﷲابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازے کے سوا مسجد میں کھلنے والے تمام دروازے بند کرنے کا حکم دیا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 145 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 641، الحديث رقم : 3732، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 115. 146. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ : کَانَ لِنَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَبْوَابٌ شَارِعَةٌ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ : فَقَالَ يَوْماً : سُدُّوْا هَذِهِ الْأَبْوَابَ إِلَّا بَابَ عَلِيٍّ، قَالَ : فَتَکَلَّمَ فِيْ ذَلِکَ النَّاسُ، قَالَ : فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَحَمِدَ اﷲَ تعالٰي وَأَثْنَي عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّيْ أَمَرْتُ بِسَدِّ هَذِهِ الْأَبْوَابِ اِلَّا بَابَ عَلِيٍّ، وَ قَالَ فِيْهِ قَائِلُکُمْ وَ إِنِّي وَاﷲِ مَا سَدَدْتُ شَيْئًا وَلَا فَتَحْتُهُ وَلَکِنِّيْ أُمِرْتُ بِشَييئٍ فَاتَّبَعْتُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ النَّسَائِيُّ وَ الْحَاکِمُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ. ’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی صحابہ کرام کے گھروں کے دروازے مسجد نبوی کے صحن میں کھلتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن فرمایا : علی کا دروازہ چھوڑ کر باقی تمام دروازوں کو بند کر دو۔ راوی نے کہا کہ اس بارے میں لوگوں نے چہ میگوئیاں کیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا : میں نے علی کے دروازے کو چھوڑ کر باقی سب دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ تم میں سے کچھ لوگوں نے اس کے متعلق باتیں کی ہیں۔ بخدا میں نے اپنی طرف سے کسی چیز کو بند کیا نہ کھولا میں نے تو بس اس امرکی پیروی کی جس کا مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 146 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 369، الحديث رقم : 9502، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 118، الحديث رقم : 8423، و الحاکم في المستدرک، 3 / 135، الحديث رقم : 4631، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 114. 147. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا عَنْهُ قَالَ : وَ سَدَّ أَبْوَابَ الْمَسْجِدِ غَيْرَ بَابِ عَلِيٍّ فَقَالَ، فَيَدْخُلُ الْمَسْجِدَ جُنُبًا وَ هُوَ طَرِيقُهُ. لَيْسَ لَهُ طَرِيقٌ غَيْرُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد کے تمام دروازے بند کر دیئے سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازے کے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی حالتِ جنابت میں بھی مسجد میں داخل ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہی اس کا راستہ ہے اور اس کے علاوہ اس کے گھر کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 147 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062. 148. عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : کُنَّا نَقُوْلُ فِي زَمَنِ النَّّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : رَسُوْلُ اﷲِ خَيْرُ النَّاسِ، ثُمَّ أَبُوْبَکْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، وَ لَقَدْْ أُوْتِيَ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ ثَلاَثَ خِصَالٍ، لِأَنْ تَکُوْنَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النًَّعَمِ : زَوَّجَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ابْنَتَهُ، وَ وَلَدَتْ لَهُ، وَ سَدَّ الأَبْوَابَ إِلَّا بَابَهُ فِي الْمَسْجِدِ وَ أَعْطَاهُ الرَّايَةَ يَوْمَ خَيْبَرَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں کہا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے افضل ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تین خصلتیں عطا کی گئیں ہیں۔ ان میں سے اگر ایک بھی مجھے مل جائے تو یہ مجھے سرخ قیمتی اونٹوں کے ملنے سے زیادہ محبوب ہے۔ (اور وہ تین خصلتیں یہ ہیں) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا نکاح اپنی صاحبزادی سے کیا جس سے ان کی اولاد ہوئی اور دوسری یہ کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کروا دیئے مگر ان کا دروازہ مسجد میں رہا اور تیسری یہ کہ ان کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کے دن جھنڈا عطا فرمایا۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 148 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند 2 / 26، الحديث رقم : 4797، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 120، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 567، الحديث رقم : 955. 149. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي الله عنه قَالَ : أَمَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَسَدِّ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ کُلِّهَا غَيْرَ بَابَ عَلِيٍّ رضي الله عنه فَقَالَ الْعَبَّاسُ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَدْرَ مَا أَدْخُلُ أَنَا وَحْدِيْ وَ أَخْرُجُ؟ قَالَ مَا أُمِرْتُ بِشَيئٍ مِنْ ذَالِکَ فًسَدَّهَا کُلَّهَا غَيْرَ بَابِ عَلِيٍّ وَ رُبَّمَا مَرَّ وَ هُوَ جُنُبٌ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت جابر بن سمرہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازے کے علاوہ مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم فرمایا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : کیا صرف میرے آنے جانے کیلئے راستہ رکھنے کی اجازت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے اس کا حکم نہیں سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازے کے علاوہ سب دروازے بند کروا دئیے اور بسا اوقات وہ حالت جنابت میں بھی مسجد سے گزر جاتے۔ اسے طبرانی نے’’المعجم الکبیر،، میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 149 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 2 / 246، الحديث رقم : 2031، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 115. (16) بَابٌ فِي مَکَانَتِهِ رضي اﷲ عنه الْعِلْمِيَةِ (آپ رضی اللہ عنہ کا علمی مقام و مرتبہ)150. عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَنَا دَارُ الْحِکْمَةِ وَعِليٌّ بَابُهَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 150 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 637، الحديث رقم : 3723، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 634، الحديث رقم : 1081، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 64. 151. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَنَا مَدِيْنَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِيْنَةَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ. ’’ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ لہٰذا جو اس شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس دروازے سے آئے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 151 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 137، الحديث رقم : 4637، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 1 / 44، الحديث رقم : 106. 152. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : أَنَا مَدِيْنَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’ حضرت جابر بن عبداﷲ رضي اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ لہٰذا جو کوئی علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس دروازے سے آئے۔ اس حدیث کو حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 152 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 138، الحديث رقم : 4639، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 65، الحديث رقم : 11061، و الهيثمي في المجمع الزوائد، 9 / 114، و المناوي في فيض القدير، 3 / 46، و خطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 4 / 348. 153. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : وَ اﷲِ! مَا نَزَلَتْ آيَةٌ إِلَّا وَ قَدْ عَلِمْتُ فِيْمَا نَزَلَتْ وَ أَيْنَ نَزَلَتْ وَ عَلَي مَنْ نَزَلَتْ، إِنَّ رَبِّيْ وَهَبَ لِي قَلْبًا عَقُوْلًا وَ لِسَانًا طَلْقًا. رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ. ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں قرآن کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کس کے بارے، کس جگہ اور کس پر نازل ہوئی بے شک میرے رب نے مجھے بہت زیادہ سمجھ والا دل اور فصیح زبان عطا فرمائی ہے۔ اسے ابونعیم نے ’’حلیۃ الاولیاء‘‘ میں اور ابن سعد نے ’’ الطبقات الکبريٰ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 153 : أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 68، و ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 338. 154. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلَيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّهُ قِيْلَ لِعَلِيٍّ : مَا لَکَ أَکْثَرُ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، حَدِيْثًا؟ قَالَ : إِنِّيْ کُنْتُ إِذَا سَأَلْتُهُ أَنْبَأَنِي، وَ إِذَا سَکَتُّ ابْتَدَأَنِي. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ. ’’حضرت عبداللہ بن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے آپ کثرت سے احادیث روایت کرنے والے ہیں؟ تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا : کہ اس کی وجہ یہ ہے جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی سوال کرتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اس کا جواب ارشاد فرماتے تھے اور جب میں خاموش ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے بات شروع فرما دیتے تھے۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 154 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 338. 155. عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : سَلُوْنِيْ عَنْ کِتَابِ اﷲِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ مِنْ آيَةٍ إِلَّا وَ قَدْ عَرَفْتُ بِلَيْلٍ نَزَلَتْ أَمْ بِنَهَارٍ، فِيْ سَهْلٍ أَمْ فِيْ جَبَلٍ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ. ’’حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھ سے کتاب اللہ کے بارے سوال کرو پس بے شک کوئی بھی آیت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں میں یہ نہ جانتا ہوں کہ وہ دن کو نازل ہوئی یا رات کو، پہاڑ میں نازل ہوئی یا میدان میں۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 155 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 338. (17) بَابٌ فِيْ کَوْنِهِ رضي الله عنه أَقْضَي الصَّحَابَةِ (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے)156. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : بَعَثَنِيْ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي الْيَمَنِ قَاضِيا، فَقُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم تُرْسِلُنِيْ وَأَنَا حَدِيْثُ السِّنِّ، وَلَا عِلْمَ لِيْ بِالْقَضَاءِ، فقَالَ : إِنَّ اﷲَ سَيَهْدِيْ قَلْبَکَ، وَيُثَبِّتُ لِسَانَکَ، فَإِذَا جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْکَ الْخَصْمَانِ فَلاَ تَقْضِيَنَّ حَتَّي تَسْمَعَ مِنَ الْآخَرِ کَمَا سَمِعْتَ مِنَ الْأَوَّلِ فَإِنَّهُ أَحْرٰي أَنْ يَتَبَيَنَ لَکَ الْقَضَاءُ. قَالَ فَمَا زِلْتُ قَاضِيًا أَوْ مَا شَکَکْتُ فِي قَضَآءٍ بَعْدُ. رَوَاهُ أَبُوْدَاؤْدَ. ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا۔ میں عرض گزار ہوا یا رسول اﷲ! آپ مجھے بھیج رہے ہیں جبکہ میں نو عمر ہوں اور فیصلہ کرنے کا بھی مجھے علم نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲ تعالی عنقریب تمہارے دل کو ہدایت عطا کر دے گا اور تمہاری زبان اس پر قائم کر دے گا۔ جب بھی فریقین تمہارے سامنے بیٹھ جائیں تو جلدی سے فیصلہ نہ کرنا جب تک دوسرے کی بات نہ سن لو جیسے تم نے پہلے کی سنی تھی۔ یہ طریقہ کار تمہارے لیے فیصلہ کو واضح کر دے گا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ اس دعا کے بعد میں کبھی بھی فیصلہ کرنے میں شک میں نہیں پڑا۔ اس حدیث کو امام ابوداود نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 156 : أخرجه أبوداؤد في السنن، کتاب الأقضيه، باب کيف القضاء، 3 / 301، الحديث رقم : 3582، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 83، الحديث رقم : 636، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 116، الحديث رقم : 8417، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 10 / 86. 157. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : بَعَثَنِي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي الْيَمَنِ، فَقُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ! تَبْعَثُنِي وَ أَنَا شَابٌّ، أَقْضِيْ بَيْنَهُمْ. وَ لاَ أَدْرِيْ مَا الْقَضَاءُ؟ فَضَرَبَ بِيَدِهِ فِي صَدْرِيْ. ثُمَّ قَالَ : اللّهُمَّ! أَهْدِ قَلْبَهُ، وَ ثَبِّتْ لِسَانَهُ. قَالَ : فَمَا شَکَکْتُ فِيْ قَضَاءٍ بَيْنَ اثْنَيْنِ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اﷲ علیک وسلم مجھے بھیج رہے ہیں کہ میں ان کی درمیان فیصلہ کروں حالانکہ میں نوجوان ہوں اور یہ بھی نہیں جانتا کہ فیصلہ کیا ہے؟ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس میرے سینے پہ مارا پھر فرمایا : اے اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا فرما اور اس کی زبان کو حق پر قائم رکھ۔ فرمایا اس کے بعد میں نے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں کبھی بھی شک نہیں کیا۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 157 : أخرجه ابن ماجة في السنن، کتاب الأحکام، باب ذکر القضاة، 2 / 774، الحديث رقم : 2310، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 116، الحديث رقم : 8419، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 365، الحديث رقم : 32068، و البزار في المسند، 3 / 126، الحديث رقم : 912، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 61، الحديث رقم : 94، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 580، الحديث رقم : 984، وابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 337 158. عَن عَبْدِ اﷲِ قَالَ : کُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ أَقْضَي أَهْلِ الْمَدِيْنَةِ ابْنُ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ الحَاکِمُ فِي الْمُسْتَدْرَکِ. ’’حضرت ابو اسحاق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اہل مدینہ میں سے سب سے اچھا فیصلہ فرمانے والا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہے۔ اس حدیث کو حاکم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 158 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 145، الحديث رقم : 4656، و العسقلاني في فتح الباري، 8 / 167، و ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 338. 159. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ عُمَرُ رضي اﷲ عنه : عَلِيٌّ أَقْضَانَا، وَ أُبَيٌّ أَقْرَأُنَا. رَوَاهُ الْحَاکِمُ فِي الْمُسْتَدْرَکِ. ’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضي اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : علی ہم سب سے بہتر اور صائب فیصلہ فرمانے والے ہیں اور ابی بن کعب ہم سب سے بڑھ کر قاری ہیں۔ اس حدیث کو حاکم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 159 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 345، الحديث رقم : 5328، و أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 113، الحديث رقم : 21123. 160. عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : عَلِيٌّ أَقْضَانَا. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ ہم میں سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والے علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اسے ابن سعد نے ’’ الطبقات الکبريٰ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 160 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 339. 161. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ قَالَ : کَانَ عُمَرُ يَتَعَوَّذُ بِاﷲِ مِنْ مُعْضِلَةٍ لَيْسَ فِيْهَا أَبُوْ حَسَنٍ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ. ’’حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس ناقابل حل اور مشکل مسئلہ سے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نہیں ہوتے تھے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 161 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 339. (18) بَابٌ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : أَلنَّظْرُ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ (فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے)162. عَنْ عَبْدِاﷲِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَلنَّظْرُ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے اور طبرانی نے المعجم الکبیر میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 162 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 152، الحديث رقم : 4682، و الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 76، الحديث رقم : 10006، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 119، (و قال الهيثمي وثقه ابن حبان و قال مستقيم الحديث)، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 294، الحديث رقم : 6865 (عن معاذ بن جبل)، وأبونعيم في حلية الأولياء، 5 / 58. 163. عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَلنَّظْرُ إِلَي عَلِيٍّ عِبَادَةٌ، رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ. ’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 163 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 52، الحديث رقم : 4681، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 294، الحديث رقم : 6866، وأبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 183. 164. عَنْ طَلِيْقِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ : رَأَيْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ يَحِدُّ النَّظْرَ إِلَي عَلِيٍّ فَقِيْلَ لَهُ‘ فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : النَّظْرُ إِلَي عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’ حضرت طلیق بن محمد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے تھے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے’’ المعجم الکبیر ‘‘میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 164 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 18 / 109، الحديث رقم : 207، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 109. 165. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : ذِکْرُ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ، رَوَاهُ الدَّيْلِمِيُّ. ’’ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کا ذکر بھی عبادت ہے۔ اس حدیث کو دیلمی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 165 : أخرجه الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 2 / 244، الحديث رقم : 1351. 166. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : رَأَيْتُ أَبَابَکْرٍ يُکْثِرُ النَّظْرَ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ فَقُلْتُ لَهُ : يَا أَبَتِ! أَرَاکَ تُکثِرُ النَّظْرَ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ فَقَالَ : يَا بُنَيَةُ! سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : النَّظْرُ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخِهِ. ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ کثرت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو دیکھا کرتے۔ پس میں نے آپ سے پوچھا، اے ابا جان! کیا وجہ ہے کہ آپ کثرت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کی طرف تکتے رہتے ہیں؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اے میری بیٹی! میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی کے چہرے کو تکنا بھی عبادت ہے۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے ’’تاريخ دمشق الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 166 : أخرجه ابن عساکر في تاريخه، 42 / 355، و الزمخشري في مختصر کتاب الموافقة : 14. 167. عَنْ عَبْدِ اﷲِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : قَالَ : رَسُوْلُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : النَّظْرُ إِليَ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخَةِ. ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے ’’تاريخ دمشق الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 167 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 42 / 351. 168. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ مَعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : النَّظْرُ إِليَ وَجْه عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخَةِ. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت معاذ بن جبل سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے ’’تاريخ دمشق الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 168 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 42 / 353. 169. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم النَّظْرُ إِليَ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخَةِ. ’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے ’’تاريخ دمشق الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 169 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 42 / 353. 170. عَنْ أَنَسَ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم النَّظْرُ إِليَ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخَةِ. ’’حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے ’’تاريخ دمشق الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 170 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 42 / 353. (19) بَابٌ فِي تَشَرُّفِهِ بِتَغْسِيْلِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم. (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غسل کے لئے آپ رضی اللہ عنہ کا انتخاب)171. عَنْ عَبْدِ الوَاحِدِ بْنِ أَبِي عَوْنٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِعَليِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِيَّ فِيْهِ : اغْسِلْنِي يَا عَلِيُّ إِذَا مِتُّ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا غَسَلْتُ مَيِّتًا قَطُّ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِنَّکَ سَتَُهَيَأُ أَوْ تُيَسَّرُ، قَالَ عَلِيٌّ : فَغَسَلْتُهُ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ. ’’حضرت عبدالواحد بن ابی عون رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے اپنے اس مرض میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی فرمایا : اے علی جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے غسل دینا تو آپ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں نے کبھی کسی میت کو غسل نہیں دیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک عنقریب تو اس کے لئے تیار ہو جائے گا حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 171 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 280. 172. عَنْ عَامِرٍ قَالَ : غَسَلَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَالْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ وَ أَسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ وَکَانَ عَلِيٌّ يَغْسِلُهُ وَيَقُوْلُ : بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، طِبْتَ مَيْتًا وَحَيًّا. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ. ’’حضرت عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی اور فضل بن عباس اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنھم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا جب حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دے رہے تھے تو کہتے تھے یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہوں آپ وصال فرما کر اور زندہ رہ کر دونوں حالتوں میں پاکیزہ تھے۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 172 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 277. 173. عَنْ عَامِرٍ قَالَ : کَانَ عَلِيٌّ يَغْسِلُ النَّبِيَ صلي الله عليه وآله وسلم وَالْفَضْلُ وَأَسَامَةُ يَحْجِبَانِهِ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبْقَاتِ الکبريٰ. ’’حضرت عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دے رہے تھے اور حضرت فضل اور اسامہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پردہ کیا ہوا تھا۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 173 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 277. (20) بَابٌ فِي إِعْلَامِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم إِيَاهُ بِإِسْتِشْهَادِهِ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آپ رضی اللہ عنہ کو شہادت کی خبر دینا)174. عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ عَلَي جَبْلِ حِرَاءٍ. فَتَحَرَّکَ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : اسْکُنْ. حِرَاءُ! فَمَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ وَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم وَ أَبُوبَکْرٍ وَ عُمَرُ وَ عُثْمَانُ وَ عَلِيٌّ وَ طَلْحَةُ وَ الزُّبَيْرُ وَ سَعْدٌ بْنُ أَبِيْ وَقَّاصٍ رضی الله عنه. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حراء (پہاڑ) پرسکون رہو پس بے شک تجھ پر نبی ہے یا صدیق ہے یا شہید ہے (اور کوئی نہیں)۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس پہاڑ پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اور حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنھم تھے۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 174 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل طلحة و الزبير،، 4 / 1880، الحديث رقم : 2417، وابن حبان في الصحيح، 15 / 441، الحديث رقم : 6983، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 187 الحديث رقم : 1630، و الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 273، الحديث رقم : 890، و أبويعلي في المسند، 2 / 259، الحديث رقم : 970.
  7. (1) بَابٌ فِيْ إِخْتِصَاصِهِ بِأَنَّهُ رضي الله عنه أَشَدُّ الْأُمَّةِ حَيَاءً. (امت میں سب سے زیادہ حیا دار)1. عَنْ أَبِيْ مُوْسَي قَالَ : إِنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ قَاعِداً فِيمَکَانٍ فِيْهِ مَاءٌ، قَدِ انْکَشَفَ عَنْ رُکْبَتَيْهِ، أَوْ رُکْبَتِهِ، فَلَمَّا دَخَلَ عُثْمَانُ غَطَّاهَا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. ’’حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ جہاں پانی تھا اور (ٹانگیں پانی میں ہونے کے باعث) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں گھٹنوں سے یا ایک گھٹنے سے کپڑا ہٹا ہو ا تھا، پس جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ڈھانپ لیا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان، 3 / 1351، الحديث رقم : 3492، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 232، الحديث رقم : 3063، و البيهقي في الإعتقاد، 1 / 367، و الشوکاني في نيل الأوطار، 2 / 52. 2. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مُضْطَجِعًا فِي بَيْتِيْ، کَاشِفًا عَنْ فَخِذَيْهِ. أَوْ سَاقَيْهِ. فَاسْتَأْذَنَ أَبُوْبَکْرٍ فَأَذِنَ لَهُ. وَ هُوَ عَلَي تِلْکَ الْحَالِ. فَتَحَدَّثَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ فَأَذِنَ لَهُ. وَ هُوَ کَذَلِکَ. فَتَحَدَّثَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ. فَجَلَسَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : وَسَوَّي ثِيَابَهُ. قَالَ مُحَمَّدٌ : وَ لَا أَقُوْلُ ذَلِکَ فِيْ يَوْمٍ وَاحِدٍ. فَدَخَلَ فَتَحَدَّثَ. فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ عَائِشَةُ : دَخَلَ أَبُوْبَکْرٍ فَلَم تَهْتَشَّ لَهُ وَ لَمْ تُبَالِهِ. ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ وَ لَمْ تُبَالِهِ. ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ فَجَلَسْتَ وَ سَوَّيْتَ ثِيَابَکَ فَقَالَ : أَلاَ أَسْتَحْيِيْ مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحْيِيْ مِنْهُ الْمَلَائِکَةُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں (بستر پر) لیٹے ہوئے تھے، اس عالم میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں مبارک پنڈلیاں کچھ ظاہر ہو رہی تھیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے رہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے کرتے رہے، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے۔ محمد راوی کہتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ایک دن کا واقعہ ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آ کر باتیں کرتے رہے، جب وہ چلے گئے تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا۔ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے ان کا فکر و اہتمام نہیں کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تب بھی آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے کوئی فکر و اہتمام نہیں کیا اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اﷲ علیک وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اس شخص سے کیسے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔‘‘ اِس حدیث کو اما م مسلم نے روایت کیا ہے۔ الحديث رقم 2 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1866، الحديث رقم : 2401، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 336، الحديث رقم : 6907، و أبو يعلي في المسند، 8 / 240، الحديث رقم : 6907، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 230، الحديث رقم : 3059. 3. عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيْدِ بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ سَعِيْدَ بْنَ الْعَاصِ أَخْبَرَهُ؛ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم وَ عُثْمَانَ حَدَّثَاهُ؛ أَنَّ أَبَابَکْرٍ إِسْتَأْذَنَ عَلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَي فِرَاشِه لَابِسٌ مِرْطَ عَائِشَةَ فَأَذِنَ لِأَبِي بَکْرٍ وَ هُوَ کَذٰلِکَ. فَقَضٰي إِلَيْهِ حَاجَتَهُ ثُمَّ انْصَرَفَ. ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ فَأَذِنَ لَهُ وَ هُو عَلٰي تِلْکَ الْحَالِ فَقَضٰي إِلَيْهِ حَاجَتَهُ ثُمَّ انْصَرَفَ قَالَ عُثْمَانُ : ثُمَّ اسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَجَلَسَ وَ قَالَ لِعَائِشَةَ : إِجْمَعِيْ عَلَيْکِ ثِيَابَکِ فَقَضَيْتُ إِلَيْهِ حَاجَتِيْ ثُمَّ انْصَرَفْتُ فَقَالَتْ عَائِشَةُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! مَنْ لَمْ أَرَکَ فَزِعْتَ لِأَبِي بَکْرٍ وَ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما کَمَا فَزِعْتَ لِعُثْمَانَ؟ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ عُثْمَانَ رَجُلٌ حَيِيٌّ وَ إِنِّي خَشِيْتُ إِنْ أَذِنْتُ لَهُ عَلَي تِلْکَ الْحَالِ، أَنْ لَا يَبْلُغَ إِلَيَّ فِيْ حَاجَتِهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’حضرت عائشہ اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بستر پر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسی حالت میں اجازت دے دی اور ان کی حاجت پوری فرما دی۔ وہ چلے گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بھی اسی حالت میں آنے کی اجازت دے دی۔ وہ بھی اپنی حاجت پوری کرکے چلے گئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا اپنے کپڑے درست کر لو، پھر میں اپنی حاجت پوری کرکے چلا گیا، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا وجہ ہے کہ آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لئے اس قدر اہتمام نہ فرمایا۔ جس قدر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان ایک کثیرالحیاء مرد ہے اور مجھے خدشہ تھا کہ اگر میں نے ان کو اسی حال میں آنے کی اجازت دے دی تو وہ مجھ سے اپنی حاجت نہیں بیان کرسکے گا۔‘‘ اِس حدیث کو اما م مسلم نے روایت کیا ہے۔ الحديث رقم 3 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1866. 1867، الحديث رقم : 2402، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 71، الحديث رقم 514، و أبو يعلي في المسند، 8 / 242، الحديث رقم : 4818، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 61، الحديث رقم : 5515، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 231، الحديث رقم : 3060، و البزار في المسند، 2 / 17، الحديث رقم : 355، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 210، الحديث رقم : 600. 4. عَنْ حَفْصَةَ قَالَتْ : دَخَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاتَ يَوْمٍ فَوَضَعَ ثَوْبَهُ بَيْنَ فَخِذَيْهِ فَجَاءَ أَبُوْبَکْرٍ يَسْتَأْذِنُ فَأَذِنَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلَي هَيْئَتِهِ، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ يَسْتَأْذِنُ فَأَذِنَ لَهُ عَلَي هَيْئَتِهِ ثُمَّ جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَأَذِنَ لَهُمْ ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ يَسْتَأْذِنُ فَأَذِنَ لَهُ وَ رَسُوْلُ اﷲِ عَلَي هَيْئَتِهِ ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَتَجَلَّلَ ثَوْبَهُ ثُمَّ أَذِنَ لَهُ، فَتَحَدَّثُوْا سَاعَةً ثُمَّ خَرَجُوْا، وَ قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ دَخَلَ عَلَيْکَ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ وَ عَلِيٌّ وَ أُنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِکَ وَ أَنْتَ عَلَي هَيْئَتِکَ لَمْ تَتَحَرَّکْ فَلَمَّا دَخَلَ عُثْمَانُ تَجَلَّلْتَ ثَوْبَکَ؟ فَقَالَ : أَلاَ أَسْتَحْيِ مِمَّنْ تَسْتَحِيْ مِنْهُ الْمَلَائِکَةُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت حفصہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا (اوپر لپیٹنے کا) کپڑا اپنی مبارک رانوں پر رکھ لیا، اتنے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور اندر آنے کے لئے اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں رہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی حالت میں رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ صحابہ آئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں تشریف فرما رہے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اپنے جسم اقدس کو کپڑے سے ڈھانپ لیا پھر انہیں اجازت عنایت فرمائی۔ پھر وہ صحابہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ دیر باتیں کرتے رہے پھر باہر چلے گئے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم آپ صلی اﷲ علیک وسلم کی خدمت اقدس میں ابو بکر، عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام حاضر ہوئے لیکن آپ صلی اﷲ علیک وسلم اپنی پہلی ہیئت میں تشریف فرما رہے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے اپنے جسم اقدس کو اپنے کپڑے سے ڈھانپ لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں؟ اس کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 4 : أخرجه احمد بن حنبل في المسند، 6!288، الحديث رقم : 26510، و الطبراني في المعجم الکبير، 23!205، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9!81، و عبد بن حميد في المسند، 1!446. 5. عَنْ بَدْرِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ : وَقَفَ عَلَيْنَا زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ يَوْمَ الْدَّارِ فَقَالَ : أَلاَ تَسْتَحْيُوْنَ مِمَّْنْ تَسْتَحْيِ مِنْهُ الْمَلاَئِکَةُ قُلْنَا : وَ مَاذَاکَ؟ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَرَِّبيْ عُثْمَانُ وَ عِنْدِي مَلَکٌ مِنَ الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ شَهِيْدٌ يَقْتُلُهُ قُوْمُهُ إِنَّا لَنَسْتَحْيِ مِنْهُ قَالَ بَدْرٌ : فَانْصَرَفْنَا عَنْهُ عَصَابَةً مِنَ النَّاسِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت بدر بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یوم الدار کو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہمارے پاس کھڑے ہوئے اور کہا کیا تم اس شخص سے حیاء نہیں کرتے جس سے ملائکہ بھی حیاء کرتے ہیں ہم نے کہا وہ کون ہے؟ راوی نے کہا میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ میرے پاس تھا جب عثمان میرے پاس سے گزرا تو اس نے کہا یہ شخص شہید ہے اس کی قوم اس کو قتل کرے گی اور ہم ملائکہ اس سے حیاء کرتے ہیں بدر (راوی) کہتے ہیں کہ پھر ہم نے آپ رضی اللہ عنہ سے لوگوں کے ایک گروہ کو دور کیا اس کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں بیان کیاہے۔‘‘ الحديث رقم 5 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 5 / 159، الحديث رقم : 4939، و الطبراني في مسند الشاميين، 2 / 258، الحديث رقم : 1297، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 82. 6. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَشَدُّ أُمَّتِي حَيَاءً عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ. رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ. ’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان ہے۔ اس حدیث کو ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 6 : أخرجه أبونعيم في حلية الأولياء، 1 / 56، و ابن أبی عاصم في السنة، 2 / 587، الحديث رقم : 1281. 7. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَرْحَمُ أُمَّتِيْ أَبُوْبَکْرٍ وَ أَشَدُّهُمْ فِي اﷲِ عُمَرُ وَ أَکْرَمُ حَيَاءً عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَ أَقْضَاهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخِهِ. ’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل ابوبکر ہیں اور اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے حیادار عثمان بن عفان ہیں اور سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی ہیں۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 7 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 41 / 64. (2). بَابٌ فِيْ تَبْشِيْرِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم لَهُ رضی الله عنه بِمُرَافَقَتِه فِي الْجَنَّةِ (عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے لئے جنت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت کی بشارت)8. عَنْ أَبِيْ مُوْسٰی الأَشْعَرِيِّ قَالَ : بَيْنَمَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِيْ حَائِطٍ مِنْ حَائِطِ الْمَدِيْنَةِ، هُوَ مُتَّکِئٌ يَرْکُزُ بِعُوْدٍ مَعَهُ بَيْنَ الْمَاءِ وَ الطِّيْنِ، إِذَا اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ. فَقَالَ : افْتَحْ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ قَالَ : فَإِذَا أَبُوْبَکْرٍ فَفَتَحْتُ لَهُ وَ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ. قَالَ : ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ. فَقَالَ : افْتَحْ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ : فَذَهَبْتُ فَإِذَا هُوَ عُمَرُ فَفَتَحْتُ لَهُ وَ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ قَالَ : فَجَلَسَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : افْتَحْ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَي بَلْوٰی تَکُوْنُ قَالَ : فَذَهَبْتُ فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قَالَ : فَفَتَحْتُ وَ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ قَالَ : وَ قُلْتُ الَّذِيْ قَالَ : فَقَالَ : اَللَّهُمَّ! صَبْرًا أَوِ اﷲُ الْمُسْتَعَانُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ. ’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کے ایک باغ میں تکیہ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، اور ایک لکڑی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھی اس کو پانی اور مٹی میں پھیر رہے تھے کہ اچانک ایک شخص نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دروازہ کھول کر اس کو جنت کی بشارت دے دو، حضرت ابو موسیٰ اشعری نے کہا آنے والے حضرت ابوبکر تھے، میں نے دروازہ کھول کر ان کو جنت کی بشارت دے دی۔ پھر ایک شحص نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دروازہ کھول کر اس کو بھی جنت کی بشارت دے دو، حضرت ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ میں گیا تو وہ حضرت عمر تھے میں نے دروازہ کھول کر ان کو جنت کی بشارت دے دی، پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا دروازہ کھول دو اور اس کو مصائب و آلام کے ساتھ جنت کی بشارت دے دو، تو وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے، میں نے دروازہ کھولا اور ان کو جنت کی بشارت دے دی اور جو کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا وہ کہہ دیا، حضرت عثمان نے کہا : اے اللہ! صبر عطا فرما، یا فرمایا اللہ ہی مستعان ہے۔ اس حدیث کو اما م بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ الحديث رقم 8 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1350، الحديث رقم : 3490، و في کتاب الأدب، باب من نکت العود في الماء و الطين، 5 / 2295، الحديث رقم : 5862، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1867، الحديث رقم : 2403، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 335، الحديث رقم : 965، و ابن جوزي في صفوة الصفوة، 1 / 299. 9. عَنْ أَبِيْ مُوْسَي رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم دَخَلَ حَائِطًا وَ أَمَرَنِي بِحِفْظِ بَابِ الحَائِطِ، فَجَاءَ رَجُلٌ يَسْتَأْذِنُ فَقَالَ : ائْذَنْ لَهُ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ. فَإِذَا أَبُوْبَکْرٍ، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ : ائْذَنْ لَهُ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ. فًإِذَا عُمَرُ، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ يَسْتَأْذِنُ، فَسَکَتَ هُنَيْهَةً ثُمَّ قَالَ : ائْذَنْ لَهُ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، عَلَي بَلْوَي سَتُصِيْبُهُ. فَإِذَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ. رًوَاهُ الْبُخَارِيُّ. ’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے باغ کے دروازے کی حفاظت پر مامور فرمایا پس ایک آدمی نے آ کر اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی دے دو۔ دیکھا تو وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے پھر دوسرے شخص نے آ کر اجازت طلب کی تو فرمایا : اسے بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت دے دو۔ دروازہ کھولا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے پھر ایک اورشخص آیا اور اس نے بھی اجازت طلب کی تو آپ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر فرمایا : انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت دے دو ان مصائب و مشکلات کے ساتھ جو اسے پہنچیں گی، دیکھا تو وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 9 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان، 3 / 1351، الحديث رقم : 3492، و البيهقي في الإعتقاد، 1 / 367، و المبارکفوري في تحفة الأحوذي، 10 / 142. 10. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ. أَخْبَرَنِيْ أَبُوْمُوْسَی الَْأَشْعَرِيُّ؛. . . فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ فِيْهَا عَنْهُ. فَإِذَا هُوَ قَدْ جَلَسَ عَلٰی بِئْرِ أَرِيْسٍ. وَ تَوَسَّطَ قُفَّهَا، وَکَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ، وَ دَلَّاهُمَا فِيْ الْبِئْرِ قَالَ : فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ. ثُمَّ انْصَرَفْتُ فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ. فَقُلْتُ : لَأَکُوْنَنَّ بَوَّابَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الْيَوْمَ. . . . . . . وَ فِيْهَا عَنْهُ، فَجَاءَ إِنْسَانٌ فَحَرَّکَ الْبَابَ فَقُلْتُ : مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ : عُثْمَانُ بْنُ عَفّانَ فَقُلْتُ : عَلَي رِسْلِکَ قَالَ : وَجِئْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ : ائْذَنْ لَهُ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ مَعَ بَلْوَي تُصِيْبُهُ قَالَ : فَجِئْتُ فَقُلْتُ : أُدْخُلْ وَ يُبَشِّرُکَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بِالْجَنَّةِ مَعَ بَلْوٰي تُصِيْبُکَ قَالَ : فَدَخَلَ فَوَجَدَ الْقُفَّ قَدْ مُلِيئَ فَجَلَسَ وَجَاهَهُمْ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ. ’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اریس کنویں کے وسط میں مبارک ٹانگیں دراز فرما کر بیٹھے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا اور پھر جا کر دروازے کے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے دل میں کہا آج میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دربان بنوں گا، . . . . . . پھر ایک شخص نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا میں نے کہا کون ہے؟ اس نے کہا عثمان بن عفان، میں نے کہا ٹھہرئیے میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا کر خبر دی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کو اجازت دو اور جو مصائب اور بلیات اس کو لاحق ہوں گے ان کے ساتھ اس کو جنت کی بشارت دو۔ میں نے کہا آجائیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو ان مصائب کے ساتھ جنت کی بشارت دے رہے ہیں جو آپ کو لاحق ہوں گے وہ آئے انہوں نے دیکھا کہ کنویں کی منڈیر بھر چکی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کی جانب بیٹھ گئے، یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ الحديث رقم 10 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم، باب لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1343، الحديث رقم : 3471، والبخاري في الصحيح، کتاب الفتن، باب الفتنة التي تموج کموج البحر، 6 / 2599، الحديث رقم : 6684، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1868، الحديث رقم : 2403، و شمس الحق في عون المعبود، 14 / 62. 11. عَنْ أَبِيْ مُوْسَي الْأَشْعَرِيِّ قَالَ : انْطَلَقْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَدَخَلَ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ فَقَضٰي حَاجَتَهُ فَقَالَ لِي : يَا أَبَا مُوْسَي أَمْلِکْ عَلَيَّ الْبَابَ فَلاَ يَدْخُلَنَّ عَلَيَّ أَحَدٌ إِلَّا بِإِذْنٍ فَجَاءَ رَجُلٌ يَضْرِبُ الْبَابَ فَقُلْتُ : مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ : أَبُوْبَکْرٍ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ هَذَا أَبُوْبَکْرٍ يَسْتَأذِنُ قَالَ : ائْذَنْ لَهُ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَدَخَلَ وَ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ وَ جَاءَ رَجُلٌ آخَرُ فَضَرَبَ البَابَ فَقُلْتُ : مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ : عُمَرُ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ هَذَا عُمَرُ يَسْتَأذِنُ قَالَ : افْتَحْ لَهُ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَفَتَحْتُ الْبَابَ وَ دَخَلَ وَ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ فَجَاءَ رَجُلٌ آخَرُ فَضَرَبَ الْبَابَ فَقُلْتُ : مَنْ هَذَا؟ قَالَ : عُثْمَانُ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ هَذَا عُثْمَانُ يَسْتَأذِنُ قَالَ : افْتَحْ لَهُ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَي بَلْوَي تُصِيْبُهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. ’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کے ایک گھنے باغ میں داخل ہوئے۔ وہاں اپنی حاجت مبارکہ پوری کی پھر مجھ سے فرمایا : ابو موسیٰ دروازے پر کھڑے رہو۔ کوئی میرے پاس میری اجازت کے بغیر نہ آئے۔ پس ایک آدمی آیا اور اس نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے پوچھا کون ہے؟ جواب ملا میں ابو بکر ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم : ابوبکر باریابی کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی دے دو۔ وہ داخل ہوئے اور میں نے ان کو جنت کی بشارت دے دی۔ اس کے بعد ایک اور آدمی آیا اور اس نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے پوچھا کون ہے؟ جواب ملا میں عمر ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! حضرت عمر باریابی کی اجازت چاہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی دے دو۔ پس وہ داخل ہوئے اور میں نے ان کو جنت کی بشارت دے دی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد ایک اور شخص آیا اور دروازہ کھٹکھٹایا میں نے پوچھا کون ہے کہا میں عثمان ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! حضرت عثمان باریابی کی اجازت چاہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان کے لئے بھی دروازہ کھول دو اور جنت کی بشارت دے دو ایک بڑی آزمائش پر جس کا یہ شکار ہوں گے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 11 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 631، الحديث رقم : 3710، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 406، و الروياني في المسند، 1 / 343، الحديث رقم : 524، و البيهقي في الإعتقاد، 1 / 367. 12. عَنْ طَلْحَةَ ابْنِ عُبَيْدِاﷲِ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : لِکُلِّ نَبِيٍّ رَفِيْقٌ وَرَفِيْقِيْ يَعْنِيْ فِي الْجَنَّةِ عُثْمَانُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ. ’’حضرت طلحہ بن عبید اﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور جنت میں میرا رفیق عثمان رضی اللہ عنہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ الحديث رقم 12 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان بن عفان، 5 / 624، الحديث رقم : 3698، و ابن ماجه في السنن، مقدمه، باب في فضائل أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 / 40، الحديث رقم : 109، و أبويعلي في المسند، 2 / 28، الحديث رقم : 665، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 589، الحديث رقم : 1289، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 401، الحديث رقم : 616. 13. عَنْ جَابِرٍ قَالَ : بَيْنَنَا نَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي بَيْتٍ فِي نَفَرٍ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ فِيْهِمْ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ وَ عُثْمَانُ وَ عَلِيٌّ وَ طَلْحَةُ وَ الزُّبَيْرُ وَ عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ وَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لِيَنْهَضْ کُلُّ رَجُلٍ إِلَي کَفْئِهِ وَ نَهَضَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي عُثْمَانَ فَاعْتَنَقَهُ قَالَ : أَنْتَ وَلِيِي فِي الدُّنْيَا وَ أَنْتَ وَلِيِي فِي الأَخِرَةِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ فِي الْمُسْتَدْرَکِ وَ أَبُوْ يَعْلَي فِي الْمُسْنَدِ. وَ قَالَ الْحَاکِمُ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ. ’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مہاجرین کے ایک گروہ میں ایک گھر میں تھے اور اس گروہ میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنھم بھی تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ ہر آدمی اپنے کفو کی طرف کھڑا ہوجائے اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عثمان کی طرف کھڑے ہوگئے اور انہیں اپنے گلے لگایا اور فرمایا : اے عثمان تو دنیا و آخرت میں میرا دوست ہے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک میں امام ابو يعلي نے مسند میں روایت کیا اور امام حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 13 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 104، الحديث رقم : 4536، و أبو يعلي في المسند، 4 / 44، الحديث رقم : 2051، و أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 1 : 524، رقم : 868، و مناوي في فيض القدير، 4 / 302. 14. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم أَ فِي الْجَنَّةِ بَرْقٌ قَالَ : نَعَمْ وَالَّذِيْ نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ عُثْمَانَ لَيَتَحَوَّلُ فَتَبْرَقُ لَهُ الْجَنَّةُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ فِي الْمُسْتَدْرَکِ. وَ قَالَ صَحِيْحٌ عَلَي شَرْطِ الْشَّيْخِيْنِ. ’’حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : کیا جنت میں بجلی ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بے شک عثمان جب جنت میں منتقل ہو گا تو پوری جنت اس کی وجہ سے چمک اٹھے گی۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور فرمایا یہ شیخین کی شرط پر صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 14 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 105، الحديث رقم : 4540، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 377، الحديث رقم : 7097، و المناوي في فيض القدير، 4 / 302. 15. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ إِلَي النَّبِيِّ فَصَافَحَهُ فَلَمْ يَنْزَعِ النَّبِيُّ يَدَهُ مِنْ يَدِ الرَّجُلِ حَتَّي انْتَزَعَ الرَّجُلُ يَدَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ جَاءَ عُثْمَانُ قَالَ : امْرَؤٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ وَ الْأَوْسَطِ. ’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا۔ اس دوران ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مصافحہ کیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس شخص کے ہاتھ سے اس وقت تک نہ چھڑایا جب تک خود اس آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ نہ چھوڑا پھر اس آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اﷲ ! حضرت عثمان تشریف لائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ اہل جنت میں سے ہے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير اور المعجم الاوسط‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 15 : أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 1 / 98، الحديث رقم : 300، و الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 405، الحديث رقم : 13495، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 87. 16. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ السَّهْرِ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَي سَعِيْدِ بْنِ زَيْدٍ فَقَالَ لَهُ : إِنِّيْ أَبْغَضْتُ عُثْمَانَ بُغْضًا لَمْ أُبْغِضْهُ شَيْئًا قَطُّ، قَالَ بِئْسَ مَا قُلْتَ أَبْغَضْتَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، رَوَاهُ أحْمَدُ في فَضَائِل الصَّحَابَةِ. ’’حضرت عبد اﷲ بن سہر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک ایک آدمی حضرت سعید بن زید کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ میں عثمان سے بہت زیادہ بغض رکھتا ہوں اتنا بغض میں نے کسی سے کبھی بھی نہیں رکھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تو نے نہایت ہی بری بات کہی ہے، تو نے ایک ایسے آدمی سے بغض رکھا جو کہ اہل جنت میں سے ہے۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے فضائل صحابہ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 16 : أخرجه احمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 2 / 570، و المقدسي في الأحاديث المختاره، 3 / 280. (3) بَابٌ فِيْ إِخْتِصَاصِ کَوْنِهِ رضي الله عنه ذَا النُّوْرَيْنِ (لقب ذوالنورین کی خصوصیت کا بیان)17. عَنْ عُثْمَانَ، هُوَ ابْنُ مَوْهَبٍ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ حَجَّ الْبَيْتَ، فَرَأَي قَوْمًا جُلُوْسًا، فَقَالَ : مَنْ هَؤُلَاءِ القَوْمُ؟ قَالَ : هَؤُلَاءِ قُرَيْشٌ، قَالَ : فَمَنِ الشَّيْخُ فِيْهِمْ؟ قَالُوْا : عَبْدُ اﷲِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ : يَا ابْنَ عُمَرَ، إِنِّيْ سَائِلُکَ عَنْ شَيْئٍ فَحَدِّثْنِيْ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ؟ قَالَ : نَعَمْ فَقَالَ : تَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَبَ عَنْ بَدْرٍ وَ لَمْ يَشْهَدْ؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : تَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَبَ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَمْ يَشْهَدْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : اﷲُ أَکْبَرُ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ : تَعَالْ أُبَيِنْ لَکَ، أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ، فَأَشْهَدُ أَنَّ اﷲَ ؟ عَفَا عَنْهُ وَ غَفَرَلَهُ، وَ أَمَّا تَغَيُبُهُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّهُ کَانَتْ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَکَانَتْ مَرِيْضَةً، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ لَکَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَ سَهْمَهُ. وَ أَمَّا تَغَيُبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ، فَلَوْ کَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَکَّةَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَهُ مَکَانَهُ، فَبَعَثَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عُثْمَانَ، وَ کَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ عُثْمَانُ إِلَي مَکَّةَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بِيَدِهِ الْيُمْنَي : هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ. فَضَرَبَ بِهَا عَلَي يَدِهِ، فَقَالَ : هَذِهِ لِعُثْمَانَ. فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ : اذْهَبْ بِهَا الآنَ مَعَکَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. ’’حضرت عثمان بن موہب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی مصر سے آیا اس نے حج کیا اور چند آدمیوں کو ایک جگہ بیٹھے ہوئے دیکھا تو پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ کسی نے کہا، یہ قریش ہیں۔ پوچھا ان کا سردار کون ہے؟ لوگوں نے کہا : عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما ہیں وہ کہنے لگا اے ابن عمر! میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اس کا جواب مرحمت فرمائیے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ احد سے فرار ہو گئے تھے؟ جواب دیا ہاں پھر دریافت کیا کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے؟ جواب دیا ہاں پھر پوچھا کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت رضوان کے وقت موجود نہ تھے بلکہ غائب رہے؟ جواب دیا ہاں اس نے اللہ اکبر کہا۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : ٹھہرئیے میں ان واقعات کی کیفیت بیان کرتا ہوں جو انہوں نے جنگ احد سے راہِ فرار اختیار کی تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا اور انہیں بخش دیاگیا۔ رہا وہ غزوہ بدر سے غائب رہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک صاحبزادی ان کے نکاح میں تھیں اور اس وقت وہ بیمار تھیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے خود فرمایا تھا کہ تمہارے لئے بھی بدر میں شریک صحابہ کے برابر اجر اور حصہ ہے۔ (تم اس کی تیمار داری کے لئے رکو) رہی بیعت رضوان سے غائب ہونے والی بات تو مکہ مکرمہ کی سر زمین میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی معزز ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جگہ اسے اہل مکہ کے پاس سفیر بنا کر بھیجتے سو بیعت رضوان کا واقعہ تو ان کے مکہ مکرمہ میں (بطورِ سفیر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے جانے کے بعد پیش آیا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کے لئے فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اسے اپنے دوسرے دست مبارک پر رکھ کر فرمایا کہ یہ عثمان کی بیعت ہے۔ پھر حضرت ابن عمر نے اس شخص سے فرمایا : اب جا اور ان بیانات کو اپنے ساتھ لیتا جا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 17 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان رضی اﷲ عنه، 3 / 1353، الحديث رقم : 3495، و ايضا في کتاب المغازي، باب قول اﷲ تعالي إن الذين تولوا منکم، 4 / 1491، الحديث رقم : 3839، و الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب عثمان، 5 / 629، الحديث رقم : 3706، و أحمد بن حنبل فيالمسند، 2 / 101، الحديث رقم : 5772. 18. عَنْ عُبَيْدِ اﷲِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخَيَارِ، فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ مِنْهَا. . . . . عَنْهُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ قَالَ أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ اﷲَ عزوجل بَعَثَ مُحَمَّداً بِالْحَقِّ، فَکُنْتُ مِمَّنْ اسْتَجَابَِﷲِ وَلِرَسُوْلِهِ وَ آمَنَ بِمَا بُعِثَ بِهِ مُحَمَّدٌ، ثُمَّ هَاجَرْتُ الْهِجْرَتَيْنِ کَمَا قُلْتُ وَ نِلْتُ صِهْرَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ بَايَعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ فَوَاﷲِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ حَتَّي تَوَفَّاهُ اﷲُ عزوجل. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عبید اﷲ بن عدی بن خیارسے ایک طویل روایت میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بے شک اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اور اس پر ایمان لائے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکر بھیجا گیا۔ پھر جیسا کہ میں نے کہا میں نے دو ہجرتیں کیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رشتۂِ دامادی پایا اور میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت بھی کی اور خدا کی قسم میں نے کبھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی نہیں کی اور نہ ہی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دھوکہ کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 18 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 66، الحديث رقم : 480، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 88. 19. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ قَالَ : إِنَّ اﷲَ عَزَّ وَجَلَّ أَوْحٰي إِلَيَّ أَنْ أُزَوِّجَ کَرِيْمَتِيْ مِنْ عُثْمَانَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الصَّغِيْرِ وَ الأَوْسَطِ. ’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲ تبارک وتعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ میں اپنی صاحبزادی کی شادی عثمان سے کروں. اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘ اور المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 19 : أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 1 / 253، الحديث رقم : 414، و الطبراني في المعجم الاوسط، 4 / 18، الحديث رقم : 3501، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 512، الحديث رقم : 837. 20. عَنْ أُمِّ عَيَاشٍ قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَا زَوَّجْتُ عُثْمَانَ أُمَّ کَلْثُوْمٍ إِلَّا بِوَحْيٍ مِّنَ السَّمَاءِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ وَ الأَوْسَطِ. ’’حضرت ام عیاش رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے عثمان کی شادی اپنی صاحبزادی ام کلثوم سے نہیں کی مگر فقط وحی الٰہی کی بنا پر۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ اور ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 20 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 25 / 92، الحديث رقم : 236، و الطبراني في المعجم الاوسط، 5 / 264، الحديث رقم : 5269، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83، و خطيب بغدادي في تاريخ بغداد، 12 / 364. 21. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ : وَقَفَ رَسُوْلُ اﷲِ عَلَي قَبْرِ ابْنَتِهِ الثَّانِيَةِ الَّتِيْ کَانَتْ عِنْدَ عُثْمَانَ فَقَالَ : ألَا أَبَا أَيِمٍ، أَلاَ أَخَا أَيِمٍ تَزَوَّجَهَا عُثْمَانُ، فَلَوْکُنَّ عَشْرًا لَزَوَّجْتُهُنَّ عُثْمَانَ وَمَازَوَّجْتُهُ إِلَّا بِوَحْيٍ مِنَ السَّمَاءِ وَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لَقِيَ عُثْمَانَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ يَا عُثْمَانُ هَذَا جِبْرَائِيْلُ يُخْبِرُنِي أَنَّ اﷲَ ل قَدْ زَوَّجَکَ أُمَّ کُلْثُوْمٍ عَلَي مِثْلِ صِدَاقِ رُقَيَةَ وَ عَليٰ مِثْلِ صُحْبَتِهَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دوسری صاحبزادی کی قبر پر کھڑے ہوئے جو حضرت عثمان کے نکاح میں تھیں اور فرمایا : خبردار اے کنواری لڑکی کے باپ! اور خبر دار اے کنواری لڑکی کے بھائی! اس (میری بیٹی) کے ساتھ عثمان نے شادی کی اور اگر میری دس بیٹیاں ہوتیں تو میں ان کی بھی شادی یکے بعد دیگرے عثمان کے ساتھ کردیتا اور (ان کے ساتھ ) عثمان کی شادی وحی الٰہی کے مطابق کی اور بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مسجد کے دروازے کے نزدیک ملے اور فرمایا : اے عثمان یہ جبرئیل امین علیہ السلام ہیں۔ جو مجھے یہ بتانے آئے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے تمہاری شادی ام کلثوم کے ساتھ اس کی بہن رقیہ (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی صاحبزادی) کے مہر کے بدلہ میں کردی ہے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 21 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 436، الحديث رقم : 1063، و الشيباني في الأحاد والمثاني، 5 / 378، الحديث رقم : 2982، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 590، الحديث رقم : 1291. 22. عَنْ عِصْمَةَ، قَالَ : لَمَّا مَاتَتْ بِنْتُ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الَّتِيْ تَحْتَ عُثْمَانَ، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : زَوِّجُوْا عُثْمَانَ، لَوْکَانَ لِي ثَالِثَةٌ لَزَوَّجْتُهُ وَ مَا زَوَّجْتُهُ اِلَّابِالْوَحْيِ مِنَ اﷲِ عزوجل. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت عصمہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری صاحبزادی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں فوت ہو گئیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان کی شادی کراؤ اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کی شادی بھی میں عثمان کے ساتھ کردیتا اور میں نے اس کی شادی وحی الٰہی کے مطابق ہی کی تھی۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 22 : أخرجه الطبرانيفي المعجم الکبير، 17 / 184، الحديث رقم : 490، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83. 23. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : ذُکِرَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : ذَاکَ النُّوْرُ فَقِيْلَ لَهُ مَا النُّوْرُ؟ قَالَ : النُّوْرُ شَمْسٌ فِي السَّمَاءِ وَ الجِنَانِ وَ النُّوْرُ يَفْضُلُ عَلَي الْحُوْرِ الْعِيْنِ وَ إِنِّي زَوَّجْتُهُ ابْنَتِي فَلِذَلِکَ سَمَّاهُ اﷲُ عِنْدَ الْمَلَائِکَةِ ذَاالنُّوْرِ وَ سَمَّاهُ فِي الجِنَانِ ذَاالنُّوْرَيْنِ، فَمَنْ شَتَمَ عُثْمَانَ فَقَدْ شَتَمَنِي. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ. ’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ تو نور والے ہیں۔ عرض کیا گیا نور سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نور سے مراد آسمانوں اور جنتوں کا آفتاب ہے اور یہ نور جنتی حوروں کو بھی شرماتا ہے اور میں نے اس نور یعنی عثمان بن عفان سے اپنی صاحبزادی کا نکاح کیا ہے پس اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے عالم ملائکہ میں ان کا نام ذاالنور (نور والا) رکھا ہے اور جنتوں میں ذا النوریں (دو نور والا) رکھا ہے تو جس نے عثمان کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ الحديث رقم 23 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 41 / 33 (4). بَابٌ فِي رِضْوَانِ اﷲِ وَ رَسُوْلِهِ عَنْهُ وَ مَحَبَّتِهِمَا لَهُ. (آپ رضی اللہ عنہ کے لئے اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اور محبت کا مژدہ جانفزا)24. عَنْ جَابِرٍ، قَالَ أُتِيَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بِجَنَازَةِ رَجُلٍ لِيُصَلِيَّ عَلَيْهِ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ، فَقِيْلَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلي اﷲ عليک و سلم مَا رَأَيْنَاکَ تَرَکْتَ الصَّلَاةَ عَلٰي أَحَدٍ قَبْلَ هَذَا؟ قَالَ : إِنَّهُ کَانَ يُبْغِضُ عُثْمَانَ فَأَبْغَضَهُ اﷲُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک جنازہ لایا گیا کہ آپ اس پر نماز پڑھیں مگر آپ نے اس پر نماز نہیں پڑھی عرض کیا گیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم ہم نے آپ کو کسی کی نمازِ جنازہ چھوڑتے نہیں دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ عثمان سے بغض رکھتا تھا تو اﷲ نے بھی اس سے بغض رکھا ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 24 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 630، الحديث رقم : 3709، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 596، الحديث رقم : 1312. 25. عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَامَ. يعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ فَقَالَ : إِنَّ عُثْمَانَ انْطَلَقَ فِي حَاجَةِ اﷲِ وَحَاجَةِ رَسُولِ اﷲِ، وَإِنِّي أُبَايِعُ لَهُ، فَضَرَبَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بِسَهْمٍ، وَلَمْ يَضْرِبْ لِأَحَدٍ غَابَ غَيْرُهُ. رَوَاهُ أَبُوْدَاؤْدَ. ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہین کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر والے دن کھڑے ہوئے اور فرمایا : بے شک عثمان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کام میں مصروف ہے اور بے شک میں اس کی بیعت کرتا ہوں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مال غنیمت میں سے بھی آپ رضی اللہ عنہ کا حصہ مقرر کیا اور آپ کے علاوہ جو کوئی اس دن غائب تھا اس کے لئے حصہ مقرر نہیں کیا۔ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 25 : أخرجه أبوداؤد، ک 6) بَابٌ فِي جُوْدِهِ رضي الله عنه وَ سَخَائِهِ رضي الله عنه (آپ رضی اللہ عنہ کی جود و سخا کا بیان)32. عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ خَبَّابِ قَالَ : شَهِدْتُ النَبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يَحُثُّ عَلٰي جَيْشِ الْعُسْرَةِ، فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ عَليَّ مِئْةُ بَعِيْرٍ بِأَحْلَاسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيْلِ اﷲِ، ثُمَّ حَضَّ عَلَي الْجَيشِ فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ عَليَّ مِئَتَا بَعِيْرٍ بِأَحْلَاسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اﷲِ، ثُمَّ حَضَّ عَلَي الْجَيْشِ فَقامَ عُثْمَانُ ابْنُ عَفَّانَ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم !ِﷲِ عَلَيَّ ثَلاَثُ مِئَةِ بَعِيْرِ بِأَحْلَاسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيْلِ اﷲِ، فَأَنَا رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَنْزِلُ عَنِ الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَقُوْلُ : مَا عَلٰي عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ، مَا عَلٰي عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت عبدالرحمن بن خباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیش عسرہ کے متعلق لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اﷲ! میں سو اونٹ مع ساز و سامان اﷲ کے راستے میں اپنے ذمہ لیتا ہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر ترغیب دلائی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پھر اٹھے اور عرض کیا یا رسول اﷲ ! میرے ذمہ اﷲ کی راہ میں دوسو اونٹ مع سازوسامان اور غلہ کے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر ترغیب دلائی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پھر کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرے ذمہ تین سو اونٹ مع ساز و سامان کے اﷲ کی راہ میں ہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں : میں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر سے اترے اور فرمایا : اس عمل کے بعد عثمان جو کچھ بھی آئندہ کرے گا اس پر کوئی جواب طلبی نہیں ہوگی۔ اِس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 32 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 625، الحديث رقم : 3700، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 75، و الطيالسي في المسند، 1 / 164، الحديث رقم : 1189، و عبدبن حميد في المسند، 1 / 128، الحديث رقم : 311. 33. عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ : جَاءَ عُثْمَانُ إِلٰي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم بِأَلْفِ دِيْنَارٍ، قاَلَ الْحَسَنُ بْنُ وَاقِعٍ : وَکَانَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ مِنْ کِتَابِيْ، فِيْ کُمِّه حِيْنَ جَهَزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَيَنْثُرُهَا فِي حِجْرِهِ قَالَ عَبْدُالرَّحْمٰنِ : فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم يُقَلِّبُهَا فِيْ حِجْرِهِ وَيَقُوْلُ : مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْيَوْمِ. مَرَّتَيْنِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک ہزار دینار لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب جیش عسرہ کی روانگی کا سامان ہو رہا تھا۔ آپ نے اس رقم کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں ڈال دیا۔ حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ ان دیناروں کو اپنی گود میں دست مبارک سے الٹ پلٹ رہے تھے اور فرما رہے تھے عثمان آج کے بعد جو کچھ بھی کرے گا اسے کوئی بھی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جملہ دوبار ارشاد فرمایا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے۔ الحديث رقم 33 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 626، الحديث رقم : 3701، و الحاکم في المستدرک علي الصححين، 3 / 110، الحديث رقم ، 4553، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 587، الحديث رقم : 1279، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 515، الحديث رقم : 846، و الشيباني في الأحاد و المثاني، 1 / 477، الحديث رقم : 666. 34. عَنْ أَبِيْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ السُّلْمِيِّ، قَالَ : لَمَّا حُصِرَ عُثْمَانُ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ فَوْقَ دَارِهِ ثُمَّ قَالَ : أُذَکِّرُکُمْ بِاﷲِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ حِرَائَ حِيْنَ انْتَفَضَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : اثْبُتْ حِرَاءُ فَلَيْسَ عَلَيْکَ إلاّ نَبِيُّ أوْصِدِّيقٌ أوْ شَهِيْدٌ؟ قَالُوْا نَعَمْ. قَالَ : أُذَکِّرُکُمَ بِاﷲِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ فِي جَيْشِ الْعُسْرَةِ : مَنْ يُنْفِقُ نَفَقَةً مُتَقَبَّلَةً. وَالنَّاسُ مُجْهَدُوْنَ مُعْسَرُوْنَ فَجَهَزْتُ ذَلِکَ الْجَيْشَ؟ قَالُوْا : نَعَمْ. ثُمَّ قَالَ أُذَکِّرُکُمْ بِاﷲِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أنَّ رُوْمَةَ لَمْ يَکُنْ يَشْرَبُ مِنْهَا أَحَدٌ إِلَّا بِثَمَنٍ فَابْتَعْتُهَا فَجَعَلْتُهَا لِلْغَنِيِّ وَالْفَقِيْرِ وَابْنِ السَّبِيلِ؟ قَالُوْا : اللَّهُمَّ نَعَمْ، وَأشْيَائُ عَدَّدَهَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. ’’حضرت عبدالرحمن سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کرلیا گیا تو انہوں نے اپنے گھر کے اوپر سے جھانکا اور فرمایا : میں تمہیں اﷲ کی قسم دے کر یاد دلاتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو جب جبل حراء لرز اٹھا تھا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا : اے حراء! ٹھہر جا کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہید کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ہاں ہم جانتے ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اﷲ کی قسم دلا کر یاد دلاتا ہوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جیش عسرہ کے موقع پر فرمایا تھا : کون ہے جو مقبول نفقہ خرچ کرتا ہے، اور لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ تنگدستی و مصیبت میں مبتلا ہیں تو میں نے اس لشکرکی روانگی کا سامان کیا تھا یہ سن کر محاصرین نے کہا : ہاں پھر حضرت عثمان نے فرمایا : میں تمہیں اﷲ کی قسم دے کر یاد دلاتا ہوں کہ بیئر رومہ (رومہ کے کنویں) سے کوئی شخص بلا قیمت پانی نہ پیتا تھا میں نے اسے کوشش کرکے خریدا اور اس کو غنی فقیر اور مسافر سب کے لئے وقف عام کر دیا انہوں نے کہا ہاں یہ بھی ٹھیک ہے اسی طرح اور بہت سی باتیں یاد دلائیں۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 34 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، 5 / 625، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، الحديث رقم : 3699، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 348، الحديث رقم : 6916، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 59، الحديث رقم : 420، و الدار قطني في السنن، 4 / 198، الحديث رقم : 8، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 483، الحديث رقم : 358. 35. عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ حِزْنِ الْقُشَيْرِيِّ، قَالَ : شَهِدْتُ الدَّارَ حِيْنَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ، فَقَالَ : ائْتُوْنِي بِصَاحِبَيْکُمُ اللَّذَيْنِ أَلَبَّاکُمْ عَلَيَّ قَالَ : فَجِيْئَ بِهِمَا فَکَأَنَّهُمَا جَمَلاَنِ أَوْ کَأَنَّهُمَا حِمَارَانِ، قَالَ : فَأَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ، فَقَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ وَالإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَدِمَ المَدِيْنَةَ وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ يُسْتَعْذَبُ غَيْرَ بِئْرِرُوْمَةَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ يَشْتَرِيْ بِئْرَرُوْمَةَ فَيُجْعَلُ دَلْوَهُ مَعَ دِلاَءِ الْمُسْلِمِيْنَ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ؟ فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِيْ فَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُوْنِيْ أَنْ أَشْرَبَ مِنْهَا حَتَّي أَشْرَبَ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ قَالُوْا : أَللَّهُمَّ نَعَمْ. قَالَ أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ وَالإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ الْمَسْجِدَ ضَاقَ بِأَهْلِه، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ يَشْترِي بُقْعَةَ آلِ فُلاَنٍ فَيَزِيْدَهَا فِي الْمَسْجِدِ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ؟ فَاشْتَرَيْتُهَا مِن صُلْبِ مَالِيْ فَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُوْنِي أَنْ أُصَلِّيَ فِيْهَا رَکْعَتَيْنِ؟ قَالُوْا : اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ وَ بِالْإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنِّيْ جَهَزْتُ جَيْشَ الْعُسْرَةِ مِنْ مَالِيْ؟ قَالُوْا أَللَّهُمَّ نَعَمْ ثُمَّ قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ وَ الِْإسْلاَمِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ عَلَي ثَبِيْرِ مَکَّةَ وَ مَعَهُ أبُوْ بَکْرٍ وَ عُمَرُ وَ أَنَا فَتَحَرَّکَ الْجَبَلُ حَتَّي تَسَاقَطَتْ حِجَارَتُهُ بِالْحَضِيْضِ قَالَ : فَرَکَضَهُ بِرِجْلِهِ وَ قَالَ : اسْکُنْ ثَبِيْرُ فَإِنَّمَا عَلَيْکَ نَبِيٌّ وَ صِدِّيْقٌ وَ شَهِيْدَانِ؟ قَالُوْا : أَللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ اﷲُ أَکْبَرُ شَهِدُوْا لِيْ وَ رَبِّ الْکَعْبةِ أَنِّي شَهِيْدٌ ثَلاَ ثًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ النِّسَائِيُّ. وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت ثمامہ بن حزن قشیری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں (محاصرہ کے وقت) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کے پاس آیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اوپر سے جھانکا اور فرمایا : لاؤ اپنے ان دو افراد کو جنہوں نے میرے خلاف تمہیں جمع کیا ہے، راوی کہتے ہیں کہ ان دونوں کو اسطرح لایا گیا جیسے دو اونٹ ہوں یا دو گدھے ہوں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو اوپر سے جھانکا اور فرمایا : میں تمہیں اﷲ اور اسلام کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو وہاں پر بئرِ رومہ کے سوا میٹھا پانی اور کہیں نہیں تھا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون ہے جو بیئر رومہ کو خرید کر اسے مسلمانوں کے لئے وقف کردے۔ اس کے بدلہ میں اسے اس سے اچھی چیز بہشت میں ملے گی؟ یہ سن کر میں نے اسے خاص اپنے مال سے خریدا۔ آج تم مجھے اس کنویں کا پانی پینے سے روکتے ہو یہاں تک کہ میں سمندر (کے پانی جیسا کھارا) پانی پیتا ہوں۔ انہوں نے کہاں ہاں۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں تمہیں اﷲ اور اسلام کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ نمازیوں کے لئے مسجد کی جگہ تنگ تھی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون ہے جو فلاں شخص کی اولاد سے زمین خرید کر اسے مسجد میں شامل کردے اس کے بدلہ میں اسے بہشت میں ایسی جگہ ملے گی جو اس کے لئے اس زمین سے بہتر ہوگی۔ یہ سن کر میں نے وہ زمین خاص اپنے مال سے خریدی اور آج تم مجھے اس میں دو رکعت نماز پڑھنے سے بھی روکتے ہو انہوں نے کہا ہاں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں تمہیں اﷲ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ جیش عسرہ کا سامان میں نے ہی مہیا کیا تھا؟ ان لوگوں نے جواب دیا ہاں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تمہیں اﷲ اور اسلام کی قسم کیا تم جانتے ہو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کے ایک پہاڑ پر تھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر اور حضرت عمر تھے اور ساتھ میں بھی تھا پہاڑ لرزنے لگا یہاں تک کہ اس کے پتھر نیچے گرپڑے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہاڑ کو اپنے قدم مبارک کی ٹھوکر مار کر فرمایا ثبیر! ٹھہر جا کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور دو شہید ہیں لوگوں نے کہا! ہاں اﷲ کی قسم ہاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اﷲ اکبر ان لوگوں نے میرے موافق گواہی دی۔ رب کعبہ کی قسم میں ہی وہ شہید ہوں یہ تین بار فرمایا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور امام نسائی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 35 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 627، الحديث رقم : 3703، و النسائي في السنن، کتاب الأحباس، باب وقف المساجد، 6 / 235، الحديث رقم : 3608، و النسائي في السنن الکبريٰ، 4 / 97، الحديث رقم : 6435، و الدار قطني في السنن، 4 / 196، الحديث رقم : 2، و المقدسي في الأحاديث المختاره، 1 / 448، الحديث رقم : 322. 36. عَنْ بَشِيْرٍ الْأَسْلَمِّيِ قَالَ : لَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُوْنَ الْمَدِينَةَ اسْتَنْکَرُوْا الْمَائَ، وَکَانَتْ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِي غَفَّارٍ عَيْنٌ يُقَالُ لَهَا رُوْمَةُ وَکَانَ يَبِيْعُ مِنْهَا الْقِرْبَةَ بِمُدٍّ. فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : بِعْنِيْهَا بِعَيْنٍ فِي الْجَنْةِ فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لَيْسَ لِي وَ لاَ لِعِيَالِي غَيْرُهَا، لاَ أَسْتَطِيْعُ ذَلِکَ فَبَلَغَ ذَالِکَ عُثْمَانَ رضي الله عنه فَاشْتَرَاهَا بِخَمْسَةٍ وَثَلاَثِيْنَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، ثُمَّ أَتَي النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ أَتَجْعَلُ لِي مِثْلَ الَّذِيْ جَعَلْتَهُ عَيْنًا فِي الْجَنَّةِ إِنِ اشْتَرَيْتُهَا؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : قَدِ اشْتَرَيْتُهَا وَجَعَلْتُهَا لِلْمُسْلِمِيْنَ. رَوَاهُ الْطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت بشیر اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو انہیں پانی کی قلت محسوس ہوئی اور قبیلہ بنی غفار کے ایک آدمی کے پاس ایک چشمہ تھا جسے رومہ کہا جاتا تھا اور وہ اس چشمہ کے پانی کا ایک قربہ ایک مد کے بدلے میں بیچتا تھا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے یہ چشمہ جنت کے چشمہ کے بدلے میں بیچ دو تو وہ آدمی کہنے لگا یا رسول اﷲ! میرے اور میرے عیال کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی چشمہ نہیں ہے اس لئے میں ایسا نہیں کرسکتا پس یہ خبر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس آدمی سے وہ چشمہ پینتیس ہزار دینار کا خرید لیا پھر آپ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اﷲ ! اگر میں اس چشمہ کو خرید لوں تو کیا آپ صلی اﷲ علیک وسلم مجھے بھی اس کے بدلہ میں جنت میں چشمہ عطا فرمائیں گے جس طرح اس آدمی کو آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے فرمایا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں (عطا کروں گا) تو اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ ! وہ چشمہ میں نے خرید کر مسلمانوں کے نام کردیا ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 36 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 2 / 41، الحديث رقم : 126، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 129، و العسقلاني في الأصابة، 2 / 543 (7) بَابٌ فِي شَهَادِةِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم لَهُ بِکَوْنِهِ خَلِيْفَةَ الْمُسْلِمِيْنَ (آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت)37. عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ أَنَّ خُطَبَاءَ قَامَتْ بِالشَّامِ وَ فِيْهِمْ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَامَ آخِرُهُمْ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ : مُرَّةُ بْنُ کَعْبٍ فَقَالَ : لَولَا حَدِيْثٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَا قُمْتُ وَ ذَکَرَ الْفِتَنَ فَقَرَّبَهَا فَمَرَّ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ فِي ثَوْبٍ فَقَال : هَذَا يَوْمَئِذٍ عَلٰي الْهُدَي فَقُمْتُ إِلَيْهِ فإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قَالَ : فَأَقْبَلْتُ عَلَيْهِ بِوَجْهِهِ فَقُلْتُ : هَذَا قَالَ : نَعَمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. ’’ حضرت ابو اشعث صنعانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چند خطباء شام میں کھڑے ہوئے تھے ان میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی صحابی تھے ان میں سے سب سے آخری آدمی کھڑے ہوئے جن کا نام حضرت مرّہ بن کعب تھا انہوں نے فرمایا! اگر میں نے ایک حدیث حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہ سنی ہوتی تو میں کھڑا نہ ہوتا (انہوں نے بتایا کہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنوں کا ذکر فرمایا اور ان کا نزدیک ہونا بیان کیا اتنے میں ایک شخص کپڑے سے سر کو لپیٹے ہوئے گزرا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (فتنہ و فساد) کے دن یہ شخص حق اور ہدایت پر ہوگا۔ میں اس کی طرف اٹھا تو دیکھا کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ کی طرف متوجہ ہوا اور عرض کیا (یا رسول اﷲ!) کیا یہی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں ’’یہی ہیں‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 37 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 628، الحديث رقم : 3704، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 236، و ابن أبي شيبه في المصنف، 6 / 360، الحديث رقم : 32026، و الحاکم في المستدرک، 3 / 109، الحديث رقم : 4552. 38. عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَا عُثْمَانُ إِنَّهُ لَعَلَّ اﷲَ يُقَمِّصُکَ قَمِيْصًا فإِنْ أرَادُوْکَ عَلٰي خَلْعِهِ فَلاَ تَخْلَعْهُ لَهُمْ وَِفي الْحَدِيْثِ قِصَّةٌ طَوِيْلَةٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے عثمان! اﷲ تعالیٰ یقینًا تمہیں ایک قمیص (قمیصِ خلافت) پہنائے گا پس اگر لوگ اس کو اتارنا چاہیں تو تم ان کی خاطر اسے مت اتارنا۔ اس حدیث میں طویل قصہ ہے اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 38 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 628، الحديث رقم : 3705، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 149، الحديث رقم : 25203، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 346، الحديث رقم : 6915، و ابن أبي شيبه في المصنف، 7 / 515، الحديث رقم : 37655، و هيثمي في موارد الظمآن، 1 / 539، الحديث رقم : 2196. 39. عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ، قَالَ : إِنَّ ابْنَ عُمَرَ قَالَ : کُنَّا نَقُوْلُ وَرَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حَيٌّ : أَفْضَلُ أُمَّةِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم بَعْدَهُ أَبُوْ بَکْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ رضی اﷲ عنهم. رَوَاهُ أَبُوْدَاؤْدَ. ’’حضرت سالم بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری کے ایام میں کہا کرتے تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے افضل ترین ابوبکر پھر عمر اور پھر عثمان رضی اللہ عنھم ہیں۔ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 39 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب السنة، باب في التفضيل، 4 / 206، الحديث رقم : 4628، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 1540 و مبارکفوري في تحفة الاحوذي، 10 / 138، و الخلال في السنة، 2 / 386، الحديث رقم : 549. 40. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَا عُثْمَانُ إِنْ وَلَّاکَ اﷲُ تَعَالَي هَذَا الْأَمْرَ يَوْمًا فَأَرَادَکَ الْمُنَافِقُوْنَ عَلَي أَنْ تَخْلَعَ قَمِيْصَکَ الَّذِيْ قَمَّصَکَ اﷲُ فَلاَ تَخْلَعْهُ، يَقُوْلُ ذَلِکَ ثَلاَ ثَ مَرَّاتٍ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ. ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عثمان اگر اﷲ تعالیٰ تمہیں کسی دن امرِ خلافت پر فائز کرے اور منافقین یہ ارادہ کریں کہ وہ تمہاری قمیصِ خلافت جو تمہیں اﷲ تعالیٰ نے پہنائی ہے اس کو تم اتار دو تو اسے ہرگز نہ اتارنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 40 : أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمه، باب فضل عثمان، 1 / 41، الحديث رقم : 112، و الديلمي في الفردوس بمائثور الخطاب، 5 / 3112، و المبارکفوري في تحفة الأحوذي، 10 / 137. 41. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : کُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا عَائِشَةُ لَوْ کَانَ عِنْدَنَا مَنْ يُحَدِّثُنَا قَالَتْ : قُلْتُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَلَا أَبْعَثُ إِلَي أَبِيْ بَکْرٍ فَسَکَتَ ثُمَّ قَالَ : لَوْ کَانَ عِنْدَنَا مَنْ يُحَدِّثُنَا فَقُلْتُ : أَلَا أَبَعَثُ إِلَي عُمَرَ فَسَکَتَ قَالَتْ : ثُمَّ دَعَا وَصِيْفًا بَيْنَ يَدَيْهِ فَسَارَّهُ فَذَهَبَ قَالَتْ : فَإِذَا عُثْمَانُ يَسْتَأذِنُ فَأَذِنَ لَهُ فَدَخَلَ فَنَاجَاهُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم طَوِيْلًا ثُمَّ قَالَ : يَا عُثْمَانُ إِنَّ اﷲَ ل مُقْمِصُکَ قَمِيْصًا فَإِنْ أَرَادَکَ الْمُنَافِقُوْنَ عَلَي أَنْ تَخْلَعَهُ فَلاَ تَخْلَعْهُ لَهُمْ وَلَا کَرَامَةَ يَقُوْلُهَا لَهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَ ثًا. رَوَاهُ أَحْمَدُ فِي الْمُسْنَدِ وَ الْحَاکِمُ فِي الْمُسْتَدْرَکِ مُخْتَصَرًا. وَ قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَالِيُ الْإِسْنَادِ. ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! کا ش ہمارے پاس کوئی ہوتا جو ہم سے باتیں کرتا وہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم کیا میں ابو بکر کو بلا بھیجوں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے پھر فرمایا : کاش ہمارے پاس کوئی ہوتا جو ہم سے باتیں کرتا؟ فرماتی ہیں پھر میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم میں عمر کو بلا بھیجوں اس پر بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سامنے ایک خدمتگار کو بلایا اور اسے کوئی خوشخبری سنائی پھر وہ چلا گیا حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں اتنے میں اچانک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کے لئے اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو آنے کی اجازت دے دی پس وہ اندر داخل ہوئے اور کافی دیر تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے گفتگو فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عثمان ! بے شک اﷲ تعالیٰ تمہیں ایک قمیص پہنانے والا ہے پس اگر منافقین نے یہ چاہا کہ تم اس قمیض کو اتار دو تو ہرگز اسے نہ اتارنا۔ راوی بیان کرتے ہیں کوئی فضیلت ایسی نہ ہوگی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے دو مرتبہ یا تین مرتبہ نہ کہی ہو۔ اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں اور حاکم نے مستدرک میں مختصراً بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح اور عالی الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 41 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 75، الحديث رقم : 24510، و الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 106، الحديث رقم : 4544، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 562. 42. عَنْ أَبِيْ أَمْنَا أَبِيْ حَسَنَةَ قَالَ : شَهِدْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ وَعُثْمَانُ مَحْصُوْرٌ فِي الدَّارِ وَ أَسْتَأذَنْتُهُ فِي الْکَلاَمِ فَقَالَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ : سَمِِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنَّهَا سَتَکُوْنُ فِتْنَةٌ وَ اخْتِلَافٌ أَوِ اخْتِلَافٌ وَ فِتْنَةٌ قَالَ : فَقُلْنَا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَمَا تَأمُرُنَا؟ قَالَ : عَلَيْکُمْ بِالْأَمِيْرِ وَ أَصْحَابِهِ وَ أَشَارَ إِلَي عُثْمَانَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ. ’’حضرت ابو امنا ابو حسنہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کے پاس حاضر ہوا جب کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک گھر میں محصور تھے میں نے ان سے کلام کی اجازت مانگی تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بے شک عنقریب فتنہ اور اختلاف یا فرمایا اختلاف اور فتنہ بپا ہو گا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسو ل اﷲ! آپ ہمارے لئے (ایسے وقت میں) کیا حکم فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم پر امیر اور اس کے ساتھیوں کی اطاعت لازم ہوگی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 42 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 105، الحديث رقم : 4541. 43. عَنِ النَّزَالِ بْنِ سَبْرَةَ قَالَ : لَمَّا اسْتَخْلَفَ عُثْمَانُ قَالَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ مَسْعُوْدٍ : أَمَرَنَا خَيْرٌ مَنْ بَقِيَ وَلَمْ نَأْلُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت نزال بن سبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خلافت کا منصب سنبھالا تو حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : کہ ہمیں باقی بچ جانے والوں میں سے سب سے بہترین شخص نے حکم دیا ہے۔ لیکن ہم نے (اس کیلئے) کوشش نہ کی۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 43 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 170، الحديث رقم : 8843، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 7 / 244، و ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 3 / 63، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 461، الحديث رقم : 747. (8) بَابٌ فِي إِعْلَامِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم إِيَاهُ رضي الله عنه بِإِسْتِشْهَادِهِ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کی شہادت کی خبر دینا)44. عَنْ قَتَادَةَ : أَنَّ أَنَسًا رضي الله عنه حَدَّثَهُمْ قَالَ : صَعِدَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم أُحُدًا، وَ مَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ وَ عُثْمَانُ، فَرَجَفَ، وَ قَالَ اسْکُنْ أُحُدُ، أَظُنُّهُ ضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ. فَلَيْسَ عَلَيْکَ أَحَدٌ إِلَّا نَبِيٌّ وَ صِدِّيْقٌ وَ شَهِيْدَانِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. ’’حضرت انسص فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہِ اُحد پر تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم تھے، تو اسے وجد آگیا (وہ خوشی سے جھومنے لگا) پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اُحد! ٹھہر جا۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قدم مبارک سے ٹھوکر بھی لگائی اور فرمایا کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 44 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان، 3 / 1353، الحديث رقم : 3496، والترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان بن عفانص، 5 / 624، الحديث رقم : 3697، و أبوداؤد في السنن، کتاب السنة، باب في الخلفاء، 4 / 212، الحديث رقم : 4651، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 43، الحديث رقم : 8135. 45. عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ عَلٰي حِرَاءَ هُوَ وَ أَبُوْبَکْرِ وَ عُمَرُ وَ عُثْمَانُ وَ عَلِيٌّ وَ طَلْحَةُ وَ الزُّبَيْرُ فَتَحَرَّکَتِ الصَّخْرَةُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم إِهْدَأْ، فَمَا عَلَيْکَ إلاَّ نَبِيٌّ أَوْصِدِّيْقٌ أَوْشَهِيْدٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ. وَ فِي الْبَابِ عَنْ عُثْمَانَ، وَسَعِيْدِ بْنِ زَيْدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَأَنَسِ بْنِ مَالکٍ، وَبُرَيْدَةَ. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرا پہاڑ پر تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنھم تھے اتنے میں پہاڑ لرزاں ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ٹھہر جا، کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہید کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ اِس حدیث کو امام مسلم اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس باب میں اسی مضمون کی احادیث عثمان، سعید بن زید، ابن عباس، سہل بن سعد، انس بن مالک اور بریدہ اسلمیٰ سے مذکور ہیں۔‘‘ الحديث رقم 45 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل طلحة والزبير رضي الله عنه، 4 / 1880، الحديث رقم : 2417، والترمذي فيالجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان بن عفان، 5 / 624، الحديث رقم : 3696، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 441، الحديث رقم : 6983، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 59، الحديث رقم : 8207. 46. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : ذَکَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِتْنَةً فَقَالَ : يُقْتَلُ هَذَا فِيْهَا مَظْلُومًا لِعُثْمَانَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنہ کا ذکر کیا اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا کہ اس میں یہ مظلوماً شہید ہو گا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 46 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 630، الحديث رقم : 3708. 47. عَنْ أَبِيْ سَهْلَةَ قَالَ : قَالَ عُثْمَانُ يَوْمَ الدَّارِ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا فَأَنَا صَابِرٌ عَلَيْهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ. وَ قاَلَ التِّرْمِذِيُّ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. ’’حضرت ابو سہلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مجھ سے محاصرہ کے دن فرمایا: کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ایک وصیت فرمائی تھی اور میں اسی پر صابر ہوں۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اورامام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 47 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 631، الحديث رقم : 3711، و ابن ماجه في السنن، 1 / 42، الحديث رقم : 113، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 356، الحديث رقم : 6918، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 515، الحديث رقم : 37657. 48. عَنْ مُسْلِمٍ أَبِيْ سَعِيْدٍ مَوْلٰي عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ : أَنَّ عُثْمَانَ أَعْتَقَ عِشْرِيْنَ مَمْلُوْکاً، وَدَعَا بِسَرَاوِيْلَ فَشَدَّهَا عَلَيْهِ، وَلَمْ يَلْبَسْهَا فِي جَاهِلِيَةٍ وَلاَ إِسْلاَمٍ، وَقَالَ : إِنِّي رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الْبَارِحَةَ فِي الْمَنَامِ وَرَأَيْتُ أَبَا بَکْرٍ وَ عُمَرَ، وَأَنَّهُمْ قَالَوْا لِي : اصْبِرْ، فَإِنَّکَ تُفْطِرُ عِنْدَنَا الْقَابِلَةَ فَدَعَا بِمُصْحَفٍ فَنَشَرَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقُتِلَ وَهُوَ بَيْنَ يَدِيْهِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خادم حضرت مسلم (ابو سعید) سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بیس غلاموں کو آزاد کیا اور ایک پاجامہ منگوایا اور اسے زیب تن کر لیا، اسے آپ نے نہ تو زمانہ جاہلیت میں کبھی پہنا تھا اور نہ ہی زمانۂ اسلام میں، پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے گذشتہ رات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما بھی ہیں، ان سب نے مجھے کہا ہے (اے عثمان) صبر کرو پس بے شک تم کل افطاری ہمارے پاس کرو گے پھرآپ رضی اللہ عنہ نے مصحف منگوایا اور اس کو اپنے سامنے کھول کر تلاوت فرمانے لگے اوراسی اثنا میں آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا اور وہ مصحف آپ کے سامنے ہی تھا۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 48؛ أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 72، الحديث رقم : 526، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 96، و المناوي في فيض القدير، 1 / 110. 49. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : أَرْسَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إلَي عُثْمَانَ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَکَانَ آخِرُ کَلَامٍ کَلَّمَهُ أَنْ ضَرَبَ مَنْکِبَهُ وَ قَالَ : يَا عُثْمَانُ إِنَّ اﷲَ عَسَي أَنْ يُلْبِسَکَ قَمِيْصًا فَإِنَ أَرَادَکَ الْمُنَافِقُوْنَ عَلَي خَلْعِهِ فَ. لَا تَخْلَعْهُ حَتَّي تَلْقَانِيْ فَذَکَرَهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی طرف بلا بھیجا جب وہ آئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف بڑھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے ساتھ جو آخری کلام فرمایا : وہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے کندھے پر (ہاتھ) مارا اور فرمایا : اے عثمان بے شک اﷲ تعالیٰ تمہیں (خلافت کی) قمیص پہنائے گا اگر منافقین اس کو اتارنے کا ارادہ کریں تو اس کو ہرگز نہ اتارنا یہاں تک کہ تم مجھ سے آ ملو پس آپ نے تین مرتبہ ایسا فرمایا اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 49 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 86، الحديث رقم : 24610، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 90، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 500، الحديث رقم : 816. 50. عَنِ بْنِ حَوَالَةَ قَالَ : أَتَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ جَالِسٌ فِي ظِلّ دَوْمَةَ وَ عِنْدَهُ کَاتِبٌ لَهُ يُمْلِيْ عَلَيْهِ فَقَالَ : أَلَا أَکْتُبُکَ يَا بْنَ حَوَالَةَ قُلْتُ : لَا أَدْرِي مَا خَارَ اﷲُ لِي وَ رَسُوْلُهُ فًأَعْرَضَ عَنِّي وَ قَالَ إِسْمَاعِيْلُ مَرَّةً فِي الأُوْلٰي نَکْتُبُکَ يَا بْنَ حَوَالَةَ قُلْتُ : لَا أَدْرِيْ فِيْمَ يَارَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَعْرَضَ عَنِّيْ فَأَکَبَّ عَلَي کَاتِبِهِ يُمْلِيْ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ : أَنَکْتُبُکَ يَا بْنَ حَوَالَةَ قُلْتُ : لَا أَدْرِي مَا خَارَ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ فَأَعْرَضَ عَنِّيْ فَأَکَبَّ عَلَي کَاتِبِهِ يُمْلِيْ عَلَيْهِ قَالَ فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِي الْکِتَابِ عُمَرُ فَقُلْتُ : إِنَّ عُمَرَ لَا يُکْتَبُ إِلَّا فِي خَيْرٍ ثُمَّ قَالَ : أَنَکْتُبُکَ يَا بْنَ حَوَالَةَ قُلْتُ : نَعَمْ فَقَالَ : يَا بْنَ حَوَالَةَ کَيْفَ تَفْعَلُ فِي فِتْنَةٍ تَخْرُجُ فِي أَطْرَافِ الأَرْضِ کَأَنَّهَا صَيَاصِي بَقَرٍ قُلْتُ لَا أَدْرِي مَا خَارَ اﷲُ لِي وََرسُوْلُهُ قَالَ : وَ کَيْفَ تَفْعَلُ فِي أُخْرٰي تَخْرُجُ بَعْدَهَا کَأَنَّ الأُوْلٰي فِيْهَا انْتَفَاحَةُ أَرْنَبٍ قُلْتُ : لَا أَدْرِي مَا خَارَ اﷲُ لِيْ وَ رَسُوْلُهُ قَالَ : اتَّبِعُوْا هَذَا قَالَ : وَ رَجُلٌ مُقَفٍّ حِيْنَئِذٍ قَالَ : فَانَطَلَقْتُ فَسَعَيْتُ وَ أَخَذْتُ بِمَنْکِبَيْهِ فَأَقْبَلْتُ بِوَجْهِهِ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَقُلْتُ : هَذَا قَالَ نَعَمْ وَ إِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ص. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت ابن حوالہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دومہ درخت کے سائے تلے بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کاتب بھی بیٹھا ہوا تھا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم املاء کروا رہے تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابن حوالہ کیا میں تمہیں لکھ نہ دوں؟ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ! معلوم نہیں کہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے لئے کیا اختیار کر رکھا ہے؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری طرف سے چہرہ اقدس پھیر لیا اور اسماعیل کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی مرتبہ فرمایا اے ابن حوالہ کیا ہم تمہیں لکھ نہ دیں؟ راوی بیان کرتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ! مجھے نہیں معلوم کس معاملے میں؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے چہرہ اقدس پھیر لیا اور اپنے کاتب کو املاء کروانے میں مشغول ہوگئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابن حوالہ ہم تمہیں لکھ نہ دیں تو میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! میں نہیں جانتا کہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے لئے کیا اختیار کر رکھا ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے چہرہ اقدس پھیر لیا اور اپنے کاتب کو املا لکھوانے میں مشغول ہوگئے پھر میں نے اچانک دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام لکھا ہوا ہے اس پر میں نے کہا عمر کا نام ہمیشہ بھلائی میں لکھا ہوگا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابن حوالہ ہم تمہیں لکھ نہ دیں تو میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اﷲ! تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابن حوالہ تو اس فتنہ میں کیا کرے گا جو زمین کے چاروں اطراف سے نکلے گا گویا وہ گائے کے سینگ ہیں۔ میں نے عرض کیا میں نہیں جانتا کہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے لئے کیا اختیار کر رکھا ہے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم اس دوسرے فتنے میں کیا کرو گے جو پہلے فتنے کے بعد ہوگا گویا پہلا فتنہ خرگوش کے نتھنے کے برابر ہوگا میں نے عرض کیا کہ میں نہیں جانتا کہ میرے لئے اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا اختیار کر رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اشارہ کر کے)فرمایا : اس شخص کی پیروی کرنا اور وہ شخص اس وقت پیٹھ پھیر کر جا چکا تھا۔ راوی بیان کرتے ہیں میں چلا اور تیزی سے دوڑا اور اس شخص کو کندھے سے پکڑ لیا اور اس کا چہرہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف موڑا اور میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا یہی وہ شخص ہے (جس کی پیروی کرنے کا آپ نے حکم فرمایا ہے)؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، جب میں نے دیکھا تو وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 50 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 109، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 225، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 284. 51. عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ : ذَکَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِتْنَةً فَقَرَّبَهَا وَ عَظَّمَهَا قَالَ : ثُمَّ مَرَّ رَجُلٌ مُتَقَنِّعٌ فِيْ مِلْحَفَةٍ فَقَالَ : هَذَا يَوْمَئِذٍ عَلَي الْحَقِّ فَانْطَلَقْتُ مُسْرِعًا اَوْ قَالَ مُحْضِرًا فَأَخَذْتُ بِضَبْعَيْهِ فَقُلْتُ : هَذَا يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ : هَذَا فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنہ کا ذکر فرمایا اور اس کے قریب اور شدید ہونے کا بیان کیا۔ راوی کہتے ہیں پھر وہاں سے ایک آدمی گزرا جس نے چادر میں اپنے سر اور چہرے کو ڈھانپا ہوا تھا (اس کو دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس دن یہ شخص حق پر ہوگا پس میں تیزی سے (اس کی طرف) گیا اور میں نے اس کو اس کی کلائی کے درمیان سے پکڑ لیا پس میں نے عرض کیا یہ ہے وہ شخص یا رسول اﷲ! (جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ زمانۂ فتنہ میں یہ حق پر ہو گا) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں. پس وہ عثمان بن عفان تھے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 51 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 242، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 1 / 450، الحديث رقم : 721. 52. عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ قَالَ : کُنَّا نَحْنُ مُعَسْکِرِيْنَ مَعَ مُعَاوِيَةَ، بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ، فَقَامَ کَعْبُ بْنُ مُرَّةَ الْبَهْزِيُّ فَقَالَ : لَوْلَا شَيْئٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَا قُمْتُ هَذَا الْمَقَامَ. فَلَمَّا سَمِعَ بِذِکْرِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَجْلَسَ النَّاسَ. فَقَالَ : بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِذْ مَرَّ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ مُرَجِّلًا. قَالَ : فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’لَتخْرُجَنَّ فِتْنَةٌ مِنْ تَحْتِ قَدَمَيَّ، أَوْ مِنْ بَيْنَ رِجْلَيَّ هَذَا، هَذَا يَوْمَئِذٍ وَمَنِ اتَّبَعَهُ عَلَي الْهُدٰي. فَقَامَ بْنُ حَوَالَةَ الْأَزْدِيُّ مِنْ عِنْدِ الْمِنْبَرِ فَقَالَ : إِنَّکَ لَصَاحِبُ هَذَا؟ فَقَالَ نَعَمْ!، قَالَ : وَاﷲِ إِنِّي لَحَاضِرٌ ذَلِکَ الْمَجْلِسَ، وَلَوْ عَلِمْتُ أَنَّ لِي فِي الْجَيْشِ مُصَدِّقًا لَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ تَکَلَّمَ بِهِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الْطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت جبیر بن نفیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد امیر معاویہ کے لشکر میں تھے پس کعب بن مرہ بہزی کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ اگر میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فلاں چیز نہ سنی ہوتی تو آج میں اس مقام پر کھڑا نہ ہوتا پس جب انہوں (حضرت معاویہ) نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر سنا تو لوگوں کو بٹھا دیا اور کہا : ایک دن ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے کہ وہاں سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پیدل گزرے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ضرور بالضرور اس جگہ سے جہاں میں کھڑا ہوں ایک فتنہ نکلے گا، یہ شخص اس دن (مسند خلافت پر) ہو گا جو اس کی اتباع کرے گا وہ ہدایت پر ہوگا پس عبداﷲ بن حوالہ ازدی منبر کے پاس سے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے تو اس آدمی کا دوست ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! ابن حوالہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم جس مجلس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا میں اس مجلس میں موجود تھا اور اگر میں جانتا ہوتا کہ اس لشکر میں میری تصدیق کرنے والا کوئی موجود ہے تو سب سے پہلے یہ بات میں ہی کر دیتا۔ اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں اور امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 52 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 236، و الطبراني في المعجم الکبير، 20 / 316، الحديث رقم : 753، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 89، و الشيباني في الأحاد و المثاني، 3 / 66، الحديث رقم : 1381. 53. عَنِ بْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما أَنَّ عُثْمَانَ أَصْبَحَ فَحَدَّثَ فَقَالَ : إِنِّيْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فِي الْمَنَامِ اللَّيْلَةَ فَقَالَ : يَا عُثْمَانُ! أَفْطِرْ عِنْدَنَا فَأَصْبَحَ عُثْمَانُ صَائِمًا فَقُتِلَ مِنْ يَوْمَهِ ص. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ. ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضي اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ صبح کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے (ہمیں) فرمایا : بے شک میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گذشتہ رات خواب میں دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : اے عثمان! آج ہمارے پاس روزہ افطار کرو۔ پس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے روزہ کی حالت میں صبح کی اور اسی روز آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا۔ اس حدیث کو حاکم نے روایت کیا ہے اور انہوں نے کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 53 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 110، الحديث رقم : 4554.
