Jump to content

Matami

اراکین
  • کل پوسٹس

    39
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    1

Matami last won the day on 25 اگست 2010

Matami had the most liked content!

About Matami

Previous Fields

  • فقہ
    Ghair Muqallid

Matami's Achievements

Explorer

Explorer (4/14)

  • First Post
  • Collaborator
  • Conversation Starter
  • Week One Done
  • One Month Later

Recent Badges

-1

کمیونٹی میں شہرت

  1. AAP log humary logic ko nahe samj sako gy kabi b q k tum logo me BUGHZ E AHL E BAIT hei humko samjny k leye bughz khatam karna paray ga bhaio..... YA ALI TERE DUSHMAN PAR LANAT BESHUMAR YA ALI TERE CHAHNY WALY PAR LAKHO SALAAM WSLAAM
  2. brother kindly aap parny ki zehmat tu karo na ........ aap zid me tu mat ao na bhai....sorry mera kaam tha information dena agay aap ki marzi jo marzi smjo ....
  3. shia aik para likha mazhab hei aap ko iskay jawab detay howe b sharam ati hei q k hazrat Ali a.s ne farmaya wo insan jahil hei jo bewqoof se munazra kare....lehaza aap tu samj he gy hongy khuda hafiz
  4. shia aik para likha mazhab hei aap ko iskay jawab detay howe b sharam ati hei q k hazrat Ali a.s ne farmaya wo insan jahil hei jo bewqoof se munazra kare....lehaza aap tu samj he gy hongy khuda hafiz
  5. باب نمبر 7 حضرت مسلم بن عقیل (ع) کے قتل میں صحابہ اور ان کی اولادوں کی شرکت اب ہم ناصبی حضرات کو اُن صحابہ اور اُنکی اولادوں کے نام دکھاتے ہیں کہ جنہوں نے جنابِ مسلم کے قتل میں حصہ لیا۔ ابن کثیر دمشقی لکھتا ہے: مکہ سے واپسی پر امام حسین (ع) کو اھل ِ کوفہ کے خطوط موصول ہوئے ، امام (ع) نے مسلم بن عقیل (ع)کو وہاں جانے اور وہاں کی درست صورتحال کا جائزہ لینے کا حکم دیا۔ ظاہری طور پر دس ہزار کے قریب لوگوں نے اپنی حمایت کا مظاہرہ کیا اور مسلم بن عقیل کی بیعت کی۔ جاسوسوں نے نعمان بن بشیر کو اطلاع دی جس پر نعمان نے فورأ ہی کوئی سخت راہ تو نہ اپنائی لیکن اس سلسلے میں ایک خطبہ دیا جس میں اُس نے لوگوں کو فتنہ سے خبردار کیا اور یزید (لعین) کو دی گئی بیعت کا وفادار رہنے پر زور دیا۔ ایک شخص کھڑا ہوا اور نعمان سے کہا :” یہ معاملہ طاقت اختیار کئے بغیر حل نہیں ہوگا ، جو طریقہ تم نے اختیار کیا ہے وہ کمزوروں کا ہے “۔ یزید نے ابن زیاد سے کہا: "کوفہ میں جب مسلم بن عقیل کو پاؤ قتل کردو "۔ ابن زیاد سترہ آدمیوں کے ساتھ کوفہ پہنچا اور صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد اس نے وہاں کے مشہور لوگوں سے بات کی اور مسلم بن عقیل کے متعلق دریافت کیا۔ وہاں ابن زیاد کو کچھ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا لیکن عبید اللہ نے اُن مخصوص اور کمزور لوگون کو اغواء کر لیا تاکہ مسلم بن عقیل ان کی حمایت حاصل نہ کر سکیں۔ یہ کام اس حد تک انجام دیا گیا کہ مغرب کی نماز تک صرف تیس۔ 30 لوگ حضرت مسلم بن عقیل کے ساتھ تھے اور رات ہونے تک یہ لوگ بھی حضرت کا ساتھ چھوڑ گئے۔ اس رات مسلم بن عقیل نے ایک بوڑھی عورت کے گھر قیام کیا لیکن اس عورت کے بیٹے نے عبد الرحمان بن اشعث کو خبر کردی۔ عبد الرحمان نے فورأ اپنے باپ کو اطلاع دی جو اس وقت عبیداللہ ابن زیاد کے گھر بیٹھا تھا۔ ابن زیاد نے خفیہ خبر کے متعلق دریافت کیا اور معلوم ہو نے پر ستر سے اسی آدمی عمرو بن حریث مخدومی کی قیادت میں روانہ کر دئے جو پولیس کا سربراہ تھا۔ محمد بن اشعث اور عبدالرحمان بھی ان کے ساتھ تھے۔ ان لوگوں نے مشترکہ طور پر حضرت مسلم بن عقیل کو گرفتار کیا اور ابن زیاد کے گھر لے گئے۔ ابن زیاد کے گھر کے دروازے پر حضرت مسلم بن عقیل (ع) کو چند صحابہ کے بیٹے ملے جو ابن زیاد سے ملنے کا انتظار کر رہے تھے جن کو مسلم (ع) پہچانتے تھے۔ حضرت مسلم (ع) کے کپڑے خون میں رنگے ہوئے تھے اور شدید پیاس بھی محسوس کر رہے تھے ، اس تکلیف دہ حالت میں مسلم نے پانی کا ایک کوزہ دیکھا اور پانی پینے کی کوشش کی اتنے میں ایک شخص بولا: "تم یہ پانی نہیں پی سکو گے جب تک تم گرم پانی نہ چکھ لو۔” جنابِ مسلم بن عقیل (ع) نے جواب دیا: “اے ابن ناہلہ! : تو ہلاک ہو ! دوزخ کا پانی اور اس کی آگ میں رہنے کا تُو مجھ سے زیادہ مستحق ہے۔” البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 10022 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی کیا ناصبی حضرات کو اب یزید کا یہ حکم نظر آ رہا ہے کہ جناب مسلم کو قتل کر دیا جائے؟ یا پھر یہ نجس ناصبی اب بھی دعویٰ کریں گے کہ جنابِ مسلم کو بھی کوفہ کے (مذھبی)شیعوں نے قتل کیا ہے؟ اسی طرح ناصبی حضرات کو یہ چند صحابہ کے بیٹے بھی نظر نہیں آ رہے ہوں گے جو کہ ابن زیاد کے گھر پر اُس سے ملنے کا انتظار کر رہے تھے۔ اسی طرح ناصبی حضرات کو تو اتنی صدیاں گذرنے کے باوجود بھی ابھی تک یہ عمرہ بن حریث مخدومی نظر نہیں آ سکا۔ تو پھر لیجئے، سپاہ صحابہ کے ناصبیوں کے لئے ایک اور جھٹکا۔ حضرت مسلم بن عقیل (ع) کو گرفتار کرنے والا سربراہِ پولیس یعنی عمرو بن حریث مخزومی صحابی ِ رسول (ص) ھے۔ امام ذہبی لکھتے ہیں: عمرو بن حریث کا شمار صحابہ میں ہوتا ہے جو کوفہ میں بس گئے ۔۔۔ یہ وہ صحابی ہیں جن سے رسول اللہ(ص) کی احادیث مروی ہیں سیر اعلام النبلاء ، ج 3 ص 418 اسی طرح امام ذھبی نے اپنی دوسری کتاب الکاشف، ج 2 ص 74 ترجمہ نمبر 4140 میں اور امام ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب تھذیب التھذیب، ج 1 ص 732 ترجمہ نمبر 5024 میں عمرہ بن حریث مخزومی کو رسول اللہ (ص) کے صحابہ کرام میں ھی شمار کیا ھے۔ عمرو بن حریث کے کردار پر ایک مرتبہ پھر نظر ڈالتے ھیں: وبعث ابن زياد عمرو بن حريث المخزومي وكان صاحب شرطته ومعه عبدالرحمن ومحمد بن الأشعث في سبعين أو ثمانين فارسا ، فلم يشعر مسلم إلا وقد أحيط بالدار ابن زیاد نے مسلم کو گرفتار کر نے کے لئے عمرو بن حریث مخدومی جو کہ پولیس کا سربراہ تھا اور اس کے ساتھ عبدالرحمان ، محمد بن الاشعث اور 70 یا 80 سپاہیوں کو بھیجا، پھر مسلم کو معلوم ھوگیا کہ ان لوگوں نے گھر کو گھیرے میں لے لیا ھے۔ البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 167 اب معلوم ھوا کیوں ھم بعض صحابہ کی تعظیم کے قائل نھیں؟ بس یھی وجہ ھے، یعنی جو صحابی اھل ِ بیت (ع) کا کھلے دل سے اتباع کرے ، ھم اس کی جوتی کی خاک کے برابر بھی نھیں اور جو کوئی اھل ِبیت (ع) کے خلاف محاز بنا لے ، اس کے لئے ھمارے دل میں تو کیا اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی کوئی معقول جگہ نھیں! مندرجہ بالا حوالے میں عمرو بن حریث کے ایک اور ساتھی کا نام درج ھے یعنی محمد بن الاشعث۔ نواصب کو یہ جان کر شائد خوشی نھیں ھوگی کہ باقی دشمنان ِ اھل ِ بیت (ع) کی طرح محمد بن الاشعث بھی عقیدتی شیعہ نھیں تھا بلکہ عامہ یعنی آج کی ذبان میں وہ اھل ِسنت سے تھا جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب تقریب التھزیب ، ج 2 ص 57 ترجمہ نمبر 5760 میں اسے تابعین میں شمار کیا ھے اور اھل ِسنت کی کتابوں میں حدیث کے راوی کے طور پر اسے'مقبول' قرار دیا ھے۔ ابن کثیر نے تو صحابہ و تابعین کی اُس جماعت کی نشاندہی نہیں کی جنہوں نے ابن زیاد کے گھر کے در پر جنابِ مسلم پر طعنے کسے تھے، لیکن طبری نے ان میں سے چند ایک کی نشاندہی کی ہے اور ان میں ایک کثیر بن شھاب بھی شامل تھا جس کے متعلق ہم اھل ِسنت کی کتاب طبقات الکبیر ، ج 4 ص 103 میں پڑھتے ہیں: انہوں نے عمر بن خطاب سے احادیث روایت کی ہیں اور وہ معاویہ بن سفیان کے گورنروں میں سے ایک تھے طبقات الکبیر ، ج 4 ص 103 یہ اطلاع ملنے پر کہ امام حسین (ع) کوفہ کے لئے روانہ ہو چکے ہیں مروان بن حکم نے ابن زیاد کو لکھا: حسین ابن علی تمہاری جانب بڑھ رہے ہیں ، وہ فاطمہ کا فرزند ہے اور فاطمہ رسول اللہ (ص) کی دختر ، باخدا !ہم اور کچھ نہیں چاہتے بس یہ کہ ہم حسین کو اپنے قابو میں کر لیں البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 145 امام حسین (ع) کے کوفہ روانہ ہونے پر یزید (لعین) نے بھی ابن زیاد کو لکھا: میں نے سنا ہے کہ حسین کوفہ کی جانب جا رہا ہے ، میرے گورنروں میں سے تم ہو جسکا امتحان ہے ، آزادی اس مشن کی کامیابی پر منحصر ہے یا پھر تم پھر سے غلام بنا دئے جاؤ گے اُسی طرح جس طرح غلام آزاد کیا جاتا ہے یا آزاد کو غلام کیا جاتا ہے البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 145 باب نمبر 8 عثمانی شیعہ یعنی ناصبیوں نے امام حسین(ع) کو قتل کیا تاریخ قاتلان ِامام حسین (ع) کے نجس چہروں سے نقاب اُٹھاتی ہے۔ تاریخ میں رافع بن ہلال کے وہ الفاظ موجود ہیں جو اُس نے کوفہ کی لڑائی میں امام حسین (ع) کی فوج میں شریک ہوتے ہوئے کہے تھے: میں الجمالی ہوں۔ میں علی کے دین پر یقین رکھتا ہوں۔ ایک شخص جس کا نام مزاحم الحریث تھا اس کے سامنے چیختا ہوا آیا اور کہا : " میں مذہب ِ عثمان کا پیروکار ہوں"۔ رافع نے جواب دیا : " یعنی تم شیطان کے مذہب کے پیروکار ہو"۔ پھر اس نے اُس پر حملہ کیا اور اُسکو قتل کر دیا تاریخ طبری ، ج 19 ص 136۔ 137 ؛ انگریزی ایڈیشن تو یہاں ہمیں معلوم ہوا کہ یزید (لعین) کی فوج میں عثمانی شیعہ تھے۔ اور ابن قیس نے امام حسین (ع) کے ساتھی زہیر بن قین پر طعنہ کسا جس کے متعلق ہم تاریخ طبری میں پڑھتے ہیں: اے زہیر ہم نہیں جانتے تھے کہ تو اہلبیت کے شیعوں میں سے ہے بلکہ تو تو عثمان کے شیعوں میں سے تھا۔ زہیر نے کہا مجھ کو اس مقام پر دیکھ کر بھی کیا تُو نہیں سمجھا کہ میں انہی لوگوں (شیعانِ اہلبیت) میں سے ہوں تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص203 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی کیا اب بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ ابن زیاد کی فوج میں عثمانی شیعہ نہیں تھے؟ جب یزید (لعین)کی فوج نے امام حسین (ع)اور ان کے اصحاب پر پانی بند کیا تو ابن زیاد نے ابن سعد کو ایک خط روانہ کیا جس میں لکھا تھا: نہر کے اور حسین کے درمیاں حائل ہو جا۔ ایک بوند پانی وہ لوگ نہ پی سکیں۔ یہ وہی سلوک ہے جو تقی زکی و مظلوم امیر المومنین عثمان بن عفان کے ساتھ کیا گیا تھا تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص 199 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی کیا ناصبی حضرات اب بھی ابن زیاد کو شیعانِ عثمان کی جگہ شیعانِ علی کہیں گے؟ اسی طرح ناصبی حضرات کے معتبر امام ابن کثیر نے بھی ابن سعد کے وہ الفاظ نقل کئے ہیں جس میں اُس نے حکم دیا کہ: ان کے اور پانی کے درمیاں حائل ہو جاؤ جیسا کہ پرہیزگار پاکباز امیر المومنین عثمان بن عفان کے ساتھ کیا گیا تھا البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1058 ، نفیس اکیڈمی کراچی یہ دن کی روشنی کی مانند صاف ہے کہ جن لوگوں نے امام حسین (ع) پر پانی بند کیا اور اُن کو قتل کیا وہ عثمان کو پرہیزگار ، پاکباز اور سب سے بڑھ کر امیرالمومنین تسلیم کرتے تھے اس کے برعکس شیعہ خاصہ جنابِ عثمان کو ان کی عیش و عشرت اور دیگر وجوہات کی بنا پر نیک و پرہیزگار نہیں بلکہ غاصب و ناجائز جانتے تھے اور آج بھی ایسے ہی جانتے ہیں اور شیعہ اثناء عشری عقیدہ کے مطابق ہم علی (ع) کے علاوہ کسی کو امیر المومنین تسلیم نہیں کرتے یہاں تک کہ یہ لقب سوائے علی کے کسی اور امام کے لئے بھی استعمال نہیں کیا جاتا لیکن یزید(لعین) کی فوج عثمان کو امیر المومنین تسلیم کرتی تھی جو شیعہ عقیدہ کے تو بالکل خلاف ہے لیکن اھل ِسنت (خصوصاً ناصبی) عقیدہ کے عین مطابق ہے۔ حافظ ابن کثیر مزید لکھتے ہیں: پھر ابن زیاد نے امیر الحرمین عمرو بن سعید کو حسین کے قتل کی خوش خبری کا خط لکھا اور اس نے منادی کا حکم دیا۔ اور جب بنو ہاشم کی عورتوں نے یہ اعلان سنا تو ان کی گریہ و نوحہ کی آوازیں بلند ہو گئیں تو عمرو بن سعید کہنے لگا ، یہ حضرت عثمان بن عفان کی بیویوں کے رونے کا بدلہ ہے البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1097 ، نفیس اکیڈمی کراچی معزز قارئین! اس قصہ میں مذکور شخص عمرو بن سعید بھی کوئی امامی شیعہ نھیں بلکہ شیعان ِعثمان یعنی آج کی ذبان میں اھل ِسنت سے تھا۔ اس کا تعلق بنی امیہ سے تھا، امام ابن حجر نے اسے تابعین میں شمار کیا ھے (تقریب التھزیب، ج ا ص 735 ترجمہ نمبر 5050) اور علم الرجال کے کسی سُنی امام نے اسے امامی شیعہ یعنی رافضیوں میں شمار نھیں کیا بلکہ اس کی روایت کردہ احادیث ھمیں اھل ِ سنت کی چند اھم ترین کتابوں میں ملتی ھیں جن میں صحیح مسلم، سنن ابو دائود، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ اور سنن ترمذی شامل ھیں۔ یہ عبارت بھی عثمانی شیعوں کا حسین کو قتل کرنا اور اس پر خوشی کے اظہار کو ثابت کرتی ہے اور دوسری جانب ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ جو بھی امام حسین کا پیروکار ہوگا وہ ان کی قتل پر گریہ کرےگا۔ پس ! دنیا دیکھ لے کہ کون غم ِ حسین میں روتا ہے اور وہ کون سے عثمانی آج بھی ہیں جنہیں یہ گریہ بدعت نظر آتا ہے! نوٹ: ناصبی حضرات کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ امام حسین (ع) پر صرف توابون کی جماعت نے گریہ کیا تھا۔ بلکہ قتلِ حسین پر بنی ھاشم کا گریہ کرنا ثابت ہے۔ اور اس سے بہت پہلے عثمان کی بیویوں اور بیٹیوں کا بھی گریہ کرنا ثابت ہے۔ [دیکھئے طبری میں عثمان کے جنازے کے حالات، سن 35 ہجری کے ضمن میں]۔ یہاں یہ بات بھی قابل ِ غور ہے کہ عثمان کے پیروکاروں کی جانب سے ان کے قتل کا بدلہ امام حسین (ع) سے لینے کے اندیشہ کا اظہار ابن عباس نے امام حسین (ع) کے عراق روانہ ہونے سے قبل بھی کیا تھا جو اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ ابن عباس کو امام حسین کے قتل کا خدشہ شیعان علی کی جانب سے نہیں بلکہ عثمانی شیعوں کی جانب سے تھا جو کہ درست ثابت ہوا۔ چنانچہ ناصبیوں کے امام ابن کثیر لکھتے ہیں: حضرت حسین نے جب عراق جانے کے علاوہ کو ئی اور بات نہ مانی تو حضرت ابن عباس نے انہیں کہا: خدا کی قسم میرا خیال ہے کہ کل آپ اپنی بیبیوں اور بیٹوں کے درمیان اُسی طرح قتل ہونگے جیسے عثمان اپنی بیبیوں اور بیٹوں کے درمیان قتل ہوئے تھے۔ خدا کی قسم مجھے خدشہ ہے کہ آپ ہی سے عثمان کا قصاص لیا جائے گا البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1038 ، نفیس اکیڈمی کراچی اب جیسا کہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ یزید (لعین) کی فوج میں شیعان ِعلی (ع) نہیں بلکہ عثمانی شیعہ تھے لیکن اگر ناصبی حضرات یہ دعویٰ کریں کہ عثمانی ہونا اور ناصبی ہونا دو مختلف باتیں ہیں تو ہم ان کی خدمت میں انہی کے باپ دادا امام ابن تیمیہ کے الفاط پیش کرنا چاہیں گے۔ وہ لکھتے ہیں: اگر ناصبی لوگ ابن سعد کو عثمانی مانتے ہیں تو وہ اس وجہ سے کہ اس نے قتل ِ عثمان کا بدلہ لیا اور عثمان کی ثناء کی۔ منہاج السنہ ، ج 1 ص 164 امام ابن تیمیہ یہ بھی لکھتے ہیں: عثمانی شیعہ علی کو ممبروں سے کھل کے سب و شتم کیا کرتے تھے منہاج السنہ ، ج 1 ص 178 تو ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ جن لوگوں نے امام حسین کو قتل کیا وہ شیعان ِ علی نہیں بلکہ عثمانی شیعہ تھے یعنی وہ ناصبی فوج جو یزید (لا) کی وفادار تھی۔ نواصب کے امام ابن تیمیہ کے شاگرد ابن کثیر سمیت اھل ِسنت کے دیگر مورخین و علماء نے یہ تاریخی حقیقت بھی نقل کی کہ قاتلین ِ حسین میں صحابہ اور ان کی اولادیں بھی شامل تھیں یہاں تک کہ نامور صحابہ مثلأ عمر بن حارث اور ان کے خاندان نے یزید (لا) کی فوج میں عہدے حاصل کئے ، جیسا کہ یم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ عمر بن حارث ابن زیاد کی پولیس کا سربراہ تھا جس نے مسلم بن عقیل کو گرفتار کر کے ابن زیاد کے حوالے کردیا تھا اور جس نے بعد میں مسلم بن عقیل کو شہید کردیا۔ یزید (لا) نے ابن زیاد کو کھلا ہاتھ عطا کیا اور مروان کا ابن زیاد کو خط یہ واضح کرتا ہے کہ امام حسین سے بیعت حاصل کرنا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں امام حسین کو قتل کردینا مقصود تھا۔ یہ نہایت مضحکہ خیز ہے کہ سپاہ صحابہ اور انصار جیسے نواصب یہ پروپیگنڈا کرتے آئے ہیں کہ شیعان ِعلی نے امام حسین کو کوفہ بلا کر قتل کردیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امام حسین (ع) کو خطوط لکنھے اور پھر انھیں قتل کرنے میں جن 'شیعوں' کا ھاتھ تھا وہ آج والے امامی یعنی شیعہ اثنا عشری نھیں بلکہ سیاسی شیعہ تھے جو علی (ع) کو اپنا خلیفہ چھارم تسلیم کرتے تھے اور بعد میں ناصبی یا شیعان ِعثمان کے نام سے واضح طور پر جانے جاتے تھے۔ پس چونکہ اس زمانے میں ، جیسا کہ ھم پچھلے باب میں تفصیل سے بیان کر چکے ھیں، لفظ شیعہ کئی لوگوں کے لئے استعمال ھوتا تھا، لہٰذا آج کل کے ناصبیوں کو موقع مل گیا کہ وہ اپنے جاھل پیروکاروں کو یہ بتا کر گمراہ کرسکیں کہ امام حسین کو قتل کرنے میں شیعہ یعنی آج جنھیں امامی اثنا عشری شیعہ کھا جاتا ھے ان کا ھاتھ تھا، لیکن انشااللہ اب ھماری اس کوشش کے بعد عام مسلمان سمجھ جائنگے کہ وہ 'کون سے' شیعہ تھے! باب نمبر 9 شیعان کوفہ بالمقابل اصحابِ رسول و اصحابِ عثمان بے شک جو سب سے بڑا جرم اھل کوفہ کے شیعہ خاصہ پر عائد ہو سکتا ہے جس کے وہ خود معترف تھے، وہ نصرتِ حسین سے کنارہ کشی کرنا اور حضرت پر اپنی جانیں نثار کر دینے میں کوتاہی کرنا تھا۔ اگرچہ یہ اسباب و علل اور، مشکلات و موانع پر مبنی تھا، جن کو کافی توضیح کے ساتھ حوالہ قلم کیا جا چکا ہے۔ پھر بھی ہم اس کو جرم تسلیم کرنے پر تیار ہیں، لیکن اس جرم سے سنگین تر نہیں کہ رسول (ص) کو میدانِ جنگ میں دشمنوں کے نرغہ میں تنہا چھوڑ کر اپنی جان کی حفاظت کے لئے فرار کریں اور حضرت عثمان بن عفان (تیسرے خلیفہ) کو خود دارالخلافہ اور مرکزِ حکومت مدینہ منورہ کے اندر مصر سے آئی ہوئی فوجوں کے حلقہ کے اندر محصور چھوڑ کر تماشہ دیکھتے رہیں۔ یاد رہے کہ: 1. رسول اکرم (ص) کے ساتھ صحابہ کرام میں سے جنگِ احد میں تین آدمی بھی نہ رہے تھے 2. اور جنگِ حنین میں بارہ سے زیادہ لڑائی میں نہ ٹھرے تھے اور انکے بھاگتے پھرنے کا تذکرہ اللہ نے قران میں فرمایا ہے۔ 3. اور یوم الدار حضرت عثمان کی مدد کے لئے انکی ماننے والی جماعت میں سے بیس آدمی بھی جان نثار دکھلائی نہ دیتے تھے۔ 4. جنابِ عثمان کی لاش تین دن تک مدینہ میں بے گور و کفن پڑی رہی اور مدینے میں موجود صحابہ کو ھمت یا توفیق نہ ہوئی کہ انہیں دفن کر پاتے۔ 5. اور انہی مدینہ کے صحابہ کو یہ ہمت بھی نہ ہو سکی کہ عثمان کا نمازِ جنازہ ہی ادا کر دیتے۔ 6. اور انہی مدینہ کے صحابہ کو یہ ہمت بھی نہ ہو سکی کہ عثمان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرواتے۔ اس لیے مجبورا عثمان بن عفان کو یہودیوں کے قبرستان حش کوکب میں دفن کرنا پڑا۔ بلکہ یہ بھی کہا جاتا ھے کہ وہ جگہ دراصل یہودیوں کا بیت الخلاء تھی۔ ابن کثیر الدمشقی 'البدایہ و النہایہ' کی جلد ہفتم، صفحہ 376 میں لکھتا ہے: اب رہی بات آپ کی قبر کی جگہ کی، تو بلا اختلاف آپ حش کوکب میں ۔۔ جو کہ بقیع کی مشرقی جانب واقع ہے، دفن ہوئے ہیں۔ اور بنی امیہ کے زمانے میں آپ کی قبر پر ایک گنبد بنا دیا گیا جو آج بھی موجود ہے۔ ۔۔۔ اور ابن جریر طبری کا بیان ہے کہ عثمان اپنے قتل کے بعد تین روز تک بغیر دفن کیے پڑے رہے۔ عثمان کے جنازے کو تین دن تک کندھا دینے کے لیےدس صحابہ بھی سامنے آنے کی ہمت نہ کر سکے۔ لیکن فرزندِ رسول حسین ابن علی (ع) کے الشیعہ خاصہ میں سے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر کم از کم چون (54) آدمی انتہائی مشکل حالات میں بھی جانیں قربان کرنے والے نکل آئے، اور وہ جو قید میں پابندِ سلاسل ہوئے، وہ اس کے علاوہ ہیں۔ کیا اس کے بعد بھی غیرت کا تقاضا ہے کہ الشیعہ خاصہ کو حسین کی نصرت میں کوتاہی کا طعنہ دیا جائے یا اس سے بڑھ کر ان پر قتل ِحسین کا غلط اور بے بنیاد الزام لگایا جائے، لیکن مدینے کے صحابہ قتل ِ عثمان میں شامل نہ مانیں جائیں، بلکہ دعویٰ کیا جائے کہ تمام کا تمام اھل ِ مدینہ جی جان سے عثمان کا حامی تھا اور اُن کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار تھا؟ دیکھیں، انصاف تو یہ ہوا کہ اھل کوفہ کی شیعہ جماعت اگر نصرت امام نہ کرنے کی وجہ سے قاتل ِ حسین بن جاتی ہے، تو پھر تو اھل مدینہ کے صحابہ اور دیگر جملہ افراد بھی نصرتِ عثمان نہ کرنے کے جرم میں قاتلِ عثمان ٹہرائیں جائیں۔ باب نمبر 10 توابون بالمقابل طلحہ و زبیر توابون کی جماعت پر تو ناصبی حضرات کو اعتراضات ہیں کہ امام کی نصرت نہ کر کے وہ خود قاتلانِ حسین بن گئےجبکہ ایسا نھیں تھا لیکن ان نواصب کو طلحہ و زبیر کا معاملہ نظر نہیں آتا جو کہ عام اھل مدینہ کی نسبت اور بھی زیادہ منفرد و دلچسپ ہے۔ اس متعلق: 1. کیا ناصبی حضرات بتائیں گے کہ جب عثمان پر پانی بند ہوتا ہے تو یہ دونوں حضرات کتنے بلوائیوں سے جہاد کرتے ہیں؟(طلحہ تو خود ان پانی بند کرنے والوں میں شامل تھا)۔ 2. قتل عثمان کے وقت یہ نصرتِ عثمان کے لیے موجود نہیں تھے۔ 3. قتل عثمان کے بعد یہ اُس کے جنازے میں شریک نہ ہوئے۔ 4. قتل عثمان کے بعد انہیں کوئی ہمت نہ ہوئی کہ قاتلینِ عثمان سے کسی قسم کا معمولی سا بھی تعرض کر سکیں۔ 5. علی (ع) کی بیعت کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ 6. پھر تین چار مہینے اسی طرح تقیہ میں گزار دیتے ہیں اور قاتلانِ عثمان سے کوئی تعرض نہیں کرتے۔ یہاں یہ بات بھی معلوم ھونی چاہئے کہ امام ابن تیمیہ کے نزدیک تقیہ کی دو شرائط ہیں۔ پہلی یہ کہ مسلمان حاکم کے خلاف تقیہ نہیں۔ اور دوسری یہ کہ تقیہ میں خاموش رہ سکتے ہیں، لیکن جھوٹ نہیں بول سکتے۔(منہاج السنہ، جلد 1، صفحہ 213)۔ مگر طلحہ و زبیر مل کر علی ابن ابی طالب کے خلاف تقیہ کرتے ہیں۔ شاید ابن تیمیہ کے نزدیک وہ علی ابن ابی طالب کو مسلمان حکمران نہیں بلکہ کافر حکمران تسلیم کرتے ہوں! دوسرا یہ کہ چھوٹا موٹا جھوٹ بولنا تو ایک طرف، یہ حضرات تو اللہ کی جھوٹی قسمیں کھا کھا کر علی ابن ابی طالب کو اپنی بیعت کا یقین دلاتے ہیں۔ 7. تین چار مہینے کے بعد یہ بھاگ کر مکہ چلے جاتے ہیں۔ 8. جب لوگ ان پر بیعتِ علی کے طعنے کستے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہماری گردنوں پر تلواریں رکھ کر بیعت لی گئی تھی۔ (ناصبی حضرات بھی آج تک انکا یہی بہانہ دھرا رہے ہیں کہ طلحہ و زبیر سے زبردستی بیعت لی گئی)۔ 9. الغرض، تین چار مہینے کے بعد طلحہ و زبیر کہتے ہیں کہ اب حالات موزوں ہیں کہ ہم قتل عثمان کا قصاص لیں۔اور اس پر ناصبی حضرات انکے لیے تحسین و آفرین کے تمغے فراہم کریں لیکن جب توابون حالات قابو میں آنے کے بعد قتل ِحسین کا انتقام لینے کے لیے اٹھیں تو ان ناصبی حضرات انہی کو قاتل ِحسین بنا دیں: جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے باب نمبر 11 امام حسین (ع) کے ناصبی قاتلوں کا پیروکار کون ہے؟ جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں کہ امام حسین (ع) کا قتل کر نے والے وہی لوگ تھے جو یزید (لا) کی خلافت کو جائز تسلیم کرتے تھے۔ ہم شیعان ِعلی اپنے آپ کو یزید (لا) اور اُس کے ناصبی پیروکاروں سے دور رکھتے ہیں ۔ اب سپاہ صحابہ اور دیگر ناصبی تنظیمیں اور ویب سائٹس ہمیں پوری ایمانداری سے بتائیں کہ کیا وہ بھی ایسا کرتے ہیں ؟ اور کیا یہ لوگ ان سب لوگوں سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں جنہوں نے نواسہ ِ رسول (ص) امام حسین (ع) کو قتل کیا ؟ بدقسمتی سے ایسا بالکل نہیں ہے ۔ ناصبی حضرات جو اپنے آپ کو سُنی کہتے ہیں یزید (لا) کے دفاع اور اسکی ثنا میں لکھ کر اُسے ایک نیک انسان ظاہر کر نے کی کوششیں کی ہیں ۔ مثلأ ہمارے پاس پاکستانی حنفی اسکالر کی کتاب "خلافت ِمعاویہ و یزید" موجود ہے جس میں مصنف نے اپنے خلیفہ دوم عمر بن خطاب اور یزید کے طریقہ ِ خلافت کو یکساں تسلیم کرتے ہوئے یزید کی تعریف کی ہے۔ اگر بات یہیں رک گئی ہوتی تو ناصبی اپنے آپ کو یزید (لا) سے مبرہ قرار دینے کی ناکام کوششیں کر سکتے تھے لیکن سپاہ صحابہ جیسے نواصب اپنے پیروکاروں سے جو تلخ حقیقت چھپا دیا کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان کے سلف اماموں نے اُن لوگوں کو معتبر راوی تسلیم کرتے ہوئے احادیث روایت کی ہیں جن کے ہاتھ امام حسین کے خون میں رنگے ہوئے ہیں ۔ چونکہ وہ لوگ جن کی آستینوں پر خون ِ حسین ہے ان ناصبیوں کے آبا و اجداد ہیں اس وجہ سے انہیں اُن سے احادیث قبول کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوگی لیکن جن لوگوں کا امام حسین (ع) کے قتل سے کوئی تعلق نہیں وہ ہمیشہ اُن سے نفرت کا اظہار کرینگے اور دینی معاملات میں اُن قاتلوں سے کسی قسم کا واسطہ نہیں رکھینگے۔ جہاں ہم شیعان ِ اھل ِبیت (ع) یزید ، ابن زیاد ، ابن سعد ، شمر وغیرہ پر لعنت بھیجتے ہیں وہیں اہل ِسنت امام انہی قاتلین ِ امام حسین (ع) کو اپنے مذھب میں احادیث کے ' ثقہ' یعنی معتبر راوی تسلیم کرتے ہیں اور عزت و احترام کے ھار ان کے گلے میں بنا کسی شرم کے ڈالتے ہیں ۔ آئیے اس تلخ حقیقت پر مذید روشنی ڈالتے ہیں اور سپاہ صحابہ جیسی ناصبی تنظیموں کی پلیدگی کو عیاں کرتے ہیں۔ عمر بن سعد بن ابی وقاص اھل ِسنت کے علماء میں ایک نامور اور معتبر نام امام ذہبی جو عمر ابن سعد کے بارے میں تحریر کرتے ہیں: ابن سعد نے اُس فوج کی قیادت کی جس نے الحسین کو قتل کیا، مختار انے ابن سعد کو قتل کیا سیرا علام النبلاء ، ج 4 ص 349 اہلِ سنت کے امام ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب تھذیب التھذیب میں حدیث کے حوالنے سے عمر ابن سعد کی مذھبی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: عمر ابن سعد بن ابی وقاص زہری ابو حفص مدنی کوفہ میں رہے۔ انہوں نے اپنے والد اور سعید الخدری سے روایت کیں ہیں ۔ ان کے بیٹے ابراہیم ، پوتے ابو بکر حفص، ابو اسحاق سبیعی، عزار بن حریث ، یزید بن ابی مریم ، قتادہ ،زہری ، یزید بن حبیب اور دوسروں نے بھی ان سے روایت کی ہیں۔ تھذیب التھذیب ، ج 7 ص 450 ۔ 451 یہ مشہور کتاب انٹرنیٹ پر موجود اس ویب سائٹ سے بھی ڈائون لوڈ کی جاسکتی ہے۔ www.almeshkat.net ( جلد 7 ترجمہ 747 ) جہاں تک اہل ِسنت کی اس بزرگ ہستی کی سچائی کا تعلق ہے، تو امام ابن حجر عسقلانی نے حدیث کے روایت کرنے میں اس شخص کو 'صدوق' کا درجہ عطا فرمایا ہے۔ دیکھئے امام ابن حجر کی کتاب 'تقریب التھذیب' ج 1 ص 717 ترجمہ نمبر 4903 جبکہ اہل ِسنت کے ایک اور امام عجلی نے تو اس دشمن ِحسین کی سچائی اور امیانداری پر ابن حجر عسقلانی سے بڑھ کر اپنے اطمنان کا اظہار کیا ہے۔ کتاب 'تہذیب الکمال' ج 21 ترجمہ نمبر4240 میں عمر بن سعد کے متعلق امام عجلی کا قول یوں نقل کیا ہے: احمد بن عبد اللہ بن عجلی نے فرمایا کہ عمر بن سعد وہ ہیں جنہوں نے حسین کا قتل کیا ۔۔۔ وہ تابعی ہیں، ثقہ ہیں یہ مشہور کتاب انٹرنیٹ پر موجود اس وہابی ویب سائٹ سے بھی ڈائون لوڈ کی جاسکتی ہے۔ www.almeshkat.com ( جلد 21 ترجمہ 4240) امام ِاہل ِسنت ذہبی کتاب 'میزان الاعتدال' ج 3 ص 192میں عمر بن سعد کے متعلق لکھتے ہیں: هو في نفسه غير متهم ذاتی طور پر ان کوئی میں نقص نہیں اس لعنتی انسان کی روایت کردہ احادیث مذہب ِاہل ِسنت کی بلند درجہ کتاب 'مسند احمد بن حنبل' میں موجود ہیں اور اہل ِسنت اور خاص طور پر سلفی و وہابی مذہب کے عالم ِدین شیخ شعیب الارنئووط نے کتاب 'مسند احمد بن حنبل' کے حاشیہ میں ان احادیث کو 'حسن' کا درجہ دیا ہے جن کی سند میں یہ منافق دشمن ِ اہل ِبیت موجود ہے۔ 1۔ مسند احمد ، ج 1 ص 173 حدیث 1487 2۔ مسند احمد ، ج 1 ص 177 حدیث 1531 3۔ مسند احمد ، ج 1 ص 182 حدیث 1575 اسی طرح ھل ِسنت کے نامور اسکالر شیخ احمد شاکر نے بھی کتاب 'مسند احمد' کا حاشیہ تحریر کیا ہے اورعمر بن سعد کی ایک حدیث کو 'صحیح' قرار دیا ھے، دیکھئے مسند احمد، ج 3 ص 51۔ اسی طرح امام ابن حجر عسقلانی نے ایک حدیث جس کا راوی عمر بن سعد ھے اسے 'حسن' قرار دیا ھے ، دیکھئے ھدایت الروات، ج 2 ص 229۔ اھل ِسنت کا یہ ' ثقہ و صدوق' ابن سعد، صحابی سعد بن ابی وقاص کا وہ بیٹا تھا جس کے بارے میں امام بخاری نے اپنی تاریخ کی کتاب 'تاریخ الکبیر' میں لکھا ہے: جب الحسین کربلا پہنچے تو عمر ابن سعد وہ پہلا شخص تھا جس نے خیموں کی رسّیاں کاٹ ڈالیں تاریخ السغیر ، ص 75 کم از کم یہاں سے تو سپاہ صحابہ اور ان جیسے دیگر ناصبیوں کو یہ پات معلوم ہوجانا چاہیئے ہے کہ امام حسین (ع) کا قتل ان کے ناصبی باپ داداؤں نے ہی انجام دیا تھا۔ تمہارے سلف بزرگوں نے اُنہی قاتلوں کا اتباع کیا اور انہیں اپنے مذھب میں ایک ا علی مقام دیا جیسا کہ وہ حدیث کے راوی ہونے کی حیثیت سے اُن کو معتبر اور معزز شخصیات تسلیم کرتے تھے۔ عبیداللہ ابن زیاد ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: عبیداللہ ابن زیاد معاویہ اور ان کے بیٹے یزید کے لئے امیر ِ کوفہ تھے اور یہ وہی ہیں جنہوں نے حسین سے لڑنے کے لئے کوفہ سے فوج تیار کی جب تک وہ کربلا میں قتل نہ کردیئے گئے۔ وہ ابن مرجانہ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ مرجانہ ان کی ماں تھی۔ابن اساکر نے انہیں تاریخ ِ دمشق میں ترجمہ میں ذکر کیا ہے اور وہ سنن ابو دائود میں بھی مذکور ہیں۔ ۔۔ انہوں نے سعد ابن ابی وقاص ، معاویہ ، معقل بن یسار اور بنی جعدہ کے بھائی ابن امیہ سے روایت کی ہیں۔ جن لوگوں نے ان سے روایت کی ان میں حسن بصری اور ابو ملیح بن اسامہ شامل ہیں تعجیل المنفع بزوائد رجال الا ئمہ الاربہ ، ص 180 ابن کثیر نے بھی اپنی کتاب 'البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1252 ، 'ابن زیاد کے حالات' میں اس کا سنی کتب میں روایات کا بیان کرنا لکھا ہے۔ البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1252 یہ مشہور کتاب انٹرنیٹ پر موجود اس وہابی ویب سائٹ سے بھی ڈائون لوڈ کی جاسکتی ہے۔ www.almeshkat.net (صفحہ 647) اگر سپاہ صحابہ اور تم جیسے نواصب یہ الزام لگاتے ہیں کہ شیعان ِعلی (ع) نے امام حسین (ع) کا قتل کیا تو کیا وہ یہ بتانا پسند کارینگے کہ خون ِ حسین بہانے والوں کا مقام ان کے مذھب میں اتنا معتبر کیوں ہے ؟یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ ان کے محدثین ، مورخین اور علماء ان قاتلیں سے محبت رکھتے تھے اور ان کی گواہی کو قابل ِ بھروسہ تسلیم کرتے تھے ۔ انصار ویب سائٹ اپنے آپ کو اھل ِبیت کے اصل پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ہمیں وہ یہ بتائین کہ کیا اھل ِبیت کے اصل پیروکار انہی کے قاتلوں سے محبت رکھ سکتے ہیں اور ان سے احادیث قبول کر سکتے ہیں ؟ الحمداللہ ناصبیت کہ مکروہ منہ سے یہ نقاب بھی ہٹ ہی گیا ۔ اگر ناصبی اب بھی کم ذہن ہونے یا پھر یہ تلخ حقیقت جاننے کے بعد کہ ان کے اجداد ہی قاتلین ِ حسین (ع) ہیں اگر ابن زیاد کو شیعہ کہتے ہیں تو ہمیں خود ابن زیاد کے الفاط کو نقل کرنے کی اجازت دیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ وہ یزید (لا) کو بالکل اُسی طرح اپنا خلیفہ و امیر المومنین تسلیم کرتا تھا جس طرح بزرگان ِ اھل ِسنت کرتے تھے۔ علماء ِ اھل ِسنت کی جانب سے یزید (لا)کو خلیفہ جاننے کے سلسلے میں ہم نے اس آرٹیکل کے چھٹے باب میں بحث کی ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ابن زیاد نے ابن سعد کو لکھا: ان کے اور پانی کے درمیان حائل ہوجاؤ ، جیسا کہ پرہیزگار پاکباز مظلوم امیر المومنین عثمان بن عفان کے ساتھ کیا گیا تھا اور حسین اور ان کے ساتھیوں کو پیشکش کرو کہ وہ امیر المومنین یزید بن معاویہ کی بیعت کر لیں البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1058؛ نفیس اکیڈمی کراچی ایک اور مورخ احمد بن داؤد ابو حنیفہ دینوری لکھتے ہیں: میں نے الحسین کو قتل کیا کیونکہ انہوں نے ایک امام اور اس کی رعایا پر خروج کیا ور مجھے اُسی امام نے حکم بھیجا کہ میں حسین کو قتل کر دوں ۔ اب اگر یہ بات خطا تھی تو اس کا الزام یزید پر ہے اخبار الطوال ، صفحہ 279 علامہ جلال الدین سیوطی اپنی مشہور کتاب تاریخ ع خلفاء میں لکھتے ہیں: پھر یزید نے اپنے حاکم ِعراق عبید اللہ ابن زیاد کو لکھا کہ حسین سے قتال کرو تاریخ خلفاء ، صفحہ 140 تو ابن زیاد یزید کو اپنا امیر المومنین تسلیم کرتا تھا جیسا کہ بعض سُنی بزرگ علماء کرتے آئے ہیں ۔ یہ یزید (لا) تھا جس نے امام حسین (ع) کو قتل کرنے کے احکامات جاری کئے اور وہ لوگ جو یزید ِ پلید کو اپنا خلیفہ اور ابن زیاد کو اپنا امیر و حاکم تسلیم کرتے تھے انہوں نے اس حکم کو پایا تکمیل تک پینچایا۔ معاملہ آئنے کی مانند صاف ہے۔ واقعہ ِ کربلا میں ہم دیکھتے ہیں کہ یزید(لا) کی فوج اُسی کے احکامات کو بجالاتی رہی کیونکہ وہ اُس پلید کو اپنا خلیفہ تسلیم کرتے تھے۔ شمربن ذالجوشن یوں تو اس ملعون شخص پر بحث کرنے کا کوئی معقول وجہ نہیں کیونکہ سنی و شیعہ بچے بھی جانتے ہیں کہ اس کم ظرف لعنتی شخص نے نواسہ ِرسول کے پاک گلے پر خنجر چلایا تھا۔ لیکن پھر ہم جب سپاہ ِصحابہ کے نواصب کو دیکھتے ہیں جو شمر بن ذالجوشن کو شیعہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہم نے چاہا کہ اس سازش کو بھی ناکام بنا دیا جائے۔ انٹرنیٹ پر موجود نواصب کی ایک ویب سائٹ کا مصنف جو کہ اپنے آپ کو ابن الہاشمی کہتا ہے، سپاہ ِصحابہ کے ناصبیوں کا طرز ِعمل اپناتے ہوئے لکھتا ہے: Ibn al Hashimi states: جس شخص نے سیدنا حسین کو قتل کیا اس کا نام شمر بن ذالجوشن تھا اور وہ شیعہ تھا جیسا کہ سنی و شیعہ کتابوں میں لکھا ہے۔ شمر شیعہ کا حصہ تھا لیکن پھر اس نے سیدنا حسین کو چھوڑدیا اور یزید کے آدمیوں سے جا ملا۔ اس امر کا پختہ ثبوت دینے کے لئے (کہ شمر شیعہ تھا)، ہم حوالہ دیتے ہیں مستند اور مایا ناز شیعہ عالم دین قمی کا۔ قمی جو کہ مشہور کتاب 'مفاتح الجنان' کے مصنف ہیں اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: 'میں کہتا ہوں کہ شمر صفین کے روز امیر المومنین کی فوج میں تھا'۔(القمی، صفینۃ النجات، ج 4 ص 492). جواب نمبر 1: 37 ھجری میں ہر وہ شخص جو حضرت علی کو جائز خلیفہ تسلیم کرتا اور ان کے دشمنوں سے لڑا وہ 'شیعہ' ہی کہلایا جاتا اگر ناصبی مصنف کا مضمون کچھ بتاتا ہے تو وہ یہ کہ ناصبیت اور عقل کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے مخالفین کا عقیدہ ہے کہ جناب عمار یاسر جیسے صحابہ شیعہ نہیں تھے۔ اگر ناصبی مصنف یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ شمر اس وجہ سے شیعہ ہوا کہ وہ جنگ صفین میں حضرت علی کے ساتھ تھا تو کیا نواصب یہ ماننے پر راضی ہوجائنگے کہ صفین میں حضرت علی کے ہمراہ دیگر لوگ جن میں عمار یاسر جیسے صحابہ شامل میں وہ بھی شیعہ تھے؟ شیعہ ہونا صرف شمر کے لئے ہی کیوں ہو عمار یاسر جیسے صحابی کے لئے کیوں نہیں؟ در ِحقیقت جنگ صفین میں دو واضح گروہ تھے۔ ایک شیعان ِعلی اور دوسرا شیعان ِعثمان اور 'اہل ِسنت' نام کا وجود نہ تھا۔ لقب 'شیعہ' اس وقت ہر اس شخص کے لئے استعمال ہوتا تھا جو کہ حضرت علی کے خلافت کے زمانے میں ان کا حامی ہو اور ایسے لوگوں میں شامل تھے تمام وہ لوگ: 1۔ جو کہ اس کو شرعی فرض سمجھتے تھے کہ مولا علی کی نصرت و حمائت کریں کیونکہ وہ رسول اللہ کے بلافصل جانشیں تھے۔ جیسا کہ اس آرٹیکل کے ابتدائی حصہ میں تفصیل سے بیان کیا گیا کہ ایسا گروہ تعداد میں نہایت کم تھا جس کو آج آپ شیعہ اثنا عشری یا امامی شیعہ یا رافضی کہتے ہیں۔ 2۔ جنہیں آج "اہلِ سنت" کہا جاتا ہے ، جو کہ حضرت علی کی حمائت اس نظریہ کے تحت کرتے تھے کہ وہ حضرت علی کو عثمان کے بعد چوتھا جائز خلیفہ تسلیم کرتےتھے اس لئے ان کے دشمنوں سے لڑے ۔ شاہ عبد العزیز دہلوی اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب میں لکھتے ہیں سب سے پہلے وہ مہاجرین و انصار اور تابعین اس لقب شیعہ سے منقلب تھے جو ہر پہلو میں حضرت مرتضیٰ کی اطاعت و پیروی کرتے تھے اور وقت ِ خلافت سے ہی آپ کی صحبت میں رہے ، آپ کے مخالفین سے لڑے اور آپ کے امر و نواہی کو مانتے رہے۔ انہی شیعہ کو مخلصین کہتے ہیں۔ ان کے اس لقب کی ابتدا 37 ہجری سے ہوئی تحفہ اثناء عشری (اردو) ، صفحہ 27 ، نور محمد کتب خانہ ، آرام باغ کراچی اب چونکہ شمر کو شیعہ ثابت کرنے کا درد نواصب کے پیٹ میں جاگا ہے، اس لئے یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری بھی نواصب پر ہی عائد ہوتی ہے کہ شمر شیعہ کے اس گروہ میں سے تھا جو کہ حضرت علی کو رسول اللہ کا بلافصل جانشین تسلیم کرتا تھا، جسے آج رافضی یا امامی شیعہ کہتے ہیں تاکہ اس گروہ میں سے جو کہ حضرت علی کو عثمان کے بعد چوتھا جائز خلیفہ تسلیم کرتا تھا جسے آج اہل سنت کہتے ہیں (جہاں تک ہمارا سوال ہے، ہم ثابت کردینگے کہ وہ اس دوسرے شیعہ گروہ میں سے تھا)۔ جواب نمبر 2: انسان کی پہچان اس کے عقائد سے ہوتی ہے جن کی بنیاد پر وہ کوئی مخصوص عمل کرتا ہے نا کہ اس کے ماضی سے یہ عقل کی بات ہے کہ اگر کسی کو ایک شخص کے جرائم پر فیصلہ دینا ہو، تو ایسے شخص کے اس واقت کے عقائد کو مد ِنظر رکھا جائے گا جو اس وقت اس شخص کے تھے جب اس نے جرائم کا ارتکاب کیا اور اس سلسلے میں اس کا ماضی غیرضروری ہو گا۔ اگر ایسا نہ ہو، تو کیا ہم درست ہونگے اگر ہم: 1۔ 'شیطانی آیات' کے مصنف سلمان رشدی 2۔ 'میں مسلمان کیوں نہیں ہوں؟' کے مصنف ابن ورق 3۔ فلم 'سبمشن' کے ہدایتکار عیان ھرسی علی کو سنی مسلمان تسلیم کریں کونکہ اپنے اپنے ماضی میں یہ تمام لوگ سنی مذہب سے وابسطہ تھے؟ اسی طرح کیا ہم صحابہ کو بت پرست، زناکار، جواری و شرابی ہی تسلیم کرتے ہیں کیونکہ ماضی میں وہ ان حرکات و سکنات کو ارتکاب کیا کرتے تھے؟ نہیں۔ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اب ان کے ماضی کا ذکر نہیں کیا جاتا اور صرف اسلام لانے کے بعد کے اعمال ہی کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اگر کچھ دیر کے لئے مان بھی لیا جائے کہ شمر کسی زمانے میں شیعہ تھا، تو دیکھنا یہ ہوگا کہ امام حسین کا سر تن سے جدا کرتے وقت اس کا کیا عقیدہ تھا۔ کیا وہ اس وقت شیعہ تھا؟ ہرگز نہیں۔ اس وقت وہ شیعان ِیزید میں سے تھا۔ اور اگر کچھ دیر کے لئے یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ شمر عقیدتی یا امامی شیعہ گروہ میں سے تھا، تب بھی ہم نے اچھے اچھوں کو برا بنتے دیکھا ہی ہے۔ اس بابت ابلیس کی مثال موجود ہے جو کہ کسی زمانے میں اللہ کا شیعہ (پیروکار) تھا لیکن بعد میں اس نے اپنی علیحدہ جماعت بنالی۔ جنگ صفین میں حضرت علی کے ہمراہ لڑنے والے شیعوں میں سے ایک چھوٹا سا کارکن ہوگا لیکن ابلیس تو فرشتوں کی جماعت کا سردار تھا۔ کیا ہم اللہ کی پاک ذات کو متنازع بنانے کے لئے ابلیس کا ذکر کرتے ہیں کہ جو روش ابن الہاشمی نے اپنائی ہے؟ جواب نمبر 3: امام حسین کو قتل کرتے وقت کے عقائد شمر کو سنی ثابت کرتے ہیں نا کہ شیعہ امام ذہبی کی مشہور کتاب 'اعتدال المیزان' ج 2 ص 280 ترجمہ نمبر 3742 میں ہم پڑھتے ہیں: ابو اسحاق نے کہا: 'شمر ہمارے ساتھ نماز پڑھتا اور کہتا: 'اے اللہ، تو جانتا ہے کہ میں شریف انسان ہوں، میری مغفرت فرما' ۔ میں نے اس سے کہا: 'تمہیں اللہ کیسے معاف کرسکتا ہے جبکہ تم نے اللہ کے رسول کے فرزند کو قتل کرنے میں حصہ لیا ہے؟'۔ اس نے کہا: 'مرو تم۔ مں اور کیا کرتا؟ ہمارے امراء نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا لہٰذا ہم نے ان کی نافرمانی نہیں کی، اگر ہم ان کی نافرمانی کرتے تو ہم جانور سے بھی بدتر ہوتے'۔ میں نے کہا: 'یہ تو ایک بھونڈا بہانہ ہے، اطاعت تو بس اچھی باتوں میں ہوتی ہے'۔ جیسا کہ ہم نے پڑھا، شمر کا عقیدہ تھا کہ اپنے حکمرانوں کے احکام پر عمل کرتے ہوئے حسین کو قتل کرنا اس کا فرض تھا۔ ابن الہاشمی جیسے نواصب کو چیلنج ہے کہ وہ یہ ثابت کردیں کہ شیعان ِعلی کا عقیدہ یہ تھا کہ حکمران کے حکم پر عمل کرتے ہوئے حسین کو قتل کرنا فرض ہے۔ وہ شیعہ جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امامت اہل ِبیت کا وہ حق ہے جو انہیں اللہ تعالی نے دیا ہے ایسے شیعہ ہمیشہ سے ہی خود ساختہ خلافت و حکمرانی کو رد کرتے آئے ہیں اور یہ مانتے آئے ہیں کہ یہ حق صرف علی اور اولاد ِعلی میں سے ان کا ہے جنہیں اللہ تعالی نے چنا۔ ہم صرف اور صرف ان حضرات کی اطاعت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اب ایسا شخص جو یہ عقیدہ رکھے کہ ناجائز حکمران کے حکم پر عمل کرتے ہوئے جائز امام کو قتل کرنا اس کا فرض ہے، وہ کسی بھی طرح سے (عقیدتی) شیعہ کے معنوں میں نہیں لیا جاسکتا۔ اس کے برعکس، ایک برے حکمران کی غیرمشروط اطاعت کرنے کا یہ عقیدہ اہل ِسنت والجماعت کا ضرور ہوسکتا ہے۔ شمر کے خود کے اعتراف سے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ جس وجہ سے شمر حضرت علی کا حامی تھا، بالکل اسی وجہ سے وہ یزید کا حامی بھی تھا۔ اور یہ وجہ وہ عقیدہ تھی جس کے مطابق حکمران ِوقت یا سربراہ ِمملکت کی اطاعت کرنی لازمی ہے کیونکہ وہ سربراہ ِمملکت ہے۔ شمر کے لئے صفین میں حضرت علی کی طرف داری کرنا اس لئے نہ تھا کو علی رسول اللہ کے بلافصل جانشیں اور امام ِوقت تھے، بلکہ اس لئے تھا کہ وہ خلیفہ تھے۔ جب یزید حکمران بن گیا، شمر نے یہی نظریہ دہرادیا ۔ جواب نمبر 4: سنی محدث کا شمر سے حدیث قبول کرنا شمر کے سنی عقیدہ کی سند ہے مشہور و معروف تابعی اور اہل ِسنت کے عالم ِدین جناب ابو اسحاق السبیعی (المتوفی 129 ھ) کے لئے شمر کی ذات دینی معلومات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تھی یعنی شمر ان کے نزدیک ایک راوی ِحدیث کا درجہ رکھتا تھا۔ علامہ ابواسحاق کے متعلق امام ذہبی اپنی کتاب 'سیراعلام النبلاء' ج 5 ص 392 میں لکھتے ہیں: وہ کوفہ کے شیخ، عالم اور محدث تھے اپنی دوسری کتاب 'تذکرہ الحفاظ' ج 1 ص 114 میں لکھتے ہیں: فضیل بن غزوان نے کہا ہے کہ ابواسحاق ہر تین روز میں ایک قرآن ختم کرتے تھے اور یہ کہا گیا ہے کہ وہ بہت زیادہ روزے رکھتا کرتے اور راتوں کو بہت زیادہ نماز پڑھا کرتےاور اپنی عزت کی حفاظت کرتے تھے۔ وہ علم کا منبہ تھے، ان کے کئی مناقب ہیں. اب جب بم شمر کی سوانح پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سنی مذہب کے مندرجہ بالا شیخ، عالم ِدین و محدث، نیک و ایماندار انسان شمر کو اپنے مذہب کی کتابوں کا ایک راوی تسلیم کرتے تھے۔ امام ذہبی نے اپنی کتاب 'میزان الاعتدال' میں شمر کی سوانح میں لکھا: وعنه أبو إسحاق السبيعي اور اس سے روایت کی ابواسحاق السبیعی نے یہی وجہ ہے کہ اہل ِسنت مذہب میں بلند مقام رکھنے والی کتاب 'مسند احمد بن حنبل' میں موجود روایت کی سند میں اس لعنتی قاتل ِحسین کا نام ساتھ ہے۔ شبیث بن ربعی سپاہ صحابہ جیسے ناصبی دعوٰی کرتے آئے ہیں کہ شیعان ِعلی نے امام حسین (ع) کو خطوط بھیجے اور کوفہ آنے کی دعوت دی اور اس سلسلے میں ایک شخص جسے ناصبی یقینأ شیعہ ہونے کا دعویٰ کرینگے وہ شبیث بن ربعی ہے جس کا امام حسین (ع) کو خط لکھنا تاریخ کی کتابوں میں مروی ہے حوالہ : تاریخ طبری ، ج 10 ص 25 ۔ 26 انگریز ترجمہ البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1013 نفیس اکیڈمی کراچی اور جب امام حسین (ع) کی ملاقات اس شخص سے ہوئی اور پوچھا 'کیا تم نے مجھے نہیں لکھا کہ پھل پک چکے ہیں صحن سرسبز ہوچکا ہے آپ ہمارے پاس آئین بلاشبہ آپ جمع شدہ فوج کے پاس آئیں گے؟ تو اس نے کہا :' ہم نے خط نہیں لکھے' (حوالہ : البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1067 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی) ہم یہاں یہ بات واضح کرتے چلیں کہ اس شخص سے شیعہ مذھب کا کسی بھی طرح کوئی واسطہ نہیں ۔ یہ دغہ باذ شخص جسے ناصبی بلاشبہ شیعہ ہونے کا دعویٰ کرینگے دراصل علما ء اہل ِسنت کی نگاہوں میں ان کے مذھب کا ایک معتبر راوی ِ حدیث ہے ۔ امام ذہبی لکھتے ہیں: یہ وہ شخص ہے جس نے حضرت علی کے خلاف بغاوت کی اور ثالثی رد کردی اور بعد میں نادم ہوا ۔۔۔ اس نے علی حذیفہ سے حدیث بیان کی ہے۔ محمد بن کعب کردی اور سلیمان بن تمیمی نے اس سے سنسن ابو داؤد میں حدیث بیان کی ہیں سیرا علام النبلاء ، ج 4 ص 150 علامہ ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب تھذیب التھذیب ، ج 4 ص 303' پر لکھتے ہیں: شبث بن ربعی التمیمی الیربوعی ابو عبدالقدوس الکوفی ، جنہوں نے حذیفہ اور علی سے روایت کی ہیں اور جنہوں نے ان سے روایت کی ہے ان میں محمد بن كعب القرظی اور سلیمان التمیمی شامل ہیں۔ ۔۔دارقطنی کا کہنا ہے کہ وہ سجاح سے (تعلق رکھنے والے) موذن تھے۔ ابن حبان نے انہیں ثقات میں شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے بعض غلطیاں کیں ، بخاری اور مسلم نے ان سے روایت کی ہے جس میں حضرت فاطمہ نے ایک خادم کی فرمائش کی ۔ العجلی کہ کہنا ہے کہ یہ وہ فرد ہے جس نے عثمان کے قتل میں مدد کی اور پھر حسین کے قتل میں بھی حصہ لیا http://www.almeshkat.net (جلد 4 صفحہ 530) ہم منصفان ِ اسلام سے انصاف کے طلب گار ہیں ۔ اس ناصبی ۔ خارجی کی زندگی کا جائزہ لیں ۔ کوئی بھی حقیقت پسند شخص یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ یہ شیعان ِ اھل ِبیت میں سے تھا۔ امام حسین (ع) کو خط تحریر کرنے والا یہ شخص بقول ناصبیوں کے شیعہ تھا لیکن یہ شخص انہی کی صحاح ستہ کا معتبر راوی ہے۔ امام حسین (ع) کو خط لکھنے کے باوجود یہ شخص شیعہ نہیں کہلایا جا سکتا کیونکہ یہ کبھی بھی حقیقتأ شیعہ نہ تھا بلکہ ایک فسادی انسان تھا جس کی پوری زندگی فتنہ انگیزی میں گزری ۔ ہم سپاہ صحابہ جیسے ناصبیوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا اھل ِبیت سے محبت رکھنے والے انہی کے قاتلوں اور غداروں کو اپنے مذھب میں اہم درجہ دے سکتے ہیں ؟ کیا ایسے لوگوں کی گواہی قابل قبول ہو سکتی ہے؟ کیا آپ ایسے شخص کی گواہی پر بھروسہ کر سکتے ہیں جس نے آپ کے اپنے نواسے کو نا جائز قتل کیا ہو؟ اگر نہیں تو آپ اور آپ کے اماموں کی شرم اُس وقت کہاں چلی گئی جب آپ نے رسول اللہ(ص) کے نواسے کے قاتلوں کی گواہی کو قابل ِ بھروسہ تسلیم کیا ؟کیا ایسا رویہ یاد ِ حسین اور رسول اللہ (ص) کی توہین نہیں؟ کیا واقعی ایک سچا عاشق ِ رسول (ص) اس قسم کا عقیدہ رکھ سکتا ہے؟ ناصبیوں ذرہ سوچو! قاتلین ِحسین کے ناصبی اور انصار ِ حسین کے شیعہ ہونے کے چند اور شواہد ثبوت نمبر 1: حسین بن علی (ع) جب مکہ سے روانہ ہو کر کوفہ کے قریب پہنچے تو حصیص بن تمیم کے حکم سے حُر بن یزید ایک ھزار کی فوج کے ساتھ سدراہ ہونے کے لئے آگیا اور وہ امام حسین(ع) کے ساتھ ہے تاکہ انہیں واپس مدینہ جانے نہ دے اور چلتے چلتے یہ قافلہ نینوا پہنچا ۔ اسی وقت ایک مسلح ناقہ سوار کوفہ کی جانب سے آتا دکھائی دیا جس کا دونوں طرف کے لوگ بےچینی سے انتظار کر نے لگے ۔ جب وہ قریب پہنچا تو اُس نے حُر اور اصحاب ِ حُر کو تو سلام کیا لیکن حسین (ع) اور ان کے اصحاب کو سلام نہ کیا ۔ وہ ابن زیاد کا خط لایا تھا حُر کے نام جس میں لکھا تھا: میرا قاصد اور خط جب تمہیں پہنچے تو حسین کو بہت تنگ کرنا ۔ سختی کرنا ان کو ایسی جگہ اترنے دینا جہاں چٹیل میدان ہو کوئی پناہ کی جگہ نہ ہو جہاں پانی نہ ہو تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص 195 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی امام حسین (ع) کے اصحاب میں سے ابواشعثاء یزید بن مہاجر کندی نے خط لانے والے کو پہچان لیا اور پکار کر کہا: کیا مالک بن نسیر بدی ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ! ابواشعثاء نے کہا تیرا برا ہو ، تُو کیا پیغام لیکر آیا ہے؟اس نے جواب دیا : جو پیغام میں لایا ہوں اس میں اپنے امام کی میں نے اطاعت کی اور اپنی بیعت کو پورا کیا ۔ ابواشعثا نے کہا : تُو نے خدا کی نافرمانی کی اور اپنے امام کی اطاعت کر کے خود کو ہلاک کیا عارونار کو اختیار کیا ۔ خدا نے فرمایا ہے: ہم نے کچھ امام ان میں پیدا کیا دیئے ہیں جو کہ دوزخ میں لیجانے کو پکارتے ہیں اور روز ِ قیامت ان کی مدد نہ کی جائیگی ۔ بس ایسا ہی تیرا امام ہے تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص 196 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی معزز قارئین! یہ مالک بن نسیر کون ہے ؟ یہ وھی ھے کہ روز ِ عاشور جب امام حسین (ع) زخموں سے چور ہو کر زمین پر تشریف لا چکے تھے تو وہ شقی آیا اور حضرت کے سر اقدس پر تلوار لگائی جو امامہ کو کاٹ کر سر میں اتری اور تمام عمامہ خون سے تر ہوگیا۔(طبری ، ج 6 ص 257) اس کے یہ الفاظ "اپنے امام کی میں نے اطاعت کی اور اپنی بیعت کو پورا کیا" صاف بتلا رہے ہیں کہ وہ یزید کو امام ِ وقت تسلیم کرتے ہوئے اس کی بیعت کا پابند تھا اور یہ اس کی شیعان ِعلی کے مذھب سے لاتعلقی اور اہل ِ سنت سے وابستگی کی بہترین دستاویز ہے جیسا کہ اہل ِ سنت یزید کو چھٹا خلیفہ تسلیم کرتے ہیں اور بخاری کے مطابق خلیفہ دوم کے فرزند اور ان کے چہیتے صحابی عبدااللہ ابن عمر کا بھی یہی عقیدہ تھا۔ اس کی تفصیلات اگلے اباب میں بھی آرہی ہیں۔ ثبوت نمبر 2: جس وقت مسلم بن عقیل کوفہ میں آکر فرزند رسول (ص) کی جانب سے بیعت لے رہے تھے اور بنی امیہ کے مظالم سے گھبرائی ہوئی خلقت اس موقہ کو غنیمت جان کر ٹوٹ پڑی تھی عین اس وقت یزید کو کوفہ سے عبد اللہ بن مسلم حضرمی کا ایک خط آجاتا ہے جس میں لکھا تھا: مسلم بن عقیل کوفہ میں آگئے ہیں۔ شیعوں نے حسین بن علی کے نام پر ان کی بیعت کرلی ہے۔ اگر تمہیں کوفہ کی خواہش ہے تو کسی زبردست شخص کو حاکم کر کے بھیجو جو تمہارے حکم کو یہاں جاری کرے ۔ تمہارے دشمن کے ساتھ وہ سلوک کرے جو تم خود کر سکو۔ نعمان بن بشیر یا کمزور ہیں یا کمزور بنتے ہیں۔ تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص 154 ، نفیس اکیڈمی کراچی پہلا شخص یہی تھا جس نے یزید کو لکھا ۔ اس کے بعد عمارہ بن عقبہ نے اسی مضمون کو لکھا۔ اس کے بعد عمر بن سعد نے یزید کو لکھا۔ یزید نے اس خط کو دیکھ کر جو فرمان ابن زیاد کو لکھا وہ قابل دید ہے: میرے شیعہ جو کوفہ میں ہیں انہوں نے مجھے لکھا ہے کہ کوفہ میں ابن عقیل مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لئے جمیعت تیار کر رہے ہیں ۔ میرا یہ خط دیکھتے ہی تم کوفہ کی طرف روانہ ہوجاؤ ۔ وہاں جا کر مسلم بن عقیل کو اس طرح ڈھونڈو جیسے کوئی نگینے کو{ڈھونڈتا ہے۔ انہیں یا تو گرفتار کرلینا یا قتل کر ڈالنا یا شہر سے نکال دینا تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص 154 نفیس اکیڈمی کراچی محترم قارئین! پہچان لیا ہوگا یہ عمر سعد کون ہے جو اس خط کے لکھنے والوں میں ہے ۔ بلاشبہ یہ وھی شقی سپاہ سالار ہے جو کہ حسین ابن علی (ع) کے قتل کے لئے بھیجا گیا اور اسی نے امام حسین (ع) کی طرف پہلا تیر داغا تھا۔ (تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص213 ، نفیس اکیڈمی کراچی)۔ اس کے یہ الفاظ کہ " شیعوں نے حسین بن علی کے نام پر ان کی بیعت کرلی ہے" صاف ظاہر کرہے ہیں کہ اس شخص کی جماعت کا شیعان ِعلی کی جماعت سے کوئی تعلق نہ تھا اور پھر یزید (لا) کی یہ تحریر کہ "میرے شیعہ جو کوفہ میں ہیں انہوں نے مجھے لکھا ہے" بتلا رہے ہیں کہ یہ شخص یزید(لا) کا شیعہ اور اس کی خلافت کو تسلیم کرنے والی جماعت سے تھا ۔ عمر ابن سعد کا مذھب ِاھل سنت میں اہم راوی ِ حدیث ہونا اور یزید کا سُنی اور ناصبیوں کا چھٹا خلیفہ ہونے کی تفصیلات آگے آرہی ہیں۔ کیا اب بھی نواصب قاتلین ِ حسین کو شیعان ِعلی کہیں گے ؟ ثبوت نمبر 3: ہم تاریخ ِ کربلا میں پڑھتے ہیں کہ روز عاشور جب جنگ چھڑ چکی اور انصار ِحسین (ع) کی اکثریت قتل ہوچکی اس وقت یزید بن معقل لشکر ِ عمر سعد کی صف میں سے باہر نکلا اور اور بریر بن خضیر کو آواز دے کر کہنے لگا۔ کیوں بریر بن حضیر تم نے دیکھ لیا کہ خدا نے تمہارے ساتھ کیا کیا ؟ ۔ بریر نے جواب دیا: " وللہ ! خدا نے میرے ساتھ بھلائی کی اور تیرے حق میں برائی کی۔وہ کہنے لگا۔ " تم نے جھوٹ کہا ۔ تم تو کبھی جھو ٹ نہیں بولتے تھے ۔ تمہیں یاد ہوگا کہ بنو لوفان میں میں تمہارے ساتھ پھر رہا تھا اور تم یہ کہتے جاتے تھے کہ عثمان بن عفان نے اپنے نفس کے ساتھ اسراف کیا اور معاویہ گمراہ اور گمراہ کنندہ ہیں اور امام ِ ہدیٰ و برحق علی بن ابی طالب ہیں ۔ بریر نے کہا : ہاں یہی میرا عقیدہ ہے اور یہی میرا قول ہے ۔ یزید بن معقل کہنے لگا : اس میں کوئی شک نہیں کہ تو گمراہ ہے۔ بریر نے کہا آؤ ہم تم مباہلہ کریں پہلے خدا سے دعا مانگیں کہ جھوٹے پر وہ لعنت کرے اور اس کے بعد ہم تم لڑینگے ۔ اب ان دونوں نے خدا کی طرف ہاتھوں کو بلند کرکے یہ دعا کی کہ جھوٹے پر عذاب نازل ہو اور جو راہ ِ راست پر ہو وہ گمراہ کو قتل کرے۔ اس کے بعد دونوں لڑنے کو بڑھے۔دو دو چوٹیں ہوئی تھیں کہ یزید کا ایک اوچھا سا وار بریر پر پڑا جس سے کوئی ضرر بریر کو نہیں پہنچا ۔ بریر نے جو تلوار ماری وہ مغفر کو کاٹنتی ہوئی دماغ تک پہنچی ، وہ اس طرح گرا کہ معلوم ہوا پہاڑ سے نیچے آرہا ہے اور بریر کی تلوار اُسی طرح شگاف زخم میں موجود تھی۔ بریر تلوار کو زخم میں سے کھینچ رہے تھے تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص 215 نفیس اکیڈمی کراچی کیا اب بھی معلوم نہ ہوا کہ انصار ِ حسین (ع) کا مذھب کیا تھا اور مخالف جماعت کس فرقہ سے تعلق رکھتی تھی ؟ انصار ِ حسین جناب ِ بریر عثمان کو اپنے نفس کے ساتھ اسراف کرنے والا ، معاویہ کو گمراہ اور گمراہ کنندہ اور حضرت علی (ع) کو امام ِ بر حق تسلیم کرتے تھے جو کہ سراسر شیعہ اثنا عشری عقیدہ ہے اس کے بر عکس عمر ابن سعد کی فوج کے یزید بن معقل کی نگاہ میں بریر یہ عقائد رکھنے کی وجہ سے گمراہوں میں سے تھا بالکل اُسی طرح جس طرح آج سُنی حضرات شیعوں کو انہی عقائد کی بنا پر گمراہ پکارتے ہیں ۔ اب بھی ہمارا سپا ہ صحابہ اور ان جیسے دیگر نواصب جو شیعان ِعلی کو قاتل ِحسین اور خود کو محب ِحسین کہتے ہیں،ایسے ناصبیوں سے سیدھا سوال ہے۔ "کیا تم لوگ انصارِحسین (ع) جناب بریر بن حضیر کی طرح عثمان کو اپنے نفس کے ساتھ اسراف کرنے والا ، معاویہ کو گمراہ اور گمراہ کنندہ اور حضرت علی (ع) کو امام ِ بر حق تسلیم کرتے ہو ؟ اگر ہاں تو تم بھی شیعہ اور محب ِ انصاران ِ حسین ہو گئے، اگر نہیں، تو تمہارا مذھب بھی وہی ہوا جو یزید بن معقل کا تھا جو ان عقائد کو گمراہ تسلیم کرتا تھا اور جو ابن سعد کے لشکر سے تھا" اسکے علاوہ بریر بن حضیر اور یزید بن معقل کے درمیان جس بات پر مباہلہ ہوا تھا وہ بھی اور اس مباہلہ کا نتیجہ بھی تاریخ کے عیاں اوراق میں موجود ہے۔ اس سے حق و باطل کا نقشہ بھی بغیر کسی حجاب کے سامنے آجاتا ہے اور معلوم ہوجاتا ہے کہ حق کس طرف تھا اور وہ کیونکر ظاہر ہوا۔ ثبوت نمبر 4: بریر جب لڑ بھڑ کر قتل ہوئے تو ان کا قاتل کعب ازدی فتح و ظفر کی مسرت اور انعام کی خوشگوار توقعات لئے ہوئے تھا۔ اس کی بہن یا بیوی نواز بنت جابر نے کہا: تو نے فرزند فاطمہ کے مقابلہ میں شرکت کی ،تو نے سید ِ قارئین [بریر] کو قتل کیا، تو کیسے اجر عظیم کا مستحق ہوا ؟ واللہ ! میں تجھ سے کبھی بات نہ کرونگی تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص 216 ، نفیس اکیڈمی کراچی کعب ازدی نے اپنی برچھی کی مدح میں اور بنی حرب کی خوشامد میں اور عبدی پر احسان کرنے کی مغافرت میں کچھ اشعار کہے جو اصل عربی تاریخ طبری میں موجود ہیں۔ لوگوں سے دریافت کر ، تجھے معلوم ہوگا ، حسین والے دن ، جب نیزے جنگ کے لئے سیدھے ہوچکے تھے۔ کیا میں نے بہترین طریقے پر انجام نہیں دیا اُس امر کو جس کا تجھے صدمہ ہے ؟ اور عالم جنگ میں اس کرانمایاں کے انجام دینے میں مجھ سے کوئی کوتاہی نہیں ہوئی۔ میرے پاس ایسا نیزہ تھا جس نے جنگ میں دغا نہیں کیا اور تلوار تھی جس کی دھار تیز اور کاٹ دار تھی۔ میں نے تلوار کو کھینچ لیا ایسی جماعت کے قتل کے لئے کہ جن کا مذھب میرے مذھب سے جداگانہ ہے اور میرا دارومدار تو ابوسفیان کی اولاد پر ہے۔... کوئی میرا پیغام ابن زیاد سے مل کر پہنچادے کہ میں بجان و دل خلیفہ ِ وقت کا مطیع و طابع فرمان ہوں تاریخ طبری (عربی)، جلد 6 صفحہ 247۔ 248 "لیس دینھم بدینی" (جن کا مذھب میرے مذھب سے جداگانہ ہے) کا فقرہ بتا رہا ہے کہ اس کا مذھب انصار ِامام حسین (ع)کے مذھب کے خلاف ہے۔ انصار ِحسین کا مذھب تو جناب ِ بریر نے کھل کر اوپر بیان کردیا ہے ۔ اگر سپاہ صحابہ جیسے نواصب بریر کے بتائے ہوئے مذھب کو اپنا مذھب تسلیم کرتے ہیں تب ہی وہ شائد اپنے آپ کو محب ِ انصار ِ حسین (ع) کہ سکتے ہیں اور اگر وہ اس عقیدہ کے خلاف ہیں تو انہیں دشمنان ِ حسین (ع)میں شمار کرنے میں شرم نہیں آنی چاہئے! ثبوت نمبر 5: ابن کثیر لھکتے ہیں کہ ابن زیاد نے ہانی بن عروہ کو پکڑ کر اس پر تشدد کیا اور جب ہانی کے قبیلے والے ابن زیاد کے محل کے دروازے پر جمع ہوگئے تو ابن زیاد نے اپنے وفادار قاضی شریح کو کہا کہ وہ ہانی کے قبیلے والوں کو مطمئن کرے۔ عبید اللہ نے کہا:'اللہ نے تمہارا خون میرے لئے حلال کردیا ہے کیونکہ تو حروری ہے'۔ پھر اس کے حکم سے اسے گھر کے ایک پہلو میں قید کردیا گیا ، اس کی قوم بنو مذحج عمرو بن الحجاج کے ساتھ آکر محل کے دروازہ پر کھڑے ہوگئے ان کا خیال تھا کہ اسے قتل کردیا گیا ہے عبید اللہ ابن زیاد نے شور سُنا تو اس نے قاضی شریح سے کہا کہ ان کے پاس جا کر ان سے کہو ، امیر نے اسے صرف اس لئے قید کیا ہے کہ اس سے مسلم بن عقیل کے بارے میں پوچھے، سو قاضی شریح نے ان سے کہا کہ تمہارا آقا زندہ ہے اور ہمارے بادشاہ نے اسے اتنا مارا ہے جس نے اس کی جان کو نقصان نہیں دیا ، وہ واپس چلے گئے البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1018 ۔ 1019 نفیس اکیڈمی کراچی اگر شیعوں پر الزام لگانے والے نواصب نے ابن زیاد کے اس دوسرے وفادار کتے کو نہیں پہچانا ہے تو ہم بتائے دیتے ہیں کہ یہ شخص علماء ِ اہل سنے کی آنکھوں کا تارا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کی سب سے معتبر کتاب بخاری میں بھی اس شخص سے روایت لی گئی ہیں۔ ابن حجر عسقلا نی لکھتے ہیں: شريح بن الحارث بن قيس بن الجهم بن معاويہ بن عامر الكندی ابو اميہ الكوفی القاضی جنہیں شريح بن شرحبيل یا شرحیل بھی کہا جاتا ہے بخاری اور نسائی میں روایت کی ہیں۔۔۔ احمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ ابن معین نے ان کے بارے مین کہا کہ وہ ثقہ ہیں۔۔۔ العجلی نے کہا کہ وہ کوفی ، تابعی اور ثقہ ہیں۔۔۔ابن سعد نے کہا ان کا انتقال 79 ھ میں ہوا اور وہ ثقہ ہیں تھذیب التھذیب ، ج 4 نمبر 574 اگر اب بھی سپاہ صحابہ یا دیگر نواصب شیعوں پر قتل ِ حسین کا الزام لگائیں تو ان کی نجاست و جہالت پر کسی ذی شعور انسان کو شک نہیں ہوگا جیسا کہ امام حسین (ع) کے دشمنوں کی تعریف کر کے اور ان سے اپنے مسلک کی معتبر کتابوں میں احادیث نقل کرکے یہ واضح کردیا ہے کہ دشمنان ِ حسین کا تعلق ان کے مذھب سے ھو تو ھو لیکن شیعہ امامی مذھب سے ان کا دور دور کا کوئی واسطہ نہیں۔ باب نمبر 12 کیا واقعہ ِکربلا شیعہ سنی فرق کو اُبھارتا ہے؟ آپکے کہنے کا مطلب یہ باعث ِافسوس ہے کہ واقعہ کربلا کو انتہائی توجہ حاصل ہونے کے باوجود ابھی تک اس واقعہ کو دو طرفہ حیثیت سے بیان کیا جاتا ہے یعنی یہ ہمیشہ حسین بمقابلہ یزید ، صحیح کا غلط کے خلاف اُٹھنا اور ظالم طاقتوں کے خلاف انصاف کی جنگ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ موقع پرست لوگ اس حد تک چلے گئے ہیں کہ اس واقعہ کو شیعہ بر خلاف اھل ِسنت کا نام دے دیا ہے واقعہ ِ کربلا حقیقت میں ایسا ہی ہے کیونکہ یہاں ہمیں امامت و خلافت کے مطالق دو مختلف نظریات ملتے ہیں ۔ وہ نظریہ جو امامت و خلافت کے عہدہ کو اجماع کی بنیاد پر امت کا حق تسلیم کرتے ہیں وہ مکتب ِ فکر آج اھل ِسنت والجماعت کہلاتا ہے اور وہ جو عہدہ ِ امامت کو اللہ اور رسول (ص) کی جانب سے مقرر کردہ تسلیم کرتے ہیں وہ آج شیعہ اثنا عشری کہلاتے ہیں ۔ اس واقعہ میں ہمارے سامنے ایک وہ خلیفہ ہے جو امت کا مقرر کردہ ہے (یعنی اھل ِسنت کا امام ) اور دوسری جانب اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ امام (یعنی شیعوں کا امام )۔ بحیثیت شیعہ ہم اس دعویٰ کو رد کرتے ہیں کہ یزید (لا) ایک جائز خلیفہ تھا بلکہ ہم صاف کہتے کہ ایک فاسق و فاجر رسول اللہ (ص) کا خلیفہ و جانشیں کبھی نہیں ہو سکتا اور چونکہ ہم امام حسین (ع) کا جائز خلیفہ و امام تسلیم کرتے ہیں لہٰذا یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ امام حسین کی مدد و حمایت کرنا فرض تھا۔ یہ نظریہ ہمیں اھل ِسنت کے نظریہ کے مد ِمقابل لے آتا ہے جو کہتے ہیں کہ : 1۔ خلیفہ کی تقرری کا انحصار امت کے اجماع پر ہے 2۔ ایک مرتبہ بیعت دیدی گئی تو خلیفہ کی خلافت جائز ہے 3۔ ایک مرتبہ بیعت دیدی گئی تو لوگوں پر واجب ہے کہ اُس کی حمایت کریں ان اصولوں کی بنیاد پر اھل ِسنت والجماعت یزید (لا) کو اپنا جائز خلیفہ تسلیم کرتے ہیں ۔ لہٰذا یہ جدوجہد دو نظریوں کی جنگ تھی اور اسے شیعہ اور سُنی نظریہ ِ امامت کے درمیان جنگ کہا جاسکتا ہے۔ اھل ِسنت یزید (لا) کو رسول اللہ (ص)کا جائز خلیفہ تسلیم کرتے ہیں آپ لوگو کا کہنا ہے کے معاویہ اپنے بیٹے یزید کی بیعت کے سلسلے میں لوگوں کے فیصلے کے منتظر تھے۔ انہوں نے یزید کی بحیثیت شہزادہ بیعت حاصل کرنے کا ارادہ کیا لہٰذا انہوں نے بزرگ صحابہ ، لوگوں کے سرداروں اور ضلع گورنران سے مشورہ کیا ۔ وہ سب راضی ہو گئے اور یزید کے بیعت کرنے کی غرض سے ضلعوں سے وفود آئے ۔ بہت سے صحابہ نے ان کی بیعت بھی کی۔ الحافظ عبدالغنی المقدسی لکھتے ہیں: ' یزد کی خلافت جائز ہے ، رسول اللہ(ص) کے ساٹھ صحابہ نے اس کی بیعت کی اور ابن عمر ان میں سے ایک تھے'(قید الشرید من اخبار یزید ، صفحہ 70 ابن خلدون)۔ یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ اھل ِسنت کے عقیدہ میں ایک جائز و برحق خلیفہ سے اختلاف کرنا بغاوت ہے اور ناصبی اسکالر ابن خلدون کے پیش کردہ اس فتوہ کی بنیاد پر انصار ویب سائٹ دبے الفاظ میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ امام حسین (ع) باغی تھے(ناعوذ باللہ) کیونکہ انہوں نے ایک جائز خلیفہ سے اختلاف کیا ۔ تو کیا اصل اھل ِسنت بھی ایسے ہی عقیدہ کی حمایت کرتے ہیں جو یزید (لا) کی خلافت کے جائز ہونے کی تصدیق اور امام حسین (ع) کو باغی ظاہر کرتا ہے؟ یزید (لا) کی خلافت جائز ہونے کی تصدیق تو ہمیں صحیح بخاری میں ہی ملتی ہے ۔ واقعہ ِ حرہ کے بعد خلیفہ دوم کے بیٹے اور اھل ِسنت کے چہیتے صحابی عبداللہ ابن عمر نے یزید (لا) سے اپنی تا حیات وفاداری کا اعلان و تصدیق کی ۔ ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا کہا ہم سے حماد بن زید نے انہوں نے ایوب سے انہوں نے نافع سے انہوں نے کہا جب مدینہ والوں نے یزید کی بیعت توڑ ڈالی تو عبداللہ بن عمر (رضہ) نے اپنے گھر والوں لونڈی غلاموں اولاد وغیرہ کو جمع کیا اور کہنے لگے میں نے آنحضرت(ص) سے سُنا ہے وہ فرماتے تھے ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا کھڑا کیا جائیگا ۔ دیکھو ہم اس شخص (یزید) سے اللہ اور اُس کے رسول کے موافق بیعت کر چکے ہیں اب میں اس سے بڑھ کر کوئی دغابازی نہیں سمجھتا کہ اللہ اور اُس کے رسول کے موافق ایک شخص سے بیعت کی جائے پھر (بیعت توڑ کر) اس سے لڑنے کا سامان کیا جائے اور دیکھو مدینہ والوں ! تم میں سے جو کوئی یزید کی بیعت توڑ کر دوسرے کسی سے بیعت کرے تو اس میں اور مجھ میں کوئی تعلق نہیں (میں اس سے الگ ہوں) صحیح بخاری ، ج 3 ص 889 ۔ 890 ، ترجمہ علامہ وحید الزماں ؛ مکتبہ رحمانیہ لاہور تو صحیح بخاری کی صحیح حدیث سے ہم نے یہ جانا کہ اھل ِسنت کی نگاہ میں عبداللہ ابن عمر نے یزید (لا) کی وہ 'صحیح' بیعت کی جس کے امام حسین (ع) خلاف تھے ، وہ بیعت اللہ اور اس کے رسول (ص) کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق تھی اور جس کی مخالفت کرنے والا قیامت کے روز دھوکہ بازوں کے ساتھ اُٹھایا جائیگا اور یہ کہ ابن عمر نے یہ بھی کہا کہ جس نے بھی یزید کی مخالفت کی اُس کے اور میرے درمیان علحیدگی ہوجائے گی! عبداللہ ابن عمر نے یزید (لا) کی بیعت کی لیکن پھر بھی اھل ِسنت انہیں ایک اچھا مسلمان اور کتب ِ سنیہ کا ایک اہم اور معتبر راوی تسلیم کرتے ہیں ۔ خلیفہ عمر کا یہ بیٹا کوئی معمولی شخص نہیں ، یہ اُن کے خلیفہ عمر کی بنائی ہوئی اُس کمیٹی کے اہم رکن تھے کہ جسے اھل ِسنت کا تیسرا خلیفہ چُننے کا کام سونپا گیا تھا۔ اب ناصبی ہمیں بتائیں کہ کیا عبداللہ ابن عمر شیعہ مذہب کا پیروکار تھا یا پھر اُس مذہب کا جسے آج آپ اھل ِسنت والجماعت کہتے ہیں ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابن عمر اُسی نظریہ کا پیروکار تھا جو آج اھل ِسنت کہلاتا ہے ۔ یہ تلخ حقیقت اصل اھل ِسنت حضرات کو مشکلات سے دوچار کر دیتی ہے کہ یزید (لا)جیسے انسان سے دور رہنے کے لئے عبد اللہ ابن عمر جیسے صحابی سے کس طرح کنارہ کشی اختیار کی جائے ۔ لیکن سپاہ صحابہ اور انصار ویب سائٹ جیسے ناصبیوں کو یہ تسلیم کرتے ہوئے کوئی شرم و جھجک محسوس نہیں ہوتی اور وہ فخریہ کہتے ہیں کہ: یہ صحیح بخاری سے ثابت ہے کہ ابن عمر نے یزید کی بیعت کی یہ واضح ہے کہ امام حسین (ع) کے قاتل وہی تھے جو یزید (لا)کی خلافت کو جائز تسلیم کرتے تھے لہٰذا اب یہ بتانا بہت آسان ہے کہ قاتلین ِ حسین (ع) کا تعلق کس مذہب سے ہے ۔ یزید (لا)کے پیروکار وہ تھے جو اُسے امت کا جائز خلیفہ تسلیم کرتے تھے جیسا کے صحیح بخاری سے ثابت ہے۔ ابن عمر کو تو خیر کسی بھی طرح سے شیعہ مذہب کا پیروکار نہیں کہا جاسکتا یہ اھل ِسنت کے چہیتے اشخاص میں سے ایک ہے بلکہ ان کی احادیث کا ثقہ راوی ہے۔ فقہ حنفی کے مطابق یزید (لا) تو رسول اللہ(ص) کا چھٹا خلیفہ ہے بحیثیت شیعہ اثنا عشری ہمارا عقیدہ ہے کہ ہمارے بارہ امام ہیں جو رسول اللہ کے برحق جانشیں و خلفاء ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ ہیں اور اس فہرست میں امام حسین (ع) کو ہم تیسرا امام تسلیم کرتے ہیں ۔ جہاں تک سُنی کتابوں سے ثبوت پیش کرنے کی بات ہے تو ہم احادیث پیش کرتے ہیں جیسے: حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ نبی (ص) نے فرمایا : اسلام کا معاملہ بارہ خلفاء کے پورے ہونے تک غالب رہے گا۔ پھر آپ (ص) نے ایسی بات فرمائی جسے میں نہ سمجھ سکا تو میں نے اپنے باپ سے کہا : آپ(ص) نے کیا فرمایا ؟ انہوں نے کہا: سب خلفاء قریشی خاندان سے ہونگے صحیح مسلم، ج 3 ص 133 حدیث 4709 ، مکتبہ رحمانیہ لاہور اھلِ سنت کے ایک معروف بزرگ اسکالر مُلا علی قاری ہیں جن کی کتاب ' شرح فقہ اکبر ' ہے اور جس کے پہلے ہی صفحہ پر وہ لکھتے ہیں کہ یہ کتاب اھل ِسنت والجماعت کے عقائد کو واضح کرتی ہے لہٰذا انصار ویب سائٹ کے پاس اس معذرت کی گنجائش نہیں کہ یہ محض ایک انفرادی نظریہ ہے۔ اس کتاب میں جو کچھ لکھا ہے وہ حنفی عقائد ہیں ۔ اسی کتاب میں مُلا علی قاری بیان کرتے ہیں کہ بارہ خلفاء کون ہیں۔ ابو بکر عمر عثمان علی معاویہ یزید عبدالملک بن مروان ولید بن عبدالملک بن مروان سلیمان بن عبدالملک بن مروان عمر بن عبدالعزیز یزید ابن عبدالملک بن مروان حشام بن عبدالملک بن مروان (ماخذ : شرح فقہ اکبر ، صفحہ 176 محمد سعید اینڈ سنز پبلشرز) یہاں یہ سوال کرنا بیجا نہ ہوگا کہ اس فہرست میں امام حسن(ع) کیوں نہیں ہیں ؟ کیا حنفی حضرات امام حسن (ع) کو خلیفہ تسلیم نہیں کرتے اگر ہاں تو ان کا نام اس فہرست میں کیوں موجود نہیں؟ بعد میں آنے والے علماء بھی حنفی عقائد کے وفادار رہے اور اس فہرت کت بالکل اسی طرح تسلیم کیا۔ اب ہم شمس الھند ، علامہ شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی کی مشہور کتاب ' سیرت النبی ' پیش کرتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالق ایک سُنی عالم ِ دین محمد عتیق الحق کے الفاظ کافی ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب 'ہیروز آف اسلام ' صفحہ 130 پر تحریر کئے: سیرت النبی رسول اللہ (ع) کی حیات طیبہ پر ایک انمول کتاب ہے اور اسے دنیا کی بہترین کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ شبلی نعمانی نے اس کتاب کی صرف چار جلدیں تحریر کیں جبکہ باقی جلدیں ان کے شاگرد سید سلیمان ندوی کی تحریر کردہ ہیں بارہ خلفاء کے متعلق علامہ شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی کا تبصرہ پیش ِ خدمت ہے جو انہوں نے کتاب 'سیرت النبی' میں تحریر کیا: صحیح بخاری کی کتاب عمارہ میں رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اسلامی حکومت قائم رہے گی جب تک بارہ خلفاء نہ گزر جائیں ۔ یہ خلافت تب تک اختتام پذیر نہیں ہوگے جب تک یہ بارہ حکمراں مملکت کی باگ ڈور حاصل نہ کر لیں ۔ اسلام ان حکمرانوں کی سربراہی میں محفوظ و معزز رہے گا۔ ابو داؤد کتاب المہدی میں لکھتے ہیں : دین قائم رہے گا جب تک بارہ لوگ اس پر حکمرانی نہ کرلیں اور امت ان کو تسلیم کرے گی ۔ قاضی عباس ان الفاظ کو یوں بیان کرتے ہیں : 'بارہ خلفاء جنہوں نے اسلام کی نصرت کی وہ نیک تھے'۔ حافظ ابن حجر ان بارہ خلفاء کو اس طرح شمار کرتے ہیں : ۔ ابو بکر ، عمر ،عثمان ۔ علی ، معاویہ ، یزید ، عبدالملک بن مروان ، ولید بن عبدالملک بن مروان ، سلیمان بن عبدالملک بن مروان ، عمر بن عبدالعزیز یزید ابن عبدالملک بن مروان ، حشام بن عبدالملک بن مروان سیرت النبی ، جلد 3 صفحہ 380 مکتبہ مدینہ لاہور انہی بارہ خلفاء والی احادیث پر تبصرہ کرتے ہوئے اس صدی کے حنفی اسکالر حکیم محمود احمد ظفر سیالکوٹی اپنی کتاب "سیدنا معاویہ : شخصیت اور کردار" کے صفحہ 216 پر لکھتے ہیں: اب یہ نیک دل اور صالح بارہ خفاء جن کے دور ِ حکومت میں اسلام عزیز اور مستحکم ہوگا اور ان کا نظام ِ حکومت قرآن و سنت کے مطابق ہو گا دنیا میں ہر جانب رشد و ہدایت اور انصاف کا دور دورا ہوگا۔ وہ ہیں کون ؟ مُلا علی قاری جو ایک مشہور محدث اور فقہ ہیں اس حدیث کے بارہ خلفاء کا تعیین فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :'بارہ خلفاء سے مراد ابو بکر ، عمر ،عثمان ۔ علی ، معاویہ ، یزید ، عبدالملک بن مروان ، ولید بن عبدالملک بن مروان ، سلیمان بن عبدالملک بن مروان ، حشام بن عبدالالک اور ، عمر بن عبدالعزیز یزید ہیں ( ماخذ : شرح فقہ اکبر ، ص 184 ، فتح الباری ، ج 3 ص 182 ) ۔' مُلا علی قاری کے مطابق مندرجہ بالا بیان سے واضح ہے کہ معاویہ خلیفہ ِ راشد ہیں اگر یہ اٹل ہے کہ یہی بارہ اشخاص اصل خلفاء ہیں جو خلفاء قرآن و سنت کے مطابق حکمرانی کرینگے تو اس اعتبار سے یزید بھی نواصب کے ایک خلیفہ راشد ہوا۔ آپ لوگوں کا ناصبی مصنف ایک بہت دلچسپ سوال کرتا ہے : آپکے کہںے کا مقسد اور اگر ہمیں یہ ماننا پڑے کہ اُن میں سے اکژ مذھبی اعتبار سے شیعہ نہیں تھے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اصل شیعہ اُس وقت کہاں تھے جب ان کے امام کو ان کی ضرورت تھی؟ ہم پہلے ہی یہ واضح کر چکے ہیں کہ ناصبیوں کے امام معاویہ کے دور میں شیعان ِ علی (ع) کی اکثریت نیست و نابود کردی گئی تھی ۔ اگر ناصبیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ شیعان ِ علی نے امام حسین کا قتل کیا تو پھر اکثریت میں موجود اھل ِسنت حضرات امام حسین (ع) کی مدد کے لئے کیون نہیں آئے ؟ آخر وہ لوگ اکثریت میں تھے اور ان کے ہزاروں پیروکار تھے ، اُن کی اُس وقت کیا پوزیشن تھی ؟ کیا اھل ِسنت نے امام حسین کی مدد و حمایت کی یا پھر وہ یزید (لا) کے ساتھ تھے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب سپاہ صحابہ اور آپ جیسے ناصبیوں کے پاس نہیں لیکن اگر وہ یہ دعویٰ کریں گے کہ امام حسین کی مدد کرنا لازمی نہیں تھا تو ان کے لئے رسول اللہ (ص) کی ایک حدیث پیش ِ خدمت ہے۔ امام ِ اھل ِسنت علامہ جلال الدین سیوطی صحابی انس بن حارث سے بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ کو کہتے سنا : تحقیق میرا بیٹا حسین کربلا کی زمین پر قتل کردیا جائیگا، تم میں سے جو بھی اُس وقت زندہ ہو وہ جائے اور اس کی مدد کرے خصائص الکبریٰ ، ج 2 ص 125 اب ناصبی ہمیں بتائیں کہ: 1۔ کیا جنہیں آپ صحابہ و تابعین کہتے ہیں انہوں نے اس حدیث کا پاس رکھا اور امام حسین کی مدد کی؟ 2۔ کیا آپ کے چہیتے اور معزز عبدللہ ابن عمر امام حسین کی مدد کے لئے آئے ؟ 3۔ جب یہ فرض تھا کہ امام حسین کی نصرت کی جاتی تو آپ کے چہیتے صحابہ و تابعین نے یزید (لا) سے وفاداری کا عہد کیوں کیا حتیٰ کہ واقعہ کربلا کے بعد بھی یزید کی حمایت کرتے رہے؟ 4۔ ابن عمر کی یزید (لا) کے لئے وفاداری ایسی تھی کہ بقول انہی کے جو بھی یزید کا ساتھ چھوڑدے اُس کے اور اُن کے درمیان کوئی تعلق نہیں جبکہ رسول اللہ نے فرمایا کہ امام حسین کی مدد کرنا لازم ہے۔ تو اھل ِسنت کس کے الفاظ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ، ابن عمر کے یا رسول اللہ (ص) کے؟ تلخ حقیقت یہی ہے کہ آج جو اہل سنت اکژیت میں ہیں ان کے اجداد نے اُس وقت یزید (لا) کی بیعت کر لی تھی اور اُس کی قولأ فعلأ مدد کا اقرار کیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی اُن قاتلوں کو معتبر اور یزید (لا) کی خلافت کو جائز تسلیم کرتے ہیں اور اگر کو ئی اس تلخ حقیقت کو جھٹلانا چاہتا ہے تو ہم ناصبی ویب سائٹس کو چیلنج کرتے ہیں کہ اس بات کی تردید ثابت کریں۔ ناصبیوں کی جانب سے یزید (لا) کی حمایت ھم دیکھتے ہیں کہ ناصبیوں کے سلف اماموں نے یزید (لا) کے متعلق کیا تحریر فرمایا۔ اس سلسلے کی شروعات ہم اھل ِسنت کے امام عبدالحامد غزالی سے کرینگے ۔ ایک سوال کے جواب میں ابن خلکان امام غزالی کا فتوی نقل کرتے ہیں: سوال : اس شخص کے مطالق کیا رائے رکھی جائے جو یزید پر لعنت بھیجتا ہے اور اُسے فاسق تسلیم کرتا ہے اور دوسروں کو اُس پر لعنت بھیجنے کی ترغیب دیتا ہے ؟ کیا یزید کی کوشش حسین کو قتل کرنے کی تھی یا اس کے افعال اس کے دفاع پر مبنی تھے ؟ کیا اُس کے نام ساتھ رحمۃ اللہ کہہ سکتے ہیں یا پھر خاموشی اختیار کرنا بہتر عمل ہے ؟ جواب: یہ بالکل جائز نہیں کہ کسی بھی مسلمان پر لعنت کی جائے اور ایسا کرنے والا خود لعنتی ہے اور پھر مسلمان کی لعنت کس طرح جائز ہوسکتی ہے جبکہ اس سلسلے میں واضح ممعانیت ہے ۔یزید کا مسلمان ہونا ، اس کا حضرت حسین کے قتل سے لاتعلق ہونا اور نہ ہی اس پر اُس کا خوش ہونا یہ سب معتبر روایات سے واضح ہیں۔ جب حضرت حسین کے قتل میں اُس کا کردار ہونا ثابت نہیں تو اس کے مطالق منفی خیالات رکھنا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ یہ بنا ثبوت کسی مسلمان کے بارے میں برے خیالات رکھنے کے مترادف ہے جو حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :' اے ایمان والوں بہت گمان کرنے سے بچا کرو کے بعض گمان گناہ ہیں '۔ اب جہاں تک یزید کو رحمت کی دعایں دینے کی بات ہے تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب بھی ہے ، یہ ایسا ہر نماز کے بعد کرتے ہیں جو کہ ایک جامع دعا ہے : 'اے اللہ : تُو تمام مومن مرد اور مومن عورتوں کو معاف فرما کیونکہ وہ ایک مومن تھا حوالاجات: 1۔ تاریخ ابن خلکان ، ج 1 ص 413 ؛ ذکر عاقل بن حارث 2۔ تفسیر روح المعانی ، ج 26 ص 73 ؛ سورۃ محمد آیت 23 3۔ حیات الحیوان ، ص 196 تو امام ِ اھل ِسنت امام غزالی کی نگاہ میں: 1۔ جو یزید پر لعنت کرے وہ خود لعنتی ہے 2۔ یزید مومن تھا 3۔ یہ بات ثابت نہیں کہ اُس نے امام حسین (ع) کا قتل کیا 4۔ یزید کو رحمۃ اللہ کہنا جائز ہے 5۔ ہمیں ہر نماز کے بعد یزید کے لئے دعا کرنی چاہئیے امام غزالی اھل ِسنت کے معزز ترین اماموں میں سے ایک اور سلفیوں کے وہ امام ہیں جو یزید (لا) کی فخریہ حمایت کرتے ہیں ۔ کیا ناصبی ہمیں بتا سکتے ہیں کہ وہ امام غزالی جیسے انسان کو اپنا راہ نماء کیسے مان لیتے ہیں ؟ یا پھر جو امام غزالی جو کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے کھلے لفظوں میں کہا جبکہ عام ناصبی اس کو کھلے عام تسلیم کرنے سے کتراتے ہیں ؟ غزالی کی نگاہ میں یزید کی حمایت اور امام حسین (ع) کی شہادت کا موازنہ کچھ یوں ہے۔ امام غزالی فرماتے ہیں: یہ لوگوں کے لئے گناہ ہے کہ وہ حسن اور حسین کی شہادت کا تذکرہ کریں کیونکہ خاندان ِ رسول (ص) پر گزری مشکلات کو بیان کر نا صحابہ سے نفرت پیدا کرتا ہے (صوائق محرقہ) تو حجۃالاسلام عبدالحامد غزالی ایک جانب یزید (لا) کی کھلی حمایت کر رہے ہیں اور دوسری جانب اہل بیت پر گزری مشکلات کو بیان کرنے سے منع کر رہے ہیں! قاضی ابو بکر ابن عربی ناصبیوں یا سلفیوں کے ایک اور پسندیدہ اسکالر ہیں جن کے شیعہ مخالف فتاویٰ ناصبی ویب سائٹس پر جابجا ملتے ہیں۔ تو آئیے اب ہم ابن عربی کی جانب سے یزید(لا)اور اس کے مشیر مروان کو عطا کردہ رتبہ کا جائزہ لیں۔ مروان کے متعلق ابن عربی فرماتے ہیں: مروان اور یزید کے متعلق جو ناقدین یہ کہتے ہیں کہ دونوں فاسق تھے وہ خود فاسق ہیں۔ صحابہ ، فُقہہ اور تابعین کی نگاہوں میں مروان ایک اچھا شخص تھا ۔ وہ امت کے بلند رتبہ لوگوں میں سے تھا االعواصم من القواصم، ص 88 ۔ 89 یزید (لا) کے سلسلے میں ابن عربی کا فتوٰی کچھ یوں ہے: اگر ہم کہیں کہ علم و انصاف خلیفہ ہونے کے لئے بنیادی خصوصیات ہیں تو کچھ یہ دعویٰ کرینگے کہ یزید نہ ہی عادل تھا اور نہ ہی عالم۔ ہم پوچھنا چاہینگے: آپ کے اس دعویٰ کا ذریعہ و حوالہ کیا ہے کہ یہ خصوصیات یزید میں موجود نہ تھیں؟ اگر واقعی ایسا ہی ہوا تو ابن زبیر اور حسین بن علی ہمیں ضرور خبر کرتے ابن عربی کی جانب سے یزید (لا) کی حمایت جاری ہے: اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ یزید نے شراب پی تو ہم {کہیں گے کہ یہ دعویٰ تب تک ثابت نہیں ہوسکتا جب تک اس سلسلے میں دو گواہ نہ ہوں ۔ یزید کے خلاف کس نے گواہی دی ؟ اس کے بر عکس ایک معقول شخص یحییٰ بن بکیر نے لیس ب سعد سے روایت کی ہے کہ ' امیر المومنین یزید کا وصال اس دن ہوا۔۔۔ '۔ لیس نے یزید کو تب امیر المونین کہا جب اُس کی خلافت ختم ہوچکی تھی ۔ اگر لیس کو معلوم ہوتا کہ کوئی ایسی بات تھی تو وہ یزید کے مرنے کے بعد اُسے امیر المومنین نہ پکارتا االعواصم من القواصم، ص 227 اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ناصبی انصار ویب سائٹ اپنے سلف ابن عربی کی راہ پر گامزن ہیں اور اس ویب سائٹ کے ناصبی مصنف ابوسلیمان نے بھی اسی حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کی ہے کہ یزید شرابی تھا ۔ الحمداللہ ہم نے اپنے آڑتیکل "معاویہ" میں اس سلسلے میں کئی ثبوت پیش کئے ہیں اور ان میں سے چند ہم یہاں بھی پیش کرنا چاہینگے تاکہ ناصبیوں کی جانب سے یزید (لا) کی حمایت کھُل کر سامنے آجائے۔ آپ تو یہ بھی کہتے ہو: یہ بھی جھوٹ ہے کہ یزید شرابی تھا۔ ہم اس بات کا جواب محمد بن علی بن ابی طالب سے لینگے کیونکہ انہوں نے یزید کے ساتھ کچھ وقت گزارا تھا۔ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں لکھتے ہیں: 'جب مدینہ کے لوگ یزید کے یہاں سے واپیس آئے تو عبداللہ بن متیہ اور اس کے ساتھی محمد ابن الحنفیہ کے پاس پہنچے۔ وہ چاہتے تھے کہ محمد یزید کو بر خاست کرنے کے لئے راضی ہو جائے لیکن محمد نے یہ مسترد کردیا۔ ابن متیہ نے کہا : یزید شراب پیتا ہے، نماز نہیں پڑھتا اور کتاب کے قانون کو نظر انداز کرتا ہے۔ محمد نے جواب دیا: میں نے کبھی اُسے ایسا کرتے نہیں دیکھا جیسا تم اس کے مطالق کہہ رہے ہو۔ میں یزید کے پاس آیا اور اس کے ساتھ کچھ عرصہ رہا ، میں نے اُسے نماز کا خیال رکھتے دیکھا ، اچھایت کی تلاش میں دیکھا ، فقہ کے مطالق سوالات کرتے اور سنت سے منسلک ہوئے دیکھا۔ انہوں نے کہا : وہ ایسا دکھاوا کرہا تھا۔ وہ مجھ سے کیوں ڈرے یا خوشامد کرے جو مجھ پر اچھایت ظاہر کررہا ہے ؟ کیا اس نے کبھی تمہارے سامنے شراب پی ؟ اگر اس نے ایسا کیا تو تم اس کے حصہ دار ہو اور اگر نہیں تو یہ جائز نہیں کہ تم اس کی گواہی دو جس کے مطالق تم جانتے ہی نہیں ۔ ہم نے اگر نہیں بھی دیکھا پھر بھی ہمارے لئے سچ ہے۔ محمد نے کہا : اللہ نے گواھان پر اس بات کو منع کیا ہے کہ 'اور جو لوگ سمجھ بوجھ کر حق بات کی گواھی دیں (تو خیر)۔' اور مجھے تم سے مزید کچھ نہیں کہنا۔ انہوں نے کہا : شائد تم یہ نہیں چاہیے کہ تمہارے علاوہ کوئی باگ ڈور سنبھالے اس لئے ہم تمہیں اپنی حکمرانی دیتے ہیں۔محمد نے جواب دیا۔ میں اس لڑائی کو اپنے لئے جائز نہیں سمجھتا ، نہ ہی لیڈر کی حیثیت سے اور نہ ہی حکمران کی حیثیت سے ۔ انہوں نے کہا : لیکن تم اپنے والد سے تو لڑے تھے۔ محمد نے جواب دیا۔ مجھے لڑنے کے لئے میرے والد جیسا ہی کوئی لادو جو ویسے ہی لڑے جیسے میرے والد لڑاے۔ انہوں نے کہا : پھر تم اپنے بیٹوں ابولقاسم اور قاسم کو ہمارے ساتھ لڑنے کے لئے بھیج دو ۔ اگر میں بھی لڑتا تو انہیں حکم دیتا۔ انہوں نے کہا: کم ازکم ہمارے سے مل کر لوگوں کو لڑنے کے لئے آمادہ تو کرو۔ محمد نے کہا : تعریف اللہ کے لئے ! کیا تم مجھے لوگوں کو اُس بات کا حکم دینے کے لئے کہہ رہے ہو جو میں خود نہ کروں اور نہ قبول کروں ؟ لہٰذا میں اللہ کی خاطر اللہ کے غلاموں کو لڑنے کا حکم نہیں دونگا۔ انہوں نے کہا : تو پھر ہم تم پر زور ڈالینگے۔ محمد نے جواب دیا : تو میں لوگوں کو حکم دونگا کہ وہ اللہ سے ڈریں اور خالق کے غضب سے بچنے کے بدلہ میں خلائق کو ناخوش نہ کریں۔ پھر محمد نے مکہ چھوڑ دیا' البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 234؛ ابن کثیر تو یہ تھے ناصبی ابو سلیمان ۔ اور اب واپس چلتے ہیں ابن عربی کی جانب جن کی تحریروں میں صرف یزید (لا) کی تعریف نہیں بلکہ امام حسین (ع) پر حملے بھی ہیں جو اس اسکالر کے ناصبی عقیدہ کی درست ترجمانی کرتا ہے۔ امام حسین (ع) کی اختیار کردہ حکمت ِ عملی پر ناصبی ابن عربی لکھتا ہے: حسین نے ابن عباس کے الفاظ پر کان نہ دھرے جو اپنے دور کے بلند پایہ عالم تھے اور نہ ہی حسین نے صحابی ابن عمر کی سنی۔ انہوں نے بغاوت کی ۔ وہ جوان بنناچاہتےتھے جبکہ دز حقیقت وہ بوڑھے تھے ، لوگ ان کے ساتھ موجود نہیں تھے، ان کے پاس اپنی حکمت ِ عملی کی حمایت کے لئے مددگار نہیں تھے ، نہ ہی ان کے پاس لوگ تھے جو اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہوں ۔۔۔ جب انہوں نے بغاوت کی تو کسی نے بھی ان کی مدد نہ کی۔ تمام انبیاء میں رحیم ان کے نانا ننے تنازعات کی پیشن گوئی اور فتنہ سے خبردار کیا تھا ، اسی لئے حسین یزید سے لڑے االعواصم من القواصم، ص 231 ۔ 232 تو ابن عربی لوگوں کو یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ: 1۔ یزید حق کے ساتھ تھا 2۔ یزید کا طریقہ حدیث کے مطابق تھا 3۔ امام حسین نے ابن عباس اور ابن عمر کی بات نہ سُنی اور بغاوت کی 4۔ امام حسین نے رسول اللہ (ص) کی الفاظ کے خلاف عمل کیا نواصب اپنے پیروکاروں کو یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ امام حسین بغاوت کرتےہوئے ہلاک ہوئے۔ یہ ایک نازک اور اہم مسئلہ ہے کیونکہ شریعت میں ایک باغی کو شہید قرار نہیں دیا جاتا یہاں تک کہ باغی کی نماز جنازہ بھی نہیں ادا کی جاتی۔ یہاں یہ بھی واضح کردیا جائے کہ انصار ویب سائٹ کے مصنف ابو سلیمان نے یزید کو سچائی کی مورت ثابت کرنے کے لئے ناصبی اسکالر ابن خلدون کی تحریر کا سہارہ لیا ہے ۔ یہ ایک دلچسپ پات ہے کہ مبیّنہ سُنی حضرات ابن خلدون جیسے ناصبی کے الفاظ پر انحصار کر تے ہیں جس کے دل میں بغض ِحسین بھرا ہوا تھا اور دیوبند مذھب کے نامور عالم ِدین مفتی نظام الدین شامزئی نے اپنی کتاب 'عقیدہ ظہور مھدی' کے ص 113 پر ابن خلدون کو واضح طور پر ناصبی قرار دیا ھے اور امام سخاوی کی کتاب 'الضوء الامع لاھل القرن التاسع' سے یہ بھی درج کیا ھے کہ ابن حجر عسقلانی نے اپنے استاد ابن حجر حیثمی کے الفاظ کو نقل کرتے ہوئے لکھا: جب ہمارے شیخ نے حسین کے متعلق ابن خلدون کے الفاظ سنے کہ وہ اپنے نانا کی تلوار سے قتل کئے گئے تو انہوں نے ابن خلدون پر لعنت کی اور رونے لگے یزید سنی مسلمان تھا ہم اہل سنت کی کتاب "شرح قصیدہ " صفحہ 16 پر پڑھتے ہیں: کافر کے علاوہ کسی مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں اور یزید کافر نہیں بلکہ ایک سُنی مسلمان تھا جب اھل ِسنت حضرات نے خود یزید کو سُنی قرار دے دیا ہے تو قاتلین ِ حسین پر مزید بحث کرنے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ مُلا علی قاری الحنفی ، ابن حجر مکی ، امام غزالی اور ابن کثیر پر لعنت کرنے سے منع کیا ہے اور یہ وہ علماء ہیں جو قاتلین ِ حسین کی حمایت کرتے ہیں ، ان کے تحاریر اور تبصروں سے یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ یزید کو اپنا خلیفہ و امام تسلیم کرتے ہیں اور یزید کے مذھب کا اندازہ اُس مذھب سے لگایا جاسکتا ہے جس کے پیروکار یہ علماء ہیں۔ ہم نے علماء کی یہ چند مثالیں یہ واضح کرنے کی عرض سے پیش کی ہیں کہ یہ افراد سُنی کہلائے جاتے ہیں جبکہ در حقیت یہ ناصبی ہیں جن کے دلوں میں گہرائی تک یزید کے لئے ہمدردیاں موجود تھیں۔ ہم اھل ِسنت حضرات سے یہ گزارش کرینگے کہ وہ ان نواصب کی چالوں میں نہ آئیں جو اہل ِ بیت سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ ان کے اصل عقائد یاد ِ حسین کی توہین ہیں ۔ ان ناصبیوں کی چالوں کا مقصد: 1۔ یزید (لا) کا دفاع کرنا 2۔ یزید (لا) کے غیر موجودہ اخلاق کی تعریف 3۔ یزید (لا) کو برائیوں سے مبرہ ظاہر کرنا 4۔ یزید(لا) پر لعنت کرنے کی مخالفت کرنا ہے۔ اُن حضرات کے لئے جو کہ ناصبی چالوں کا شکار ہوسکتے ہیں ، ہم اس باب کا اختتام اھل ِسنت کے ایک اسکالر سید محمود آلوسی کے الفاظ پر کرتے ہیں۔ اپنی شہرہ آفاق تفسیر ِ قرآن میں لکھتے ہیں: وہ جنہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ یزید قصوروار نہیں تھا اور اس پر لعنت نہیں کرنی چاہئے یا یہ کہ اُس نے کوئی بڑا گناہ نہیں کیا وہ دراصل خود یزید کے مددگار ہیں تفسیر روح المعانی ، حصہ 26 آپکے ایڈمن اور ان کے دیگر ناصبی بھا ئیوں کے لئے کچھ سوالات ہم یزید کے لئے ناصبیوں کی حمایت ثابت کر چکے ہیں۔ شائد انصار ویب سائٹ کا مصنف افریکی ہمیں چند سوالات کا جواب دینا پسند کرے: 1۔ اھل ِسنت کی معتبر کتاب ِ حدیث ' مشکواۃ المصاببح ، ج 3 ص 244 میں ہم یہ حدیث شریف پڑھتے ہیں: یا اللہ ! میں ان دو ( حسن و حسین ) سے محبت کرتا ہوں تُو بی اُن سے محبت فرما جو ان سے محبت کریں کیا آپ اس حدیث کو قبول کرتے ہیں؟ اگر ہاں تو کیا اللہ شیعوں سے محبت نہیں کرتا ؟ 2۔ اگر اللہ تعالیٰ شیعوں سے محبت کرتا ہے تو وہ ان کے دشمنوں سے محبت کرےگا یہ نفرت ؟ 3۔ جب آپ اور آپکے ناصبی علماء امام حسین کو باغی تسلیم کرتے ہیں تو اس کو ہم امام ُحسین سے محبت سمجھیں؟ 4۔ ابن عساکر اپنی کتاب " مشبہات السنۃ " صفحہ 219 میں حضرت عائشہ سے ایک حدیث روایت کرتے ہیں: اے اللہ ! اپنی رحمت لعنتی قاتل یزید پر کبھی نہ نچھاور کر ، یہ میرے محبوب حسین کے خلاف بغاوت کرے گا اور اسے شہید کرے گا جب حضرت عائشہ سے روایت شدہ یہ حدیث موجود ہے تو آپکے ناصبی بزرگوں کو اتنی جرئت کیوں کر ہوئی کہ وہ یزید کی حمایت کریں اور اُسے ہر گناہ سے بری قرار دیں؟ 5۔ جب رسول اللہ نے یزید کو لعتنی قرار دیدیا تو امام غزالی جیسے آپکے علماء نے یزید پر لعنت کرنے سے کیوں منع کیا ؟ کیا یہ رسول اللہ (ص) کے الفاظ سے مخالفت نہیں؟ 6۔ اس حدیث میں رسول اللہ نے یزید کا واضح طور پر لعنتی اور قاتل کہا ہے تو کیا یہ حدیث یزید لعنتی و جہنمی ہونے کے لئے کافی نہیں؟ 7۔ جب رسول اللہ (ص) نے یزید کو باغی قرار دیدیا تو آپکے ناصبی علماء ایسے فتوں پر انحصار کیوں کرتے ہیں جو یزید کی خلافت کو برحق ظاہر کرتے ہیں؟ باب نمبر 13 امام ِ اھل ِبیت کی اپنے شیعوں پر تنقید آپکے کہنے کا مطلب ساٹھ سال بعد سیدنا حسین کے پوتے زید بن علی بن حسین نے اموی حاکم ھشام بن عبدالمالک کے خلاف بغاوت کی قیادت کی ۔ ان کو چالیس ھزار آدمیوں کی بیعت ملی جن میں سے پندرہ ہزار اُسی کوفہ کے تھے جنہوں نے ان کی دادا سے دھوکہ بازی کی تھی۔ جنگ شروع ہونے سے قبل کچھ لوگوں نے زید سے ابوبکر اور عمر کے متعلق ان کی رائے جاننے کی کوشش کی تو زید نے کہا : میں نے اپنے خاندان میں کسی کو ان دونوں سے لا تعلقی قائم رکھتے ہوئے نہیں سُنا اور میرے پاس ان دونوں کے لئے اچھا کہنے کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اس جواب سے ناخوش ہونے کے بعد لوگوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور یہ فیصلہ کیا کہ اصل امام صرف ان کے بھتیجے جعفر صادق ہی ہوسکتے ہیں۔ چالیس ہزار آدمیوں میں سے زید صرف چند سو لوگوں کے ساتھ رہ گیا۔ دغہ بازوں کے جانے پر زید نے کہا: میں سمجھتا ہوں انہوں نے میرے ساتھ ویسا ہی کیا جیسا انہوں نے حسین کے ساتھ کیا ۔ زید اور اس کی مختصر سی فوج بہادری کے ساتھ لڑی اور شہادت حاصل کی۔ لہٰذا بدھ 1 سفر 122ھ کو اھل ِبیت کا ایک اور فرد کوفہ کے شیعوں کی دغابازی کا شکار ہوا۔ اس مرتبہ کوئی شبہ و سوال نہیں کہ جن لوگوں نے زید سے دھوکہ بازی کی وہ شیعہ تھے یا نہیں۔ ھزاروں شیعوں جنہوں نے زیدبن علی کو دھوکہ دیا انہوں نے جعفر صادق کو اپنا امام دیکھا ، یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب وھی شیعہ تھے جو آج شیعہ اثنا عشری عرف امامی یا جعفری ہیں ناصبی ویب سائٹ کی جانب سے یہ نہایت غلط دعویٰ ہے۔ اگر وہ افراد امام جعفر صادق (ع) کو اپنا امام وقت تسلیم کرتے تو انہوں نے امام ِ برحق کو چھوڑ کر ہدایت کے لئے زید بن علی سے رجوع کیوں کیا جو کہ اھل ِبیت کے اماموں میں سے نہیں ؟ شیعہ اثنا عشری مذہب میں جہاد کا حکم دینا صرف امام ِ وقت کا کام ہوتا ہے۔ ناصبی مصنف نے خود اقرار کیا ہے کہ شیعہ اثنا عشری امام جعفر صادق کو اپنا امام تسلیم کرتے ہیں ، تو جب امام جعفر صادق (ع) نے جہاد کا حکم دیا ہی نہیں تو ان کے پیروکار کسی دوسرے کی امامت میں جہاد کرنے کیسے جا سکتے ہیں ؟ شیعہ اثنا عشری وہ تھے جو ٹھیک امام جعفر صادق (ع) کا والد امام باقر کے وقت سے انہیں اپنا امام تسلیم کرتے تھے۔ وہ امام جعفر صادق کی امامت کے علاوہ اور کہیں نہیں بھٹکے اور نہ ہی کبھی انہوں نے زید بن علی کی امامت قبول کی۔ وہ لوگ جو زید بن علی کی جانب گئے ، ہو سکتا ہے کہ اُن کے دلوں میں اھل ِبیت کے لئے ہمدردی اور بنو امیہ کے لئے نفرت رہی ہو لیکن ذرہ دیر کے لئے بھی زید بن علی کو اپنا امام تسلیم کرتے ہوئے اس کی امامت میں داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس عقیدہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے جسے آپ آج شیعہ اثنا عشری کہتے ہیں۔ یہاں ہم یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ ابو ظہرہ کی تحاریر میں ہمیں ملتا ہے: آپکے کہنے کا مطلب ۔۔