  8. ابٌ فِيْمَا يَتَعَلَّقُ بِإِسْلَامِه رضي اﷲ عنه سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا بیان1. عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أللَّهُمَّ أعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هٰذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْکَ بِأَبِيْ جَهْلٍ أوْ بِعُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : وَکَانَ أحَبَّهُمَا إِلَيْهِ عُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. ’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اﷲ! تو ابو جہل یا عمر بن خطاب دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما۔ راوی کہتے ہیں کہ ان دونوں میں اﷲ کو محبوب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے (جن کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا قبول ہوئی اور آپ مشرف بہ اسلام ہوئے)۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 1 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 617، الحديث رقم : 3681، و أحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 95، الحديث رقم : 5696، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 305، الحديث رقم : 6881، و الحاکم في المستدرک، 3 / 574، الحديث رقم : 6129، و البزار في المسند، 6 / 57، الحديث رقم : 2119، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 245، الحديث رقم : 759. 2. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أللَّهُمَّ أعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأبِيْ جَهْلِ بْنِ هَشَّامٍ أوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : فَأصْبَحَ فَغَدَا عُمَرُ عَلٰی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأسْلَمَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اﷲ! ابو جہل بن ہشام یا عمر بن خطاب دونوں میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو غلبہ و عزت عطا فرما، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اگلے دن علی الصبح حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 2 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 618، الحديث رقم : 3683، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 249، الحديث رقم : 311، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 61، . 3. عَنِ ابْنِ عَبَاسٍ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ أللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلاَمَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ الإِسْنَادِ. ’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اللہ! عمر بن الخطاب کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 3 : أخرجه الحاکم فی المستدرک علی الصحيحين، 3 / 89، الحديث رقم : 4484، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 2 / 97، الحديث رقم : 1428. 4. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ نَزَلَ جِبْرِيْلُ فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ! لَقَدْ إِسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلَامِ عُمَرَ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ ’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! تحقیق اہلِ آسمان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر خوشی منائی ہے (اور مبارکبادیاں دی ہیں)۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 4 : أخرجه ابن ماجة في السنن، 1 / 38، في المقدمة، باب فضل عمر، الحديث رقم : 103، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 307، الحديث رقم : 6883، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 80، الحديث رقم : 11109، و الهيثمي في موارد الظمان، 1 / 535، الحديث رقم : 2182. 5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَمَّا أسْلَمَ عُمَرُ أَتَانِي جِبْرِيْلُ فَقَالَ : قَدِ اسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلَامِ عُمَرَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثُ صَحِيْحُ ’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب عمر مشرف بہ اسلام ہوئے تواہل آسمان نے ان کے اسلام لانے پر خوشیاں منائیں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح ہے۔ الحديث رقم 5 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 90، الحديث رقم : 4491، و المناوي في فيض القدير، 5 / 299. 6. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : لَمَّا أَسْلَمَ عمر رضي الله عنه قَالَ الْمُشْرِکُوْنَ : ألْيَوْمَ قَدِ انْتَصَفَ الْقَوْمُ مِنَّا، رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْطَّبَرَانِيُّ فِيْ الْمُعَجَمِ الکبير. وَ قَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحٌ الإِسْنَادِ. ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو مشرکین نے کہا آج کے دن ہماری قوم دو حصوں میں بٹ گئی ہے (اور آدھی رہ گئی ہے)۔ اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے، امام حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 6 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 91، الحديث رقم : 4494، والطبراني في المعجم الکبير، 11 / 255، الحديث رقم : 11659، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 248، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 62. 7. عَنْ عَبْدِاللّٰهِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ضَرَبَ صَدْرَ عُمَرَبنِ الْخَطَّابِ بَيْدِهِ حِيْنَ أسْلَمَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ وَ هُوَ يَقُوْلُ : أللَّهُمَّ أَخْرِجْ مَا فِيْ صَدْرِه مِنْ غِلٍّ وَ أَبْدِلْهُ إِيْمَانًا يَقُوْلُ ذٰلِکَ ثَلاَثاً رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الکبير وَ الأوْسَطِ. وَ قَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ مُسْتَقِيْمُ الْإِسْنَادِ ’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینے پر تین دفعہ اپنا دست اقدس مارا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرما رہے تھے۔ اے اﷲ! عمر کے سینے میں جو غل (سابقہ عداوت کا اثر) ہے اس کو نکال دے اور اس کی جگہ ایمان ڈال دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک میں اور طبرانی نے المعجم الکبير اور المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 7 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 91، الحديث رقم : 4492، والطبراني في المعجم الاوسط، 2 / 20، الحديث رقم : 1096، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 305، الحديث رقم : 13191، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 65. 8. عَنْ عَبْدِاللّٰهِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : إِنْ کَانَ إِسْلَامُ عُمَرَ لَفَتْحًا، ، وَ إِمَارَتُهُ لَرَحْمَةً وَاﷲِ مَا اسْتَطَعْنَا أَنْ نُّصَلِّيَ بِالْبَيْتِ حَتَّي أَسْلَمَ عُمَرُ، فَلَمَّا أسْلَمَ قَابَلَهُمْ حَتَّي دَعُوْنَا فَصَلَّيْنَا. رَوَاهُ الطَّبْرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الکبير. ’’حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام (ہمارے لئے) ایک فتح تھی اور ان کی امارت ایک رحمت تھی، خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔ پس جب وہ اسلام لائے تو آپ نے مشرکینِ مکہ کا سامنا کیا یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا تب ہم نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا۔‘‘ الحديث رقم 8 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 165، الحديث رقم : 8820، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 62. 9. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : لَمَّا أسْلَمَ عُمَرُ قَالَ : مَنْ أَنَمُّ النَّاسِ؟ قَالُوْا : فُلاَنٌ قَالَ : فَأَتَاهُ، فَقَالَ : إِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ فَلاَ تُخْبِرَنَّ أَحَدًا قَالَ : فَخَرَجَ يَجُرُّ إِزَارَهُ وَ طَرَفُهُ عَلَي عَاتِقِهِ فَقَالَ : أَلاَ إِنَّ عُمَرَ قَدْ صَبَا قَالَ : وَ أَنَا أَقُوْلُ : کَذَبْتَ وَ لَکِنِّيْ أَسْلَمْتُ وَعَلَيْهِ قَمِيْصٌ فَقَامَ إِلَيْهِ خَلْقٌ مِنْ قُرِيْشٍ فَقَاتَلُوْهُ فَقَاتَلَهُمْ حَتَّي سَقَطَ وَ أکَبُّوْا عَلَيْهِ فَجَائَ رَجُلٌ عَلَيْهِ قَمِيْصٌ، فَقَالَ : مَا لَکُمْ وَ لِلْرَجُلِ أتَرَوْنَ بَنيِ عُدَيٍّ بْنِ کَعْبٍ يُخَلُّوْنَ عَنْکُمْ وَعَنْ صَاحِبِهِمْ؟ تَقْتُلُوْنَ رَجُلاً إِخْتَارَ لِنَفْسِهِ إِتِّبَاعَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ فَتَکَشَّفَ الْقَوْمُ عَنْهُ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ : فَقُلْتُ لِأَبِي : مَنِ الرَّجُلُ؟ قَالَ : الْعَاصُ بْنُ وَاِئلٍ السَّهْمِيُّ. رَوَاهُ الْبَزَّارًُ. ’’حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو انہوں نے کہا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ چغل خور کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلاں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے پاس تشریف لائے اور کہا تحقیق میں اسلام لے آیا ہوں پس تو کسی کو اس بارے نہ بتانا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد وہ شخص اپنا تہہ بند جس کا ایک کنارا اس کے کندھے پر تھا گھسیٹتے ہوئے باہر نکلا اور کہنے لگا آگاہ ہو جاؤ! عمر اپنے دین سے پھر گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں تو جھوٹ بولتا ہے میں اسلام لے آیا ہوں۔ اسی اثنا میں قریش کا ایک گروہ آپ کی طرف بڑھا اور آپ سے قتال کرنے لگا، آپ رضی اللہ عنہ نے بھی ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا یہاں تک کہ آپ گر گئے اور کفار مکہ آپ رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے۔ اتنے میں ایک آدمی آیا جس نے قمیض پہن رکھی تھی اور کہنے لگا تمہارا ا س آدمی کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ کیا تم اس آدمی کو قتل کرنا چاہتے ہو جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اختیار کی ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ عدی بن کعب کے بیٹے تمہیں اپنے صاحب کے معاملہ میں ایسے ہی چھوڑ دیں گے۔ سو لوگ آپ رضی اللہ عنہ سے پیچھے ہٹ گئے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں میں نے اپنے والد محترم سے پوچھا وہ آدمی کون تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا عاص بن وائل سہمی رضی اللہ عنہ۔ اس حدیث کو بزار نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 9 : أخرجه البزار في المسند، 1 / 260، الحديث رقم : 156، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 65 بَابٌ فِي مَنْزِلَتِهِ رضی الله عنه عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں آپ رضی اللہ عنہ کا مقام10. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ هِشَّامٍ قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ هُوَ اٰخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. ’’حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 10 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1351، الحديث رقم : 3491، و في کتاب الإستئذان، باب المصافحة، 5 / 2311، الحديث رقم : 5909، و ابن حبان فی الصحيح، 16 / 355، الحديث رقم : 7356، و البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 132، الحديث رقم : 1382. 11. عَنْ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : قُبِضَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ بْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّيْنَ، وًأَبُوْبَکْرٍ وَهُوَ بْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّيْنَ، وَ عُمَرُ وَ هُوَ بْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّيْنَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک تریسٹھ (63) برس تھی، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وصال فرمایا تو ان کی عمر بھی تریسٹھ (63) برس تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وصال فرمایا تو ان کی عمر مبارک بھی تریسٹھ (63) برس تھی۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘ ( اس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں انکی اتباع و قرابتِ روحانی اور فنائیتِ باطنی ثابت ہوتی ہے)۔ الحديث رقم 11 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب کم سن النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 1825، الحديث رقم : 2348. 12. عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ : لَمَّا طُعِنَ عُمَرُ جَعَلَ يَألَمُ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَکَأنَّهُ يُجَزِّعُهُ : يَا أمِيْرَ الْمُؤْمِنِينَ، وَلَئِنْ کَانَ ذَاکَ، لَقَدْ صَحِبْتَ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأحْسَنْتَ صُحْبَتَهُ، ثُمَّ فَارَقْتَهُ وَهُوَ عَنْکَ رَاضٍ، ثُمَّ صَحِبْتَ أبَابَکْرٍ فَأحْسَنْتَ صُحْبَتَهُ، ثُمَّ فَارَقْتَهُ وَهُوَ عَنْکَ رَاضٍ، ثُمَّ صَحِبْتَهُمْ فَأحْسَنْتَ صُحْبَتَهُمْ، وَلَئِنْ فَارَقْتَهُمْ لَتُفَارِقَنَّهُمْ وَ هُمْ عَنْکَ رَاضُوْنَ، قَالَ : أمَّا مَا ذَکَرْتَ مِنْ صُحْبَةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ رِضَاهُ، فَإِنَّمَا ذَاکَ مَنٌّ مِنَ اﷲِ تَعَالَی مَنَّ بِهِ عَلَيَّ، وَأمَّا مَا ذَکَرْتَ مِنْ صُحْبَةِ أبِيْ بَکْرٍ وَ رِضَاهُ، فَإِنَّمَا ذَاکَ مَنٌّ مِّنَ اﷲِ جَلَّ ذِکْرُهُ مَنَّ بِهِ عَلَيَّ، وَأمَّا مَا تَرَی مِنْ جَزَعِيْ، فَهُوَ مِنْ أجْلِکَ وَ أجْلِ أصْحَابِکَ، وَاﷲِ لَوْ أنَّ لِي طِلاَعَ الأرْضِ ذَهَباً، لَافْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ عَذَابٍ اﷲِ عزوجل قَبْلَ أنْ أرَاهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. ’’حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کیا گیا تو وہ تکلیف محسوس کرنے لگے پس حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : گویا وہ انہیں تسلی دے رہے تھے۔ اے امیر المومنین! یہ بات تو ہوگئی بے شک آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں اور آپ نے ان کا اچھا ساتھ دیا۔ پھر وہ آپ سے جدا ہوئے تو وہ آپ سے راضی تھے۔ پھر آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے اور اچھی طرح ان کا ساتھ دیا پھر وہ آپ سے جدا ہوئے تو وہ بھی آپ سے راضی تھے۔ پھر آپ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ رہے اور اچھی طرح ان کا ساتھ دیا اور آپ ان سے جدا ہوں گے تو ضرور اس حال میں جدا ہوں گے کہ وہ لوگ آپ سے راضی ہوں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ جو آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اور ان کی رضا کا ذکر کیا ہے تو یہ اللہ کا احسان تھا جو اس نے مجھ پر فرمایا۔ پھر آپ نے جو ابو بکر کی صحبت اور ان کے راضی ہونے کا ذکر کیا تو یہ بھی اللہ کا احسان تھا جو اس نے مجھ پر کیا اور جو تم نے میری گھبراہٹ کا ذکر کیا تو وہ تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی وجہ سے ہے۔ خدا کی قسم اگر میرے پاس زمین کے برابر بھی سونا ہوتا تو عذاب الٰہی سے پہلے اسے عذاب کے بدلے میں فدیۃً دے دیتا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 12 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1350، الحديث رقم : 3489 13. عَنِ ابْنِ أَبِيْ مُلَيْکَةَ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ : وُضِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابُ عَلٰی سَرِيْرِه فَتَکَنَّفَهُ النَّاسُ يَدْعُوْنَ وَيُثْنُوْنَ وَيُصَلُّوْنَ عَلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ وَأَنَا فِيهِمْ قَالَ : فَلَمْ يَرُعْنِي إِلاَّ بِرَجُلٍ قَدْ أَخَذَ بِمَنْکِبِيْ مِنْ وَرَائِيْ. فًالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ عَلِيٌّ فَتَرَحَّمَ عَلَی عُمَرَ وَقَالَ : مَا خَلَّفْتَ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَی اﷲَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ، مِنْکَ وَأيْمُ اﷲِ ! إنْ کُنْتُ لَأَظُنُّ أَنْ يَجْعَلَکَ اﷲُ مَعَ صَاحِبَيْکَ وَ ذَاکَ إِنِّيْ کُنْتُ أکَثِّرُ أَسْمَعُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ جِئْتُ أَنَا وَ أَبُوبَکْرٍ وَّ عُمَرُ وَ دَخَلْتُ أَنَا وَ أَبُوبَکْرٍ وَعُمَرُ وَخَرَجْتُ أَنَا وَ أَبُوْ بَکْرٍ وَ عُمَرُ. فَإِنْ کُنْتُ لَأَرْجُو، أوْ لَأظُنُّ، أَنْ يَجْعَلَکَ اﷲُ مَعَهُمَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ. ’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا جنازہ تخت پر رکھا گیا تو لوگ ان کے گرد جمع ہوگئے، وہ ان کے حق میں دعا کرتے، تحسین آمیز کلمات کہتے اور جنازہ اٹھائے جانے سے بھی پہلے ان پر صلوٰۃ (یعنی دعا) پڑھ رہے تھے، میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا، اچانک ایک شحص نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، میں نے گھبرا کر مڑ کے دیکھا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے رحمت کی دعا کی اور کہا (اے عمر!) آپ نے اپنے بعد کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا جس کے کیے ہوئے اعمال کے ساتھ مجھے اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کرنا پسند ہو بخدا مجھے یقین ہے کہ اﷲتعالیٰ آپ کا درجہ آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ کر دے گا، کیونکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہ کثرت یہ سنتا تھا، ’’میں اور ابوبکر و عمر آئے، میں اور ابوبکر و عمر داخل ہوئے، میں اور ابوبکر و عمر نکلے‘‘ اور مجھے یقین ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو (اسی طرح) آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ رکھے گا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔‘‘ الحديث رقم 13 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمربن الخطاب، 3 / 1348، الحديث رقم : 3482، و مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1858، الحديث رقم : 2389، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 112، الحديث رقم : 898، و الحاکم فی المستدرک علی الصحيحن، 3 / 71، الحديث رقم : 4427. 14. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَ أَبِيْ سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَا : سَمِعْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ رضی الله عنه يَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : بَيْنَمَا رَاعٍ فِيْ غَنَمِهِ عَدَا الذِّئْبُ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً، فَطَلَبَهَا حَتَّی اسْتَنْقَذَهَا، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ الذِّئْبُ، فَقَالَ لَهُ : مَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ، لَيْسَ لَهَا رَاعٍ غَيْرِيْ. فَقَالَ النَّاسُ : سُبْحَانَ اﷲِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِنِّيْ أُوْمِنُ بِهِ وَ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ. وَ مَا ثَمَّ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. ’’حضرت سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک چرواہا اپنے ریوڑ کے ساتھ تھا کہ بھیڑئیے نے اس کے ریوڑ پر حملہ کر دیا اور ایک بکری پکڑ لی، چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور بکری چھڑوا لی۔ بھیڑئیے نے اس کی جانب متوجہ ہو کر کہا : بتاؤ چیر پھاڑ کے دن کون ان کی حفاظت کرے گا جب میرے سوا کوئی ان کا چرواہا نہیں ہوگا۔ لوگوں نے اس پر تعجب کیا اور کہا سبحان اللہ (کہ بھیڑیا انسانوں کی طرح بول رہا ہے)۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اس واقعہ کی صحت پر یقین رکھتا ہوں اور ابوبکر و عمر بھی اس پر یقین رکھتے ہیں۔ حالانکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہما وہاں موجود ہی نہ تھے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘ الحديث رقم 14 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1349، الحديث رقم : 3487، و في کتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1339، الحديث رقم : 3463، و مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أبی بکر، 4 / 1857، الحديث رقم : 2388، و النسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 38، الحديث رقم : 8114، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 310، الحديث رقم : 902. 15. عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : بَيْنَمَا رَجُلٌ يَرْعٰی غَنَمًا لَهُ إِذْ جَاءَ ذِئْبٌ فَأَخَذَ شَاةً فَجَآءَ صَاحِبُهَا فَانْتَزَعَهَا مِنْهُ، فَقَالَ الذِّئْبُ : کَيْفَ تَصْنَعُ بِهَا يَوْمَ السَّبُعِ يَوْمَ لاَ رَاعِيَ لَهَا غَيْرِيْ؟ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاٰمَنْتُ بِذَالِکَ أَنَا وَأَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ. قَالَ أَبُوْسَلَمَةَ : وَ مَا هُمَا فِي الْقَوْمِ يَوْمَئِذٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا کہ اچانک ایک بھیڑیا آیا اور اس کی بکری پکڑ لی۔ چرواہے نے اس سے بکری چھین لی۔ بھیڑیا کہنے لگا کہ تم اس دن کیا کرو گے، جس دن صرف درندے رہ جائیں گے اور میرے علاوہ کوئی چرواہا نہ ہو گا؟ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ابوبکر اور عمر اس واقعہ کو صحیح مانتے ہیں۔ ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات فرمائی اس وقت یہ دونوں حضرات مجلس میں بھی موجود نہیں تھے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 15 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 623، الحديث رقم : 3695، و أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 382، الحديث رقم : 8950، و حميدي في المسند، 2 / 454، الحديث رقم : 1054. 16. عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم السَّاعَةِ فَقَالَ : مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ : وَ مَاذَا أعْدَدْتَ لَهَا؟ قَالَ : لَا شَيْئَ إِلَّا أنِّي أحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : أنْتَ مَعَ مَنْ أحْبَبْتَ. قَالَ أنَسٌ : فَمَا فَرِحْنَا بِشَيْئٍ فَرِحْنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : أنْتَ مَعَ مَنْ أحْبَبْتَ قَالَ أنَسٌ : فَأنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَ أبَا بَکْرٍ وَ عُمَرَ وَ أرْجُو أنْ أکُونَ مَعَهُمْ بِحُبِّيْ إِيَّاهُمْ، وَ إِنْ لَمْ أعْمَلْ بِمِثْلِ أعْمَالِهِمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی صحابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ وہ صحابی عرض گزار ہوا! میرے پاس تو کوئی عمل نہیں سوائے اس کے کہ میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ فرمایا : تمہیں آخرت میں اسی کی معیت اور سنگت نصیب ہو گی جس سے تم محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں کسی خبر نے اتنا خوش نہیں کیا جتنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان نے کیا کہ ’’تم اسی کے ساتھ ہوگے جس سے محبت کرتے ہو‘‘۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور ابو بکر و عمر سے بھی لہٰذا امیدوار ہوں کہ ان کی محبت کے باعث ان حضرات کے ساتھ ہوں گا اگرچہ میرے اعمال ان جیسے نہیں۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘ الحديث رقم 16 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1349، الحديث رقم : 3485، و مسلم في الصحيح، کتاب البر و الصلة و الأدب، باب المرء مع من أحب، 4 / 2032، الحديث رقم : 2639، و أحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 227، الحديث رقم : 13395، و أبو يعلیٰ فی المسند، 6 / 180، الحديث رقم : 3465، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 397، الحديث رقم : 1339، و المنذری في الترغيب و الترهيب، 4 / 14، 15، الحديث رقم : 4594. 17. عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلاَّ لَهُ وَزِيرَانِ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ، وَ وَزِيرَانِ مِنْ أَهْلِ الْأرْضِ، فَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ فجِبْرِيلُ وَمِيکَائِيلُ، وَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ الأرْضِ فَأَبُوبَکْرٍ وَعُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کے لئے دو وزیر اہل آسمان سے اور دو وزیر اہل زمین سے ہوتے ہیں۔ پس اہل آسمان میں سے میرے دو وزیر جبرئیل و میکائیل ہیں اور اہل زمین میں سے میرے دو وزیر ابوبکر وعمر ہیں۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 17 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب ابوبکر و عمر، 5 / 616، الحديث رقم : 3680، و الحاکم في المستدرک، 2 / 290، الحديث رقم : 3047، و ابن الجعد في المسند، 1 / 298، الحديث رقم : 2026، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 382، الحديث رقم : 7111. 18. عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَخْرُجُ عَلَی أَصْحَابِهِ مِنَ المُهَاجِرِينَ وَ الأنْصَارِ، وَ هُمْ جُلُوسٌ، وَ فِيهِمْ أَبُوبَکْرٍ وَ عُمَرُ، فَلاَ يَرْفَعُ إِلَيْهِ أَحَدٌ مِنْهُمْ بَصَرَهُ إِلاَّ أَبُوبَکْرٍ وَ عُمَرُ، فَإِنَّهُمَا کَانَا يَنْظُرَانِ إِلَيْهِ وَ يَنْظُرُ إِلَيْهِمَا وَ يَتَبَسَّمَانِ إِلَيْهِ، وَ يَتَبَسَّمُ إِلَيْهِمَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مجلس میں تشریف لاتے جس میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما بھی موجود ہوتے تو اس مجلس صحابہ میں سے ابوبکر و عمر کے علاوہ کوئی ایک شخص بھی آنکھ اٹھا کر چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نہ دیکھ سکتا تھا۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف دیکھتے اور مسکراتے تھے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 18 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب أبوبکر و عمر، 5 / 612، الحديث رقم : 3668، و الطبري في الرياض النظرة، 1 / 338. 19. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ قَالَ : قَالَ عُمَرُ لِأبِيْ بَکْرٍ : يَا خَيْرَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ : أَمَا إنَّکَ إِنْ قُلْتَ ذَاکَ فَلَقَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ عَلٰی رَجُلٍ خَيْرٍ مِنْ عُمَرَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِيْ الدَّرْدَاءِ. ’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’اے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہترین یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا آگاہ ہوجاؤ اگر تم نے یہ کہا ہے تو میں نے بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عمر سے بہتر کسی آدمی پر ابھی تک سورج طلوع نہیں ہوا۔ اس حدیث امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ اس باب میں حضرت ابو درداء سے بھی روایت مذکور ہے۔‘‘ الحديث رقم 19 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 618، الحديث رقم : 3684، و الحاکم فی المستدرک، 3 : 96، الحديث رقم : 4508. 20. عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فِی الْعُمْرَةِ فَقَالَ أَيْ أَخِيْ أَشْرِکْنَا فِيْ دُعَائِکَ وَ لَا تَنْسَنَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ. وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمرہ کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا : اے میرے بھائی! ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں شریک رکھنا اور ہمیں نہیں بھولنا۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اورترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 20 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 559، الحديث رقم : 3562. و إبن ماجه فی السنن، 2 / 966، الحديث رقم : 2894، و البيهقی فی شعب الإيمان، 6 / 502، الحديث رقم : 9059 21. عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَأَیٰ عَلَی عُمَرَ قَمِيْصًا أَبْيَضَ فَقَالَ ثَوْبُکَ هَذَا غَسِيْلٌ أَمْ جَدِيْدٌ؟ قَالَ : لَا. بَلْ غَسِيْلٌ : قَالَ : إِلْبَسْ جَدِيْدًا، وَ عِشْ حَمِيْدًا، وَ مُتْ شَهِيْدًا. رَوَاهُ ابْنَُماجة. ’’ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سفید قمیض زیب تن کئے ہوئے دیکھا تو دریافت فرمایا : (اے عمر) تمہارا یہ قمیص نیا ہے یا پرانا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : یہ پرانا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اﷲ کرے) تم ہمیشہ نیا لباس پہنو اور پر سکون زندگی بسر کرو اور تمہیں شہادت کی موت نصیب ہو۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 21 : أخرجه أبن ماجه فی السنن، کتاب اللباس، باب ما يقول الرجل إذا لبس ثوبًا جديداً، 2 / 1178، الحديث رقم : 3558، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 88، الحديث رقم : 5620، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 283، الحديث رقم : 13127، وأبويعلیٰ في المسند، 9 / 402، الحديث رقم : 5545. 22. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ هِشَّامٍ قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ هُوَ اٰخِذُ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه فَقَالَ وَاﷲِ يَا رَسُوْلَ اﷲِ لَأنْتَ أحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ إِلَّا نَفْسِيْ، فَقَالَ النَّبِیُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ لَا يُؤْمِنُ أحَدُکُمْ حَتَّی أکُوْنَ أحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ، قَالَ فَأنْتَ الآنَ أحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِيْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم اَلآنَ يَا عُمَُرُ. رَوَاهُ أحْمَدُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الأوْسَطِ وَ الْحَاکِمُ. ’’حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ مجھے ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہیں سوائے میری جان کے۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کی جان سے بڑھ کر محبوب نہیں ہو جاتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اب آپ مجھے میری جان سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر! اب تمہارا ایمان کامل ہو گیا ہے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے مسند میں حاکم نے المستدرک میں اور طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 22 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 336، و الحاکم في المستدرک، 3 / 516، الحديث رقم : 5922، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 102، الحديث رقم : 317، و البزار في المسند، 8 / 384، الحديث رقم : 3459. 23. عَنِ الأسْوَدِ بْنِ سَرِيعٍ قَالَ : أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي قَدْ حَمِدْتُ رَبِّي تَبَارَکَ وَتَعَالَی بِمَحَامِدَ وَ مِدَحٍ، وَإِيَاکَ، قَالَ : هَاتِ مَاحَمِدْتَ بِهِ رَبَّکَ عَزَّوَجَلَّ، قَالَ : فَجَعَلْتُ أُنْشِدُهُ، فَجَاءَ رَجُلٌ أَدْلَمُ فَاسْتَأْذَنَ، قَالَ : فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بَيِّنْ بَيِّنْ، قَالَ : فَتَکَلَّمَ سَاعَةً ثُمَّ خَرَجَ، قَالَ : فَجَعَلْتُ أُنْشِدُهُ، قَالَ : ثُمَّ جَاءَ فَاسْتَأْذَنَ، قَالَ : فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : بَيِّنْ بَيِّنْ، فَفَعَلَ ذَاکَ مَرَّتَيْنِ أَوْثَلَاثًا، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَنْ هَذَا الَّذِی اسْتَنْصَتَّنِي لَهُ؟ قَالَ : عُمَرُبْنُ الخَطَّابِ، هَذَا رَجُلٌ لاَ يُحِبُّ الْبَاطِلَ. رَوَاهُ أحْمَدُ. ’’ حضرت اسود بن سریع سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں نے اﷲ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا اور آپ کی مدحت و نعت بیان کی ہے۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے جو اپنے رب کی حمد و ثنا کی ہے مجھے بھی سناؤ۔ راوی کہتے ہیں میں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے) پڑھنا شروع کیا پھر ایک دراز قامت آدمی آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیان کرو، بیان کرو۔ راوی کہتے ہیں اس آدمی نے تھوڑی دیر کلام کیا پھر باہر چلا گیا۔ میں نے دوبارہ کلام پڑھنا شروع کیا تو وہ آدمی دوبارہ آگیا اور اجازت طلب کی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیان کرو، بیان کرو! اس آدمی نے اس طرح دو دفعہ یاتین دفعہ کیا : میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ آدمی کون ہے جس کے لئے آپ نے مجھے چپ کرایا؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ عمر بن الخطاب ہے اور یہ وہ آدمی ہے جو باطل کو پسند نہیں کرتا۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 23 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 435، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 125، الحديث رقم : 342، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 118. 24. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيْرِيْنَ قَالَ : مَا أَظُنُّ رَجُلاً يَنْتَقِصُ أَبَابَکْرٍ وَ عُمَرَ يُحِبُّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت محمد بن سیرین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں یہ خیال نہیں کرتا کہ جو شخص حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما کی تنقیص کرتا ہے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہو۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اورکہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 24 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 618، الحديث رقم : 3685 (3) بَابٌ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَوْکَانَ نَبِيٌّ بَعْدِيْ لَکَانَ عُمَرُ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا 25. عَنْ أبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ کَان فِيْمَا قَبْلکُمْ مِنَ الأمَمِ مُحَدَّثُوْنَ فَإِنْ يَکُ فِي أمَّتِي أحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرُ. و زَادَ زَکَرِ يَاءُ بْنُ أبِي زَائِدَةَ عَنْ سَعْدٍ عَنْ أبِي سَلَمَةَ عَنْ أبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ کَانَ فِيمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ مِنْ بَنِيْ إِسْرَائِيْلَ رِجَالٌ يُکَلَّمُوْنَ مِنْ غَيْرِ أنْ يَّکُوْنُوْا أنْبِيَاءَ فَإِنْ يَکُنْ مِنْ أمَّتِي مِنْهُمْ أحَدٌ فَعُمَرُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدَّث ہوا کرتے تھے اگر میری امت میں کوئی محدَّث ہے تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہے۔ زکریا بن ابی زائدہ نے سعد سے اور انہوں نے ابی سلمہ سے انہوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ زیادہ روایت کئے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں یعنی بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی ہوا کرتے تھے جن کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کلام فرماتا تھا حالانکہ وہ نبی نہ تھے۔ اگر ان جیسا میری امت کے اندر کوئی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 25 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطابص، 3 / 1349، الحديث رقم : 3486، و في کتاب الأنبياء، باب أم حسبت أن أصحاب الکهف و الرقيم، 3 / 1279، الحديث رقم : 2382، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 583، الحديث رقم : 1261. 26. عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم، أَنَّهُ کَانَ يَقُوْلُ : قَدْ کَانَ يَکُوْنُ فِی الْأُمَمِ قَبْلَکُمْ مُحَدَّثُوْنَ فَإِنْ يَکُنْ فِي أُمَّتِی مِنْهُمْ أَحَدٌ، فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْهُمْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ التِّرْمَذِيُّ. وقَالَ ابْنُ وَهْبٍ : تَفْسِيْرُ مُحَدَّثُوْنَ مُلْهَمُوْنَ. ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ تم سے پہلی امتوں میں محدَّثون ہوتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی محدَّث ان میں سے ہے تو وہ عمر بن الخطاب ہے، ابن وہب نے کہا محدَّث اس شخص کو کہتے ہیں جس پر الہام کیا جاتا ہو۔ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 26 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل عمر، 4 / 1864، الحديث رقم : 2398، و الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر بن الخطاب، 5 / 622، الحديث رقم : 3693، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 317، الحديث رقم : 6894، و الحاکم فی المستدرک علی الصحيحين، 3 / 92، الحديث رقم : 4499، و النسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 39، الحديث رقم : 8119. 27. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَوْکَانَ نَبِيٌّ بَعْدِيْ لَکَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اورکہا : یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 27 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 619، الحديث رقم : 3686، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 154، و الحاکم في المستدرک، 3 / 92، الحديث رقم : 4495، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 17 / 298، الحديث رقم : 822، و الرویاني في المسند، 1 / 174، الحديث رقم : 223، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 356، الحديث رقم : 519. ابٌ فِيْمَا يَتَعَلَّقُ بِإِسْلَامِه رضي اﷲ عنه سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا بیان1. عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أللَّهُمَّ أعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هٰذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْکَ بِأَبِيْ جَهْلٍ أوْ بِعُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : وَکَانَ أحَبَّهُمَا إِلَيْهِ عُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. ’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اﷲ! تو ابو جہل یا عمر بن خطاب دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما۔ راوی کہتے ہیں کہ ان دونوں میں اﷲ کو محبوب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے (جن کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا قبول ہوئی اور آپ مشرف بہ اسلام ہوئے)۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 1 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 617، الحديث رقم : 3681، و أحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 95، الحديث رقم : 5696، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 305، الحديث رقم : 6881، و الحاکم في المستدرک، 3 / 574، الحديث رقم : 6129، و البزار في المسند، 6 / 57، الحديث رقم : 2119، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 245، الحديث رقم : 759. 2. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أللَّهُمَّ أعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأبِيْ جَهْلِ بْنِ هَشَّامٍ أوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : فَأصْبَحَ فَغَدَا عُمَرُ عَلٰی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأسْلَمَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اﷲ! ابو جہل بن ہشام یا عمر بن خطاب دونوں میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو غلبہ و عزت عطا فرما، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اگلے دن علی الصبح حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 2 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 618، الحديث رقم : 3683، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 249، الحديث رقم : 311، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 61، . 3. عَنِ ابْنِ عَبَاسٍ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ أللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلاَمَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ الإِسْنَادِ. ’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اللہ! عمر بن الخطاب کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 3 : أخرجه الحاکم فی المستدرک علی الصحيحين، 3 / 89، الحديث رقم : 4484، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 2 / 97، الحديث رقم : 1428. 4. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ نَزَلَ جِبْرِيْلُ فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ! لَقَدْ إِسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلَامِ عُمَرَ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ ’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! تحقیق اہلِ آسمان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر خوشی منائی ہے (اور مبارکبادیاں دی ہیں)۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 4 : أخرجه ابن ماجة في السنن، 1 / 38، في المقدمة، باب فضل عمر، الحديث رقم : 103، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 307، الحديث رقم : 6883، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 80، الحديث رقم : 11109، و الهيثمي في موارد الظمان، 1 / 535، الحديث رقم : 2182. 5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَمَّا أسْلَمَ عُمَرُ أَتَانِي جِبْرِيْلُ فَقَالَ : قَدِ اسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلَامِ عُمَرَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثُ صَحِيْحُ ’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب عمر مشرف بہ اسلام ہوئے تواہل آسمان نے ان کے اسلام لانے پر خوشیاں منائیں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح ہے۔ الحديث رقم 5 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 90، الحديث رقم : 4491، و المناوي في فيض القدير، 5 / 299. 6. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : لَمَّا أَسْلَمَ عمر رضي الله عنه قَالَ الْمُشْرِکُوْنَ : ألْيَوْمَ قَدِ انْتَصَفَ الْقَوْمُ مِنَّا، رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْطَّبَرَانِيُّ فِيْ الْمُعَجَمِ الکبير. وَ قَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحٌ الإِسْنَادِ. ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو مشرکین نے کہا آج کے دن ہماری قوم دو حصوں میں بٹ گئی ہے (اور آدھی رہ گئی ہے)۔ اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے، امام حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 6 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 91، الحديث رقم : 4494، والطبراني في المعجم الکبير، 11 / 255، الحديث رقم : 11659، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 248، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 62. 7. عَنْ عَبْدِاللّٰهِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ضَرَبَ صَدْرَ عُمَرَبنِ الْخَطَّابِ بَيْدِهِ حِيْنَ أسْلَمَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ وَ هُوَ يَقُوْلُ : أللَّهُمَّ أَخْرِجْ مَا فِيْ صَدْرِه مِنْ غِلٍّ وَ أَبْدِلْهُ إِيْمَانًا يَقُوْلُ ذٰلِکَ ثَلاَثاً رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الکبير وَ الأوْسَطِ. وَ قَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ مُسْتَقِيْمُ الْإِسْنَادِ ’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینے پر تین دفعہ اپنا دست اقدس مارا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرما رہے تھے۔ اے اﷲ! عمر کے سینے میں جو غل (سابقہ عداوت کا اثر) ہے اس کو نکال دے اور اس کی جگہ ایمان ڈال دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک میں اور طبرانی نے المعجم الکبير اور المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 7 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 91، الحديث رقم : 4492، والطبراني في المعجم الاوسط، 2 / 20، الحديث رقم : 1096، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 305، الحديث رقم : 13191، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 65. 8. عَنْ عَبْدِاللّٰهِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : إِنْ کَانَ إِسْلَامُ عُمَرَ لَفَتْحًا، ، وَ إِمَارَتُهُ لَرَحْمَةً وَاﷲِ مَا اسْتَطَعْنَا أَنْ نُّصَلِّيَ بِالْبَيْتِ حَتَّي أَسْلَمَ عُمَرُ، فَلَمَّا أسْلَمَ قَابَلَهُمْ حَتَّي دَعُوْنَا فَصَلَّيْنَا. رَوَاهُ الطَّبْرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الکبير. ’’حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام (ہمارے لئے) ایک فتح تھی اور ان کی امارت ایک رحمت تھی، خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔ پس جب وہ اسلام لائے تو آپ نے مشرکینِ مکہ کا سامنا کیا یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا تب ہم نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا۔‘‘ الحديث رقم 8 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 165، الحديث رقم : 8820، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 62. 9. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : لَمَّا أسْلَمَ عُمَرُ قَالَ : مَنْ أَنَمُّ النَّاسِ؟ قَالُوْا : فُلاَنٌ قَالَ : فَأَتَاهُ، فَقَالَ : إِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ فَلاَ تُخْبِرَنَّ أَحَدًا قَالَ : فَخَرَجَ يَجُرُّ إِزَارَهُ وَ طَرَفُهُ عَلَي عَاتِقِهِ فَقَالَ : أَلاَ إِنَّ عُمَرَ قَدْ صَبَا قَالَ : وَ أَنَا أَقُوْلُ : کَذَبْتَ وَ لَکِنِّيْ أَسْلَمْتُ وَعَلَيْهِ قَمِيْصٌ فَقَامَ إِلَيْهِ خَلْقٌ مِنْ قُرِيْشٍ فَقَاتَلُوْهُ فَقَاتَلَهُمْ حَتَّي سَقَطَ وَ أکَبُّوْا عَلَيْهِ فَجَائَ رَجُلٌ عَلَيْهِ قَمِيْصٌ، فَقَالَ : مَا لَکُمْ وَ لِلْرَجُلِ أتَرَوْنَ بَنيِ عُدَيٍّ بْنِ کَعْبٍ يُخَلُّوْنَ عَنْکُمْ وَعَنْ صَاحِبِهِمْ؟ تَقْتُلُوْنَ رَجُلاً إِخْتَارَ لِنَفْسِهِ إِتِّبَاعَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ فَتَکَشَّفَ الْقَوْمُ عَنْهُ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ : فَقُلْتُ لِأَبِي : مَنِ الرَّجُلُ؟ قَالَ : الْعَاصُ بْنُ وَاِئلٍ السَّهْمِيُّ. رَوَاهُ الْبَزَّارًُ. ’’حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو انہوں نے کہا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ چغل خور کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلاں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے پاس تشریف لائے اور کہا تحقیق میں اسلام لے آیا ہوں پس تو کسی کو اس بارے نہ بتانا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد وہ شخص اپنا تہہ بند جس کا ایک کنارا اس کے کندھے پر تھا گھسیٹتے ہوئے باہر نکلا اور کہنے لگا آگاہ ہو جاؤ! عمر اپنے دین سے پھر گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں تو جھوٹ بولتا ہے میں اسلام لے آیا ہوں۔ اسی اثنا میں قریش کا ایک گروہ آپ کی طرف بڑھا اور آپ سے قتال کرنے لگا، آپ رضی اللہ عنہ نے بھی ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا یہاں تک کہ آپ گر گئے اور کفار مکہ آپ رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے۔ اتنے میں ایک آدمی آیا جس نے قمیض پہن رکھی تھی اور کہنے لگا تمہارا ا س آدمی کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ کیا تم اس آدمی کو قتل کرنا چاہتے ہو جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اختیار کی ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ عدی بن کعب کے بیٹے تمہیں اپنے صاحب کے معاملہ میں ایسے ہی چھوڑ دیں گے۔ سو لوگ آپ رضی اللہ عنہ سے پیچھے ہٹ گئے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں میں نے اپنے والد محترم سے پوچھا وہ آدمی کون تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا عاص بن وائل سہمی رضی اللہ عنہ۔ اس حدیث کو بزار نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 9 : أخرجه البزار في المسند، 1 / 260، الحديث رقم : 156، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 65 بَابٌ فِي مَنْزِلَتِهِ رضی الله عنه عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں آپ رضی اللہ عنہ کا مقام10. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ هِشَّامٍ قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ هُوَ اٰخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. ’’حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 10 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1351، الحديث رقم : 3491، و في کتاب الإستئذان، باب المصافحة، 5 / 2311، الحديث رقم : 5909، و ابن حبان فی الصحيح، 16 / 355، الحديث رقم : 7356، و البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 132، الحديث رقم : 1382. 11. عَنْ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : قُبِضَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ بْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّيْنَ، وًأَبُوْبَکْرٍ وَهُوَ بْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّيْنَ، وَ عُمَرُ وَ هُوَ بْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّيْنَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک تریسٹھ (63) برس تھی، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وصال فرمایا تو ان کی عمر بھی تریسٹھ (63) برس تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وصال فرمایا تو ان کی عمر مبارک بھی تریسٹھ (63) برس تھی۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘ ( اس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں انکی اتباع و قرابتِ روحانی اور فنائیتِ باطنی ثابت ہوتی ہے)۔ الحديث رقم 11 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب کم سن النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 1825، الحديث رقم : 2348. 12. عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ : لَمَّا طُعِنَ عُمَرُ جَعَلَ يَألَمُ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَکَأنَّهُ يُجَزِّعُهُ : يَا أمِيْرَ الْمُؤْمِنِينَ، وَلَئِنْ کَانَ ذَاکَ، لَقَدْ صَحِبْتَ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأحْسَنْتَ صُحْبَتَهُ، ثُمَّ فَارَقْتَهُ وَهُوَ عَنْکَ رَاضٍ، ثُمَّ صَحِبْتَ أبَابَکْرٍ فَأحْسَنْتَ صُحْبَتَهُ، ثُمَّ فَارَقْتَهُ وَهُوَ عَنْکَ رَاضٍ، ثُمَّ صَحِبْتَهُمْ فَأحْسَنْتَ صُحْبَتَهُمْ، وَلَئِنْ فَارَقْتَهُمْ لَتُفَارِقَنَّهُمْ وَ هُمْ عَنْکَ رَاضُوْنَ، قَالَ : أمَّا مَا ذَکَرْتَ مِنْ صُحْبَةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ رِضَاهُ، فَإِنَّمَا ذَاکَ مَنٌّ مِنَ اﷲِ تَعَالَی مَنَّ بِهِ عَلَيَّ، وَأمَّا مَا ذَکَرْتَ مِنْ صُحْبَةِ أبِيْ بَکْرٍ وَ رِضَاهُ، فَإِنَّمَا ذَاکَ مَنٌّ مِّنَ اﷲِ جَلَّ ذِکْرُهُ مَنَّ بِهِ عَلَيَّ، وَأمَّا مَا تَرَی مِنْ جَزَعِيْ، فَهُوَ مِنْ أجْلِکَ وَ أجْلِ أصْحَابِکَ، وَاﷲِ لَوْ أنَّ لِي طِلاَعَ الأرْضِ ذَهَباً، لَافْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ عَذَابٍ اﷲِ عزوجل قَبْلَ أنْ أرَاهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. ’’حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کیا گیا تو وہ تکلیف محسوس کرنے لگے پس حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : گویا وہ انہیں تسلی دے رہے تھے۔ اے امیر المومنین! یہ بات تو ہوگئی بے شک آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں اور آپ نے ان کا اچھا ساتھ دیا۔ پھر وہ آپ سے جدا ہوئے تو وہ آپ سے راضی تھے۔ پھر آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے اور اچھی طرح ان کا ساتھ دیا پھر وہ آپ سے جدا ہوئے تو وہ بھی آپ سے راضی تھے۔ پھر آپ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ رہے اور اچھی طرح ان کا ساتھ دیا اور آپ ان سے جدا ہوں گے تو ضرور اس حال میں جدا ہوں گے کہ وہ لوگ آپ سے راضی ہوں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ جو آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اور ان کی رضا کا ذکر کیا ہے تو یہ اللہ کا احسان تھا جو اس نے مجھ پر فرمایا۔ پھر آپ نے جو ابو بکر کی صحبت اور ان کے راضی ہونے کا ذکر کیا تو یہ بھی اللہ کا احسان تھا جو اس نے مجھ پر کیا اور جو تم نے میری گھبراہٹ کا ذکر کیا تو وہ تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی وجہ سے ہے۔ خدا کی قسم اگر میرے پاس زمین کے برابر بھی سونا ہوتا تو عذاب الٰہی سے پہلے اسے عذاب کے بدلے میں فدیۃً دے دیتا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 12 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1350، الحديث رقم : 3489 13. عَنِ ابْنِ أَبِيْ مُلَيْکَةَ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ : وُضِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابُ عَلٰی سَرِيْرِه فَتَکَنَّفَهُ النَّاسُ يَدْعُوْنَ وَيُثْنُوْنَ وَيُصَلُّوْنَ عَلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ وَأَنَا فِيهِمْ قَالَ : فَلَمْ يَرُعْنِي إِلاَّ بِرَجُلٍ قَدْ أَخَذَ بِمَنْکِبِيْ مِنْ وَرَائِيْ. فًالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ عَلِيٌّ فَتَرَحَّمَ عَلَی عُمَرَ وَقَالَ : مَا خَلَّفْتَ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَی اﷲَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ، مِنْکَ وَأيْمُ اﷲِ ! إنْ کُنْتُ لَأَظُنُّ أَنْ يَجْعَلَکَ اﷲُ مَعَ صَاحِبَيْکَ وَ ذَاکَ إِنِّيْ کُنْتُ أکَثِّرُ أَسْمَعُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ جِئْتُ أَنَا وَ أَبُوبَکْرٍ وَّ عُمَرُ وَ دَخَلْتُ أَنَا وَ أَبُوبَکْرٍ وَعُمَرُ وَخَرَجْتُ أَنَا وَ أَبُوْ بَکْرٍ وَ عُمَرُ. فَإِنْ کُنْتُ لَأَرْجُو، أوْ لَأظُنُّ، أَنْ يَجْعَلَکَ اﷲُ مَعَهُمَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ. ’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا جنازہ تخت پر رکھا گیا تو لوگ ان کے گرد جمع ہوگئے، وہ ان کے حق میں دعا کرتے، تحسین آمیز کلمات کہتے اور جنازہ اٹھائے جانے سے بھی پہلے ان پر صلوٰۃ (یعنی دعا) پڑھ رہے تھے، میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا، اچانک ایک شحص نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، میں نے گھبرا کر مڑ کے دیکھا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے رحمت کی دعا کی اور کہا (اے عمر!) آپ نے اپنے بعد کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا جس کے کیے ہوئے اعمال کے ساتھ مجھے اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کرنا پسند ہو بخدا مجھے یقین ہے کہ اﷲتعالیٰ آپ کا درجہ آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ کر دے گا، کیونکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہ کثرت یہ سنتا تھا، ’’میں اور ابوبکر و عمر آئے، میں اور ابوبکر و عمر داخل ہوئے، میں اور ابوبکر و عمر نکلے‘‘ اور مجھے یقین ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو (اسی طرح) آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ رکھے گا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔‘‘ الحديث رقم 13 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمربن الخطاب، 3 / 1348، الحديث رقم : 3482، و مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1858، الحديث رقم : 2389، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 112، الحديث رقم : 898، و الحاکم فی المستدرک علی الصحيحن، 3 / 71، الحديث رقم : 4427. 14. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَ أَبِيْ سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَا : سَمِعْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ رضی الله عنه يَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : بَيْنَمَا رَاعٍ فِيْ غَنَمِهِ عَدَا الذِّئْبُ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً، فَطَلَبَهَا حَتَّی اسْتَنْقَذَهَا، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ الذِّئْبُ، فَقَالَ لَهُ : مَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ، لَيْسَ لَهَا رَاعٍ غَيْرِيْ. فَقَالَ النَّاسُ : سُبْحَانَ اﷲِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِنِّيْ أُوْمِنُ بِهِ وَ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ. وَ مَا ثَمَّ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. ’’حضرت سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک چرواہا اپنے ریوڑ کے ساتھ تھا کہ بھیڑئیے نے اس کے ریوڑ پر حملہ کر دیا اور ایک بکری پکڑ لی، چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور بکری چھڑوا لی۔ بھیڑئیے نے اس کی جانب متوجہ ہو کر کہا : بتاؤ چیر پھاڑ کے دن کون ان کی حفاظت کرے گا جب میرے سوا کوئی ان کا چرواہا نہیں ہوگا۔ لوگوں نے اس پر تعجب کیا اور کہا سبحان اللہ (کہ بھیڑیا انسانوں کی طرح بول رہا ہے)۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اس واقعہ کی صحت پر یقین رکھتا ہوں اور ابوبکر و عمر بھی اس پر یقین رکھتے ہیں۔ حالانکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہما وہاں موجود ہی نہ تھے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘ الحديث رقم 14 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1349، الحديث رقم : 3487، و في کتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1339، الحديث رقم : 3463، و مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أبی بکر، 4 / 1857، الحديث رقم : 2388، و النسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 38، الحديث رقم : 8114، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 310، الحديث رقم : 902. 15. عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : بَيْنَمَا رَجُلٌ يَرْعٰی غَنَمًا لَهُ إِذْ جَاءَ ذِئْبٌ فَأَخَذَ شَاةً فَجَآءَ صَاحِبُهَا فَانْتَزَعَهَا مِنْهُ، فَقَالَ الذِّئْبُ : کَيْفَ تَصْنَعُ بِهَا يَوْمَ السَّبُعِ يَوْمَ لاَ رَاعِيَ لَهَا غَيْرِيْ؟ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاٰمَنْتُ بِذَالِکَ أَنَا وَأَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ. قَالَ أَبُوْسَلَمَةَ : وَ مَا هُمَا فِي الْقَوْمِ يَوْمَئِذٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا کہ اچانک ایک بھیڑیا آیا اور اس کی بکری پکڑ لی۔ چرواہے نے اس سے بکری چھین لی۔ بھیڑیا کہنے لگا کہ تم اس دن کیا کرو گے، جس دن صرف درندے رہ جائیں گے اور میرے علاوہ کوئی چرواہا نہ ہو گا؟ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ابوبکر اور عمر اس واقعہ کو صحیح مانتے ہیں۔ ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات فرمائی اس وقت یہ دونوں حضرات مجلس میں بھی موجود نہیں تھے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 15 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 623، الحديث رقم : 3695، و أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 382، الحديث رقم : 8950، و حميدي في المسند، 2 / 454، الحديث رقم : 1054. 16. عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم السَّاعَةِ فَقَالَ : مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ : وَ مَاذَا أعْدَدْتَ لَهَا؟ قَالَ : لَا شَيْئَ إِلَّا أنِّي أحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : أنْتَ مَعَ مَنْ أحْبَبْتَ. قَالَ أنَسٌ : فَمَا فَرِحْنَا بِشَيْئٍ فَرِحْنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : أنْتَ مَعَ مَنْ أحْبَبْتَ قَالَ أنَسٌ : فَأنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَ أبَا بَکْرٍ وَ عُمَرَ وَ أرْجُو أنْ أکُونَ مَعَهُمْ بِحُبِّيْ إِيَّاهُمْ، وَ إِنْ لَمْ أعْمَلْ بِمِثْلِ أعْمَالِهِمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی صحابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ وہ صحابی عرض گزار ہوا! میرے پاس تو کوئی عمل نہیں سوائے اس کے کہ میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ فرمایا : تمہیں آخرت میں اسی کی معیت اور سنگت نصیب ہو گی جس سے تم محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں کسی خبر نے اتنا خوش نہیں کیا جتنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان نے کیا کہ ’’تم اسی کے ساتھ ہوگے جس سے محبت کرتے ہو‘‘۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور ابو بکر و عمر سے بھی لہٰذا امیدوار ہوں کہ ان کی محبت کے باعث ان حضرات کے ساتھ ہوں گا اگرچہ میرے اعمال ان جیسے نہیں۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘ الحديث رقم 16 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1349، الحديث رقم : 3485، و مسلم في الصحيح، کتاب البر و الصلة و الأدب، باب المرء مع من أحب، 4 / 2032، الحديث رقم : 2639، و أحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 227، الحديث رقم : 13395، و أبو يعلیٰ فی المسند، 6 / 180، الحديث رقم : 3465، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 397، الحديث رقم : 1339، و المنذری في الترغيب و الترهيب، 4 / 14، 15، الحديث رقم : 4594. 17. عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلاَّ لَهُ وَزِيرَانِ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ، وَ وَزِيرَانِ مِنْ أَهْلِ الْأرْضِ، فَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ فجِبْرِيلُ وَمِيکَائِيلُ، وَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ الأرْضِ فَأَبُوبَکْرٍ وَعُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کے لئے دو وزیر اہل آسمان سے اور دو وزیر اہل زمین سے ہوتے ہیں۔ پس اہل آسمان میں سے میرے دو وزیر جبرئیل و میکائیل ہیں اور اہل زمین میں سے میرے دو وزیر ابوبکر وعمر ہیں۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 17 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب ابوبکر و عمر، 5 / 616، الحديث رقم : 3680، و الحاکم في المستدرک، 2 / 290، الحديث رقم : 3047، و ابن الجعد في المسند، 1 / 298، الحديث رقم : 2026، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 382، الحديث رقم : 7111. 18. عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَخْرُجُ عَلَی أَصْحَابِهِ مِنَ المُهَاجِرِينَ وَ الأنْصَارِ، وَ هُمْ جُلُوسٌ، وَ فِيهِمْ أَبُوبَکْرٍ وَ عُمَرُ، فَلاَ يَرْفَعُ إِلَيْهِ أَحَدٌ مِنْهُمْ بَصَرَهُ إِلاَّ أَبُوبَکْرٍ وَ عُمَرُ، فَإِنَّهُمَا کَانَا يَنْظُرَانِ إِلَيْهِ وَ يَنْظُرُ إِلَيْهِمَا وَ يَتَبَسَّمَانِ إِلَيْهِ، وَ يَتَبَسَّمُ إِلَيْهِمَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مجلس میں تشریف لاتے جس میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما بھی موجود ہوتے تو اس مجلس صحابہ میں سے ابوبکر و عمر کے علاوہ کوئی ایک شخص بھی آنکھ اٹھا کر چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نہ دیکھ سکتا تھا۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف دیکھتے اور مسکراتے تھے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 18 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب أبوبکر و عمر، 5 / 612، الحديث رقم : 3668، و الطبري في الرياض النظرة، 1 / 338. 19. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ قَالَ : قَالَ عُمَرُ لِأبِيْ بَکْرٍ : يَا خَيْرَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ : أَمَا إنَّکَ إِنْ قُلْتَ ذَاکَ فَلَقَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ عَلٰی رَجُلٍ خَيْرٍ مِنْ عُمَرَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِيْ الدَّرْدَاءِ. ’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’اے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہترین یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا آگاہ ہوجاؤ اگر تم نے یہ کہا ہے تو میں نے بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عمر سے بہتر کسی آدمی پر ابھی تک سورج طلوع نہیں ہوا۔ اس حدیث امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ اس باب میں حضرت ابو درداء سے بھی روایت مذکور ہے۔‘‘ الحديث رقم 19 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 618، الحديث رقم : 3684، و الحاکم فی المستدرک، 3 : 96، الحديث رقم : 4508. 20. عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فِی الْعُمْرَةِ فَقَالَ أَيْ أَخِيْ أَشْرِکْنَا فِيْ دُعَائِکَ وَ لَا تَنْسَنَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ. وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمرہ کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا : اے میرے بھائی! ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں شریک رکھنا اور ہمیں نہیں بھولنا۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اورترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 20 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 559، الحديث رقم : 3562. و إبن ماجه فی السنن، 2 / 966، الحديث رقم : 2894، و البيهقی فی شعب الإيمان، 6 / 502، الحديث رقم : 9059 21. عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَأَیٰ عَلَی عُمَرَ قَمِيْصًا أَبْيَضَ فَقَالَ ثَوْبُکَ هَذَا غَسِيْلٌ أَمْ جَدِيْدٌ؟ قَالَ : لَا. بَلْ غَسِيْلٌ : قَالَ : إِلْبَسْ جَدِيْدًا، وَ عِشْ حَمِيْدًا، وَ مُتْ شَهِيْدًا. رَوَاهُ ابْنَُماجة. ’’ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سفید قمیض زیب تن کئے ہوئے دیکھا تو دریافت فرمایا : (اے عمر) تمہارا یہ قمیص نیا ہے یا پرانا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : یہ پرانا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اﷲ کرے) تم ہمیشہ نیا لباس پہنو اور پر سکون زندگی بسر کرو اور تمہیں شہادت کی موت نصیب ہو۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 21 : أخرجه أبن ماجه فی السنن، کتاب اللباس، باب ما يقول الرجل إذا لبس ثوبًا جديداً، 2 / 1178، الحديث رقم : 3558، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 88، الحديث رقم : 5620، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 283، الحديث رقم : 13127، وأبويعلیٰ في المسند، 9 / 402، الحديث رقم : 5545. 22. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ هِشَّامٍ قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ هُوَ اٰخِذُ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه فَقَالَ وَاﷲِ يَا رَسُوْلَ اﷲِ لَأنْتَ أحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ إِلَّا نَفْسِيْ، فَقَالَ النَّبِیُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ لَا يُؤْمِنُ أحَدُکُمْ حَتَّی أکُوْنَ أحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ، قَالَ فَأنْتَ الآنَ أحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِيْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم اَلآنَ يَا عُمَُرُ. رَوَاهُ أحْمَدُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الأوْسَطِ وَ الْحَاکِمُ. ’’حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ مجھے ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہیں سوائے میری جان کے۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کی جان سے بڑھ کر محبوب نہیں ہو جاتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اب آپ مجھے میری جان سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر! اب تمہارا ایمان کامل ہو گیا ہے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے مسند میں حاکم نے المستدرک میں اور طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 22 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 336، و الحاکم في المستدرک، 3 / 516، الحديث رقم : 5922، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 102، الحديث رقم : 317، و البزار في المسند، 8 / 384، الحديث رقم : 3459. 23. عَنِ الأسْوَدِ بْنِ سَرِيعٍ قَالَ : أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي قَدْ حَمِدْتُ رَبِّي تَبَارَکَ وَتَعَالَی بِمَحَامِدَ وَ مِدَحٍ، وَإِيَاکَ، قَالَ : هَاتِ مَاحَمِدْتَ بِهِ رَبَّکَ عَزَّوَجَلَّ، قَالَ : فَجَعَلْتُ أُنْشِدُهُ، فَجَاءَ رَجُلٌ أَدْلَمُ فَاسْتَأْذَنَ، قَالَ : فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بَيِّنْ بَيِّنْ، قَالَ : فَتَکَلَّمَ سَاعَةً ثُمَّ خَرَجَ، قَالَ : فَجَعَلْتُ أُنْشِدُهُ، قَالَ : ثُمَّ جَاءَ فَاسْتَأْذَنَ، قَالَ : فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : بَيِّنْ بَيِّنْ، فَفَعَلَ ذَاکَ مَرَّتَيْنِ أَوْثَلَاثًا، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَنْ هَذَا الَّذِی اسْتَنْصَتَّنِي لَهُ؟ قَالَ : عُمَرُبْنُ الخَطَّابِ، هَذَا رَجُلٌ لاَ يُحِبُّ الْبَاطِلَ. رَوَاهُ أحْمَدُ. ’’ حضرت اسود بن سریع سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں نے اﷲ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا اور آپ کی مدحت و نعت بیان کی ہے۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے جو اپنے رب کی حمد و ثنا کی ہے مجھے بھی سناؤ۔ راوی کہتے ہیں میں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے) پڑھنا شروع کیا پھر ایک دراز قامت آدمی آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیان کرو، بیان کرو۔ راوی کہتے ہیں اس آدمی نے تھوڑی دیر کلام کیا پھر باہر چلا گیا۔ میں نے دوبارہ کلام پڑھنا شروع کیا تو وہ آدمی دوبارہ آگیا اور اجازت طلب کی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیان کرو، بیان کرو! اس آدمی نے اس طرح دو دفعہ یاتین دفعہ کیا : میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ آدمی کون ہے جس کے لئے آپ نے مجھے چپ کرایا؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ عمر بن الخطاب ہے اور یہ وہ آدمی ہے جو باطل کو پسند نہیں کرتا۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 23 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 435، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 125، الحديث رقم : 342، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 118. 24. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيْرِيْنَ قَالَ : مَا أَظُنُّ رَجُلاً يَنْتَقِصُ أَبَابَکْرٍ وَ عُمَرَ يُحِبُّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت محمد بن سیرین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں یہ خیال نہیں کرتا کہ جو شخص حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما کی تنقیص کرتا ہے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہو۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اورکہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 24 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 618، الحديث رقم : 3685 (3) بَابٌ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَوْکَانَ نَبِيٌّ بَعْدِيْ لَکَانَ عُمَرُ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا 25. عَنْ أبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ کَان فِيْمَا قَبْلکُمْ مِنَ الأمَمِ مُحَدَّثُوْنَ فَإِنْ يَکُ فِي أمَّتِي أحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرُ. و زَادَ زَکَرِ يَاءُ بْنُ أبِي زَائِدَةَ عَنْ سَعْدٍ عَنْ أبِي سَلَمَةَ عَنْ أبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ کَانَ فِيمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ مِنْ بَنِيْ إِسْرَائِيْلَ رِجَالٌ يُکَلَّمُوْنَ مِنْ غَيْرِ أنْ يَّکُوْنُوْا أنْبِيَاءَ فَإِنْ يَکُنْ مِنْ أمَّتِي مِنْهُمْ أحَدٌ فَعُمَرُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدَّث ہوا کرتے تھے اگر میری امت میں کوئی محدَّث ہے تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہے۔ زکریا بن ابی زائدہ نے سعد سے اور انہوں نے ابی سلمہ سے انہوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ زیادہ روایت کئے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں یعنی بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی ہوا کرتے تھے جن کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کلام فرماتا تھا حالانکہ وہ نبی نہ تھے۔ اگر ان جیسا میری امت کے اندر کوئی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 25 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطابص، 3 / 1349، الحديث رقم : 3486، و في کتاب الأنبياء، باب أم حسبت أن أصحاب الکهف و الرقيم، 3 / 1279، الحديث رقم : 2382، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 583، الحديث رقم : 1261. 26. عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم، أَنَّهُ کَانَ يَقُوْلُ : قَدْ کَانَ يَکُوْنُ فِی الْأُمَمِ قَبْلَکُمْ مُحَدَّثُوْنَ فَإِنْ يَکُنْ فِي أُمَّتِی مِنْهُمْ أَحَدٌ، فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْهُمْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ التِّرْمَذِيُّ. وقَالَ ابْنُ وَهْبٍ : تَفْسِيْرُ مُحَدَّثُوْنَ مُلْهَمُوْنَ. ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ تم سے پہلی امتوں میں محدَّثون ہوتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی محدَّث ان میں سے ہے تو وہ عمر بن الخطاب ہے، ابن وہب نے کہا محدَّث اس شخص کو کہتے ہیں جس پر الہام کیا جاتا ہو۔ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 26 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل عمر، 4 / 1864، الحديث رقم : 2398، و الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر بن الخطاب، 5 / 622، الحديث رقم : 3693، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 317، الحديث رقم : 6894، و الحاکم فی المستدرک علی الصحيحين، 3 / 92، الحديث رقم : 4499، و النسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 39، الحديث رقم : 8119. 27. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَوْکَانَ نَبِيٌّ بَعْدِيْ لَکَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اورکہا : یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 27 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 619، الحديث رقم : 3686، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 154، و الحاکم في المستدرک، 3 / 92، الحديث رقم : 4495، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 17 / 298، الحديث رقم : 822، و الرویاني في المسند، 1 / 174، الحديث رقم : 223، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 356، الحديث رقم : 519. 28. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَّهُ کَانَ فِيْمَنْ مَضَی رِجَالٌ يَتَحَدَّثُوْنَ نَبُوَّةً فَإِنْ يَّکُنْ فِي أمَّتِيْ أَحَدٌ مِّنْهُمْ فَعُمَرُ. رَوَاهُ ابْنُ أبِيْ شَيْبَةَ. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سابقہ امتوں میں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے تھے جو نبوت کی سی باتیں کرتے تھے اور اگر میری امت میں ایسا کوئی ہے تو وہ عمر ہے۔ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 28 : أخرجه ابن أبيشبية في المصنف، 6 / 354، الحديث رقم : 31972. 29. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : کَانَتْ فِي الْأمَمِ مُحَدَّثُوْنَ لَيْسُوْا بِأنْبِيَاءٍ فَإِنْ کَانَ فِي أمَّتِيْ فَعُمَرُ، رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُ. ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدَّثون ہوا کرتے تھے جو کہ انبیاء نہیں تھے اور اگر میری امت میں سے کوئی محدَّث ہے تو وہ عمر ہے۔ اس حدیث کو دیلمی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 29 : أخرجه الديلمي في المسند الفردوس، 3 / 278، الحديث رقم : 4839 4) بَابٌ فِي تَبْشِيْرِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم لَهُ رضی الله عنه بِالْجَنَّةِ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آپ رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت دینا30. عَنْ أَبِيْ مُوْسٰی الأَشْعَرِيِّ قَالَ : بَيْنَمَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِيْ حَائِطٍ مِنْ حَائِطِ الْمَدِيْنَةِ، هُوَ مُتَّکِئٌ يَرْکُزُ بِعُوْدٍ مَعَهُ بَيْنَ الْمَاءِ وَ الطِّيْنِ، إِذَا اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ. فَقَالَ : افْتَحْ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ قَالَ : فَإِذَا أَبُوْبَکْرٍ فَفَتَحْتُ لَهُ وَ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ. قَالَ : ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ. فَقَالَ : افْتَحْ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ : فَذَهَبْتُ فَإِذَا هُوَ عُمَرُ فَفَتَحْتُ لَهُ وَ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ. ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ. قَالَ : فَجَلَسَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : افْتَحْ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَی بَلْوٰی تَکُوْنُ قَالَ : فَذَهَبْتُ فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ. قَالَ : فَفَتَحْتُ وَ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ. قَالَ : وَ قُلْتُ الَّذِيْ قَالَ : فَقَالَ : أللَّهُمَّ! صَبْرًا. أَوِ اﷲُ الْمُسْتَعَانُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ. ’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کے ایک باغ میں تکیہ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، اور ایک لکڑی سے زمین کھرچ رہے تھے، ایک شخص نے دروازہ کھلوانا چاہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دروازہ کھول کر آنے والے کو جنت کی بشارت دے دو، حضرت ابو موسیٰ اشعری نے کہا آنے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے، میں نے دروازہ کھول کر ان کو جنت کی بشارت دے دی۔ پھر ایک شخص نے دروازہ کھلوانا چاہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دروازہ کھول کر آنے والے کوجنت کی بشارت دے دو، حضرت ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ میں گیا تو وہ حضرت عمر تھے۔ میں نے دروازہ کھول کر ان کو جنت کی بشارت دے دی، پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھلوانا چاہا تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا : دروازہ کھول دو اور آنے والے کو مصیبتوں کی بناء پرجنت کی بشارت دے دو، میں نے جا کر دیکھا تو وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے، میں نے دروازہ کھولا اور ان کو جنت کی بشارت دی اور جو کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا وہ کہہ دیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دعا کی : اے اللہ! صبر عطا فرما، یا کہا : اے اللہ توہی مستعان ہے۔ اس حدیث کو اما م بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ الحديث رقم 30 : أخرجه البخاری في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1350، الحديث رقم : 3490، و في کتاب الأدب، باب من نکت العود في الماء و الطين، 5 / 2295، الحديث رقم : 5862، و مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1867، الحديث رقم : 2403، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 335، الحديث رقم : 965، و ابن جوزي في صفوة الصفوة، 1 / 299. 31. عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَطَّلِعُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ مِّنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَاطَّلَعَ أَبُوْبَکْرٍ، ثُمَّ قَالَ : يَطَّلِعُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ. فَاطَّلَعَ عُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَفِي الْبَابِ عَن أَبِي مُوْسٰی وَ جَابِرٍ. ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم پر ایک شخص داخل ہو گا وہ جنتی ہے چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا : تمہارے پاس ایک اور جنتی شخص آنے والا ہے پس اس مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ اس باب میں حضرت ابوموسیٰ اور حضرت جابر رضی اﷲ عنہما سے بھی روایات مذکور ہیں۔‘‘ الحديث رقم 31 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 622، الحديث رقم : 3694، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 104، الحديث رقم : 76 و الطبرانی فی المعجم الاوسط، 7 / 110، الحديث رقم : 7002، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 10 / 167، الحديث رقم : 10343، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 57. 32. عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ سَعِيْدَ بْنَ زَيْدٍ حَدَّثَهُ فِيْ نَفَرٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : عَشْرَةٌ فِيْ الْجَنَّةِ أَبُوْبَکْرٍ فِي الْجَنَّةِ وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ وَ عُثْمَانُ وَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ وَطَلْحَةُ وَعَبْدُالْرَّحْمَنِ وَأبُوْعُبَيْدَةَ وَسَعْدُ ْبنُ أَبِيْ وَقَّاصٍ قَالَ : فَعَدَّ هَؤُلَاءِ التِّسْعَةَ وَسَکَتَ عَنِ الْعَاشِرِ فَقَالَ الْقَوْمُ نَنْشُدُکَ اﷲَ يَا أَبَاالْأَعْوَر!ِ مَنِ الْعَاشِرُ؟ قَالَ : نَشَدْتُمُوْنِيْ بِاﷲِ أَبُوْالْأَعْوَرِ فِي الْجَنَّةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت عبد الرحمٰن بن حمید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس میں اسے یہ حدیث بیان کی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دس آدمی جنتی ہیں، ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان، علی، زبیر، طلحہ، عبد الرحمٰن، ابو عبیدہ اور سعد بن ابی وقاص (جنتی ہیں)۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعید بن زید نو آدمیوں کا نام گن کر دسویں پر خاموش ہو گئے۔ لوگوں نے کہا اے ابو اعور! ہم آپ کو اﷲ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتے ہیں بتائیے کہ دسواں کون ہے؟ انہوں نے فرمایا : تم نے مجھے خدا کی قسم دی ہے۔ ابو اعور (سعید بن زید) جنتی ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 32 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب : مناقب عبدالرحمان بن عوف، 5 / 648، الحديث رقم : 3748، و الحاکم في المستدرک، 3 / 498، الحديث رقم : 5858، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 350، الحديث رقم : 31946، و النسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 56، الحديث رقم : 8195 وأیضاً فيفضائل الصحابة، 1 / 28، الحديث رقم : 92. 33. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ أَنَّهُ قَالَ : أَشْهَدُ عَلَی التِّسْعَةِ أَنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ وَ لَوْ شَهِدْتُ عَلَی الْعَاشِرِ لَمْ آثَمْ قِيْلَ وَکَيْفَ ذَلِکَ؟ قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِحِرَاءَ فَقَالَ : اثْبُتْ حِرَاءُ فَإِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ قِيْلَ وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ : رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدٌ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ قِيْلَ فَمَنِ الْعَاشِرُ؟ قَالَ : أَنَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. ’’ حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نو آدمیوں کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور اگر میں دسویں آدمی کے بارے میں بھی گواہی دوں تو گناہ گار نہ ہوں گا۔ پوچھا گیا وہ کیسے؟ فرمایا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ کوہ حراء پر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حراء ٹھہر جا۔ کیونکہ تجھ پر نبی، صدیق اور شہید ہی تو ہیں۔ پوچھا گیا وہ کون تھے؟ فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت سعد اور حضرت عبدالرحمن بن عوف ث پوچھا گیا دسواں کون تھا؟ فرمایا : میں تھا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 33 : أخرجه الترمذی في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل رضی الله عنه : 5 / 651، الحديث رقم : 3757، والحاکم فی المستدرک، 3 / 509، الحديث رقم : 5898، و النسائی في السنن الکبری، 5 / 55، الحديث رقم : 8190. 34. عَنْ أبَيِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَوَّلُ مَنْ يُصَافِحُهُ الْحَقُّ عُمَرُ، وَأَوَّلُ مَنْ يُسَلِّمُ عَلَيْهِ، وَأَوَّلُ مَنْ يَأْخُذُ بِيَدِهِ فَيُدْخِلُهُ الْجَنَّةَ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ. ’’حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حق تعالیٰ سب سے پہلے جس شخص سے مصافحہ فرمائے گا وہ عمر ہے اور سب سے پہلے جس شخص پر سلام بھیجے گا اور سب سے پہلے جس کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل فرمائے گا وہ عمر ہے۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 34 : أخرجه ابن ماجة في السنن، المقدمه، باب فضل عمر، 1 / 39، الحديث رقم : 104، و الحاکم في المستدرک، 3 / 90، الحديث رقم : 4489، و الطبراني في المعجم الاوسط، 5 / 369، الحديث رقم : 5584، و الديلمي في الفردوس بماثور الخطاب، 1 / 25، الحديث رقم : 36. 35. عَنُْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لِأَصْحَابِهِ ذَاتَ يَوْمٍ : مَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الْيَوْمَ جَنَازَةً؟ قَالَ عُمَرُ : أَنَا. قَالَ : مَنْ عَادَ مِنْکُمْ مَرِيْضًا؟ قَالَ عُمَرُ : أَنَا. قَالَ : مَنْ تَصَدَّقَ؟ قَالَ عُمَرُ : أَنَا. قَالَ : مَنْ أَصْبَحَ صَائِماً؟ قَالَ عُمَرُ : أَنَا. قَالَ : وَجَبَتْ، وَجَبَتْ. رَوَاهُ أحْمَدُ. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ سے پوچھا : آج کس نے جنازہ پڑھا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آج کس نے کسی مریض کی تیمارداری کی ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : آج کس نے صدقہ کیا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے : میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آج کون روزے سے رہا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (عمر کے لئے جنت) واجب ہوگئی، واجب ہوگئی۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 35 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 118، الحديث رقم : 12202و ابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 444، الحديث رقم : 10844، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 163. 36. عَنْ أَبِیْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ سِرَاجُ أهْلِ الْجَنَّةِ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ وَ أبُوْ نُعَيْمٍ. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عمر بن الخطاب اہل جنت کا چراغ ہے۔‘‘ اس حدیث کو دیلمی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ الحديث رقم 36 : أخرجه الديلمی فی مسند الفردوس، 3 / 55، الحديث رقم : 4146، و الهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 74، و ابو نعيم فی حلية الاولياء، 6 / 333. (5) بَابٌ فِي ذِکْرِ قَصْرِهِ رضی الله عنه فِي الْجَنَّةِ جنت میں آپ رضی اللہ عنہ کے محل کا بیان37. عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذْ قَالَ : بَيْنَا أَنَا نائِمٌ رَأَيْتُنِيْ فِي الْجَنَّةِ، فَإِذَا امْرَأَةٌ تَتَوَضَّأُ إِلَی جَانِبِ قَصْرٍ، فَقُلْتُ : لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا : لِعُمَرَ، فَذَکَرْتُ غَيْرَتَهُ، فَوَلَّيْتُ مُدْبِراً، فَبَکَی عُمَرُ وَ قَالَ : أَ عَلَيْکَ أَغَارُ يَارَسُوْلَ اﷲِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خود کو جنت میں پایا وہاں میں نے ایک محل کے کونے میں ایک عورت کو وضوکرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے پوچھا یہ محل کس کا ہے؟ جواب ملا عمر کا۔ پس مجھے ان کی غیرت یاد آگئی۔ اس لئے میں الٹے پاؤں لوٹ آیا۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض گزار ہوئے، یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میں آپ پر بھی غیرت کرسکتا ہوں؟۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘ الحديث رقم 37 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1346، الحديث رقم : 3477، و في کتاب بدء الخلق، باب ما جاء في صفة الجنة، 3 / 1185، الحديث رقم : 3070، و في کتاب النکاح، باب الغيرة، 5 / 2004، الحديث رقم : 4929، و مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1863، الحديث رقم : 2395، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 311، الحديث رقم : 6888، و النسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 41، الحديث رقم : 8129. . 38. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : رَأَيْتُنِي دَخَلْتُ الْجَنَّةَ، فَإِذَا أَنَا بِالرُّمَيْصَاءِ، امْرَأَةِ أَبِي طَلْحَةَ، وَ سَمِعْتُ خَشَفَةً، فَقُلتُ : مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ : هَذَا بِلاَلٌ، وَ رَأَيْتُ قَصْراً بِفِنَائِهِ جَارِيَةٌ، فَقُلْتُ : لِمَنْ هَذَا؟ فَقَالَ : لِعُمَرَ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَهُ فَأَنْظُرَ إِلَيهِ، فَذَکَرْتُ غَيْرَتَکَ. فَقَالَ عُمَرُ : بِأبِيْ وَ أُمِّي يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَ عَلَيْکَ أَغَارُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. ’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے (شبِ معراج) خود کو جنت میں پایا تو وہاں ابوطلحہ کی بیوی رمیصاء کو دیکھا اور میں نے قدموں کی چاپ سنی پس میں نے پوچھا یہ کس کے قدموں کی آواز ہے؟ جواب ملا یہ بلال ہے اور میں نے ایک محل دیکھا جس کے صحن میں ایک نو عمر عورت تھی میں نے پوچھا یہ کس کا مکان ہے؟ جواب ملا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا میں نے ارادہ کیا کہ اس کے اندر داخل ہوکر اسے دیکھوں لیکن تمہاری غیرت یاد آگئی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے، یارسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا میں آپ پر بھی غیرت کر سکتا ہوں؟ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 38 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1346، الحديث رقم : 3476، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 389، الحديث رقم : 15226. 39. عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ فَرَأَيْتُ فِيْهَا دَارًا أو قَصْرًا فَقُلْتُ : لِمَنْ هٰذَا؟ فَقَالُوا : لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَأرَدْتُ أنْ أدْخُلَ فَذَکَرْتُ غَيْرَتَکَ فَبَکَی عُمَرُ وَ قَالَ : أيْ رَسُولَ اﷲِ أوَ عَلَيْکَ يُغَارُ؟ رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں جنت میں داخل ہوا میں نے وہاں ایک گھر یا محل دیکھا۔ میں نے پوچھا یہ کس کا محل ہے؟ حاضرین نے کہا یہ عمر بن الخطاب کا محل ہے میں نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا پھر مجھے تمہاری غیرت یاد آگئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! کیا آپ پر بھی غیرت کی جا سکتی ہے۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 39 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1862، الحديث رقم : 2394. 40. عَنْ أَبِيْ بُرَيْدَةَ قَالَ : أَصْبَحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَدَعَا بِلَالًا فَقَالَ : يَا بِلَالُ بِمَ سَبَقَتْنِيْ إِلَی الْجَنَّةِ؟ مَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ قَطُّ إِلاَّ سَمِعْتُ حَشْخَشَتَکَ أَمَامِي، دَخلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ فَسَمِعْتُ خَشْخَشَتَکَ أَمَامِيْ، فَأَتَيْتُ عَلَی قَصْرٍ مُرَبَّعٍ مُشَرَّفٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقُلْتُ : لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا : لِرَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ، فَقُلْتُ : أَنَا عَرَبِيٌّ، لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا لِرَجُلٍ مِنْ قُرِيْشٍ، فَقُلْتُ : أَنَا قُرَشِيٌّ، لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا : لِرَجُلٍ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ فَقُلْتُ : أَنَا مُحَمَّدٌ لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا : لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. فَقَالَ بِلاَلٌ : يَارَسُوْلَ اﷲِ مَا أَذَّنْتُ قَطُّ إِلاَّ صَلَّيْتُ رَکْعَتَيْنِ وَ مَا أصَابَنِيْ حَدَثٌ قَطُّ إِلَّا تَوَضَّأتُ عِنْدَهَا وَ رَأيْتُ أنَّ لِلّٰهِ عَلَيَّ رَکْعَتَيْنِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : بِهِمَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَ فِي الْبَابِ عَنْ جَابِرٍ، وَمُعَاذٍ، وَ أَنَسٍ، وَأَبِيْ هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : رَأَيْتُ فِي الْجَنَّةِ قَصْرًا مِنْ ذَهَبٍ فَقُلْتُ : لِمَنْ هَذَا؟ فَقِيْلَ : لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. وَ مَعْنَی هَذَا الحديث : إِنِّيْ دَخَلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ، يَعْنِيْ : رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ کَأَنِّي دَخَلْتُ الْجَنَّةَ، هَکَذَا رُوِيَ فِيْ بَعْضِ الحديث. وَيُرْوٰی عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ : رُؤْيَا الأ نْبِيَاءِ وَحْيٌ. ’’حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن صبح کے وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بلا کر فرمایا : بلال تم کس وجہ سے بہشت میں مجھ سے پہلے پہنچ گئے، جب بھی میں جنت میں داخل ہوا تو اپنے آگے تمہاری آہٹ سنی۔ رات کو بھی میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے تمہارے قدموں کی آہٹ اپنے آگے سنی۔ پھر میں ایک مربع شکل کے محل کے پاس آیا جو سونے کا تھا۔ میں نے پوچھا یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا ایک عربی نوجوان کا ہے۔ میں نے کہا عربی تو میں بھی ہوں، یہ محل کس عربی کا ہے انہوں نے کہا قریش کے ایک نوجوان کا ہے میں نے کہا قریشی تو میں بھی ہوں۔ یہ محل کس قریشی کا ہے؟ انہوں نے کہا محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک امتی کا ہے۔ میں نے کہا محمد تو میں ہوں پھر یہ محل (میرے) کس امتی کا ہے انہوں نے کہا عمر بن الخطاب کا ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! جب بھی میں نے اذان کہی تو دو رکعت نماز پڑھی اور جب بھی میں بے وضو ہوا تو فوراً دوسرا وضو کیا اور میں نے سمجھ لیا کہ میرے ذمہ اﷲ کی دو رکعتیں ضروری ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان ہی دو رکعتوں سے تمہیں یہ درجہ ملا ہے۔ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ اس باب میں حضرت جابر، حضرت معاذ، حضرت انس اور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنھم سے روایات مذکور ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے جنت میں سونے کا ایک محل دیکھا تو میں نے کہا یہ کس کا ہے تو کہا گیا یہ عمر بن خطاب کا ہے۔ اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ میں جنت میں داخل ہوا یعنی میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں جنت میں داخل ہوا بعض راویات میں اس طرح بیان کیا گیا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انبیاء کا خواب وحی ہوتا ہے۔‘‘ الحديث رقم 40 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 620، الحديث رقم : 3689، و أحمد بن حنبل فی المسند، 5 / 354، الحديث رقم : 23047 و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 561، الحديث رقم : 7086، و الحاکم فی المستدرک، 3 / 322، الحديث رقم : 5245، ، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 907، الحديث رقم : 1731. 41. عَنْ قَتَادَةَ قَالَ : حَدَّثَنَا أَنَسٌ، أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالً : بَيْنَمَا أنَا أسِيْحُ فِي الْجَنَّةِ، فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ، فَقُلْتُ : لِمَنْ هٰذَا يَاجِبْرِيْلُ؟ وَ رَجَوْتُ أَنْ يَکُوْنَ لِي، قَالَ : قَالَ : لِعُمَرَ، قَالَ : ثُمَّ سِرْتُ سَاعَةً، فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ خَيْرٍ مِنَ الْقَصْرِ الأوَّلِ، قَالَ : فَقُلْتُ : لِمَنْ هذَا يَا جِبْرِيلُ؟ وَ رَجَوْتُ أَنْ يَّکُوْنَ لِي. قَالَ : قَالَ : لِعُمَرَ، وَ إِنَّ فِيهِ لَمِنَ الْحُوْرِ الْعِيْنِ يَا أَبَا حَفْصٍ، وَ مَا مَنَعَنِيْ أَنْ أَدْخُلَهُ إِلاَّ غَيْرَتُکَ. قَالَ : فَاغْرَوْرَقَتْ عَيْنَا عُمَرَ، ثُمَّ قَالَ : أَمَّا عَلَيْکَ فَلَمْ أَکُنْ لِأغَارَ. رَوَاهُ أحْمَدُ. ’’حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس دوران جب میں جنت میں چل رہا تھا اچانک میرا گزر ایک محل کے پاس سے ہوا میں نے پوچھا : اے جبرائیل! یہ محل کس کا ہے؟ اور میں نے امید کی کہ یہ میرا ہی ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : جبرائیل نے کہا یہ عمر کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تھوڑا اور چلا تو ایک ایسے محل کے پاس پہنچا جو پہلے والے سے بھی زیادہ خوبصورت تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : میں نے پوچھا : اے جبرائیل! یہ محل کس کا ہے؟ اور میں نے یہ امید کی کہ یہ میرا ہی ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبرائیل نے کہا یہ بھی عمر کا ہے اور اے ابو حفص اس میں خوبصورت آنکھوں والی حوریں بسیرا کرتی ہیں اور (اے عمر!) مجھے اس میں داخل ہونے سے سوائے تیری غیرت کے کسی چیز نے نہیں روکا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور پھر انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! بھلا میں بھی آپ پر غیرت کروں گا میں نے کبھی آپ پر غیرت نہیں کی۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 41 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 269، الحديث رقم : 13874، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 74، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 109، الحديث رقم : 2529. (6) بَابٌ فِيْ رُؤْيَا النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم الَّتِي تُحَدِّثُ عَنْ فَضَائِلِ عُمَرَ رضی الله عنه (آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل سے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک خوابوں کا بیان)42. عَنْ أَبِيْ سَعِيدٍ اِلْخُدْرِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ النَّاسَ يُعْرَضُوْنَ عَلَيَّ وَعَلَيْهِمْ قُمُصٌ مِنْها مَا يَبْلُغُ الثُّدِيَّ وَ مِنْها مَا يَبْلُغُ دُونَ ذٰلِکَ. وَ عُرِضَ عَلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلَيْهِ قَمِيْصٌ يَجُرُّهُ قَالُوْا : مَاذَا أَوَّلْتَ ذَالِکَ؟ يَارَسُولَ اﷲِ! قَالَ الدِّيْنَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ الْبُخَارِيُّ وَ التِّرْمِذِيُّ وَ النَّسَائِيُّ. ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں سویا ہوا تھا کہ دوران خواب میں نے دیکھا کہ مجھ پر لوگ پیش کئے جا رہے ہیں اس حال میں کہ انہوں نے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں بعض کی قمیصیں سینے تک تھیں اور بعض لوگوں کی اس سے بھی کم، اور مجھ پر عمر بن الخطاب کو پیش کیا گیا۔ ان پر ایک ایسی قمیص تھی جس کو وہ گھسیٹ رہے تھے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا : یا رسول اﷲ! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کی تعبیر دین ہے۔ اس حدیث کو امام مسلم، بخاری، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم42 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب الايمان، باب تفاضيل أهل الإيمان في الأعمال، 1 / 17، الحديث رقم : 23، و في کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر، 3 / 1349، الحديث رقم : 3488، و مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1859، الحديث رقم : 2390، و الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب الروياء عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب في رؤيا النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 539، الحديث رقم : 2285، و النسائي في السنن، کتاب الإيمان و شرائعة، باب زيارة الإيمان، 8 / 113، الحديث رقم : 504، و الدارمي في السنن، کتاب الروياء، باب في القمص و البئر، 2 / 170، الحديث رقم : 2151. 43. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ أنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ أرِيْتُ فِي الْمَنَامِ أنِّي أنْزِعُ بَدَلْوِ بَکَرَةٍ عَلَی قَلِيْبٍ فَجَاءَ أبُوْ بَکْرٍ فَنَزَعَ ذَنُوبًا أوْ ذَنُوبَيْنِ نَزْعًا ضَعِيْفًا وَاﷲُ يَغْفِرُ لَهُ ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا فَلَمْ أرَ عَبْقَرِيًّا يَفْرِيْ فَرِيَّهُ حَتَّی رَوِيَ النَّاسُ وَضَرَبُوا بِعَطَنٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خواب میں مجھے دکھایا گیا کہ میں ایک کنویں سے ڈول کے ذریعے پانی نکال رہا ہوں جس پر چرخی لگی ہوئی ہے، پھر ابو بکر آئے اور انہوں نے ایک یا دو ڈول نکالے لیکن انہیں کچھ مشکل پیش آ رہی تھی۔ اﷲ تعالی انہیں معاف فرمائے۔ (مراد، ان کے دور خلافت کی مشکلات ہیں جو آپ رضی اللہ عنہ نے مرتدین، منکرین زکوٰۃ اور جھوٹے مدعیان نبوت کے فتنوں کو کچلنے میں اٹھائیں۔ آپکا پورا اڑھائی سالہ دور انہی مشکلات سے نبرد آزمائی میں گزرا) ان کے بعد عمر بن خطاب آئے تو وہ ڈول ایک بڑے ڈول میں تبدیل ہو گیا اور میں نے کسی بھی جوان مرد کو اس طرح کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا یہاں تک کہ تمام لوگ خود بھی سیراب ہوئے اورجانوروں کو بھی سیراب کرکے ان کے ٹھکانوں پر لے گئے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘ الحديث رقم43 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1347، الحديث رقم : 3479، و مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1862، الحديث رقم : 2393، و أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 39، الحديث رقم : 4972، و ابن أبي شيبه في المصنف، 6 / 177، الحديث رقم : 30485، وأيضا في 6 / 353، الحديث رقم : 31969، و أبويعلي في المسند، 9 / 387، الحديث رقم : 5514. 44. عَنْ أبِيْ هُرَيْرَةَ يَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ بَيْنَا أنَا نَائِمٌ رَأيتُنِيْ عَلَی قَلِيْبٍ عَلَيْهَا دَلْوٌ فَنَزَعْتُ مِنْهَا مَا شَاءَ اﷲُ ثُمَّ أخَذَهَا ابْنُ أبِيْ قُحَافَةَ فَنَزَعَ بِهَا ذَنُوْبًا أوْ ذَنُوْبَيْنِ وَ فِيْ نَزْعِهِ وَاﷲُ يَغْفِرُ لَهُ ضَعْفٌ ثُمَّ اسْتَحَالَتْ غَرْبًا فَأخَذَهَا ابْنُ الْخَطَّابِ فَلَمْ أرَ عَبْقَرِيًّا مِنَ النَّاسِ يَنْزِعُ نَزْعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ حَتَّی ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں سویا ہوا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو ایک کنویں کے پاس دیکھا جس پر ڈول رکھا ہوا تھا میں نے جتنا چاہا اس سے پانی نکالا پھر ابن ابی قحافہ نے اس سے ایک یا دو ڈول نکالے۔ اﷲ ان کی مغفرت فرمائے ان کو پانی نکالنے میں کچھ مشکل پیش آرہی تھی (اس کا اشارہ دور خلافت صدیقی کی مشکلات کی طرف ہے)۔ پھر وہ ڈول بڑا ہو گیا اور عمر بن الخطاب نے اس سے پانی نکالا اور میں نے لوگوں میں عمر جیسا عبقری (غیر معمولی صلاحیت والا) کوئی نہیں دیکھا جو عمر بن الخطاب کی طرح پانی کھینچتا ہو حتی کہ لوگ خود بھی سیراب ہوئے اور اپنے اپنے اونٹوں کو بھی سیراب کرکے بٹھا دیا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘ الحديث رقم 44 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1861، 1860، الحديث رقم : 2392، و البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي صلي الله عليه وآله وسلم لو کنت متخذا خليلًا، 3 / 1340، الحديث رقم : 3464، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 322، الحديث رقم : 6898، و النسائي في السنن الکبریٰ 5 / 39، الحديث رقم : 8116، و البيهقي في السنن الکبریٰ، 8 / 153. 45. عَنْ أبِيْ هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ بَيْنَا أنَا نَائِمٌ أرِيْتُ أنِّيْ أنْزِعُ عَلَی حَوْضِئ أسْقِيَ النَّاسَ فَجَاءَ نِيْ أبُوبَکْرٍ فَأخَذَ الدَّلْوَ مِن يَدِيْ لِيُرَوِّحَنِيْ فَنَزَعَ دَلْوَيْنِ وَ فِيْ نَزْعِهِ ضَعْفٌ وَاﷲُ يَغْفِرُ لَهُ فَجَاءَ ابْنُ الْخَطَّابِ فَأخَذَ مِنْهُ فَلَمْ أرَ نَزْعَ رَجُلٍ قَطُّ أقْوَی مِنْهُ حَتَّی تَوَلَّی النَّاسُ وَ الْحَوْضُ مَلْآنُ يَتَفَجَّرُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں سویا ہوا تھا کہ دوران خواب مجھے دکھایا گیا : میں اپنے حوض سے پانی نکال کر لوگوں کو پلا رہا ہوں پھر ابو بکر آئے اور انہوں نے مجھے آرام پہنچانے کے لئے میرے ہاتھ سے ڈول لے لیا انہوں نے دو ڈول پانی نکالا اﷲ ان کی مغفرت کرے انہیں پانی نکالنے میں کچھ مشکل پیش آ رہی تھی، پھر ابن الخطاب آئے انہوں نے ان سے ڈول لے لیا میں نے کسی شخص کو ان سے زیادہ قوت کے ساتھ ڈول کھینچتے ہوئے نہیں دیکھا حتی کہ لوگ چلے گئے اور حوض بھرپور بہ رہا تھا۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 45 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل عمر، 4 / 1861، الحديث رقم : 2392. 46. عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ أَنَّ رَجُلاً قَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ! إِنِّيْ رَأَيْتُ کَأَنَّ دَلْوًا دُلِّيَ مِنَ السَّمَاءِ فَجَاءَ أَبُوْبَکْرٍ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيْهَا فَشَرِبَ شُرْبًا ضَعِيْفًاَ ثُمَّ جَآءَ عُمَرُ فَأخَذَ بِعَرَاقِيْهَا فَشَرِبَ حَتَّی تَضَلَّعَ ثُمَّ جَآءَ عُثْمَانُ فَأخَذَ بِعَرَاقِيْهَا فَشَرِبَ حَتَّی تَضَلَّعَ ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيْهَا فَانْتَشَطَتْ وَانْتَضَحَ عَلَيْهِ مِنْهَا شَيِئٌ. رَوَاهُ أبُوْدَاؤْدَ. ’’حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض گزار ہوا : یا رسول اﷲ! میں نے (خواب میں) دیکھا کہ گویا ایک ڈول آسمان سے لٹکایا گیا ہے۔ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور اس کو کناروں سے پکڑ کر بمشکل پیا۔ (مراد ان کے دور خلافت کی مشکلات ہیں)۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اسے کناروں سے پکڑ کر پیا یہاں تک کہ خوب شکم سیر ہو گئے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے اور اس کو کناروں سے پکڑ کر پیا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے اسے کناروں سے پکڑا تو وہ ہل گیا اور اس میں سے کچھ پانی ان کے اوپر گر گیا۔ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 46 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب السنة، باب في الخلفاء، 4 / 208، الحديث رقم : 4637، و أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 21، الحديث رقم : 23873، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 356، الحديث رقم : 32001، و الطبراني في المعجم الکبير، 7 / 231، الحديث رقم : 6965، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 180، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 540، الحديث رقم : 1141. 47. عَنْ أبِي الطُّفَيْلِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَأَيْتُ فِيْمَا يَرَی النَّائِمُ کَأَنِيْ أَنْزِعُ أَرْضًا وَرَدَتْ عَلَيَّ غَنَمٌ سُوْدٌ وَ غَنَمٌ عُفْرٌ فَجَاءَ أَبُوْبَکْرٍ فَنَزَعَ ذَنُوْبًا أَوْ ذَنُوْبَيْنِ وَفِيْهِمَا ضَعْفٌ وَاﷲُ يَغْفِرُلَهُ ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ فَنَزَعَ فَاسَتَحَالَتْ غَرْبًا فَمَلأ الْحَوْضَ وَ أرْوَی الْوَارِدَةَ فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِيًا أَحْسَنَ نَزْعًا مِنْ عُمَرَ فَأَوَّلْتُ أَنَّ السُّوْدَ الْعَرَبُ وَأَنَّ الْعُفْرَ الْعَجَمُ. رَوَاهُ أحْمَدُ. ’’حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے خواب دیکھا گویا میں ایک زمین سے جس میں مجھ پر کالی اور سرخی مائل سفید بکریاں وارد ہوئیں پانی کے ڈول نکال رہا ہوں پھر ابوبکر آئے اور انہوں نے ایک یا دو ڈول نکالے اور ان کو ڈول نکالنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ اﷲ تعالیٰ ان کو معاف کرے پھر عمر آئے۔ پس انہوں نے بھی ڈول نکالے تو وہ ڈول ان کے ہاتھ میں بڑے ڈول میں تبدیل ہو گیا۔ پھر آپ نے حوض بھر دیا اور وادر ہونے والی بکریوں کو سیراب کر دیا اور میں نے کسی کو عمر سے بڑھ کر ڈول نکالنے والا نہیں دیکھا اور میں نے اس خواب کی تعبیر یہ کی کہ سیاہ بکریوں سے مراد عرب اور سرخی مائل سفید بکریوں سے مراد عجم ہیں۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 47 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 455، الحديث رقم : 23852، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 180. 48. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : بَيْنَا أنَا نَائِمٌ، شَرِبْتُ يَعْنِي اللَّبَنَ حَتَّی أنْظُرَ إِلَی الرِّيِّ يَجْرِيْ فِي ظُفُرِيْ أوْ فِي أظْفَارِي ثُمَّ نَاوَلْتُ عُمَرَ فَقَالُوا : فَمَا أوَّلْتَهُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ : ’’الْعِلْمُ‘‘. رَوَاهُ الْبُخَارِيُ. ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں سویا ہوا تھا کہ دورانِ خواب میں نے اتنا دودھ پیا کہ جس کی تازگی میرے ناخنوں سے بھی ظاہر ہونے لگی، پھر بچا ہوا میں نے عمر کو دے دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس سے مراد ’’علم (نبوت کا حصہ ) ہے‘‘۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 48 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1346، الحديث رقم : 3478، و الدارمي في السنن، کتاب الرؤيا، باب في القمص و البئر و اللبن، 2 / 171، الحديث رقم : 2154، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 179، الحديث رقم : 30492. 49. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ أبِيْهِ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : بَيْنَا أنَا نَائِمٌ إِذْ رَأيْتُ قَدَحًا أتِيْتُ بِهِ فِيهِ لَبَنٌ فَشَرِبْتُ مِنْهُ حَتَّی إِنِّي لَأرَی الرِّیَّ يَجْرِی فِي أظْفَارِيْ ثُمَّ أعْطَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالُوْا : فَمَا أوَّلْتَ ذَالِکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ ’’الْعِلْمُ‘‘. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں سویا ہوا تھا کہ دوران خواب میں نے دیکھا میرے پاس دودھ کا پیالہ لایا گیا میں نے اس سے پی لیا حتی کہ میں نے دیکھا کہ اس کا اثر میرے ناخنوں سے جاری ہونے لگا پھر میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمر بن الخطاب کو دیا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے آپ نے فرمایا علم (نبوت کا حصہ ہے)۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ ‘‘ الحديث رقم 49 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1860، 1859، الحديث رقم : 2391، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 301، الحديث رقم : 6878، و النسائي في السنن الکبریٰ، 4 / 387، الحديث رقم : 7642، و البيهقي في السنن الکبریٰ، 7 / 49، الحديث رقم : 13102. 50. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : رَأَيْتُ کَأَنِّيْ أُتِيْتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ مِنْهُ فَأَعْطَيْتُ فَضْلِيْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالُوْا : فَمَا أَوَّلْتَهُ يَارَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ : ’’الْعِلْمُ‘‘. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌٌ. ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میرے پاس ایک دودھ کا پیالہ لایا گیا۔ میں نے اس میں سے پی کر اپنا بچا ہوا عمر بن الخطاب کو دے دیا۔ لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ نے اس کی کیا تعبیر مراد لی؟ فرمایا : علم (نبوت کا حصہ ہے)۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 50 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عمر، 5 / 619، الحديث رقم : 3687، و في کتاب الرؤيا، باب في رؤيا النبي، 4 / 539، الحديث رقم : 2284، و النسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 40، الحديث رقم : 8122، و النسائي في فضائل الصحابة، 1 / 9، الحديث رقم : 21. 51. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ، أَنَّهُ کَانَ يُحَدِّثُ، أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أُرِيَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ صَالِحٌ، أنَّ أبَابَکْرٍ نِيْطَ بِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَنِيْطَ عُمَرُ بِأَبِي بَکْرٍ، وَ نِيْطَ عُثْمَانُ بِعُمَرَ. قَالَ : جَابِرٌ : فَلَمَّا قُمْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قُلْنَا : أَمَّا الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَرَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَأَمَّا تَنَوُّطُ بَعْضِهُمْ بِبَعْضٍ، فَهُمْ وُلَا ةُ هٰذَا الْأمْرِ الَّذِي بَعَثَ اﷲُ بِهِ نَبِيَّهُ صلی الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ أبُوْدَاؤْدَ. ’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : گزشتہ رات ایک نیک آدمی کو خواب دکھایاگیا کہ ابوبکر کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ منسلک کر دیا گیا اور عمر کو ابوبکر کے ساتھ اور عثمان کو عمر کے ساتھ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس سے اٹھے تو ہم نے کہا : اس نیک آدمی سے مراد تو خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں۔ رہا بعض کا بعض سے منسلک ہونا تو وہ ان کا اس ذمہ داری کو سنبھالنا ہے جس کے لئے اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا تھا۔ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 51 : أخرجه أبوداؤد في السنن، کتاب السنة، باب في الخلفاء، 4 / 208، الحديث رقم : 4636، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 355، الحديث رقم : 14863، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 343، الحديث رقم : 6913، و الحاکم في المستدرک، 3 / 109، الحديث رقم : 4551، و في 3 / 75، الحديث رقم : 4438، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 537، الحديث رقم : 1134. 52. عَنِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ذاتَ غَدَاةٍ بَعْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ فَقَالَ : رَأَيْتُ قُبَيْلَ الْفَجْرِ کَأَنِّيْ أُعْطِيْتُ الْمَقَالِيْدَ وَالْمَوَازِيْنَ، فَأمَّا الْمَقَالِيْدُ فَهَذِهِ الْمَفَاتِيْحُ، وَأَمَّا الْمَوَازِيْنُ، فَهِيَ الَّتِيْ تَزِنُوْنَ بِهَا، فَوُضِعْتُ فِي کِفَّةٍ وَوُضِعَتْ أُمَّتِي فِي کِفَّةٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ، فَرَجَحْتُ ثُمَّ جِيءَ بِأَبِيْ بَکْرٍ، فَوُزِنَ بِهِمْ، فَوَزَنَ ثُمَّ جِيءَ بِعُمَرَ، فَوُزِنَ بِهِمْ، فَوَزَنَ، ثُمَّ جِيْءَ بِعُثْمَانَ فَوُزِنَ بِهِمْ، ثُمَّ رُفِعَتْ. رَوَاهُ أحْمَدُ و ابْنُ أبِيْ شَيْبَةَ. ’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک دن سورج طلوع ہونے کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف تشریف لائے اور فرمایا : میں نے فجر سے تھوڑا پہلے خواب میں دیکھا گویا مجھے چابیاں اور ترازو عطاء کیے گئے۔ مقالید تو یہ چابیاں ہیں اور ترازو وہ ہیں جن کے ساتھ تم وزن کرتے ہو۔ پس مجھے ایک پلڑے میں رکھا گیا اور میری امت کو دوسرے پلڑے میں پھر وزن کیا گیا تو میرا پلڑا بھاری تھا۔ پھر ابو بکر صدیق کو لایا گیا پس ان کا وزن میری امت کے ساتھ کیا گیا تو ان کا پلڑا بھاری تھا۔ پھر عمر کو لایا گیا اور ان کا وزن میری امت کے ساتھ کیا گیا تو ان کا پلڑا بھاری تھا۔ پھر عثمان کو لایا گیا اور ان کا وزن میری امت کے ساتھ کیا گیا پھر وہ پلڑا اٹھا لیا گیا۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 52 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 76، الحديث رقم : 5469، و ابن أبی شيبة في المصنف، 6 / 352، الحديث رقم : 31960، و في، 6 / 176، الحديث رقم : 30484، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 58. 7) بَابٌ فِيْمَا وَرَدَ لَهُ مِنَ الْفَضْلِ مِنْ مُوَافَقَتِهِ رضی الله عنه لِلْوَحْيِ (آپ رضی اللہ عنہ کی رائے کی وحی سے موافقت)53. عَنْ أنَسٍ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلاَثٍ : فَقُلْتُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ! لَوِ اتَّخَذْنَا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلًّی فَنَزَلَتْ ( وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلَّی) وَ آيَةُ الْحِجَابِ، قُلْتُ يَارَسُوْلَ اﷲِ! لَوْ أمَرْتَ نِسَاءَ کَ أنْ يَحْتَجِبْنَ فَإِنَّهُ يُکَلِّمُهُنَّ الْبَرُّ وَ الْفَاجِرُ، فَنَزَلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ وَ اجْتَمَعَ نِسَاءُ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي الْغَيْرَةِ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ لَهُنَّ (عَسَی رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَکُنَّ أنْ يُبَدِّلَهُ أزْوَاجًا خَيْرًا مِنْکُنَّ) فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میرے رب نے تین باتوں میں میری موافقت فرمائی۔ میں عرض گزار ہوا کہ یا رسول اﷲ! کاش! ہم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنائیں تو حکم نازل ہوا۔ (اور مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ) اور پردے کی آیت، میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اﷲ! کاش آپ ازواج مطہرات کو پردے کا حکم فرمائیں کیونکہ ان سے نیک اور بد ہر قسم کے لوگ کلام کرتے ہیں تو پردے کی آیت نازل ہوئی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات نے رشک کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دباؤ ڈالا تو میں نے ان سے کہا۔ ’’اگر وہ آپ کو طلاق دے دیں تو قریب ہے کہ ان کا رب انہیں اور بیویاں عطا فرما دے جو اسلام میں آپ سے بہتر ہوں۔‘‘ تو یہی آیت نازل ہوئی۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے‘‘ الحديث رقم 53 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصلاة، باب ما جاء في القبلة 1 / 157، الحديث رقم : 393، و في کتاب التفسير، باب و قوله و اتخذوا من مقام إبراهيم مصلی، 4 / 1629، الحديث رقم : 4213، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 319، الحديث رقم : 6896، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 23، الحديث رقم : 157، و سعيد بن منصور في السنن، 2 / 607، الحديث رقم : 215. 54. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : وَافَقْتُ رَبِّيْ فِيْ ثَلاَثٍ : فِي مَقَامِ إِبْرَاهِيْمَ، وَ فِي الْحِجَابِ، وَ فِي أَسَارٰی بَدْرٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میرے رب نے تین امور میں میری موافقت فرمائی، مقام ابراہیم میں، حجاب میں اور بدر کے قیدیوں میں (تین کا ذکر شہرت کے اعتبار سے ہے ورنہ ان آیات کی تعداد زیادہ ہے)۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 54 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1865، الحديث رقم : 2399، و الطبرانی فی المعجم الاوسط، 6 / 92،93، الحديث رقم : 5896، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 586، الحديث رقم : 1276. 55. عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ اﷲَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلی لِسَانِ عُمَرَ وَ قَلْبِهِ وَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ : مَا نَزَلَ بِالنَّاسِ أمْرٌ قَطُّ فَقَالُوْا فِيْهِ وَ قَالَ فِيْهِ عُمَرُ أوْقَالَ ابْنُ الْخَطَّابِ فِيْهِ شَکَّ خَارِجَةُ إِلَّا نَزَلَ فِيهِ الْقُرْآنُ عَلٰی نَحْوِ مَا قَالَ عُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وً قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَ فِي الْبَابِ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ وَ أَبِيْ ذَرٍّ وَ أَبِيْ هُرَيْرَةَ. ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری کر دیا ہے۔ حضرت ابن عمر کہتے ہیں جب کبھی لوگوں میں کوئی معاملہ درپیش ہوا اور اس کے متعلق لوگوں نے کچھ کہا اور حضرت عمر ابن خطاب نے بھی کچھ کہا (خارجہ بن عبد اﷲ راوی کو شک ہے کہ کس طرح آپ کا نام لیا گیا)۔ اس بارے میں رائے بیان کی تو ضرور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق قرآن نازل ہوا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ اس باب میں فضل بن عباس، ابو ذر اور ابو ہریرۃ رضی اللہ عنھم سے بھی روایات مذکور ہیں۔ الحديث رقم 55 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 617، الحديث رقم : 3682، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 318، الحديث رقم : 6895، و في 15 / 312، الحديث رقم : 6889، و أحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 53، الحديث رقم : 5145، و الحاکم في المستدرک، 3 / 93، الحديث رقم : 4501، و الهيثمي في موراد الظمان، 1 / 536، الحديث رقم : 2184. 56. عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : کَانَ عُمَرُ إِذَا رَأَی الرَّاْيَ نَزَلَ بِهِ الْقُرْانُ. رَوَاهُ ابْنُ أبِي شَيْبَةَ. ’’حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب کوئی رائے دیتے تو اس کے مطابق قرآن نازل ہوتا۔ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 56 : أخرجه ابن أبيشبية في المصنف، 6 / 354، الحديث رقم : 31980 (8) بَابٌ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الشَّيْطَانَ يَفِرُّ مِنْ ظِلِّ عُمَرَ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : بے شک شیطان عمر کے سائے سے بھی بھاگتا ہے )57. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أبِيْ وَقَّاصٍ عَنْ أبِيْهِ قَالَ : اسْتَأذَنَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ عِنْدَهُ نِسْوَةٌ مِنْ قُرَيشٍ يُکَلِّمْنَهُ وَ يَسْتَکْثِرْنَهُ عَالِيَةً أصْوَاتُهُنَّ عَلَی صَوْتِهِ فَلَمَّا اسْتَأذَنَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ قُمْنَ فَبَادَرْنَ الحِجَابَ فَأذِنَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَدَخَلَ عُمَرُ وَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَضْحَکُ فَقَالَ عُمَرُ : أضْحَکَ اﷲُ سِنَّکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلاَءِ اللَّاتِي کُنَّ عِنْدِيْ فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَکَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ فَقَالَ عُمَرُ : فَأنْتَ أحَقُّ أنْ يَهَبْنَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ! ثُمَّ قَالَ عُمَرُ : يَا عَدُوَّاتِ أنْفُسِهِنَّ! أتَهَبْنَنِي وَ لَا تَهَبْنَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقُلنَ نَعَمْ أنْتَ أغْلَظُ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِيْهًا یَا ابْنَ الخَطَّابِ! وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ مَا لَقِيَکَ الشَّيْطَانُ سَالِکًا فَجًّا قَطُّ إِلاَّ سَلَکَ فَجَّاً غَيْرَ فَجِّکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. ’’حضرت سعد بن ابن وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں خوب اونچی آواز سے گفتگو کر رہی تھیں۔ جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو وہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور پردے میں چلی گئیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرانے لگے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے : یا رسول اﷲ! اﷲ تعالیٰ آپ کے دندانِ مبارک کو تبسم ریز رکھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ان عورتوں پر حیران ہوں جو میرے پاس تھیں کہ جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو پردے میں چھپ گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے : یا رسول اﷲ! آپ زیادہ حق دار ہیں کہ یہ آپ سے ڈریں پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں ڈرتیں؟ عورتوں نے جواب دیا ہاں! آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ میں سخت گیر اور سخت دل ہیں۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابن خطاب! اس بات کو چھوڑو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! جب شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو تمہارے راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘ الحديث رقم 57 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1347، الحديث رقم : 3480، و في کتاب بدء الخلق، باب صفة أبليس و جنوده، 3 / 1199، الحديث رقم : 3120، و مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1863، الحديث رقم : 2396، و النسائی فی السنن الکبری، 5 / 41، الحديث رقم : 8130، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 171، الحديث رقم : 1472، و الطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 332، الحديث رقم : 8783، و أبویعلی في المسند، 2 / 132، الحديث رقم : 810. 58. عَنْ بُرِيْدَةَ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِيْ بَعْضِ مَغَازِيْهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ جَآءَ تْ جَارِيَةٌ سَوْدَآءُ، فَقَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ إِنِّيْ کُنْتُ نَذَرْتُ إِنْ رَدَّکَ اﷲُ سَالِماً أَنْ أَضْرِبَ بَيْنَ يَدَيْکَ بِالدُّفِّ وَ أَتَغَنّٰی، فَقَالَ لَهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنْ کُنْتِ نَذَرْتِ فَاضْرِبِيْ وَ إلاَّ فَلاَ. فَجَعَلَتْ تَضْرِبُ، فَدَخَلَ أَبُوْبَکْرٍ وَهِيَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عَلِيٌّ وَهِيَّ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ وَ هِيَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ فَأَلْقَتِ الدُّفَّ تَحْتَ إِسْتِهَا ثُمَّ قَعَدَتْ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِنَّ الشَّيْطَانَ لَيَخَافُ مِنْکَ يَا عُمَرُ، إِنِّيْ کُنْتُ جَالِساً وَهِيَ تَضْرِبُ فَدَخَلَ أَبُوْبَکْرٍ وَهِيَ تَضْرِبُ ثُمَّ دَخَلَ عَلِيٌّ وَ هِیَ تَضْرِبُ ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ وَ هِيَ تَضْرِبُ، فَلَمَّا دَخَلْتَ أَنْتَ يَا عُمَرُ! أَلْقَتِ الدُّفَّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَ فِي الْبَابِ عَنْ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ ’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ کسی جہاد سے واپس تشریف لائے تو ایک سیاہ فام باندی حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اﷲ تعالیٰ آپ صلی اﷲ علیک وسلم کو صحیح سلامت واپس لائے تو میں آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے سامنے دف بجاؤں گی اور گانا گاؤں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا : اگر تم نے نذر مانی تھی تو بجا لو ورنہ نہیں۔ اس نے دف بجانا شروع کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آ گئے وہ بجاتی رہی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آنے پر بھی وہ دف بجاتی رہی۔ لیکن اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو وہ دف کو نیچے رکھ کر اس پر بیٹھ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر! تم سے شیطان بھی ڈرتا ہے کیونکہ میں موجود تھا اور یہ دف بجا رہی تھی پھر ابوبکر، علی اور عثمان (یکے بعد دیگرے) آئے۔ تب بھی یہ بجاتی رہی لیکن جب تم آئے تو اس نے دف بجانا بند کر دیا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 58 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 620، الحديث رقم : 3690، و حکيم ترمذي في نوادر الأصول في أحاديث الرسول، 1 / 230، و العسقلاني في فتح الباري، 11 / 588. 59. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم جَالِسًا فَسَمِعْنَا لَغَطًا وَ صَوْتَ صِبْيَانٍ فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِذَا حَبْشِيَّةٌ تَزْفِنُ وَ الصِّبْيَانُ حَوْلَهَا، فَقَالَ : يَا عَائِشَةُ تَعَالِيْ فَانْظُرِيْ فَجِئْتُ فَوَضَعْتُ لَحْيَيَّ عَلٰی مَنْکِبِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهَا مَا بَيْنَ الْمَنْکِبِ إِلٰی رَأسِهِ، فَقَالَ لِيْ : أَمَا شَبِعْتِ، أَمَا شَبِعْتِ. قَالَتْ : فَجَعَلْتُ أَقُوْلُ لَا لِأنْظُرَ مَنْزِلَتِيْ عِنْدَهُ إِذْ طَلَعَ عُمَرُ، قَالَتْ : فَارْفَضَّ النَّاسُ عَنْهَا، قَالَتْ : فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَأَنْظُرُ إِلیَ شَيَاطِيْنِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ قَدْ فَرُّوْا مِنْ عُمَرَ. قَالَتْ : فَرَجَعْتُ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے اتنے میں ہم نے شور و غل اور بچوں کی آواز سنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے تو دیکھا کہ ایک حبشی عورت ناچ رہی ہے اور بچے اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عائشہ آؤ دیکھو! میں گئی اور ٹھوڑی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کندھے پر رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھے اور سر کے درمیان سے دیکھنے لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارا جی نہیں بھرا؟ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک میری کیا قدر و منزلت ہے؟ لہٰذا میں نے عرض کیا : ’’نہیں‘‘ اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ آ گئے اور انہیں دیکھتے ہی سب لوگ بھاگ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں دیکھ رہا ہوں کہ شیاطین جن و انس عمر کو دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے، پھر میں لوٹ آئی۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 59 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 621، الحديث رقم : 3691، و النسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 309، الحديث رقم : 8957، و العسقلاني في فتح الباري، 2 / 444، و إبراهيم حسيني في البيان و التعريف، 1 / 282، و المناوي في فيض القدير، 3 / 12. 60. عَنْ سُدَيْسَةَ مَوْلَاةِ حَفْصَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الشَّيْطَانَ لَمْ يَلْقَ عُمَرَ مُنْذُ أَسْلَمَ إِلَّا خَرَّ لِوَجْهِهِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِيْ الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ وِ أسَنَادَهُ حَسَنٌ. ’’حضرت سدیسہ رضی اﷲ عنہا جو کہ حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کی خادمہ ہیں وہ بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک جب سے عمر نے اسلام قبول کیا ہے شیطان جب بھی ان کے سامنے سے گزرتا ہے تو اپنا سر جھکا لیتا ہے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی اسناد حسن ہیں۔‘‘ الحديث رقم 60 : أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 24 / 305، الحديث رقم : 774، و الديلمی فی المسند الفردوس، 2 / 380، الحديث رقم : 3693، و الهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 70، و المناوی فی فيض القدير، 2 / 352. (9) بَابٌ فِي مَکَانَتِهِ رضي الله عنه الْعِلْمِيَّةِ (آپ رضی اللہ عنہ کا علمی مقام و مرتبہ)61. عَنِ الْأزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ : صَلَّی بِنَا إِمَامٌ لَنَا يُکْنَی أبَا رَمْثَةَ فَقَالَ : صَلَّيْتُ هَذِهِ الصَّلَاةَ أوْ مِثْلَ هَذِهِ الصَّلاَةِ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ : وَ کَانَ أبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ يَقُوْمَانِ فِي الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ عَنْ يَمِيْنِهِ وَکَانَ رَجُلٌ قَدْ شَهِدَ التَّکْبِيْرَةَ الْأوْلٰی مِنَ الصَّلَاةِ، فَصَلَّی نَبِيُّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ثُمَّ سَلَّمَ عَنْ يَمِيْنِهِ وَ عَنْ يَسَارِهِ حَتّٰی رَأيْنَا بَيَاضَ خَدَّيْهِ ثُمَّ انْفَتَلَ کَانْفِتَالِ أبِيْ رِمْثَةَ يَعْنِيْ نَفْسَهُ فَقَامَ الرَّجُلُ الَّذِيْ أدْرَکَ مَعَهُ التَّکْبِيْرَةَ الْأوْلٰی مِنَ الصَّلَاةِ يَشْفَعُ، فَوَثَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ فَأخَذَ بِمَنْکَبَيْهِ فَهَزَّهُ ثُمَّ قَالَ : إِجْلِسْ فَإِنَّهُ لَمْ يَهْلِکْ أهْلُ الْکِتَابِ إِلاَّ أنَّهُ لَمْ يَکُنْ بَيْنَ صَلَوَاتِهِمْ فَصْلٌ، فَرَفَعَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بَصَرَهُ فَقَالَ : أصَابَ اﷲُ بِکَ يَا بْنَ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ أبُوْدَاؤْدَ. ’’حضرت ارزق بن قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمارے امام نے ہمیں نماز پڑھائی جن کا نام ابورمثہ تھا۔ انہوں نے فرمایا : ایک مرتبہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ یہی نماز یا اس جیسی نماز پڑھی۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ صف اول میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں جانب کھڑے تھے۔ ایک شخص اور تھا جس نے تکبیر اولیٰ پائی تھی۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کو پورا کر چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرا یہاں تک کہ ہم لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک رخساروں کی سفیدی دیکھی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح کھڑے ہوئے جس طرح ابورمثہ کھڑے ہوئے۔ پھر وہ شخض جس نے تکبیر اولیٰ میں شرکت کی تھی وہ دو نفل پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جلدی سے اس کو کندھوں سے پکڑ لیا اور اس کو جھٹک کر بٹھا دیا اور فرمایا : اہل کتاب اس لئے ہلاک ہوئے کہ انہوں نے ایک نماز کو دوسری نماز سے علیحدہ نہ کیا۔ اسی وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھ اٹھا کر دیکھا اور فرمایا : اے عمر بن الخطاب! اﷲ تعالیٰ نے تمہیں صحیح بات کہنے کی توفیق عطا فرمائی۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ الحديث رقم 61 : أخرجه أبوداؤد فی السنن، کتاب الصلوٰة، باب فی الرجل يتطوع في مکانه الذي صلي فيه المکتوبة، 1 / 264، الحديث رقم : 1007، والحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 1 / 403، الحديث رقم : 996، والبيهقي في السنن الکبریٰ، 2 / 190، الحديث رقم : 2867، والبيهقي في السنن الصغریٰ، 1 / 395، الحديث رقم : 676. 62. عَنْ قَبِيْصَةَ بْنِ جَابِرٍ قَالَ : مَا رَأيْتُ رَجُلًا أَعْلَمَ بِاﷲِ وَ لَا أَقْرَأ لِکِتَابِ اﷲِ، وَ أَفْقَهَ فِيْ دِيْنِ اﷲِ مِنْ عُمَرَ. رَوَاهُ ابْنُ أبِيْ شيبة. ’’ حضرت قبیصہ بن جابر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی عالم باﷲ نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے بڑھ کر کوئی کتاب اﷲ کا قاری دیکھا ہے اور نہ ہی ان سے بڑھ کر کوئی اﷲ کے دین کا فقیہ دیکھا ہے۔ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 62 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 355، الحديث رقم : 31987، و في 6 / 139، الحديث رقم : 30130. 63. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : لَوْ أَنَّ عِلْمَ عُمَرَ وُضِعَ فِي کِفَّةِ الْمِيْزَانِ، وَوُضِعَ عِلْمُ أهْلِ الْأرْضِ فِي کِفَّةٍ لَرَجَحَ عِلْمُهُ بِعِلْمِهِمْ. قَالَ وَکِيْعٌ، قَالَ الْأعْمَشُ : فَأنْکَرْتُ ذَلِکَ فَأتَيْتُ إِبْرَاهِيْمَ فَذَکَرْتُهُ لَهُ فَقَالَ وَمَا أَنْکَرْتُ مِنْ ذَلِکَ؟ فَوَاﷲِ لَقَدْ قَالَ عَبْدُاللّٰهِ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِکَ قَالَ : إِنِّيْ لَأحْسِبُ تِسْعَةَ أَعْشَارِ الْعِلْمِ ذَهَبَ يَوْمَ ذَهْبَ عُمَرَ. رَوَاهُ الطَّبْرَانِيُّ فِي الْمُعَجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور تمام اہل زمین کا علم دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو یقیناً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا علم ان کے علم پر بھاری ہو گا۔ حضرت وکیع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اعمش نے کہا : میں نے اس چیز کا انکار کیا پس میں ابراہیم سے ملا اور ان کے سامنے یہ چیز بیان کی تو انہوں نے کہا میں اس کا انکار نہیں کرتا۔ پس خدا کی قسم! ابن مسعود نے اس سے بھی بڑھ کر کہا ہے وہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ علم کے دس حصوں میں سے 9 حصے اس دن چلے گئے جس دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس دنیا سے وصال فرما گئے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 63 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 163، الحديث رقم : 8809، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 69، وابن عبدالبر في التمهيد، 3 / 198، و ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 2 / 336. . 64. عَنْ عَبْدِ اﷲِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : لَقِيَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم رَجُلًا مِنَ الْجِنِّ فَصَارَعَهُ، فَصَرَعَهُ الْإِنْسِيُّ فَقَالَ لَهُ الْإِنْسِيُّ : إِنِّيْ لَأرَاکَ ضَئِيْلًا شَخِيْتًا کَأَنَّ ذُرَيْعَتَکَ ذُرَيْعَتَي کَلْبٍ فَکَذٰلِکَ أَنْتُمْ مَعْشَرُ الْجِنِّ أَمْ أَنْتَ مِنْ بَيْنِهِمْ کَذٰلِکَ فَقَالَ : لَا وَاﷲِ إِنِّيْ مِنْهُمْ لَضَلِيْعٌ، وَلَکِنْ عَاوِدْنِي الثَّانِيَّةَ، فَإِنْ صَرَعْتَنِيْ عَلَّمْتُکَ شَيْئًا يَنْفَعُکَ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : تَقَرَأُ ’’اﷲُ لَا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمُ‘‘؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : فَإِنَّکَ لَا تَقْرَؤُهَا فِيْ بَيْتٍ إِلاَّ خَرَجَ مِنْهُ الشَّيْطَانُ لَهُ خَبَجٌ کَخَبَجِ الْحِمَارِ لَا يَدْخُلُهُ حَتَّی تُصْبِحَ. وَ زَادَ الطَّبَرَانِيُّ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ! مَنْ ذَاکَ الرَّجُلُ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ؟ فَعَبَسَ عَبْدُاللّٰهِ، وَ أَقْبَلَ عَلَيْهِ وَ قَالَ : مَنْ يَکُوْنُ هُوَ إِلَّا عُمَرُ رضی اﷲ عنه. . رَوَاهُ الدَّارَمِيُّ وَالطَّبْرَانِيُّ فِی الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ ’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے ایک صحابی ایک جن کو ملا اور اس کے ساتھ کشتی کی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی نے اس جن کو پچھاڑ دیا پھر اسے کہا کہ تم نہایت کمزور اور دبلے پتلے ہو اور تمہارے ہاتھ کتے کے ہاتھ کی طرح کمزور ہیں۔ کیا تم جنات کا گروہ اسی طرح کا ہوتا ہے؟ یا تم ان میں سے اس طرح ہو تو وہ جن کہنے لگا : نہیں خدا کی قسم! میں ان سب میں سے ایک موٹا تازہ جن ہوں لیکن تم میرے ساتھ دوبارہ کشتی کرو۔ پس اگر تم نے مجھے دوبارہ پچھاڑ دیا تو میں تمہیں ایسی چیز سکھاؤں گا جو تمہیں نفع دے گی انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ (انہوں نے اسے دوبارہ پچھاڑ دیا) تو جن نے کہا کیا تم ’’اللّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ‘‘ پڑھتے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں۔ جن نے کہا۔ یہ جس گھر میں بھی پڑھی جاتی ہے اس سے شیطان گدھے کی طرح ڈر کر بھاگتا ہے اور وہ اس گھر میں اس وقت تک داخل نہیں ہوتا جب تک تم صبح نہ کر لو۔ امام طبرانی کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا۔ اے ابو عبد الرحمٰن! اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے وہ آدمی کون سا تھا؟ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما نے پہلے تھوڑا تردد کیا۔ لیکن پھر فرمایا : وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟ اس حدیث کو امام دارمی نے اپنی مسند میں اور امام طبرانی نے ’’ المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 64 : أخرجه الدارمی فی السنن، کتاب فضائل القرآن، باب فضل أول سورة البقرة و أية الکرسي، 2 / 540، الحديث رقم : 3381، و الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 166، الحديث رقم : 8826، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 71 (10) بَابٌ فِي کَوْنِهِ رضي الله عنه غَلْقَ الْفِتْنَةِ (آپ رضی اللہ عنہ امت میں فتنوں کی بندش کا باعث ہیں)65. عَنْ قُدَامَةَ ابْنِ مَظْعُوْنٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه أَدْرَکَ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُوْنَ وَ هُوَ عَلَی رَاحِلَتِهِ وَ عُثْمَانُ عَلَی رَاحِلَتِهِ عَلَی ثَنِيَّةِ الْأثَايَةِ مِنَ الْعَرْجِ فَضَغَطَتْ رَاحِلَتُهُ رَاحِلَةَ عُثْمَانَ وَ قَدْ مَضَتْ رَاحِلَةُ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَمَامَ الرَّکْبِ فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُوْنٍ : أَوْجَعْتَنِيْ يَا غَلْقَ الْفِتْنَةِ! فَلَمَّا اسْتَهَلَّتِ الرَّوَاحِلُ دَنَا مِنْهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه فَقَالَ : يَغْفِرُ اﷲُ أَبَا السَّائِبِ مَا هَذَا الْإِسْمُ الَّذِيْ سَمَّيْتَنِيْهِ فَقَالَ : لَا وَاﷲِ مَا أَناَ الَّذِيْ سَمَّيْتُکَهُ سَمَّاکَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم هَذَا هُوَأَمَامَ الرَّکْبِ َيقْدِمُ الْقَوْمَ مَرَرْتَ بِنَا يَوْماً وَ نَحْنُ جَلُوْسٌ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ هَذَا غَلْقُ الْفِتْنَةِ وَ أَشَارَ بِيَدِهِ لَا يَزَالُ بَيْنَکُمْ وَ بَيْنَ الْفِتْنَةِ بَابٌ شَدِيَدُ الْغَلْقِ مَا عَاشَ هَذَا بَيْنَ ظَهْرَانِيْکُمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو اس حال میں دیکھا کہ وہ اپنی سواری پرسوار تھے اور عرج کے علاقہ میں مقام اثایہ کی وادی میں چل رہے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سواری نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سواری کو دھکا دیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری قافلہ کے آگے چل رہی تھی۔ پس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا : اے فتنوں کو روکنے والے تو نے مجھے تکلیف دی ہے۔ جب سواریاں رکیں تو حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قریب گئے اور کہا اے ابو سائب! اﷲ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے یہ کون سا نام ہے جو تو نے مجھے دیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں خدا کی قسم! میں وہ نہیں ہوں جس نے تمہیں یہ نام دیا ہے بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں یہ نام دیا ہے جو کہ آج اس لشکر کی قیادت فرما رہے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دن آپ رضی اللہ عنہ ہمارے پاس سے گزرے۔ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ شخص یعنی عمر (دین اور امت کے خلاف اٹھنے والے) فتنوں کو روکنے والا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اشارہ بھی فرمایا اور فرمایا : یہ تمہارے اور فتنوں کے درمیان ایک سختی سے بند کیا ہوا دروازہ ہے جب تک یہ تمہارے درمیان زندہ ہے (فتنہ تمہارے اندر داخل نہیں ہو سکے گا)۔ اس کو امام طبرانی نے ’’ المعجم الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 65 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 38، الحديث رقم : 8321، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 72، و العسقلاني في فتح الباري، 6 / 606. 66. عَنْ أَبِيْ ذَرٍّ، أنَّهُ لَقِيَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَأَخَذَ بِيَدِهِ فَغَمَزَهَا، وَ کَانَ عُمَرُ رَجُلًا شَدِيْدًا فَقَالَ : أَرْسِلْ يَدِيْ يَا قُفْلَ الْفِتْنَةِ فَقَالَ عُمَرُ : وَمَا قُفْلُ الْفِتْنَةِ؟ قَالَ : جِئْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاتَ يَوْمٍ، وَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم جَالِسٌ، وَ قَدِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسُ، فَجَلَسْتُ فِي آخِرِهِمْ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تُصِيْبُکُمْ فِتْنَةٌ مَا دَامَ هَذَا فِيْکُمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِی الْمُعْجَمِ الأوْسَطِ. ’’ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ملے پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر ہلایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت مضبوط آدمی تھے تو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے ’’قفل الفتنۃ‘‘ (فتنوں کو روکنے والے دروازے کا تالا) میرا ہاتھ چھوڑئیے۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا یہ قفل الفتنۃ کیا ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا : ایک دن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اردگرد جمع تھے۔ پس میں ان کے پیچھے بیٹھ گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں اس وقت تک فتنہ نہیں پہنچ سکتا جب تک یہ (عمر) تم میں موجود ہے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 66 : أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 2 / 268، الحديث رقم : 1945، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 73، و العسقلاني في فتح الباري، 6 / 606. 67. عَنْ عَصْمَةَ قَالَ : قَدِمَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ بِإِبِلٍ لَهُ فَلقِيَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَشْتَرَاهَا مِنْهُ، فَلَقِيَهُ عَلِيٌّ فَقَالَ : مَا أَقْدَمَکَ قَالَ : قَدِمْتُ بِإِبِلٍ فَاشْتَرَاهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ فَنَقْدُکَ قَالَ : لَا وَ لَکِنْ بِعْتُهَا مِنْهُ بِتَأَخِيْرٍ فَقَالَ عَلِيٌّ : إِرْجِعْ فَقُلْ لَهُ يَارَسُوْلَ اﷲِ إِنْ حَدَثَ بِکَ حَدْثٌ مَنْ يَقْضِيْنِيْ مَالِيْ؟ وَ انْظُرْ مَا يَقُوْلُ لَکَ، فَارْجِعْ إِلَيَّ حَتَّی تُعَلِّمَنِي، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ إِنْ حَدَثَ بِکَ حَدْثٌ فَمَنْ يَقْضِيْنِي قَالَ : أَبُوْبَکْرٍ فَأعْلَمَ عَلِيًّا، فَقَالَ لَهُ : إِرْجَعْ إِسْألْهُ إِنْ حَدَثَ بِأَبِيْ بَکْرٍ حَدْثٌ فَمَنْ يَقْضِيْنِيْ فَسَألَهُ فَقَالَ : عُمَرُ فَجَاءَ فَأعْلَمَ عَلِيًّا فَقَالَ لَهُ : إِرْجَعْ فَسَلْهُ إِذَ ا مَاتَ عُمَرُ فَمَنْ يَقْضِيْنِيْ فَجَاءَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَيْحَکَ إِذَا مَاتَ عُمَرُ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَمُوْتَ فَمُتْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت عصمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ کے اعرابیوں میں سے ایک اعرابی اونٹ لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے وہ اونٹ خرید لیا، پس اس کے بعد وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ملا تو انہوں نے اس سے دریافت کیا کہ تو کس لئے آیا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ میں ایک اونٹ لے کر آیا تھا جو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے خرید لیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا : کیا تو نے نقد رقم کے بدلے میں اس کو فروخت کیا ہے۔؟ اس نے کہا نہیں بلکہ میں نے اسے ادھار رقم پر فروخت کیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : واپس جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرو کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم اگر آپ کو کچھ ہو جائے تو میرا مال مجھے کون دے گا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو جواب ارشاد فرمائیں وہ واپس آ کرمجھے بتانا۔ وہ شخص واپس گیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ ہو جائے تو میری رقم مجھے کون دے گا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابو بکر، وہ شخص واپس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جواب بتایا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ واپس جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کرو کہ اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کچھ ہو جائے تو پھر کون مجھ کو میرا مال دے گا پس اس شخص نے واپس جا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عمر، وہ شخص واپس آیا اور حضر ت علی رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جواب بتایا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ واپس جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پھر پوچھو کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوت ہو جائیں تو پھر کون مجھ کو میرا مال دے گا، اس نے جا کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تجھے کیا ہو گیا ہے جب عمر فوت ہو جائے تو پھر تم بھی مرنے کی استطاعت رکھتے ہو تو مر جانا۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’ المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 67 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 180، الحديث رقم : 478، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 179، و الحسيني في البيان و التعريف، 2 / 264، و المناوي في فيض القدير، 6 / 366. 68. عَنْ عُمَيْرِ بْنِ رَبِيْعَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَرْسَلَ إِلَی کَعْبِ الْأحْبَارِ، فَقَالَ : يَا کَعْبُ! کَيْفَ تَجِدُ نَعْتِيْ؟ قَالَ : أَجِدُ نَعْتَکَ قَرْنًا مِنْ حَدِيْدٍ، قَالَ : وَمَا قَرْنٌ مِنْ حَدِيْدٍ؟ قَالَ : أَمِيْرٌ سَدِيْدٌ، لاَ يَأَخُذُهُ فِيْ اﷲِ لَؤْمَةُ لاَئِمٍ، قَالَ : ثُمَّ مَه؟ قَالَ : ثُمَّ يَکُوْنُ مِنْ بَعْدِکَ خَلِيْفَةٌ تَقْتُلُهُ فِئَةٌ ظَالِمَةٌ، قَالَ : ثُمَّ مَهْ؟، قَالَ : ثُمَّ يَکُوْنُ الْبَلَاءُ! رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِی الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’ حضرت عمیر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب الاحبار کو بلا بھیجا اور ان سے دریافت فرمایا : اے کعب! تم ہماری تعریف کو کیسے پاتے ہو انہوں نے کہا میں آپ رضی اللہ عنہ کی تعریف کو لوہے کے ایک سینگ کی طرح پاتا ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اور وہ لوہے کا سینگ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا صائب الرائے امیر، جو اﷲ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ انہوں نے کہا پھر اس کے بعد ایک ایسا خلیفہ ہو گا جس کو ایک ظالم گروہ قتل کرے گا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس کے بعد کیا ہو گا؟ انہوں نے کہا : پھر اس کے بعد آزمائش ہوگی۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’ المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 68 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 1 / 84، الحديث رقم : 120، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 65 والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 126، الحديث رقم : 133، وأبونعيم في حلية الأولياء، 6 / 25. 69. عَنْ أُبَيِ بْنِ کَعْبٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : قَالَ لِيْ جِبْرِيْلُ عليه السلام لَيَبْکِ الإِسْلَامُ عًلَی مَوْتِ عُمَرَ رضی الله عنه. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے جبرائیل علیہ السلام نے بتایا ہے کہ اسلام عمر کی موت پر روئے گا۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 69 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 1 / 67، الحديث رقم : 61، و أبو نعيم في حلية الاولياء، 2 / 175، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 74، و الديلمي في مسند الفردوس، 3 / 189، الحديث رقم : 4523. (11) بَابٌ فِيْ جَامِعِ صِفَاتِهِ (آپ رضی اللہ عنہ کی جامع صفات کا بیان)70. عَنْ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : صَعِدَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم أحُدًا وَ مَعَهُ أبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ وَ عُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ وَ قَالَ : اُثْبُتْ أحُدٌ، فَمَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أوْ صِدِّيقٌ، أوْ شَهِيْدَانِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُ وَ التِّرْمِذِيُّ وَ أبُوْدَاؤْدَ. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہِ اُحد پر تشریف لے گئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم تھے۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ وجدمیں آگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا : اے اُحد ٹھہر جا! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں۔ اس حدیث کو امام بخاری، ترمذی اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 70 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1348، الحديث رقم : 3483، و في کتاب فضائل الصحابة، باب لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1344، الحديث رقم : 3472، و الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 624، الحديث رقم : 3697، و أبوداؤد في السنن، کتاب السنة، باب في الخلفاء، 4 / 212، الحديث رقم : 4651، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 280، الحديث رقم : 6865، و النسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 43، الحديث رقم : 8135. 71. عَنِ بْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنهما قَالَ : کُنَّا نَقُوْلُ فِي زمَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم لَا نَعْدِلُ بِأَبِيْ بَکْرِ أَحَدًا، ثُمَّ عُمَرَ، ثُمَّ عُثْمَانَ، ثُمَّ نَتْرَکُ أَصْحَابَ النَّبيِّ صلی الله عليه وآله وسلم لَا نُفَاضِلُ بَيْنَهُمْ. رَوَاهُ الْبُخَارِیُّ. ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں کہا کرتے تھے کہ ہم حضرت ابوبکر کے برابر کسی کو نہیں ٹھہراتے، ان کے بعد حضرت عمر اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کو شمار کیا کرتے تھے اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوڑ دیتے تھے اور ان میں کسی کو کسی پر فضلیت نہیں دیتے تھے۔ اس حدیث کو امام بخاری اور ابوداؤد نے راویت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 71 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب في مناقب عثمان، 3 / 1352، الحديث رقم : 3494، أبوداؤد في السنن، کتاب السنة، باب في التفضيل، 4 / 206، الحديث رقم : 4627، و أبويعلي في المسند، 9 / 454، الحديث رقم : 5602، و ابن أبي عاصم، 2 / 567، الحديث رقم : 1192، و البيهقي في الإعتقاد، 1 / 366. 72. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اﷲ عنهما قَالَ : قَدِمَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنِ بْنِ حُذَيْفَةَ، فَنَزَلَ عَلَی ابْنِ أَخيِهِ الحُرِّ بْنِ قَيْسٍ، وکَانَ مِنَ النَّفَرِ الَّذِينَ يُدْنِيهِمْ عُمَرُ، وَکَانَ الْقُرَّاءُ أَصْحَابَ مَجَالِسِ عُمَرَ وَ مَشَاوَرَتِهِ، کُهُولًا کَانُوا أَوْ شُبَّاناً. فَقَالَ عُيَيْنَةُ لِإِبْنِ أَخِيهِ : يَا ابْنَ أَخِي، لَکَ وَجْهٌ عِنْدَ هَذَا الأمِيرِ، فَاسْتَأذِنْ لِي عَلَيْهِ. قَالَ : سَأَسْتَأْذِنُ لَکَ علَيْهِ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : فاسْتَأْذَنَ الْحُرُّ لِعُيَيْنَةَ، فَأَذِنَ لَهُ عُمَرُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ. قَالَ هِي يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، فَوَاﷲِ مَا تُعْطِينَا الْجَزْلَ، وَلاَ تَحْکُمُ بَيْنَنَا بِالْعَدْلِ. فَغَضِبَ عُمَرُ حَتَّی هَمَّ بِهِ. فَقَالَ لَهُ الْحُرُّ : يَا أَمِيرَ الْمُؤمِنِينَ، إِنَّ اﷲَ تَعَالَی قَالَ لِنَبِيِّهِ صلی الله عليه وآله وسلم (خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بالْعُرْفِ وَأَعْرضْ عَنِ الجَاهِلِينَ). وَإِنَّ هٰذَا مِنَ الْجَاهِلِيْنَ وَاﷲِ مَا جَاوَزَهَا عُمَرُ حِينَ تَلاَهَا عَلَيْهِ، وَکَانَ وَقَّافاً عِنْدَ کِتَابِ اﷲِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جب عیینہ بن حصن بن حذیفہ آئے تو اپنے بھتیجے حر بن قیس کے پاس ٹھہرے اور یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مقربین میں سے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجالس اور مشاورت میں قراء حضرات شریک ہوتے تھے خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان۔ حضرت عیینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا : اے بھتیجے : تمہاری تو امیر المومنین تک رسائی ہے، لہٰذا میرئے لئے انکی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کرو۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں عنقریب آپ کے لئے اجازت حاصل کر لوں گا۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کا بیان ہے کہ جب حضرت حر بن قیس نے حضرت عیینہ کے لئے اجازت طلب کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اجازت دے دی، جب یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوے تو کہنے لگے، اے ابن خطاب! خدا کی قسم! نہ تو آپ ہم پر مال لٹاتے ہیں اور نہ ہمارے درمیان عدل و انصاف ہی فرماتے ہیں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ناراض ہوئے اور انہیں سزا دینے کا ارادہ کیا لیکن حضرت حر نے عرض کیا : اے امیر المومنین! اﷲ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا : ’’اے محبوب! معاف کرنا اختیار کیجئے اور بھلائی کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے منہ پھیر لیجئے‘‘ اور یہ شخص ایسے ہی جاہلوں میں سے ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ خدا کی قسم! حضرت عمر رضی اللہ عنہ (وہیں رک گئے اور) اس حکم الٰہی سے ذرا برابر تجاوز نہ کیا۔ وہ اﷲ کی کتاب کے آگے سر جھکانے والے تھے۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 72 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التفسير، باب خذ العفو و أمر بالعرف و أعرض عن الجاهلين، 4 / 1702، الحديث رقم : 4366، و في کتاب الإعتصام بالکتاب و السنة، باب الإقتداء بسنن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 6 / 2657، الحديث رقم؛ 6856، و البيهقي في شعب الإيمان، 6 / 316. 73. عَنْ زَيْدِ بْنَ أسْلَمَ حَدَّثَهُ عَنْ أبِيْهِ قَالَ سَألَنِي ابْنُ عُمَرَ عَنْ بَعْضِ شَأنِهِ يَعنِي عُمَرَ فَأخْبَرْتُهُ فَقَالَ : مَا رَأيْتُ أحَدًا قَطُّ بَعْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ حِيْنَ قُبِضَ کَانَ أجَدَّ وَ أجْوَدَ حَتَّی انْتَهَی مِنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. ’’حضرت زید بن اسلم رضی اﷲ عنہما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے مجھ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعض حالات پوچھے تومیں نے انہیں بتایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسا نیک اور سخی نہیں دیکھا گویا یہ خوبیاں تو آپ کی ذات پر ختم ہوگئی تھیں۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 73 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1348، الحديث رقم : 3484، و ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 3 / 292. 74. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأرْضُ ثُمَّ أَبُوْبَکْرٍ ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ آتِيَ أَهْلَ الْبَقِيْعِ فَيُحْشَرُوْنَ مَعِي، ثُمَّ أَنْتَظِرُ أَهْلَ مَکَّةَ حَتَّی أُحْشَرَ بَيْنَ الْحَرَمَيْنِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سب سے پہلے جس کے لئے زمین کو کھولا جائے گا وہ میں ہوں پھر ابوبکر کے لئے اور پھر عمر کے لئے پھر اہل بقیع کی باری آئے گی اور ان کو میرے ساتھ اکٹھا کیا جائے گا پھر میں اہل مکہ کا انتظار کروں گا یہاں تک کہ حرمین شریفین کے درمیان لوگوں کے ساتھ جمع کیا جاؤں گا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 74 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عمر، 5 / 622، الحديث رقم : 3692، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 324، الحديث رقم : 6899، و الحاکم في المستدرک علي الصححين، 2 / 505، الحديث رقم : 4732، و في 3 / 72، الحديث رقم : 4429، و الهيثمي في موارد الظمان، 1 / 539، الحديث رقم : 2194. 75. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ رضی اﷲ عنهما قَالَ : إِنَّ عَلِيًّا دَخَلَ عَلَی عُمَرَ وَ هُوَ مُسَجًّی فَقَالَ : صَلَّی اﷲُ عَلَيْکَ! ثُمَّ قَالَ : مَا مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبُّ إِلَيَّ أنْ أَلْقَی اﷲُ بِمَا فِي صَحِيْفَتِهِ مِنْ هَذَا الْمُسَجّٰی. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ ابْنُ أبِيْ شيبة. ’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور وہ ایک چادر میں لپٹے ہوئے تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ تجھ پر رحمت فرمائے پھر فرمایا : لوگوں میں سے کوئی بھی میرے نزدیک اس چادر میں لپٹے ہوئے سے زیادہ محبوب نہیں ہے جو کچھ اﷲ تعالیٰ کے صحیفہ (یعنی قرآن) میں ہے وہ اسے اس کے منشاء کے مطابق نازل فرماتا ہے۔ اس حدیث کو امام حاکم اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 75 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 100، الحديث رقم : 4523، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 359، الحديث رقم : 32018. 76. عَنْ مَالِکِ بْنِ دِيْنَارٍ قَالَ : سُمِعَ صَوْتٌ بِجَبَلٍ تَبَالَةَ حِيْنَ قُتِلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه شِعْرٌ : لِيَبْکِ عَلَی الإِسْلَامِ مَنْ کَانَ بَاکِيًا فَقَدْ أوْشَکُوْا هُلْکِی وَ مَا قَدِمَ الْعَهْدُ وَ أَدْبَرَتِ الدُّنْيَا وَ أَدْبَرَ خَيْرُهَا وَ قَدْ مَلْهَا مَنْ کَانَ يُؤْقِنُ بِالْوَعْدِ فَنَظَرُوْا فَلَمْ يَرَوْا شَيْأ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. 28. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَّهُ کَانَ فِيْمَنْ مَضَی رِجَالٌ يَتَحَدَّثُوْنَ نَبُوَّةً فَإِنْ يَّکُنْ فِي أمَّتِيْ أَحَدٌ مِّنْهُمْ فَعُمَرُ. رَوَاهُ ابْنُ أبِيْ شَيْبَةَ. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سابقہ امتوں میں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے تھے جو نبوت کی سی باتیں کرتے تھے اور اگر میری امت میں ایسا کوئی ہے تو وہ عمر ہے۔ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 28 : أخرجه ابن أبيشبية في المصنف، 6 / 354، الحديث رقم : 31972. 29. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : کَانَتْ فِي الْأمَمِ مُحَدَّثُوْنَ لَيْسُوْا بِأنْبِيَاءٍ فَإِنْ کَانَ فِي أمَّتِيْ فَعُمَرُ، رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُ. ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدَّثون ہوا کرتے تھے جو کہ انبیاء نہیں تھے اور اگر میری امت میں سے کوئی محدَّث ہے تو وہ عمر ہے۔ اس حدیث کو دیلمی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 29 : أخرجه الديلمي في المسند الفردوس، 3 / 278، الحديث رقم : 4839
  9. فصل : 1 بيان إسمه ونسبه (صدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا نام و نسب)1. عن عروة، قال : أبو بکر الصّدّيق، إسمه عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرة. شهد بدرا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وأمّ أبي بکر رضي الله عنه، أمّ الخير سلمٰي بنت صخر بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرة بن کعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالک وأمّ أمّ الخير، دلاف وهي أميمة بنت عبيد بن النّا قد الخزاعي. وجدّة أبي بکر، أمّ أبي قحافة أمينة بنت عبد العزّٰي بن حرثان بن عوف بن عبيد بن عويج بن عديّ بن کعب. ’’حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبد اﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مُرّۃ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ جنگِ بدر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ کا نام اُمُّ الخیر سلمیٰ بنت صخر بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک ہے۔ ام الخیر سلمیٰ کی والدہ (ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نانی) کا نام دلاف ہے اور یہی امیمہ بنت عبید اﷲ بن الناقد الخزاعی ہیں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دادی (ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کی والدہ) کا نام امینہ بنت عبد العزیٰ بن حرثان بن عوف بن عبید بن عُویج بن عدی بن کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک ہے۔‘‘ 1. طبرانی، المعجم الکبير، 1 : 51، رقم : 1 2۔ ھيثمي نے ’مجمع الزوائد (9 : 40) میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ 3۔ طبری نے ’تاریخ الامم والملوک (2 : 350) ‘میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت کیا ہے۔ 2. عن الزّهريّ قال أبوبکر الصّدّيق إسمه عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرة بن کعب بن لؤيّ بن غالب بن فهر. ’’زہری سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر ہے۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 64، کتاب معرفة الصحابة، رقم : 4403 2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12870 3. وأمّا نسبه فهو عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرة بن کعب بن لؤيّ بن غالب يجتمع مع النّبي صلي الله عليه وآله وسلم في مرة بن کعب و عدد اٰبائهما الٰي مرة سوآء. ’’حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نسب عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب ہے جو کہ مرہ بن کعب پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جاتا ہے اور مرہ تک دونوں کے آباء کی تعداد برابر ہے۔‘‘ 1. عسقلاني، فتح الباري، 7 : 9 2. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 472 3. مبارک پوري، تحفة الأحوذي، 10 : 96 4. عن عائشة أمّ المؤمنين رضي اﷲ عنها قالت : اسم أبي بکر الّذي سمّاه أهله به عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو لٰکن غلب عليه اسم عتيق رضي اﷲ عنه. ’’ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام گھر والوں نے عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو رکھا لیکن آپ کی شہرت عتیق کے نام سے تھی۔‘‘ شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 70، رقم : 4 5. عن اللّيث بن سعد قال إنّما سمّي أبوبکر رضي الله عنه عتيقا لجمال وجهه وإسمه عبداﷲ بن عثمان. ’’حضرت لیث بن سعد سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام عتیق آپ رضی اللہ عنہ کی خوبروئی کی وجہ سے رکھا گیا۔ اور آپ رضی اللہ عنہ کا اصل نام عبداﷲ بن عثمان ہے۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 52، رقم : 4 2. ھيثمي نے ’ مجمع الزوائد (9 : 41) میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ 3. شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 69 4. عسقلاني، الإصابه، 4 : 170 6. عن أبي حفص عمرو بن علي أنّه کان يقول کان أبو بکر معروق الوجه وکان إسمه عبداﷲ بن عثمان. ’’حضرت ابو حفص عمرو بن علی سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا چہرہ مبارک ہلکا تھا اور آپ کا اسم مبارک عبداﷲ بن عثمان تھا۔‘‘ هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 41 7. عن عامر بن عبد اﷲ بن الزّبير عن أبيه قال کان إسم أبي بکر عبداﷲ بن عثمان. ’’حضرت عامر اپنے والدحضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نام عبداﷲ بن عثمان تھا۔‘‘ 1. ابن حبان، الصحيح، 15 : 279، رقم : 6864 2. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 532، رقم : 2171 8. عن موسٰي بن عقبة قال : لا نعلم أربعة أدرکوا النّبي صلي الله عليه وآله وسلم و أبناؤهم إلّا هؤلآء الأربعة : أبوقحافة، و أبوبکر، و عبدالرّحمٰن بن أبي بکر، و أبو عتيق بن عبدالرّحمٰن و إسم أبي عتيق محمّدث. ’’حضرت موسیٰ بن عقبہ سے روایت ہے کہ ہم ایسے چار افراد کو نہیں جانتے کہ جنہوں نے خود اور ان کے بیٹوں نے بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہو (یعنی انہیں شرف صحابیت نصیب ہوا ہو) سوائے ابوقحافہ، ابوبکر، عبدالرحمٰن بن ابی بکر اور ابو عتیق محمد بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنھم کے۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 54، رقم : 11 2. حاکم، المستدرک، 3 : 540، رقم : 6008 3. حاکم، المستدرک، 3 : 544، رقم : 6024 4. بخاري، التاريخ الکبير، 1 : 130، رقم : 392 5. شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 77، رقم : 22 6. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 51 7. سيوطي، تاريخ الخلفاء : 107 8. نووي، تهذيب الاسماء، 1 : 275، رقم : 344 فصل : 2 أوّل من أسلم من الرجال (بالغ مردوں ميں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ) 9. عن عائشة عن عمر بن الخطّاب قال کان أبو بکر أحبّنا إلٰي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و کان خيرنا و سيّدنا ذکر البيان بأنّ أبا بکر الصّدّيق رضي الله عنه أوّل من أسلم من الرّجال. ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے، اور ہم سے بہتر اور ہمارے سردار تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ فرمایا : مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت ابو بکر تھے۔‘‘ 1. ابن حبان، الصحيح، 15 : 279. 278، رقم : 6862 2. هيثمي، موار دالظمآن، 1 : 532، رقم : 2199 3. بزار، المسند، 1 : 373، رقم : 251 10. عن ابن عمر قال أوّل من أسلم أبوبکر. ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنھما سے روایت ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الاوسط، 8 : 190، رقم : 8365 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 43 3. واسطي، تاريخ واسط، 1 : 254 11. عن عمرو بن مرة عن إبراهيم قال أبو بکر أوّل من أسلم مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم. ’’عمرو بن مرہ نے ابراہیم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پرسب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ 1. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 224، رقم : 262، 263 2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 225، رقم : 265 3. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 336، رقم : 36583 4. طبري، تاريخ الامم والملوک، 1 : 540 12. عن يوسف بن يعقوب الماجشون قال سمعت أبي و ربيعة يقولان أوّل من أسلم من الرّجال أبو بکر. ’’يوسف بن یعقوب ماجشون سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد اور ربیعہ سے سنا کہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ ابن حبان، الثقات، 8 : 130، رقم : 12577 13. عن أبي أرويٰ الدّوسيّ قالوا أوّل من أسلم أبو بکر الصّدّيق. ’’ابوارویٰ دوسی سے روایت ہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ 1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 171 2. محاملی، أمالی المحاملی، 1 : 356، رقم : 396 14. عن الزّهريّ قال هو أوّل من أسلم من الرّجال الأحرار. ’’امام زہری سے روایت ہے کہ آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے آپ (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) ہیں۔ بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12872 15. عن محمّد بن کعب أنّ أوّل من أسلم من هذه الأمّة برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم خديجة و أوّل رجلين أسلما أبوبکر الصّدّيق و علي و انّ أبابکر أوّل من أظهر إسلامه. ’’محمد بن کعب سے روایت ہے کہ اس اُمت میں سے سب سے پہلے (عورتوں میں) ایمان لانے والی سیدہ خدیجۃ الکبريٰ رضی اللہ عنھا ہیں اور مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ لیکن اپنے اسلام کا اعلان سب سے پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا۔‘‘ احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 226، رقم : 268 وضاحت : آپ رضی اللہ عنہ پختہ عمر افراد میں سے تھے اور معاشرے میں سماجی اور تجارتی سرگرمیوں کے باعث معروف بھی تھے اس لیے آپ رضی اللہ عنہ کے اظہارِ اسلام کا ہر ایک پر آشکار ہونا ایک فطری امر تھا، سو اس کی شہرت ہوگئی۔ اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نو عمر معصوم بچے تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی گھر میں حضرت خدیجۃ الکبريٰ رضی اﷲ عنھا کی طرح پہلے ہی دن سے اسلام قبول کر لیا۔ اغلباً ممکن ہے کہ زمانی اوليّت کے اعتبار سے حضرت خدیجۃ الکبريٰ رضی اللہ عنھا اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہی سب پر مقدم ہوں مگر اعلانی اوليّت میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مقدم ہوں۔ اس کی تائید درج ذیل اقوال (16 ۔ 18) سے ہوتی ہے : 16. عن محمّد بن کعب قال أوّل من أسلم أبوبکر و عليّ رضي اﷲ عنهما فأبوبکر رضي الله عنه أوّلهما أظهر إسلامه و کان عليّ رضي الله عنه يکتم إيمانه فرقا من أبيه فاطّلع عليه أبو طالب وهو مع النّبي صلي الله عليه وآله وسلم فقال أسلمت قال نعم قال آزر إبن عمّک يا بنيّ و انصره قال و کان عليّ رضي الله عنه أوّلهما إسلاما. ’’محمد بن کعب سے روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابو بکر اور حضرت علی رضی اللہ عنھما اسلام لائے، ان دونوں میں سے اپنے اسلام کا اعلان پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ (کم سنی کے باعث) اپنے باپ کے ڈر سے اپنے اسلام کو چھپاتے تھے، حضرت ابو طالب کو آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام کی خبر ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، حضرت ابو طالب نے پوچھا کیا تم نے اسلام قبول کر لیا ہے؟جواب دیا ہاں! انہوں نے کہا : اے میرے بیٹے ! اپنے چچا زاد کی خوب مدد کرو۔ راوی فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان دونوں میں سے پہلے اسلام لانے والے ہیں۔‘‘ فاکهی، اخبار مکة، 3 : 219 17. قال أبوحاتم فکان أوّل من آمن برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم زوجته خديجة بنت خويلد ثمّ آمن عليّ بن أبي طالب وصدّقه بما جاء به وهو بن عشر سنين ثمّ أسلم أبوبکر الصّدّيق فکان عليّ بن أبي طالب يخفي إسلامه من أبي طالب وأبوبکر لمّا أسلم أظهر إسلامه فلذٰلک اشتبه علي النّاس أوّل من أسلم منهما. ’’ابو حاتم نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اﷲ عنھا ہیں اس کے بعد حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ایمان لائے اور جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے اس کی تصدیق کی اور اس وقت وہ دس سال کے بچے تھے، پھر حضرت ابو بکر صدیق ایمان لائے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ابو طالب سے اپنا اسلام چھپاتے تھے، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو اس کا اعلان بھی کر دیا پس اسی لیے لوگوں پر مشتبہ ہوگیا کہ ان دونوں میں سے پہلے کس نے اسلام قبول کیا؟۔‘‘ ابن حبان، الثقات، 1 : 52 18. قال الشّوکانيّ وقد صحّ أنّ من مبعث النّبي صلي الله عليه وآله وسلم إلٰي وفاته نحو ثلاث وّ عشرين سنة وأنّ عليّا رضي الله عنه عاش بعده نحو ثلاثين سنة فيکون قد عمر بعد إسلامه فوق الخمسين وقد مات ولم يبلغ السّتّين فعلم أنّه أسلم صغيرا. ’’شوکانی نے کہا، یہ بات صحیح ہے کہ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال تک کل تئیس سال کا عرصہ بنتا ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد تیس سال تک حیات رہے اور آپ رضی اللہ عنہ کی عمر اسلام قبول کرنے کے بعد پچاس سال سے زائد بنتی ہے اور جب آپ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر ساٹھ سال سے کم تھی پس معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے بچپن میں ہی اسلام قبول کیا۔‘‘ شوکاني، نيل الاوطار، 8 : 17 19. عن أبي أمامة الباهليّ قال : أخبرني عمروبن عبسة رضي الله عنه قال : أتيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهو نازل بعکاظ قلت : يا رسول اﷲ من اتّبعک علٰي هذا الأمر؟ قال : ’’إتّبعني عليه رجلان حرّ وّ عبد أبو بکروّبلال‘‘ قال : فأسلمت عند ذٰلک. ’’حضرت ابوامامۃ باہلی سے روایت ہے کہ مجھے عمرو بن عبسہ نے خبر دی کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عکاظ کے مقام پر تشریف فرما تھے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اِس دین پر آپ کی (اولین) اتباع کس نے کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِس پر میری اتباع دو مردوں نے کی ہے ایک آزاد اور ایک غلام، وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا۔ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 69، کتاب معرفة الصحابة، رقم : 4419 2. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 540 20. عن عمرو بن عبسة قال : أتيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في أوّل ما بعث وهو بمکّة وهو حينئذ مستخف. . . قلت نعم ما أرسلک به فمن تبعک علٰي هذا؟ قال : ’’عبد و حرّ يعني أبابکر و بلا لا.‘‘ ’’حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں آپ کی بعثتِ مبارکہ کے ابتدائی ایام میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ میں تھے اور اُس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خفیہ طور پر تبلیغِ دین فرماتے تھے۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات سن کر عرض کیا، یہ دین کتنا ہی اچھا ہے جو اﷲ نے آپ کو دے کر بھیجا ہے (پھر عرض کیا) اِس دین پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کس نے کی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ایک غلام اور ایک آزاد شخص نے وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 68، 69، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4418 2. حاکم، المستدرک، 1 : 269، رقم : 583 3. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 111 4. ابن خزيمه، الصحيح، 1 : 129، رقم : 260 5. طبراني، مسند الشاميين، 2 : 315، رقم : 1410 6. بيهقي، السنن الصغريٰ، 1 : 534، رقم : 959 21. عن همّام قال : سمعت عمّارا يقول : رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و ما معه إلّا خمسة أعبد وّ امرأتان، و أبوبکر. ’’حضرت ھمام بن حارث رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنھما کو فرماتے ہوئے سنا : میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دور میں دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ پانچ غلاموں، دو عورتوں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی نہ تھا۔ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1338، کتاب المناقب، رقم : 3460 2. بخاري، الصحيح، 3 : 1400، کتاب. . . رقم : 3644 3. حاکم، المستدرک، 3 : 444، رقم : 5682 4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 208، رقم : 232 5. بزار، المسند، 4 : 244، رقم : 1411 6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12883 7. خثيمه، من حديث خثيمه، 1 : 131 8. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 1 : 428 9. مزي، تهذيب الکمال، 21 : 220 10. عسقلاني، الاصابه، 4 : 575، رقم : 5708 11. محب طبري، الرياض النضره، 1 : 420 خمسة اعبد هم بلال و زيد بن حارثة و عامر بن فهيرة و ابو فکيهة و ياسر والد عمار والمرأتان خديجة و سمية والدة عمار. ’’پانچ غلام حضرت بلال، حضرت زید بن حارثہ، حضرت عامر بن فہیرۃ، حضرت ابو فکیہۃ اور حضرت عمار کے والد حضرت یاسر رضی اللہ عنھم ہیں اور دو عورتیں حضرت خدیجۃ اور حضرت عمار کی والدہ حضرت سمیۃ رضی اﷲ عنھما ہیں۔‘‘ سهارنپوري، حاشيه صحيح البخاري، 1 : 516، رقم : 10 22. عن الشّعبيّ قال سألت إبن عبّا س أو سئل : من أوّل من أسلم؟ فقال : أما سمعت قول حسّان رضی الله عنه : إذا تذکّرت شجوا من أخي ثقة فاذکر أخاک أبابکر بما فعلا خير البريّة أتقاها وأعدلها بعد النّبيّ وأوفاها بما حملا ألثّاني ألتّالي المحمود مشهده و أوّل النّاس منهم صدّق الرّسلا ’’امام شعبی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا یا آپ سے سوال کیا گیا کہ اسلام قبول کرنے کے اعتبار سے پہلا شخص کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا، تم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ارشاد نہیں سنا! ’’جب تم کسی قابل اعتماد بھائی کا تپاک سے ذکر کرو تو ضرور ابو بکر کے کارناموں کی وجہ سے انہیں یاد کرو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد وہ تمام مخلوق سے بہتر، اللہ سے زیادہ ڈرنے والے، عدل کرنے والے اور اپنے فرائض کو کماحقہ سر انجام دینے والے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ (دو ہجرت کرنے والوں میں سے) دوسرے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیرو ہیں، محفل میں ان کی موجودگی پسندکی جاتی ہے، وہ لوگوں میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب رسولوں کی تصدیق کی۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، ، 3 : 67، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4414 2. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 14، رقم : 33885 3. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 336، رقم : 36584 4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 133، رقم : 103 5. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 142، رقم : 119 6. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 89، رقم : 12562 7. شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 84، رقم : 44 8. بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12875 9. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 43 10. ابن جوزي، صفة الصفوه، 1 : 238 11. ابن عبدالبر، الإستيعاب، 3 : 964، رقم : 1633 12. محب طبري، الرياض النضره، 1 : 416 23. عن عبداﷲ بن الحصين التّميميّ أنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال مادعوت أحدا إلٰي الإسلام إلاّ کانت عنده کبوة و تردّد و نظر إلا أبابکر ما عکم عنه حين ذکرته ولا تردّد فيه. ’’عبداللہ بن حصین تمیمی سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے جس کسی کو اسلام کی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ تردد، ہچکچاہٹ اور تامل کا اظہار ضرور کیا سوائے ابوبکر کے کہ اس نے بغیر کسی تردد و تامل کے فوراً میری دعوت قبول کر لی۔‘‘ 1. ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 27 2. ابن هشام، السيرة النبوية، 2 : 91 3. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 444 4. حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 442 5. ابن عساکر، تاريخ دمشق، 30 : 44 6. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 415 24. ما کلّمت أحدا في الإسلام إلّا ابٰي عليّ و راجعني في الکلام إلّا ابن اٰبي قحافة فانّي لم أکلّمه في شيء إلاّ قبله و استقام عليه. ’’میں نے اسلام کے بارے میں جس سے بھی گفتگو کی اس نے انکار کیا اور مجھ سے تکرار کی سوائے ابو قحافہ کے بیٹے ابو بکر کے، کیونکہ میں نے اس سے جو بات بھی کہی اس نے قبول کر لی اور اس پر مضبوطی سے قائم رہا۔‘‘ حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 442 فصل : 3 من سرّه أن ينظرعتيقا من النار فلينظرإلي أبي بکر رضي الله عنه (جسے آگ سے محفوظ شخص دیکھنا ہو وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے) 25. عن عائشة : أنّ أبا بکر دخل علٰي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقال : ’’انت عتيق اﷲ من النّار،‘‘ فيومئذ سمّي عتيقا. ’’اُمُّ المؤمنین عائشہ صدِّیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’تم اﷲ رب العزت کی طرف سے آگ سے آزاد ہو۔‘‘ پس اُس دن سے آپ رضی اللہ عنہ کا نام ’’عتیق‘‘ رکھ دیا گیا۔ 1. ترمذي، الجامع الصحيح 5 : 616، ابواب المناقب، رقم : 3679 2. ابن حبان نے ’الصحيح (5 : 279، رقم : 6864) ‘ميں عبد اﷲ بن زبير رضي اﷲ عنھما سے روايت کيا ھے۔ 3. حاکم، المستدرک، 2 : 450، رقم : 3557 4. حاکم، المستدرک، 3 : 424، رقم : 5611 5. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 53، رقم : 9 6۔ بزار نے ’المسند (6 : 170، رقم : 2213)‘ ميں حضرت عبداﷲ بن زبير رضي اﷲ عنھما سے روايت کيا ھے۔ 7۔ مقدسي نے ’الاحاديث المختارہ (9 : 307، رقم : 265)‘ میں حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنھما سے روایت کیا ھے۔ 8۔ ھيثمي نے ’مجمع الزوائد (9 : 40)‘ میں حضرت عبداﷲ بن زبیر سے روایت کیا ھے۔ 9. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 170 10. ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 235 11. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 2 : 350 12. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 403 13. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 15 : 276، رقم : 537 26. عن عائشة امّ المؤمنين رضي اﷲ عنها قالت : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ’’من سرّه أن يّنظر إلٰي عتيق من النّار فلينظر إلٰي أبي بکر‘‘ وأنّ إسمه الّذي سمّاه أهله لعبد اﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو حيث ولد فغلب عليه اسم عتيق. ’’امّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جسے آگ سے آزاد (محفوظ) شخص دیکھنا پسند ہو وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے۔‘‘ اور آپ رضی اللہ عنہ کا لقب ولادت کے وقت آپ کے گھر والوں نے عبد اﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو رکھا تھا، پھر اِس پر عتیق کا لقب غالب آگیا۔ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 64، کتاب معرفة الصحابه، رقم، 4404 2. ابو يعلي، المسند، 8 : 302، رقم : 4899 3. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 54، رقم : 10 4. طبراني، المعجم الأوسط، 9 : 149، رقم : 9384 5. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 41 6. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 3 : 540، رقم : 5685 7. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 170 8. ابن عبدالبر، الإستيعاب، 3 : 963، 964 9. عسقلاني، الإصابه، 4 : 170 10. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 402 فصل : 4 أنزل سبحانه وتعالیٰ له إسم صديق من السمآء (آپ رضی اللہ عنہ کا لقب صدّیق آسمان سے نازل فرمایاگیا) 27. عن أبي يحيٰی سمع عليّا يحلف : لأنزل اﷲ إسم أبي بکر رضي الله عنه من السّمآء صدّيقا. ’’حضرت ابو یحیٰی سے روایت ہے انہوں نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو قسم اُٹھا کر کہتے ہوئے سُنا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا لقب ’’صدیق‘‘ اﷲ تعالیٰ نے آسمان سے نازل فرمایا. 1. حاکم، المستدرک، 3 : 65، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4405 28. عن أبي يحيٰي حکيم ابن سعد قال سمعت عليّا رضي الله عنه يحلف : للّٰه أنزل اسم أبي بکر من السّماء ’’الصّدّيق‘‘. ’’حضرت ابو یحییٰ حکیم بن سعد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کواللہ کی قسم اُٹھا کر کہتے ہوئے سُنا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا لقب’’الصدیق‘‘ آسمان سے اُتارا گیا۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 1، 55 رقم : 14 2. ھيثمي نے’ مجمع الزوائد ( 9، 41)‘ میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں 3. بخاري، التاريخ الکبير، 1 : 99، رقم : 277 4. شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 70، رقم : 6 5. عسقلاني، فتح الباري، 7 : 9 6. زرقاني، شرح الزرقاني علي مؤطا، 1 : 90 7. ابن جوزي، صفة الصفوه 1 : 236 8. مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 10 : 96 9. محب طبري، الرياض النضره، 1 : 407 29. عن النّزال بن سبرة قال. . . فقلنا حدّثنا عن أبي بکر فقال : ’’ذاک إمرء سمّاه اﷲ صدّيقا علٰي لسان جبريل و محمّد صلي اﷲ عليهما.‘‘ ’’حضرت نزال بن سبرہ سے روایت ہے کہ ہم نے (حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ) سے عرض کی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ بیان فرمائیں تو انہوں (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : ابو بکر رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں جن کا لقب اﷲ رب العزت نے حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے ’’الصِدِّیق‘‘ رکھا۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 65، رقم : 4406 2. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 479 3. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 406 4. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 161 30. عن قتادة : أنّ أنس بن مالک رضي الله عنه حدّثهم : أنّ النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم صعد أحدا، وأبوبکر وعمر وعثمان، فرجف بهم، فقال : ’’اثبت أحد، فانّما عليک نبيّ و صدّيق، وشهيدان‘‘. ’’حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے انہیں حديث بیان کی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جبل احد پر تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی تھے، اچانک پہاڑ اُن کے باعث (جوش مسرت سے) جھومنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے اُحد! ٹھہر جا، تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1344، کتاب المناقب، رقم : 3472 2. بخاري، الصحيح، 3 : 1348، رقم : 3483 3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 624، رقم : 3697 4. ابوداؤد، السنن، 4 : 212، رقم : 4651 5. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 43، رقم : 8135 6. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 112، رقم : 12127 7. ابن حبان، الصحيح، 15 : 280، رقم : 6865 8. ابن حبان، الصحيح، 15 : 336، رقم : 6908 9. ابويعليٰ، المسند، 5 : 338، رقم : 2964 10. ابويعليٰ، المسند، 5 : 454، رقم : 3171 11. ابويعليٰ، المسند، 5 : 466، رقم : 3196 12. ابونعيم، حلية الاولياء، 5 : 25 13. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 217، رقم : 246 14. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 12 15. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 276 فصل : 5 قال أبو بکر رضي الله عنه : أصدقه صلي الله عليه وآله وسلم فيما أبعد من ذٰلک (میں تو معراج سے بھی عجیب تر خبروں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کرتا ہوں) 31. عن عائشة رضي اﷲ عنها قالت : لمّا اسري بالنّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم إلي المسجد الأ قصٰي أصبح يتحدّث النّاس بذالک فارتدّ ناس ممّن کان اٰمنوا به وصدّقوه وسعوا بذالک إلٰي أبي بکر رضي الله عنه فقالوا : هل لک إلٰي صاحبک يزعم أنّه أسري به اللّيلة إلٰي بيت المقدس؟ قال : أو قال ذٰلک؟ قالوا : نعم، قال : ’’لئن کان قال ذٰلک لقد صدق.‘‘ قالوا : أو تصدّق أنّه ذهب اللّيلة إلٰي بيت المقدس وجاء قبل أن يّصبح؟ قال : نعم، ’’إنّي لأصدّقه فيما هو أبعد من ذٰلک أصدّقه بخبر السّمآء في غدوة أو روحة‘‘ فلذٰلک سمّي أبو بکر’’الصّدّيق‘‘. ’’امّ المؤمنین عائشہ صدِّیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے آپ رضی اﷲ عنہانے فرمایا : جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد اقصیٰ کی طرف سیر کرائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح لوگوں کو اس کے بارے بیان فرمایا توکچھ ایسے لوگ بھی اس کے منکر ہو گئے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کر چکے تھے۔ وہ دوڑتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے : کیا آپ اپنے صاحب کی تصدیق کرتے ہیں جو یہ گمان کرتے ہیں کہ انہیں آج رات بیت المقدس تک سیر کرائی گئی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے؟ انہوں نے کہا، ہاں ! تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے تو یقیناً سچ فرمایا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، کیا آپ اُنکی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ آج رات بیت المقدس تک گئے بھی ہیں اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ہاں! میں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق اُس خبر کے بارے میں بھی کرتا ہوں جو اس سے بہت زیادہ بعید از قیاس ہے، میں تو صبح و شام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آسمانی خبروں کی بھی تصدیق کرتا ہوں۔‘‘ پس اس تصدیق کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ’’الصدیق‘‘ کے نام سے موسوم ہوئے۔‘‘ 1۔ حاکم نے ’المستدرک ( 3، 65 رقم : 4407)‘ ميں کہا ہے کہ يہ حديث صحيح الاسناد ہے۔ 2. عبدالرزاق، المصنف، 5 : 328 3. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 1 : 283 4. طبري، جامع البيان، 15 : 6 5. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 12 6. مقدسي، فضائل بيت المقدس، 1 : 83، رقم : 53 32. عن أبي هريرة قال قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لجبريل ليلة أسري به إنّ قومي لا يصدّقونني فقال له جبريل يصدّقک أبوبکر وهو الصّدّيق. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرئیل امین سے ارشاد فرمایا : اے جبرئیل! میری قوم (واقعہ معراج میں) میری تصدیق نہیں کرے گی۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کی تصدیق کریں گے اور وہ صدیق ہیں۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 166، رقم : 7173 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 41 3. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 140، رقم : 116 4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 367، رقم : 540 5. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 215 6. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 170 7. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 405 33. عن أمّ هاني قالت دخل عليّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بغلس و أنا علٰي فراشي فقال شعرت إنّي نمت اللّيلة في المسجد الحرام. . . و أبوبکر رضي الله عنه عنده يقول صدقت صدقت قالت نبعة، فسمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يومئذ : يا أبا بکر! إنّ اﷲل قد سمّاک الصّدّيق. حضرت اُم ہانی رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح سویرے میرے گھر تشریف لائے جب کہ ابھی اندھیرا چھایا ہوا تھا اور میں اپنے بستر پر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آج رات میں مسجد حرام میں سو رہا تھا (پھر آگے پورا واقعہ معراج بیان فرمایا) اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہنے لگے آپ نے سچ فرمایا! آپ نے سچ فرمایا! حضرت نبعہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دن ارشاد فرماتے ہوئے سنا : ’’اے ابوبکر! بے شک اﷲ رب العزت نے تیرا نام ’’صدیق‘‘ رکھا ہے۔‘‘ 1. ابو يعلي، المعجم، 10 : 45، رقم : 9 2. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 5 : 307، رقم : 8271 3. عسقلاني، الاصابه، 8 : 137، رقم : 11800 4. مقدسي، فضائل بيت المقدس : 82، رقم : 52 فصل : 6 قال الصحابة رضي الله عنهم إنه أفضل الناس من الأمّة (قول صحابہ رضی اللہ عنھم : آپ رضی اللہ عنہ امت میں سب سے افضل ہیں)34. قال سالم بن عبداﷲ أنّ ابن عمر قال : کنّا نقول و رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حيّ، ’’أفضل أمّة النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم بعده أبوبکر، ثمّ عمر، ثمّ عثمان رضي اﷲ عنهم أجمعين. ’’حضرت سالم بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (ظاہری) حیات طیبہ میں کہا کرتے تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت میں سب سے افضل ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور پھر (ان کے بعد) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ 1. ابو داؤد، السنن، 4 : 211، کتاب السنة، رقم : 4628 2. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 540، رقم : 1140 3. مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 10 : 138 35. عن ابن عمر رضي اﷲ عنهما قال : ’’کنّا نخيّر بين النّاس في زمن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم، فنخيّر أبابکر، ثمّ عمر ابن الخطّاب، ثمّ عثمان بن عفّان رضي اﷲ عنهم‘‘. حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک زمانہ میں جب ہم صحابہ کرام کے درمیان کسی کو ترجیح دیتے تو سب پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ترجیح دیا کرتے، پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو، پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو۔ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1337، کتاب المناقب، رقم : 3455! 3494 2. ابن جوزي، صفة الصفوه، 1 : 306 3. مبارکپوري، تحفة الاحوذي، 10 : 138 4. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 297 36. عن محمّد ابن الحنفيّة قال : قلت لأ بي : أيّ النّاس خير بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قال : أبوبکر، قلت : ثمّ من؟ قال : ثمّ عمر و خشيت أن يّقول عثمان، قلت : ثمّ أنت؟ قال : ما أنا إلّا رجل مّن المسلمين. ’’حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : میں نے اپنے والد (حضرت علی رضی اللہ عنہ) سے دریافت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر کون ہے؟ انہوں نے فرمایا : ابوبکر رضی اللہ عنہ پھر میں نے کہا : ان کے بعد؟ انہوں نے فرمایا : عمر رضی اللہ عنہ۔ تو میں نے اس خوف سے کہ اب وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نام لیں گے خود ہی کہہ دیا کہ پھر آپ ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’نہیں میں تو مسلمانوں میں سے ایک عام مسلمان ہوں۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1342، کتاب المناقب، رقم : 3468 2. ابو داؤد السنن 4 : 206کتاب السنة، رقم : 4629 3. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 247، رقم : 810 4. ابن أبي عاصم، السنة، 2 : 480، رقم : 993 5. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 321، رقم : 445 6. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 371، رقم : 553 7. ابن الجوزي، صفة الصفوة، 1 : 250 8. عبدالله بن احمد، السنه، 2 : 569، رقم : 1332 9. عبدالله بن احمد، السنه، 2 : 578، رقم : 1363 10. محب طبري، الرياض النضره، 1 : 321 11. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 477 12. بيهقي، الاعتقاد، 1 : 367 نوٹ : یہ بیان آپ رضی اللہ عنہ کے کمال درجہ عجز و انکسار اور دوسروں کے لیے محبت و احترام کا آئینہ دار ہے۔ یہی کردار حقیقی عظمت کی دلیل ہے۔ 37. عن عبداﷲ بن سلمة قال : سمعت عليّا يقول : ’’خير النّاس بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أبوبکر وخير النّاس بعد أبي بکر، عمر‘‘. ’’عبد اﷲ بن سلمۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا : کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے رسُول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعدسب سے افضل عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ 1. ابن ماجه، السنن، 1 : 39، مقدمه، رقم : 106 2. احمد بن حنبل نے ’ (فضائل الصحابہ، 1 : 365، رقم : 536)‘ ميں ابو حجيفہ سے روايت کيا ہے۔ 3. ابونعيم، حلية الاولياء، 7 : 199، 200 4. ابو نعيم نے ’ (حليۃ الاولياء، 8 : 359)‘ ميں ابو حجيفہ سے روايت کيا ہے۔ 5. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 5 : 213، رقم : 3686 6. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 8 : 376، رقم؛ 4476 7. عبداللہ بن محمد نے، (طبقات المحدثين باصبہان، 2 : 287، رقم : 176)‘ ميں وہب السوائي سے روايت کيا ہے۔ 8. مزي، تهذيب الکمال، 21 : 325 9. عسقلاني، الاستيعاب، 3 : 1149 38. عن نّافع عن ابن عمر قال : ’’کنّا نقول في زمن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم لا نعدل بأبي بکر أحدا ثمّ عمر ثمّ عثمان ثمّ نترک أصحاب النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم لا نفاضل بينهم.‘‘ حضرت نافع، حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : ’’ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو شمار نہیں کرتے تھے۔ پھر اُن کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو، پھر ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اُن کے بعد ہم باقی اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے تھے۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1352، رقم : 3494 2. ابو داؤد، السنن، 4 : 206، کتاب السنة، رقم : 4627 3. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 567، رقم : 1192 4. عسقلاني، فتح الباري، 7 : 16، رقم : 3455 5 مبارکپوري، تحفةاالأحوذي، 10 : 138 6. نووي، تهذيب الأسماء، 1 : 299 7. سيوطي، تدريب الراوي، 2 : 223 39. عن بن عمر قال : کنّا نعدّ ورسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حيّ وأصحابه متوافرون ’’أبوبکر وعمر و عثمان‘‘ ثمّ نسکت. ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات طیبہ میں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کافی تعداد میں تھے ہم اس طرح شمار کیا کرتے تھے۔ ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ‘‘ اور پھر خاموش ہو جاتے تھے۔‘‘ 1. احمدبن حنبل، المسند، 2 : 14، رقم : 4626 2. ابن أبي شيبه، المصنف، 6 : 349، رقم : 31936 3. ابويعلي، المسند، 10 : 161، رقم : 5784 4. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 345، رقم : 13301 5. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 568، رقم : 1195 6. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 90، رقم : 58 7. عبدالله بن احمد، السنه، 2 : 574، رقم، 1350 8. خلال، السنه، 2 : 371، رقم : 507، 384، رقم : 541، 396، رقم : 572 9. لالکائي، اعتقاد اهل السنه، 1 : 159 40. عن جابر بن عبداﷲ رضي الله عنه قال : قال عمر بن الخطّاب ذات يوم لأبي بکر الصديق رضي الله عنه ’’ يا خير النّاس بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم‘‘ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا : ’’اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 618، رقم : 3684 2. حاکم، المستدرک، 3 : 96، رقم : 4508 3. تهذيب الکمال، 18 : 29، رقم : 3402 41. عن أسد بن زرارة قال رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم خطب النّاس فالتفت التفافتة فلم ير أبا بکر فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أبوبکر. أبوبکر! إنّ روح القدس جبريل عليه السّلام أخبرني اٰنفا إنّ خير أمّتک بعدک أبوبکر الصّدّيق. ’’حضرت اسد بن زرارۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توجہ فرمائی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نہ دیکھا (پایا)۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر ابوبکر پکارا کہ روح القدس جبرئیل علیہ السلام نے مجھے خبر دی ہے ’’کہ آپ کی امت میں سب سے بہتر آپ کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 292، رقم : 6448 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 44 42. عن أبي الدّرداء قال : راٰني النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم و أنا أمشي أمام أبي بکر فقال : لم تمشي أمام من هو خير مّنک؟ إنّ أبابکر خير من طلعت عليه الشّمس أو غربت. ’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دیکھا کہ میںحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آگے آگے چل رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا : تم اُس ہستی کے آگے کیوں چل رہے ہو جو تم سے بہت بہتر ہے؟. بے شک ابوبکر رضی اللہ عنہ ہر اُس شخص سے بہتر ہیں جس پر سورج طلوع یا غروب ہوتا ہے۔‘‘ 1. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 154، رقم : 137 2. ابن أبي عاصم، السنه، 2 : 576، رقم : 1224 3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 44 4. خيثمه، من حديث خيثمه، 1 : 133 5. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 5 : 351 6. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 105 43. عن أبي جحيفة قال قال عليّ رضي الله عنه خير هذه الامّة بعدنبيّها أبوبکر و عمر. ’’ابو جحيفہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس امت میں سے بہتر ابو بکر اور عمر رضی اﷲ عنھما ہیں۔ 1. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 351، رقم : 31950 2. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 298، رقم : 992 3. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 85، رقم : 6926 4. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 110، رقم : 880 5. ابن الجعد، المسند، 1 : 311، رقم : 2109 6. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 570، رقم : 1201 7. بزار نے ’ (المسند، 2 : 130، رقم : 488)، ميں عمرو بن حريث سے روايت کيا ہے۔ وضاحت : یہاں سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور دوسرے مقام پر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان پڑھ کر ان میں باہمی تضاد یا تناقض تصور نہیں کرنا چاہیے۔ دونوں کی فضیلتوں کی حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور جملہ اہلِ بیت اطہار کی فضیلت ان کے ذاتی مناقب، روحانی کمالات، نسبتِ قرابت اور شانِ ولایت میں ہے۔ جتنی قرآنی آیات اور احادیث اہلِ بیت اطہار کی شان میں وارد ہوئی ہیں کسی اور کی شان میں شخصی طور پر نہیں ہوئیں. جبکہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت، فرائضِ خلافت، اقامتِ دین، اسلام اور امت کی ذمہ داریوں سے متعلق ہے۔ ائمہ نے افضلیت کی جو ترتیب بیان کی ہے وہ خلافت ظاہری کی ترتیب پر قائم ہے۔ ولایت باطنی جو ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘ (٭) کے ذریعے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عطا ہوئی اس میں وہی یکتا ہیں۔ اسی وجہ سے ولایت کبریٰ اور غوثیت عظمیٰ کے حامل افراد بھی آپ رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ دونوں جدا جدا نوعیت کی فضیلتیں ہیں۔ (٭) 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 79، ابواب المناقب، رقم : 3713 2. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 347 3. حاکم، المستدرک، 3 : 533، رقم : 6272 4. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 59، 12121 اس میں کوئی شک نہیں کہ فضائلِ ولایت، روحانی کمالات اور نسبتِ قرابت میں اہلِ بیت اطہار کے برابر کوئی نہیں ہوسکتا. کیونکہ ان میں کئی ایسے خصائص ہیں جو صرف ان ہی کو حاصل ہیں کسی اور کو نہیں، ان میں موازنہ اور مقابلہ بھی جائز نہیں۔ کسی کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شانہ بشانہ چلا رہے ہیں اور کسی کو چلتے ہوئے شانوں پر بٹھا رہے ہیں۔ کسی کو مجلس میں اپنے قریب ترین بٹھا رہے ہیں اور کسی کو گود میں کھیلا رہے ہیں۔ کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دست بوسی اور قدم بوسی کی سعادت سے فیض یاب ہو رہے ہیں اور کچھ وہ ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ان کو بوسۂ محبت سے نواز رہے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہم کلام ہوتے ہوئے اپنے ماں باپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان کر رہے ہیں اور کچھ وہ بھی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے ہمکلام ہوتے ہوئے اپنے ماں باپ ان پر قربان کر رہے ہیں جیسا کہ فاطمۃ الزہراء سلام اﷲ علیہا اور حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فداک أبي و اُمي. ’’فاطمہ! میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 170، رقم : 4740 2. ابن حبان، الصحيح، 2 : 470، 471، رقم : 696 بأبي هما و أمي. ’’میرے ماں باپ حسنین پر قربان ہوں۔‘‘ ثابت ہوا کہ یہ دو ایسی جدا جدا فضیلتیں ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وفادار اور ادب شعار اُمتی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور اہلِ بیت عظام علیھم الصلوۃ والسلام میں کبھی بھی مقابلہ اور موازنہ کا تصور نہیں کرسکتے۔ 1. ابن حبان، الصحيح، 5 : 426، رقم : 2970 2. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 378، رقم : 3214 3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 47، رقم : 2644 4. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 552، رقم : 2233 فصل : 7لو کان للنبي صلي الله عليه وآله وسلم خليلا لکان ابو بکر رضي الله عنه (اگر کوئی خلیل مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ہوتے) 44. عن ابن عبّاس رضي اﷲ عنهما عن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم قال : ’’لوکنت متّخذا من أمّتي خليلا، لا تّخذت أبابکر، ولٰکن أخي وصاحبي‘‘. ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اگرمیں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور میرے ساتھی ہیں۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1338، کتاب المناقب، رقم : 3456 2. مسلم، الصحيح، 4 : 1855، رقم : 2383 3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 437، رقم : 4161 4. بزار، المسند، 5 : 4، رقم : 2072 45. عن عبداﷲ بن أبي مليکة قال : کتب اهل الکوفة إلي ابن الزّبير في الجدّ فقال أمّا الّذي قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’لو کنت متّخذا من هذه الأمّة خليلا لاتّخذ ته‘‘أنزله أبا يعني أبابکر. حضرت عبد اﷲ بن ابو ملیکہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ نے فرمایا : اہل کوفہ نے حضرت عبد اﷲ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ دادا کی میراث کا حکم بتائیے۔ انہوں نے استدلالا جواب دیا کہ جس ہستی کے بارے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے ’’ اگر میں اس امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو اسے (یعنی ابو بکر رضی اللہ عنہ کو) اپنا خلیل بناتا‘‘ اُس ہستی (ابو بکر رضی اللہ عنہ) نے دادا کو باپ کے درجے میں رکھا ہے۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1338، کتاب المناقب، رقم : 3458 2۔ بخاری نے ’الصحيح (6 : 2478، رقم : 6357) ‘ میں حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت کیا ہے۔ 3۔ احمد بن حنبل نے ’المسند (1 : 359، رقم : 3385) ‘ میں حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت کیا ہے۔ 4. احمد بن حنبل، المسند 4 : 4 5۔ ابن ابی شيبہ نے ’المصنف (6 : 348، رقم : 31924) ‘ میں حضرت عبداﷲ ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ 6. ابو يعلي، المسند، 12 : 178، رقم : 6805 7. زرقاني، شرح الزرقاني علي المؤطا، 3 : 143 46. عن أبي الاحوص قال : سمعت عبداﷲ بن مسعود يحدّث عن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم ؛ أنّه قال : ’’لوکنت متّخذا خليلا لاتّخذت أبابکرخليلا ولٰکنّه أخي وصاحبي وقد اتّخذ اﷲ، عزّوجلّ، صاحبکم خليلا‘‘. ’’حضرت ابو احوص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : میں نے عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد بیان کرتے ہوئے سنا : ’’اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور میرے صحابی ہیں اور تمہارے صاحب (یعنی مجھ) کو اﷲ نے خلیل بنایا ہے۔‘‘ 1. مسلم، الصحيح، 4 : 1855، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 2383 2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 272، رقم : 6856 3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 462، رقم : 4413 4. ابو يعلي، المسند، 9 : 161، رقم : 5249 5. طبراني فصل : 10 إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم اتخذه رضي الله عنه نائبا (صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ. . . نائبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) 56. عن الزّهريّ قال أخبرني أنس بن مالک الأنصاريّ أنّ أبابکر کان يصلّي لهم في وجع النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم الّذي توفّي فيه حتّٰي إذا کان يوم الإثنين وهم صفوف في الصّلٰوة فکشف النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم ستر الحجرة ينظر إلينا وهو قائم کأنّ وجهه ورقة مصحف ثمّ تبسّم يضحک فهممنا أن نفتتن من الفرح برؤية النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم فنک رضي الله عنه أبوبکر علٰي عقبيه ليصل الصّفّ وظنّ أنّ النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم خارج الي الصّلٰوة فأشار إلينا النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم أن أتمّوا صلا تکم وأرخٰي السّتر فتوفّي من يومه صلي الله عليه وآله وسلم. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرضِ وصال کے دوران انہیں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو) نماز پڑھایا کرتے تھے، یہاں تک کہ پیر کا دن آ گیا اورصحابہ کرام رضی اللہ عنھم نمازکی حالت میں صفیں باندھے کھڑے تھے۔ (اِس دوران) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اپنے) حجرہء مبارک سے پردہ اٹھایا اور کھڑے ہو کر ہمیں دیکھنے لگے۔ ایسے لگ رہا تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہِ انور کھلے ہوئے قرآن کی طرح ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبسم فرماتے ہوئے ہنسنے لگے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی خوشی سے ہم نے نماز توڑنے کا ارادہ کر لیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیوں کے بَل پیچھے لوٹے تاکہ صف میں شامل ہو جائیں اور گمان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لئے (گھر سے) باہر تشریف لانے والے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اشارہ فرمایا کہ تم لوگ اپنی نماز کو مکمل کرو اور پردہ نیچے سرکا دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسی دن وصال ہو گیا۔ 1. بخاري، الصحيح، 1 : 240، کتاب الاٰذان، رقم : 648 2. بخاري، الصحيح، 1 : 403، رقم : 1147 3. بخاري، الصحيح، 4 : 1616، رقم : 4183 4. مسلم، الصحيح، 1 : 315، رقم : 419 5. احمد، المسند، 3 : 196، رقم : 13051 6. ابن حبان، الصحيح، 14 : 587، 6620 7. ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 75، 1650 8. عبد الرزاق، المصنف، 5 : 433 9. بيهقي، السنن الکبريٰ، 3 : 75، رقم : 4825 57. عن عائشة امّ المؤمنين أنّها قالت : إنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال في مرضه ’’مروا أبابکر يصلّي بالنّاس‘‘ قالت عائشة : قلت إنّ أبابکر إذا قام في مقامک لم يسمع النّاس من البکاء فمر عمر فليصلّ للنّاس فقالت عائشة فقلت لحفصة قولي له إنّ أبابکر إذا قام في مقامک لم يسمع النّاس من البکاء فمر عمرفليصلّ فقالت عائشة قلت لحفصة قولي له ’’إنّ أبابکر إذا قام في مقامک لم يسمع النّاس من البکاء فمر عمر فليصلّ للنّاس‘‘ ففعلت حفصة فقال رسول اللّٰه صلي الله عليه وآله وسلم : ’’مه، انّکنّ لأ نتنّ صواحب يوسف مروا أبابکر فليصلّ للنّاس‘‘ اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرضِ وصال میں ارشاد فرمایا۔ ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ کو (میری طرف سے) حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں۔ میں نے کہا کہ (حضرت) ابوبکر رضی اللہ عنہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو وہ کثرتِ گریہ (رونے) کی وجہ سے لوگوں کو (کچھ بھی) سنا نہیں سکیں گے۔ (اس لئے) آپ (حضرت) عمر رضی اللہ عنہ کو حکم فرمائیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں۔ میں نے (اُمُّ المؤمنین حضرت) حفصہ رضی اﷲ عنہا سے کہا کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کریں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب آپ کے مقام (مصلیٰ) پر کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو کچھ سنا نہ پائیں گے۔ پس آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حکم فرمائیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں چنانچہ حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا نے ایسے ہی کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’رُک جاؤ! بیشک تم صواحب یوسف کی طرح ہو. ابوبکر رضی اللہ عنہ کو (میری طرف سے) حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 1 : 240، کتاب الاذان، رقم : 647 2. بخاري، الصحيح، 1 : 252، رقم : 684 3. بخاري، الصحيح، 6 : 2663، رقم : 6873 4. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 613، رقم : 3672 5. ابن حبان، الصحيح، 14 : 566، رقم : 6601 6. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 96، رقم : 24691 7. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 202، رقم : 25704 8. مالک، المؤطا، 1 : 170، رقم : 412 9. ابو يعلي، المسند، 7 : 452، رقم : 4478 10. نسائي، السنن الکبريٰ، 6 : 368، رقم : 11252 11. بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 250، رقم : 3171 12. الربيع، المسند، 1 : 92، رقم : 211 13. بغوي، شرح السنه، 3 : 423، رقم : 853 58. عن عائشة رضي اﷲ عنها، قالت، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’لا ينبغي لقوم فيهم أبوبکر أن يّؤمّهم غيره.‘‘ ام المومنین سيّدہ عائشہ صِدِّیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کسی قوم کے لئے مناسب نہیں جن میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ موجود ہوں کہ ان کی امامت اِن (ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کے علاوہ کوئی اور شخص کروائے۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 614، ابواب المناقب، رقم : 3673 2. مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 10 : 109 3. ابراهيم بن محمد الحسيني، البيان والتعريف، 2 : 296، رقم : 1785 4. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 82 59. عن محمّد بن جبيربن مطعم عن أبيه؛ أنّ إمرأة سألت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم شيئا، فأمرها أن ترجع إليه، فقالت : يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ! أرأيت إن جئت فلم أجدک؟ قال أبي : ’’کأنّها تعني الموت‘‘. قال ’’فان لّم تجديني فأتي أبابکر.‘‘ محمد بن جبیر بن مطعم اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کسی چیز کے بارے میں پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دوبارہ آنے کا حکم فرمایا، اس نے عرض کی، ’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر میں آؤں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ پاؤں تو؟‘‘ (محمد بن جبیر فرماتے ہیں کہ) میرے والد (جبیر بن مطعم) نے فرمایا گویا وہ عورت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مراد لے رہی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آنا۔‘‘ 1. مسلم، الصحيح، 4 : 1856، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 2386 2. بخاري، الصحيح، 3 : 1338، کتاب المناقب، رقم : 3459 3. بخاري، الصحيح، 6 : 2639، رقم : 6794 4. بخاري، الصحيح، 6 : 2679، رقم : 6927 5. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 615، کتاب المناقب، رقم : 3676 6. ابن حبان، الصحيح، 15 : 34، رقم : 6656 7. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 132، رقم : 557 8. ابن ابي عاصم، السنة، 2 : 547، رقم : 1151 9. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 177 60. عن جابر ابن عبداﷲ رضي اﷲ عنهما قال : کنّا عندالنّبيّ إذ جائه وفد عبدالقيس فتکلّم بعضهم بکلام لغا في الکلام فالتفت النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم إلٰي أبي بکر و قال : ’’يا أبابکر سمعت ما قالوا؟‘‘ قال : نعم يا رسول اﷲ وفهمته قال : ’’فأجبهم‘‘ قال : فأجابهم أبوبکر رضي الله عنه بجواب وأجاد الجواب فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’يا أبابکر أعطاک اﷲ الرّضوان الأکبر‘‘ فقال له بعض القوم ’’وما الرّضوان الأکبر يا رسول اﷲ؟‘‘ قال : ’’يتجلّي اﷲ لعباده في الآخرة عامة وّ يتجلّي لأبي بکر خاصّة‘‘ ’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے کہ عبدالقیس کا وفد آیا، اس میں سے ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نامناسب گفتگو کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا : ’’اے ابوبکر! آپ نے سنا جو کچھ انہوں نے کہا ہے؟‘‘ آپ نے عرض کی : جی ہاں! یا رسول اﷲ! میں نے سن کر سمجھ لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’پھر انہیں اس کا جواب دو‘‘۔ راوی کہتے ہیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں نہایت عمدہ جواب دیا پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اﷲ رب العزت نے تمہیں رضوانِ اکبر عطا فرمائی ہے۔‘‘ لوگوں میں سے کسی نے بارگاہِ نبوت میں عرض کی۔ ’’یا رسول اﷲ! رضوانِ اکبر کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اﷲ رب العزت آخرت میں اپنے بندوں کی عمومی تجلی فرمائے گا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لئے خصوصی تجلی فرمائے گا۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 83، رقم : 4463 2. ابونعيم، حلية الاولياء، 5 : 12 3. عبداﷲ بن محمد، طبقات المحدثين بأصبهان، 3 : 11، رقم : 240 4. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 76 61. عن أبي هريرة ان ابابکر الصديق بعثه في الحجة التي امّره عليها رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قبل حجة الوداع يوم النحر في رهط يؤذّن في الناس ألا لا يحج بعد العام مشرک ولا يطوف بالبيت عريان. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے حجۃ الوداع سے پہلے حج میں جس کا امیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق کو بنا کر بھیجا تھا نحرکے دن ایک جماعت میں بھیجا تاکہ لوگوں میں اعلان کیا جائے کہ خبردار! آج کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی خانہ کعبہ کا برہنہ طواف کرے۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 2 : 586، کتاب التفسير، رقم : 1543 2. بخاري، الصحيح، 2 : 1586، رقم : 4105 3. بخاري، الصحيح، 4 : 1586، رقم : 4105 4. بخاري، الصحيح، 4 : 1710، رقم : 4380 5. نسائي، السنن، 5 : 234، رقم : 2957 6. نسائي، السنن الکبريٰ، 2 : 407، رقم : 3948 7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 87، رقم : 9091 8. ابو يعلي، المسند، 1 : 77، رقم : 76 فصل : 11 إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم اتخذه رضي الله عنه وزيراً (صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ. . . وزیرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)62. عن أبي سعيد الخدريّ، قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما من نبيّ إلّا له وزيران من أهل السّماء و وزيران من أهل الارض، فأمّا وزيراي من أهل السّماء فجيريل وميکائيل، و أمّا وزيراي من أهل الارض فأبوبکر و عمر.‘‘ ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ہر نبی کے لئے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ پس آسمان والوں میں سے میرے دو وزیر، جبرئیل و میکائیل علیھما السلام ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر رضی اﷲ عنہما ہیں‘‘۔ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 616، ابواب المناقب، رقم : 3680 2. حاکم، المستدرک، 2 : 290، رقم : 3047 3. ابن الجعد، المسند، 1 : 298، رقم : 2026 4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 164، رقم : 152 5. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 478 6. محب طبري، الرياض النضره، 1 : 335 63. عن سعيد ابن المسيّب قال : ’’کان أبوبکرالصّدّيق من النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم مکان الوزير فکان يشاوره في جميع أموره وکان ثانيه في الإسلام وکان ثانيه في الغار وکان ثانيه في العريش يوم بدر وکان ثانيه في القبر ولم يکن رّسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقدّم عليه أحدا‘‘ ’’حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں وزیر کی حیثیت رکھتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے تمام اُمور میں اُن سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لانے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی (دوسرے) تھے، غارِ (ثور) میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی تھے، غزوہء بدر میں عریش (وہ چھپر جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بنایا گیا تھا) میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی تھے، قبر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی ہیں اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ) پر کسی کو بھی مقدّم نہیں سمجھتے تھے۔‘‘ حاکم، المستدرک، 3 : 66، رقم : 4408 64. عن ابن عبّاس رضي الله عنه في قوله عزّوجلّ : (وشاورهم في الأمر) (1) قال : ’’أبو بکر وّ عمر.‘‘ ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اﷲ رب العزت کے اِس ارشاد (اور تمام معاملات میں اُن سے مشورہ فرمائیں۔ سورۃ آل عمران، آیت : 159) کے بارے جن سے اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشورہ فرمانے کا حکم دیا، کون مراد ہیں؟‘‘ حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ 1. القرآن، اٰلِ عمران : 159 2. حاکم، المستدرک، 3 : 74، رقم : 4436 65. عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إن اﷲ تعالٰي أيدني بأربعة وزراء نقباء قلنا يا رسول اﷲ من هؤلاء الأربع قال اثنين من أهل السماء واثنين من أهل الأرض فقلت من الإثنين من أهل السماء قال جبريل و ميکائيل قلنا من الإثنين من أهل الأرض قال ابوبکر و عمر. ’’حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے چار وزراء نقباء کے ذریعے میری مدد فرمائی ہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! وہ چار کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دو اہل سماء میں سے ہیں اور دو اہل زمین میں سے ہیں۔ میں نے عرض کیا : اہل سماء میں سے دو کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبریل اور میکائیل. ہم نے عرض کیا : اہل زمین میں سے دو کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر اور عمر رضی اﷲ عنہما۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 11 : 179، رقم : 11422 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 51 3. ابو نعيم، حلية الاولياء، 8 : 160 4. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 3 : 298 فصل : 12 إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم اتخذه رضي الله عنه سمعا و بصرا (صدیق اکبر رضی اللہ عنہ. . . سمع و بصرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)66. عن عبدالعزيز بن المطّلب، عن أبيه، عن جدّه عبداﷲ بن حنطب، أنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم راٰي أبابکر و عمر فقال : ’’هذانِِ السّمع والبصر‘‘ ’’حضرت عبداﷲ بن حنطب سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہما کو دیکھا تو ارشاد فرمایا : یہ دونوں (میرے لئے) کان اور آنکھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 613، ابواب المناقب، رقم : 3671 2. مزي، تهذيب الکمال، 14 : 435، رقم : 3235 3. عسقلاني، الاصابه، 4 : 64، رقم : 4639 4. عبدالباقي، معجم الصحابه، 2 : 100 5. احمد بن ابراهيم، تحفة التحصيل، 1 : 172 6. العلائي، جامع التحصيل، 1 : 209 67. عن عبداﷲ بن حنطب قال : کنت مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فنظر إلٰي أبي بکر وّ عمر رضي اﷲ عنهما فقال : ’’هذان السّمع والبصر.‘‘ حضرت عبد اﷲ بن حنطب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں، میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر فرمایا : ’’یہ دونوں (میرے لئے) کان اور آنکھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 73، کتاب معرفة الصحابة، رقم : 4432 2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 432، رقم : 686 68. عن حذيفة بن اليمان رضي اﷲ عنهما قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : ’’لقد هممت أن أبعث إلي الاٰفاق رجالا يّعلّمون النّاس السّنن والفرائض کما بعث عيسٰي ابن مريم الحواريّين‘‘ قيل له : فأين أنت من أبي بکر وّ عمر؟ قال : ’’انّه لا غني بي عنهما إنّهما من الدّين کالسّمع والبصر.‘‘ ’’حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سُنا : ’’میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمام آفاق (علاقوں) میں کچھ لوگ بھیجوں جو لوگوں کو سنن و فرائض سکھائیں، جس طرح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے حواریوں کو بھیجا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا (حضرت) ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’بیشک اِن دونوں کے سوا میرے لئے کوئی چارہ نہیں، یقیناً یہ دونوں دین میں سمع و بصر (کان اور آنکھ) کا درجہ رکھتے ہیں۔‘‘ حاکم، المستدرک، 1 : 78، کتاب معرفة الصحابة، رقم : 4448 69. حدّثني سعيد بن المسيّب وأبو سلمة بن عبدالرّحمٰن؛ أنّهما سمعا أباهريرة يقول : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’بينما رجل يسوق بقرة له، قد حمل عليهاالتفتت إليه البقرة فقالت : إنّي لم أخلق لهذا ولٰکنّي إنّما خلقت للحرث‘‘ فقال النّاس : سبحان اﷲ! تعجّبا وفزعا أبقرة تکلّم؟ فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’فإنّي أومن به و أبوبکر و عمر‘‘ قال أبوهريرة : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ’’بينا راع في غنمه، حمل عليه الذّئب فأخذ منها شاة فطلبه الرّاعي حتّي استنقذها منه. فالتفت إليه الذّئب فقال له : من لها يوم السّبع، يوم ليس لها راع غيري؟‘‘ فقال النّاس : سبحان اﷲ! فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’فإنّي أومن بذٰلک أنا وأبوبکر و عمر‘‘ ’’حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ان دونوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس دوران کہ ایک شخص اپنے بیل پر بوجھ لادے ہوئے ہانک کر لے جا رہا تھا۔ بیل نے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگا میں اِس (کام) کے لئے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ میں تو کھیتی باڑی کے لئے تخلیق کیا گیا ہوں۔ لوگوں نے تعجب اور گھبراہٹ کے عالم میں کہا، سبحان اﷲ ! بیل گفتگو کرتا ہے؟ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک میں تو اس کو سچ مانتا ہوں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ بھی اسے سچ تسلیم کرتے ہیں۔ سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس دوران کہ ایک چرواہا اپنی بکریوں (کے ریوڑ) میں تھا، ایک بھیڑیئے نے اُن پر حملہ کر دیا اور اس ریوڑ میں سے ایک بکری کو پکڑ لیا۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور بکری کو اس سے چھڑا لیا۔ بھیڑیا چرواہے کی طرف متوجہ ہوا اور اُسے کہنے لگا : اُس دن بکری کو کون بچائے گا جس دن میرے سوا کوئی چرواہا نہ ہو گا۔ (وہ قیامت کا دن ہے یا عید کا دن جس دن جاہلیت والے کھیل کود میں مصروف رہتے اور بھیڑیئے بکریاں لے جاتے یا قیامت کے قریب فتنہ کا دن جب لوگ مصیبت کے مارے اپنے مال کی فکر سے غافل ہو جائیں گے) لوگوں نے کہا، سبحان اﷲ! پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’بیشک اس واقعہ کو میں، ابوبکر اور عمر سچ تسلیم کرتے ہیں۔‘‘ 1. مسلم، الصحيح، 4 : 1858، رقم : 2388 2. بخاري، الصحيح، 3 : 1339، رقم : 3463 3. ترمذي، السنن، 5 : 615رقم : 3677 4. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 37، رقم : 8112 5. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 179، رقم : 184 6. ابن حبان، الصحيح، 14 : 404، رقم : 6485 7. ابن حبان، الصحيح، 15 : 329، رقم : 6903 8. طيالسي، المسند، 1 : 309، رقم : 2354 9. ديلمي، الفردوس بمأثورالخطاب، 2 : 16، رقم : 2113 10. ازدي، الجامع، 11 : 230 11. يوسف بن موسيٰ، معتصر المختصر، 1 : 269 12. ابن منذه، الايمان، 1 : 409، رقم : 255 13. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 328، 476 14. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 18 : 230 15. ذهبي، معجم المحدثين، 1 : 199 فصل : 13 أحب خلق اﷲ إلي الرسول صلي الله عليه وآله وسلم (صدیق اکبر رضی اللہ عنہ. . . حبیب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)70. عن يحيٰي بن عبدالرّحمٰن بن حاطب قال : قالت عائشة رضي اﷲ عنها لمّا ماتت خديجة رضي اﷲ عنها : جاء ت خولة بنت حکيم إلٰي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقالت : ألا تزوّج؟ قال من؟ قالت إن شئت بکرا وّإن شئت ثيّبا قال : ومن البکر ومن الثّيّب؟ قالت : أمّا البکر فابنة أحبّ خلق اﷲ إليک عائشة بنت أبي بکر رضي الله عنه وأمّا الثّيّب فسودة بنت زمعة. ’’حضرت یحییٰ بن عبد الرحمٰن بن حاطب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : امّ المؤمنین عائشہ صدّیقہ رضی اﷲ عنھا نے فرمایا : جب (اُمُّ المؤمنین) سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنھا کا انتقال ہو گیا تو حضرت خولہ بنت حکیم رضی اﷲ عنھا حضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور کہا : کیا آپ شادی نہیں فرمائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کس سے؟ انہوں نے عرض کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہیں تو باکرہ (کنواری) سے، چاہیں تو ثیبہ (شوہر دیدہ) سے نکاح فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، باکرہ کون ہے اور ثیبہ کون؟ انہوں نے عرض کی۔ ’’باکرہ تو تمام مخلوق خدا میں آپ کے سب سے زیادہ محبوب کی بیٹی عائشہ بنت ابی بکر رضی اﷲ عنھما ہے اور ثیبہ (حضرت) سودہ بنت زمعہ رضی اﷲ عنہا ہیں۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 77، کتاب معرفةالصحابة، رقم : 4445 2. حاکم، المستدرک، 2 : 181، رقم : 2704 3. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 210، رقم : 25810 4. طبراني، المعجم الکبير، 23 : 23، رقم : 57 5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 129، رقم : 13526 6. شيباني، الآحاد و المثاني، 5 : 389، رقم : 3006 7. اسحاق بن راهويه، المسند، 2 : 588، رقم : 1164 8. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 225 9. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 2 : 149 10. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 2 : 211 11. عسقلاني، الإصابه، 8 : 17، رقم : 11457 71. عن الزّهريّ قال، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لحسّان بن ثابت رضي الله عنه هل قلت في أبي بکر شيئا؟ قال نعم، فقال قل وأنا أسمع فقال : ثاني اثنين في الغار المنيف وقد طاف العدوّ به إذ صعّد الجبلا وکان حبّ رسول اﷲ قد علموا من البريّة لم يعدل به رجلا. ’’امام زہری سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا : ’’کیا تم نے ابوبکر (صدیق رضی اللہ عنہ) کے بارے کچھ کہا ہے‘‘۔ انہوں نے عرض کی، ہاں (یا رسول اﷲ!)۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’وہ کلام مجھے سناؤ میں سنوں گا۔‘ حضرت حسان رضی اللہ عنہ یوں گویا ہوئے ’’وہ غار میں دو میں سے دوسرے تھے۔ جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر پہاڑ (جبل ثور) پر چڑھے تو دشمن نے اُن کے ارد گرد چکر لگائے اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہے کہ وہ (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شخص کو اُن کے برابر شمار نہیں کرتے ہیں‘‘۔ (یہ سن کر) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندانِ مبارک ظاہر ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اے حسان تم نے سچ کہا، وہ (ابوبکر رضی اللہ عنہ) بالکل ایسے ہی ہیں جیسے تم نے کہا۔‘‘ 1. الحاکم، المستدرک، 3 : 67، کتاب معرفة الصحابة، رقم : 4413 2. حاکم، المستدرک، 3 : 82، رقم : 4461 3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 174 4. بن الجوزي، صفة الصفوة، 1 : 241 5. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 417 72. عن أبي عثمان قال : حدّثني عمرو بن العاص رضي الله عنه : أنّ النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم بعثه علٰي جيش ذات السّلاسل، فأتيته فقلت : ’’أيّ النّاس أحبّ إليک؟‘‘ قال : ’’عائشة‘‘. فقلت : ’’من الرّجال؟‘‘ فقال : ’’أبوها‘‘ قلت : ثمّ من؟ قال : ’’عمر بن الخطّاب‘‘ فعدّ رجالا. حضرت ابو عثمان رضي اللہ عنہ سے مروی ہے : کہ مجھے حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے غزوہ ذاتِ السلاسل کا امیرِ لشکر بنا کر روانہ فرمایا : جب واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض گزار ہوا۔ ’’لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبت کس کے ساتھ ہے؟‘‘ تو ارشاد فرمایا۔ ’’عائشہ رضی اﷲ عنھا کے ساتھ۔‘‘ میں نے پھر عرض کی ’’مردوں میں سے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اُن کے والد ( ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ۔‘‘ میں نے عرض کی، پھر اُن کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے ساتھ‘‘۔ اور پھر اُن کے بعد چند دوسرے حضرات کے نام لئے۔ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1339، کتاب المناقب، رقم : 3462 2. بخاري، الصحيح، 4 : 1584، رقم : 4100 3. مسلم، الصحيح، 4 : 1856 کتاب فضائل الصحابه، رقم : 2384 4. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 706، کتاب المناقب، رقم : 3885، 3886 5. احمدبن حنبل، المسند، 4؛ 203، رقم : 17143 6. ابو يعلي، المسند، 13 : 329، رقم : 7345 7. طبراني، المعجم الکبير، 23، 44، رقم : 114 8. شيباني، السنه لإبن ابي عاصم، 2 : 578، رقم : 123 9. بخاري، التاريخ الکبير، 6 : 24، رقم : 1567 10. عبدين حميد، المسند، 1 : 121، رقم : 295 11. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 2 : 147 73. عن عبداﷲ بن شقيق، قال : قلت لعائشة : أيّ أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کان أحبّ إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قالت : أبوبکر، قلت : ثمّ من؟ قالت : عمر، قلت : ثمّ من؟ قالت : ثمّ أبوعبيدة بن الجرّاح، قلت : ثمّ من؟ قال : فسکتت. ’’حضرت عبد اﷲ بن شقیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اُمُّ المؤمنین عائشہ صدّیقہ رضی اﷲ عنھا سے پوچھا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کون سب سے زیادہ محبوب تھے؟ اُمُّ المؤمنین رضی اﷲ عنھا نے فرمایا : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ۔ میں نے عرض کیا : پھر کون زیادہ محبوب تھے؟ آپ نے فرمایا : حضرت عمر رضی اللہ عنہ۔ میں نے عرض کیا : پھر کون زیادہ محبوب تھے؟ اُمُّ المؤمنین رضی اﷲ عنھا نے فرمایا : حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ۔ میں نے پوچھا پھر کون؟ اس پر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا خاموش ہو گئیں۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 39، ابواب المناقب، رقم : 3657 ابن ماجه، السنن، 1 : 38، مقدمه، رقم : 102 2. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 218، رقم : 25871 3. ابو يعلي، المسند، 8 : 296، رقم : 4887 4. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 57، رقم : 8201 5. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 198 6. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 30، رقم : 97 7. يوسف بن موسي، معتصر المختصر، 2 : 354 8. محب طبري، الرياض النضره، 1 : 231 9. مزي، تهذيب الکمال، 14 : 56 10. عسقلاني، الإصابه، 3 : 588 11. نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 478 12. ذهبي، سيرأعلام النبلاء، 1 : 10 74. عن عائشة، عن عمر بن الخطّاب، قال : أبوبکر سيّدنا وخيرنا وأحبّنا إلٰي رسُول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم. ’’اُمُّ المؤمنین سيّدہ عائشہ صدِّیقہ رضی اﷲ عنھا امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمارے سردار، ہم سب سے بہتر اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 606، ابواب المناقب، رقم : 3656 2. الحاکم، المستدرک، 3 : 69، رقم : 4421 3. مقدسي، الأحاديث المختاره، 1 : 256، رقم : 146 4. نو وي، تهذيب الأسماء، 2 : 478 5. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 29 75. عن أنس رضي الله عنه قال : قيل يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’أيّ النّاس أحبّ إليک؟‘‘ قال : ’’عائشة رضي اﷲ عنها‘‘ قيل من الرّجال؟ قال : ’’أبوها.‘‘ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا، ’’یا رسول اﷲ! آپ کو تمام لوگوں سے زیادہ کون محبوب ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’عائشہ رضی اﷲ عنھا۔‘‘ عرض کیاگیا۔ ’’مردوں میں سے (کون زیادہ محبوب ہے)؟‘‘ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’عائشہ صدّیقہ رضی اﷲ عنھا کا باپ ابوبکر رضی اللہ عنہ۔‘‘ 1. ابن ماجه، السنن، 1 : 38، مقدمه رقم : 101 نوٹ : و اعلم أن المحبة تختلف بالأسباب والأشخاص فقد يکون للجزئية وقد يکون بسبب الإحسان وقد يکون بسبب الحسن والجمال وأسباب أخر لا يمکن تفصيلها و محبته صلي الله عليه وآله وسلم لفاطمة بسبب الجزئية والزهد والعبادة و محبته لعائشة بسبب الزوجية والتفقه في الدين و محبة أبي بکر و عمر و أبي عبيدة بسبب القدم في الإسلام وإعلاء الدين و وفور العلم. ’’محبت اسباب اور اشخاص کے حوالے سے مختلف ہوتی ہے۔ کبھی جزئیت (اولاد ہونے) کے سبب ہوتی ہے، کبھی کسی احسان کے باعث اورکبھی حسن وجمال کی وجہ سے ہوتی ہے اور دوسرے اسباب کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سیدہ فاطمۃ الزھراء سلام اﷲ علیھا کے لیے جزئیت (بیٹی ہونے) اور انکے زہد و عبادت کے سبب ہے اور سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنھا سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت انکی زوجیت اور دین میں تفقہ کی وجہ سے ہے اور حضرت ابوبکر وعمر اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنھم کی محبت انکی سبقت سلام، دین کو سر بلند کرنے اور ان کے کمالِ علم کی وجہ سے ہے۔‘‘ 1. سيوطي، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 11 2. مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 1 : 98 فصل : 14 أعلم الناس مزاج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم (صدیق اکبر رضی اللہ عنہ. . . شناسائے مزاجِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 76. عن أبي سعيد الخدريّ رضي الله عنه قال : خطب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم النّاس وقال : ’’إنّ اﷲ خيّر عبدا بين الدّنيا وبين ما عند ه، فاختار ذٰلک العبد ما عند اﷲ‘‘. قال : فبکٰي أبوبکر. فعجبنا لبکائه : أن يّخبر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عن عبد خيّر، فکان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم هو المخيّر، وکان أبوبکر أعلمنا‘‘. حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا : ’’بیشک اﷲ تعالیٰ نے ایک بندے کو دنیا اور جو اﷲ کے پاس ہے کے درمیان اختیار دیا ہے۔ پس اُس بندے نے اُس چیز کو اختیار کیا جو اﷲ کے پاس ہے‘‘۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ ہم نے اُن کے رونے پر تعجب کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توایک بندے کا حال بیان فرما رہے ہیں کہ اُس کو اختیار دیا گیا ہے۔ پس وہ (بندہ) جس کو اختیار دیا گیا تھا خود تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے (جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد سمجھ گئے)۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح 3 : 1337، کتاب المناقب رقم : 3454 2. بخاري، الصحيح، 1 : 177، رقم : 454 3. مسلم، الصحيح، 4 : 1854، کتاب فضا ئل الصحابة، رقم : 2382 4. ترمذي، السنن، 5 : 608، رقم : 3660 5. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 607، رقم : 3659 6. ابن حبان، الصحيح، 14 : 559، رقم : 6594 7. ابن حبان، الصحيح، 15 : 277، رقم : 2861 8. احمدبن حنبل، المسند3 : 18، رقم : 11150 9. ابن سعد، الطبقات الکبرٰي، 2 : 227 10. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 13 : 63، رقم : 7045 77. عن ابن أبي المعلّٰي، عن أبيه، أنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم خطب يوما فقال : ’’إنّ رجلا خيّره ربّه بين أن يّعيش في الدّنيا ماشاء أن يّعيش ويأکل في الدّنيا ماشاء أن يأکل وبين لقاء ربّه، فاختار لقاء ربّه‘‘. قال : فبکٰي أبوبکر، فقال أصحاب النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : ألا تعجبون من هذا الشّيخ إذ ذکر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم رجلا صالحا خيّره ربّه بين الدّنيا وبين لقاء ربّه فاختار لقاء ربّه. قال : فکان أبوبکر أعلمهم بما قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فقال أبوبکر : ’’بل نفديک باٰ بائنا وأموالنا‘‘. حضرت ابن ابی معلی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن خطبہ ارشاد فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے ایک شخص کو اختیار دیا کہ جب تک چاہے دنیا میں رہ کر جو چاہے کھائے یا اپنے رب کے پاس آجائے، تو اُس بندے نے اپنے رب سے جا ملنے کو پسند کیا‘‘۔ (یہ سن کر) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے (ایک دوسرے سے) کہا تمہیں اس شیخ پر تعجب نہیں ہوتا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نیک آدمی کا ذکر فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے اُسے دنیا میں رہنے یا اپنے رب سے ملاقات کرنے کا اختیار دیا تو اُس بندے نے اپنے رب کی ملاقات کوترجیح دی۔ راوی فرماتے ہیں، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادِ پاک کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ چنانچہ انہوں نے عرض کیا۔ ’’ (یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !) ہمارے ماں باپ اور مال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فدا ہوں۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 607، ابواب المناقب، رقم : 3659 2. احمد بن حنبل، المسند، 4؛ 211 3. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 328 4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 209، رقم : 234 5. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 51 78. عن أبي سعيد الخدريّ، أنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم جلس علي المنبر فقال : ’’إنّ عبدا خيّره اﷲ بين أن يّؤتيه من زهرة الدّنيا ماشاء وبين ما عنده، فاختار ما عنده‘‘. فقال أبوبکر : فديناک يا رسول اﷲ باٰبائنا وأمّهاتنا. قال : فعجبنا! فقال النّاس : أنظروا إلٰي هذا الشّيخ يخبر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عن عبد خيّره اﷲ بين أن يّؤتيه من زهرة الدّنيا ماشاء وبين ما عنداﷲ وهو يقول : فديناک باٰ بائنا وأمّهتنا! قال : فکان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم هو المخيّر، وکان أبوبکر هو أ علمنا به. ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرماہوئے تو ارشاد فرمایا : ’’اﷲ تعالیٰ نے ایک بندے کو اختیار دیا کہ یا تو دنیا کی آرائش سے جو چاہے لے لے یا جو کچھ اﷲ تعالیٰ کے پاس ہے وہ حاصل کرے، تو اس بندے نے اُسے پسند کیا جو اﷲ تعالیٰ کے پاس ہے۔‘‘ (یہ سن کر) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا۔ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہمارے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہوں۔ راوی فرماتے ہیں ہمیں تعجب ہوا، تو لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اس شیخ کی طرف دیکھو! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو کسی بندے کے متعلق فرما رہے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے اُسے دنیا کی آرائش یا جو اﷲ تعالیٰ کے پاس ہے، اُن میں سے ایک کے حصول کا اختیار دیا اور یہ فرما رہے ہیں ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا درحقیقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی اختیار دیا گیا تھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس بات کو ہم سب سے زیادہ جانتے تھے۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1417، رقم : 3691 2. مسلم، الصحيح، 4 : 1854، رقم : 2382 3. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 41، ابواب المناقب، رقم : 3660 4. ابن حبان، 15 : 277، رقم : 6861 79. عن المسور بن مخرمة و مروان بن حکم قالا. . . قال : عمر بن الخطّاب : فأ تيت نبيّ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقلت : ’’ألست نبيّ اﷲ حقّا؟‘‘ قال : ’’بلٰي‘‘. قلت : ألسنا علي الحقّ وعدوّنا علي الباطل؟ قال : ’’بلٰي‘‘ قلت : ’’فلم نعطي الدّ نيّة في ديننا إذا ؟‘‘ قال : ’’إنّي رسول اﷲ، ولست أعصيه، وهو ناصري‘‘. قلت : ’’أوليس کنت تحدّثنا أنّا سنأ تي البيت فنطوف به؟‘‘ قال : ’’بلٰي، فأ خبرتک انّا نأ تيه العام ؟‘‘. قال : قلت : لا قال : ’’فإنّک آتيه ومطّوّف به‘‘. قال : فأ تيت أبابکر فقلت : ’’يا أبابکر، أليس هذا نبيّ اﷲ حقّا؟‘‘ قال : بلٰي قلت : ’’ألسنا علي الحقّ وعدوّنا علي الباطل؟‘‘ قال : بلٰي قلت : ’’فلم نعطي الدّنيّة في ديننا اذا؟‘‘ قال : ’’أيّها الرّجل، إنّه لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، وليس يعصي ربّه، وهو ناصره، فاستمسک بغرزه، فواﷲ إنّه علي الحقّ‘‘. قلت : ’’أليس کان يحدّثنا أنّا سناتي البيت و نطوف به؟‘‘ قال : بلٰي أفأخبرک أنّک تاتيه العام؟ قلت : لا، قال : ’’فإ نّک آتيه ومطّوّف به.‘‘ ’’حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم سے مروی صلح حدیبیہ کے بارے طویل حدیث میں ہے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی : ’’کیا آپ سچے نبی نہیں ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں سچا نبی ہوں۔‘‘ میں نے عرض کی، ’’کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کیوں نہیں!‘‘ میں نے عرض کی : ’’پھر ہمیں اپنے دینی معاملات میں دبنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’میں اﷲ کا رسول ہوں اس کے حکم سے سرِمو انحراف نہیں کرتا ہوں اور وہ میرا مددگار ہے۔‘‘ میں نے عرض کی ’’کیا آپ ہمیں ارشاد نہیں فرمایا کرتے تھے کہ ہم عنقریب بیت اﷲ شریف حاضری دیں گے اور اس کا طواف کریں گے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ہاں! مگر کیا میں نے تمہیں اس سال بیت اﷲ شریف حاضری دینے کی خبر دی تھی؟‘‘ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے عرض کی، نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’تم ضرور خانہ کعبہ جاؤ گے اور اس کا طواف کرو گے۔‘‘ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا : ’’اے ابوبکر! کیا یہ اﷲ رب العزت کے سچے نبی نہیں ہیں؟‘‘ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’یقیناً ہیں‘‘۔ میں نے عرض کی، ’’کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے؟‘‘ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ایسا ہی ہے‘‘۔ میں نے عرض کی ’’پھر ہمیں اپنے دینی معاملات میں (کفار سے) دبنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ ’’ارے اﷲ کے بندے، وہ اﷲ رب العزت کے رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور اپنے رب کریم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ اﷲ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ناصر و مددگار ہے۔ پس تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت پرمضبوطی سے قائم رہو کیونکہ اﷲ رب العزت کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق پر ہیں‘‘۔ میں نے عرض کی ’’کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں ارشاد فرمایا نہیں کرتے تھے کہ ہم بیت اﷲ شریف حاضری دیں گے اور اس کا طوا ف کریں گے‘‘۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہاں! حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں اس سال بیت اﷲ حاضری دینے کی خبر ارشاد فرمائی تھی؟ میں نے عرض کی’’نہیں‘‘۔ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ’’یقین رکھو، تم بیت اﷲ شریف حاضری دو گے اور اس کا طواف بھی کرو گے۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 2 : 978، کتاب الشروط، رقم : 2583 2. بخاري، الصحيح، 4 : 1832، رقم : 4563 نوٹ : صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکمت و فراست کے اعتبار سے جو فیصلہ فرمایا اس کو صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے سمجھ لیا اور آپ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو جو جوابات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمائے بعینہ وہی جوابات حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے بھی فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمائے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ حکمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امین ہیں۔ فصل : 15 اشد توقيرا و تعزيرا لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم (صدیق اکبر رضی اللہ عنہ. . . فنائے ادبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)80. عن سهل بن سعد السّاعديّ : أنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ذهب إلي بني عمر و بن عوف ليصلح بينهم، فحانت الصّلاة، فجاء المؤذّن إلي أبي بکر، فقال : أتصلّي للنّاس فأقيم؟ قا ل : نعم، فصلّٰي أبوبکر فجآء رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم والنّاس في الصّلاة، فتخلّ رضي الله عنه حتّي وقف في الصّفّ، فصفّق النّاس، وکان أبوبکر لا يلتفت في صلا ته فلمّا أکثر النّاس التّصفيق إلتفت فرأي رسو ل اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فأشار إليه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’أن امکث مکانک‘‘ فرفع أبوبکر رضي الله عنه يديه، فحمد اﷲ علٰي ما أمره به رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من ذٰلک، ثمّ استأخر أبوبکر رضي الله عنه حتّي استوٰي في الصّفّ، و تقدّم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فصلّي، فلمّا انصرف قال : ’’ يا أبابکر، ما منعک أن تثبت إذ أمرتک‘‘. فقال أبوبکر : ما کان لإبن أبي قحافة أن يصلّي بين يدي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم‘‘ ’’حضرت سھل بن سعد ساعدی روایت فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی عمر و بن عوف کے ہاں تشریف لے گئے تاکہ اُن (کے کسی تنازعہ) کی صُلح کرا دیں۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا۔ مؤذن، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا : اگر آپ رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں تو میں اقامت کہہ دوں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں! پس حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے لگے۔ تو اسی دوران رسول اکرم واپس تشریف لے آئے اور لوگ ابھی نماز میں تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفوں میں داخل ہوتے ہوئے پہلی صف میں جا کھڑے ہو ئے۔ لوگوں نے تالی کی آواز سے آپ رضی اللہ عنہ کو متوجہ کرنا چاہا۔ مگر چونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حالتِ نماز میں اِدھر اُدھر متوجہ نہ ہوتے تھے اس لئے اِدھر متوجہ نہ ہوئے۔ پھر جب لوگوں نے بہت زور سے تالیاں بجائیں تو آپ رضی اللہ عنہ متوجہ ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے انہیں (ابو بکر صدیق کو) اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر کھڑے رہو۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کئے اور اﷲ رب العزت کی حمد بیان کی اور اﷲ کے رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نماز پڑھاتے رہنے کا جو حکم فرمایا اس پر اﷲ کا شکر ادا کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹے اور صف میں مل گئے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے تشریف لائے اور نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ادھر متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا : ’’اے ابو بکر! جب میں نے تمہیں حکم دیا تھا تو کس چیز نے تمہیں اپنی جگہ پر قائم رہنے سے منع کیا۔‘‘ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی۔ ’’ابو قحافہ کے بیٹے کی کیا مجال کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے کھڑا ہو کر نماز پڑھائے‘‘۔ 1. بخاري، الصحيح، 1، 242، کتاب الجماعة والامامة، رقم : 652 2. مسلم، الصحيح، 1 : 316، کتاب الصلاة، رقم : 421 3. نسائي، السنن، 2 : 82، ، کتاب الامامة، رقم : 793 4. نسائي، السنن، 3 : ، 3، کتاب السهو، رقم : 1183 5. ابو داؤد، السنن، 1 : 247، کتاب الصلٰوة، رقم : 940 6. ابن حبان، الصحيح، 6 : 35، رقم : 2260 7. مالک، المؤطا، 1 : 163، رقم : 390 8. احمدبن حنبل، المسند5 : 332، رقم : 22867 9. ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 58، رقم : 1623 81. عن طارق عن أبي بکر رضي الله عنه قال : لمّا نُزّلت علي النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : (إنّ الّذين يغضّون أصواتهم عند رسول اﷲ أولٰئک الّذين امتحن اﷲ قلوبهم للتّقوٰي (الحجرٰت : 3) ) قال أبوبکر رضي الله عنه : ’’فاٰ ليت علٰي نفسي أن لّا أکلّم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إلاّ کأخي السّرار.‘‘ ’’حضرت طارق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب سورۃ الحجرات کی آیت ’’بیشک وہ لوگ جو اپنی آوازوں کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اﷲ رب العزت نے تقویٰ کے لئے مختص کر لیا ہے‘‘ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائی گئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ’’میں نے قسم کھائی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کلام صرف سرگوشی کی صورت میں کروں گا، جس طرح رازدان سرگوشی کرتے ہیں۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 78، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4449 2. عسقلاني، المطالب العاليه، 4 : 33، رقم : 3887 3. مروزي، تعظيم قدر الصلاة، 2 : 228، رقم : 729 4. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 138 82. عن أنس بن مالک قال ثم قبض رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و هو بن ثلاث و ستين و أبوبکر و هو بن ثلاث و ستين. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک تریسٹھ سال (63) سال تھی اور حضرت ابوبکر صدیق کا وصال ہوا تو ان کی عمر بھی (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت میں) تریسٹھ سال تھی۔ مسلم، الصحيح، 4 : 1825، رقم : 2348 فصل : 17 اعتزازه رضي الله عنه بکونه ثاني اثنين (صدیق اکبر رضی اللہ عنہ. . . ثانی اثنین) 97. عن أنس، عن أبي بکر رضي الله عنه قال : قلت للنّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم و أنا في الغار : لو أنّ أحدهم نظر تحت قدميه لأبصرنا، فقال : ’’ما ظنّک يا أبا بکر باثنين اﷲ ثالثهما‘‘. ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : ’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا جب کہ میں (آپ کے ساتھ) غار میں تھا اگر اِن ( تلاش کرنے والے کفار) میں سے کوئی شخص اپنے قدموں کے نیچے دیکھے تو یقیناً ہمیں دیکھ لے گا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اُن دو (افراد) کے متعلق تمہارا کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا خود اﷲ رب العز ت ہو۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1337، رقم : 3453 2. مسلم، الصحيح، 4 : 1854، رقم : 2381 3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 278، رقم : 3096 4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 181، رقم : 6279 5. ابن حبان، الصحيح، 15 : 287، رقم : 6869 6. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 4، رقم : 11 7. ابو يعلي، المسند، 1 : 68، رقم : 66 8. ابن ابي شيبه المصنف، 6 : 348، رقم : 31929 9. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 345، رقم : 36613 10. بزار، المسند، 1 : 96، رقم : 36 11. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 576، رقم : 1225 12. ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 173 13. ابن جوزي، صفة الصفوه، 1 : 137 14. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 968 15. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 475 16. محب طبري، الرياض النفره، 1 : 449 17. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 63، رقم : 23 18. فاکهي، اخبار مکه، 4 : 81، رقم : 2413 98. عن أنس بن مالک : أنّ أبا بکر الصّدّيق حدّثه قال : نظرت إلٰي أقدام المشرکين علي رؤوسنا ونحن في الغار فقلت : يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ! لو أنّ احدهم نظر إلي قدميه أبصرنا تحت قدميه فقال ’’يا أبا بکر! ما ظنّک باثنين اﷲ ثالثهما‘‘ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’میں نے اپنے سروں کے برابر مشرکین کے پاؤں دیکھے جبکہ ہم غار (ثور) میں تھے پس میں نے عرض کیا : ’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر ان (مشرکین) میں سے کوئی شخص اپنے پاؤں کی طرف دیکھے تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے ا بوبکر رضی اللہ عنہ ! اُن دو کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا (خود) اﷲ رب العزت ہو۔‘‘ 1. مسلم، الصحيح، 4 : 1854، رقم : 2381 2. ابو يعلي، المسند، 1 : 68، رقم : 67 3. عبد بن حميد، المسند، 1 : 30، رقم : 2 4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 352، رقم : 510 5. يوسف بن موسيٰ، معتصر المختصر، 2 : 342 6. نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 475، رقم : 510 فصل : 18 إن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يغضب لغضب الصديق رضي الله عنه (ابوبکر رضی اللہ عنہ ناراض تو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض) 99. عن أبي الدّرداء رضي الله عنه قال : کنت جالسا عند النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم إذ أقبل أبوبکر اٰخذا بطرف ثوبه، حتّٰي أبدي عن رکبته، فقال النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’أمّا صاحبکم فقد غامر‘‘. فسلّم وقال : إنّي کان بيني وبين ابن الخطّاب شيء، فأسرعت إليه ثمّ ندمت، فسألته أن يغفرلي فابٰي عليّ، فأقبلت إليک، فقال : ’’يغفر اﷲ لک يا أبابکر‘‘. ثلاثا، ثمّ إنّ عمر ندم فأتٰي منزل أبي بکر، فسأل : أثمّ أبوبکر؟ فقالوا : لا، فأتي إلي النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم فسلّم، فجعل وجه النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم يتمعّر، حتّي أشفق أبوبکر، فجثا علي رکبتيه فقال : يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، واﷲ أنا کنت أظلم، مرّتين، فقال النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’إنّ اﷲ بعثني إليکم فقلتم کذبت، و قال أبوبکر صدق. وواساني بنفسه و ماله، فهل أنتم تارکولي صاحبي‘‘. مرّتين، فما أوذي بعدها. ’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی اپنی چادر کا کنارہ پکڑے حاضرِ خدمت ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کاگھٹنا ننگا ہو گیا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’تمہارے یہ صاحب لڑ جھگڑ کر آرہے ہیں۔‘‘ انہوں نے سلام عرض کیا اور بتایا کہ میرے اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ تکرار ہوئی تو جلدی میں میرے منہ سے ایک بات نکل گئی جس پر مجھے بعد میں ندامت ہوئی اور میں نے اُن سے معافی مانگی لیکن انہوں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا میں آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو گیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اﷲ تمہیں معاف فرمائے‘‘ یہ تین مرتبہ فرمایا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نادم ہو کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر گئے اور انکے بارے میں پوچھا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہاں ہیں؟ گھر والوں نے کہا۔ نہیں ہیں۔ چنانچہ آپ صبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا، اس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ پُر نور کا رنگ بدل گیا۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ڈر گئے اور گھٹنوں کے بل ہو کر عرض گزار ہوئے : ’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اﷲ کی قسم! میں ہی زیادتی کرنے والا تھا۔‘‘ یہ دو مرتبہ عرض کیا پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’بے شک جب اﷲ رب العزت نے مجھے تمہاری طرف مبعوث فرمایا تو تم سب لوگوں نے میری تکذیب کی (جھٹلایا) لیکن ابوبکر نے میری تصدیق کی۔ اور پھر اپنی جان اور اپنے مال سے میری خدمت میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا‘‘۔ پھر دو مرتبہ ارشاد فرمایا ’’کیا تم میرے ایسے ساتھی سے میرے لئے درگزر کرو گے؟‘‘ اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کبھی اذیت نہیں دی گئی۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1339، کتا ب المناقب، رقم : 3461 2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 10 : 232 3. طبراني، مسند الشاميين، 2 : 208، رقم : 1199 4. ابو نعيم، حلية الاولياء، 9 : 304 5. مزي، تهذيب الکمال، 10 : 110 6. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 243 7. نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 476 8. محب طبري، رياض النضره، 2 : 19 9. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 240، رقم : 297 100. عن ربيعة الأسلميّ قال : کنت أخدم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فأعطا ني أرضا وأعطٰي أبابکرأرضا فجاء ت الدّنيا فاختلفنا في عذق نخلة، فقال أبوبکر : هي في حدّي، وقلت أنا : هي في حدّي، فکان بيني و بين أبي بکر کلام فقال أبوبکرکلمة کرهتها، وندم، فقال : يا ربيعة ردّ عليّ مثلها حتّٰي يکون قصاصا!، فقلت لا أفعل! فقال أبوبکر : لتفعل وإلّا استعديت عليک رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم. فقلت : ما أنا بفاعل! فانطلق أبوبکر إلي النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم، وانطلقت أتلوه، فجاء ناس مّن أسلم فقالوا : رحم اﷲ أبا بکر في أيّ شيء يستعدي عليک رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهو الّذي قال لک ما قال. فقلت : أتدرون من هٰذا؟ هٰذا أبوبکر الصّدّيق، وهو ثاني اثنين، وهو ذو شيبة المسلمين فإيّاکم يلتفت فيراکم تنصروني عليه فيغضب ويأتي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فيغضب لغضبه، فيغضب اﷲ لغضبهما فتهلک ربيعة. قالوا : فما تأمرنا؟ قلت : إرجعوا. فانطلق أبوبکر إلٰي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وتبعته وحدي، وجعلت أتلوه حتّٰي أتٰي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فحدّثه الحديث کما کان، فرفع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إليّ رأسه فقال : ’’يا ربيعة ما لک ولصّدّيق؟‘‘ قلت : يا رسول اﷲ کان کذا وکذا، فقال لي کلمة کرهتها. فقال لي : قل کما قلت حتّي يکون قصاصا. فأبيت، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’أجل! فلا تردّنّ عليه، ولٰکن قل !’’غفر اﷲ لک يا أبا بکر‘‘ فقلت : ’’غفر اﷲ لک يا أبا بکر‘‘. فولّي أبو بکر وهو يبکي. ’’حضرت ربیعہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین کا کچھ حصہ مجھے عطا فرمایا اور کچھ حصہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو۔ پس اُمور دنیا کی وجہ سے ہمارے درمیان کھجور کے ایک درخت کی شاخوں پر اختلاف ہو گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ میری حد میں ہے، اور میں نے کہا یہ میری حد میں ہے۔ پس میرے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے درمیان گفتگو ہوئی تو انہوں نے ایسا کلمہ کہہ دیا جسے میں نے ناپسند کیا۔ پھر وہ شرمندہ ہو گئے اور فرمایا : ’’اے ربیعہ ! اسی طرح کا کلمہ تُم مُجھے کہہ لو تاکہ وہ قصاص بن جائے۔‘‘ میں نے عرض کی : ’’میں ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’تُم ایسا کرو ورنہ میں تمہارے خلاف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد طلب کروں گا۔‘‘ تو میں نے کہا : ’’میں ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلے گئے اور میں اُن کے پیچھے ہو لیا۔ میرے قبیلے بنو اسلم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے اﷲ ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے ! وہ کس چیز میں تمہارے خلاف رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد طلب کرتے ہیں۔ حالانکہ انہی نے تو تمہیں وہ کہا جو کہا، تو میں نے کہا : تُم جانتے ہو یہ کون ہیں؟ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، وہ ثانی اثنین ہیں اور وہ تمام مسلمانوں میں پہل کرنے والے ہیں۔ پس تُم ا س سے بچو کہ وہ ہماری طرف متوجہ ہوں اور تمہیں دیکھ لیں کہ تُم میری مدد کر رہے ہو جس کے نتیجے میں وہ غصے ہو جائیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ جائیں۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اُن کی ناراضگی کی وجہ سے ناراض ہو جائیں گے اور ان دونوں کی ناراضگی کی وجہ سے اﷲ بھی ناراض ہو جائے گا۔ نتیجتاً ربیعہ ہلاک ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا : آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا : ’’تم واپس لوٹ جاؤ‘‘۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلے گئے اور میں اکیلا اُن کے پیچھے چلتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ انور میں پہنچ گئے۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ ساری بات بتائی، جو ہوئی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر انور میری طرف اُٹھایا اور ارشاد فرمایا : ’’اے ربیعہ! تمہارے اور صدیق کے درمیان کیا معاملہ ہوا؟‘‘ میں نے عرض کی : ’’یا رسول اﷲ ! معاملہ اس اس طرح ہوا پھر انہوں نے مُجھے ایک ایسا کلمہ کہا جسے میں نے ناپسند کیا۔ اِنہوں نے مجھے فرمایا کہ تم بھی اُسی طرح کہہ لو جس طرح میں نے تُمہیں کہا ہے تاکہ وہ قصاص بن جائے تو میں نے انکار کر دی۔‘‘ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ہاں! ان پر قصاص کے طور پر وہ کلمہ نہ کہنا، بلکہ تُم کہو کہ اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اﷲ آپ کو معاف فرمائے۔‘‘ تو میں نے یہی جملہ کہا : ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! اﷲ آپ کو معاف فرمائے۔‘‘ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ روتے ہوئے وہاں سے واپس چل پڑے۔‘‘ 1. احمدبن حنبل، المسند، 4 : 58 2. حاکم، المستدرک، 2 : 189، رقم : 2718 3. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 58، رقم : 4577 4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 334، رقم : 481 5. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 45 6. عسقلاني، فتح الباري، 7 : 26 7. طبري الرياض النضرة، 2 : 6 فصل : 19 کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم ينظر إلي الصديق رضي الله عنه و يتبسم إليه (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اللہ عنہ کو پیار سے دیکھتے اور تبسم فرماتے)101. عن أنس؛ أنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کان يخرج علٰي أصحابه من المهاجرين والانصار وهم جلوس وفيهم أبوبکر وعمر فلا يرفع إليه أحد منهم بصره إلّا أبوبکر وعمر فإنّهما کانا ينظران إليه وينظر إليهما ويتبسّمان إليه ويتبسّم إليهما. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مجلس میں تشریف لایا کرتے۔ (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ) بیٹھے ہوتے اور ان میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود ہوتے۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نظریں اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا سوائے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے۔ پس یہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا کرتے تھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں کی طرف دیکھا کرتے۔ وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھ کر مسکراتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں کی طرف دیکھ کر تبسم فرمایا کرتے تھے۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 612، رقم : 3668 2. احمدبن حنبل، المسند، 3 : 150، رقم : 12538 3. حاکم، المستدرک، 1 : 209، رقم : 418 4. عبد بن حميد، المسند، 1 : 388، رقم : 1298 5. طيالسي، المسند، 1 : 275، رقم : 2064 6. محب طبري، الرياض، النضره، 1 : 338 7. مزي، تهذيب الکمال، 7 : 123 102. عن أنس بن مالک قال کنا نجلس النبي کأنما علي رؤسنا الطير ما يتکلم أحد منا إلا ابو بکر و عمر. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتے تو ہماری یہ حالت ہوتی گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی کلام نہ کر سکتا سوائے ابو بکر اور عمر رضی اﷲ عنھما کے۔‘‘ 1. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 53 2. طبراني، المعجم الأوسط، 8 : 5، رقم : 7782 فصل : 20 تصدق الصديق بکل ماعنده لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم (صدّیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضورِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنا سب کچھ لٹا دیا) 103. عن زيد بن أسلم عن أبيه قال : سمعت عمر بن الخطّاب يقول : أمرنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن نتصدّق، فوافق ذٰلک عندي مالا، فقلت : أليوم أسبق أبابکر إن سبقته يوما، قال : فجئت بنصف مالي، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما أبقيت لأ هلک؟‘‘ قلت : مثله، وأتٰي أبوبکر بکلّ ما عنده، فقال صلي الله عليه وآله وسلم : ’’يا أبابکر ما أبقيت لأ هلک؟‘‘ قال : أبقيت لهم اﷲ ورسوله، قلت : لا أسبقه إلٰي شيء أبدا. حضرت زید رضی اللہ عنہ بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اس حکم کی تعمیل کے لئے میرے پاس مال تھا۔ میں نے (اپنے آپ سے) کہا، اگر میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کبھی سبقت لے جا سکتا ہوں تو آج سبقت لے جاؤں گا۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں اپنا نصف مال لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی : ’’اتنا ہی مال اُن کے لئے چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ (اتنے میں) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو کچھ اُن کے پاس تھا وہ سب کچھ لے کر حاضرِ خدمت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کی : ’’میں ان کے لئے اﷲ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے (دل میں) کہا، میں اِن سے کسی شے میں آگے نہ بڑھ سکوں گا۔ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 614ابواب المناقب، رقم : 3675 2. ابو داؤد، 2 : 129، السنن کتاب الزکٰوة، رقم : 1678 3. دارمي، السنن، 1 : 480، رقم : 1660 4. حاکم، المستدرک، 1 : 574، رقم : 1510 5. بزار، المسند، 1 : 394، رقم : 270 6۔ عبد بن حميد نے ’المسند (ص : 33، رقم : 14)‘ ميںسعد بن اسلم سے روايت لي ہے۔ 7. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 579، رقم : 1240 8. مقدسي، الاحاديث المختاره، 1 : 173، 174، رقم : 80، 81 9۔ ابو نعیم نے ’حلیۃ الاولیاء (1 : 32)‘ میں زید بن ارقم سے اسے روایت کیا ہے۔ 10۔ ابن الجوزی نے ’ صفۃ الصفوہ (1 : 241)‘ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت نقل کی ہے۔ 11۔ محب طبری نے بھی ’الریاض النضرہ (1 : 355)‘ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت نقل کی ہے۔ 12. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 180، رقم : 7563 104. عن ابن عمر، قال : کنت عند النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم وعنده أبوبکر الصّدّيق، وعليه عباء ة قد خلّها في صدره بخلال فنزل عليه جبريل فقال : يا محمّد مالي أرٰي أبابکر عليه عبائة قد خلّها في صدره؟ فقال : يا جبريل أنفق ما له عليّ قبل الفتح، قال : فإنّ اﷲ جل جلاله يقرأ عليک السّلا م ويقول قل لّه : ’’أراض أنت عنّي في فقرک هٰذا أم ساخط؟‘‘ فقال : رسول اﷲ : يا أبابکر! إنّ اﷲ عزوجل يقرأ عليک السّلام و يقول لک ’’أراض أنت عنّي في فقرک هٰذا أم ساخط؟‘‘ فقال أبوبکر عليه السّلا م أسخط علٰي ربّي؟ أنا عن رّبّي راض، أنا عن رّبّي راض، أنا عن رّبّي راض. ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس حال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے عباء (لباس جو سامنے سے کھلا ہوا ہو اور اُس کو کپڑوں کے اوپر پہنا جاتا ہے) پہنی ہوئی تھی جس کو اپنے سینے پر خِلال (لکڑی کا ٹکڑا، جس سے سوراخ کیا جاتا ہے) سے جوڑا ہوا تھا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا : ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عباء پہن کر اُسے اپنے سینے پر ٹانکا ہوا ہے؟‘‘ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے جبرئیل علیہ السلام! انہوں نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کر ڈالا ہے۔‘‘ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : ’’اﷲ رب العزت آپ کو سلام فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہیں، کیا تو اپنے اِس فقر میں مجھ سے راضی ہے یا ناراض؟‘‘ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! اﷲ رب العزت تم پر سلام فرماتے ہیں اور تمہیں ارشاد فرماتے ہیں، ’’کیا تو اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہے یا ناراض؟‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی۔ ’’میں اپنے ربِ کریم پر ناراض ہوں گا؟ میں تو اپنے رب سے (ہر حال میں) راضی ہوں میں اپنے ربِ کریم سے راضی ہوں۔ میں اپنے ربِ کریم سے راضی ہوں۔‘‘ 1. ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 250 2. ابو نعيم، حلية الاولياء، 7 : 105 3. ابن کثير، تفسيرالقرآن العظيم، 4 : 308 4. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 20 5. خطيب بغدادي، موضح أوهام الجمع والتفريق، 2 : 441 فصل : 21 قول الصديق رضي الله عنه : أبقيت لهم ش و رسوله (میرے لیے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کافی ہے) 105. عن زيد بن أسلم عن أبيه قال : سمعت عمر بن الخطّاب يقول : أمرنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن نتصدّق، فوافق ذٰلک عندي مالا، فقلت : أليوم أسبق أبابکر إن سبقته يوما، قال : فجئت بنصف مالي، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما أبقيت لأ هلک؟‘‘ قلت : مثله، وأتٰي أبوبکر بکلّ ما عنده، فقال صلي الله عليه وآله وسلم : ’’يا أبابکر ما أبقيت لأ هلک؟‘‘ قال : أبقيت لهم اﷲ ورسوله، قلت : لا أسبقه إلٰي شيء أبدا حضرت زید رضی اللہ عنہ بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اس حکم کی تعمیل کے لئے میرے پاس مال تھا۔ میں نے (اپنے آپ سے) کہا، اگر میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کبھی سبقت لے جا سکتا ہوں تو آج سبقت لے جاؤں گا۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں اپنا نصف مال لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی : ’’اتنا ہی مال اُن کے لئے چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ (اتنے میں) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو کچھ اُن کے پاس تھا وہ سب کچھ لے کر حاضرِخدمت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کی : ’’میں ان کے لئے اﷲ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے (دل میں) کہا، میں اِن سے کسی شے میں آگے نہ بڑھ سکوں گا۔ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 614ابواب المناقب، رقم : 3675 2. ابو داؤد، 2 : 129، السنن کتاب الزکٰوة، رقم : 1678 3. دارمي، السنن، 1 : 480، رقم : 1660 4. حاکم، المستدرک، 1 : 574، رقم : 1510 5. بزار، المسند، 1 : 394، رقم : 270 6۔ عبدبن حمیدنے ’المسند (ص : 33، رقم : 14)‘ میں سعد بن اسلم سے روایت لی ہے۔ 7. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 579، رقم : 1240 8. مقدسي، الاحاديث المختاره، 1 : 173، 174، رقم : 80، 81 9۔ ابو نعیم نے ’حلیۃ الاولیاء (1 : 32)‘ میں زید بن ارقم سے اسے روایت کیا ہے۔ 10۔ ابن الجوزی نے ’ صفۃ الصفوہ (1 : 241)‘ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت نقل کی ہے۔ 11۔ محب طبری نے بہی ’الریاض النضرہ (1 : 355)‘ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت نقل کی ہے۔ 12. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 180، رقم : 7563 فصل : 22 قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : ما نفعني مال أحد قط ما نفعني مال أبي بکر (کسی کے مال نے کبھی مجھے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا ہے) 106. عن أبي هريرة قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما نفعني مال أحد قطّ ما نفعني مال أبي بکر‘‘ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی کے مال نے کبھی مجھے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا ہے۔‘‘ 1. ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 609، ابواب المناقب، رقم : 3661 2. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 4 : 104، رقم : 6328 3. نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 478 4. ابن منده، الإيمان، 2 : 795 5. خطيب بغداد، تاريخ بغداد، 8 : 21 107. عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما نفعني مال قطّ ما نفعني مال أبي بکر‘‘ قال فبکٰي أبوبکر وقال : هل أنا و مالي إلّا لک يا رسول اﷲ. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کبھی کسی مال نے مجھے اتنا نفع نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے مُجھے فائدہ پہنچایا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور عرض کی : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں اور میرا مال صرف آپ کے لئے ہی ہے۔‘‘ 1. ابن ماجه، السنن، 1 : 36، رقم : 94 2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 253، رقم : 7439 3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 273، رقم : 6858 4. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 577، رقم : 1229 5. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 348، رقم : 31927 6. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 65، رقم : 25 7. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 353، رقم : 511 8. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 393، رقم : 595 9. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 532، رقم : 2166 10. کناني، مصباح الزجاجة، 1 : 16 11. ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 249 12. طحاوي، شرح معاني الآثار، 4 : 158 13. قزويني، التدوين في أخبار قزوين، 3 : 349 14. مناوي، فيض القدير، 5 : 503 15. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 16 16. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 10 : 363، رقم : 5525 فصل : 23 قال رسول اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إنّه ليس أحد أمنّ عليّ فِي نفسه وماله من أبِي بکرابن أبي قحافة رضي اﷲ عنهما (ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر مجھ پر کسی نے احسان نہیں کیا)108. عن ابن عبّاس خرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في مرضه الّذي مات فيه عاصبا رّأسه في خرقة فقعدعلي المنبرفحمد اﷲ وأثنٰي عليه ثمّ قال : ’’إنّه ليس أحد أمنّ عليّ في نفسه وماله من أبي بکرابن أبي قحافة‘‘. ’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مرض وصال میں باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سرانور کپڑے سے لپیٹا ہوا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر مبارک پر جلوہ افروز ہوئے۔ اﷲ رب العزت کی حمد و ثنا بیان کی پھر ارشاد فرمایا : ’’ابوبکر ابن ابی قحافہ سے بڑھ کر اپنی جان و مال (قربان کرنے ) کے اعتبار سے مجھ پر زیادہ احسان کرنے والا کوئی نہیں۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 1 : 178، رقم : 455 2. احمدبن حنبل، المسند، 1 : 270، رقم : 2432 3. ابن حبان، 15 : 275، رقم : 6860 4. ابويعلي، المسند، 4 : 457، رقم : 2584 5. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 35، رقم : 8102 6. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 3، رقم : 1 7. احمد بن حنبل، فصائل الصحابه، 1 : 152، رقم : 134 8. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 97، رقم : 67 9. طبراني، المعجم الکبير، 11 : 338، رقم : 11938 10. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 228 11. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 13 109. عن أبي سعيد قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’إنّ أمنّ النّاس عليّ في ماله وصحبته أبو بکر‘‘. ’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’تمام لوگوں میں سے سب سے زیادہ مجھ پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کا احسان ہے، مال کا بھی اور ہم نشینی کا بھی۔‘‘ 1. مسلم، الصحيح 4 : 1854، کتاب فضائل الصحابة رقم : 2382 2. بخاري، الصحيح، 1 : 177، کتاب الصلاة، رقم : 454 3. بخاري، الصحيح، 3 : 1337، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 3454 4. بخاري، الصحيح، 3 : 1417، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 3691 5. ترمذي، السنن، 5 : 608، کتاب المناقب، رقم : 3660 6. احمدبن حنبل، المسند، 3 : 18، رقم : 11150 7. ابن ابي شيبة، المصنف، 6 : 348، رقم : 3126 8. ابن حبان، الصحيح، 15 : 277، رقم : 6861 9. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 35، رقم : 8103 10. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 3، رقم : 2 11. ابن عبد البر، التمهيد، 20 : 112 12. ابن عبد البر، الاستيعاب، 3 : 967 13. ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 243 14. ابن سعد، الطبقات الکبري، 2 : 227 15. بيهقي، المدخل الي السنن الکبري، 1 : 120، رقم : 58 15. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 14 16. حماد بن اسحاق، ترکة النبي، 1 : 51 110. عن ابن المسيب قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما مال رجل من المسلمين أنفع من مال أبي بکر قال و کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقضي في مال أبي بکر کما يقضي في مال نفسه. ’’ابن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسلمانوں میں سے کسی شخص کے مال نے مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے زیادہ نفع نہیں پہنچایا۔ اور راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مال میں اسی طرح تصرف فرماتے تھے جس طرح اپنے ذاتی مال میں۔‘‘ 1. خيثمه، من حديث خيثمه، 1 : 130 2. معمر بن راشد، الجامع، 11 : 228 3. مناوي، فيض القدير، 4 : 18 4. مناوي، فيض القدير، 5 : 503 5. احمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 1 : 72 6. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 17 111. عن ابن عمر قال اسلم أبوبکر يوم اسلم و في منزله أربعون الف درهم فخرج إلي المدينة من مکة في الهجرة و ماله غير خمسة آلاف کل ذلک ينفق في الرقاب و العون علي الإسلام. ’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو اس وقت انکے پاس گھر میں چالیس ہزار (40000) درہم موجود تھے، لیکن جب آپ رضی اللہ عنہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے نکلے تو اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کے پاس صرف پانچ ہزار (5000) درہم رہ گئے تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کثیر رقم غلاموں کو آزاد کرانے اور اسلام کی خدمت پر خرچ کر دی۔‘‘ 1. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 30 : 68 2. مناوي، فيض القدير، 4 : 18 3. عسقلاني، الاصابه، 4 : 171 4. ابن عبدالبر نے ’الاستیعاب (3 : 966)، میں ہشام بن عروہ سے باختلاف لفظ روایت کیا ہے۔ 5. نووی نے ’تہذیب الاسماء (2 : 480)‘ میں ہشام بن عروہ سے روایت کیا ہے۔ 6. محب طبری، الریاض النضرہ، 2 : 21 (ھشام بن عروہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔ 112. عن زيد بن اسلم قال کان ابوبکر معروفا بالتجارة لقد بعث النبي صلي الله عليه وآله وسلم و عنده أربعون ألف درهم فکان يعتق منها و يقوي المسلمين حتي قدم المدينة القدرة آلاف درهم ثم کان يفعل فيها ما کان يفعل بمکة. ’’حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق مشہور تاجر تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو آپ کے پاس چالیس ہزار درہم موجود تھے آپ اس رقم سے غلاموں کو آزاد کرواتے اور مسلمانوں کو تقویت پہنچاتے تھے یہانتک کہ آپ ہجرت کرکے ہزاروں دراہم کے ساتھ مدینہ طیبہ آگئے۔ یہاں بھی آپ مکہ معظمہ کی طرح دل کھول کر اسلام پر خرچ کرتے رہے۔‘‘ 1. ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 172 2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 30 : 68 3. عسقلاني، الاصابه، 4 : 172 4. الترتب الاداريه، 2 : 24 فصل : 24 قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ما لأحد عندنا يد إلّا وقد کافيناه ما خلا أبابکر (ہمارے اوپر کسی کا کوئی ایسا احسان نہیں جس کا ہم نے بدلہ نہ چکا دیا ہو، سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے)113. عن أبي هريرة قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما لأحد عندنا يد إلّا وقد کافيناه ما خلا أبابکر فانّ له عندنا يدا يکافئه اﷲ به يوم القيامة. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی کا بھی ہمارے اوپر کوئی ایسا احسان نہیں جس کا ہم نے بدلہ چکا نہ دیا ہو، سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق کے۔ بیشک اُن کے ہمارے اوپر احسان ہیں جن کا بدلہ اﷲ رب العزت قیامت کے دن چُکائے گا۔ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 609، ابواب المناقب، رقم : 3661 2. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 4 : 104، رقم : 6328 3. نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 478 4. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 18 5. عسقلاني، فتح الباري، 7 : 13 114. عن علي قال قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم رحم اﷲ أبابکر زوجني ابنته و حملني إلي دارالهجرة و أعتق بلا لا من ما له. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے انہوں نے مجھ سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا، مجھے اٹھا کر دارالہجرت (مدینہ) لے گئے اور اپنے مال سے بلال کو آزاد کروایا۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 633، رقم : 3714 2. ابويعلي، المسند، 1 : 418، رقم : 550 3. بزار، المسند، 3 : 52 4. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 95، رقم : 5906 5. ابن ابي عاصم، السنة، 2 : 577، رقم : 1232 6. قيسراني، تذکرة الحفاظ، 3 : 844 7. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 15 : 278 8. مزي، تهذيب الکمال، 10 : 402 9. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 243 فصل : 25 قرأش عليه رضي الله عنه السلام فقال : أراض أنت عني (اللہ تعالیٰ نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر سلام بھیجا اور پوچھا : کیا تم مجھ سے راضی ہو؟)115. عن ابن عمر، قال : کنت عند النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم وعنده أبوبکر الصّدّيق، وعليه عباء ة قد خلّها في صدره بخلال فنزل عليه جبريل فقال : يا محمّد مالي أرٰي أبابکر عليه عباء ة قد خلّها في صدره؟ فقال : يا جبريل أنفق ما له عليّ قبل الفتح، قال : فإنّ اﷲد يقرأ عليک السّلا م ويقول قل لّه : ’’أراض أنت عنّي في فقرک هٰذا أم ساخط؟‘‘ فقال : رسول اﷲ : يا أبابکر! إنّ اﷲ عزوجل يقرأ عليک السّلام و يقول لک ’’أراض أنت عنّي في فقرک هٰذا أم ساخط؟‘‘ فقال أبوبکر عليه السّلا م أسخط علٰي ربّي؟ أنا عن رّبّي راض، أنا عن رّبّي راض، أنا عن رّبّي راض. ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس حال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے عباء (لباس جو سامنے سے کُھلا ہوا ہو اور اُس کو کپڑوں کے اوپر پہنا جاتا ہے) پہنی ہوئی تھی جس کو اپنے سینے پر خِلال (لکڑی کا ٹکڑا، جس سے سوراخ کیا جاتا ہے) سے جوڑا ہوا تھا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا : ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عباء پہن کر اُسے اپنے سینے پر ٹانکا ہوا ہے؟‘‘ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے جبرئیل علیہ السلام! انہوں نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کر ڈالا ہے۔‘‘ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : ’’اﷲ رب العزت آپ کو سلام فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہیں، کیا تم اپنے اِس فقر میں مجھ سے راضی ہو یا ناراض؟‘‘ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اﷲ رب العزت تم پر سلام فرماتے ہیں اور تمہیں ارشاد فرماتے ہیں، ’’کیا تم اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہو یا ناراض؟‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی۔ ’’میں اپنے ربِ کریم پر ناراض ہوں گا؟ میں تو اپنے رب سے (ہر حال میں) راضی ہوں میں اپنے ربِ کریم سے راضی ہوں۔ میں اپنے ربِ کریم سے راضی ہوں۔‘‘ 1. ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 250 2. ابو نعيم، حلية الاولياء، 7 : 105 3. ابن کثير، تفسيرالقرآن العظيم، 4 : 308 4. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 20 5. خطيب بغدادي، موضح أدهام الجمع والتفريق، 2 : 441 فصل : 26 لم تبقي خوخة في المسجد النبوي غيرخوخة أبي بکر (مسجد نبوی کے صحن میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا دروازہ کھلا رکھا گیا)116. عن أبي سعيد ؛ أنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم جلس علي المنبر فقال : . . . لا تبقينّ في المسجد خوخة إلّا خوخة أبي بکر‘‘ ’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ارشاد فرمایا : ’’. . . مسجد میں کسی کی کھڑکی باقی نہ رہنے دی جائے مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر کی کھڑکی قائم رکھی جائے۔‘‘ 1. مسلم، الصحيح4 : 1854، کتاب فضائل الصحابة رقم : 2382 2. بخاري، الصحيح، 1 : 177، کتاب الصلاة، رقم : 454 3. بخاري، الصحيح، 3 : 1417، کتاب، فضائل الصحابة، رقم : 3691 4. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 608، کتاب المناقب، قم : 3660 5. ابن حبان، الصحيح، 15 : 277، رقم : 6861 6. ابن حبان، الصحيح، 14 : 559، رقم : 6594 7. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 35، رقم : 8103 8. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 3، رقم : 2 9. ابن عبد البر، التمهيد، 20 : 112 10. ابن عبد البر، الاستيعاب، 3 : 967 11. حماد بن اسحاق، ترکة النبي، 1 : 51 12. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 12 117. عن ابن عبّاس خرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في مرضه الّذي مات فيه عاصبا رّأسه في خرقة فقعدعلي المنبرفحمد اﷲ وأثنٰي عليه ثمّ قال : . . . سدّ وا عنّي کلّ خوخة في هٰذا المسجد غير خوخة أبي بکر‘‘ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مرضِ وصال میں باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سرِانور کپڑے سے لپیٹا ہوا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر مبارک پر جلوہ افروز ہوئے۔ اﷲ رب العزت کی حمد و ثنا بیان کی پھر ارشاد فرمایا : ’’. . . اس مسجد میں کھلنے والی ہر کھڑکی بند کر دو سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے۔‘‘ 1. احمدبن حنبل، المسند، 1 : 270، رقم : 2436 2. بخاري، الصحيح، 1 : 178، رقم : 455 3. ابن حبان، 15 : 275، رقم : 6860 4. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 35، رقم : 8102 5. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 3، رقم : 1 6. احمد بن حنبل، فصائل الصحابه، 1 : 152، رقم : 134 7. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 97، رقم : 67 8. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 228 9. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 13 118. عن عائشة، أنّ النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم أمر بسدّ الابواب إلّا باب أبي بکر ’’ام المؤمنین عائشہ صِدِّیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسجد میں کھلنے والے) تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم ارشاد فرمایا، سوائے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دروازے کے۔ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 616، ابواب المناقب، رقم : 3678 2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 272، رقم : 6857 3. دارمي، السنن، 1 : 51 4. ابو يعلي، المسند، 8 : 137، رقم : 4678 5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 442، رقم : 4121 6. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 532، رقم : 2170 7. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 70، رقم : 33 8. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 353، رقم : 512 9. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 407، رقم : 629 10. طبري، تاريخ الأمم و الملوک، 2 : 229 11. نيشاپوري، معرفة علوم الحديث، 1 : 99 فصل : 27 أحسن الناس أخلاقا (صدیق اکبر رضی اللہ عنہ. . . حسن خلق کا پیکر اتم) 119. عن عبداﷲ بن عمر رضي الله عنه قال : ثلاثة من قريش أصبح قريش وجوها وأحسنها أخلاقا وأثبتها حياء إن حدّثوک لم يکذبوک وإن حدّثتهم لم يکذّبوک أبوبکر الصّدّيق وأبو عبيدة بن الجرّاح وعثمان بن عفّان رضي اﷲ عنهم. ’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنھم سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : قریش میں سے تین افراد ہیں جو سب سے زیادہ روشن چہرے والے، سب سے زیادہ حسنِ اخلاق کے حامل اور حیاء کے اعتبار سے سب سے زیادہ ثابت قدم ہیں۔ اگر وہ تمہارے ساتھ بات کریں تو جھوٹ نہیں بولیں گے اور اگر تُم اُن کے ساتھ بات کرو گے تو تمہیں نہیں جھٹلائیں گے، وہ حضرت ابوبکر، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنھم ہیں۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 56، رقم : 16 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 157 3. ابو نعيم، حلية الاولياء، 1 : 56 4. مزي، تهذيب الکمال، 14 : 56 5. عسقلاني، الاصابه، 3 : 589 6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 25 : 475 120. عن أنس بن مالک قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ أرحم أمّتي بأمّتي أبوبکر و أشدّ هم في أمراﷲ عمر و أصدقهم حياء عثمان‘‘. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور اﷲ کے احکامات کے معاملے میں سب سے زیادہ شدت والے عمر رضی اللہ عنہ ہیں اور حیاء کے اعتبار سے سب سے زیادہ مضبوط عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 664، رقم : 3890 2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 665، رقم : 3891 3. ابن ماجه، السنن، 1 : 55، رقم : 154 4. نسائي، السنن الکبري، 5 : 67، رقم : 8242 5. نسائي، السنن الکبري، 5 : 67 رقم : 8287 6. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 477، رقم : 5784 7. ابن حبان، الصحيح، 16 : 238، رقم : 7252 8. بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 210، رقم : 11966 9. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 41، رقم : 138 10. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 55، رقم : 182 11. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 548، رقم : 2218 12. مقدسي، الأحاديث المختارة، 6 : 227، رقم : 2242 13. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 4 : 474 14. احمد بن علي، الفصل الموصل المدرج، 2 : 679 121. عن جابر بن عبداﷲ الانصاري رضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أرحم أمتي بأمتي أبوبکر و أرفق أمتي لأمتي عمر بن الخطاب و أصدق أمتي حياء عثمان وأقضي أمتي علي بن أبي طالب. ’’حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت میں سے اسکے ساتھ سب سے زیادہ رحمدل ابوبکر ہے اور میری امت میں سے سب سے زیادہ نرم رو عمر بن خطاب ہے اور میری امت میں حیاء کے اعتبار سے سب سے سچے عثمان ہیں اور میری امت میں سے سب سے بڑے قاضی علی بن ابی طالب ہیں۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 335، رقم : 556 2. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 228 3. عجلوني، کشف الخفاء، 1 : 118 122. عن عبداﷲ بن عمر رضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’من جرّ ثوبه خيلاء، لم ينظر اﷲ إليه يوم القيامة‘‘ فقال أبوبکر : إنّ أحد شقّي ثوبي يسترخي، إلّا أن أتعاهد ذٰلک منه؟ فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’إنّک لست تصنع ذٰلک خيلاء.‘‘ ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جس نے اپنے کپڑے کو تکبر کرتے ہوئے گھسیٹا، قیامت کے دن اﷲ رب العزت اس کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا‘‘۔ حضرت ابوبکر (صدیق رضی اللہ عنہ) نے عرض کی۔ ’’میرے کپڑے کا ایک کونہ عموماً لٹک جاتا ہے سوائے اس صورت کے کہ میں اس کی احتیاط کروں‘‘۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’تم ایسا ازراہِ تکبر نہیں کرتے۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1340، کتاب المناقب، رقم : 3465 2. بخاري، الصحيح، 5 : 281، کتاب المناقب، رقم : 5447 3. ابوداؤد، السنن، 4 : 56، کتاب اللباس، رقم : 4085 4. نسائي، السنن، 8 : 208، رقم : 5335 5. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 67، رقم : 5351 6. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 104، رقم : 5816 7. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 136، رقم : 6203 8. ابن حبان، الصحيح، 12 : 261، رقم : 5444 9. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 301، رقم : 13178 10. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 301، رقم : 13174 11. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 491، رقم : 9721 12. بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 243، رقم : 3131 13. بيهقي، شعب الايمان، 5 : 143، رقم : 6120 14. ابن عبدالبر، التمهيد، 3 : 249 15. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 476 16. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 147 123. وفي تلقيح الأذهان لحضرة الشّيخ الأکبر. قال صلي الله عليه وآله وسلم : ’’إنّ للّٰه ثلاث مائة وستّين خلقا، من لقيه بخلق منها مع التّوحيد دخل الجنّة.‘‘ قال أبو بکر رضي الله عنه : ’’هل فيّ منها يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ‘‘ قال : ’’کلّها فيک يا أبا بکر وأحبّها إلي اﷲ السّخاء.‘‘ ’’حضرت شیخ اکبر کی ’’تلقیح الاذھان‘‘ میں ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’بے شک اللہ تعالیٰ کے خلق کی تین سو ساٹھ (360) صورتیں ہیں، جو شخص اﷲ رب العزت سے اِس حال میں مُلاقات کرے کہ اُس میں توحیدِ اِلٰہی کے ساتھ اُن صفات میں سے ایک بھی صفت پائی جائے وہ جنت میں داخل ہو گا‘‘۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا اُن میں سے کوئی میرے اندر بھی پائی جاتی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے ابوبکر ! حُسن خُلق کی وہ تمام کی تمام صورتیں تُمھارے اندر پائی جاتی ہیں اور اُن میں سے اﷲ کے ہاں سب سے پسندیدہ ’سخاوت‘ ہے۔‘‘ فصل : 28 کونه جامع الحسنات کلها (صدیق اکبر رضی اللہ عنہ. . . جملہ حسنات کے جامع)124. عن الزّهريّ قال : أخبرني حميد بن عبدالرّحمٰن بن عوف : أنّ أبا هريرة قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : ’’من أنفق زوجين من شيء من الأشياء في سبيل اﷲ، دعي من أبواب. يعني : ألجنّة. يا عبداﷲ هٰذا خير، فمن کان من أهل الصّلاة دعي من باب الصّلاة، ومن کان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد، ومن کان من أهل الصّدقة دعي من باب الصّدقة، و من کان من أهل الصّيام دعي من باب الصّيام، وباب الرّيّان.‘‘ فقال أبوبکر : ما علٰي هٰذا الّذي يدعٰي من تلک الأبواب من ضرورة، وقال : هل يدعٰي منها کلّها أحد يا رسول اﷲ؟ قال : ’’نعم، وأرجو أن تکون منهم يا أبابکر.‘‘ ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ’’جو اﷲ کی راہ میں ایک چیز کا جوڑا خرچ کرے گا تو اُسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا۔ اے اﷲ کے بندے! یہ خیر ہے۔ پس جو اہل الصلوٰۃ (نمازیوں) میں سے ہو گا اُس کو بابُ الصلوٰۃ سے بُلایا جائے گا اور جو اہلِ جہاد میں سے ہو گا اُسے بابُ الجہاد سے بلایا جائے گا اور جو اہلِ صدقہ (خیرات والوں) میں سے ہو گا اُسے بابُ الصدقہ سے بلایا جائے گا اور جو اہلِ صِیام (روزہ داروں) میں سے ہو گا اُسے بابُ الصیام اور بابُ الريّان سے بلایا جائے گا۔‘‘ پس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی جو اِن سارے دروازوں سے بلایا جائے اُسے تو خدشہ ہی کیا۔ پھر عرض گزار ہوئے، ’’یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا کوئی ایسا بھی ہے جو ان تمام دروازوں میں سے بلایا جائے گا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’ہاں، اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! مجھے امید ہے کہ تم اُن لوگوں میں سے ہو‘‘ (جنہیں تمام دروازوں میں سے بلایا جائے گا)۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1340، کتاب المناقب، رقم : 3466 2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 268، رقم : 7621 3. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 449، رقم : 9799 4. ابن حبان، الصحيح، 8 : 206، رقم : 3418 5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 207، رقم : 3419 6. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 353، رقم : 31965 7. نسائي، السنن الکبريٰ، 2 : 6، رقم : 2219 8. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 36، رقم : 8108 9. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 4، رقم : 7 10. ابونعيم، المسند المستخرج علي صحيح الامام مسلم، 3 : 101، رقم : 2296 11. بيهقي، شعب الايمان، 3 : 255، رقم : 3468 12. معمر بن راشد، الجامع، 11 : 107 13. ابن ابي عاصم، السنة، 2 : 578، رقم : 1237 14. بيهقي، السنن الکبري، 9 : 171، رقم : 163 15. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 476
  10. NAJAMMIRANI

    شانِ اولیاء

    یہ ایک امر واقعہ ہے کہ اپنی سطوت و شوکت کے کم و بیش بارہ سو سالہ عروج کے بعد جب سے اُمتِ مسلمہ زوال و اِنحطاط کا شکار ہوئی ہے، زِندہ قوموں کی طرح دینی و دنیوی ترقی و فلاح کی طرف عازمِ سفر رہنا بھول چکی ہے۔ ہم نے خود کو سطحی اور لایعنی اِختلافات میں اُلجھا کر اقوامِ عالم کو اِس بات کا کھلا موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ہمارے اَسلاف کی علمی و فکری اور سائنسی تحقیقات کے ثمرات سے مستفید ہو سکیں اور خود منظرِ ہستی سے دُور کنارے ہٹ کر زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں اور صحیح معنوں میں اپنی اِس شکست کا اِدراک بھی نہیں رکھتے۔ نتیجتاً ذِلت و رسوائی، زوال و مسکنت اور اِدبار و اِنحطاط کے دبیز سائے ہمارا مقدّر بن کر رہ گئے ہیں۔ عالمِ اسلام کی موجودہ زبوں حالی اور اُمتِ مسلمہ کی ناکامی کا ایک بڑا سبب سائنسی علوم کی طرف ہماری عدم توجہی اور اِغماض کی روِش ہے، جس کے نتیجے میں اُمتِ مسلمہ اَقوامِ عالم کے مقابلے میں کسی بھی میدانِ مسابقت میں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ اگر ہم دِقتِ نظر سے تاریخِ اِنسانی کا بے لاگ مطالعہ کریں تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ہمارے اَسلاف نے ایک ہزار سال کے طویل عرصہ تک پوری دنیا کو فکر و فلسفہ اور علم و ہنر کے بے مثال کارناموں کے ساتھ بے شمار سائنسی علوم کی بنیادوں سے بھی فیض یاب کیا۔ جدید سائنس جسے بجا طور پر عصری علم قرار دیا جاسکتا ہے، اُسے ترقی کے موجودہ بامِ عروج تک پہنچانے میں ہمارے روشن ضمیر آباء و اجداد کی علمی خدمات کا بہت بڑا عمل دخل تھا۔ اُنہوں نے علم و ہنر کی جو شمع روشن کی اُس سے جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی اَقوامِ مغرب نے اِکتسابِ نور کیا۔ اَسلاف کی حکمت اور ہماری بے تدبیریہمارے اَسلاف نے اپنے دور کے عصری علوم کے ذریعے اُن حملوں کے خلاف جو عالمِ کفر کی طرف سے اِسلامی عقائد و نظریات پر کئے جاتے رہے، موثر دفاع کیا۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے وہی ہتھیار استعمال کیا جو دُشمن کا ہتھیار تھا۔ ذہنی قضیوں پر مشتمل یونانی فلسفے کا جواب عقلی و منطقی انداز سے دیا اور ان حملوں کو اپنی عقلی و فکری توجیہات اور علمی تصریحات سے ناکارہ بنا کر رکھ دیا اور اسلام کی صداقت و حقانیت پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ مگر افسوس صد افسوس تقریباً پچھلی دو صدیوں سے وہ پانسہ پلٹ چکا ہے اور عصری علوم کی وہ بساط جو اپنے دورِ عروج میں مسلمان اہلِ علم و دانش نے بچھائی تھی، اُس پر غیرمسلم قومیں قابض ہیں۔ آج کا مسلمان ہر میدان میں راہِ پسپائی اِختیار کرنے کے بعد اُن کا دستِ نگر اور تابعِ مہمل بن کر رہ گیا ہے۔ پچھلی ایک صدی سے بالعموم اور گزشتہ نصف صدی سے بالخصوص مغرب کی طرف سے سائنسی اندازِ فکر میں اِسلامی عقائد و تعلیمات پر جو تابڑ توڑ جارحانہ حملے ہوتے چلے آرہے ہیں، ہمارے اَسلاف کو اُن کا سامنا نہ تھا۔ باطل اور عالمِ کفر کے یہ حملے پہلودار اور کئی جہتوں کے حامل ہیں اور معاملہ اُس وقت اور بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے جب ہمارے نام نہاد مذہبی سکالر مغربی فکر کے خوشہ چیں ہوجاتے ہیں اور اہلِ مغرب جو سِرے سے رُوحانیت کے قائل ہی نہیں، اُن کی اِلہاد پرور اور مادّہ پرستانہ سوچ اور ذِہنیت کا پرچار کرنے لگتے ہیں۔ ہمارے یہ سطح بین دانشور مغربی اہلِ علم کی ہمنوائی میں اُن کے نظریات و خیالات کی جگالی کرتے ہیں اور اُس رُوحانیت کی نفی کو جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل کی بنیاد ہے، اپنا شِعار بنالیتے ہیں۔ اِس صورتِ حال کا گہرائی میں جاکر ناقدانہ تجزیہ (Critical Analysis) کریں تو اِس کا یہ بنیادی سبب سامنے آتا ہے کہ اِس وقت علم و دانش کا مرکز عالمِ اسلام کی بجائے مغرب اور یورپ کی درسگاہیں بنی ہوئی ہیں اور اُن کے وضع کردہ سانچوں میں ڈھلنے والا علمی سرمایہ مغربی ملحدانہ فکر و فلسفہ کی گہری چھاپ رکھتا ہے۔ زمانۂ حال کے مسلم علماء و محققین کی بڑی اکثریت مغربی فکر سے متاثر اور مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ نتیجتاً اِسلام پر سائنسی بنیادوں پر کئے جانے والے تازہ مغربی حملوں کا اُن کے پاس کوئی موثر اور خاطر خواہ جواب نہیں ہوتا اور وہ اُن حملوں کے جوب میں اکثر معذرت خواہانہ رویہ اپناتے ہیں یا پھر دقیانوسی یونانی فکر و فلسفہ کے بل بوتے پر جواب دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ہماری فکری کم مائیگی اور اِفلاس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ علمی سطح پر یونان کو ختم ہوئے صدیاں گزر گئیں مگر ہمارے دینی مدارس میں یونانی فلسفہ ابھی تک شاملِ نصاب ہے۔ عملی و فکری اِرتقاء میں حائل اِس جمود کے نتیجے میں ہماری تخلیقی قوت و توانائی (Creative Energy) کے سُوتے خشک ہو چکے ہیں۔ ایسے میں باطل کی فکری و علمی یلغار کا مقابلہ کیونکر ممکن ہے! بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ : گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا کہاں سے آئے صدا لَا الٰہ الَّا اﷲ مضبوط مقدمہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کمزور وُکلاءمقامِ تاسف ہے کہ عصرِ حاضر میں عالمِ اسلام مضبوط دلائل ہونے کے باوجود اچھے وکلاء نہ ہونے کی بناء پر اپنا مقدمہ ہارتا نظر آرہا ہے جبکہ عالمِ طاغوت اور اسلام دشمن قوتیں اپنا کمزور مقدمہ مضبوط اور طاقتور وکلاء کی محنت کی وجہ سے جیتتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس صورتِ حال کا مداوا صرف اِسی صورت ممکن ہے کہ اسلامی علوم کی اشاعت کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی ترویج اور فروغ پر بھی ہر ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔ عصری علوم کے سیکھنے اور سکھانے پر توجہ اِس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ قدیم یونانی فلسفہ کی نسبت قرآن و سنت سے زیادہ قریب تر ہیں اور موجودہ دَور کے اکثر سائنسی حقائق و اِنکشافات قرآن و حدیث کے ماخذ و مصادر سے حاصل کردہ معلومات کی تصدیق و توثیق (Verification & Validation) کرچکے ہیں۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ جوں جوں جدید سائنس کی تحقیقات کا دامن پھیلتا چلا جائے گا، اِسلامی تعلیمات کی حجیت اور قطعیت سارے عالم پر آشکار ہوتی چلی جائے گی اور اِس ضمن میں مزید ترقی اور اِرتقاء کے اِمکانات کھلتے چلے جائیں گے۔ عالمِ اِسلام کے موجودہ حالات کن اسباب و عوامل کا نتیجہ ہیں؟ کیا سبب ہے کہ ہم اپنے نقطۂ نظر، اِستدلال اور نظریئے کے درست ہونے کے باوجود زمانے کی عدالت میں اپنے مقدمے کی وکالت ٹھیک طور سے نہیں کر پا رہے اور جدید دنیا ہمارے مبنی برحق مؤقف اور اِستدلال کو تسلیم کرنے سے اِنکاری ہے؟ اِس صورتحال کا بے لاگ تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے کہ ہم مِن حیث المجموع دورِ حاضر کے تقاضوں سے کما حقہ آگاہ نہیں ہیں۔ اُمتِ مسلمہ کی اکثریت اُس زبان سے با خبر نہیں جس کے ذریعے عالمی رائے عامہ کی عدالت میں اغیار کو اپنے مؤقف پر قائل کیا جا سکتا ہے۔ ہم اس اسلحہ و تکنیک سے یکسر محروم ہیں جس سے لیس ہوکر اِسلام دُشمن قوتیں ہم پر تابڑ توڑ حملے کر رہی ہیں۔ دُشمن اِنٹرنیٹ پر قرآنِ مجید میں تحریف کرتا ہے تو ہم اُس کا جواب اُسی سطح پر دینے کی بجائے فقط اپنے رسائل و جرائد میں اِس عملِ قبیح پر ملامت کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ دشمن ہم پر توپوں اور ٹینکوں سے مسلح ہوکر حملہ کر رہا ہے اور ہم اُس کے مقابلے میں تیر کمان لئے کھڑے ہیں۔ وہ ہماری صفوں کو منتشر کرنے کے لئے بمباری کرتا ہے اور ہم پتھر لئے اُس کے مقابلے میں نکل آتے ہیں۔ کفر و اِلحاد کی سازشوں کا توڑدورِ جدید میں سائنس برق رفتار ترقی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ مغربی دُنیا کو بجا طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کی محیرالعقول ترقی پر ناز ہے اور وہ اُس علمی برتری اور سائنسی ترقی کے بل بوتے پر دیگر بہت سی مفلس و کمزور قوموں کی طرح عالمِ اسلام کو بھی اپنا زیرنگیں بنا کر رکھنا چاہتی ہے۔ جدید تہذیب۔ ۔ ۔ جو فی الحقیقت سائنسی تہذیب کا دُوسرا نام ہے۔ ۔ ۔ جغرافیائی فاصلوں کا خاتمہ کرتی چلی جارہی ہے۔ لاکھوں میل کی مسافت میں بکھری اِنسانی آبادی گلوبل ویلج (Global Village) بن کر رہ گئی ہے۔ سائنسی تحقیقات کی بدولت صحرا و بیاباں لہلہاتے کھلیانوں اور گلستانوں میں تبدیل ہو رہے ہیں اور زیر زمین مدفون خزانے اِنسان کے قدموں میں ڈھیر ہو رہے ہیں۔ سائنس نے دورِ حاضر کے اِنسان کے ہاتھوں میں وہ قوت دے دی ہے جس کے بل بوتے پر وہ پوری دنیا کے وسائل کو اپنے تصرّف میں لاسکتا ہے۔ لیکن قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ مغربی اَقوا م سائنس اور ٹیکنالوجی پر قابض ہونے کی وجہ سے دنیا کی پس ماندہ قوموں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا محتاج اور دستِ نگر رکھنا چاہتی ہیں۔ اِس سلسلے میں اُن کا خصوصی ہدف دنیا بھر کے مسلمان ہیں، جنہیں وہ سائنسی ترقی کے ثمرات اور ٹیکنالوجی سے محروم رکھنے کے لئے ہر قسم کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے کام لے رہے ہیں۔ دُوسری طرف ہمارا حال یہ ہے کہ دورِ جدید کے عصری و سائنسی علوم کی ترویج اور تعلیم کی بجائے ہزاروں سال پرانے یونانی فلسفہ جیسے متروک علوم کو ابھی تک اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور اُن کی تدریس ہماری اِسلامی درسگاہوں میں ابھی تک شاملِ نصاب چلی آرہی ہے۔ جدید سائنس اپنی طویل تحقیقات کے بعد جن نتائج پر پہنچی ہے، اُن میں سے بیشتر قرآن و حدیث میں بیان کردہ حقائق کی توثیق و تصدیق کرتے ہیں۔ اِن حالاتمیں تمام مسلم ممالک کے علماء، محققین اور سائنس دانوں کا فرضِ منصبی ہے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور عالمِ اسلام کو علمی و فکری اِفلاس اور پس ماندگی سے نجات دِلانے کے لئے ایک ایسا لائحۂ عمل اِختیار کریں جس سے موجودہ دِگرگوںصورتحال کا مداوا ممکن ہو۔ سائنسی علوم کی روشنی میں ’’جدید علمِ کلام‘‘ کی ضرورتاوائل دورِ اِسلام میں جب سائنسی علوم ابھی رحمِ مادر میں تھے اور یونانی فلسفہ ہی چہار دانگِ عالم میں عقل کا معیارِ اَتمّ تصور کیا جاتا تھا، تب ہمارے اَسلاف ائمہ کرام نے اِسلامی تعلیمات و نظریات کے فروغ کے لئے اِسلام پر ہونے والے فلسفیانہ حملوں کا جواب یونانی فلسفہ ہی کی زبان میں دیا تھا اور یہی ایک مؤثر صورت تھی جو علمِ کلام کے نام سے معروف ہوئی۔ موجودہ نسل سائنسی دَور میں پروان چڑھی ہے۔ آج کا کم پڑھا لکھا سادہ اِنسان جسے سائنسی علوم سے اِس قدر شغف نہیں، وہ بھی سائنسی طریق کار سے کم از کم ضرور آگاہ ہے، اور جانتا ہے کہ سائنسی بنیادوں پر کام کرنے سے کس طرح نتائج 4=2+2 کی طرح منطقی انداز سے درُست برآمد ہوتے ہیں۔ دَورِ حاضر کے اِنسان سے مخاطب ہونے اور اُسے اِسلامی تعلیمات و عقائد سے رُوشناس کرانے کے لئے ’’جدید علمِ کلام‘‘ کی ضرورت ہے۔ موجودہ دَور ’’صغریٰ‘‘ اور ’’کبریٰ‘‘ کے درمیان موجود ’’حدِاوسط‘‘ کو گرا کر ’’نتیجے‘‘ تک پہنچنے کا دَور نہیں بلکہ اِس دَور میں تجربہ، مشاہدہ، مفروضہ اور پھر بارہا تجربات سے حاصل ہونے والے تنظیم شدہ نتائج کے ذریعے ’’نظریئے‘‘ تک پہنچنے کا اُسلوب ’’حقیقت‘‘ تک رسائی کے عقلی اُسلوب کے طور پر مانا جاتا ہے۔ قرونِ اولیٰ میں یونانی فلسفے کی اِسلامی عقائد پر یلغار کے جواب میں اُس دَور کے ائمہ کرام نے علمِ کلام کو فروغ دیا اور اُس کے ذریعے یہ ثابت کر دیا کہ اِسلام ہی دینِ برحق ہے۔ آج اگر ہم اِسلام کی حقیقی خدمت اور تبلیغِ دین کا فریضہ سراِنجام دینے کے خواہشمند ہیں تو ہمیں اُنہی اَئمہ کرام کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے موجودہ دَور کی عقل کی کسوٹی۔ ۔ ۔ سائنسی طریق کار۔ ۔ ۔ کے مطابق اِسلام کی ترویج و اِشاعت کا فریضہ سراِنجام دینا ہو گا اور مستشرقین کے نازیبااور اِسلام کش وطیروں کا سدباب کرنے کے لئے’’ جدید علمِ کلام‘‘ اپنانا ہو گا، جس میں سائنسی اندازِ فکر رکھنے والے معاشروں تک اِسلام کا پیغام بحسن و خوبی پہنچانے کا اِنتظام ہو۔ اِسلام کا مؤثر اور خاطر خواہ دِفاع صرف اِسی صور ت میں ممکن ہے کہ ہم دین کے علم کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے کے لئے نسلِ نو کے طلباء کو جدید سائنسی علوم اور نظریات و تحقیقات سے شناسا کریں تاکہ اُن تعلیمات کی روشنی میں وہ عصری علوم سے مسلح ہوکر اُن حملوں کا مقابلہ کرسکیں جو مغرب کی طرف سے اِسلام پر کئے جا رہے ہیں۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کا فروغ تو کجا محض ان کا دِفاع بھی اِس کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمارا یہ اِقدام بعینہ اپنے اَسلاف کی سنت پر عمل ہو گا۔ جس طرح اُنہوں نے اپنے زمانے میں یونانی فلسفہ کو شاملِ نصاب کر کے اور یونانی علوم پر دسترس حاصل کر کے یونانیوں کے غیرفطری فکر و فلسفہ کا ردّ کیا، اُسی طرح ہمیں بھی جدید سائنس پر یدِطولیٰ حاصل کر کے مغربی ملحدانہ و کافرانہ نظریات و تصورات کا ردّ کرنا ہو گا۔ بصورتِ دیگر اِسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا خواب کسی طور پر بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پائے گا۔ فی زمانہ صورتحال یہ ہے کہ علم تو اپنی معراج کی طرف سرگرداں ہے اور ہم یکسر لکیر کے فقیر بنے ہوئے اپنی اُسی روِش پر قائم ہیں۔ اِس سے پہلے کہ اِسلام دُشمن قوتیں ہمیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیں ہمیں اپنی حکمت و دانش سے مؤثر اِقدام کے ذریعے اُن کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دینا ہوگا۔ اُٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی بپا دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا نام نہاد مبلغین کا رُوحانی اِسلام سے فرارکتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ اِس خلفشار اور بے یقینی کے دَور میں جب اِسلام کو ہر طرف سے تختۂ مشق بنایا جارہا ہے، اُمتِ مسلمہ ہی کے کچھ ایسے اَفراد نام نہاد واعظین و مبلغین کے لبادہ میں مصروفِ عمل ہیں، جنہوں نے رُوحانی اِسلام کی تبلیغ و ترویج کی بجائے اِسلام کے مادّی تصوّر کو اُبھارنا اپنا مطمعِ نظر بنالیا ہے۔ رُوحانیت کی نفی، عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنکار، معجزات کا ردّ اور کشف کی تکذیب پر اپنی زبان و قلم کا زور صرف کرنا اُن کا شِعار ہے۔ اولیاء و صوفیاء کی محبت اور اُن کی تعلیمات سے اِنکاری ہوکر وہ اِسلام کا ایسا مَن گھڑت تصوّر پیش کرتے ہیں جو اُن کی مادّی توجیہہ سے تو ہم آہنگ ہے لیکن اِسلام کی حقیقی تعلیمات کے ساتھ اُس کا دُور کا بھی علاقہ نہیں۔ یوںاِس نقطہ پر آ کراُن کی اور دُشمنانِ اِسلام مستشرقین کی بولیاں کسی حد تک ایک دوسرے سے مل بھی جاتی ہیں۔ اِس لئے کہ اِسلام دُشمن نظریات کے حامل مغربی دانشور اور مستشرقین بھی اُمتِ مسلمہ کو اُسی سرچشمے سے دُور کرنا چاہتے ہیں جو رُوحانیت سے پھوٹتا ہے اور یہ نام نہاد مبلغینِ اِسلام بھی رُوحانیتِ اِسلام کے فیضان سے مُنکر ہوکر اُن کے ہم نوا بن گئے ہیں۔ اَغیار تو ببانگِ دُہل یہ بات کہتے نہیں تھکتے کہ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح زندہ اور رُوحانی فیضان کے حامل ہو سکتے ہیں؟ یہ کج نہاد اور برخود غلط علماء بھی یہی بات کہتے ہیں کہ ہمارا نبی زندہ نہیں۔ وہ صرف قرآن کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں اور صاحبِقرآن کی عظمت و رُوحانیت سے اِنکاری ہیں۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ دینی مدارس میں تبلیغِ دین کا فریضہ سراِنجام دینے والے علماء کا عوام کی بڑی اکثریت سے رابطہ اور تعلقِ خاطر بالکل کٹ چکا ہے۔ وہ میدان جہاں تبلیغ کی اصل ضرورت ہے، وہ اُن کے حلقۂ اَثر سے باہر ہے۔ اِس وقت اِسلام کے نظریات و تصوّرات کی جنگ جس سطح پر شرق تا غرب، عرب و عجم کی سرزمین پر شدّ و مدّ کے ساتھ لڑی جارہی ہے، وہ ہمارے عام علماء کی رسائی سے باہر ہے۔ اگر ہمارے علماء میں سے کوئی کفر و اِلحاد کے معرکوں کا مقابلہ کرنے کے لئے وہاں پہنچتا بھی ہے تو وہ عصری علوم سے محرومی کی بنا پر دَعوت و تبلیغ کے لئے اُن دلائل کا سہارا لیتا ہے جو قرآن و سنت اور دَورِ حاضر کی علمی تہذیب کی سطح سے کہیں نیچے ہیں۔ اُن کے پاس محض کتابی و کراماتی دلائل ہیں یا تذکرے، مناظرے، فتوے اور اَشعار سے مزین باتیں اور تنقیدیں، جن سے وہ آج کے سائنسی ذِہن کی تسلی و تشفی نہیں کرسکتے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ قرآنی آیات اور اَحادیثِ مبارکہ سے جو مؤقف ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ اُن سے نہیں ہو پاتا اور خلطِ مبحث سے یہ نہیں کھل پاتا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط! وہ قرآنی آیات اور اَحادیث کی غلط تفسیر و توجیہہ کر کے اِس بات کو شِرک اور بدعت ثابت کرتے ہیں جو شِرک اور بدعت نہیں۔ اِسی طرح فتووں کا کاروبار گرم کر کے اُنہوں نے تکفیر سازی کے کارخانے کھولے ہوئے ہیں، جن سے وہ جسے چاہیں آنِ واحد میں کافر ثابت کردیتے ہیں۔ یوں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ قرآن و سنت کا نام لے کر قرآن و سنت پر مبنی عقیدے کی جڑیں کاٹی جا رہی ہیں اور کوئی اُن کے قلم اور زبان کو روکنے والا نہیں۔ (اِس موضوع پر اِسلامی عقیدے کی جزئیات سے آگہی کے لئے راقم کی کتب ’’عقیدۂ توحید اور حقیقتِ شِرک‘‘ اور ’’تصورِ بدعت اور اُس کی شرعی حیثیت‘‘ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے)۔ نسلِ نو کو رُوحانی اِسلام کی ترغیباِشاعت و تبلیغِ دِین کے ذریعے نئی نسل کو اِسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی عقلی و سائنسی ترغیب وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لیکن مقامِ اَفسوس ہے کہ ہمارے کج فکر نام نہاد مبلغینِ اِسلام قرآن و حدیث ہی کے ناقص اِستنباط و اِستدلال کا سہارا لیتے ہوئے نوجوانوں کو اِسلامی تعلیمات کے قریب لانے کی بجائے اُن کی دِین سے دُوری کا باعث بن رہے ہیں۔ موجودہ دورِ فتن کے پیشِ نظر عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ عام طور پر علمائے کرام اِسلام کی صحیح وکالت میں ناکامی کی صورت میں زمانے کو بُرا بھلا کہنے لگ جاتے ہیں۔ اپنے نامناسب طرزِعمل اور زمانے کا ساتھ نہ دے سکنے والے فکر پر نظرِ ثانی کی بجائے زمانے کو گالی دے کر اپنے فرائضِ منصبی سے سبکدوش ہو جانا ایک آسان کام ہے۔ اِسی وجہ سے سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا : لَا تَسَبُّوْا الدَّهْرَ فَاِنَّ اﷲَ هُوَ الدَّهْر. (مسند احمد بن حنبل، 5 : 299، 311) زمانے کو گالی نہ دو، زمانہ خود خدا ہے۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانِ مبارک اپنے اندر بیش بہا لطائف و معارف کا خزانہ رکھتا ہے۔ زمانے کو برا کہنے سے کوئی بات نہیں بنے گی بلکہ اِس کے برعکس معاملہ اور بگڑ جائے گا۔ اِس لئے کہ زمانے کا کام عدل کرنا ہے، اُسے سُستِ نہاد و سُست کوش مسلمانوں کے نفع و نقصان سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ تو اُ س کے حق میں فیصلہ دے گا جو اپنا مؤقف بہتر طریقے سے اُس کے سامنے پیش کرے گا۔ علماء و مبلغین کی ایک بڑی اکثریت عام طور پر قرآن و حدیث کو جس انداز سے پیش کر رہی ہے، وہ نئی نسل کو اِسلام کی طرف راغب کرنے کی بجائے اُس کے اندر مذہب بیزاری اور گمراہی کے رُجحانات کو فروغ دے رہا ہے۔ وہی قرآن جو سراپا ہدایت ہے، اُس کی مَن مانی اور غلط تشریحات سے گمراہی بھی اَخذ کی جا سکتی ہے اور ایسا فی الواقع ہو رہا ہے۔ قرآن حکیم اپنے بارے میں خود فرماتا ہے : يُضِلُّ بِه کَثِيْراً وَّ يَهْدِیْ بِه کَثِيْراً. (البقره، 2 : 26) یہ (قرآن) بہت سوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے۔ عالمِ اِسلام کی موجودہ نوجوان نسل بالعموم اور پاکستانی نسل بالخصوص جدید سائنسی تعلیم سے آراستہ ہوکرقرآن و سنت پر مبنی اُن عقائد و نظریات اور اَعمال کو تنقیدی نظر سے دیکھنے لگی ہے اور اُنہیں اَوہام و رسوم سے زیادہ درجہ دینے کو تیار نہیں، جو بزرگوں سے اُن تک روایتی انداز میں پہنچے ہیں۔ مغربی یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ جدید نسل جب رُوحانی سلسلوں کا نام سنتی ہے تو وہ اپنے بزرگوں کے سامنے جراتِ لب کشائی کرتے ہوئے اِستفسار کرنے لگتی ہے کہ یہ قادری، سہروردی اور چشتی سلسلے کیا ہیں؟ اِن کی اِفادیت اور ضرورت کیا ہے؟ مشائخ اور پیرانِ کرام کو ہم اپنا رہبر و رہنما کیوں مانیں؟ جو کچھ مانگنا ہو براہِ راست خدا سے کیوں نہ مانگا جائے؟ یہ توسل اور واسطہ کیونکر ضروری ہے؟ (اِس سلسلے میں راقم کی کتب ’’مسئلہ اِستغاثہ اور اُس کی شرعی حیثیت‘‘ اور ’’قرآن و سنت اور عقیدۂ توسل‘‘ کا مطالعہ مفید ہو گا)۔ اِس قبیل کے ہزاروں سوالات جو پڑھی لکھی نوجوان نسل کے ذِہنوں میں پرورش پاتے ہیں، کبھی کبھار نوکِ زبان پر بھی آجاتے ہیں۔ اَب بجائے دلیل سے بات کرنے اور سمجھانے کے ہم نئی نسل کی لب کشائی کو دریدہ دہنی اور گستاخی پر محمول کرنے لگتے ہیں اور اُنہیں کہتے ہیں کہ تم گستاخ ہو اور اپنے باپ دادا کے طریقے سے اِنحراف کی راہ اِختیار کرکے بھٹک گئے ہو۔ ہماری اِس ڈانٹ ڈپٹ اور دھمکی آمیز گفتگو سے عارضی طور پراُن کا اپنی زبانیں بند کرلینا تو کسی حد تک ممکن ہے مگر کچھ ہی عرصہ بعد وہ اِسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر باغی اور سرکش ہوجائیں گے۔ دِین سے اِس درجہ دُوری اور باغیانہ روِش کا واحد سبب پرانی نسل کا اپنی نئی نسل کے سامنے دِینی تعلیمات اور اُن کے اَثرات کو جدید انداز اور عصری علم کی زبان میں بہتر طوت پر پیش نہ کر سکنا ہے۔ ایک نصیحت آموز واقعہراقم کو ایک تنظیمی و تحریکی دَورے میں لندن میں قیام کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کا موضوع کی مناسبت سے مختصر تذکرہ خالی از فائدہ نہ ہوگا۔ ہمارے ایک بزرگ ہیں، جن سے ہماری برسوں سے دوستی ہے۔ وہ اور اُن کے والد گرامی صاحبِ نسبتِ مجاز بزرگ ہیں۔ ایک دن وہ میری قیام گاہ پر مجھ سے ملنے آئے اور اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ۔ ۔ بلکہ روہانسے سے ہوگئے۔ پوچھا کہ حضرت کیا بات ہے؟ خیریت تو ہے؟ کہنے لگے۔ ۔ ۔ خیریت کیسی! اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے پھر فرمایا کہ میں نے اپنے بچے کو دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک مسجد میں بھیجا تھا، جہاں قرآن مجید کا درس ہوتا تھا۔ بچہ کچھ دِن جاتا رہا پھر مسجد سے ایسا لوٹا کہ دوبارہ کبھی اُس مسجد کا رُخ نہ کیا۔ پوچھنے پر کہنے لگا۔ ۔ ۔ ’’میں وہاں درسِ قرآن سنتا رہا۔ ۔ ۔ لیکن جو کچھ بھی سنا، وہ تو علم و عقل سے پرے کی باتیں تھیں۔ ۔ ۔ میرا ذِہن ایسے دیو مالائی قصوں اور بے سروپا باتوں کو تسلیم نہیں کرتا‘‘۔ کیا کروں وہ بچہ جسے دین سیکھنے کے لئے بھیجا تھا، وہ اپنے عقیدے، مسلک اور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان غرضیکہ ہر چیز کا مُنکر ہوگیا ہے۔ میں نے کہاکہ ’’آپ شام کا کھانا میرے ہمراہ کھائیں اور اُس بچے کو اپنے ساتھ لے آئیں۔ میرا مقصد محض اُس بچے کو سمجھانا اور اُس پر دِین کی رُوح واضح کرنا ہے‘‘۔ مگر اُس نے یہ کہہ کر آنے سے اِنکار کر دیا کہ ’’قادری صاحب تو بدعتی اور مُشرک ہیں‘‘۔ یہ صورتحال دیکھ کر میں خود اُس کے پاس گیا، اُس کا ماتھا چوما، پیار کیا اور کہا : ’’بیٹے! ہم آپ کے گھر مہمان آئے ہیں، آپ ہمارے پاس بیٹھیں تو سہی‘‘۔ اُس کے والد کو بھی بلالیا اور کہا کہ بچے کے ذِہن میں جو بھی اِشکال اور جواب طلب سوالات ہیں، وہ ایک ایک کر کے بیان کر دیں۔ وہ بیان کرتے گئے اور میں اُن سوالوں کا جواب دیتا گیا۔ گھنٹہ بھر کی نشست میں وہ ذِہنی طور پر پچاس فیصد مطمئن ہوگیا۔ جب ہم اُٹھ کے جانے لگے تو اس نے پوچھا : ’’آپ کتنے دن یہاں ٹھہریں گے‘‘؟۔ ۔ ۔ ’’دو تین دن‘‘ ہم نے جواب دیا۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہنے لگا : ’’ ایک گھنٹہ اور دے دیں‘‘۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہا : ’’صرف آپ کے لئے نہیں بلکہ اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھی لے آئیں۔ ۔ ۔ سب کے لئے ایک کھلی نشست ہوگی‘‘۔ ۔ ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب دُوسری عام نشست اپنے اِختتام کو پہنچی تو وہ بچہ رُخصت ہوتے وقت مجھ سے لپٹ گیا اور کہنے لگا : ’’ اللہ آپ کا بھلا کرے، آپ نے مجھے گمراہی میں مبتلا ہونے سے بچالیا‘‘۔ اب وہ بچہ بحمداللہ راسخ العقیدہ ہے اور اِسلامی تعلیمات پر کاربند ہے۔ یورپ میں رہنے والے ایسے تارکینِ وطن جن کی اَولادیں بالعموم اُسی جدید تعلیم یافتہ ماحول میں پل بڑھ کر جوان ہوئی ہیں، اکثر و بیشتر اِسی طرح کے حالات سے دوچار ہیں۔ فقط ہماری کج فہمی اور جدید علوم سے اِغماض کی روِش سے اُن کے قلوب و اَذہان صحیح اِسلامی عقیدے اور تعلیمات سے مُنحرف ہو رہے ہیں، جس کی تمام تر ذمہ داری ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے۔ اگروقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اِسلام کو صحیح طریقے سے پیش کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم جدید نسل کے اِیمان کو غارت ہونے سے بچا نہ لیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم اپنی اَولادوں کو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ دِین کی تعلیم بھی صحیح سائنسی طریق سے دیں تاکہ وہ عقائدِ اِسلامیہ پر مضبوطی اور پختگی کے ساتھ جمے رہیں۔ وقت کا اہم تقاضانوجوانوں میں اِسلام کی عظیم رُوحانی تعلیمات کو واضح کرنے کے لئے یہ بات اِنتہائی اہم ہے کہ سلاسلِ طریقت اور خانقاہی نظام کے اربابِ فکر و نظر اپنی اولاد کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیں اور اُن کی تربیت صحیح نہج پر کریں تاکہ اِسلام کا رُوحانی وِرثہ زمانے کی دست بُرد سے تباہ ہونے سے بچ جائے۔ اِس دورِ فتن میں بہت کم خانقاہیں اور رُوحانی خانوادے مادّیت کی یلغار سے محفوظ رہ گئے ہیں اور خال خال ہی ایسے رہ گئے ہیں جنہیں دیکھ کر اَسلاف کی یاد دِل و دماغ میں تازہ ہوجائے۔ اکثر یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ خانقاہوں کی رُوحانی بنیاد منہدم ہوگئی ہے اور اَسلاف کے قائم کردہ اُن رُوحانی مراکز پر محض ظواہر پرستی ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔ اَیسے ہی حالات کے پیشِ نظر حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا : خانقاہوں میں کہیں لذّتِ اَسرار بھی ہے؟ مدرسوں میں کہیں رعنائیئِ اَفکار بھی ہے؟ اولیاء اللہ کا مقام۔ ۔ ۔ قرآن کی نظر میںقرآنِ مجید کا انداز اور اُسلوبِ بیان اپنے اندر حِکمت و موعظت کا پیرایہ لئے ہوئے ہے۔ اِسی موعظت بھرے انداز میں بعض اَوقات آیاتِ قرآنی کے براہِ راست مخاطب حضور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہوتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے پوری اُمت کو حکم دینا ہوتا مقصود ہے۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزّت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِرشاد فرمایا : وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلاَ تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًاO (الکهف، 18 : 28) (اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں، اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں، تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں اُن سے نہ ہٹیں۔ کیا تو (اُن فقیروں سے دِھیان ہٹا کر) دُنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے؟ اور تو اُس شخص کی اِطاعت بھی نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اُس کا حال حد سے گزر گیا ہےo اِس اِرشادِ ربانی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے اُمتِ مسلمہ کے عام افراد کو یہ حکم دِیا جارہا ہے کہ وہ اُن لوگوں کی معیت اور صحبت اِختیار کریں اوراُن کی حلقہ بگوشی میں دِلجمعی کے ساتھ بیٹھے رہا کریں، جو صبح و شام اللہ کے ذِکر میں سرمست رہتے ہیں اور جن کی ہر گھڑی یادِالٰہی میں بسر ہوتی ہے۔ اُنہیں اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے کسی اور چیز کی طلب نہیں ہوتی، وہ ہر وقت اللہ کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔ یہ بندگانِ خدا مست صرف اپنے مولا کی آرزو رکھتے ہیں اور اُسی کی آرزو میں جیتے ہیں اور اپنی جان جاںآفریں کے حوالے کردیتے ہیں۔ اﷲ کے ولیوں کی یہ شان ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے ہونا چاہتے ہیں اُنہیں چاہئیے کہ سب سے پہلے وہ ان اولیاء اﷲ کی صحبت اِختیار کریں۔ چونکہ وہ خود اﷲ کے قریب ہیں اور اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے عامۃ المسلمین کو اُن کے ساتھ جڑ جانے کا حکم فرمایا ہے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے یہی قرآنی نکتہ اپنے اِس خوبصورت شعر میں یوں بیان کیا ہے : ہر کہ خواہی ہمنشینی با خدا اُو نشیند صحبتے با اولیاء ترجمہ : جو کوئی اللہ تعالی کی قربت چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کرے۔ غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حضر ت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ رکن عالم رحمۃ اللہ علیہ اور حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے خود کو اللہ کے قریب کرلیا تھا۔ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ایسے ہی لوگوں کی صحبت اِختیار کرنے اور اُن سے اِکتسابِ فیض کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ کے ولی کی مجلس میں بیٹھے گا اُسے اللہ کی قربت اور مجلس نصیب ہوگی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نہ جنت کا لالچ ہے اور نہ ولایت کا، نہ کرامت کا شوق ہے اور نہ شہرت کی طلب، یہ نہ حوروں کے متمنی ہیں نہ قصور کے۔ اِن کا واحد مقصد اللہ کا دیدار ہیاور یہ فقط اللہ کے مکھڑے کے طالب ہیں۔ لہٰذا عام لوگوں کو تعلیم دی گئی کہ جو لوگ میرے (اللہ کے) مکھڑے کے طالب ہیں اُنہیں بھی اُن کا مکھڑا تکنا چاہیئے اور اپنی نظریں اُن کے چہروں پر جمائے رکھنا چاہیئں۔ جبکہ دُوسری طرف اللہ کی یاد سے غافل لوگوں سے دُور رہنے کا حکم دیا گیا : وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا. (الکهف، 18 : 28) اور تو اُس شخص کی اِطاعت نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے۔ اِسی طرح سورۂ انعام میں اِرشاد ربانی ہوا : فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَo (انعام، 6 : 68) پس تم یاد آنے کے بعد (کبھی بھی) ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھا کروo اِن آیاتِ مبارکہ میں یہ بات بالصراحت واضح ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ سے دُور ہٹانے والوں کے ساتھ نشست و برخاست سے بھی اِجتناب کیا جائے۔ اُس کی محبت اور توجہ کے حصول کے لئے طالبانِ حرص و ہوس اور بندگانِ دُنیا کی صحبت کو کلیتاً ترک کرنا اور اولیاء اﷲکی نسبت اور سنگت کو دِلجمعی کے ساتھ اِختیار کرنا نہایت ضروری ہے۔ بقولِ شاعر : صحبتِ صالح تُرا صالح کند صحبتِ طالع تُرا طالع کند اولیا ء اللہ کی معیت کس لئے؟یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کی بجائے اولیاء اللہ کی سنگت اور ہم نشینی اِختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کے سلسلے میں آنے، بیعت کرنے اور نسبت قائم کرنے کی شریعت میں کیا اہمیت ہے؟ چاہیئے تو یہ تھا کہ سارا معاملہ براہِ راست اللہ سے اُستوار کرلیا جاتا اور سیدھا اُسی سے تعلق اور ناطہ جوڑنے کی کوشش کی جاتی۔ آخر بندوں کو درمیان میں لانے اور اُنہیں تقرّب اِلیٰ اللہ کے لئے واسطہ بنانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ مقصودِ کل تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کی ذات ہے؟ یہ سوال آج کے دور میں دو وُجوہات کی بناء پر اِنتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک اِس لئے کہ جوں جوں زمانہ آگے گزرتا جارہا ہے رُوحانیت اور رُوحانی فکر مٹتا چلا جا رہا ہے۔ مادّیت اور مادّی فکر دُنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیمات پر بھی غالب آتا جا رہا ہے اور اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ دِین اور مذہب کو بھی مادّی پیمانوں پر پرکھنے لگے ہیں۔ اِس سوال کی پیدائش کا دُوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ آج کا دور بے عملی کے ساتھ ساتھ بدعقیدگی کا دور بھی ہے۔ مذہبی اور دِینی حلقوں میں نام نہاد خالص توحید پرست طبقے اولیاء اللہ کی عظمت کے صاف مُنکر ہیں اور اُن سے منسوب تعلیمات کو شرک و بدعا ت کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک اِسلام کے رُوحانی نظام کی نہ تو شرعی اہمیت ہے اور نہ اِس کی کوئی تاریخی حیثیت ہی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ راہِ راست سے بھٹک کر اولیائے کرام کی تعلیمات اوراُن کے عظیم سلسلوں اور نسبتوں سے دُور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس طرح کی باتیں آج کل بڑی شدّت سے زور پکڑ رہی ہیں اور یہ سوال ذِہنوں کو مسلسل پراگندہ (Confuse) کر رہے ہیں کہ اولیاء و صوفیاء کو اﷲ اور بندے کے مابین واسطہ ماننے کا از روئے شریعت کیا جواز ہے! جب ہم اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید سے پوچھتے ہیں تو وہ ہمیں صراحتاً بتاتا ہے کہ بندوں اور خدا کے درمیان اولیاء اللہ کو خود اللہ ربّ العزّت نے ہادی و رہبر کے طور پر ڈالا ہے۔ کسی اِنسان کی اِتنی مجال کہاں کہ وہ ایسی جسارت کرسکے! اِس بارے میں قرآن مجید کے الفاظ : ’’وَ اصْبِرْ نَفْسَکَ‘‘ اِس حکم کی نشاندہی کرتے ہیںکہ اولیاء اللہ کو ہدایت الیٰ اﷲ کے لئے درمیانی واسطہ بنائے بغیر اور کوئی چارہ نہیں اور اﷲ تعالیٰ تک رسائی کی یہی صورت ہے کہ اُس کے دوستوں سے لو لگائی جائے۔ جب اُن سے یاری ہو جائے گی تو وہ خود اﷲ ربّ العزّت کی بارگاہ کا راستہ دِکھائیں گے۔ ازل سے سنتِ الٰہی یہی ہےاللہ ربّ العزّت نے اپنی توحید کا پیغام اپنے بندوں تک پہنچانے کے لئے انبیاء علیہ السلام کو بھیجا، جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ہر دور میں اُس فریضۂ نبوت کو بطریقِ اَحسن سراِنجام دیتے رہے۔ اِبتدائے آفرینش سے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ مخلوقاتِ عالم تک اپنا پیغا م انبیاء علیہ السلام کی وساطت سے پہنچاتا رہا ہے۔ انبیاء علیہ السلام کی ظاہری حیات کے دور میں اُن کو اپنے اور بندوں کے درمیان رکھا اور اب جبکہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا ہے تواِ سی کام کے لئے اولیاء اللہ کو مامور کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ تا قیامِ قیامت ابدالاباد تک جاری و ساری رہے گا۔ یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ اپنی توحید کا پیغام اپنے بندوں کو دینا چاہتا ہے تو ’’ قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ‘‘ فرماتا ہے۔ یعنی اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ اپنی زبان سے کہہ دیں کہ اللہ ایک ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اے اللہ! تو خود اپنی توحید کا اِعلان کیوں نہیں کرتا؟۔ ۔ ۔ تو خود ہی فرمادے کہ میں ایک ہوں! اللہ تعالی جواب دیتا ہے کہ نہیں یہ میری شان نہیں کہ بندوں سے از خود کلام کروں اور نہ ہی کسی بشر کی مجال ہے کہ وہ اللہ سے براہِ راست کلام کرے۔ اﷲ ربّ العزّت نے فرمایا : وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُکَلِّمَهُ اﷲُ إلاَّ وَحْياً أَوْ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلاً فَيُوْحِیَ بِإذْنِه مَا يَشَآءُط إنَّه‘ عَلِیٌّ حَکِيْمٌo (شوریٰ، 42 : 51) اور کسی آدمی کی یہ طاقت نہیں کہ اﷲ سے (براہِ راست) بات کرے مگر ہاں (اِس کی تین صورتیں ہیں یا تو) وحی (کے ذریعے) یا پردے کے پیچھے سے یا (اﷲ) کسی فرشتے کو بھیج دے کہ اس کے حکم سے جو اﷲ چاہے وحی کرے، بے شک وہ بڑے مرتبہ والا، حکمت والا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان اِس امر پر دلالت کرتاہے کہ وہٰ یہ کام اپنے منتخب مکرم بندوں سے کراتا ہے، جنہیں منصبِ رسالت پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے کہ میں اپنے اُس نبی اور رسول ہی سے کلام کرتا ہوں جسے منصبِ نبوت و رسالت سے سرفراز فرماتا ہوں اور اپنے اُس محبوب کو اپنا ہمراز بناتا ہوں اور اُسے اپنی خبر دیتا ہوں۔ اِسی لئے فرمایا : اے محبوب! تجھے میں نے اپنا رسول بنایا ہے، تو ہی میرے بندوں کے پاس جا اور اُنہیں میری یکتائی کی خبر دے اور جو کلام میں نے تجھ سے کیا ہے وہ اُن تک پہنچادے۔ آیتِ مبارکہ : قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ میں لفظِ ’’قُلْ‘‘ رسالت ہے، جبکہ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ ’’وہ اللہ ایک ہے‘‘۔ ۔ ۔ یہ الفاظ اﷲ ربّ العزّت کی توحید پر دلالت کرتے ہیں۔ اِس آیتِ کریمہ سے یہ پتہ چلا کہ توحید کے مضمون کا عنوان بھی رسالت ہے تاکہ لوگوں کو اِس امر سے مطلع کردیا جائے کہ اللہ ایک ہے اور وہی سب کا ربّ ہے۔ اِس سے یہ نکتہ کھلا کہ اللہ کی سنت یہی ہے کہ وہ کسی سے براہِ راست کلام نہیں کرتا اور اگر وہ کسی سے کلام کرنا چاہتا ہے تو درمیان میں واسطۂ رسالت ضرور لاتا ہے۔ اب کس کی یہ مجال ہے کہ وہ رسول کے واسطے کے بغیر اُس سے ہمکلام ہونے کی کوشش کرے! آیۂ توحید سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اللہ ربّ العزّت اپنے بندوں سے ہم کلام ہونے کے لئے اپنے رسول کا واسطہ درمیان میں لاتا ہے۔ ۔ ۔ تو جب وہ خدا ہو کر اپنے بندوں سے ہمکلام ہوتے وقت رسول کا واسطہ درمیان میں لانے سے اِجتناب نہیں کرتا تو ہم بندے ہو کر اُس کے رسول کا واسطہ لائے بغیر اُس سے ربط و تعلق کیونکر برقرار رکھ سکتے ہیں! یہ اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے اور ہم اُس کے حکم کے پابند ہیں، اُس سے رُوگرانی نہیں کرسکتے۔ بخدا خدا کا یہی ہے درربّ ذوالجلال نے یہ بنیادی نکتہ، کلیہ اور اصل الاصول بیان فرمادیا کہ میری اِطاعت کا راستہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کے راستے سے ہو کر گزرتا ہے۔ کلامِ مجید میں اِرشاد ہوا : مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اﷲَ. (النساء، 4 : 80) جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کرتا ہے تحقیق اُس نے اللہ کی اِطاعت کی۔ اِس آیتِ کریمہ میں اﷲ ربّ العزّت دوٹوک اِعلان فرما رہا ہے کہ ’’اے میرے بندو! یہ بات ہمیشہ کے لئے اپنے پلے باندھ لو کہ تم میں سے جو کوئی میری اِطاعت کا خواہشمند ہو اُسے چاہیئے کہ پہلے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کو اپنے اُوپر لازم کرے۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت ہی میری اِطاعت ہے۔ خبردار! میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت بجا لائے بغیر میری اِطاعت کا تصور بھی نہ کرنا‘‘۔ قرآن مجید نے اِس نکتے کو یہ کہہ کر مزید واضح فرمادیا : قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ. (آل عمران، 3 : 31) (اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !) فرما دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اِتباع میں آجاؤ، اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔ گویا اﷲ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دِیا کہ اے محبوب! آپ فرمادیجئے کہ اگر تم میں سے کوئی اللہ کی محبت اور غلامی کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ پہلے میری محبت اور غلامی کا قلاّدہ اپنے گلے میں ڈال لے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اُسے اللہ کی محبت نصیب ہوجائے گی۔ اِس آیتِ کریمہ سے یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ اللہ کے نزدیک وہ محبت اور اِطاعت ہرگز معتبر اور قابلِ قبول نہیں جو اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دَم بھرے اور اُس کی اِطاعت بجالائے بغیر ہو۔ اُس نے اپنے رسول کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان واسطہ بنادیا اور یہ بات طے کردی کہ اِس واسطہ کو درمیان سے نکال کر اِطاعت و محبتِ اِلٰہی کا دعویٰکسی طور پر بھی مبنی بر حقیقت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مزید ارشاد فرمایا : وَ إذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَإنِّیْ قَرِيْبٌط (البقرة، 2 : 186) اور (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں (تو فرمادیں) پس میں قریب ہوں۔ یعنی اے میرے محبوب! جب میرے متلاشی بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو آپ اُنہیں کہہ دیجئے کہ میں اُن کے بہت قریب ہوں۔ اِس آیتِ مبارکہ میں کہا جارہا ہے کہ میں اُن بندوں کے قریب ہوں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بندے کون ہیں جنہیں قربِ الٰہی کا مژدۂ جانفزا سنایا جارہا ہے! ذرا غور کریں تو یہ نکتہ کھل جائے گا کہ میرے بندے وہ ہیں جو پہلے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در کے سوالی بنیں۔ جو اُن کے در کا سوالی ہوگا، وُہی میرا بندہ ہوگا۔ اور جو اُس در کا سوالی نہ ہوگا، وہ میرے در کا سوالی نہیں اور وہ کبھی شانِ بندگی کا حامل نہیں ہوسکتا۔ اِسی سیاق میں اِمام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے کیاخوب کہا ہے : بخدا خدا کا یہی ہے دَر، نہیں اور کوئی مفرّ مقرّ جو وہاں سے ہو، یہیں آکے ہو، جو یہاںنہیں، تو وہاں نہیں خدا کی بندگی کے لئے واسطۂ رِسالت کی ناگزیریتاللہ تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے درمیان رِسالت ایک ایسا واسطہ ہے جس سے اِطاعت و محبتِ الٰہی کے باب میں صرفِ نظر نہیں کیاجاسکتا۔ اِس لئے جب منافقین نے از رُوئے بغض و عناد درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سرِ تسلیم خم کرنے سے اِنکار کردیا تو اللہ ربّ العزّت نے یہ اِرشاد فرما کر اُن کی قلعی کھول دی : وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًاo (النساء، 4 : 61) اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور رسول کی طرف تو آپ دیکھیں گے کہ منافق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں۔ ملاحظہ ہو کہ یہ منافق لوگ اللہ کی طرف آنے سے پس و پیش نہیں کریں گے اور انہیں کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور گھبراہٹ نہ ہوگی، مگر جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اپنا چہرہ یہ کہہ کر پھیرلیتے ہیں کہ جب بالآخر اللہ ہی کی طرف جانا ہے تو سیدھے اُسی کی طرف کیوں نہ جائیں۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کیوں جائیں؟ اﷲتعالیٰ نے اُن لوگوں کے بارے میں جن کے دلوں کے اندر چور ہے دو ٹوک اِعلان کر دیا کہ وہ میرے بندے نہیں بلکہ منافق ہیں۔ میرا اُن سے نسبتِ بندگی کے ناطے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات محوّلہ بالا اِرشادِ ربانی سے طے ہوگئی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ پر چلے بغیر کوئی اپنی منزل کو نہیں پاسکتا۔ وہ لاکھ ٹکریں مارتا رہے، اُس کی بندگی کو بارگاہِ خداوندی میں سندِ قبولیت نہیں مل سکتی۔ بقول سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ : خلافِ پیغمبر کسے رَہ گزید ہرگز نخواہد بمنزل رسید اللہ ربّ العزّت چاہتا تو اپنا پیغام براہِ راست اپنے بندوں تک پہنچانے کا انتظام کر سکتا لیکن اُس کے باوجود اُس نے اپنے اور بندوں کے درمیان رِسالت کا واسطہ رکھا۔ اُس کی قدرتِ کاملہ کے سامنے کوئی چیز محال نہیں، وہ اپنے فرشتوں سے یہ کام لے سکتا تھا۔ عین ممکن تھا کہ ہر شخص جب صبح بیدار ہوتاتو اُس کے سرہانے ایک سیپارہ پڑا ہوتا جس پر درج ہدایتِ ربانی اُس کے دل میں اُترجاتی۔ وہ کلام جو اُس نے اپنے چنیدہ و برگزیدہ انبیاء و رُسل کے ساتھ کیا، وہ اپنے ہر بندے کے ساتھ بھی کرسکتا تھا، اِس طرح ہر بندے کا تعلق براہِ راست اُس سے قائم ہوجاتا۔ لیکن اپنی بے پایاں حکمتوں کے پیشِ نظر اﷲ تعالیٰ نے اِس بات کا فیصلہ کردیا کہ میری ہدایت میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے کے بغیر ممکن نہیں اور میری معرفت کو وہی پاسکتا ہے جسے میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت حاصل ہوجائے۔ مہرِ انگشتریئِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ناموں کی ترتیبتاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک انگوٹھی تھی، جس پر ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ‘‘ کے الفاظ کندہ تھے۔ آپ اُس سے مُہر لگایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، 1 : 15) حکمرانانِ وقت کو خطوط بھجواتے وقت اُن پر یہ مہر لگوائی جاتی تھی۔ آجکل یہ خطوط چھپ چکے ہیں اور اُنہیں ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔ عربی ہمیشہ دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے۔ مگر یہ بات غور طلب ہے کہ انگوٹھی مبارک کی مہر میں یہ ترتیب نیچے سے اوپر کی طرف چلی گئی ہے اور وہ یوں کہ ’’محمد‘‘ نیچے، ’’رسول‘‘ درمیان میں اور ’’اﷲ‘‘ سب سے اُوپر لکھا گیا ہے۔ یہ ترتیب محض کوئی اِتفاقی امر نہیں بلکہ اِس کا مقصد لوگوں کو یہ سمجھانا تھا کہ اگر تم اللہ کا قرب حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہو تو اُس کا راستہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور اِتباع میں مضمر ہے۔ یہ ترتیبِ صعودی اِس بات کی مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز پر سرِتسلیم خم کرنا لازمی ولابدّی امر ہے۔ ہمارے سفر کی اِنتہا تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات تک رسائی ہے، باقی رہا اللہ سے ملانا تو یہ اُن کا کام ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے : تیری معراج کہ تو لوح و قلم تک پہنچا میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تقسیمِ فیوضاتِ الٰہیہیہ بات طے ہوگئی کہ بارگاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شرفِ حضوری حاصل کرنے والے کو ہی فیضانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہوگا۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ فیضانِ رسالت ہی معرفتِ الٰہی کے حصول کا پیش خیمہ ہے۔ واسطۂ رِسالت ہی وہ زِینہ ہے جو سیدھا عرشِ اِلٰہی تک جاتا ہے۔ اگر کوئی اِس واسطے کو درمیان سے ہٹانا چاہے تو اُس کا یہ عمل اللہ کے نظام کو منسوخ کرنے کی سعیء موہوم کے مترادف ہوگا۔ اِس حقیقت پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اِرشادِ مبارک دلالت کرتا ہے : اِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَ اﷲُ يُعْطِیْ. (صحيح البخاری، کتاب العلم، 1 : 16) (الصحيح لمسلم، کتاب الزکوٰة، 1 : 333) (مسند احمد بن حنبل، 2 : 234) (المعجم الکبير، 19 : 284، رقم : 755) (شرح السنة، 1 : 284، رقم : 131) میں (نعمتوں کی) تقسیم کرنے والا ہوں اور عطا کرنے والا اﷲ ہے۔ اِس حدیثِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطائے نِعم کے مالک اﷲ ربّ العزّت کا ذکر بعد میں اور اُن نعمتوں کی تقسیم کے حوالے سے اپنا ذِکر پہلے کیا ہے۔ گویا یوں فرمایا کہ : ’’اے لوگو! کہاں بھٹکے جارہے ہو! قاسم میں ہی ہوں۔ اگر تمہیں خیرات و فیوضاتِ الٰہیہ چاہئیں تو تمہیں میرے دروازے پر آنا ہوگا۔ اگر مجھ سے گریزاں ہو گے تو دربدر کی ٹھوکریں کھانا تمہارانصیب ہوگا اور تمہیں ذِلت و رُسوائی کی خاک پھانکنے کے سِوا اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ فیوضاتِ الٰہیہ کی خیرات صرف اِسی در سے مل سکتی ہے، اِس لئے آؤ اور میری دہلیز پر جھک جاؤ‘‘۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے : محمدِ عربی کہ آبروئے ہر دو سرا ست کسے کہ خاکِ درش نیست خاک بر سر اُو سائنس اور سلسلۂ رُوحانیت میں باہمی ربط و تعلقجیسا کہ ہم شروع میں یہ ذکر کرچکے ہیں کہ مذہب (اِسلام) اور سائنس کے درمیان کسی قسم کی مغایرت نہیں ہے۔ وہ دِن دُور نہیں جب سائنسی اِنکشافات و تحقیقات کلی طور پر اِسلام کی بنیادی صداقتوں کی آئینہ دار ہوں گی۔ لیکن اِس نہج پر مسلمان اہلِ علم اور ماہرینِ سائنس کو ابھی بہت سا کام کرنا ہے۔ دورِ جدید میں اِسلام کی حقانیت و صداقت کو علومِ جدیدہ اور سائنس کے اِستدلال سے ثابت کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے، جس سے زیادہ دیر تک صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ آج دِینی تعلیمات سے بے بہرہ اور خام ذِہن یہ سوال کرتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مدینہ منورہ ہم سے ہزاروں کلومیٹر کی مسافت پر ہے، وہاں سے فیض رسانی کا سلسلہ جاری ہے؟ اور یہ کہ اولیاء کو یہ فیض بارگاہِ رِسالت سے ملتا ہے اور وہ اُسے ہم تک پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں؟ اِس کی توجیہہ کیسے کی جاسکتی ہے؟ یہ سلاسلِ طریقت اور یہ نسل در نسل فیضانِ ولایت کی ترسیل اور منتقلی کس طرح ممکن ہے؟ یہ اور اِس طرح کے بے شمار دیگر سوالات ذِہنِ اِنسانی میں کروٹ لیتے رہتے ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ اِنسان کے پاس ’’حقیقت‘‘ کے اِدراک کے لئے سائنسی طریقِ کار ایک ایسا معتبر و مستند ذریعہ ہے جو عقلی اِستدلال اور مشاہدۂ حقائق کی بنیاد پر کوئی نظریہ قائم کرتا اور نتائج اَخذ کرتا ہے، جنہیں مسلسل تجربے کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ سائنس کا مطالعہ معروضی حالات کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے۔ سائنس اور مذہب کی حدود اور دائرۂ کار بالکل جدا جدا ہیں۔ سائنس صرف عالمِ اَسباب کا اِحاطہ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے اور اُسے عالمِ اَسباب کے علاوہ کسی اور شئے سے سروکار نہیں، جبکہ مذہب ما بعد الطبیعاتی حقائق اور اُخروی زندگی جیسے اُمور کو زیر بحث لاتا ہے۔ چونکہ اِن دونوں کا دائرۂ کار قطعی مختلف ہے لہٰذا سائنس اور مذہب میں کبھی بھی کسی قسم کا کوئی باہمی ٹکراؤ اور تضاد ممکن نہیں۔ دوسری طرف جدید سائنس کے بارے میں ایک بات نہایت وُثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ سائنس کے میدان میں ہونے والی ہر پیش رفت اِس حقیقت کو بے نقاب کرتی نظر آتی ہے کہ اِس کائنات کی بنیاد مادّی نہیں بلکہ رُوحانی ہے۔ جدید سائنس ایٹمی توانائی کی دریافت کے بعد ایک بہت بڑے سربستہ راز سے پردہ اُٹھا چکی ہے۔ وہ یہ کہ کائنات کے ہر ننھے ذرّے کے اندر توانائی کا ایک بیش بہا خزانہ چھپا ہوا ہے، جس سے کائنات میں محیر العقول کارنامے سراِنجام دیئے جاسکتے ہیں۔ آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کی مساوات E = mc2 کی گتھیاں سلجھانے کے بعد اب سائنس پر فطرت کا یہ راز بے نقاب ہوچکا ہے کہ مادّے کو پوری طرح توانائی میں بدلنا ممکن ہے۔ یوں یہ بات تیقن کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ سائنس اور مذہب میں کوئی تضاد نہیں اور یہ کہنا کہ دونوں میں نباہ نہیں ہوسکتا خود دقیانوسی سوچ اور خام خیالی ہے۔ ایک بات بالکل واضح ہے کہ جہاں سائنس کلی طور پر مادّی زندگی کے مظاہر سے متعلق ہے اور اُسے رُوحانی زِندگی سے کوئی سروکار نہیں، وہاں مذہب اوّل تا آخر رُوحانی زِندگی سے بحث کرتا ہے اور اس کا اِطلاق مادّی زندگی پر کر کے اِنسان کی دُنیوی و اُخروی زِندگی کو بہتر بنانے کی کامل صلاحیت رکھتا ہے۔ سائنس۔ ۔ ۔ دورِ حاضر کا سب سے بڑا معیارِ علمآج کا دور مادّی ترقی کے عروج کا دور ہے۔ سائنس اِس مادّی دُنیا کا سب سے بڑا علمی معیار ہے۔ اِس دور میں ہر بات کو سائنسی پیمانے پر پرکھا اور جانچا جاتا ہے۔ فقط اُسی چیز کو حق مانا جاتا ہے جو سائنسی پیمانوں پر کماحقہ پورا اُتر رہی ہو اور جو چیز سائنسی کسوٹی پر پورا نہ اُترے اُسے محض تصوّر و تخیل اور توہمات پرستی تصوّر کرتے ہوئے ردّ کر دیا جاتا ہے، جبکہ جدید سائنسی تحقیقات کی بدولت اِسلامی تعلیمات کی روز اَفزوں تائید و توثیق میسر آ رہی ہے۔ (اِس موضوع پر تفصیلی معلومات کے لئے راقم کی کتاب Quran on creation & expantion of the universe کا مطالعہ ناگزیر ہے)۔ بدقسمتی سے اُمتِ مسلمہ بالعموم مادّہ پرستی کے چُنگل میں پھنس کر رُوحانی زِندگی سے دُور ہٹتی چلی جا رہی ہے۔ اِسلام کو بھی مادّہ پرستی کا لِبادہ پہنایا جارہا ہے۔ آج کا تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ بالعموم مادّیت زدگی، فکری اِفلاس، اِبہام اور تشکیک کا شکار ہے۔ اُس کی نظر میں وہی چیز درُست اور مبنی برحق ہے جسے سائنس تسلیم کرے۔ کم علمی اور بنیادی اِسلامی تعلیمات سے نا واقفیت کی بناء پر وہ مذہبی عقائد کو بھی ڈھکوسلا سمجھتا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ لوگوں میں یہ تصوّر پایا جاتا ہے کہ اولیاء اﷲ کی پیروی کرنا یا اُن کے عظیم رُوحانی سِلسلوں اور عرسوں کی بات کرنا، پرانے وقتوں کی رِوایات اور جہالت کی باتیں ہیں۔ دورِ جدید میں اِن باتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ جبکہ درحقیقت یہ بات کہنے والے خود دورِ جدید کے علم سے کلیتاً نابلد ہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس خود رفتہ رفتہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات اور اولیاء اللہ کی کرامات کو سچا ثابت کرتی چلی جارہی ہے۔ اب ہم کچھ سائنسی مثالوں کے ذریعے قرآن مجید کے اِس بنیادی فلسفہ اور تعلیم کو آسان کر کے سمجھانے کی کوشش کریں گے تاکہ دورِ جدید کا نوجوان یہ نہ سمجھے کہ یہ مذہبی لوگ صرف حکایتیں ہی سناتے رہتے ہیں جو پرانے لوگوں کی پرانی باتیں ہیں۔ ہم یہاں تفصیل میں جائے بغیر اپنی بحث کے دائرۂ کار کو ضروری معلومات بہم پہنچانے تک محدود رکھیں گے۔ زمین کی مِقناطیسیتقرآنی تعلیمات اور جدید سائنس کے تناظر میں سب سے پہلے ہم مقناطیس (Magnet) کے حوالے سے بات کریں گے۔ مادّی ترقی کے اِس دور میں مقناطیس پر بہت کام ہورہا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں اِس پر سیمینار منعقد کئے جارہے ہیں۔ اِس ضمن میں Super Electro Magnetism کے حوالے سے سائنسی تحقیق آگے بڑھ رہی ہے۔ مقناطیسیت وہ قوت ہے جس سے کوئی مقناطیس اپنے دائرۂ اثر کے اندر واقع چیزوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ ہر مقناطیس میں ایک خاص مقناطیسی قوت (Magnetic Force) ہوتی ہے، جس کا اثر ایک خاص فاصلے (Range) تک ہوتا ہے۔ جتنا طاقتور کوئی مقناطیس ہوگا اتنا زیادہ فاصلے تک اُس کا دائرۂ اثر ہوگا۔ اِسے اُس مقناطیس کا حلقۂ اثر (Magnetic Field) کہتے ہیں۔ ہماری زمین فی نفسہ ایک بڑا مقناطیس ہے، جس کی مقناطیسی قوت کا دائرۂ کار 80,000 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ اِس کے مقابلے میں مشتری (Jupiter) جو نظامِ شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے، اُس کی مقناطیسی قوّت زمین سے بھی اڑھائی لاکھ گنا زیادہ ہے۔ یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ جو جِرمِ فلکی (ستارہ یا سیارہ) جتنی زیادہ کمیّت پر مشتمل ہوگا، اُس کا دائرۂ کشش بھی اُسی قدر وسیع ہوگا۔ رُوحانی کائنات کا مِقناطیسی نظامرُوحانیت کی حقیقت کو نہ سمجھ پانے والے مادّیت زدہ لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کا ایک ولی ہزاروں میل کی مسافت سے اپنے مرید کو اپنی توجہ سے فیضاب کردے؟ اِتنی دور سے ایسا کیونکر ممکن ہے؟ کم علمی کے باعث پیدا ہونے والے اِن شکوک و شبہات کا جواب بالکل سادہ ہے کہ وہ قدیر و علیم ذات جس نے زمین اور مشتری جیسے سیارگانِ فلک کو وہ مقناطیسی قوّت عطا کر رکھی ہے، جو ہزاروں لاکھوں میلوں کے فاصلے پر خلاء میں اُڑتے ہوئے کسی شہابیئے (Meteorite) پر اثر انداز ہو کر اُسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے اپنے اُوپر گرنے پر مجبور کر سکتی ہے، کیا وہ قادرِ مطلق ذات مادّی حقیقتوں کو رُوحانی حقیقتوں سے بدلنے پر قادِر نہیں؟ اِس حقیقت کا اِدراک وُہی کرسکتا ہے جس کا دِل بصیرتِ قلبی اور نورِ باطنی سے بہرہ ور ہو۔ ہر صاحبِ علم پر یہ حقیقت مُنکشف ہے کہ زمین جو ایک بڑا مقناطیس ہے، اُس کی مقناطیسی قوّت اُس کے قطبین (Poles) سے پیدا ہوتی ہے، جو شمالی اور جنوبی پول (North & South Poles) کہلاتے ہیں۔ کششِ ثقل کے اِن اثرات کو قطب نما (Compass) کی مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ اُسے جونہی زمین پر رکھا جاتا ہے، اُس کی سوئیوں کا رُخ شمالاً جنوباً گھوم جاتا ہے۔ جب Compass کے مقابلے میں عام سوئیاں زمین پر رکھیں تو وہ جوں کی توں پڑی رہتی ہیں اور اُن کا رُخ شمالاً جنوباً نہیں پھرتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ Compass کی سوئی کو شمالاً جنوباً کس قوّت نے پھیرا؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ وہ مقناطیسی سوئی جس کی نسبت زمینی قطب (Pole) کے ساتھ ہوگئی وہ عام سوئی نہیں رہی بلکہ قطب نما بن گئی۔ اِسی نسبت کے اثر نے اُس کی سمت قطبین کی طرف پھیر دی۔ رُوحانی قطب نمائے اعظم۔ ۔ ۔ مکینِ گنبدِ خضرا ءمادّیت زدہ لوگوں کو جان لینا چاہئے کہ اُن کے دِل عام سوئی کی طرح ہیں جو کسی رُوحانی قطب سے منسلک نہ ہونے کے باعث اُس ایزد اَفروز نور سے محروم ہیں، جس کے بارے میں قرآن نے : لَا شَرَقِيَّةَ وَ لَا غَرَبِيَّةَ کہا، کیونکہ اُس کے نور کی حدیں شرق و غرب سے ماوراء ہیں۔ رُوحانی کائنات کا قطبِ اعظم صرف ایک ہے اور وہ گنبدِ خضرا میں مقیم ہے۔ زمین کے شمالی اور جنوبی دو پول ہیں، جن کی نسبت سے قطب نما کی سوئی شمالاً و جنوباً رُخ اِختیار کرلیتی ہے، جبکہ فرش سے عرش تک رُوحانی کائنات کا قطب گنبدِ خضرا کا مکین ہے۔ جس طرح عام سوئیوں کی نسبت زمین کے قطبین سے ہوجائے تو وہ عام سوئیاں نہیں رہتیں بلکہ خاص ہوجاتی ہیں، جو ظاہری واسطہ کے بغیر جہاں بھی ہوں خود بخود اپنی سمتیں شمالاً جنوباً درُست کرلیتی ہیں، بالکل اِسی طرح ایک مؤمن کا دِل بھی ہر آن مکینِ گنبدِ خضراء کی توجہاتِ کرم کی طرف مائل رہتا ہے۔ جن دلوں کی نسبت گنبدِ خضراء سے ہوجائے وہ عام نہیں رہتے بلکہ خاص دل بن جاتے ہیں۔ پھر وہ کسی ظاہری واسطے کے بغیر بغداد ہو یا اجمیر، لاہور ہو یا ملتان، جب اُن کی نسبتِ وُجود مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو جاتی ہے تو سمت خود بخود متعین ہوجاتی ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ سلسلۂ فیض منقطع ہوگیا تو اِس کا مطلب ہے کہ ہمارے دِل کی سوئی خراب ہے اور اُس کا رابطہ اپنے رُوحانی قطب سے کٹ گیا ہے، کیونکہ یہ فیضان تو ہمیشہ جاری رہنے والا ہے۔ اِس وسیع و عریض مادّی کائنات میں اپنے اپنے مداروں میں تیرنے والے تمام تر سیاروں اور ستاروں کے ہمیشہ دو دو پول ہوتے ہیں، جن سے اُ ن کی مِقناطیسی لہریں نکل کر اُن کی فضا میں بکھرتی اور بیرونی عناصرکے لئے اپنی طرف کشش پیدا کرتی ہیں جبکہ تحت الثریٰ سے اوجِ ثریا تک پھیلی ہوئی اِس ساری رُوحانی کائنات کا پول فقط ایک ہی ہے اور وہ ہماری ہی زمین پر واقع سرزمینِ مدینہ منورہ میں ہے۔ یہ نظامِ وحدت کی کارفرمائی ہے کہ جس دِل کی سوئی مدینہ کے پول سے مربوط ہوگئی وہ کبھی بھی بے سمت و بے ربط نہ رہے گا۔ آج بھی تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقناطیسی توجہ ہر صاحبِ ایمان کو اُسی طرح سمت (Direction) دے رہی ہے جیسے زمینی مقناطیس کے دونوں پول کسی قطب نما کی سوئی کو شمال و جنوب کی مخصوص سمت دیتے ہیں۔ مِقناطیس کیسے بنتے ہیں؟۔ ۔ ۔ شیخ اور مرید میں فرقمِقناطیس بنانے کے دو طریقے ہیں، جن سے عام طور پر لوہے کو مِقنایا جاتا ہے : 1۔ مِقناطیس بنانے کا پہلا اور دیرپا طریقہ الیکٹرک چارج میتھڈ (Electric Charge Method) کہلاتا ہے۔ اِس طریقے کی رُو سے لوہے کے ایک ٹکڑے میں سے برقی رَو (Electric Current) گزاری جاتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں جو مقناطیس بنتے ہیں اُنہیں Electric Charged Magnets یعنی برقی چارج کئے گئے مقناطیس کہتے ہیں۔ یہ مقناطیس اس آیۂ کریمہ کا مِصداق ہیں جس میں اللہ تعالی کا اِرشاد ہے : الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَه‘. (الکهف، 18 : 28) جو لوگ صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں اور اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اُن بندوں کی یہ کیفیت بیان فرمائی ہے کہ وہ صبح و شام اپنے مولا کی یاد میں مست رہتے ہیں۔ اُن میں محنت، مجاہدہ اور تزکیہ کی بجلی گزاری جاتی ہے تو رُوحانی طور پر چارج ہوجاتے ہیں۔ اس پروسس سے جو مقناطیس (Magnet) تیار ہوتے ہیں اُن میں سے کسی کو داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ بنا کر لاہور میں، کسی کو غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ بنا کر بغداد شریف میں، کسی کو خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ بنا کر اجمیر شریف میں اور کسی کو بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ بنا کر ملتان میں فیض رسانی کو جاری و ساری رکھنے کے لئے مامور کر دیا جاتا ہے۔ 2۔ مِقناطیس بنانے کا دُوسرا طریقہ سٹروک میتھڈ (Stroke Method) کہلاتا ہے۔ اِس کے مطابق لوہے کے ٹکڑے کو کسی مقناطیس کے ساتھ رگڑا جاتا ہے تو اُس میں مقناطیسیت (Magnetism) منتقل ہوجاتی ہے اور لوہے کا وہ ٹکڑا بھی اِس رگڑ اور معیت سے مِقناطیس بن کر لوہے کی عام اشیاء کو اپنی طرف کھینچنے لگ جاتا ہے۔ رُوحانی مقناطیسیت کی دُنیا میں دُوسرے طریقے کے ضمن میں وہ لوگ آتے ہیں جو مجاہدۂ نفس، محنت اور تزکیہ و تصفیہ کے اِعتبار سے کمزور ہوتے ہیں اور وہ اِس قدر ریاضت نہیں کرسکتے مگر اُن کے اندر یہ تڑپ ضرور ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے قلب و باطن کو کثافت اور رذائل سے پاک و صاف کر کے رضائے الٰہی سے ہمکنار ہوں۔ وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ. . . (الکهف، 18 : 28) تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھ۔ ۔ ۔ اِس آیتِ مبارکہ میں اُن طالبانِ حق کا ذِکر کیا گیا ہے جو اللہ والوں کی محبت اور معیت اختیار کر کے اپنے اندر للہیت، حق پرستی اور خدا پرستی کا جوہر پیدا کرلیتے ہیں۔ سٹروک میتھڈ والے ’’وَاصْبِرْ نَفْسَکَ‘‘ کے مِصداق ہوتے ہیں۔ مُرید دوسرے طریقے (Stroke Method) سے رُوحانی مقناطیسیت لیتا ہے اور شیخ پہلے طریقے (Electric Charge Method) سے مقناطیس بنتا ہے۔ اِیصالِ حرارت اور اِیصالِ رُوحانیتسٹروک میتھڈ کی مثال اِیصالِ مقناطیسیت کے ضمن میں اِیصالِ حرارت کی سی ہے۔ جیسے کسی مُوصِل شے کو آگ میں تپایا جائے تو وہ خود بھی گرم ہو جاتی ہے اور اپنی حرارت کو آگے بھی منتقل کرتی ہے۔ مثال کے طور پر لوہا ایک اچھا مُوصِل ہونے کے ناطے حرارت کے اِیصال کی خاصیّت رکھتا ہے جبکہ لکڑی غیرمُوصِل ہے جو آگ میں جل کر راکھ تو ہوجاتی ہے مگر اِیصالِ حرارت کی صفت ہے محروم ہے۔ جس طرح لوہا مُوصِل ہونے کے ناطے حرارت منتقل کرنے کی خاصیت سے بہرہ ور ہے اور جب تک اُسے حرارت ملتی رہے اِیصال کا عمل جاری رکھتا ہے، بالکل اُسی طرح وہ اَولیائے کرام جو فیضانِ نبوت سے بہرہ یاب ہوتے ہیں، وہ اِس فیضان کو آگے عامۃ الناس تک منتقل کرتے رہتے ہیں۔ فیضانِ نبوت کے منتقل کرنے والے اِس طریقِ کار کو رُوحانی دنیا میں سلسلہ کہتے ہیں اور یہ سلسلہ اُن اَولیائے کرام سے چلتا ہے جو گنبدِ خضراء کے مکیں سے رُوحانیت کا Magnetism لیتے اور آگے تقسیم کرتے رہتے ہیں اور اُن سے جاری ہونے والا چشمۂ فیض کبھی خشک نہیں ہوتا۔ جدید سائنسی دریافت اور نظام برقیات سے ایک تمثیلموجودہ سائنسی دنیا میں بہت سی چیزیں سپر الیکٹرو میتھڈ(Super Electro Method) کے نظام کے تحت چل رہی ہیں، جس کے تحت ایک کوائل (Coil) پر اِتنی توجہ اور محنت کی جاتی ہے کہ ہر ممکنہ حد تک اُس کی ساری برقی مزاحمت (Electrical Resistance) ختم کردی جاتی ہے۔ صوفیاء کی زبان میں اِسے تزکیہ کہتے ہیں۔ جس کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰيo (الاعلیٰ، 87 : 14) بے شک وہی بامُراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہوں کی آلودگیوں سے) پاک ہو گیاo تزکیہ کیا ہے؟برقیات کی اِصطلاح میں : یہ بجلی چارج کرنے کے خلاف تمام تر ممکنہ مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔ صوفیاء کی اِصطلاح میں : یہ نفس کی کدُورتوں، رذائل اور اُس مزاحمت کو دور کرنا ہے جو قربِ الٰہی کی راہ میں حائل ہوتی ہے۔ برقیات کے حوالے سے ہونے والی جدید سائنسی پیش رفت میں کسی بھی کوائل (Coil) کو اِس قدر ٹھنڈا کیا جاتا ہے کہ اُس کا درجۂ حرارت 269o سینٹی گریڈ پر چلا جاتا ہے۔ اِس طرح جو الیکٹرومیگنٹ (Electro Magnet) حاصل ہوتا ہے، وہ زیادہ سے زیادہ کرنٹ اپنے اندر سما سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہماری زمین کا اَوسط درجۂ حرارت محض 15o سینٹی گریڈ جبکہ پوری کائنات کا درجۂ حرارت 270o سینٹی گریڈ ہے۔ اِسی تمثیل پر صوفیائے کرام مجاہدہ و محاسبۂ نفس کے ذریعے اپنے اندر سے غصہ، حسد، بغض، غرور، تکبر اور نفس کی دیگر جملہ کثافتوں کو جو حصولِ فیض کی راہ میں مانع ہوتی ہیں، اپنے نفس کو خوب ٹھنڈا کر کے بالکل نکال دیتے ہیں تآنکہ وہ سراپا یوں نظر آنے لگتے ہیں : وَ الْکَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَ الْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اﷲُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَo (آل عمران، 3 : 134) اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (اُن کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں اور اﷲ اِحسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہےo جس طرح Super Electro Magnet مادّ ی کثافتوں کے دُور ہونے سے چارج ہوتا ہے اور اُس سے مادّی دُنیا میں کرامتیں صادِر ہونے لگتی ہیں، بالکل اِسی طرح اولیاء کا نفس کثافتوں اور رذائل و کدُورت سے پاک ہوکر فیضانِ اُلوہیت اور فیضانِ رسالت کو اپنے اندر جذب کرلینے کے قابل بن جاتا ہے اور پھر وہ جدھر نگاہ اُٹھاتے ہیں کرامات کا ظہور ہونے لگتا ہے۔ اِس قلبِ ماہیت سے اولیاء کے دل مُوصِل مِقناطیس (Conducting Magnet) بن جاتے ہیں۔ جب اُس الیکٹرومیگنٹ (Electro Magnet) کو ایک خاص پروسیس سے گزارا جاتا ہے تو وہ Super Conducting Magnet بن جاتا ہے۔ اِسے این ایم آر یعنی Nuclear Magnetic Resonant کے پروسیس سے گزارتے ہیں۔ مریض کو جب اُس کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے تو اُس کے بدن کے اندر کی تمام چیزوں سے پردے اُٹھ جاتے ہیں۔ گویا جسم کا پردہ تو قائم رہتا ہے مگر مِقناطیسیت کی وجہ سے Scanner کے ذریعے وہ چیزیں جو ننگی آنکھ نہیں دیکھ سکتی سب آشکار کردی جاتی ہیں۔ سو وہ لوگ جنہوں نے تزکیہ و تصفیہ کی راہ اِختیار کی، اُن پر سے بصورتِ کشف پردے اُٹھا دیئے جاتے ہیں۔ وہ کشف سے توجہ کرتے ہیں تو ہزارہا میل تک اُن کی نگاہ کام کرتی ہے اور وہ چیزیں جو مغیبات میں سے ہیں اور عام طور پر ننگی آنکھ پہ ظاہر نہیں ہوتیں، اُن پر آشکار کردی جاتی ہیں۔ رُوحانی مِقناطیسیت کے کمالاتیہ تزکیہ و تصفیہ کے طریق سے حاصل ہونے والی اُسی رُوحانی مِقناطیسیت کا کمال تھا کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبتِ جلیلہ میں تربیت پانے والے صحابۂ کرام مادّی ذرائع اِختیار کئے بغیر ہزاروں میل کی مسافت پر موجود سپہ سالارِ لشکرِ اِسلام کو ہدایات دینے پر قادِر تھے۔ سیدنا ساریہ بن جبل رضی اللہ عنہ کی زیرقیادت اِسلامی لشکر دُشمنانِ اِسلام کے خلاف صف آراء تھا۔ دُشمن نے ایسا پینترا بدلا کہ اِسلامی اَفواج بُری طرح سے اُس کے نِرغے میں آ گئیں۔ اُس وقت مسلمانوں کے دُوسرے خلیفہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں بر سرِ منبر خطبۂ جمعہ اِرشاد فرما رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی رُوحانی توجہ کی بدولت میدانِ جنگ کا نقشہ آپ کی نظروں کے سامنے تھا۔ دورانِ خطبہ بآوازِ بلند پکارے : يَا سَارِیَ الْجَبَل. (مشکوٰة المصابيح : 546) اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لے۔ یہ اِرشاد فرما کر آپ دوبارہ اُسی طرح خطبہ میں مشغول ہو گئے۔ نہ آپ کے پاس راڈار تھا اور نہ ہی ٹی وی کا کوئی ڈائریکٹ چینل، ہزاروں میل کی دُوری پر واقع مسجدِ نبوی میں خطبۂ جمعہ بھی دے رہے ہیں اور اپنے سپہ سالار کو میدانِ جنگ میں براہِ راست ہدایات بھی جاری فرما رہے ہیں۔ نہ اُن کے پاس وائرلیس سیٹ تھا، نہ موبائل فون۔ ۔ ۔ کہ جس سے میدانِ جنگ کے حالات سے فوری آگہی ممکن ہوتی۔ یہ رُوحانی مِقناطیسی قوّت تھی، اندر کی آنکھ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ حضرت ساریہ بن جبل رضی اللہ عنہ نے سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا پیغام موصول کیا اور اُس پر عمل درآمد کرتے ہوئے پہاڑ کی اوٹ لے کر فتح پائی۔ دُشمن کا حملہ ناکام رہا اور عساکرِ اِسلام کے جوابی حملے سے فتح نے اُن کے قدم چومے۔ فیضانِ نبوی اور فیضانِ صحابہ ہی کی خوشہ چینی کی بدولت اولیاء اللہ عبادت، زُہد و ورع، اِتباعِ سنت، تقویٰ و طہارت، پابندئ شریعت، اَحکامِ طریقت کی پیروی اور اللہ تعالیٰ کے امر کی تعمیل کے ذریعے اپنے قلب و باطن کا تزکیہ و تصفیہ کر کے زِندگی سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت اور اِتباع میں گزار کر اپنے اندر ’’رُوحانی مقناطیسیت‘‘ پیدا کرلیتے ہیں۔ مادّی ترقی کی اِس سائنسی دُنیا میں جہاں گلوبل ویلج کا اِنسانی تصوّر حقیقت کا رُوپ دھار رہا ہے، کمپیوٹر کی دُنیا میں فاصلے سمٹ کر رہ گئے ہیں، اِنٹرنیٹ نے پوری دُنیا کو رائی کے دانے میں سمیٹ لیا ہے۔ آج سائنسی ترقی کا یہ عالم ہے کہ موجودہ دَور کا عام آدمی بھی اپنی ہتھیلی پر موجود رائی کے دانے کی طرح تمام دُنیا کا مشاہدہ کرنے پر قادِر ہے۔ یہ مادّی ترقی کا اعزاز ہے، جس نے ہمیں آلات کی مدد سے اِس اَوجِ ثریا تک لا پہنچایا ہے، لیکن قربان جائیں سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کے تصرّفات پر جو فقط اپنی رُوحانی ترقی اور کمالات کی بدولت اِس منزل کو پا چکے تھے۔ سرکارِ غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نَظَرْتُ إلٰی بِلَادِ اﷲِ جَمْعًا کَخَرْدَلَةٍ عَلٰی حُکْمِ التَّصَالِیْ ترجمہ : میں اﷲ کے تمام ملکوں کو ایک ساتھ اِس طرح دیکھتا ہوں جیسے میری ہتھیلی پر رائی کا ایک معمولی دانہ (میری نظر میں ہوتا ہے)۔ تزکیہ و ریاضت سے حیات بخشی تکمزید برآں مِقناطیس (Magnet) ایک پروسیس کے ذریعے اِس قابل بن جاتے ہیں کہ اُن سے بجلی پیدا ہونے لگتی ہے، جو حرارت اور روشنی پیدا کرنے کا مُوجب ہے۔ اور جب یہ بجلی حرکی توانائی (Mechanical Energy) میں منتقل ہوتی ہے تو چیزوں کی ہیئت بدلنے لگتی ہے اور مُردہ جسم حرکت کرنے لگتے ہیں۔ اِس کی سادہ سی مثال پلاسٹک کی گڑیا ہے، جس کو بیٹری سے چارج کیا جائے تو وہ متحرّک ہوجاتی ہے اور مختلف ریکارڈ شدہ آوازیں بھی نکالتی ہے۔ ایسا کھلونا اُس وقت تک متحرّک رہتا ہے جب تک اُسے بیٹری سیل سے چارج ملتا رہتا ہے اور یوں مادّی کائنات میں بیٹری سیل کا نظام مُردہ اَجسام کو زندگی اور حرکت دیتا ہے۔ اِسی طرح رُوحانی دُنیا میں بھی جب اولیائے کرام کی رُوحانیت اپنے تکمیلی پروسیس سے گزرتی ہے تو جس مُردہ دِل پر اُن کی نظر پڑتی ہے وہ زِندہ ہو جاتا ہے۔ وہ مُردہ لوگ جو صحبتِ اولیاء سے فیضیاب ہو کر زِندہ ہوجاتے ہیں، اُن کے دل اور روحیں حیاتِ نو سے مستفیض ہوجاتی ہیں۔ اِس کی تصدیق قرآنِ مجید میں بیان کردہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کے حوالے سے ہوتی ہے۔ جب ایک مقام ’’مجمع البحرین‘‘ پر۔ ۔ ۔ جو حضرت خضرعلیہ السلام کی قیام گاہ تھی۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ناشتہ دان میں سے مُردہ مچھلی زِندہ ہوکر پانی میں کود جاتی ہے۔ یہ واقعہ اِس اَمر کا مظہر ہے کہ وہ مقام جو حضرت خضر علیہ السلام کا مسکن تھا، اُس کی آب و ہوا میں یہ تاثیر تھی کہ مُردہ اَجسام کو اُس سے حیاتِ نو ملتی تھی۔ قرآنِ مجید میں اِس واقعہ کا ذِکر یوں آیا ہے : فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنَهُمَا نَسِيَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيْلَه‘ فِی الْبَحْرِ سَرَباًo (الکهف، 18 : 61) سو جب وہ دونوں دو دریاؤں کے سنگم کی جگہ پہنچے تو وہ دونوں اپنی مچھلی (وہیں) بھول گئے، پس وہ (تلی ہوئی مچھلی زِندہ ہو کر) دریا میں سرنگ کی طرح اپنا راستہ بناتے ہوئے نکل گئی۔ یوں اَولیاء اللہ کا وُجودِ مسعود حیات بخشی کا مظہر ہوتا ہے اور وہ مُردوں میں زِندگیاں بانٹنے پر مامور ہوتے ہیں۔ جیسا کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے لئے فرمایا : گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما بجلی کا نظام ترسیل اور اَولیاء اللہ کے سلاسلاولیاء اﷲ کے سلاسل دُنیا بھر میں موجود بجلی کے نظامِ ترسیل ہی کی مِثل ہوتے ہیں۔ اَب یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے کہ کوئی کس حد تک فیض لے سکتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ میں بجلی ڈائریکٹ تربیلا ڈیم سے لوں گا تو کیا ایسا ممکن ہے! تربیلا ڈیم سے کنکشن کسے مل سکتا ہے! دُنیا میں بجلی کی ترسیل کا ایک نظام ہے، اُس کے لئے اپنے سلاسل ہیں جن کی پابندی ضروری ہے۔ ایک طے شدہ نظام کے مطابق بجلی تربیلا ڈیم سے پاور ہاؤس تک، پاور ہاؤس سے پاورسٹیشن اور ٹرانسفارمر تک اور وہاں سے مقررہ اندازے کے مطابق گھر میں آتی ہے۔ ٹرانسفارمر سے کنکشن لینے کے بعد ہم گھروں میں سٹیبلائزر (Stabliser) اور فیوز (Fuse) بھی لگاتے ہیں تاکہ ہمارے گھریلو حساس برقی آلات کہیں جل نہ جائیں۔ ایسا اِس لئے کرتے ہیں کہ ہمارے گھروں کا برقی سسٹم اِتنا مضبوط اور مستحکم نہیں ہوتا کہ زیادہ وولٹیج کا متحمل ہوسکے۔ اِسی نظام کو سلسلہ کہتے ہیں۔ اِس مادّی عالم کی طرح عالمِ رُوحانیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرش سے عرش تک اِس ارضی و سماوی کائنات میں ایک واحد رُوحانی ڈیم بنایا ہے، جس سے رحمت کا فیض ساری کائنات میں مختلف سلاسل کے نظام کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ رحمت و رُوحانیت کا وہ ڈیم آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے اور اُس فیضانِ رسالت کو تقسیم کرنے کے لئے اولیاء اللہ کے وسیع و عریض سلاسل ہیں، جنہیں Power Distribution Systems یعنی رُوحانی بجلی کی ترسیل و تقسیم کے نظام کہتے ہیں۔ یہی اولیائے کرام مخلوقِ خداوندی میں بقدرِ ظرف فیض تقسیم کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور یہ سلسلہ تا قیامِ قیامت یونہی جاری و ساری رہے گا۔ اولیائے کرام نے چونکہ سخت محنت، ریاضت اور مجاہدے سے نسبتِ محمدی کو مضبوط سے مضبوط تر بنا لیا ہے اِس لئے وہ براہِ راست وہیں سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ ہر شخص کا ظرف اِس قابل نہیں ہوتا کہ وہ ڈائریکٹ اُس ڈیم سے فیض حاصل کر سکے۔ عام افرادِ دُنیا کے لئے وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنََ کا درس ہے کہ وہ اُن اللہ والوں کی سنگت اِختیار کر لیں اور اپنے آپ کو اُن سے پیوستہ اور وابستہ رکھیں تو اُنہیں بھی فیض نصیب ہوجائے گا۔ سلاسلِ طریقت کا یہ نظام مِن جانبِ اللہ قائم ہے۔ یہ ایک سلسلۂ نور ہے، جو تمام عالمِ اِنسانیت کو ربّ لا یزال کی رحمت سے سیراب کر رہا ہے۔ اِس سے اِنکار، عقل کا اِنکار، شعور کا اِنکار اور ربّ کائنات کے نظامِ ربوبیت کا اِنکار ہے۔ چاند کی تسخیر اور اپالو مِشنرُوحانی تعلق کی ضرورت کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ خلائی تحقیقات کے امریکی اِدارے National Aeronautic Space Agency - NASA کی طرف سے تسخیرِ ماہتاب کے لئے شروع کئے گئے دس سالہ اپالو مِشن کا پروب Apolo-10 چاند کی تسخیر کے لئے محوِ سفر تھا تو امریکی ریاست فلوریڈا میں قائم زمینی مرکز Kennedy Space Center - KSC میں موجود سائنسدان اُسے براہِ راست ہدایات دے رہے تھے۔ ایسے میں دورانِ سفر حادثاتی طور پراُس کا رابطہ اپنے زمینی کنٹرول رُوم سے منقطع ہوگیا، جس کے نتیجے میں نہ صرف وہ اپنی منزلِ مقصود تک نہ پہنچ سکا بلکہ آج تک اُس کا سُراغ بھی نہ مِل سکا۔ اِس عظیم حادثے کے کچھ ہی عرصے بعد جولائی 1969ء میں اپالو مِشن کا اگلا پروب Apolo-11 چاند کی طرف بھیجا گیا۔ دورانِ سفر چونکہ اُس کا رابطہ اپنے زمینی مرکز سے بحال رہا اِس لئے وہ چاند تک پہنچنے اور دو دِن بعد بحفاظت واپس لوٹنے میں کامیاب رہا۔ سو جس طرح وہ اپالو مہم جس کا رابطہ زمین پر واقع اپنے خلائی تحقیقاتی مرکز سے کھو گیا تھا، وہ ناکام اور تباہ و برباد ہوگئی، اوردُوسری طرف وہ مہم جس کا رابطہ بحال رہا، کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ ۔ ۔ بالکل اِسی طرح یہ بات ذِہن نشین رہنی چاہیئے کہ اِس مادّی دنیا کی طرح ربّ ذوالجلال نے رُشد و ہدایت کے ایک طے شدہ نظام کے ذریعے کامیابی اور نجات کی منزل تک پہنچنے کے لئے رُوحانی مرکزِ نجات حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو بنایا ہے۔ سو ہم میں سے جس کا رابطہ اس مرکزِ مصطفوی سے قائم رہا وہ منزلِ مقصود تک پہنچ جائے گا اور جو اپنا رابطہ بحال نہ رکھ سکا وہ نیست و نابود ہو کر رہ جائے گا اور اپالو 10 جیسی تباہی اور ہلاکت اُس کا مقدّر ہو گی۔ قلبی سکرین اور روحانی ٹی وی چینلآج کے اِس دورِ فتن میں ہمارے دِلوں پر غفلت کے دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں اور اُن پر فیضانِ اُلوہیت اور فیضانِ رِسالت کا نزول بند ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم مطلقاً وُجودِ فیض ہی کا اِنکار کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل کو ایک ٹی وی سکرین کی مثل بنایا ہے، جس پر رُوحانی چینل سے نشریات کا آنا بند ہوگیا ہے اور ہم غفلت میں کہتے پھرتے ہیں کہ چینل نے کام کرنا بند کردیا ہے۔ نہیں! چینل پر نشریات تو اُسی طرح جاری ہیں جبکہ ہمارے ٹی وی سیٹ میں کوئی خرابی آگئی ہے اور جب تک اِس خرابی کو دُور نہیں کیا جائے گا، نشریات سنائی اور دِکھائی نہیں دیں گی۔ جس طرح ٹی وی کے لئے اسٹیشن سے رابطہ بحال ہو تو سکرین پر تصویر بھی دِکھائی دیتی ہے اور آواز بھی سنائی دیتی ہے اور اگر یہ رابطہ کسی وجہ سے ٹوٹ جائے تو پھر آواز سنائی دیتی ہے اور نہ تصویر دِکھائی دیتی ہے۔ اِسی طرح سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمۃ للعالمینی اور فیضانِ نبوت کا سلسلہ بلا اِنقطاع جاری و ساری ہے، یہ ہمارے قلب کی سوئی ہے جو رابطہ بحال نہ ہونے کے باعث اُس اسٹیشن کو نہیں پارہی جہاں سے رُوحانی نشریات دِن رات نشر ہو رہی ہیں۔ آج بھی یہ رابطہ بحال ہوجائے تو یہ فیضان ہم تک بلا روک پہنچ سکتا ہے۔ اولیائے کرام کا تعلق اپنے آقا و مولا ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبھی نہیں ٹوٹتا اور اُن کی قلبی سکرین ہمہ وقت گنبدِ خضراء کی نشریات سے بہرہ یاب رہتی ہے۔ حضرت ابو العباس مرصی رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے ولی اللہ گزرے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں : لو حجب عنی رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم طرفة عين ما عددتُ نفسی من المُسلمين. (رُوح المعانی، 22 : 36) اگر ایک لمحہ کے لیے بھی چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے سامنے نہ رہے تو میں اس لمحے خود کو مسلمان نہیں سمجھتا۔ اللہ کے بندوں کے قلب کی سوئی گنبدِ خضراء کے چینل (Channel) پر لگی رہتی ہے اور اُن کا رابطہ کسی لمحہ بھی اپنے آقا و مولا کی بارگاہ سے نہیں ٹوٹتا، اِس لئے وہ تکتے بھی رہتے ہیں اور سنتے بھی رہتے ہیں۔ اَصحابِ کہف پر خاص رحمتِ الٰہیقرآن فہمی کے باب میں ربط بین الآیات بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اِس حوالے سے جب ہم سورۂ کہف کا مطالعہ کرتے ہوئے آیاتِ قرآنی کا ربط دیکھتے ہیں تو وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ سے اِس سورۂ مبارکہ میں بیان کردہ واقعۂ اصحابِ کہف اپنی پوری معنویت کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ یہ پہلی اُمت کے وہ اَولیاء اللہ تھے جو اللہ کے دِین اور اُس کی رضا کے لئے دُشمنانِ دین کے ظلم و سِتم سے بچنے کے لئے اپنے گھروں سے ہجرت کر گئے اور ایک غار میں پناہ حاصل کرلی اور وہاں بحضورِ خداوندی دعاگو ہوئے : رَبَّنَا اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَةً وَّ هَيِّئ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًاo (الکهف، 18 : 10) اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنی بارگاہ سے خصوصی رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں راہ یابی (کے اَسباب) مہیا فرماo اُن کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے باری تعالیٰ نے اُنہیں اِس مُژدۂ جانفزا سے نوازا کہ تمہارا ربّ ضرور اپنی رحمت تم تک پھیلا دے گا۔ اَب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ خاص رحمت جس کا ذکر قرآن کریم میں مذکور ہے، کیا تھی؟ یہاں قرآنِ مجید کے سیاق و سباق کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو اصحابِ کہف کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ غار میں 309 سال تک آرام فرما رہے۔ کھانے پینے سے بالکل بے نیاز قبر کی سی حالت میں 309 سال تک اُن جسموں کو گردشِ لیل و نہار سے پیدا ہونے والے اَثرات سے محفوظ رکھا گیا۔ سورج رحمتِ خداوندی کے خصوصی مظہر کے طور پر اُن کی خاطر اپنا راستہ بدلتا رہا تاکہ اُن کے جسم موسمی تغیرات سے محفوظ و مامون اور صحیح و سالم رہیں۔ 309 قمری سال 300 شمسی سالوں کے مساوِی ہوتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ کرۂ ارضی کے 300 موسم اُن پر گزر گئے مگر اُن کے اجسام تروتازہ رہے۔ اور تین صدیوں پر محیط زمانہ اُن پر اِنتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گزر گیا۔ قرآنِ مجید فرماتا ہے : وَ تَرَی الشَّمْسَ إذَا طَلَعَتْ تَّزٰوُرَ عَنْ کَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ وَ إذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ هُمْ فِیْ فَجْوَةٍ مِنْه‘ط (الکهف، 18 : 17) اور آپ دیکھتے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اُن کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو اُن سے بائیں جانب کتراجاتا ہے اور وہ اُس کشادہ میدان میں (لیٹے) ہیں۔ اللہ کی خاص نشانی یہی ہے کہ اس نے اپنے ولیوں کے لئے 309 قمری سال تک سورج کے طلوع و غروب کے اُصول تک بدل دیئے اور ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ کی رُو سے ایک معین نظامِ فلکیات کو سورج کے گرد زمین کی تین سو مکمل گردشوں تک کے طویل عرصے کے لئے صرف اِس لئے تبدیل کردیا گیا اور فطری ضابطوں کو بدل کر رکھ دیا گیا تاکہ اُن ولیوں کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ اﷲ ربّ العزّت نے اِس پورے واقعے کو بیان کر کے اِسی تناظر میں یہ اِرشاد فرمایا : ’’اگر لوگ میرا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میرے اِن مقرّب بندوں کے حلقہ بگوش ہو جائیں اور وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنََ کو حرزِ جاں بنالیں‘‘۔ پھر آگے چل کر اِرشادِ ربانی ہوا : مَنْ يَهْدِ اﷲُ فَهُوَ الْمُهْتَدُ وَ مَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَه‘ وَلِيًّا مُرْشِدًا. (الکهف، 18 : 17) اﷲ جسے ہدایت دیتا ہے وہی راہِ ہدایت پر ہے اور جس کو وہ گمراہ کردے تو آپ کسی کو اُس کا دوست نہیں پائیں گے۔ خدائے رحمان و رحیم نے اپنی خصوصی رحمت سے اصحابِ کہف کو تھپکی دے کر پُرکیف نیند سلادیا اور اُن پر عجیب سرشاری کی کیفیت طاری کر دی۔ پھر اُنہیں ایک ایسے مشاہدۂ حق میں مگن کر دیا کہ صدیاں ساعتوں میں تبدیل ہوتی محسوس ہوئیں۔ جیسا کہ قیامت کا دِن جو پچاس ہزار سال کا ہوگا، وہ اللہ کے نیک بندوں پر عصر کی چار رَکعتوں کی اَدائیگی جتنے وقت میں گزر جائے گا۔ جبکہ دیگر لوگوں پر وہ طویل دِن ناقابلِ بیان کرب و اَذیت کا حامل ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ مشاہدۂ حق کے اِستغراق میں وقت سمٹ جاتا ہے اور صدیاں لمحوں میں بدل جاتی ہیں۔ مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں مگر گھڑیاں جُدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں روزِ قیامت اللہ تعالیٰ ملائکہ کو حکم دے گا کہ اُن طالبانِ مولا کو۔ ۔ ۔ جن کے پہلو فقط میری رضا کی خاطر نرم و گداز بستروں سے دُور رہتے تھے اور اُن کی راتیں مصلّے پر رکوع و سجود میں بسر ہوتی تھیں۔ ۔ ۔ میرے دِیدار سے شرفیاب کیا جائے اور اُن پر سے سب حجابات اُٹھا دیئے جائیں۔ پس وہ قیامت کے دِن نور کے ٹیلوں پر رَونق اَفروز ہوں گے اور صدیوں پر محیط وہ طویل وقت اُن پر عصر کے ہنگام کی طرح گزر جائے گا جب کہ دوسروں کے لئے یہ عرصۂ قیامت پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔ اَولیاء اﷲ کی بعد از وفات زِندگیاصحابِ کہف کے حوالے سے قرآنِ مجید کہتا ہے کہ جب اُن پر صدیوں کا عرصہ چند ساعتوں میں گزر گیا اور بیدار ہونے پر انہوں نے ایک دوسرے پوچھا کہ ابھی کتنا عرصہ گزرا ہوگا، تو اُن میں سے ایک نے کہا : يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ’’ایک دن یا دن کا کچھ حصہ‘‘۔ قرآنِ کریم کی اِس بات سے کیسے اِنکا رہوسکتا ہے کہ اُن پر صدیاں گزر گئی تھیں، مگر اُن کے کپڑے بوسیدہ نہ ہوئے تھے اور جسموں میں کوئی کمزوری اور نقاہت کے آثار نہ تھے بلکہ یک گو نہ تازگی اور بشاشت تھی جیسے وہ چند گھٹنے نیند کر کے تازہ دَم اُٹھے ہوں۔ پھر اُنہوں نے اپنے میں سے ایک ساتھی کو کچھ سکے دے کر کہا کہ جاؤ اِس رقم سے کھانے کی کچھ چیزیں خرید لاؤ۔ جب وہ سودا سلف خریدنے بازار گیا تو دُکاندار اُن سکوں کو حیرت اور بے یقینی سے تکنے لگا کہ یہ شخص صدیوں پرانے سکے کہاں سے لے کر آگیا! وہ اُنہیں قبول کرنے سے اِنکاری تھا کہ اِتنی صدیوں پرانے سکے اَب نہیں چلتے۔ وہ (اصحابِ کہف کا فرد) کہنے لگا : ’’بھئی یہ سکے ابھی ہم کل ہی تو اپنے ساتھ لے کر گئے تھے‘‘۔ دکاندارنے کہا : ’’کیا بات کرتے ہو یہ صدیوں پرانے سکے جانے تم کہاں سے لے کے آگئے ہو‘‘! پھر جب اصحابِ کہف کے اُس فرد نے اپنے گردو پیش توجہ کی اور غور سے دیکھا تو اُس ماحول کی ہرچیز کو بدلا ہوا پایا۔ یہ اہل اللہ وہ اہلِ مشاہدہ ہوتے ہیں کہ جن پر غاروں میں ہزاروں برس بھی بیت جائیں، مگر اُن کی جسمانی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوگی۔ اِسی طرح وہ اہلِ مشاہدہ جو قبر میں برزخی زندگی گزار رہے ہیں، ہزاروں سال اُن پر اِس طرح بیت جائیں گے جیسے دو لمحے ہوں۔ یہ کوئی من گھڑت قصہ نہیں، قرآنِ حکیم کا بیان کردہ واقعہ ہے، جس کی صداقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اولیائے کرام کا یہ عالم ہے کہ وِصال کے بعد بھی مشاہدۂ حق کی زِندگی گزار رہے ہیں۔ پھر اُس پیغمبرِ حق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذِکر ہی کیا جو آئے ہی مُردہ اِنسانوں میں زِندگیاں بانٹنے کے لئے تھے اور جو آج تک زندگیاں بانٹ رہے ہیں۔ اولیاء اﷲ کا خدمت گزار کتا بھی سلامت رہااصحابِ کہف کے ساتھ اُن کا ایک خدمت گزار کتا بھی تھا۔ 309 سال تک وہ کتا بھی غار کے دہانے پر پاؤں پھیلائے اُن کی حفاظت پر مامور رہا۔ اُن کی نسبت سے قرآنِ مجید میں اُس کتے کا ذِکر بھی آیا ہے : وَ کَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيْدِ. (الکهف، 18 : 18) اور اُن کا کتا (اُن کی) چوکھٹ پر اپنے دونوں بازو پھیلائے (بیٹھا) ہے۔ کتے کو یہ مقام اُن غار نشین اولیائے حق کی بدولت ملا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ جب وقفے وقفے سے اصحابِ کہف دائیں بائیں کروٹ لیتے تو وہ کتا بھی کروٹ لیتا تھا۔ یہ اُسی صحبت نشینی کا اثر تھا جس کا ذکر وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ میں ہوا۔ بعض رِوایات میں ہے کہ اصحابِ کہف نے اِس خدشے کے پیشِ نظر کہ کتے کے بھونکنے سے کہیں ظالم بادشاہ کے کارندے اُن تک نہ آن پہنچیں، بہت کوشش کی کہ کتا غار سے چلا جائے۔ وہ اُسے دُھتکارتے لیکن وہ اُن کی چوکھٹ پر جم گیا اور تین صدیوں تک فیضِ رحمت سے بہریاب ہوتا رہا۔ ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ ۔ ۔ منبعِ فیوضیاتِ اِلٰہیہآقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی رحمۃ للعالمینی کی بناء پر اِس کائناتِ آب و گل کے مقناطیسِ اعظم ہیں، جنہیں بارگاہِ اُلوہیت سے ’’الیکٹرک چارج میتھڈ‘‘ اور ’’سٹروک میتھڈ‘‘ دونوں ذرائع سے فیض ملا ہے۔ بقول اقبال : دَر شبستانِ حرا خلوت گزید قوم و آئین و حکومت آفرید غارِ حراء کی خلوتوں نے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پوری نسلِ اِنسانی کا محسن و ہادئ اعظم بنا دیا۔ جن کے دم قدم سے دنیائے شرق و غرب ایک قوم، ایک قرآن اور ایک حکومتِ الٰہیہ کے نظم میں پرو دی گئی۔ اُس فیضانِ اُلوہیت کا ذِکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک رات مجھے اﷲ تعالیٰ نے اپنی شان کے مطابق دیدار عطا کیا اور اپنا دستِ قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا۔ اُس کی بدولت میں نے اپنے سینے میں ٹھنڈک محسوس کی، پھر اِس کے بعد میرے سامنے سے سارے پردے اُٹھا دیئے گئے اور آسمان و زمین کی ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی۔ فیضِ اُلوہیت کا یہ عالم تو زمین پر تھا، اُس فیض کا عالم کیا ہوگا جو ’’قَابَ قَوْسَيْن‘‘ کے مقا م پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجات کی بلندی کا باعث بنا اور پھر آپ کو ’’أَوْ أَدْنٰی‘‘ کا قربِ اُلوہیت عطا ہوا۔ جس کے بعد زمان و مکاں اور لا مکاں کے تمام فاصلے مٹ گئے اور محب و محبوب میں دو کمانوں سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنٰی کے الفاظ سے مخلوق کو یہ بتلانا مقصود تھا کہ دیکھو اپنا عقیدہ درست رکھنا۔ اللہ تعالی کی خالقیت اور معبودیت اپنی جگہ برحق ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِتنا قریب ہوکر بھی عبدیت کے مقام پر فائز ہیں۔ یہ فرق روا رکھنا لازم ہے۔ فیضِ اُلوہیت کی ساری حدیں اور اِنتہائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تمام ہوئیں۔ جب تمام فیض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کردیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ رَأَنِیْ فَقَدْ رَاءَ الْحَق. (صحيح البخاری، 2 : 1036) (مسند احمد بن حنبل، 3 : 55) جس نے مجھے دیکھ لیا تحقیق اُس نے اﷲ ربّ العزّت کو دیکھ لیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ حق میں دیدارکی اِلتجاء کی تھی، جس کا جواب اُنہیں جبلِ طور پر تجلیاتِ الٰہیہ کو برداشت نہ کر پانے کی صورت میں ملا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیدارِ الٰہی کی اِلتجا کئی بار کی تھی مگر اُن کی یہ دعا اُس وقت تک مؤخر کردی گئی جب تک کہ اُمتِ مسلمہ کو شبِ معراج پچاس نمازیں دی گئیں اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بار بار بارگاہِ اُلوہیت میں پلٹ جانے کے لئے عرض کرتے رہے، حتی کہ پانچ نماز رہ گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبوبِ حقیقی کے جلوؤں کا مظہرِ اتم ہوکر لوٹتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ فرحت آثار سے شادکام ہوتے۔ یہ عالمِ لاہوتی کا فیض تھا، جبکہ عالمِ ناسوتی کے فیض کا یہ عالم تھا کہ ارض و سماء کے سب خزانوں کی کنجیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تھما دی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام فیوضاتِ الٰہیہ کے قاسم بن گئے۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیضانِ اُلوہیت کے قاسم ہیں اُسی طرح اولیاء اﷲ فیضانِ رسالت کے قاسم ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اِرشاد ہوتا ہے : أَوَ مَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ. (الانعام، 6 : 122) بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اُسے (ہدایت کی بدولت) زِندہ کیا اور ہم نے اُس کے لئے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لئے) چلتا ہے۔ مُراد یہ کہ کچھ وہ لوگ ہیں جن کے دِل مُردہ تھے، ہم نے اُن مُردہ دِلوں کو زِندہ کر کے نورِ نبوت سے سرفراز فرمایا۔ پھر جیسے اُنہیں نورِ نبوت سے زندگی ملی وہ اُس نور کو لوگوں میں بھی بانٹتے ہیں۔ اب یہ اُسی ’’يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ‘‘ کا کرشمہ تھا کہ کسی کو غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی صورت میں بغداد میں یہ ذمہ داری دی، کسی کو داتا گنج بخش ہجویری رحمۃ اللہ علیہ بنا کر لاہور میں کسی کو خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بنا کر اجمیر میں اور کسی کو غوث بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ بنا کر ملتان میں نور بانٹنے پر لگا دیا اور کوئی اِس نور کو سرہند میں تقسیم کرنے پر مامور ہوا۔ وہ دل جو مُردہ تھے سب اِس نور نے زِندہ کر دیئے اَب موت کی کیا مجال کہ اُنہیں مار سکے۔ موت تو صرف ایک ذائقہ ہے اور بقول اِقبال : موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہے
  11. NAJAMMIRANI

    شانِ اولیاء

    یہ ایک امر واقعہ ہے کہ اپنی سطوت و شوکت کے کم و بیش بارہ سو سالہ عروج کے بعد جب سے اُمتِ مسلمہ زوال و اِنحطاط کا شکار ہوئی ہے، زِندہ قوموں کی طرح دینی و دنیوی ترقی و فلاح کی طرف عازمِ سفر رہنا بھول چکی ہے۔ ہم نے خود کو سطحی اور لایعنی اِختلافات میں اُلجھا کر اقوامِ عالم کو اِس بات کا کھلا موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ہمارے اَسلاف کی علمی و فکری اور سائنسی تحقیقات کے ثمرات سے مستفید ہو سکیں اور خود منظرِ ہستی سے دُور کنارے ہٹ کر زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں اور صحیح معنوں میں اپنی اِس شکست کا اِدراک بھی نہیں رکھتے۔ نتیجتاً ذِلت و رسوائی، زوال و مسکنت اور اِدبار و اِنحطاط کے دبیز سائے ہمارا مقدّر بن کر رہ گئے ہیں۔ عالمِ اسلام کی موجودہ زبوں حالی اور اُمتِ مسلمہ کی ناکامی کا ایک بڑا سبب سائنسی علوم کی طرف ہماری عدم توجہی اور اِغماض کی روِش ہے، جس کے نتیجے میں اُمتِ مسلمہ اَقوامِ عالم کے مقابلے میں کسی بھی میدانِ مسابقت میں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ اگر ہم دِقتِ نظر سے تاریخِ اِنسانی کا بے لاگ مطالعہ کریں تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ہمارے اَسلاف نے ایک ہزار سال کے طویل عرصہ تک پوری دنیا کو فکر و فلسفہ اور علم و ہنر کے بے مثال کارناموں کے ساتھ بے شمار سائنسی علوم کی بنیادوں سے بھی فیض یاب کیا۔ جدید سائنس جسے بجا طور پر عصری علم قرار دیا جاسکتا ہے، اُسے ترقی کے موجودہ بامِ عروج تک پہنچانے میں ہمارے روشن ضمیر آباء و اجداد کی علمی خدمات کا بہت بڑا عمل دخل تھا۔ اُنہوں نے علم و ہنر کی جو شمع روشن کی اُس سے جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی اَقوامِ مغرب نے اِکتسابِ نور کیا۔ اَسلاف کی حکمت اور ہماری بے تدبیریہمارے اَسلاف نے اپنے دور کے عصری علوم کے ذریعے اُن حملوں کے خلاف جو عالمِ کفر کی طرف سے اِسلامی عقائد و نظریات پر کئے جاتے رہے، موثر دفاع کیا۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے وہی ہتھیار استعمال کیا جو دُشمن کا ہتھیار تھا۔ ذہنی قضیوں پر مشتمل یونانی فلسفے کا جواب عقلی و منطقی انداز سے دیا اور ان حملوں کو اپنی عقلی و فکری توجیہات اور علمی تصریحات سے ناکارہ بنا کر رکھ دیا اور اسلام کی صداقت و حقانیت پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ مگر افسوس صد افسوس تقریباً پچھلی دو صدیوں سے وہ پانسہ پلٹ چکا ہے اور عصری علوم کی وہ بساط جو اپنے دورِ عروج میں مسلمان اہلِ علم و دانش نے بچھائی تھی، اُس پر غیرمسلم قومیں قابض ہیں۔ آج کا مسلمان ہر میدان میں راہِ پسپائی اِختیار کرنے کے بعد اُن کا دستِ نگر اور تابعِ مہمل بن کر رہ گیا ہے۔ پچھلی ایک صدی سے بالعموم اور گزشتہ نصف صدی سے بالخصوص مغرب کی طرف سے سائنسی اندازِ فکر میں اِسلامی عقائد و تعلیمات پر جو تابڑ توڑ جارحانہ حملے ہوتے چلے آرہے ہیں، ہمارے اَسلاف کو اُن کا سامنا نہ تھا۔ باطل اور عالمِ کفر کے یہ حملے پہلودار اور کئی جہتوں کے حامل ہیں اور معاملہ اُس وقت اور بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے جب ہمارے نام نہاد مذہبی سکالر مغربی فکر کے خوشہ چیں ہوجاتے ہیں اور اہلِ مغرب جو سِرے سے رُوحانیت کے قائل ہی نہیں، اُن کی اِلہاد پرور اور مادّہ پرستانہ سوچ اور ذِہنیت کا پرچار کرنے لگتے ہیں۔ ہمارے یہ سطح بین دانشور مغربی اہلِ علم کی ہمنوائی میں اُن کے نظریات و خیالات کی جگالی کرتے ہیں اور اُس رُوحانیت کی نفی کو جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل کی بنیاد ہے، اپنا شِعار بنالیتے ہیں۔ اِس صورتِ حال کا گہرائی میں جاکر ناقدانہ تجزیہ (Critical Analysis) کریں تو اِس کا یہ بنیادی سبب سامنے آتا ہے کہ اِس وقت علم و دانش کا مرکز عالمِ اسلام کی بجائے مغرب اور یورپ کی درسگاہیں بنی ہوئی ہیں اور اُن کے وضع کردہ سانچوں میں ڈھلنے والا علمی سرمایہ مغربی ملحدانہ فکر و فلسفہ کی گہری چھاپ رکھتا ہے۔ زمانۂ حال کے مسلم علماء و محققین کی بڑی اکثریت مغربی فکر سے متاثر اور مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ نتیجتاً اِسلام پر سائنسی بنیادوں پر کئے جانے والے تازہ مغربی حملوں کا اُن کے پاس کوئی موثر اور خاطر خواہ جواب نہیں ہوتا اور وہ اُن حملوں کے جوب میں اکثر معذرت خواہانہ رویہ اپناتے ہیں یا پھر دقیانوسی یونانی فکر و فلسفہ کے بل بوتے پر جواب دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ہماری فکری کم مائیگی اور اِفلاس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ علمی سطح پر یونان کو ختم ہوئے صدیاں گزر گئیں مگر ہمارے دینی مدارس میں یونانی فلسفہ ابھی تک شاملِ نصاب ہے۔ عملی و فکری اِرتقاء میں حائل اِس جمود کے نتیجے میں ہماری تخلیقی قوت و توانائی (Creative Energy) کے سُوتے خشک ہو چکے ہیں۔ ایسے میں باطل کی فکری و علمی یلغار کا مقابلہ کیونکر ممکن ہے! بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ : گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا کہاں سے آئے صدا لَا الٰہ الَّا اﷲ مضبوط مقدمہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کمزور وُکلاءمقامِ تاسف ہے کہ عصرِ حاضر میں عالمِ اسلام مضبوط دلائل ہونے کے باوجود اچھے وکلاء نہ ہونے کی بناء پر اپنا مقدمہ ہارتا نظر آرہا ہے جبکہ عالمِ طاغوت اور اسلام دشمن قوتیں اپنا کمزور مقدمہ مضبوط اور طاقتور وکلاء کی محنت کی وجہ سے جیتتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس صورتِ حال کا مداوا صرف اِسی صورت ممکن ہے کہ اسلامی علوم کی اشاعت کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی ترویج اور فروغ پر بھی ہر ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔ عصری علوم کے سیکھنے اور سکھانے پر توجہ اِس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ قدیم یونانی فلسفہ کی نسبت قرآن و سنت سے زیادہ قریب تر ہیں اور موجودہ دَور کے اکثر سائنسی حقائق و اِنکشافات قرآن و حدیث کے ماخذ و مصادر سے حاصل کردہ معلومات کی تصدیق و توثیق (Verification & Validation) کرچکے ہیں۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ جوں جوں جدید سائنس کی تحقیقات کا دامن پھیلتا چلا جائے گا، اِسلامی تعلیمات کی حجیت اور قطعیت سارے عالم پر آشکار ہوتی چلی جائے گی اور اِس ضمن میں مزید ترقی اور اِرتقاء کے اِمکانات کھلتے چلے جائیں گے۔ عالمِ اِسلام کے موجودہ حالات کن اسباب و عوامل کا نتیجہ ہیں؟ کیا سبب ہے کہ ہم اپنے نقطۂ نظر، اِستدلال اور نظریئے کے درست ہونے کے باوجود زمانے کی عدالت میں اپنے مقدمے کی وکالت ٹھیک طور سے نہیں کر پا رہے اور جدید دنیا ہمارے مبنی برحق مؤقف اور اِستدلال کو تسلیم کرنے سے اِنکاری ہے؟ اِس صورتحال کا بے لاگ تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے کہ ہم مِن حیث المجموع دورِ حاضر کے تقاضوں سے کما حقہ آگاہ نہیں ہیں۔ اُمتِ مسلمہ کی اکثریت اُس زبان سے با خبر نہیں جس کے ذریعے عالمی رائے عامہ کی عدالت میں اغیار کو اپنے مؤقف پر قائل کیا جا سکتا ہے۔ ہم اس اسلحہ و تکنیک سے یکسر محروم ہیں جس سے لیس ہوکر اِسلام دُشمن قوتیں ہم پر تابڑ توڑ حملے کر رہی ہیں۔ دُشمن اِنٹرنیٹ پر قرآنِ مجید میں تحریف کرتا ہے تو ہم اُس کا جواب اُسی سطح پر دینے کی بجائے فقط اپنے رسائل و جرائد میں اِس عملِ قبیح پر ملامت کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ دشمن ہم پر توپوں اور ٹینکوں سے مسلح ہوکر حملہ کر رہا ہے اور ہم اُس کے مقابلے میں تیر کمان لئے کھڑے ہیں۔ وہ ہماری صفوں کو منتشر کرنے کے لئے بمباری کرتا ہے اور ہم پتھر لئے اُس کے مقابلے میں نکل آتے ہیں۔ کفر و اِلحاد کی سازشوں کا توڑدورِ جدید میں سائنس برق رفتار ترقی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ مغربی دُنیا کو بجا طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کی محیرالعقول ترقی پر ناز ہے اور وہ اُس علمی برتری اور سائنسی ترقی کے بل بوتے پر دیگر بہت سی مفلس و کمزور قوموں کی طرح عالمِ اسلام کو بھی اپنا زیرنگیں بنا کر رکھنا چاہتی ہے۔ جدید تہذیب۔ ۔ ۔ جو فی الحقیقت سائنسی تہذیب کا دُوسرا نام ہے۔ ۔ ۔ جغرافیائی فاصلوں کا خاتمہ کرتی چلی جارہی ہے۔ لاکھوں میل کی مسافت میں بکھری اِنسانی آبادی گلوبل ویلج (Global Village) بن کر رہ گئی ہے۔ سائنسی تحقیقات کی بدولت صحرا و بیاباں لہلہاتے کھلیانوں اور گلستانوں میں تبدیل ہو رہے ہیں اور زیر زمین مدفون خزانے اِنسان کے قدموں میں ڈھیر ہو رہے ہیں۔ سائنس نے دورِ حاضر کے اِنسان کے ہاتھوں میں وہ قوت دے دی ہے جس کے بل بوتے پر وہ پوری دنیا کے وسائل کو اپنے تصرّف میں لاسکتا ہے۔ لیکن قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ مغربی اَقوا م سائنس اور ٹیکنالوجی پر قابض ہونے کی وجہ سے دنیا کی پس ماندہ قوموں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا محتاج اور دستِ نگر رکھنا چاہتی ہیں۔ اِس سلسلے میں اُن کا خصوصی ہدف دنیا بھر کے مسلمان ہیں، جنہیں وہ سائنسی ترقی کے ثمرات اور ٹیکنالوجی سے محروم رکھنے کے لئے ہر قسم کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے کام لے رہے ہیں۔ دُوسری طرف ہمارا حال یہ ہے کہ دورِ جدید کے عصری و سائنسی علوم کی ترویج اور تعلیم کی بجائے ہزاروں سال پرانے یونانی فلسفہ جیسے متروک علوم کو ابھی تک اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور اُن کی تدریس ہماری اِسلامی درسگاہوں میں ابھی تک شاملِ نصاب چلی آرہی ہے۔ جدید سائنس اپنی طویل تحقیقات کے بعد جن نتائج پر پہنچی ہے، اُن میں سے بیشتر قرآن و حدیث میں بیان کردہ حقائق کی توثیق و تصدیق کرتے ہیں۔ اِن حالاتمیں تمام مسلم ممالک کے علماء، محققین اور سائنس دانوں کا فرضِ منصبی ہے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور عالمِ اسلام کو علمی و فکری اِفلاس اور پس ماندگی سے نجات دِلانے کے لئے ایک ایسا لائحۂ عمل اِختیار کریں جس سے موجودہ دِگرگوںصورتحال کا مداوا ممکن ہو۔ سائنسی علوم کی روشنی میں ’’جدید علمِ کلام‘‘ کی ضرورتاوائل دورِ اِسلام میں جب سائنسی علوم ابھی رحمِ مادر میں تھے اور یونانی فلسفہ ہی چہار دانگِ عالم میں عقل کا معیارِ اَتمّ تصور کیا جاتا تھا، تب ہمارے اَسلاف ائمہ کرام نے اِسلامی تعلیمات و نظریات کے فروغ کے لئے اِسلام پر ہونے والے فلسفیانہ حملوں کا جواب یونانی فلسفہ ہی کی زبان میں دیا تھا اور یہی ایک مؤثر صورت تھی جو علمِ کلام کے نام سے معروف ہوئی۔ موجودہ نسل سائنسی دَور میں پروان چڑھی ہے۔ آج کا کم پڑھا لکھا سادہ اِنسان جسے سائنسی علوم سے اِس قدر شغف نہیں، وہ بھی سائنسی طریق کار سے کم از کم ضرور آگاہ ہے، اور جانتا ہے کہ سائنسی بنیادوں پر کام کرنے سے کس طرح نتائج 4=2+2 کی طرح منطقی انداز سے درُست برآمد ہوتے ہیں۔ دَورِ حاضر کے اِنسان سے مخاطب ہونے اور اُسے اِسلامی تعلیمات و عقائد سے رُوشناس کرانے کے لئے ’’جدید علمِ کلام‘‘ کی ضرورت ہے۔ موجودہ دَور ’’صغریٰ‘‘ اور ’’کبریٰ‘‘ کے درمیان موجود ’’حدِاوسط‘‘ کو گرا کر ’’نتیجے‘‘ تک پہنچنے کا دَور نہیں بلکہ اِس دَور میں تجربہ، مشاہدہ، مفروضہ اور پھر بارہا تجربات سے حاصل ہونے والے تنظیم شدہ نتائج کے ذریعے ’’نظریئے‘‘ تک پہنچنے کا اُسلوب ’’حقیقت‘‘ تک رسائی کے عقلی اُسلوب کے طور پر مانا جاتا ہے۔ قرونِ اولیٰ میں یونانی فلسفے کی اِسلامی عقائد پر یلغار کے جواب میں اُس دَور کے ائمہ کرام نے علمِ کلام کو فروغ دیا اور اُس کے ذریعے یہ ثابت کر دیا کہ اِسلام ہی دینِ برحق ہے۔ آج اگر ہم اِسلام کی حقیقی خدمت اور تبلیغِ دین کا فریضہ سراِنجام دینے کے خواہشمند ہیں تو ہمیں اُنہی اَئمہ کرام کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے موجودہ دَور کی عقل کی کسوٹی۔ ۔ ۔ سائنسی طریق کار۔ ۔ ۔ کے مطابق اِسلام کی ترویج و اِشاعت کا فریضہ سراِنجام دینا ہو گا اور مستشرقین کے نازیبااور اِسلام کش وطیروں کا سدباب کرنے کے لئے’’ جدید علمِ کلام‘‘ اپنانا ہو گا، جس میں سائنسی اندازِ فکر رکھنے والے معاشروں تک اِسلام کا پیغام بحسن و خوبی پہنچانے کا اِنتظام ہو۔ اِسلام کا مؤثر اور خاطر خواہ دِفاع صرف اِسی صور ت میں ممکن ہے کہ ہم دین کے علم کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے کے لئے نسلِ نو کے طلباء کو جدید سائنسی علوم اور نظریات و تحقیقات سے شناسا کریں تاکہ اُن تعلیمات کی روشنی میں وہ عصری علوم سے مسلح ہوکر اُن حملوں کا مقابلہ کرسکیں جو مغرب کی طرف سے اِسلام پر کئے جا رہے ہیں۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کا فروغ تو کجا محض ان کا دِفاع بھی اِس کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمارا یہ اِقدام بعینہ اپنے اَسلاف کی سنت پر عمل ہو گا۔ جس طرح اُنہوں نے اپنے زمانے میں یونانی فلسفہ کو شاملِ نصاب کر کے اور یونانی علوم پر دسترس حاصل کر کے یونانیوں کے غیرفطری فکر و فلسفہ کا ردّ کیا، اُسی طرح ہمیں بھی جدید سائنس پر یدِطولیٰ حاصل کر کے مغربی ملحدانہ و کافرانہ نظریات و تصورات کا ردّ کرنا ہو گا۔ بصورتِ دیگر اِسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا خواب کسی طور پر بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پائے گا۔ فی زمانہ صورتحال یہ ہے کہ علم تو اپنی معراج کی طرف سرگرداں ہے اور ہم یکسر لکیر کے فقیر بنے ہوئے اپنی اُسی روِش پر قائم ہیں۔ اِس سے پہلے کہ اِسلام دُشمن قوتیں ہمیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیں ہمیں اپنی حکمت و دانش سے مؤثر اِقدام کے ذریعے اُن کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دینا ہوگا۔ اُٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی بپا دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا نام نہاد مبلغین کا رُوحانی اِسلام سے فرارکتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ اِس خلفشار اور بے یقینی کے دَور میں جب اِسلام کو ہر طرف سے تختۂ مشق بنایا جارہا ہے، اُمتِ مسلمہ ہی کے کچھ ایسے اَفراد نام نہاد واعظین و مبلغین کے لبادہ میں مصروفِ عمل ہیں، جنہوں نے رُوحانی اِسلام کی تبلیغ و ترویج کی بجائے اِسلام کے مادّی تصوّر کو اُبھارنا اپنا مطمعِ نظر بنالیا ہے۔ رُوحانیت کی نفی، عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنکار، معجزات کا ردّ اور کشف کی تکذیب پر اپنی زبان و قلم کا زور صرف کرنا اُن کا شِعار ہے۔ اولیاء و صوفیاء کی محبت اور اُن کی تعلیمات سے اِنکاری ہوکر وہ اِسلام کا ایسا مَن گھڑت تصوّر پیش کرتے ہیں جو اُن کی مادّی توجیہہ سے تو ہم آہنگ ہے لیکن اِسلام کی حقیقی تعلیمات کے ساتھ اُس کا دُور کا بھی علاقہ نہیں۔ یوںاِس نقطہ پر آ کراُن کی اور دُشمنانِ اِسلام مستشرقین کی بولیاں کسی حد تک ایک دوسرے سے مل بھی جاتی ہیں۔ اِس لئے کہ اِسلام دُشمن نظریات کے حامل مغربی دانشور اور مستشرقین بھی اُمتِ مسلمہ کو اُسی سرچشمے سے دُور کرنا چاہتے ہیں جو رُوحانیت سے پھوٹتا ہے اور یہ نام نہاد مبلغینِ اِسلام بھی رُوحانیتِ اِسلام کے فیضان سے مُنکر ہوکر اُن کے ہم نوا بن گئے ہیں۔ اَغیار تو ببانگِ دُہل یہ بات کہتے نہیں تھکتے کہ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح زندہ اور رُوحانی فیضان کے حامل ہو سکتے ہیں؟ یہ کج نہاد اور برخود غلط علماء بھی یہی بات کہتے ہیں کہ ہمارا نبی زندہ نہیں۔ وہ صرف قرآن کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں اور صاحبِقرآن کی عظمت و رُوحانیت سے اِنکاری ہیں۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ دینی مدارس میں تبلیغِ دین کا فریضہ سراِنجام دینے والے علماء کا عوام کی بڑی اکثریت سے رابطہ اور تعلقِ خاطر بالکل کٹ چکا ہے۔ وہ میدان جہاں تبلیغ کی اصل ضرورت ہے، وہ اُن کے حلقۂ اَثر سے باہر ہے۔ اِس وقت اِسلام کے نظریات و تصوّرات کی جنگ جس سطح پر شرق تا غرب، عرب و عجم کی سرزمین پر شدّ و مدّ کے ساتھ لڑی جارہی ہے، وہ ہمارے عام علماء کی رسائی سے باہر ہے۔ اگر ہمارے علماء میں سے کوئی کفر و اِلحاد کے معرکوں کا مقابلہ کرنے کے لئے وہاں پہنچتا بھی ہے تو وہ عصری علوم سے محرومی کی بنا پر دَعوت و تبلیغ کے لئے اُن دلائل کا سہارا لیتا ہے جو قرآن و سنت اور دَورِ حاضر کی علمی تہذیب کی سطح سے کہیں نیچے ہیں۔ اُن کے پاس محض کتابی و کراماتی دلائل ہیں یا تذکرے، مناظرے، فتوے اور اَشعار سے مزین باتیں اور تنقیدیں، جن سے وہ آج کے سائنسی ذِہن کی تسلی و تشفی نہیں کرسکتے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ قرآنی آیات اور اَحادیثِ مبارکہ سے جو مؤقف ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ اُن سے نہیں ہو پاتا اور خلطِ مبحث سے یہ نہیں کھل پاتا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط! وہ قرآنی آیات اور اَحادیث کی غلط تفسیر و توجیہہ کر کے اِس بات کو شِرک اور بدعت ثابت کرتے ہیں جو شِرک اور بدعت نہیں۔ اِسی طرح فتووں کا کاروبار گرم کر کے اُنہوں نے تکفیر سازی کے کارخانے کھولے ہوئے ہیں، جن سے وہ جسے چاہیں آنِ واحد میں کافر ثابت کردیتے ہیں۔ یوں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ قرآن و سنت کا نام لے کر قرآن و سنت پر مبنی عقیدے کی جڑیں کاٹی جا رہی ہیں اور کوئی اُن کے قلم اور زبان کو روکنے والا نہیں۔ (اِس موضوع پر اِسلامی عقیدے کی جزئیات سے آگہی کے لئے راقم کی کتب ’’عقیدۂ توحید اور حقیقتِ شِرک‘‘ اور ’’تصورِ بدعت اور اُس کی شرعی حیثیت‘‘ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے)۔ نسلِ نو کو رُوحانی اِسلام کی ترغیباِشاعت و تبلیغِ دِین کے ذریعے نئی نسل کو اِسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی عقلی و سائنسی ترغیب وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لیکن مقامِ اَفسوس ہے کہ ہمارے کج فکر نام نہاد مبلغینِ اِسلام قرآن و حدیث ہی کے ناقص اِستنباط و اِستدلال کا سہارا لیتے ہوئے نوجوانوں کو اِسلامی تعلیمات کے قریب لانے کی بجائے اُن کی دِین سے دُوری کا باعث بن رہے ہیں۔ موجودہ دورِ فتن کے پیشِ نظر عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ عام طور پر علمائے کرام اِسلام کی صحیح وکالت میں ناکامی کی صورت میں زمانے کو بُرا بھلا کہنے لگ جاتے ہیں۔ اپنے نامناسب طرزِعمل اور زمانے کا ساتھ نہ دے سکنے والے فکر پر نظرِ ثانی کی بجائے زمانے کو گالی دے کر اپنے فرائضِ منصبی سے سبکدوش ہو جانا ایک آسان کام ہے۔ اِسی وجہ سے سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا : لَا تَسَبُّوْا الدَّهْرَ فَاِنَّ اﷲَ هُوَ الدَّهْر. (مسند احمد بن حنبل، 5 : 299، 311) زمانے کو گالی نہ دو، زمانہ خود خدا ہے۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانِ مبارک اپنے اندر بیش بہا لطائف و معارف کا خزانہ رکھتا ہے۔ زمانے کو برا کہنے سے کوئی بات نہیں بنے گی بلکہ اِس کے برعکس معاملہ اور بگڑ جائے گا۔ اِس لئے کہ زمانے کا کام عدل کرنا ہے، اُسے سُستِ نہاد و سُست کوش مسلمانوں کے نفع و نقصان سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ تو اُ س کے حق میں فیصلہ دے گا جو اپنا مؤقف بہتر طریقے سے اُس کے سامنے پیش کرے گا۔ علماء و مبلغین کی ایک بڑی اکثریت عام طور پر قرآن و حدیث کو جس انداز سے پیش کر رہی ہے، وہ نئی نسل کو اِسلام کی طرف راغب کرنے کی بجائے اُس کے اندر مذہب بیزاری اور گمراہی کے رُجحانات کو فروغ دے رہا ہے۔ وہی قرآن جو سراپا ہدایت ہے، اُس کی مَن مانی اور غلط تشریحات سے گمراہی بھی اَخذ کی جا سکتی ہے اور ایسا فی الواقع ہو رہا ہے۔ قرآن حکیم اپنے بارے میں خود فرماتا ہے : يُضِلُّ بِه کَثِيْراً وَّ يَهْدِیْ بِه کَثِيْراً. (البقره، 2 : 26) یہ (قرآن) بہت سوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے۔ عالمِ اِسلام کی موجودہ نوجوان نسل بالعموم اور پاکستانی نسل بالخصوص جدید سائنسی تعلیم سے آراستہ ہوکرقرآن و سنت پر مبنی اُن عقائد و نظریات اور اَعمال کو تنقیدی نظر سے دیکھنے لگی ہے اور اُنہیں اَوہام و رسوم سے زیادہ درجہ دینے کو تیار نہیں، جو بزرگوں سے اُن تک روایتی انداز میں پہنچے ہیں۔ مغربی یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ جدید نسل جب رُوحانی سلسلوں کا نام سنتی ہے تو وہ اپنے بزرگوں کے سامنے جراتِ لب کشائی کرتے ہوئے اِستفسار کرنے لگتی ہے کہ یہ قادری، سہروردی اور چشتی سلسلے کیا ہیں؟ اِن کی اِفادیت اور ضرورت کیا ہے؟ مشائخ اور پیرانِ کرام کو ہم اپنا رہبر و رہنما کیوں مانیں؟ جو کچھ مانگنا ہو براہِ راست خدا سے کیوں نہ مانگا جائے؟ یہ توسل اور واسطہ کیونکر ضروری ہے؟ (اِس سلسلے میں راقم کی کتب ’’مسئلہ اِستغاثہ اور اُس کی شرعی حیثیت‘‘ اور ’’قرآن و سنت اور عقیدۂ توسل‘‘ کا مطالعہ مفید ہو گا)۔ اِس قبیل کے ہزاروں سوالات جو پڑھی لکھی نوجوان نسل کے ذِہنوں میں پرورش پاتے ہیں، کبھی کبھار نوکِ زبان پر بھی آجاتے ہیں۔ اَب بجائے دلیل سے بات کرنے اور سمجھانے کے ہم نئی نسل کی لب کشائی کو دریدہ دہنی اور گستاخی پر محمول کرنے لگتے ہیں اور اُنہیں کہتے ہیں کہ تم گستاخ ہو اور اپنے باپ دادا کے طریقے سے اِنحراف کی راہ اِختیار کرکے بھٹک گئے ہو۔ ہماری اِس ڈانٹ ڈپٹ اور دھمکی آمیز گفتگو سے عارضی طور پراُن کا اپنی زبانیں بند کرلینا تو کسی حد تک ممکن ہے مگر کچھ ہی عرصہ بعد وہ اِسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر باغی اور سرکش ہوجائیں گے۔ دِین سے اِس درجہ دُوری اور باغیانہ روِش کا واحد سبب پرانی نسل کا اپنی نئی نسل کے سامنے دِینی تعلیمات اور اُن کے اَثرات کو جدید انداز اور عصری علم کی زبان میں بہتر طوت پر پیش نہ کر سکنا ہے۔ ایک نصیحت آموز واقعہراقم کو ایک تنظیمی و تحریکی دَورے میں لندن میں قیام کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کا موضوع کی مناسبت سے مختصر تذکرہ خالی از فائدہ نہ ہوگا۔ ہمارے ایک بزرگ ہیں، جن سے ہماری برسوں سے دوستی ہے۔ وہ اور اُن کے والد گرامی صاحبِ نسبتِ مجاز بزرگ ہیں۔ ایک دن وہ میری قیام گاہ پر مجھ سے ملنے آئے اور اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ۔ ۔ بلکہ روہانسے سے ہوگئے۔ پوچھا کہ حضرت کیا بات ہے؟ خیریت تو ہے؟ کہنے لگے۔ ۔ ۔ خیریت کیسی! اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے پھر فرمایا کہ میں نے اپنے بچے کو دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک مسجد میں بھیجا تھا، جہاں قرآن مجید کا درس ہوتا تھا۔ بچہ کچھ دِن جاتا رہا پھر مسجد سے ایسا لوٹا کہ دوبارہ کبھی اُس مسجد کا رُخ نہ کیا۔ پوچھنے پر کہنے لگا۔ ۔ ۔ ’’میں وہاں درسِ قرآن سنتا رہا۔ ۔ ۔ لیکن جو کچھ بھی سنا، وہ تو علم و عقل سے پرے کی باتیں تھیں۔ ۔ ۔ میرا ذِہن ایسے دیو مالائی قصوں اور بے سروپا باتوں کو تسلیم نہیں کرتا‘‘۔ کیا کروں وہ بچہ جسے دین سیکھنے کے لئے بھیجا تھا، وہ اپنے عقیدے، مسلک اور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان غرضیکہ ہر چیز کا مُنکر ہوگیا ہے۔ میں نے کہاکہ ’’آپ شام کا کھانا میرے ہمراہ کھائیں اور اُس بچے کو اپنے ساتھ لے آئیں۔ میرا مقصد محض اُس بچے کو سمجھانا اور اُس پر دِین کی رُوح واضح کرنا ہے‘‘۔ مگر اُس نے یہ کہہ کر آنے سے اِنکار کر دیا کہ ’’قادری صاحب تو بدعتی اور مُشرک ہیں‘‘۔ یہ صورتحال دیکھ کر میں خود اُس کے پاس گیا، اُس کا ماتھا چوما، پیار کیا اور کہا : ’’بیٹے! ہم آپ کے گھر مہمان آئے ہیں، آپ ہمارے پاس بیٹھیں تو سہی‘‘۔ اُس کے والد کو بھی بلالیا اور کہا کہ بچے کے ذِہن میں جو بھی اِشکال اور جواب طلب سوالات ہیں، وہ ایک ایک کر کے بیان کر دیں۔ وہ بیان کرتے گئے اور میں اُن سوالوں کا جواب دیتا گیا۔ گھنٹہ بھر کی نشست میں وہ ذِہنی طور پر پچاس فیصد مطمئن ہوگیا۔ جب ہم اُٹھ کے جانے لگے تو اس نے پوچھا : ’’آپ کتنے دن یہاں ٹھہریں گے‘‘؟۔ ۔ ۔ ’’دو تین دن‘‘ ہم نے جواب دیا۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہنے لگا : ’’ ایک گھنٹہ اور دے دیں‘‘۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہا : ’’صرف آپ کے لئے نہیں بلکہ اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھی لے آئیں۔ ۔ ۔ سب کے لئے ایک کھلی نشست ہوگی‘‘۔ ۔ ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب دُوسری عام نشست اپنے اِختتام کو پہنچی تو وہ بچہ رُخصت ہوتے وقت مجھ سے لپٹ گیا اور کہنے لگا : ’’ اللہ آپ کا بھلا کرے، آپ نے مجھے گمراہی میں مبتلا ہونے سے بچالیا‘‘۔ اب وہ بچہ بحمداللہ راسخ العقیدہ ہے اور اِسلامی تعلیمات پر کاربند ہے۔ یورپ میں رہنے والے ایسے تارکینِ وطن جن کی اَولادیں بالعموم اُسی جدید تعلیم یافتہ ماحول میں پل بڑھ کر جوان ہوئی ہیں، اکثر و بیشتر اِسی طرح کے حالات سے دوچار ہیں۔ فقط ہماری کج فہمی اور جدید علوم سے اِغماض کی روِش سے اُن کے قلوب و اَذہان صحیح اِسلامی عقیدے اور تعلیمات سے مُنحرف ہو رہے ہیں، جس کی تمام تر ذمہ داری ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے۔ اگروقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اِسلام کو صحیح طریقے سے پیش کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم جدید نسل کے اِیمان کو غارت ہونے سے بچا نہ لیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم اپنی اَولادوں کو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ دِین کی تعلیم بھی صحیح سائنسی طریق سے دیں تاکہ وہ عقائدِ اِسلامیہ پر مضبوطی اور پختگی کے ساتھ جمے رہیں۔ وقت کا اہم تقاضانوجوانوں میں اِسلام کی عظیم رُوحانی تعلیمات کو واضح کرنے کے لئے یہ بات اِنتہائی اہم ہے کہ سلاسلِ طریقت اور خانقاہی نظام کے اربابِ فکر و نظر اپنی اولاد کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیں اور اُن کی تربیت صحیح نہج پر کریں تاکہ اِسلام کا رُوحانی وِرثہ زمانے کی دست بُرد سے تباہ ہونے سے بچ جائے۔ اِس دورِ فتن میں بہت کم خانقاہیں اور رُوحانی خانوادے مادّیت کی یلغار سے محفوظ رہ گئے ہیں اور خال خال ہی ایسے رہ گئے ہیں جنہیں دیکھ کر اَسلاف کی یاد دِل و دماغ میں تازہ ہوجائے۔ اکثر یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ خانقاہوں کی رُوحانی بنیاد منہدم ہوگئی ہے اور اَسلاف کے قائم کردہ اُن رُوحانی مراکز پر محض ظواہر پرستی ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔ اَیسے ہی حالات کے پیشِ نظر حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا : خانقاہوں میں کہیں لذّتِ اَسرار بھی ہے؟ مدرسوں میں کہیں رعنائیئِ اَفکار بھی ہے؟ اولیاء اللہ کا مقام۔ ۔ ۔ قرآن کی نظر میںقرآنِ مجید کا انداز اور اُسلوبِ بیان اپنے اندر حِکمت و موعظت کا پیرایہ لئے ہوئے ہے۔ اِسی موعظت بھرے انداز میں بعض اَوقات آیاتِ قرآنی کے براہِ راست مخاطب حضور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہوتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے پوری اُمت کو حکم دینا ہوتا مقصود ہے۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزّت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِرشاد فرمایا : وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلاَ تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًاO (الکهف، 18 : 28) (اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں، اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں، تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں اُن سے نہ ہٹیں۔ کیا تو (اُن فقیروں سے دِھیان ہٹا کر) دُنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے؟ اور تو اُس شخص کی اِطاعت بھی نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اُس کا حال حد سے گزر گیا ہےo اِس اِرشادِ ربانی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے اُمتِ مسلمہ کے عام افراد کو یہ حکم دِیا جارہا ہے کہ وہ اُن لوگوں کی معیت اور صحبت اِختیار کریں اوراُن کی حلقہ بگوشی میں دِلجمعی کے ساتھ بیٹھے رہا کریں، جو صبح و شام اللہ کے ذِکر میں سرمست رہتے ہیں اور جن کی ہر گھڑی یادِالٰہی میں بسر ہوتی ہے۔ اُنہیں اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے کسی اور چیز کی طلب نہیں ہوتی، وہ ہر وقت اللہ کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔ یہ بندگانِ خدا مست صرف اپنے مولا کی آرزو رکھتے ہیں اور اُسی کی آرزو میں جیتے ہیں اور اپنی جان جاںآفریں کے حوالے کردیتے ہیں۔ اﷲ کے ولیوں کی یہ شان ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے ہونا چاہتے ہیں اُنہیں چاہئیے کہ سب سے پہلے وہ ان اولیاء اﷲ کی صحبت اِختیار کریں۔ چونکہ وہ خود اﷲ کے قریب ہیں اور اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے عامۃ المسلمین کو اُن کے ساتھ جڑ جانے کا حکم فرمایا ہے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے یہی قرآنی نکتہ اپنے اِس خوبصورت شعر میں یوں بیان کیا ہے : ہر کہ خواہی ہمنشینی با خدا اُو نشیند صحبتے با اولیاء ترجمہ : جو کوئی اللہ تعالی کی قربت چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کرے۔ غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حضر ت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ رکن عالم رحمۃ اللہ علیہ اور حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے خود کو اللہ کے قریب کرلیا تھا۔ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ایسے ہی لوگوں کی صحبت اِختیار کرنے اور اُن سے اِکتسابِ فیض کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ کے ولی کی مجلس میں بیٹھے گا اُسے اللہ کی قربت اور مجلس نصیب ہوگی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نہ جنت کا لالچ ہے اور نہ ولایت کا، نہ کرامت کا شوق ہے اور نہ شہرت کی طلب، یہ نہ حوروں کے متمنی ہیں نہ قصور کے۔ اِن کا واحد مقصد اللہ کا دیدار ہیاور یہ فقط اللہ کے مکھڑے کے طالب ہیں۔ لہٰذا عام لوگوں کو تعلیم دی گئی کہ جو لوگ میرے (اللہ کے) مکھڑے کے طالب ہیں اُنہیں بھی اُن کا مکھڑا تکنا چاہیئے اور اپنی نظریں اُن کے چہروں پر جمائے رکھنا چاہیئں۔ جبکہ دُوسری طرف اللہ کی یاد سے غافل لوگوں سے دُور رہنے کا حکم دیا گیا : وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا. (الکهف، 18 : 28) اور تو اُس شخص کی اِطاعت نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے۔ اِسی طرح سورۂ انعام میں اِرشاد ربانی ہوا : فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَo (انعام، 6 : 68) پس تم یاد آنے کے بعد (کبھی بھی) ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھا کروo اِن آیاتِ مبارکہ میں یہ بات بالصراحت واضح ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ سے دُور ہٹانے والوں کے ساتھ نشست و برخاست سے بھی اِجتناب کیا جائے۔ اُس کی محبت اور توجہ کے حصول کے لئے طالبانِ حرص و ہوس اور بندگانِ دُنیا کی صحبت کو کلیتاً ترک کرنا اور اولیاء اﷲکی نسبت اور سنگت کو دِلجمعی کے ساتھ اِختیار کرنا نہایت ضروری ہے۔ بقولِ شاعر : صحبتِ صالح تُرا صالح کند صحبتِ طالع تُرا طالع کند اولیا ء اللہ کی معیت کس لئے؟یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کی بجائے اولیاء اللہ کی سنگت اور ہم نشینی اِختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کے سلسلے میں آنے، بیعت کرنے اور نسبت قائم کرنے کی شریعت میں کیا اہمیت ہے؟ چاہیئے تو یہ تھا کہ سارا معاملہ براہِ راست اللہ سے اُستوار کرلیا جاتا اور سیدھا اُسی سے تعلق اور ناطہ جوڑنے کی کوشش کی جاتی۔ آخر بندوں کو درمیان میں لانے اور اُنہیں تقرّب اِلیٰ اللہ کے لئے واسطہ بنانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ مقصودِ کل تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کی ذات ہے؟ یہ سوال آج کے دور میں دو وُجوہات کی بناء پر اِنتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک اِس لئے کہ جوں جوں زمانہ آگے گزرتا جارہا ہے رُوحانیت اور رُوحانی فکر مٹتا چلا جا رہا ہے۔ مادّیت اور مادّی فکر دُنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیمات پر بھی غالب آتا جا رہا ہے اور اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ دِین اور مذہب کو بھی مادّی پیمانوں پر پرکھنے لگے ہیں۔ اِس سوال کی پیدائش کا دُوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ آج کا دور بے عملی کے ساتھ ساتھ بدعقیدگی کا دور بھی ہے۔ مذہبی اور دِینی حلقوں میں نام نہاد خالص توحید پرست طبقے اولیاء اللہ کی عظمت کے صاف مُنکر ہیں اور اُن سے منسوب تعلیمات کو شرک و بدعا ت کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک اِسلام کے رُوحانی نظام کی نہ تو شرعی اہمیت ہے اور نہ اِس کی کوئی تاریخی حیثیت ہی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ راہِ راست سے بھٹک کر اولیائے کرام کی تعلیمات اوراُن کے عظیم سلسلوں اور نسبتوں سے دُور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس طرح کی باتیں آج کل بڑی شدّت سے زور پکڑ رہی ہیں اور یہ سوال ذِہنوں کو مسلسل پراگندہ (Confuse) کر رہے ہیں کہ اولیاء و صوفیاء کو اﷲ اور بندے کے مابین واسطہ ماننے کا از روئے شریعت کیا جواز ہے! جب ہم اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید سے پوچھتے ہیں تو وہ ہمیں صراحتاً بتاتا ہے کہ بندوں اور خدا کے درمیان اولیاء اللہ کو خود اللہ ربّ العزّت نے ہادی و رہبر کے طور پر ڈالا ہے۔ کسی اِنسان کی اِتنی مجال کہاں کہ وہ ایسی جسارت کرسکے! اِس بارے میں قرآن مجید کے الفاظ : ’’وَ اصْبِرْ نَفْسَکَ‘‘ اِس حکم کی نشاندہی کرتے ہیںکہ اولیاء اللہ کو ہدایت الیٰ اﷲ کے لئے درمیانی واسطہ بنائے بغیر اور کوئی چارہ نہیں اور اﷲ تعالیٰ تک رسائی کی یہی صورت ہے کہ اُس کے دوستوں سے لو لگائی جائے۔ جب اُن سے یاری ہو جائے گی تو وہ خود اﷲ ربّ العزّت کی بارگاہ کا راستہ دِکھائیں گے۔ ازل سے سنتِ الٰہی یہی ہےاللہ ربّ العزّت نے اپنی توحید کا پیغام اپنے بندوں تک پہنچانے کے لئے انبیاء علیہ السلام کو بھیجا، جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ہر دور میں اُس فریضۂ نبوت کو بطریقِ اَحسن سراِنجام دیتے رہے۔ اِبتدائے آفرینش سے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ مخلوقاتِ عالم تک اپنا پیغا م انبیاء علیہ السلام کی وساطت سے پہنچاتا رہا ہے۔ انبیاء علیہ السلام کی ظاہری حیات کے دور میں اُن کو اپنے اور بندوں کے درمیان رکھا اور اب جبکہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا ہے تواِ سی کام کے لئے اولیاء اللہ کو مامور کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ تا قیامِ قیامت ابدالاباد تک جاری و ساری رہے گا۔ یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ اپنی توحید کا پیغام اپنے بندوں کو دینا چاہتا ہے تو ’’ قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ‘‘ فرماتا ہے۔ یعنی اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ اپنی زبان سے کہہ دیں کہ اللہ ایک ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اے اللہ! تو خود اپنی توحید کا اِعلان کیوں نہیں کرتا؟۔ ۔ ۔ تو خود ہی فرمادے کہ میں ایک ہوں! اللہ تعالی جواب دیتا ہے کہ نہیں یہ میری شان نہیں کہ بندوں سے از خود کلام کروں اور نہ ہی کسی بشر کی مجال ہے کہ وہ اللہ سے براہِ راست کلام کرے۔ اﷲ ربّ العزّت نے فرمایا : وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُکَلِّمَهُ اﷲُ إلاَّ وَحْياً أَوْ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلاً فَيُوْحِیَ بِإذْنِه مَا يَشَآءُط إنَّه‘ عَلِیٌّ حَکِيْمٌo (شوریٰ، 42 : 51) اور کسی آدمی کی یہ طاقت نہیں کہ اﷲ سے (براہِ راست) بات کرے مگر ہاں (اِس کی تین صورتیں ہیں یا تو) وحی (کے ذریعے) یا پردے کے پیچھے سے یا (اﷲ) کسی فرشتے کو بھیج دے کہ اس کے حکم سے جو اﷲ چاہے وحی کرے، بے شک وہ بڑے مرتبہ والا، حکمت والا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان اِس امر پر دلالت کرتاہے کہ وہٰ یہ کام اپنے منتخب مکرم بندوں سے کراتا ہے، جنہیں منصبِ رسالت پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے کہ میں اپنے اُس نبی اور رسول ہی سے کلام کرتا ہوں جسے منصبِ نبوت و رسالت سے سرفراز فرماتا ہوں اور اپنے اُس محبوب کو اپنا ہمراز بناتا ہوں اور اُسے اپنی خبر دیتا ہوں۔ اِسی لئے فرمایا : اے محبوب! تجھے میں نے اپنا رسول بنایا ہے، تو ہی میرے بندوں کے پاس جا اور اُنہیں میری یکتائی کی خبر دے اور جو کلام میں نے تجھ سے کیا ہے وہ اُن تک پہنچادے۔ آیتِ مبارکہ : قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ میں لفظِ ’’قُلْ‘‘ رسالت ہے، جبکہ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ ’’وہ اللہ ایک ہے‘‘۔ ۔ ۔ یہ الفاظ اﷲ ربّ العزّت کی توحید پر دلالت کرتے ہیں۔ اِس آیتِ کریمہ سے یہ پتہ چلا کہ توحید کے مضمون کا عنوان بھی رسالت ہے تاکہ لوگوں کو اِس امر سے مطلع کردیا جائے کہ اللہ ایک ہے اور وہی سب کا ربّ ہے۔ اِس سے یہ نکتہ کھلا کہ اللہ کی سنت یہی ہے کہ وہ کسی سے براہِ راست کلام نہیں کرتا اور اگر وہ کسی سے کلام کرنا چاہتا ہے تو درمیان میں واسطۂ رسالت ضرور لاتا ہے۔ اب کس کی یہ مجال ہے کہ وہ رسول کے واسطے کے بغیر اُس سے ہمکلام ہونے کی کوشش کرے! آیۂ توحید سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اللہ ربّ العزّت اپنے بندوں سے ہم کلام ہونے کے لئے اپنے رسول کا واسطہ درمیان میں لاتا ہے۔ ۔ ۔ تو جب وہ خدا ہو کر اپنے بندوں سے ہمکلام ہوتے وقت رسول کا واسطہ درمیان میں لانے سے اِجتناب نہیں کرتا تو ہم بندے ہو کر اُس کے رسول کا واسطہ لائے بغیر اُس سے ربط و تعلق کیونکر برقرار رکھ سکتے ہیں! یہ اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے اور ہم اُس کے حکم کے پابند ہیں، اُس سے رُوگرانی نہیں کرسکتے۔ بخدا خدا کا یہی ہے درربّ ذوالجلال نے یہ بنیادی نکتہ، کلیہ اور اصل الاصول بیان فرمادیا کہ میری اِطاعت کا راستہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کے راستے سے ہو کر گزرتا ہے۔ کلامِ مجید میں اِرشاد ہوا : مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اﷲَ. (النساء، 4 : 80) جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کرتا ہے تحقیق اُس نے اللہ کی اِطاعت کی۔ اِس آیتِ کریمہ میں اﷲ ربّ العزّت دوٹوک اِعلان فرما رہا ہے کہ ’’اے میرے بندو! یہ بات ہمیشہ کے لئے اپنے پلے باندھ لو کہ تم میں سے جو کوئی میری اِطاعت کا خواہشمند ہو اُسے چاہیئے کہ پہلے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کو اپنے اُوپر لازم کرے۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت ہی میری اِطاعت ہے۔ خبردار! میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت بجا لائے بغیر میری اِطاعت کا تصور بھی نہ کرنا‘‘۔ قرآن مجید نے اِس نکتے کو یہ کہہ کر مزید واضح فرمادیا : قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ. (آل عمران، 3 : 31) (اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !) فرما دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اِتباع میں آجاؤ، اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔ گویا اﷲ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دِیا کہ اے محبوب! آپ فرمادیجئے کہ اگر تم میں سے کوئی اللہ کی محبت اور غلامی کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ پہلے میری محبت اور غلامی کا قلاّدہ اپنے گلے میں ڈال لے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اُسے اللہ کی محبت نصیب ہوجائے گی۔ اِس آیتِ کریمہ سے یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ اللہ کے نزدیک وہ محبت اور اِطاعت ہرگز معتبر اور قابلِ قبول نہیں جو اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دَم بھرے اور اُس کی اِطاعت بجالائے بغیر ہو۔ اُس نے اپنے رسول کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان واسطہ بنادیا اور یہ بات طے کردی کہ اِس واسطہ کو درمیان سے نکال کر اِطاعت و محبتِ اِلٰہی کا دعویٰکسی طور پر بھی مبنی بر حقیقت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مزید ارشاد فرمایا : وَ إذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَإنِّیْ قَرِيْبٌط (البقرة، 2 : 186) اور (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں (تو فرمادیں) پس میں قریب ہوں۔ یعنی اے میرے محبوب! جب میرے متلاشی بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو آپ اُنہیں کہہ دیجئے کہ میں اُن کے بہت قریب ہوں۔ اِس آیتِ مبارکہ میں کہا جارہا ہے کہ میں اُن بندوں کے قریب ہوں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بندے کون ہیں جنہیں قربِ الٰہی کا مژدۂ جانفزا سنایا جارہا ہے! ذرا غور کریں تو یہ نکتہ کھل جائے گا کہ میرے بندے وہ ہیں جو پہلے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در کے سوالی بنیں۔ جو اُن کے در کا سوالی ہوگا، وُہی میرا بندہ ہوگا۔ اور جو اُس در کا سوالی نہ ہوگا، وہ میرے در کا سوالی نہیں اور وہ کبھی شانِ بندگی کا حامل نہیں ہوسکتا۔ اِسی سیاق میں اِمام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے کیاخوب کہا ہے : بخدا خدا کا یہی ہے دَر، نہیں اور کوئی مفرّ مقرّ جو وہاں سے ہو، یہیں آکے ہو، جو یہاںنہیں، تو وہاں نہیں خدا کی بندگی کے لئے واسطۂ رِسالت کی ناگزیریتاللہ تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے درمیان رِسالت ایک ایسا واسطہ ہے جس سے اِطاعت و محبتِ الٰہی کے باب میں صرفِ نظر نہیں کیاجاسکتا۔ اِس لئے جب منافقین نے از رُوئے بغض و عناد درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سرِ تسلیم خم کرنے سے اِنکار کردیا تو اللہ ربّ العزّت نے یہ اِرشاد فرما کر اُن کی قلعی کھول دی : وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًاo (النساء، 4 : 61) اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور رسول کی طرف تو آپ دیکھیں گے کہ منافق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں۔ ملاحظہ ہو کہ یہ منافق لوگ اللہ کی طرف آنے سے پس و پیش نہیں کریں گے اور انہیں کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور گھبراہٹ نہ ہوگی، مگر جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اپنا چہرہ یہ کہہ کر پھیرلیتے ہیں کہ جب بالآخر اللہ ہی کی طرف جانا ہے تو سیدھے اُسی کی طرف کیوں نہ جائیں۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کیوں جائیں؟ اﷲتعالیٰ نے اُن لوگوں کے بارے میں جن کے دلوں کے اندر چور ہے دو ٹوک اِعلان کر دیا کہ وہ میرے بندے نہیں بلکہ منافق ہیں۔ میرا اُن سے نسبتِ بندگی کے ناطے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات محوّلہ بالا اِرشادِ ربانی سے طے ہوگئی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ پر چلے بغیر کوئی اپنی منزل کو نہیں پاسکتا۔ وہ لاکھ ٹکریں مارتا رہے، اُس کی بندگی کو بارگاہِ خداوندی میں سندِ قبولیت نہیں مل سکتی۔ بقول سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ : خلافِ پیغمبر کسے رَہ گزید ہرگز نخواہد بمنزل رسید اللہ ربّ العزّت چاہتا تو اپنا پیغام براہِ راست اپنے بندوں تک پہنچانے کا انتظام کر سکتا لیکن اُس کے باوجود اُس نے اپنے اور بندوں کے درمیان رِسالت کا واسطہ رکھا۔ اُس کی قدرتِ کاملہ کے سامنے کوئی چیز محال نہیں، وہ اپنے فرشتوں سے یہ کام لے سکتا تھا۔ عین ممکن تھا کہ ہر شخص جب صبح بیدار ہوتاتو اُس کے سرہانے ایک سیپارہ پڑا ہوتا جس پر درج ہدایتِ ربانی اُس کے دل میں اُترجاتی۔ وہ کلام جو اُس نے اپنے چنیدہ و برگزیدہ انبیاء و رُسل کے ساتھ کیا، وہ اپنے ہر بندے کے ساتھ بھی کرسکتا تھا، اِس طرح ہر بندے کا تعلق براہِ راست اُس سے قائم ہوجاتا۔ لیکن اپنی بے پایاں حکمتوں کے پیشِ نظر اﷲ تعالیٰ نے اِس بات کا فیصلہ کردیا کہ میری ہدایت میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے کے بغیر ممکن نہیں اور میری معرفت کو وہی پاسکتا ہے جسے میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت حاصل ہوجائے۔ مہرِ انگشتریئِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ناموں کی ترتیبتاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک انگوٹھی تھی، جس پر ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ‘‘ کے الفاظ کندہ تھے۔ آپ اُس سے مُہر لگایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، 1 : 15) حکمرانانِ وقت کو خطوط بھجواتے وقت اُن پر یہ مہر لگوائی جاتی تھی۔ آجکل یہ خطوط چھپ چکے ہیں اور اُنہیں ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔ عربی ہمیشہ دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے۔ مگر یہ بات غور طلب ہے کہ انگوٹھی مبارک کی مہر میں یہ ترتیب نیچے سے اوپر کی طرف چلی گئی ہے اور وہ یوں کہ ’’محمد‘‘ نیچے، ’’رسول‘‘ درمیان میں اور ’’اﷲ‘‘ سب سے اُوپر لکھا گیا ہے۔ یہ ترتیب محض کوئی اِتفاقی امر نہیں بلکہ اِس کا مقصد لوگوں کو یہ سمجھانا تھا کہ اگر تم اللہ کا قرب حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہو تو اُس کا راستہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور اِتباع میں مضمر ہے۔ یہ ترتیبِ صعودی اِس بات کی مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز پر سرِتسلیم خم کرنا لازمی ولابدّی امر ہے۔ ہمارے سفر کی اِنتہا تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات تک رسائی ہے، باقی رہا اللہ سے ملانا تو یہ اُن کا کام ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے : تیری معراج کہ تو لوح و قلم تک پہنچا میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تقسیمِ فیوضاتِ الٰہیہیہ بات طے ہوگئی کہ بارگاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شرفِ حضوری حاصل کرنے والے کو ہی فیضانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہوگا۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ فیضانِ رسالت ہی معرفتِ الٰہی کے حصول کا پیش خیمہ ہے۔ واسطۂ رِسالت ہی وہ زِینہ ہے جو سیدھا عرشِ اِلٰہی تک جاتا ہے۔ اگر کوئی اِس واسطے کو درمیان سے ہٹانا چاہے تو اُس کا یہ عمل اللہ کے نظام کو منسوخ کرنے کی سعیء موہوم کے مترادف ہوگا۔ اِس حقیقت پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اِرشادِ مبارک دلالت کرتا ہے : اِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَ اﷲُ يُعْطِیْ. (صحيح البخاری، کتاب العلم، 1 : 16) (الصحيح لمسلم، کتاب الزکوٰة، 1 : 333) (مسند احمد بن حنبل، 2 : 234) (المعجم الکبير، 19 : 284، رقم : 755) (شرح السنة، 1 : 284، رقم : 131) میں (نعمتوں کی) تقسیم کرنے والا ہوں اور عطا کرنے والا اﷲ ہے۔ اِس حدیثِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطائے نِعم کے مالک اﷲ ربّ العزّت کا ذکر بعد میں اور اُن نعمتوں کی تقسیم کے حوالے سے اپنا ذِکر پہلے کیا ہے۔ گویا یوں فرمایا کہ : ’’اے لوگو! کہاں بھٹکے جارہے ہو! قاسم میں ہی ہوں۔ اگر تمہیں خیرات و فیوضاتِ الٰہیہ چاہئیں تو تمہیں میرے دروازے پر آنا ہوگا۔ اگر مجھ سے گریزاں ہو گے تو دربدر کی ٹھوکریں کھانا تمہارانصیب ہوگا اور تمہیں ذِلت و رُسوائی کی خاک پھانکنے کے سِوا اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ فیوضاتِ الٰہیہ کی خیرات صرف اِسی در سے مل سکتی ہے، اِس لئے آؤ اور میری دہلیز پر جھک جاؤ‘‘۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے : محمدِ عربی کہ آبروئے ہر دو سرا ست کسے کہ خاکِ درش نیست خاک بر سر اُو سائنس اور سلسلۂ رُوحانیت میں باہمی ربط و تعلقجیسا کہ ہم شروع میں یہ ذکر کرچکے ہیں کہ مذہب (اِسلام) اور سائنس کے درمیان کسی قسم کی مغایرت نہیں ہے۔ وہ دِن دُور نہیں جب سائنسی اِنکشافات و تحقیقات کلی طور پر اِسلام کی بنیادی صداقتوں کی آئینہ دار ہوں گی۔ لیکن اِس نہج پر مسلمان اہلِ علم اور ماہرینِ سائنس کو ابھی بہت سا کام کرنا ہے۔ دورِ جدید میں اِسلام کی حقانیت و صداقت کو علومِ جدیدہ اور سائنس کے اِستدلال سے ثابت کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے، جس سے زیادہ دیر تک صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ آج دِینی تعلیمات سے بے بہرہ اور خام ذِہن یہ سوال کرتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مدینہ منورہ ہم سے ہزاروں کلومیٹر کی مسافت پر ہے، وہاں سے فیض رسانی کا سلسلہ جاری ہے؟ اور یہ کہ اولیاء کو یہ فیض بارگاہِ رِسالت سے ملتا ہے اور وہ اُسے ہم تک پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں؟ اِس کی توجیہہ کیسے کی جاسکتی ہے؟ یہ سلاسلِ طریقت اور یہ نسل در نسل فیضانِ ولایت کی ترسیل اور منتقلی کس طرح ممکن ہے؟ یہ اور اِس طرح کے بے شمار دیگر سوالات ذِہنِ اِنسانی میں کروٹ لیتے رہتے ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ اِنسان کے پاس ’’حقیقت‘‘ کے اِدراک کے لئے سائنسی طریقِ کار ایک ایسا معتبر و مستند ذریعہ ہے جو عقلی اِستدلال اور مشاہدۂ حقائق کی بنیاد پر کوئی نظریہ قائم کرتا اور نتائج اَخذ کرتا ہے، جنہیں مسلسل تجربے کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ سائنس کا مطالعہ معروضی حالات کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے۔ سائنس اور مذہب کی حدود اور دائرۂ کار بالکل جدا جدا ہیں۔ سائنس صرف عالمِ اَسباب کا اِحاطہ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے اور اُسے عالمِ اَسباب کے علاوہ کسی اور شئے سے سروکار نہیں، جبکہ مذہب ما بعد الطبیعاتی حقائق اور اُخروی زندگی جیسے اُمور کو زیر بحث لاتا ہے۔ چونکہ اِن دونوں کا دائرۂ کار قطعی مختلف ہے لہٰذا سائنس اور مذہب میں کبھی بھی کسی قسم کا کوئی باہمی ٹکراؤ اور تضاد ممکن نہیں۔ دوسری طرف جدید سائنس کے بارے میں ایک بات نہایت وُثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ سائنس کے میدان میں ہونے والی ہر پیش رفت اِس حقیقت کو بے نقاب کرتی نظر آتی ہے کہ اِس کائنات کی بنیاد مادّی نہیں بلکہ رُوحانی ہے۔ جدید سائنس ایٹمی توانائی کی دریافت کے بعد ایک بہت بڑے سربستہ راز سے پردہ اُٹھا چکی ہے۔ وہ یہ کہ کائنات کے ہر ننھے ذرّے کے اندر توانائی کا ایک بیش بہا خزانہ چھپا ہوا ہے، جس سے کائنات میں محیر العقول کارنامے سراِنجام دیئے جاسکتے ہیں۔ آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کی مساوات E = mc2 کی گتھیاں سلجھانے کے بعد اب سائنس پر فطرت کا یہ راز بے نقاب ہوچکا ہے کہ مادّے کو پوری طرح توانائی میں بدلنا ممکن ہے۔ یوں یہ بات تیقن کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ سائنس اور مذہب میں کوئی تضاد نہیں اور یہ کہنا کہ دونوں میں نباہ نہیں ہوسکتا خود دقیانوسی سوچ اور خام خیالی ہے۔ ایک بات بالکل واضح ہے کہ جہاں سائنس کلی طور پر مادّی زندگی کے مظاہر سے متعلق ہے اور اُسے رُوحانی زِندگی سے کوئی سروکار نہیں، وہاں مذہب اوّل تا آخر رُوحانی زِندگی سے بحث کرتا ہے اور اس کا اِطلاق مادّی زندگی پر کر کے اِنسان کی دُنیوی و اُخروی زِندگی کو بہتر بنانے کی کامل صلاحیت رکھتا ہے۔ سائنس۔ ۔ ۔ دورِ حاضر کا سب سے بڑا معیارِ علمآج کا دور مادّی ترقی کے عروج کا دور ہے۔ سائنس اِس مادّی دُنیا کا سب سے بڑا علمی معیار ہے۔ اِس دور میں ہر بات کو سائنسی پیمانے پر پرکھا اور جانچا جاتا ہے۔ فقط اُسی چیز کو حق مانا جاتا ہے جو سائنسی پیمانوں پر کماحقہ پورا اُتر رہی ہو اور جو چیز سائنسی کسوٹی پر پورا نہ اُترے اُسے محض تصوّر و تخیل اور توہمات پرستی تصوّر کرتے ہوئے ردّ کر دیا جاتا ہے، جبکہ جدید سائنسی تحقیقات کی بدولت اِسلامی تعلیمات کی روز اَفزوں تائید و توثیق میسر آ رہی ہے۔ (اِس موضوع پر تفصیلی معلومات کے لئے راقم کی کتاب Quran on creation & expantion of the universe کا مطالعہ ناگزیر ہے)۔ بدقسمتی سے اُمتِ مسلمہ بالعموم مادّہ پرستی کے چُنگل میں پھنس کر رُوحانی زِندگی سے دُور ہٹتی چلی جا رہی ہے۔ اِسلام کو بھی مادّہ پرستی کا لِبادہ پہنایا جارہا ہے۔ آج کا تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ بالعموم مادّیت زدگی، فکری اِفلاس، اِبہام اور تشکیک کا شکار ہے۔ اُس کی نظر میں وہی چیز درُست اور مبنی برحق ہے جسے سائنس تسلیم کرے۔ کم علمی اور بنیادی اِسلامی تعلیمات سے نا واقفیت کی بناء پر وہ مذہبی عقائد کو بھی ڈھکوسلا سمجھتا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ لوگوں میں یہ تصوّر پایا جاتا ہے کہ اولیاء اﷲ کی پیروی کرنا یا اُن کے عظیم رُوحانی سِلسلوں اور عرسوں کی بات کرنا، پرانے وقتوں کی رِوایات اور جہالت کی باتیں ہیں۔ دورِ جدید میں اِن باتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ جبکہ درحقیقت یہ بات کہنے والے خود دورِ جدید کے علم سے کلیتاً نابلد ہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس خود رفتہ رفتہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات اور اولیاء اللہ کی کرامات کو سچا ثابت کرتی چلی جارہی ہے۔ اب ہم کچھ سائنسی مثالوں کے ذریعے قرآن مجید کے اِس بنیادی فلسفہ اور تعلیم کو آسان کر کے سمجھانے کی کوشش کریں گے تاکہ دورِ جدید کا نوجوان یہ نہ سمجھے کہ یہ مذہبی لوگ صرف حکایتیں ہی سناتے رہتے ہیں جو پرانے لوگوں کی پرانی باتیں ہیں۔ ہم یہاں تفصیل میں جائے بغیر اپنی بحث کے دائرۂ کار کو ضروری معلومات بہم پہنچانے تک محدود رکھیں گے۔ زمین کی مِقناطیسیتقرآنی تعلیمات اور جدید سائنس کے تناظر میں سب سے پہلے ہم مقناطیس (Magnet) کے حوالے سے بات کریں گے۔ مادّی ترقی کے اِس دور میں مقناطیس پر بہت کام ہورہا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں اِس پر سیمینار منعقد کئے جارہے ہیں۔ اِس ضمن میں Super Electro Magnetism کے حوالے سے سائنسی تحقیق آگے بڑھ رہی ہے۔ مقناطیسیت وہ قوت ہے جس سے کوئی مقناطیس اپنے دائرۂ اثر کے اندر واقع چیزوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ ہر مقناطیس میں ایک خاص مقناطیسی قوت (Magnetic Force) ہوتی ہے، جس کا اثر ایک خاص فاصلے (Range) تک ہوتا ہے۔ جتنا طاقتور کوئی مقناطیس ہوگا اتنا زیادہ فاصلے تک اُس کا دائرۂ اثر ہوگا۔ اِسے اُس مقناطیس کا حلقۂ اثر (Magnetic Field) کہتے ہیں۔ ہماری زمین فی نفسہ ایک بڑا مقناطیس ہے، جس کی مقناطیسی قوت کا دائرۂ کار 80,000 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ اِس کے مقابلے میں مشتری (Jupiter) جو نظامِ شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے، اُس کی مقناطیسی قوّت زمین سے بھی اڑھائی لاکھ گنا زیادہ ہے۔ یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ جو جِرمِ فلکی (ستارہ یا سیارہ) جتنی زیادہ کمیّت پر مشتمل ہوگا، اُس کا دائرۂ کشش بھی اُسی قدر وسیع ہوگا۔ رُوحانی کائنات کا مِقناطیسی نظامرُوحانیت کی حقیقت کو نہ سمجھ پانے والے مادّیت زدہ لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کا ایک ولی ہزاروں میل کی مسافت سے اپنے مرید کو اپنی توجہ سے فیضاب کردے؟ اِتنی دور سے ایسا کیونکر ممکن ہے؟ کم علمی کے باعث پیدا ہونے والے اِن شکوک و شبہات کا جواب بالکل سادہ ہے کہ وہ قدیر و علیم ذات جس نے زمین اور مشتری جیسے سیارگانِ فلک کو وہ مقناطیسی قوّت عطا کر رکھی ہے، جو ہزاروں لاکھوں میلوں کے فاصلے پر خلاء میں اُڑتے ہوئے کسی شہابیئے (Meteorite) پر اثر انداز ہو کر اُسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے اپنے اُوپر گرنے پر مجبور کر سکتی ہے، کیا وہ قادرِ مطلق ذات مادّی حقیقتوں کو رُوحانی حقیقتوں سے بدلنے پر قادِر نہیں؟ اِس حقیقت کا اِدراک وُہی کرسکتا ہے جس کا دِل بصیرتِ قلبی اور نورِ باطنی سے بہرہ ور ہو۔ ہر صاحبِ علم پر یہ حقیقت مُنکشف ہے کہ زمین جو ایک بڑا مقناطیس ہے، اُس کی مقناطیسی قوّت اُس کے قطبین (Poles) سے پیدا ہوتی ہے، جو شمالی اور جنوبی پول (North & South Poles) کہلاتے ہیں۔ کششِ ثقل کے اِن اثرات کو قطب نما (Compass) کی مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ اُسے جونہی زمین پر رکھا جاتا ہے، اُس کی سوئیوں کا رُخ شمالاً جنوباً گھوم جاتا ہے۔ جب Compass کے مقابلے میں عام سوئیاں زمین پر رکھیں تو وہ جوں کی توں پڑی رہتی ہیں اور اُن کا رُخ شمالاً جنوباً نہیں پھرتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ Compass کی سوئی کو شمالاً جنوباً کس قوّت نے پھیرا؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ وہ مقناطیسی سوئی جس کی نسبت زمینی قطب (Pole) کے ساتھ ہوگئی وہ عام سوئی نہیں رہی بلکہ قطب نما بن گئی۔ اِسی نسبت کے اثر نے اُس کی سمت قطبین کی طرف پھیر دی۔ رُوحانی قطب نمائے اعظم۔ ۔ ۔ مکینِ گنبدِ خضرا ءمادّیت زدہ لوگوں کو جان لینا چاہئے کہ اُن کے دِل عام سوئی کی طرح ہیں جو کسی رُوحانی قطب سے منسلک نہ ہونے کے باعث اُس ایزد اَفروز نور سے محروم ہیں، جس کے بارے میں قرآن نے : لَا شَرَقِيَّةَ وَ لَا غَرَبِيَّةَ کہا، کیونکہ اُس کے نور کی حدیں شرق و غرب سے ماوراء ہیں۔ رُوحانی کائنات کا قطبِ اعظم صرف ایک ہے اور وہ گنبدِ خضرا میں مقیم ہے۔ زمین کے شمالی اور جنوبی دو پول ہیں، جن کی نسبت سے قطب نما کی سوئی شمالاً و جنوباً رُخ اِختیار کرلیتی ہے، جبکہ فرش سے عرش تک رُوحانی کائنات کا قطب گنبدِ خضرا کا مکین ہے۔ جس طرح عام سوئیوں کی نسبت زمین کے قطبین سے ہوجائے تو وہ عام سوئیاں نہیں رہتیں بلکہ خاص ہوجاتی ہیں، جو ظاہری واسطہ کے بغیر جہاں بھی ہوں خود بخود اپنی سمتیں شمالاً جنوباً درُست کرلیتی ہیں، بالکل اِسی طرح ایک مؤمن کا دِل بھی ہر آن مکینِ گنبدِ خضراء کی توجہاتِ کرم کی طرف مائل رہتا ہے۔ جن دلوں کی نسبت گنبدِ خضراء سے ہوجائے وہ عام نہیں رہتے بلکہ خاص دل بن جاتے ہیں۔ پھر وہ کسی ظاہری واسطے کے بغیر بغداد ہو یا اجمیر، لاہور ہو یا ملتان، جب اُن کی نسبتِ وُجود مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو جاتی ہے تو سمت خود بخود متعین ہوجاتی ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ سلسلۂ فیض منقطع ہوگیا تو اِس کا مطلب ہے کہ ہمارے دِل کی سوئی خراب ہے اور اُس کا رابطہ اپنے رُوحانی قطب سے کٹ گیا ہے، کیونکہ یہ فیضان تو ہمیشہ جاری رہنے والا ہے۔ اِس وسیع و عریض مادّی کائنات میں اپنے اپنے مداروں میں تیرنے والے تمام تر سیاروں اور ستاروں کے ہمیشہ دو دو پول ہوتے ہیں، جن سے اُ ن کی مِقناطیسی لہریں نکل کر اُن کی فضا میں بکھرتی اور بیرونی عناصرکے لئے اپنی طرف کشش پیدا کرتی ہیں جبکہ تحت الثریٰ سے اوجِ ثریا تک پھیلی ہوئی اِس ساری رُوحانی کائنات کا پول فقط ایک ہی ہے اور وہ ہماری ہی زمین پر واقع سرزمینِ مدینہ منورہ میں ہے۔ یہ نظامِ وحدت کی کارفرمائی ہے کہ جس دِل کی سوئی مدینہ کے پول سے مربوط ہوگئی وہ کبھی بھی بے سمت و بے ربط نہ رہے گا۔ آج بھی تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقناطیسی توجہ ہر صاحبِ ایمان کو اُسی طرح سمت (Direction) دے رہی ہے جیسے زمینی مقناطیس کے دونوں پول کسی قطب نما کی سوئی کو شمال و جنوب کی مخصوص سمت دیتے ہیں۔ مِقناطیس کیسے بنتے ہیں؟۔ ۔ ۔ شیخ اور مرید میں فرقمِقناطیس بنانے کے دو طریقے ہیں، جن سے عام طور پر لوہے کو مِقنایا جاتا ہے : 1۔ مِقناطیس بنانے کا پہلا اور دیرپا طریقہ الیکٹرک چارج میتھڈ (Electric Charge Method) کہلاتا ہے۔ اِس طریقے کی رُو سے لوہے کے ایک ٹکڑے میں سے برقی رَو (Electric Current) گزاری جاتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں جو مقناطیس بنتے ہیں اُنہیں Electric Charged Magnets یعنی برقی چارج کئے گئے مقناطیس کہتے ہیں۔ یہ مقناطیس اس آیۂ کریمہ کا مِصداق ہیں جس میں اللہ تعالی کا اِرشاد ہے : الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَه‘. (الکهف، 18 : 28) جو لوگ صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں اور اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اُن بندوں کی یہ کیفیت بیان فرمائی ہے کہ وہ صبح و شام اپنے مولا کی یاد میں مست رہتے ہیں۔ اُن میں محنت، مجاہدہ اور تزکیہ کی بجلی گزاری جاتی ہے تو رُوحانی طور پر چارج ہوجاتے ہیں۔ اس پروسس سے جو مقناطیس (Magnet) تیار ہوتے ہیں اُن میں سے کسی کو داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ بنا کر لاہور میں، کسی کو غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ بنا کر بغداد شریف میں، کسی کو خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ بنا کر اجمیر شریف میں اور کسی کو بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ بنا کر ملتان میں فیض رسانی کو جاری و ساری رکھنے کے لئے مامور کر دیا جاتا ہے۔ 2۔ مِقناطیس بنانے کا دُوسرا طریقہ سٹروک میتھڈ (Stroke Method) کہلاتا ہے۔ اِس کے مطابق لوہے کے ٹکڑے کو کسی مقناطیس کے ساتھ رگڑا جاتا ہے تو اُس میں مقناطیسیت (Magnetism) منتقل ہوجاتی ہے اور لوہے کا وہ ٹکڑا بھی اِس رگڑ اور معیت سے مِقناطیس بن کر لوہے کی عام اشیاء کو اپنی طرف کھینچنے لگ جاتا ہے۔ رُوحانی مقناطیسیت کی دُنیا میں دُوسرے طریقے کے ضمن میں وہ لوگ آتے ہیں جو مجاہدۂ نفس، محنت اور تزکیہ و تصفیہ کے اِعتبار سے کمزور ہوتے ہیں اور وہ اِس قدر ریاضت نہیں کرسکتے مگر اُن کے اندر یہ تڑپ ضرور ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے قلب و باطن کو کثافت اور رذائل سے پاک و صاف کر کے رضائے الٰہی سے ہمکنار ہوں۔ وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ. . . (الکهف، 18 : 28) تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھ۔ ۔ ۔ اِس آیتِ مبارکہ میں اُن طالبانِ حق کا ذِکر کیا گیا ہے جو اللہ والوں کی محبت اور معیت اختیار کر کے اپنے اندر للہیت، حق پرستی اور خدا پرستی کا جوہر پیدا کرلیتے ہیں۔ سٹروک میتھڈ والے ’’وَاصْبِرْ نَفْسَکَ‘‘ کے مِصداق ہوتے ہیں۔ مُرید دوسرے طریقے (Stroke Method) سے رُوحانی مقناطیسیت لیتا ہے اور شیخ پہلے طریقے (Electric Charge Method) سے مقناطیس بنتا ہے۔ اِیصالِ حرارت اور اِیصالِ رُوحانیتسٹروک میتھڈ کی مثال اِیصالِ مقناطیسیت کے ضمن میں اِیصالِ حرارت کی سی ہے۔ جیسے کسی مُوصِل شے کو آگ میں تپایا جائے تو وہ خود بھی گرم ہو جاتی ہے اور اپنی حرارت کو آگے بھی منتقل کرتی ہے۔ مثال کے طور پر لوہا ایک اچھا مُوصِل ہونے کے ناطے حرارت کے اِیصال کی خاصیّت رکھتا ہے جبکہ لکڑی غیرمُوصِل ہے جو آگ میں جل کر راکھ تو ہوجاتی ہے مگر اِیصالِ حرارت کی صفت ہے محروم ہے۔ جس طرح لوہا مُوصِل ہونے کے ناطے حرارت منتقل کرنے کی خاصیت سے بہرہ ور ہے اور جب تک اُسے حرارت ملتی رہے اِیصال کا عمل جاری رکھتا ہے، بالکل اُسی طرح وہ اَولیائے کرام جو فیضانِ نبوت سے بہرہ یاب ہوتے ہیں، وہ اِس فیضان کو آگے عامۃ الناس تک منتقل کرتے رہتے ہیں۔ فیضانِ نبوت کے منتقل کرنے والے اِس طریقِ کار کو رُوحانی دنیا میں سلسلہ کہتے ہیں اور یہ سلسلہ اُن اَولیائے کرام سے چلتا ہے جو گنبدِ خضراء کے مکیں سے رُوحانیت کا Magnetism لیتے اور آگے تقسیم کرتے رہتے ہیں اور اُن سے جاری ہونے والا چشمۂ فیض کبھی خشک نہیں ہوتا۔ جدید سائنسی دریافت اور نظام برقیات سے ایک تمثیلموجودہ سائنسی دنیا میں بہت سی چیزیں سپر الیکٹرو میتھڈ(Super Electro Method) کے نظام کے تحت چل رہی ہیں، جس کے تحت ایک کوائل (Coil) پر اِتنی توجہ اور محنت کی جاتی ہے کہ ہر ممکنہ حد تک اُس کی ساری برقی مزاحمت (Electrical Resistance) ختم کردی جاتی ہے۔ صوفیاء کی زبان میں اِسے تزکیہ کہتے ہیں۔ جس کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰيo (الاعلیٰ، 87 : 14) بے شک وہی بامُراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہوں کی آلودگیوں سے) پاک ہو گیاo تزکیہ کیا ہے؟برقیات کی اِصطلاح میں : یہ بجلی چارج کرنے کے خلاف تمام تر ممکنہ مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔ صوفیاء کی اِصطلاح میں : یہ نفس کی کدُورتوں، رذائل اور اُس مزاحمت کو دور کرنا ہے جو قربِ الٰہی کی راہ میں حائل ہوتی ہے۔ برقیات کے حوالے سے ہونے والی جدید سائنسی پیش رفت میں کسی بھی کوائل (Coil) کو اِس قدر ٹھنڈا کیا جاتا ہے کہ اُس کا درجۂ حرارت 269o سینٹی گریڈ پر چلا جاتا ہے۔ اِس طرح جو الیکٹرومیگنٹ (Electro Magnet) حاصل ہوتا ہے، وہ زیادہ سے زیادہ کرنٹ اپنے اندر سما سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہماری زمین کا اَوسط درجۂ حرارت محض 15o سینٹی گریڈ جبکہ پوری کائنات کا درجۂ حرارت 270o سینٹی گریڈ ہے۔ اِسی تمثیل پر صوفیائے کرام مجاہدہ و محاسبۂ نفس کے ذریعے اپنے اندر سے غصہ، حسد، بغض، غرور، تکبر اور نفس کی دیگر جملہ کثافتوں کو جو حصولِ فیض کی راہ میں مانع ہوتی ہیں، اپنے نفس کو خوب ٹھنڈا کر کے بالکل نکال دیتے ہیں تآنکہ وہ سراپا یوں نظر آنے لگتے ہیں : وَ الْکَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَ الْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اﷲُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَo (آل عمران، 3 : 134) اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (اُن کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں اور اﷲ اِحسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہےo جس طرح Super Electro Magnet مادّ ی کثافتوں کے دُور ہونے سے چارج ہوتا ہے اور اُس سے مادّی دُنیا میں کرامتیں صادِر ہونے لگتی ہیں، بالکل اِسی طرح اولیاء کا نفس کثافتوں اور رذائل و کدُورت سے پاک ہوکر فیضانِ اُلوہیت اور فیضانِ رسالت کو اپنے اندر جذب کرلینے کے قابل بن جاتا ہے اور پھر وہ جدھر نگاہ اُٹھاتے ہیں کرامات کا ظہور ہونے لگتا ہے۔ اِس قلبِ ماہیت سے اولیاء کے دل مُوصِل مِقناطیس (Conducting Magnet) بن جاتے ہیں۔ جب اُس الیکٹرومیگنٹ (Electro Magnet) کو ایک خاص پروسیس سے گزارا جاتا ہے تو وہ Super Conducting Magnet بن جاتا ہے۔ اِسے این ایم آر یعنی Nuclear Magnetic Resonant کے پروسیس سے گزارتے ہیں۔ مریض کو جب اُس کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے تو اُس کے بدن کے اندر کی تمام چیزوں سے پردے اُٹھ جاتے ہیں۔ گویا جسم کا پردہ تو قائم رہتا ہے مگر مِقناطیسیت کی وجہ سے Scanner کے ذریعے وہ چیزیں جو ننگی آنکھ نہیں دیکھ سکتی سب آشکار کردی جاتی ہیں۔ سو وہ لوگ جنہوں نے تزکیہ و تصفیہ کی راہ اِختیار کی، اُن پر سے بصورتِ کشف پردے اُٹھا دیئے جاتے ہیں۔ وہ کشف سے توجہ کرتے ہیں تو ہزارہا میل تک اُن کی نگاہ کام کرتی ہے اور وہ چیزیں جو مغیبات میں سے ہیں اور عام طور پر ننگی آنکھ پہ ظاہر نہیں ہوتیں، اُن پر آشکار کردی جاتی ہیں۔ رُوحانی مِقناطیسیت کے کمالاتیہ تزکیہ و تصفیہ کے طریق سے حاصل ہونے والی اُسی رُوحانی مِقناطیسیت کا کمال تھا کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبتِ جلیلہ میں تربیت پانے والے صحابۂ کرام مادّی ذرائع اِختیار کئے بغیر ہزاروں میل کی مسافت پر موجود سپہ سالارِ لشکرِ اِسلام کو ہدایات دینے پر قادِر تھے۔ سیدنا ساریہ بن جبل رضی اللہ عنہ کی زیرقیادت اِسلامی لشکر دُشمنانِ اِسلام کے خلاف صف آراء تھا۔ دُشمن نے ایسا پینترا بدلا کہ اِسلامی اَفواج بُری طرح سے اُس کے نِرغے میں آ گئیں۔ اُس وقت مسلمانوں کے دُوسرے خلیفہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں بر سرِ منبر خطبۂ جمعہ اِرشاد فرما رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی رُوحانی توجہ کی بدولت میدانِ جنگ کا نقشہ آپ کی نظروں کے سامنے تھا۔ دورانِ خطبہ بآوازِ بلند پکارے : يَا سَارِیَ الْجَبَل. (مشکوٰة المصابيح : 546) اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لے۔ یہ اِرشاد فرما کر آپ دوبارہ اُسی طرح خطبہ میں مشغول ہو گئے۔ نہ آپ کے پاس راڈار تھا اور نہ ہی ٹی وی کا کوئی ڈائریکٹ چینل، ہزاروں میل کی دُوری پر واقع مسجدِ نبوی میں خطبۂ جمعہ بھی دے رہے ہیں اور اپنے سپہ سالار کو میدانِ جنگ میں براہِ راست ہدایات بھی جاری فرما رہے ہیں۔ نہ اُن کے پاس وائرلیس سیٹ تھا، نہ موبائل فون۔ ۔ ۔ کہ جس سے میدانِ جنگ کے حالات سے فوری آگہی ممکن ہوتی۔ یہ رُوحانی مِقناطیسی قوّت تھی، اندر کی آنکھ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ حضرت ساریہ بن جبل رضی اللہ عنہ نے سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا پیغام موصول کیا اور اُس پر عمل درآمد کرتے ہوئے پہاڑ کی اوٹ لے کر فتح پائی۔ دُشمن کا حملہ ناکام رہا اور عساکرِ اِسلام کے جوابی حملے سے فتح نے اُن کے قدم چومے۔ فیضانِ نبوی اور فیضانِ صحابہ ہی کی خوشہ چینی کی بدولت اولیاء اللہ عبادت، زُہد و ورع، اِتباعِ سنت، تقویٰ و طہارت، پابندئ شریعت، اَحکامِ طریقت کی پیروی اور اللہ تعالیٰ کے امر کی تعمیل کے ذریعے اپنے قلب و باطن کا تزکیہ و تصفیہ کر کے زِندگی سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت اور اِتباع میں گزار کر اپنے اندر ’’رُوحانی مقناطیسیت‘‘ پیدا کرلیتے ہیں۔ مادّی ترقی کی اِس سائنسی دُنیا میں جہاں گلوبل ویلج کا اِنسانی تصوّر حقیقت کا رُوپ دھار رہا ہے، کمپیوٹر کی دُنیا میں فاصلے سمٹ کر رہ گئے ہیں، اِنٹرنیٹ نے پوری دُنیا کو رائی کے دانے میں سمیٹ لیا ہے۔ آج سائنسی ترقی کا یہ عالم ہے کہ موجودہ دَور کا عام آدمی بھی اپنی ہتھیلی پر موجود رائی کے دانے کی طرح تمام دُنیا کا مشاہدہ کرنے پر قادِر ہے۔ یہ مادّی ترقی کا اعزاز ہے، جس نے ہمیں آلات کی مدد سے اِس اَوجِ ثریا تک لا پہنچایا ہے، لیکن قربان جائیں سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کے تصرّفات پر جو فقط اپنی رُوحانی ترقی اور کمالات کی بدولت اِس منزل کو پا چکے تھے۔ سرکارِ غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نَظَرْتُ إلٰی بِلَادِ اﷲِ جَمْعًا کَخَرْدَلَةٍ عَلٰی حُکْمِ التَّصَالِیْ ترجمہ : میں اﷲ کے تمام ملکوں کو ایک ساتھ اِس طرح دیکھتا ہوں جیسے میری ہتھیلی پر رائی کا ایک معمولی دانہ (میری نظر میں ہوتا ہے)۔ تزکیہ و ریاضت سے حیات بخشی تکمزید برآں مِقناطیس (Magnet) ایک پروسیس کے ذریعے اِس قابل بن جاتے ہیں کہ اُن سے بجلی پیدا ہونے لگتی ہے، جو حرارت اور روشنی پیدا کرنے کا مُوجب ہے۔ اور جب یہ بجلی حرکی توانائی (Mechanical Energy) میں منتقل ہوتی ہے تو چیزوں کی ہیئت بدلنے لگتی ہے اور مُردہ جسم حرکت کرنے لگتے ہیں۔ اِس کی سادہ سی مثال پلاسٹک کی گڑیا ہے، جس کو بیٹری سے چارج کیا جائے تو وہ متحرّک ہوجاتی ہے اور مختلف ریکارڈ شدہ آوازیں بھی نکالتی ہے۔ ایسا کھلونا اُس وقت تک متحرّک رہتا ہے جب تک اُسے بیٹری سیل سے چارج ملتا رہتا ہے اور یوں مادّی کائنات میں بیٹری سیل کا نظام مُردہ اَجسام کو زندگی اور حرکت دیتا ہے۔ اِسی طرح رُوحانی دُنیا میں بھی جب اولیائے کرام کی رُوحانیت اپنے تکمیلی پروسیس سے گزرتی ہے تو جس مُردہ دِل پر اُن کی نظر پڑتی ہے وہ زِندہ ہو جاتا ہے۔ وہ مُردہ لوگ جو صحبتِ اولیاء سے فیضیاب ہو کر زِندہ ہوجاتے ہیں، اُن کے دل اور روحیں حیاتِ نو سے مستفیض ہوجاتی ہیں۔ اِس کی تصدیق قرآنِ مجید میں بیان کردہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کے حوالے سے ہوتی ہے۔ جب ایک مقام ’’مجمع البحرین‘‘ پر۔ ۔ ۔ جو حضرت خضرعلیہ السلام کی قیام گاہ تھی۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ناشتہ دان میں سے مُردہ مچھلی زِندہ ہوکر پانی میں کود جاتی ہے۔ یہ واقعہ اِس اَمر کا مظہر ہے کہ وہ مقام جو حضرت خضر علیہ السلام کا مسکن تھا، اُس کی آب و ہوا میں یہ تاثیر تھی کہ مُردہ اَجسام کو اُس سے حیاتِ نو ملتی تھی۔ قرآنِ مجید میں اِس واقعہ کا ذِکر یوں آیا ہے : فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنَهُمَا نَسِيَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيْلَه‘ فِی الْبَحْرِ سَرَباًo (الکهف، 18 : 61) سو جب وہ دونوں دو دریاؤں کے سنگم کی جگہ پہنچے تو وہ دونوں اپنی مچھلی (وہیں) بھول گئے، پس وہ (تلی ہوئی مچھلی زِندہ ہو کر) دریا میں سرنگ کی طرح اپنا راستہ بناتے ہوئے نکل گئی۔ یوں اَولیاء اللہ کا وُجودِ مسعود حیات بخشی کا مظہر ہوتا ہے اور وہ مُردوں میں زِندگیاں بانٹنے پر مامور ہوتے ہیں۔ جیسا کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے لئے فرمایا : گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما بجلی کا نظام ترسیل اور اَولیاء اللہ کے سلاسلاولیاء اﷲ کے سلاسل دُنیا بھر میں موجود بجلی کے نظامِ ترسیل ہی کی مِثل ہوتے ہیں۔ اَب یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے کہ کوئی کس حد تک فیض لے سکتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ میں بجلی ڈائریکٹ تربیلا ڈیم سے لوں گا تو کیا ایسا ممکن ہے! تربیلا ڈیم سے کنکشن کسے مل سکتا ہے! دُنیا میں بجلی کی ترسیل کا ایک نظام ہے، اُس کے لئے اپنے سلاسل ہیں جن کی پابندی ضروری ہے۔ ایک طے شدہ نظام کے مطابق بجلی تربیلا ڈیم سے پاور ہاؤس تک، پاور ہاؤس سے پاورسٹیشن اور ٹرانسفارمر تک اور وہاں سے مقررہ اندازے کے مطابق گھر میں آتی ہے۔ ٹرانسفارمر سے کنکشن لینے کے بعد ہم گھروں میں سٹیبلائزر (Stabliser) اور فیوز (Fuse) بھی لگاتے ہیں تاکہ ہمارے گھریلو حساس برقی آلات کہیں جل نہ جائیں۔ ایسا اِس لئے کرتے ہیں کہ ہمارے گھروں کا برقی سسٹم اِتنا مضبوط اور مستحکم نہیں ہوتا کہ زیادہ وولٹیج کا متحمل ہوسکے۔ اِسی نظام کو سلسلہ کہتے ہیں۔ اِس مادّی عالم کی طرح عالمِ رُوحانیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرش سے عرش تک اِس ارضی و سماوی کائنات میں ایک واحد رُوحانی ڈیم بنایا ہے، جس سے رحمت کا فیض ساری کائنات میں مختلف سلاسل کے نظام کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ رحمت و رُوحانیت کا وہ ڈیم آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے اور اُس فیضانِ رسالت کو تقسیم کرنے کے لئے اولیاء اللہ کے وسیع و عریض سلاسل ہیں، جنہیں Power Distribution Systems یعنی رُوحانی بجلی کی ترسیل و تقسیم کے نظام کہتے ہیں۔ یہی اولیائے کرام مخلوقِ خداوندی میں بقدرِ ظرف فیض تقسیم کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور یہ سلسلہ تا قیامِ قیامت یونہی جاری و ساری رہے گا۔ اولیائے کرام نے چونکہ سخت محنت، ریاضت اور مجاہدے سے نسبتِ محمدی کو مضبوط سے مضبوط تر بنا لیا ہے اِس لئے وہ براہِ راست وہیں سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ ہر شخص کا ظرف اِس قابل نہیں ہوتا کہ وہ ڈائریکٹ اُس ڈیم سے فیض حاصل کر سکے۔ عام افرادِ دُنیا کے لئے وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنََ کا درس ہے کہ وہ اُن اللہ والوں کی سنگت اِختیار کر لیں اور اپنے آپ کو اُن سے پیوستہ اور وابستہ رکھیں تو اُنہیں بھی فیض نصیب ہوجائے گا۔ سلاسلِ طریقت کا یہ نظام مِن جانبِ اللہ قائم ہے۔ یہ ایک سلسلۂ نور ہے، جو تمام عالمِ اِنسانیت کو ربّ لا یزال کی رحمت سے سیراب کر رہا ہے۔ اِس سے اِنکار، عقل کا اِنکار، شعور کا اِنکار اور ربّ کائنات کے نظامِ ربوبیت کا اِنکار ہے۔ چاند کی تسخیر اور اپالو مِشنرُوحانی تعلق کی ضرورت کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ خلائی تحقیقات کے امریکی اِدارے National Aeronautic Space Agency - NASA کی طرف سے تسخیرِ ماہتاب کے لئے شروع کئے گئے دس سالہ اپالو مِشن کا پروب Apolo-10 چاند کی تسخیر کے لئے محوِ سفر تھا تو امریکی ریاست فلوریڈا میں قائم زمینی مرکز Kennedy Space Center - KSC میں موجود سائنسدان اُسے براہِ راست ہدایات دے رہے تھے۔ ایسے میں دورانِ سفر حادثاتی طور پراُس کا رابطہ اپنے زمینی کنٹرول رُوم سے منقطع ہوگیا، جس کے نتیجے میں نہ صرف وہ اپنی منزلِ مقصود تک نہ پہنچ سکا بلکہ آج تک اُس کا سُراغ بھی نہ مِل سکا۔ اِس عظیم حادثے کے کچھ ہی عرصے بعد جولائی 1969ء میں اپالو مِشن کا اگلا پروب Apolo-11 چاند کی طرف بھیجا گیا۔ دورانِ سفر چونکہ اُس کا رابطہ اپنے زمینی مرکز سے بحال رہا اِس لئے وہ چاند تک پہنچنے اور دو دِن بعد بحفاظت واپس لوٹنے میں کامیاب رہا۔ سو جس طرح وہ اپالو مہم جس کا رابطہ زمین پر واقع اپنے خلائی تحقیقاتی مرکز سے کھو گیا تھا، وہ ناکام اور تباہ و برباد ہوگئی، اوردُوسری طرف وہ مہم جس کا رابطہ بحال رہا، کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ ۔ ۔ بالکل اِسی طرح یہ بات ذِہن نشین رہنی چاہیئے کہ اِس مادّی دنیا کی طرح ربّ ذوالجلال نے رُشد و ہدایت کے ایک طے شدہ نظام کے ذریعے کامیابی اور نجات کی منزل تک پہنچنے کے لئے رُوحانی مرکزِ نجات حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو بنایا ہے۔ سو ہم میں سے جس کا رابطہ اس مرکزِ مصطفوی سے قائم رہا وہ منزلِ مقصود تک پہنچ جائے گا اور جو اپنا رابطہ بحال نہ رکھ سکا وہ نیست و نابود ہو کر رہ جائے گا اور اپالو 10 جیسی تباہی اور ہلاکت اُس کا مقدّر ہو گی۔ قلبی سکرین اور روحانی ٹی وی چینلآج کے اِس دورِ فتن میں ہمارے دِلوں پر غفلت کے دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں اور اُن پر فیضانِ اُلوہیت اور فیضانِ رِسالت کا نزول بند ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم مطلقاً وُجودِ فیض ہی کا اِنکار کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل کو ایک ٹی وی سکرین کی مثل بنایا ہے، جس پر رُوحانی چینل سے نشریات کا آنا بند ہوگیا ہے اور ہم غفلت میں کہتے پھرتے ہیں کہ چینل نے کام کرنا بند کردیا ہے۔ نہیں! چینل پر نشریات تو اُسی طرح جاری ہیں جبکہ ہمارے ٹی وی سیٹ میں کوئی خرابی آگئی ہے اور جب تک اِس خرابی کو دُور نہیں کیا جائے گا، نشریات سنائی اور دِکھائی نہیں دیں گی۔ جس طرح ٹی وی کے لئے اسٹیشن سے رابطہ بحال ہو تو سکرین پر تصویر بھی دِکھائی دیتی ہے اور آواز بھی سنائی دیتی ہے اور اگر یہ رابطہ کسی وجہ سے ٹوٹ جائے تو پھر آواز سنائی دیتی ہے اور نہ تصویر دِکھائی دیتی ہے۔ اِسی طرح سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمۃ للعالمینی اور فیضانِ نبوت کا سلسلہ بلا اِنقطاع جاری و ساری ہے، یہ ہمارے قلب کی سوئی ہے جو رابطہ بحال نہ ہونے کے باعث اُس اسٹیشن کو نہیں پارہی جہاں سے رُوحانی نشریات دِن رات نشر ہو رہی ہیں۔ آج بھی یہ رابطہ بحال ہوجائے تو یہ فیضان ہم تک بلا روک پہنچ سکتا ہے۔ اولیائے کرام کا تعلق اپنے آقا و مولا ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبھی نہیں ٹوٹتا اور اُن کی قلبی سکرین ہمہ وقت گنبدِ خضراء کی نشریات سے بہرہ یاب رہتی ہے۔ حضرت ابو العباس مرصی رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے ولی اللہ گزرے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں : لو حجب عنی رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم طرفة عين ما عددتُ نفسی من المُسلمين. (رُوح المعانی، 22 : 36) اگر ایک لمحہ کے لیے بھی چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے سامنے نہ رہے تو میں اس لمحے خود کو مسلمان نہیں سمجھتا۔ اللہ کے بندوں کے قلب کی سوئی گنبدِ خضراء کے چینل (Channel) پر لگی رہتی ہے اور اُن کا رابطہ کسی لمحہ بھی اپنے آقا و مولا کی بارگاہ سے نہیں ٹوٹتا، اِس لئے وہ تکتے بھی رہتے ہیں اور سنتے بھی رہتے ہیں۔ اَصحابِ کہف پر خاص رحمتِ الٰہیقرآن فہمی کے باب میں ربط بین الآیات بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اِس حوالے سے جب ہم سورۂ کہف کا مطالعہ کرتے ہوئے آیاتِ قرآنی کا ربط دیکھتے ہیں تو وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ سے اِس سورۂ مبارکہ میں بیان کردہ واقعۂ اصحابِ کہف اپنی پوری معنویت کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ یہ پہلی اُمت کے وہ اَولیاء اللہ تھے جو اللہ کے دِین اور اُس کی رضا کے لئے دُشمنانِ دین کے ظلم و سِتم سے بچنے کے لئے اپنے گھروں سے ہجرت کر گئے اور ایک غار میں پناہ حاصل کرلی اور وہاں بحضورِ خداوندی دعاگو ہوئے : رَبَّنَا اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَةً وَّ هَيِّئ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًاo (الکهف، 18 : 10) اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنی بارگاہ سے خصوصی رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں راہ یابی (کے اَسباب) مہیا فرماo اُن کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے باری تعالیٰ نے اُنہیں اِس مُژدۂ جانفزا سے نوازا کہ تمہارا ربّ ضرور اپنی رحمت تم تک پھیلا دے گا۔ اَب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ خاص رحمت جس کا ذکر قرآن کریم میں مذکور ہے، کیا تھی؟ یہاں قرآنِ مجید کے سیاق و سباق کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو اصحابِ کہف کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ غار میں 309 سال تک آرام فرما رہے۔ کھانے پینے سے بالکل بے نیاز قبر کی سی حالت میں 309 سال تک اُن جسموں کو گردشِ لیل و نہار سے پیدا ہونے والے اَثرات سے محفوظ رکھا گیا۔ سورج رحمتِ خداوندی کے خصوصی مظہر کے طور پر اُن کی خاطر اپنا راستہ بدلتا رہا تاکہ اُن کے جسم موسمی تغیرات سے محفوظ و مامون اور صحیح و سالم رہیں۔ 309 قمری سال 300 شمسی سالوں کے مساوِی ہوتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ کرۂ ارضی کے 300 موسم اُن پر گزر گئے مگر اُن کے اجسام تروتازہ رہے۔ اور تین صدیوں پر محیط زمانہ اُن پر اِنتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گزر گیا۔ قرآنِ مجید فرماتا ہے : وَ تَرَی الشَّمْسَ إذَا طَلَعَتْ تَّزٰوُرَ عَنْ کَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ وَ إذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ هُمْ فِیْ فَجْوَةٍ مِنْه‘ط (الکهف، 18 : 17) اور آپ دیکھتے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اُن کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو اُن سے بائیں جانب کتراجاتا ہے اور وہ اُس کشادہ میدان میں (لیٹے) ہیں۔ اللہ کی خاص نشانی یہی ہے کہ اس نے اپنے ولیوں کے لئے 309 قمری سال تک سورج کے طلوع و غروب کے اُصول تک بدل دیئے اور ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ کی رُو سے ایک معین نظامِ فلکیات کو سورج کے گرد زمین کی تین سو مکمل گردشوں تک کے طویل عرصے کے لئے صرف اِس لئے تبدیل کردیا گیا اور فطری ضابطوں کو بدل کر رکھ دیا گیا تاکہ اُن ولیوں کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ اﷲ ربّ العزّت نے اِس پورے واقعے کو بیان کر کے اِسی تناظر میں یہ اِرشاد فرمایا : ’’اگر لوگ میرا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میرے اِن مقرّب بندوں کے حلقہ بگوش ہو جائیں اور وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنََ کو حرزِ جاں بنالیں‘‘۔ پھر آگے چل کر اِرشادِ ربانی ہوا : مَنْ يَهْدِ اﷲُ فَهُوَ الْمُهْتَدُ وَ مَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَه‘ وَلِيًّا مُرْشِدًا. (الکهف، 18 : 17) اﷲ جسے ہدایت دیتا ہے وہی راہِ ہدایت پر ہے اور جس کو وہ گمراہ کردے تو آپ کسی کو اُس کا دوست نہیں پائیں گے۔ خدائے رحمان و رحیم نے اپنی خصوصی رحمت سے اصحابِ کہف کو تھپکی دے کر پُرکیف نیند سلادیا اور اُن پر عجیب سرشاری کی کیفیت طاری کر دی۔ پھر اُنہیں ایک ایسے مشاہدۂ حق میں مگن کر دیا کہ صدیاں ساعتوں میں تبدیل ہوتی محسوس ہوئیں۔ جیسا کہ قیامت کا دِن جو پچاس ہزار سال کا ہوگا، وہ اللہ کے نیک بندوں پر عصر کی چار رَکعتوں کی اَدائیگی جتنے وقت میں گزر جائے گا۔ جبکہ دیگر لوگوں پر وہ طویل دِن ناقابلِ بیان کرب و اَذیت کا حامل ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ مشاہدۂ حق کے اِستغراق میں وقت سمٹ جاتا ہے اور صدیاں لمحوں میں بدل جاتی ہیں۔ مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں مگر گھڑیاں جُدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں روزِ قیامت اللہ تعالیٰ ملائکہ کو حکم دے گا کہ اُن طالبانِ مولا کو۔ ۔ ۔ جن کے پہلو فقط میری رضا کی خاطر نرم و گداز بستروں سے دُور رہتے تھے اور اُن کی راتیں مصلّے پر رکوع و سجود میں بسر ہوتی تھیں۔ ۔ ۔ میرے دِیدار سے شرفیاب کیا جائے اور اُن پر سے سب حجابات اُٹھا دیئے جائیں۔ پس وہ قیامت کے دِن نور کے ٹیلوں پر رَونق اَفروز ہوں گے اور صدیوں پر محیط وہ طویل وقت اُن پر عصر کے ہنگام کی طرح گزر جائے گا جب کہ دوسروں کے لئے یہ عرصۂ قیامت پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔ اَولیاء اﷲ کی بعد از وفات زِندگیاصحابِ کہف کے حوالے سے قرآنِ مجید کہتا ہے کہ جب اُن پر صدیوں کا عرصہ چند ساعتوں میں گزر گیا اور بیدار ہونے پر انہوں نے ایک دوسرے پوچھا کہ ابھی کتنا عرصہ گزرا ہوگا، تو اُن میں سے ایک نے کہا : يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ’’ایک دن یا دن کا کچھ حصہ‘‘۔ قرآنِ کریم کی اِس بات سے کیسے اِنکا رہوسکتا ہے کہ اُن پر صدیاں گزر گئی تھیں، مگر اُن کے کپڑے بوسیدہ نہ ہوئے تھے اور جسموں میں کوئی کمزوری اور نقاہت کے آثار نہ تھے بلکہ یک گو نہ تازگی اور بشاشت تھی جیسے وہ چند گھٹنے نیند کر کے تازہ دَم اُٹھے ہوں۔ پھر اُنہوں نے اپنے میں سے ایک ساتھی کو کچھ سکے دے کر کہا کہ جاؤ اِس رقم سے کھانے کی کچھ چیزیں خرید لاؤ۔ جب وہ سودا سلف خریدنے بازار گیا تو دُکاندار اُن سکوں کو حیرت اور بے یقینی سے تکنے لگا کہ یہ شخص صدیوں پرانے سکے کہاں سے لے کر آگیا! وہ اُنہیں قبول کرنے سے اِنکاری تھا کہ اِتنی صدیوں پرانے سکے اَب نہیں چلتے۔ وہ (اصحابِ کہف کا فرد) کہنے لگا : ’’بھئی یہ سکے ابھی ہم کل ہی تو اپنے ساتھ لے کر گئے تھے‘‘۔ دکاندارنے کہا : ’’کیا بات کرتے ہو یہ صدیوں پرانے سکے جانے تم کہاں سے لے کے آگئے ہو‘‘! پھر جب اصحابِ کہف کے اُس فرد نے اپنے گردو پیش توجہ کی اور غور سے دیکھا تو اُس ماحول کی ہرچیز کو بدلا ہوا پایا۔ یہ اہل اللہ وہ اہلِ مشاہدہ ہوتے ہیں کہ جن پر غاروں میں ہزاروں برس بھی بیت جائیں، مگر اُن کی جسمانی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوگی۔ اِسی طرح وہ اہلِ مشاہدہ جو قبر میں برزخی زندگی گزار رہے ہیں، ہزاروں سال اُن پر اِس طرح بیت جائیں گے جیسے دو لمحے ہوں۔ یہ کوئی من گھڑت قصہ نہیں، قرآنِ حکیم کا بیان کردہ واقعہ ہے، جس کی صداقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اولیائے کرام کا یہ عالم ہے کہ وِصال کے بعد بھی مشاہدۂ حق کی زِندگی گزار رہے ہیں۔ پھر اُس پیغمبرِ حق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذِکر ہی کیا جو آئے ہی مُردہ اِنسانوں میں زِندگیاں بانٹنے کے لئے تھے اور جو آج تک زندگیاں بانٹ رہے ہیں۔ اولیاء اﷲ کا خدمت گزار کتا بھی سلامت رہااصحابِ کہف کے ساتھ اُن کا ایک خدمت گزار کتا بھی تھا۔ 309 سال تک وہ کتا بھی غار کے دہانے پر پاؤں پھیلائے اُن کی حفاظت پر مامور رہا۔ اُن کی نسبت سے قرآنِ مجید میں اُس کتے کا ذِکر بھی آیا ہے : وَ کَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيْدِ. (الکهف، 18 : 18) اور اُن کا کتا (اُن کی) چوکھٹ پر اپنے دونوں بازو پھیلائے (بیٹھا) ہے۔ کتے کو یہ مقام اُن غار نشین اولیائے حق کی بدولت ملا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ جب وقفے وقفے سے اصحابِ کہف دائیں بائیں کروٹ لیتے تو وہ کتا بھی کروٹ لیتا تھا۔ یہ اُسی صحبت نشینی کا اثر تھا جس کا ذکر وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ میں ہوا۔ بعض رِوایات میں ہے کہ اصحابِ کہف نے اِس خدشے کے پیشِ نظر کہ کتے کے بھونکنے سے کہیں ظالم بادشاہ کے کارندے اُن تک نہ آن پہنچیں، بہت کوشش کی کہ کتا غار سے چلا جائے۔ وہ اُسے دُھتکارتے لیکن وہ اُن کی چوکھٹ پر جم گیا اور تین صدیوں تک فیضِ رحمت سے بہریاب ہوتا رہا۔ ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ ۔ ۔ منبعِ فیوضیاتِ اِلٰہیہآقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی رحمۃ للعالمینی کی بناء پر اِس کائناتِ آب و گل کے مقناطیسِ اعظم ہیں، جنہیں بارگاہِ اُلوہیت سے ’’الیکٹرک چارج میتھڈ‘‘ اور ’’سٹروک میتھڈ‘‘ دونوں ذرائع سے فیض ملا ہے۔ بقول اقبال : دَر شبستانِ حرا خلوت گزید قوم و آئین و حکومت آفرید غارِ حراء کی خلوتوں نے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پوری نسلِ اِنسانی کا محسن و ہادئ اعظم بنا دیا۔ جن کے دم قدم سے دنیائے شرق و غرب ایک قوم، ایک قرآن اور ایک حکومتِ الٰہیہ کے نظم میں پرو دی گئی۔ اُس فیضانِ اُلوہیت کا ذِکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک رات مجھے اﷲ تعالیٰ نے اپنی شان کے مطابق دیدار عطا کیا اور اپنا دستِ قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا۔ اُس کی بدولت میں نے اپنے سینے میں ٹھنڈک محسوس کی، پھر اِس کے بعد میرے سامنے سے سارے پردے اُٹھا دیئے گئے اور آسمان و زمین کی ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی۔ فیضِ اُلوہیت کا یہ عالم تو زمین پر تھا، اُس فیض کا عالم کیا ہوگا جو ’’قَابَ قَوْسَيْن‘‘ کے مقا م پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجات کی بلندی کا باعث بنا اور پھر آپ کو ’’أَوْ أَدْنٰی‘‘ کا قربِ اُلوہیت عطا ہوا۔ جس کے بعد زمان و مکاں اور لا مکاں کے تمام فاصلے مٹ گئے اور محب و محبوب میں دو کمانوں سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنٰی کے الفاظ سے مخلوق کو یہ بتلانا مقصود تھا کہ دیکھو اپنا عقیدہ درست رکھنا۔ اللہ تعالی کی خالقیت اور معبودیت اپنی جگہ برحق ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِتنا قریب ہوکر بھی عبدیت کے مقام پر فائز ہیں۔ یہ فرق روا رکھنا لازم ہے۔ فیضِ اُلوہیت کی ساری حدیں اور اِنتہائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تمام ہوئیں۔ جب تمام فیض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کردیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ رَأَنِیْ فَقَدْ رَاءَ الْحَق. (صحيح البخاری، 2 : 1036) (مسند احمد بن حنبل، 3 : 55) جس نے مجھے دیکھ لیا تحقیق اُس نے اﷲ ربّ العزّت کو دیکھ لیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ حق میں دیدارکی اِلتجاء کی تھی، جس کا جواب اُنہیں جبلِ طور پر تجلیاتِ الٰہیہ کو برداشت نہ کر پانے کی صورت میں ملا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیدارِ الٰہی کی اِلتجا کئی بار کی تھی مگر اُن کی یہ دعا اُس وقت تک مؤخر کردی گئی جب تک کہ اُمتِ مسلمہ کو شبِ معراج پچاس نمازیں دی گئیں اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بار بار بارگاہِ اُلوہیت میں پلٹ جانے کے لئے عرض کرتے رہے، حتی کہ پانچ نماز رہ گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبوبِ حقیقی کے جلوؤں کا مظہرِ اتم ہوکر لوٹتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ فرحت آثار سے شادکام ہوتے۔ یہ عالمِ لاہوتی کا فیض تھا، جبکہ عالمِ ناسوتی کے فیض کا یہ عالم تھا کہ ارض و سماء کے سب خزانوں کی کنجیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تھما دی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام فیوضاتِ الٰہیہ کے قاسم بن گئے۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیضانِ اُلوہیت کے قاسم ہیں اُسی طرح اولیاء اﷲ فیضانِ رسالت کے قاسم ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اِرشاد ہوتا ہے : أَوَ مَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ. (الانعام، 6 : 122) بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اُسے (ہدایت کی بدولت) زِندہ کیا اور ہم نے اُس کے لئے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لئے) چلتا ہے۔ مُراد یہ کہ کچھ وہ لوگ ہیں جن کے دِل مُردہ تھے، ہم نے اُن مُردہ دِلوں کو زِندہ کر کے نورِ نبوت سے سرفراز فرمایا۔ پھر جیسے اُنہیں نورِ نبوت سے زندگی ملی وہ اُس نور کو لوگوں میں بھی بانٹتے ہیں۔ اب یہ اُسی ’’يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ‘‘ کا کرشمہ تھا کہ کسی کو غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی صورت میں بغداد میں یہ ذمہ داری دی، کسی کو داتا گنج بخش ہجویری رحمۃ اللہ علیہ بنا کر لاہور میں کسی کو خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بنا کر اجمیر میں اور کسی کو غوث بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ بنا کر ملتان میں نور بانٹنے پر لگا دیا اور کوئی اِس نور کو سرہند میں تقسیم کرنے پر مامور ہوا۔ وہ دل جو مُردہ تھے سب اِس نور نے زِندہ کر دیئے اَب موت کی کیا مجال کہ اُنہیں مار سکے۔ موت تو صرف ایک ذائقہ ہے اور بقول اِقبال : موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہے
  12. بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم لفظِ استغاثہ کا مادۂ اِشتقاق ’’غ، و، ث‘‘ (غوث) ہے، جس کا معنی ’’مدد‘‘ کے ہیں۔ اِسی سے اِستغاثہ بنا ہے، جس کا مطلب ’’مدد طلب کرنا‘‘ ہے۔ اِمام راغب اِصفہانی رحمۃ اللہ علیہ اِستغاثہ کا لُغوی معنی و مفہوم بیان کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں : الغَوثُ : يقال فی النُّصرةِ، و الغَيثُ : فی المطرِ، واستغثته : طلبت الغوث أو الغيث. غَوث کے معنی ’’مدد‘‘ اور غَیث کے معنی ’’بارش‘‘ کے ہیں اور استغاثہ کے معنی کسی کو مدد کے لئے پکارنے یا اللہ تعالی سے بارش طلب کرنے کے ہیں۔ (المفردات : 617) لفظِ استغاثہ کا اِستعمال قرآنِ مجید میں بھی متعدّد مقامات پر ہوا ہے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر صحابۂ کرام کی اﷲ ربّ العزت کے حضور فریاد کا ذکر سورۂ انفال میں یوں وارِد ہوا ہے : اذْ تَسْتَغِيْثُونَ رَبَّکُمْ. جب تم اپنے ربّ سے (مدد کے لئے) فریاد کررہے تھے۔ (الانفال، 8 : 9) سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے اُن کی قوم کے ایک فرد کا مدد مانگنا اور آپ کا اُس کی مدد کرنا، اِس واقعے کو بھی قرآنِ مجید نے لفظِ استغاثہ ہی کے ساتھ ذِکر کیا ہے۔ سورۂ قصص میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِهِ عَلَی الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّه. تو جو شخص اُن کی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو موسیٰ کے دُشمنوں میں سے تھا موسیٰ سے مدد طلب کی۔ (القصص، 28 : 15) اَہلِ لُغت کے نزدیک استغاثہ اور استعانت دونوں اَلفاظ مدد طلب کرنے کے معنی میں آتے ہیں۔ اِمام راغب اِصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لفظِ استعانت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : وَ الْاسْتِعَانَةُ : طَلَبُ الْعَوْنِ. اِستعانت کا معنی مدد طلب کرنا ہے۔ (المفردات : 598) لفظِ استعانت بھی قرآنِ مجید میں طلبِ عون کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔ سورۂ فاتحہ میں بندوں کو آدابِ دُعا سکھاتے ہوئے قرآنِ مجید فرماتا ہے : ايَّاکَ نَسْتَعِيْنُo اور ہم تجھی سے مدد چاہتے ہیںo (فاتحه، 1 : 4) اِستغاثہ کی اَقسامعرب اَہلِ لُغت اور مفسرینِ قرآن کی تصریحات کے مطابق اِستغاثہ کا معنی مدد طلب کرنا ہے۔ جس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں : 1۔ استغاثہ بالقول 2۔ استغاثہ بالعمل مُشکل حالات میں گِھرا ہوا کوئی شخص اگر اپنی زبان سے اَلفاظ و کلمات اَدا کرتے ہوئے کسی سے مدد طلب کرے تو اِسے اِستغاثہ بالقول کہتے ہیں اور مدد مانگنے والا اپنی حالت و عمل اور زبانِ حال سے مدد چاہے تو اِسے اِستغاثہ بالعمل کہیں گے۔ اِستغاثہ بالقول قرآن مجید میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کے حوالے سے اِستغاثہ بالقول کی مثال یوں مذکور ہے : وَ أَوْحَيْنَآ الٰی موسیٰ اذِ اسْتَسْقٰهُ قَوْمُه أَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ. اور ہم نے موسیٰ کے پاس (یہ) وحی بھیجی جب اس سے اس کی قوم نے پانی مانگا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو۔ (الاعراف، 7 : 160) اِسلام دینِ فطرت ہے اور سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر نبیء آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیاء کا دِین ہے۔ عقیدۂ توحید تمام انبیاء کی شرائع میں بنیادی اور یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ شریعتِ مصطفوی سمیت کسی بھی شریعت کی تعلیمات کے مطابق اَللہ ربّ العزّت کے سِوا مددگارِ حقیقی کوئی نہیں، جبکہ اِس آیتِ مبارکہ میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے پانی کا اِستغاثہ کیا گیا ہے۔ اگر یہ عمل شِرک ہوتا تو اِس مطالبۂ شِرک پر مبنی معجزہ نہ دکھایا جاتا، کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کبھی اَنبیائے کرام علیہم السلام سے خلافِ توحید کوئی مطالبہ کیا گیا تو اُنہوں نے شِرک کی تمام تر راہیں مسدُود کرنے کے لئے اُس سے منع فرمایا۔ دُوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورۃُ الصّدر آیتِ کریمہ میں اَللہ تعالیٰ قومِ موسیٰ کے اِستغاثہ پر خود سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اِظہارِ معجزہ کی تاکید فرما رہا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ حقیقی کارساز تو بلا ریب میں ہی ہوں مگر اے موسیٰ علیک السلام! میں اِظہارِ معجزہ کے لئے اپنے اِختیارات تمہیں تفویض کرتا ہوں۔ اِستغاثہ بالعملمصیبت کے وقت زبان سے کسی قسم کے اَلفاظ ادا کئے بغیر کسی خاص عمل اور زبانِ حال سے مدد طلب کرنا استغاثہ بالعمل کہلاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اِستغاثہ بالعمل کے جواز میں بھی اﷲ تعالیٰ کے محبوب و مکرم انبیاء علیہم السلام کا واقعہ مذکور ہے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کی جُدائی میں اُن کے والدِ ماجد سیدنا یعقوب علیہ السلام کی بینائی کثرتِ گریہ کی وجہ سے جاتی رہی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو جب حقیقتِ حال سے آگاہی ہوئی تو اُنہوں نے اپنی قمیض بھائیوں کے ہاتھ والدِ ماجد سیدنا یعقوب علیہ السلام کی طرف بغرضِ اِستغاثہ بھیجی اور فرمایا کہ اِس قمیض کو والد گرامی کی آنکھوں سے مَس کرنا، بینائی لوٹ آئے گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اِس واقعہ کا ذکر اَﷲ ربّ العزّت نے کلامِ مجید میں کچھ اِن الفاظ میں کیا ہے : اذْهَبُوْا بِقَمِيْصِيْ هٰذَا فَأَلْقُوْهُ عَلٰی وَجْهِ أَبِيْ يَأْتِ بَصِيْراً. میری یہ قمیض لے جاؤ، سو اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا وہ بینا ہو جائیں گے۔ (يوسف، 12 : 93) حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے جب وہ قمیض لے جا کر سیدنا یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں سے مَس کی تو وہ فی الحقیقت مشیّتِ اَیزدی سے بینا ہو گئے۔ قرآنِ مجید میں ہے : فَلَمَّآ أَنْ جَآءَ الْبَشِيْرُ أَلْقَاهُ عَلٰی وَجْهِه فَارْتَدَّ بَصِيْراً. پھر جب خوشخبری سنانے والا آ پہنچا اس نے وہ قمیص یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی۔ (يوسف، 12 : 96) اَﷲ ربّ العزت کے برگزیدہ پیغمبر سیدنا یعقوب علیہ السلام کا عملِ مبارک جس سے اُن کی بینائی لوٹ آئی، عملی طور پر حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض سے اِستغاثہ ہے۔ یہ اِستغاثہ بالعمل کی بہترین قرآنی مثال ہے، جس میں سیدنا یوسف علیہ السلام کی قمیض اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے حصولِ بینائی کا وسیلہ و ذرِیعہ بنی۔ اِستغاثہ اور توسّل میں باہمی ربط اِستغاثہ اور توسل دونوں میں فی الحقیقت ایک ہی شئے مطلوب ہوتی ہے اور اِن کے مابین فرق محض فعل کی نسبت میں ہے۔ جب فعل کی نسبت مدد طلب کرنے والے کی طرف کی جائے تو اُس شخص کا یہ عمل اِستغاثہ کہلائے گا، اور مُستغاثِ مجازی (جس سے مدد طلب کی جا رہی ہے) بحیثیت ’’وسیلہ‘‘ و ’’ذریعہ‘‘ ہوگا، کیونکہ مستغاثِ حقیقی باری تعالیٰ ہے۔ پس حضرت یعقوب علیہ السلام کا عمل اِستغاثہ اور قمیض وسیلہ ہے۔ اِس کے برعکس جب براہِ راست اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہوئے اُس سے اِستغاثہ کیا جاتا ہے تواﷲ ربّ العزّت کی بارگاہ سے بڑی چونکہ کوئی بارگاہ نہیں اِس لئے وہ وسیلہ کی بجائے حقیقی مستغاث قرار پاتا ہے۔ مختصر یہ کہ مذکورہ قرآنی بیان میں اِستغاثہ بالعمل سنتِ اَنبیاء سے ثابت ہے۔ (عقیدۂ توسل پر سیر حاصل بحث کے مطالعہ کے لئے راقم کی کتاب ’’قرآن و سنت اور عقیدۂ توسل‘‘ ملاحظہ فرمائیں)۔ اِستغاثہ اور دُعا میں بنیادی فرقدُکھ، درد اور تکلیف میں کسی سے مدد طلب کرنا اِستغاثہ کہلاتا ہے، جبکہ مطلقاً پُکارنا دُعا کہلاتا ہے، اِس میں دُکھ، درد، مصیبت اور تکلیف کی شرط نہیں۔ دُعا اور اِستغاثہ میں عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے، کیونکہ دُعا مطلق پکارنے کو کہتے ہیں جبکہ اِستغاثہ کے لئے شرط ہے کہ مصیبت یا تکلیف میں پکاراجائے، اِس لئے ہر اِستغاثہ تو دُعا ہے لیکن ہر دُعا اِستغاثہ نہیں ہے۔ اِستغاثہ اور دُعا میں یہی بنیادی فرق ہے۔ کلامِ باری تعالیٰ میں لفظِ دُعا کا اِستعمالدعا، یدعو، دعوۃً کا معنی بلانا اور پکارنا ہے۔ قرآنِ حکیم میں ’’دعا‘‘ کا مادہ متعدّد معانی میں اِستعمال ہوا ہے۔ ذیل میں دُعا کا قرآنی تصوّر واضح کرنے کے لئے اُن میں سے چند اہم معانی کا ذِکر کیا جا رہا ہے : 1. النِّدَآءُ قرآنِ مجید میں لفظِ دُعا، نداء کے معنی میں عام اِستعمال ہوا ہے اور کبھی نداء اور دُعا باہم ایک دوسرے کی جگہ بھی اِستعمال ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میں ہے : وَ مَثَلُ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا کَمَثَلِ الَّذِيْ يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ الَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً. اور ان کافروں (کو ہدایت کی طرف بلانے) کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو کسی ایسے (جانور) کو پکارے جو سوائے پکار اور آواز کے کچھ نہیں سنتا۔ (البقره، 2 : 171) 2. التَّسْمِيَةُ لُغتِ عرب میں بعض اَوقات لفظِ دُعا تسمیہ یعنی نام رکھنے یا پکارنے کے معنی میں بھی اِستعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ اِمام راغب اِصفہانی رحمۃ اللہ علیہ مثال پیش فرماتے ہیں : دَعوتُ ابْنی زَيداً. میں نے اپنے بیٹے کا نام زید رکھا۔ (المفردات : 315) اِسی طرح قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و تعظیم پر رَغبت دلاتے ہوئے فرمایا : لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمْ بَعْضاً. (النور، 24 : 63) (اَے مسلمانو!) تم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو (نام لے کر) بلانے کی مثل قرار نہ دو۔ اِس آیتِ کریمہ میں خود اﷲ تعالیٰ نے بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب بیان فرمایا ہے۔ پس ہمیں چاہیئے کہ تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی بھی اُن کا اسمِ مبارک ’’محمد‘‘ کہہ کر نہ پکاریں بلکہ جب بھی بلانا مقصود ہو یا رسولَ اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم اور یا حبیبَ اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم جیسے اَلقابات سے پکارا کریں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ربِّ کائنات ہونے کے باوجود پورے قرآنِ مجید میں کسی ایک مقام پر بھی سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’یا محمد صلی اﷲ علیک وسلم‘‘ کہہ کر مخاطب نہیں کیا۔ 3. الِاسْتِغَاثَةُ لفظِ ’’دُعا‘‘ قرآنِ مجید میں بعض مقامات پر سوال اور مدد طلب کرنے کے معنی میں بھی اِستعمال ہوا ہے، جیسا کہ اِرشادِ ربانی ہے : وَ قَالُوْا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ. اور اُنھوں نے کہا آپ ہمارے لئے اپنے ربّ سے دُعا کریں۔ (البقرة، 2 : 68) 4. الحَثُّ عَلَی الْقَصْدِ لفظِ ’’دُعا ‘‘ کا اِستعمال بعض اَوقات کسی چیز کے قصد پر رغبت دِلانے اور اکسانے کے لئے بھی کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اِس کی مثال یوں ہے : قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ الَيَ مِمَّا يَدْعُوْنَنِی الَيْهِ. یوسف علیہ السلام نے(سب کی باتیں سن کر) عرض کیا اے میرے ربّ مجھے قید خانہ اس کام سے کہیں زیادہ محبوب ہے جسکی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں۔ (يوسف، 12 : 33) مرغوب اشیاء کی طرف رغبت دِلانے کے معنی میںقرآنِ مجید میں لفظِ دُعا کا اِستعمال سورۂ یونس میں اِس طرح ہوا ہے : وَ اﷲُ يَدْعُوْا الٰی دَارِالسَّلَامِ. اور اللہ (لوگوں کو) سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف بلاتا ہے۔ (يونس، 10 : 25) 5. الطَّلَبُ طلب کے معنی میںلفظِ دُعا کا اِستعمال لغتِ عرب میں بکثرت ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اِس کی مثال یوں ہے : وَ لَکُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَo اور تمہارے لئے وہ سب کچھ بھی موجود ہے جو تم مانگو گےo (حم السجدة، 41 : 31) 6. الدُّعَآءُ لفظِ دُعا کبھی اﷲ ربّ العزت سے کی جانے والی دُعا کے معنی میں بھی اِستعمال ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ اَفراد کی دُعا یوں مذکور ہے : وَ آخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ ﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo اور اُن کی دُعا (اِن کلمات پر) ختم ہوگی کہ ’’تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے‘‘o (يونس، 10 : 10) 7. العِبَادَة اﷲ تعالیٰ کی عبادت کو بھی دُعا کہا جاتا ہے، جیسا کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشادِ گرامی ہے : الدُّعَآءُ هُوَ الْعِبَادَةُ. دُعا عین عبادت ہے۔ (جامع الترمذی، اَبواب الدعوات، 2 : 173) 8. الخِطَابُ لفظِ دُعا کی مذکورۃ الصدر اَقسام کے علاوہ کبھی اِسے مطلقاً خطاب کے لئے بھی اِستعمال کیا جاتا ہے۔ غزوۂ اُحد کے موقع پر جب دورانِ جنگ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قدم اُکھڑ گئے اور وہ منتشر ہوکر جنگ کرنے لگے اور صرف ایک مختصر جماعت تاجدارِ ختمِ نبوّت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرد گِرد رَہ گئی، تو اُس موقع پر جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دُور ہٹ کر بکھر گئے تھے، مالکِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اپنی طرف بلایا۔ محبوبِ کبریا کے اِس رحمت بھرے خطاب کو قرآنِ مجید نے یوں بیان کیاہے : اذْ تُصْعِدُوْنَ وَ لَا تَلْونَ عَلٰی أَحَدٍ وَ الرَّسُوْلُ يَدْعُوْکُمْ فِيْ أُخْٰرکُمْ. جب تم (اَفراتفری کی حالت میں) بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُس جماعت میں (کھڑے) جو تمہارے پیچھے (ثابت قدم) رہی تھی تمہیں پکار رہے تھے۔ (آل عمران، 3 : 153) اِس آیۂ کریمہ میں مذکور لفظ ’’يَدْعُوْکُمْ‘‘ یعنی رسول تمہیں خطاب کر رہے تھے کا مطلب دُعائے عبادت ہرگز ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ قصرِ نبوت کے (معاذ اللہ) شرک کی آمیزشوں میں ملوّث ہونے کا تصوّر بھی ممکن نہیں۔ دُعا کی خودساختہ تقسیمقرآنِ مجید میں مستعمل اَقسامِ دُعا کے تفصیلی ذِکر کے بعد اَب ہم اِس اَمر کا جائزہ لیتے ہیں کہ کچھ لوگ اِستغاثہ و توسّل کو غیرشرعی ثابت کرنے کے لئے دُعا کی ایک خودساختہ تقسیم کرتے ہیں حالانکہ اُن کے پاس نفیءِ اِستغاثہ پر قرآنِ مجید کی کوئی ایک آیت بھی بطور دلیل موجود نہیں۔ اُن کے تمام مفروضات کی بنیاد عقلی مُوشگافیاں ہیں، جو بذاتِ خود عقلِ ناقص کی پیداوار ہیں۔ اِستغاثہ کو شِرک قرار دینے کے لئے پہلے اسے دُعا کا مفہوم پہنایا جاتا ہے اور پھر دُعا کی دو خود ساختہ قسمیں کر دی جاتی ہیں : 1۔ دُعائے عبادت 2۔ دُعائے سوال 1۔ دُعائے عبادت دُعا کی پہلی قسم عبادت ہے اور اﷲ ربّ العزت کی تمام عبادات مختلف انداز رکھنے والی دعائیں ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : أَلدُّعَآءُ مُخُّ الْعِبَادَة. دُعا عبادت کا نچوڑ (مغز ) ہے۔ (جامع الترمذی، اَبواب الدّعوات، 2 : 173) جبکہ جامع ترمذی ہی میں مروی ایک اور حدیثِ مبارکہ میں دُعا کو عینِ عبادت قرار دیا گیا ہے : أَلدُّعَآءُ هُوَ الْعِبَادَةُ. دُعا عینِ عبادت ہے۔ (جامع الترمذی، اَبواب الدعوات، 2 : 173) عبادت صرف اﷲ ربّ العزّت ہی کی رَوا ہے، لہٰذا اُن کا خیال ہے کہ اِس معنی کی رُو سے غیراﷲ سے کی جانے والی دُعا اُس کی عبادت قرار پانے کی وجہ سے شِرک کا موجب قرار پائی۔ 2۔ دُعائے سوال کسی سے سوال کرنا، کسی کو مشکل کشا ماننا اور اُس کے سامنے دستِ طلب دراز کرنا دُعائے سوال کہلاتا ہے۔ اِس مقام پر یہ اِعتراض کیا جاتا ہے کہ مشکل کشا چونکہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے لہٰذا سوال بھی فقط اُسی سے کیا جا سکتا ہے۔ سائل کا سوال چونکہ اپنی عبدیت کا اِعتراف ہوتا ہے، اِس لئے غیراللہ سے سوال کرنا اُس کا بندہ بننے کے مترادف ہے اور وہ شِرک ہے۔ اِس لئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سائل من دون اﷲ مشرک ہے۔ تقسیم کا مفاد ’’مغایرت‘‘ یہاں مفقود ہے دُعا کی مذکورہ بالا تقسیم جواز و عدم جوازِ اِستغاثہ کے نقطۂ نظر سے اِستغاثہ کے عدم جواز کے قائل گروہ کے لئے بھی غیرضروری ہے، کیونکہ دُعائے عبادت اور دُعائے سوال کو ایک ہی مفہوم دے کر تقسیم کی اِفادیت ضائع کر دی گئی ہے، یوں دُعائے سوال کو بھی گویا دُعائے عبادت میں داخل کر دیا گیا ہے۔ جب دُعائے عبادت غیراللہ کے لئے رَوا نہیں اور دُعائے سوال بھی غیراللہ سے کرنا شِرک ٹھہرا تو دُعا کی اِن دونوں قسموں میں فرق کیا رہا؟ دَرحقیقت اِس تقسیم کی قطعاًکوئی ضرورت نہ تھی۔ تقسیم کی اِفادیت تو تب ثابت ہوتی جب دونوں اَقسام پر مختلف نوعیت کے اَحکام مرتّب ہوتے۔ کسی بھی تقسیم کے تحت آنے والی اقسام اگر اپنا جدا جدا حکم نہ رکھیں تو ایسی تقسیم بے فائدہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ اِس بات کو ہم ایک سادہ مثال کے ذریعے واضح کرتے ہیں : مثال : سجدے کی دو اَقسام ہیں : 1۔ سجدۂ عبادت 2۔ سجدۂ تعظیم سجدے کی اِن دو اقسام میں سجدۂ تعظیم، سجدۂ عبادت میں شامل نہیں ہوتا، اگر داخل کریں گے تو بُطلان لازِم آتا ہے۔ علاوہ ازیں دونوں میں حکمی اِعتبار سے بھی بڑا فرق ہے۔ اگر کسی بندے کے سامنے عبادت کی نیّت سے سجدہ کیا جائے تو یہ اِرتِکابِ شِرک ہوگا اور اگر محض تعظیم کی خاطر سجدہ کیا جائے تو یہ شِرک قرار نہیں پائے گا بلکہ اِس فعل پر حرام کا حکم لگایا جائے گا۔ دُوسری مثال : اِسی طرح ایک اور مثال دیکھئے : کلمہ کی تین قسمیں ہیں۔ اِسم، فعل اور حرف۔ یہ تینوں آپس میں مغایر ہیں اور اِن کا آپس میں ضم کرنا کسی صور ت بھی درست نہیں ہوسکتا۔ دُعا سے مُراد محض عبادت کا عدم ثبوتاَب رہی یہ بات کہ لفظِ دُعا صرف دو معنوں میں اِستعمال ہوتا ہے، تو یہ بھی ہرگز درست نہیں کیونکہ دُعا کے آٹھ معانی آپ سطورِ بالا میں تفصیل سے پڑھ چکے ہیں۔ اگر دُعا کا مقصد صرف عبادت لیا جائے اور دُعائے سوال کو بھی دُعائے عبادت میں داخل کر دیا جائے تو سارا معاشرہ شِرک کی دلدل میں دھنس جائے گا اور انبیائے کرام بھی معاذاﷲ اُس دلدل سے نہیں بچ سکیں گے۔ واضح رہے کہ دُعا (پکارنا) ہر جگہ عبادت کے معنی میں مستعمل نہیں، بصورت دیگر کسی کی عصمت شِرک کی آلائشوں سے محفوظ نظر نہیں آتی۔ کیونکہ خود نصِ قرآنی اِس پر شاہد ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی غیراللہ کو پکارا اور خود قرآن آپس میں ایک دوسرے کو مدد کے لئے پکارنے کی اِجازت دے رہا ہے۔ اور اگر بفرضِ محال ہر جگہ دعا، یدعو، تدعو، ندعوا کا معنی صرف دُعائے عبادت یا دُعائے سوال (جو بعض حضرات کے ہاں عبادت ہی کی ایک ذیلی صورت ہے) ہی قرار دینے پر اِصرار کیا جائے تو مندرجہ ذیل چند آیات کی کیا توجیہہ پیش کی جائے گی : 1. يَا قَوْمِ مَا لِيْ أَدْعُوْکُمْ الَی النَّجَاةِ وَ تَدْعُوْنَنِيْ الَی النَّارِo اے میری قوم یہ کیا ہے کہ میں تم کو (راہ) نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے دوزخ کی طرف دعوت دیتے ہوo (مومن، 40 : 41) 2. قَالَ رَبِّ انِّيْ دَعَوْتُ قَوْمِيْ لَيْلًا وَّ نَهَاراًo فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَآئِيْ الَّا فِرَاراًo عرض کیا اے میرے رب! میں اپنی قوم کو رات دن ( دینِ حق کی طرف) بلاتا رہاo لیکن میرے بلانے سے وہ (دین سے) اور زیادہ بھاگنے لگےo (نوح، 71 : 5، 6) 3. وَ اﷲُ يَدْعُوْ الٰی دَارِ السَّلٰمِ. اور اللہ سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف بلاتاہے۔ (يونس، 10 : 25) 4. أُدْعُوْهُمْ لِأَبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اﷲِ. ان (متبنّی بیٹوں ) کو ان کے باپوں کی طرف (نسبت) کر کے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک درست بات ہے۔ (الاحزاب 33 : 5) 5. فَلْيَدْعُ نَادِيُهo سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَo پس وہ اپنے ہم نشینوں کو (مدد کیلئے) بلالےo ہم بھی عنقریب (اپنے) سپاہیوں کو بلالیں گےo (العلق، 96 : 17، 18) 6. فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهُمْ. سو وہ انہیں بلائیں گے مگر وہ انہیں کوئی جواب نہ دیں گے۔ (الکهف، 18 : 52) 7. يَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ أُنَاسِمْ بِامَامِهِمْ. جب ہم لوگوں کے ہر طبقہ کو ان کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔ (بنی اسرائيل، 17 : 71) 8. وَ انْ تَدْعُهُمْ الَی الْهُدٰی. اور اگر آپ انھیں ہدایت کی طرف بلائیں۔ (الکهف، 18 : 57) سورۂ فاتحہ اور تصورِ اِستعانت و اِستغاثہسورۂ فاتحہ میں جہاں اِسلام کے اور بہت سے عقائد و تعلیمات کے تصوّر کو واضح کیا گیا ہے وہاں تصوّرِ اِستغاثہ کو بھی بڑے دلنشیں انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اِرشادِ ربانی ہے : ايَاکَ نَعْبُدُ وَ ايَاکَ نَسْتَعِيْنُo (الفاتحه، 1 : 4) اے اﷲ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیںo یہی آیت مبارکہ مسئلہ اِستعانت و اِستغاثہ کی بنیاد ہے جس میں عبادت اور اِستعانت کو یکے بعد دیگرے ذِکر کیا گیا ہے۔ آیتِ کریمہ کا پہلا حصہ ’’ايَاکَ نَعْبُدُ‘‘ اِسلام کے تصوّرِ عبادت پر مشتمل ہے اور دُوسرا حصہ ’’ايَاکَ نَسْتَعِيْنُ‘‘ تصوّرِ اِستعانت کو واضح کرتا ہے۔ یہی وہ آیتِ مبارکہ ہے جس کے سطحی مطالعہ سے حاصل ہونے والے باطل اِستنباط کے ذریعے کچھ لوگ جمیع امتِ مسلمہ پر شِرک کا فتویٰ لگانے کا آغاز کرتے ہیں۔ دراصل اِس آیت کے سطحی مطالعہ سے اُن کے ذِہنوں میں یہ خیال جنم لیتا ہے کہ آیت کے دونوں حصے ایک جیسے اَلفاظ پر مشتمل ہیں۔ پہلے حصے میں عبادت کا ذِکر ہے جو محض اﷲ ربّ العزّت کے لئے خاص ہے، تو دُوسرے حصے میں اِستعانت مذکور ہے۔ ایک جیسے اَلفاظ کے استعمال کی وجہ سے ایک سے اَحکام کا حاصل ہونا ایک بدیہی سی بات ہے۔ یوں وہ لوگ اِس سطحی اِستدلال کے ذریعے یہاں دھوکہ کھا جاتے ہیں اور اِستعانت و اِستغاثہ کو بھی عبادت کی طرح فقط اﷲ ربّ العزّت کے ساتھ مختص قرار دینے لگتے ہیں۔ اگر ہم بنظرِ غائر اِس آیتِ کریمہ کا مطالعہ کریں تو صورتحال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ ایک جیسے اَلفاظ کا وُرود بجا مگر آیت کے دونوں حصوں کے درمیان حرفِ عطف واؤ کا پایا جانا بھی کسی حقیقت کا غماز ہے! اگر عبادت و اِستعانت کا حکم ایک ہی ہوتا تو اِن دونوں جملوں کے درمیان اﷲ تعالیٰ کبھی بھی ’’واؤ‘‘ کا اِضافہ نہ کرتا۔ اِس واؤ کے لانے سے ہی ما قبل اور ما بعد میں مغایرت ظاہر ہو رہی ہے۔ دو جملوں کے درمیان پائے جانے والے حرفِ مغایرت کی وجہ سے دونوں جملوں کے اَحکام جدا جدا ہوتے ہیں۔ اگر ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ‘‘ میں طلبِِ عون سے مراد عبادتِ خداوندی ہوتی تو قرآنِ مجید اُسے واؤ عاطفہ کے ذریعے ’’إِيَّاكَ نَعْبُدُ‘‘ سے جدا نہ کرتا۔ حرفِ مغایرت واؤ کا اِستعمال یہ بتا رہا ہے کہ ’’إِيَّاكَ نَعْبُدُ‘‘ اور ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ‘‘ دونوں الگ الگ حقیقتیں ہیں۔ اگر عبادت و اِستعانت کے اَحکام ایک سے ہوتے تو اِن دونوں کے درمیان حرفِ مغایرت ’’واؤ عاطفہ‘‘ لانے کی ضرورت نہ ہوتی، بلکہ کلام یوں ہوتا : ’’إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُO‘‘۔ قرآنِ مجید جو خدائے ذوالجلال کا کلام ہونے کے ناطے اپنی جامعیت میں کسی بھی اِنسانی کاوِش سے بڑھ کر ہے اور اُس کا یہ اُسلوب ہے کہ اُس کا ہر حرف اپنا مخصوص معنی و مفہوم رکھتا ہے اور اُس کے کسی ایک حرف کو بھی غیرضروری قرار نہیں دِیا جا سکتا۔ اگر اِس مقام پر عبادت اور اِستعانت کے مابین مغایرت کا ذِکر مقصود نہ ہوتا تو حرفِ مغایرت ہرگز نہ لایا جاتا۔ قرآنِ مجید میں اِس کی تائید میں بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔ اِسی طرح جہاں مغایرت مقصود نہ ہو وہاں مغایرت کے لئے واؤ نہیں لائی جاتی۔ عدمِ مغایرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے حرفِ مغایرت کا عدم اِستعمال سورۂ فاتحہ ہی کی اِبتدائی تین آیات میں بخوبی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ اﷲ ربّ العزّت کا اِرشادِ گرامی ہے : أَلْحَمْدُِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِo مٰلِکِ يَوْمِ الدِّيْنِo ايَاکَ نَعْبُدُ وَ ايَاکَ نَسْتَعِينُo (الفاتحه، 1 : -41) سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہےo نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہےo روز جزا کا مالک ہےo (اے اﷲ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیںo آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مسلسل تین اِبتدائی آیات میں اِسمِ جلالت کے بعد پے در پے چار صفاتِ باری تعالیٰ کا ذِکر ہے اور اُن کے درمیان کسی قسم کی مغایرت نہ ہونے کی وجہ سے کہیں بھی واؤ عاطفہ نہیں لائی گئی۔ جبکہ اگلی آیات میں جہاں مختلف اور متغایر اَعمال و اَفعال کا ذِکر مقصود تھا، وہاں مغایرت کے لئے واؤ عاطفہ لائی گئی۔ پس اِس سے پتہ چلا کہ دُعا اور اِستعانت و اِستغاثہ (مدد چاہنا) دو مختلف چیزیں ہیں اور اِن میں اِنضمام و اِختلاط کی کوشش مدّعائے نزولِ قرآن کی خلاف ورزی ہے جو ہرگز درست نہیں۔ عقلِ ناقص پر کلی اِنحصار گمراہیوں کو جنم دیتا ہے اور فلسفیانہ مُوشگافیوں میں اُلجھ کر رہ جانے والے حقیقت کی منزل سے بہت دُور رہ جاتے ہیں، دُوسروں کو بھی ذِہنی خلفشار کی دلدل کا رِزق بناتے ہیں اور اپنے ذِہن کو بھی غلط سوچوں کی آماجگاہ بنا کر شکوک و شبہات کے بے معنٰی جہان تخلیق کرتے ہیں۔ صحیح اِسلامی عقیدے کے مطابق اِستعانت و اِستمداد، اِستغاثہ و سوال اور طلب و نداء میں اللہ ربّ العزّت ہی کی ذات مُعین و مُغیث اور حقیقی مددگار ہے جیسا کہ اﷲ تعالی نے بارہا اِرشاد فرمایا کہ مجھ سے طلب کرو میں تمہیں دوں گا۔ پس اگر کوئی شخص قرآنِ مجید کی اِس بنیادی تعلیم سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھے کہ اِستغاثہ و اِستعانت اور نداء و طلب میں کوئی مخلوق اللہ ربّ العزت کے اِذن کے بغیر مستقل بنفسہ نفع و ضرر کی مالک ہے تو یہ یقیناًشرک ہے۔ خواہ وہ مدد طلب کرنا عالمِ اَسباب کے تحت ہو یا مافوق الاسباب، دونوں صورتوں میں ایسا شخص مشرک قرار پائے گا۔ جبکہ اِس کے برعکس دُوسری صورت میں اگر مُستعان و مجیبِ حقیقی اللہ تعالی کو مان کر بندہ مجازاً کسی کام کے لئے دوسرے بندے سے رُجوع کرے۔ ۔ ۔ ڈاکٹر سے علاج کروائے یا دَم، درُود اور دُعا کے لئے اﷲ تعالیٰ کے کسی نیک اور صالح بندے کے پاس جائے تو یہ ہرگز شِرک نہیں بلکہ اِس کا یہ فعل معاہدۂ عمرانی کے تحت اِختیارِ اَسباب کے ضمن میں آئے گا۔ اللہ تعالی نے اپنے کلامِ مجید میں بارہا مؤمنین کو آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اِرشادِ خداوندی ہے : وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاثْمِ وَ الْعُدْوَانِ. (المائده، 5 : 2) اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کام) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ مذکورہ آیتِ کریمہ میں اﷲ تعالیٰ جمیع مسلمانوں کو ایک دُوسرے کی مدد اور تعاونِ باہمی کا حکم فرما رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایک دوسرے کی مدد تبھی ممکن ہے جب بعض پس ماندہ حال مؤمنین خوشحال مؤمنین سے مدد مانگیں۔ واضح رہے کہ یہ اِستمداد و اِستغاثہ مادّی معاملات میں بھی زیرحکمِ خداوندی ہے اور رُوحانی معاملات میں بھی، اِسی طرح ماتحت الاسباب معاملات بھی اِس میں شامل ہیں اور مافوق الاسباب بھی، کیونکہ اللہ ربّ العزت نے تعاون (باہمی اِمداد کے نظام) کا حکم علیٰ الاطلاق دیا ہے اور قاعدہ ہے کہ قرانِ مجید کے مطلق کو کسی خبرِ واحد یا قیاس کے ذریعے سے مقیّد نہیں کیا جا سکتا۔ اِس موقع پر اگر کوئی شخص اِس ’’تعاون‘‘ (Mutual Cooperation) کو اَسباب کی شرط سے مقید کرنا چاہے تو وہ یقیناً خلافِ منشائے ربانی فعل میں مصروف متصوّر ہو گا۔ اِسلامی اَحکام و تعلیمات میں تعاونِ باہمی اور ایک دُوسرے کی مدد کو پہنچنے کا حکم آیاتِ طیبات اور اَحادیثِ مبارکہ میں بکثرت ملتا ہے، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس شخص سے مدد طلب کی جائے اُسے چاہیئے کہ وہ مدد کرے اور جس سے اِستغاثہ کیا جائے وہ مدد کو پہنچے اور جسے نداء دی جائے وہ اُس نداء کو قبول کرے اور دُکھی اِنسانیت کے کام آئے۔ اِستغاثہ کے جواز میں بے شمار مواقع پر احکامِ قرآنی موجود ہیں۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ اُسی طرح جائز ہے جیسے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ایک قبطی نے کسی ظالم کے خلاف اِستغاثہ کیا توآپ نے اُس کی مدد فرمائی۔ انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر کون مؤحد ہو سکتا ہے جن کی زِندگی کا مقصد ہی پیغامِ توحید کو سارے عالم میں پھیلانا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قبطی اور نبی علیہ السلام دونوں میں سے کسی ایک کو بھی فعلِ اِستغاثہ کے مرتکب ہونے کی وجہ سے مشرک قرار نہیں دیا۔ اِرشادِ باری تعالی ہے : فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِه عَلَی الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّه. تو جو شخص اُن کی قوم میں سے تھا اُس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو موسیٰ علیہ السلام کے دشمنوں میں سے تھا، موسیٰ علیہ السلام سے مدد طلب کی۔ (القصص‘ 28 : 15) قرآنِ مجید میں اِس کے علاوہ بھی بہت سے مقامات پر گزشتہ اُمتوں کے مؤمنین کا اپنے انبیاء اور صالحینِ اُمت سے اِستغاثہ کرنے کا بیان آیا ہے۔ اُمتِ مصطفوی میں بھی یہ حکم اور صحابۂ کرام کا اِس پر عمل جاری و ساری رہا۔ بے شمار احادیثِ مبارکہ اِعانتِ محتاج اور آپس میں ایک دوسرے کی پریشانیاں اور غم دُور کرنے کے باب میں وارِد ہوئی ہیں۔ اِستغاثہ۔ ۔ ۔ احادیثِ مبارکہ اور عملِ صحابہ کی روشنی میں لمحاتِ شکستہ میں کسی کا سہارا بننا اور ساعتِ کرب میں کسی کا شریکِ غم ہونا مراسمِ محبت کی اُستواری سے عبارت ہے۔ اِسلام کا پیغام اَمن و سلامتی کا پیغام ہے اور تاجدارِ انبیائ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدسہ کا ایک ایک لمحہ محبت کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔ طائف کے اَوباش لڑکوں کی سنگ باری میں بھی لبِ اَطہر پر دُعا کے پھول کھلتے ہیں۔ خون کے پیاسوں میں وفائیں تقسیم کرنے اور عفو و درگزر کے موتی لُٹانے والے آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دِین دراصل محبت ہی کی تفسیر کا نام ہے۔ دُکھ درد کے زائل کرانے اور حاجات کی تکمیل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر زیادہ بڑا وسیلہ و ذریعہ اور کون ہو سکتا ہے! قیامت کے دن جب زمانے کی سب سے بڑی سختی لوگوں پر مسلط ہو گی، ہر کوئی نفسا نفسی پکار رہا ہو گا، لوگ اَنبیاء و صلحاء کے پاس اِستغاثہ اور طلبِ شفاعت کی غرض سے حاضر ہوں گے، مگر اُس دِن سب انبیاء علیہم السلام اِنکار کرتے چلے جائیں گے۔ تآنکہ لوگ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنا کر اِستغاثہ کریں گے، جس کے نتیجے میں اللہ تعالی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے اُس وقت کی سختی کو زائل فرمائے گا۔ حدیثِ مبارکہ میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ سیدنا آدم علیہ السلام سے ’’اِستغاثہ‘‘ کریں گے پھر سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے اور پھر خاتم المرسلین سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے۔ حدیث کے الفاظ یوں ہیں : اسْتَغَاثُوْا بِآدَمَ، ثُمَّ بِموسیٰ، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم. لوگ آدم علیہ السلام سے اِستغاثہ کریں گے پھر موسیٰ علیہ السلام سے اور آخر میں (تاجدارِ انبیاء) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے۔ (صحيح البخاری، کتاب الزکوة، 1 : 199) صحیح بخاری میں لفظِ اِستغاثہ کے ساتھ اِس حدیث مبارکہ کی رِوایت سے لفظ اِستغاثہ کے اِس معنی میں اِستعمال اور عامۃ الناس کے صلحاء و انبیاء سے اِستغاثہ کرنے کا جواز مہیا ہو رہا ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ جس اِستغاثہ کی اُخروی زندگی میں اِجازت ہے اور جو اِستغاثہ و اِستعانت موجودہ دُنیوی زندگی میں زِندہ اَفراد سے جائز ہے، برزخی حیات میں اُسی اِستغاثہ کے جواز پر شِرک کا بُہتان چہ معنی دارد۔ ۔ ۔ ؟ اَحادیثِ مبارکہ میں جا بجا مذکور ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ و اِستمداد کرتے تھے اور اپنے اَحوالِ فقر، مرض، مصیبت، حاجت، قرض اور عجز وغیرہ کو بیان کر کے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ مان کر اُن مسائلِ حیات کا اِزالہ چاہتے تھے۔ اِس عمل میں اُن کا پنہاں عقیدہ یہی تھا کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محض ایک واسطہ اور نفع وضرر میں سبب ہیں اور حقیقی فاعل تو صرف اللہ ربّ العزت ہی کی ذات ہے۔ اَب ہم مثال کے طور پر یہاں چند اَحادیثِ مبارکہ کا ذِکر کرتے ہیں جن میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے حضور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ کیا۔ سیدنا اَبوھُریرہ رضی اللہ عنہ کا اِستغاثہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا حافظہ شروع میں بہت خراب تھا اور وہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرشاداتِ گرامی کو یاد نہیں رکھ پاتے تھے۔ دریں اثناء اُنہوں نے حضور رحمۃٌللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں اِستغاثہ و اِلتجاء کی، جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی نِسیان کی شکایت ہمیشہ کیلئے رفع فرما دی۔ یہی سبب ہے کہ آپ کثیرالرواۃ صحابی ہوئے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنا واقعہ خود بیان فرماتے ہیں : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! انِّيْ أَسْمَعُ مِنْکَ حَدِيْثاً کَثِيْراً أَنْسَاه، قَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : أُبْسُطْ رِدَائَک، فَبَسَطْتُّه، قَالَ : فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ : ضَمِّ فَضَمَمْتُه، فَمَا نَسَيْتُ شَيْأً بَعْدُ. میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں آپ کی بہت سی احادیث سنتا ہوں اور پھر بھول جاتا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی چادر پھیلاؤ، پس میں نے پھیلائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (فضا میں سے) اپنے ہاتھوں سے کوئی چیز اُٹھا کر اس (چادر) میں ڈالی، پھر فرمایا : اِسے اپنے سے ملا لو، پس میں نے ملا لیا اور پھر اُس کے بعد میں کبھی کوئی چیز نہ بھولا۔ (صحيح البخاری، کتاب العلم، 1 : 22) (صحيح البخاری، کتاب الصوم، 1 : 274) صحیح بخاری کی مذکورہ حدیثِ مبارکہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہر مشکل کا حل حاصل کرنے کیلئے اِستغاثہ کیا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے بڑا موحّد اور کون ہو سکتا ہے! اور نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر داعی اِلیٰ التوحید کون قرار پا سکتا ہے! مگر اِس کے باوجود سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ و اِستمداد کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِنکار کی بجائے اُن کا مسئلہ زندگی بھر کیلئے حل فرما دیا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ہر موحّد یہ جانتا ہے کہ مُستعانِ حقیقی فقط اللہ ربّ العزّت کی ذات ہے، انبیاء، اولیاء، صلحاء اور پاکانِ اُمت جن سے مدد طلب کی جاتی ہے، وہ تو حلِ مشکلات میں صرف سبب اور ذریعہ ہیں۔ اُن کا تصرّف محض اللہ تعالی کی عطاء سے قائم ہوتا ہے تاکہ وہ لوگوں کیلئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں مطلوب کے حصول کا ذرِیعہ اور وسیلہ بنیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ کیا اور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی حاجت کو پورا فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں یہ نہیں فرمایا کہ جاؤ اللہ سے دُعا کرو اور توحید پر قائم رہو بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہوا سے اَن دیکھی شے کی مٹھی بھر کر اُن کی چادر میں ڈال دی اور حکم دیا کہ اِسے اپنے سینے سے مل لو۔ پس اللہ تعالی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حاجت براری کے لئے اِس عمل کو بطور وسیلہ قبول کر لیا۔ ہر ذِی شعور موحّد یہ جانتا ہے کہ قضائے حاجت اور مطلب براری کے لئے دُعا اور مدد صرف اُسی سے مانگی جاتی ہے جس کے قبضۂ قدرت میں کل اِختیاراتِ عالم ہیں۔ جبکہ طالبِ وسیلہ کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ وسیلہ بننے اور شفاعت کرنے والا اللہ ربّ العزّت سے مُجھ گناہگار کی نسبت زیادہ قربت رکھتا ہے اور اُس کا مرتبہ اِستغاثہ کرنے والے کی نسبت بارگاہِ ایزدی میں زیادہ ہے۔ سائل اُسے مستغاثِ مجازی سے زیادہ کچھ نہیں جانتا کیونکہ وہ اِس بات سے آگاہ ہوتا ہے کہ مستغاثِ حقیقی فقط اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ یہی معاملہ حدیثِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے واضح ہوتا ہے۔ سیدنا قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کا اِستغاثہسیدنا قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی چشمِ مبارک غزوۂ بدر کے دوران ضائع ہو گئی اور آنکھ کا ڈھیلا اپنے اصل مقام سے باہر نکل کر باہر چہرے پر لٹک گیا۔ تکلیف کی شدّت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے چند صحابہ رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ آنکھ کی رَگ کاٹ دی جائے تاکہ تکلیف کچھ کم ہو جائے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے ساتھیوں کے مشورے پر عملدرآمد سے پہلے محسنِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرضِ حال و اِلتجاء کا فیصلہ کیا۔ سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر جب بپتا سنائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں اِستعانت و اِستغاثہ کیا تو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھ کو کاٹنے کی اِجازت دینے کی بجائے اپنے دستِمبارک سے آنکھ کو دوبارہ اُس کے اصل مقام پر رکھ دیا جس سے اُن کی بینائی پھر سے لوٹ آئی۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میری ضائع ہونے والی آنکھ کی بینائی کسی طرح بھی پہلی آنکھ سے کم نہیں بلکہ پہلے سے بھی بہتر ہے۔ اِس حدیثِ اِستغاثہ کو اِمام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل النبوۃ میں یوں رقم کیا ہے : عَنْ قَتَادَة بْنِ النُّعْمَانَ، أَنَّه أُصِيْبَتْ عَيْنَه يَوْمَ بَدْرٍ، فَسَالَتْ حَدَقَتُه عَلَی وَجَنَتِه، فَأَرَادُوْا أَنْ يَقْطَعُوْهَا، فَسَأَلُوْا رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ فَقَالَ : لَا، فَدَعَا بِه، فَغَمَزَ حَدَقَتَه بِرَاحَتِه، فَکَانَ لَا يَدْرِيْ أَيُّ عَيْنَيْهِ أُصِيْبَتْ. سیدنا قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُن کی آنکھ غزوۂ بدر کے دوران ضائع ہو گئی اور ڈھیلا نکل کر چہرے پر آ گیا۔ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ نے اُسے کاٹ دینا چاہا۔ (مُسند اَبو يعلی، 3 : 120) (دلائل النبوّه، 3 : 100) (طبقات اِبنِ سعد، 1 : 187) (تاريخ اِبنِ کثير، 3 : 291) (الاصابه فی تمييز الصحابه، 3 : 225) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دُعا فرمائی اور آنکھ کو دوبارہ اُس کے مقام پر رکھ دیا۔ پس حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ اِس طرح ٹھیک ہو گئی کہ معلوم بھی نہ ہوتا تھا کہ کون سی آنکھ خراب ہوئی تھی۔ دُمبل زدہ صحابی رضی اللہ عنہ کا اِستغاثہکتبِ احادیث میں طبیبِ اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک دُمبل زدہ صحابی کا اِستغاثہ بھی مروی ہے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دُمبل (Struma) تھا جس کی وجہ سے دورانِ جہاد اُن کے لئے گھوڑے کی لگام یا تلوار کا دَستہ پکڑنا ممکن نہ رہا تھا۔ وہ صحابی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اَقدس میں حاضر ہوئے اور اِس بیماری کے علاج کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ کیا۔ پس اللہ ربّ العزّت جو مستعانِ حقیقی ہے اُس نے دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اُس صحابی کو شفا عطا فرما دی۔ یہ حدیثِ مبارکہ مجمع الزوائد میں یوں مروی ہے : أتيتُ رسولَ اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم و بکفی سلعةٌ، فقلتُ : ’’يانبی اﷲ! هذا السلعة قد أورمتنی لتحول بيني و بين قائم السيف أن أقبض عليه و عن عنان الدابة‘‘. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’أُدْنُ مِنِّي‘‘. فَدَنَوْتُ، فَفَتَحَهَا، فَنَفَثَ فِيْ کَفَّي، ثُمَّ وَضَعَ يَدَه عَلَي السَّلْعَة، فَمَا زَالَ يَطْحِنُهَا يَکُفُّه حَتَّي رَفَعَ عَنْهَا وَ مَا أَرَي أَثْرَهَا. میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ میرے ہاتھ میں ایک دُمبل تھا۔ میں نے عرض کیا : ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (میرے ہاتھ پر) دُمبل ہے جس کی وجہ سے مجھے سواری کی لگام اور تلوار پکڑنے میں تکلیف ہوتی ہے‘‘۔ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میرے قریب ہو جاؤ‘‘۔ پس میں آپ سے قریب ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس دُمبل کو کھولا اور میرے ہاتھ میں پھونک ماری اور اپنے دست مبارک کو دُمبل پر رکھ دیا اور دباتے رہے حتی کہ جب ہاتھ اُٹھایا تو اُس (دُمبل) کا اثر مکمل طور پر زائل ہو چکا تھا۔ (مجمع الزوائد، 8 : 298) نابینا صحابی رضی اللہ عنہ کا اِستغاثہ مادر زاد نابیناؤں کو نعمتِ بصارت سے فیضیاب کرنا سیدنا عیسٰی علیہ السلام کا معجزہ ہونے کے ساتھ تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ بھی ہے۔ روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی رضی اللہ عنہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اَقدس میں بینائی کے حصول کے لئے اِستغاثہ کرنے آئے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں منع کرنے اور اِستغاثہ کی حُرمت یا خدشۂ شِرک کا اِظہار کرنے کی بجائے خود اُنہیں دُعا کی تلقین فرمائی۔ یہ دُعا اپنی ذات میں وسیلہ اور اِستغاثہ دونوں کی جامع ہے اور اُس نابینا صحابی رضی اللہ عنہ جیسے خلوص سے کی جانے کی صورت میں آج بھی دُکھی اِنسانیت کے لئے مجرّب اکسیر ہے۔ مذکورہ دُعا یہ ہے : أَللّٰهُمَّ انِّيْ أَسْئَلُکَ وَ أَتَوَجَّهُ الَيْکَ بِنَبِيِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَة، يَامُحَمَّدُ! انِّيْ قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ الَی رَبِّيْ فِيْ حَاجَتِيْ هٰذِهِ فَتَقْضِيْ لِيْ، أَللّٰهُمَّ فَشَفِّعْه فِيَ. (جامع الترمذی، اَبواب الدّعوات، 2 : 197) (مسند اَحمد بن حنبل، 4 : 138) (المستدرک، 1 : 313، 519، 526) اے میرے اللہ! میں نبیء رحمت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے تجھ سے سوال کرتا اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں اپنی اِس حاجت میں آپ کے واسطے سے اپنے ربّ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ یہ حاجت بر آئے۔ اے میرے اللہ! میرے معاملے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارِش و شفاعت کو قبول کر لے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حدیثِ مبارکہ میں مذکور دُعا کا اِبتدائی جملہ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں بطور وسیلہ پیش کر رہا ہے، جبکہ اِسی دُعا کا دوسرا جملہ جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کیا جا رہا ہے مقبولانِ بارگاہِ الٰہی سے اِستغاثہ کا نہ صرف جواز بلکہ حکم مہیا کر رہا ہے۔ اگر اللہ تعالی کے سِوا کسی مخلوق سے اِستغاثہ جائز اور درست نہ ہوتا تو نبیء کریم رؤفٌ رّحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس عمل کے کرنے کا حکم اِرشاد نہ فرماتے۔ کائنات کے سب سے بڑے موحّد نے جب خود اپنی ذات سے اِستغاثہ کا حکم اِرشاد فرمایا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں کہ توحید کو خالص کرنے کے زعم میں اِسلام کے حقیقی عقائد و نظریات اور تعلیمات کا چہرہ مسخ کرتے ہوئے جمیع مسلمانانِ عالم کو کافر و مشرک قرار دینے لگیں۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا بارش کے لئے اِستغاثہکتبِ احادیث اِستغاثہ بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِثبات اور عملِ صحابہ رضی اللہ عنہ سے اِس کے ثبوت میں بھری پڑی ہیں۔ احادیثِ صحیحہ مرفوعہ متواترہ سے یہ بات ثابت ہے کہ صحابۂ کرام کو جب بھی کوئی مصیبت و آفت درپیش ہوتی وہ دوڑے دوڑے سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں اِستغاثہ کے لئے حاضر ہوتے۔ اللہ تعالی کے حضور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنا کر دُعا کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاجت براری کے لئے اِستغاثہ کرتے۔ جس کے نتیجے میں اللہ ربّ العزت اُن پر آئی ہوئی مشکل کو ٹال دیتا۔ سیدنا اَنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ اِستسقاء کو صحیح قرار دیتے ہوئے اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اِس طرح رِوایت کیا ہے کہ : عن أنس، قال : ’’بينما رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يخطب يومَ الجمعة اذا جاء رجلٌ، فقال : ’’يارسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم قحط المطر فادع اﷲ أن يسقينا‘‘. فدعا، فمطرنا، فما کدنا أن نصلّ الٰي منازلنا، فما زلنا نمطر الٰي الجمعة المُقبلة، قال : فقام ذٰلک الرجل أو غيره، فقال : ’’يا رسول اﷲصلي اﷲ عليک وسلم أدع اﷲ أن يصرفه عنا‘‘. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’اللّٰهُمَّ حَوَالَيْنَا وَ لَا عَلَيْنَا‘‘، قال : ’’فلقد رأيتُ السّحاب يتقطع يميناً و شمالًا يمطرون و لا يمطر أهل المدينة‘‘. سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے رِوایت ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے روز خطاب فرما رہے تھے کہ ایک آدمی آیا اور عرض گزار ہوا : ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! بارش کا قحط ہے پس اللہ سے دُعا فرمائیں کہ وہ ہمیں بارش عطا کرے‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دُعا فرمائی پس ہمارے گھر وں کو پہنچنے سے پہلے پہلے بارش شروع ہو گئی جو اگلے جمعہ تک مسلسل جاری رہی۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ (اگلے جمعہ) پھر وہی یا کوئی اور شخص کھڑا ہوا اور عرض کی : ’’اے اللہ کے رسول صلی اﷲ علیک وسلم! اللہ سے دُعا کریں کہ اِس (بارش) کو ہم سے ہٹا دے‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دُعا فرمائی : ’’اَے اللہ ہمارے اِردگِرد ہو اور ہمارے اوپر نہ ہو‘‘ پس میں نے دیکھا کہ بادل دائیں اور بائیں ہٹ کر بارش برسانے لگا اور اہلِ مدینہ پر سے بارش ختم ہو گئی۔ (صحيح البخاری، کتاب الاستسقاء، 1 : 138) دُوسرا اِعتراض مافوق الاسباب اُمور میں اِستغاثہ شِرک ہے مذکورہ بالا اِعتراض کی بنیاد ایک تقسیم پر مبنی ہے۔ اِستغاثہ کی بحث کے دوران اَسباب کے ضمن میں عام طور پر اُمور کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں : 1۔ اُمورِ عادیہ۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔ اُمور ما تحت الاسباب 2۔ اُمورِ غیر عادیہ۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔ اُمور ما فوق الاسباب اِس تقسیم کے تحت ما تحت الاسباب ہونے کے ناطے اُمورِ عادیہ میں اِستغاثہ کو جائز سمجھا جاتا ہے، جبکہ اُمورِ غیر عادیہ جو ما فوق الاسباب ہوتے ہیں، میں اِستغاثہ کو شِرک قرار دیا جاتا ہے۔ وہ کام جو بالعموم اَسباب کے ذریعے سراِنجام پاتے ہیں ان عادی اَسباب کو ترک کر کے مدد چاہنا اِستغاثہ مافوق الاسباب کہلاتا ہے اور اَسبابِ عادیہ کو اِختیار کرتے ہوئے مدد چاہنا ماتحت الاسباب ہے، یعنی اس میں کسی سے مدد چاہتے ہوئے ان اسباب کو اختیار کرلیا جاتا ہے جو بالعموم اس امر سے متعلق ہوتے ہیں۔ اِس تقسیم کے بعد یہ امر پیشِنظر رہنا چاہیئے کہ اُن کے نزدیک دُنیوی حوائج میں آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور باہمی اُمور میں تعاون کرنا اِستغاثہ ماتحت الاسباب ہے اور یہ جائز ہے، جیسے اِرشادِ ربانی ہے : وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰي. اور نیکی اور تقویٰ (کے کاموں ) میں ایک دوسرے سے تعاون کیا کرو۔ (المائده، 5 : 2) ما تحت الاسباب اُمور میں اِستغاثہ کو رَوا رکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کے نزدیک وہ اِستغاثہ جو ما فوق الاسباب اُمور میں سے ہو وہ حرام و ناجائز ہے۔ اِعتراض کا علمی محاکمہ پہلا نکتہ : اِستغاثہ ماتحت الاسباب اور اِستغاثہ مافوق الاسباب (اُمورِ عادیہ و غیرعادیہ) میں سے مؤخرالذکر کو شِرک قرار دیا جا رہا ہے جبکہ اِس تقسیم اور اس کے تحت پائی جانے والی ایک قسم کے جواز اور دُوسری کے عدم جواز کا قرآن و سنت میں کوئی ذکر نہیں۔ یہ ایک خود ساختہ تقسیم ہے اور اِستنباط و اِستخراج کا نتیجہ ہے۔ کسی قسم کی کوئی نصِ قرآنی اِستغاثہ کے ضمن میں اَسباب کے حوالے سے پائی جانے والی تقسیم پرشاہد نہیں۔ یہاں ہمیں یہ بات بھی ذِہن نشین رکھنی چاہیئے کہ اُمورِ مافوق الاسباب میں بھی کسی نہ کسی سطح کے اَسباب ضرور کارفرما ہوتے ہیں۔ ’’کُنْ فَیَکُوْن‘‘ کے علاوہ کوئی اَمر مافوق الاسباب نہیں۔ مگر چونکہ بعض اُمور کے اَسباب ہمیں ظاہری طور پر نظر نہیں آتے اِس لئے ہم اُنہیں عام طور پر اُمورِ مافوق الاسباب کا نام دیتے ہیں۔ دُوسرا نکتہ : سورۂ فاتحہ کی جس آیتِ کریمہ کو مسئلہ کی بنیادی کڑی اور اصل سمجھا جاتا ہے خود اُس میں اَسباب کے تحت کی جانے والی کسی تقسیم کا قطعاً کوئی ذِکر نہیں کیا گیا اور ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ کہہ کر مدد طلب کرنے کو مطلق رکھا گیا ہے۔ قاعدہ ہے کہ ألْمُطْلَقُ يَجْرِيْ عَلَي إِطْلَاقِه (مطلق اپنے اِطلاق پر جاری رہتا ہے) اِس لئے ہم کسی خود ساختہ تقسیم کے تحت یہ معنی متعین نہیں کر سکتے کہ اَے باری تعالی! ہم تُجھ سے صرف مافوق الاسباب اُمور میں مدد چاہتے ہیں کیونکہ وہ تیرے علاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا، رہی بات ماتحت الاسباب اُمور کی تو اُن میں چونکہ تیرے علاوہ حصولِ مدد کے اور بھی کثیر ذرائع موجود ہیں اِس لئے اُن معاملات میں تُجھ سے مدد مانگنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ اِس طرح کی تقسیم کم علمی اور نادانی کے سِوا کچھ نہیں اور یہی صحیح معنوں میں شِرک میں مبتلا کرنے والی ہے۔ تیسرا نکتہ : تفہیمِمسائل، رفعِ اِلتباس اوربعض اشیاء کو بعض سے ممیز کرنے کے لئے تقسیمات کی جاتی ہیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں مذکورہ تقسیم کی عدم ضرورت کے باوجود تقسیم کرنے اور پھر ماتحت الاسباب میں اِستغاثہ کو جائز سمجھنے کا کیا جواز ہے؟ جبکہ مافوق الاسباب میں شِرک کے فتاویٰ جائز اور درُست قرار دیئے جا رہے ہیں۔ اگر ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں اِستغاثہ حقیقی اور اِستغاثہ مجازی کی تقسیم کی جائے تو پھر اُس کو تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا؟ فی الواقع ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں تقسیم تو ہے مگر ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی بجائے حقیقت اور مجاز کی ہے۔ صحیح اِسلامی عقیدہ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ کے کلمات میں بندہ باری تعالیٰ سے عرض کناں ہوتا ہے کہ اے اللہ! ہم اپنی ضروریات کی کفالت کے لئے ظاہراً کسی سے بھی مدد کے طلبگار ہوں اُس کو مُستغاثِ حقیقی خیال نہیں کرتے بلکہ مُستغاثِ حقیقی فقط تجھی کو سمجھتے ہیں کیونکہ تیری عدم رضا کی صورت میں کوئی ہمارا مددگار اور پُرسانِ حال نہیں ہو سکتا۔ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ خواہ ہم ڈاکٹر کے علاج معالجہ سے شفایاب ہو رہے ہوں یا کسی بزرگ کے دُعا سے، کسی کو بھی مستعانِ حقیقی خیال نہیں کرتے بلکہ حقیقی مددگار تو اللہ ربّ العزّت ہے۔ ہم دوا اور دُعا دونوں کو سبب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے کیونکہ اصل مُستغاث اور کارساز تو ہی ہے۔ چوتھا نکتہ : اب غور طلب بات یہ ہے کہ دونوں تقسیموں، ’’مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب‘‘ اور ’’حقیقت و مجاز‘‘ میں تطبیق کیونکر ممکن ہے؟ بلا شبہ بعض اُمورِ حیات میں ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی تقسیم رَوا ہے۔ یہ امرِِ واقعہ ہے اور فہم و شعور میں سمانے والی چیز ہے جس کا ثبوت لانے کی بھی ضرورت نہیں۔ کچھ اُمور ماتحت الاسباب حل ہوجاتے ہیں اور کچھ اُمور کا حل مافوق الاسباب تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اَسباب دراصل دونوں صورتوں میں پائے جاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ماتحت الاسباب اُمور میں اَسباب بدیہی ہوتے ہیں جبکہ مافوق الاسباب اُمور میں اَسباب عام آدمی کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیں۔ ماتحت الاسباب کو ظاہری اور مافوق الاسباب کو رُوحانی اور باطنی اَسباب کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔ مافوق الاسباب اُمور میں اگرچہ اسبابِ عادیہ کا ترک ہوتا ہے مگر اسبابِ غیر عادیہ کا وُجود تو بہرطور یہاں بھی پایا جاتا ہے۔ گویا حقیقی معنوں میں کوئی بھی اُمور مطلقاً مافوق الاسباب نہیں ہوتے۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب میں اسباب ظاہری ہوتے ہیں جو عام بندے کو دِکھائی دے جاتے ہیں۔ جبکہ مافوق الاسباب میں اسباب غیر عادیہ ہونے کی وجہ سے فردِ بشر کی عام نظر سے دکھائی نہیں دے پاتے۔ جب انبیاء، اولیاء، صلحاء یا کسی بھی فردِ بشر کو عالمِ اسباب کے اندر رہتے ہوئے اسی سے متعلق مدد طلب کی جائے تو وہ الفاظ جو حصولِ مدد کے لئے استعمال ہوں اُنہیں حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا، مگر مستغاثِ حقیقی اس صورت میں بھی اللہ تبارک و تعالی کی ذاتِ برحق ہوگی۔ اوراُمورِ عادیہ کے ماوراء اَسباب کی دُنیا میں جب مدد طلب کی جائے گی تو اِستغاثہ کے لئے اِستعمال ہونے والے اَلفاظ مجاز اً اِستعمال ہوں گے جبکہ اِعتقاد اس صورت میں بھی اللہ ربّ العزّت ہی کے مُستغاثِ حقیقی ہونے کا ہوگا۔ یعنی معنی حقیقی دونوں صورتوں میں سے کسی میں بھی نہیں پایا جائے گا۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب میں لفظ کا اِستعمال حقیقت پر مبنی تھا اور مافوق الاسباب میں حقیقی معنی مراد لینا متعذر تھا، اِس لئے لفظ کو بھی حقیقت پر محمول نہ کیا گیا۔ الغرض معنا اور عقیدۃ اِستغاثہ حقیقی اللہ ربّ العزّت ہی کے لئے خاص ہے۔ (توحید اور شِرک سے متعلقہ اَبحاث کے مطالعہ کے لئے راقم کی کتاب ’’عقیدۂ توحید اور حقیقتِ شِرک‘‘ ملاحظہ فرمائیں)۔ حقیقت و مجاز کی تقسیم لابدّی ہےنفسِ اِستغاثہ کا اِنکار کرنے والے ایک طبقے کا مؤقف یہ ہے کہ ماتحت الاسباب اُمور میں اِستغاثہ جائز ہے، جبکہ اِس سلسلے میں حقیقت و مجاز کی کوئی حیثیت نہیں۔۔۔۔ اب اس مؤقف کے قائل لوگوں سے سوال یہ ہے کہ اگر ماتحت الاسباب میں اِستغاثہ کو جائز اور درست مانا جائے اور اِستغاثہ حقیقی و مجازی کو تسلیم نہ کیا جائے تو پھر ماتحت الاسباب اُمور میں مُستغاثِ حقیقی کون ہوگا؟۔۔۔ اگر مریض کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے جائے تو مُستعانِ حقیقی کون ہوا؟۔۔۔ کیا مُستعانِ حقیقی وہ ڈاکٹر جو مریض کے معالجے کی تدبیر کر رہا ہے یا کہ اللہ تعالی؟۔۔۔ اگر اِس کا جواب یہ ہو کہ دُنیوی اُمور میں بھی مُستعانِ حقیقی اللہ ہی ہے تو مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب میں باہم فرق کیا رہا؟۔۔۔ مافوق میں اسی اِستغاثہ کا نام شِرک اور ماتحت الاسباب میں اجازت! یہ کہاں کا اصول ہے کہ حقیقت و مجاز کا فرق ملحوظ رکھے بغیر مُستعانِ مطلق بھی اللہ کو قرار دیا جائے اور اُس کے غیر سے مدد بھی طلب کرتے پھریں؟ حالانکہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَo اور ہمارا ربّ بے حد رحم فرمانے والا ہے اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے ان (دل آزار) باتوں پر جو (اے کافرو!) تم بیان کرتے ہوo (الانبياء، 21 : 112) دُوسری صورت میں اگر اِس کا جواب یہ دِیا جائے کہ اُمورِ ماتحت الاسباب میں مستغاثِ حقیقی اللہ تبارک و تعالیٰ نہیں اِنسان ہی ہے تو اس سے تعدّد لازِم آئے گا۔۔۔ جو یقیناً شِرک ہے۔۔۔ کہ دُنیوی کاموں میں مستعان بندہ ہو اور مافوق الاسباب کاموں میں اللہ تعالی۔ اِس دُوئی کی بنا پر جب بندے کو مستغاث و مستعان تسلیم کیا جائے تو یہ بالکل اُسی طرح کا شِرک قرار پائے گا جو کفار و مشرکینِ مکہ کا تھا کہ وہ دُنیوی اُمور میں بندوں کو مددگار تسلیم کرتے اور دیگر اُمور میں اللہ تعالی کو مددگار مانتے تھے۔ اور اگر یہ بات کی جائے کہ دنیاوی اُمور میں بھی مستعان اللہ ہی ہے تو پھر اس کے غیر سے مدد مانگنا کیونکر درست ہوگیا؟ فیصلہ کن بات یہ ہے کہ جب معترضین کے نزدیک اُمورِ ماتحت الاسباب میں مُستغاثِ حقیقی اللہ تعالی ہے اور مخلوق سے اِستعانت فقط ظاہری اور مجازی معنی میں ہے، حقیقی معنی میں نہیں،۔۔۔ تو اِس صورت میں ایک سوال یہ اُبھرتا ہے کہ اگر ماتحت الاسباب میں غیر سے مدد چاہنا اِستغاثہ مجازی ہونے کی وجہ سے جائز ہے تو مافوق الاسباب میں مجاز ہونے کے باوجود کیسے حرام ہوگیا؟ جبکہ وہاں بھی اِستغاثہ حقیقی کی بجائے اِستغاثہ مجازی ہی تھا۔ مافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا جوازمافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا اِستعمال اِس لحاظ سے بھی جائز ہے کہ وہ بظاہر تو اگرچہ اِستغاثہ ہوتا ہے مگر اِس سے مفہوم اور مُراد توسل ہوا کرتا ہے، اور مستعانِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو جانا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اِستغاثہ کا مجازی معنی میںاِستعمال قرآنِ مجید میں کئی صورتوں میں ہوا ہے، جن میں سے اکثر استعمالِ مجاز ما فوق الاسباب کے لئے ہوا ہے۔ قرآنِ حکیم میں مجاز کا اِستعمال جس کثرت کے ساتھ ہوا ہے اُس میں سے چند مقامات کا ہم یہاں ذِکر کریں گے تاکہ قارئین کے اذہان و قلوب میں یہ تصوّر اچھی طرح سے راسخ ہو جائے کہ حقیقت و مجاز کی تقسیم سے اِنکار کی صورت میں کس قدر خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ جبرئیل علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ؟حضرت جبرئیل علیہ السلام جب اﷲ کے اِذن سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی وِلادت کے سلسلے میں حضرت مریم علیھا السلام کے پاس اِنسانی رُوپ میں آئے تو اُن سے کہا : اِنَّمَا أنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِيًّاo (جبرئیل نے) کہا میں تو فقط تیرے ربّ کا بھیجا ہوا ہوں (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروںo (مريم، 19 : 19) مذکورہ بالا آیت میں جبرئیل امین علیہ السلام کا قول اُمورِ مافوق الاسباب میں سے ہے کیونکہ شادی اور اِزدواجی زندگی کے بغیر بیٹے کا ہونا اور اس پر یہ کہنا کہ : ’’میں تجھے پاکیزہ بیٹا دوں‘‘ مافوق الاسباب اُمور میں مدد کی بہت بڑی قرآنی مثال ہے اور اسبابِ عادیہ کے بغیر اِس دنیا میں اِس کا تصوّر بھی محال ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص محض توسل کی نیت سے اﷲ ربّ العزّت کے کسی برگزیدہ بندے کے وسیلے سے اولاد طلب کرے تو کچھ نادان دوست فی الفور شِرک کا فتویٰ لگا دینے سے نہیں چوکتے جبکہ کوئی غیرخدا۔۔۔ جبرئیل علیہ السلام۔۔۔ کہے کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ اور اﷲ تعالیٰ خود اُس کا ذِکر قرآنِ مجید میں کرے تو کیا یہ اُسی طرح شِرک نہیں ہوگا؟ مانگنے کی صورت میں تو مانگنے والا پھر بھی اِنسان ہی رہتا ہے مگر یہ کہنا کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ اِس جملے کو اگر مجازی معنی پر محمول نہ کیا جائے تو حقیقی معنوں میں تو یہ سراسر خدا بننے کے مترادف ہے۔ اولاد سے نوازنا فعلِ اِلٰہی ہے اور بندے کا کام اُس سے اُس کی عطا کی بھیک مانگنا ہے۔ بندے کا غیراﷲ سے مانگنا اگر شِرک ہے تو پھر کسی دینے والے غیرِخدا کا قول یہ کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ تو بدرجۂ اولیٰ شِرک قرار دیا جانا چاہئیے۔ اِس مقام پرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جبرئیلِ امین علیہ السلام تو ’’لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً‘‘ کہہ کر بھی (معاذ اﷲ) مشرک نہ ہوئے بلکہ اُن کا قول، قولِ حق رہا تو اُن کے اس قول کی آخر کیا توجیہہ ہوگی؟ جواب : یہ قول تو اگرچہ روح الامین کا ہے کہ میں بیٹا دیتا ہوں مگر اِس سے مُراد یہ ہے کہ وہ بیٹا جو اللہ تبارک و تعالی عطا فرمانے والا ہے ’’میں‘‘ اُس کا سبب، وسیلہ اور ذریعہ بنتا ہوں۔ پس مذکورہ آیتِ کریمہ میں ’’لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً‘‘ میں مدد دینے کا عمل پایا گیا مگر اس سے مُراد محض توسل ہے اور ان کا بیٹا دینے کا قول مجازِ قرآنی کی ایک عمدہ مثال ہے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ؟سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی اُمت کے سامنے اِعلائے کلمۂ حق کیا اور اُنہیں شِرک سے باز آنے اور اﷲ وحدہ لا شریک کی وحدانیت کی طرف بلانا چاہا تو اُنہوں نے اپنی قوم کو مختلف معجزات دِکھائے۔ قرآنِ مجید میں آپ کی اس دعوت کا ذکر یوں آیا ہے : أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ والْأَبْرَصَ وَأُحْيِـي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَO بے شک میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں، میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ اللہ کے حکم سے فوراً اڑنے والا پرندہ ہو جاتا ہے۔ اور میں مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو شفا یاب کرتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مردے کو زندہ کر دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو میں تمہیں (وہ سب کچھ) بتا دیتا ہوں، بے شک اس میں تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہوo (آل عمران، 3 : 49) اس آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دستِ اقدس سے کل پانچ معجزات کے ظہور کا ذکر آیا ہے : 1۔ مٹی سے پرندہ بنا کر اُسے زِندہ کرنا 2۔ مادر زاد اَندھے کا علاج 3۔ سفید داغ (برص) کا علاج 4۔ اِحیائے موتیٰ (مُردوں کو زندہ کرنا) 5۔ غیب کی خبریں سرِعام بتانا یہ پانچ معجزات اللہ ربّ العزّت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے اور آپ علیہ السلام علی الاعلان ان کا اِظہار بھی فرمایا کرتے تھے، جس کی تصدیق خود باری تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمائی ہے۔ یہاں فقط اِتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ اِس آیتِ کریمہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک نشانی لایا ہوں ’’أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم‘‘ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی مورت بناتا ہوں ’’أَجْعَلُ‘‘ کی بجائے ’’أَخْلُقُ‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا گیا۔ اگر آپ غور کریں تو مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں ساری بحث ہی حقیقت و مجاز کی ہے۔ حقیقی کارساز اللہ ربّ العزت ہی ہے مذکورہ بالاآیاتِ کریمہ میں بھی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام مستعانِ حقیقی نہیں ہیں بلکہ اللہ ہی حقیقی مدد کرنے والا ہے۔ البتہ ان الفاظ کا اِستعمال فقط مجازا ہوا ہے اور ساری بحث الفاظ پر ہے، لہٰذا اُصول اور ضابطہ یہ ہوا کہ ایسے الفاظ کا اِستعمال مجازا جائز ہے۔ مذکورہ آیت میں تمام صیغے کلام کرنے والے کے ہیں مگر اِس کام کا حقیقت میں کارساز اللہ ہے گویا حقیقت باذن اللہ ہے۔ کلمات میں حقیقت و مجاز کی قرآنِ کریم کے حوالے سے یہ بہترین مثال ہے۔ کیا یہ معجزہ نہیں؟ اِس موقع پر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سارا ماجرا تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ہے اور اِستغاثہ کی بحث میں معجزے کا کیا کام کیونکہ اُس سے تو یہاں بحث ہی نہیں۔ اِس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ’’معجزہ تو مریضوں کا شفایاب ہوجانا ہے نہ کہ اُن کا اپنی طرف شفا دینے کی نسبت کرنا‘‘۔ اصل بات یہی ہے کہ اُن کا اپنی طرف ان مافوق الفطرت اَعمال کی نسبت کرنا مجاز ہے اور شِفا اور بیماری درحقیقت اﷲ ربّ العزّت کی طرف سے ہے۔ جب یہ بات اٹل ہے کہ مادر زاد اندھے کو اور سفید داغ والے کو شفاء دینے والا اللہ تبارک و تعالی ہی ہے تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ کیوں فرمایا کہ ’’میں شفا دیتا ہوں‘‘؟ چاہیئے تو یوں تھا کہ اِرشاد فرماتے کہ اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ پھیرنے سے مادرزاد اَندھے کو بینائی دیتا ہے اور کوڑھی کو شفا عطا فرماتا ہے، معجزے کی شانِ اعجازی میں تب بھی کوئی فرق نہ آتا مگر اُنہوں نے مجازاً اِن اَلفاظ کی نسبت اپنی طرف کی۔ چوتھا قول اُنہوں نے فرمایا : وَ أُحْیِ الْمَوْتٰی بِإِذْنِ اﷲِ ’’ اور میں مُردوں کو اﷲ کے اِذن سے زندہ کرتا ہوں‘‘۔ یہاں تو اِنتہاء ہوگئی۔۔۔ ایسا نہیں فرمایا کہ تم مُردہ لے آؤ، میں اللہ سے اِلتجاء کروں گا، اللہ میری دُعا سے زندہ کردے گا، بلکہ یوں اِرشاد فرمایا : ’’میں مُردوں کو اللہ کے اِذن سے زِندہ کرتا ہوں‘‘۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ان صیغوں اور کلمات کا اِستعمال اور اُن کی کسی فردِ بشر کی طرف نسبت مجازی طور پر جائز ہے۔ مذکورہ آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی طرف اِن اَعمال و اَفعال کی نسبت کرنا نسبتِ مجازی ہونے کی بناء پر درست ہے اور اِسی آیت کے دُوسرے حصے میں آپ نے بِإِذْنِ اﷲ کے اَلفاظ کے ذریعے حقیقی کارساز اللہ ربّ العزّت ہی کو قرار دیا۔ پانچویں بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ فرمائی : وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ’’اور میں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو‘‘۔ اس میں کوئی ذِکر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مطلع فرمانے سے ایسا کرتا ہوں، بلکہ فرمایا : أُنَبِّئُكُم میں تمہیں خبر دیتا ہوں۔ اِن الفاظ میں صراحت کے ساتھ علمِ غیب کا پہلو پایا گیا کیونکہ اِس بات کا علم کہ کسی نے کون سی چیز کھائی ہے علمِ غیب ہے جو باری تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے یوں نہیں فرمایا کہ خداوندِ قدّوس مجھے آگاہ فرماتا ہے۔ اگرچہ واقعتا حقیقت یہی ہے کہ اﷲ ہی آگاہ کرتا ہے مگر اُنہوں نے اِس بات کا اپنے اَلفاظ میں اِظہار نہیں فرمایا اور مجازی طور پر اِس غیب کی نسبت اپنی طرف کی، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ غیراﷲ کی طرف علمِ غیب کی نسبت مجازی طور پر جائز ہے ورنہ رسولِ خدا سے یہ فعل ہرگز سرزد نہ ہوتا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے دعوی نبوت کے سلسلے میں جو اِعلانات فرمائے آج کے نام نہاد مؤحّدین کے مؤقف کی روشنی میں وہ سب کے سب شِرک کی زد میں آئے بغیر نہیں رہتے۔ اِس طرح کے طرزِ فکر سے تو اَنبیائے کرام جو خالصتاً توحید ہی کا پیغامِ سرمدی لے کر انسانیت کی طرف مبعوث ہوتے رہے ہیں، اُن کی قبائے عصمتِ نبوّت بھی تار تار ہوئے بغیر نہیں رہتی اور وہ بھی شِرک کے فتویٰ سے نہیں بچ سکتے۔ اﷲ تعالیٰ پر شِرک کا فتویٰ؟سورۂ آل عمران کی مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے اَلفاظ مذکور ہیں کہ میں اللہ کے اِذن سے مُردے زِندہ کرتا ہوں، مٹی سے پرندوں کی مُورتیں بنا کر اُن میں جان ڈالتا ہوں وغیرہ، مگر مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ میں تو خود اللہ تعالیٰ بھی اُن کے اِس فعل کی تصدیق فرما رہا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي اور جب تم میرے حکم سے مٹی کے گارے سے پرندے کی شکل کی مانند (مورتی) بناتے تھے۔ (المائده، 5 : 110) اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ اے عیسیٰ علیک السلام میں نے تیرے لئے مٹی کے پرندے بنائے اور زِندہ کر دیئے، تیرے لئے مادر زاد اَندھوں کو بینائی دی اور برص زدہ لوگوں کو شفا دی۔ با وجود یہ کہ اللہ تعالی توحیدِ خالص کے حامل سادہ لوح مؤحّدین کی حسبِ خواہش حقیقت پر مبنی اِس اُسلوب کو اپنا بھی سکتا تھا، مگر اِس کے باوجود اُس خالق و مالک نے فرمایا : فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي پھر تم اس میں سے پھونک مارتے تھے تو وہ (مورتی) میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی۔ (المائده، 5 : 110) رُوح پھونکنا دَرحقیقت فعلِ اِلٰہی ہےیہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی میں رُوح پھونکنا اور جان ڈالنا خالقِ کائنات ہی کا کام ہے۔ مگر اُس نے خود سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے لئے فرمایا : فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ’’پھر تو اُس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اُڑنے لگتی‘‘ وَتُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ’’اور جب تم مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے‘‘ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي ’’اور جب تم میرے حکم سے مُردوں کو ( زِندہ کرکے قبر سے) نکال (کھڑا کر) دیتے تھے‘‘۔ اِن آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے کلمات کا غیراﷲ پر اِطلاق مجازاً جائز ہے۔ اِن کلمات کو خود اللہ ربّ العزّت نے اِستعمال فرمایا اور انبیائے کرام علیھم السلام نے بھی اِستعمال کیا حالانکہ ایسے کلمات کی ادائیگی فرمانا اُن کی مجبوری نہ تھی۔ اﷲ ربّ العزّت کا اپنے کلامِ مجید میں اِن اَلفاظ کو مجازی معنی میں اِستعمال کرنا نہ صرف مجازی معنی کے جواز کا سب سے بڑا ثبوت ہے بلکہ اس کے سنتِ اِلٰہیہ ہونے پر بھی دالّ ہے۔ اِس ساری بحث سے ظاہری اور باطنی اَسباب کے لئے ایک خاص ضابطہ بھی میسر آتا ہے کہ تمام مافوق الاسباب اُمور میں اَلفاظ اگرچہ براہِ راست بندے اور مخلوق کی طرف منسوب ہوں تب بھی فاعلِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو گردانا جائیگا کیونکہ کارسازِ حقیقی وُہی ہے۔ تیسرا اِعتراض اِستغاثہ بالغیر میں سلطۂ غیبیہ کا شائبہ ہے اِستغاثہ بالغیر کو شِرک قرار دینے کی تیسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ دُور سے مدد مانگنا مافوق الاسباب ہے، اور جس غیراﷲ سے مدد مانگی جارہی ہے اِس عمل سے اُس کے لئے سلطۂ غیبیہ۔۔۔ یعنی غیبی قوّت و اِقتدار۔۔۔ کا اِقرار لازِم آتا ہے۔ جب آپ نے اُسے دُور سے پکارا تو گویا آپ کا یہ عقیدہ و نظریہ ہے کہ اُس کے پاس غیبی اقتدارِ اعلیٰ اور تصرّفِ کاملہ حاصل ہے اور اس طرح کا اِعتقاد رکھنا شِرک ہے۔ خودساختہ اِعتقادی فتنے کا ردّ خودساختہ علمی مغالطے اِس مسئلہ کو مزید اُلجھا کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ خیال کرنا سراسر غلط ہے کیونکہ جس چیز کو یہاں سلطۂ غیبیہ کا نام دیا جا رہا ہے دراصل وہ رُوحانی اِستعداد ہے جو اﷲ تعالیٰ اپنے محبوب و مکرّم بندوں کو عطا کرتا ہے۔ اللہ ربّ العزّت کی عطا کردہ اِس رُوحانی قوت و تصرّف کو سلطۂ غیبیہ (مطلق قوّتِ مقتدرہ) کا نام دے کر بہت بڑا اِعتقادی فتنہ پیدا کیا جا رہا ہے۔ سلطۂ غیبیہ کی حقیقت وہ ہرگز نہیں جو عام طور پر ردِّاِستغاثہ کے ضمن میں بیان کی جاتی ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اِس سطح کا سلطہ تو آج ہر عام اِنسان حتی کہ غیرمسلموں کو بھی بخوبی حاصل ہے۔ سلطۂ غیبیہ کے ضمن میں ہم دورِحاضر کی سائنسی ترقی سے اِنٹرنیٹ کی مِثال دینا مناسب خیال کریں گے۔ مادّی ترقی کی اِس سائنسی دُنیا میں جہاں گلوبل وِیلج کا اِنسانی تصوّر حقیقت کا رُوپ دھار رہا ہے، کمپیوٹر کی دُنیا میں فاصلے سمٹ کر رہ گئے ہیں۔ ایک کروڑ کے لگ بھگ کمپیوٹرز کے نیٹ ورک پر مُشتمل اِنٹرنیٹ نے پوری دُنیا کو رائی کے دانے میں سمیٹ لیا ہے۔ آج سائنسی ترقی کا یہ عالم ہے کہ موجودہ دَور کا عام آدمی بھی بند کمرے میں بیٹھ کر اپنی ہتھیلی پر موجود رائی کے دانے کی طرح تمام دُنیا کا مشاہدہ کرنے پر قادِر ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اِنٹرنیٹ اور اُس سے منسلک بے شمار کمپیوٹرز کے بے حِس مشینی آلات سلطۂ غیبیہ کے حامل ہیں؟؟؟ مسئلہ فقط یہ ہے کہ خلطِ مبحث کے عادی اَذہان اِنسانی اِستعداد کے زائیدہ آلات کے اِستعمال سے حاصل ہونے والے نتائج کو تو سلطۂ غیبیہ اور شِرک قرار نہیں دیتے، جبکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ رُوحانی قوت کا اِنکار کرنے کیلئے بے بنیاد طریقے سے اُسے سلطۂ غیبیہ قرار دے کر شِرک ثابت کرنے میں کوشاں نظر آتے ہیں۔ سائنسی ترقی کی بدولت حاصل ہونے والے نتائج کی صورت میں ناممکن اشیاء کا ممکن ہوجانا اور اِنٹرنیٹ کی مدد سے دُنیا کے کسی بھی کونے میں رُونما ہونے والے واقعے سے اُسی لمحے میں پوری دُنیا کا آگاہ ہو سکنا، اگر توحید کے منافی نہیں تو رُوحانی اَسباب کے اِمکان کا اِظہار بھی شِرک کو ہرگز ہرگز دعوت نہیں دیتا۔ کفار و مُشرکین کی اِیجادات کی بدولت حاصل ہونے والا سلطہ اگر مُوجبِ شِرک نہیں تو اﷲ ربّ العزّت کی عطا سے حاصل ہونے والے رُوحانی تصرّفات کی اَنبیائے کرام اور صلحائے عِظام کی طرف نسبت کرنا کیونکر شِرک کہلا سکتا ہے؟ آج کی مادّی ترقی کے تصرّفات اپنی جگہ بجا مگر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کے تصرّفات اُن کی رُوحانی ترقی اور کمالات کی بدولت اِس منزل سے بدرجہا آگے ہیں۔ اسی رُوحانی ترقی کی بدولت سرکارِ غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نَظَرْتُ إلٰی بِلَادِ اﷲِ جَمْعًا کَخَرْدَلَةٍ عَلٰی حُکْمِ التَّصَالِیْ ترجمہ : میں اﷲ کے تمام ملکوں کو ایک ساتھ اِس طرح دیکھتا ہوں جیسے میری ہتھیلی پر رائی کا ایک معمولی دانہ (میری نظر میں ہوتا ہے)۔ ایک وہم کا اِزالہ یہاں کچھ لوگ اِس وہم میں بھی پائے جاتے ہیں کہ جب دُور سے کسی کو کام کہا جائے تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ پُکارے جانے والے کو دُور سے معلوم ہے کہ فلاں پکارنے والا ہے اور وہ پکارنے والے کو جانتا ہے۔ اِس بناء پر اس میں علمِ غیب بھی پایا گیا اور چونکہ علمِ غیب میں اِقتدار اعلیٰ بھی ہے تو اِن دو چیزوں کی وجہ سے یہ شِرک اور ناجائز ہے۔ اِس خلطِ مبحث کا جواب بالکل سادہ ہے کہ جہاں ہم آج کی سائنسی ترقی سے حاصل ہونے والے فوائد میں ایسا علم اِنسانیت کو عطا ہوتا دیکھ رہے ہیں وہاں کلامِ مجید فرقانِ حمید میں بھی یہ دونوں پہلو غیراﷲ کے لئے ثابت ہیں، مگر اِس کے باوجود وہ شِرک سے آلودہ ہونے کی بجائے ربّ کا کلام ہے، یعنی اس میں دُور سے جاننا اور کام کرنے پر قدرت دونوں کا ذکر پایا جاتا ہے۔ سورۂ نمل میں سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں کے ساتھ ہونے والے مکالمے میں اِرشاد فرمایا : يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَO اے سردارو! تم میں سے کون ہے کہ اُس کا تخت میرے سامنے لے آئے قبل اِس کے کہ وہ فرمانبردار ہو کر میرے سامنے حاضر ہوo (النمل، 27 : 38) ملکۂ بلقیس کا تخت سیدنا سلیمان علیہ السلام کے دربار سے 900میل کی مسافت پر پڑا تھا جسے درباریوں میں سے کسی نے دیکھا تک نہ تھا۔ اِس کے باوجود کسی نے آپ علیہ السلام سے یہ نہیں پوچھا کہ اے سلیمان علیک السلام! تخت تو سینکڑوں میل کی مسافت پر پردۂ غیب میں پڑا ہے اور آپ ہیں کہ اُس کی حاضریء دربار کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کیا آپ ہماری نسبت یہ اِعتقاد رکھتے ہیں کہ ہم یہاں بیٹھے دُور کی شے کے بارے میں علم رکھتے ہیں؟ اور ہمیں علمِ غیب حاصل ہے؟ کیا مخلوق کو دُور کا علم ہوسکتا ہے؟اگر سلیمان علیہ السلام یہ عقیدہ رکھتے کہ 900میل کی مسافت پر پڑے ہوئے تخت کے بارے میں اُن کے درباریوں میں سے کسی کو بھی یہ علم نہیں کہ وہ کہاں پڑا ہے، اور اُسے کس طرح اِتنی دُور پہنچ کر لایا جا سکتا ہے؟ تو آپ اُن سے کبھی یہ نہ پوچھتے کہ کون لائے گا؟ بلکہ باری تعالیٰ سے عرض کرتے کہ اے اﷲ! ملکۂ بلقیس کا تخت میرے پاس پہنچا دے کیونکہ تو ہی قادرِ مطلق ہے۔ مختصر یہ کہ ہمیں قرآنِ مجید سے یہ سبق ملتا ہے کہ دُور کی شے کے علم کا پایا جانا شِرک کے ضمن میں نہیں آتا۔ پس اگر سلیمان علیہ السلام یہ خیال کرلیں اور اِس بنیاد پر درباریوں کو تخت حاضر کرنے کا حکم فرما دیں اور اس کے باوجود مُشرک نہ ہوں اور اگر دورِ حاضر کے مسلمان یہ اِعتقاد رکھ لیں کہ داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ عنھم، غوثِ اعظم شیخ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنھم، حضرت سلطان العارفین سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ، اور دیگر اولیائے کاملین اور صلحائے عِظام رضوان اﷲ علیہم اجمعین ہمیں جانتے ہیں اور ہمارے بگڑے حالات سنوارنے پر منجانب اللہ قدرت رکھتے ہیں، تو یہ کیسے شِرک ہوگا؟۔۔۔۔۔۔ جن وُجوہ کی بناء پرسیدنا سلیمان علیہ السلام کے معاملہ میں شِرک ثابت نہ ہو سکا، اسی سبب سے یہاں بھی نہیں ہوگا، کیونکہ اَولیائے کرام کو بھی کشف اُسی ذاتِ حق نے عطا فرمایا ہے جس نے سلیمان علیہ السلام کے درباریوں اور بالخصوص آصف برخیا کو عطا فرمایا تھا۔ قادرِ مطلق جب آج بھی وہی ہستی ہے جو سیدنا سلیمان علیہ السلام کے عہدِ مبارک میں تھی تو آج بھی اَحکام اُسی طرح مرتب ہوں گے۔ دِین میں نئے نئے تصوّرات و اِعتقادات پیدا کرنے کی آخر کیا ضرورت ہے؟ کشفِ فاروقیاﷲ تعالیٰ کی طرف سے اُس کے محبوب و مکرّم بندوں کو عطا ہونے والی رُوحانی قوت و اِستعداد کی بدولت اُن کے لئے نامعلوم اشیاء و مقامات پرپڑے پردے اُٹھ جاتے ہیں۔ یہ اﷲ ربّ العزّت کی خصوصی عطا پر مشتمل رُوحانی فیوضات ہی کا کمال تھا کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبتِ جلیلہ میں تربیت پانے والے صحابۂ کرام مادّی ذرائع اِختیار کئے بغیر ہزاروں میل کی مسافت پر موجود سپہ سالارِ لشکرِ اِسلام کو براہِ راست ہدایات دینے پر قادِر تھے۔ سیدنا ساریہ بن جبل رضی اللہ عنھم کی زیرقیادت اِسلامی لشکر دُشمنانِ اِسلام کے خلاف صف آراء تھا۔ دُشمن نے ایسا پینترا بدلا کہ اِسلامی اَفواج بُری طرح سے اُس کے نِرغے میں آ گئیں۔ عین اُس وقت خلیفۃ المسلمین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنھم مدینہ منوّرہ میں بر سرِ منبر خطبۂ جمعہ اِرشاد فرما رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنھم کی رُوحانی توجہ کی بدولت میدانِ جنگ کا نقشہ آپ کی نظروں کے سامنے تھا۔ دورانِ خطبہ بآوازِ بلند پکارے : يَا سَارِيَ الْجَبَل. اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لے۔ (مشکوٰة المصابيح : 546) (دلائل النبوّه لأبی نعيم : 507) (کنزالعمال، 12 : 35788) یہ اِرشاد فرما کر آپ دوبارہ اُسی طرح خطبہ میں مشغول ہو گئے۔ ہزاروں میل کی دُوری پر واقع مسجدِ نبوی میں خطبۂ جمعہ بھی دے رہے ہیں اور اپنے سپہ سالار کو میدانِ جنگ میں براہِ راست ہدایات بھی جاری فرما رہے ہیں۔ نہ اُن کے پاس ریڈار سسٹم تھا، نہ موبائل فون۔۔۔ کہ جس کے ذرِیعے میدانِ جنگ کے حالات سے فوری آگہی ممکن ہوتی۔ یہ فقط اﷲ ربّ العزّت کی عطا کردہ رُوحانی قوّت و اِستعداد تھی جس کی بدولت اندر کی آنکھ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ حضرت ساریہ بن جبل رضی اللہ عنھم نے سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنھم کا پیغام موصول کیا اور اُس پر عمل درآمد کرتے ہوئے پہاڑ کی اوٹ لے کر فتح پائی۔ دُشمن کا حملہ ناکام رہا اور عساکرِ اِسلام کے جوابی حملے سے فتح نے اُن کے قدم چومے۔ کشف اور علمِ غیب میں فرقیہاں ہم ایک مغالطے کا اِزالہ بھی کرتے چلیں کہ کشف اور علمِ غیب دو جدا چیزیں ہیں۔ علمِ غیب کے برعکس کشف میں فقط کسی نامعلوم چیز سے پردہ اُٹھانے کا مفہوم پایا جاتا ہے اور یہ صرف مخلوق کے لئے ہی ممکن ہے۔ اللہ ربّ العزّت کی ذات گرامی کے لئے کشف نام کی کوئی چیز نہیں کیونکہ وہ عالم الغیب و الشھادۃ ہے۔ چونکہ اُس کے لئے کسی شے سے بھی پردہ ہے ہی نہیں لہٰذا کشف کی صورت میں پردہ اُٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کشف کی نسبت اَولیاء اﷲ کی طرف ہونے سے اﷲ کے نیک اور پارسا اَفراد کے لئے وُہی شے ثابت ہو رہی ہے جو اللہ کے لئے ثابت کرنا بذاتِ خود شِرک ہے، لہٰذا ایسی شے جو اﷲ کے لئے ثابت ہونا ناممکن ہو اُس کی نسبت غیراﷲ کی طرف کر دینے میں اِحتمالِ شِرک کیسا؟؟؟ اولیاء کے لئے غیب کی اَشیاء سے پردہ ہوتا ہے اور اللہ اُن کے حجابات اُٹھا دیتا ہے۔ یہی تو عینِ توحید ہے۔ شِرک کا اِلزام تو صرف اِس صورت میں درست قرار پا سکتا ہے جب اللہ ربّ العزت کی صفات اور شانِ اُلوہیت غیراﷲ کے لئے ثابت کی جاتیں۔ زمین و آسمان اور سماوی کائنات کی تمام تر وُسعتوں میں ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں جو باری تعالیٰ سے پوشیدہ ہو۔ ہر وہ شے جو اُس کے بندوں کے لئے غیب ہے، وہ اُسے بھی بخوبی جانتا ہے اور جو عیاں ہے، وہ بھی اُس کے علم میں ہے۔ اِرشادِ ربّانی ہے : إِنَّ اللّهَ لاَ يَخْفَى عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلاَ فِي السَّمَاءِO یقیناً اللہ پر زمین اور آسمان کی کوئی بھی چیز مخفی نہیںo (آل عمران، 3 : 5) اِس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں اللہ ربّ العزّت کے لئے کشف کا اِعتقاد رکھنا قطعی طور پر اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور علمِ غیب کو محدود و مقیّد کر کے رکھ دینے کے مُترادف ہے، جو یقیناً مدعائے توحید نہیں ہوسکتا، کیونکہ کشف میں ایک نہاں حقیقت کو عیاں کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ سے کچھ بھی نہاں نہیں۔ انبیاء و اولیاء کے لئے پردہ کا اِعتقاد تھا پس اللہ نے انہیں کشف عطا کر دیا اور حجابات کے مرتفع ہونے سے وہ دُور و نزدیک کی اَشیاء کو جاننے لگ گئے۔ (علمِ غیب کے باب میں تفصیلی مطالعہ کے لئے راقم کی کتاب ’’قرآن و سنت اور عقیدۂ علمِ غیب‘‘ ملاحظہ فرمائیں)۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سوال مسؤل کی قدرت پر دلیل ہےقرآنِ مجید میں بیان کئے گئے واقعۂ مذکورہ میں سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے یہ خواہش ظاہر فرمائی تھی کہ ملکۂ بلقیس کا تخت لاؤ اور ساتھ میں شرط لگائی تھی کہ قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِين (اِس سے قبل کہ وہ میرے مطیع ہوکر میرے حضور حاضر ہوں)۔ ملکہ سبا اور اُس کے ساتھ دِیگر بہت سے لوگ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضری کے اِرادے سے چل پڑے ہیں اور مسلمان ہونے کے لئے آ رہے ہیں اور آپ تقاضا کر رہے ہیں کہ اُن کے پہنچنے سے پہلے تخت یہاں موجود ہونا چاہیئے۔ اگر حضرت سلیمان علیہ السلام غیراﷲ کے لئے دُور کی شے کو جاننے اور لا سکنے کی طاقت اور قدرت کا اِعتقاد نہ رکھتے تو وہ ہرگز ایسا سوال نہ کرتے، بلکہ درباری بھی بول پڑتے کہ اَے حضرت سلیمان علیک السلام ! مخلوق کے لئے ایسا کام سراِنجام دینا کیسے ممکن ہے؟ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریں، صرف وُہی اِس ما فوق الفطرت اَمر پر قدرت رکھتا ہے۔ مگر درباریوں میں سے کسی ایک کو بھی ایسے گستاخانہ کلام کی جرات نہ ہوئی بلکہ جواب میں ایک جن اُٹھ کھڑا ہوا اور بولا : أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌO میں اُسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ اپنے مقام سے اُٹھیں اور بے شک میں اُس (کے لانے) پر طاقتور (اور) اَمانتدار ہوںo (النمل، 27 : 39) یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ جو چیز جنوں کے لئے جائز ہو، وہ اللہ کے پیارے اور اُس کی بارگاہ میں جھکنے والے برگزیدہ اِنسانوں کے لئے کیونکر شِرک ہوسکتی ہے؟ شِرک تواُن صفات و اَوصافِ الٰہیہ کی غیر اﷲ کی طرف نسبت سے جنم لیتا ہے جو اللہ ربّ العزّت ہی کے ساتھ خاص ہوں اور اُس کے سوا کسی دُوسرے کو میسر نہ آسکیں۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اُس جن کی پیشکش قبول نہ فرمائی۔ پھر اِنسانوں میں سے ایک ایسا بندہ اُٹھا جس کے پاس کتاب کا علم تھا۔ وہ صاحبانِ علم و رُوحانییّن میں سے تھا۔ اُس نے کھڑے ہوکر حضرت سلیمان علیہ السلام کے حضور یوں عرض کی : أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي. میں اُسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے) پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اُس (تخت) کو اپنے سامنے رکھا ہوا دیکھا تو کہا یہ میرے ربّ کا فضل ہے۔ (النمل، 27 : 40) مذکورہ بالا آیات میں ایک طرف ایسی مخلوق (جن) کا ذکر ہے جس کو اپنی طاقت اور قدرت پر ناز ہے، جس کے بل بوتے پر وہ کوسوں میل دُور پڑے تخت کو مجلس برخاست ہونے سے پہلے لا کر حاضرِ خدمت کرنے کا عزم ظاہر کرتا ہے اور دُوسری طرف ایک اللہ والے (اِنسان) کی شان بیان کی جارہی ہے کہ وہ اس کام کو آنکھ جھپکنے سے پہلے اِنجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسے میں سیدنا سلیمان علیہ السلام پکار اُٹھتے ہیں : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌO تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر اَدا کرتا ہوں یا ناشکری اور جس نے (اللہ کا) شکر اَدا کیا سو وہ اپنی ہی ذات کے فائدہ کیلئے شکر مندی کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو بے شک میرا ربّ بے نیاز کرم فرمانے والا ہےo (النمل، 27 : 40) سلطۂ غیبیہ کے وہم پر مبنی اِس اِعتراض کو بعض دفعہ یوں بھی پیش کیا جاتا ہے کہ بندے سے غیر مقدور العبد شے کا طلب کرنا درست نہیں بلکہ اِستغاثہ کا عدم جواز ثابت کرنے کے لئے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اَنبیاء، صلحاء اور اَولیاء سے غیر مقدورالعبد شے (ایسی چیز جو بندے کی قدرت میں نہ ہو بلکہ صرف اللہ تعالی ہی کے قبضۂ قدرت میں ہو) کا طلب کرنا شِرک ہے۔ اِس کا جواب کسی حد تک تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے۔ دراصل یہ خیال اُسلوبِ اِستغاثہ کو سمجھ نہ سکنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، کیونکہ کوئی بھی مسلمان اِستغاثہ کرتے وقت کبھی یہ عقیدہ اپنے دل میں نہیں رکھتا کہ مُستعان و مُستغاثِ مجازی (یعنی انبیاء و اولیاء) ازخود ہماری مدد کریں گے، بلکہ ہمارے مقصودِ نظر یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری حاجت رَوائی کا سبب اور وسیلہ بنیں، جیسا کہ نابینا صحابی رضی اللہ عنھم کے واقعہ میں اور طلبِ بارش کے اِستغاثہ کے ذکر میں واضح ہو چکا ہے۔ مذکورہ صحابہ رضی اللہ عنھم نے اللہ تعالی کو مختارِ کل اور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات کو وسیلہ مان کر اپنی حاجت براری کے لئے اِلتجاء کی تھی اور اُس کے نتیجے میں موحّدِ اکبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو توحید کے رُموز سے ہم سب سے بڑھ کر آگاہ ہیں، نے اُن صحابہ کو منع کرنے اور کلماتِ شِرک کی اَدائیگی سے روکنے کی بجائے اُن کے حق میں دُعا کی جس کے صلہ میں اللہ تعالی نے اُن کا مسئلہ حل فرما دیا۔ اگر غیر مقدور العبد معاملات کا غیر اللہ سے مدد طلب کرنا شِرک ہوتا تو : اولاً : صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسی گزارش ہی نہ کرتے۔ ثانیاً : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِنہیں شِرک سے آگاہ کرتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اِس قسم کی اِلتجاؤں سے منع فرما دیتے۔ ثالثاً : اللہ تعالی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُن کی مدد سے منع فرماتا اور شِرک میں آلودہ ہونے سے بچاتا۔ صحابہ کا اِستغاثہ، جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل اور اللہ تعالی کا اِس عمل پر منع نہ فرمانا۔۔۔ یہ تینوں چیزیں مل کر یہ ثابت کرتی ہیں کہ اِستغاثہ نہ صرف جائز بلکہ سنتِ صحابہ ہے اور عنداللہ مقبول ہے۔ طلبِ معجزات بھی اِسی ضمن میں آ جاتا ہے۔ جب کفار و مشرکین نے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خرقِ عادت اَفعال بطور معجزہ طلب کئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن اَفعال کو شِرک قرار دینے کی بجائے اپنے دستِ اَقدس سے مطلوبہ معجزات (شقِ قمر وغیرہ) صادِر فرما دیئے۔ اگر یہ غیرمقدورالعبد اَفعال شِرک ہوتے تو نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِن کا صدور کیونکر ممکن تھا؟ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فعل شِرک نہیں (اور ایسا تصوّر بھی دائرۂ اِسلام سے خارج کر دیتا ہے) تو اُمت کا۔۔۔ سنتِ صحابہ پر عملدرآمد کرتے ہوئے۔۔۔ اَیسے اَفعال کو طلب کرنا کیونکر شِرک ہو سکتا ہے؟ مسلمان ہمیشہ اَنبیاء و اَولیاء سے اِستغاثہ کے دَوران یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے حضور سفارش اور دُعا کر کے ہماری حاجت پوری کر دیں، یہی ہمارا عقیدہ ہے اور یہی جمیع اُمتِ مسلمہ کا۔ اگر کوئی بالفرض یوں اِستغاثہ کرتا ہے کہ اَے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے شفا دیجئے اور میرا قرض اَدا فرما دیجئے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شفائے مرض اور اَدائیگیءِ قرض کے سلسلہ میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں سفارش کر دیں۔ اور دُعا اور سفارش پر اﷲتعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کو قُدرت دے رکھی ہے۔ اِس قسم کے اَقوال کے بارے میں یہ نسبتِ فعل بطور مجازِ عقلی کے ہے اور اِس میں کوئی ممانعت نہیں۔ جیسا کہ اللہ ربّ العزّت نے خود قرآنِ مجید میں اِرشاد فرمایا : سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ. پاک ہے وہ ذات جس نے ہر اُس شے کو جوڑا جوڑا تخلیق کیا جو زمین اگاتی ہے۔ (يٰسين، 36 : 36) قرآنِ مجید میں خود باری تعالی نے سبزے کی رُوئیدگی کی نسبت زمین کی طرف کی ہے، حالانکہ سبزہ اگانا زمین کی قُدرت میں نہیں، وہ اِس عمل میں محض وسیلہ اور ذرِیعہ بنتی ہے۔ اِس آیتِ مبارکہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وسیلہ اور ذرِیعہ بننے والی چیز کو فاعل کے طور پر ذِکر کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اِس مقام پر مجازِ عقلی کا قرینہ صحیح مفہوم کے اَخذ کرنے کے لئے موجود ہوتا ہے۔ قرآن و حدیث اِس مفہوم میں جا بجا بھرے پڑے ہیں اور اِس میں کوئی ناجائز بات نہیں۔ مسلمانوں کے اِس مفہوم میں اَدا کئے گئے جملے بالکل اُسی طرح شِرک سے خالی ہیں جیسے اللہ ربّ العزت کا کلامِ مجید اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَحادیثِ مبارکہ۔ چوتھا اِعتراض اللہ کے سِوا کوئی مددگار نہیں قرآنِ مجید کی وہ آیاتِ مبارکہ جن میں غیراللہ سے وِلایت و نصرت کی نفی مذکور ہے، اُنہیں بنیاد بنا کر اِستغاثہ بالغیر کی نفی کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ وِلایت و نصرت کا حقدار صرف اور صرف اللہ ربّ العزّت ہے اور اللہ کا حق کسی اور کے لئے ثابت کرنا شِرک ہے۔ جس طرح کہ قرآن مجید میں اِرشادِ ربّ العالمین ہے : 1. وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍO اور اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ ہی مددگارo (البقره، 2 : 107) 2. وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًاO وہ اللہ کے سوا کسی کو اپنا دوست اور مدد گار نہ پائیں گےo (الاحزاب، 33 : 17) 3. وَ هُوَ الْوَلِیُّ الْحَمِيْدُo اور وہ بڑا کارساز، بڑی تعریفوں کے لائق ہےo (الشوريٰ 42 : 28) 4. مَا لَکَ مِنَ اﷲِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِيْرٍo آپ کے لئے اللہ سے بچانے والا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگارo (البقره، 2 : 120) 5. وَ کَفٰی بِاﷲِ وَلِيًّا وَّ کَفٰي بِاﷲِ نَصِيْراًo اور اللہ (بطور) کارساز کافی ہے اور اللہ (بطور) مددگار کافی ہےo (النساء، 4 : 45) 6. وَ مَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اﷲِ. اور (حقیقت میں تو) اللہ کی بارگاہ سے مدد کے سوا کوئی (اور) مدد نہیں۔ (الانفال، 8 : 10) 7. وَ اجْعَلْ لِّی مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰناً نَّصِيْراًo اور مجھے اپنی جانب سے مددگار غلبہ و قوت عطا فرما دےo (بنی اسرائيل، 17 : 80) 8. وَ کَفٰی بِرَبِّکَ هَادِياً وَّ نَصِيْراًo اور آپ کا ربّ ہدایت کرنے اور مدد فرمانے کے لئے کافی ہےo (الفرقان، 25 : 31) مندرجہ بالا تمام آیات کے معنی مرادی کو حقیقی معنی پر قیاس کرتے ہوئے یہ اِستدلال کیا جاتا ہے کہ اِن آیات میں اﷲتعالیٰ کے لئے ولی، نصیر، سلطان اور ہادی کے اَلفاظ اِستعمال کئے گئے ہیں لہٰذا اِن صفاتِ باری میں کسی اور کو شامل کرنا شِرک ہے۔ بُطلانِ اِستدلالقرآنِ حکیم میں چند اَلفاظ کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کئے جانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُن الفاظ کی نسبت غیراللہ کی طرف کرنا شِرک قرار پا جائے گا۔ اِس ضمن میں درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں جہاں اللہ ربّ العزت کے لئے ولی اور نصیر کے الفاظ آئے ہیں وہاں اس نے اپنے بندوں کے لئے بھی مجازی طور پر یہی الفاظ اِستعمال کئے ہیں۔ ہم یہاں بے جا طوالت سے بچتے ہوئے صرف ولی اور نصیر ہی کے الفاظ پر مشتمل آیات پیش کرتے ہیں، جبکہ اِن کے علاوہ دیگر بہت سی صفاتِ الٰہیہ (مثلاً سمیع و بصیر اور شھید وغیرہ) بھی قرآنِ مجید میں اﷲ اور بندے دونوں کے لئے برابر اِستعمال ہوئی ہیں۔ اِرشادِ باری ہے : إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُه وَ الَّذِيْنَ آمَنُوْا. بے شک تمہارا (مددگار) دوست تو اللہ اور اس کا رسول ہی ہے اور (ساتھ) ایمان والے ہیں۔ (المائده، 5 : 55) 3. وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌO اگر تم دونوں رسول کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کرتی رہیں (باہم وہ طریقہ اختیار کیا جو حضور کو ناگوار ہو) تو (یاد رکھو کہ) اللہ ان کا رفیق (مددگارٌ) ہے اور جبرئیل اور نیک بخت ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے بھی ان کے معاون ہیںo (التحريم، 66 : 4) 4. وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أوْلِيَآءُ بَعْضٍo اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مدد گار ہیںo (التوبه، 9 : 71) ان آیاتِ بینات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ ولی، نصیر اور اِسی قبیل کے دُوسرے الفاظ جو قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے طور پر مذکور ہیں، اللہ کے بندوں کے لئے اِن الفاظ و صفات کا اِستعما ل نہ صرف یہ کہ مجازاًجائز ہے بلکہ اللہ ربّ العزّت کی سنت ہے، اور اللہ تعالیٰ کی سنتِ جلیلہ کو شِرک کا نام دے دینا تعلیماتِ اِسلامیہ سے رُوگردانی کے مُترادف ہے۔ اَحکامِ اِسلام ہرگز اِس چیز کا درس نہیں دیتے۔ پانچواں اِعتراض سوال اور اِستغاثہ صرف اﷲ سے جائز ہےنفی اِستغاثہ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھم سے مروی حدیثِ مبارکہ سے ایک غلط اِستدلال بھی پیش کیا جاتا ہے، جس میں فقط اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے اور اُسی سے مدد طلب کرنے کا حکم ہے۔ حدیثِ مبارکہ کے اَلفاظ یوں ہیں : إذا سألتَ فاسْال اﷲ و إذا اسْتعنتَ فاستعِن باﷲ و اعلم أنَّ الأُمَّةَ لَوِ اجْتمعتْ علٰی أنْ يَّنْفعکَ بِشئ لم ينفعک إلا بشئ قد کتبه اﷲ لک، و لوِ اجتمعوا علی أن يضرّوک بشئ لم يضروک إلّا بشئ قد کتبه اﷲ عليک رُفعتِ الأقلامُ و جُفّتِ الصُّحُفُ. جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر اور جب مدد طلب کرے تو اللہ ہی سے کر اور آگاہ رہ کہ اگر ساری اُمت مل کر تجھے نفع دینا چاہے تو بھی تقدیر اِلٰہی کے خلاف ایسا نہیں کر سکتی (اِسی طرح) ساری اُمت مل کر تجھے نقصان پہنچانا چاہے تو بھی تقدیر اِلٰہی کے خلاف کامیاب نہیں ہو سکتی (کیونکہ کاتبِ تقدیر کے) قلم اُٹھا لئے گئے ہیں اور تحریریں خشک ہو چکی ہیں۔ (جامع الترمذی، اَبواب الزهد، 2 : 74) ذیل میں ہم اِس بات کی وضاحت کریں گے کہ اِس حدیثِ مبارکہ سے یہ اِستنباط کرنا کہ سوال اور اِستغاثہ فقط اللہ ربّ العزّت ہی سے جائز ہے اور غیراللہ سے کیا جانے والا سوال و اِستغاثہ شِرک میں مبتلا کر دینے کا باعِث ہے، سراسر غلط ہے۔ سوال حکمِ باری تعالیٰ ہےاِس اِستدلالِ باطل سے اَسباب کو اِختیار کرنے کی مکمل نفی ہو گئی اور سوال، اِستعانت و اِستغاثہ اور اِستمداد میں وارِد کتاب و سنت کی بہت سی نصوص یک قلم معطل ہو کر رہ گئیں۔ ایسا اِستدلال قرآن و حدیث سے عدم واقفیت، منشائے نزولِ قرآن سے عدم آگہی اور تعلیماتِ اِسلام کے سطحی مطالعہ کی وجہ سے ہی ممکن ہے، جس سے جمیع اُمتِ مسلمہ پر کفر و شِرک کا بہتان لگانا مقصود ہے۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ اِس حدیثِ مبارکہ سے مقصود سوال و اِستغاثہ اور اِستعانت و اِستمدادِ ماسویٰ اللہ سے روکنا نہیں ہے، جیسا کہ بادیء النظر میں معلوم ہو رہا ہے، بلکہ اِس حدیث کا منشاء بندے کی توجہ اَسباب سے ہٹا کر مسبّب کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ بندہ اَسبابِ اِستغاثہ (مستغاثِ مجازی) کے تصوّر میں اُلجھ کر مستعان و مستغاثِ حقیقی کو بھلا نہ بیٹھے۔ سو اِس حدیثِ مبارکہ کا مفہوم دیگر تعلیماتِ اِسلام کی روشنی میں یوں ہو گا کہ ’’اے بندے! جب تو مخلوقاتِ خداوندی میں سے کسی سے سوال اور اِستعانت و اِستغاثہ کرے تو اللہ ربّ العزت کی ذات اور قُدرتِ کاملہ پر کامل بھروسہ اور اِعتماد رکھ اور اُسی کو مستغاثِ حقیقی جان کر سوال کر، کہیں یہ مجازی اَسباب تجھے مسبّب الاسباب سے غافل نہ کر دیں اور تیرے لئے حجاب نہ بن جائیں‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس حدیثِ مبارکہ میں اِسلامی تصورِ اِستعانت و اِستغاثہ کی تحدید نہیں فرمائی بلکہ فرمایا کہ تقدیر اِلٰہی کے خلاف کوئی اِستغاثہ ممکن نہیں۔ اِس میں اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ بن کر کسی کی حاجت روائی کرنے کا اِنکار کہاں ہے؟ اللہ کی مشیت کے خلاف کرنے اور اُس کی موافقت کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے، آخر اِنہیں ایک دوسرے پر کس طرح قیاس کیا جا سکتا ہے؟ حدیثِ مبارکہ کے آخری اَلفاظ رُفعتِ الأقلامُ و جُفّتِ الصُّحُفُ ’’قلم اُٹھا لئے گئے اور تحریریں خشک ہو گئیں‘‘ اِس بات کو واضح کر رہے ہیں کہ اِستغاثہ بالغیر کی ممانعت فقط تقدیر اِلٰہی کے خلاف ہے۔ اِس حدیثِ مبارکہ کا وُرود تقدیر اِلٰہی کی حجت کے اِتمام کے لئے ہوا ہے نہ کہ سوال و اِستغاثہ سے منع کرنے کے لئے، کیونکہ ما سویٰ اﷲ سے سوال کا حکم تو خود اللہ ربّ العزّت نے جا بجا فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو : فَاسْئَلُوْا أهْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo سو تم اہلِ ذِکر سے سوال کر لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہوo (النحل، 16 : 43) مذکورہ آیتِ کریمہ میں مومنین کو اہلِ ذِکر سے سوال کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اِس آیت کریمہ کے علاوہ اِسی مفہوم میں وارِد ہونے والی بے شمار اَحادیثِ نبویہ سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ’’وَ اِذَا سَألْتَ فَاسْئَلِ اﷲَ‘‘ کا مطلب و مفہوم سوال مِن الغیر سے مطلق ممانعت نہیں بلکہ اِس سے مُراد یہ ہے کہ بلاضرورت اُمراء سے طمع کر کے اُن سے طلبِ دولت اور صاحبانِ اِقتدار سے طلبِ جاہ و منصب نہ کی جائے اور اللہ تعالی سے ہی اُس کے فضل و کرم کا سوال کیا جائے۔ اِس حدیثِ مبارکہ سے سوال مِن الغیر کی ممانعت اَخذ کرنا قطعاً درست نہیں۔ ’’وَ اِذَا سَألْتَ فَاسْئَلِ اﷲَ‘‘ میں سوال مِن الغیر یا اِستغاثہ و توسل کے عدمِ جواز پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ جبکہ دیگر بے شمار اَحادیثِ مبارکہ میں مذکور ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہا صحابہ کو خود سوال پر اُبھارا اور پھر اُن کے سوال کا جواب اِرشاد فرمایا۔ (جس کی تفصیل مع اَمثلہ گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے) اگر سوال مِن الغیر کو شِرک قرار دے دیا جائے تو طالبِ علم کا اُستاد سے سوال کرنا، بیمار کا ڈاکٹر سے علاج طلب کرنا، حاجت مند کا صاحبِِ اِستطاعت سے سوال کرنا اور کسی قرض خواہ کا قرض دی گئی رقم واپس طلب کرنا سب شِرک اور ممانعت کے زُمرے میں آ جائیں گے۔ اور بھی کچھ مانگ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک خوش بخت صحابی سیدنا رَبیعہ بن کعب رضی اللہ عنھم ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اَقدس میں موجود تھے۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وُضو کیلئے پانی بھرا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وُضو کروایا۔ اِس خدمت کے صلے میں مالکِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہو کر حضرت ربیعہ رضی اللہ عنھم سے فرمایا : ’’سَلْ‘‘۔۔۔ یعنی مانگ، جو مانگنا چاہتا ہے۔ اِتنی بڑی پیشکش دیکھ کر صحابیءِ رسول نے صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُن کی دائمی قربت کی نعمت مانگ لی، جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرما لیا۔ حضرت ربیعہ رضی اللہ عنھم خود بیان فرماتے ہیں : کنت أبيت مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فأتيه بوضوئه و حاجته، فقال لي : ’’سل‘‘ فقلت : ’’أسألک مرافقتک في الجنة‘‘ قال : ’’أو غيرک‘‘ قلت : ’’هو ذاک‘‘ قال : ’’فأعنّي علي نفسک بکثرة السجود‘‘. میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک شب گزاری (اور آخرِ شب) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وُضو اور رفع حاجت کیلئے پانی لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مانگ (جو چاہتا ہے)‘‘ میں نے عرض کی : ’’میں جنت میں آپ کی (دائمی) قُربت چاہتا ہوں‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اِس کے علاوہ‘‘؟ میں نے عرض کی : ’’یہی کافی ہے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’پھر کثرتِ سجود کے ساتھ میری مدد کرو‘‘۔ (الصحيح لمسلم، کتاب الصلوٰة، 1 : 193) (سنن اَبو داؤد، کتاب الصلوٰة، 1 : 194) اِس حدیثِ مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے صحابی رضی اللہ عنھم کو سوال کرنے کا حکم فرمایا۔ اگر غیر اللہ سے سوال ممنوع ہوتا تو مؤحّدِ اکبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرگز ایسا نہ فرماتے۔ حدیث کے آخری اَلفاظ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے صحابی سے کثرتِ سجود کے ذریعے مدد مانگی جس سے ثابت ہوا کہ غیراللہ سے سوال اور طلبِ عون سنتِ مصطفیٰ ہونے کی بناء پر رَوا ہے اور اس کے خلاف فتویٰ زنی ہرگز کسی مؤحّد کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔ اِس طرح کے مذہبی تصوّرات اِسلام کی عالمگیر تعلیمات سے عدم واقفیت کی بناء پر پیدا ہوتے ہیں۔ اِستغاثہ خود حکمِ باری تعالی ہے اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاجت رَوائی اور مدد طلبی کے لئے اللہ کی محبوب مخلوق اور اُس کے محبوب اَعمال و اَفعال کا اِستغاثہ کرنا حکمِ خداوندی میں شامل ہے۔ اَب ہم اِس کی چند مثالیں قرآن و حدیث سے پیش کرتے ہیں۔ 1۔ کلامِ مجید میں ہے : وَ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوة. اور صبر اور نماز کے ذریعے (اللہ سے) مدد چاہو۔ (البقره، 2 : 45) یہاں صبر اور صلوٰۃ جیسے اَعمالِ صالحہ سے اِستعانت کا حکم باقاعدہ اَمرِ خداوندی ہے جس میں مؤمنین کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ صبر اور صلوٰۃ جیسے اَعمالِ صالحہ کو وسیلہ اور مستعانِ مجازی بنا کر اللہ ربّ العزّت جو مُستعان و مُستغاثِ حقیقی ہے، کی بارگاہ سے مدد طلب کرو۔ 2۔ اِسی طرح ایک اور آیتِ کریمہ ملاحظہ ہو جس میں جہاد کے لئے سامانِ حرب کا اِستغاثہ کرنے اور جہاد کی تیاری کا حکم ہے۔ اِرشاد ربانی ہے : وَ أعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ. اور (اے مسلمانو!) اُن کے (مقابلے) کے لئے تم سے جس قدر ہو سکے (ہتھیاروں اور آلات جنگ کی) قوت مہیا رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑوں کی (کھیپ بھی)۔ (الانفال، 8 : 60) 3۔ علاوہ ازیں قرانِ مجید میں اللہ ربّ العزّت کے محبوب ومکرم بندے حضرت ذوالقرنین علیہ السلام کے بارے میں بھی قرآن گواہ ہے کہ اُنہوں نے دُشمن کے مقابلے میں اپنی قوم سے مدد طلب کی۔ اِرشاد قرآنی ہے : فَأعِيْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍ. تم اپنے زورِ بازو (یعنی محنت و مشقت) سے میری مدد کرو۔ (الکهف، 18 : 95) 4۔ صلوۃ الخوف۔۔۔ جو قرآن و سنت کی نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہے۔۔۔ بھی اِستغاثہ مجازی کی بہترین مثال ہے، کیونکہ اُس کی مشروعیت میں بعض مخلوق کی غیراﷲ سے اِستعانت کی مشروعیت ہے۔ 5۔ حدیثِ مبارکہ میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہا مؤمنین کو ایک دوسرے کی مدد و اِستعانت کا حکم اور ترغیب دی ہے۔ اِرشاد فرمایا : مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَةِ أخِيْهِ کَانَ اﷲُ فِیْ حَاجَتِهِ. جو اپنے بھائی کی تکمیلِ حاجت میں مصروف ہو، اللہ اُس کی حاجت رَوائی خود فرماتا ہے۔ (صحيح البخاری، کتاب المظالم، 1 : 330) (الصحيح لمسلم، کتاب البر و الصله، 2 : 320) 6۔ ایک اور حدیثِ مبارکہ میں یہی مضمون کچھ اِس طرح سے آیا ہے : وَ اﷲُ فِی عَونِ العَبدِ مَا کانَ العبدُ فِی عَونِ أخيهِ. اللہ بندے کی مدد میں مصروف ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے کسی بھائی کی مدد میں مصروف ہو۔ (الصحيح لمسلم، کتاب الذکر، 2 : 345) (جامع الترمذی، اَبواب القرأت، 2 : 118) 7۔ اِمام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مُستدرک میں ایک حدیثِ مبارکہ ذِکر کی ہے جس میں حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابۂ کرام کو ایک دُوسرے کی مدد اور قضائے حاجات کے لئے حکم دیتے ہوئے اِس مبارک عمل کی اہمیّت یوں واضح فرمائی : لأنْ يمشي أحدُکم مع أخيهِ فی قضاءِ حاجةٍ أفضل مِن أن يعتکفَ فی مسجدِي هٰذا شَهرين. تم میں سے کسی کا اپنے بھائی کے ساتھ اُس کی مدد کے لئے جانا میری اِس مسجد میں دو ماہ اِعتکاف کرنے سے بہتر ہے۔ (المستدرک، 4 : 270) (الترغیب والترهيب، 3 : 391) 8۔ اللہ تعالی نے لوگوں کے مصائب و مشکلات کے اِزالے اور حاجات کے پورا کرنے کے لئے بطورِ خاص ایک ایسی مخلوق پیدا کر رکھی ہے جو دُکھی اِنسانیت کی خدمت اور اُن کی مدد و نصرت کے لئے ہمہ دم تیار رہتی ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے : إنّّ ﷲِ خلقاً خلقهم لِحوائجِ الناسِ تفزع الناسُ إليهم فی حوائجِهم أولئکَ الأمِنونَ من عذابِ اﷲِ. اللہ تعالی نے لوگوں کی حاجات و ضروریات کی تکمیل کے لئے ایک مخلوق پیدا کر رکھی ہے تاکہ لوگ اپنی ضروریات (کی تکمیل) کے لئے اُن سے رجوع کریں۔ یہ لوگ عذابِ اِلٰہی سے محفوظ و مامون ہیں۔ (مجمع الزوائد، 8 : 192) (الترغيب و الترهيب، 3 : 390) اِس حدیثِ مبارکہ میں سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ اَلفاظ کہ ’’لوگ اُن سے اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے رُجوع کریں‘‘۔۔۔ خاص طور پر قابلِ غور ہیں۔ لوگوں کا اِستعانت و اِستغاثہ کی نیت سے اُس مخلوقِ خدا کی طرف جانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مستحسن بیان فرمایا ہے، چہ جائیکہ دین کے کامل فہم سے ناآشنائی کے باعث اِسے حرام بلکہ شِرک قرار دیا جائے۔ 9۔ اِسی مفہوم میں وارِد ایک اور حدیثِ مبارکہ کے اَلفاظ کچھ یوں ہیں : إنّ ﷲِ عندَ أقوام نعمّا يقرّها عندهم ما کانوا فی حوائجِ الناس ما لم يملّوا، فإذا ملّوا نقلها إلی غيرهم. اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے پاس اپنی نعمتیں رکھی ہیں، وہ بندے اِنسانوں کی ضروریات پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں، جب تک کہ وہ اکتا نہ جائیں۔ جب وہ اکتا جاتے ہیں تو (یہی ڈیوٹی) دُوسروں کے سپرد کر دی جاتی ہے۔ (المعجم الاوسط، 9 : 161) (الترغيب والترهيب، 3 : 390) مذکورہ بالا آیات و احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ مخلوق سے مدد مانگنا اور اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد طلبی اور اِستغاثہ پر اُن کی مدد کو پہنچنا منشائے ربانی اور منشائے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ جس عمل کا حکم خود اﷲ ربّ العزّت اور اُس کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دِیا ہو اور جمیع اُمتِ مسلمہ نے ہر دَور میں اُس حکم کی تعمیل میں لبیک کہا ہو وہ ہرگز شِرک و بِدعت نہیں ہو سکتا۔ قابلِ توجہ پہلو یہ ہے کہ مذکورہ آیات و احادیث اِستغاثہ کے لئے صرف جواز اور حلت کا نہیں بلکہ اَمرِ ربانی کا درجہ رکھتی ہیں۔ چھٹا اِعتراض سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ کی نفی سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں ایک منافق مسلمانوں کی اِیذا رسانی کرتا اور اُن کے لئے طرح طرح کی تکالیف کھڑی کرنے میں کوشاں رہتا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنھم نے صحابہ سے فرمایا کہ آؤ ہم مل کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اِس منافق کے خلاف اِستغاثہ کریں۔ جب یہ بات سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا : إنّه لا يُستغاثُ بی و إنّما يُستغاثُ باﷲِ. مجھ سے اِستغاثہ نہیں کیا جاتا اور صرف اللہ سے ہی اِستغاثہ کیا جاتا ہے۔ (مجمع الزوائد، 10 : 159) اِس حدیثِ مبارکہ کا مفہوم سمجھنے اور اِس کی شانِ وُرود تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماسواء اللہ سے اِستغاثہ کو قطعی طور پر ممنوع قرار دے دیا ہے، پس اَب اگر کوئی غیراللہ سے مدد مانگے گا تو مُشرک قرار پائے گا۔ حدیثِ مبارکہ کا صحیح مفہوم اِس ایک حدیثِ مبارکہ کو اِس کے حقیقی مفہوم میں رکھ کر بے شمار آیات و اَحادیث اور عملِ صحابہ کے خلاف کیا گیا ہے۔ وہ آیات و اَحادیث جن میں صریح اَلفاظ میں اِستغاثہ مِن دُون اللہ کا حکم پایا جاتا ہے (جن میں سے چند ایک کا تفصیلی ذکر ہم اُوپر کر آئے ہیں) اِس حدیث کے حقیقی مفہوم پر عمل کرنے کی صورت میں اِن تمام آیات و اَحادیث کو سِرے سے بالائے طاق رکھنا پڑ رہا ہے۔ شریعتِ اِسلامیہ کا مسلّمہ اُصول ہے کہ جب کوئی حدیث قرآن مجید یا دیگر اَحادیثِ متواترہ کے خلاف اَحکام ظاہر کرے تو اُن کے مابین تطبیق پیدا کرنے کی کوشش جاتی ہے اور اگر حقیقی معنی کے ساتھ تطبیق ممکن نہ ہو تو تاویلاً اُس مختلف فیہ حدیث کو مجازی معنی پر محمول کر کے صریح آیات و اَحادیثِ مبارکہ کے ساتھ اُس کا تعارُض ختم کیا جاتا ہے۔ یہی صورت کچھ یہاں بھی ہو گی۔ یہاں اِس حدیث سے مُراد اصل اِعتقاد میں توحید کی حقیقت کو ثابت کرنا ہے اور وہ یہ کہ مُغیث و مُستعانِ حقیقی فقط اللہ ربّ العزّت کی ذات ہے اور بندۂ بشر اِستغاثہ کے معاملہ میں صرف ایک وسیلہ اور واسطہ ہے۔ یہ حدیثِ مبارکہ صرف زِندہ کے ساتھ اِستعانت و اِستغاثہ کے خاص ہونے پر بھی دلالت نہیں کرتی جیسا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے، بلکہ اِس حدیث کا ظاہر تو زِندہ و مُردہ کی تفریق سے ماوراء غیراللہ سے ہمیشہ اِستغاثہ کو منع کرتا ہے، جس کی تاوِیل اور ضرورتِ تاوِیل ہم اُوپر ذکر کر آئے ہیں۔ اِمام اِبنِ تیمیہ نے بھی اپنے فتاویٰ میں یہی بات ذکر کی ہے اور واضح کیا ہے کہ بعض اَوقات اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام سے کچھ لوگ غیرمُرادی معانی اَخذ کرنے لگ جاتے ہیں جبکہ دُوسرے مقامات اُن کے اِس اخذِ مسئلہ کا رَدّ کر رہے ہوتے ہیں۔ منافق کی اِیذاء رَسانی اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنھم کا اُس کے خلاف حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اِستغاثہ بھی اِسی قبِیل سے ہے۔ اگر اِس حدیثِ مبارکہ کی یہ تاوِیل و تشریح نہ کر دی جائے تو اِس حدیث کا دیگر آیات و اَحادیث اور عملِ صحابہ سے براہِ راست تعارض لازم آئے گا۔ کتبِ حدیث میں جا بجا درج ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دُعا کراتے، آپ کے وسیلۂ جلیلہ سے اِستسقاء کرتے اور وہ اِستغاثہ بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تمام اُمت سے بڑھ کر تھے۔ صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم کا قول مذکور ہے کہ بسا اَوقات میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رُخِ انور کی زیارت کے دَوران حضرت ابوطالب کا یہ شعر یاد کرتا جس میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارِش طلب کر رہے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مِنبر سے نیچے اُترنے سے پہلے بارِش کا پانی پرنالوں سے بہہ نکلتا، وہ شعر یہ ہے : وَ أبيض يُستسقی الغمامُ بوجهه ثمال اليتامٰی عِصمة للأراملِ ترجمہ : اور وہ حسیں جس کے رُخِ تاباں کے طفیل بارِش طلب کی جاتی ہے، جو یتیموں کا والی اور بیواؤں کا سہارا ہے۔ (صحيح البخاری، کتاب الاستسقاء، 1 : 137) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم کا اِس محبت بھرے شعر کو گنگنانا ظاہر کرتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کس قدر وارفتگی کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلقِ عشق و محبت رکھتے تھے اور جب کبھی اُن پر کوئی مُشکل و مصیبت آن پڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اِستغاثہ و اِستعانت اور اِستمداد کے لئے کھنچے کھنچے چلے آتے تھے۔ جب عملِ صحابہ سے اِس حدیثِ مختلف فیہ کی وضاحت میسر آ رہی ہے اور وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے عین موافق بھی ہے تو پھر اِن نادان دوستوں کی تشریحات اور فتویٰ ہائے کفر و شِرک کو کس طرح غایتِ توحید سمجھا جا سکتا ہے! توحید کا قرآنی تصور ہرگز اِس بات کی اِجازت نہیں دیتا کہ فقط ایک مختلف فیہ حدیث پر عمل کرتے ہوئے اور باقی تمام تعلیماتِ اِسلام سے اِغماض برتتے ہوئے جمیع اُمت مسلمہ پر کفر و شِرک کا بہتان باندھا جائے ۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولیاء و صلحاء کی تعظیم و تکریم اور اُن سے اِستغاثہ کے دوران عامۃ المسلمین کبھی کبھار بعض ایسے اَلفاظ کا اِستعمال کر جاتے ہیں کہ اگر اُن اَلفاظ کو اُن کے حقیقی معنی موضوع لہ کے مطابق سمجھا جائے تو بات کفر و شِرک تک جاپہنچتی ہے۔ لیکن چونکہ اُن کے دِلوں میں اپنے ادا کردہ الفاظ کے حقیقی مفہوم کی بجائے مجازی معنی مُراد ہوتا ہے اور مجازِ متعارف پائے جانے کے سبب ایسے موقع پر معاشرے میں عام طور پر مجازی معنی ہی مُراد لیا جاتا ہے لہٰذا ایسے افراد شِرک کی آلائش میں نہیں گردانے جائیں گے۔ مثلاً : يَا أکرمَ الخلقِ مَا لِی مَن ألُوذُ به سِواک عندَ حُلول الحادثِ العمم ترجمہ : اَے تمام مخلوق سے بزرگ و برتر (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )! آپ کے علاوہ میرا کوئی (مددگار) نہیں جس کی میں آفات کی کثرت کے وقت پناہ طلب کروں۔ لِي خمسةٌ نُاطْفی بِها حرَّ الوباءِ الحاطمةِ اَلمصطفیٰ وَ الْمُرتضٰی وَ ابْنَاهُمَا وَ الْفَاطِمة ترجمہ : میرے لئے پانچ (اَحباب ایسے) ہیں کہ جن کی مدد سے میں تباہ کن وباء کی حدّت کو بُجھاتا ہوں (اَور وہ یہ ہیں : ) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، علی مرتضیٰ رضی اللہ عنھم، اِن کے دونوں صاحبزادے (حسن رضی اللہ عنھم و حسین رضی اللہ عنھم ) اور سیدہ فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنھمء۔ یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اَب تک بنی ہوئی ہے مجھے نظرِ کرم کی بھیک ملے مِرا کوئی نہیں ہے تیرے سِوا سب کا کوئی نہ کوئی دُنیا میں آسرا ہے میرا بجز تمہارے کوئی نہیں سہارا خدا دے پکڑے چُھڑاوے مُحمد مُحمد دے پکڑے چُھڑا کوئی نئِیں سکدا دنیا دے اندر ہوراں دے ہووَن گے ہور سہارے وِی میرا تے آقا باج تِرے کوئی وِی سہارا ہور نئِیں اِسی طرح بعض اَوقات اُمتِ مسلمہ کے کچھ اَفراد سرورِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارتے ہوئے لَيسَ لنَا مَلجأٌ سِواکَ يَا رسولَ اﷲِ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کے سِوا ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں‘‘ وغیرہ جیسے اَلفاظ بھی کہہ دیتے ہیں۔ بادیء النظر میں اگر ایسے اَشعار و اَلفاظ کا اِطلاق حقیقی معنی پر کیا جائے تو ایسے قول کا قائل کافر و مُشرک قرار پاتا دکھائی دیتا ہے، مگر دَرحقیقت کسی بھی مسلمان کے ذِہن میں اِن الفاظ کے اِستعمال کے وقت حقیقی معنی مُراد نہیں ہوتا۔ ہر وہ شخص جو یہ اَلفاظ پکارتا ہے وہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ کے سِوا فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی بارگاہ میرے لئے جائے پناہ ہے اور خدا کے دَر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا سہارا مجھ عاصی و خطاکار کی بخشش کا ذرِیعہ و وسیلہ ہے۔ اِن اَلفاظ سے مُراد یہ ہوتی ہے کہ مخلوقِ خدا میں آپ کے سِوا میرا کوئی نہیں ہے اور آپ کے علاوہ دیگر اِنسانوں سے مجھے قطعاً کوئی اُمید نہیں ہے۔ اگرچہ ہم عام طور پر توسّل و اِستغاثہ کے دوران اِس طرح کے ذُومعنی اَلفاظ کا اِستعمال کرتے ہیں اور نہ دُوسروں کو ایسے اَلفاظ کے اِستعمال کی تلقین کرتے ہیں، تاکہ شِرک کا وہم و گمان بھی جنم نہ لے اور ایسے اَلفاظ سے اِجتناب بھی ہو جائے، لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اِس قسم کے اَلفاظ کا مجازی اِستعمال کرنے والے پر کفر و شِرک کا فتویٰ جڑ دینے میں جلدبازی سے کام لینا بھی دانشمندی کی بات نہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِن مسلمانوں کے مؤحّد ہونے کے بارے میں حُسنِ ظن رکھا جائے اور معنیء مجازی کو مدّنظر رکھتے ہوئے فتویٰ ہائے کفر و شِرک سے کلیتاً اِجتناب کیا جائے۔ کیونکہ یہ مؤحّدین اللہ تعالی کی توحید کے اُسی طرح قائل ہیں جیسے اِسلامی اَحکام کا تقاضا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رِسالت کی بھی گواہی دیتے ہیں۔ نماز پڑھتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ جب وہ اِسلام کے جمیع اَحکام پر عمل پیرا ہیں تو چند اَلفاظ کے مجازی اِستعمال کے جُرم کی پاداش میں اُنہیں حلقۂ اِسلام سے نکال باہر پھینکنا کہاں کی ہوشمندی ہے؟ سیدنا اَنس بن مالک رضی اللہ عنھم سے مروِی ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا : مَنْ صلّي صلوٰتنا وَ اسْتقبلَ قبلتَنا و أکل ذبيحتَنا فذٰلک المُسلم الذي له ذمة اﷲِ و ذمة رسولِه فلا تخفروا اﷲ فی ذمتِه. جو ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلے کو قبلہ بنائے اور ہمارا ذبیحہ کھائے پس وہ ایسا مسلمان ہے جس کے لئے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذِمہ ثابت ہے، پس تم اللہ کی ذمہ داری کو مت توڑو۔ (صحيح البخاري، کتاب الصلوٰة، 1 : 56) صحیح بخاری کی اِس حدیثِ مبارکہ کے بعد عامۃ المسلمین کو مجازِ عقلی کے جائز اِستعمال پر مُشرک قرار دینے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ مجازِعقلی کا اِستعمال قرآن و حدیث اور عملِ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں جا بجا موجود ہے اَور اِس سے اِنکار ممکن نہیں۔ ایک مؤمن سے ایسے اَلفاظ کا صدور مجازِ عقلی پر محمول کر لینے میں کوئی عذر مانع نہیں۔ صحیح اِسلامی عقیدے کے مطابق جو شخص یہ اِعتقاد رکھے کہ اللہ تعالی ہی بندوں کا خالق و مالک ہے اور اُسی نے اُنہیں مختلف اَعمال و اَفعال کی اِنجام دہی کی طاقت سے نوازا ہے، اﷲ ربّ العزّت کے اِختیار میں کسی زِندہ و مُردہ کی خواہش کو کوئی دخل حاصل نہیں اِلاّ یہ کہ خدا خود اپنی مرضی سے اُس کی خواہش و سفارش کو قبول کرے۔۔۔ ایسا عقیدہ رکھنے والا شخص ہی حقیقت میں مؤمن و مسلمان ہے۔۔۔ یہی عین توحید ہے اور یہی عین اِسلام، جیسا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بھی سیدہ مریم علیہ السلام سے مکالمہ کے دوران اللہ تعالی کے فعل کی نسبت اپنی طرف کر کے مجازِعقلی کا صدور فرمایا تھا۔ قرآنِ مجید میں جبرئیل علیہ السلام کے اَلفاظ یوں وارِد ہوئے ہیں : لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِيًّاo تاکہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروںo (مريم، 19 : 19) جب اللہ تعالی کی نورانی مخلوق کا سردار ایسے مجازی اَلفاظ کی نسبت اپنی طرف کر سکتا ہے اور اللہ ربّ العزّت خود ان الفاظ کو اپنے کلامِ مجید میں دُہرا سکتا ہے تو ایک بندۂ بشر اگر ایسے ہی اَلفاظ کی نسبت تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کر دے تو اِس میں کون سی قباحت ہے؟ ضرورت اِس امر کی ہے کہ قرآنِ مجید کی حقیقی رُوح تک رسائی اِختیار کی جائے تاکہ مسلمان ایک دُوسرے کی تکفیر کا وطیرہ ترک کر دیں، اِسی میں اِسلام کا فائدہ ہے اور اِسی میں ہم سب کے اِیمان کی بھلائی ہے۔ حرفِ آخر یہاں ہم جملہ بحث کو سمیٹتے ہوئے اِبتداء میں تحریر کردہ ایک اہم بات کو اُسلوبِ نو کے ساتھ ایک بار پھر بیان کرنا چاہیں گے کہ فی زمانہ بعض لوگوں نے آیاتِ قرآنیہ کے ضمن میں حقیقت و مجاز کے درمیان فرق اور اِعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے۔ اُن کا عقیدہ و نظریہ اَلفاظِ قران کے فقط حقیقی معانی سے اِستدلال لینے کا ہے۔ چنانچہ وہ مجازی معنی کا جواز تک محل نظر سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ احادیثِ نبوی اور اَسلاف ائمہ کی قرآنی تعبیرات و تفسیرات سے رُوگرداں ہو کر تفسیر بالرائے کے مُرتکب ہو رہے ہیں اور عقائدِ اِسلام کے باب میں بدعات پیدا کرنے اور اَلفاظِ قرآنی کے معنی مُرادی سے ہٹ کر عقائد کی تشریحات وضع کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ اِعتدال سے ہٹنے والا دُوسرا گروہ ضد میں آ کر مجاز کے اِستعمال میں کچھ اِس طرح سے زیادتی کا قائل ہوتا چلا گیا ہے کہ اِعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھا ہے جبکہ اِعتدال ہر حال میں ضروری ہے۔ حقیقت و مجاز کے اِستعمال میں قرآنی اِعتدال کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو اِن دونوں اِنتہاؤں میں حائل خلیج کو پاٹ کر اُمت کو پھر سے جسدِ واحد بنایا جا سکتا ہے۔ یہی وطیرہ دینِ حق کی حفاظت اور مقامِ توحید کی حقیقی تعبیر و توجیہہ کے لئے ضروری و کارآمد ہے۔
  13. سم اللہ الرحمٰن الرحیم اب ہم مسلم علماء کے ایک مکتب فکر اہلسنت کا ذکر کرتے ہیں ، اس مکتب فکر کے عظیم ترین عالم دین مولانا احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ تھے ، ان کے نظریات کا مختصر ذکر پہلے ہوچکا کہ وہ ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے قائل بالکل نہ تھے۔ 14 جون 1856 ء کو بریلی میں پیدا ہوئے وہ ایک ممتاز فقیہہ اور معاملہ فہم تھے ، ان کے فتوؤں کا آج بھی احترام کیا جاتا ہے . علامہ سر محمد اقبال نے ان کے بارے میں کہا تھا "مولانا کے فتوے ان کے فہم و ادراک ، علمی مرتبے اور ان کی تخلیقی فکر کی گہرائی و گیرائی ان کی مجتہدانہ بصیرت اور علم دین پر گہری دسترس کے شاہد عادل ہیں اگر اُن کے مزاج میں شدّت نہ ہوتی تو وہ اپنے دور کے امام ابو حنیفہ ہوتے“ ۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جس انتہا پسندی کا حوالہ دیا وہ مولانا احمد رضا خاں کے اس رویّے کے بارے میں ہے جو انہوں نے دیوبندی مکتب فکر کے بعض رہنماؤں کے بارے میں اختیار کیا اور جس کی بنیاد پر وہ انہیں دائرہ اسلام سے خارج خیال کرتے تھے جب بعض مواقع پر دیوبندی مکتبہ فکر کے بعض ممتاز علماء نے اللہ تعالٰی کے متلعق بعض نازک سوالات اٹھائے تو ان بیانات کی نوعیت انتہائی متنازعہ تھی چنانچہ ان بیانات کو جس اشتعال انگیز انداز میں پیش کیا گیا اس پورے معاملے کو مابعد اطبیعاتی عذر خواہی کے طور پر پیش کرنا بہتر ہے ، ایک فریق کی جانب سے خدا کی حقانیت ، وحدانیت اور علم کے بارے میں بعض نظریات سامنے لائے جارہے تھے ، جبکہ دوسری جانب سے ان خیالات و نظریات کو اسلام کے منافی گردانا گیا ، لیکن بد نصیبی سے ان تمام اختلافات کو ان لوگوں کےسامنے بھی پیش کیا گیا جو انھیں سمجھ نہیں سکتے تھے ، تاہم اس سے مولانا کی علمی حیثیت متاثر نہیں ہوتی ۔ ان کی لکھی ہوئی کتابوں اور کتابچوں‌کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے انہوں نے اپنے پیروکاروں پر اتنا گہرا اثر ڈالا کہ برّصغیر کا ان کا کوئی اور ہم عصر ماہر الہیات اپنے پیروکاروں پر مرتب نہیں کرسکا ، تحریکِ خلافت کے آغازمیں عدم تعاون کے فتوٰی پر دستخط لینے کے لیے علمی برادران اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے جواب دیا :: مولانا ! آپ کی اور میری سیاست میں فرق ہے ، آپ ہندو مسلم اتحاد کے حامی ہیں اور میں مخالف ، جب مولانا نے یہ دیکھا کہ علمی برادران رنجیدہ ہوگئے تو انہوں نے کہا مولانا ! میں (مسلمانوں کی ) سیاسی آزادی کا مخالف نہیں ۔ میں تو ہندو مسلم اتحاد کا مخالف ہوں ۔ اس مخالفت کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس اتحاد کے بڑے حامی افراط و تفریط میں اس قدر بہہ گئے تھے کہ ایک عالم اس کی حمایت نہیں کرسکتا تھا ، مولانا احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی بعض تحریروں اور افعال پر اعتراض کیا ، جنہوں نے خود ان الفاظ میں اس کا حسین اعتراف کیا ۔ مجھ سے بہت سے گناہ سرزد ہوئے ہیں ، کچھ دانستہ اور کچھ نا دانستہ ، مجھےان پر ندامت ہے ، زبانی ، تحریری اور عملی طور پرمجھ سے ایسے امور سرزد ہوئے جنہیں میں نے گناہ تصور نہیں کیا تھا ، لیکن مولانا احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ انھیں اسلام سے انحراف یا گمراہی یا قابل مواخذہ خیال کرتے ہیں ، اُن سب سے میں رجوع کرتا ہوں جن کے لئے پیش روؤں کا کوئی فیصلہ یا نظیر موجود نہیں ، ان کے بارے میں میں مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلوں اور فکر پر کامل اعتماد کا اظہار کرتا ہوں ۔ اپنا یہ بیان مولانا عبد الباری فرنگی محلی نے شائع کردیا ، مسلمانوں کو ہندو قیادت کیپیروی سے باز رکھنےکے لیے جدوجہدجاری رہی، مولانا سید سلیمان اشرف بہاری مارچ 1921 ء میں بریلی میں جمعیت علماء ہند کے زیر اہتمام ایک کانفرس میں شریک تھے ،کانفرنس میں انہوں نے ہندؤں کی جانب مولانا ابوالکام آزاد کے میلان کو ہدف تنقید بنایا اور انہوں نے ثابت کیا کہ ہندؤں کے ساتھ “ موالات “ بھی ایسے ہی حرام ہے جیسے انگریزوں کے ساتھ اسی طرح مولانا محمد علی جوہر نے بھی اپنی وفات سے تین ماہ قبل مولانا نعیم الدین مراد آبادی کے سامنے اپنی ہندو نواز سرگرمیوں سے توبہ کی۔ چند ماہ بعد مولانا شوکت علی نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ بریلوی مکتب فکر سے متعلق علماء مسلمانوں کے لئے کانگریس کی قیادت کے خلاف تھے۔ کیونکہ انہیں یہ یقین تھا کہ اس سے مسلمان بتدریج اپنے مذہبی تشخص سے محروم ہو جائیں گے اور وہ ہندوؤں کے عقائد اور روایات قبول کر لیں گے۔ جب ہندوؤں نے شدھی کی تحریک کا آغاز کیا تو ان علماء نے اس کے مقابلے میں جماعت رضائے مصطفٰے کی بنیاد ڈالی جس کے تحت سینکڑوں بریلوی علماء نے ملکانہ راجپوتوں میں قابل قدر کام کیا اور کامیاب ہوئے۔ بریلوی مکتب فکر کی قیادت (بعد ازاں) مولانا نعیم الدین مراد آبادی کے ہاتھوں میں آگئی۔ جمیعت علمائے ہند کے علماء کے برعکس وہ 39۔1938ء میں ہی اس بات پر یقین کر چکے تھے کہ انگریز زیادہ عرصے تک برصغیر پر اپنا اقتدار قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ ان کے لیے یہ سوال شدت اختیار کرتا جا رہاتھا کہ اس کے بعد ملک کا اقتدار کون سنبھالے گا؟ چنانچہ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلم اکثریت کے صوبوں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک الگ ریاست تشکیل دینی چاہیے۔ اس لیئے جونہی قرار داد پاکستان منظور ہوئی اس مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء جنہوں نے اس سے قبل بھی کانگریس کے مقابلہ میں مسلم لیگ کی مدد کی تھی، قیام پاکستان کئ لئے جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنی جماعت کے کام کو وسیع تر کر دیا۔ اور ان کی ہر شاخ پاکستان کے قیام کی ضرورت کی تبلیغ میں مصروف ہو گئی۔ مولانا نعیم الدین مراد آبادی نے بذات خود شمالی برصغیر کا دورہ کیا اور اس کے متعدد چھوٹے اور بڑے شہروں اور قصبات میں تقریریں کیں۔ تنظیم کا نیا دستور تیار کیا گیا اور اسے نیا نام دیا گیا۔ آل انڈیا سنی کانفرنس سے اس کا نام “ جمہوریۃ الاسلامیہ“ رکھ دیا گیا۔اس کے ارکان پاکستان پر استقدر اعتقاد رکھتے تھے کہ مولانا نعیم الدّین مراد آبادی نے “ جمہوریۃ الاسلامیہ “ پنجاب کے آرگنائزر مولانا ابوالحسنات کو ایک خط میں لکھا۔ “ جمہوریۃ الا سلامیہ “ کو کسی بھی صورت حال میں پاکستان کے مطالبہ سے دستبردار ہونا قبول نہیں۔ خواہ جناح خود اس کے حامی رہیں یا نہ رہیں۔کینبٹ مشن تجاویز سے ہمارا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ “ بنارس میں 27 تا 30 اپریل 1976ء ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں پانچ ہزار علماء نے شرکت کی اور حاضرین و مند و بین کے سامنے پاکستان کی ضرورت و اہمیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی۔ جب یہ علماء اپنے اپنے علاقوں میں واپس گئے تو قیام پاکستان کی تحریک کو وسیع پیمانے پر پزیرائی حاصل ہوئی۔ مولانا نعیم الدین مراد آبادی نے اپنے مکتب فکر کے علماء کے کردار ان الفاظ میں ذکر کیا۔ ہم نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر آنا علماء کے لئے پسند نہیں کیا لیکن ھم نے مسلم لیگ کے مخالفین کابڑی شدت سے مقابلہ کیا اور اس کا مقصد مسلم لیگ کو ممنون کرنا ہرگز نہیں تھا کیونکہ ہم نے اپنا کردار ہمیشہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ادا کیا ہے۔ہم نے کسی وقت بھی غیر مسلموں پر اعتقاد نہیں کیا۔اور اب جبکہ مسلم لیگ نے اسلامی آڑدیننس کے نفاذ کی جانب قدم اٹھایا ہے تو ہم اسلام کی عظمت اور غلبہ کے لئے مسلم لیگ کے مخالفین کی مخالفت کر رہے ہیں۔ بعض دیگر علماء نے بھی اس ضمن میں خصوصی کردار ادا کیا۔ان میں سے ایک مولانا آزاد سبحانی تھے جنھوں نے ہمیشہ قیام پاکستان کی حمایت کی۔مولانا ابوالکلام آزاد کلکتہ میں نماز عید کے بڑے اجتماع کی امامت کیا کرتے تھے لیکن مقامی مسلمانوں نے ان کی کانگریس نواز سرگرمیوں سے بیزار ھو کر انہیں امامت سے برطرف کر دیا اور ان کی نظر انتخاب مولانا آزاد سبحانی پر پڑی جنکی تعلیمات اور خدمات جانی پہچانی تھیں۔وہ اسقدر بے لوث تھےکہ ان کے حالات زندگی کے بارے میں بہت کم مواد دستیاب ہے۔ تاہم وہ لوگ ان کی خدمات سے بخوبی واقف ہیں جو گزشتہ نصف صدی کی تحاریک کے عینی شاہد ہیں کہ انہوں نے مچھلی بازار کانپور کی مسجد کے انہدام کے خلاف مظاہرے میں قائدانہ کردار ادا کیاتھا۔وہ خلافت اور عدم تعاون کی تحریکوں میں بھی مستعد رہے ۔ وہ مسلم لیگ کے اس قیام کے وقت سے ہی بڑے پر جوش معاون تھے ۔وہ ایک زبردست عوامی مقرر تھے۔ ان کے خیالات منطقی اور متوازن ہوتے تھے۔ان کی زبان شستہ اور پاکیزہ ہوتی اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس برصغیر میں اردو کے سب سے بڑے عوامی مقرر تھے۔مولانا عبد الحامد بدایونی نے عوامی معاملات میں اپنی جوانی کے زمانے میں پی دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔ وہ تحریک خلافت کے ایک جوشیلے کارکن تھے۔اور انہوں نے اس وقت سے مسلم لیگ کا ساتھ دینا شروع کیا جب اس کا کانگریس سے جھگڑا شروع ہوا۔وہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان منتقل ہو گئے۔وہ جمیعت علمائے پاکستان کے بانیان میں سے تھے۔
  14. بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تصور علم ایک اہم فلسفیانہ تصور ہے جو کسی بھی صاحب فکر کے تصورات کے فہم کے لئے ضروری ہے ، مولانا احمد رضا خاں بریلوی علم کی ضرورت و اہمیت سے واقف تھے ، ان کی اپنی زندگی بچپن سے بڑھاپے تک حصول علم اور اشاعت علم کا نمونہ تھی ۔ علم کی تعریف : مولانا احمد رضا خاں بریلوی علم کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں : علم وہ نور ہے جو شے اس کے دائرہ میں آگئی منکشف ہوگئی اور جس سے متلعق ہوگیا اس کی صورت ہمارے ذہن میں مرتسم ہوگئی ۔ حقیقی اور اصلی علم : جو علم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی صورت میں عطا کیا گیا وہی حقیقی اور اصلی علم ہے فرماتے ہیں : علم وہ ہے جو مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ ہے ۔ ایک جگہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نقل فرماتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں علم تین ہیں‌قرآن یا حدیث یا وہ چیز جو رہِ وجوب عمل میں ان کی ہمسر ہے اس کے سوا جو کچھ ہے سب فضول ہے امام غزالی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ : علم حقیقی وہی ہے جو ماسوی اللہ سے تعلق قطع کرکے اللہ سے رشتہ جوڑ‌دے اور خلوص‌نیت ہی سے حاصل ہوسکتا ہے ، غیر مخلص کا علم ، علم حقیقی نہیں ۔ ذرائع علم : مولانا احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مندرجہ ذیل ذرائع علم ہیں :: وحی :: مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وحی الٰہی سب سے اہم ، حتمی اور مستند ذریعہ تعلیم ہے ، اس ذریعہ میں‌کسی غلطی اور کذب کی گنجائش نہیں ہے ، انبیاءکرام کے ذریعے سے انسان کوعلم توحید دیاگیا ہے ۔ ۔الہام :: وحی کے بعد الہام بھی ایک اہم ذریعہ علم ہے ، وحی صرف انبیاء کوہوتی ہے ، مگر الہام غیر انبیاء کو بھی ہوتا ہے اور اس کے لئے صاحب ایمان اور صاحب تقوٰی ہونا ضروری ہے انسان کے دل میں‌کسی چیز یا کام کے بارے میں تنبیہ یا اشارہ کردیا جاتا ہے۔ ۔کشف :: مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کشف بھی ایک اہم ذریعہ علم ہے ، کسی آدمی پر کسی چیز کے بارے میں‌کوئی خیال اچانک بجلی کی چمک کی طرح انسان کے ذہن میں آجاتا ہے ، حقیقت حال آدمی پر ظاہر کردی جاتی ہے ۔ عقل :: مولانا احمد رضا خاں‌کے نزدیک عقل کا درجہ وحی سے کم ہے ، ہر عقلی استدلال اور معاملات کو قرآن و حدیث کے مطابق ہی پرکھا جاتا ہے ، دنیا کی ترقی و خوشحالی ، عالیشان عمارت اور دیگر ریل پیل عقلی کرشمہ سازوں‌کی مرہون منت ہے ، عقل کے ذریعے ہی کسی اچھائی برائی کو پرکھا جاسکتا ہے ۔ ۔حواس خمسہ :: ذرائع علم میں عقل کے بعد حواس خمسہ کا درجہ ہے ، یہ تقریبا ہر انسان کو حاصل ہیں ، آنکھ ، کان ، ناک ، زبان چھونے کے اعضاء حصول علم کے آلات ہیں ، حواس کے ذریعے ہی کسی اچھائی برائی کو پرکھا جاسکتا ہے ۔ سند :: مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سند بھی علم کے حصول کا ایک ذریعہ ہے ، آپ کے نزدیک کتب بینی اور افواہ رجال سے بھی علم حاصل ہوتا ہے ، ضرب الامثال اور اقوال زریں سند میں بہت اہمیت رکھتے ہیں ، افواہ رجال اور کتب بینی سے جو علم حاصل ہوتا ہے یہ وہ باتیں ہوتی ہیں جو کسی کتب کے بھی مستند ، لائق اور معتبر افراد کی کہی جاتی ہیں‌۔ حتمی و قطعی سر چشمہ علم مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سب سے حتمی اور قطعی ذریعہ سر چشمہ علم وحی الٰہی ہے اور باقی تمام علوم اور ذرائع کی صداقت کو اسی سر چشمہ علم کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے ، ذرائع علم میں وحی ، الہام ، عقل اور حواس خمسہ کے متعلق آپ کی یہ عبارت ملاحظہ فرمائیے جس میں ان ذرائع کے مقام و مرتبہ کا صحیح علم ہوتا ہے ۔اللہ عزوجل نے بندے بنائے اور انہیں کان ، آنکھ ہاتھ پاؤں زبان وغیرہ آلات و جوارح عطافرمائے اور انہیں کام میں لانے کا طریقہ الہام کیا اور ان کے ارادے کا تابع و فرمانبردار کردیا کہ اپنے منافع حاصل کریں اور مضرتوں سے بچیں ، پھر اعلٰی درجہ کے شریف جوہر یعنی عقل سے ممتاز فرمایا جس سے تمام حیوانات پر انسان کا درجہ بڑھایا عقل کو ان امور کے ادارک کی طاقت بخشی خیر و شر ، نفع وضرر ، حواس ظاہری نہ پہچان سکتے تھے ، پھر اسے بھی فقط اپنی سمجھ پر بےکس و بےیاور نہ چھوڑا ،ہنوز لاکھوں باتیں ہیں جن کو عقل خود ادراک نہ کرسکتی تھی اور جس کا ادراک ممکن تھا ، ان میں لغزش کرنے ٹھوکریں کھانے سے پناہ کے لئے کوئی زبردست دامن یا پناہ نہ رکھتی تھی ، لہذا انبیاء بھیج کر کتب اتار کر ذراذرا سی بات کا حسن و قبح خوب جتاکر اپنی نعمت تمام و کمال فرمادی ، کسی عذر کی جگہ باقی نہ چھوڑی ۔ اس عبارت سے صاف ظاہر ہے وحی ، حقیقی اور حتمی سر چشمہ علم ہے اور دیگر ذرائع علم کو وحی کے تابع کرکے استعمال کرنے پر زور دیاگیا ہے ۔ علم کی اقسام :: مولانا احمد رضا علیہ الرحمۃ کے نزدیک علم کے مندرجہ ذیل اقسام ہیں: الف ۔ ۔ ۔ ۔ اہمیت و ضرورت کے لحاظ سے علم کی اقسام: فرض عین فرض کفایہ مباح مکروہ حرام 1 - علم فرض عین : فرض عین علم ایسے علم کو کہتے ہیں جس کا حاصل کرنا ہر شخص کے لئے ضروری ہو۔ اسلام کے بنیادی عقائد و ایمانیات سے آگاہی ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے۔ توحید و رسالت کا اقرار اسلام کا اساسی عقیدہ ہے۔ اجزائے ایمان کے بعد ارکان اسلام اور دیگر احکام شرعیہ کی واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ 2۔ علم فرض کفایہ : وہ علم جو معاشرے کے تمام افراد کیلئے سیکھنا ضروری نہ ہو چند افراد ہی اگر سیکھ لیں تو دوسروں پر گناہ نہیں۔ ان میں فقہ ، تفسیر، حدیث توقیت، جغرافیہ وغیرہ شامل ہیں۔ 3۔ علم مباح: ایسا علم جس کا سیکھنا ضروری نہ ہو لیکن اسلام اس کے سیکھنے کی اجازت دیتا ہو اور جس میں کوئی خلاف شرع بات نہ ہو تو یہ ایک مباح کام ( جائز کام ) ہوگا۔ مثلاً اشعار اور تاریخ کا علم وغیرہ۔ 4 ۔ مکروہ علم : ایسا علم جو وقت کے ضیاء کا باعث ہو اور جس سے فرائض شریعت میں غفلت پیدا ہوتی ہو۔ مثلاً علم ہندسہ، ہیئیت، فلسفہ منطق وغیرہ۔ 5۔ علم حرام : وہ علوم جو اسلام کی تعلیمات سے روکتا ہو اور سراسر نقصان کا باعث ہو۔ اس سے کچھ فائدہ نہ ہو مثلاً جادو، مسمر یزم فلسفہ قدیمہ، سحر ٹونے ٹوٹے وغیرہ۔ ب۔ ۔ ۔ ۔ اقسام علم بلحاظ ملکیت : 1۔ ۔ ۔ ۔ علم ذاتی : علم ذاتی کے بارے میں آپ کا ارشاد سنیئے : “ علم ذاتی ( وہ ہے جو ) اللہ عزوجل سے خاص ہے اس کے غیر کے لئے محال جو اس میں سے کوئی چیز اگر وہ ایک ذرہ سے کم تر سے کم تر، غیر خدا کیلئے مانے وہ یقیناً کافر و مشرک ہے۔ “ 2۔ ۔ ۔ ۔ علم عطائی : اللہ تعالٰی کی طرف سے جو علم اس کی مخلوق کو عطا کیا جاتا ہے وہ عطائی علم ہے، فرماتے ہیں: “ اجماع ہے کہ اس فضل جلیل میں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا حصہ تمام انبیاء، تمام جہانوں سے اتم و اعظم ہے۔ اللہ کی عطاء سے حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شمار اللہ ہی جانتا ہے “ ج ۔ ۔ ۔ ۔ بلحاظ فائدہ و ضرر اقسام علم : 1۔ ۔ ۔ ۔ علم شرعیہ : وہ علم جو انبیاء کرام سے مستفاد ہو اور عقل انسانی کسی رسائی وہاں تک نہ ہو سکتی ہو۔ یہ علم قرآن و سنت کی تفہیم کے لئےمدد گار ثابت ہو۔ 2- - - - علم غیر شرعیہ: ایسا علم جس کی تحصیل و تعلم قرآن و حدیث نے حرام کر دیا ہو اور جس سے خلاف شرع امور تعلیم کئے جائیں۔ د- - - - اقسام علم بلحاظ ذریعہ علم : 2- - - - علم عقلیہ : وہ علم جو عقل کی مدد سے حاصل کیا جائے مثلاً منطق، فلسفہ ، طب وغیرہ 3- - - - علم نقلیہ : ایسا علم جس میں عقل کو کوئی دسترس نہیں جو وحی نبوت سے منقول ہے جس کو آئندہ ہو بہو نقل کے ذریعے حاصل کیا جائے مثلاً قرآن، حدیث، فقہ وغیرہ۔ ر ۔ ۔ ۔ ۔ نفع و نقصان کے لحاظ سے علم کی اقسام : نفع و نقصان کے لحاظ سے بھی علم کو دو صحوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 1- - - - علم نافع : ایسا علم جو شریعت کے مطابق زندگی کو بہتر طور پر گزارنے کے قابل بنائے نیز جس میں فقاھت ( سمجھ بوجھ خصوصاً دینی امور کے بارے میں ) ہو۔ آپ فرماتے ہیں۔ “ علم نافع وہ ہے جس میں فقاھت ہو “ 2- - - - علم غیر نافع : وہ علم جو نہ تو شریعت کے مطابق زندگی گزارنے میں کام آئے اور نہ ہی اس سے دین کے بارے میں سمجھ بوجھ ہو۔ س- - - - اقسام علم بلحاظ حقیقت علم: 1- علم مقصودہ : وہ علم جس کا حصول مقصد حیات ہو، قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر وغیرہ مقصودہ کے زمرے میں آتے ہیں۔ 2- علم آلیہ : وہ علم جو علم مقصودہ کے حصول میں معاون ثابت ہو مثلاً زبان، لغت، معانی وغیرہ۔ علم آلیہ قرآن و حدیث کی تفہیم میں آسانی پیدا کرتے ہیں۔ ش - - - - نظریہ و کسب کے لحاظ سے علم کی اقسام : 1- نظری علم : وہ علم جس کا تعلق محض عقل، دل، دماغ اور فکر سے ہوتا ہے۔ علم العقائد، علم الاکلام وغیرہ نظری علم ہیں۔ 2- فنی علم : وہ علم جو کسی پیشہ کے اپنانے میں اور ذریعہ معاش بنانے میں ممدد معاون ہو۔ طبی، صنعتی ، کاروباری علوم اسی کے زمرے میں آتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خاں نے نہایت واضح، جامع اور ٹھوس استدلال پر مبنی تصور علم، ذرائع علم اور اقسام پیش کی ہیں آپ نے علم کے وسیع ترین موضوع کو جس انداز میں مختلف زاویوں، مختلف پہلوؤں سے الگ الگ اقسام کے میں پیش کیا ہے اس سے فلسفہ ء علم التعلیم کے اساتذہ و طلبہ کیلئے تصور علم کی تفہیم نہایت آسان اور خوب آشکار ہو گئی ہے۔
×
×
  • Create New...