جنگ شروع ہونے سے قبل کچھ لوگوں نے زید سے ابوبکر اور عمر کے متعلق ان کی رائے جاننے کی کوشش کی تو زید نے کہا : میں نے اپنے خاندان میں کسی کو ان دونوں سے لا تعلقی قائم رکھتے ہوئے نہیں سُنا اور میرے پاس ان دونوں کے لئے اچھا کہنے کے سوا اور کچھ نہیں ایسی صورت ممکن نہیں کیونکہ حضرت علی (ع) شیخین سے نالاں تھے اور یہ حقیت امام مسلم نے اپنی کتاب میں نقل کی ہے۔ ۔۔۔ جب رسول اللہ کی وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر نے فرمایا : میں رسول اللہ کا ولی ہوں اور تم دونوں اپنی وراثت لینے آئے ہو۔ حضرت عباس تو اپنے بھتیجے (محمد) کا حصہ اور علی اپنی بیوی (فاطمہ) کا حصہ ان کے باپ کے مال سے مانگتے تھے ۔ حضرت ابو بکر نے کہا کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا جو کچھ ہم (پیغمبر) چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور تم ان کو جھوٹا ، گناہ گار اور خائن سمجھتے ہو؟ اور اللہ جانتا ہے کہ وہ سچے ، نیک اور ہدایت یافتہ تھے اور میں حق کاطابع ہوں اور اس کے مال کا بھی ولی ہوں اور پھر تم میرے پاس آئے تم بھی ایک ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے ۔ تم نے کہا کہ یہ مال ہمارے حوالے دیں۔ میں نے کہا کہ میں اس شرط پر مال تمہارے حوالے کر دونگا کہ تم اس مال میں وہی کچھ کروگے جو رسول اللہ (ص) کیا کرتے تھے اور تم نے یہ مال اسی شرط سے مجھ سے لیا۔ پھر حضرت عمر نے ان سے فرمایا : تم دونوں اپنے درمیان فیصلہ کرانے کے لئے میرے پاس آئے۔ اللہ کی قسم میں قیامت تک اس کے علاوہ کوئی فیصلہ نہیں کرونگا اگر تم سے اس کا انتظام نہیں ہوسکتا تو یہ مال مجھے لوٹا دو صحیح مسلم (مترجم) ج 3 ص 48 حدیث 4577 ؛ مکتبہ رحمانیہ لاہور جب عمر خود گواہی دیے رہے ہیں کہ امام علی ان کو اور ان کے پچھلے خلیفہ ابو بکر کو جھوٹا ، گناہ گار ، دھوکہ باز اور بے ایمان تسلیم کرتے تھے تو کیا یہ عقل سے بالاتر بات نہیں کہ امام علی کی آراء ان کے بعد اور اھل ِبیت تک نہ پہنچے؟ کیا بعد میں امام اُن لوگوں کے بارے میں اچھا بول سکتے تھے جنہیں ان کے دادا جھوٹا ، گناہ گار ، دھوکہ باز اور بے ایمان تسلیم کرتے تھے؟ آپکے کہنے کا مطلب اگر امام جعفر صادق کے پاس بیشمار وفادار پیروکار تھے تو وہ امویوں یا عباسیوں کے خلاف بغاوت کے لئے کیوں نہیں اٹھے ۔ اس بات کا جواب ہمیں اس روایت میں ملتا ہے جو ابو جعفر کلینی نے اپنی معروف کتاب الکافی میں درج کی ہے جو شیعہ حدیث مجموعہ میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ سدیرفی کہتا ہے : میں ابو عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے کہا :بخدا آپ کو ہتھیار اُٹھانے سے کترانا نہیں چاہئے ۔ انہوں نے پوچھا کیوں ؟ میں نے جواب دیا: کیونکہ آپ کے ساتھ بہت سارے پیروکار ، شیعہ اور مددگار ہیں۔ بخدا اگر امیرالمومنین علی کے ساتھ اتنے شیعہ ، پیروکار اور مددگار ہوتے جتنے آپ کے ساتھ ہیں تو بنوتیم ( ابوبکر کا قبیلہ) اور بنو عدی ( عمر کا قبیلہ )نے ان پر کبھی چالیں نہ چلیں ہوتیں ۔ انہوں (ع) نے پوچھا: تو کتنے ہونگے سدیر؟ میں نے کہا : ایک لاکھ۔ انہوں نے پوچھا ایک لاکھ؟ میں نے کہا : ہاں اور دو لاکھ۔ انہوں نے پوچھا : دو لاکھ؟ میں نے کہا: ہاں اور آدھی دنیا۔ انہوں(ع) نے کہا: کیا تم ینبہ تک ہمارے ساتھ چلوگے؟ میں نے مثبت میں جواب دیا۔ انہوں نے ایک خچر اور ایک گدھا کی ذین آراستہ کرنے کا حکم دیا۔ میں جلدی سے گدھہ پر سوار ہوگیا۔ انہوں نے کہا: سُدیر! کیا تم گدھے پر مجھے سوار ہونے دوگے ؟ میں نے کہا : خچر ذیادہ پُر شوکت ہے۔ لیکن انہوں نے کہا : میرے لئے گدھہ ذیادہ آرام دہ ہے۔ لہٰذا میں اُتر گیا۔ وہ گدھے پر سوار ہوئے اور میں خچر پر اور ہم نے سفر شروع کیا ۔ نماز کا وقت آیا تو انہوں نے فرمایا: اُتر جاؤ سدیر!آؤ نماز بجا لائیں ۔ پھر انہوں نے کہا کہ یہاں کی ھاس زیادہ اُگ گئی ہے اور نم بھی ہے، یہاں نماز پڑھنا جائز نہیں ۔ پھر ہم سفر کرتے رہے جب تک ہم ایسی زمین پر نہ پہنچ گئے جو لال تھی۔ انہوں (ع) نے ایک بچہ کو دیکھا جو دنبے چرا رہا تھا اور فرمایا: سدیر! بخدا میرے پاس اتنے شیعہ ہوتے جتنے یہاں دنبے ہیں تو میرے لئے ہتھیارہ اُٹھانے سے اجتناب کرنا ممکن نہ ہوتا۔ پھر ہم اترے اور نماز پڑھی ۔ جب ہم نے نماز ختم کی تو میں نے دنبوں کو شمار کرنے آیا۔ وہ سترہ تھے"۔ اس روایت سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ واقعہ کربلا نے امام جعفر صادق کو ان لوگوں کے بارے میں کچھ سکھا دیا تھا جو ان کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اور جس سے شیعہ آج بھی ماننے سے انکار کرتے ہیں یعنی خاندان ِ رسول اللہ کے وقتِ امتحان اور مصائب کے دوران ان کے اصل دشمنوں سے زیادہ انہی کے شیعوں کا کردار اگر بے انتہا نہیں تو بہت ضرور ہوتا ہے۔ یہ روایت ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے اماموں (ع) کی نگاہ میں ' شیعہ ' کی تعریف کتنی سخت ہے۔ امام (ع) کے ارد گرد ھزاروں شیعہ تھے لیکن اس کے باوجود ان کی نظز میں صرف چند ہی قولاً فعلاً اصل شیعہ تھے۔ امام کی نگاہ میں صرف وہ ہی اصل شیعہ تھے جو اپنے ہر ایک عمل میں امام کا اتباع کریں اور ذرہ سی بھی سرکشی کا مطلب کہ وہ امام کی نگاہ میں اصل شیعہ نہیں ۔ اگر یہ روایت کچھ ظاہر کرتی ہے تو وہ امام کی جان سے ان کے شیعوں کے انتہائی بلند پایہ ہونے کی امید و خواہش ہے۔ امام (ع) کے پاس ھزاروں شیعہ موجود تھے جو تعریف کی بنا پر ان کی شیعہ تھے لیکن اس کے باوجود امام نے ان میں سے صرف سترہ کو اپنے ساتھ شہادت پانے کے قابل سمجھا۔ اگر اس وضاحت کے بعد بھی ناصبی اس روایت کو مسئلہ بنانا چاہتے ہیں اور یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ شیعوں کی بزدلی کو ظاہر کرتی ہے تو شائد وہ ہمیں بتانا پسند کریں کہ ایسے کتنے صحابی تھے جو رسول اللہ (ص) کی لئے اپنی جان قربان کرنے کے لئے ہر لمحہ تیار تھے ؟ تاریخ کے صفحات بیان کرتے ہیں کہ جنگ ِ احد کے دوران صحابہ کی بڑی تعداد میدان ِ جنگ سے بھاگ کھڑی ہوئی تھی جن میں عمر بھی شامل تھے جو غم ذدہ بیٹھ کر یہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ (ص) قتل کر دئے گئے تھے لہٰذا جنگ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ گئی تھی۔ حوالہ: ۔ سیرات النبی ، ج 2 ص 66 ۔ 67 ، از علامہ شبلی نعمانی ؛ انگریزی ترجمہ ایم۔ طیب بخش بدینی۔ پہلا ایڈیشن ۔ قاضی پبلکیشن لاہور 2۔ تاریخ طبری ، ج 6 ص 122 ؛ انگریزی ترجمہ اسی طرح عثمان تو اتنی دور تک بھاگ گئے کہ رسول اللہ نے ان پر پُر مسّرت جملہ کہتے ہوئے کہا کہ جس فاصلہ تک تم بھاگے وہ کافی طویل تھا ، وہ واپس رسول اللہ تک تین دن میں پہنچے۔(حوالہ: تاریخ طبری ، ج 6 ص ۱127 ؛ انگریزی ترجمہ)۔ جب رسول اللہ (ص) کے قریبی پیروکاروں کا یہ حال تھا تو وہ باقیوں سے کیا امید رکھتے۔ جنگ حُنین تک بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی اور یہی چند نام نہاد بہادر صحابہ رسول اللہ کو دھوکہ دیتے ہوئے کٹھن گھڑی میں ان کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ یہاں خود قرآن شریف نے ان کے اس عمل کو بیان کردیا: اللہ نے اکژ موقعوں پر کفار کے مقابلہ میں غلبہ عطا کیااور حُنین کے روز بھی جب تمہیں اپنے مجمع کی کثرت سے غزہ ہو گیا تھا ، پھر وہ کثرت تہارے لئے کوئی مفید نہ رہی ، اور تم پر زمین باوجود اپنی فراغی کے تنگ ہونے پر لگی اور پھر آخر کار تم پیٹھ دکھا کر بھاگ نکلے (سورہ 9 آیت 25) اھل ِسنت کی کتابیں ثابت کرتی ہیں کہ جنگ ِ حُنین میں بشمول اُن صحابہ کے جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی دس ھزار صحابہ نے شرکت کی اور یہ تمام اس جنگ سے فرار ہو گئے سوائے چار کے جن میں سے تین رسول اللہ (ص) کے قبیلے بنو ہاشم سے تھے علی بن ابی طالب ، عباس بن عبد المطلب ، ابو سفیان ابن حارث بن عبد المطلب اور ایک عبد اللہ ابن مسعود جو دوسرے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ حوالہ: 1۔ تاریخ الخمیس ، ج 2 ص 112 2۔ سیرت الحلبیہ ، ج 3 ص 255 الحمداللہ امام حسین (ع) کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے اس سے کہیں ذیادہ شیعہ موجود تھے ۔ اگر ناصبی ویب سائٹ کی پیش کردہ اُس روایت سے کوئی سبق سیکھنے کے لئے ہے تو وہ یہ کہ میدان ِ جنگ میں داخل ہونے سے قبل امام جعفر صادق (ع) کے شیعوں کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے آپ کو امام حسین کے شیعوں جیسا بناتے نہ کہ رسول اللہ (ص) کے اُن صحابیوں جیسا جن کے میدان ِ جنگ سے فرار ہونے کی مثالیں ہم نے ابھی پیش کیں۔ اس روایت پر تبصرہ کو تلخیص دیتے ہوئے ہم ناصبی مصنف سے پوچھنا چاہینگے کہ اگر چند ہی شیعہ رہ گئے تھے تو اھل ِسنت کس طرف تھے ؟ کیا وہ یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ امام جعفر صادق ان کے امام ہیں ؟ اگر ایسا ہی ہے تو وہ امام جعفر صادق کی حمایت کیوں نہیں کر رہے تھے ؟ امام جعفر صادق (ع) اُس وقت کے خلیفہ سے لڑنے کی بات کر رہے تھے ۔ اُس خلیفہ کی حمایت کس نے کی ؟ کیا وہ سلف یعنی اھل سنت کے پیروکار تھے یا پھر شیعہ تھے ؟ وہ خلیفہ اُس وقت کی اکثر یت کی جماعت (یعنی اہل سنت) کا امام تھا جس کو لوگوں نے اپنی بیعت کے ذریعے خلیفہ بنایا تھا۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ آپ امام جعفر صادق (ع) کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ آپ کے سلف آبا و اجداد نے اُس خلیفہ کی حمایت کی جس سے امام جعفر صادق لڑنے کی بات کر رہے تھے؟ آپکے کہنے کا مطلب لہٰذا یہ حیرت کی بات نہیں کہ حسین کے بعد کسی بھی مبینہ امام نے اپنے ادوار کے حکمرانوں کے خلاف مسلح بغاوت کرنے کی کوشش نہیں کی۔کربلا نے انہیں کو ان لوگوں کے ناپائداری اور دھوکہ بازی کا سبق سکھا دیا تھا جو ان کے شیعہ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ انہی لوگوں کے بارے میں روایت ہے جس میں امام جعفر صادق نے فرمایا : ہمارے لئے زیادہ نفرت اور کوئی نہیں رکھتا سوائے ان کے جو ہم سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں جواب نمبر 1 یہاں مرکزی جملہ "جو ہم سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں" ہے۔ محض دعویٰ کرنا اور حقیقت میں محبت کرنا یہ دو ایسی کیفیات ہیں جہاں ایک شخص کی اپنے امام سے محبت کو جانچا جا سکتا ہے۔ شیعت محض شیعہ ہونے کا دعویٰ کرنے سے کہیں ذیادہ ہے۔ اس کی بنیاد امام کی امامت و حق کو قولأ فعلأ تسلیم کرنا ہے۔ بالکل یہی چیز رسول اللہ کی صحابیت حاصل کرنے میں ہے۔ ہم صرف ان کو اصل صحابہ تسلیم کرتے ہیں جنہوں نے رسول اللہ کی اطاعت قولأ فعلأ انجام دی اور جن صحابہ کے اعمال اس میزان پر پورے نہیں اترتے وہ ہماری 'صحابیت' کی تعریف سے دور ہے۔ امام جعفر صادق اس روایت میں واضح فرما رہے ہیں کہ وہ جو ان سے محبت کرنے کا محض دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کی تعلیمات کی پیروی نہیں کرتے وہ در اصل ان کے شیعہ نہیں بلکہ سب سے بڑے دشمن ہیں۔ یہی معاملہ صحابہ کے سلسلے میں تھا یعنی وہ صحابہ جنہوں نے رسول اللہ سے محبت کرنے کا محض دعویٰ کیا لیکن رسول اللہ کی توہین کی ، ان کی مخالفت کی اور دھوکہ دیا وہ دراصل رسول اللہ (ص) کے سب سے بڑے دشمن تھے۔ جواب نمبر 2 : اھل ِسنت کا دعویٰ کہ وہ شیعہ کہلائے جاتے تھے اس سلسلے میں ہم مندرجہ ذیل سُنی حوالاجات کا سہارا لیا ہے 1۔ سوائق المحرقہ ، صفحہ 91 2۔ نور البصار ، صفحہ 80 3۔ احساف الراہبین ، صفحہ 187 4۔ تحفہ اثنا عشری ، صفحہ 6 حصہ 1 محدث شاہ عبدلعزیز دھلوی لکھتے ہیں: اول شیعہ صحابی و تابعین تھے جو کہ اھل سنت تھے لہٰذا جن روایات میں ہمارے امام نے شیعوں پر تنقید کی ہے وہ دراصل وہ شیعہ تھے جو کہ سُنی تھے لیکن بظاہر شیعہ ہونے کا دعوی کرتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ ان کے دلوں میں معاویہ(بن ھندہ حق چار یاری) کے لیئے تائید موجود تھی ، اُس کے ہاتھوں رشوت کھانے کو تیار تھے اور صحیح وقت کی آمد پر وہ امام حسین (ع) کو قتل کرنے کو بھی تیار تھے۔ پہلے سُنی نام کا کوئی فرقہ موجود نہ تھا اور وہ لوگ اصل شیعوں کے درمیان ہی بیٹھتے اور مشکلات پیدا کرتے۔ چند صحابہ و تابعین بھی انہی مشکلات پیدا کرنے والوں میں موجود تھے۔ یہ وھی لوگ تھے جنہوں نے حضرت مسلم بن عقیل کی شروع میں تو مدد کی لیکن بعد میں ابن زیاد کے ساتھ ہو لیئے اور آخر میں امام حسین کی آمد پر ان سے بھی لاتعلقی اختیار کرلی ۔امام جعفر صادق (ع)نے انہی لوگوں پر تنقید کی ہے جیسا کہ امام حسین (ع) کے وقت تمام لوگ اسی لقب سے جانے جاتے تھے اور بہت بعد میں ان لوگوں نے اپنا مخصوص لقب اھل سنت والجماعت مقرر کیا۔ آپکے کہنے کا مطلب روایت ہے کہ امام جعفر صادق نے یہ بھی فرمایا کہ: اللہ نے منافقین کے لئے ایسی کوئی آیت نازیل نہیں کی جس میں وہ لو گ نہ ملتے ہوں جو شیعت کا دعویٰ کرتے ہیں اس میں کوئی شرم کی بات نہیں۔ یہاں امام (ع) یہ فرمانا چارہے ہیں کہ منافقین شیعوں کے درمیان موجود تھے بالکل اُسی طرح جس طرح رسول اللہ کے اصحاب میں موجود تھے لیکن آپ (ص)کے پیروکار ہونے کا ڈھونگ کرتے تھے۔ ان لوگوں کے متعلق کئی قرآنی آیات نازل ہوئیں جیسے سورۃ منافقون لیکن اُن کی رسول اللہ (ص) کے درمیان موجودگی اُن کو صحابی ہی کہلواتی تھی اور رسول اللہ (ص) نے خود اپنے درمیان منافقین کی موجودگی کا اقرار کیا لیکن پھر بھی ان لوگوں کی تشریح اپنے صحابی کے طور پر ہی فرمائی ۔ ہم صحیح بخاری میں پڑھتے ہیں: ہم سے علی بن عبداللہ مدنی نے بیان کیا کہا ہم سے سفیان بن عیبہ نے کہ عمرو بن دینار نے کہا میں نے جابر بن عبد اللہ انصاری سے سُنا وہ کہتے تھے ہم ایک لڑائی میں تھے۔ کبھی سفیان نے یوں کہا ہم ایک فوج میں تھے۔ وہاں ایسا ہوا کہ ایک مہاجر ( جیجاہ بن قیس ) نے ایک انصاری (سنان بن و برہ جہنی ) کو ایک لات جمائی ( اس کے سرین پر لگی ) ۔ انصاری نے فریاد کی : 'ارے انصار دوڑو' اور مہاجر نے فریاد کی 'ارے مہاجر دوڑو'۔ یہ آواز نبی (ص) نے سُنی فرمایا کیا جاہلیت ( کفر کے زمانے)کی سی بات کرنے لگے ( اپنی اپنی قوم کو بلانا اور لڑائی کرانا) اور لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ایک مہاجر نے ایک انصاری کے (سرین پر) لات جمائی ۔ آپ نے فرمایا : ایسی جہالت کی باتیں چھوڑدو یہ بالکل ناپاک باتیں ہیں۔ یہ خبر عبد اللہ بن ابی منافق کو پہنچی ( کہ مہاجرین نے انصار کو مارا ذلیل کیا) تو کہنے لگا: کیا مہاجریں ہم پر حاکم بن بیٹھے ، خیر خدا کی قسم اگر ہم لوٹ کر مدینہ پہنچے تو عزت والا سردار ذلت والے کو باہر کرے گا۔اس کی یہ بات نبی کو پہنچی تو حضرت عمر کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ حکم دیجیئے میں اس منافق کی گردن اڑادوں ۔ آپ (ص) نے فرمایا نہیں ایسا نہیں کرو۔ لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے ہی اصحاب کو قتل کرتے ہیں اور جس وقت مہاجر ہجرت کر کے مدینہ میں آئے اس وقت وہ تھوڑے تھے۔ انصار بہت تھے ۔ پھر اس کے بعد مہاجرین بھی بہت ہوگئے صحیح مسلم (مترجم) ج 2 ص 1039 حدیث 879 ، مکتبہ رحمانیہ لاہور نوٹ: مکتبہ رحمانیہ کے اس ایڈیشن میں لفظ "اصحاب" کی جگہ "لوگوں" استعمال کیا گا ہے لیکن اصل عربی لفظ اصحاب ہی ہے اور انگریزی ترجمہ میں بھی اصحاب ہی ہے! یہاں قابل ِ غور بات یہ ہے کہ رسول اللہ نے عمر کی اس بات کی تردید نہیں فرمائی کہ ابی ایک منافق تھا اور اس کے باوجود انہوں نے اُسے صحابی ہی بتایا کیونکہ وہ اس حلقہ میں آتا تھا۔ اگر رسول اللہ کی نگاہ میں ان کے ساتھ بیٹھا منافق صحابی ہی کہلاتا ہے تو ناصبی مصنف پیش کردہ روایت میں اس نکتہ کو اُبھارتے ہوئے اپنے قارئین کی نگاہ میں پوائنٹس کیوں اسکور کرنا چارہے ہیں کہ امام جعفر صادق نے اپنے شیعوں کے درمیاں منافقین کی موجودگی کا اقرار کیا ؟ آپکے کہنے کا مطلب سیدنا حسین سے قبل سیدنا حسن کوفہ کے شیعوں کی دھوکہ بازی کا شکار ہوئے ۔ اپنی کتاب الاحتجاج میں معروف شیعہ اسکالر ابو منصور طبرسی نے سیدنا حسن کہ یہ الفاظ نقل کئے ہیں: بخدا میں سوچتا ہوں کہ میرے لئے معاویہ بہتر ہوگا بجائے ان لوگوں کے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ میرے شیعہ ہیں ایک مرتبہ پھر یہاں مرکزی جملہ "جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ میرے شیعہ ہیں" ہے ۔ یہاں امام حسن (ع) واضح طور پر فرما رہے ہیں کہ محض شیعہ ہونے کا دعویٰ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑھتا اگر تمہارے اقوال و اعمال امام کے احکامات کے منافی ہیں۔امام (ع) کا مقصد یہاں اُن نواصب و منافقین کو منظر عام پر لانا تھا جو انہی کے درمیان چھپ کر انہیں ہی نقصان پہنچانا چاہ رہے تھے۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ پہلے تمام لوگ شیعہ ہی کہلائے جاتے تھے۔ امام حسن نے جن لوگوں پر تنقید کی وہ وھی لوگ تھے جوکہ امام کے شیعہ ہونے کا دعوی تو کر رہے تھے لیکن اندرونی طور پر امام اور ان کے اصل پیروکاروں کی جڑوں کو کھوکلا کر رہے تھے۔ وہ لوگ اصل شیعہ نہیں بلکہ موقع پرست تھے۔ اگر ہم اُن نامی دھوکہ باز شیعوں کے بارے میں جاننا چاہیں تو ہمیں اس سے اچھی اور کوئی مثال نہیں مل سکتی جو ہم نے پہلے ہی فراہم کر چکے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز لکھتے ہیں: اھل سنت پہلے شیعہ کہلائے جاتے تھے اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ اھل سنت کا پہلے کوئی نام نہ تھا اور انہوں نے چلاکی سے اصل شیعوں کے درمیان جگہ بنا لی تھی اور اصل شیعوں کے درمیان بیٹھ کر انہوں نے ہمارے امام کے قتل کی اسکیمیں بنانی شروع کردیں ۔ جب امام حسین (ع) نے معاویہ بن حق چار یاری کے خلاف لڑنے کا ارادا کیا تو اسی گروہ نے امام کا ساتھ نہ دیا اور انہی کے خلاف ہوگئے۔ یہی وہ گروہ تھا جس پر امام حسن نے تنقید کی اور جو بعد میں اھل سنت والجماعت کے نام سے عیاں ہوئے۔ ناصبی کی جانب سے پیش کردہ روایت میں یہ کہہ کر کہ "میں سوچتا ہوں کہ میرے لئے معاویہ بہتر ہوگا" امام یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ منافقین کھلے دشمن سے ذیادہ بدتر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ معاویہ امام حسن کا کھلا دشمن تھا اور کھلے دشمن سے پیش آنے کے طریقے بھی واضح ہوتے ہیں لیکن یہ منافقین کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا جنہیں امام حسن نے "جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ میرے شیعہ ہیں" سے بیان فرمایا۔ منافقین شیعوں کی صفوں میں بیٹھ کر اپنی مزموم حرکات کو جاری رکھے ہوئے تھے ۔ ان منافقین کی امام حسن کے لئے چھپی نفرت اُس کھلی نفرت سے ذیادہ خطرناک تھی جو معاویہ رکھتا تھا۔ آپکے کہنے کا مطلب آخرکار سیدنا حسن اپنے نام نہاد شیعوں کی غیر مستقل مزاجی پر برہم ہوئے تو انہوں نے معاویہ سے صلح کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب کسی نے ان سے احتجاج کیا کہ وہ معاویہ سے صلح کر کے شیعوں کے لئے شرمندگی لا رہے ہیں تو انہوں نے یہ جواب دیا: بخدا میں نے اُسے اس وجہ کے علاوہ کسی اور وجہ سےاقدار نہیں سونپا کہ مجھے کوئی حمایتی نظر نہیں آیا۔ اگر مجھے مددگار ملتے تو میں اُس سے اُس وقت تک لڑا ہوتا جب تک اللہ ہمارے درمیان کوئی فیصلہ نہ کردیتا۔ لیکن میں کوفہ کے لوگوں کو جانتا ہوں۔ میرے پاس تجربہ ہے۔ اُن میں سے برو لوگ میرے لئے اچھے نہیں انُ کے پاس نہ ہی وفاداری ہے اور نہ قول و فعل میں ہم آہنگی ۔ وہ تنازات میں ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے دل ہمارے ساتھ ہیں لیکن ان کی تلواریں ہمارے خلاف اٹھتی ہیں" اس روایت میں مرکزی نکتہ وہ ہے جو آخر میں آیا ہے ۔امام نے فرمایا کہ ان کے حمائتیوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور پھر فرمایا کہ "وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے دل ہمارے ساتھ ہیں لیکن ان کی تلواریں ہمارے خلاف اٹھتی ہیں" کیا وہ جن کی تلواریں امام کے خلاف اُٹھ جائیں وہ شیعہ تسلیم کئے جاسکتے ہیں ؟ مثال کے طور پر اگر آپ کا ایک دوست ہے جس پر آپ مکمل بھروسہ کرتے ہیں لیکن وہ آپ کے پیچھے آپ ہی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہو تو کیا ایسا انسان آپکا وفادار دوست تسلیم کیا جاسکتا ہے ؟ (باوجود اس کے کہ کل تک آپ ایک ساتھ بیٹھا کرتے تھے)۔ہم ان ناصبی مصنف سے ہی یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر رسول اللہ نے چند صحابہ کے متعلق یہ فرمایا ہوتا کہ: "ان کے دل میرے ساتھ ہیں لیکن ان کے تلواریں میرے خلاف"تو کیا آپ ایسے انسانوں کو حقیقت میں صحابہ تسلیم کرتے ؟ بالکل نہیں ! امام حسن اپنے حمائتیوں کے درمیان منافقین(نواصب) کی موجودگی کا اقرار کر رہے تھے جو امام کے پیروکار ہونے کا دعویٰ تو کرتے تھے لیکن در حقیقت وہ امام کے قتل کے خفیہ منصوبے بنا رہے تھے۔ آپکے کہنے کا مطلب امام جعفر کے بیٹے امام موسیٰ کاظم اور شیعوں کے ساتویں امام نے انہیں ان الفاظ میں بیان کیا : 'اگر مجھے اپنے شیعوں کو جانچناہو تو میں ان کو سوائے دھوکہ بازوں کے اور کچھ نہ پاؤں گا۔ اگر میں انہیں کسی امتحان میں ڈالوں تو میں انہیں مرتد پاؤں ۔اگر میں ان کی چھان بین کروں تو میں ھزاروں میں صرف ایک کے ساتھ رہ جاؤں۔اگر میں ان کی تحقیق کروں تو میں ان میں سے صرف چند کے ساتھ رہ جاؤں جو حقیقت میں میرے اپنے ہیں۔ وہ ہر وقت تکیوں پر بیٹھ کر یہی کہتے ہیں کہ ہم شیعان ِ علی ہیں' یہاں ایک مرتبہ پھر امام یہی فرما رہے ہیں کہ اصل شیعہ وھی ہیں جن کا اپنے امام پر مکمل اعتقاد ہو اور جو ہر قول و فعل میں امام کا اتباع کریں۔ محض دعویٰ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ اصل چیز عملی ثبوت پیش کرنا ہے اور یہی بات اس روایت میں بیان کی گئی ہے۔ یہی سلسلہ رسول اللہ (ص) کے صحابہ کے ساتھ ہے۔ ان میں سے کئی نے دعوے کئے ہونگے لیکن رسول اللہ (ص) کے بعد کئے گئے ان کے اعمال یہ بتاتے ہیں کہ ان میں سے چند ہی اصل اور سچے صحابہ تھے۔ ثبوت کے لئے صحیح بخاری کی اس حدیث کے علاوہ کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ ہم سے ابراہیم منذر حزامی نے بیان کیا کہا ہم سے محمد بن فلیح نے کہا ہم سے والد فلیح بن سلیمان نے کہا مجھ سے ہلال بن ابی میمونہ نے نبی سے ۔ آپ (ص)نے فرمایا : جب میں( قیامت کے دن ) حوض کوثر پر کھڑا ہونگا تو ایک گروہ میرے پاس آئے گا میں ان کو پہچان لونگا اتنے میں ان کے اور میرے درمیان میں سے ایک شخص نکلے گا ( وہ اللہ کا فرشتہ ہوگا) اس گروہ سے کہنے لگے گا: ادھر آؤ ، میں پوچھونگا انکو کدھر لے جاؤ گے ؟ وہ کہے گا دوزخ کی طرف اللہ کی قسم دوزخ کی طرف۔ میں پوچھونگا ان کی خطا کیا ہے ؟ وہ کہے گا تمہاری وفات کے بعد یہ لوگ الٹے پاؤں اسلام سے پھر گئے تھے ۔ میں سمجھتا ہوں اس گروہ میں سے ایک بھی نہیں بچنے کا ( سب کو دوزخ میں لے جایئں گے)۔ صحیح بخاری ، ج 3 ص 331 حدیث 1501 ؛ مکتبہ رحمانیہ لاہور جب ھزاروں میں صرف چند ہی صحابہ سیدھے راستے پر باقی رہ گئے تھے تو ناصبی مصنف اس بات پر کس طرح تنقید کر سکتا ہے کہ امام (ع) نے فرمایا کہ ان کے پیروکاروں میں سے صرف چند ہی اصل اور سچے شیعہ ہیں ؟ اصل شیعہ وہ ہیں جو قول و فعل میں امام کا مکمل اتباع کریں۔ امام موسیٰ کاظم (ع) نے اصل شیعہ کی تعریف کچھ یوں کی ہے: یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ شیعان ِ علی ہیں لیکن اصل شیعہ وھی ہیں جن کے اعمال ان کے اقوال کے مطابق ہوں حوالہ: 1۔ روضۃ الکلینی ، صفحہ 107 2۔ احسان الفتاویٰ ، جلد 1 صفحہ 84 انصار ویب سائٹ کے مصنف افریکی نے امام کا قول نقل کیا ہے"اگر میں ان کی تحقیق کروں تو میں ان میں سے صرف چند کے ساتھ رہ جاؤں جو حقیقت میں میرے اپنے ہیں۔" ۔ یہی وہ افراد ہیں جو اصل شیعہ ہیں اور جو اپنی زندگی کے تمام پہلووں میں امام کا مکمل اتباع کرتے ہیں۔ یہی وہ افراد ہیں جنہیں اماموں نے اپنا اصل شیعہ قرار دیا۔ اگر ہر ایک شیعہ اپنے امام کے ساتھ دھوکہ باز ہے تو کیا ناصبی ہمیں بتا سکتے ہیں کہ رسول اللہ نے امام اور ان کے شیعوں کی تعریف کیوں فرمائی؟ شیعہ رسول اللہ ، امام علی ، امام حسن اور امام حسین کے ساتھ جنت میں داخل ہونگے اھل ِسنت کے امام ابن حجر مکی اپنی معروف شیعہ مخالف کتاب "صوائق محرقہ" صفحہ 541 پر امام طبرانی اور امام احمد سے حدیث نقل کرتے ہیں: رسول اللہ (ص) نے حضرت علی سے فرمایا کہ کیا تو اس بات سے راضی نہیں ہے کہ تو میرے ساتھ جنت میں داخل ہو اور حسن اور حسین اور ہماری اولاد ہمارے پیچھے پیچھے ہو اور ہماری بیویاں ہماری اولاد کے پیچھے ہوں اور ہمارے شیعہ ہمارے دائیں بائیں ہوں نواصب نےصوائق محرقہ کا اردو ترجمہ فیصل آباد میں "برق ِ سوزاں" کے نام سے شائع کیا ہے ۔ اگر ناصبیوں کی نگاہ میں تمام شیعہ دھوکہ باز اور گناہ گار ہیں تو رسول اللہ نے اپنے ، علی ،امام حسن اور امام حسین کے شیعوں کی نجات کا وعدہ کیوں فرمایا؟ باب نمبر 14 حاصل ِ مطالعہ الحمداللہ سپاہ صحابہ اور آپ جیسے ناصبیوں کے شیعہ مخالف جھوٹے پروپیگنڈے ایک مرتبہ پھر عیاں ہوگئے ہیں۔ نواصب کا دعویٰ یہ تھا کہ یہ شیعہ ہی تھے جنہوں نے امام حُسین (ع)کو کوفہ بلایا اور پھر انہی لوگوں نے امام حُسین کا ساتھ چھوڑ دیا اور ان کو قتل ہونے دیا۔ جو حقیقت ناصبی نہیں بیان کرتے وہ یہ ہے کہ امام حُسین (ع) کو خطوط تحریر کرنے والوں میں شبیث بن ربعی جیسے لوگ بھی تھے جن کا مقصد امام کو نقصان پہنچانا تھا۔ شبیث نے عام ناصبیوں کی طرح اپنا ناصبی پن چھپا ئے رکھا لیکن اس کا ناصبی عقیدہ اس وقت فاش ہوگا جب اس نے یزید (لا) کی فوج میں شیعان عثمان کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی۔ اگر ہم کچھ دیر کو فرض بھی کر لیں کہ معاویہ حکومت کی شیعہ نسل کشی کی پالیسی کے باوجود کوفہ جیسے بڑے شہر میں مذھبی شیعہ پاقی رہ گئے تھے تو تاریخی اعتبار سے صرف چند ہی اصل شیعہ قرار دئے جاسکتے ہیں جن میں وہ اعلیٰ مثالیں موجود ہیں جو شائد آج بھی نہ پائی جائیں جیسے ھانی بن عروہ ، قیص بن مشیر ، عبد العلی بن یزید بن کلبی ، عمرہ بن شلخب العزدی جو امام حُسین (ع) کے کوفہ پہنچنے سے قبل گرفتار کر کے قتل کر دئیے گئے تھے ۔ مختار اور عبد اللہ بن حارث بھی امام کو کوفہ پہنچنے سے قبل گرفتار کئے گئے ، اغواء ، دھشت اور شہہ زور اقدامات کے باوجود حیرت کی بات ہے کہ کچھ لوگ نواسہ رسول (ص) کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کی خاطر ان تک پہنچ گئے۔ یہ افراد یقینأ کوفہ کے اصل شیعہ تھے جنہوں نے روز ِ عاشور شہادت حاصل کی مثلأ حبیب ابن مظاہر ، سعد ابن عبد اللہ اور عبد الرحمان عزرہ کے دو بیٹے ۔ یہ لوگ وفادار کوفی شیعہ تھے جن کو امام حُسین نے سراہا۔ زیاد اور اسکے بیٹے کی شیعہ نسل کش پالیسی کے باوجود یہ افراد اپی جانیں بچا کر امام حُسین کی مدد کر نے کے لئے پہنچنے میں کامیاب رہے۔ اس حقیقت کا اقرار کہ یہ افراد شیعہ تھے خود ابن زیاد نے کیا ۔ امام حُسین کی شہادت کے بعد ابن زیاد نے کہا: شکر ہے خدا کا جس نے حق و اہل ِ حق کو قوی کیا ۔ اور امیر المومنین یزید بن معاویہ اور ان کے گروہ والوں کی نصرت کی اور کذاب ابن کذاب حُسین ابن علی کو اور ان کے گروہ کے لوگوں کو قتل کیا تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص 234 ، نفیس اکیڈمی کراچی ایک مرتبہ پھر یزید کے دربار میں اُس سے فخریہ کہا گیا: خدا کے فضل و کرم سے فتح و نصرت تمہیں مبارک ہو۔ حُسین بن علی ہمارے مقابلے میں اٹھارہ شخص اپنے اہل ِ بیت میں سے اور ساٹھ آدمی اپنے شیعوں میں سے لے کر وارد ہوئے تھے تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص 235 ، نفیس اکیڈمی کراچی جبکہ صحابہ و تابعین مثلأ سلیمان بن صرد ، مسیب بن نجبہ ، رافع بن شہداد امام حُسین کی مدد کرنے سے قاصر رہے ہوں لیکن یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ کن مشکلات سے انہوں نے ابن زیاد کی درندگی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا ہوگا۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان اشخاص کا زندہ رہ جانا کارآمد ثابت ہوا حتیٰ کہ آج بھی مختار کی جانب سے عین الورد کے میدان جنگ میں کی گئی خدمات امام حُسین کا قاتلوں سے بدلہ لینے کے عزم کو ثابت کرتی ہیں۔ یہ وہ کوفی شیعہ تھے جنہوں نے دین کی نصرت کی نہ کہ یہ اُن کوفویوں میں سے تھے جنہوں نے امام حُسین کو دھوکہ دیا اور قتل کیا ۔ جنہوں نے امام حُسین کو قتل کیا وہ ناصبی تھے اور آج کے ناصبی دین کی ہدایت کا بنیادی حصہ یعنی حدیث اُن ھی قاتلوں سے حاصل کرتے ہیں۔ یہ وھی ناصبی ہیں جو عزاداری ِ امام حُسین پر بدعت و گناہ کا فتویٰ لگاتے آئے ہیں تاکہ ان کے مکروہ چہروں سے نقاب نہ ہٹ سکے ۔ ان کے دل ان کے چہروں کی مانند لعنتی ہیں۔ جہاں ناصبی انصار ویب سائٹ صحابہ کی دفاع کرنے کا دعویٰ کرتا ہے وہیں وہ ان صحابہ کا مزاق اُڑاتا ہے جنہوں نے امام حُسین کی مدد کی ۔ سب سے بڑا مزاق تو یہی ہے کہ یہ ویب سائٹ اپنے آپ کو انصار الحُسین کہتی ہے یعنی حُسین کے مددگار کہتے ہیں لیکن یہ کس قسم کے حُسین کے مددگار ہیں جبکہ یہ حُسین کے قاتلوں کو ھی ہدایت (حدیث ) حاصل کرنے کا معتبر ذریعہ تسلیم کرتے ہیں اور حارث مخدومی جیسے ابن زیاد کے حمائتیوں کی ثنا کرتے ہیں؟ ایسے مددگاروں کے ہوتے ہوئے دشمن کی کیا ضرورت؟ یہ نہایت مضحکہ خیز بات ہے کہ انصار ویب سائٹ کا مصنف اپنے آرٹیکل کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کرتا ہے: آپکے کہنے کا مطلب جب بھی یزید بن معاویہ ، عبید اللہ ابن زیاد ، عمر ابن سعد ، شمر بن ذی الجوشن کے نام لئے جاتے ہیں اور ان پر لعنت بھیجی جاتی ہے تو یہاں ہمیں کوفہ کے شیعوں کی دھوکہ بازی کو نہیں بھولنا چاہئیے یہاں یہ اچھا ہوتا کہ ناصبی مصنف اپنے پیروکاروں کو یہ تلخ حقیقت بھی بیان کرتا کہ وہ اُس مکتب ِ فکر سے تعلق رکھتا ہے جس میں یزید (لا) کو رسول اللہ کا جائز خلیفہ تسلیم کیا جاتا ہے اور عبید اللہ ابن زیاد اور عمر ابن سعد جیسوں سے احادیث بیان کی جاتی ہیں۔ سپاہ صحابہ اور آپ کے ناصبی آباواجداد وہ تھے جنہوں نے امام حُسین کا قتل کیا اور ان کی موجودہ نسلیں آج بھی اُن لوگوں کے دشمن ہیں جو امام حُسین کے مقاصد کی حمایت کرتے ہیں ۔ یہ جواب ANSAR.COM کے مصنف کے لیے لکھا گیا ہے ہم نے سوچا آپکو بھی جواب دیا جائے کسی کا دل دُکھا تو معاف کر دیجیے گا اللہ وارث اور علی۴ وارث
  6. Matami

    قاتلانِ حُسین کون تھے

    قاتلانِ حُسین کون تھے باب نمبر 1 تعارف تم جیسے تمام نواصب یہ جھوٹ پھیلاتے آئے ہیں کہ امام حسین کے قاتل شیعان ِ اھل بیت (ع) ھی تھے۔ اس آرٹیکل میں ھم اس جھوٹے دعوٰی میں موجود تمام خامیوں پر روشنی ڈالینگے۔ اس موضوع کے متعلق ناصبی حضرات کے دٰعوں کا خلاصہ یہ ہے۔ 1. شیعوں نے امام حسین (ع) کو خطوط کے ذریعے کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ وہ ان کی بیعت کریں اور اپنا امام تسلیم کر سکیں۔ 2. امام حسین (ع) نے حضرت مسلم بن عقیل کو اپنا نمائندہ بنا کر کوفہ روانہ کیا تاکہ وہ وہاں کی صحیح صورتحال کا جائزہ لے سکیں۔ 3. شیعوں نے حضرت مسلم بن عقیل کے ذریعے امام حسین کی بیعت کی۔ 4. عبیداللہ ابن ذیاد کی کوفہ آمد پر انہی شیعوں نے مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑ دیا۔ 5. شیعہ امام حسین کی مدد کرنے سے قاصر رہے جس کی وجہ سے اُن کا قتل ہوا۔ ھم نے اس آرٹیکل میں تمام تاریخی شواھد کو مد ِنطر رکھتے ہوے اھل ِکوفہ کے اصل عقیدہ کو بیان کیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی واضح کیا ھے کہ سید الشھداء اور ان کے رفقاء کے اصل قاتل کون تھے اور آج کون اان قاتلان کے پیروکار ہیں۔ باب نمبر 2 خلافتِ شیخین کو ماننے والے سیاسی شیعہ بالمقابل عقیدتی امامی شیعہ آج کل سپاہ صحابہ اور دیگر ناصبی لوگوں کی جانب سے بہت سننے میں آتا ہے کہ شیعوں نے حضرت علی، حضرت حسن، حضرت حسین اور اہل بیت کے دیگر آئمہ کا ساتھ نہ دیا یا انہیں قتل کر دیا اور اس سلسلے میں تاریخ کی کچھ کتابوں سے حوالاجات بھی پیش کر دئے جاتے ہیں لیکن سپاہ صحابہ کے مکار ناصبی صرف عام لوگوں کو ہی بیوقوف بنا سکتے ہیں، ہم شیعانِ اہل بیت کے سامنے ان باتوں اور ایسے حوالاجات رکھنے کی ان کی کبھی ہمت نہیں ہوگی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم اس تاریخی حقیقت سے نا آشنا نہیں کہ پچھلے زمانے میں شیعہ ہونے کا وہ مطلب نہیں تھا جو آج ہے ، اُس وقت تو سب ہی کو بشمول جنہیں آج سنی کہا جاتا ہے ، شیعہ ہی کہا جاتا تھا۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے کس شیعہ گروہ نے وہ حرکات کیں جن کا الزام ناصبی حضرات آج کل کے شیعوں پر لگا رہے ہیں۔ بس اگر یہ بات سمجھ میں آگئی تو سارا مسئلہ ہی حل ہو جائیگا اور سپاہ صحابہ جیسے ناصبیوں کے مکروہ چہرے عیاں ہو جائینگے اور جو انشاء اللہ ہم اس آرٹیکل میں کرینگے۔ تم لوگوں کی ویب سائٹ کے مصنف کی پیٹ میں بھی کچھ ایسا ھی درد اٹھا: تم لوگو کا سوال کچھ اس طرح ہے اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ جن لوگوں نے سیدنا حسین کی مدد نہیں کی انہیں غیر شیعہ کہا جائے۔ جعفری لکھتا ہے '۔۔۔ان میں سے جنہوں نے امام حسین کو کوفہ بلایا اور پھر وہ 1800 جو امام حسین کے نمائندمسلم بن عقیل کی خدمت میں آئے وہ تمام مذہبی اعتبار سے شیعہ نہیں تھے بلکہ سیاسی بنیاد پر علی کے گھرانے کے حمائتی تھے۔ یہ ایک فرق جو قدیم شیعہ تاریخ جاننے کے لئے واضح طور پر ذہن نشیں کر لینا چاہئے' سید نا حسین کا ساتھ چھوڑنے والوں کو گھرانہِ علی کے پیروکاروں سے الگ رکھنے کا جعفری کا مقصد عیاں ہے۔ وہ اس حقیقت پر شرم سار ہے کہ یہ شیعہ ہی تھے جنہوں نے اپنے امام کو بغاوت کی قیادت کرنے کے لئے دعوت دی اور پھر ان کی مدد نہ کی۔ ہم جس چیز پر جعفری کے مذہبی اور سیاسی پیروکاروں میں فرق کرنے کو رد کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ خود سید نا حسین نے کوفیوں کو ایک سے زیادہ مرتبہ اپنا شیعہ کہا۔ یہ عجیب بات ہے کہ شیعہ کوفہ کو اپنا نہیں تسلیم کرتے لیکن اپنی پہچان تحریک توابین کے ساتھ کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ تحریکِ توابین کی ابتداء میں کی گئی تقاریر سے یہ واضح ہے کہ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے سید نا حسین کو آنے کی دعوت دی اور بعد میں ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اس سلسلے میں ان کا یہی نام ان کی ندامت کو ظاہر کرتا ہے۔ شیعوں کی جانب سے سید نا حسین کا ساتھ نہ دینے کے گناہ سے دور رہنے کی کوشش اور کچھ نہیں بس ایک ضعیف کوشش ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا، اہل سنت کو یہ نام تو بہت بعد میں ملا، جس زمانے کا ناصبی مصنف نے ذکر کیا اُس دور میں تو سب کو شیعہ ہی کہا جاتا تھا جن میں آج کل کے اہل سنت بھی شامل تھے لہذا ناصبی مصنف جب پچھلےدور کا ذکر کرے تو واضح کرے کہ وہ کس شیعہ گروہ کی بات کرتا ہے؟ معروف شیعہ مخالف اسکالر محدث شاہ عبد العزیز دہلوی نے بھی تصدیق کی ہے کہ اُس وقت تمام مسلمان شیعہ ہی کہلائے جاتے تھے۔ " اور یہ بھی جاننا چاہئے کہ شیعہ اولیٰ کہ فرقہ سنیہ و تفضیلیہ ہر دو کو شامل ہے پہلے شیعہ کے لقب سے مشہور تھا اور جب غلاۃ ، روافض ، زیدیوں اور اسماعیلیوں نے یہ لقب اپنے لئے استعمال کیا اور عقائد و اعمال میں ان سے شر و قباح سرزد ہونے لگے تو حق و باطل کے مل جانے کے خطرہ سے فرقہ سنیہ اور تفضیلیہ نے اپنے لئے اس لقب کو ناپسند کیا اور اس کی جگہ اھل ِ سنت وجماعت کا لقب اختیار کیا تحفہ اثنا عشری (اردو) ، صفحہ 16 ، نور محمد کتب خانہ ، آرام باغ کراچی آج کل اثنا عشری یا امامی اہل تشیع ماضی میں "رافضی" کے نام سے جانے جاتے تھے۔ شیعہ کے لفظی معنی ہیں "گروہ" یا "حامی"۔ چونکہ اہلِ کوفہ نے جنگِ جمل و صفین میں علی ابن ابی طالب کا ساتھ دیا، اس لیے انہیں خالصتاً سیاسی معنوں میں"علی کا شیعہ" کہا جانے لگا یعنی حضرت علی کا حامی یا حضرت علی کا گروہ۔ اسکے مقابلے میں معاویہ کی فوج کو "شیعانِ معاویہ" یا پھر"شیعانِ عثمان" بھی کہا جاتا تھا۔ لیکن ان سیاسی شیعانِ عثمان یا شیعانِ علی کے علاوہ لفظ شیعہ کا استعمال ایک اور گروہ کے لئے بھی ہوتا تھا جو کہ اہل بیت علیہم السلام کا مذہبی اور عقیدتی معنوں میں سچا پیروکار تھا اور انہیں اللہ کی جانب سے براہ راست مقرر کردہ امام و خلیفہ بلافصل مانتا تھا اور جسے آج دنیا شیعہ اثنا عشری یا امامی شیعہ کے نام سے جانتی ہے، جنہوں نے کبھی بھی شیخین {یعنی حضرت ابوبکر و عمر} اور حضرت عثمان کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا جبکہ دیگر شیعہ گروہ جن کا اوپر ذکر ہوا وہ ایسا کرتے تھے لہٰذا آج یہ لوگ اہلِ سنت و الجماعت کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ آجکل جس مذہبی و عقیدتی گروہ کو 'مامی شیعہ' کہا جاتا ہے، انہیں ماضی میں عثمانیوں کی طرف سے مذھبی معنوں میں 'رافضی' کہا جاتا تھا جبکہ لفظ 'شیعہ' سیاسی معنوں میں ہر اُس شخص کے لیے استعمال ہوتا تھا جو کہ فوجِ معاویہ کے خلاف فوجِ علی میں شامل تھا، یا جس نے معاویہ کے خلاف علی ابن ابی طالب (ع) کی حمایت کی حالانکہ مذہبی طور پر وہ شخص شیخین (پہلے دو خلفاء) کی خلافت کو جائز و برحق مانتا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لفظ شیعہ کا یہ سیاسی استعمال ختم ہوتا گیا اور صرف مذہبی گروہ باقی رہ گیا جو اپنے آپ کو مستقل 'الشیعہ' کہتا رہا اور شیخین کی خلافت کو ماننے سے انکار کرتا رہا، جبکہ اُسکے مخالف اُسے 'رافضی' کہتے رہے۔ ناصبی حضرات کی جانب سے سیاسی شیعت کے وجود کا انکار ناصبی حضرات ابھی تک اس بات کے انکاری ہیں کہ شیخین کی خلافت ماننے والوں کو ماضی میں کبھی شیعہ بھی کہا جاتا تھا۔ انکے اس دعویٰ پر حیرت ہے کیونکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ ان سیاسی شیعوں کا وجود کئی سو سالوں تک رہا ہے۔ مگر پھر بھی آج اگر سپاہ صحابہ جیسے نجس ناصبی ان سیاسی شیعوں کے وجود کے منکر ہیں، تو اسکی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ اپنے ماننے والوں کو ان سیاسی شیعوں کی اصل حقیقت سے آگاہ کر دیں تو کوئی بھی اُنکے اس پروپیگنڈے پر توجہ نہیں دے گا کہ امامی شیعوں نے حسین (ع) کو قتل کیا ہے، لہٰذا وہ اپنی شیعہ دشمنی کی دکان مسلسل چلاتے رہنے کی غرض سے اس تاریخی حقیقت سے اپنے پیروکاروں کو آگاہ نہیں کرتے۔ آئیے اب ہم ثابت کرتے ہیں کہ ان خلافتِ شیخین کو ماننے والے سیاسی شیعوں کا وجود مولا علی (ع) کے دور سے شروع ہو کر کئی سو سال تک جاری رہا۔ شاہ عبد العزیز دہلوی اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب میں لکھتے ہیں: سب سے پہلے وہ مہاجرین و انصار اور تابعین اس لقب شیعہ سے منقلب تھے جو ہر پہلو میں حضرت مرتضیٰ کی اطاعت و پیروی کرتے تھے اور وقت ِ خلافت سے ہی آپ کی صحبت میں رہے ، آپ کے مخالفین سے لڑے اور آپ کے امر و نواہی کو مانتے رہے۔ انہی شیعہ کو مخلصین کہتے ہیں۔ ان کے اس لقب کی ابتدا 37 ہجری سے ہوئی تحفہ اثناء عشری (اردو) ، صفحہ 27 ، نور محمد کتب خانہ ، آرام باغ کراچی نوٹ : 37 ہجری میں حضرت علی(ع) اور معاویہ کے درمیاں صفین کے مقام پر جنگ ہوئی تھی۔ کئی سو سال تک اھل سنت کے محدثین اور علمائے رجال کا سیاسی شیعوں کے وجود کو تسلیم کرنا نہ جانے کب تک اس دور کے ناصبی اپنا منہ اپنی بغل میں ڈال کر اھل کوفہ کا امامی شیعہ ہونے کا پروپیگنڈہ کرتے رہیں گے، جبکہ اھل سنت کے جمیع محدثین نے اس بات کی صراحت سے وضاحت کی ہے کہ "شیعہ" کی اصطلاح جن معنوں میں آج کے دور میں استعمال ہوتی ہے، ماضی میں اسکا مطلب یہ نہیں تھا۔ اس بات کی تفصیل ھم اھل سنت کے معتبر ترین اماموں میں سے ایک یعنی امام ذھبی کی کتاب 'میزان الاعتدال' سے ثبوت کے طور پر پیش کرھے ھیں: بلى غالب الشاميين فيهم توقف عن أمير المؤمنين على رضى الله عنه من يوم صفين، ويرون أنهم وسلفهم أولى الطائفتين بالحق، كما أن الكوفيين - إلا من شاء ربك - فيهم انحراف عن عثمان وموالاة لعلى، وسلفهم شيعته وأنصاره، ونحن - معشر أهل السنة - أولو محبة وموالاة للخلفاء الاربعة، ثم خلق من شيعة العراق يحبون عثمان وعليا، لكن يفضلون عليا على عثمان، ولا يحبون من حارب عليا من الاستغفار لهم. فهذا تشيع خفيف. ھاں، اھل شام کی اکثریت نے صفین کے زمانے سے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ تسلیم کرنا بند کردیا تھا۔ اور وہ اپنے آپ کو اور اپنا اجداد کو راہ ِحق پر جانتے تھے جیسا کہ اھل ِکوفہ حضرت عثمان سے انحراف اورعلی سے محبت کرتے کیونکہ اُن کے آباء و اجداد علی کے شیعہ اور حامی تھے جبکہ ھم اھل سنت چاروں خلفاء سے محبت کرتے ھیں ۔ عراقی شیعوں کا ایک گروہ ایسا بھی تھا جو کہ علی اور عثمان دونوں سے محبت رکھتا تھا مگر وہ علی کو عثمان پر فوقیت دیتے تھے اور اُن لوگوں کے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتے تھے جنہوں نے علی سے جنگیں کیں، اگرچہ کہ وہ اُن کی مغفرت کی دعائیں کرتے تھے، اور یہ شیعت کی نرم قسم ہے۔ میزان الاعتدال، جلد 3، صفحہ 552 اسی طرح امام بن حجر عسقلانی اپنی کتاب تھذیب التھذیب، ج 1 ص 82 میں لکھتے ھیں: فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان...مع تقديم الشيخين وتفضيلهما پچھلے (علماء) کے مطابق شیعت علی کو عثمان پر فوقیت ھونے کا عقیدہ رکھنے کو کہتے تھے ۔۔۔اگرچہ وہ شیخین (یعنی ابو بکر اور عمر) کو ان پر فوقیت دیتے تھے ذھبی اور ابن حجر عسقلانی کی تحریر کا مطلب ہے: 1. کوفہ کے شیعہ خلافتِ شیخین کے قائل تھے۔ 2. مگر کوفہ کے شیعوں کا ایک گروہ عثمان ابن عفان کی خلافت کا ایسے ہی انکار کرتا تھا جیسا کہ اھل شام مولا علی (ع) کی خلافت کے منکر تھے۔ 3. مگر کوفہ کے شیعوں کا ہی ایک گروہ تھا جو عثمان ابن عفان کو بھی دوست رکھتا تھا، مگر فرق صرف اتنا تھا کہ وہ علی کو عثمان پر فوقیت دیتے تھے۔ 4. کوفہ کے شیعوں کا یہ دوسرا گروہ نہ صرف پہلے تین خلفاء کی خلافت کا قائل تھا، بلکہ دیگر تمام لوگ جنہوں نے علی سے جنگیں کیں، مثلا ام المومنین جناب عائشہ، طلحہ و زبیر اور معاویہ وغیرہ، ان سب کے لیے دعائے مغفرت بھی کرتا تھا۔ تو یہ تھے کوفہ کے سیاسی شیعوں کے عقائد، جو کہ نجس ناصبیوں کے منہ پر کرارہ تھپڑ ہیں اور اُنکے تمام تر پروپیگنڈے کا جواب ہیں۔ یہی نھیں بلکہ آج اھل سنت و ناصبی حضرات اپنے جن قدیم علماء کی پیروی کرتے اور ان کی کتابوں کو سینوں سے لگائے پھرتے ھیں ، ان ھی قدیم علماء میں سے بعض ایسے بھی رھے جو اسی طریقے کے شیعہ تھے یعنی وہ آج کل کے معنوں میں ھر اعتبار سے سنی تھے بس حضرت علی کو حضرت عثمان پر فوقیت دیتے تھے۔ انھیں علماء میں سے ایک امام سفیان ثوری (المتوفی 161 ھ) بھی تھے جن کی تفسیر کی کتاب اھل سنت میں کافی مشھور ھے اور اسی کتاب میں ابتدائی کلمات تحریر کرتے ھوئے علامہ امتیاز علی العریشی نے صفحہ 15 پر لکھا: وكان التشيع في تلك الايام منحصرا في تفضيل علي على عثمان رضي الله عنهما ، فلا يبعد ان يكون الثوري يفضل هذا على ذاك پچھلے دور میں شیعہ کا مطلب صرف علی کو عثمان(رض) پر فوقیت دینا تھا اور ھم اس بات کو خارج از امکان قرار نھیں دیتے کہ ثوری علی کو عثمان پر فوقیت دیتے تھے یہی نھیں بلکہ اگر شمار کرنا شروع کیا جائے تو علماءِاھل ِسنت کے اسلاف میں کئی نام ایسے ظاھر ھوجائنگے جو کہ شیعہ ھی کھلائے جاتے تھے۔ اختصار کی بنا پر صرف ایک مثال اور پیش کئے دیتے ھیں،۔ شاھ عبدالعزیز محدث دھلوی اپنی کتاب تحفہ اثنا عشریہ ، ص 25 پر تحریر کرتے ھیں: امام ابو حنیفہ کا شمار کوفہ کے شیعوں میں ھوا کرتا تھا پچھلے دور کے غالی شیعہ بھی خلافتِ شیخین کے قائل تھے اب تک تو بات ھوئی بس عام شیعہ لوگوں کی جو چاروں خلفاء کے متعلق مختلف قسم کے عقائد رکھتے تھے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ عام شیعہ تو ایک طرف ذھبی نے صاف طور پر یہ بھی بیان کیا ہے کہ "غالی شیعہ" کا مطلب آج کے دور میں دوسرا ہے، جبکہ حضرت علی کے دور میں اسکا بھی کچھ اور مطلب ہوتا تھا۔ میزان الاعتدال میں اسکی تشریح کرتے ہوئے ذھبی نے لکھا ھے: فالشيعي الغالى في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارب عليا رضى الله عنه، وتعرض لسبهم.والغالي في زماننا وعرفنا هو الذى يكفر هؤلاء السادة، ويتبرأ من الشيخين أيضا پچھلے دور میں (یعنی اسلام کی پہلی صدیوں میں)"شیعہ غالی" اُسے کہا جاتا تھا جو عثمان، طلحہ، زبیر اور معاویہ اور وہ سب جنہوں نے علی سے لڑائی کی، اُن میں نقص نکالتا تھا اور اُن کو بُرا بھلا کہتا تھا۔ جبکہ ہمارے دور میں "غالی" اُسے کہتے ہیں جو ان شخصیات کی تکفیر کرے اور شیخین (یعنی ابو بکر اور عمر) سے بیزاری اختیار کرے۔ میزان الاعتدال ، جلد 1، صفحہ 6 نوٹ: الذھبی کو تکفیر کے معاملے میں غلطی ہوئی ہے کیا اسکے بعد بھی کچھ گنجائش باقی رہتی ہے کہ اھل کوفہ کے عام شیعوں کو عقیدتی طور پر خلافتِ شیخین ماننے والے کے بجائے عقیدتی امامی شیعہ کہا جائے اور اھل کوفہ کے گناہوں کا سارا بوجھ آج کے عقیدتی امامی شیعوں کے سر ڈال دیا جائے؟ بے شک جو آج ایسا کرتے ہیں، وہ انصاف کی جگہ ظلمِ عظیم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ لاریب اللہ نے حکم فرمایا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر مجبور نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ مگر یہ ھدایت مسلمانوں کے لیے ہے اور ناصبی حضرات اسکا پاس کریں۔۔۔۔۔ یہ وہ جانیں اور اللہ جانے۔ علی ابن ابی طالب (ع)اور انکے سیاسی شیعہ حسین (ع) اور اُنکے کے کوفہ میں سیاسی شیعوں پر نظر ڈالنے سے قبل ضروری ہے کہ مولا علی (ع) اور انکے وقت میں اھل کوفہ کے سیاسی شیعوں کے کردار پر ایک نظر ڈالی جائے تاکہ ان سیاسی شیعوں کا کردار مزید واضح ہو سکے۔ 1. قتلِ عمر کے بعد اھل مدینہ نے علی ابن ابی طالب (ع) کو خلافت کی پیشکش کی اس شرط کے ساتھ کہ وہ قران و سنتِ رسول کے ساتھ ساتھ سنت شیخین کی اتباع کا بھی وعدہ کریں( حوالہ:شرح فقہ اکبر، صفحہ 66) ۔ 2. علی ابن ابی طالب (ع) نے اس شرط کو ماننے سے انکار کر دیا اور یوں خلافت عثمان ابن عفان کے ہاتھوں میں آ گئی۔ عثمان نے جب اھل عراق پر فاسق و فاجر قسم کے اموی گورنر مقرر کیے تو اسی کوفہ سے ایک فوج عثمان کو قتل کرنے کے لیے روانہ ہوئی۔ انکا کہنا یہ تھا کہ وہ عثمان ابن عفان کو قتل کریں گے کیونکہ انہوں نے سنتِ شیخین کی خلاف ورزی شروع کر دی ہے، یعنی عقیدتی طور پر وہ لوگ شیخین کی خلافت کے پیروکار تھے۔ بلکہ وہ تمام فوجیں جو مصر، کوفہ و بصرہ سے آئیں وہ سب کے سب عقیدتی طور پر سنتِ شیخین کے ماننے والے تھے اور اسی لیے عثمان ابن عفان کے قتل کے طالب ہوئے تھے۔ 3. مدینہ میں جن صحابہ و تابعین وغیرہ نے پہلی مرتبہ علی ابن ابی طالب کی خلافت پر بیعت کی، وہ بھی مذھبی طور پر شیخین کی خلافت کے قائل تھے۔ انہی مدینے والوں کی فوج کو لے کر مولا علی (ع) جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے۔ پھر انہی لوگوں کو لیکر آپ کوفہ منتقل ہوئے تاکہ معاویہ سے جنگ کی جا سکے۔ اس سارے وقت کے دوران یہ فوج شیعانِ علی کہلاتی رہی۔ 4. جنگ صفین جو کہ مولا علی (ع) کی بیعت کے کچھ عرصہ بعد ہی لڑی گئی، اس میں اس کوفی فوج کو شیعانِ ِعلی کے سیاسی نام سے ھی پکارا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس مختصرعرصہ میں علی ابن ابی طالب کے لیے ممکن تھا کہ کوفہ کی اکثریت کو مذہبی طور پر تبدیل کر کے امامی شیعہ بنا دیتے؟ 5. اسی کوفی سیاسی شیعہ فوج نے (جو خلافتِ شیخین پر یقین رکھتی تھی) مولا علی (ع) کا عین فتح کے قریب ساتھ چھوڑ دیا۔ بلکہ انہیں مجبور کیا کہ وہ مالک اشتر (ایک عقیدتی شیعہ) کو جنگ سے واپس بلا لیں، ورنہ وہ خود مولا علی (ع) کو قتل کر دیں گے۔ 6. اسی کوفی سیاسی شیعہ فوج کا ایک حصہ (جو خلافتِ شیخین پر یقین رکھتا تھا) تحکیم کے موقع پر مولا علی (ع) کا بالکل مخالف ہو گیا اور جنگ و جدل کے لیے تیار ہو گیا۔ 7. اسی کوفی سیاسی شیعوں کی مولا علی (ع) مذمت کرتے رہے۔ مثلا آپ کا کوفہ والوں کو خطاب کہ: کل تک میں امیر تھا، مگر آج تم ہی میرے حاکم اور میں تمہارا محکوم ہو گیا۔ کل تک میں تم کو منع کرتا تھا مگر آج تم ہی مجھ کو منع کرتے ہو (نھج البلاغہ) 8. اور انہی کوفہ والوں کو مخاطب کر کے مولا علی (ع) نے فرمایا: یا ایھا الفرقتہ! یعنی اے وہ فرقہ جس کو میں کوئی حکم دیتا ہوں تو مانتا نہیں اور کسی بات کی طرف بلاتا ہوں تو آتا نہیں 9. پھر ایک جگہ مولا علی (ع) نے کوفہ والوں کے لیے فرمایا: یعنی کوفہ والو! ایک دفعہ بیٹھے بیٹھے میری آنکھ جھپک گئی تو خواب میں حضرت رسول خدا (ص) ظاہر ہوئے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ، آپ کی امت سے مجھ کو کس قدر پریشانی اور جھگڑے کا سامنا ہوا۔ حضرت (ص) نے فرمایا ان کے لئے بددعا کرو۔ میں نے اس طرح بددعا کی کہ اے اللہ مجھے ان لوگوں سے بہتر مسلمان مرحمت فرما اور ان کو مجھ سے بدتر حاکم دے۔ 10. اور ایک دفعہ فرمایا تھا: خدا کی قسم تم لوگوں کے ہاں خوشی سے نہیں آیا بلکہ مجبورا آنا پڑا۔ لیکن میں نے سنا کہ تم کہتے ہو علی جھوٹ بولتے ہیں خدا تمہیں غارت کرے میں کس پر جھوٹ بولوں گا۔ یہ ہے مولا علی (ع) کے زمانے میں کوفہ کے ان خلافتِ شیخین ماننے والے سیاسی شیعوں کی مختصر تاریخ۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگ، جو کہ آج بھی تاریخ کو مسخ کرنا چاہتے ہیں، وہ ان کوفی سیاسی شیعوں کو عقیدتی شیعہ (امامی شیعہ) ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ انہی جنگوں کے دوران عقیدتی شیعوں کا ایک گروہ مستقل طور پر مولا علی (ع) کی وفاداری کا ثبوت دیتا رہا۔ مثلا عمار یاسر اور مالک اشتر وغیرہ۔ باب نمبر 3 ھل ِکوفہ کا اصل عقیدہ اہل کوفہ کی اکثریت مذہبی معنوں میں ہمیشہ خلافتِ شیخین کے جائز ہونے کے قائل رہے۔ اہل سنت کے معروف عالم دین علامہ شبلی نعمانی اپنی شہرہ آفاق کتاب 'الفاروق' میں کوفہ شہر کی تعمیر و ترقی کا سہرا خلیفہ دوم عمر کے سر ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: مدائن وغیرہ جب فتح ہو چکے تو سعد بن وقاص نے حضرت عمر کو خط لکھا کہ یہاں رہ کر اھل عرب کے رنگ و روپ بالکل بدل گئے۔ حضرت عمر نے جواب میں لکھا کہ ایسی جگہ تلاش کرنی چاہئے جو بری و بحری دونوں حیثیت رکھتی ہو۔ چنانچہ سلیمان حذیفہ نے کوفہ کی زمین انتخاب کی اور اسکا نام کوفہ رکھا۔ غرض 18 ھ میں اس کی بنیاد شروع ہوئی اور جیسا کہ حضرت عمر نے تصریح کے ساتھ لکھا تھا چالیس ہزار آدمیوں کی آبادی کے قابل مکانات بنائے گئے۔ ہیاج بن مالک کے اہتمام سے عرب کے جُدا جُدا قبیلے جُدا جُدا محلوں میں آباد ہوئے۔ شھر کی وضع و ساخت کے متعلق خود حضرت عمر کا تحریری حکم آیا تھا کہ شارع ہائے عام 40، 40 ہاتھ اور اس سے گھٹ کر 30 ، 30 ہاتھ اور 20 ، 20 ہاتھ چوڑی رکھی جائیں اور گلیاں 7، 7 ہاتھ چوڑی ہوں ۔ جامع مسجد کی عمارت جو ایک مربع بلند چبوترہ دے کر بنائی گئی تھی اس قدر وسیع تھی کہ اس میں 40 ہزار آدمی آسکتے تھے۔۔۔۔ جامع مسجد کے سوا ہر قبیلے کے لئے جُدا جُدا مسجدیں تعمیر ہوئیں ۔ جو قبیلے آباد کئے گئے ان میں یمن کے بارہ ہزار اور نزار کے آٹھ ہزار آدمی تھے اور قبائل جو آباد کئے گئے ان کے نام حسب ِ ذیل ہیں۔ سلیم ، ثقیف ، ہمدان ، بجبلۃ ، نیم الات ، تغلب ، بنو اسد ، نخ و کندہ ازد ، مزینہ ، تمیم محارب ، اسد و عامر ، بجالۃ جدیلۃ و اخلاط ، جہینہ ، مذحج ، ، ہواذن وغیرہ وغیرہ ۔ یہ شھر حضرت عمر ہی کے زمانے میں اتنی اس عظمت وشان کو پہنچا کہ حضرت عمر اس کو راس ِ اسلام فرماتے تھے اور در حقیقت وہ عرب کی طاقت کا اصلی مرکز بن گیا تھا.۔ الفاروق ، صفحہ 232۔ 233 ، مکتبہ مدینہ لاہور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں کے لوگ حضرت عمر کے اس حد تک وفادار تھے کہ عمر اس شہر کو اسلام کا مرکز کہنا شروع ہو گئے۔ اگر اب بھی نواصب کو کوئی شک ہو تو وہ ہمیں بتائیں کہ چالیس ہزار آدمیوں کی گنجائش والی جامع مسجد اور پھر ہزاروں کی تعداد میں بسائے گئے عرب قبیلوں کی الگ الگ مساجد جو حضرت عمر نے تعمیر کروائیں وہ سب شیعہ مساجد تھیں؟ کیا عمر ابن خطاب نے اتنے بڑے پیمانے پر ایک شیعہ شہر کی بنیاد رکھی تھی؟ ہمیں تاریخ کے کسی بھی معتبر دستاویز سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ قتل ِ امام حسین (ع) کے وقت کوفیوں کی اکثریت مذھبی اعتبار سے شیعان ِ علی (ع) ہو اس کے برعکس ہمیں تاریخی شواہد ملتے ہیں جن سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اھل ِکوفہ کی اکژیت عثمانی تھے۔ علامہ یاقوت حموی اھل سنت کے مشہور اسکالر گزرے ہیں جو کہ کتاب 'مجمع البلدان' کے مصنف ہیں۔ اس کتاب میں مختلف شہروں کی تفصیلی تاریخ موجود ہے اور اس کی جلد 7 صفحہ 295 سے 300 تک کوفہ شھر کی تاریخ تحریر ہے اور اس میں بھی ہمیں شیعوں کے متعلق کوئی اطلاع نہیں ملتی۔ مولا علی (ع) کے دور میں کوفہ باب نمبر 2 میں ہم نے واضح کیا تھا کہ قتل عثمان کے بعد جن لوگوں نے مولا علی (ع) کی بیعت کی، وہ خلافتِ شیخین کو ماننے والے ھی تھے۔ مولا علی (ع) نے اس بات کو خود اپنے بیان میں واضح فرمایا جو کہ نہج البلاغہ میں درج ہے: میری بیعت کی انہی لوگوں نے جنہوں نے بیعت کی ابوبکر و عمر و عثمان کی، اسی اصول کی بنیاد پر جس پر ان کی بیعت کی تھی۔ لہذا اس اصول کے لحاظ سے موقع پر موجود رہنے والے کو دوبارہ نظرِ ثانی کا حق نہ تھا اور نہ ایسے شخص کو جو موجود نہ تھا اس فیصلہ کے مسترد کرنے کا حق پیدا ہو سکتا ہے اور شوریٰ مہاجرین و انصار کے ساتھ مخصوص ہے۔ کوفہ سے جو فوج عثمان کو قتل کرنے آئی تھی، اُس کا موقف بھی یہ تھا کہ عثمان چونکہ سنتِ شیخین کے خلاف گئے ہیں، اس لیے انہیں قتل کر دیا جائے۔ اور کوفہ کے لوگ حد درجہ طلحہ بن عبید اللہ کے حمایتی تھے۔ اس بات کی گواہی میں تاریخ طبری میں کئی روایات ہیں۔ مثلاً امام ابن جریر طبری نے احمد بن زہیر سے، انہوں نے اپنے والد سے، اور وہ وہب بن جریر سے، اور وہ زہری سے بیان کرتے ہیں کہ: طلحہ و زبیر قتلِ عثمان کے تقریباً چار مہینے کے بعد مکہ پہنچ گئے۔ مکہ میں اُسوقت عبداللہ ابن عامر کے پاس بہت سے لوگ جمع ہو گئے تھے اور یمن سے یعلی بن امیہ بھی آ ملا جس کے پاس بہت سی دولت اور اموال تھا جو کہ چار سو اونٹوں پر لدا ہوا تھا۔ یہ سب لوگ حضرت عائشہ کے پاس جمع ہوئے اور باہم مشورے کرنے لگے۔ ان میں سے کچھ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ جا کر علی سے جنگ کرنی چاہئے، جبکہ دوسرے لوگوں کی رائے یہ تھی کہ اُن کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ اھل ِ مدینہ کا مقابلہ کر سکیں۔ اس لئے انہیں چاہئے کہ وہ کوفہ یا بصرہ جائیں کیونکہ کوفہ میں طلحہ کے حمایتی اور چاہنے والے زیادہ ہیں۔ اور اسی طرح بصرہ میں زبیر کے حمایتی اور چاہنے والے موجود ہیں۔ چنانچہ آخر میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ بصرہ یا کوفہ چلنا چاہئے۔ اسی موضوع پر مزید کئی روایات پڑھنے کے لیے دیکھئے تاریخ طبری، سنہ 35 کے حالات۔ مولا علی (ع) کے دور میں کوفہ میں عقیدتی امامی شیعہ جمع ہونے شروع ہوئے۔ چنانچہ مولا علی (ع) کے دور میں کوفہ میں دو طرح کے شیعہ پائے جاتے تھے: 1. خلافتِ شیخین کو تسلیم کرنے والے سیاسی شیعہ، جنہوں نے مولا علی (ع) کو بطور چوتھا خلیفہ تسلیم کیا تھا۔ یہی جماعت کوفہ میں اکثریت میں تھی۔ 2. عقیدتی امامی شیعہ، جنہوں نے مولا علی (ع) کو بطور رسول کا ولی و وصی براہ راست امام تسلیم کیا تھا اور خلافت شیخین کو رد کیا تھا۔ یہ چند گنے چنے لوگوں پر مشتمل ایک اقلیتی جماعت تھی۔ کوفی سیاسی شیعوں کا خلافتِ عثمان کو بھی جائز تسلیم کرنا کوفہ کے یہ سیاسی شیعہ خلافتِ شیخین پر تو جمع تھے ہی، مگر انکی اکثریت کا خلافتِ عثمان پر بھی کوئی اختلاف نہیں تھا کیونکہ اُن کے نزدیک عثمان ابن عفان کی بیعت انہی اصولوں کی بنیاد پر ہوئی تھی، کہ جن پر اس سے پہلے حضراتِ شیخین کی بیعت ہوئی تھی۔ اگر وہ عثمان ابن عفان کے مخالف ہوئےتھے تو اس بنیاد پر کیونکہ وہ سنتِ شیخین کی مخالفت میں اپنے رشتہ داروں کو گورنر بنانے لگے۔ اور چونکہ مولا علی (ع) کی بطور خلیفہ چہارم بیعت بھی انہی اصولوں پر ہوئی تھی، اس لیے معاویہ کے خلاف وہ اپنے خلیفہ چہارم کی حمایت میں جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ اس لیے جب ایک جماعت بشمول مالک بن اشتر نے کوفہ میں حضرت عثمان کے خلاف بولا تو اھل ِ کوفہ کے انہی اکثریتی سیاسی شیعوں کو ناگوار گزرا اور وہ ان پر حملہ آور ہو گئے۔(حوالہ : تاریخ طبری ، ج 5 ، ب 19 ، (ص) 189 مطبوعہ مصر)۔ جنگِ صفین میں جب فوجِ معاویہ کو شکست ہونے لگی اور عمر بن العاص کے مشورے سے معاویہ نے قرآن کو نیزوں پر بلند کروا دیا، تو یہی سیاسی شیعہ مولا علی (ع) پر تلواریں کھینچ کر کھڑے ہو گئے اور جنگ بندی کی شرط رکھی۔ اور مالک اشتر جو عقیدتی امامی شیعہ تھے اور جنگ جاری رکھے ہوئے تھے اور فتح کے بہت قریب تھے، ان کی واپسی کی شرط رکھی۔ یہ واقعات آپکو تمام تر تاریخی کتب میں مل جائیں گے۔ جنگِ صفین کے بعد انہی خلافتِ شیخین کو ماننے والے کوفی سیاسی شیعوں کی ایک جماعت مولا علی (ع) کے خلاف بغاوت کر بیٹھی۔ اس خلافتِ شیخین کے ماننے والے گروہ کا نام خوارج تھا۔ جنگ نہروان سے فارغ ہونے کے بعد مولا علی (ع) اپنے ان سیاسی شیعوں سے ہمیشہ مطالبہ کرتے رہے کو وہ معاویہ کے خلاف جنگ میں ان کا گرم جوشی سے ساتھ دیں، مگر یہ لوگ سست پڑ گئے اور ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ اس پر مولا علی(ع) نے انکی کھل کر مذمت کی جو کہ نہج البلاغہ کے کئی خطبات میں پائی جاتی ہے۔ مولا علی (ع) کی شہادت کے بعد انہی خلافتِ شیخین کے ماننے والے سیاسی شیعوں نے امام حسن (ع) کا ساتھ بھی نہ دیا۔ اور ان کا رویہ دیکھتے ہوئے امام حسن (ع) کو معاویہ سے صلح کرنی پڑی۔ امام حسین (ع) کے زمانے میں کوفہ کے سیاسی شیعہ امام حسن (ع) کی معاویہ سے صلح کے بعد معاویہ پوری سلطنت کا بلاشرکت غیرے مالک بن گیا اور اسکی یہ خلافت 20 سال کے طویل عرصہ پر محیط تھی۔ معاویہ نے خلیفہ بننے کے بعد جو اہم کام کئے، وہ یہ تھے کہ: 1. زیاد بن سمعیہ کو اپنا بھائی قرار دیا (اس بنیاد پر کہ معاویہ کا باپ ابو سفیان نے زیاد کی ماں سمعیہ سے زنا کیا تھا اور اسی زنا کی بنیاد پر زیاد پیدا ہوا تھا) 2. مولا علی (ع) کے زمانے میں زیاد کوفہ میں تھا اور اس لیے مولا علی (ع) کے تمام شیعوں کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ 3. معاویہ نے زیاد بن سمعیہ کو بھائی بنا کر اپنا طرفدار بنا لیا، اور پھر کوفہ کا گورنر مقرر کر دیا اور پھر شاہ عبدالعزیز دھلوی کی الفاط میں: اب زیاد نطفہ ناتحقیق کی شرارت دیکھئے کہ معاویہ کی رفاقت میں پہلا فعل جو اس سے سرزد ھوا وہ جناب امیر کی اولاد کی عداوت تھی تحفہ اثنا عشریہ، ص 308 4. زیاد بن سمعیہ نے کوفہ کے اُن تمام شیعوں کو (خاص طور پر مذھبی امامی شیعوں کو)، جو علی ابن ابی طالب کے سخت حامی تھے، چن چن کر قتل کیا۔ [حوالے: البدایہ والنہایہ ، ج 3(ص) 50 ، حافظ ابن کثیر ، تاریخ کامل، ج 3 (ص) 245 ؛ ابن اثیر ، تاریخ طبری، ج 6 (ص) 155، الاستیعاب ، ج 1 (ص) 138] علامہ عقیل بن حسین اپنی کتاب نصائح کافیہ، صفحہ 70 پر لکھتے ہیں: معاویہ نے زیاد بن سمعیہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا اور بصرہ کو بھی اس سے ملا دیا۔ زیاد چونکہ حضرت علی کے زمانے میں کوفہ میں رہ چکا تھا وہ یہاں کے شیعوں سے واقف تھا۔ اس نے ہر پتھر اور ڈھیلے کے نیچے سے انہیں نکال کر قتل عام کی ، ان کو دھمکیاں دیں ، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے ، ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھروا دیں ، ان کو درختوں پر سولی دی ، ان کو عراق سے نکال دیا اور غریب الوطن بنا دیا یہاں تک کہ شیعوں کا کوئی معروف شخص کوفہ میں باقی نہ بچا. یہ تھا وہ سلوک جو کہ معاویہ کے دور میں شیعان ِ علی نے جھیلا اور اس کی شدت یہ تھی کہ ایک نسل بعد جب زیاد کا بیٹا ابن زیاد گورنر بنا تو اس نے ھانی بن عروہ (جوکہ شیعہ تھے)سے کہا تھا: ھانی کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میرا باپ جب اس شھر میں آیا تھا تو اس نے تمھارے باپ اور حجر کے سوا ان شیعوں میں سے کسی کو بھی قتل کئیے بغیر نہیں چھوڑا۔پھر حجر کا جو انجام ہوا وہ بھی تمہیں معلوم ہے۔ تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 (ص) 158 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی اسی طرح حضرت ابن عباس نے امام حسین (ع) کو عراق نہ جانے کا مشورہ دیا کیونکہ کوفہ میں شیعوں میں ھانی اور دو چار اور شیعوں کے علاوہ کوئی شیعہ نہ رہ گیا تھا، چہ جائیکہ کوفہ کی اکثریت اھل بیت کے امامی شیعوں کی ہوتی۔جب ابن عباس امام حسین (ع) کے پاس دوسری مرتبہ آئے تو انہوں نے کہا: برادر میں چاہتا ہوں کہ صبر کروں لیکن صبر نہیں آتا۔ اس راہ میں مجھے آپ کے ہلاک ہونے کا خوف ہے۔اھل ِ عراق دغا باز ہیں۔ چنانچہ ہر گز ان کے پاس نہ جائیے۔ اس شھر میں قیام کریں کیونکہ آپ اھل حجاز کے رئیس ہیں۔ اگر عراق والے آپ کو بلاتے ہیں تو ان کو لکھیں کہ وہ پہلے اپنے دشمنان سے پیچھا چھڑائیں اور صرف اس کے بعد ان کے پاس جائیں۔ اگر آپ کو یہاں سے جانا ہی منظور ہے تو یمن کی طرف چلے جائیں کہ وہاں قلعے ہیں اور پہاڑ کی گھاٹیاں ہیں، ایک طویل و عریض ملک ہے ، وہاں آپ کے والد کے شیعہ موجود ہیں اور وہاں آپ لوگوں سے محفوظ رہیں گے۔ تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 (ص) 176 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی یہ تمام حقائق ظاہر کر رہے ہیں کہ معاویہ کے اس 20 سالہ طویل دور میں کوفہ کی عقیدتی امامی شیعی آبادی، جو کہ مولا علی(ع) کی شدید حامی تھی، تقریبا تمام کی تمام قتل کر دی گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ کوفہ میں پھر باقی کون لوگ رہ گئے تھے؟ تو جواب یہ ہے کہ کوفہ میں صرف وہ لوگ بچے جو کہ نہ صرف خلافتِ شیخین کے قائل تھے، بلکہ خلیفہ سوم عثمان ابن عفان کی خلافت کے بھی قائل تھے۔ جیسا کہ ابھی ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ مولا علی (ع) کے زمانے میں بھی کوفہ کی اکثریت اُن سیاسی شیعوں پر مشتمل تھی جو کہ خلافتِ شیخین کے ساتھ ساتھ خلافتِ عثمان ابن عفان کو بھی جائز مانتے تھے کیونکہ وہ اُسی اصولوں پر ہوئی تھی جس پر خلافت شیخین منعقد ہوئی تھی۔ اور اسی وجہ سے جب عقیدتی امامی شیعہ جماعت بشمول مالک بن اشتر نے کوفہ میں حضرت عثمان کے خلاف بولا تو اھل ِ کوفہ کو ناگوار گزرا اور وہ ان پر حملہ آور ہو گئے (حوالہ : تاریخ طبری ، ج 5 ، ب 19 ، (ص) 189 مطبوعہ مصر)۔ خلفائے ثلاثہ کو ماننے والے اھل کوفہ نے مولا علی اور امام حسین کا ساتھ کیوں دیا؟ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ مولا علی (ع) کے زمانے بھی اھل کوفہ کی اکثریت خلافتِ ثلاثہ کی قائل تھی۔ اگر انہوں نے معاویہ کے خلاف مولا علی (ع) کا ساتھ دیا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ مولا علی (ع) کی بیعت بطور خلیفہ چہارم انہی بنیادوں پر ہوئی تھی کہ جس پر حضراتِ شیخین کی بیعت عمل میں آئی تھی۔ یہ ایسا ہی تھا جیسا کہ اھل مدینہ کے لوگ عثمان ابن عفان کی خلافت کو جائز مانتے تھے، مگر پھر بھی جنگ صفین میں مولا علی (ع) کی صفوں میں کھڑے تھے کیونکہ وجہ وہی تھی کہ اُن کے نزدیک مولا علی (ع) کو انہی اصولوں پر مدینے کے اھل حل و عقد نے خلیفہ چہارم تسلیم کیا ہے کہ جن پر اس سے پہلے خلفائے ثلاثہ کی خلافتیں منعقد ہوئی تھیں۔ امام حسین (ع) کے زمانے میں پھر اھل کوفہ نے (جو کہ اگرچہ کہ خلافتِ ثلاثہ کے قائل تھے) یزید کے خلاف امام حسین (ع) کا ساتھ دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ انہوں نے امام حسین (ع) کا ساتھ کیوں دیا، جبکہ وہ انہیں اللہ کی طرف سے مقرر کردہ امام بھی نہیں سمجھتے تھے؟ تو اسکا جواب یہ ہے کہ اھل کوفہ نے بہت سی وجوہات کی بنا پر امام حسین (ع) کو یزید پر فوقیت دی۔ ان میں سے چند وجوہات یہ ہیں: 1. اھل کوفہ عثمان ابن عفان کے دور سے ہی بنی امیہ کے گورنروں کے خلاف ہو گئے تھے۔ 2. اسی وجہ سے انہوں نے عثمان ابن عفان کو خلیفہ ثالث مانتے ہوئے بھی اس کے خلاف فوجیں بھیجیں۔ 3. وہ بنی امیہ کے چشم و چراغ امیرِ شام معاویہ کے خلاف رہے کیونکہ وہ جائز خلیفہ چہارم کے خلاف بغاوت کر بیٹھا۔ 4. معاویہ کے حکم پر زیاد ابن سمعیہ نے اھل کوفہ پر ظلم و ستم کے دروازے کھول دیے۔ اھل کوفہ اس قتل و غارت کو نہیں بھول پائے۔ 5. معاویہ نے زبردستی یزید کے لیے بیعت لے کر سنتِ شیخین کی مخالفت کی تھی اور پہلی مرتبہ خلافت کو موروثی بنا کر بادشاہت میں تبدیل کر دیا تھا، جبکہ یزید ابن معاویہ شرابی انسان تھا اور بہت سی بُری خصلتوں میں مبتلا تھا۔ یزید کے مقابلے میں امام حسین (ع) کی جیسی نیک شخصیت تھی کہ جن کے پاکباز ہونے پر سب گواہی دیتے تھے۔ تو یہ سب وہ وجوہات تھیں کہ اھل کوفہ نے امام حسین (ع) کو اللہ کا منتخب کردہ امام نہیں مانتے ہوئے بھی یزید کے مقابلے میں انہیں ترجیح دی، اور انہیں خط لکھے کہ وہ کوفہ آ کر انہیں بنی امیہ کے ظلم و ستم سے نجات دلوائیں۔ معاویہ کے دور میں کوفہ میں شیعانِ معاویہ کی جماعت معاویہ کے 20 سالہ طویل دورِ حکومت میں کوفہ میں ایک اور جو تبدیلی آئی، وہ یہ تھی کہ یہاں ایک ایسا گروہ بھی پیدا ہو گیا جو کہ شیعانِ معاویہ پر مشتمل تھا۔ یہ گروہ معاویہ کے حکم سے منبرِ نبی سے اھل بیت پر سب و شتم کرتا تھا۔اس گروہ کی موجودگی کا سراغ اس خط سے بھی ملتا ہے جو کہ جناب مسلم بن عقیل کی آمد پر ان شیعانِ معاویہ (جو کہ اب شیعان ِ یزید ہوچکے تھے) نے یزید کو لکھا تھا: اما بعد فان مسلم بن عقیل قد قدم الکوفۃ فبایعۃ الشیعۃ اللحسین بن علی فان کان لک بالکوفۃ حافۃ فابعث الیھا رجلا قو یاینفذ امرک و یعمل مثل عملک فی عدوک فان لانعمان بن بشیر رجل ضعیف او ھو یتضعف مسلم بن عقیل کوفہ آئے ہیں اور شیعوں نے اُن کے ہاتھ پر حسین بن علی کی بیعت کی ہے۔ اگر آپ کو کوفہ میں اپنی سلطنت قائم رکھنا ہے تو ایک طاقتور شخص کو یہاں مقرر کیجئے۔ جو آپ کے حکم کو نافذ کرے اور دشمن کے ساتھ وہ سلوک کرے جو آپ خود اگر ہوتے تو کرتے۔ اس لئے کہ نعمان بن بشیر (جو کوفہ کا حاکم ہے ) وہ فطرتاً کمزور ہے۔ یا کسی وجہ سے کمزوری کر رہا ہے۔ اس مضمون کو لکھنے والے تین آدمی ہیں: 1. عبداللہ بن مسلم بن سعید حضرمی حلیف بنی امیہ 2. عمارہ بن عقبہ 3. عمر بن سعد بن ابی وقاص یزید نے اس خط کے ملتے ہی ایک فرمان ابن زیاد (جو زیاد ابن سمعیہ کا بیٹا تھا) کے نام لکھا جسکی عبارت قابلِ دید ہے: ما بعد فانۃ کتب الی شیعی من اھل الکوفۃ بخیر وننی ان ابن عقیل بالکوفۃ تجمع الجموع لشق عصا المسلمین فرحین تفراء الخ میرے پاس میرے شیعوں نے جو کوفہ کے رہنے والے ہیں یہ لکھا ہے کہ ابن عقیل کوفہ میں جتھے جمع کر کے مسلمانوں کی موجودہ بنی بنائی بات کو بگاڑنا چاہتے ہیں۔ لہذا تم فوراً وہاں جاؤ اور مسلم پر قابو حاصل کر کے سزا دو (طبری، جلد 6 صفحہ 200) محترم قارئین! پہچان تو لیا ہو گا یہ عمر ابن سعد بن ابی وقاص کون ہے جو اس خط کے لکھنے والوں میں ہے؟ بے شک یہ وہی سپہ سالار ہے جو حسین بن علی کے قتل کے لئے بھیجا گیا تھا۔ جس نے سب سے پہلا تیر لشکرِ حسین کی طرف چلایا تھا(طبری جلد 6 صفحہ 245)۔ اور اسکا شیعانِ یزید میں سے ہونا ایسی ناقابل تردید حقیقت ہے جسے سوائے ناصبی آنکھوں کے ہر دوسری آنکھ دیکھ سکتی ہے۔ چنانچہ، امام حسین (ع) کے زمانے تک کوفہ میں جو مختلف گروہ تھے، انکی تفصیل یوں ہوئی: 1. شیعانِ عثمان (بنی امیہ)، جو کھل کر اھل بیت پر سب و شتم کرتے تھے اور یزید کی حکومت کے لیے مستقل بطور جاسوس کردار ادا کرتے تھے۔ یہ پہلے تین خلفاء کی خلافت کے قائل تھے جبکہ مولا علی (ع) کی خلافت کو انہوں تسلیم نہیں کیا۔ ابن تیمیہ لکھتا ہے: عثمانی شیعہ علی کو ممبروں سے کھل کے سب و شتم کیا کرتے تھے منہاج السنہ ، ج 1 (ص) 178 کوفہ میں موجود سرکاری فوج (جس کو معاویہ نے خلیفہ بننے کے بعد روانہ کیا تھا) کا تعلق بھی اسی گروہ سے تھا۔ یعنی یہ سرکاری فوج بنیادی طور پر شام سے لا کر یہاں آباد کی گئی تھی۔ 2. عام اھل کوفہ، جنہیں سیاسی معنوں میں (شیعانِ عثمان کی رد میں) شیعانِ علی کہا جاتا تھا۔ یہ عقیدتی طور پر پہلے تین خلفاء کی بجائے چار خلفاء کے ماننے والے تھے۔ یہ گروہ کوفہ میں سب سے زیادہ اکثریت میں تھا۔ 3. اھل بیت علیھم السلام کا خصوصی شیعانِ خاصہ کا گروہ، جو عقیدتی امامی شیعہ تھے۔ یہ گروہ کوفہ میں سب سے زیادہ اقلیت میں رہ گیا تھا۔ قارئین کرام، کربلا کے واقعات کو سمجھنے کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ آپ کوفہ میں موجود ان تین گروہوں سے اچھی طرح تعارف حاصل کر لیں۔ قاضی نور اللہ شوستری کا بیان کہ اھل کوفہ کی اکثریت شیعہ تھی آخر میں ہم ایک ناصبی بہانے کو بھی نقل کرتے چلیں۔ ناصبی حضرات شیعہ عالم ِ دین قاضی نور اللہ شوستری کی ایک عبارت کو غلط انداز میں پیش کر کے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اھل کوفہ خلافتِ شیخین کے ماننے والے نہیں بلکہ امامی شیعہ تھے۔ اس سلسلے میں وہ جو عبارت پیش کرتے ہیں، وہ یہ ہے: Nawasib state: قاضی نور اللہ شوستری نے مجالس المومنین کے صفحہ 25 میں تصریح کر دی: "اھل کوفہ کے شیعہ ہونے کے لیے کسی دلیل کی حاجت نہیں۔ کوفیوں کا سنی ہونا خلافِ اصل ہے جو محتاج دلیل ہے، اگرچہ ابو حنیفہ کوفی تھے۔" پہلا جواب : قاضی صاحب کی یہ عبارت کربلا کے زمانے کی نہیں ہے۔ بلکہ ابو حنیفہ کوفی کا ذکر کر کے قاضی صاحب نے وہ وقت بتادیا کہ جس کا وہ تذکرہ کر رہے ہیں ٌ(یعنی قاضی صاحب واقعہ کربلا سن 61 ہجری کی بات نہیں کر رہے، بلکہ ابو حنیفہ کوفی کے عروج کے دور کی بات کر رہے ہیں۔ اور ابو حنیفہ تو واقعہ کربلا کے وقت تو پیدا بھی نہیں ہوا تھا)۔ دوسرا جواب: ابو حنیفہ کے زمانے کے متعلق بھی یہ قاضی صاحب کی ذاتی رائے ہے۔ لہذا ناصبی حضرات کا یہ عذر اُس وقت تک قابلِ قبول نہیں ہو سکتا جبتک وہ اس کی حمایت میں کوئی تاریخی روایت نہ پیش کریں۔ تیسرا جواب: ہم نے اھل سنت کی تاریخی کتب سے کئی روایات کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ کربلا کے زمانے میں کوفہ میں الشیعہ خاصہ یعنی عقیدتی امامی شیعہ کی تعداد مٹھی بھر سے زیادہ نہیں رہ گئی تھی۔ باقیوں کو زیاد ابن سمعیہ نے اپنی گورنری کے دور میں چن چن کر قتل کر دیا تھا۔ لہذا نجس ناصبیوں کا قاضی نور اللہ شوستری کے اس قول واحد کو توڑ مروڑ کر عذر بیانی کرنا قابل قبول نہیں ہو سکتا، بلکہ اس بات کی کھلی نشانی ہے کہ بےغیرت ناصبی کیسے عام اھل سنت مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ باب نمبر 4 یزید کی بیعت کی ابتدا ذیل میں ہم مختصراً یزید کی بیعت کی ابتدا کا ذکر کریں گے تاکہ انصاف پسند قارئین خود ہی اندازہ لگا لیں کہ یزید کو کس قدر نیک نیتی کے ساتھ خلیفہ بنانے کی تیاریوں کا آغاز ہوا۔ کیا یزید اسلامی اصولوں کی پاسداری کے لیے ولی عہد مقرر کیا گیا؟ نہیں، یزید کی ولی عہدی کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ مغیرہ بن شعبہ نے اپنی گورنر کی کرسی بچانے کے لیے یزید کا نام خلافت کے لیے پیش کیا۔ ابن جریر نے شعبی کے طریق سے روایت کی ہے کہ مغیرہ بن شعبہ امیر معاویہ کے پاس آیا اور کوفہ کی امارت سے بریت کا اظہار کیا۔ اس پر معاویہ نے اُس کی کبر سنی اور کمزوری کے باعث اُسے بری کر دیا اور سعید بن العاص کو کوفہ کا امیر مقرر کیا۔ جب مغیرہ بن شعبہ کو اس کی اطلاع ملی تو اُسے بہت پشیمانی ہوئی اور اُس نے یزید بن معاویہ کے پاس آ کر اُسے مشورہ دیا کہ وہ اپنے باپ سے ولی عہد ہونے کا مطالبہ کرے۔ پس یزید نے اپنے باپ سے اسکا مطالبہ کیا تو معاویہ نے اُس سے پوچھا کہ یہ مشورہ تجھے کس نے دیا ہے؟ یزید نے کہا کہ مغیرہ بن شعبہ نے۔ پس معاویہ کو مغیرہ بن شعبہ کی یہ بات پسند آئی اور اُس نے مغیرہ کو کوفہ کی عملداری پر واپس بھیج دیا اور حکم دیا کہ وہ کوفہ جا کر یزید کی ولیعہدی منوانے کی کوششیں شروع کرے۔ معاویہ نے زیاد کو بھی خط لکھ کر اس کے متعلق مشورہ لیا، مگر زیاد نے اس بات کو پسند نہیں کیا کیونکہ وہ یزید کے کھلنڈرے پن اور شکار اور کھیل کی طرف متوجہ ہونے سے واقف تھا۔ البدایہ و النہایہ، ج 8 ص 870 (نفیس بک اکیڈمی، کراچی)۔ اس بیعت کی ابتدا رشوت سے ھوئی ابن کثیر لکھتے ھیں: زبیر بن بکار نے بیان کیا ہے کہ ابراہیم بن محمد بن عبد العزیز الزہری نے اپنے باپ سے اپنے دادا کے حوالے سے مجھ سے بیان کیا کہ یزید بن معاویہ کی بیعت کے انکار کے بعد معاویہ نے حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر (جناب عائشہ کے بھائی اور جناب ابو بکر کے بیٹے) کی طرف ایک لاکھ درھم بھیجے تو عبد الرحمن بن ابی بکر نے اس رقم کو واپس کر دیا اور ان کے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ کیا میں اپنے دین کو اپنی دنیا کے بدلے فروخت کر دوں؟ البدایہ و النہایہ، ج 8 ص 891 (نفیس بک اکیڈمی، کراچی)۔ اور علامہ ابن حجر العسقلانی تحریر کرتے ہیں: معاویہ نے عبداللہ ابن عمر سے مطالبہ کیا کہ وہ یزید کی بیعت کریں۔ پھر معاویہ نے 100000 درہم عبداللہ ابن عمر کو بھیجے، مگر عبداللہ ابن عمر نے انہیں لینے سے انکار کر دیا۔ فتح الباری، جلد 13، صفحہ 80 نوٹ: ابن حجر العسقلانی نے فتح الباری کی آغاز میں لکھا ہے کہ وہ اس کتاب میں جو احادیث درج کریں گے وہ صحیح ہیں، یا پھر کم از کم حسن کے درجے کی ہیں۔ پھر یہ بیعت اپنے مذموم ارادے پورے کرنےکے لیے رشوت سے آہستہ آہستہ ڈرانے دھمکانے کی طرف بڑھی۔ حافظ ابن کثیر الدمشقی لکھتے ہیں: پانچ افراد ایسے تھے جنہوں نے یزید کی بیعت نہ کی۔ 1۔ عبدالرحمن بن ابو بکر 2۔ عبداللہ ابن عمر 3۔ عبداللہ ابن زبیر 4۔ حسین بن علی 5۔ ابن عباس اس پر معاویہ بذاتِ خود مدینہ گیا اور ان پانچوں کو طلب کیا اور ڈرایا دھمکایا۔ البدایہ و النہایہ، جلد 7، صفحہ 79، سن 57 ہجری کے واقعات اور یوں ہی تاریخ کامل میں ذکر ہے: پانچ لوگوں نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کیا۔ اس پر معاویہ جناب عائشہ کے پاس آیا اور کہا: "اگر یہ پانچوں یزید کی بیعت نہیں کرتے تو میں انہیں قتل کر دوں گا۔" اس پر جناب عائشہ نے کہا: "میں نے بھی یہ سنا ہے کہ تم خلیفہ زادوں کو یزید کی بیعت کے لیے ڈرا دھمکا رہے ہو۔" تاریخ کامل، جلد 3، صفحہ 455 ، ذکر بیعتِ یزید اور تاریخ طبری میں درج ہے: عبدالرحمن بن ابی بکر یزید کی بیعت سے گریز کرتے رہے۔ اس پر معاویہ نے اسے طلب کر کے کہا کہ کیا تم میں جرات ہے کہ میرے خلاف کھڑے ہو؟ اللہ کی قسم مٰیں تمہیں قتل کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ اس پر عبدالرحمن نے جواب دیا: "مجھے قتل کر کے تم اُن لوگوں میں سے ہو جاؤ گے جن پر اللہ اس دنیا میں اور آخرت میں اپنی لعنتیں بھیجتا ہے۔" تاریخ طبری، جلد 7، صفحہ 177، سن 56 کے حالات کے ذکر میں۔ معاویہ کی موت کے بعد یزید کے بیعت لینے کے طریقے معتبر تاریخی حوالے اس حقیقت کو آشکار کر رہے ہیں کہ امام حُسین (ع) کو کوفہ آنے کی دعوت ملنے سے قبل ہی یزید(لعین) نے امام حُسین (ع) سے بیعت حاصل کرنے کے تمام طریقے اختیار کرنے کی پوری تیاری کر لی تھی۔ معاویہ کی موت کے بعد یزید (لعین) نے مدینہ میں اپنے گورنر ولید بن عتبہ کو لکھا: حُسین ، عبداللہ ابن عمر ، اور عبد اللہ ابن زبیر کو بیعت کے لئے سختی سے پکڑ لو اور اس میں نرمی نہیں کرنا حتیٰ کہ وہ بیعت کر لیں البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1004 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی اس سلسلے میں ولید بن عتبہ نے مروان کو بلایا اور اُس سے مشورہ مانگا جس پر مروان نے کہا: قبل اس کے کہ انہیں معاویہ کی موت کا علم ہو آپ اُنہیں بیعت کرنے کی دعوت دیں اور اگر انکار کریں تو قتل کردیں البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1004 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی ان سب واقعات سے قارئین خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یزید کی ولیعہدی میں کسقدر نیک نیتی شامل تھی، اور یزید اور اُسکے شیعہ کس طرح ہر حال میں یزید کی بیعت کو پورا کرنے کے لیے مخالفین کا خون بہانا چاہ رہے تھے۔ باب نمبر 5 خلافتِ شیخین تسلیم کرنےوالے کوفی شیعوں کے امام حسین کے نام خطوط ہم نے پچھلے ابواب میں ثابت کیا تھا کہ معاویہ کے 20 سالہ طویل حکومتی عرصہ کے بعد کوفہ میں تین 3 گروہ آباد تھے۔ 1. شیعانِ عثمان (بنی امیہ)، جو کھل کر اھل بیت پر سب و شتم کرتے تھے اور یزید کی حکومت کے لیے مستقل بطور جاسوس کردار ادا کرتے تھے۔ یہ پہلے تین خلفاء کی خلافت کے قائل تھے(جبکہ مولا علی (ع) کی خلافت کو انہوں تسلیم نہیں کیا)۔ ابن تیمیہ لکھتا ہے: عثمانی شیعہ علی کو ممبروں سے کھل کے سب و شتم کیا کرتے تھے منہاج السنہ ، ج 1 ص 178 2. عام اھل کوفہ، جنہیں سیاسی معنوں میں [شیعانِ عثمان کی رد میں] شیعانِ علی کہا جاتا تھا۔ یہ عقیدتی طور پر شیعانِ عثمان کے برخلاف، پہلے تین خلفاء کی بجائے چار خلفاء کے ماننے والے تھے۔ یہ گروہ کوفہ میں سب سے زیادہ اکثریت میں تھا۔ 3. اھل بیت علیھم السلام کا خصوصی شیعانِ خاصہ کا گروہ، جو عقیدتی امامی شیعہ تھے۔ یہ گروہ کوفہ میں سب سے کم اقلیت میں رہ گیا تھا۔ عام اھل کوفہ کا بنی امیہ کے مظالم سے تنگ ہونا عام اھل کوفہ عثمان ابن عفان کے دور سے ہی بنی امیہ کے حکام کے مظالم سے تنگ تھے، اور بار بار انکی شکایت عثمان ابن عفان سے کرتے تھے، مگر عثمان نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ مثلاً عثمان خلیفہ بننے کے بعد کوفہ میں موجود گورنر سعد بن ابی وقاص کو جو کبار صحابہ میں سے تھے، معزول کر دیا اور اُنکی جگہ ولید بن عقبہ جسکا تعلق بنی امیہ سے تھا، کو کوفہ کا عامل مقرر کیا۔ یہ ولید بن عقبہ فاسق و فاجر شخص تھا اور نشے کی حالت میں نماز پڑھانے پہنچ جاتا تھا۔ ایک صبح ایسے ہی نشے کی حالت میں فجر کی نماز دو کی بجائے چار رکعت پڑھا دی۔ مختصرا ً یہ کہ عثمان کے دور سے ہی اھل کوفہ بنی امیہ کے حکام کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ پھر جب معاویہ خلیفہ ہوا تو اُس نے زیاد بن سمعیہ کے ہاتھوں کوفہ میں لوگوں کا قتل عام کروایا۔ اس سے لوگ بظاھر خاموش تو ہو گئے لیکن اُن کے دلوں میں بنی امیہ کے خلاف عداوت کی آگ اور بھڑک اٹھی۔ پھر جب معاویہ نے اپنے مرنے سے قبل یزید جیسے فاسق و فاجر اور شرابی کبابی بیٹے کو خلافت کے لیے نامزد کر کے خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرنے کی بدعت کی، تو اس پر یہ اھل کوفہ اور زیادہ بھڑک اٹھے۔ اھل بیت کے الشیعہ خاصہ کا اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش جب اھل کوفہ کے شیعہِ خاصہ (یعنی عقیدتی /امامی شیعہ جو کہ اقلیت میں تھے) تک یہ خبریں پہنچیں کہ امام حسین (ع) نے یزید کی خلافت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور وہ اسی مقصد کے لیے مدینہ سے ہجرت کر کے مکہ معظمہ آ گئے ہیں اور یہ طے کر لیا ہے کہ جو کچھ بھی ہو، یزید کی بیعت نہ کریں گے، تو جماعت کو جو بیس برس کی طویل مدت تک طرح طرح کے صبر آزما مظالم برداشت کرتے ہوئے عاجز آ چکی تھی اور ہر وقت وہ جناب حسین (ع) کی جانب سے نصرت کی منتظر تھی، اپنی مایوسیوں کی مدت سے چھائی ہوئی تاریک گھٹاؤں میں امید کی شعاعیں نظر آنے لگیں اور ان کے ضمیر نے آواز دی کہ اس موقع سے بہتر کوئی موقعہ نہ ملے گا۔ اور اس وقت کا سکوت اپنے ہاتھ سے خود کشی کے مترادف ہو گا۔ یہ سوچ کر یہ جماعت سلیمان بن صرد صحابی رسول ص کے گھر میں جمع ہوئے۔ سن رسیدہ اور تجربہ کار سلیمان نے، جو رسالت مآب(ص) کی آنکھیں دیکھے ہوئے اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب کے ساتھ لڑائیوں میں شریک رہ چکے تھے، مجمع کو ان الفاظ سے مخاطب کیا: معاویہ کا انتقال ہوا اور حیسن نے یزید کی بیعت سے انکار کیا ہے۔ اور وہ مکہ معظمہ چلے گئے ہیں۔ آپ لوگ ان کے اور ان کے پدر بذرگوار کے شیعہ ہیں۔ اگر آپ اس بات کا یقین رکھتے ہوں کہ ان کی نصرت و مدد میں اور ان کے دشمنوں سے جنگ میں کوتاہی نہ ہو گی تو بسم اللہ، ان کو خط لکھیے اور اگر سستی و کمزوری کا خوف ہو تو خدا کے واسطے ایک شخص کو فریب دے کر اس کی جان کو خطرہ میں نہ ڈالئے۔ ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ سلیمان وقتی جوش و جذبہ کو بھڑکا کر اپنے مقصد کو حاصل نہیں کرنا چاہتے تھے، بلکہ وہ مجمع کو موقع کی نزاکت اور آئیندہ کے خطرات کے متعلق صحیح تصویر دکھانا چاہتے تھے۔ یہ امر فطری ہے کہ جذبات کی برانگیختگی کے موقع پر انسان کو اپنی طاقت کا اندازہ مشکل سے ہوتا ہے اور وہ اپنی طاقت کا اندازہ کرنے میں غلطی کر جاتا ہے۔ مگر مجمع کے اندر ان کے بڑھتے ہوئے جوش میں سلیمان کے الفاظ نے وہ کام کیا جو پانی کا چھینٹا اٹھتے ہوئے آگ کے شعلوں میں۔ایک مرتبہ سب بول اٹھے کہ نہیں نہیں، ہم یقیناً ان کے دشمنوں سے جنگ کریں گے اور اپنے آپکو حضرت کے قدموں پر نثار کرینگے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان الشیعہ خاصہ کی یہ جمعیت تعداد میں کتنی تھی؟ اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ وہ کسی میدان یا عالی شان قصرِ امارت کے وسیع صحن کی رہینِ ِ منت نہ تھی، بلکہ وہ عربی طرز کے مختصر مکانات میں سے، جن کے نمونے آج تک عربستان میں نظر آ جاتے ہیں، ایک مکان یعنی سلیمان بن صرد کے گھر میں مجتمع ہو گئی تھی۔ مذکورہ بالا سوال و جواب اور اس کے الفاظ میں بے شک صداقت کا جوہر نظر آ رہا ہے، لیکن وہ آئندہ ہونے والے ناگہانی انقلابات کا کہاں تک مقابلہ کر سکتے ہیں؟ اس کا فیصلہ مستقبل ہی کے ہاتھ ہے۔ سلیمان بن صرد کی حجت تمام ہو چکی تھی۔ امام حسین (ع) کو اس عنوان سے خط لکھا گیا: بسم اللہ الرحمن الرحیم لحسین بن علی (ع) سلیمان صرد و المسیب بن نختہ و رفاعۃ بن شداد و حبیب بن مظاھر و شیعۃ من المومنین و المسلمین من اھل الکوفہ اس خط میں تو یہ بات بالکل صاف کر دی گئی کہ کوفہ میں کئی طرح کے گروہ آباد تھے اور یہ خط جمیع اھل کوفہ کی طرف سے نہیں بلکہ صرف کوفہ میں موجود مومنین اور مسلمین کے خاص شیعوں کی طرف سے تھا۔ اس کے بعد معاویہ کے انتقال پر اظہارِ مسرت کیا گیا تھا اور لکھا تھا کہ: ہمارے سر پر کوئی قائد نہیں (جو جنگ میں اُنکی قیادت کر سکے)۔ لہذا آپ تشریف لائیےتاکہ آپکی وجہ سے ہم حق کی نصرت پر جمع ہو سکیں اور نعمان بن بشیر دار الامارۃ میں موجود ہے۔ ہم اس کے ساتھ نمازِ جمعہ میں شریک نہیں ہوتے اور نہ عیدگاہ جاتے ہیں۔ اگر ہم کو خبر معلوم ہو جائے گی کہ آپ تشریف لا رہے ہیں تو ہم اس کو یہاں سے نکال کر شام جانے پر مجبور کر دیں گے۔ والسلام۔ اس خط کو عبد اللہ بن ہمدانی اور عبد اللہ بن دال کے ہاتھ روانہ کیا گیا اور یہ سب سے پہلا خط ہے جو الشیعہ خاصہ کی طرف سے امام کو مکہ معظمہ میں دسویں ماہ رمضان کو ملا۔ الشیعہ خاصہ کی تحریک پر اھل کوفہ کے عامہ کے امام حسین کو خطوط اب الشیعہ خاصہ نے اپنی تحریک کو اھل کوفہ کی عامہ تک پہنچانا شروع کیا۔ اھل کوفہ پہلے ہی بنی امیہ کے خلاف بھرے بیٹھے تھے، لہذا چنگاری دکھاتے ہی آگ بھڑک اٹھی اور الشیعہ خاصہ کے ساتھ ساتھ اھل کوفہ کے عامہ کی طرف سے بھی دھڑا دھڑ خطوط امام حسین (ع) کی خدمت میں جانے لگے، اور دو ہی دن میں 53 عرضداشتیں تیار ہو گئیں۔ یہ خطوط ایک دو تین، یا چار آدمیوں کے دستخط سے تھے اور یہ سب خطوط قیس بن مسہر اور عبدالرحمن بن عبد اللہ اور عمارہ بن عبید سلولی کے ہاتھ روانہ کئے گئے۔ جب الشیعہ خاصہ نے کوفہ کے عامہ میں تحریک کا یہ زور دیکھا، تو انہیں یقین پیدا ہوا کہ رائے عامہ یزید کے خلاف ہے اور اور اس لئے کامیابی اُن کے قدم چومے گی۔ لیکن درحقیقت یہ فریبِ نظر تھا۔ عام خلقت کو اس تحریک سے ہمدردی ایسی ہی تھی جیسے آندھی کے رخ پر اڑتے ہوئے پرندہ کو۔اس غلط اندیشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یا تو پہلے خط میں “لعل اللہ ان یجمعنا بک” کے الفاظ بیم و رجا اور اجتماع و اتفاق کا خیال توقع کی صورت میں ظاہر کر رہی تھیں۔ اور یا اب آخری خط پُر زور الفاظ میں لکھا جاتا ہے جو مضبوط یقین اور کامل اعتماد کا مظہر ہے۔ تشریف لائیے جلد اس لئے کہ لوگ آپ کے منتظر ہیں اور آپ کے سوا کسی اور کو سردار تسلیم کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔ لہذا جلدی کیجئے جلدی۔ والسلام۔ اس خط کو ہانی بن عروہ اور سعید بن عبداللہ حنفی کے ذریعہ روانہ کیا گیا تھا۔ مفاد پرستوں کے امام حسین (ع) کو خطوط جیسا ہم نے اوپر عرض کیا کہ الشیعہ خاصہ کی تحریک پر اھل کوفہ کے عامہ بھی بنی امیہ کے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی امام حسین ع کو نصرت کے خطوط لکھے۔ ایسے میں چند ایسے مفاد پرست لوگ بھی تھے جنکا دین و ایمان صرف دنیا داری تھا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ کوفہ میں امام حسین ع کی نصرت کے لیے لوگ جوق در جوق کھڑے ہو رہے ہیں، تو تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے بھی امام حسین ع کو ایک خط لکھا، جسکے مضمون میں سوائے دنیاوی لذتوں کے اور کسی چیز کا ذکر نہ تھا۔ خط کا مضمون یہ تھا: کھیتیاں لہلہا رہی ہیں اور میوے درختوں میں رسیدہ ہیں اور تالاب لبریز ہیں۔ پس جب آپ چاہیں تشریف لائیں۔ ایک ایسے لشکر کےجانب جو آپ کے لئے آراستہ موجود ہے۔ اس پر سات آدمیوں کے دستخط ہیں۔ شیث بن ربعی، حجار بن الجبر ، یزید بن حارث، یزید بن رویم، عذرۃ بن قیس، عمرو بن الحجاج زبیدی، محمد بن عمری تمیمی۔ ان واقعات کے لئے ملاحظہ ہو طبری، جلد 6، صفحہ 197۔ ذرا پہلے خطوط اور اس خط میں عنوان کی حیثیت سے موازنہ کریں کہ اُن خطوط میں سے ہر خط میں برابر اپنے تشیع و ایمان کا حوالہ ہے۔ معاویہ و آلِ معاویہ کے غصبِ خلافت کا تذکرہ ہے۔ حسین بن علی کے استحقاقِ امامت کا اعتراف ہے، لیکن اس خط میں یہ کچھ بھی نہیں بلکہ صرف دنیاوی لذتوں و فوائد کا ذکر ہے۔آخر حیسن ع کو لہلہاتی کھیتیوں سے کیا کام اور رسیدہ میوؤں سے کیا غرض اور لبریز تالابوں سے کیا مطلب؟ یہ مفاد پرستوں کا ٹولہ وہ ہوتا ہے کہ جو جہاں کی ہوا دیکھتا ہے، وہیں ہو لیتا ہے۔ ان خطوط کے مضامین میں جو فرق تھا، وہی فرق میدانِ جنگ میں بھی ظاہر ہوا، جسکا ذکر ہم آگے کریں گے اور یہ بھی بیان کرینگے کہ ان خط بھیجنے والوں میں شبیث بن ربعی خلافتِ شیخین کو ماننے والا تھا اور اھل سنت کی حدیث کی کتابوں کا مشہور و مستند راوی بھی ہے۔ الشیعہ خاصہ کے نام سے خطوط لکھنے والوں کا کربلا میں شہید ہونا الشیعہ خاصہ کی طرف سے جن لوگوں نے خطوط لکھے، اُن میں سے ایک شخص کی بھی موجودگی واقعہ کربلا میں امام حسین کے مقابلہ میں نہیں پائی جاتی ۔بلکہ ان میں سے: 1. حبیب ابن مظاھر (ع)نے کربلا میں امام حسین کے قدموں پر جانبازی کے ساتھ دم توڑ کر ہمیشہ کے لئے سرخروئی حاصل کی۔ 2. اور ان اشخاص میں سے جو خطوط کے لے جانے والے تھے، سعید بن عبداللہ حنفی نے اس طرح جان نثار کی جس کی نظیر کسی شہید کے ہاں نہیں ملتی۔ ظہر کے بعد جب لڑائی نے زور پکڑا اور خونخوار دشمنوں کا لشکر امام حسین کے نزدیک پہنچ گیا اس وقت یہ جان باز امام کے سامنے کھڑا ہو گیا اور جو تیر حسین کی طرف آتا تھا اس کو اپنے سینہ پر روکتا تھا۔ آخر اتنے تیر پڑے کہ وہ جان نثار مردہ ہو کر زمین پر گر پڑا (طبری صفحہ 253) 3. اور عبد الرحمن بن عبد اللہ روزِ عاشور امام حسین سے اجازت لے کر میدانِ قتال میں آئے اور رجز پڑھ کر جنگ بہادری سے جنگ کی یہاں تک کہ شہید ہوئے۔(ابصار العین صفحہ 78) 4. اور قیس بن مسہر نے اپنی زندگی کے آخری نفس تک جس صداقت اور استقلال کے ساتھ اپنے فرض کو ادا کیا اس کا تذکرہ صفحہ تاریخ پر زریں حرفوں میں ہمیشہ ثبت رہے گا۔ اس وقت کہ جب امام حسین نے بطن الرمہ سے اھل ِ کوفہ کے نام خط دے کر ان کو روانہ کیا اور حسین بن تمیم کے ہاتھوں جو قادسیہ میں ناکہ بندی پر مقرر تھا یہ گرفتار ہو کر ابن زیاد کے پاس لائے گئے اور اس نے حکم دیا کہ قصرِ داررالامارہ پر جا کر حسین بن علی کے بارے میں کلماتِ نازیبا استعمال کریں۔ یہ موقع تھا جس کو قیس نے بہترین موقع تبلیغ کا سمجھا اور بالائے قصر جا کر بلند آواز سے کہا: سب کو معلوم ہونا چاہئیے کہ حسین فرزندِ علی و فاطمہ اس وقت خلقِ خدا میں سب سے افضل و بہتر ہیں اور وہ مقام حاجر تک پہنچ چکے ہیں۔ میں انہی کا بھیجا ہوا ہوں۔ اب تم سب ان کی آواز پر لبیک کہو یہ الفاظ ختم ہوئے ہی تھے کہ ابنِ زیاد کے حکم سے انکو قصرِ دارالامرہ کی بالائی سطح سے نیچے گرا دیا گیا اور اس شہید راہِ خدا کی ہڈیاں سرما سا ہو گئیں (طبری صفحہ 224)۔ یہ کوفہ کے وہ الشیعہ خاصہ تھے، جنہوں نے امام حسین (ع) پر اپنا خون بہا دیا۔ برخلاف اس کے آخری خط جس پر سات آدمیوں کے دستخط تھے ان میں سے پانچ شخص شیث بن ربعی اور حجار بن الجبر اور غرہ بن قیس اور عمرو بن حجاج زبیدی اور یزید بن حارث مسلماً واقعہ کربلا میں موجود تھے اور قتلِ امام حسین میں شریک تھے اور بقیہ دو کے نام اگرچہ کسی موقع پر نظر نہیں آتے لیکن قرائن کی رو سے قرینِ ِقیاس ہے کہ انہوں نے بھی قتل ِحسین میں اپنے ساتھیوں کا ساتھ دیا تھا۔ یہ عامہ میں سے اُسی مفاد پرستوں کا گروہ ہے جنہوں نے ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے دنیاوی لذتیں حاصل کرنے کے لیے امام حسین (ع) کو خط لکھا تھا لیکن جب دیکھا کہ فوجِ ابن زیاد غالب آ رہی ہے تو یہی لوگ تلواریں اٹھا کے امام حسین (ع) کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ الشیعہ خاصہ کی قتل ِحسین سے براءت مکہ سے واپسی پر امام حسین (ع) کو اھل ِ کوفہ کے خطوط موصول ہوئے ۔ اس پر امام (ع) نے مسلم بن عقیل (ع) کو وہاں جانے اور وہاں کی درست صورتحال کا جائزہ لینے کا حکم دیا۔ جب مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے تو کوفہ میں یزید کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک رہی تھی، اور اقلیت میں موجود الشیعہ خاصہ کے ساتھ ساتھ اھل کوفہ کے اکثریتی عامہ نے بھی بڑھ چڑھ کر آپکا استقبال کیا اور جلد ہی دس ہزار کے قریب کوفیوں نے آپ کو اپنی امداد کا یقین دلایا۔ اُس وقت نعمان بن بشیر کوفہ کا حاکم تھا اور صلح جو قسم کا آدمی تھا۔ اس لیے نعمان بن بشیر نےمسلم بن عقیل سے زیادہ تعرض نہ کیا، سوائے ایک خطبہ دینے کے، جس میں اُس نے لوگوں کو فتنہ سے خبردار کیا اور یزید (لعین) کو دی گئی بیعت کا وفادار رہنے پر زور دیا۔ (البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 10022 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی ) عین اسی موقع پر کوفہ سے ایک خط یزید کے پاس آتا ہے، جسکی عبارت یہ ہے: اما بعد فان مسلم بن عقیل قد قدم الکوفۃ فبایعۃ الشیعۃ اللحسین بن علی فان کان لک بالکوفۃ حافۃ فابعث الیھا رجلا قو یاینفذ امرک و یعمل مثل عملک فی عدوک فان لانعمان بن بشیر رجل ضعیف او ھو یتضعف" مسلم بن عقیل کوفہ آئے ہیں اور شیعوں نے اُن کے ہاتھ پر حسین بن علی کی بیعت کی ہے۔ اگر آپ کو کوفہ میں اپنی سلطنت قائم رکھنا ہے تو ایک طاقتور شخص کو یہاں مقرر کیجئے۔ جو آپ کے حکم کو نافذ کرے اور دشمن کے ساتھ وہ سلوک کرے جو آپ خود اگر ہوتے تو کرتے۔ اس لئے کہ نعمان بن بشیر (جو کوفہ کا حاکم ہے ) وہ فطرتاً کمزور ہے۔ یا کسی وجہ سے کمزوری کر رہا ہے۔ اس مضمون کو لکھنے والے تین آدمی ہیں: 1. عبداللہ بن مسلم بن سعید حضرمی حلیف بنی امیہ 2. عمارہ بن عقبہ 3. عمر بن سعد بن ابی وقاص محترم قارئین! کیا آپ نے ان خط لکھنے والوں میں عمر بن سعد بن ابی وقاص کے نام پر غور کیا؟ بے شک یہ وہی سپہ سالار ہے جو حسین بن علی (ع) کے قتل کے لئے بھیجا گیا تھا اور اسی نے سب سے پہلا تیر لشکرِ حسین کی طرف چلایا تھا (طبری جلد 6 صفحہ 245) اور پھر یہ اھل ِ سنت کی حدیث کی کتابوں کا ثقہ راوی بھی ہے۔ اس کے یہ الفاظ کہ "فبایعۃ الشیعۃ للحسین بن علی" کہ شیعہ جماعت نے مسلم کے ہاتھ پر حسین کی بیعت کر لی ہے، صاف بتلاتے ہیں کہ اس عمر بن سعد بن ابی وقاص کو جماعتِ شیعہ (خاصہ) سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسی طرح پھر یزید کی یہ تحریر کہ "کتب الی شیعی من اھل الکوفہ" مجھ کو میرے شیعوں نے کوفہ سے لکھا ہے" بتلا رہی ہے کہ یہ شخص یزید کا شیعہ اور اس کی خلافت کو تسلیم کرنے والی جماعت سے تھا۔ اب اس کا فیصلہ ہمارے مضمون کی گذشتہ قسط دیکھ چکنے والے ناظرین کے ہاتھ ہے کہ آیا وہ اب بھی ناصبی حضرات کی اس دعویٰ کو درست تسلیم کرتے ہیں کہ امام حسین (ع) کو قتل کرنے والے الشیعہ خاصہ ہی تھے یا نہیں۔ یزید نے اس خط کو دیکھتے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایک فرمان عبید اللہ ابن زیاد کے نام لکھا۔ یہ عبید اللہ بیٹا تھا اُسی شقی القلب زیاد بن سمعیہ کا، جسنے معاویہ کے دورِ حکومت میں کوفہ کی شیعی آبادی کا قتل عام کیا تھا، اور معاویہ کے زمانے سے ہی دمشق سے سرکاری فوجیں آ کر کوفہ میں مقیم ہو گئی تھیں۔ اسکی فرمان کی عبارت قابلِ دید ہے: ما بعد فانۃ کتب الی شیعی من اھل الکوفۃ بخیر وننی ان ابن عقیل بالکوفۃ تجمع الجموع لشق عصا المسلمین فرحین تفراء الخ میرے پاس میرے شیعوں نے جو کوفہ کے رہنے والے ہیں یہ لکھا ہے کہ ابن عقیل کوفہ میں جتھے جمع کر کے مسلمانوں کی موجودہ بنی بنائی بات کو بگاڑنا چاہتے ہیں۔ لہذا تم فوراً وہاں جاؤ اور مسلم پر قابو حاصل کر کے سزا دو طبری، جلد 6 صفحہ 200۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ناصبی حضرات کی نزدیک یہ ابن زیاد بھی شیعانِ علی ہے، جبکہ ہر انصاف پسند نگاہ دیکھ سکتی ہے کہ یہ عبید اللہ ابن زیاد خلافتِ شیخین کے ساتھ ساتھ خلافتِ عثمان کا بھی ماننے والا تھا اسی بنا پر اھل ِ سنت کی کتابوں میں اس سے احادیث بھی روایت کی گئی ہیں۔ ناصبی حضرات کا دعویٰ کہ ابن زیاد شیعانِ معاویہ نہیں بلکہ الشیعہ خاصہ میں سے تھا یہ ناصبی دعویٰ انتہائی مضحکہ خیز ہے اور ناصبی حضرات کو یہ پروپیگنڈا اس لیے کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ اصل قاتلانِ حسین کے چہروں پر نقاب ڈال سکیں کیونکہ اگر وہ مکروہ چہرے ظاہر ہوگئے تو مذھب ِ اھل ِ سنت کے پیروکار اپنے ہی مذھب کے ان معتبر علماء کے متعلق سوالات کا انبار لگادیں گے جنہوں نے اس مذھب کی بنیادی کتابوں میں نہ صرف ان ملعون قاتلوں سے روایات نقل کیں بلکہ انہیں ثقہ اور دین دار بھی قرار دیا۔ اور ابن زیاد کے متعلق یزید نے اپنے ان اشعار میں اظہارِ خیال کیا ہے: اسقنی شرمیۃ تروی مشاشی ثم قم واسق مثلھا ابن زیاد ہاں اے ساقیِ مہوش، مجھکو ایک ایسا ساغر پلا دے جو میرے جسم کے ہر جوڑ بند کو سیراب کر دے۔ پھر کھڑے ہو کر ایسا ہی ایک جام ابن زیاد کو پلا۔ صاحب لاردوالامنۃ و التسد ید منی و مغنمی و جھادی وہ کہ جو خالص دوست اور امانتدار اور میری تائید کرنے والا اور میرا سرمایہ زندگی اور جنگ میں میرا ہم دست ہے اس شخص کا کفر و الحاد اور احکامِ خدا اور رسول سے روگردانی طشت از بام تھی اور کوفہ کے عام افراد بھی اس سے خوب واقف تھے۔ چنانچہ اس موقعہ پر جب حضرت مسلم ، جنابِ ہانی بن عروہ کے گھر پر فروکش تھے اور شریک بن اعور کی عیادت کے لئے ابن زیاد کے آنے کی خبر ہوئی اور شریک نے حضرت مسلم سے کہا کہ یہ موقع ہے کہ اس کو قتل کر ڈالئے۔ لیکن ابن زیاد آیا بھی اور چلا بھی گیا مگر جناب مسلم نے کوئی اقدام اس کے قتل پر نہ کیا۔ اس پر شریک نے ابن زیاد کے جانے کے بعد مسلم سے اس کا سبب پوچھا تو جنابِ مسلم نے کہا: خصلتان ام احد احمان کراحۃ ھانی ان یقتل فی دارہ امام الاخریٰ فحدیث حڈثہ الناس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان الایمان قید القتل و لا یقتل مومن یعنی (اس کے دو سبب تھے۔ پہلے تو یہ کہ ہانی کو یہ امر ناپسند تھا کہ ابن زیاد ان کے گھر میں قتل کیا جائے، دوسرے یہ کہ رسول اللہ (ص) کی حدیث ہے کہ ایمان قتل پر پابندی عائد کرنے والا ہے اور کوئی مسلمان قتل نہیں کیا جا سکتا۔" یہ سن کر ہانی نے کہا: امار اللہ لو قتلتۃ لقتلت فاسقا فافرا کافرا غادرا ولکن کرحت ان یقتل فی داری خدا کی قسم، آپ یقین جانئے کہ اگر آپ اس کو قتل کر ڈالتے تو یہ کسی مسلمان کا قتل نہ ہوتا بلکہ ایک فاسق، فاجر ، کافر، غدار کا قتل ہوتا، بیشک مجھ کو یہ امر پسند نہ تھا کہ وہ میرے گھر میں قتل ہو۔ طبری جلد 6، صفحہ 4 اب ہم یہ بات قارئین کے انصاف پر چھوڑتے ہیں کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ یہ عبید اللہ ابن زیاد، کہ جس کے باپ زیاد بن سمعیہ کو معاویہ نے اپنا بھائی بنا لیا تھا، اور جسے کوفہ کی حکومت دی، اور یہ پسرِ زیاد جس کو یزید نے پھر سے کوفہ کی حکومت دی اور جس پر یزید اتنا اعتبار کرتا تھا، کیا وہ عقیدتی امامی شیعہ تھا یا پھر شیعانِ معاویہ؟ عبید اللہ ابن زیاد کے اہل ِسنت سے تعلق پر یہی نہیں بلکہ باب نمبر 11 میں مزید روشنی ڈالینگے اور اس کے اہل ِ سنت ہونے پر بختہ ثبوت پیش کرینگے۔ ابن زیاد کی کوفہ آمد اور اھل کوفہ پر اس کی ھیبت عبید اللہ ابن زیاد نے کوفہ میں اپنی آمد کو بالکل صیغہ راز میں رکھا تاکہ اس کی آمد اچانک ہو۔ اور پھر راستہ میں جبکہ کوفہ نزدیک رہ گیا، اس نے اپنی وضع میں تغیر پیدا کر کے ایک سیاہ عمامہ سر پر باندھا اور چہرہ پر اسی طریقہ سے جو عرب قوم کے بہادروں میں سخت موقعوں پر مرسوم ہے ایک ڈھانٹا باندھ لیا، جس کی بنا پر شناخت ناممکن ہو گئی۔ ایک مرتبہ شہر پناہ کوفہ کے اندر یہ نقشہ نظر آیا کہ آگے آگے عربی گھوڑے پر ایک رئیسِ قوم سیاہ عمامہ سر پر باندھے جو اشرافِ عرب کا امتیازی نشان تھا اور اس کے پیچھے ایک شاندار قافلہ زین و لجام، ساز و سامان سے آراستہ، اس حشم و خدم کو دیکھ کر ان توقعات کی بنا پر جو قائم تھیں، وہی ہونا چاہئے تھا جو ہوا۔ یعنی ہر شخص یہی سمجھ کر کہ حسین ابن علی تشریف لائے ہیں اور اس قائم شدہ اثر کی بنا پر جو دلوں میں تھا، جس جماعت کی طرف سے عبید اللہ کا گزر ہوتا تھا، وہ بنظر تعظیم کھڑے ہو کر آداب بجا لاتی تھی اور "خوش آمدید" کے معنوں میں یہ الفاظ زبان پر جاری ہوتے تھے "مرحبا بک یا ابن الرسول اللہ قدمت خیر مقدم"۔ ابنِ زیاد کسی کو کچھ جواب نہ دیتا تھا، بلکہ آوازوں کو سنتا، چہروں کو بغور دیکھتا، شکل و شمائل کو پہچانتا چلا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ مجمع زیادہ ہو گیا اور لوگ اشتیاق میں گھروں سے نکل آئے۔ اور ہر شخص بخیال فرزندِ رسول کی زیارت کی تمنا میں آگے بڑھنے لگا اور نوبت یہ پہنچی کہ راہ چلنے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ اس وقت مسلم بن عمرو باھل ی نے جو ابنِ زیاد کے ساتھ تھا، پکار کر کہا: راستہ چھوڑ دو یہ حسین نہیں امیر عبید اللہ ابن زیاد ہیں۔ نہ معلوم ان الفاظ میں کون سا اثر تھا کہ بڑھتے ہوئے قدم اور اٹھتے ہوئے ہاتھ اور مسرت آمیز ترانے سب موقوف ہو گئے اورر سناٹا سا چھا گیا۔ مجمع بھی تتر بتر ہوا اور جس وقت ابنِ زیاد دارالامارہ پہنچا ہے تو دس آدمیوں سے زیادہ اس کے ساتھ نہ تھے۔ (طبری، جلد 6، صفحہ 200)۔ اب ذرا فطری رجحانات پر غور کرتے ہوئے اھل ِ کوفہ کے موجودہ باطنی اضطرابات کا اندازہ کریں۔ ایک تو اچانک حادثہ جو غیر متوقع صورت سے ظہور پذیر ہوا، وہ خود سنسنی پیدا کر دیا کرتا ہے ۔ اس پر یہ صورتِ حال کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں اپنے خلاف جاسوسی کے فرض کو ادا کیا یعنی اپنے باطنی خیالات و جذبات اور حیسن کے ساتھ خلوصِ عقیدت کو خود ابنِ زیاد کے سامنے پیش کر دیا۔ اور ابنِ زیاد نے صاف ایک ایک کے چہرہ اور آواز کو پہچان رکھا ہے۔ اور ابنِ زیاد وہ ہے کہ جس کی اور جس کے باپ کی تلوار کے نیچے بیس برس تک اس تمام خلقت کی گردنیں اس طرح خم رہی ہیں کہ جس کو چاہا گرفتار کیا، سولی پر لٹکا دیا۔ جلاد کے ہاتھ سے اس کی رگ و گردن کو قطع کرا دیا۔ اور ایسے ھیبت ناک مناظر انہی ہاتھوں سے آنکھوں کے سامنے آچکے ہیں جس کو سوچ کر اب تک رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور دل ہل جاتے ہوں گے۔ اور اب وہی صورتیں اپنے اور اپنی اولاد اور اعزاء و اقارب کے لئے پیشِ نظر ہیں۔ کیا یہ وجوہات ایسی نہ تھیں کہ جن کی بنا پر دل و دماغ معطل، قوائے عمل سلب اور طاقتیں مضمحل اور ہمتیں پست ہو جائیں اور دلوں پر عظیم خوف و ہراس کا غلبہ ہو جاتا؟ کوفہ میں کرفیو کی سی صورتحال عربستان کا ایک طریقہ ہے کہ بڑے شہروں میں ہر محلہ کا ایک مختارِ محلہ ہوتا ہے جو اس محلہ کی مردم شماری، وارد و صادر، زندہ و مردہ، شادی شدہ و غیر شادی شدہ وغیرہ امور کے تشریحات کا مقامی حکومت کی طرف سے ذمہ دار ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص اس محلہ سے کسی جرم کا مرتکب ہو یا کہیں مفرور ہو، اس کی جواب دہی و سراغ رسانی کی ضمانت بھی اسی سے تعلق رکھتی ہے۔ ابنِ زیاد نے مسجدِ جامع میں ایک تہدیدی تقریر کے بعد سب سے پہلا جو کام کیا وہ یہ کہ تمام محلاتِ کوفہ کے ذمہ دار اشخاص کو جن سے عرافت یعنی مختاریِ محلہ کا منصب تعلق رکھتا تھا، بُلا کر یہ فرمان جاری کیا کہ جلد سے جلد ہر محلہ کی مردم شماری اور جو لوگ نئے آئے ہیں ان کی فہرست اور جن لوگوں سے حکومتِ شام کو خطرہ ہے اُن کے نام ادارہِ حکومتِ محلیہ میں پیش کر دیے جائیں۔ اور اگر وہ کسی وجہ سے ان ناموں کو تفصیل دار لکھنے سے معذور ہوں تو ضمانت داخل کریں کہ ان کے محلہ میں سے کوئی شخص بھی حاکمِ شام کی مخالفت پر آمادہ نہ ہو گا۔ اور اس کے خلاف ظاہر ہوا تو اس مختارِ محلہ کو خود اس کے گھر کے دروازہ پر سولی دی جائے گی۔ اور اس کے خاندان سے ہمیشہ کے لئے اس منصب کو علیحدہ کر لیا جائے گا۔ (طبری، صفحہ 201)۔ یہ مضبوط تدبیر ایسی نہ تھی جس کی کامیابی مشتبہ ہو۔ کوفہ کا چپہ چپہ حکومت کے مخبرین کی کثرت سے غیر محفوظ نظر آنے لگا اور مارشل لاء کے ایسے سخت قانون میں وہ تنبیہی طاقت نہیں جو اس صورت سے پیدا ہوئی، اس لئے کہ اب ہر شخص خاص اپنے محلہ میں ایک گھر سے دوسرے گھر جاتے ڈرتا، جھجکتا اور اپنی جان کے خطرہ کا احساس کرتا تھا۔ اور اس طرح دس آدمیوں یا پانچ آدمیوں کا بھی ایک جگہ جمع ہو کر کسی امر پر گفتگو کرنا اور کوئی قرارداد طے کرنا ناممکن ہو گیا۔ اس صورتِ حال کے بعد کوفہ کی رائے عام کا منقلب ہو جانا کوئی عجب امر نہ تھا، جبکہ اھل کوفہ کی اُس عامہ میں کہ جنہوں نے بیعت کی تھی، سب کے اندر کوئی مذہبی روح بھی کار فرما نہ تھی، جو ان کو سخت موقع کے لئے اپنی جان کو خطرات میں ڈالنے پر استقلال سے آمادہ رکھتی، بلکہ اس جمِ غفیر کے اتفاق و اجتماع کی نوعیت وہی تھی، جس کے اسباب کو پہلےہی ہدیہ قارئین کیا جا چکا ہے۔ کوفہ میں مقیم امیرمعاویہ کی سرکاری افواج اھل کوفہ کے متعلق بات کرتے وقت لوگ جس چیز کو سب سے زیادہ نظر انداز کرتے ہیں، وہ امیر معاویہ کے زمانے سے ہی دمشق سے آئی ہوئی سرکاری فوج اور پولیس تھی، جو کہ کوفہ میں ہی مقیم ہو گئی تھی۔ اسی سرکاری افواج کے بل بوتے پر زیاد بن سمعیہ مسلسل کئی سالوں تک کوفہ میں قتل عام کرتا رہا، مگر کسی کو اُسکے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہ ہو سکی۔ یہ سرکاری فوجیں مکمل طور پر یزید کی حامی تھیں اور جب یزید نے ابن زیاد کو گورنر بنا کر بھیجا، تو یہ سرکاری فوجیں مکمل طور پر ابن زیاد کے کنٹرول میں چلی گئیں۔ اور اسی سرکاری فوجوں کے بل بوتے پر ابن زیاد نے تھوڑے ہی عرصے میں پورے کوفہ پر پھر قبضہ جما لیا۔ مسلم بن عقیل کی مدد کرنے والوں کی گرفتاریاں ابنِ زیاد نے ایک تدبیر یہ بھی کی کہ شہر کی ناکہ بندی کرا دی، یعنی چوراہوں اور عام راستوں پر پہرے بٹھا دیئے کہ کوئی جناب مسلم کی مدد کو نہ آ سکے۔ چنانچہ جو کوئی بھی اب جنابِ مسلم کی امداد کو آنا چاہتا، وہ فوراً گرفتار ہو جاتا۔ چنانچہ عبد الاعلیٰ ابن یزید کلبی اپنے گھرانے کے کچھ نوجوانوں کو ساتھ لئے ہوئے آ رہا تھا جس کو کثیر بن شہاب نے گرفتار کیا اور محلہ بنی عمارہ کی طرف سے عمادہ بن صلخب نے ہتھیار جسم پر آراستہ کر کے چاہا تھا کہ مسلم کے پاس آئیں، لیکن محمد بن اشعث نے گرفتار کر لیا۔ یہ دونوں جانباز مسلم اور ہانی کی شہادت کے بعد پسرِ زیاد کے حکم سے قتل کر ڈالے گئے۔(طبری جلد 6، صفحہ 206)۔ یہاں کچھ روشنی محمد بن اشعث پر بھی ڈالدی جاََئے۔ امام حسین کی دشمن فوج کا یہ کارندہ بھی 'عامہ' یعنی آ ج کی زبان میں ' سنیوں ' میں سے تھا نہ کہ شیعہ الخاصہ (یعنی عقیدتی / امامی / رافضی شیعہ) میں سے۔ یہ دشمن ِحسین بھی مذہب ِاہل ِسنت کی بنیادی احادیث کی کتابوں کا ایک بھروسہ مند راوی ہے۔ اس کی بیان کردہ احادیث ان کتابوں میں موجود ہیں: 1۔ موطا، ج 2 ص 519 2۔ سنن ابی دائود، ج 2 ص 146 3۔ سنن النسائی، ج 7 ص 302 4۔ سنن الکبریِ البھقی، ج 5 ص 332 تھذیب الکمال، ج 24 ص 496 میں ہے کہ امام ابن حبان نے محمد بن اشعث کا شمار اپنی کتاب 'الثقات' میں کیا ہے جس میں امام ابن حبان نے صرف ثقہ راویوں کا شمار کیا ہے۔ امام ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب 'تقریب التھذیب' ج 2 ص 57 ترجمہ نمبر 5760 میں محمد بن اشعث تابعی کہا ہے اور حدیث کے حوالے سے اس دشمن ِ اہل ِبیت کو 'مقبول' کا درجہ دیا ہے۔ سنن ابو دائود میں موجود اس حدیث کو جس کو محمد بن اشعث نے بیان کیا ہے اسے سلفیوں / وہابیوں کے امام ناصر الدین البانی نے اپنی کتاب 'صیح سنن ابو دائود ' ج 2 ص 670 حدیث نمبر 2997 میں 'صحیح' قرار دیا ہے۔ اہل ِسنت کا یہ پیشوا ان لوگوں میں شامل تھا جو کہ جناب امیرمختار کے ہاتھوں قاتلان ِ امام حسین سے بدلہ لینے کے دوران قتل کئے گَئے( تھذیب الکمال، ج 24 ص 496 ترجمہ نمبر 5074)۔ اور اس دشمن ِ اہل ِبیت کا شجرہ نسب ایک مشہور صحابی کے گھرانے سے بھی ملتا ہے جس گھرانے کا مذہب ِاہل ِاسنت میں خاص مقام ہے۔ تھذیب الکمال، ج 24 ص 495 میں ہم اہل ِسنت کے اس ہیرو کا تعارف اس طرح پڑھتے ہیں: محمد بن الاشعث بن قیس الکندی ابوالقاسم الکوفی، ان کی والدہ ام فروہ بنت ابی قحافہ، ابو بکر الصیق کی بہن تھیں محمد بن الاشعث کے علاوہ ایک اور دشمن ِاہل ِبیت کا ذکر گزرا جس کا نام کثیر بن شہاب ہے۔ اسے بھی کسی سنی عالم ِ دین نے شیعہ الخاصہ میں شمار نہیں کیا ہے بلکہ یہ موصوف بھی اہل ِسنت کی حدیث کی کتابوں کے راوی ہیں۔ اس پر ہم دوسرے باب میں روشنی ڈالینگے۔ دمشق سے مرکزی فوجیں آنے کی خبریں ایک اور کام جو ابن زیاد نے کیا وہ یہ کہ خبریں پھیلا دیں کہ دمشق سے مرکزی فوجیں کوفہ پہنچنے والی ہیں۔ دمشق سے فوجیں آنے کی خبر ایسی نہ تھی جو اضطراب پیدا نہ کرے۔ اس خبر سے ایک عام دہشت پیدا ہو گئی۔ حالت یہ تھی کہ: عورتیں اپنے باپ، بھائی کے پاس آتیں اور کہتیں تھیں کہ چل ، واپس چل۔ دوسرے لوگ کافی ہیں اور باپ یا بھائی اپنے بیٹے یا بھائی کے پاس آ کر کہتا تھا کہ کل دمشق سے لشکر آئے گا۔ پھر تو کیا کرے گا؟ چل، لڑائی سے کنارہ کشی کر کے اور مجبور کر کے اُسے اپنے ساتھ واپس لے جاتا تھا۔ طبری، صفحہ 208 اب شہر میں خون و دہشت کی کامل عملداری اور رعب و ھیبت کا پورا دور دورہ تھا۔ لوگ گھروں سے نکلنا خطرہ سمجھتے تھے۔اور اس لئے چاروں طرف سناٹا اور ہُو کا عالم تھا اور ایک کو ایک کی خبر نہ تھی۔ ابن زیاد کے اقدامات کے نتیجہ میں کوفہ کے الشیعہ خاصہ کی صورتحال الشیعہ الخاصہ اور حسین (ع) کے ہمدرد جو مٹھی بھر سے زیادہ نہ تھے اس وقت عجب عالم میں تھے۔ ان کو چھپنے کے لئے گوشوں کی تلاش تھی۔ جن کا ملنا بھی دشوار ہو رہا تھا۔ ابنِ زیاد کو معلوم تھا کہ عنقریب حسین (ع) تشریف لانے والے ہیں اور اگرچہ ہمتیں پست ہو چکی ہیں، لیکن ان کے آنے سے کہیں پھر انقلاب پیدا نہ ہو جائے۔ لہذا اس نے تلاش کر کے جن جن اشخاص سے اندیشہ ہو سکتا تھا انہیں قید کرنا شروع کیا۔ چنانچہ مختار بن ابو عبیدہ ثقفی، جو جنابِ مسلم کے خروج کے موقع پر کوفہ میں موجود نہ تھے، اور اسی دن اطلاع پا کر آئے، لیکن ایسے وقت پہنچے کہ جنابِ مسلم شہید ہو چکے تھے اور عمرو بن حریث نے رایتِ امن بلند کیا تھا کہ جو شخص اس کے نیچے چلا آئے اس کا جان و مال محفوظ ہے، لیکن مختار کو امان نہ مل سکی اور پپابزنجیر کر دیئے گئے تھے اور اسی طرح عبداللہ بن حارث بن نوفل اور دیگر اشخاص۔ ادھر حاکمِ اعلیٰ یزید نے بھی جنابِ مسلم کی شہادت کے بعد ابنِ زیاد کو حسین (ع) کے قصدِ عراق پر مخصوص طور سے توجہ دلاتے ہوئے لکھا: مجھ کو خبر معلوم ہوئی ہے کہ حسین عراق کی طرف متوجہ ہو چکے ہیں۔ اب تم ہوشیاری کے ساتھ جاسوس مقرر کرو اور وہم و گمان بھی خطرہ کا ہو تو اس سے تحفظ کرو اور بدگمانی جس پر ہو، اُسے فوراً گرفتار کر لو۔ طبری، جلد 6، صفحہ 215 اب کیا تھا، قید و بند کا سلسلہ جاری ہو گیا اور جیل خانے قیدیوں سے چھلکنے لگے۔ اس سیاست کی نوعیت کا اندازہ ابنِ زیاد کی اس تقریر میں جو یزید کی ہلاکت کے موقع پر اس نے کی ہے، اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے: کوئی ایسا شخص نہیں جس پر گمان بھی ہو سکتا تھا کہ وہ حکومت کی مخالفت کریگا، مگر یہ کہ وہ قید خانہ کے اندر ہے۔ طبری، جلد 7، صفحہ 18 نیز اس گفتگو سے جو اس موقع پر جبکہ ابن زیاد یزید کے مرنے کے بعد بصرہ سے فرار ہو کر دمشق جا رہا تھا، راستہ میں سیاف بن شریح سے کی ہے، جس میں اس نے کہا: میں ابھی اپنے دل میں کہہ رہا تھا کہ کاش میں نے ان لوگوں کو جو قید خانہ میں بند تھے، نکال کر گردن زنی کا حکم دے دیا ہوتا طبری، جلد 7، صفحہ 70 (اس لیے کہ وہی لوگ بعد میں انقلاب کا سبب ہوئے جیسا کہ جنابِ مختار وغیرہ) اس صورت سے حکومت کی طرف سے شہر کے داخلی حالات پر پورا قابو حاصل کر لیا گیا۔ جس کے بعد کسی شخص میں اتنی طاقت نہ رہی کہ وہ مخالفت کا نام بھی زبان پر لائے۔ اب اس کی توجہ خارج کیطرف ہوئی کہ کہیں بصرہ و مدائن اور دیگر اطراف کے لوگ کہ جہاں شیعہ کافی تعداد میں ہیں، کوئی در اندازی نہ کریں۔ نیز حیسن کی، جن کا آنا قریبی زمانہ میں یقینی ہے، ان کے ساتھ کسی سازباز کے لئے کوئی جماعت باہر نہ جانے پائے۔ دوسرے شہروں سے آمدِ شیعہ روکنے کے لیےکوفہ و مضافات کی ناکہ بندی اب یزید کے حکم سے کوفہ و آس پاس کے دیگر شہروں کی حدود کی ناکہ بندی ہوئی اور قادسیہ میں جو حجاز و عراق و شام کے خطوط زیر کا محلِ اجتماع تھا، کئی ہزار سواروں کے ساتھ حصین بن تمیم کو مقرر کیا گیا، جو اب تک کوتوالِ شہر کی حیثیت رکھتا تھا۔ اور واقصہ سے لے کر قطقطانہ، لعلع اور خفان اور اطراف و جوانب میں جو شام اور بصرہ کے راستے تھے، ان سب میں لشکر پھیلا دیا گیا۔ یہاں تک کہ نہ کوئی شخص آ سکتا تھا اور نہ باہر جا سکتا تھا۔ چنانچہ قیس بن مسہر صیدادی اور عبد اللہ بن یقطر، جو امام حسین کے فرستادہ اھل ِ کوفہ کے نام خط لے جا رہے تھے، وہ اسی قادسیہ میں پہنچ کر حصین کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور خود سید الشہدا جب ان حدود میں پہنچے اور صحرائی عربوں سے حالات کو دریافت کیا تو انہوں نےکہا: خدا کی قسم، ہمیں کچھ نہیں معلوم، لیکن اتنا ہے کہ ہم نہ اندر جا سکتے ہیں اور نہ باہر نکل سکتے ہیں۔ حُر بن یزید ریاحی، جو ایک ہزار کے لشکر سے امام حسین کا سدِ راہ ہوا تھا، وہ بھی اسی فوج میں سے تھا، جو قادسیہ میں حصین کی سرکردگی میں مقرر تھی۔ یہ سب اسی لئے تھا کہ کوئی امام حسین کی مدد کے لئے کوفہ سے نہ آ سکے۔ یہاں تک کہ طرماح بن عدی اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ جب کوفہ سے غیر معروف راستہ سے آ کر امام حسین کے ساتھ ملحق ہوئے، اس وقت حُر نے آ کر حضرت سے کہا کہ: "یہ لوگ جو اھل ِ کوفہ میں سے ہیں، آپ کے ساتھ مکہ سے نہیں آئے ہیں۔ لہذا میں ان کو گرفتار کرتا ہوں۔ یا کوفہ واپس جانے پر مجبور۔"لیکن حضرت نے اس فرمان پر کہا "اب جبکہ یہ میرے پاس پہنچ گئے ہیں، تو میرے ہی اصحاب و انصار میں داخل ہیں اور اب ان کی حفاظت مجھ پر فرض ہے۔ لہذا ناممکن ہے کہ میں ان کو تمہارے سپرد کر دوں" اور اس پر حُر کو ساکت ہونا پڑا طبری، جلد 6، صفحہ 220 اس موقع پر کہ جب امام حسین کربلا میں پہنچ چکے تھے، خود ابنِ زیاد نے کوفہ سے نکل کر نخلیہ میں اپنا مرکز قرار دے لیا تھا اور وہیں افواج کا معائنہ ہوتا تھا اور انہیں ترتیب دے کر کربلا روانہ کیا جاتا تھا (تصدیق کے لئے دیکھئے طبری، جلد 7 صفحہ 47)۔ اھل کوفہ کی گرفتاری جو امام حسین سے جنگ نہیں چاہتے تھے اب صورتحال یہ تھی کہ الشیعہ خاصہ تو قتل کر دیے گئے، یا پھر قید کر لیے گئے۔ اب کوفہ کے عامہ میں سے لوگوں کو ابن زیاد کے حکم سے زبردستی کربلا روانہ کیا جاتا۔ اھل کوفہ کے یہ عامہ کے لوگ بھی امام حسین (ع) سے جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے، لہذا موقع ملتے ہی وہ کوفہ واپس بھاگ جانے کی کوشش کرتے۔ اس کے لئے ابن زیاد نے سوید بن عبدالرحمن منقری کو کچھ سواروں کے ساتھ کوفہ روانہ کیا کہ جو ایسا شخص وہاں ملے، اس کو گرفتار کر کے روانہ کیا جائے۔ سوید نے ایک شخص کو اھل ِ شام میں سے جو کوفہ کسی اپنے ذاتی معاملہ کے لئے آیا تھا گرفتار کر کے ابنِ زیاد کے پاس بھیجا اور اس نے ھیبت قائم کرنے کے لئے اس کو قتل کرا دیا، جس کے بعد وہ تمام لوگ جو ٹہر گئے تھے، نکل کر کربلا روانہ ہو گئے (الاخبار الطوال، صفحہ 252)۔ ان اجتماعات سے صریحی طور پر چند نتائج مرتب ہوتے ہیں: 1. کوفہ کی جماعتِ الشیعہ خاصہ میں جو حیسن کی ہمدرد ہو سکتی تھی اور جن کی نصرت کا خیال ہو سکتا تھا، ایک کثیر تعداد قتل کر دی گئی اور باقی ماندہ لوگ پا بزنجیر کر لیے گئے۔ اور اس طرح نہ معلوم کتنے باہمت اور پُر جگر اشخاص ہوں گے جو اگر باہر ہوتے تو اپنی جان حسین پر سے نثار کرتے۔ لیکن اس موقع پر وہ تاریک زنداں میں مقید تھے۔ 2. حدود کی ناکہ بندی نے کوفہ کے رہے سہے اشخاص کے لئے، جن میں جذبہ نصرتِ حسین ہو سکتا تھا، حضرت تک پہنچنے کو دشوار سے دشوار بنا دیا تھا۔ اور اگر وہ آنے کا قصد کرتے بھی تو یقیناً نخلیہ میں، کہ جو بالکل کوفہ کے نکڑ پر کربلا کے راستہ میں تھا، گرفتار کر لئے جاتے یا آگے بڑھ کر قادسیہ اور خفان اور قطقطانہ و لعلع کی منزل پر وہ پکڑے جاتے۔ 3. ابنِ زیاد کی طرف سے یہ اھتمام تھا کہ کوئی جنگ آزما شخص کوفہ میں ایسا باقی نہ رہ جائے جو حسین (ع) سے جنگ کے لئے نہ نکلے اور اس طرح ان افراد کے لئے جو حسین کے مقابلہ میں جانے سے نفرت کرتے تھے، اس جرم سے حفاظت بھی تلفِ جان و مال کی ضامن بن گئی تھی۔ یعنی جیسے ہی عامہ میں سے جنگ کے قابل کوئی شخص امام حسین (ع) کے خلاف جنگ کرنے سےانکار کرتا، اُسی وقت اُسکو شیعانِ علی جانتے ہوئے اُسکی جان و مال کو لوٹ لیا جاتا۔ باوجود سخت دشواریوں کے شیعانِ خاصہ کی نصرتِ حسین لیکن باوجود ان دشواریوں کے ان ہمت شکن مشکلات کے ان طاقت ربا مصائب کے ہم دیکھتے ہیں کہ الشیعہ الخاصہ کے وہ افراد جو حسینی دعوت کے بانی و مبلغ اور اس تحریک کے داعی و مروج تھے، اور سب سے پہلے خط بھیجنے والوں میں سے تھے، اور جنہوں نے وفاداری کا اقرار اور جانبازی کا عہد کیا تھا، وہ کسی نہ کسی طرح کربلا میں حسین تک پہنچ گئے اور اپنی جانیں انکے قدموں پر نثار کیں۔ 1. یاد کریں وہ وقت کہ جب مسلم بن عقیل (ع) نے امام حسین کا خط پڑھ کر سنایا تھا، تو کون لوگ تھے اس وقت تقریر کر کے عہدِ نصرت و فداکاری کرنے والے؟ بے شک وہ تین آدمی تھے، عابس بن ابی شبیب شاکری، حبیب ابنِ مظاہر اور عمر سعید بن عبداللہ حنفی۔ 2. کون تھا مسلم بن عقیل کا وکیل و نائب اور رازداری کے ساتھ حسین کی بیعت لینے والا؟ یقیناً وہ مسلم بن عوسجہ اسدی تھے۔ 3. کون تھا مسلم کے ادارہِ اسلحہ کا منتظم اور جمع اموال کا موتمن و معتمد؟ بلاشبہ وہ صرف ابو ثمامہ صیدادی تھے۔ 4. پھر کیا یہ وہ لوگ نہیں ہیں جنہوں نے ثباتِ قدم و استقلال کے ساتھ آخر دم تک حسین کا ساتھ نہیں چھوڑا؟ اور آخر ان کی لاشیں حسین کے قدموں پر خاک و خون میں تڑپتی ہوئی نظر آئیں؟ ان کے علاوہ بھی حسینی جماعت میں زیادہ تر کوفہ کے شیعہ خاصہ تھے جیسے: 5. بریر بن خضیر حافظِ قران مجید، کہ جن کو دیکھ کر لشکرِ عمرِ سعد میں کہا گیا تھا: ِ تو وہی بریر بن خضیر ہیں جو ہم کو مسجد میں بیٹھ کر قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔"ری جلد 6، صفحہ 247)۔ 6. اور انس بن حارث اسدی صحابیِ رسول (ص) جن کا تذکرہ ابنِ اثیر جزری نے اسد الغابہ میں اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے اصابہ میں کیا ہے۔ ابنِ اثیر کا قول ہے کہ: ان کا شمار اھل ِ کوفہ میں ہے اور یہ امام حسین کی خدمت میں پہنچے تھے اس وقت جب آپ کربلا میں اُتر چکے تھے اور شب کے وقت حضرت کے پاس پہنچے۔ ان لوگوں کے ذیل میں جن کے بخت نے یاوری کی تھی۔ 7. اور نافع بن ہلال جملی جو کوفہ کے قبیلہ مذحج سے تھے۔ 8. اور حنظلہ بن اسد 9. اور مجمع بن عبداللہ عائذی 10. اور عائذ بن مجمع 11. اور عمر بن خالد صیدادی 12. اور جنادہ بن حارث سلمانی 13. اور موید بن عمرو 14. اور موقع بن ثمامہ اسدی 15. اور سیف بن حارث بن سریع ہمدانی 16. اور مالک بن عبد اللہ بن سریع 17. اور سوار بن منعم ہمدانی 18. اور عمر قرظہ انصاری 19. اور نسیم بن عجلان انصاری 20. اور عبداللہ بن بشر خشعمی 21. اور حارث بن امراء القیس کندی 22. اور بشر بن عمر کندی 23. اور عبداللہ بن عروہ و عبدالرحمن بن عروہ نامی دونوں بھائی 24. اور عبد اللہ بن عمیر کلبی 25. اور سالم بن عمرو کلبی 26. اور مسلم بن کثیر ازدی 27. اور دافع بن عبد اللہ ازدی 28. اور قاسم بن حبیب ازدی 29. اور زہیر بن مسلم ازدی 30. اور نعمان بن عمرو 31. اور مسعود بن حجاج تیمی 32. اور جوین بن مالک تیمی 33. اور عمر بن ضبیعہ تیمی 34. اورر حباب بن عامر تیمی 35. اور امیہ بن سعد طائی 36. اور ضرضام بن مالک ثعلبی 37. اور کنانہ بن عتیق ثعلبی 38. اور قاسط بن زہیر کردوس بن زہیر ثعلبین 39. اور جبلہ بن علی شیبانی 40. اور یزید بن زیاد بن مہاجر ابو الشعثاء کندی وغیرہ۔ حیرت ہے کہ بغض ِ اھل یبت کو دل میں چھپائے سپاہ صحابہ جیسے نجس نواصب کو ابھی تک یہ شیعانِ خاصہ نظر نہیں آئے اور نہ انکی شہادت نظر آئی۔ اسی طرح ناصبی حضرات کو توابون میں شامل شیعہ تو نظر آ جاتے ہیں، مگر یہ اوپر والے الشیعہ خاصہ نظر نہیں آتے جنہوں نے کربلا میں اپنی جانیں قربان کر کے نصرتِ امام حسین (ع) کی اور نہ ہی ان بےغیرت ناصبیوں کو وہ کُھلے قاتلان ِ حسین نظر آتے ہیں جو کہ خود ان (اھل ِ سنت)کی معتبر کتابوں کے ثقہ راوی تسلیم کیئے جاتے ہیں ۔ اور کیوں نہ ہو! بے غیرتی اور بےشرمی سے نواصب کو بھلا کیا دشمنی! مندرجہ بالا حضرات تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر عہدِ وفا کو پورا کرنے کے لئے اپنے تئیں کسی نہ کسی طرح حسین (ع) کے قدموں تک پہنچا دیا۔ لیکن جو لوگ الشیعہ خاصہ میں سے حسین کی نصرت کے لئے نہ پہنچے یا نہ پہنچ سکے، ان میں سے بھی کسی شخص کا حسین کے مقابلہ میں کربلا میں موجود ہونا پایا نہیں جاتا اور جن لوگوں کا کھلم کھلا امام حسین کے خلاف لڑنا ثابت ہے وہ اھل ِ سنت حضرات کی معتبر کتابوں کے ثقہ راوی ہیں۔ ان اھل سنت ثقہ راویانِ حدیث کے متعلق تفصیل سے ہم آگے تذکرہ کریں گے۔ انشاء اللہ۔ امام ابن جریر طبری کا بیان ہے: جب حسین قتل ہو گئے اور ابن زیاد اپنے لشکرگاہ سے، جو نخلیہ میں قرار دیا گیا تھا، واپس جا کر کوفہ میں داخل ہوا تو شیعوں نے ایک دوسرے سے ملاقات کر کے ایک دوسرے پر ملامت اور اپنی کمزوری پر ندامت کا اظہار شروع کیا اور وہ سمجھے کہ ہم سے بڑا جُرم ہوا کہ ہم نے حسین کو نصرت کے وعدہ پر دعوت دی۔ اور پھر جب وہ آئے تو ہم ان کی نصرت کو نہ گئے اور وہ ہمارے پڑوس میں قتل کر ڈالے گئے اور ہم نے کچھ ان کی مدد نہ کی اور انہوں نے دیکھا کہ یہ عار وننگ ہم سے دور نہیں ہو سکتا،مگر یہ کہ ہم اُن لوگوں کو جو اُن کے قتل میں شریک ہوئے ہیں، انہیں قتل کر یں یا خود اس سلسلہ میں اپنی جانیں نثار کر دیں طبری، جلد 7، صفحہ 27 یہ روایت بھی ناصبی پروپیگنڈہ کے خلاف یہ ثابت کر رہی ہے کہ شیعانِ کوفہ اگرچہ حسین (ع) کی مدد کرنے سے قاصر رہے لیکن کربلا میں امام حسین (ع) کے خلاف نہیں لڑے۔ اس روایت میں دو گروہوں کا ذکر ہے۔ 1. پہلا گروہ اُن شیعوں کا ہے جو نصرت کے لیے نہیں جا سکے۔ 2. اور یہ پہلا گروہ ایک ایسے دوسرے گروہ کو قتل کرنے کی قسم کھا رہا ہے، کہ جو امام حسین (ع) کے قتل میں شریک ہوا۔ پس یہ شیعوں کا پہلا گروہ قتل حسین میں شریک نہیں تھا، بلکہ انکی زیادہ سے زیادہ خطا یہ تھی کہ وہ وقت پڑنے پر امام ع کی امداد کو نہیں پہنچے اور وہ بھی ابن زیاد کی جانب سے اُن سخت اقدامات کی وجہ سے جن کو ہم نے تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ پھر سلیمان بن صرد خزاعی کے مکان پر اجتماع ہوا اور اس موقع پر مسیب بن نجبہ نے جو تقریر کی ہے وہ یہ ہے کہ: ہم اپنی صداقت پر ناز کرتے تھے اور اپنی جماعتِ شیعہ کی مدح و ثنا کیا کرتے تھے۔ لیکن خدا نے ہمارا امتحان لیا۔ اس وقت معلوم ہوا کہ ہمارے دعوے غلط ہیں۔ ہم نے حسین کو دعوت دی، انکے پاس پیغام بھیجے کہ آئیے ہم مدد کریں گے۔ لیکن جب وہ آئے تو ہم نے اپنی جانوں کو چھپا لیا۔ یہاں تک کہ وہ ہمارے پڑوس میں قتل ہو گئے۔ نہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے ان کی نصرت کی اور نہ اپنی زبان سے ان کی حمایت کی۔ اور نہ اموال سے ان کو تقویت پہنچائی اور نہ اپنے قبیلہ کو ان کی نصرت پر آمادہ کیا۔ اب خدا اور رسول (ص) کو کیا جواب دیں گے۔ جب کہ ہمارے ملک میں فرزندِ رسول قتل کر ڈالا گیا۔ بے شک ہمارا کوئی عذر سننے کے قابل نہیں۔ لیکن اب یہ موقع ہے کہ جن لوگوں نے ان کے قتل میں شرکت کی ہے، انہیں قتل کریں یا اسی سلسلہ میں اپنی جانیں نثار کر دیں طبری، جلد 7،صفحہ 48 یہ روایت بھی ناصبی پروپیگنڈہ کو رد کر رہی ہے اور صریحی طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ قاتلانِ حسین یا قتلِ حسین میں شرکت کرنے والی جماعت، جماعتِ شیعہ سے کوئی تعلق نہ رکھتی تھی۔ اس کے بعد جب کہ سلیمان بن صرد اس جماعت کے قائدِ اعظم کی حیثیت سے منتخب ہو گئے تو انہوں نے جو تقریر کی اور جس کو وہ برابر ہر جمعہ میں دہرایا کرتے تھے، اس کا ایک اقتباس یہ ہے کہ: ہم لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کراشتیاق کے ساتھ اھل ِ بیت رسول کی تشریف آوری کے منتظر تھے اور ان کو نصرت کی امیدیں دلاتے تھے اور آنے پر آمادہ کرتے تھے۔ لیکن جب وہ آئے تو ہم نے کمزوری کی اور عاجز رہے اور سستی کو کام میں لائے اور منتظر رہے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے یہاں تک کہ ہمارے ملک میں اور ہمارے قریب ہی فرزندِ رسول (ص) قتل کر ڈالے گئے جبکہ وہ فریاد کر رہے تھے لیکن کوئی انصاف سے کام نہ لیتا تھا۔ فاسقین کی جماعت نے ان کو اپنے نیزوں کا نشانہ اور تیروں کا سرِ مشق بنا لیا یہاں تک کہ انہیں شہید کر ڈالا طبری، جلد 7، صفحہ 49 اس سے بھی صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ کوفہ ہی میں رہ گئے تھے اور قتلِ حسین میں شرکت کرنے والی جماعت فاسقین ان سے جداگانہ ہے اور یہ فاسقین کی جماعت کہ جنہوں نے امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں پر مظالم کی انتہا کردی نواصب ہی کے مذھب کے معتبر کتابوں کے راوی ہیں۔ قتل حسین کے ذمہ دار شیعہ نہیں، بلکہ عامہ کے شیوخ و اشرافِ قبائل تھے پھر وہ موقع کہ جب یزید ہلاک ہوا اور سلیمان بن صرد کے پاس شیعی جماعت کے بہت سے افراد نے آ کر کہا کہ اسوقت حکومت کے ارکان میں تزلزل ہے اور یہی موقع ہے کہ ہم انتقام کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور ان کے قاتلوں کو چن چن کر قتل کریں۔ اس وقت سلیمان نے جو تقریر کی وہ یہ ہے: میں نے اس معاملہ میں غور کیا تو یہ دیکھا کہ قاتلانِ حسین کوفہ کے سربرآور وہ اشخاص اور شیوخ و اشرافِ قبائل ہیں اور انہی کے اوپر حسین کے قتل کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اور جب انہیں تم لوگوں کے ارادے کی خبر ہو گی اور یہ معلوم ہو گا کہ اس کا اثر ان پر پڑے گا تو وہ سختی سے تمہاری مخالفت پر آمادہ ہو جائیں گے۔ اور میں نے اندازہ کیا اُن لوگوں کو جو میرا ساتھ دینے پر آمادہ ہیں، تو معلوم ہوا کہ وہ اتنی تعداد میں ہیں کہ ان کے خروج کرنے سے نہ تو انتقام لیا جا سکتا ہے اور نہ مقصد حاصل اور نہ دشمن کو کئی نقصان پہنچ سکتا ہے، بلکہ یہ لوگ گوسفندوں کی طرح کاٹ کر ڈال دیئے جائیں گے۔ لہذا مناسب یہ ہے کہ تم اپنے دعاۃ و مبلغین اطراف میں روانہ کر کے لوگوں کو اپنی موافقت پر آمادہ کرو۔ طبری، جلد 7، صفحہ 52 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قتلِ حسین کے ذمہ دار اشخاص 'عامہ' کے شیوخ و اشرافِ قبائل تھے، جن کی حقیقت مختصر طور پر ہم نے سابق میں واضح کر دی اور یہ کہ جماعت شیعہ کو ان سے کوئی تعلق نہ تھا، نیز اس شیعی جماعت کی جو کوفہ میں موجود تھی، تعداد بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ وہ کوئی نمایاں حیثیت نہ رکھتی تھی یعنی یہ شیعہ جماعت اتنی قلیل تھی کہ عامہ کے ان شیوخ و اشراف قبائل کے مقابلے میں آتے تو گوسفندوں کے مانند مارے جاتے۔ پھر وہ تقریر جو عبید اللہ بن عبداللہ کی زبان سے تاریخ میں درج ہے، اس میں بھی ہے کہ : فرزندِ رسول (ص) کے لئے دشمن قتل کرنے پر آمادہ ہو گئے اور دوستوں نے ان کی مدد نہ کی۔ پس عذاب کے مستحق ہیں ان کے قتل کرنے والے اور سرزنش کے لائق ہیں ان کو چھوڑ دینے والے، نہ ان کے قاتل کے لئے خدا کے یہاں کوئی حجت ہے اور نہ ان کے بے مددگار چھڑنے والوں کا کوئی عذر قابلِ سماعت ہے۔ مگر یہ کہ وہ اب سچے دل سے توبہ کر کے ان کے قاتلوں سے جہاد کریں اور ظالموں سے جنگ کریں۔ طبری، جلد 7،صفحہ 52 وہ وقت کہ جب یہ لوگ بعزمِ جہاد کوفہ سے کربلائے معلیٰ آئے ہیں، اس موقع پر مثنی بن مخبریہ نے جو تقریر کی تھی، اس میں یہ فقرا قابلِ توجہ ہیں: حسین و انصارِ حسین کو ایک ایسی جماعت نے قتل کیا جن کے ہم دشمن اور جن سے ہم بیزار ہیں اور اب ہم اپنے اھل و عیال کو چھوڑ کر اپنے گھر سے اس لئے نکلے ہیں کہ ان کے قاتلوں کے رگ و ریشہ کو فنا کر دیں طبری، جلد 7،صفحہ 271 ان تاریخی نصوص و شواہد سے آفتاب کی طرح روشن ہو جاتا ہے کہ جماعتِ شیعہ میں سے کوئی شخص بھی قتل ِامام حسین(ع) کے لئے کربلا میں موجود نہ تھا۔ باب نمبر 6 صحابی سلیمان بن صرد (رض) اور توابون پر ناصبی اعتراضات ناصبی حضرات سب سے بڑا الزام جناب سلیمان بن صرد اور دیگر توابون پر لگاتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے بعد میں توبہ کرنی چاہی، لہذا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امام حسین (ع) کا قاتل ابن زیاد و عمر بن سعد وغیرہ نہیں بلکہ یہی سلیمان بن صرد اور دیگر توابون ہیں۔ اپنے الزام کو ثابت کرنے کے لیے ناصبی حضرات صرف اور صرف مجالسِ مومنین سے قاضی نور اللہ شوستری کی یہ تحریر نقل کرتے ہیں: (توابون جمع ہو کر کہنے لگے) اب ہم اپنی بداعمالیوں پر نادم ہیں اور چاہتے ہیں کہ توبہ کریں۔ شاید اللہ تعالیٰ ہم پر رحمت فرما کر ہماری توبہ قبول کر لے اور اس جماعت سے جتنے لوگ کربلا گئے تھے، سب عذر کرنے لگے۔ سلیمان بن صرد نے کہا اس کے سوا چارہ نہیں کہ ہم اپنے آپ کو تیغ بدست میدان میں لائیں جیسے بنی اسرائیل نے ایک دوسرے کو قتل کیا تھا۔ جیسا کہ قران میں ہے "ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ۔۔۔ الخ" یہ کہہ کر تمام شیعہ استغفار کے لیے زانو کے بل گر پڑے۔ بلاشبہ جناب سلیمان بن صرد بذاتِ خود قتل حسین میں ہرگز ہرگز شریک نہیں تھے اور قاضی نور اللہ شوستری صاحب کی تحریر کو ناصبی حضرات گھما پھرا کر یوں پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہو سکیں۔ بلکہ یہ بات سلیمان بن صرد نے اُن خلافتِ شیخین ماننے والے سیاسی شیعوں سے کہی تھی کہ جو کہ ابن زیاد کے مجبور کرنے پر عملا کربلا چلے گئے تھے۔آئیے اب تفصیل سے دیکھتے ہیں کہ اس ناصبی الزام میں کتنی حقیقت ہے۔ پہلا جواب : سلیمان بن صرد (رض) صحابی ِرسول(ص) ہیں ہم جناب سلیمان بن صرد کی خونِ حسین سے بے گناہی تو بعد میں ثابت کریں گے، لیکن ہمیں حق پہنچتا ہے کہ ہم پہلے ناصبی حضرات سے یہ سوال کریں کہ جناب سلیمان بن صرد توابون تو بہت سالوں بعد بنے، مگر اس سے بہت عرصہ قبل ہی وہ صحابیِ رسول بن چکے تھے۔ بلکہ سلیمان بن صرد نہ صرف صحابی ِ رسول (ص) تھے بلکہ یہ اُن معتبر راویانِ حدیث میں سے ہیں جن سے اہل ِ سنت والجماعت کی صحاح ستہ میں احادیث بیان کی گئی ہیں۔ ثبوت کے طور پر ملاحظہ کریں اھل ِسنت کی معتبر کتاب الجامع البیان الرجال صحاح ستہ ، ج 1 ص 172 حیدرآباد دکن۔ اسکے علاوہ اھل سنت کی ایک اور معتبر کتاب ‏‏“‏القد الشامین فی تاریخ الجلد الکامین” جلد 7، صفحہ 207 میں درج ہے: سلیمان بن صرد خزائی کو رسول اللہ (ص) کے صحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا اور ان سے احادیث نقل کیں امام ابو محمد عبداللہ بن اسعد المیمنی المعروف امام یافعی کہتے ہیں: سلیمان رسول اللہ (ص) کے صحابی تھے اور ان سے احادیث روایت کی گئی ہیں مرات الجنان ، ج 1 ص 141 حیدرآباد ایڈیشن ناصبی حضرات کا چہیتا عالم ابن کثیر اپنی کتاب 'البدایہ والنہایہ' میں توابون کے متعلق لکتھا ہے: فاجتمعوا في دار سليمان بن صرد وهو صحابي جليل وہ لوگ جلیل القدر صحابی سلیمان بن صرد کے گھر جمع ھوگئے البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 271 اھل ِ سنت میں علم الرجال کے دو بڑے نام یعنی امام ذھبی اور امام ابن حجر عسقلانی نے بھی حضرت سلیمان بن صرد کو صحابہ ِ کرام میں شمار کیا ھے۔، دیکھئے: 1۔ الکاشف از امام ذھبی، ج 1 ص 461 ترجمہ نمبر 2101 2۔ تقریب التھذیب از امام ابن حجر ، ج 1 ص 378 ترجمہ نمبر 2582 اور اب ھم صحابہ کرام سے متعلق اھل ِسنت اور خاص طور سے نواصب کا مشھور عقیدہ بھی یاد دلائے دیتے ھیں، جیسا کہ اھل ِسنت کے عالم ِدین محمد الخمیس نے اپنی کتاب 'اعتقاد اھل سنہ'صفحہ 135 پر درج کیا ھے: وجوب اتباع الصحابة والتابعين في جميع مسائل الدين تمام دینی مسائل میں صحابہ و تابعین کی پیروی واجب ھے اور سلفی / وھابی و اھل حدیث حضرات کے امام ابن قیم نے بھی اپنی کتاب 'اعلام الموقین' ج 4 ص 123 میں تحریر کیا ھے کہ: الادلة على ان اتباع الصحابة واجب دلائل موجود ھیں کہ صحابہ کی اتباع واجب ھے تو اب ناصبی حضرات سب سے پہلے یہ بتائیں کہ وہ ستاروں کی مانند اس صحابی کو قاتل ِحسین کہنے کی جراًت کیسے کرسکتے ھیں؟ ناصبی برسوں سے شیعہ حضرات کے کانوں میں ایک ہی بات بولتے بولتے درد کرتے آئے بلکہ شیعہ مذھب پر کفر کے فتاوے جاری کرتے آئے ھیں کہ تمام صحابہ کی تعظیم کی جائے کہ وہ سب کے سب راہ ِ راست پر تھے اور چونکہ شیعہ حضرات بعض صحابہ کی تعخیم کے قائل نھیں لہٰذا وہ کافر۔ تو جب بات اھل ِبیت کے حامی صحابہ کرام کے آئی تو اچانک ناصبی حضرات صحابہ کرام سے متعلق اپنا عقیدہ تبدیل کرلیتے ھیں۔ یہ منافقت نھیں تو اور کیا ھے؟ دوسرا جواب : قاضی نور اللہ شوستری کی عبارت تاریخی روایت نہیں ہم نواصب کے اس ثبوت کو تب مانیں جب وہ ثابت کریں کہ قاضی صاحب کا یہ اپنا ذاتی بیان نہیں بلکہ ایک تاریخی روایت ہے۔ مگر ناصبی تاقیامت ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ایک بھی ایسی تاریخی روایت نہیں ملتی جو یہ بتاتی ہو کہ جناب سلیمان بن صرد بذاتِ خود قتلِ حسین میں شامل تھے۔ بلکہ تمام تاریخی شہادتیں اسکے خلاف ہیں اور جناب سلیمان بن صرد کی کربلا میں موجودگی کی نفی کر رہی ہیں۔ جناب سلیمان بن صرد کا اگر قصور تھا، تو صرف یہ کہ وہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں موقع پر امام حسین (ع) کی نصرت کے لیے نہیں پہنچ سکے۔ امام ذہبی (جو کہ ناصبین کے مستند امام ہیں) کہتے ہیں: کوفہ میں الخزائی کے سربراہ سلیمان بن صرد تھے جو کہ رسول کے صحابی تھے۔ ان سے احادیث بیان کی گئی ہیں۔ عبداللہ ابن البر کہتے ہیں کہ یہ سلیمان ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے حضرت حُسین کو خطوط لکھے اور ان کی بیعت کی۔ وہ لوگ حضرت حُسین کی مدد نہ کرسکے جس پر وہ شرمندہ تھے اور آخر کار بعد میں انہوں نے جنگ کی۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ اس نیک مذہبی صحابیِ رسول نے فوج میں شمولیت حضرت حُسین کی مدد نہ کرنے کے گناہ پر اختیار کی ، انہوں نے توبہ کی اور خون ِ حُسین کا بدلہ لینے نکل پڑے ، یہ فوج توابین کی فوج کہلائی السیر اعلام النبلاء ، ج 3 ص 395 الذھبی سلیمان بن صرد اور مسیب بن نجب کے متعلق مزید لکھتے ہیں: "جب وہ جنگ کے لئے نکلے اور عبد اللہ ابن زیاد سے سامنا ہوا تو سلیمان نے ابن زیاد کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا۔ ھزاروں لوگوں پر مشتمل مضبوط فوج کے ساتھ سلیمان نے کہا : "اگر میں قتل ہوجاؤں تو مسیّب تمہارا سربراہ ہے السیر اعلام النبلاء ، ج 3 ص 395 اھل ِسنت اور ناصبیوں کے مستند عالم امام ابن عبد البر، سلیمان بن صرد پر لکھتے ہیں: سلیمان بن صرد ایک نیک ، اچھے اور مذہبی شخص تھے۔ دور ِ جہالت میں ان کا نام لسیر تھا ، رسول اللہ((ص)) نے ان کا نام سلیمان رکھا۔۔۔ یہ اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حُسین بن علی کو لکھا اور کوفہ آنے کی دعوت دی۔ جب حُسین کوفہ پہنچے تو انھوں نے ان کی مدد نہ کی اور حسین قتل کردئے گئے۔ سلیمان بن صرد ، مسب بن نجیب الفرازی اور دیگر لوگوں نے حسین کی مدد نہ کرنے اور ان کے ساتھ قتل ہونے میں ناکامی پر ندامت کا اظہار کیا الاستیعاب از ابن عبد البر ، ج 2 ص 43 ۔ 44 اب ابن عبدالبر کی اس تاریخی روایت سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ لوگ یزید (لعین) کی فوج میں شامل نہ ہوئے لیکن امام حُسین (ع) کو دعوت دینے کے بعد وقت ِ ضرورت ان کی مدد نہ کر پائے جس پر وہ پشیماں تھے۔ ابن کثیر نے مسیّب بن نجبہ کا وہ خط بھی نقل کیا ہے جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اگرچہ توابین حکومتی اقدامات [کرفیو کی سی کیفیت، جسکا ذکر آگے آئے گا] کی وجہ سے امام حسین (ع) کی وقت پر مدد نہ کر سکے، مگر انہوں نے یزید(لعین) کی ایک لمحہ کے لیے بھی حمایت نہیں کی۔ اللہ نے دختر ِ رسول کے بیٹے کی مدد کرنے کے حوالے سے ہمارا امتحان لیا ہے۔ ہم جھوٹے ثابت ہوئے۔ اس نے ہماری مدد پر انحصار کیا لیکن ہم مدد فراہم نہ کر سکے اور اسطرح ہم نے اپنا وعدا پورا نہ کیا۔ لہذا اب ہمیں اُن لوگوں (اہل یزید جو کہ اول تا آخر خلفائے ثلاثہ کی خلافت کو حق ماننے والوں پر مشتمل تھا) کو قتل کردینا چاہئے جنہوں نے حسین اور حسین کے خاندان والوں کو قتل کیا ہے۔ البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص247 اس روایت میں بھی دو گروہوں کا ذکر ہے۔ 1. پہلا وہ جو امام حسین (ع) کی نصرت کو نہ پہنچ سکا۔ 2. اور یہ پہلا گروہ اُس ایسے دوسرے گروہ کو قتل کرنا چاہتا ہے جو حقیقت حال میں حسین (ع) کے قتل کا ذمہ دار ہے۔ چنانچہ ان تاریخی حوالہ جات کے سامنے قاضی نور اللہ شوستری کی اکلوتی عبارت کوئی تاریخی حیثیت نہیں رکھتی۔ اور اس لیئے ناصبی حضرات کا ان کی عبارت سے دلیل پکڑنا بے دلیل ہے۔ ہاں اگر ان میں اپنا الزام ثابت کرنے کی ہمت ہے تو اپنے الزام کے حق میں ایک ہی صحیح روایت پیش کر دیں؟ ہمارے نزدیک قاضی صاحب کی عبارت بالکل محفوظ ہے، اُور انکے تحریر کو دیگر تاریخی حقائق کے روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ جناب سلیمان بن صرد خود کو قاتل ِحسین اور کربلا جانے والا نہیں کہہ رہے تھے، بلکہ اُن کے مخاطب اہل کوفہ عامہ کے وہ لوگ تھے کہ جنہیں ابن زیاد نے کربلا لڑائی کے لیے بھیج دیا تھا۔ چنانچہ اب ناصبی حضرات کہاں چھپے جاتے ہیں۔ میدان انکے فتاویٰ کے لیے کھلا ہے کہ وہ آئیں اور اپنے چہیتے، مذہبی اور دیندار اصحابِ رسول پر قتلِ حسین کے فتوے جاری کریں۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ناصبی حضرات کا یہ گروہ آج تک تو ہمت نہیں کر سکا کہ تاریخی حقائق کا سامنا کر سکے اور نہ ہی مستقبل میں کبھی کر سکے گا۔ لے دے کر پروپیگنڈہ کا جو واحد حربہ انکے ہاتھ میں صدیوں سے ہے، اُسی کو جاری رکھیں گے۔ [پروپیگنڈہ کا مطلب یہاں یہ ہے کہ ان اصحابِ رسول کے توابون ہونے کو چپھانا اور ساری چیخ و پکار اس پر مرتکز رکھنی کہ اجمعین اہل کوفہ عقیدتی و مذہبی شیعہ تھے۔]
  7. sab se pehli bat ye hei k aap ko ham daleel dy b dein tuaap ne man'na nahe hei aap ne quran me para he hoga tarjma AY MUHAMAD SAW HAM NE IN K DILO PAR MOHRY LAGA DI HEIN JIS NE MAN'NA HOWA WO 1 AYAT SUN KAR MAN JAYE GA JIS NE NA MAN'NA HOWA US KO PORA QURAN B SUNA DO WO NAHE MANY GY aur quran ham muslimano k leye hei kafro k leye nahe hei aur tmara b hisam isi tara ka hei kuch dosra ager ham aap ko apki books se sabit karty hei tu aap ko man'na pary ga ager aap hamri books se sabit kar dein k matam karna gunah hei haram hei zanjeer zani haram hei tu ham pory shia matm karna aur zanjeer zani karna choor dy gy baqi matam ka ref deta hon aur zanjeer zani ka b ager aap yeh keh rahay hein kay Matam is haram tou aap goya yeh kehrahay hein kay Rasool Allah nein haraam kaam kiya Bibi Um-e-Salama (Wife of Rasool Allah) - see sunan-e-Ibn-Maja (one of Saha Sitta) tou Rasool Allah nein Bibi sey kaha kay unn ko aaram karna hai koiee bhee aajaiy tou waapis kardein tu jab imam e hussain as aye tu bibi ne roka tu imam hussain andar jany waly thay tu un ka paon pisal gia tu hazoor saw ne bibi se kaha k tum ne mere HUSSAIN as ko q roka hei tu bibi ne farmaya aap ne khud farmaya tha k kisi ko andar na any dein hazoor saw ne farmaya mene tum se ye kaha tha k kisi ko nahe any dena kisi ko mean kisi ko aur hussain mera apna hei hussain muj se hei aur me hussain se hon aur aap jis tim imam hussain ka pao phisla tu aap door kar aye aur othaya aur ghamzada ho gy is se sabit howa k imam hussain as k mamly me saber nahe farmaty thay aap log kehty ho na k saber kar lia karo is ki daleel ho gai hei sunan ibne maja aap ki maya nas book hei baqi is se bari daleel kia hogi ager pher b na mano tu tum musliman he nahe q k nabi saw ki 1 hadees na man'ne wala jahnmi hei kafir hei Hazrat Abbas R.A ki Zoja ka beyan hai k ek din main Rasool (SAWW) ki khidmat main hazir hoi aur Hussain A.S ko Rasool (SAWW) ki god main de diya aur zara si dair k liye kahi aur mutwajo ho gayi,is k bad dekha k Rasool (SAWW) ki ankhon main ansoo jari hain,meray dareyaft karnay pe irshad farmaya Jibrael A.S meray pass aye thay aur mujhe ye khabar di k meri ummat meray is farzand ko qatal kar de ge,main ne poocha is farzand ko to kaha han. mashkat shareef vol 2 page 442 hadees # 5888 rasool saw khud roye shahdat se pehly imam ki socho ager ye hal tha shahdat se pehly tu baad me kia hota matam na karty wo NABI SAW jo apny pyary k 1 girny par ghamzada ho jayen tu kia wo ye tamam waqya bardasht kar paty Sabb sey pehla girya Hazrat Aadam kA Hadhrath Adam was so distressed that he smashed his hands onto his knees and the skin from his hands caused gashes from which bone could be seen. hazrat yaqoob usaf a.s par roye ( beshak un ko maloom tha k usaf thek thak hein lekn pher b roye q k anbya sa k pas ghaib ka ilm hei) suraye maida ayat no 83 phir Hazrat Ibrahim ka phir Hazrat Younus ka Hazrat Yousuf lay liay see sura-e-Ibrahim and Sura-e-Yousuf Girya means - girya-o-zari, rona aur matam karna tou pehli baat yahan yeh pata chal rahi hai kay matam Anbeeyah ki sunnat hai phir Um-e-Salama sey riwayat kay Rasool Allah (sw) nein Imam Hussain per girya kiya jab Hazrat Jibraieel Allah ka paigham laiay kay Imam Hussain 3 din kay bhookay pyasay, be-jurm-o-khata shaheed kiaya jaingay Hazrat Abu Talib aur Hazrat Khateeja ka jis saal wisaal hua, wou pura saal gham raha aur girya hua Hazrat Owais Qarni nein apnay do daant shaheed kiay Uhad kay Waqiey mein mere bhai Tareekh hai tareekh, parho tu pata chalay, aietiraaz pehlay aajata hai matam quran me IBRAHEEM ki BEWA SAARA chillati houye in k samny aaye or apna mou (face) peetny lagi.. Suraah e ZARIYAT AAYAT num 28 26 aur 27 b par lena ok "Rasulullah (s) was in a state where he was hitting his chest." (BoOK al bidaeya wal nehaeya ibn-e-kaseer vol 7 page 188) (BOOK tareekh-e-tibri vol 6 page 302) "When Ayesha was defeated and Ali saw the corpses on the ground he began to beat his thighs" (BOOK Saheeh al Bukharee Volume 2 page 50) (mota imam malik) (BOOK Taufa Ithna Ashari page 523 published in Karachi) "When Umar received news of the death of Numan ibn Muqran he placed his hand on his head and wailed 'O family of Numan!' (BOOK Ahl'ul Sunnah's authority work Aqd al Fareed Volume 2 page 5) hazrat usman ki shahdat JAB HAZRAT USMAN QATAL HOWE TU QATIL KI KHABAR GHAR POHNCHI UN KI BIVI (NAHELA) BETHI THE LOGO NE KAHA AYE BIBI G LOOT E GY AP K SHOHAR HAZRAT USMAN MARAY GY KHALIFA TUL MUSLEMEEN QATIL HO GY BIBI MUHABBAT MEI OTH KAR PAS SE 1 DANDA (MONGLI) OTHA KAR APNAY SIR ME MARA AUR JAGA PAR HE MAR GAI (IMAN JAGAO MUSLIMANO) (BOOK TAJUL AROOS JILD NO 10 PAGE NO 742 MATBOHA MISER RIGHT SID OF THE PAGE LIN NO 6) (ALM'NAL WAL NEHAL PAGE NO 144) al bidaeya wal nehaeya ibn-e-kaseer vol 7 page 188 jang e ohad ka matam Jung-e-Ohad k bad jab Hazrat Hamza k jism madina laya geya aur baqi Shaheedo ka to har koi apnay azeez ko ro raha tha aur Rasool (SAWW) Hazrat Hamza R.A k janazay k pass akelay kharay thay inocent boy left this room. Rasool (SAWW) ne ek sada buland ki asman ki taraf Mou kar k,Ay Allah aj meray hamza ko ronay wala koi bi nahi ye baat Sahaba ne sun lo aur sab ko kaha k chalo pehle Rasool (SAWW) k chacha ka gham kar lain ab ghor se suno janab aurtain Hazrat Hamza R.A k janazay k pass aur mard ghar k bahir kharay ho gaye aur matam shuru kar diya phER Rasool (SAWW) ne kaha k main tum se razi hon (Seerat-u-Nabi (SAWW) Vol 1 page 146) hazrat bilal ka matam NABI SWA KO BUKHAR HOWA TU HAZRAT BILAL HABSHI RA KO PATA LAGA TU WO DEKHNAY K LEYE AP SWA K GHAR ME AYE BILAL RA NE AP KI NAZAK TABYAT DEKH KAR AP K CHEHRA MUBARAK KI TLAWAT KI AUR PHER MONH PAR MATAM KIA BIBI AYSHA PASS KHARI THE INHO NE KAHA YA RASOOL ALLAH SAW YE KIA KAR RAHE HEI IN KO ROKO TU AP SWA NE FARMAYA KHAMOSH YE IZHAR E MUHABBAT KAR RAHA HEI (BOOK ALMANAL WAL NEHAL PAGE NO 198) bibi aysha ka matm again BIBI AYSHA NE FARMAYA JAB HAZOOR SWA DUNYA SE PARDA FARMA GY TAB AP SWA KA SIR MERI JHOLI ME THA 3 DAFA HELAYA NAHE HELE 3 DAFA BOLAYA NAHE BOLAY TAB MUJE YAQEEN HO GYA K NABI SWA DUNYA SE HALAY GY BIBI AYSHA NE FARMAYA MUHABAT E RASOOL SWA MEI AA KAR SIR JHOLI SE HATA KAR MENE SIR PAR B MATAM KIA RAANA PAR B MATAM KIA. (BOOK AL MADAHEB WAN NEHAYAT PAG NO 252 MATBOHA MISER RIGHT SIDE OF THE PAGE LIN NO 16) ab b na mano tu aap par lanat hei aur me us ko musliman he nahe samjta jo in hadeeso ko na many ashaba ka matam namaz k duran 1 ashabi ne chenk mari or tmam ashaba ghore or petna shero kar diya sunan abi daud vol 1 page 244 sunan nisayi vol 3 page 16 ye lo aik aur bara ref pher b na mano tu lanat [ ye aap par lena munazra howa tha kuch} {in me kuch nosri hei ignor him only haqer and hazrat umer par dihan dina baqi ko chor do ignor other people} {] HAZRAT UMER RA: ahqar bhai aap 1 pori hadees likho pher us k neche refrence dy do plzzzzzzzzzzzzzzzzzz [04:03:31] Ahqar: ap ne misum bhai ki baat nahi pehi pehle [04:03:45] HAZRAT UMER RA: pari the yad nahe hei [04:03:50] Ahqar: k [04:03:57] Ahqar: main mic pe bolta hon [04:04:03] Ahqar: ap k pass speakers to hain na [04:04:08] HAZRAT UMER RA: pher muje yad nahe rahe gi [04:04:31] Ahqar: k [04:05:29] Ahqar: Jung-e-Ohad k bad jab Hazrat Hamza k jism madina laya geya aur baqi Shaheedo ka to har koi apnay azeez ko ro raha tha aur Rasool (SAWW) Hazrat Hamza R.A k janazay k pass akelay kharay thay [04:05:55] Ahqar: Rasool (SAWW) ne ek sada buland ki asman ki taraf Mou kar k,Ay Allah aj meray hamza ko ronay wala koi bi nahi [04:06:20] Ahqar: ye baat Sahaba ne sun lo aur sab ko kaha k chalo pehle Rasool (SAWW) k chacha ka gham kar lain [04:06:24] Ahqar: ab ghor se suno janab [04:06:51] Ahqar: aurtain Hazrat Hamza R.A k janazay k pass aur mard ghar k bahir kharay ho gaye aur matam shuru kar diya [04:07:04] Ahqar: phri Rasool (SAWW) ne kaha k main tum se razi hon [04:07:18] Ahqar: Seerat-u-Nabi (SAWW) Vol 1 page 146 [04:07:59] Ahqar: note kar lo [04:08:11] HAZRAT UMER RA: kar li thnx [04:08:15] Ahqar: k [04:09:09] HAZRAT UMER RA: akser hamara sawal ye he hota hei imam e hussain tu boat pehle shaheed ho chuke or un ka gham aaj q mnaya jata hei 1 daa boat hota hei [04:09:31] HAZRAT UMER RA: 1dafa [04:09:58] Ahqar: jis saal Hazrat Khadija S.A aur Hazrat Abu Talib A.S ki rehlat hoi Rasool (SAWW) ne us pooray saal ko gham ka saal qarar diya [04:10:04] Ahqar: is ka jawab hai ap k pass? [04:10:16] Ahqar: Eid har saal kyun a jati hai [04:10:32] Ahqar: Milad har saal kyun a jata hai [04:10:57] Ahqar: inho sawaloo main ap ka jawab hai [04:11:05] HAZRAT UMER RA: g wo us he sal howa tha na mere sawal ko pre na aap [04:11:15] HAZRAT UMER RA: bad mei tu nahe kiya na gham [04:11:28] HAZRAT UMER RA: 1400 so sal ho gy hei gham mnaya ja raha hei [04:11:31] Ahqar: Nabi ne jo kam ek bar bi kiya wo Sunnat hai [04:11:35] Ahqar: kya ye baat nahi mantay ao [04:11:37] Ahqar: ap* [04:12:00] HAZRAT UMER RA: g ye manta ho [04:12:05] Ahqar: is k ilawa agar mana kiya ho phir bi kuc baat ho [04:12:22] Ahqar: lakin Hazrat Hamza R.A ka gham ya zulm itna nahi jitna Imam Hussain A.S ka hai [04:13:27] HAZRAT UMER RA: iamam e HUSSAIN RA ko shahed howe 1400 sal ho gy hei [04:13:37] Ahqar: ji bilkul [04:13:38] HAZRAT UMER RA: lekn aaj gham q mnaya jata hei [04:13:52] Ahqar: ye ehtejaj hai us zulm k khilaf [04:13:55] HAZRAT UMER RA: wo kon sa her sal mnate thay gham [04:14:37] Ahqar: Nabi ne jo kam ek bar kiya agar koi muslim us pe iqtefa nahi karta to hum Nabi se ziada kisi ki daleel nahi de saktay [04:14:41] HAZRAT UMER RA: jinho ne mara tha wo b dafa ho gy jo shaheed ho gy [04:14:42] Ahqar: Nabi ne Hajj ek kiya [04:14:53] Ahqar: aj kal log har saal hajj kartay hain lakin gunnah nahi hota [04:14:54] HAZRAT UMER RA: ab kaisa ehtjaj [04:14:59] Ahqar: Al Hajj ban jatay hain [04:15:15] HAZRAT UMER RA: nabi ne haj 1 kiya hei [04:15:27] Ahqar: aj bi kuch muslim un ko mantay hain jinhoo ne shaheed kiya [04:15:33] HAZRAT UMER RA: nabi ne kitne kiye hei haj [04:15:35] Ahqar: ji 1 kiya hai [04:15:39] Ahqar: 1 [04:16:06] HAZRAT UMER RA: ALI RA NE kitne keye tha [04:16:10] HAZRAT UMER RA: thay [04:16:15] Ahqar: 1 se ziada [04:16:23] HAZRAT UMER RA: kitne [04:16:36] Ahqar: sure nahi hai mujhe is liye main ghalat nahi bata sakta [04:16:36] HAZRAT UMER RA: 1 se ziada he keye thay [04:16:43] Ahqar: 3 ya 5 [04:16:52] HAZRAT UMER RA: 25 keye thay [04:17:07] Ahqar: ye ap ne kis tareekh main parha hai [04:17:24] HAZRAT UMER RA: 15 hazoor k sath i think [04:17:34] Ahqar: shahbash [04:17:37] Ali_110: {HAZRAT UMER RA} khud har mahiine 11ween manao wo kher hay [04:17:39] Ahqar: v gd [04:17:50] Ali_110: hum saal main aik baar muharam kiya kar lain [04:17:53] Ahqar: Nabi ne 15 hajj kar liye [04:17:54] Ahqar: lolz [04:17:56] Ali_110: qiyamat aajati hay:D [04:17:57] Ahqar: aaaaaaaaaaaaaaaahhahahahhha [04:18:07] HAZRAT UMER RA: aap ki book hei muje shia dost ne d the [04:18:12] HAZRAT UMER RA: book copy the [04:18:14] Ahqar: nam batao zara [04:18:21] Ahqar: nabi k hajj main to koi ikhtelaf hi nahi [04:18:35] Ahqar: har muslim janta hai k ek hajj kiya tha [04:18:56] HAZRAT UMER RA: name nahe likha tha lekn wo red color tha us ka name nahe likha tha photo copy ki tara pages thay [04:19:04] Ahqar: copy yani k kisi 10 rupay wali copy pe likha howa tha [04:19:20] HAZRAT UMER RA: pory rigister tha [04:19:21] Ahqar: behar hal ye ap ko ghalat fehmi hoi hai [04:19:25] HAZRAT UMER RA: pora [04:19:34] Ahqar: ye ghalat hai [04:19:38] HAZRAT UMER RA: 14 masoom ki kahani the life story [04:19:39] Ahqar: shia sunni is baat pe mutafiq hain [04:19:43] Ahqar: k Nabi ne 1 hajj kiya hai [04:20:11] Ahqar: wo jab milay ge to bata dain pehle jo topic hai us pe wapis a jao [04:20:16] HAZRAT UMER RA: is ka matlib muje kitab ghalt d gai hei man gya wa [04:20:26] HAZRAT UMER RA: gg [04:20:35] Ahqar: ap ne bataya k kitab kisi ne di aur usay shai bi keh diya [04:20:39] Ahqar: aur hum man jaye [04:20:44] Ahqar: bacha samaj rakha hai [04:20:47] HAZRAT UMER RA: mera dost hei [04:20:57] Ahqar: kan se roti nahi khatay hum jani [04:20:58] HAZRAT UMER RA: qsm se yara [04:21:06] Ahqar: us se book ka nam pooch laina [04:21:09] HAZRAT UMER RA: aap se jhot bolo ga [04:21:13] HAZRAT UMER RA: ok [04:21:17] Ahqar: kyun k aj tak islam ki kisi book main ye nahi likha geya [04:21:46] HAZRAT UMER RA: pher us ne khud likha ho ga [04:21:52] Ahqar: wo jo bi hai [04:21:57] Ahqar: abi topic pe wapis a jao [04:22:10] Ahqar: matam ko ghalat sabit karo Quran ki ayat ya Hadees se [04:22:22] misum moosavi: haan baat ko mukammal karo [04:22:23] misum moosavi: pehle [04:22:49] HAZRAT UMER RA: quran mei hei k zinda par matam haram hei [04:22:57] Ahqar: ji beshak [04:23:12] HAZRAT UMER RA: or shaheed zinda hote hei [04:23:16] Ahqar: beshak [04:23:52] HAZRAT UMER RA: or HUSSAIN RA shaheed howe thay [04:23:57] Ahqar: bilkul [04:24:05] HAZRAT UMER RA: un par matam q [04:24:13] HAZRAT UMER RA: haram howa na pher [04:24:13] Ahqar: un par kon matam karta hai [04:24:26] Ahqar: hum to zulm k khilaf jo un pe howa us pe matam kartay hain [04:24:42] HAZRAT UMER RA: lol [04:24:44] Ahqar: hamain to fakhar hai k hamara Imam Shaheedo ka Sardar hai [04:24:54] HAZRAT UMER RA: beshak [04:24:57] Ahqar: un ki mazlomiyat pe [04:25:16] HAZRAT UMER RA: aaap matam karte ho tu hay hussain hay hussain kehte ho [04:25:29] Ahqar: ji bilkul [04:25:40] HAZRAT UMER RA: ye un par he matam howa na [04:25:53] Ahqar: un ki mazloomiyat pe hai [04:25:57] Ahqar: k un ka kya gunnah tha [04:26:11] Ahqar: kis waja se un pe zulm kiya geya [04:26:14] Ahqar: ummat kaha thi us waqt [04:26:27] Ahqar: Rasool (SAWW) ka ghar akela reh geya tha Deen ko bachanay k liye [04:26:39] HAZRAT UMER RA: acha [04:27:29] HAZRAT UMER RA: lejn ye nachne wala matam kis jaga kia gya hei [04:27:34] HAZRAT UMER RA: dhool k sath [04:27:53] Ahqar: jo iran main hota hai? [04:28:06] HAZRAT UMER RA: wo khushi mnate hei [04:28:14] HAZRAT UMER RA: aap ghami mnate ho [04:28:15] Ahqar: ji nahi [04:28:26] HAZRAT UMER RA: matam karte hei [04:28:31] HAZRAT UMER RA: lol [04:28:39] HAZRAT UMER RA: aap mzakh kar rahe ho [04:28:42] Ahqar: jab karbala main Rasool (SAWW) k ghar ki aurtoo ko qaid kar liya geya aur be parda kar diya geya tab zalimoo ne dhol bajaye [04:28:56] HAZRAT UMER RA: shia room k user dekho [04:29:01] Ahqar: aj wo sama paida kiya jata hai [04:29:04] HAZRAT UMER RA: o shit [04:29:19] inocent boy: kiunnnn? [04:29:44] HAZRAT UMER RA: acha [04:29:51] HAZRAT UMER RA: tu aap yaha q nahe karte [04:30:02] Ahqar: culture ki baat hai [04:30:08] HAZRAT UMER RA: lolz [04:30:10] Ahqar: saudia walay kapray ap yaha kyun nahi pehantay [04:30:18] HAZRAT UMER RA: yar cultuer kaha [04:30:20] HAZRAT UMER RA: ka [04:30:23] Ahqar: ramzan main waisa intezam yaha kyun nahi kartay [04:30:39] HAZRAT UMER RA: jab zulm 1 jesa howa pher cultuer kaisa [04:30:56] Ahqar: islam ek jaisa aya phir kaproo ka farq kaisa? [04:31:13] HAZRAT UMER RA: islam mei kapre kaha hei [04:31:26] Ahqar: culture hai na pakistan ka [04:31:26] HAZRAT UMER RA: mnah hei [04:31:30] Ahqar: saudia ka alag [04:31:32] Ahqar: iran ka alag [04:31:35] Ahqar: misar ka alag [04:31:37] HAZRAT UMER RA: cultur ko choro na [04:31:44] Ahqar: aur gham karnay ka har insaan ka apna tareeka hota hai [04:31:57] HAZRAT UMER RA: islam mei kapre kha mnah hei [04:32:18] Ahqar: mana nahi lakin main wo hi bata raha hon k saudia wala culture yaha kyun nahi [04:32:29] Ahqar: islam ne culture k khilaf kabhi kuch nahi kaha [04:32:30] inocent boy: what islam to itna pak mzhab hai usme kapre nhi ??/ [04:32:39] Ahqar: lolz [04:33:09] HAZRAT UMER RA: u r waqya he incorect [04:33:20] HAZRAT UMER RA: ok [04:33:24] HAZRAT UMER RA: topic [04:33:30] Ahqar: yh [04:33:34] Ali_110: [04:34:58] HAZRAT UMER RA: IMAM E HUSSAIN ra par kis ashab nematam kia ya likha hei kahe hadees mei ya quran mei [04:35:23] Ahqar: ap k liye meyar kya hai [04:35:23] Ali_110: {HAZRAT UMER RA} aaho:) [04:35:28] Ahqar: Rasool ya ashab [04:35:46] HAZRAT UMER RA: RASOOL NE MATAM NAHE KIA [04:35:50] Ali_110: {Ahqar} inka rasool to aam aadmi tha [04:35:58] Ali_110: un se achy to sahaba thy [04:35:59] HAZRAT UMER RA: IMAM E HUSSAIN ra par [04:36:02] Ahqar: Rasool ne to phir azan bi nahi di [04:36:16] Ali_110: jin ki shariyat pakad li hay inhon ne [04:36:17] HAZRAT UMER RA: ali kin se [04:36:27] Ali_110: or Rasool saww ki shariyat chorh di hay [04:36:37] HAZRAT UMER RA: ali aap khamosh raho plz} kuch atech kar raha hon follow him umeed hei is k bad koi sawal nahe hoga ager koi sacha musliman howa tu aik b hadees ki nafarmani nahe kary ga shukrya NOTE :- ISLAM ME KOI ZOOR ZABAR DASTI NAHE HEI AUR HAMARI ITNI HIMAT NAHE K AAP KO SHIA KAR SAKY APNY ZOOR PAR AUR NA HE HM CHAHTY HEI K AAP SHIA HO JAYE HAM SIRF YE CHAHTY HEI K KAM SE KAM AAP MATAM AUR ZANJEER ZANI NAHE KARTY TU HAM SHIA KO B MAT ROKY OK DOSRI BAT JO ME KEHNY WALA HON WO YE HEI K AGER IS ME KOI GHALTI HOI HEI TU MAF KEJYE GA ALFAZ WAGHERA ME SHUKRYA BAQI SAB NE APNI APNI QABER ME JANA HEI AUR MUJE ITNI UMEED HEI K AAP KA AGLA SWAL KOI NAHE HO GA IN HADESO KO PAR KAR YA AAP MATM KARNA MAAN JAO YA PHER APNI IN BOOKS KO PHAR DO SHUKRYA AGER THORI C SHARM KISI ME HOI TU AB WO YE NAHE KAHY GA K MATAM KARNA HARAM HEI JIS ME HALAL KA 1 ZARA B HOWA WO AB YE NAHE KAHAY GA K MATAM KARNA GUNAH HEI AGER MUSLIMAN KA ZARA B HOWA TU YAQEENAN WO YE NAHE KAHE GA K MATAM NAHOZBILLAH KARNA HARAM HEI BIDAT HEI YA KOI AUR BAD WORD USE NAHE KARY GA SHUKRYA GHALTI GUSTAKHI MAF
  8. sab se pehli bat ye hei k aap ko ham daleel dy b dein tuaap ne man'na nahe hei aap ne quran me para he hoga tarjma AY MUHAMAD SAW HAM NE IN K DILO PAR MOHRY LAGA DI HEIN JIS NE MAN'NA HOWA WO 1 AYAT SUN KAR MAN JAYE GA JIS NE NA MAN'NA HOWA US KO PORA QURAN B SUNA DO WO NAHE MANY GY aur quran ham muslimano k leye hei kafro k leye nahe hei aur tmara b hisam isi tara ka hei kuch dosra ager ham aap ko apki books se sabit karty hei tu aap ko man'na pary ga ager aap hamri books se sabit kar dein k matam karna gunah hei haram hei zanjeer zani haram hei tu ham pory shia matm karna aur zanjeer zani karna choor dy gy baqi matam ka ref deta hon aur zanjeer zani ka b ager aap yeh keh rahay hein kay Matam is haram tou aap goya yeh kehrahay hein kay Rasool Allah nein haraam kaam kiya Bibi Um-e-Salama (Wife of Rasool Allah) - see sunan-e-Ibn-Maja (one of Saha Sitta) tou Rasool Allah nein Bibi sey kaha kay unn ko aaram karna hai koiee bhee aajaiy tou waapis kardein tu jab imam e hussain as aye tu bibi ne roka tu imam hussain andar jany waly thay tu un ka paon pisal gia tu hazoor saw ne bibi se kaha k tum ne mere HUSSAIN as ko q roka hei tu bibi ne farmaya aap ne khud farmaya tha k kisi ko andar na any dein hazoor saw ne farmaya mene tum se ye kaha tha k kisi ko nahe any dena kisi ko mean kisi ko aur hussain mera apna hei hussain muj se hei aur me hussain se hon aur aap jis tim imam hussain ka pao phisla tu aap door kar aye aur othaya aur ghamzada ho gy is se sabit howa k imam hussain as k mamly me saber nahe farmaty thay aap log kehty ho na k saber kar lia karo is ki daleel ho gai hei sunan ibne maja aap ki maya nas book hei baqi is se bari daleel kia hogi ager pher b na mano tu tum musliman he nahe q k nabi saw ki 1 hadees na man'ne wala jahnmi hei kafir hei Hazrat Abbas R.A ki Zoja ka beyan hai k ek din main Rasool (SAWW) ki khidmat main hazir hoi aur Hussain A.S ko Rasool (SAWW) ki god main de diya aur zara si dair k liye kahi aur mutwajo ho gayi,is k bad dekha k Rasool (SAWW) ki ankhon main ansoo jari hain,meray dareyaft karnay pe irshad farmaya Jibrael A.S meray pass aye thay aur mujhe ye khabar di k meri ummat meray is farzand ko qatal kar de ge,main ne poocha is farzand ko to kaha han. mashkat shareef vol 2 page 442 hadees # 5888 rasool saw khud roye shahdat se pehly imam ki socho ager ye hal tha shahdat se pehly tu baad me kia hota matam na karty wo NABI SAW jo apny pyary k 1 girny par ghamzada ho jayen tu kia wo ye tamam waqya bardasht kar paty Sabb sey pehla girya Hazrat Aadam kA Hadhrath Adam was so distressed that he smashed his hands onto his knees and the skin from his hands caused gashes from which bone could be seen. hazrat yaqoob usaf a.s par roye ( beshak un ko maloom tha k usaf thek thak hein lekn pher b roye q k anbya sa k pas ghaib ka ilm hei) suraye maida ayat no 83 phir Hazrat Ibrahim ka phir Hazrat Younus ka Hazrat Yousuf lay liay see sura-e-Ibrahim and Sura-e-Yousuf Girya means - girya-o-zari, rona aur matam karna tou pehli baat yahan yeh pata chal rahi hai kay matam Anbeeyah ki sunnat hai phir Um-e-Salama sey riwayat kay Rasool Allah (sw) nein Imam Hussain per girya kiya jab Hazrat Jibraieel Allah ka paigham laiay kay Imam Hussain 3 din kay bhookay pyasay, be-jurm-o-khata shaheed kiaya jaingay Hazrat Abu Talib aur Hazrat Khateeja ka jis saal wisaal hua, wou pura saal gham raha aur girya hua Hazrat Owais Qarni nein apnay do daant shaheed kiay Uhad kay Waqiey mein mere bhai Tareekh hai tareekh, parho tu pata chalay, aietiraaz pehlay aajata hai matam quran me IBRAHEEM ki BEWA SAARA chillati houye in k samny aaye or apna mou (face) peetny lagi.. Suraah e ZARIYAT AAYAT num 28 26 aur 27 b par lena ok "Rasulullah (s) was in a state where he was hitting his chest." (BoOK al bidaeya wal nehaeya ibn-e-kaseer vol 7 page 188) (BOOK tareekh-e-tibri vol 6 page 302) "When Ayesha was defeated and Ali saw the corpses on the ground he began to beat his thighs" (BOOK Saheeh al Bukharee Volume 2 page 50) (mota imam malik) (BOOK Taufa Ithna Ashari page 523 published in Karachi) "When Umar received news of the death of Numan ibn Muqran he placed his hand on his head and wailed 'O family of Numan!' (BOOK Ahl'ul Sunnah's authority work Aqd al Fareed Volume 2 page 5) hazrat usman ki shahdat JAB HAZRAT USMAN QATAL HOWE TU QATIL KI KHABAR GHAR POHNCHI UN KI BIVI (NAHELA) BETHI THE LOGO NE KAHA AYE BIBI G LOOT E GY AP K SHOHAR HAZRAT USMAN MARAY GY KHALIFA TUL MUSLEMEEN QATIL HO GY BIBI MUHABBAT MEI OTH KAR PAS SE 1 DANDA (MONGLI) OTHA KAR APNAY SIR ME MARA AUR JAGA PAR HE MAR GAI (IMAN JAGAO MUSLIMANO) (BOOK TAJUL AROOS JILD NO 10 PAGE NO 742 MATBOHA MISER RIGHT SID OF THE PAGE LIN NO 6) (ALM'NAL WAL NEHAL PAGE NO 144) al bidaeya wal nehaeya ibn-e-kaseer vol 7 page 188 jang e ohad ka matam Jung-e-Ohad k bad jab Hazrat Hamza k jism madina laya geya aur baqi Shaheedo ka to har koi apnay azeez ko ro raha tha aur Rasool (SAWW) Hazrat Hamza R.A k janazay k pass akelay kharay thay inocent boy left this room. Rasool (SAWW) ne ek sada buland ki asman ki taraf Mou kar k,Ay Allah aj meray hamza ko ronay wala koi bi nahi ye baat Sahaba ne sun lo aur sab ko kaha k chalo pehle Rasool (SAWW) k chacha ka gham kar lain ab ghor se suno janab aurtain Hazrat Hamza R.A k janazay k pass aur mard ghar k bahir kharay ho gaye aur matam shuru kar diya phER Rasool (SAWW) ne kaha k main tum se razi hon (Seerat-u-Nabi (SAWW) Vol 1 page 146) hazrat bilal ka matam NABI SWA KO BUKHAR HOWA TU HAZRAT BILAL HABSHI RA KO PATA LAGA TU WO DEKHNAY K LEYE AP SWA K GHAR ME AYE BILAL RA NE AP KI NAZAK TABYAT DEKH KAR AP K CHEHRA MUBARAK KI TLAWAT KI AUR PHER MONH PAR MATAM KIA BIBI AYSHA PASS KHARI THE INHO NE KAHA YA RASOOL ALLAH SAW YE KIA KAR RAHE HEI IN KO ROKO TU AP SWA NE FARMAYA KHAMOSH YE IZHAR E MUHABBAT KAR RAHA HEI (BOOK ALMANAL WAL NEHAL PAGE NO 198) bibi aysha ka matm again BIBI AYSHA NE FARMAYA JAB HAZOOR SWA DUNYA SE PARDA FARMA GY TAB AP SWA KA SIR MERI JHOLI ME THA 3 DAFA HELAYA NAHE HELE 3 DAFA BOLAYA NAHE BOLAY TAB MUJE YAQEEN HO GYA K NABI SWA DUNYA SE HALAY GY BIBI AYSHA NE FARMAYA MUHABAT E RASOOL SWA MEI AA KAR SIR JHOLI SE HATA KAR MENE SIR PAR B MATAM KIA RAANA PAR B MATAM KIA. (BOOK AL MADAHEB WAN NEHAYAT PAG NO 252 MATBOHA MISER RIGHT SIDE OF THE PAGE LIN NO 16) ab b na mano tu aap par lanat hei aur me us ko musliman he nahe samjta jo in hadeeso ko na many ashaba ka matam namaz k duran 1 ashabi ne chenk mari or tmam ashaba ghore or petna shero kar diya sunan abi daud vol 1 page 244 sunan nisayi vol 3 page 16 ye lo aik aur bara ref pher b na mano tu lanat [ ye aap par lena munazra howa tha kuch} {in me kuch nosri hei ignor him only haqer and hazrat umer par dihan dina baqi ko chor do ignor other people} {] HAZRAT UMER RA: ahqar bhai aap 1 pori hadees likho pher us k neche refrence dy do plzzzzzzzzzzzzzzzzzz [04:03:31] Ahqar: ap ne misum bhai ki baat nahi pehi pehle [04:03:45] HAZRAT UMER RA: pari the yad nahe hei [04:03:50] Ahqar: k [04:03:57] Ahqar: main mic pe bolta hon [04:04:03] Ahqar: ap k pass speakers to hain na [04:04:08] HAZRAT UMER RA: pher muje yad nahe rahe gi [04:04:31] Ahqar: k [04:05:29] Ahqar: Jung-e-Ohad k bad jab Hazrat Hamza k jism madina laya geya aur baqi Shaheedo ka to har koi apnay azeez ko ro raha tha aur Rasool (SAWW) Hazrat Hamza R.A k janazay k pass akelay kharay thay [04:05:55] Ahqar: Rasool (SAWW) ne ek sada buland ki asman ki taraf Mou kar k,Ay Allah aj meray hamza ko ronay wala koi bi nahi [04:06:20] Ahqar: ye baat Sahaba ne sun lo aur sab ko kaha k chalo pehle Rasool (SAWW) k chacha ka gham kar lain [04:06:24] Ahqar: ab ghor se suno janab [04:06:51] Ahqar: aurtain Hazrat Hamza R.A k janazay k pass aur mard ghar k bahir kharay ho gaye aur matam shuru kar diya [04:07:04] Ahqar: phri Rasool (SAWW) ne kaha k main tum se razi hon [04:07:18] Ahqar: Seerat-u-Nabi (SAWW) Vol 1 page 146 [04:07:59] Ahqar: note kar lo [04:08:11] HAZRAT UMER RA: kar li thnx [04:08:15] Ahqar: k [04:09:09] HAZRAT UMER RA: akser hamara sawal ye he hota hei imam e hussain tu boat pehle shaheed ho chuke or un ka gham aaj q mnaya jata hei 1 daa boat hota hei [04:09:31] HAZRAT UMER RA: 1dafa [04:09:58] Ahqar: jis saal Hazrat Khadija S.A aur Hazrat Abu Talib A.S ki rehlat hoi Rasool (SAWW) ne us pooray saal ko gham ka saal qarar diya [04:10:04] Ahqar: is ka jawab hai ap k pass? [04:10:16] Ahqar: Eid har saal kyun a jati hai [04:10:32] Ahqar: Milad har saal kyun a jata hai [04:10:57] Ahqar: inho sawaloo main ap ka jawab hai [04:11:05] HAZRAT UMER RA: g wo us he sal howa tha na mere sawal ko pre na aap [04:11:15] HAZRAT UMER RA: bad mei tu nahe kiya na gham [04:11:28] HAZRAT UMER RA: 1400 so sal ho gy hei gham mnaya ja raha hei [04:11:31] Ahqar: Nabi ne jo kam ek bar bi kiya wo Sunnat hai [04:11:35] Ahqar: kya ye baat nahi mantay ao [04:11:37] Ahqar: ap* [04:12:00] HAZRAT UMER RA: g ye manta ho [04:12:05] Ahqar: is k ilawa agar mana kiya ho phir bi kuc baat ho [04:12:22] Ahqar: lakin Hazrat Hamza R.A ka gham ya zulm itna nahi jitna Imam Hussain A.S ka hai [04:13:27] HAZRAT UMER RA: iamam e HUSSAIN RA ko shahed howe 1400 sal ho gy hei [04:13:37] Ahqar: ji bilkul [04:13:38] HAZRAT UMER RA: lekn aaj gham q mnaya jata hei [04:13:52] Ahqar: ye ehtejaj hai us zulm k khilaf [04:13:55] HAZRAT UMER RA: wo kon sa her sal mnate thay gham [04:14:37] Ahqar: Nabi ne jo kam ek bar kiya agar koi muslim us pe iqtefa nahi karta to hum Nabi se ziada kisi ki daleel nahi de saktay [04:14:41] HAZRAT UMER RA: jinho ne mara tha wo b dafa ho gy jo shaheed ho gy [04:14:42] Ahqar: Nabi ne Hajj ek kiya [04:14:53] Ahqar: aj kal log har saal hajj kartay hain lakin gunnah nahi hota [04:14:54] HAZRAT UMER RA: ab kaisa ehtjaj [04:14:59] Ahqar: Al Hajj ban jatay hain [04:15:15] HAZRAT UMER RA: nabi ne haj 1 kiya hei [04:15:27] Ahqar: aj bi kuch muslim un ko mantay hain jinhoo ne shaheed kiya [04:15:33] HAZRAT UMER RA: nabi ne kitne kiye hei haj [04:15:35] Ahqar: ji 1 kiya hai [04:15:39] Ahqar: 1 [04:16:06] HAZRAT UMER RA: ALI RA NE kitne keye tha [04:16:10] HAZRAT UMER RA: thay [04:16:15] Ahqar: 1 se ziada [04:16:23] HAZRAT UMER RA: kitne [04:16:36] Ahqar: sure nahi hai mujhe is liye main ghalat nahi bata sakta [04:16:36] HAZRAT UMER RA: 1 se ziada he keye thay [04:16:43] Ahqar: 3 ya 5 [04:16:52] HAZRAT UMER RA: 25 keye thay [04:17:07] Ahqar: ye ap ne kis tareekh main parha hai [04:17:24] HAZRAT UMER RA: 15 hazoor k sath i think [04:17:34] Ahqar: shahbash [04:17:37] Ali_110: {HAZRAT UMER RA} khud har mahiine 11ween manao wo kher hay [04:17:39] Ahqar: v gd [04:17:50] Ali_110: hum saal main aik baar muharam kiya kar lain [04:17:53] Ahqar: Nabi ne 15 hajj kar liye [04:17:54] Ahqar: lolz [04:17:56] Ali_110: qiyamat aajati hay:D [04:17:57] Ahqar: aaaaaaaaaaaaaaaahhahahahhha [04:18:07] HAZRAT UMER RA: aap ki book hei muje shia dost ne d the [04:18:12] HAZRAT UMER RA: book copy the [04:18:14] Ahqar: nam batao zara [04:18:21] Ahqar: nabi k hajj main to koi ikhtelaf hi nahi [04:18:35] Ahqar: har muslim janta hai k ek hajj kiya tha [04:18:56] HAZRAT UMER RA: name nahe likha tha lekn wo red color tha us ka name nahe likha tha photo copy ki tara pages thay [04:19:04] Ahqar: copy yani k kisi 10 rupay wali copy pe likha howa tha [04:19:20] HAZRAT UMER RA: pory rigister tha [04:19:21] Ahqar: behar hal ye ap ko ghalat fehmi hoi hai [04:19:25] HAZRAT UMER RA: pora [04:19:34] Ahqar: ye ghalat hai [04:19:38] HAZRAT UMER RA: 14 masoom ki kahani the life story [04:19:39] Ahqar: shia sunni is baat pe mutafiq hain [04:19:43] Ahqar: k Nabi ne 1 hajj kiya hai [04:20:11] Ahqar: wo jab milay ge to bata dain pehle jo topic hai us pe wapis a jao [04:20:16] HAZRAT UMER RA: is ka matlib muje kitab ghalt d gai hei man gya wa [04:20:26] HAZRAT UMER RA: gg [04:20:35] Ahqar: ap ne bataya k kitab kisi ne di aur usay shai bi keh diya [04:20:39] Ahqar: aur hum man jaye [04:20:44] Ahqar: bacha samaj rakha hai [04:20:47] HAZRAT UMER RA: mera dost hei [04:20:57] Ahqar: kan se roti nahi khatay hum jani [04:20:58] HAZRAT UMER RA: qsm se yara [04:21:06] Ahqar: us se book ka nam pooch laina [04:21:09] HAZRAT UMER RA: aap se jhot bolo ga [04:21:13] HAZRAT UMER RA: ok [04:21:17] Ahqar: kyun k aj tak islam ki kisi book main ye nahi likha geya [04:21:46] HAZRAT UMER RA: pher us ne khud likha ho ga [04:21:52] Ahqar: wo jo bi hai [04:21:57] Ahqar: abi topic pe wapis a jao [04:22:10] Ahqar: matam ko ghalat sabit karo Quran ki ayat ya Hadees se [04:22:22] misum moosavi: haan baat ko mukammal karo [04:22:23] misum moosavi: pehle [04:22:49] HAZRAT UMER RA: quran mei hei k zinda par matam haram hei [04:22:57] Ahqar: ji beshak [04:23:12] HAZRAT UMER RA: or shaheed zinda hote hei [04:23:16] Ahqar: beshak [04:23:52] HAZRAT UMER RA: or HUSSAIN RA shaheed howe thay [04:23:57] Ahqar: bilkul [04:24:05] HAZRAT UMER RA: un par matam q [04:24:13] HAZRAT UMER RA: haram howa na pher [04:24:13] Ahqar: un par kon matam karta hai [04:24:26] Ahqar: hum to zulm k khilaf jo un pe howa us pe matam kartay hain [04:24:42] HAZRAT UMER RA: lol [04:24:44] Ahqar: hamain to fakhar hai k hamara Imam Shaheedo ka Sardar hai [04:24:54] HAZRAT UMER RA: beshak [04:24:57] Ahqar: un ki mazlomiyat pe [04:25:16] HAZRAT UMER RA: aaap matam karte ho tu hay hussain hay hussain kehte ho [04:25:29] Ahqar: ji bilkul [04:25:40] HAZRAT UMER RA: ye un par he matam howa na [04:25:53] Ahqar: un ki mazloomiyat pe hai [04:25:57] Ahqar: k un ka kya gunnah tha [04:26:11] Ahqar: kis waja se un pe zulm kiya geya [04:26:14] Ahqar: ummat kaha thi us waqt [04:26:27] Ahqar: Rasool (SAWW) ka ghar akela reh geya tha Deen ko bachanay k liye [04:26:39] HAZRAT UMER RA: acha [04:27:29] HAZRAT UMER RA: lejn ye nachne wala matam kis jaga kia gya hei [04:27:34] HAZRAT UMER RA: dhool k sath [04:27:53] Ahqar: jo iran main hota hai? [04:28:06] HAZRAT UMER RA: wo khushi mnate hei [04:28:14] HAZRAT UMER RA: aap ghami mnate ho [04:28:15] Ahqar: ji nahi [04:28:26] HAZRAT UMER RA: matam karte hei [04:28:31] HAZRAT UMER RA: lol [04:28:39] HAZRAT UMER RA: aap mzakh kar rahe ho [04:28:42] Ahqar: jab karbala main Rasool (SAWW) k ghar ki aurtoo ko qaid kar liya geya aur be parda kar diya geya tab zalimoo ne dhol bajaye [04:28:56] HAZRAT UMER RA: shia room k user dekho [04:29:01] Ahqar: aj wo sama paida kiya jata hai [04:29:04] HAZRAT UMER RA: o shit [04:29:19] inocent boy: kiunnnn? [04:29:44] HAZRAT UMER RA: acha [04:29:51] HAZRAT UMER RA: tu aap yaha q nahe karte [04:30:02] Ahqar: culture ki baat hai [04:30:08] HAZRAT UMER RA: lolz [04:30:10] Ahqar: saudia walay kapray ap yaha kyun nahi pehantay [04:30:18] HAZRAT UMER RA: yar cultuer kaha [04:30:20] HAZRAT UMER RA: ka [04:30:23] Ahqar: ramzan main waisa intezam yaha kyun nahi kartay [04:30:39] HAZRAT UMER RA: jab zulm 1 jesa howa pher cultuer kaisa [04:30:56] Ahqar: islam ek jaisa aya phir kaproo ka farq kaisa? [04:31:13] HAZRAT UMER RA: islam mei kapre kaha hei [04:31:26] Ahqar: culture hai na pakistan ka [04:31:26] HAZRAT UMER RA: mnah hei [04:31:30] Ahqar: saudia ka alag [04:31:32] Ahqar: iran ka alag [04:31:35] Ahqar: misar ka alag [04:31:37] HAZRAT UMER RA: cultur ko choro na [04:31:44] Ahqar: aur gham karnay ka har insaan ka apna tareeka hota hai [04:31:57] HAZRAT UMER RA: islam mei kapre kha mnah hei [04:32:18] Ahqar: mana nahi lakin main wo hi bata raha hon k saudia wala culture yaha kyun nahi [04:32:29] Ahqar: islam ne culture k khilaf kabhi kuch nahi kaha [04:32:30] inocent boy: what islam to itna pak mzhab hai usme kapre nhi ??/ [04:32:39] Ahqar: lolz [04:33:09] HAZRAT UMER RA: u r waqya he incorect [04:33:20] HAZRAT UMER RA: ok [04:33:24] HAZRAT UMER RA: topic [04:33:30] Ahqar: yh [04:33:34] Ali_110: [04:34:58] HAZRAT UMER RA: IMAM E HUSSAIN ra par kis ashab nematam kia ya likha hei kahe hadees mei ya quran mei [04:35:23] Ahqar: ap k liye meyar kya hai [04:35:23] Ali_110: {HAZRAT UMER RA} aaho:) [04:35:28] Ahqar: Rasool ya ashab [04:35:46] HAZRAT UMER RA: RASOOL NE MATAM NAHE KIA [04:35:50] Ali_110: {Ahqar} inka rasool to aam aadmi tha [04:35:58] Ali_110: un se achy to sahaba thy [04:35:59] HAZRAT UMER RA: IMAM E HUSSAIN ra par [04:36:02] Ahqar: Rasool ne to phir azan bi nahi di [04:36:16] Ali_110: jin ki shariyat pakad li hay inhon ne [04:36:17] HAZRAT UMER RA: ali kin se [04:36:27] Ali_110: or Rasool saww ki shariyat chorh di hay [04:36:37] HAZRAT UMER RA: ali aap khamosh raho plz} kuch atech kar raha hon follow him umeed hei is k bad koi sawal nahe hoga ager koi sacha musliman howa tu aik b hadees ki nafarmani nahe kary ga shukrya NOTE :- ISLAM ME KOI ZOOR ZABAR DASTI NAHE HEI AUR HAMARI ITNI HIMAT NAHE K AAP KO SHIA KAR SAKY APNY ZOOR PAR AUR NA HE HM CHAHTY HEI K AAP SHIA HO JAYE HAM SIRF YE CHAHTY HEI K KAM SE KAM AAP MATAM AUR ZANJEER ZANI NAHE KARTY TU HAM SHIA KO B MAT ROKY OK DOSRI BAT JO ME KEHNY WALA HON WO YE HEI K AGER IS ME KOI GHALTI HOI HEI TU MAF KEJYE GA ALFAZ WAGHERA ME SHUKRYA BAQI SAB NE APNI APNI QABER ME JANA HEI AUR MUJE ITNI UMEED HEI K AAP KA AGLA SWAL KOI NAHE HO GA IN HADESO KO PAR KAR YA AAP MATM KARNA MAAN JAO YA PHER APNI IN BOOKS KO PHAR DO SHUKRYA
  9. MENE AAP KA KI DI GAI REF KI PEHLI LINE PARI HEI BAQI MUJE PATA HEI JO LIKHA HOGA JAN E MAN AAP LOGO KA KUCH NAHE BAN'NY WALA KHAIR KIA KIA KEH SAKTY HEI DEEN ME ZOOR ZABR DASTI NAHE AFSOOS AAP LOGO KO SACH BTAO TU SHIA SE DUSHMANI JHOT KAHO TU PHER B DUSHMNI AAP LOGO KA ILAJ KHUDA HE KARY AMEEN GHALTI MAF BEHS KARNY KA KOI FAIDA HEI HE NAHE Q K AGER MENE SABIT B KIA TU AAP NE KON SA MAN'NA HEI
  10. JANE MAN TUM LOGO KA KUCH NAHE BAN'NY WALA NIHAYAT HE BATHKY HOWE INSAN HO NIYAHAT GUMRAH INSAN HO MENE AAP LOGO KI BOOK SE SABIT KAR DIYA HEI YAR PHER UMER BAKER USMAN KO BECH ME LATY HEI HAM IN KO SAHBI MANTY HE NAHE HEI PHER AAP LOG Q HAMRY SAMNY ASHABI MANTY HO KHAIR BHAI JIS NE MAN'NA HOTA HEI NA WO 1 AYT PAR K MAN JATA HEI JIS NE NAHE MAN'NA US KO QURAN SUNA DO NAHE MANTA LEHAZA ME JAHILO SE BEHS NAHE KARNA CHAHTA KHUDA HAFIZ GHALTI GUSTAKHI MAAF
  11. MERI SHIA 2 QISAM K THAY ME PEHLY BATA CHUKA HEI 1 SHIA MAVYA THAY AUR AIK SHIA ALI JO ALI AS KO MANTY THAY WO SHIA ALI THAY AUR JO MAVYA KO MANTY THAY WO SHIA E MAVYA JAISE K AAP LOG HAM SHIA Q KEHLATY HEIN SHIA KA MATLIB HEI GROH (GROUP ) OKAY MOLA ALI AS K JO SHIA THAY WO AAJ KI TARAH PEHLY B KAM THAY LEKN BATAL PAR PEHLY B FATAH YAAB THAY AUR AB B HEI AUR SADA RAHY GY THEK HEI SHIA ONLY MOLA ALI AS K SHIO KO HE Q KAHA GIA Q K SHIA K MEHNI GROUP K THAY GROUP ME THORI TADAT HOTI HEI IS LEYE MAVYA K GROUP KO ONLY SHIA E MAVYA KAHA JATA RAHA PHER JO B SHIA KEHLATA WO SHIA E ALI AS HOTA AUR YE JO MOLA HUSSAIN AS NE JIN SHIO K BARY ME FARMAYA WO SHIA E MAVYA HEI BAQI IS K BAD ME KOI JAWAB NAHE DENA CHAHTA LEHAZA JIS NE MANANA HO WO 1 LINE PAR KAR MAN JATA HEI JIS NE NAHE MAN'NA HOTA US NE MAN'NA HE NAHE HEI CHAHY QURAN SUNA DO SHUKRYA AND GHALTI MUAF
  12. mere pass aap jahilo k leye time nahe hei q k muje pata hei ager mene sach bata diya na ap ne man'na hei balky shia k khilaf aap ne aur ziada ho jana hei lehaza leave it sach jo hei wo aap ko pata he hei k mavya dushm e ali hei
  13. JAN E MAN AFSOOS PEHLY TU MENE AAP KI AIK BAT B NAHE PARI THEK HEI Q K MUJE PATA HEI K SAB JAHIL WALY SAWAL HEIN PEHLY TU MUJE KHUSHI HEI K AAP NE IMAM HUSSAIN AS KO IMAM TU MAN LIYA WARNA AAP K MOLVI TU IMAM KA LAFZ NA IMAM HUSSAIN AS K SATH USE KARTY HEIN NA IMAM HUSSAIN AS K SATH DOSRA IMAM HUSSAIN AS NE MUTAH Q KIA YAR WAISE AAP KO YE SAWAL KARTY HOWE SHARM Q NAHE ATI BTAO NA MUJE RONA A RAHA HEI YAR SHARM KARO KIA TUM KO PATA NAHE K SABAR NE B IMAM HUSSAIN SE SABAR KARNA SEKHA HEI AGER IMAM HUSSAIN AS MUTAH KAR LETY TU UN KO KOI SABAR WALA NA KEHTA AUR BAQI TUMARY BNAYE GY ASHABA AUR HAMRY IMAMO ME BOHAT FARQ HEI SHIA IS LEYE MUTAH NAHE KARTY K AAP K ABU BAKER AUR UN KI BETI AUR MAVYA L.A AUR BAQI ASHABA NE KIYA HEI SHIA MUTAH GUNAH SE BACHNY K LEYE KARTY HEI MERI JAN HAR SHEHR ME HER JAGA ZANAH KHANY ONLY HANFIO K HEIN SHIA K NAHE SHARAH NEHJUL BLAGHA ME LIKHA HEI K AGER UMER MUTAH KO HARAM KARAR NA DETA TU ZANAH K DARWAZY NA KHULTY AUR BAQI IMAM HUSSAIN AS K PASS ITNA SABAR ZAROOR THA K WO SAFAR AUR JANG BAGHAIR MUTAH AUR BAGHAIR BIVI K KAR SAKEIN OKAY IS K BAAD AGER AAP JO MARZI KAHO ME KOI JAWAB NAHE DON GA Q K JAHIL SE MERI LAGTI NAHE HEI KHUDA HAFIZ IS THREAD KO BAND KAR DO AUR MASLA HAL ME BAIJ DO SHUKRYA AGER IN HADEESO KO NA MANO TU TUM KAFIR HO AGER MANO TU PHER HAQ SE MANO DO RAGHA KAM NA KARO SHUKRYA MERE BHAI GHALTI GUSTAKHI MAF
  14. MERI JAN PEHLY APNI BOOKS PAR LENA PHER HAM SE BAAT KARNA Q K AAP KI BOHAT ZIADA BOOKS ME LIKHA HEI K TASVEER K SAMNY NAMAZ PARNA BATL HEI LEKN PHER B AAP LOG PARTY HO AUR WAISE B MUJE JAHIL SE BAAT KARNA PASAND NAHE MOLA ALI AS KA FARMAN HEI K SAB SE BARA BEWKOOF WO HEI JO AIK JAHIL SE BEHS KARY AUR AAP BEFAZOOL TOPIC PAR BAT KAR RAHY HO Q K YE SHIA SE DUSHMNI HEI
×
×
  • Create New...